Friday, 28 February 2014
جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا
اس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی
لب کشا ہیں لوگ سرکار کو کیا بولنا ہے
کون اب قصہ چشم و لب و ابرو میں پڑے
میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون
جس طرف جائیں زمانہ روبرو آ جائے ہے
وہ یار کسی شام خرابات میں آئے
ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسِیں ہے
نگاہوں میں تُو ہے یہ دل جھومتا ہے
نہ جانے محبت کی راہوں میں کیا ہے
جو تُو ہمسفر ہے تو کچھ غم نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسِیں ہے
آج جانے کی ضد نہ کرو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
ہائے مر جائیں گے، ہم تو لُٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضِد نہ کرو
رات پھیلی ہے تیرے سرمئ آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے، پاگل کی طرح
خشک پتوں کی طرح، لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے، جنگل کی طرح
پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مِری، بادل کی طرح
حضورِ یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
معاملاتِ مَن و تُو نکل ہی آتے ہیں
ہزار ہم سخنی ہو ہزار ہم نظری
مقامِ جُنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں
لے کے صدیوں کی پیاس جنگل میں
ادھر بھی نگاہ کرم میر خوباں
Wednesday, 26 February 2014
یہ جو چہروں پہ لئے گرد الم آتے ہیں
یہ تمہارے ہی پشیمانِ کرم آتے ہیں
اِتنا کُھل کر بھی نہ رو، جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
تُو سُنا، تیری مسافت کی کہانی کیا ہے
میرے رَستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں
یہ ہم نے دھوپ جو اوڑھی ہوئی ہے
ہماری چھاؤں چوری ہو گئی ہے
چلو وہ خواب تو بننے لگا ہے
چلو کچھ بات تو آگے بڑھی ہے
ابھی نیچی ہے سطحِ دیدۂ تر
ابھی دریا میں پانی کی کمی ہے
آج کے اس سماج میں بیدل
یعنی ظلمت کے راج میں بیدلؔ
میرے جیسے مڈل کلاس کے لوگ
دور کے لوگ آس پاس کے لوگ
چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے
کبھی کاغذ کبھی خطوں کے لئے
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مِل گیا ہمیں ویسا پہن لیا
فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عُریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا
رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اسے
لگنے دے ایک اور بھی ضربِ شدید اُسے
جی ہاں وہ اِک چراغ جو سُورج تھا رات کا
تاریکیوں نے مِل کے کِیا ہے شہید اُسے
فاقے نہ جُھگیوں سے سڑک پر نکل پڑیں
آفت میں ڈال دے نہ یہ بحرانِ عید اُسے
ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان، کبھی زلزلے آنے لگ جائیں
کبھی اک لمحۂ فرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
زندگی تلخ سہی، زہر سہی، سم ہی سہی
درد و آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ
میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مِرا دل، دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مِرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
جواں ہوں میں، جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مِری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا
تاج، تیرے لئے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب! کہیں اور مِلا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ اُلفت بھری رُوحوں کا سفر کیا معنی
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں، کہاں ہیں، محافظِ خودی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
کبھی کبھی مرے دل میں یہ خیال آتا ہے
کبھی کبھی مِرے دل میں یہ خیال آتا ہے
کہ زندگی تِری زُلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مِری زیست کا مقدر ہے
تِری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
