Sunday, 31 December 2017

اس شہر صد آشوب میں اتری ہے قضا دیکھ

اس شہرِ صد آشوب میں اتری ہے قضا دیکھ
فرعون بنے بیٹھے ہیں مسند کے خدا دیکھ
بیٹھا ہے ہما رہزن و غدار کے سر پر
معصوم پرندے کی ہے معصوم ادا دیکھ
سوئی ہے کفن اوڑھے جو مزدور کی بیٹی
افلاس کے ہاتھوں پہ جلا رنگِ حنا دیکھ

حشر برپا ہے مرے جامہ عریانی سے

حشر برپا ہے مِرے جامۂ عریانی سے
داغ جاتا ہی نہیں عشق کا پیشانی سے
کعبۂ دل میں ہے بت خانہ بھی، میخانہ بھی
خوف آتا ہے مجھے اپنی مسلمانی سے
تیری آنکھیں ہیں مئے مست کے ساغر لیکن
سارے طوفاں ہیں مِرے خون کی جولانی سے

داستاں عشق کی مقتل کا بیاں ٹھہرے گی

گفتگو درد کی عالم کی زباں ٹھہرے گی
داستاں عشق کی مقتل کا بیاں ٹھہرے گی
شاہِ ست رنگ نے اک حشر سجایا ہے نیا
بندگی دہر کی اب حکمِ رواں ٹھہرے گی
شیخ و واعظ کا بیاں، فلسفۂ عشقِ بتاں
شاعری دیر و کلیسا کی اذاں ٹھہرے گی

Friday, 29 December 2017

دھیمے رنگوں کی دھوپ جیسی ہے

دھیمے رنگوں کی، دھوپ جیسی ہے
وہ ہنسی، کچی دھوپ جیسی ہے
رنگ آنکھوں کے ہو گئے گہرے
شام بھی، پکی دھوپ جیسی ہے
میں فقط، عکسِ آبِ آئینہ ہوں
یعنی، چمکیلی دھوپ جیسی ہے

کیا امید آس ٹوٹنے تک تھی

کیا امید، آس ٹوٹنے تک تھی
کیا مِری ہار ماننے تک تھی
کیا تِرا ہجر، ہجر ہی رہے گا
کیا تِری خوشبو سوچنے تک تھی
کیا مِری چپ سمجھ نہیں پائے
کیا ہر اک بات بولنے تک تھی

پہلے تو اس نے خود میں کیا مبتلا مجھے

پہلے تو اس نے خود میں کیا مبتلا مجھے
مجھ سے ہی رفتہ رفتہ کیا پھر جدا مجھے
آنکھوں میں رکھ رکھاؤ تو پہلے سا تھا مگر
لہجے کی سلوٹوں سے لگا دوسرا مجھے
جب تک انا تھی مجھ میں محبت نہیں ہوئی
خود کو فنا کیا تو ملا راستہ مجھے

جالے بنتی ہوئی مکڑی نہیں دیکھی جاتی

جالے بُنتی ہوئی مکڑی نہیں دیکھی جاتی
ماں، ترے گھر کی اداسی نہیں دیکھی جاتی
تجھ سلیقے سے ہر اک کونہ چمک اٹھتا تھا
صحن میں اب جمی کائی نہیں دیکھی جاتی
کس طرح تجھ کو بتاؤں، ترے ہونے کی کمی
گھر کے ہر طاق میں بیٹھی نہیں دیکھی جاتی

Thursday, 28 December 2017

مشورہ کس نے دیا تھا کہ مسیحائی کر

مشورہ کس نے دیا تھا کہ مسیحائی کر 
زخم کھانے ہیں تو لوگوں سے شناسائی کر 
جیب خالی ہے تو کیا دل سے دعائیں دینگے 
ہم سے درویشوں کی نادان پذیرائی کر 
پھر نظر آئے گی آسان یہ دنیا تجھ کو 
آنکھ سے دیکھ مگر دل کو تماشائی کر 

اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا

اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا 
پھولوں کو ہنستا دیکھ کے گھر یاد آ گیا 
تتلی کے ساتھ آئی تِری یاد بھی ہمیں 
رکھا ہوا کتاب میں پر یاد آ گیا 
بیٹھے تھے جس کی چھاؤں میں ہم دونوں مدتوں 
کیا جانے آج کیوں وہ شجر یاد آ گیا 

اس کے ہونٹوں پہ بد دعا بھی نہیں

اس کے ہونٹوں پہ بددعا بھی نہیں 
اب مِرے واسطے سزا بھی نہیں 
لفظ خاموشیوں کا پردہ ہیں 
بولتا ہے وہ بولتا بھی نہیں 
میں نے پھولوں کو کھلتے دیکھا ہے 
اس نے ہونٹوں سے کچھ کہا بھی نہیں 

وہ نہ آئے گا یہاں وہ نہیں آنے والا

وہ نہ آئے گا یہاں، وہ نہیں آنے والا 
مجھ کو تنہائی کا احساس دلانے والا
کیا خبر تھی کہ ترس جائے گا تعبیروں کو 
اپنی آنکھوں میں تِرے خواب سجانے والا
اپنی تدبیر کے انجام سے ناواقف ہے 
حال تقدیر کا اوروں کو بتانے والا

ہوئی ہم سے یہ نادانی تری محفل میں آ بیٹھے

ہوئی ہم سے یہ نادانی تِری محفل میں آ بیٹھے 
زمیں کی خاک ہو کر آسمان سے دل لگا بیٹھے 
ہوا خونِ تمنا، اس کا شکوہ کیا کریں تم سے 
نہ کچھ سوچا نہ کچھ سمجھا جگر پر تیر کھا بیٹھے 
خبر کیا تھی گلستانِ محبت میں بھی خطرے ہیں 
جہاں گرتی ہے بجلی ہم اسی ڈالی پہ جا بیٹھے 

غم عشق رہ گیا ہے غم جستجو میں ڈھل کر

غمِ عشق رہ گیا ہے غمِ جستجو میں ڈھل کر 
وہ نظر سے چھپ گئے ہیں مِری زندگی بدل کر 
تِری گفتگو کو ناصح دلِ غم زدہ سے جل کر 
ابھی تک تو سن رہا تھا مگر اب سنبھل سنبھل کر 
نہ ملا سراغِ منزل کبھی عمر بھر کسی کو 
نظر آ گئی ہے منزل کبھی دو قدم ہی چل کر 

خوش ہوں کہ مرا حسن طلب کام تو آیا

خوش ہوں کہ مِرا حسنِ طلب کام تو آیا 
خالی ہی سہی میری طرف جام تو آیا 
کافی ہے مِرے دل کی تسلی کو یہی بات 
آپ آ نہ سکے،۔۔ آپ کا پیغام تو آیا 
اپنوں نے نظر پھیری تو دل تُو نے دیا ساتھ 
دنیا میں کوئی دوست مِرے کام تو آیا 

رنگ صنم کدہ جو ذرا یاد آ گیا

رنگِ صنم کدہ جو ذرا یاد آ گیا 
ٹوٹیں وہ بجلیاں کہ خدا یاد آ گیا 
ہر چند دل کو ترکِ محبت کا تھا خیال 
لیکن کسی کا عہدِ وفا یاد آ گیا 
جیسے کسی نے چھین لی رنگینیٔ بہار 
کیا جانئے بہار میں کیا یاد آ گیا 

Wednesday, 27 December 2017

آخری بار آہ کر لی ہے

آخری بار آہ کر لی ہے
میں نے خود سے نباہ کر لی ہے
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
دن بھلا کس طرح گزارو گے؟
وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے

رنگ باد صبا میں بھرتا ہے

رنگ بادِ صبا میں بھرتا ہے
میرا اک زخم شام کرتا ہے
سب یہی پوچھتے ہیں مجھ سے کہ تُو
کیوں سدھارے نہیں سدھرتا ہے
روز شام و سحر کی راہوں سے
ایک انبوہ کیوں گزرتا ہے؟

تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو

تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو
فکرِ ایجاد میں گم ہوں مجھے غافل نہ سمجھ
اپنے انداز پر ایجاد کروں گا تجھ کو
نشہ ہے راہ کی دوری کا کہ ہمراہ ہے تُو
جانے کس شہر میں آباد کروں گا تجھ کو

ہونے کا دھوکہ ہی تھا

ہونے کا دھوکا ہی تھا
جو کچھ تھا وہ تھا ہی تھا
اب میں شاید تہ میں ہوں
پر وہ کیا دریا ہی تھا؟
بُود میری ایسی بکھری
بس میں نے سوچا ہی تھا

چپ رہتا ہے وہ اور آنکھیں بولتی رہتی ہیں

چپ رہتا ہے وہ اور آنکھیں بولتی رہتی ہیں 
اور کیا کیا بھید نظر کے کھولتی رہتی ہیں 
وہ ہاتھ میرے اندر کیا موسم ڈھونڈتا ہے 
اور انگلیاں کیسے خواب ٹٹولتی رہتی ہیں 
اک وقت تھا جب یہی چاند تھا اور سناٹا تھا
اور اب یہی شامیں موتی رولتی رہتی ہیں 

Tuesday, 26 December 2017

جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا

جز طلب اس سے کیا نہیں ملتا
وہ جو مجھ سے ذرا نہیں ملتا
جان لینا تھا اس سے مل کے ہمیں 
بخت سے تو سوا نہیں ملتا
زخم کھلنے کے منتظر کب سے 
اور لمسِ ہوا نہیں ملتا

بھولا نہیں دل عتاب اس کے

بھولا نہیں دل عتاب اس کے 
احسان ہیں بے حساب اس کے
آنکھوں کی ہے ایک ہی تمنا
دیکھا کریں روز خواب اس کے 
ایسا کوئی شعر کب کہا ہے 
جو ہو سکے انتساب اس کے 

جب ساز کی لے بدل گئی تھی

جب ساز کی لے بدل گئی تھی
وہ رقص کی کون سی گھڑی تھی
اب یاد نہیں کہ زندگی میں 
میں آخری بار کب ہنسی تھی
جب کچھ بھی نہ تھا یہاں پر ما قبل
دنیا کس چیز سے بنی تھی 

Monday, 25 December 2017

تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر

تُو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر 
خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر 
میں اجنبی نہیں ہوں مجھے روند کر نہ جا 
نظریں ملا کے دیکھ، پلٹ کر کلام کر 
بالائے بام آنے کا گر حوصلہ نہیں 
پلکوں کی چلمنوں میں سمٹ کر کلام کر 

