میں نے کبھی محبت کی ہی نہیں
میرے سامنے
محبت اور دستار دونوں رکھی گئیں
میں نے محبت چھوڑ دی دستار چُن لی
تمہیں بھی کبھی موقع ملے تو
یہ جہاد ضرور کرنا
میں نے کبھی محبت کی ہی نہیں
میرے سامنے
محبت اور دستار دونوں رکھی گئیں
میں نے محبت چھوڑ دی دستار چُن لی
تمہیں بھی کبھی موقع ملے تو
یہ جہاد ضرور کرنا
تروینی
ہو سکے تو دوا کے بدلے میں
زندگی کے دراز خانے سے
تھوڑی سانسیں اُٹھا کے دے مجھ کو
راشد خان عاشر
یہ کس طلسم کے مارے چراغ جل رہے تھے
درخت سارے سلامت تھے باغ جل رہے تھے
مِری رسائی بھی اک سببِ نارسائی بنی
کہ تیری سمت چلا تو سراغ جل رہے تھے
کہیں خوشی تھی کہ آخر کو جان چھوٹ گئی
کہیں پہ چھایا تھا ماتم کہ زاغ جل رہے تھے
دو چار دن کے ظلم نہیں ہیں یزید کے
پیتے ہیں لوگ آج بھی پانی خرید کے
بے چارگی، لُٹا ہوا گھر، خاکِ کربلا
یاد آ رہے ہیں کتنے حوالے شہید کے
کرتے ہیں جو حسینؑ کا ماتم گلی گلی
دیکھو یہ کون لوگ ہیں دورِ جدید کے
سانحۂ پشاور
شہدائے مکتب کے نام
کوئی جب پھول گلشن میں بنا پہچان لیتا ہے
نہ جانے کیوں بشر اس پر نگاہیں تان لیتا ہے
وہ جس نے شاخِ نازک پہ مزے لُوٹے صباؤں کے
نہیں ملتی اسے شبنم، نہ وہ گُلدان لیتا ہے
جو اس گلشن کا حصہ ہے، وہی غیروں کے کہنے پر
اپنے ہاتھ ہی سے کر چمن ویران لیتا ہے
دِیا منڈیر پہ دل کی جلا رہی ہوں میں
ہوا مزاج کو واپس بُلا رہی ہوں میں
مجھے کسی کے بھی جانے سے دُکھ نہیں ہوتا
نا جانے کس کے لیے آنسو بہا رہی ہوں میں
یہ تیری مرضی کہ واپس آئے نا آئے تُو
نظامِ دل کو تو دل سے چلا رہی ہوں میں
ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دئیے
رہِ سیاہ پہ پھینکا،۔ مگر دِیے نہ دئیے
بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو
تِرے جمال کی عادت نے دیکھنے نہ دئیے
ہمارے بعد مزارِ وفا کو دیکھو تو
کہیں نہ پھول نہ خوشبو نہ طاقچے نہ دئیے
دل میں حق بات جب اُترتی ہے
تب کہیں عاقبت سنورتی ہے
عزم جن کے جواں نہیں ہوتے
ان کی دُنیا کہاں سنورتی ہے
فقر و فاقہ میں گاؤں کی بیٹی
شہر جانے کی بات کرتی ہے
نیند آنکھوں سے جاتی رہی رات بھر
وہ مِرا دل جلاتی رہی رات بھر
میرے دل کے دریچے پہ وہ بیٹھ کر
یوں مِرا دل دُکھاتی رہی رات بھر
چاند نی بھی دریچے سے آتی رہی
یاد تیری دلاتی رہی رات بھر
جاگیردانہ معاشرہ اور غریب
ہلاکو خانوں کی بستیوں میں غریب پڑھ کے پڑھا کے دیکھے
یہ لعلِ مُفلس ہر ایک جذبے کی کرچیاں بھی اٹھا کے دیکھے
امیرِ شہرِ ستم غریبوں کا اس طرح دست و پا بنا ہے
کہ خاندانی غلامی والی کوئی تو رسمیں مٹا کے دیکھے
یہ چاہتے ہیں سفید ریشم اِنہیں کا ملبوس ہو جہاں میں
غریب لیکن نہ عید کے دن بھی کوئی خوشبو لگا کے دیکھے
لوگ محبت انجانے میں کرتے ہیں
نفرت کا ماحول بنانا پڑتا ہے
فرقت اپنے جوبن پر آ جائے تو
قربت کا ماحول بنانا پڑتا ہے
دولت سے سب کچھ مل سکتا ہے لیکن
عزت کا ماحول بنانا پڑتا ہے
جو چاہے کیجئے کوئی سزا تو ہے ہی نہیں
زمانہ سوچ رہا ہے خدا تو ہے ہی نہیں
دکھا رہے ہو نئی منزلوں کے خواب ہمیں
تمہارے پاس کوئی راستہ تو ہے ہی نہیں
وہ اپنے چہرے کے داغوں پہ کیوں نہ فخر کریں
اب ان کے پاس کوئی آئینہ تو ہے ہی نہیں
خاموشی کی باتیں زندہ رہتی ہیں
بادل میں برساتیں زندہ رہتی ہیں
پیڑ نہ ہوں تو یاد آئیں اُس کی پلکیں
سایوں کی سوغاتیں زندہ رہتی ہیں
رستوں میں بے رستہ ہوجاتے ہیں لوگ
ان قدموں کی گھاتیں زندہ رہتی ہیں
عیسٰی کے وقت جو تھی روایت وہی رہی
ہم پر بھی دوستوں کی عنایت وہی رہی
مہرِ شہی پہ نام کوئی اور آ گیا
فرمان جوں کا توں ہے، ہدایت وہی رہی
اغیار سے تو خیر توقع ستم کی تھی
اپنوں سے بھی ہمیں تو شکایت وہی رہی
دل مبتلائے ہجر رفاقت میں رہ گیا
لگتا ہے کوئی فرق محبت میں رہ گیا
اس گھر کے دو مکین تھے اک پیڑ اور میں
یہ ہجر تو کسی کی شرارت میں رہ گیا
اک بار منع کرتی ہوئی شام سے تو پوچھ
جو بھی جدا ہوا وہ حقیقت میں رہ گیا
سوزِ دل، چشمِ نم اور غم ساتھ ہے
اے شبِ غم! ٹھہر درد کی بات ہے
زخم دیتے رہے وہ جو ہمدرد تھے
دوستوں سے ملی تحفتاً مات ہے
زخم تھے روح پر اور مرہم نہ تھا
مجھ کو تھامے ہوئے خود مِرا ہاتھ ہے
خوف پھاٹک کے دونوں طرف
درمیاں
پٹریوں پہ
ہر اک کیل کانٹے پہ تحریر ہے
حاملہ ریل گاڑی کے بچے دھواں
پھونکنے آ رہے ہیں مضافات سے
تشنہ لبوں کے خالی کوزے اشکوں سے بھر جاتے ہیں
پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے اور پیاسے مر جاتے ہیں
وقت مقام کی پیشانی پر ایسی خراشیں کھینچتا ہے
شہر سے جانے والے شہر میں لوٹیں تو ڈر جاتے ہیں
ان آنکھوں کا اک بوسہ لفظوں کو خوشبو دیتا ہے
ان ہونٹوں کے رنگ بکھر کر منظر منظر جاتے ہیں
بے چہرہ جسم کا نوحہ
اب تم مجھے کن آوازوں
میں ڈھونڈتے پھرتے ہو
کھڑکیاں بدلنے سے بھی
تم مجھے اپنی آنکھوں کی حقیقت نہیں بنا سکتے
آج میری روح میں اترو
جدید طالب علم
یہ بوجھ کئی کتابوں کا پشت پہ اٹھاتے ہیں
یہ صرف اپنے پرچے پہ حاشیے لگاتے ہیں
یہ دوسروں کے پیپر پہ کیمرے لگاتے ہیں
یا پھر سوالنامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
ہم ایسے طالب علموں کی داستاں سناتے ہیں
خود کو سمجھا دیا نہیں روتے
پھر بھی ہوتے نہیں تھے سمجھوتے
رنج و غم درد جھیلنے والے
یہ بتا دیں کسے نہیں ہوتے
داغ دل نے ہمیں یہ بتلایا
داغ مٹتے نہیں، رہو دھوتے
صرف کھنڈر ملے، مکیں نہ ملے
وقت کو ہم سے، ہم نشیں نہ ملے
جسے ملنا کبھی نہیں ہوتا
ایسا کوئی کبھی کہیں نہ ملے
تیرا ملنا جہاں جہاں ممکن
صرف رستہ وہیں وہیں نہ ملے
نگار خانۂ ہستی میں ہے قرار مجھے
تُو آسماں کی بلندی سے اب پکار مجھے
نہیں نہیں میں مکمل ابھی ہوا ہی نہیں
اے کوزہ گر نہ ابھی چاک سے اتار مجھے
خزاں بہار کی آمد کا استعارہ ہے
خزاں کی پیشرو لگتی ہے یہ بہار مجھے
سوئے ہوئے جھنجھوڑ کے ہم لوگ سو گئے
لوگوں کے خواب توڑ کے ہم لوگ سو گئے
ہم کو گماں تھا جاگ کے روئیں گے رات بھر
تیری گلی کو چھوڑ کے ہم لوگ سو گئے
یخ بستہ رات اور یہ غربت کی اوڑھنی
اپنا بدن سکوڑ کے ہم لوگ سو گئے
شام کو ہاتھوں میں لے کر رات میں تبدیل کر