جانے وہ کیسے لوگ تھے
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگیں، کانٹوں کا ہار ملا
چاہت کے نغمے چاہے تو آہِ سرد ملی
دل کے بوجھ کو دُونا کر گیا جو غمخوار ملا
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
آج دُکان پہ نیلام اُٹھے گا ان کا
تُو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس
وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پِگھلیں گے، جب دُکھ کا ساگر چَھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی، جب قید سے قیدی چُھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پُھوٹیں گے، جب ظلم کے بندھن ٹُوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے، وہ صبح ہمِیں سے آئے گی
وہ صبح ہمِیں سے آئے گی
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ، یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
یہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے
ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دَور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے، کہ جان و دل
تاعمر پھر نہ کوئی حسِیں خواب بُن سکیں
خوابوں کے آسرے پہ کٹی ہے تمام عمر
طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری
دلِ زندہ! تِرے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری
زمیں نے خون اُگلا، آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دن بدلے، تو انسانوں پہ کیا گزری
ہمیں یہ فکر، ان کی انجمن کس حال میں ہو گی
انہیں یہ غم کہ ان سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گزری
ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے
جگمگاتے ہیں اُفق پار ستارے، لیکن
راستہ منزلِ ہستی کا مہیب آج بھی ہے
سرِ مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سرِ منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے
اے شریکِ زندگی! اِس بات پر روتی ہے تُو
حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے
قسم ہے آپ کے ہر روز روٹھ جانے کی
جو مثلِ دوست، عدو کو بھی سرفراز کرے
یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں
رکنے لگی ہے نبض رفتار جاں نثاراں
دیر سے منتظر ہوں میں، بیٹھ نہ یوں حجاب میں
جلا کے میری نظر کا پردہ ہٹا دی رخ سے نقاب تو نے
Monday, 24 February 2014
درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا
عشق میں بابا ایک جنم سے کام نہیں چل سکتا
بہت دنوں سے مجھ میں ہے کیفیت رونے والی
درد فراواں سینے میں کہرام نہیں چل سکتا
تہمتِ عشق مناسب ہے اور ہم پر جچتی ہے
ہم ایسوں پر اور کوئی الزام نہیں چل سکتا
عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں
دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رَستے سے گزر جاتا ہوں
دیکھنا اہل جنوں ساعت جہد آ پہنچی
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
دل پہ جب درد کی افتاد پڑی ہوتی ہے
دوستو! وہ تو قیامت کی گھڑی ہوتی ہے
جس طرف جائیں، جہاں جائیں بھری دنیا میں
راستہ روکے تِری یاد کھڑی ہوتی ہے
جس نے مَر مَر کے گزاری ہو، یہ اس سے پوچھو
ہِجر کی رات بھلا کتنی کڑی ہوتی ہے
Sunday, 23 February 2014
بس یہی شمعیں بچی تھیں یہ بھی بجھوا دی گئیں
اُنگلیاں میری عجائب گھر میں رکھوا دی گئیں
ایک گونگے کو مِلی پھر خُوش کلامی کی سند
میرے لفظوں کی زبانیں پھر ترشوا دی گئیں
اس کی جانب ہم نے چلنے کا ارادہ جب کیا
راستے کی ساری پہچانیں بدلوا دی گئیں
کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہو کا نکلا
اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
دل کو خیال یار نے مسحور کر دیا
Saturday, 22 February 2014
گھر واپس جب آؤ گے تم
گیت
گھر واپس جب آؤ گے تم
کون تمہیں پہچانے گا
کون کہے گا، تم بِن ساجن
یہ نگری سنسان
بِن دستک دروازہ گم سم، بِن آہٹ دہلیز
سونے چاند کو تکتے تکتے راہیں پڑ گئی ماند
