ترکِ اُلفت تو اک بہانہ تھا
وہ گیا، خیر اس کو جانا تھا
ہم بھی رستے میں تھک گئے تھے بہت
اُس کو بھی ساتھ کب نبھانا تھا
رُخ پہ تازہ گُلاب کیا کِھلتے
زرد پتوں کا وہ زمانہ تھا
ترکِ اُلفت تو اک بہانہ تھا
وہ گیا، خیر اس کو جانا تھا
ہم بھی رستے میں تھک گئے تھے بہت
اُس کو بھی ساتھ کب نبھانا تھا
رُخ پہ تازہ گُلاب کیا کِھلتے
زرد پتوں کا وہ زمانہ تھا
عہدِ جنوں میں عرصۂ وحشت گُزارنا
جیسے شبِ وصال میں فُرقت گزارنا
جانا سراغِ جوہرِ تخلیق ڈھونڈنے
اور اس کے بعد عالمِ حیرت گزارنا
کرنا حیات پہلوئے ایوانِ درد میں
روزانہ ایک روز قیامت گزارنا
کل کی صبح سہانی ہو گی
قریہ قریہ مٹی بولے، دریا دریا پانی
کل کی صبح سہانی ہو گی، کل کی صبح سہانی
جاگے ہیں اب جری جیالے، جاگے ہیں دل والے
بستی بستی خُوشبو ہو گی، گاؤں گاؤں اُجالے
گھر گھر ہوں گی بھری بہاریں، کھیت کھیت جوانی
خِرد والا بھی اپنے آپ سے بیگانہ آتا ہے
جو ان کی بزم سے آتا ہے وہ دیوانہ آتا ہے
نہ جوشِ مے، نہ کیف نغمۂ رِندانہ آتا ہے
اک ایسا وقت بھی اے ساقئ میخانہ آتا ہے
بیانِ دردِ دل کو واعظِ فرزانہ آتا ہے
وہ کیا جانے حقیقت اس کو تو افسانہ آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر دم مری زبان رہے تر درود سے
ہو میری کُل حیات معطر درود سے
ڈُوبا ہوا ہے نُور میں ہر لفظ نعت کا
قِرطاس یوں ہُوا ہے منور درود سے
عشقِ نبیؐ میں ڈُوب کے پالی حیاتِ نَو
بے ذر بھی بن گیا ہے ابو ذرؓ درود سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکر جن کا صبح و شام ہے
یہ بندہ بهی ان کا غلام ہے
شِیریں گُفت زبان جن کی
وہ مصطفیٰؐ کی ذات پاک کا نام ہے
ان کے در کی کیا ہی بات ہے
ہر بادشاہ جہاں غلام ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کِتنا بسیط دوستو عنوانِ نعت ہے
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے "
محشر میں اپنے نعت نگاروں میں گنیۓ گا
آقاﷺ مِرے بھی ہاتھ میں دیوانِ نعت ہے
سر سبز کشتِ شعر ہے لطفِ کریم سے
میری بھی شعر گوئی پہ بارانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جنہوں نے سرورِ عالمؐ کا اتباع کیا
خدا نے ان کے مقدر کا ارتفاع کیا
ازل سے نعت محمدؐ کے سلسلے ہیں رواں
کسی بشر نے نہیں اس کا اختراح کیا
وہیں پہ رخشِ زماں رُک گیا شبِ اسرأ
جہاں بھی حق نے تحرک کا امتناع کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دلِ مُنیر کی حسرت ہے ایک نعت لکھوں
کمالِ جلوۂ جاناں کے منقبات لکھوں
ہے اضطراب مگر کیسے کس شجاعت سے
حقیر قلمِ سخن سے میں کس کی ذات لکھوں
تجلّیوں کے تسلسل کی ابتداء تو ہے
الوہیت کے تصوّر کی ارتقاء تو ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چھائی ہوئی کچھ ایسے بہارانِ نعت ہے
لب پر درودﷺ دل میں گلستانِ نعت ہے
قرآن جس کی شان میں دیوانِ نعت ہے
اس دلربا کی دُھن مِرا سامانِ نعت ہے
ساون کچھ ایسے حُسن سے آیا ہے اب کی بار
اشکوں کے جلترنگ میں بارانِ نعت ہے
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
یادوں کی بارات
لے کر آئی ہے دیکھو
اشکوں کی برسات
فاطمہ زہرا جبیں
زرد رُت کی ہوا
جانے کہہ گئی ہے کیا
پتوں سے یہ ہوا
کہ ڈر کے مارے
زرد ہیں سارے
محمد جمیل اختر
رنج
رنج کا مارا ہُوا میں
زندگی کے پیچ و تاب میں گُم
نا جانے کِن خیالوں میں ڈُوب کر
اکثر تیری یادوں کے دِیے
جلا کر بُجھا دیتا ہوں
وقار احمد
جلتے جلتے بُجھ گیا دل
جلتے جلتے دل
خوب سحر بیدار ہوئی
شمعِ شبستان سرد ہوئی
اور جو شے تھی گرد ہوئی
رات کی محفل کا حامل
گھنی راتوں پہ کُھلتا ہے وہ در، آہستہ آہستہ
تو ہونے لگتی ہے ہر جا سحر، آہستہ آہستہ
میں دیتا ہوں سبھی کو پورا موقع شرمساری کا
میں کرتا ہوں سبھی کو درگزر، آہستہ آہستہ
کسے دیکھوں، کسے سوچوں، کسے اپنا بنا ڈالوں
یہ سب باتیں میں سوچوں گا، مگر آہستہ آہستہ
صفِ ظُلمت نیا اک نام لِکھ دو
ابھی کشمیر تھا اب شام لکھ دو
کُچل کے رکھ دیا دنیا نے ہم کو
سرِ بازار قتلِ عام لکھ دو
ابھی کشمیر تھا اب شام لکھ دو
لِکھو عصمت زنی اور خونریزی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وردِ زباں درود بھی دورانِ نعت ہے
شاہِ اُممﷺ کا ذکر ہی پہچانِ نعت ہے
جُھک کر فرشتے بھی ہیں مِرا ہاتھ چُومتے
جس ہاتھ سے رقم ہُوا دیوانِ نعت ہے
بخشا ہے پھر دوام یوں ناناﷺ کے دِین کو
زینبؑ کے دم سے عام یہ فیضانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہو گئیں مُشکلیں آسان تِریؐ نسبت سے
مِل گیا درد کا درمان تری نسبت سے
قدر و قیمت نہ زمانے میں کوئی تھی جن کی
ہو گئے لوگ وہ ذی شان تری نسبت سے
خواب میں آ جا یا طیبہ میں بلا لے آقاﷺ
رکھتا ہوں دل میں کچھ ارمان تری نسبت سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خوب سجتا ہے یہ قرآں کا عمامہ نُوری
جسمِ سیمی پہ ہے الہام کا جامہ نوری
جسمِ انور کی تو کیا بات ہو؛ سایہ نوری
نُور سے اُن کے ہُوا سارا زمانہ نوری
سورۂ عصر میں ہے ان کی جوانی کی قسم
قدِ زیبائے محمدﷺ ہے سراپا نوری
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جبیں میری ہو سنگِ در تمہارا یا رسول اللہﷺ
یہی ہے ایک جینے کا سہارا یا رسول اللہﷺ
دکھا دو اپنا چہرہ پیارا پیارا یا رسول اللّٰہﷺ
خدا را جیتے جی کر لوں نظارہ یا رسول اللہﷺ
نہیں فُرقت میں اب جینے کا چارا یا رسول اللہﷺ
بُلا لو اپنے قدموں میں خدا را یا رسول اللہﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرکارؐ جب عطا کِیا عُرفانِ نعت ہے
آساں ہُوا کٹھن مجھے میدانِ نعت ہے
روضے کی جالیوں سے ملے گا اسے قرار
مُدت سے میرے دل میں جو ارمانِ نعت ہے
حمد و ثناء کے بعد کِیا ذکرِ اہلِ بیت
در اصل ذکرِ آلؑ ہی اعلانِ نعت ہے
مجھے یہ علم نہیں ہے کہ کیا کروں گا میں
مگر کروں گا تو سب سے جُدا کروں گا میں
وہ جس کے نام پہ سب نعمتیں تمام ہوئیں
اسی کے نام سے ہر ابتداء کروں گا میں
کسی سرائے میں مجھ کو قیام کرنا نہیں
تمہارے دل کو فقط راستہ کروں گا میں
وفا کا ذکر بھی محفل میں چِیدہ چِیدہ ہوا
تھا ایک دل وہ بھی خستہ ستم رسِیدہ ہوا
جو ذکرِ یار ہُوا، لفظ یوں اُترنے لگے
تھی ابتداء میں غزل، انتہا قصیدہ ہوا
ہم انفعال و ندامت میں منہ چُھپائے رہے
وہ سینہ تان کے دُنیا میں برگزیدہ ہوا
اب تو سوچ لیا ہے یارو! دل کا خوں ہو جانے دوں
جن لوگوں نے درد دیا ہے میں ان کو افسانے دوں
اور ذرا سی دیر میں تھک کر سو جائیں گے تارے بھی
کب تک گھائل ہونٹوں کو میں گیت بِرہ کے گانے دوں
اپنے جنوں کا سینہ چھلنی ہونے دوں میں کب تک اور
اتنے سارے فرزانے ہیں کس کس کو سمجھانے دوں
نوائے دل نے کرشمے دِکھائے ہیں کیا کیا
مِری اذاں نے نمازی جگائے ہیں کیا کیا
جمالِ یار! تِری آب و تاب کیا کہیۓ
نظر نظر کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
ادائے ناز کو اندازِ دلبری سمجھے
فریب اہل محبت نے کھائے ہیں کیا کیا
اردو پنجابی مکس زعفرانی غزل
تمہارے پھپھا وہ گنجے والے جو لے گئے اُدھار کنگھی
مہینہ ہونے کو آ گیا، نہ اُس نے دِتی نہ ہم نے منگی
وہ واپڈا نے جو موٹا بلب لگا دیا ہے تمہارے در پر
تو اس کے چانن میں تجھ سے ملنے میں آ رہی ہے شدید تنگی