اشک منظر میں بہا، برسات میں تبدیل کر
پوچھ مجھ سے میں نے کتنے دل دُکھا رکھے ہوئے
ہمسفر اب خامشی کو بات میں تبدیل کر
میرے چہرے کو پکڑ کر، چھوٹے بچوں کی طرح
یار! میری ہر نفی اثبات میں تبدیل کر
لہو فشاں ہیں ورق اور دل تپیدہ ہیں
ادیب شہر کے اب بھی قلم بریدہ ہیں
نہ اذن آہ و فغاں ہے کہ نوحۂ ہستی
کسے سنائیں جو الفاظ خوں چکیدہ ہیں
کبھی زبانیں نکل آئیں خارزاروں کی
شجر چمن کے خموشی سے سر خمیدہ ہیں
تِری چاہت کے موسم کی برستی دوسری بارش
نومبر کی شبِ دوئم میں بھیگا ہوں
میں دن بھر جتنی سڑکوں سے گزرتا تھا
وہاں پر زرد پتے تھے
جو مجھ کو سرد کرتے تھے
بتاتے تھے کہ چاہت میں
کیا عجب کہانی ہے
زندگی بِتانی ہے
ذہن میں زمانے ہیں
کیسی بے زمانی ہے
سوچ کا سمندر ہے
خُشکی ہے نہ پانی ہے
ایسی ہستی سے آشنا ہوں میں
اک محبت کا سلسلہ ہوں میں
ایک عالم ہے مجھ میں حیرت کا
چشمِ بینا سے دیکھتا ہوں میں
اک نمی سی میرے وجود میں ہے
شاید اس آنکھ میں رہا ہوں میں
تو کیا ہوا جو مِرے ساتھ آج تُو نہیں ہے
فقط یہی کہ ہے ویرانی ہاؤ ہُو نہیں ہے
تمہارے ساتھ جو اک روز میری بات نہ ہو
تو یوں لگے کہ کسی سے بھی گفتگو نہیں ہے
یہ زخمِ دل کی نمائش نہیں تماشا گرو
دراصل بات یہ ہے پیرہن رفو نہیں ہے
دلِ خوش فہم اعتبار نہ کر
اب کسی کا بھی انتظار نہ کر
اس جہانِ طرب میں ہو کر گُم
دوریاں رب سے اختیار نہ کر
اپنے ایمان کے تحفظ میں
خود کو غفلت سے ہمکنار نہ کر
مایوس نہ ہو خود سے نہ منکر ہو خدا سے
دیتا ہوں شب و روز یہی خود کو دلاسے
منظور نجانے وہ دعا کیوں نہیں ہوتی
نہ دل سے خدا دور ہے نہ دستِ دعا سے
ہے جرم تیری یاد تو تنہائی مقدر
ایسے میرا جینا بھی کوئی کم ہے سزا سے
خاک بسری تو کُجا ہے چاک دامانی نہیں
اب تو یہ دکھ ہے ہمیں کوئی پریشانی نہیں
تختِ بلقیسِ زمانہ صحن میں اترے تو کیوں
اب تو آنکھوں میں بھی خوابوں کی فراوانی نہیں
تشنگی کا ایسا عالم کیا کبھی دیکھا، سنا؟
گھر تو گھر ہے آنکھ میں بھی ان دنوں پانی نہیں
پُر کیف بہاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
ہاں ان کے نظاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
طوفان کا شیوہ تو ہے کشتی کو ڈبونا
خاموش کناروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
اس ڈوبتے سورج سے تو امید ہی کیا تھی
ہنس ہنس کے ستاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
وہ جو بے یارو مددگار کہیں تھا، میں تھا
دُور اک شخص کو یہ پھر بھی یقیں تھا، میں تھا
ایک ہی شخص مصیبت میں مِرے ساتھ رہا
اور وہ شخص کوئی اور نہیں تھا میں تھا
پورے گاؤں میں اگر سب سے الگ تھی، وہ تھی
ان دنوں گاؤں میں جو سب سے حسیں تھا میں تھا
مجھ پہ جب سے تری چشم الفت ہوئی
با خدا زندگی خوبصورت ہوئی
پیار سے آپ کو دیکھنا ہے صنم
روز و شب کی ہماری عبادت ہوئی
درد کی دھول میں دب کے جو رہ گئے ہیں
درد دنیا کی ان سے مسرت ہوئی
طلسمِ یار یہ پہلو نکال لیتا ہے
کہ پتھروں سے بھی خوشبو نکال لیتا ہے
ہے بے لحاظ کچھ ایسا کہ آنکھ لگتے ہی
وہ سر کے نیچے سے بازو نکال لیتا ہے
کوئی گلی تیرے مفرورِ دو جہاں کی طرف
نہیں نکلتی مگر تُو نکال لیتا ہے
اک حسنِ باریاب سے آگے نہیں بڑھے
یعنی ہم ایک خواب سے آگے نہیں بڑھے
اک شہرِ بے مراد میں کاٹی تمام عمر
اک خانۂ خراب سے آگے نہیں بڑھے
تجھ کو پلٹ کے دیکھنے کے دکھ سے بچنا تھا
ہم لوگ اس حساب سے آگے نہیں بڑھے
تمہارے لب
صدی کا سب سے دلآویز فتنہ ہیں
تمہاری سانولی گردن
سوا دو سو برس سے بھی پرانی
شراب کی بوتل کے جیسی بیش قیمت ہے
تمہاری نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھیں
بات کرتی ہوئی آنکھوں سے ملاقات ہوئی
تب کہیں جا کے مِرے شہر میں برسات ہوئی
بحرِ حیرت میں اترتا ہوا دیکھا گیا میں
حسن کی ایک ادا موجِ طلسمات ہوئی
ایک پل میں شکن آلود ہوئے روح و بدن
کیا کہوں تجھ سے کہ کیا صورتِ حالات ہوئی
مہاریں موڑ دے، کس نے کہا ہے
یہ رستہ چھوڑ دے، کس نے کہا ہے
مکیں اس کا صحیح پہچان لے تُو
تُو یہ دل توڑ دے، کس نے کہا ہے
تُو اس کا رُخ صحیح جانب بدل دے
محبت چھوڑ دے، کس نے کہا ہے
نیند کا خوف مِرے خواب کو لے ڈُوبے گا
یہ وہ دریا ہے جو تالاب کو لے ڈوبے گا
وہ حسیں شخص اگر سامنے آ جائے تو
اس کا چہرہ مِرے اعصاب کو لے ڈوبے گا
جسم کے زخم سے گھبرایا تو دل سورج کا
اک چمکتے ہوئے مہتاب کو لے ڈوبے گا
پیکرِ خاکی یہ مانا موت سے دو چار ہے
زندگی! تیرا مگر رستہ بہت دُشوار ہے
جو ہے مُفلس وہ زمانے میں ذلیل و خوار ہے
مال و زر ہو پاس جس کے صاحبِ کردار ہے
رِس رہا ہے خوں بدن سے، بھیگتا ہے پیرہن
زخم ہے میرے جگر کا یا کہ لالہ زار ہے
کہیں سکوت سے مشتق کہیں صدا ہوں میں
کہیں ہوں پانی کے اندر کہیں ہَوا ہوں میں
میں ایسی باتوں کا بالکل بُرا مناتا نہیں
تُو مجھ کو صاف بتا دے کہ بیوفا ہوں میں
چراغ جیسے بڑی وسعتوں کا حامل ہے
میں اپنے آپ میں رہ کر بھی انتہا ہوں میں
غم نہیں، دُکھ نہیں، ملال نہیں
لب پہ جو ایک بھی سوال نہیں
کیوں ملے مجھ کو تیسرا درجہ
کیا مِرے خُوں کا رنگ لال نہیں؟
فکرِ سُود و زیاں سے ہے آزاد
کاروبارِ جنوں وبال نہیں
نسخہ ہے تِرے پاس یہی ردِ بلا کا
کرتا ہے اگر ذکر تو ہر روز خدا کا
مصروفِ تماشا! دلِ بینا کی اذاں سن
لے وقت ہوا چاہتا ہے رب کی ثنا کا
کیوں وقت کو ضائع کیے جانے پہ لگا ہے
تجھ کو ذرا احساس نہیں رب کی رضا کا
کبھی سر سے کبھی دستار سے بُو آتی ہے
لڑنے والے تِرے کردار سے بو آتی ہے
سب مریضوں سے محبت ہے مسیحاؤں کو
ایک تم ہو جسے بیمار سے بو آتی ہے
کسی لڑکی کے تڑپنے کے نشاں واضح ہیں
خوں بہا ہے، یہاں دیوار سے بو آتی ہے
خدائے امن و آشتی
نئی رُتوں میں میری بستیوں پہ بھیج روشنی کے پارچے
جو محوِ اضطراب ہے وہ اب سکوں کا سانس لے
یہ بھوک پیاس ختم کر، اتار سُکھ کے ذائقے
انڈیل خوشگواریاں، اجال رنگ ملگجے
جو سرخ چہرے غم کی لو سے بجھ گئے
یہاں جو مسجد ہے کون سی ہے خدا کی مسجد
بس آج کل تو علامتی ہے خدا کی مسجد
یہ سجدہ گاہیں نہیں ہیں ڈیرے ہیں مسلکوں کے
ہر اک طرف سے گھری ہوئی ہے خدا کی مسجد