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بُنی
کہیں بھی سچ کے گُل بُوٹے نہیں ہیں
کِسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سُنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
خوش جو آئے تھے پشیمان گئے
اے تغافل! تجھے پہچان گئے
خوب ہے صاحبِ محفل کی ادا
کوئی بولا تو بُرا مان گئے
اس کو سمجھے کہ نہ سمجھے لیکن
گردشِ دہر، تجھے جان گئے
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اب جفا کی صراحتیں بے کار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی
شہر جمال کے خس و خاشاک ہو گئے
اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہو گئے
ہم سے فروغِ خاک، نہ زیبائی آب کی
کائی کی طرح تہمتِ پوشاک ہو گئے
پیراہنِ صبا تو کسی طور سِل گیا
دامانِ صد بہار مگر چاک ہو گئے
اس دنیا میں اپنا کیا ہے
اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے
اب کے سال پُونم میں جب تُو آئے گی مِلنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یُوں گزاریں گے
دھڑکنیں بِچھا دیں گے شوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیری آرتی اُتاریں گے
تُو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تُو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آ جا، ہم تجھے گزاریں گے
آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خَم سنوارئیے صاحب، زندگی کی زُلفوں کو آپ کیا سنواریں گے
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہيں
اس بت کے پجاری ہیں مسلمان ہزاروں
روشن جمال يار سے ہے انجمن تمام
اور تو پاس مرے ہجر ميں کيا رکھا ہے
Friday, 21 February 2014
کافر ہوں سر پھرا ہوں مجھے مار دیجیے
میں سوچنے لگا ہوں مجھے مار دیجیے
ہے احترامِ حضرتِ انسان، میرا دِین
بے دِین ہو گیا ہوں مجھے مار دیجیے
میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجیے
سوچوں کو منجدھار کیا خود کو پتوار کیا
دل کا دریا پار کیا اور پہلی بار کیا
ہجر کی پہلی شام پڑے دو بھاری کام پڑے
اس کو بھی تیار کیا، دل بھی تیار کیا
قطرہ قطرہ جھیل بنیں پھر آنکھیں نیل بنیں
مجھ کو بہتی دھار کیا، ساون کی تار کیا
Wednesday, 19 February 2014
میں حسین ابن علی تیری دیوانی مولا
تم وہی ہو جس سے مل کر زندگی اچھی لگی
جو شہر مکینوں کو اماں بھی نہيں دیتے
کسی اداس جہاں کی بشارتیں ہی ملیں
رات جاگی تو کئی درد پرانے جاگے
سبھی سورج ستاروں کی ضیائیں ساتھ رہتی ہیں
تپتے صحراؤں پہ گرجا سر دریا برسا
اس کی نوازشوں نے تو حیران کر دیا
ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
بجھا ہے دل تو غم یار اب کہاں تو بھی
بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے
جب بھی دیکھا مرے کردار پہ دھبا کوئی
ہاں اجازت ہے اگر کوئی کہانی اور ہے
میاں میں شیر ہوں شیروں کی غراہٹ نہیں جاتی
برسوں کا تھما ساون
اجازت: او جانے والے چلے ہی جانا ذرا رکو تو ذرا
حساب کتاب: میری زندگی کی کتاب میں
خضر سے: کہا مشکل میں رہتا ہوں
اقبال اور فرشتے: وہ دور آیا نہیں ابھی تک
بے خودی بخدا بڑھے اس سے
جو ہوتی دیس میں عزت ہنر کی
نشانہ آزمایا جا رہا ہے
کیسی تاویل مرے دوست بہانہ کیسا
اک ذرا سن تو مہکتے ہوئے گیسو والی
سنا تو ہے کہ نگار بہار راہ میں ہے
Tuesday, 18 February 2014
يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھی خوابوں ميں مليں
ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو
پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دھندلا گئیں آنکھیں بھی مِری
بھولنے والے، میں کب تک تِرا رَستا دیکھوں
ذرے سرکش ہوئے کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
آ کے دیوار پہ بیٹھی تھیں کہ پھر اڑ نہ سکیں
تِتلیاں بانجھ مناظر میں نظربند ہوئیں
پیڑ کی سانسوں میں چڑیا کا بدن کِھنچتا گیا
نبض رکتی گئی، شاخوں کی رگیں کھلتی گئیں
چھونے سے قبل رنگ کے پیکر پگھل گئے
مٹھی میں آ نہ پائے کہ جگنو نکل گئے