یہ المیہ ہے کہ اس کو ملنے میں جب کبھی لُک لُکا کے پہنچا
تو اس کی دادی، دمے کی ماری، ہمیشہ ای اوس وقت کھنگی
دشت و صحرا میں کبھی خاک اُڑا بھی نہ سکوں
اتنا گمراہ نہ کریو، تجھے پا بھی نہ سکوں
مشرب موسیٰؑ پہ حسرت کا عصا تھامے ہوئے
خضرؑ کو ڈھونڈ رہا ہوں کہیں جا بھی نہ سکوں
اب تُو مجھ سے نہ جُدا ہونے کی قسمیں کھا لے
میں تو یعقوبؑ نہیں اشک بہا بھی نہ سکوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یارب یہ میرا دل ہے کہ دیوانِ نعت ہے
تطہیر ہو گئی ہے یہ فیضانِ نعت ہے
پہنچوں سرِ مدینۂ عشاقِ آرزو
پکڑا ہوا جو خیر سے دامانِ نعت ہے
دھڑکن میں گونج صلِ علیٰ کی بصد خلوص
میری ہر ایک سانس میں امکانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمہیں غمزدہ جو دیکھے تو اسے قرار آئے
تمہی چارہ ساز آئے، تمہی غمگسار آئے
وہ لحد میں آ رہے ہیں مِرا منہ نکیرو ڈھک دو
میں دکھاؤں ان کو کیا منہ مجھے ان سے عار آئے
میری موت گر لکھی ہے تِرے در کے آگے آقاؐ
تو یہ آرزو ہے میری مجھے بار بار آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کہتی ہے یہ ساری خلقت مصطفیٰﷺ
آپﷺ ہیں شانِ امامت مصطفیٰﷺ
اب نہیں آئے گا کوئی بھی نبیؑ
ختم ہے تم پر نبوّت مصطفیٰﷺ
ناز کرتی ہے خدا کے فضل سے
آپ پر ساری فضلیت مصطفیٰﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت، جب آپؐ کی کہتا ہوں میں یا شاہ اممؐ
دور ہو جاتے ہیں پھر دل سے مِرے رنج و الم
آپﷺ کی دید کے اندھے بھی تمنائی ہیں
واہ کیا آپﷺ نے پایا ہے شہا حُسنِ اتم
آپؐ جس شہرِ مقدس میں ہوئے پیدا حضور
اس کی اللّه تعالیٰ نے اٹھائی ہے قسم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حق کی عطا سے بارشِ فیضانِ نعت ہے
فکر و شعور و قلب میں ارمانِ نعت ہے
وہ جانِ کائنات ہیں، وہ شانِ کائنات
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
لازم ہے نعت کہنے میں حساںؓ کی پیروی
حسانؓ باغبان گلستانِ نعت ہے
خُود پہ گُزرے عذاب لکھتی ہوں
آج کر کے حساب لکھتی ہوں
بحرِ دل میں ہے اک سنّاٹا
اور میں اِضطراب لکھتی ہوں
خود کو ذرے سے مختصر کر کے
آپ کو آفتاب لکھتی ہوں
آخری شعلہ
روزنِ در سے چلی آتی ہے شام
دن کی ٹُھکرائی ہوئی
رات کے سایوں سے ڈرتی ہوئی، گھبرائی ہوئی
روزنِ در سے چلی آتی ہے افسُردہ خرام
الطاف گوہر
راجہ الطاف حسین جنجوعہ
نمودِ رنگ سے بیگانہ وار آئی ہے
خِزاں کا بھیس بدل کر بہار آئی ہے
ملول و مضمحل و بے قرار آئی ہے
کوئی بتائے؟ یہ کیسی بہار آئی ہے
اسیر خانۂ گُلچیں ہیں رنگ و بُو اے دوست
یہ کس کے عہد میں ایسی بہار آئی ہے؟
کہاں احسان میری ذات پر تقدیر کا ہو گا
ہُوا گر کچھ مِرے حق میں صِلہ تدبیر کا ہو گا
مِری ہر شب گُزر جاتی ہے اکثر اس تمنّا میں
کوئی تو خواب میری اس نئی تعبیر کا ہو گا
بزرگوں کا بھی سایہ اب تو سر سے چِھن گیا اپنے
کہ یہ بھی حادثہ لکھا مِری تقدیر کا ہو گا
عشق میں اور اذیت اے جگر چاہیے ہے
مجھ کو اس آگ کے دریا میں بھنور چاہیے ہے
آنکھیں مانوسِ شبِ تارِ الم ہو بھی گئیں
اور یہ دل ہے اسے اب بھی سحر چاہیے ہے
جذبۂ عشق مِرے رُخ سے تو وحشت نہ ہٹا
مجھ کو اس شوخ کی آنکھوں میں یہ ڈر چاہیے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شکرِ خُدا کہ مجھ پہ یہ احسانِ نعت ہے
سر پر میرے بھی سایۂ دامانِ نعت ہے
حرف و سخن پہ دسترس اپنی جگہ مگر
دراصل وصفِ حبِ نبیؐ جانِ نعت ہے
فکر و شعور و حرف و ہُنر با وضو رہیں
تخلیق کے لیے یہی سامانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس کو حاصل مصطفیٰؐ کی پیشوائی ہو گئی
دو جہاں میں معتبر وہ پارسائی ہو گئی
عظمتیں بھی جانتی ہیں اس کے گھر کا ہی پتا
مصطفیٰؐ کے در سے جس کی آشنائی ہو گئی
یہ کرم کی حد نہیں تو اور پھر کیا ہے حضورؐ
مجھ سے عاصی کی بھی طیبہ میں رسائی ہو گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نظر میں ذہن میں ہو انؐ کا نقشِ پا محفوظ
ہمارے دل میں رہے عشق مصطفیٰؐ محفوظ
بکھرتے جائیں مِری زندگی کے جب اجزاء
تو وقتِ نزع رہے حُسنِ خاتمہ محفوظ
ہزاروں آندھیاں آئیں گئیں مگر نہ بُجھی
یہ شمعِ عشق ہے، رکھتی ہے خود ہوا محفوظ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رب کی خُوشنودی یوں پائیں تو مزہ آ جائے
ہم جو آقاﷺ کو منائیں تو مزہ آ جائے
حسرتیں میری بر آئیں تو مزہ آ جائے
وہ مجھے در پہ بلائیں تو مزہ آ جائے
ہم جو خاک در محبوب لگا کر رخ پر
ماہ و انجم کو لجائیں تو مزہ آ جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سیرت شہِﷺ مدینہ کی عنوانِ نعت ہے
اس سے ہی کائنات میں فیضانِ نعت ہے
عاشق رسولِ پاکﷺ کا حسانِ نعت ہے
دشمن رسولِ پاکﷺ کا نادانِ نعت ہے
جِن و بشر، ملائکہ،غُلمان و حُور کے
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
جُھکاتے ہیں نظر ہم، وہ ملائے جاتے ہیں
بات بے بات، وہ بات بڑھائے جاتے ہیں
تھامتے ہیں گِرنے سے کبھی رومال تھمائے جاتے ہیں
احساس کے پردے میں خوب دل لگائے جاتے ہیں
تنہائی میں تنہا ہونے نہیں دیتے
خیال ان کے محفلیں سجائے جاتے ہیں
کتاب کوئی بھی ہو ہم احترام کرتے ہیں
وہ گِیتا بھگوت ہو کہ صحیفۂ قدسی
کتاب کوئی بھی ہو
ہم احترام کرتے ہیں
کتاب کہ جن کو جلایا گیا سرِ بازار
بنامِ حق و صداقت سلام کرتے ہیں
نئی حد بندياں
نئی حد بندياں ہونے کو ہيں آئينِ گُلشن ميں
کہو بُلبل سے اب انڈے نہ رکھے آشيانے ميں
پچھتر لاکھ اک بےکار مد ميں صرف کر ديں گے
رعايا کے لیے کوڑی نہيں جن کے خزانے ميں
جو ارزاں ہے تو ان کی متاع آبرو، ورنہ
ذرا سی چيز بھی بے حد گِراں اس زمانے ميں
ساتھ چل پڑی تنہا ساتھ رہ گئی تنہا
کتنی با وفا نکلی میری بے بسی تنہا
وقت پھر مہرباں ہے کٹ گئے سبھی ساتھی
زندگی کی راہوں میں رہ گیا کوئی تنہا
آپ کی نوازش ہے، آپ کی توجہ سے
سرگراں ہے برسوں سے ایک اجنبی تنہا
مسافروں کے لیے سازگار تھوڑی ہے
شجر ببول کا ہے، سایہ دار تھوڑی ہے
یہ کھینچ تان تو حصہ ہے دوستی کا میاں
تعلقات میں لیکن درار تھوڑی ہے
اسے بھی ضد ہے کہ شادی کرے گی تو مجھ سے
جنون میرے ہی سر پہ سوار تھوڑی ہے
دُکھ کے عالم میں بھی بس ایک سہارا دُکھ ہے
خُوش تو بس یوں ہیں کے اس بار تمہارا دکھ ہے
جیت کر لاؤ تو خُوشیوں کا سبب بنتا ہے
ہار جاؤ تو مِرے یار! ستارہ دکھ ہے
آسماں والوں نے اس بار بھی دُکھ بھیجا تھا
آسماں والوں نے اب کے بھی اُتارا دکھ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تخلیقِ کائنات ہی عنوانِ نعت ہے
گردوں ہے وجد میں، تو یہ وجدانِ نعت ہے
الحمد سے ثنا کروں، یٰسین سے درود
یہ جانِ حمدِ پاک ہے، وہ جانِ نعت ہے
اُنؐ کی ثنا میں حرفِ گُماں کا گُزر کہاں؟
قرآنِ بالیقین جب اعلانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہیں ہے ذکر نبیؐ لبوں پر دلوں میں عشق نبیؐ نہیں ہے
اگر ہے ایسا تو پھر ہماری یہ زندگی زندگی نہیں ہے
چہل پہل نُور کی جہاں ہے نثار بازارؐ مصر جس پر
تمہیں بتاؤ اے زائرو! کیا مدینے کی وہ گلی نہیں ہے
اسے خبر ہے اسے پتہ ہے لگا ہے نام نبیؐ کا طغریٰ
ہمارے گھر کی طرف مصیبت اُٹھا کے سر دیکھتی نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشقِ حضورؐ، زینتِ سامانِ نعت ہے