سانسوں میں مل گئی تری سانسوں کی باس تھی

سانسوں میں مل گئی تِری سانسوں کی باس تھی 
بہکی ہوئی نظر تھی کہ پھر بھی اداس تھی 
بے شک شکستِ دل پہ وہ مبہوت رہ گیا 
لیکن شکستِ دل میں بھی زندہ اک آس تھی 
گر تو مِرے حواس پہ چھایا ہوا نہ تھا 
ہستی وہ کون تھی جو مِرے دل کے پاس تھی 

میں نے جو آج کھائے ہیں غالب پسند آم

غالب پسند آم

میں نے جو آج کھائے ہیں غالب پسند آم
مجھ کو پسند آئے ہیں غالب پسند آم
طبع رواں کے واسطے مصرعہ طرح ہیں یہ
پیغامِ شعر لائے ہیں غالب پسند آم
فکرِ جواں کو جیسے ایک مہمیز مل گئی
شاعر کو اتنے بھائے ہیں غالب پسند آم

Saturday, 23 December 2017

حبس بیجا میں رہ نہیں سکتا

حبسِ بیجا میں رہ نہیں سکتا
عمر بھر جبر سہہ نہیں سکتا
کتنے طوفان ہیں خموشی میں
میں جو سنتا ہوں کہہ نہیں سکتا
ریت میں ڈوب جاؤں گا، لیکن
ان سرابوں میں بہہ نہیں سکتا

انا کی دھوپ اور پہر تعلق

انا کی دھوپ اور پہرِ تعلق
ہے کتنا اجنبی شہرِ تعلق
لبوں پہ آ گیا دشنام بن کر
رگوں میں پھیلتا زہرِ تعلق
مزاجِ یار کا بل کھاتا دریا
ابھرتی ڈوبتی لہرِ تعلق

دسمبر آ گیا پھر سن نگلنے

حسابِ عمر کا ہندسہ بدلنے
دسمبر آ گیا پھر سن نگلنے
انگیٹھی، گرم کافی، اور کمبل 
لگی ٹھٹھری ہوئی یادیں پگھلنے
نکل جاتا ہوں بچ کر الجھنوں سے
سڑک پر زرد پتوں سے الجھنے

یہ شہر رفیقاں ہے دل زار سنبھل کے

یہ شہر رفیقاں ہے دلِ زار سنبھل کے 
ملتے ہیں یہاں لوگ بہت روپ بدل کے 
عارض ہیں کہ مرجھائے ہوئے پھول کنول کے 
آنکھیں ہیں کہ جھلسے ہوئے خوابوں کے محل کے 
چہرے ہیں کہ مرجھائے ہوئے پھول کنول کے
آنکھیں ہیں کہ جھلسے ہوئے خوابوں کے محل کے 

یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں

یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں 
اک سرابِ تشنگی ہے موجۂ صہبا یہاں 
روشنی کے زاویوں پر منحصر ہے زندگی 
آپ کے بس میں نہیں ہے آپ کا سایہ یہاں 
آتے آتے آنکھ تک دل کا لہو پانی ہوا 
کس قدر ارزاں ہے اپنے خون کا سودا یہاں 

اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے

اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے 
ایسا نہ ہو زمیں کا جواب آسمان دے 
پڑھنا ہے تو نوشتۂ بین السطور پڑھ 
تحریر بے حروف کے معنی پہ دھیان دے 
سورج تو کیا بجھے گا مگر اے ہوائے مہر 
تپتی زمیں پہ ابر کی چادر ہی تان دے 

Friday, 22 December 2017

ہوائے شام نہ جانے کہاں سے آتی ہے

ہوائے شام نہ جانے کہاں سے آتی ہے 
وہاں گلاب بہت ہیں جہاں سے آتی ہے 
یہ کس کا چہرہ دمکتا ہے میری آنکھوں میں 
یہ کس کی یاد مجھے کہکشاں سے آتی ہے 
اسی فلک سے اترتا ہے یہ اندھیرا بھی 
یہ روشنی بھی اسی آسماں سے آتی ہے 

آنکھوں میں اک خواب ہے اس کو یہیں سجاؤں گا

آنکھوں میں اک خواب ہے اس کو یہیں سجاؤں گا 
تھوڑی زمیں ملی تو اک دن باغ لگاؤں گا 
شہر جو تم یہ دیکھ رہے ہو اس میں کئی ہیں شہر 
میرے ساتھ ذرا نکلو تو سیر کراؤں گا 
میرے لیے یہ دیوار و در جیسے ہیں اچھے ہیں 
اس گھر کی آرائش کر کے کسے دکھاؤں گا 

خواب آنکھوں میں سوالی ہی رہے

خواب آنکھوں میں سوالی ہی رہے 
کاسۂ تعبیر خالی ہی رہے 
رقص کرتی خواہشوں کے زیرپا 
دل شکار پائمالی ہی رہے 
خاک ہو جاتے لہو کی آگ میں 
جسم کے کوزے سفالی ہی رہے

کتنا کوئی آن پکارے کتنا سر ٹکرائے

کتنا کوئی آن پکارے، کتنا سر ٹکرائے
آئینے کے اندر ہے جو، باہر کیسے آئے
رفتہ، موجودہ، آئندہ کی تقسیم سے باہر
ایک زمانہ تیرا میرے اندر چلتا جائے
شاید پیچھے آنے والے ہم سے بہتر دیکھیں
ہم نے کچھ دروازے کھولے، کچھ پردے سرکائے

جہاں کے رخ پہ اگر کھڑکیاں بناتے ہم

جہاں کے رخ پہ اگر کھڑکیاں بناتے ہم
تو صرف سانس کی آسانیاں بناتے ہم
پہن پہن کے دکھانے کو ڈھیر لگ جاتا
یہ شور کاٹ کے تنہائیاں بناتے ہم
کوئی تو خواب کے اس پار بھی پہنچ جاتا
ذرا سا جاگتے، اور کشتیاں بناتے ہم

ذرا سا شر تھا اگر خیر سے نکل جاتا

ذرا سا شر تھا اگر خیر سے نکل جاتا
تعلقات کا مفہوم ہی بدل جاتا
کوئی سنہری کرن روز ہم بنا لیتے
یہ برف ہوتا ہوا شہر کچھ پگھل جاتا
کسی شجر پہ محبت سے ہاتھ رکھ دیتے
تو گھونسلوں پہ مسلّط عذاب ٹل جاتا

دنیا تیرے مطلب کی ہے تو دنیا کے مطلب کا

دنیا تیرے مطلب کی ہے، تُو دنیا کے مطلب کا 
اور دونوں کے پاس نہیں ہے کچھ بھی میرے مطلب کا
اصلی بات پہ کیا پھل آتا ہاہا کار کے موسم میں 
سب نے باغ لگا رکھا ہے اپنے اپنے مطلب کا
اپنی ہی آواز پہ لٹو ہو کر ابنِ آدم نے
کیسا کیسا لفظ بنایا کیسے کیسے مطلب کا

دوستداران وفا گم ہو گئے

دوستدارانِ وفا گم ہو گئے
وائے اربابِ وفا گم ہو گئے
راستے پر پیچ ، راہی دلفگار
رہبروں کے نقشِ پا گم ہو گئے
رات کے تاریک سناٹوں کے ساتھ
مطربانِ خوشنوا گم ہو گئے

ٹل نہیں سکتا کسی حالت میں فرمان حسین

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام الشہدا امام حسین 

ٹل نہیں سکتا کسی حالت میں فرمان حسین
ثبت ہے تاریخ کے چہرے یہ عنوان حسین
معصیت سے بھی سوا ہے طاقت فسق و فجور
تھا کتاب اللہ کی تفسیر کا اعلان حسین
سر کٹا کے دین ابراہیمؑ کو زندہ کیا
دین قیم کا مرقع تھے جوانان حسین

Wednesday, 20 December 2017

اسے منا کر غرور اس کا بڑھا نہ دینا

اسے منا کر غرور اس کا بڑھا نہ دینا 
وہ سامنے آئے بھی تو اس کو صدا نہ دینا 
خلوص کو جو خوشامدوں میں شمار کر لیں 
تم ایسے لوگوں کو تحفتاً بھی وفا نہ دینا 
وہ جس کی ٹھوکر میں ہو سنبھلنے کا درس شامل 
تم ایسے پتھر کو راستے سے ہٹا نہ دینا 

پیار دلار کے سائے سائے چلا کرو

پیار دلار کے سائے سائے چلا کرو 
جلتے لوگو! کچھ تو اپنا بھلا کرو 
پیار کی آنچ نکھار کا باعث بنتی ہے 
جلنا ہے تو پیار کی آگ میں جلا کرو 
سوچ تمہاری کندن بن کر دمکے گی 
کسی کی تپتی یادوں میں تم ڈھلا کرو 

اس دور میں توفیق انا دی گئی مجھ کو

اس دور میں توفیقِ انا دی گئی مجھ کو 
کس جرم کی آخر یہ سزا دی گئی مجھ کو 
میں نے جو کیا فصلِ بہاراں کا تقاضا 
اک پھول کی تصویر دکھا دی گئی مجھ کو 
یہ کون مِرے نام کو دہرا سا رہا ہے 
شاید کسی گنبد میں صدا دی گئی مجھ کو 

تمام تر اسی خانہ خراب جیسا ہے

تمام تر اسی خانہ خراب جیسا ہے 
مِرے لہو کا نشہ بھی شراب جیسا ہے 
نہا رہا ہوں میں اسکے بدن کی کرنوں میں 
وہ آدمی ہے، مگر ماہتاب جیسا ہے 
کروں تلاش جواہر تو ریت ہاتھ آئے 
سمندروں کا چلن بھی سراب جیسا ہے 

سامان طرب اور زمانے کے لیے ہیں

سامانِ طرب اور زمانے کے لیے ہیں
ہم جسم کا اسباب اٹھانے کے لیے ہیں
اے کاریگرِ حسن کبھی تُو نے یہ سوچا
یہ چاند بھی مٹی میں ملانے کے لیے ہیں
ان سوختہ جانوں کو نہ دھرتی میں اتارو
یہ پھول تو گنگا میں بہانے کے لیے ہیں

وہ لوگ اب وہ لوگ نہ جانے کدھر گئے

وہ لوگ اب وہ لوگ نہ جانے کدھر گئے
میلے بھرے بھرائے جو سنسان کر گئے
کچھ ساتھیوں کو وقت کا سنسار لے گیا
کچھ زندگی کے بوجھ تلے آ کے مر گئے
آنکھوں میں ایک بوند بھی پانی نہیں رہا
بادل سمٹ گئے ہیں کہ دریا اتر گئے؟