پھیلے ہوئے تھے جاگتی نیندوں کے سلسلے
آنکھیں کھلیں تو رات کے منظر بدل گئے
کب حدتِ گلاب پہ حرف آنے پائے گا
تتلی کے پَر اڑان کی گرمی سے جل گئے
دشمن ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح
مجھ میں اتر گیا ہے وہ سرطان کی طرح
جکڑے ہوئے ہے تن کو مِرے، اس کی آرزو
پھیلا ہوا ہے جال سا شریان کی طرح
دیوار و در نے جس کیلئے ہجر کاٹے تھے
آیا تھا چند روز کو، مہمان کی طرح
اڑ جائیں گے تصویر کے رنگوں کی طرح ہیں
سن لیا ہم نے فیصلہ تیرا
اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں
چاندنی، سوچ، صدا راہگزر آوارہ
بچھڑے ہوئے یاروں کی صدا کیوں نہیں آتی
Sunday, 16 February 2014
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت، تِری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ، تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں، ہے کیا رُسوائی
اے، وہ مجلس نہیں، خلوت ہی سہی
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں
تِرے سروِ قامت سے اِک قدِ آدم
قیامت کے فِتنے کو کم دیکھتے ہیں
Saturday, 15 February 2014
یہ تو ٹھیک ہے جی کچھ ہلکا ہو جائے گا
بولو گے تو گھر گھر چرچا ہو جائے گا
چلو، ہم آئندہ دستار نہیں باندھیں گے
چلو، کسی کا سر تو اونچا ہو جائے گا
برسوں پہلے گاؤں سے جانےوالا لڑکا
واپس آتے آتے بوڑھا ہو جائے گا
کھونا بھی نہیں ہے اسے پانا بھی نہیں ہے
یہ کیا ہے کبھی اس کو بتانا بھی نہیں ہے
کردار ہے کوئی نہ کوئی ربط ہے اس میں
یہ تیرا افسانہ تو فسانہ بھی نہیں ہے
وہ قصہ جو دیوار میں چُنوایا گیا تھا
کچھ تازہ نہیں ہے تو پُرانا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پهر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہُوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
پهر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دَم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کئے ہوئے
دل ہی تو ہے نہ سنگ خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دَیر نہیں حرم نہیں، در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چُھپائے کیوں
Friday, 14 February 2014
زیر لب یہ جو تبسم کا دیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھُپا رکھا ہے
چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے
ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے
شمار گردش لیل و نہار کرتے ہوئے
گُزر چلی ہے تِرا انتظار کرتے ہوئے
خدا گواہ، وہ آسودگی نہیں پائی
تمہارے بعد کسی سے بھی پیار کرتے ہوئے
تمام اہلِ سَفر ایک سے نہیں ہوتے
کھلا یہ وقت کے دریا کو پار کرتے ہوئے
جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں
نشے میں نیند کے تارے بھی اِک دُوجے پر گرتے ہیں
تھکن رَستوں کی کہتی ہے، چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حِسی کی دُھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صُورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے
Thursday, 13 February 2014
محرم تھا جب دل کا تیرے تو گھبرایا کیوں
کن اکھیوں سے دیکھ کے تجھ کو وہ شرمایا کیوں
آنکھ کی پُتلی کے رَستے سے دل میں آیا وہ
دل میں آ کراس نے دل کا چین چرایا کیوں
لاکھ حسینائیں تھیں تیرے چاروں اور تو پھر
پریوں کے جُھرمٹ میں چہرہ ایک ہی بھایا کیوں
مسلسل سامنا ہم کو شکستِ آرزو کا ہے
ابھی تک سلسلہ قائم کسی کی جستجو کا ہے
ملے شیریں زباں ہم کو زمانے میں بہت، لیکن
کہاں وہ لطف اے ہمدم! جو تیری گفتگو کا ہے
نہیں، گرنے نہیں دیتے کسی کو بھی نظر سے وہ
جنہیں احساس تھوڑا سا بھی اپنی آبرو کا ہے
یہ سب ظہور شان حقیقت بشر میں ہے
جو کچھ نہاں تھا تُخم میں، پیدا شجر میں ہے
ہر دَم جو خُونِ تازہ مِری چشمِ تر میں ہے
ناسُور دل میں ہے، کہ الٰہی جگر میں ہے
کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار
اس پر بھی اِک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے
وا کردہ چشم دل صفت نقش پا ہوں میں
ہر رہگزر میں راہ تِری دیکھتا ہوں میں
مطلب جو اپنے اپنے کہے عاشقوں نے سب
وہ بُت بگڑ کے بول اُٹھا، کیا خدا ہوں میں
اے انقلابِ دہر، مِٹاتا ہے کیوں مجھے
نقشے ہزاروں مِٹ گئے ہیں تب بنا ہوں میں
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پِیر ہوئے، کیا کبھی شباب نہ تھا
شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا
یہ آسمان نہ تھا، یا یہ آفتاب نہ تھا
لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہو سکا دمِ قتل
سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا
بے داد کے خوگر تھے، فریاد تو کیا کرتے
کرتے، تو ہم اپنا ہی، کچھ تم سے گِلہ کرتے
تقدیرِ محبت تھی، مر مر کے جئے جانا
جینا ہی مقدّر تھا، ہم مر کے بھی کیا کرتے
مہلت نہ مِلی غم سے، اتنی بھی کہ حال اپنا
ہم آپ کہا کرتے، ہم آپ سنا کرتے
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو تِرے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو، تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مِرا دل مِرے قابو میں نہیں
دور صیاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
اک سرگزشت غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
وہ وارداتِ قلبِ تمنا کہیں جسے
اب زندگی ہے نام اسی امیدِ دور کا
ٹوٹے ہوئے دِلوں کا سہارا کہیں جسے
دل حاصلِ حیات ہے اور دل کا ماحصل
وہ بے دلی، کہ جانِ تمنا کہیں جسے
اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی
تدبیر کا حاصل کیا کہیے، تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی
اللہ رے سکونِ قلب اس کا، دل جس نے لاکھوں توڑ دئیے
جس زلف نے دنیا برہم کی وہ آپ کبھی برہم نہ ہوئی
غم راز ہے ان کی تجلی کا جو عالم بن کر عام ہوا
دل نام ہے ان کی تجلی کا جو راز رہی عالم نہ ہوئی
Wednesday, 12 February 2014
نہ میرے سخن کو سخن کہو نہ مری نوا کو نوا کہو
تیرگی رات بھر نہ جائے گی
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا
وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
خون بادل سے برستے دیکھا
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
اس وقت تو یوں لگتا ہے
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
Saturday, 8 February 2014
اے حسن بے پرواہ تجھے شبنم کہوں شعلہ کہوں
وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے
کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
اداسی کا یہ پتھر آنسوؤں سے نم نہیں ہوتا
یہ زرد پتوں کی بارش میرا زوال نہیں
عبادتوں کی طرح میں یہ کام کرتا ہوں
اب ہے ٹوٹا سا دل خود سے بیزار سا
چراغ لے کے ترے شہر سے گزرنا ہے
وقت رخصت کہیں تارے، کہیں جگنو آئے
تیری جنت سے ہجرت کر رہے ہیں
Friday, 7 February 2014
نہیں ہے اب کوئی منزل نہیں ہے جادہ کوئی
کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے
پلٹ کے چاند سیہ رات میں نہیں آیا
یہ لطف سیرِ سماوات میں نہیں آیا
دیوار پہ رکھا ہوا مٹی کا دیا میں
بیعت کی صدی لمحۂ انکار سے کم ہے
کوئی فکر لو نہیں دے رہی کوئی شعر تر نہیں ہو رہا
گزر چلی ہے شب دل فگار آخری بار
جو تو نہیں تو مری کوئی زندگانی نہیں
کیسی دو رنگ ہے یہ شناسائی میرے ساتھ
حوصلہ خود ہتھیار بنایا جا سکتا ہے
چشم بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے
چشمِ بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے
کیسی پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے
نیند اب چشمِ گراں بار کی دہلیز پہ ہے
جسم میں کھلتا ہوا خواب کا در لگتا ہے
مہلتِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت
اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے
نظر کے بھید سب اہل نظر سمجھتے ہیں
کمال ضبط کا یہ آخری ہنر بھی گیا
یہ رہا تیرا تخت و تاج میاں
عجب طلسم ہے دیوار و در میں رکھا ہوا
وہ مدتوں کے بعد سر راہ مل گیا