روشن چراغِ بخت بہ فیضانِ نعت ہے
ہر عالمِ نمو میں ہے خُوشبو حضورؐ کی
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
سب عاشقانِ صورتِ محمودﷺ کے لیے
سیرت شۂ عربﷺ کی دبستانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسم و جاں میں منعکس جلوہ تری تنویر کا
کیا تشکر ہو سکے بندے سے اس تقدیر کا
عبد ممکن کے لیے اے ہستئ واجب تِری
حمد کہنا بالیقیں لانا ہے جُوئے شیر کا
تُو موفّق ہو تو تیری حمد کی تطریز ہو
ورنہ در مغلق رہے تحمید کی تحریر کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جمالِ عشقِ نبیؐ سے حیات روشن ہے
تجلیوں سے مِری کائنات روشن ہے
مہک رہے ہیں جو یہ پیرہن گُلابوں کے
صبا کے ہونٹوں پہ تیری ہی بات روشن ہے
وہ جس کو بخشی ہے معراج میرے مولیٰ نے
قسم سے کلمۂ حق میں وہ ذات روشن ہے
لبوں پر اب غمِ دل کو کبھی سجتا نہیں دیکھا
رہا یہ درد میرا ہی کہیں بٹتا نہیں دیکھا
مِری پلکوں نے پایا ہے ہنر گوہر چھپانے کا
کسی نے آنکھ سے موتی مِری گِرتا نہیں دیکھا
سبب اپنی انا کے کچھ کہے بِن مر ہی جاتے ہیں
کوئی اب ضبطِ اُلفت میں مگر مرتا نہی دیکھا
مِرے وجود میں پیوست غم کے تیروں کو
خدا بنائے رکھے ہاتھ کی لکیروں کو
خود اپنے گھر میں نہیں آج عصمتیں محفوظ
نگر کے بیچ بھی خطرہ ہے راہگیروں کو
لہٗو دیا ہے، چلو آج دل بھی دے آئیں
دلوں کی سخت ضرورت ہے کچھ امیروں کو
جنوں کی پیروی سے خوش نہیں ہوں
تِری دیوانگی سے خوش نہیں ہوں
ارادہ تو نہیں ہے خود کشی کا
مگر میں زندگی سے خوش نہیں ہوں
مجھے سُورج سے کچھ شکوہ نہیں ہے
میں اپنی روشنی سے خوش نہیں ہوں
سفر طویل ہو اور رہ نما خراب نہ ہو
تو منزلوں کا کبھی ذائقہ خراب نہ ہو
ہم اضطراب میں ہیں جنگ کیسے رُک جائے
تمہیں یہ فکر کے بس قاعدہ خراب نہ ہو
ہر ایک رنگ پھر اس دل کو راس آتا ہے
جو دیکھنے کا اگر زاویہ خراب نہ ہو
خدمت وطن
وطن کی خدمت بے لوث ہے ہر شخص پر لازم
یہی وہ کام ہے جو آدمی کے کام آتا ہے
لگا دی جاتی ہے حبِ وطن میں سر کی بازی بھی
اک ایسا بھی وفورِ جوش میں ہنگام آتا ہے
پلٹنے ہی کو ہے قسمت تمہاری اے وطن والو
تمہارے واسطے یہ عرش سے پیغام آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل کے صدف میں قطرۂ نیسانِ نعت ہے
آسودہ حالِ شہر ہوں، احسانِ نعت ہے
اقلیمِ ہفت میری قلمرو شمار کر
وہ یوں کہ میرے ہاتھ قلمدانِ نعت ہے
یہ بھید مجھ پہ کلمۂ لولاک سے کُھلا
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آنکھ سے ہجر مدینہ میں جو طوفاں نکلا
اس کا ہر قطرہ دلِ لعلِ بدخشاں نکلا
بارِ اول جو پڑی گنبدِ خضریٰ پہ نظر
صدفِ جاں سے مِری گوہرِ ارماں نکلا
تیرگی چَھٹ گئی، عالم میں اُجالے پھیلے
جب وہ خورشیدِ یقیں، نُور بداماں نکلا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی
ضو فشاں وحدانیت روشن اکائی ہو گئی
حشر میں جس وقت چشم مصطفائیؐ ہو گئی
پھر سمجھ لو قید دوزخ سے رہائی ہو گئی
میں تلاوت کر رہا تھا آیتیں قرآن کی
اور نبی پاکؐ کی مدحت سرائی ہو گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رب نے کشاد کر دیا دامانِ نعت ہے
"ہر شعبۂ حیات میں امکان نعت ہے"
ہم ایسے لوگ لائے ہیں ایمان غیب پر
یعنی ہمارے واسطے ایمان نعت ہے
تیرہ شبی میں نور کا مینار انﷺ کا نام
مُردہ دلوں کے درد کا درمان نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چلو یہ مانا تمہاری زاہد عبادتوں میں کمی نہیں ہے
مگر نہ جس میں ہو عشقِ احمدﷺ وہ بندگی بندگی نہیں ہے
کہاں ملے گا حسیں یہ جلوہ یہ سبز گنبد یہ پاک روضہ
درِ نبیؐ سے میں جاؤں کیسے ابھی طبعیت بھری نہیں ہے
وسیع ہے مصطفیٰﷺ کی رحمت ہے دائرے میں ہمیشہ امت
شہِ اممﷺ کے کرم کی چادر کہاں بتاؤ تنی نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قلب مسرور و منور ہے تیرے پیار کے ساتھ
روح کا چہرہ ہے روشن تیرے انوار کے ساتھ
میرا افلاس ہے محرومئ دیدار نبیﷺ
میں غنی ہوں گا فقط دولتِ دیدار کے ساتھ
نعت خوانئ نبیﷺ میرا مقدر ٹھہری
زیست گُلزار ہے کس طالع بیدار کے ساتھ
مجھے اپنا زمانے میں، بنا سکتے ہو، تو بولو
میرے درد و الم دل میں چُھپا سکتے ہو، تو بولو
وفا، چاہت، محبت اب نہیں ملتی زمانے میں
مجھے ہے بس، طلب ان کی جو لا سکتے ہو تو بولو
پہن کر لال جوڑا میں، تیری راہوں میں بیٹھی ہوں
میرے ماتھے پہ جُھومر اب سجا سکتے ہو تو بولو
ہوا ہوس کی چلی نفس مشتعل نہ ہُوا
جسے یہ بات میسّر ہوئی، خجل نہ ہوا
گُزر چلا مَن و تو سے فضائے ہُو کا حریف
بشر وہی جو گرفتارِ آب و گِل نہ ہوا
یہ اور بات ہے ظالم کی نیند اُڑ جائے
ارادتاً مِرا نالہ کبھی مُخل نہ ہوا
زخم ہمارے وہ سبھی دل کے
رفتہ رفتہ بھر گئے آخر
عشق میں جاں دینے والے
وقت پڑنے پہ مُکر گئے آخر
تمہارے دل میں اُترتے اُترتے
تمہارے دل سے اُتر گئے آخر
تمہارے شہر میں تھا بھی تو اک مسافر میں
سو تھک کے بیٹھ گیا راستے میں آخر میں
میں ہر لحاظ سے سیراب تھا خدا کی قسم
یہ اور بات کہ پیاسا رہا بظاہر میں
حروف ملتے ہی آواز ڈُوب جاتی ہے
جو چُپ رہوں نہ بتاؤ تو کیا کروں پھر میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نامِ آقاﷺ پر سنبھل کر دیکھنا
اپنی قسمت کو بدل کر دیکھنا
خُلد کی وادی میں ہے کیسا مزا
طیبہ کی گلیوں میں چل کر دیکھنا
تجھ کو لے جائے کبھی شاید ہوا
طیبہ کی خاطر مچل کر دیکھنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درِ مصطفیٰﷺ سے ممکن نہیں سوگوار آئے
وہ کوئی گدا ہو چاہے کوئی تاجدار آئے
کبھی چاند اور ستارے نہ نظر ملائیں اس سے
جو درِ نبیﷺ سے دامن میں لیے غبار آئے
ہیں بڑے کریمؐ آقا وہ کرم کریں گے سب پر
کوئی مفلس و گدا، یا کوئی شہریار آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کچھ اور ہو نہ ہو مجھے عرفانِ نعت ہے
اب میرے ذمے دیکھ قلمدان نعت ہے
یہ ذکر ہے خدا کا، یہی شان نعت ہے
ذکرِ نبیﷺ ہی اصل میں قرآن نعت ہے
جب سے سجائی محفلِ نعت و درود
میرا ہر ایک لمحہ گلستان نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر ایک سانس مہکتی ہوئی مِری گُزرے
تمہاری یاد میں آقاﷺ یہ زندگی گزرے
فقط گدائی نہیں سر نہادۂ در ہے
خمیدہ سر تِرےؐ کوچے سے خُسروی گزرے
مہ و نجوم میں اب تک ہیں اوج کے چرچے
زمانہ ہو گیا افلاک سے نبیﷺ گزرے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
والضحیٰ، واللیل کی آیاتِ پُر انوار سوچ
سوچنا ہے تو شبیہِ احمدﷺ مختار سوچ
نعت پاک مصطفیٰﷺ کے واسطے درکار ہے
عشق، پاکیزہ تخیل، عشق میں سرشار سوچ
ماورائے عقل و دانش مصطفیٰﷺ کی رفعتیں
محوِ حیرت عقل ہے بے بال و پر افکار سوچ
چاندی سا گھر
اک چاندی سا گھر تھا
جو برف پہ بنا تھا
زلزلوں میں گِھرا
راحتوں سے نامانوس
اور دُور میں
اپنے شکستہ بھروسوں کی آڑ لیے
شبِ فُرقت مصیبت ہے، نہیں تو
یہ آہیں کیا شکایت ہے، نہیں تو
نظر پھر کیوں نہیں ہٹتی ہے اُن سے
اُنہیں پانے کی حسرت ہے، نہیں تو
اُتاروں عشق کے دریا میں کشتی
تو کیا خود سے عداوت ہے، نہیں تو
آئینہ
اداس آنکھیں، بے قرار آنکھیں
آئینہ بھلا کیسے دِکھائے
ان میں چُھپے
دُکھ، درد، افلاس کو