لوگ بڑے ہمدرد زمانہ اچھا ہے

لوگ بڑے ہمدرد، زمانہ اچھا ہے
پھر بھی یارو! زخم چھپانا اچھا ہے
شاید کوئی بچھڑا ساتھی آن ملے
سارے رستے گرد اڑانا اچھا ہے
اتنا زیادہ خون کہاں سے لاؤ گے
بیماروں کو زہر پلانا اچھا ہے

کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے

کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے 
سلسلہ وقت کا تلوار سے جا ملتا ہے 
میں جہاں بھی ہوں مگر شہر میں دن ڈھلتے ہی 
میرا سایہ تِری دیوار سے جا ملتا ہے 
تیری آواز کہیں روشنی بن جاتی ہے 
تیرا لہجہ کہیں مہکار سے جا ملتا ہے 

کیا رنج کہ یوسف کا خریدار نہیں ہے

 کیا رنج کہ یوسف کا خریدار نہیں ہے 

یہ شہر کوئی مصر کا بازار نہیں ہے 

کیوں میری گرفتاری پہ ہنگامہ ہے ہر سو 

وہ کون ہے جو تیرا گرفتار نہیں ہے 

کس کس پہ عنایت نہ ہوئی تیری نظر کی 

بس ایک مری سمت گہر بار نہیں ہے 

Tuesday, 19 December 2017

خوبصورت پھولوں اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم

خوبصورت پھولوں
اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم 
تم میری روح اور میرے بدن کے درمیان 
یوں ہو 
جیسے زمین اور آسمان کے درمیان 
ٹمٹماتے ہوئے ستارے 

میری شام غم میری شام غم میرے پاس آ

تنہائی

میری شام غم میری شام غم 
میرے پاس آ مجھے روز و شب کی فیصل پر 
میری پور پور میں درد بن کے اتر گیا 
جو کہیں کہیں پہ پڑاؤ تھا میرا آب اشک کی جھیل پر 
تیرے جیسے ہی کسی خیر خواہ سے کم نہ تھا 

درد کی کالی کوٹھڑی میں

ویرانی

درد کی کالی کوٹھڑی میں 
عمر قید کے سزا یافتہ 
بے قرار اور گھبرائے ہوئے دل کا عالم 
اور دل میں قید
شکستہ اور کملائی ہوئی آرزوئیں 

چمن زادوں سے کہنا

ایک خط

چمن زادوں سے کہنا
دل نے ایسے زخم کھائے ہیں
وہ صدمے آزمائے ہیں
کہ اب لحنِ ہوا میں وحشتِ افتادگی ہے
اور نہ اندھی آنکھ خوابوں کو ترستی ہے

نئی رتوں کا نوحہ خالد شریف

نئی رتوں کا نوحہ

چلو زمانوں کی دھول پھانکیں
پرانے قصوں کے خالقوں کی اداس روحوں سے داد مانگیں
کہ ہم نے ان کے ہر ایک چہرے کو نقش بخشے
کہ ہم نے اپنے جواں لہو کو سپید قرطاس پر انڈیلا
کہ ہم نے بوسیدہ مرقدوں پر نئے چراغوں سے روشنی کی

پریپریشن

پریپریشن

ہمیں تیار کرنا ہے
اب آنے والی ساعت کے لیے
خود کو
ہمیں تیار کرنا ہے
نہ میں الزام دوں تم کو
نہ تم الزام دو مجھ کو

سردیوں کی دھوپ

سردیوں کی دھوپ

ابھی کچھ روز پہلے
سردیوں کی دھوپ میں
بیٹھے ہوئے اس نے کہا تھا
زندگی کتنی حسیں ہے
پھول کتنے خوبصورت ہیں

بنجارہ

بنجارہ

میں بنجارہ
وقت کے کتنے شہروں سے گزرا ہوں
لیکن
وقت کے اس اک شہر سے جاتے جاتے مڑ کے دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
تم سے میرا یہ ناتا بھی ٹوٹ رہا ہے

فساد سے پہلے

فساد سے پہلے

آج اس شہر میں
ہر شخص ہراساں کیوں ہے
چہرے
کیوں فق ہیں
گلی کوچوں میں
کِس لیے چلتی ہے

وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا

وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا 
ہم نے تو آج تک تمہیں دل سے جدا نہیں کیا 
ہم ہی وہ کم نصیب تھے مانگے ملی نہ موت بھی 
آپ کا کیا قصور ہے آپ نے کیا نہیں کیا 
موم ہوئے پگھل گئے، سنگ بنے چٹخ گئے 
پھر بھی زباں سے آج تک ہم نے گلہ نہیں کیا 

اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی

اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی 
صحرا نصیب کے لیے چھاؤں گھنی رہی 
وہ نقش ہوں جو بن کے بھی اب تک نہ بن سکا 
وہ بات ہوں جو کہہ کے بھی نا گفتنی رہی 
پتھر کا بت سمجھ کہ یہ کس شے کو چھو لیا 
برسوں تمام جسم میں اک سنسنی رہی 

نقصان کیا بتائیں ہمارا کیا بہت

نقصان کیا بتائیں ہمارا کِیا بہت 
اس کاروبارِ دل نے خسارا کیا بہت 
چاروں طرف تھے پھول شفق کے کھلے ہوئے 
جس شام آسماں کا نظارا کیا بہت 
اب کیا کروں کہ شور میں آواز دب گئی 
میں اس کو شہرِ جاں میں پکارا کیا بہت 

میں خواب اپنے سارے نیلام کر رہا ہوں

میں خواب اپنے سارے نیلام کر رہا ہوں 
اور یہ بھی جان لو کہ بے دام کر رہا ہوں 
اس سے غرض نہیں ہے بولی لگے گی کیسے 
جو کام کرنا ہے، بس وہ کام کر رہا ہوں 
وہ سب کہانیاں جو پوری نہیں ہوئی تھیں 
تحریر آج ان کا انجام کر رہا ہوں 

کب تک اس کا ہجر مناتا صحرا چھوڑ دیا

کب تک اس کا ہجر مناتا صحرا چھوڑ دیا 
جینے کی امید میں میں نے کیا کیا چھوڑ دیا 
میرے ساتھ لگا رہتا ہے یادوں کا بادل 
دھوپ بھرے رستوں پر اس نے سایہ چھوڑ دیا 
ہر چہرے پر اک چہرے کا دھوکہ ہوتا ہے 
کس نے مجھ کو اس بستی میں تنہا چھوڑ دیا 

Monday, 18 December 2017

عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں

عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں 
اور کیا اس کے سوا اہلِ انا رکھتے ہیں 
ہم تہی دست کچھ ایسے بھی تہی دست نہیں 
کچھ نہیں رکھتے، مگر پاسِ وفا رکھتے ہیں 
زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے 
کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں 

نشاں کسی کو ملے گا بھلا کہاں میرا

نشاں کسی کو ملے گا بھلا کہاں میرا 
کہ ایک روح تھا میں جسم تھا نشاں میرا 
ہر ایک سانس نیا سال بن کے آتا ہے 
قدم قدم ابھی باقی ہے امتحاں میرا 
مری زمیں مجھے آغوش میں سمیٹ بھی لے 
نہ آسماں کا رہوں میں نہ آسماں میرا 

آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا

آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا 
ایک دن رات ڈھلے یومِ حساب آئے گا 
مطمئن ایسے کہ ہر گام یہی سوچتے ہیں 
اس سفر میں کوئی صحرا نہ سراب آئے گا 
یہ جوانی تو بڑھاپے کی طرح گزرے گی 
عمر جب کاٹ چکوں گا تو شباب آئے گا 

لٹ گیا ہے تو یوں دہائی نہ دے

لٹ گیا ہے تو یوں دہائی نہ دے
پتھروں کو تو کچھ سنائی نہ دے
یا مسائل کا حل بتا مجھ کو
یا مجھے قید سے رہائی نہ دے
بے خطا ہوں وہ جانتا ہے، مگر
میں ہوں مفلس مِری صفائی نہ دے

یوں اٹھے درد کے شعلے کہ بجھائے نہ گئے

یوں اٹھے درد کے شعلے کہ بجھائے نہ گئے
ہم چراغوں کی طرح روز جلائے نہ گئے
وہ بھی لاشوں کو کناروں پہ اگل آیا ہے
ظلم دریا سے بھی انساں کے چھپائے نہ گئے
یہ تو جنت کا نمونہ ہیں، انہیں کیا کہیے
گھر کے وہ گوشے جو مہماں کو دکھائے نہ گئے

نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے

فلمی گیت
 
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے

چلو، اچھا ہوا اپنوں میں کوئی غیر تو نکلا
اگر ہوتے سبھی اپنے تو بے گانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے

ہاں چھیڑو غزل عاجز چپ رہنے سے کیا ہو گا

ہاں چھیڑو غزل عاجز چپ رہنے سے کیا ہو گا 
کچھ لوگ تو خوش ہوں گے، وہ ہو گا خفا ہو گا
ہونے کو ستم یوں تو کیا کیا نہ ہوا ہو گا 
جیسا کہ ہوا ہم پر، ایسا نہ ہوا ہو گا
جو زخم بھی وہ دیں گے ہر زخم نیا ہو گا 
آج اور مزہ آیا،۔ کل اور مزہ ہو گا

رنگ آنسوؤں کا میرے جس دن سے شہابی ہے

رنگ آنسوؤں کا میرے جس دن سے شہابی ہے
صبح ان کی بسنتی ہے، شام ان کی گلابی ہے
مۓ خانے سے باہر تک جھنکار چلی آیٔی
یہ کس کا سبو ٹوٹا، یہ کون شرابی ہے
بے کیفئ صہبا میں ساقی کی خطا نکلی
ہم نے تو یہ سمجھا تھا موسم کی خرابی ہے

طبیعت کو قابو میں لانا پڑے ہے

طبیعت کو قابو میں لانا پڑے ہے 
اٹھے ہے کہاں غم اٹھانا پڑے ہے
خبر ہے کہ ہیں دشمنِ جان و دل وہ 
مگر دل انہیں سے لگانا پڑے ہے
عجب چیز ہے کاروبارِ محبت 
کمانا پڑے ہے، لٹانا پڑے ہے

