Tuesday, 31 December 2019
تیرے بغیر کچھ بھی نہ بھاۓ تو کیا کروں
اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
Monday, 30 December 2019
وہ تفاوتیں ہیں مرے خدا کہ یہ تو نہیں کوئی اور ہے
وہ تفاوتیں ہیں مِرے خدا کہ یہ تو نہیں کوئی اور ہے
کہ تو آسمان پہ ہو تو ہو یہ سر زمیں کوئی اور ہے
وہ جو راستے تھے وفا کے تھے یہ جو منزلیں ہیں سزا کی ہیں
مِرا ہم سفر کوئی اور تھا، مِرا ہم نشیں کوئی اور ہے
مِرے جسم و جاں میں تِرے سوا نہیں اور کوئی بھی دوسرا
مجھے پھر بھی لگتا ہے اس طرح کہ کہیں کہیں کوئی اور ہے
خواب بچوں کی محبت سے زیادہ تو نہیں
خواب بچوں کی محبت سے زیادہ تو نہیں
دیکھ سکتا ہوں مگر عزم و ارادہ تو نہیں
میں تجھے کیسے ملوں کیسے پکڑپائے تو
تیری باہیں مِرے دل جیسی کشادہ تو نہیں
میں توجیسا ہوں نظر آتا ہوں سب کو ویسا
تُو جو ہے شاہ نما، شاہ کا زادہ تو نہیں
وہ مرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں
وہ مِرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں؟
اس کو حق ہے وہ جسے چاہے اُسے پیار کرے
کل تلک میں نے سُنے جس کے دھڑکتے نغمے
اور کوئی بھی تو اس دل میں سما سکتا ہے
ایک میں ہی تو نہیں پیار کا حق دار یہاں
وہ کسی اور کو بھی اپنا بنا سکتا ہے
کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں
اپاہج گاڑی کا آدمی
کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں
گوشت سے ،ساگ سے،دال سے ناپتے ہیں
خد و خال سے، گیسوؤں کی مہک، چال سے ناپتے ہیں
صعوبت سے، جنجال سے ناپتے ہیں
یا اپنے اعمال سے ناپتے ہیں
مگر ہم اسے عزمِ پامال سے ناپتے ہیں
Sunday, 29 December 2019
اک آمر تخت پہ بیٹھا تھا
کاش ہم نہیں لڑتے
Saturday, 28 December 2019
موچی ہی ہوں
نیکیاں اور بھلائیاں مولا
غیر کے ہاتھ میں ڈوری کو تھمایا جائے
ہر اک جابر سے انکاری رہے گی
دوراہے پر بچھڑنا ہے تم کو بچھڑ جاؤ لیکن
Friday, 27 December 2019
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
نہ سنو گر برا کہے کوئی
Thursday, 26 December 2019
میں جب بھی قتل ہو کر دیکھتا ہوں
کم قامتان شہر برابر کے ہو گئے
نہ فاصلے کوئی رکھنا نہ قربتیں رکھنا
خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ
Wednesday, 25 December 2019
سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی
رات بہت ہی کالی ہے
اٹھو لوگو سنبھلنے کا وقت آ گیا
میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
پرانے رشتوں کی خوش گمانی سے مل رہے ہیں
جنگل میں آگ کی طرح پھیلا نہیں دیا گیا
کوئی دو چار دن ہم مسکرانا چھوڑ دیں گے
تکیہ لگا کے بیٹھ کر بان کی چارپائی پر
جو تجھ کو پسند آئے وہ جوہر نہیں رکھتے
Tuesday, 24 December 2019
زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ
Monday, 23 December 2019
رات کی زلفیں برہم برہم
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
عجیب دکھ ہے
یاد کا موسم
خطاب آنسو، خطیب دکھ ہے عجیب دکھ ہے
Friday, 20 December 2019
معمولات روز رات کو اٹھ کر ایک گھر بناتا ہوں
جیون سے سمجھوتہ بھی تو ہو سکتا ہے
اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے
جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت
یہ دن ہمارا جو شام ہونے کے واسطے ہے
Thursday, 19 December 2019
ایسی ہمت نہ اب عطا کیجے
ساتھ ایسے کو ساتھ کیا کہنا
درد پرانا آنسو مانگے آنسو کہاں سے لاؤں