ابر ملبوس آب تھا جیسے
وہ دن گزر گئے وہ کیفیت گزرتی نہیں
حوصلہ چھوڑ گئی راہ گزر آخر کار
کبھی کبھی مری آنکھوں میں خواب کھلتا ہے
سو گیا تھک کے چراغوں کو جگانے والا
کون آئے گا بھلا، کون ہے آنے والا
یہ جو دنیا ہے، یہی ہے میری اپنی دنیا
میں تِرے خواب سے باہر نہیں جانے والا
ایسا لگتا ہے کہیں گریہ کناں ہے مجھ میں
ایک آنسو مِرے دل تک اُتر آنے والا
دونوں آنکھوں کی اک اوک بنائی میں نے
Thursday, 6 February 2014
آپس میں بات چِیت کی زحمت کئے بغیر
بس چل رہے ہیں ساتھ، شکایت کئے بغیر
آنکھوں سے کر رہے ہیں بیاں اپنی کیفیت
ہونٹوں سے حالِ دل کی وضاحت کئے بغیر
دونوں کو اپنی اپنی انائیں عزیز ہیں
لیکن، کسی کو نذرِ ملامت کئے بغیر
نہ گمان موت کا ہے، نہ خیال زندگی کا
سو یہ حال اِن دنوں ہے مِرے دل کی بے کسی کا
میں شِکستہ بام و در میں جسے جا کے ڈھونڈتا تھا
کوئی یاد تھی کسی کی، کوئی نام تھا کسی کا
میں ہواؤں سے ہراساں، وہ گُھٹن سے دل گرِفتہ
میں چراغ تیرگی کا، وہ گُلاب روشنی کا
کبھی تو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے
تُجھے پا کے بھی مِرا دل، جو اداس ہے، تو کیوں ہے
مجھے کیوں عزیز تر ہے، یہ دُھواں دُھواں سا موسم
یہ ہوائے شامِ ہِجراں، مجھے راس ہے، تو کیوں ہے
تُجھے کھو کے سوچتا ہوں، مِرے دامنِ طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے، کوئی آس ہے، تو کیوں ہے
کوئی رقعہ نہ لفافے میں کلی چھوڑ گیا
بس اچانک وہ خموشی سے گلی چھوڑ گیا
جب دِیا 🪔 ہی نہ رہا، خوف ہو کیا معنی؟
خالی کمرے کی وہ کِھڑکی بھی کُھلی چھوڑ گیا
گُونجتے رہتے ہیں سناٹے اکیلے گھر میں
در و دیوار کو وہ ایسا دُکھی چھوڑ گیا
تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں
ابھی آگ سَرد ہوئی نہیں، ابھی اِک الاؤ جلا نہیں
میری بزمِ دِل تو اُجڑ چُکی، مِرا فرشِ جاں تو سِمٹ چُکا
سبھی جا چُکے مِرے ہم نشِیں، مگر ایک شخص گیا نہیں
در و بام سب نے سجا لیے، سبھی روشنی میں نہا لیے
مِری اُنگلِیاں بھی جُھلس گئیں، مگر اِک چراغ جلا نہیں
اب آنے والی ہے فصلِ بہار، سوچتے تھے
ہم اس طرح تو بہت اعتبارؔ سوچتے تھے
جگائے رکھتی تھی راتوں کو کیسی بے چینی
کسی کی بات پہ ہم کتنی بار سوچتے تھے
وہ سامنے ہے تو پِھر کچھ بھی کہہ نہیں پاتے
نہ تھا وہ پاس، تو باتیں ہزار سوچتے تھے
مری راتوں کی راحت دن کا اطمینان لے جانا
تمہارے کام آ جائے گا، یہ سامان لے جانا
تمہارے بعد کیا رکھنا اَنا سے واسطہ کوئی
تم اپنے ساتھ میرا عمر بھر کا مان لے جانا
شکستہ کے کچھ ریزے پڑے ہیں فرش پر، چُن لو
اگر تم جوڑ سکتے ہو، تو یہ گُلدان لے جانا
ابھی آگ پوری جلی نہیں، ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں
سو کہاں کا ہوں میں غزل سَرا، مِرے خال و خد بھی بنے نہیں
ابھی سِینہ زور نہیں ہُوا، میرے دل کے غم کا معاملہ
کوئی گہرا درد نہیں مِلا، ابھی ایسے چرکے لگے نہیں
اس سَیلِ نُور کی نِسبتوں سے میرے دریچۂ دل میں آ
میرے طاقچوں میں ہے روشنی، ابھی یہ چراغ بُجھے نہیں
تشنگی مورد الزام نہیں ہوتی تھی
ان دنوں پیاس بہت عام نہیں ہوتی تھی
ہِجر میں فُرصتیں ہوتی تھیں غزل کہنے کی
زِیست یُوں وقفِ آلام نہیں ہوتی تھی
دن مہکتے تھے تِرے قُرب کے گُلزاروں میں
یُوں شرربار کبھی شام نہیں ہوتی تھی
جو خیال تھے نہ قیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے
جِنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بِچھڑ گئے
یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں
ہمارے بُھولنے والے بھی اِس عذاب میں ہیں
اِسی خیال سے، ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بِچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنُوں، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تِری ہی دُھن میں ہیں اب تک اُسی سراب میں ہیں
گئی رت کی وحشتوں کا یہ خراج مانگتی ہے
کوئی کھیل تو نہیں ہے یہ غزل کی شاعری ہے
یہی سوچ، یہ نِدامت، مِرا دل نچوڑتی ہے