یہ کون ہیں جو فروغ دیتے ہیں نفرتوں کو
خدا کی مسجد سے لڑ رہی ہے خدا کی مسجد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نبیﷺ کی یاد سے روشن مِرے دل کا نگینہ ہے
وہ میرے دل میں رہتے ہیں مِرا دل ہی مدینہ ہے
مدینے کی جدائی میں سلگتا میرا سینہ ہے
پڑا ہوں دور طیبہ سے یہ جینا کیسا جینا ہے
نظر افروز ہیں رنگینیاں فردوس کی لیکن
جو تسکین دل و جاں ہے وہ آقاؐ کا مدینہ ہے
میں نے
دنیا کو آنکھوں سے دیکھا نہیں ہے
کتابوں میں پڑھا ہے
لفظوں میں لکھا ہے
سو اگر تم اپنی دنیا مجھے دکھانا چاہتے ہو
تو اسے تصویروں میں مت چھپانا
دنیا تیرے دلاسوں کے ڈر سے
غم ہنسی میں اڑا کے جیتے ہیں
پانی کم ہے بدن میں پہلے ہی
اس لیے مسکرا کے جیتے ہیں
روشنی کیسے ہو نہ آنگن میں
خواب سُوکھے جلا کے جیتے ہیں
یہ اور بات کہ آنکھیں ہماری نم بھی نہیں
مگر ملال زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں
میں اس مقام پہ پہنچا ہوں مر کے ہمسفراں
کسی کا ساتھ میسر نہیں تو غم بھی نہیں
تھکن کا شور مچاتے ہوئے نہیں تھکتے
وہ جن کی راہ میں رخنہ تو دور خم بھی نہیں
کسی کو حال سنانے میں مسئلہ ہو گا
غموں کو اشک بہانے میں مسئلہ ہو گا
تو دل کی بات کو خود دل کی دھڑکنوں سے سمجھ
مجھے وہ بات بتانے میں مسئلہ ہو گا
یہاں سے ہے میری بچپن کی یاد وابستہ
یہ شہر چھوڑ کے جانے میں مسئلہ ہو گا
ہونا چاہوں بھی مِرا دل نہیں ہونے دیتا
مجھ کو اک یاد میں پاگل نہیں ہونے دیتا
میں ہی بیٹھا ہوں مِری راہ میں پتھر لے کر
میں ہی گھر میں مجھے داخل نہیں ہونے دیتا
آئینہ آج بھی کوشش تو بہت کرتا ہے
میں ہی اس کو کسی قابل نہیں ہونے دیتا
اک بار مجھے چاہا، سو بار نظر پھیری
مت ظلم کرو ظلمی! جاں تم نہ لو یوں میری
یہ غنچۂ دل کھل کر، سینے کی بنا زینت
مُرجھائے گا پھر کیسے الفت میں صنم تیری
اس شوق تمنا کو، تب چین ملے کیوں کر
جب آنے میں ہوتی ہے، تھوڑی سی تجھے دیری
روبرو تیرے بہت دیر بٹھایا گیا میں
وجد میں آیا نہیں وجد میں لایا گیا میں
سلسلہ ختم نہ ہو گا یہ دل آزاری کا
اس سے پہلے بھی کئی بار منایا گیا میں
یوں لگا سب نے گواہی دی کہ تو میرا ہے
جب تِرے نام سے بستی میں ستایا گیا میں
یہ قدم قدم اسیری،۔ یہ حسین قید خانا
کوئی طوق ہے نہ بیڑی، کوئی دام ہے نہ دانا
کوئی ہو سمجھنے والا، تو بہت نہیں فسانہ
کبھی مسکرا کے رونا، کبھی رو کے مسکرانا
یہ عبادتیں مرصع،۔ یہ سجود مجرمانہ
مجھے ڈر ہے بن نہ جائے، مِرے کفر کا بہانا
ایسے حیراں ہیں کہ حیرت کی کوئی حد ہی نہیں
عکس ٹوٹا ہے مگر آئینے پہ زد ہی نہیں
ہم تِرے ظرف کی قامت سے بہت چھوٹے ہیں
تیرے رتبے کے برابر تو یہاں قد ہی نہیں
اب یہی آخری حل ہے کہ مدینے پہنچوں
اک وہی در ہے کہ جس در پہ کوئی رد ہی نہیں
خود کشی کر رہے ہو؟
کرو
نوٹ بھی لکھ کے جاؤ گئے؟
وہ بھی لکھو
ہاں مگر اک بڑا مسئلہ ہے
کہ جلدی میں لکھے ہوئے نوٹ میں
معاف کرنا بھلائے نہیں گئے مجھ سے
تھپک کے خواب سلائے نہیں گئے مجھ سے
وہ روشنی تھی سمندر مزاج آنکھوں کی
چراغ رات جلائے نہیں گئے مجھ سے
عجیب ڈھنگ سے اجڑے ہیں جسم و جان مِرے
کہ چاہ کر بھی بسائے نہیں گئے مجھ سے
جگہوں کے تقاضے ہوتے ہیں
ہم رو نہیں سکتے
کسی ریسیپشن کی سیٹ پہ بیٹھ کر
یا آہیں نہیں بھر سکتے
کسی لائبریری کی خاموش فضا میں
نہ کرب بیان کر سکتے ہیں
ایک نشانی آگ میں پھینکی ایک نشانی دریا میں
اور پھر اتنے اشک بہائے جتنا پانی دریا میں
ایک محبت کچے گھڑے پر تیرتی تیرتی ڈوب گئی
موجیں لکھتی رہتی ہیں وہ روز کہانی دریا میں
تھک جاؤ تو رستہ بدلو اپنی اپنی ناؤ کا
کیا دریا سے لڑنا اور کیا آگ لگانی دریا میں
ہمیں لگا تھا کہ وہ سہارا نہیں بنے گا
بنے گا لیکن، کبھی ہمارا نہیں بنے گا
کہو احتیاط کرنے میں عافیت ہے
بھرم جو ٹوٹا تو پھر دوبارا نہیں بنے گا
کہا تھا کوزہ گروں سے مٹی مزید لے لو
خمیر کم ہے سو جسم سارا نہیں بنے گا
میرا آئینہ مِری شکل دکھاتا ہے مجھے
یہ وہ اپنا ہے جو بیگانہ بتاتا ہے مجھے
میرے احساس دوئی کو یہ ہوا دیتا ہے
میری ہستی کا یہ احساس کراتا ہے مجھے
کرب احساس کراتا ہے خودی کے درشن
زعم ہستی کے جھروکے میں سجاتا ہے مجھے
ٹائم ٹریول
دھویں کا سمندر
زمینیں نگلتا ہوا
نرم، ہلکے دھویں کا سمنرر
یہ بل کھاتے مرغولے، لہریں، بھنور
اور دم توڑتے، زرد تاروں سے
ہر کوئی اجنبی سا لگتا ہے
جب کوئی زندگی سا لگتا ہے
میرے بن کیا تجھے بھی اے جاناں
لمحہ لمحہ صدی سا لگتا ہے
اس نہج پر ہے میری تنہائی
شور بھی خامشی سا لگتا ہے
صلح کے بعد محبت نہیں کر سکتا میں
مختصر یہ کہ وضاحت نہیں کر سکتا میں
دل تِرے ہجر میں سرشار ہوا پھرتا ہے
اب کسی دشت میں وحشت نہیں کر سکتا میں
میرے چہرے پہ ہیں آنکھیں مِرے سینے میں ہے دل
اس لیے تیری حفاظت نہیں کر سکتا میں
بچھڑ رہا ہے یہ دل زندگی کے دھارے سے
مگر یہ بات کہے کون اتنے پیارے سے
نکل رہا ہوں بہت دور اس زمین سے میں
کلام کرتا ہوا صبح کے ستارے سے
وہ گر رہا ہے کسی آبشار کی صورت
میں تک رہا ہوں اسے آخری کنارے سے
دوست بہت رہے مگر یار نہیں بنا کوئی
یعنی، میں چل پڑا تو دیوار نہیں بنا کوئی
اک تو یہ دکھ کہ کوئی حقدار ہی بن گیا تِرا
اس پہ ستم یہ ہے کہ حقدار نہیں بنا کوئی
پھول بکا رہے ہیں ترشول بکانے والے بھی
جب سے وہ شہر آیا، ہتھیار نہیں بنا کوئی
ہم چلے تھے کہ ان کی ڈگر جائیں گے
کس نے جانا تھا جاں سے گزر جائیں گے
پھیلی خوشبو ہوا میں یہی سوچتی
پھیلنے سے مقدر سنور جائیں گے
کس کو معلوم تھا نیند کے شوق میں
خواب آنکھوں میں آ کر بکھر جائیں گے
سمندر
آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے نہ دیکھو مجھ کو
تیرہ و تار سمندر جس میں
قرب کے دشت، جدائی کے جبل
وہ جو ساحل پہ کبھی میں نے جلایا تھا چراغ
دور، نادیدہ کناروں کی طرف آپ سے آپ
دعائیں، منتیں، روشن دِیا قبول کرے
وہ آئے اور مِرے اشکِ وفا قبول کرے
عریضے پھینک دو دریا میں اور نیکی بھی
خبر نہیں ہے وہ کس وقت کیا قبول کرے
بُرا لگے گا ہمیں گر ہمارے ہاتھ سے پھول
تِرے علاوہ کوئی دوسرا قبول کرے
کبھی اندر کبھی باہر سے بدل ڈالتا ہے