حملہ آور کوئی عقب سے ہے
Sunday, 15 December 2019
روح گر نوحہ کناں ہو تو غزل ہوتی ہے
کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں
Saturday, 14 December 2019
کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا
خواب آنکھوں میں سجانا چھوڑ دے
آندھیوں میں اک دیا جلتا ہوا رہ جائے گا
میں کسی قبر کے نشاں جیسا
Friday, 13 December 2019
جھوٹ سے سچ سے بھی یاری رکھیں
کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے
Thursday, 12 December 2019
رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں
سر یہ ہر حال جھکا، ہم نے قناعت کی تھی
بس اندھیرا دکھائی دیتا ہوں
دل کو یوں سیل غم ہجر بہا لے جائے
زخم پھر یاد پرانے آئے
دل کی نادانیاں نہیں جاتیں
یہی ہو گا کہ تم مجھ سے بچھڑ جاؤ گی
Tuesday, 10 December 2019
میں نے ہنس ہنس کر ہار مانی ہے
جانے یہاں ہوں میں یا میں
Monday, 9 December 2019
کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں
زبانوں کا بوسہ
تعزیتی قراردادیں
تم پاؤں کے چھالے مت دیکھو
Sunday, 8 December 2019
ایسے ماحول میں تو پردہ نشیں ملتے ہیں
ایسی جدت کی نہ توفیق خدا دے مجھ کو
اچھے موسم کی نشانی نہیں ہونے دیتا
خواب میں اک حسیں دکھائی دیا
ولولے جب ہوا کے بیٹھ گئے
یوں انتقام کے بدلے بھی احترام لیے
Friday, 6 December 2019
برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلربا سا
نہ شوق وصل نہ رنج فراق رکھتے ہیں
کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کھلے
جنہیں زعم کمانداری بہت ہے
Wednesday, 4 December 2019
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
دل ابھی
فن جو نادار تک نہیں پہنچا
اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں
مہکی فضائیں گاتی ہوائیں
مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے
بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پِیا
چلی رے چلی رے چلی رے
Sunday, 1 December 2019
تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں
آدم نو کا ترانۂ سفر
صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے
Friday, 29 November 2019
فقط جدائی کا ایک دھڑکا دھڑک رہا ہے
مجھے اپنا نہیں اس شخص کا دکھ ہے
Thursday, 28 November 2019
بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا
حقیقی سوچ کی گہرائی مار ڈالے گا
جھوٹی افواہیں اڑانے میں لگے رہتے ہیں
کوئی خدا تو کوئی ناخدا بنا ہوا ہے
اگر عذاب ہے تو پھر عذاب ہونے دو
بغض اگلتا ہے وہی جو بھی یہاں بولتا ہے
لوگ لہجہ میرا تلوار سمجھ لیتے ہیں
عجلت میں دن گزار کے یوں شب کے ہو گئے
ہماری شکل اب اول تو پہچانی نہیں جاتی
چاند تاروں بھرے تالاب نہیں دیکھیں گے
Tuesday, 26 November 2019
اب جیون خالی کاسہ ہے
Friday, 22 November 2019
اچھے خاصے دکھتے ہو بیماری میں
کھڑکیاں کھول رہا تھا کہ ہوا آئے گی
شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
نہیں کہ ذکرِ مہ و مہر ہی ضروری ہے
روشنی حسب ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
روشنی حسبِ ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم
عمر بھر کوہ کنی کر کے صلہ مانگتے ہیں
مُفت میں تیری محبت بھی نہیں مانگتے ہم
دشمنِ شہر کو آگے نہیں بڑھنے دیتے
اور کوئی تمغۂ جرأت بھی نہیں مانگتے ہم
Thursday, 21 November 2019