کہ حرُوفِ آرزو میں کسی رنگ کی کمی ہے
جو لہو لہو ہیں مصرعے، تو ہُنر نہیں ہے میرا
یہ بہارِ زخمِ دل ہے، یہ کمالِ جانکنی ہے
پھر اس کے جاتے ہی یہ دل سنسان ہو کر رہ گیا
اچھا بھلا اِک شہر تھا، وِیران ہو کر رہ گیا
ہر نقش باطل ہو گیا، اب کے دیارِ ہجر میں
اِک زخم گزرے وقت کی مِیزان ہو کر رہ گیا
رُت نے مِرے چاروں طرف کھینچے حِصارِ بام ودر
یہ شہر پھر میرے لئے زِندان ہو کر رہ گیا
لب پہ نہ لائے دل کی کوئی بات اسے سمجھا دینا
میں تو مرد ہوں اور وہ عورت ذات، اُسے سمجھا دینا
سَکھیاں باتوں باتوں میں ’’احوال‘‘ یقیناً پوچھیں گی
کرے نہ کوئی ایسی ویسی بات، اسے سمجھا دینا
چلتے پِھرتے باتیں کرتے، بے حد وہ محتاط رہے
چھوٹے شہر بھی ہوتے ہیں دیہات اُسے سمجھا دینا
تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا
جہاں رونق نہیں ہوتی وہ گھر اچھا نہیں لگتا
نیا اِک ہمسفر چاہوں تو آسانی سے مِل جائے
مگر مجھ کو یہ اندازِ سفر اچھا نہیں لگتا
کُھلی چھت پر بھی جا کر چاند سے کچھ گفتگو کر لو
غزل کہنا پسِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا
Wednesday, 5 February 2014
عجب حالات تھے میرے عجب دن رات تھے میرے
مگر میں مطمئن تھا اس لئے تم ساتھ تھے میرے
مِرے زر کے طلبگاروں کی نظریں ایسے اٹھتی تھیں
کہ لاکھوں انگلیاں تھیں اور ہزاروں ہاتھ تھے میرے
میں اِک پتھر کا گرد آلود بُت تھا ان کے مندر میں
نہ دل تھا میرے سینے میں نہ کچھ جذبات تھے میرے
نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہَوا زیادہ تھی
وہ بھی کیا دن تھے کہ پل میں کر دیا کرتے تھے ہم
Tuesday, 4 February 2014
میں عشق ذات ہوں چہرہ بدل کے آئی ہوں
مجھے سنبھال میں کانٹوں پہ چل کے آئی ہوں
تجھے یہ زعم کہ تُو مرد ہے مگر میں بھی
جلا کے کشتیاں گھر سے نکل کے آئی ہوں
میں آج رات کی رانی نہیں کہ تُو مجھ کو
مسل ہی دے کہ میں صدیاں مسل کے آئی ہوں
رات کے پچھلے پہر نے کہہ دیا ہے آج بھی
عشق تو خونِ جِگر کو پی رہا ہے آج بھی
مُفلسی میں بُجھ گئی ہیں میرے فن کی مشعلیں
حرف کوئی دل میں لیکن جاگتا ہے آج بھی
بے ارادہ مرحلوں میں بانٹ دی ہے زندگی
فیصلوں کا ایک سُورج ڈھل گیا ہے آج بھی
بارِ گراں کا ماجرا چلتا رہا تھا رات بھر
دشتِ جنُوں میں اِک دِیا جلتا رہا تھا رات بھر
تھا ساز محوِ جُستجُو تشنہ لبی سے ہار کر
دل رفتہ رفتہ گِیت میں ڈھلتا رہا تھا رات بھر
تب مُضطرب تھا اُس گھڑی دِیدہ وری کا ذوق بھی
اِک پُھول بوتل میں پڑا گَلتا رہا تھا رات بھر
تیور جبِین یار کے مبہم نہیں رہے
طے ہو گیا کہ آج ہم باہم نہیں رہے
وہ رات میری عُمر میں شامل نہ ہو سکی
جس رات میرے ساتھ تِرے غم نہیں رہے
پہلے تو موسموں کو مِری احتیاج تھی
رُخصت ہُوا تو شوق کے موسم نہیں رہے
شام کی ڈھلتی ہوئی پرچھائیوں کے تذکرے
کُو بہ کُو پھیلے مِری رُسوائیوں کے تذکرے
بُھولتا ہی جا رہا ہُوں میں کہانی کی طرح
وہ فریبِ آرزو، رعنائیوں کے تذکرے
زندگی میں بڑھ گئی ہیں محفلوں کی رونقیں
دل پہ کندہ ہیں مگر تنہائیوں کے تذکرے
لہجہ اداس آنکھ میں پرچھائیں زرد سی
جیسے جَمی ہو وقت کی خاموش گَرد سی
میں تو شبِ فراق سے ہارا نہ تھا، مگر
پُھولوں پہ اَوس پڑ گئی شعلہ نبرد سی
اس کو مِرے وطن کا پتا چل گیا ہے آج
صورت جو اُس نے دیکھ لی صحرا نورد سی
بھرا پڑا ہے یہاں پر نصاب لفظوں سے
لِکھا ہُوا ہے مگر سب خراب لفظوں سے
بَھلے شِکن ہی پڑی تھی ہر ایک صفحے پر
کوئی پِلا تو گیا ہے شراب لفظوں سے
سوال دل سے کِیا تھا وفا شعاروں نے
مگر شرر نے دِیا تھا جواب لفظوں سے
Monday, 3 February 2014
وہ خود بھی پیاس کے سوکھے نگر میں بستا ہے
سلگ رہی ہے فضا سائباں کے ہوتے ہوئے
زمین خشک فلک بادلوں سے خالی ہے
راحتیں کہاں ہوں گی کون سے نگر جائیں
نہ تیری دسترس میں کچھ نہ میرے اختیار میں
Sunday, 2 February 2014
یہ سب زمین و زماں پھر بنانا چاہتا ہوں
بِگڑ گیا ہے جہاں، پِھر بنانا چاہتا ہُوں
مِری نظر میں یہ دیوار و در نہیں ہیں درُست
سو میں گِرا کے مکاں پِھر بنانا چاہتا ہُوں