میرا ہونا مِرے ہونے میں خلل ڈالتا ہے
میں تو آئینہ ہوں آئینہ مِرے یار تِرا
کیوں مجھے دیکھ کے تو ماتھے پہ بل ڈالتا ہے
آریاں چلنے لگیں اب تو ہرے پیڑ پہ بھی
کون اب سوکھے ہوئے پودوں کو جل ڈالتا ہے
آگہی کی، عقل کی، ترسیل ہوتی ہے یہاں
مصطفیٰؐ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یہاں
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
فطرتِ اِنسانیت تشکیل ہوتی ہے یہاں
رغبتِ آدابِ اسماعیلؑ ہوتی ہے یہاں
لفظ رُوٹھے ہیں تو سِیٹی ہی بجا لیں مِل کے
ایک آواز میں سب شور نکالیں دل کے
اک پگھلتے ہوئے گلشن میں کوئی کیا سوچے
پھر بھی سوچا ہے کوئی رنگ جما لیں کھِل کے
اس سے پہلے کہ بکھر نے لگیں ریشہ ریشہ
دھجیوں سے کوئی پوشاک بنا لیں سِل کے
یہ شام پھر آج یوں ہے جیسے
ہزاروں سورج
مِرا تِرا درد لے کر
سب ایک ساتھ ڈوبے ہوں سارے سورج
جو میرے آنگن میں ہر سحر ترا نام لیتے
پھر آج کی شام
امید پر ہماری یہ دنیا کھری نہیں
پھر بھی تو اس کو پانے کی خواہش مری نہیں
بے وجہ گل رخوں سے مِری بے رخی کہاں
میرے جنون شوق کے قابل پری نہیں
تسکیں ملے بھی دیدۂ حیراں کو کس طرح
شیشہ گری نہیں، کہیں جلوہ گری نہیں
روح میں لے کے زمانوں کی تھکن آئے تھے ہم
رات یوں تھا کہ سرِ شہرِ بدن آئے تھے ہم
خوش لباسی تھی جہاں شرط اسی محفل میں
لوگ کہتے ہیں، تِرا ہجر پہن آئے تھے ہم
یاد تو ہو گا کِھلی دُھوپ کے مانند اک روز
روزنِ جاں سے تِری رُوح میں چھن آئے تھے ہم
اتارتا ہوں، گھر آ کر، میں جب سفر کی تھکن
تو بام و در سے اترتی ہے مجھ پہ گھر کی تھکن
ہمیں، ہماری تھکن دیجیۓ، خدا کے لیے
تھکے ہوئے ہیں اٹھا کر، اِدھر اُدھر کی تھکن
یہ غیر ارادی مشقّت معاف کی جائے
یہ سانس کھینچتے رہنا، یہ عمر بھر کی تھکن
کشاد ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے
یہ زندگی ہے یہاں ہوش کی ضرورت ہے
سنائی دے گی یقیناً ضمیر کی آواز
مخاطبین سبک گوش کی ضرورت ہے
اب احتیاج نہیں سرو قامتوں کی مجھے
مجھے تو اب کسی ہمدوش کی ضرورت ہے
وصل کی راتیں بھیجو ناں
اب برساتیں بھیجو ناں
ہجر کی تلخی زہر بنی ہے
میٹھی باتیں بھیجو ناں
آم کھجور انگور خوبانی
یہ سوغاتیں بھیجو ناں
کس کی چشمِ مست یاد آتی رہی
نیند آنکھوں سے مِری جاتی رہی
دل تو شوقِ دید میں تڑپا کیا
آنکھ ہی کم بخت شرماتی رہی
زندگی سے ہم رہے نا آشنا
سانس گو آتی رہی جاتی رہی
ساقی کی نگاہوں کا پیغام نہیں آتا
جس جام کا طالب ہوں وہ جام نہیں آتا
میخواروں کی لغزش پر دنیا کی نگاہیں ہیں
نافہمیٔ واعظ پر الزام نہیں آتا
اللہ رے مجبوری، اللہ رے محرومی
یا بارش صہبا تھی، یا جام نہیں آتا
حسن تجھ کو اگر با صفا چاہیۓ
خوبصورت کوئی آئینہ چاہیۓ
مجھ سے کیوں پوچھتا ہے کہ کیا چاہیۓ
میں نے کی ہے وفا تو وفا چاہیۓ
دل کی جانب نظر کر رہی ہے طواف
کعبے دل کو میرے خدا چاہیے
کسی تلاش سے تھک کر ہی سکوں ہوتا ہے
ہمارے ساتھ ہر جنم میں یہ کیوں ہوتا ہے؟
ہم اس کے سر سے ہر اک شعر وارتے جائیں
بِکیں الفاظ تو جذبات کا خوں ہوتا ہے
میرے بارے ہی اگر پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ
قصہ خوانوں میں کہاں سوزِ دروں ہوتا ہے
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اس شہرِ تمنا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اس کو جو بھی پوروں سے
بیج
اے میرے ہم نفس
ہے دمِ آخریں
شام ڈھلنے کو ہے
دم نکلنے کو ہے
دل میں ہے اک چبھن
خدا بھی جانتا ہے خوب جو مکار بیٹھے ہیں
حرم میں سرنگوں کچھ قابل فی النار بیٹھے ہیں
گھروں میں ساتھ بیٹھے ہیں سر بازار بیٹھے ہیں
نقاب اپنوں کا اوڑھے آج کل اغیار بیٹھے ہیں
محبت کی نظر میں جیت لی ہے ہم نے وہ بازی
زمانے کی نظر میں ہم کہ جس کو ہار بیٹھے ہیں
نغمۂ حقیقت
کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا
منٹو کی سالگرہ پر جنت سے منٹو کا خط
(1)
میں خیریت سے ہوں لیکن کہو کیسے ہو تم راجہ
بہت دن کیوں رہے تم فلم کی دنیا میں گم راجہ
یہ دنیائے ادب سے کیوں کیا تم نے کنارا تھا
ارے اے بے ادب کیا شعر سے زر تم کو پیارا تھا
جو نظمیں تم نے لکھی تھیں کبھی جنت کے بارے میں
چھپی تھیں وہ یہاں بھی خلد کے پہلے شمارے میں
ذرا مشکل سے سمجھیں گے ہمارے ترجماں ہم کو
ابھی دُہرا رہی ہے خود ہماری داستاں ہم کو
کسی کو کیا خبر پتھر کے پیروں پر کھڑے ہیں ہم
صداؤں پر صدائیں دے رہے ہیں کارواں ہم کو
ہم ایسے سُورما ہیں لڑ کے جب حالات سے پلٹے
تو بڑھ کے زندگی نے پیش کیں بیساکھیاں ہم کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب بھی اصغرؑ کو بے چین پانے لگے
زلزلے آ کے جُھولا جھلانے لگے
جسمِ عباسؑ سے خوں کے قطرے گرے
یا چراغِ وفا جگمگانے لگے
نوجواں لال کے ماں قریب آ گئی
زخم اکبرؑ کا سرورؑ چھپانے لگے
آ کے تُربت پہ بہت روئے، کِیا یاد مجھے
خاک اڑانے لگے جب کر چکے برباد مجھے
گھر کو چھوڑے ہوئے مدت ہوئی صیاد مجھے
کس چمن میں ہے نشیمن یہ نہیں یاد مجھے
دل لگاتے ہی گِرا آنکھ سے آنسو کی طرح
یہ نہ معلوم تھی اس عشق کی افتاد مجھے
کون صیاد اِدھر بہرِ شکار آتا ہے
طائرِ دل قفسِ تن میں جو گھبراتا ہے
زلفِ مشکیں کا جو اس شوخ کے دھیان آتا ہے
زخم سے سینۂ مجروح کا چر جاتا ہے
ہجر میں موت بھی آئی نہ مجھے سچ ہے مثل
وقت پر کون کسی کے کوئی کام آتا ہے
اگر غم تیرا غم ہے تو کوئی غم سے رہا کیوں ہو
جسے حاصل ہو تیرا قرب وہ تجھ سے جدا کیوں ہو
یہ ہستی و عدم کیوں ہو فنا کیوں ہو بقا کیوں ہو
تمہیں تم ہو تو پھر دل میں خیال ماسوا کیوں ہو
وفا میں ہے وفائی ہے وفائی میں وفا کیسی
وفا ہو تو جفا کیوں ہو جفا ہو تو وفا کیوں ہو
تفصیل کا نہیں وہ، خلاصوں میں بانٹ دے
اس خواب کو تمام حواسوں میں بانٹ دے
پنگھٹ پہ کیا سماں ہے بتایا نہ جائے گا
گاگر میں جتنا صبر ہے پیاسوں میں بانٹ دے
سب کو سمجھ نہ اپنی چکاچوند کا حجاب
کچھ کترنیں دریدہ لباسوں میں بانٹ دے
تجھ کو جانا ہے کدھر اور کدھر جاتا ہے
تُو وہ راہی جو پسِ گردِ سفر جاتا ہے
اسپِ تازی کی طرح دھول اڑاتا ہوا دل
شب کو تاریک سمندر میں اتر جاتا ہے
وہ دہکتی ہوئی چھاتی، وہ دھمک سانسوں کی