ان میں بسی
بُھوک کو، پیاس کو
دیوانگئ شوق کا ساماں سجا کے لا
ناداں گُہر کوئی سرِ مژگاں سجا کے لا
فنکار تُو اگر ہے تو فن کا دکھا کمال
تصویرِ یار تا حدِ اِمکاں سجا کے لا
گُلشن پہ ہے خزاں کا تسلط تو غم نہیں
دل میں فریبِ حُسنِ بہاراں سجا کے لا
جب سے میرے باغ میں انگور کے دانے لگے
مجھ کو دنیا میں ہی جنت کے مزے آنے لگے
مے کشوں نے ہی نہیں ڈھونڈا مِرے گھر کا پتہ
شیخ صاحب بھی مجھے اب یاد فرمانے لگے
اک سرور و کیف کا عالم ہے طاری بِن پئے
پیالے سادہ پانی کے بھی مے کے پیمانے لگے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خالقِ کُل کی وہ تنویر کہاں سے لاؤں
یعنی سرکارؐ کی تصویر کہاں سے لاؤں
باندھ رکھا تھا صحابہؓ نے جسے قدموں پر
آہ، ان زخموں کی وہ لیر کہاں سے لاؤں
اُمتِ عاصی کی بخشش میں جو بہتے تھے سدا
چشمِ مازاغ کے وہ نِیر کہاں سے لاؤں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے وارثِؑ امامِ اُممﷺ! اور کتنی دیر
بیٹھیں گے انتظار میں ہم اور کتنی دیر
مولاؑ! برائے سجدہ جبیں کا سوال ہے
پنہاں رہیں گے نقشِ قدم اور کتنی دیر
اے وارثِؑ نجاتِ بشرﷺ! یہ بتائیے؟
دیکھیں گے ہم یہ عہدِ ستم اور کتنی دیر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر ناطقہ کے لب پہ ہی عنوانِ نعت ہے
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
مُدت سے ہوں سکون کی دولت سے فیض یاب
یہ بھی میں جانتا ہوں کہ احسانِ نعت ہے
جب خود ہی کہہ رہا ہے خدا نعتِ مصطفیٰﷺ
میں کیا بتاؤں دوستو! کیا شانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسے آقائے دو عالمﷺ سے محبت نہ ہوئی
ذات اس شخص کی پھر لائق عزت نہ ہوئی
قربت شاہ مدینہﷺ کا جو طالب نہ ہوا
اسے حاصل کبھی اللّه کی قُربت نہ ہوئی
جس طرح شاہ دو عالمؐ کی ہوئی ہے رفتار
ایسی تو بلبل سدرہ کی بھی سُرعت نہ ہوئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نازاں ہے دل بسا کے محبت رسولﷺ کی
قسمت سے میں نے پائی ہے نسبت رسولؐ کی
مٹ جائے میری چشمِ تمنا کی بے کلی
یا رب کرا دے مجھ کو زیارت رسولؐ کی
پھیلی ہوئی ہیں جلوۂ جاناں کی تابشیں
روشن جہاں ہے دیکھ کے طلعت رسولؐ کی
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یادوں کے گمنام جزیروں پر
جب بیٹھوں میں تنہا
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
سوچوں کے ٹھنڈے ساحل پہ
چلوں جو برہنہ پا
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
کبھی گیسوؤں پہ غزل لکھی، کبھی چشمِ مے کو سجا دیا
میری پہ تُو ناز کر،۔ تجھے شہریار بنا دیا
تھا گلی میں بیٹھا سِسک رہا، غمِ یک نفس سے تڑپ رہا
میں نے دُکھ کے بال سنوار کے، اُسے اپنے گھر کا پتہ دیا
سرِ شام ایسی ہوا چلی،۔ کہ چراغِ آرزو بُجھ گئے
فقط اک شرارۂ دل بچا، اُسے میں نے خود ہی بُجھا دیا
تیری چوکھٹ پہ سر جھکاؤں کیا
اپنی نظروں سے گِر ہی جاؤں کیا
جو مجھے دوستوں سے مِلتا رہا
زخم غیروں کو وہ دکھاؤں کیا
شعر میرے مجھے کریں رُسوا
اب غزل کوئی گنگناؤں کیا؟
خاک صحرا میں اُڑاتی ہے یہ دیوانی ہوا
اور بہاروں میں کرے گی چاک دامانی ہوا
پیڑ اُکھڑے، گھر گِرے، آندھی چلی، چھپّر اُڑے
چل پڑی جس وقت آبادی میں دیوانی ہوا
گرمیوں میں مُضطرب تھے لوگ پانی کے لیے
بادلوں کو کر گئی برسات میں پانی ہوا
محبت ہو تو شامِ غم بھی پر تنویر ہوتی ہے
چمک سی دل میں آنکھوں میں کوئی تصویر ہوتی ہے
نظر آئے بہت مسرور اربابِ چمن مجھ کو
نہیں معلوم کیا اس خواب کی تعبیر ہوتی ہے
یہی تاریکیاں غم کی پیامِ امن لائیں گی
اندھیروں کے پسِ پردہ سحر تعمیر ہوتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشقِ سرکارﷺ رُلائے تو مزہ آ جائے
دردِ دل اور بڑھائے تو مزہ آ جائے
جالیاں، گنبد و مینار، در و بامِ حرم
حسرتِ دید مٹائے تو مزہ آ جائے
پل میں سرکارؐ گئے عرش پہ جا کر آئے
نجدی بھی جا کے دکھائے تو مزہ آ جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تازگی چھا گئی جب لکھی نعت ہے
زندگی مل گئی جب پڑھی نعت ہے
نُور ہی نُور ہے اب فضا در فضا
پھر میں کیوں نہ کہوں روشنی نعت ہے
لوحِ آفاق پر حرفِ آخر وہی
صبحِ تازہ کے جیسی سجی نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرِ عرش ہے نقشِ پائے محمدﷺ
نہ جانے ہے کیا انتہائے محمدﷺ
سمجھتا ہے اکسیر کو بے حقیقت
جسے مِل گئی خاکِ پائے محمدﷺ
سماتا نہیں اوجِ کِسریٰ نظر میں
بھری ہے جو سر میں ہوائے محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چلے ہیں سُوئے عدم لے کے آرزوئے رسولﷺ
یہ حوصلہ ہے کہ دم لیں گے رُوبرُوئے رسولﷺ
ہماری شامِ لحد کی یہی ہے صُبحِ اُمید
قدم بہ عرصۂ محشر، نظر بہ رُوئے رسولﷺ
ہیں تخت و تاج ،زر و مال ان کی ٹھوکر میں
رہی ہے جن کے تصوّر میں آبرُوئے رسولﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے تخیل! مِدحتِ آقاﷺ کی تعبیرات سوچ
والضحیٰ، واللیل جیسی آج تشبیہات سوچ
باطہارت ہو کے اے دل! پڑھ محبت سے درودؐ
پیش کرنے کے لیے آقاؐ کو کچھ سوغات سوچ
ربِ ھبلی اُمتی کہتا رہا جو ہر گھڑی
اے خِرد! اس رحمتِ عالمؐ کے احسانات سوچ
خود سے پوچھے بِنا محبت کی
اور بُھگتی سزا محبت کی
اُس نے تو سرسری سا پوچھا تھا
میں نے دل سے کہا؛ محبت کی
پُوچھتا تھا کہ انتہا کیا ہے؟
مجھ سے بے انتہا محبت کی
بتا! بے فیض لمحوں کا گزارا کس طرح ہو گا
وہ جب اپنا نہیں ہے تو ہمارا کس طرح ہو گا
وہ جتنا ماند پڑتا جا رہا ہے اپنی سوچوں میں
ہمارے لاکھ کہنے پر ستارہ کس طرح ہو گا
ابھی تو سادگی ڈستی ہے اُس کی کافی لوگوں کو
کہ جب وہ ٹھیک سے ہم نے سنوارا، کس طرح ہو گا
تم ہو، انجم ہے کہ اک انجمن آرائی ہے
ہم ہیں، اک دشت ہے اور گوشۂ تنہائی ہے
تم خفا، گُل بھی خفا، اہلِ گُلستاں بھی خفا
ہم نے پُھولوں سے محبت کی سزا پائی ہے
اب تجھے میری جفاؤں پہ ہے شکوہ کیوں کر
میں نہیں اہلِ وفا، تُو بھی تو ہرجائی ہے
کاش اس کو بھی بچھڑنے پہ رنج و ملال ہو
جیسا ہمارا حال ہوا،۔ اس کا حال ہو
میری دعا ہے ان کا بلندی بنے نصیب
اور دوست چاہتے ہیں کہ میرا زوال ہو
خواہش نہیں کے ساتھ ہو لوگوں کا اژدہام
بس ایک ہو جو دوستی میں بے مثال ہو
نہ کوئی عشق رہا، اور نہ محبت ہے تمہیں
صاف ظاہر ہے کہ اب مجھ سے عداوت ہے تمہیں
مسئلہ حل نہیں ہو گا کبھی خاموشی سے
لب کو جُنبش دو اگر کوئی شکایت ہے تمہیں
میں تمہیں چھوڑ کے جاؤں یہ نہیں ہو سکتا
تم مجھے چھوڑنا چاہو تو اجازت ہے تمہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا نبیﷺ جنت میں بھی لنگر ملے
آپؐ کے ہاتھوں سے جو کوثر ملے
پا پیادہ پہنچوں میں دربار تک
"تیرےؐ کُوچے کا اگر رہبر ملے"
ہو گئی دہلیز انﷺ کی عرش سی
شمس سے بڑھ کر وہاں کنکر ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جھکے بہرِ تعظیم عرشِ علیٰ تک
رسائی اگر ہو تِرے نقشِ پا تک
تُو شاہ اُممؐ، خاتم المُرسلیںؐ ہے
گواہی یہ دیتا ہے کوہِ صفا تک
یہ تیرے وسیلے کا اعزاز دیکھا
اجابت پہنچتی ہے فوراً دعا تک
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لگتا کلام رب کا یہ عنوانِ نعت ہے
قرآن رب کا رب کی قسم شانِ نعت ہے