وہ جن میں ہوں نئے اِمکاں، نئے نئے شب و روز
میں اپنے وہم و گُماں پِھر بنانا چاہتا ہُوں
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دِہر سے وِحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایّام سے ہِجرت کر جا
مانتا جس کو نہ ہو دل وہ عمل خود پہ گزار
جو فسانہ ہو اسے چھو کے حقیقت کر جا
نبض ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشۂ ساعت سے نکلنا چاہے
دستکیں دیتا ہے پیہم مِری شریانوں میں
ایک چشمہ کہ جو پتّھر سے اُبلنا چاہے
مجھ کو منظور ہے وہ سلسلۂ سنگِ گراں
کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں
پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں
اب بھی وہ روئے دِلنشیں، زرد سہی، حسِیں تو ہے
جیسے جبِینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں
اب بھی وہ میرے ہمسفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہِجر میں، تھا جو کبھی وصال میں
سنو جان، تم کو خبر تک نہیں
تم تو وفا شناس و محبت نواز ہو
تم تو وفا شناس و محبت نواز ہو
ہاں میں دغا شِعار سہی، بے وفا سہی
تم کو تو ناز ہے دلِ اُلفت نصیب پر
میں ماجرائے درد سے ناآشنا سہی
ناآشنائے درد کو شکوہ سے کیا غرض
تم کو شکایتِ غمِ فرقت روا سہی
ذکر ان کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے
دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے
لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے
تحریر کروں اسمِ نبیؐ، ہدیۂ جاں سے
کِرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرۂ دل میں
تُم اُنؐ کو پکارو تو "حضورؐ" دل و جاں سے
ہر شخص پریشان سا، حیراں سا لگے ہے
سائے کو بھی دیکھوں تو گریزاں سا لگے ہے
کیا آس تھی دل کو کہ ابھی تک نہیں ٹُوٹی
جھونکہ بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے
خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا
پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے
کمیاب ہے وفا، تو بہانے تراش لوں
چہرے نئے ہیں شہر پرانے تراش لُوں
نِسبت میری جبِیں کو اِنہیں پتھروں سے ہے
مُشکل نہ تھا کہ آئینہ خانے تراش لُوں
اوڑھے رہُوں میں جلتی ہوئی دُھوپ کی رِدا
اور موسموں کے گیت سہانے تراش لُوں
گلوں سی گفتگو کریں، قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب مِلیں حکایتوں کے درمیاں
ہتھیلیوں کی اَوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں
جو دِل میں تھی نِگاہ سی، نِگاہ میں کِرن سی تھی
وہ داستاں اُلجھ گئی، وضاحتوں کے درمیاں
نوحہ؛ اگرچہ مرگ وفا بھی اک
قاتل قاتل چپ ہے
ہم بھی مانگیں مراد ہو کچھ تو
جب رہا تیرے بعد ہو کچھ تو
کیسے پیماں کہاں کے قول و قرار
اس ستم گر کو یاد ہو کچھ تو
کفر ہے ، بے جواز مے پینا
تُو ہو یا ابر و باد ہو کچھ تو
ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے
زہر تھی محتسبِ شہر کی تنقید اب کے
یاد آتا ہے تو کیوں اس سے گلہ ہوتا ہے
Saturday, 1 February 2014
خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا
خود اپنے سائے پہ بارِ گراں تھے ہم جیسے
کبھی گریباں کے تار گنتے کبھی صلیبوں پہ جان دیتے
دل تو وہ برگ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری؛ محشر لکھنوی
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری
مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشر ہمیں
روح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضیا دل میں اک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اداسی میں خاموش ہے دل میرا
بے حس ہیں تمنائیں، نیند آئی کہ موت آئی
جسے بار بار ملے تھے تم وہ میرے سوا کوئی اور تھا
مِرے دل کو تاب نظر کہاں، تمہیں دیکھتا کوئی اور تھا
میں فریب خوردۂ راہِ غم، چلا سکے ساتھ قدم قدم
مِرے ہمسفر نہیں جانتے، مِرا راستہ کوئی اور تھا
گل تازہ یہ تِرا رنگ و بُو، ہَوا سب سے بڑھ کے تِرا عدو
کسی اور نے تجھے چن لیا، تجھے چاہتا کوئی اور تھا