ایک بوسے سے بدن آگ سے بھر جاتا ہے
زندگی پائی ہے اک چشم ستمگر کی طرح
ہم پریشاں ہیں غریبوں کے مقدر کی طرح
اپنا تن کرب و بلا بن کے جلا ہے برسوں
ہم بھی پیاسے ہیں بہت آل پیمبرؐ کی طرح
اب کوئی رام نہیں غم کا دھنش جو توڑے
زندگی روتی ہے سیتا کے سوئمبر کی طرح
یہ بات کیا ہے کہ دل کو ذرا لگاتے ہیں
لگانا ہو تو پھر اچھی طرح لگاتے ہیں
دبا کے رکھا ہے گہری گھٹن میں تو نے اسے
ادھر تو آ، تِرے دل کو ہوا لگاتے ہیں
وہ بات کرتے تھے میری وفا پرستی کی
مجھے لگا کہ وہ الزام سا لگاتے ہیں
سب تِری بزم سے سوغات اٹھا کر لائے
ہم اٹھے اور تجھے ساتھ اٹھا کر لائے
خیمۂ صبح میں بیٹھے تِری زلفوں کے اسیر
دن کی موجودگی میں رات اٹھا کر لے آئے
اب مجھے یاد نہیں تیری گلی کی جانب
خود چلا آیا کہ حالات اٹھا کر لے آئے
ایک منظر میں کئی بار اسے دیکھ کے دیکھ
دیکھنا ہے تو لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ
کوئی سورج سے ملا پاتا ہے کب تک آنکھیں
پھر بھی اک بار لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ
یہ کھلی آنکھ کا منظر ہی نہیں ہے مِری جاں
بند آنکھوں سے بھی اک بار اسے دیکھ کے دیکھ
محبت ہے اذیت ہے ہجوم یاس و حسرت ہے
جوانی اور اتنی دکھ بھری کیسی قیامت ہے
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نجانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے
لب دریا مجھے لہروں سے یوں ہی چہل کرنے دو
کہ اب دل کو اسی اک شغل بے معنی میں راحت ہے
وہ بے وفا ہی سہی اس کو بے وفا نہ کہو
ادب کی حد میں رہو حسن کو برا نہ کہو
شراب عشق کی عظمت سے جو کرے انکار
وہ پارسا بھی اگر ہو تو پارسا نہ کہو
پڑا ہے کام اسی خود پرست کافر سے
جسے یہ ضد ہے کسی اور کو خدا نہ کہو
سر جھکا لیتا تھا پہلے جس کو اکثر دیکھ کر
آج پاگل ہو گیا اس کو برابر دیکھ کر
خواہشوں میں بہہ گیا کمزور مٹی کا حصار
جسم قطرے میں سمٹ آیا سمندر دیکھ کر
سوچتا ہوں رات کے اندھے سفر کے موڑ پر
چاند گھبرایا تو ہو گا خالی بستر دیکھ کر
غبارِ احساسِ پیش و پس کی اگر یہ باریک تہہ ہٹائیں
تو ایک پل میں نہ جانے کتنے زمانوں کے عکس تھر تھرائیں
خزاں اگر اپنا خوں نہ بخشے تو فصلِ گل کیسے سرخرو ہو
سکوت اپنا جگر نہ چیرے تو کیسے جھنکار دیں صدائیں
بکھر چلے ہیں بکھر چکے ہیں گلِ عبارت کے برگ ریزے
کتابِ جاں کی شہادتوں کا ورق ورق لے گئیں ہوائیں
چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی
کس خوش سلیقگی سے جگر چاک کر گئی
رکھی تھی جو سنبھال کے تُو نے سلامتی
وہ تیرے بعد کس کو پتا، کس کے گھر گئی
جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک
اک لمحۂ خفیف میں یکسر بکھر گئی
ان اندھیروں سے پرے اس شبِ غم سے آگے
اک نئی صبح بھی ہے شامِ الم سے آگے
دشت میں کس سے کریں آبلہ پائی کا گلا
رہنما کوئی نہیں نقشِ قدم سے آگے
ساز میں کھوئے رہے سوز نہ سمجھا کوئی
درد کی ٹیس تھی پازیب کی چھم سے آگے
راہیں ویران تو اجڑے ہوئے کچھ گھر ہوں گے
دشت سے بڑھ کے مِرے شہر کے منظر ہوں گے
یوں ہی تعمیر اگر ہوتے رہے شیش محل
ایک دن شہر کی ہر راہ میں پتھر ہوں گے
دشت میں ہم نے یہ مانا کہ ملیں گے وحشی
شہر والوں سے تو ہر حال میں بہتر ہوں گے
ستم کے مارے لہو میں ڈوبے ہوئے نظاروں کا کیا کروں گا
سسکتے غنچو! تمہیں بتاؤ میں ان بہاروں کا کیا کروں گا
جنہیں بھروسہ ہو آسماں پر وہ آسماں سے پناہ مانگیں
میں اپنے ذروں سے مطمئن ہوں میں چاند تاروں کا کیا کروں گا
اگر مجھے دے سکے زمانہ تو کچھ نئے زخم اور دے دے
میں غمگساروں کو جانتا ہوں میں غمگساروں کا کیا کروں گا
وہ اور ہوں گے کہ جو دشمنوں میں مارے گئے
کہ ہم تو اپنے خدا کے گھروں میں مارے گئے
جو تجھ سے مانگنے آئے تھے خیریت، یارب
تِرے وہ بندے تِری مسجدوں میں مارے گئے
یہ کوئی جنگ نہیں تھی، نماز تھی مولا
دعا بہ لب تھے جو پہلی صفوں میں مارے گئے
میرے جوان سرحدوں پہ شباب وار گئے
میرے بزرگ کھیت کی مٹی میں مل گئے
کسمپرسی چھپانے کے ہر جتن کے باوجود
چاند نکلا تو میرے سارے زخم کھل گئے
مٹی سے میری وفا کو نوکری نہ بولیے
چند نوالے میری حیات سے مہنگے نہیں ہیں
کسی کے بخت میں چاہت کے سلسلے آئے
ہمارے حصے میں ہر بار حادثے آئے
تِری نگاہ کے ٹھکرائے بخت گروی ہوئے
دیارِ ذات میں واپس نہ لوٹ کے آئے
بھرا ہوا ہے یہ دامن ہزار داغوں سے
بتائیں، کون سا داغ آپ دیکھنے آئے
ہنسی کی اوٹ میں یوں درد کو چھپاتے رہے
بچھڑتے وقت بھی ہم قہقہے لگاتے رہے
تمہارے بعد بھی ہم نے تمہیں نہیں چھوڑا
تمہارا ہجر کئی سال تک نبھاتے رہے
کسی طرح بھی نہیں رک سکے کہیں ہم لوگ
نئے خیال، نئے راستے بناتے رہے
بکے گی اس کی ہی دستار طے ہے
کہ جس کی قیمت کردار طے ہے
ہوا تھا حادثہ کچھ اور، لیکن
لکھے گا اور کچھ اخبار طے ہے
بڑے آنگن پہ اتراؤ نہ اتنا
اٹھے گی اس میں بھی دیوار طے ہے
جسم کی ترسیل
تمہارے بدلنے سے پہلے میری حالت نہیں بدلی جا سکتی
خود کو سمجھانے کی ہر کوشش
تمہارے ہونے سے ناکام ٹھہری ہے
جب یہ طے ہے کہ تم نے چلے جانا ہے
اور میں نے بھی جانے دینا ہے
مختلف رنگوں سے دنیا ہم کو سمجھاتی رہی
اپنی فطرت پھر بھی دیہاتی کی دیہاتی رہی
خالقا! وے خالقا! ہم تو تِرے شہکار تھے
لے تِری دنیا تِرے شہکار ٹُھکراتی رہی
کون مومن، کون ملحد بارگاہِ عشق میں
مجلسیں پڑھتی تھی وہ اور میرے گُن گاتی رہی
اپنی وجہ بربادی جانتے ہیں ہم لیکن کیا کریں بیاں لوگو
مصلحت پرستی پر ہر قدم رہا ہم کو جرم کا گماں لوگو
خیر ہم تو کانٹے تھے اور ہمیں کچلنا بھی وقت کا تقاضا تھا
پھول جن کو سمجھے تھے اب سنا ہے ان سے بھی ہیں وہ سرگراں لوگو
جس کے عشق کی ہم پر تہمتیں لگاتے ہو اس حسین پیکر پر
ہم نے دل ہی کھویا ہے تم جو دیکھتے شاید وار دیتے جاں لوگو
ارپن
کوئی پریمی کسی ادھ بُدھ سی 1 بھاشا میں اگر تم کو پکارے تو
تم اپنا من کسی مندر کی گھنٹی سا بجاتی دوڑتی جانا
کہیں گھنگھور برساتوں میں گھنگھرو زور سے باجے تو پائل توڑتی جانا
وہاں کُہرا جو کنگن سے لپٹ جائے تو چُنری میں چھپا لینا
کوئی سُندر 2چھوی نینوں میں دِکھتی ہو تو پلکوں کو جھکا لینا