نعتوں کا سلسلہ نہیں رُکنے ہے والا یہ
اعلان اُس جہاں کا بھی اعلانِ نعت ہے
محوِ درود رب ہے فرشتے بھی ساتھ ہیں
گویا کہ ہر گھڑی یہاں فیضانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِرے سرکار کا مسکن وہاں ہے
"مدینہ رونقِ کون و مکان ہے"
بہت سے انبیاء آئے ہیں، لیکن
کوئی سرکارؐ کے جیسا کہاں ہے
مدینے میں ہیں سرکارِ دو عالمﷺ
مدینہ عظمتوں کا آسماں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم بھی اب لکھتے ہیں مدحت آپﷺ کی
جب سے حاصل ہے عنایت آپﷺ کی
یوں تو لفظوں میں بیاں ممکن نہیں
"سب سے اعلیٰ ہے نبوّت آپﷺ کی"
یہ عقیدہ ہے کہ ایماں کے لیے
شرطِ اوّل ہے محبت آپﷺ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کبھی ہیں زمیں پر کبھی آسماں پر محمدﷺ محمدﷺ
یہاں بھی ہیں رہبر، وہاں بھی ہیں رہبر محمدؐ محمدؐ
ہے ان کے ہی دم سے یہ رونق جہاں کی
انہیں کے کرم سے یہ رنگینیاں ہیں
ہیں صحرا میں دریا، چمن میں گُلِ تر محمدؐ محمدؐ
جمالِ محمدﷺ ہے نبیوں کا رہبر
میرے قرارِ راحتِ حاصل کے آس پاس
اِک پُھول کِھل رہا ہے مرے دل کے آس پاس
اِک آنکھ کے خُمار نے سرشار کر دیا
اِک کشتئ وصال کو ساحل کے آس پاس
میری اُمیدِ شب کے دِیے بُجھ کے رہ گئے
تیرے نجومِ ذات کی جِھلمل کے آس پاس
سردیوں کے موسم میں
جب تُو یاد آتی ہے
سُرمئ اندھیرے میں
آنکھ بھیگ جاتی ہے
نوچ نوچ لیتے ہیں
خار و خس محبت کے
صرف ہجر رہتا ہے
پیش و پس محبت کے
رُوح تک چلے آئے
حاشیے محبت کے
دُور ہوتے جاتے ہیں
زاویے محبت کے
شام بھی ادھوری ہے
رات بھی ادھوری ہے
ذیشان نشتر
آپ نے ایسے دل شکستی کی
دھجیاں اُڑ گئی ہیں ہستی کی
تیری تصویر سامنے رکھ کر
میں نے کل رات بُت پرستی کی
بُھول بیٹھے ہیں اپنے خالق کو
اور شکایت ہے تنگ دستی کی
یہ جو ٹکڑے ہیں دلِ ناکام کے
پُھول ہیں گویا چراغِ شام کے
میرے نالوں کی شرر ریزی سے آج
بُجھ گئے تیور چراغِ شام کے
دفن اُن کو کر دیا،۔ اچھا کیا
دل کے ٹُکڑے اور تھے کس کام کے
داستاں صبر کی غیروں کو سُنائی نہ گئی
جُز رسی دردِ خُدا داد میں پائی نہ گئی
فکرِ آزاد کو پروائے نشیمن کب تک
تہمتِ تنگ دلی مجھ سے اُٹھائی نہ گئی
حرکتِ نفس طلب، اور طلب لامحدود
لُطفِ ساقی ہے کہ یہ پیاس بُجھائی نہ گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رحمتِ کُل صاحبِ کوثرﷺ ملے
فضلِ رب کے خوب تر گوہر ملے
مجھ کو جنت کا پتہ مل جائے گا
"تیرے کُوچے کا اگر رہبر ملے"
بیٹیوں کے زخم سارے بھر گئے
بن کے مرہم جب انہیں سرورؐ ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے کرم کی انتہا نعتِ رسولﷺ
رحمتوں کا سلسلہ نعت رسولﷺ
میم کے پردے سے آتی ہے صدا
ہے رضائے کبریا نعت رسولﷺ
یاد طیبہ نے کیا بے چین جب
گنگنایا برملا نعت رسولﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مولیٰ بچائے رکھ مِرے افکار کا چراغ
روشن ہو تاکہ نعت کے اشعار کا چراغ
بزمِ تصورات میں رہتا ہے تابناک
طیبہ کے عکسِ گنبد و مینار کا چراغ
مقبولیت کے چرخ پہ تابندہ ہے سدا
ہر اِک دعائے سیدِ ابرارﷺ کا چراغ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کہتا ہے نعت وہ جسے عرفانِ نعت ہے
جانانِ جاں ہی شمع شبستانِ نعت ہے
جامی کا سوز دے مجھے سعدی کا رنگ دے
فکر رضا دے یا خدا ارمانِ نعت ہے
الفاظ تول تول کے میزانِ شرع میں
رکھنا قدم سنبھال کے میدانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس سمت دیکھیے ہے عنایت رسولﷺ کی
سنگ و شجر پہ ہوتی ہے رحمت رسولؐ کی
بس رب ہی جانتا ہے حقیقت رسولؐ کی
کیسے بیان ہو بھلا عظمت رسولؐ کی
ہے منفرد سبھی سے رسالت رسولؐ کی
لازم ہے ہر نبیؑ پہ اطاعت رسولؐ کی
ماہیا*/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
یہ ہائیکو دو طرح سے ملی ہے، دونوں نقل کر دیں ہیں
اُردو جیسا دل
آؤ دیکھو تم میرا
خُوشبو جیسا دل
٭
خُوشبو جیسا دل
ماہیا*/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
اس کے میٹھے بول
گائے کوئی پریم دیوانی
آنسوؤں میں گھول
اسلم راجا
ماہیا٭/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
شام نے اپنے رُوپ کی تھالی
موج کے آگے ایسے اُچھالی
کونپل کونپل رچ گئی لالی
حنیف اسعدی
ماہیا٭/٭ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
کرسی
جنگل کا خوں خوار درندہ کل تھا مِرا ہمسایہ
اپنی جان بچانے میں جنگل سے شہر میں آیا
شہر میں بھی ہے میرے خون کا پیاسا اک چوپایہ
حمایت علی شاعر
میری محبوبہ مجھ سے پوچھتی ہے
میری محبوبہ مجھ سے پوچھتی ہے؛
‘میرے اور فلک کے بیچ کیا فرق ہے؟’
فرق یہ ہے، میری جان
کہ جب تم ہنستی ہو
میں آسمان کو بھول جاتا ہوں
اے دلِ مُضطر ہیں یہ نالے عبث
شکوۂ جاں! تیرے مقالے عبث
پلکیں ابرُو نین لب کافی ہیں بس
خنجر برچھی تیغ اور بھالے عبث
آنکھیں دیتی ہیں مجھے جامِ شراب
ساقیا! تیرے سبھی پیالے عبث
زعفرانی غزل
جب حسینہ ملا کرے کوئی
اپنا نمبر دیا کرے کوئی
چار کُڑیوں سے پیار ہے اس کو
اس سے بولا حیا کرے کوئی
اپنی بیگم نہ منہ لگائے جب
کیا کسی کا گِلہ کرے کوئی
نیا زمانہ روایات میں مِلا مجھ کو
سراغ قحط کا برسات میں ملا مجھ کو
یقین، قلب و نظر کا فریب ہوتا ہے
مِرا خدا مِرے شبہات میں ملا مجھ کو
میں چاہتا تھا کہ اوقات دیکھ لوں اس کی
پھر ایک روز وہ اوقات میں ملا مجھ کو
عذابِ جاں تھا تِرا غم کہ جو سہا نہ گیا
مِرے انا تھی کھڑی درمیاں، کہا نہ گیا
مِرے خلوص نے کتنی گواہیاں دے دیں
مِرا نصیب، مِرے حق میں فیصلہ نہ گیا
انا کی جنگ میں حاصل نہ ہو سکا کچھ بھی
تمام عمر تعلق کا فاصلہ نہ گیا
دل ٹوٹ چکا، تارِ نظر ٹُوٹ رہا ہے
قسطوں میں مسافر کا سفر ٹوٹ رہا ہے
ہر روز بدلتا ہے نیا رنگ زمانہ
ہر شخص بہ اندازِ دِگر ٹوٹ رہا ہے
تُو غور سے دیکھے تو یہ معلوم ہو تجھ کو
جو کچھ ہے تِرے پیش نظر ٹوٹ رہا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل جو عشقِ شہِ لولاکﷺ سے آباد نہیں
دل وہ ہوتا ہے زمانے میں کبھی شاد نہیں
اذھبو کہنے کا مقصد ہے یہی محشر میں
کوئی بھی ان کے سوا صاحبِ امداد نہیں
صرف اک بار مجھے اذنِ مدینہ مل جائے
ماسوا اس کے کوئی سینے میں فریاد نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
غُبارِ رہِ رفتگاں رہ گیا
تصور میں اک کارواں رہ گیا
ستاتی رہی لحنِ اکبرؑ کی یاد
اسیروں میں ذکرِ اذاں رہ گیا
جلے اس طرح سے خیامِ حرم
زمیں رہ گئی، آسماں رہ گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بہرِ تعظیم فرشتوں کے بھی لشکر نکلے
پنجتن پاک جو اوڑھے ہوئے چادر نکلے
حکم فرما دیں حسینؑ ابنِ علیؑ تو فوراً
کرنے سیراب بہتّر کو سمندر نکلے
خانۂ کعبہ سے آنے لگی پیہم یہ صدا
دِیں بچانے کے لیے دِین کے رہبر نکلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خوب آیا مجھے جنت کی بھی جنت کا خیال
یعنی محبوبﷺ خداوند کی تُربت کا خیال
بلبلیں، دل کی مِرے، وجد میں آ جاتی ہیں
جب بھی آتا ہے مجھے آپؐ کی مِدحت کا خیال
ڈر ستانے لگا جب خاورِ محشر کا مجھے
مہرباں ہو گیا پھر چادرِ رحمت کا خیال
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تِرے گنبد کو دیکھیں اور تِرے مینار کو دیکھیں
مدینے میں پہونچ کر ہم تِرے دربار کو دیکھیں