Sunday, 17 December 2017

جب چلی ٹھنڈی ہوا جب اٹھی کالی گھٹا

فلمی  گیت

جب چلی ٹھنڈی ہوا، جب اٹھی کالی گھٹا
مجھ کو اے جانِ وفا تم یاد آئے

زندگی کی داستاں، چاہے کتنی ہو حسیں
بِن تمہارے کچھ نہیں
کیا مزا آتا صنم، آج بھولے سے کہیں
تم بھی آ جاتے یہیں

تری طلب تھی ترے آستاں سے لوٹ آئے

تِری طلب تھی تِرے آستاں سے لوٹ آئے 
خزاں نصیب رہے، گلستاں سے لوٹ آئے 
بصد یقیں بڑھے، حدِ گماں سے لوٹ آئے 
دل و نظر کے تقاضے کہاں سے لوٹ آئے 
سرِ نیاز کو پایا نہ جب تِرے قابل 
خرابِ عشق تِرے آستاں سے لوٹ آئے 

Tuesday, 12 December 2017

تشنہ لب آوارگی

تشنہ لب آوارگی

خواب کچھ بکھرے ہوئے سے خواب ہیں 
کچھ ادھوری خواہشیں 
تشنہ لب آوارگی کے روز و شب 
ایک صحرا چار سو بکھرا ہوا 
اور قدموں سے تھکن لپٹی ہوئی 

چمن میں رہ کے ویرانہ میرا دل ہوتا جاتا ہے

فلمی گیت

چمن میں رہ کے ویرانہ میرا دل ہوتا جاتا ہے
خوشی میں آج کل کچھ غم بھی شامل ہوتا جاتا ہے
چمن میں رہ کے ویرانہ ۔۔۔۔۔

نہ جانے کیوں بدلتی جا رہی ہے زندگی میری
میں دل سے بےخبر دل مجھ سے غافل ہوتا جاتا ہے
چمن میں رہ کے ویرانہ ۔۔۔۔۔

Monday, 11 December 2017

کبھی ان کے ملن کی آشا نے اک جوت جگا دی تھی من میں

کبھی ان کے ملن کی آشا نے اک جوت جگا دی تھی من میں
اب من کا اجالا سنولایا، پھر شام ہے من کے آنگن میں
جو گھلتا ہے آنسو ڈھلتے ہیں، ہر نِیر میں دِیپ سے جلتے ہیں
اب بِرہا سے جی کی آگ بجھے، یہ تو اور بھی بھڑکے ساون میں
چلو انشا کے پاس چلیں بیٹھیں سنیں گیت منوہر پریم بھرے
جنہیں سن لیں تو من کو مسوس مریں سبھی گوپیاں گوکل کے بن میں

سب کو دل کے داغ دکھائے ایک تجھی کو دکھا نہ سکے

سب کو دل کے داغ دکھائے ایک تجھی کو دکھا نہ سکے 
تیرا دامن دور نہیں تھا، ہاتھ ہمیں پھیلا نہ سکے 
تو اے دوست! کہاں لے آیا چہرہ یہ خورشید مثال 
سینے میں آباد کریں گے آنکھوں میں تو سما نہ سکے 
نا تجھ سے کچھ ہم کو نسبت نا تجھ کو کچھ ہم سے کام 
ہم کو یہ معلوم تھا لیکن دل کو یہ سمجھا نہ سکے 

خمار قرب جو ٹوٹا تمہیں پتا ہی نہیں

خمارِ قرب جو ٹوٹا، تمہیں پتا ہی نہیں
کہ وصل میں ہوں اکیلا، تمہیں پتا ہی نہیں
پلٹ دیا ہے ورق تم نے، جبکہ میں ہوں ہنوز 
گزشتہ باب میں کھویا، تمہیں پتا ہی نہیں
بہت عزیز مجھے اپنے گھر کا ہے یہ سکوں
ہے شور شہر میں جتنا تمہیں پتا ہی نہیں

نہ آج خود کو سنبھالو اگر مری مانو

نہ آج خود کو سنبھالو اگر مِری مانو
مجھے گلے سے لگا لو اگر مری مانو
بہت نشاط فزا رقص گاہ کی ہے یہ شب
مزاج تم بھی بنا لو اگر مری مانو
پسِ وصال بھلا کیا علاجِ مرگِ امید
تم ایک جام اٹھا لو اگر مری مانو

کچھ کٹی غم میں کچھ خوشی سے بھی

کچھ کٹی غم میں کچھ خوشی سے بھی
ہم نہ اکتائے زندگی سے بھی
جس کا منشا فروغِ خوشبو تھا
باغ مہکا نہ اس کلی سے بھی
اور کیا چاہیے خدا جانے
ملتفت ہیں نہ بندگی سے بھی

قلب پروانگی میں ڈھل ڈھل کر

قلبِ پروانگی میں ڈھل ڈھل کر
آگ میں راکھ ہو گیا جل کر
اشک کیچڑ بچھا چکے آگے
عاشقوں کی ڈگر نہ دلدل کر
کیا نکالا نچوڑ دیکھیں تو
چار دن خوب مسئلے حل کر

ہم ڈوب ڈوب خود میں تیراک ہو گئے ہیں

جب دیکھیے یہ رخنے نمناک ہو گئے ہیں
ہم ڈوب ڈوب خود میں تیراک ہو گئے ہیں
مر مر کے جی رہے ہیں جی جی کے مر رہے ہیں
بیمار جامِ جم کے بے باک ہو گئے ہیں
نہ تم مِرے تلک ہو نہ دل ہے دسترس میں
دو دو جہاں زمیں کے افلاک ہو گئے ہیں

ترا رنگ بصیرت ہو بہو مجھ سا نکل آیا

ترا رنگ بصیرت ہو بہو مجھ سا نکل آیا 
تجھے میں کیا سمجھتا تھا مگر تو کیا نکل آیا 
ذرا سا کام پڑتے ہی مزاج اک خاک زادے کا 
قد و قامت میں گردوں سے بھی کچھ اونچا نکل آیا 
زر خوشبو کھنکتا رہ گیا دست گل تر میں 
دل سادہ خریدار دل سادہ نکل آیا 

اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے

اک رنج عمر دے کے چلا ہے کدھر مجھے 
گلیوں میں رول دیں نہ مرے بال و پر مجھے 
دل پربتوں کے پار نہ چل دے ہوا کے ساتھ 
بادل بنا نہ دے مری خوئے سفر مجھے 
میں نے جنہیں چھوا انہیں شہکار کر دیا 
اے کاش چھو سکے مرا دست ہنر مجھے 

شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے

شب کے خلاف برسر پیکار کب ہوئے 
ہم لوگ روشنی کے طلبگار کب ہوئے 
خوشبو کی گھات میں ہیں شکاری ہواؤں کے 
جھونکے مگر کسی سے گرفتار کب ہوئے 
تعبیر کی رتوں نے بدن زرد کر دئیے 
پھر بھی یہ لوگ خواب سے بیدار کب ہوئے 

ملال یہ ہے مسائل کا حل بناتے ہوئے

ملال یہ ہے مسائل کا حل بناتے ہوئے
گنوا کے بیٹھ گئے آج، کل بناتے ہوئے
گھسے پٹے ہوئے لہجوں میں کچھ نہیں رکھا
نیا ہی رنگ نکالو غزل بناتے ہوئے
بظاہر ایک ہی پل میں بدل گیا سب کچھ
کئی زمانے لگے ایک پل بناتے ہوئے

منظر میں کوئی اور تصور میں کوئی اور

منظر میں کوئی اور تصور میں کوئی اور
ہے تال میں دھن اور کوئی سُر میں کوئی اور
چہرے پہ تو کچھ اور ہی تحریر تھا لیکن
تصویر جھلکتی تھی دلِ حر میں کوئی اور
میں حیرتی حسن ازل کیا ہوں مگر سن
مجھ سا بھی نہیں اہلِ تحیر میں کوئی اور

اس تکلم کی ادا پر کوئی کیا بات کرے

اس تکلم کی ادا پر کوئی کیا بات کرے
ہونٹ چپ ہوں تو تِرا رنگِ حنا بات کرے
دیکھ ہم خاک نشینوں سے زمانے کا سلوک
جیسے سوکھے ہوئے پتوں سے ہوا بات کرے
مجھ کو ہر فیصلہ منظور, مگر آخری بار
وہ مِرے سامنے آ کر تو ذرا بات کرے

Sunday, 10 December 2017

شوق مشتاق لقا صبر سے بیگانہ ہوا

شوق مشتاقِ لقا صبر سے بے گانہ ہوا
جب سے مشہور تِرے حسن کا افسانہ ہوا
ایک ہی کام تو یہ عشق سے مردانہ ہوا
کہ، تِرے شیوۂ ترکانہ کا دیوانہ ہوا
وصلِ جاناں، نہ ہوا جان دیئے پر بھی نصیب
یعنی اس جنسِ گرامی کا یہ بیعانہ ہوا

اک جو لے دے کے ہمیں شیوہ یاری آیا

اک جو لے دے کے ہمیں شیوۂ یاری آیا 
وہ بھی کچھ کام نہ خدمت میں تمہاری آیا 
ان کے آگے لبِ فریاد بھی گویا نہ ہوئے 
چپ رہے ہم، جو دمِ شِکوہ گزاری آیا 
آرزو حال جو اپنا انہیں لکھنے بیٹھی
قلمِ شوق پہ نامہ نگاری آیا

سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں

سارے لہجے تِرے بے زماں ایک میں 
اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک میں 
وصل کے شہر کی روشنی ایک تُو 
ہجر کے دشت میں کارواں ایک میں 
بجلیوں سے بھری بارشیں زور پر 
اپنی بستی میں کچا مکاں ایک میں 

واسطہ حسن سے کیا شدت جذبات سے کیا

واسطہ حسن سے کیا، شدتِ جذبات سے کیا 
عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا 
مری مصروف طبعیت بھی کہاں روک سکی
وہ تو یاد آتا ہے اس کو مِرے دن رات سے کیا 
پیاس دیکهوں یا کروں فکر، کہ گهر کچا ہے 
سوچ میں ہوں کہ مِرا رشتہ ہے برسات سے کیا 

Thursday, 7 December 2017

اب رہو گرد کی فصیلوں میں

اب رہو گرد کی فصیلوں میں
خشکیاں بھر گئی ہیں جھیلوں میں
روشنی کی تلاش تھی ہم کو
گھر گئے آگ کی فصیلوں میں
نُور سے میں نے بھر لیا دامن
لوگ الجھے رہے دلیلوں میں