البیلی کامنی کہ نشیلی گھڑی ہے شام
سرمستیوں کی سیج پہ ننگی پڑی ہے شام
بے کل کیے ہے رَین کے رسیا کا انتظار
غمگیں ہے حسن شوخ کہ حیراں کھڑی ہے شام
چمکا دیا ہے اس کے شراروں نے فکر کو
احساس عشق و حسن کی اک پُھلجڑی ہے شام
تمہیں پکاروں جو چاند کہہ کر تو بس اشاروں سے جان لینا
صبا، سمندر، گلاب، جُگنو کے اِستعاروں سے جان لینا
تپش، الاؤ، یہ تمتماہٹ، دہک، تمازت یہ دھوپ کیا ہے
تمہارے گالوں کو چھُو کے گُزریں تو ان ستاروں سے جان لینا
نقوش تِیکھے،۔ نِگاہ ترچھی،۔ کٹار ابرو،۔ قتیل نیناں
کہاں کہاں پہ یہ جان دی ہے یہ بے قراروں سے جان لینا
وہ پوچھتی ہے کہ نظم کیا ہے
میں اس سے کہتا ہوں
خوبصورت گلابی لفظوں سے
ایسا دلکش حسین منظر تراش دینا کہ پڑھنے والا
خود اپنی آنکھوں میں سارا منظر گزرتا دیکھے
مگر فقط نظم یہ نہیں ہے
جنگ میں دونوں اتنے قریب آ گئے سانس کی ڈور سانسوں سے کٹنے لگی
ایک پردہ نشیں آنکھ کی تیغ سے میرے لشکر کے لشکر الٹنے لگی
آنکھ اٹھی کہ جیسے قیامت اٹھی، جھک گئی تو سحاب آ جھکے دشت پر
رن میں تیز خنجر کھنکھنے لگے، زرد پیڑوں پہ بجلی جھپٹنے لگی
وہ چلی تو چلا کاروبار ختن،۔ سانس لینے لگے لالہ و یاسمن
اس ہرن نے چمن میں بھری چوکڑی اور پھولوں میں خیرات بٹنے لگی
اس حقیقت کو سمجھتی نہیں چڑیا کوئی
اس کو پنجوں سے بچا لیتا ہے پنجرہ کوئی
شام سُورج کا گلا گھونٹ رہی تھی اس پار
دیکھتا رہ گیا اس پار تماشا کوئی
وہ تو پتھر کا تراشا ہوا گُڈا بھی نہ تھا
مجھ میں کیوں ٹُوٹ گئی کانچ کی گُڑیا کوئی
پرندوں نے پرندوں سے کہا
آؤ یہ بستی چھوڑ دیں
ہجرت کریں
یہ وقتِ ہجرت ہے
یہاں رہنا کسی بھی طور اب بہتر نہیں ہے
چلو آؤ
دہکتی آگ کو جب خاک پر اتارا گیا
ہمیں پکارا گیا، اور بہت پکارا گیا
ہمارا اور تمہارا ملال ایک سا ہے
اِدھر چراغ بُجھا اور اُدھر ستارا گیا
بہت خلوص سے تُو نے عطا کیا تھا جو
وہ ایک خواب بھی مجھ سے نہیں گزارا گیا
یکسر اس پُر امن فضا میں جانے کیسا شور کُھلا
چیخ اُٹھا خاموش گڈریا، جنگل جاگا، شور کھلا
دُور سے دیکھ کے لگتا تھا خاموش رہے گا ایسے ہی
جب دریا میں اُتر گئے تو، ہم پر اس کا شور کھلا
شوخ طبیعت تھی اپنی اور باتیں ختم نہ ہوتی تھیں
چُپ کے معنی کُھل گئے ہم پر اک دن ایسا شور کھلا
بادِ صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا
یہ نہ پوچھو کہ یہاں رات سے پہلے کیا تھا
اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے
جو بتاتی تھی، فسادات سے پہلے کیا تھا
اے سمندر! تِری آنکھیں ہیں یہاں سب سے قدیم
اس جزیرے پہ مکانات سے پہلے کیا تھا
پرونیٹ
عنقریب انسان ناپید ہو جائیں گے
پُر امن زندگی، درندے بے فکر پھریں گے
پرندے اگر اڑے تو اپنی مرضی سے اڑیں گے
شیر ہرنیوں کو اپنے پیٹ پہ بیٹھا کر انسانی کہانیاں سنائیں گے
زمین کو اب امن دینے کی ٹھان لی جائے گی
نہیں ہے ظرف یہاں اتنا ہر کسی کے پاس
کہ سایہ بانٹے اگر ہے شجر کسی کے پاس
ہر ایک شخص خدا کے دئیے پہ راضی ہے
ہے لامکانی کہیں پر، تو گھر کسی کے پاس
تھے میرے خواب امانت تھے کسی کی آنکھوں میں
میں گروی رکھ کے چلی آئی زر کسی کے پاس
کثیر قومی اور آزاد کمپنی کے غلام
یہ نو سے پانچ تک اک دفتری گھڑی کے غلام
بڑے اداروں سے تعلیم یافتہ، خوش پوش
بہت نفیس ہیں، اکیسویں صدی کے غلام
میں اِن کو حکم سناتا ہوں اُس کے حکم کے بعد
مِرے غلام بھی ہیں اصل میں اُسی کے غلام
اب اداسی کا سبب اس کے سوا کیا رہ گیا
تُو بھی تنہا رہ گیا اور میں بھی تنہا رہ گیا
رات کے پچھلے پہر جب لکڑیاں جل بجھ گئیں
برف پڑنے لگ گئی، قصہ ادھورا رہ گیا
چاند شب بھر جھیل کے پانی میں غوطہ زن رہا
دور اک سہما ستارہ جلتا بجھتا رہ گیا
وہ جا رہے تھے حال مِرا جاں کنی کا تھا
اے ہم نشیں یہ وقت بھلا بے رخی کا تھا
راہِ جنوں میں آپ ہی گمراہ ہو گیا
دعویٰ تو راہبر کو مِری راہبری کا تھا
پروانے کو عطا کیا کیوں تُو نے سوزِ عشق
حصہ یہ صرف میری ہی تشنہ لبی کا تھا
جب توجہ کوئی ماحول سے ہٹ جاتی ہے
آئینہ ٹوٹتا ہے، روشنی گھٹ جاتی ہے
لوٹ آتا ہوں کہیں چھوڑ کے ویرانے میں
زندگی دوڑ کے آتی ہے، لپٹ جاتی ہے
اس لیے جاگنا پڑتا ہے بہر حال مجھے
آنکھ لگتے ہی یہ دنیا بھی سمٹ جاتی ہے
یومِ محبت
سرخ گلاب، نہ خوشبو، تحفے
کچھ مجھ کو درکار نہیں ہے
کاش اس بار محبت کے دن
ایک لفافہ
سادہ سی اک ڈاک کی صورت مل جائے
نظر کھوئی نظارے میں نظارو باخبر رہنا
وہ گُل روٹھا بہاروں میں بہارو! باخبر رہنا
زباں پر جب جڑے تالے زمانے کے خداؤں نے
نگاہوں نے چھڑی باتیں اشارو! باخبر رہنا
اری اے جوئے مضطر! تُو اکیلی ہی نہیں گریاں
رواں میں بھی تو ہوں باہم فوارو! باخبر رہنا
شبِ فرقت کی ویرانی میں اکثر جاگ کر تنہا
کلفٹن کے ساحل پہ دیکھا تھا اس کو
سمندر میں چاندی سے پاؤں ڈبوئے
وہ سونا بناتی ذرا مسکراتی
کسی اور دنیا سی آئی ہوئی مہ جبیں لگ رہی تھی
زمانے کی ساری حسیں لڑکیوں سے حسیں لگ رہی تھی
عجب ساحرہ تھی
جب تک وہ میرے ساتھ تھا میں بھی حسیں رہا
اک شخص دل کی کوٹھڑی میں یوں مکیں رہا
ہنسنے کا مشورہ بھی تِرا خوب ہے، مگر
مجھ میں تھا خوش مزاج کوئی، وہ نہیں رہا
چہرے کو دیکھ کر جو سمجھتا تھا میرا دکھ
ایسا بھی کوئی شخص مِرا ہم نشیں رہا
غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے
سجیلے ماتھے کے سُرخ ٹیکے سے اور ہونٹوں کی لالیوں سے
پُرانے کیمپس کے پیڑ ہاتھوں کا لمس پانے کے منتظر ہیں
وہ شخص چھُو چھُو کے سبز کرتا تھا پھول جھڑتے تھے ڈالیوں سے
یہ رسمِ تازہ گلاب پاشی بھی چیر دیتی ہے گُل کا سینہ
کہ پھول مٹی میں رول دیتے ہیں لوگ چُن چُن کے تھالیوں سے
جو تم نے بھیجا مجھے آج دوستی کا گلاب
یہ دوستی ہی نہیں، یہ ہے زندگی کا گلاب
کسی کے پیار کی جب سے بہار آئی ہے
شگفتہ ہو گیا اس دن سے شاعری کا گلاب
زمانے بھر کو یوں ہی پیار بانٹتے رہئیے
جو چاہتے ہیں مہکتا رہے خوشی کا گلاب
ہری بھری اک شاخ بدن پر
ہری بھری اک شاخ بدن پر
میرے لبوں کے لمس سے پھوٹے
ایسے ایسے پھول
سادہ سے ملبوس میں بھی وہ ساتوں رنگ کھلاتی ہے
اپنے حسن کی تیز مہک سے
اے وقت ذرا تھم جا