خِرد کی آرزو ہے مطلعِ انوار کو دیکھیں
"نگاہوں کی تمنا ہے رخِ سرکار کو دیکھیں"
پہونچ جائیں مقدر سے کبھی ہم بھی مدینے میں
تِری گلیوں کو دیکھیں اور در و دیوار کو دیکھیں
عالمی رہنماؤں سے
عالمی رہنماؤں کی ہو خیر
جن کے کاندھے پہ ساری دنیا کی
ذمے داری کا بوجھ ہے یوں بھی
کون سی کمپنی کو لانا ہے
کون سی مٹا کے چھوڑنا ہے
اسلحے کے یہ سب کے سب انبار
بھیڑ میں گُونگوں کی پہچان بنانے کے لیے
حوصلہ چاہیے آواز اُٹھانے کے لیے
دِین انساں کی بھلائی کے لیے آیا تھا
رہ گیا اب یہ فقط کھانے کمانے کے لیے
پیار کو بُھولنا آسان نہیں ہے صاحب
مُدتیں لگتی ہیں اک شخص بُھلانے کے لیے
تلخ کر لیں زندگی کیوں فکر مستقبل سے ہم
باز آئے اس جنون سعیٔ لا حاصل سے ہم
یہ حرم یہ دیر یہ ہوش و خِرد کی گمرہی
ہر قدم کچھ دور ہی ہوتے گئے منزل سے ہم
انتہائے شوق میں ڈوبے ہوئے کھوئے ہوئے
تیری محفل میں بھی کتنی دور ہیں محفل سے ہم
یہ تیز گام جو طوفاں دکھائی دیتا ہے
مجھے تباہی کا امکاں دکھائی دیتا ہے
کسی کو عشق یہ آساں دکھائی دیتا ہے
ہمیں تو جان کا نقصاں دکھائی دیتا ہے
جہاں سے درد ملا در وہ چھٹ نہیں سکتا
وہیں پہ درد کا درماں دکھائی دیتا ہے
سنتے ہیں وفا کے رستے میں ہم تم کبھی منزل پا نہ سکے
اک ڈور جو پہلے اُلجھی تھی، ہم آج تلک سُلجھا نہ سکے
جب فصل بہاراں آئی تھی کچھ خواب بُنے تھے دونوں نے
ہم عہدِ وفا پر قائم ہیں،۔ ہاں آپ کرم فرما نہ سکے
یہ لالہ و گُل رنگین قبا میرے ہی لہو سے آج بھی ہیں
وہ آنکھ ہمیں دِکھلاتے ہیں جو آنسو بھی چھلکا نہ سکے
دیکھنا ہو جو قمر، اس کا سراپا دیکھو
گل کے پیکر میں مِرے یار کا چہرہ دیکھو
تم نے جو دیکھنا ہو چاند جھروکوں سے کبھی
شب کو حجرے سے کبھی اس کا نکلنا دیکھو
تیرا ہی نام لیے جاتا ہے دھک دھک میں یہ دل
کتنا پُر کیف ہے دھڑکن کا ترانہ دیکھو
آخری بار جب ملے تھے ہم
میں نے اس کو بتا دیا نشتر
عمر بھی کی جُدائیوں کے عِوض
چند لمحوں کا وصل کیا معنی
شوخ خوابوں کے بیج بونے پر
تلخ یادوں کی فصل کیا معنی
ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے
زمیں پہ پاؤں نہ تھے احتیاط کیا کرتے
شراب نام ہے خود ساختہ تغافل کا
خرد کو آگ لگی تھی نشاط کیا کرتے
جو ہم نشیں تھے گُل و خار کہہ دیا، ہمسر
فریبِ عہد ہے یہ، بے بساط کیا کرتے
کاسے میں ایک فقیر کے رکھا گیا مجھے
صدقہ سمجھ کے دل سے اُترا گیا مجھے
اک عشق رفتہ رفتہ ہنستا گیا مجھے
اک ہجر اپنے آپ میں کھاتا گیا مجھے
مثلِ گُلاب شاخ سے توڑا گیا مجھے
پھر یوں ہُوا، کتاب میں رکھا گیا مجھے
تمہارے بغیر
یہ ماہ و سال کی گردش یہ میری تنہائی
یہ زندگی کا سفر،۔ اور یہ آبلہ پائی
بہت حسیں ہے یہ منظر مگر تمہارے بغیر
مِرے وجود پہ ہر دم ہے مُردنی چھائی
اگرچہ عام ہے فطرت کا حسن ہر جانب
مِرے لیے تو کشش اس میں ہے نہ زیبائی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل میں جب عشقِ رسالتﷺ کا خیال آتا ہے
نُور آنکھوں میں، مِرے رُخ پہ جمال آتا ہے
حُسن والے بھی نظر آتے ہیں پھیکے پھیکے
سامنے ان کے جب آقاﷺ کا بلالؓ آتا ہے
جب تو کہتا ہے مِرے آقاﷺ کو اپنے جیسا
تیری باتوں پہ مجھے نجدی جلال آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اس کا دل ہوتا زمانے میں کبھی شاد نہیں
جس کا دل یار کی الفت سے ہے آباد نہیں
جن کے سینے میں ہے محبوبؐ خدا کی الفت
وہ کبھی ہوتے زمانے میں ہیں برباد نہیں
جو نبیؐ نے ہے کہا کرتے ہیں دیوانے وہی
اپنی جانب سے وہ کچھ کرتے ہیں ایجاد نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکر سرکارﷺ کا، مولیٰ نے کھلایا ہے گُلاب
کیسے پھر ختم ہو اس گل کا کبھی حُسن و شباب؟
یا نبیﷺ! آپ کی گستاخی کرے ہے جو بھی
اس پہ نازل ہو خداوند تعالیٰ کا عذاب
آپﷺ نے رحمت عالمﷺ کا لقب پایا ہے
ہر طرف برسا حضورﷺ آپ کی رحمت کا سحاب
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مصطفیٰؐ کے وصف میں تو ہر گھڑی ہر آن سوچ
فکر کی نازک گھڑی ہے فکر کر انسان سوچ
فکرِ حساںؓ، جزبِ سعدی، سوزِ رومی و رضا
یوں بزرگوں کی روش پر نعت کا عنوان سوچ
موسیٰؑ و عیسیٰؑ و آدمؑ، یوسفؑ و نوحؑ و خلیلؑ
سب کے وہؐ حاجت روا ہیں، ایسے ہیں ذی شان سوچ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہیں ہے یوں بھی اے میرے آقا کہ پیاس مجھ کو لگی نہیں ہے
تمہی پلاؤ گے روز محشر اسی لیے میں نے پی نہیں ہے
تمہاری نظروں کے جام پینے میں مر کے پہنچا یہاں تلک ہوں
ذرا تو ٹھہرو لحد میں آقاﷺ کہ پیاس اب تک بجھی نہیں ہے
کرم ہے ہم پر خدا کا کیسا کہ ہم کو اُمت مییں ایسی بھیجا
اُمم میں خیر اُلامم ہے اُمت، نبیﷺ کے جیسا نبیؑ نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشق بدرِ منیر ہو جاؤں
دو جہاں سے امیر ہو جاؤں
الفتِ شاہﷺ کا لبادہ پہن
میں بھی انؐ کی اسیر ہو جاؤں
اسوۂ مصطفیٰؐ پہ چل کر میں
خوب روشن ضمیر ہو جاؤں
ہر بڑے سے بڑی ہے بڑائی تِری
عرش سے بھی پرے ہے رسائی تری
اس قدر رب نے عظمت بڑھائی تری
مدح خواں ہو گئی کُل خدائی تری
جب اُٹھے ہاتھ میرے دُعا کے لیے
میں نے مانگی خدا سے گدائی تری
فاصلے منزلوں میں بدل دیجیے
آ کے فرعون سارے کچل دیجیے
منتظر ہیں کھڑے جان دینے کو سب
فیصلہ بھی تو کوئی اٹل دیجیے
امن کی راہ میں جو رکاوٹ بنے
سر اُٹھاتے ہی کچل دیجیے
بیٹھے بیٹھے پریشانیاں بڑھ گئیں
دل لگایا تو تنہائیاں بڑھ گئیں
پل دو پل کی ملاقات سے کیا ملا
اور بھی دل کی بیتابیاں بڑھ گئیں
تم کو تکنے کا اک فائدہ یہ ہوا
میری آنکھوں کی بینائیاں بڑھ گئیں
وہ زخم ملے روح کو پتھر کے صنم سے
کرتے ہیں شب و روز وضو دیدۂ نم سے
افسوس جوانی میں کمر جُھک گئی اُس کی
حیرت ہے کہ وہ ہار گیا، رنج و الم سے
راس آ گئی صحرا کو مِری اشک فشانی
اشجار سکوں پاتے ہیں اکثر مِرے غم سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ کو کچھ رنج نہیں ملتے ہیں حرمان نئے
نعت کی شکل میں مل جاتے ہیں درمان نئے
ایک اک لفظ میں قرآن کے پوشیدہ ہیں
یا نبی آپﷺ کی توصیف کے عنوان نئے
تلووں کے بوسے بھی لوں اور تکوں رخ ان کا
قلبِ جبریل میں ہیں دیکھیے ارمان نئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کس قدر ذات ہوئی آپؐ کی ذیشان حضورﷺ
آپ کی مدح میں مصروف ہے قرآن حضورﷺ
دیجیے طرز ثناء، صدقۂ حسانؓ حضورﷺ
نعت گوئی کا ہے دل میں مِرے ارمان حضورﷺ
مجھ سے ناچیز کو ہے آپ کی امت میں رکھا
مجھ پہ یہ رب دو عالم کا ہے احسان حضورﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نورِ مجسم، فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم
آپؐ کے ہوتے کیوں ہو ہمیں غم صلی اللہ علیہ و سلم
دونوں جہاں کے آپؐ ہیں مالک، آپؐ کے جیسا کوئی نہیں
کہتے رہیں گے دار پہ بھی ہم، صلی اللہ علیہ و سلم
ہوتی ثنا ہے جب بھی نبیؐ کی نور کی بارش ہوتی ہے
کیوں نہ کریں پھر ان کی ثنا ہم، صلی اللہ علیہ و سلم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دردِ دل کیا کہیں رستے میں پڑا ملتا ہے؟
حق کے محبوبؐ سے نسبت ہو تو آ ملتا ہے
دل کا کیا حال ہو حاصل جو حضوری ہو جائے
اُسﷺ کی فرقت میں تڑپنے سے مزا ملتا ہے