کیسے سینے سے لگائے وہ سہارا کیا دے

کیسے سینے سے لگائے وہ سہارا کیا دے
ریت ہی ریت ہے لہروں کو کنارا کیا دے
رنگ پھولوں کے اترتے ہیں کھلی آنکھوں میں
بند ہے آنکھ تِری تجھ کو نظارا کیا دے
کوئی سورج تو نہیں بھر دے جو دامن اس کا
چاند کو پورا کرے کیسے ستارا کیا دے

جانِ من جان جاں

جانِ من، جانِ جاں
حکم ہے اس لیے
کر رہا ہوں بیاں
تو نے پوچھا ہے میں
کیسے جیتا ہوں اب
کیسے کٹتا ہے دن

پاگل پن

پاگل پن

میرا دایاں ہاتھ، بائیں ہاتھ کو
کاٹنے میں رات دن مصروف ہے
صحن سے دہلیز تک
خون کے دھبوں کی شطرنج بچھی ہے، جس پہ موت
سینکڑوں چہرے بکھیرے، زندگی کو مات دینے کے نشے میں مست ہے

نیا چوراہا​

نیا چوراہا​

قد آور آئینے لے کر
بونوں کا مخلوط جلوس ابھی گزرا ہے
لمبے لمبے بالوں والا اک دانشور
بازی گر کے بانس پہ چڑھ کر
گردن کی سب نسیں پھلائے چیخ رہا ہے

Tuesday, 5 December 2017

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے 
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے 
وہ کڑی دھوپ کے دن وہ تپش راہ وفا 
وہ سواد شب گیسو کے گھنیرے سائے 
دولت طبع سخن گو ہے امانت اس کی 
جب تِری چشم سخن ساز طلب فرمائے 

سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں

سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں 
وہ نہ جانے کدھر سے گزرے ہیں 
موج آواز پائے یار کے ساتھ 
نغمے دیوار و در سے گزرے ہیں 
آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں 
آج دل کے نگر سے گزرے ہیں 

ایک سے ایک ہے غارت گر ایمان یہاں

ایک سے ایک ہے غارت گرِ ایمان یہاں 
اے مِرے دل!، تِرا اللہ نگہبان یہاں 
چھوڑ کر جاؤں تِرے شہر کی گلیاں کیسے 
دل یہاں، روح یہاں، جسم یہاں، جان یہاں 
کس سے پوچھوں کہ وہ بے مہر کہاں رہتا ہے 
دلِ بے تاب! مِری جان نہ پہچان یہاں 

تری نظر سے زمانے بدلتے رہتے ہیں

تِری نظر سے زمانے بدلتے رہتے ہیں 
یہ لوگ تیرے بہانے بدلتے رہتے ہیں 
فضائے کنج چمن میں ہمیں تلاش نہ کر 
مسافروں کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں 
نفس نفس متغیر ہے داستان حیات 
قدم قدم پہ فسانے بدلتے رہتے ہیں 

Monday, 4 December 2017

اللہ سائیں کیا تو ایسا کر سکتا ہے

اللہ سائیں

اللہ سائیں 
کیا تُو ایسا، کر سکتا ہے
یخ بستہ اک رات کے، پچهلے پہر
بڑی خاموشی سے
تُو نیچے آئے

وہ لمحہ

وہ لمحہ

اس لمحے سے
ڈر لگتا ہے
سچ مچ گر یہ، جابر لمحہ
میرے سر پر
ٹوٹ پڑا تو؟

اک بیٹی کی طرف سے

اک بیٹی کی طرف سے

میرے باپ نے 
میرا درد سہا دل پر
وہ بهی ہر دم بیٹیوں کے
دکھ دیکهے گا
قدرت کا قانون ہے
گر تم، سمجھ سکو

Sunday, 3 December 2017

مرے سوا بھی وفا کی مثال پیش کرے

جو ذہن و دل میں ہے کھل کر خیال پیش کرے
مرے سوا بھی وفا کی مثال پیش کرے
چلو کھلے تو سہی، کون با وفا کتنا؟
تو حسن کو ہے اجازت سوال پیش کرے
جو دنیادار ہیں گن گن کے وہ قدم رکھیں 
فقیر کو ہے اجازت دھمال پیش کرے

کہاں لکھا ہے کہ میرا کہا نہیں ہونا

سو حرف حرف یہی دوسرا نہیں ہونا
کہاں لکھا ہے کہ میرا کہا نہیں ہونا
ہم ایک جیسے ہی ضدی ہیں اور جانتے ہیں
بچھڑ گئے تو کبھی رابطہ نہیں ہونا
کہاں ہیں میرے وہ کالی زبان والے دوست
جو کہ رہے تھے کہ تُو نے مرا نہیں ہونا

نہیں تھے تم تو مجھے تتلیاں بنانی پڑیں

مجھے تو رو رہے پھولوں کو چپ کرانا تھا
نہیں تھے تم تو مجھے تتلیاں بنانی پڑیں
پہاڑیوں کو ملانا تھا نیلی بستی سے
کئی ہزار ہمیں سیڑهیاں بنانی پڑیں
مِرے بزرگوں نے سب کشتیاں جلا دی تھیں
مجھے دوبارہ نئی کشتیاں بنانی پڑیں

ایک خودسر کو دوسرا کر کے

ایک خودسر کو دوسرا کر کے
خوش ہوں ایجاد آئینہ کر کے
بے نیازی سی بے نیازی ہے
کیا تجھے چھوڑ دوں خدا کر کے
ان کھلی کھڑکیوں کا المیہ ہے
کوئی لوٹا نہیں صدا کر کے

Saturday, 2 December 2017

ہوا کچھ ایسی چلی تھی بکھر گئے ہوتے

ہوا کچھ ایسی چلی تھی، بکھر گئے ہوتے
رگوں میں خوں جو ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
نئے شعور کو جن کا شکار ہونا ہے
وہ حادثے بھی ہمیں پر گزر گئے ہوتے

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں 
یاد آنے کی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں 
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب 
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں 
وجہ رسوائی احساس ہوا ہے کیا کیا 
ہائے وہ لفظ جو لب تک مِرے آیا بھی نہیں 

Friday, 1 December 2017

جو میں سوئے طیبہ چلوں کبھی تو سفر میں ایسا کمال ہو

نعت سرور عالمﷺ 

جو میں سوئے طیبہ چلوں کبھی تو سفر میں ایسا کمال ہو
نہ ستائیں راہ کے پیچ و خم، نہ بدن تھکن سے نڈھال ہو
مِری خاک خشت میں ڈھال کر اسے چن دو روضۂ پاک میں
نہ ہی فاصلوں کا گلہ رہے، نہ جدائیوں کا ملال ہو
تِرا عشق میرا خزانہ ہے، تِرا ذکر مِری کمائی ہے
میں وہ دن نہ دیکھوں خدا کرے کہ مِری طلب زر و مال ہو

اے خدا شکر ہے دنیا کے نکل جانے سے

اے خدا شکر ہے دنیا کے نکل جانے سے
ایک بت کم تو ہوا دل کے صنم خانے سے
میں بہت دیر کہانی میں نہیں رہنے کا
یہ حقیقت بھی نکل جائے گی افسانے سے
کتنے ٹکڑوں میں بٹا شیشۂ جاں دیکھو نا
اک ذرا جسم کی دیوار کو لرزانے سے

انہیں بتاؤ جو کہتے ہیں کیا بچا مرے پاس

انہیں بتاؤ جو کہتے ہیں کیا بچا مِرے پاس
ہر ایک چیز لٹا کر خدا بچا مرے پاس
اٹھانے والے اٹھا لے گئے خزینۂ زر
میں خوش نصیب ہوں رختِ دعا بچا مرے پاس
کئی سماعتیں خائف ہیں اس لیے مجھ سے
سکوتِ شہر میں سنگِ صدا بچا مرے پاس

اب عشق سے لو لگائیں گے ہم

اب عشق سے لو لگائیں گے ہم 
اب دل کے بھی کام آئیں گے ہم 
جب جھٹپٹا ہو گا شامِ غم کا 
پلکوں پہ دیے جلائیں گے ہم 
ہم بن گئے ہیں ادا تمہاری 
چھیڑو گے تو روٹھ جائیں گے ہم 

شب غم یاد ان کی آ رہی ہے

شبِ غم یاد ان کی آ رہی ہے 
چراغِ دل کی لو تھرا رہی ہے 
بیانِ دوست ناصح کی زباں سے 
طبیعت اور مچلی جا رہی ہے 
کہاں نقشِ کفِ پا ڈھونڈتے ہو 
صدائے پا تو دل سے آ رہی ہے

مرا ہی بن کے وہ بت مجھ سے آشنا نہ ہوا

مِرا ہی بن کے وہ بت مجھ سے آشنا نہ ہوا 
وہ بے نیاز تھا اتنا تو کیوں خدا نہ ہوا 
شکن ہمیشہ جبیں پر رہے تو عادت ہے 
مجھے یقیں ہے وہ مجھ سے کبھی خفا نہ ہوا 
تمام عمر تِری ہمرہی کا شوق رہا 
مگر یہ رنج کہ میں موجۂ صبا نہ ہوا 

عشق جب تک نہ آس پاس رہا

عشق جب تک نہ آس پاس رہا 
حسن تنہا رہا اداس رہا 
اک حسیں واہمہ حسیں دھوکا 
مدتوں مرکز قیاس رہا 
عشق کو اجنبی سمجھ کے ملا 
حسن کتنا ادا شناس رہا 

Thursday, 30 November 2017

ربط اسیروں کو ابھی اس گل تر سے کم ہے

ربط اسیروں کو ابھی اس گلِ تر سے کم ہے 
ایک رخنہ سا ہے دیوار میں در سے کم ہے 
حرف کی لو میں ادھر اور بڑھا دیتا ہوں 
آپ بتلائیں تو یہ خواب جدھر سے کم ہے 
ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت 
پھر بھی اے دوست تِری ایک نظر سے کم ہے 

کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے

کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے 
مِرے عزیز کو ہر اک بہانہ آتا ہے 
ذرا سا مل کے دکھاؤ کہ ایسے ملتے ہیں 
بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے 
زمانے ہو گئے دریا تو کہہ گیا تھا مجھے 
بس ایک موج کو کر کے روانہ آتا ہے 

سفر دیوار گریہ کا

سفر دیوارِ گریہ کا

تمہیں اس شہر سے رخصت ہوئے 
کتنا زمانہ ہو چکا پھر بھی 
ابھی تک میرے کمرے میں 
تمہارے جسم کی خوشبو کا ڈیرا ہے 
بظاہر تو تمہارے بعد ابھی تک میں 