وہ نہیں ملتا مجھے اس کا گلہ اپنی جگہ
Wednesday, 20 November 2019
آوارگی میں محسن اس کو بھی ہنر جانا
اے شب ہجر یاراں مرے پاس آ
اے مری بے سہاگ تنہائی
Tuesday, 19 November 2019
زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
سب گناہ و حرام چلنے دو
سارے پردے گریں دیدار تلک پہنچوں میں
نظر نظر میں لیے تیرا پیار پھرتے ہیں
نظر نظر میں لیے تیرا پیار پھرتے ہیں
مثال موج نسیم بہار پھرتے ہیں
تِرے دیار سے ذروں نے روشنی پائی
تِرے دیار میں ہم سوگوار پھرتے ہیں
یہ حادثہ بھی عجب ہے کہ تیرے دیوانے
لگائے دل سے غم روزگار پھرتے ہیں
Monday, 18 November 2019
سوہنی گھاٹ بدل سکتی تھی
Sunday, 17 November 2019
کبھی تو سانس تری یاد سے جدا نکلے
Saturday, 16 November 2019
جو ذرا معتبر ہوا ہے یہاں اس کا پھر اعتبار مشکل ہے
سچ بھی مقدار میں ہی ملتا ہے
چائے پی اور شرافت سے کھسک لے پگلی
واہمہ؛ رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے
کبھی جو دل گرفتہ ہوں تو یونہی ٹھان لیتا ہوں
اے کہ وجہ سخن
نقصان
سنا ہے تلخئ ایام سے لاچار ہو چکے
Friday, 15 November 2019
یہ عشق کرتی اداس نسلوں کا کیا بنے گا
تخت والے ہو تاج والے ہو
اک نظر سامنے وہ آئے ذرا
یار تھا وہ نہ یار نکلے ہم
Thursday, 14 November 2019
کب غم کہے سنے سے کسی بات سے گیا
اب تک یہی سنا تھا کہ بازار بک گئے
ٹوٹی پھوٹی تباہ مل جائے
Wednesday, 13 November 2019
ملاحوں کا دھیان بٹا کر دریا چوری کر لینا ہے
وہی بارش کا موسم ہے
زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو
میں بزنس مین ہوں جاناں میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں
میں بزنس مین ہوں جاناں
میری شہرت، میرا ڈنکا، میرے اعزاز کا سن کر
کبھی یہ نہ سمجھ لینا میں چوٹی کا لکھاری ہوں
میں بزنس مین ہوں جاناں، میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں
میری آڑھت پہ برسوں سے جو مہنگے داموں بکتا تھا
تیرے غم کا سودا تھا
یہ جو سر نیچے کئے بیٹھے ہیں
لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
قاصد آیا مگر جواب نہیں
Tuesday, 12 November 2019
فضا میں کیسی اداسی ہے کیا کہا جائے
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے
جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے
نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں
Monday, 14 October 2019
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
منصب تو ہمیں مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی
Sunday, 13 October 2019
چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے
شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم
جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے
او میرے سونا رے سونا رے سونا رے
تم بن جاؤں کہاں کہ دنیا میں آ کے
Wednesday, 9 October 2019
عمر بھر کا ہوا زیاں جاناں
تیرے میرے بھی درمیاں جاناں
تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے
میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے
Tuesday, 8 October 2019
طناب خیمہ نہ موج بلا سے ڈر کر کھینچ
پتھروں کی بستی میں کاروبار شیشے کا
سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
چھیڑو تو اس حسین کو چھیڑو جو یار ہو
ضرورت کی خطا کو بھول جاؤ
بڑی دلچسپ غفلت ہو گئی ہے
رات کتنی مست ہے شوق کیا جوان ہے
صنم خانۂ خیال