اک خواب کی آہٹ سے یوں گُونج اٹھیں گلیاں
امبر پہ کھلے تارے باغوں میں ہنسیں کلیاں
ساگر کی خموشی میں اک موج نے کروٹ لی
اور چاند جُھکا اس پر
پھر بام ہوئے روشن
آخری بوسہ
مِرے ہونٹوں پہ اس کے آخری بوسے کی لذت ثبت ہے
وہ اس کا آخری بوسہ
جو مستقبل کے ہر اک خوف سے آزاد
اک روشن ستارا تھا
گزرتی رات کے ننگے بدن پر تل کی صورت قائم و دائم
خود سپردگی
رات بھیگے تو پرانے قصے
پئے ترتیب کوئی اور سہارا ڈھونڈیں
چاندنی نیند کا پھیلا ہوا جادو لے کر
دل کے بے خواب نگر میں اترے
اور ہوا دھوپ سے بولائی ہوئی سڑکوں پر
اپنے جیون ساتھی اسد علی خان تمنا کی تعریف میں
نہایت شکیل و جمیل یک نوجواں
کہ تھا چشم آہو و ابرو کماں
بنا کر دو آنکھوں کے دوروں کے پھاند
لگا لاوے لیا کر محبت کا باند
ہر یک صید کا دو ہی صیاد تھا
جو بے دادیوں کا دو ہی داد تھا
اپنے باقی ماندہ پتھر میری قبر پہ دھرنے آئے
زیست پہ احساں کرنے والے موت پہ احساں کرنے آئے
کیسی حکمت کیسی دانش بے مقصد تخلیق ہوئی
اس دنیا میں آنے والے آئے کیوں بس مرنے آئے
سارے رنگ دھنک کے آ کر تیری آنکھ میں ڈوب گئے
شوخ تخیل، کومل عنواں میرے پاس نکھرنے آئے
فاصلہ
ایک منٹ سے دوسرے منٹ کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟
اور میں تمہیں بتا دوں، ساٹھ سیکنڈ نہیں ہے
اور نہ ہی ایک گھنٹے سے دوسرے گھنٹے کا فاصلہ ساٹھ منٹ
تم جو سمجھتے ہو ایک ہفتے سے دوسرے ہفتے کا فاصلہ سات دن
سب غلط ہے
نہیں ہیں سال میں تین سو پینسٹھ دن
وہ زندگی کا
بُرا سمے تھا
میں تم سے جب تک مِلا نہیں تھا
سمے جو گُزرا
سماں جو بدلا
تو تم کو میری وِیران دُنیا میں
دیوانے کی باتیں
آؤ چلو کچھ سپنوں کو
ہم جاگتی آنکھیں دیکھیں
اوڑھ کے چادر خواہش کی
اُس دیس میں راتیں کاٹیں
جہاں سردی جان نہ لیتی ہو
جہاں دُھوپ فضا کی بیٹی ہو
ہم چپ رہے کہ زخم کا چارہ کوئی نہ تھا
کہتے کسی سے کیا کہ ہمارا کوئی نہ تھا
وہ تھی انا کی جنگ برابر لڑی گئی
تھک کر گرے تھے دونوں ہی ہارا کوئی نہ تھا
کچے گھڑے پہ عشق یہ تیرا تو خوب تھا
پہنچا جو منزلوں پہ کنارا کوئی نہ تھا
وہ مجھے حکمتِ تسخیرِ جہاں دیتا ہے
اور مہلت میں فقط عمرِ نہاں دیتا ہے
دشت میں اس نے اٹھا دی ہیں کئی دیواریں
گھر مِرا چھین کے جو مجھ کو مکاں دیتا ہے
ہجر کے پیڑ کو اب آگ لگا دی میں نے
دھوپ دیتا تھا کبھی، آج دھواں دیتا ہے
کوئی سن رہا ہو تو اس کو سناؤں
کہ ایک دن زمین خود میں مدفون لاشیں اگلنے لگے گی
یہ مدفون لاشیں جو اب شے سے لاشے ہوئے جا رہیں ہیں
یہ کیا سوچتے ہیں
یہ کیا سوچتے ہیں، یہ کیا جانتے ہیں
انہیں فکر ہے یا نہیں ہے کہ
بیل کو نم مل جائے تو وہ بڑھتی ہے
بڑھتی ہے تو پاس کے پیڑ پہ چڑھتی ہے
پہلے پہل یہ غم ہلکان تو کرتا ہے
رفتہ رفتہ اس کی عادت پڑتی ہے
اہلِ محبت کوہِ انا سر کرتے ہیں
اہلِ ہوس کی راہ میں سانس اکھڑتی ہے
میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
جانے کیوں لوگوں نے افسانہ بنا رکھا ہے
تیری آنکھوں سے ہی پیمانہ بھرا کرتے ہیں
ہم کو معلوم ہے مے خانے میں کیا رکھا ہے
گو ترے ساتھ رہے، پر تجھے مل پائے نہیں
جیسے پانی نے کناروں کو جدا رکھا ہے
دل میں بے چینی سرِ بستر راحت ہو گی
اس قدر وصل کی مشتاق طبیعت ہو گی
لاکھ ارمان بھرے حشر میں ہوں گے پامال
چھوٹے سے سِن میں بھی رفتار قیامت ہو گی
دو بھی بوسے جو مجھے نام خدا پر دو گے
اس سے کچھ کم تو نہیں حسن کی دولت ہو گی
آج کے دور میں چُپ رہنا بھی رُسوائی ہے
ہم زباں کھولیں تو کہتے ہیں کے بلوائی ہے
جب کبھی گردشِ دوراں نے چلایا جادو
کام اس وقت مِرے ماں کی دُعا آئی
آپ کے تلخ ارادوں سے یہ ہوتا ہے گُماں
آپ نے مجھ کو مِٹانے کی قسم کھائی ہے
دُعائیں دوں گا بچاؤ میں خُشک ہو رہا ہوں
پرندو! مالی بُلاؤ میں خشک ہو رہا ہوں
بڑی تمنا تھی بھرتا ہوا تمہیں دیکھوں
سلوکِ یار کے گھاؤ میں خشک ہو رہا ہوں
اٹھا دیا انہیں کہہ کر کہ اپنی حرص کی خاک
مِری جڑوں سے ہٹاؤ، میں خشک ہو رہا ہوں
حسن درس سندھی شاعری اردو ترجمہ
کولھیوں کے ساتھ کولھی ہو جاؤں
ہاں ہاں ہاں میں ہولی ہو جاؤں
سنجھا کے وقت وہ سارے کولہی
ٹھہرے کے مٹکے کھولتے ہیں
گردن کے زنجیر اتارتے ہیں
صدیوں کے درد گاتے ہیں
اس بحث میں کیا پڑنا کسے بُھول گئے ہیں
ہم دشت میں کب پیڑ ہوئے، بھول گئے ہیں
کچھ قابلِ رشک اپنی محبت بھی نہیں تھی
کچھ شہرتِ دوراں سے ڈرے، بھول گئے ہیں
میں گرد کو اوڑھے ہوئے مُدت سے پڑا ہوں
وہ ہاتھ کہیں رکھ کے مجھے بھول گئے ہیں
دوری بیچ میں لے آئیں گے
آپ بتائیں! سہہ پائیں گے
میری مرگ پہ پُرسہ دینے
لوگ تمہارے پاس آئیں گے
تیرے بارے میں لوگوں کو
جانے کیسے بتلائیں گے
فاختہ
(جنگ کے تناظر میں کہی گئی اک نظم)
میں کہ صدیوں سے انسان کے ساتھ ہوں
امن کا، دوستی کا نشاں، فاختہ
پر نہ مانگا کبھی میں نے کچھ بھی کبھی
روٹی، کپڑا نہ گھر
جیسے ماضی میں کھلا، ویسے ادھورا نہ کھلے
بھید کھلنا ہے تو اب کے سرِ مے خانہ کھلے
دشمنِ جاں کا خیال آئے تو زندان کے رب
اس تپش سے مِری زنجیر کا ٹانکا نہ کھلے
مجھے دینی ہے تو دے طاقتِ پرواز مگر
میرا پنجرہ مِرے ہونٹوں سے زیادہ نہ کھلے
جاؤ! مجھے ڈراؤ نہ کارِ ملال سے
یہ کام کر رہا ہوں میں بتیس سال سے
پہلے تو ناخنوں سے تراشے کئی پہاڑ
پھر اس کے بعد زخم کریدے کدال سے
کُھلتی تھی اک مکان کی کھڑکی، جنوبی سمت
سورج طلوع ہوتا تھا میرا شمال سے
محبت
محبت خود اپنے لیے جسم چنتی ہے
اور جال بنتی ہے ان کے لیے
جو یہ آگ اپنے سینوں میں بھرنے کو تیار ہیں
گھٹ کے جینے سے بیزار ہوں
محبت کبھی ایک سے
یا خدا! محوِ ثناء گبر و مسلماں ہیں تِرے
کون عالم میں ہے جس پر نہیں احساں ہیں ترے
جن و انسان و ملک بحر و بر و ارض و سماء
تُو وہ سلطان ہے کہ سب تابعِ فرمان ہیں ترے
صبح دم گلشنِ ایجاد میں مرغانِ چمن
ہیں چہکتے نہیں دراصل ثنا خواں ہیں ترے
رنج اس کا نہیں کہ ہم ٹوٹے
یہ تو اچھا ہوا بھرم ٹوٹے
ایک ہلکی سی ٹھیس لگتے ہی
جیسے کوئی گلاس ہم ٹوٹے
آئی تھی جس حساب سے آندھی
اس کو سوچو تو پیڑ کم ٹوٹے
کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بُنتے ہیں