کچھ خبر بھی ہے تجھے نان و نمک کے سائل؟
اُسﷺ کے کُوچے میں گدائی سے خدا ملتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے محمدﷺ، اے سوارِ توسنِ وقتِ رواں
اے محمدﷺ، اے طبیبِ فطرت و نباضِ جاں
اے محمدﷺ، اے فقیہِ نفس و نقادِ جہاں
موت کو تُو نے وہ بخشی آب و تابِ جاوداں
زندگانی کے پجاری موت پر مرنے لگے
لوگ پیغامِ اجل کی آرزو کرنے لگے
بچھڑتے لمحے وہ مجھ سے کہہ رہا تھا
میری دعا ہے کہ تم عمرِ خضر پاؤ
اسے تو یہ خبر ہی نہیں کہ
اسی اک لمحے میں، میں مر گئی تھی
جب اس سے میں بچھڑ رہی تھی
رفعت انجم
عشق پُتلی سکیڑ دیتا ہے
ہجر بخیے ادھیڑ دیتا ہے
ظلم کرتا ہے بھاگتا پانی
پیڑ جڑ سے اُکھیڑ دیتا ہے
عشق پتھر ہے جب بھی گرتا ہے
شیشۂ دل تریڑ دیتا ہے
ہر زباں پہ فسانہ انہیں کا
لوگ ان کے، زمانہ انہیں کا
ہے گُلابوں میں رنگت انہیں کی
خُوشبوؤں میں ٹھکانہ انہیں کا
چاندنی کا ملائم اُجالا
چاند کا مُسکرانا انہیں کا
دل تو اک شخص کو نخچیر بنانے میں گیا
ساز دل نغمۂ دل گیر بنانے میں گیا
رات اک خواب جو دیکھا تو ہوا یہ معلوم
دن بھی اس خواب کی تصویر بنانے میں گیا
پرتوِ خانۂ موہوم غنیمت تھام مگر
وہ بھی اک نقشۂ تعمیر بنانے میں گیا
ارمان نکلتے دلِ پُر فن کے برابر
ویرانہ جو ہوتا کوئی گُلشن کے برابر
کیوں اہلِ نظر ایک ہے دونوں کی طبیعت
سُنبل نے جگہ پائی جو سوسن کے برابر
میں دام پہ گِرتا نہیں اے ذوقِ اسیری
ہاں کوئی قفس لائے نشیمن کے برابر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لا ریب یہاں اور عقبٰی میں اک ان کے کرم کا سایہ ہے
محبوبِ خداﷺ رحمت بن کر ہر دو عالم پر چھایا ہے
جو خلقِ خدا کا ہے سرورﷺ ہے حشر کے داور کا دلبر
وہ حُسنِ سراپا، نازشِ کُل، اہلِ دل کا سرمایہ ہے
ہیں خُلق پہ انس و جاں قرباں، ایک ایک ادا کے متوالے
اوصافِ نبیﷺ کی خُوشبو نے سارا عالم مہکایا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے اُمتِ رسولﷺ سے جنت بھری ہوئی
جنت میں ہے رسولﷺ کی امت بھری ہوئی
معمور دل ہے یادِ شہِ مشرقینﷺ سے
اس گھر میں دو جہاں کی ہے دولت بھری ہوئی
میں افصح العربﷺ کا ثناء گو ہوں دوستو
کیوں کر نہ ہو سخن میں فصاحت بھری ہوئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حقیقت میں وہ لطف زندگی پایا نہیں کرتے
جو یاد مصطفیٰؐ سے دل کو گرمایا نہیں کرتے
زبان پر شکوہِ رنج و الم، لایا نہیں کرتے
نبیؐ کے نام لیوا، غم سے گھبرایا نہیں کرتے
محمدﷺ مصطفیٰؐ کے باغ کہ پھول ایسے ہیں
یہ بے پانی کے تر رہتے ہیں، مُرجھایا نہیں کرتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نامِ نبیؐ تو وردِ زباں ہے ناؤ مگر منجدھار میں ہے
سوچ رہا ہوں اب بھی یقیناً کوئی کمی کردار میں ہے
یٰسیںؐ طٰہٰؐ شان ہے جس کی رحمتِ عالمؐ جس کا لقب
ہائے وہ سنگ و خشت کی زد پر طائف کے بازار میں ہے
ملکوں ملکوں شہروں شہروں دیکھ چکے ہیں ہم لیکن
ایسا رنگ و نور کہاں جو کوئے شہِ ابرارﷺ میں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شہرِ وفا کی دید ہے، بندے کی آرزو
محبوبﷺ کے مقام کو تکنے کی آرزو
آداب، اے حضورؐ! کہ لازم ہے کچھ شعور
ہے شہرِ دلربا میں جو جینے کی آرزو
یہ وہ مقامِ ناز ہے جس کے عروج پر
ملتی ہے ہر عروج کو ڈھلنے کی آرزو
ٹپہ ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
ہرکارہ سیّاں لایا
جُوہی کے پُھولوں کی ڈالی
اور سندیسہ بُھول گیا
میرا جی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
تروینی
اپنی ضد پر اڑی رہی وہ بھی
میں بھی سگریٹ کے کش لگاتا رہا
دونوں جلتے رہے محبت میں
زعیم رشید
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
نوحہ
بنسری توڑ دی گڈرئیے نے
اور چُپکے سے شہر میں جا کر
کارخانے میں نوکری کر لی
اسلم کولسری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
تُمہاری بات ابھی گُونجتی ہے کانوں میں
تُمہارا لمس مِری اُنگلیوں میں شامل ہے
ہمارے بیچ جُدائی کے معنی کچھ بھی نہیں
شوزب حکیم
مخالفت کا نیا اک جواب رکھنا ہے
کہ سنگ و خِشت کے بدلے گلاب رکھنا ہے
رفاقتوں سے تِرا دل بھی بھر گیا ہو گا
تِری خوشی کے لیے اجتناب رکھنا ہے
گئے دنوں کی حقیقت کو روئیے کب تک
سجا کے پلکوں پہ کوئی تو خواب رکھنا ہے
خزاں کے خوف سے کلیوں کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں
ہجوم رنگ و بو میں غم کے طوفاں دیکھ لیتا ہوں
بُھلا بیٹھا ہوں یاد تلخ ایامِ گزشتہ کی
مگر اب بھی کبھی خواب پریشاں دیکھ لیتا ہوں
تڑپ اُٹھتا ہوں غم سے سینہ چاکانِ گُلستاں کے
گُلوں کو دیکھ کر اپنا گریباں دیکھ لیتا ہوں
ہر قدم اُٹھتا ہے سیدھا اُس طرف
کوئی تو رہتا ہے میرا اس طرف
آدھا دریا ساتھ چلتا ہے مِرے
اور باقی آدھا دریا اس طرف
پُھول رکھنا اس کے قدموں میں صبا
جو بھی رہتا ہے ہمارا اس طرف
اے جان وفا اب تُو ہی بتا
یاد تمہاری جب آئی دل میں آیا گیت لکھوں
ساون کے سنہرے موسم میں تیری اک تصویر لکھوں
زلفین تمہاری شام لکھوں، باتوں کو سنگیت لکھوں
کچھ اور بتا اے جانِ وفا میں تجھ کو کیا کیا چیز لکھوں
صبح بنارس تیرا چہرہ، زُلفیں اودھ کی شام لکھوں
گالوں کو شفق آنکھوں میں چمک، ہونٹوں کو شرابی جام لکھوں
ہر ایک دن تھا اُسی کا ہر ایک رات اُس کی
مِرے بدن میں رہی مُدتوں حیات اس کی
مِری کتاب میں اس کا بیان سچ ہی تو ہے
کہ میرے ذہن پہ چھائی ہوئی ہے ذات اس کی
عجیب خواب دکھایا ہے رات آنکھوں نے
کہ میرے نام سے منسوب ہے برات اس کی
صبر کریں گے جب تک عشق نہیں ہوتا
دیکھیں اس کو کب تک عشق نہیں ہوتا
شرکت کچھ تو لازم ہے مطلوب کی بھی
طالب کے مطلب تک عشق نہیں ہوتا
اس کے بعد اماوس بھی تو پڑتی ہے
پورے چاند کی شب تک عشق نہیں ہوتا
یہ کام کر کے دِکھایا ہے میں نے چُھو کے اُسے
بشر، خدا سے بنایا ہے میں نے چھو کے اسے
کہ دیکھ! آپ ہی قسمت بنانی پڑتی ہے
ہزار بار بتایا ہے میں نے چھو کے اسے
قسم خدا کی اگر اس بدن کی خواہش ہو
بس اپنا مان بڑھایا ہے میں نے چھو کے اسے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدﷺ نام لکھتی ہوں فضائیں جُھوم جاتی ہیں
پکاروں اپنے آقاﷺ کو صدائیں جھوم جاتی ہیں
میرے مدنی کی آمد پہ میں جب میلاد کرتی ہوں
صدا میلادﷺ کی سن کر صبائیں جھوم جاتی ہیں
میں جب صل علی پڑھ کر دعائيں رب سے کرتی ہوں
ندائیں رقص کرتی ہیں، دعائيں جھوم جاتی ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حق کا لب پر جاری ہونا جرأتِ ایمانی ہے
زندگی کی قدر کر لو، دوستو! یہ فانی ہے
آپﷺ کی ختمِ نبوت کا یقیں ایمان ہے
اور اس پر شک، شبہ کرنا ہی بے ایمانی ہے
آقا جی کے دشمنوں سے دوستی جائز نہیں
حکم رب کا ہے یہ واضح، اور بیاں قرآنی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو ذرے ملے مجھ کو مدینے کے سفر میں
چُن چُن کے وہ سب رکھ لیے دامانِ نظر میں
بیٹھا ہوں لیے درد محمدﷺ کا جگر میں
اللہ کی رحمت سے ہے سب کچھ مِرے گھر میں
فردوس کے منظر میں، نہ وہ نورِ قمر میں
انوار بھرے ہیں جو مدینے کی سحر میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بحر و بر پر چھا گئی عظمت رسول اللہؐ کی
مرحبا، یہ شان، یہ شوکت رسول اللہ کی
پیروی باطل کی اور مِدحت رسول اللہ کی