Monday, 7 October 2019
تنگی رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا
بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں
مڑ کے تکتے نہیں پتوار کو لوگ
تیر کر کوئی پار جاتا رہا
ماں جہاں بستی ہے ہر چیز وہیں اچھی ہے
سبز سے سفید میں آنے کا غم
چل اے دل آسمان پر چل
چل اے دل آسماں پر چل
وہاں سے چل کے اس پُرشور بزمِ ہست کو دیکھیں
بلند و پست کو دیکھیں
زمیں کی سرنگونی آسماں سے کیسی لگتی ہے
پہاڑوں کی سرافرازی وہاں سے کیسی لگتی ہے
Saturday, 5 October 2019
میرے بدن پر بیٹھے ہوئے گدھ
میرے گوشت کی بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں
میری آنکھیں، میرے حسیں خوابوں کے نشیمن
میری زباں، موتی جیسے الفاظ کا درپن
میرے بازو، خوابوں کی تعبیر کے ضامن
میرا دل، جس میں ہر ناممکن بھی ممکن
خود فریبی کا اک بہانہ تھا
نہ چھڑا سکو گے دامن
نوازش کرم شکریہ مہربانی
نوازش کرم شکریہ مہربانی
Thursday, 3 October 2019
یہ کون بزم سے اٹھا کہ بزم ہی نہ رہی
جاتی ہیں سبھی راہیں مے خانے کو کیا کہیے
رہ وفا میں ضرر سود مند ہے یارو
حال دل ان سے کسی عنواں بیاں کر دیکھتے
قصہ ایک بسنت کا
مکالمہ
عجب گھڑی تھی
خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم
Tuesday, 1 October 2019
ایسے لاحق ہوا یہ شہر کا ویرانہ مجھے
میں ہر رات سونے سے پہلے
رات کچھ دیر ٹھہر
آنکھیں تلخیوں سے بھری ہوئی پیالیاں ہیں
چلو محبت میں جیتنا جیتنا کھیلتے ہیں
اپنی اپنی مدت پوری کرنے والے
Sunday, 29 September 2019
غزال آنکھوں کو مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے
ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب لگی شرط
زرد چہرہ ہے مرا زرد بھی ایسا ویسا
Saturday, 28 September 2019
دل کے احساس میں شامل ہے ضرورت اس کی
ہوا نہ مجھ سے کوئی ہمکلام گردش میں
خوشا کے وقت سے اذن سفر ملا ہے مجھے
کولاژ
مجھے اب اور نا سینا
ہم شاعر ہوتے ہیں
سواگت گھر کا دروازہ کھلا
Friday, 27 September 2019
ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر
اپنے جیون کے شب و روز بِتا ڈالیں گے
آرزو حسن پرستی کی مٹا ڈالیں گے
زیست میں راہ نہ دیں گے کسی رنگینی کو
خوش جمالوں کے نہ احسان اٹھائیں گے کبھی
پھول خوابوں کے نہ سوچوں میں کھلائیں گے کبھی
دیے سے جب دیا جلتا رہے گا
استقلال؛ دھیرے دھیرے چلتے رہنا
شجر بے دست و پا ہیں ابتلا کو کون روکے گا
اچھا نہیں کہ اوج سے پندار گر پڑے
Thursday, 26 September 2019
پانی ٹوٹ نہیں سکتا
عمر اب کیوں نہیں آتا
سورج سانجھا ہوتا ہے نا
اے دست شناسو بتلاؤ
فیل بانو
Tuesday, 24 September 2019
فقط ہم تم ہی بدلے ہیں
محبت چھوڑ دو کرنا
Saturday, 21 September 2019
کیا مٹی میں ڈھونڈ رہے ہو کیا رکھا ہے جالوں میں
یک طرفہ محبت
Friday, 20 September 2019
اکیلے ایک ہم نہیں
تو کیا تم اتنی ظالم ہو
مِرے تیمار داروں سے
مسیحا جب یہ کہہ دیں گے
دوا تاثیر کھو بیٹھی
دُعا کا وقت آ پہنچا
وہ کھیل محبت کا
کردار تھے ہم جس کے
وہ کھیل محبت کا
جس شخص نے لکھا تھا
اس شخص نے جو چاہا
وہ کر کے دکھایا بھی
اور آخری منظر میں
اس کھیل میں باقی تھا
ہم نے کوشش بھی کی
اک ملاقات ہو
وصل کا دن چڑھے
ختم یہ رات ہو
دوستوں نے مگر
ایک چلنے نہ دی
وہ جو ڈھل سکتی تھی
رات ڈھلنے نہ دی
چاہتا ہے کہ اسے چاند پکارا جائے
وہ جو آیا ہے مِرے گھر میں اندھیرے لے کر
چاہتا ہے کہ اسے چاند پکارا جائے