کیسے کیسے قصے یہ ماہ و سال بنتے ہیں
جانے کتنی صدیوں سے ہر برس خزاں رُت میں
خشک پتے دھرتی پر ذرد شال بنتے ہیں
آج کل نہ جانے کیوں ذہن پر تناؤ ہے
ٹُوٹ پُھوٹ جاتا ہے جو خیال بنتے ہیں
سلامت عشق، افسانے بہت ہیں
جنوں کی خیر ویرانے بہت ہیں
خِرد مندوں نے چھوڑا ساتھ تو کیا
مِری جاں! تیرے دیوانے بہت ہیں
نہیں ہے گر کوئی اپنا تو کیا غم
خدا کا شکر، بے گانے بہت ہیں
آ گیا تو خاطرِ مہمان کر
جو بھی ہے وہ زیبِ دسترخوان کر
خُود غرض دُنیا کو اپنا مان کر
آخرت کا اپنی مت نقصان کر
عُمر بھر گِنتا رہا لوگوں کے عیب
کیا مِلا چھلنی سے پانی چھان کر
آئینِ تیرگی
ہے تقاضائے شبِ منتقم
کہ جو باقی ماندہ ہیں چند جگنو
فسادِ صبح کی علامتیں ہیں
خلافِ آئینِ تیرگی ہے
رہے جو امکان سحر باقی
جب اک وفور ہو، طبلے کی تھاپ ہو جانا
نہیں تو دھیمے سُروں کا الاپ ہو جانا
کبھی جمُود کو چُھو لینا سرد مہری سے
کبھی نظر کی تمازت سے بھاپ ہو جانا
نکلنا گھر سے ہزاروں مکاں زماں کی طرف
پھر اک جہان میں خود سے مِلاپ ہو جانا
سب سے یہی کہتا ہوں کہ ہاں ہے مِری جاگیر
یہ شوکتِ الفاظ و بیاں ہے مری جاگیر
ڈرتا ہوں کسی موڑ پہ چھن جائے نہ مجھ سے
بچپن سے جو احساسِ زیاں ہے مری جاگیر
بجھتی ہوئی شاموں کے اثاثے ہیں مرے پاس
افسردہ چراغوں کا دھواں ہے مری جاگیر
گلے کے سانپوں سے لڑنے والو ان آستینوں کا کیا کرو گے
جو یار سینے میں بغض رکھتے ہوں ان کمینوں کا کیا کرو گے
تمہاری آنکھوں کو زرد بیلوں کی آبیاری سے کیا ملے گا
نکال پھینکو حنوط لمحوں کو، ان دفینوں کا کیا کرو گے
نظر کے عدسے میں ایک مُشتِ غبار کب تک دکھائی دے گا
خلا سے خالی نگاہ لوٹی تو دوربینوں کا کیا کرو گے
اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے
اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں
ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے
ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جل اٹھے ہیں نگاہوں میں کتنے دِیے اک تِرےﷺ نام سے
کھل اٹھے راستوں میں عجب پھول سے اک تِرےﷺ نام سے
کوئی خوشبو سی تھی لے اڑی جو ہمیں راستہ راستہ
دیکھتے دیکھتے طے ہوئے مرحلے اک تِرےﷺ نام سے
درد تھا مستقل، بے ٹھکانہ تھا دل اور ہم پا بہ گل
چین سا آ گیا خواب روشن ہوئے اک تِرےﷺ نام سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شہر نبیﷺ ہے سامنے، آہستہ بولیے
دھیرے سے بات کیجیے، آہستہ بولیے
انﷺ کی گلی میں دیکھ کے رکھیے ذرا قدم
خود کو بہت سنبھالیے،۔ آہستہ بولیے
انﷺ سے کبھی نہ کیجیے اپنی صدا بلند
پیشِ نبیﷺ جو آئیے،۔ آہستہ بولیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صاف لکھا ہے سرِ لوحِ جبیں آپﷺ کا ہوں
میرے آقاﷺ میں کسی کا بھی نہیں آپﷺ کا ہوں
کرۂ عشق سے باہر بھی حضور آپﷺ کا تھا
کرۂ عشق میں جب سے ہوں مکیں آپﷺ کا ہوں
مجھ کو بہکائے گا کیا جلوۂ دنیا کا فریب
میرا ایمان کی حد تک ہے یقیں آپﷺ کا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کرم ہے انﷺ کی تجلیوں کا، یہ بھیک انﷺ کے ہی نُور کی ہے
کہ حشر تک اس جہانِ فانی کی تیرگی جس نے دُور کی ہے
مِری بصارت نے سبز گنبد کو آنسوؤں میں بسا کے رکھا
مِری بصیرت نے انﷺ کو سوچا، یہ اک جسارت ضرور کی ہے
مِرے لبوں کی حلاوتیں آسماں کی رفعت کو چُھو رہی ہیں
میں انﷺ کی چوکھٹ کو چُوم آیا یہ بات کتنے غرور کی ہے
اسم اعظم سے اقتباس عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ کو گہنا گئی میری تیرہ شبی
ناگ وحشت کا ڈسنے لگا ذات کو
جن پہ تھا زعم، سارے وہ گُر زیست کے
علم و عقل و ہنر
بندگی
شاعری، دوستی
وقت نے یادوں سے کچھ گرد اڑائی، رکھ دی
آنسوؤں کی مِری پلکوں پہ رہائی رکھ دی
میں نے تو سوچ سمجھ کر ہی خریدی ہر شے
مِرے سامان میں یہ کس نے جدائی رکھ دی
آسمانوں پہ کوئی میرا نہیں تھا، کس نے؟
مِری تقدیر میں یہ آبلہ پائی رکھ دی
کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ہے
پھر اس کے بعد ہمیں آئینوں سے ڈرنا ہے
★فلک کی بند گلی کے فقیر ہیں تارے
کہ گھوم پھر کے یہیں سے انہیں گزرنا ہے
جو زندگی تھی مِری جان! تیرے ساتھ گئی
بس اب تو عمر کے نقشے میں وقت بھرنا ہے
یہ اور بات ہے تجھ سے گِلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دئیے ہیں بھرا نہیں کرتے
ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
تِرے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آئینوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
پردے میں اس بدن کے چھپیں راز کس طرح
خوشبو نہ ہو گی پھول کی غماز کس طرح
طرز کلام ان کا ہوا طرز خاص و عام
بدلیں گے اب وہ بات کا انداز کس طرح
بدلا جو اس کی آنکھ کا انداز تو کھلا
کرتے ہیں رنگ پھول سے پرواز کس طرح
تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی
پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی
یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے
سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں کچھ اتارے بھی
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نویس و کالم نگار امجد اسلام امجد لاہور میں انتقال کر گئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
جب تک جیون جوت چلے
موسم رنگ بدل جائیں
رستے دور نکل جائیں
تم نہ بدلنا ساتھ ہی چلنا جب تک جیون جوت چلے
تیرے ہی سنگ رہنا ہے
دکھ سکھ مل کر سہنا ہے
چاہتوں کا سلسلہ ہے مستقل
سبز موسم کرب کا ہے مستقل
کیا بتاؤں دل میں کس کی یاد کا
ایک کانٹا چبھ رہا ہے مستقل
بڑھ رہا ہے مستقل قحطِ شجر
زہر آلودہ فضا ہے مستقل
زندگی کو اک کہانی چاہیۓ
خشک دریا کو روانی چاہیۓ
دل کو اک خوابوں کی رانی چاہیۓ
سرحدوں کی نگہبانی چاہیۓ
چوم لے بڑھ کر مری تحریر کو
میرے لفظوں کو معانی چاہیۓ
کہتے ہیں ازل جس کو اس سے بھی کہیں پہلے
ایمان محبت پر لائے تھے ہمیں پہلے
اسرار خود آگاہی دیوانے سمجھتے ہیں
تکمیل جنوں آخر،۔ معراج یقیں پہلے
چمکا دیا سجدوں نے نقش کف پا لیکن
روشن تو نہ تھی اتنی یہ میری جبیں پہلے