کیا منافق ہو گئی امت رسول اللہﷺ کی؟
اہلِ ایماں پر ستم کی انتہا کرنے کے بعد
کُفر نے تسلیم کی طاقت رسول اللہ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شاہِ اُممؐ کی ایک نظر نے کس کس پر احسان کیا
ذرے کو خورشید بنایا، قطرے کو طوفان کیا
ذہن کو مثبت سوچ عطا کی انساں کو ذیشان کیا
بندوں کو خالق سے ملایا، مشکل کو آسان کیا
اس کی نوازش بے پایاں ہے لوگو جس کی رحمت نے
صحرا کو گلزار بنایا، دھوپ کو سائبان کیا
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
وقت کے کٹہرے میں
کب سے ہوں کھڑی تنہا
سازشوں کے پہرے میں
رفعت انجم
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
چاند چُھپ کے تکتا تھا
رات بالکونی میں
بے لباس بیٹھی تھی
نصیر احمد ناصر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
کالے موسم میں
وعدوں کی زنجیر کٹے
مشکل ہو آسان
خاور چودھری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
گلشن بلبل گل
چندا سورج یا تارے
سب لفظوں کے پل
رحمت یوسفزئی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
تمام رات خموشی سے ساتھ بیٹھے رہے
شبِ وصال نے بھی اُلجھنیں بڑھائیں ہیں
نجانے کون سی رنگت ہے یہ محبت کی
شوزب حکیم
شاعر تو پاگل ہوتے ہیں
کہتے ہیں لوک
یہ شاعر تو پاگل ہوتے ہیں
چلو مان لیتے ہیں
کہ شاعر پاگل ہوتے ہیں
پاگل کر دیتی ہے
بے وفائی زندگی کی
اُلفت میں، دل لگی میں، غمی میں، عذاب میں
تم ہی لگے ہو ہم کو ہمارے حساب میں
ہم آپ پر فدا ہیں،۔ بِلا حُجّت و دلیل
اسے کو ثواب کہیے، یا گِن لیں ٭عِقاب میں
اپنا جو مُدعا تھا وہ ہم عرض کر چکے
اب آپ حُکم اپنا سُنائیں جواب میں
کہاں کھڑے ہیں کہاں ہونا چاہیے تھا ہمیں
یہ نا رسائی کا دُکھ تو نا چاہیے تھا ہمیں
سمیٹ بھی چُکے تعبیریں خوابگاہوں سے وہ
ہم اب یہ سوچتے ہیں سونا چاہیے تھا ہمیں
پہنچ گیا ہے جبیں پر یہ بے نوائی کا داغ
تھا دل میں جب تو اسے دھونا چاہیے تھا ہمیں
تڑپتے دل کو کافی ہے بس اتنا واہمہ رکھنا
بچھڑنے والا لوٹے گا ہمیشہ حوصلہ رکھنا
چلے جائیں گے ہم بھی دوستو دُنیائے فانی سے
فقط اتنی گُزارش ہے، دُعا کا سلسلہ رکھنا
کہ ہم بدبخت لوگوں میں بس اک یہ ہی بُرائی ہے
دُعائیں دیر سے لگتی ہیں جانی حوصلہ رکھنا
بعد اُس کے میرے گھر میں اور کیا رہ جائے گا
بس کسی کے نام کا پتّھر لگا رہ جائے گا
کان بھر جائینگے میرے خلوتوں کے شور سے
اُس کی یادوں کا پیمبر بولتا رہ جائے
قید کر لے گا کوئی بچہ پروں کو کاٹ کر
آسماں کی سمت طوطا دیکھتا رہ جائے گا
بندوق
سرحدوں
کے درمیاں رکھی ہوئی بندوق نے
دو دلوں کو آج تک
ایک سینے میں نہیں رہنے دیا
اس طرف والوں نے یوں بھی اس طرف کے عشق میں
پیار کے دو بول کہنے تھے مگر
پھول چاہے تھے خار آئے ہیں
ہم بھی اپنوں سے ہار آئے ہیں
جان ہے تو جہاں ہے، اور ہم
جان بھی اس پہ وار آئے ہیں
چھوڑئیے نا یہ سب گِلے شِکوے
ہم محبت میں یار آئے ہیں
دن تو وہ تھے جو ساتھ تیرے تھے
اور وہ ہم گُزار آئے ہیں
احمد سعید
میری دل جوئی کی زحمت نہ اُٹھائے کوئی
رو کے بیٹھا ہوں مجھے پھر سے رُلائے کوئی
میرا سینہ تو یہ چھلنی ہے بہت پہلے سے
زخم اُلفت کا مجھے اب نہ لگائے کوئی
عمر گُزری ہے اسی زخمِ جگر میں میری
التجا ہے مجھے مرہم نہ لگائے کوئی
بے چارگی میں یاں وہاں پِھرتے ہیں ہم
تجھ سے بچھڑ کے بے اماں پھرتے ہیں ہم
ایسے اسیرانِ محبت ہیں تِرے
بن کے تِری ہی داستاں پھرتے ہیں ہم
کچھ پیر بھی دھرنے کو جا ملتی نہیں
تیرے خیالوں میں کہاں پھرتے ہیں ہم
ایک نظم لکھنی ہے
اس گھنگریالے بالوں والی لڑکی کے لیے
جو جوانی کے حسین دنوں میں بھی
اپنی لٹیں سلجھانے کی بجائے
مختلف رنگوں کی پینسلیں لیے
میرے نام کے حروف کی خطاطی میں مصروف ہے
احساس ہوا اس کے یوں رُوٹھ کے جانے پر
مانے گا نہیں شاید وہ آج منانے پر
ملتا تھا بہانے سے اب جانے ہوا ہے کیا
مُشکل سے ملتا ہے گھر اس کے بھی جانے پر
اب حرف شکایت بھی کیا کرتے بھلا ان سے
مجبور ہوئے ہیں ہم اب اس کو بُھلانے پر
کل رات
میں نے اپنا قتل کیا
اور لاش
اپنی ہنسی کے پیچھے
چُھپا دی
وسیم عباس
حاسد
ایک دن
چاندنی کے سحر میں
ریت پر اپنا جنوں تحریر کرنے آؤں گا
دوسرے سب خواب، ساری چاہتیں، سارے نشاں
میں سمندر ہوں
بہا لے جاؤں گا
سُنو
تم نے کسی ٹھہرے ہوئے نیلے سمندر کو
بہت نزدیک سے جا کر کبھی فُرصت میں دیکھا ہے
نہیں دیکھا؟
چلو اب کے کبھی موقع ملے تو دیکھنا جا کر
تمہاری بے کراں آنکھوں کی وُسعت ہو بہو وہ ہے
ایک چہرہ تمہاری آنکھوں میں
میں نے دیکھا تمہاری آنکھوں میں
جاتے جاتے ہی رہ گیا ہے دوست
کچھ ہمارا تمہاری آنکھوں میں
تم غزل ہو میر صاحب کی
ریختہ سا تمہاری آنکھوں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سکونِ قلب ہو آنکھوں کی ٹھنڈک روشنی ہو تمﷺ
شفیع المذنبیںﷺ ہو، نازشِ پیغمبرى ہو تمؐ
تلاشِ نقشِ پا میں زندگی لو وقف کرتے ہیں
طلب ہو مدعا ہو انحصارِ بندگی ہو تمؐ
معطر زندگی میری ہے بس نامِ محمدﷺ سے
تصور ہو، تخیل ہو، نشاطِ دائمی ہو تمؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں نام لیوا ہوں تیرا، تُو معتبر کر دے
حیات خوب نہیں ہے تو مختصر کر دے
حصارِ ذات کے زندانِ بے اماں کی خیر
غُبارِ راہ کی صُورت ہی مُنتشر کر دے
دروغِ مصلحت آمیز کے خرابے میں
انا پسند مزاجوں کو دربدر کر دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کلام اُس کا امامُ الکلام ٹھہرا ہے
مقام اُس کا ہی عالی مقام ٹھہرا ہے
بہت سے گُزرے ہیں پہلے، بہت سے گُزریں گے
غُلام اُس کا ہی ذِی احتشام ٹھہرا ہے
نظر اُٹھا نہ سکے اور نظر مِلا نہ سکے
کہ اُس کی نظروں میں ایسا نظام ٹھہرا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بڑی مشکل یہ ہے جب لب پہ تیرا ذکر آتا ہے
دماغ و دل میں اک خوابیدہ محشر جاگ اٹھتا ہے
ابل پڑتے ہیں سوتے بیکراں جذبِ محبت کے
اُبھر آتے ہیں خاکے تیری صورت تیری سیرت کے
کبھی جی چاہتا ہے تیری معصومی کے گُن گاؤں
کبھی جی چاہتا ہے سادگی کا ذکر کر ڈالوں
وعدوں سے کب تلک ہمیں بہلائیں گے جناب
کب تک ہمارے سر کی قسم کھائیں جناب
اپنا نہیں ہمیں تو ہے بس آپ کا خیال
تنہائیوں میں آپ ہی گھبرائیں جناب
ہجر و وصال دونوں کی لذّت جُدا جُدا
جانے کو جائیں، یہ کہیں کب آئیں جناب
غمگین مناظر کے طلبگار مجھے دیکھ
تیرے لیے ہوتا ہوں میں تیار مجھے دیکھ
معمار ہی تکتا نہیں تعمیر کی جانب
تعمیر تو کہتی ہے کہ؛ معمار مجھے دیکھ
بینائی گھٹا دیتی ہیں سورج کی شعائیں
اور تُو ہے جو کہتا ہے؛ لگاتار مجھے دیکھ
فریاد ہے کہ میری نظر سے نہاں رہے
اور جلوہ ریز آپ مکاں در مکاں رہے
گھر بے نشاں قفس سے رہائی چمن میں برق
اس بے بسی کے دور میں کوئی کہاں رہے
رُوداد اپنے عشق کی گُونگے کا خواب تھا
تا زیست اپنے راز کے خود رازداں رہے
اے کاش کہ میری راہوں میں بیتے وہ زمانے آ جائیں
میں سامنے ان کے بیٹھا ہوں، میرے دوست پُرانے آ جائیں
جو چھوڑ گئے تنہا مجھ کو، میں گیت انہیں کے گاتا ہوں
کسی روز وہ میری راہوں پہ، میرا دل ہی دُکھانے آ جائیں
اِک بار جو دُوری ہو جائے، تو ساتھ وہ چل بھی سکتے ہیں
پر بات کہاں وہ رہتی ہے،۔ وہ لاکھ منانے آ جائیں