دل سے تِرا خیال نہ جائے تو کیا کروں
میں کیا کروں کوئی نہ بتائے تو کیا کروں
امید دل نشیں سہی، دنیا حسیں سہی
تیرے بغیر کچھ بھی نہ بھائے تو کیا کروں
دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا
کمبخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں
روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم
عمر بھر کوہ کنی کر کے صلہ مانگتے ہیں
مُفت میں تیری محبت بھی نہیں مانگتے ہم
دشمنِ شہر کو آگے نہیں بڑھنے دیتے
اور کوئی تمغۂ جرأت بھی نہیں مانگتے ہم
میں بزنس مین ہوں جاناں
میری شہرت، میرا ڈنکا، میرے اعزاز کا سن کر
کبھی یہ نہ سمجھ لینا میں چوٹی کا لکھاری ہوں
میں بزنس مین ہوں جاناں، میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں
میری آڑھت پہ برسوں سے جو مہنگے داموں بکتا تھا
تیرے غم کا سودا تھا