Sunday, 26 November 2017

ہر طرف جور و جفا رقص کناں جانیں تو

ہر طرف جور و جفا رقص کناں جانیں تو
انقلاب آئے گا، یہ لوگ ذرا جاگیں تو
میں نہیں رہنے لگا یوں بھی کسی بندش میں
وہ مجھے ملک بدر کر دیں اگر چاہیں تو
بھیج دیں درد کے اولے بھی ہماری جانب
برقِ غم مسکنِ گلفام پہ بھی ڈھائیں تو

بڑے بڑوں نے ترے در کی خاک چھانی ہے

بڑے بڑوں نے تِرے در کی خاک چھانی ہے
اسی پہ ختم خدا جانے حکمرانی ہے
اب ایک خواب کی خاطر جگر کریدے کون
کچھ اک نئی تو نہیں شکل وہ پرانی ہے
بگڑ گئے شرکاء تو مِری ستائش پر
تِرے جلوس میں کیا ذم کی قدردانی ہے

تجھ پہ میں مشتمل نہ تھا پہلے

تجھ پہ میں مشتمل نہ تھا پہلے
مجھ میں تُو منتقل نہ تھا پہلے
امن مفقود بھی نہ تھا یکسر
جور بھی مستقل نہ تھا پہلے
اب غلط کر رہے ہیں رو رو کر
غم تِرا جاں گسل نہ تھا پہلے

سب تقاضے مرے سمجھ لو جی

سب تقاضے مِرے سمجھ لو جی
آدمی ہوں مجھے سمجھ لو جی
غیر سنجیدگی نہیں خصلت
ہم نہیں منچلے، سمجھ لو جی
کارِ دنیا قلیل مہلت میں
سب دھرے کے دھرے سمجھ لو جی

غزل کے رنگ اگر پیرہن سے نکلے ہیں

غزل کے رنگ اگر پیرہن سے نکلے ہیں
تو کیا یہ پھول بھی اس گل بدن سے نکلے ہیں
کلام کرتی نہیں مجھ سے ایک شب آنکھیں
یہ میرے خواب تو میرے سخن سے نکلے ہیں
نجانے کون سے صحرا میں اب ٹھکانہ ہو
بشکلِ خار تو ہم اس چمن سے نکلے ہیں

کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں

کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں
میں مر گیا تھا کہیں میری لاش تھی ہی نہیں
یقین کون کرے، آئینے سے نکلا ہوں
کہ میرے چہرے پہ کوئی خراش تھی ہی نہیں
مکانِ زیست کی تعمیر جیسے تیسے ہوئی
کسی بھی لمحے کی کوئی تراش تھی ہی نہیں

ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے

ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے 
ہیں چاند جبینوں پر اور ذہن میں بت خانے 
کچھ عقل کے متوالے کچھ عشق کے دیوانے 
پرواز کہاں تک ہے کس کی یہ خدا جانے 
کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے 
بھر بھر کے چھلکتے ہیں اکثر یہی پیمانے 

ہیں لوگ جتنے بھی دیکھنے میں قریب تیرے قریب میرے

ہیں لوگ جتنے بھی دیکھنے میں قریب تیرے قریب میرے
پڑی جو مشکل تو کتنے ہوں سے حبیب تیرے حبیب میرے
ذرا سا لگتے ہیں جب سنورنے، بگاڑ دیتا ہے کون جانے
رہے ہیں حالات زندگی کے عجیب تیرے عجیب میرے
ہزار غم ہیں جدائیوں کے، اداس میں بھی ملول تُو بھی
کسی نے تحریر کیا کئے ہیں نصیب تیرے نصیب میرے

ترے ستم کی زمانہ دہائی دیتا ہے

تِرے ستم کی زمانہ دہائی دیتا ہے 
کبھی یہ شور تجھے بھی سنائی دیتا ہے 
شجر سے ٹوٹنے والے ہر ایک پتے میں 
تِرے بچھڑنے کا منظر دکھائی دیتا ہے 
جو دل میں بات ہو کھلتی نہیں کسی پہ مگر 
کہے جو آنکھ وہ سب کو سنائی دیتا ہے 

یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں

یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں 
ہو گئی ہو شام جیسے جنگلوں کے درمیاں 
زندگی سے اب یہی دو چار پل کا ساتھ ہے 
پانیوں سے آ گیا ہوں دلدلوں کے درمیاں 
چار جانب پھیلتے ہی جا رہے ہیں ریگزار 
تشنگی ہی تشنگی ہے خواہشوں کے درمیاں 

چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے

چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے 
پتھرائی ہوئی آنکھ میں شعلہ بھی کہاں ہے 
سوکھے ہوئے پتوں کو جو روندو تو صدا دیں 
پستے ہوئے انسان کے منہ میں تو زباں ہے 
عظمت کی بلندی پہ میں جس سمت گیا ہوں 
دیکھا ہے تِرے پاؤں کا پہلے ہی نشاں ہے 

کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا

کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا 
دل کو رونا تھا تو تنہائی میں رویا ہوتا 
صبح سے صبح تلک جاگتے ہی عمر کٹی 
ایک شب ہی سہی بھر نیند تو سویا ہوتا 
ڈھونڈھنا تھا مرے دل کو تو کبھی پلکوں سے 
میرے اشکوں کے سمندر کو بلویا ہوتا 

وقت وقت کی بات ہے

وقت وقت کی بات ہے

وہی ہم تھے کہ اس شہر سکوں میں 
رت جگوں کی دھوم تھی ہم سے 
وہی ہم ہیں کہ شہر بے اماں کی بھیڑ میں 
خود اپنی تنہائی پہ حیراں ہیں 
ہمارا جبر مجبوری 

Sunday, 19 November 2017

سواد عشق نبی کیا کمال ہوتا ہے

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

سوادِ عشق نبیﷺ کیا کمال ہوتا ہے
دیارِ روح میں حسن و جمال ہوتا ہے
جو اس چراغ کا پروانہ بن کے رہ جائے
اسے نہ کھال نہ جاں کا خیال ہوتا ہے
سخاوتوں کے خزانے نثار ہوتے ہیں
عقیدتوں کا سفر لازوال ہوتا ہے

تیرا ذکر صبح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

تیرا ذکر صبح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی
تیری نعت اے شہِﷺ دو سرا دل بے قرار کی راگنی
مجھے تیری یاد سے واسطہ تیرا پیار ہے میرا راستہ
تیرا نام میری اساس ہے تیرا تذکرہ مِری بندگی
میں تو داس ہوں تیرے نام کا میں غلام تیرے غلام کا
مِری بات بات کا حسن تو میرا ناز ہے تیری شاعری

مناؤ خوشیاں زمین والو فلک سے خیر الانام آیا

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

فضا میں خوشبو بکھر گئی ہے لبوں پہ میرے سلام آیا
مناؤ خوشیاں زمین والو! فلک سے خیر الانامﷺ آیا
تمام راہیں ہوئیں وہ روشن جہاں بسیرے تھے تیرگی کے
جھکے ہیں کیا کیا اٹھے ہوئے سر یہ کون ذی احترام آیا
جو بزم ہو شاہِ دوسرا کی وہاں ادب کا لحاظ رکھنا
بلند اپنی صدا نہ کرنا کلامِ حق میں پیام آیا

ظہورِ مصطفیٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن
ظہورِ مصطفیٰﷺ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن
گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی
انہی رستوں کا اب تک ہے غبار کارواں روشن
نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے
ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن

وہ جس کے لیے محفل کونین سجی ہے

نعت رسول مقبولﷺ

وہ جس کے لیے محفل کونین سجی ہے
فردوس بریں جس کے وسیلے سے بنی ہے
وہ ہاشمی مکی مدنی العربی ہے
وہ میرا نبی میرا نبی میرا نبیﷺ ہے

احمدؐ ہے محمدؐ ہے وہی ختمِ رُسل ہے
مخدوم و مربّی ہے وہی والئ کل ہے

Wednesday, 15 November 2017

کچھ دے اسے رخصت کر کیوں آنکھ جھکا لی ہے

کچھ دے اسے رخصت کر کیوں آنکھ جھکا لی ہے 
ہاں در پہ تِرے مولا! انشاؔ بھی سوالی ہے 
اس بات پہ کیوں اس کی اتنا بھی حجاب آئے 
فریاد سے بے بہرہ کشکول سے خالی ہے 
شاعر ہے تو ادنیٰ ہے، عاشق ہے تو رسوا ہے 
کس بات میں اچھا ہے کس وصف میں عالی ہے 

دل اک کٹیا دشت کنارے

دل اک کٹیا دشت کنارے

دنیا بھر سے دور یہ نگری
نگری دنیا بھر سے نرالی
اندر ارمانوں کا میلہ
باہر سے دیکھو تو خالی
ہم ہیں اس کٹیا کے جوگی
ہم ہیں اس نگری کے والی

یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو

یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو 
یاں تو آتے ہیں مسافر سو چلے جاتے ہیں 
ہاں یہی نام تھا کچھ ایسا ہی چہرا مہرا 
یاد پڑتا ہے کہ آیا تھا مسافر کوئی 
سونے آنگن میں پھرا کرتا تھا تنہا تنہا 
کتنی گہری تھی نگاہوں کی اداسی اس کی 

دل آشوب

دل آشوب

یوں کہنے کو راہیں ملک وفا کی اجال گیا 
اک دھند ملی جس راہ میں پیک خیال گیا 
پھر چاند ہمیں کسی رات کی گود میں ڈال گیا

ہم شہر میں ٹھہریں، ایسا تو جی کا روگ نہیں 
اور بن بھی ہیں سونے ان میں بھی ہم سے لوگ نہیں 
اور کوچے کو تیرے لوٹنے کا تو سوال گیا 

Tuesday, 14 November 2017

سیل رواں میں بہہ گئے اور یہ آخرش ہوا

سیلِ رواں میں بہہ گئے اور یہ آخرش ہوا
اس نے مجھے بھلا دیا، میں نے اسے بھلا دیا
جاز کی نیلگوں سی دُھن، سوزِ دروں میں مطربہ
گیت کے بول بھی حزیں، شامِ فراق غم فزا
کرتی رہی تھی تیری یاد میرے خیال کی نمو
حرف بہ حرف، شعر شعر، تیرے ہی رنگ میں ڈھلا

جس کی طرف تھا گامزن دشت کا اک سراب تھا

جس کی طرف تھا گامزن، دشت کا اک سراب تھا
مجھ کو شعور تھا مگر، میرا یہی عذاب تھا
فون کی آس رات بھر، صبح ہوا یہ آشکار
تار بِتار قلب تھا، تار مِرا خراب تھا
قوسِ قزح میں عکس تھا، عکس میں یاد تھی کوئی
خواب میں اِک خیال تھا، اور خیال خواب تھا

دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا

دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا 
ہم کو بیچا،۔ مگر نہ دام لیا 
دل سے آخر چراغِ وصل بجھا 
کیا تمنا نے انتقام لیا؟ 
پھر کبھی وہ نہ آئی ہم کو نظر 
جس پری رُو کا ہم نے نام لیا 

فن تو آتا مجھے قرینے کا

نعتِ رسولِ مقبولﷺ

فن تو آتا مجھے قرینے کا
کاش ہوتا گدا مدینے کا
کون خوشبو مقابلہ کرتی
آپؐ کے بوند بھر پسینے کا
تر پڑے گا حدیث پڑھ لے تو
ڈوبتا ناخدا سفینے کا

مسلکوں کو مٹا دیا میں نے

مسلکوں کو مٹا دیا میں نے
کر دیا سب کو ایک سا میں نے
موت سے کھیل کر یہ اپنی جان
آپ کے نام کی بجا میں نے
اب گورا کِیا ہے مدت بعد
نام لینا نہ آپ کا میں نے

صبح تلک مر مر کے جیا تھا

صبح تلک مر مر کے جیا تھا
جلنے والا ایک دِیا تھا
یاد رہے اس پہلی ہاں کا
ذرا نہ تم نے پاس کیا تھا
آنکھوں نے وہ روئے مبارک
تکتے سمے ہی چوم لیا تھا

زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا

زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا 
ہم کہ دریا ہیں سمندر کی غذا ہونا ہی تھا 
اور کب تک بے ثمر رکھتی خزاں پیڑوں کے ہاتھ 
رُت بدل جانا تھی یہ، جنگل ہرا ہونا ہی تھا 
روکنے سے کب ہوا کے نرم جھونکے رک سکے 
بند دروازوں کو اک دن نیم وا ہونا ہی تھا 

اے مہ ہجر کیا کہیں کیسی تھکن سفر میں تھی

اے مہِ ہجر کیا کہیں، کیسی تھکن سفر میں تھی 
روپ جو رہگزر میں تھے دھوپ جو رہگزر میں تھی 
لفظ کی شکل پر نہ جا، لفظ کے رنگ بھی سمجھ 
ایک خبر پسِ خبر آج کی ہر خبر میں تھی 
رات فصیلِ شہر میں ایک شگاف کیا ملا 
خون کی اک لکیر سی صبح نظر نظر میں تھی 

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا 
پار اترتا تھا مگر تجھ پہ بھروسہ بھی نہ تھا 
زندگی ہاتھ نہ دے پائی مرے ہاتھوں میں 
ساتھ جانا بھی نہ تھا ہاتھ چھڑانا بھی نہ تھا 
جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں 
واپس آیا تو مرا نقش کف پا بھی نہ تھا 

تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا

تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا 
میں جب گرا تو مرے سامنے مرا گھر تھا 
تہی ثمر شجر خواب کچھ نڈھال سے تھے 
زمیں پہ سوکھی ہوئی پتیوں کا بستر تھا 
اسی کی آب تھی اس شب میں روشنی کی لکیر 
وہ ایک شخص کہ جو کانچ سے بھی کمتر تھا 

Monday, 13 November 2017

بات جو بھلی نہیں میں نے وہ کہی نہیں

بات جو بھلی نہیں
میں نے وہ کہی نہیں
اِک فریبِ زیست ہے
اور زندگی نہیں
آدمی کے دیس میں
کوئی آدمی نہیں

شکر ہے شیخ سے نہ کام رہا

شکر ہے شیخ سے نہ کام رہا
ان سے بس دور کا سلام رہا
جس پہ خود تھا صلیب کا سایہ
وہ مسیحائے خاص و عام رہا
میرے بس میں تھی جو بھی تبدیلی
اس میں کوشاں میں صبح و شام رہا

ڈھلا ہے حبس کا موسم ذرا تو

ڈھلا ہے حبس کا موسم ذرا تو
چلی ہے صبح سے کچھ کچھ ہوا تو
نشاں چھوڑا ہے اپنے در پہ میں نے 
دوبارہ لوٹنا مجھ کو پڑا تو
کہا میں نے کہ کل میں جا رہا ہوں
تامّل کے بغیر اس نے کہا، "تو" ؟

کچھ ایرے ہیں کچھ غیرے ہیں

کچھ ایرے ہیں، کچھ غیرے ہیں
کچھ نتھو ہیں، کچھ خیرے ہیں
کچھ جھوٹے ہیں، کچھ سچے ہیں
کچھ بڈھے ہیں، کچھ بچے ہیں
کچھ ململ ہیں، کچھ لٹھے ہیں
کچھ چیمے ہیں، کچھ چٹھے ہیں

دعائے نیم شبی

دعائے نِیم شبی

زورِ بیان و قوتِ اظہار چھین لے
مجھ سے مِرے خدا! مِرِے افکار چھین لے
کچھ بجلیاں اتار، قضا کے لباس میں
تاج و کُلاہ و جبّہ و دستار چھین لے
عِفت کے تاجروں کی دکانوں کوغرق کر
نظارہ ہائے گیسو و رخسار چھین لے

شکریہ؛ سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں​

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

شکریہ

سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں​
جس نے اولاد پیمبر کا تماشا دیکھا​
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں​
جس نے لختِ دل حیدر کو تڑپتا دیکھا​
برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں​
لشکرِ حیدر کرار کو لٹتا دیکھا​

Sunday, 12 November 2017

جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا

جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا 
مِری وفا کا اسے اعتبار کیوں آیا 
یہ دل کی بات ہی منہ سے ادا نہیں ہوتی 
میں کیا کہوں کہ یہاں بار بار کیوں آیا 
خیالِ پرسشِ محشر سے وہ ہوا مغموم 
نظر کے سامنے میرا مزار کیوں آیا 

لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے

لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے 
سب کچھ ہے خموشی میں اک آواز نہیں ہے 
کتنا ہی وہ جھڑکیں میں کہے جاتا ہوں اپنی 
غیرت مِری اب کچھ خلل انداز نہیں ہے 
پہونچوں گا ضرور آج میں اس شوخ کے گھر میں 
دیوار تو نیچی ہے جو در باز نہیں ہے 

فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر

فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر 
مانوں نہ حشر میں تِرے منہ پر کہے بغیر 
دیکھو یہ رنگ رخ کا شگوفہ کہ میرا عشق 
ظاہر ہوا ہے کہنے سے بڑھ کر کہے بغیر 
منہ دیکھتا ہی رہ گیا کہنے کو جب گیا 
پلٹا میں حالت دل مضطر کہے بغیر 

کبھی نغمہ غم آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم

کبھی نغمۂ غمِ آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم 
کبھی خاک کوچۂ یار ہم کبھی شہریارِ بہار ہم
کبھی چل پڑے تِری راہ میں تو حدِ جنوں سے گزر گئے 
تِرے انتظار میں ہو گئے کبھی نقش رہگزار ہم
ہمیں کشتگان حیات سے ہیں جنون عشق کی عظمتیں 
کبھی ہنس پڑے تہِ تیغ ہم کبھی جھوم اٹھے سرِ دار ہم

کہاں سے آ گیا کہاں یہ شام بھی کہاں ہوئی

کہاں سے آ گیا کہاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 
نہ ہم نفس نہ ہم زباں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 
بجھی نظر، بجھے قدم، نہ راہبر، نہ ہمسفر 
نہ رہگزر نہ کارواں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 
نہ شمعِ دل نہ شمعِ رُخ، نجومِ شب نہ ماہِ شب 
نگاہ و دل دھواں دھواں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 

طلسم خواب میں خوف بلا سے کچھ نہیں ہو گا

طلسم خواب میں خوفِ بلا سے کچھ نہیں ہو گا
سزا سے اور فقط میری سزا سے کچھ نہیں ہو گا
تم اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ بند ہی رکھنا
ہوا جیسی بھی ہو پیارے ہوا سے کچھ نہیں ہو گا
کوئی بھی بات ہو کیسی بھی ہو وہ کچھ نہیں ہوتی
ہمارے شہر میں اونچی صدا سے کچھ نہیں ہو گا

اگر تم بیچنا چاہو ادائیں بھی وفائیں بھی

اگر تم بیچنا چاہو 
ادائیں بھی وفائیں بھی 
حسیں خوابوں کے رنگوں کی ردائیں بھی 
یہ دنیا ہے 
یہاں آواز بکتی ہے 
یہاں تصویر بکتی ہے 

Friday, 10 November 2017

تجھے اس لیے نکالا

تجھے اس لیے نکالا

تُو پوچھتا ہے تجھے ایسے کیوں نکالا گیا
تمہارا جرم فضاؤں میں کیوں اچھالا گیا
تِرا غرور عدالت میں کیسے ٹالا گیا
تمہارے جھوٹ کے سینے میں کس کا بھالا گیا
بتا دوں تجھ کو درندے تمہارے دانتوں سے
مِرے غریب کسانوں کا خوں ٹپکتا ہے

جہاں ہم ہیں

جہاں ہم ہیں

جہاں ہم ہیں
یہاں تو اعتراف درد بھی اک مسئلہ ٹھہرا
محبت کی سزاواری پشیمانی بنی
جور و ستم کی ہمقدم ہو کے
دلِ پامال کے اجڑے ہوئے رستوں پہ ایسے دندناتی ہے

گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا

گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا 
جا تجھے آج سے ہم نے اپنے خدا کے حوالے کیا 
ایک مدت ہوئی ہم نے دنیا کی ہر ایک ضد چھوڑ دی 
ایک مدت ہوئی ہم نے دل کو وفا کے حوالے کیا 
اس طرح ہم نے تیری محبت زمانے کے ہاتھوں میں دی 
جس طرح گل نے خوشبو کو باد صبا کے حوالے کیا 

Tuesday, 7 November 2017

آنکھ سے بچھڑے کاجل کو تحریر بنانے والے

آنکھ سے بچھڑے کاجل کو تحریر بنانے والے 
مشکل میں پڑ جائیں گے تصویر بنانے والے 
یہ دیوانہ پن تو رہے گا دشت کے ساتھ سفر میں 
سائے میں سو جائیں گے زنجیر بنانے والے 
اس نے تو دیکھے اندیکھے خواب سبھی لوٹائے 
اور تھے شاید ٹوٹی ہوئی تعبیر بنانے والے 

بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے

بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے 
زندگی سے یہ مِرا دوسرا سمجھوتا ہے 
لہلہاتے ہوئے خوابوں سے مِری آنکھوں تک 
رت جگے کاشت نہ کر لے تو وہ کب سوتا ہے 
جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک 
میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے 

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے 
کہاں تک میں دیکھوں یہ منظر اکیلے 
گلی میں ہواؤں کی سرگوشیاں ہیں 
گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے 
نمائش ہزاروں نگاہوں نے دیکھی 
مگر پھول پہلے سے بڑھ کر اکیلے 

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے 
آ، کہ ہر بات بھلا دی ہم نے 
گلشن دل سے گزرنے کے لیے 
غم کو رفتارِ صبا دی ہم نے 
اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے 
اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے 

Monday, 6 November 2017

چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا

چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا 
ہم نے بھی چہرہ فروزاں شیشۂ مے سے کیا 
پاسِ خودداری تو ہے لیکن وفا دشمن نہیں 
تم  نے ہم پر ترکِ الفت کا گماں کیسے کیا 
ہم گناہوں کی شریعت سے ہوئے جب آشنا 
جسم نے جو فیصلہ جیسے دیا، ویسے کیا 

دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی

دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی 
آئینۂ خزاں میں ہے عکس بہار بھی 
اب ہر نفس ہے بھیگی صداؤں کی اک فصیل 
موجِ ہوس تھی گردشِ لیل و نہار بھی 
کیا شورشِ جنوں ہے، ذرا کم نہیں ہوا 
قربت کے باوجود تِرا انتظار بھی 

کیا عدو کیا دوست سب کو بھا گئیں رسوائیاں

کیا عدو کیا دوست سب کو بھا گئیں رسوائیاں 
کون آ کر ناپتا احساس کی پہنائیاں 
اب کسی موسم کی بے رحمی کا کوئی غم نہیں 
ہم نے آنکھوں میں سجائی ہیں تِری انگڑائیاں 
آپ کیا آئے بہاروں کے دریچے کھل گئے 
خوشبوؤں میں بس گئیں ترسی ہوئی تنہائیاں 

Friday, 3 November 2017

دھیان کا جب بھی کوئی پٹ کھولا

آورد

دھیان کا جب بھی کوئی پٹ کھولا
"میری بات نہ کہہ" دل بولا
دل کی بات کہی بھی نہ جائے 
ضبط کی ٹیس سہی بھی نہ جائے 
نظم میں کس کا ذکر کروں اب
فکر میں ہوں کیا فکر کروں اب

جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے

جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
(انقلابی شاعری)

ستم کرو  گے ستم کریں گے
کرم کرو گے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے
جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے

شہر آشوب اپنی بود و باش نہ پوچھو

شہر آشوب

اپنی بود و باش نہ پوچھو
ہم سب بے توقیر ہوئے 
کون گریباں چاک نہیں ہے 
ہم ہوئے، تم ہوئے، میرؔ ہوئے
سہمی سہمی دیواروں میں
سایوں جیسے رہتے ہیں
اس گھر میں آسیب بسا ہے 

رفوگر دھیان سے یہ زخم خنجر کے نہیں

رفوگر

رفوگر
دھیان سے
یہ زخم خنجر کے نہیں 
ادھڑے ہوئے وعدوں کی رسوائی کے ہیں 
انہیں چھونا نہیں 
اِن کی تہوں میں جھانک کر

Tuesday, 31 October 2017

کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم

کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم 
آؤ دنیا کی حقیقت کو کہانی کریں ہم 
اپنے موجود میں ملتے ہی نہیں ہیں ہم لوگ 
جو ہے معدوم اسے اپنی نشانی کریں ہم 
پہلے اک یار بنائیں کوئی اس کے جیسا 
اور پھر ایجاد کوئی دشمن جانی کریں ہم 

مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے

مِرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے 
اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے 
موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں 
زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے 
بے خد و خال سا اک چہرہ لیے پھرتا ہوں 
چاہتا ہوں کہ مجھے شکل و شباہت دی جائے 

Sunday, 29 October 2017

جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں

جس انجمن میں دیکھو بیگانے رہ گئے ہیں 
گنتی کے لوگ جانے پہچانے رہ گئے ہیں 
کل جن حقیقتوں سے ماحول معتبر تھا 
آج ان حقیقتوں کے افسانے رہ گئے ہیں 
اب غارت چمن میں کیا رہ گیا ہے باقی 
کچھ پیرہن دریدہ دیوانے رہ گئے ہیں 

اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں

اب اسے کیا کرے کوئی آنکھوں میں روشنی نہیں 
شہر بھی اجنبی نہیں، لوگ بھی اجنبی نہیں 
ہم نے یہ سوچ کر کبھی جرأتِ عرض کی نہیں 
شکوہ بصد خلوص بھی شیوۂ دوستی نہیں 
یوں تو بڑے خلوص سے لوگ ہوئے ہیں ہمسفر 
راہ میں ساتھ چھوڑ دیں ان سے بعید بھی نہیں 

سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں

سب سمجھتے ہیں کہ ہم کس کارواں کے لوگ ہیں 
پھر بھی پوچھا جا رہا ہے، ہم کہاں کے لوگ ہیں 
ملتِ بیضا نے یہ سیکھا ہے صد ہا سال میں 
یہ یہاں کے لوگ ہیں اور وہ وہاں کے لوگ ہیں 
خالی پیمانے لیے بیٹھے ہیں رندانِ کرام 
مے کدہ ان کا ہے جو پیرِ مغاں کے لوگ ہیں 

نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا

نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا 
یہ بزرگوں کی امانت ہے گنوا مت دینا 
وہ جو رزاقِ حقیقی ہے، اسی سے مانگو 
رزق برحق ہے کہیں اور صدا مت دینا 
بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو 
تم بھکاری ہو کہیں ان کو بتا مت دینا 

Monday, 23 October 2017

ہر کوئی اس کا خریدار ہوا چاہتا ہے

ہر کوئی اس کا خریدار ہُوا چاہتا ہے 
گرم پھر حسن کا بازار ہوا چاہتا ہے 
دیکھ لینا غم معشوق میں کڑھتے کڑھتے 
کچھ نہ کچھ اب مجھے آزار ہوا چاہتا ہے 
آنکھ للچائی ہوئی پڑتی ہے جس پر میری 
عشق اس پر مرا اظہار ہوا چاہتا ہے 

مرتے دم او بے وفا دیکھا تجھے

مرتے دم او بے وفا! دیکھا تجھے 
اک نظر دیکھا تو کیا دیکھا تجھے 
اے پری رو! کیوں نہ میں دیوانہ ہوں 
بال کھولے بارہا دیکھا تجھے 
نکہت گل بھی نہ لائی تا قفس 
چل ہوا ہو اے صبا دیکھا تجھے 

کس طرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں

کس طرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں 
گھس گئی اس کی زباں تو شکوۂ صیاد میں 
داد خواہوں کی اگر پرسش ہوئی روز جزا 
سب سے پہلے آئیں گے ہم عرصۂ فریاد میں 
کیا لپٹ جائیں تِرا قامت سمجھ کر اس کو ہم 
یہ نزاکت یہ صباحت ہے کہاں شمشاد میں 

مرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا

مِرے ریاض کا آخر اثر دکھائی دیا 
چھپا تھا دل میں جو نغمہ مجھے سنائی دیا 
جہاں شناس و خود آگاہ کر دیا مجھ کو 
مِرے شعور نے وہ درد آشنائی دیا 
جو پا لیا تجھے میں خود کو ڈھونڈنے نکلا 
تمہارے قرب نے بھی زخم نارسائی دیا 

جو جنوں اختیار کرتے ہیں

جو جنوں اختیار کرتے ہیں
ہر ستم گر پہ وار کرتے ہیں
یہ نئی رُت کی آمد آمد ہے
پتے رقص بہار کرتے ہیں
سیڑھیوں میں رکا ہوا ہوں میں
چھت پہ دو پنچھی پیار کرتے ہیں

اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہو گا

اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہو گا 
نظر کر لطف کی ہم کوں جلاؤ گے تو کیا ہو گا 
تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے 
اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہو گا 
محبت سیں کہتا ہوں طور بد نامی کا بہتر نہیں 
اگر خندوں کی صحبت میں نہ جاؤ گے تو کیا ہو گا 

خدا کے واسطے اے یار ہم سیں آ مل جا

خدا کے واسطے اے یار! ہم سیں آ مل جا 
دلوں کی کھول گھنڈی غنچے کی طرح کھل جا 
جگر میں چشم کے ہوتیاں ہیں داغ تب پتلیاں 
نظر سیں اوٹ تِرا گال جب کہ اک تِل جا 
جنوں کے جام کوں لے شیشۂ شراب کو توڑ 
خرد گلی سیں پری پیکراں کی بیدل جا 

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا

نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا 
پنجرے میں بولتا ہے گرم آج اگن ہمارا 
پیری کمان کی جوں مانع نہیں اکڑ کوں 
ہے ضعف بیچ دونا اب بانکپن ہمارا 
چلتا ہے جیو جس پر جاتے ہیں اسکے پیچھے 
سودے میں عشق کے ہے اب یہ چلن ہمارا 

اور واعظ کے ساتھ مل لے شیخ

اور واعظ کے ساتھ مل لے شیخ 
کھول آپس کے بیچ کلے شیخ 
تیر سا قد کمان کر اپنا 
کھینچ فاقوں کے بیچ چلے شیخ 
چھوڑ تسبیح ہزار دانوں کی 
ہاتھ میں اپنے ایک دل لے شیخ 

نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں

نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں 
وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا 
ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں 
ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں

خود نوید زندگی لائی قضا میرے لئے

خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے 
شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے 
زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس بول کر 
آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے 
کنجِ عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشہ گیر 
رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے 

مرا راز دل آشکارا نہیں

مِرا رازِ دل آشکارا نہیں 
وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں 
وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ 
وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں 
وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور 
وہ آتش ہوں جس میں شرارا نہیں 

تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے

تم گل تھے ہم نکھار، ابھی کل کی بات ہے
ہم سے تھی سب بہار، ابھی کل کی بات ہے
بے گانہ سمجھو، غیر کہو، اجنبی کہو
اپنوں میں تھا شمار، ابھی کل کی بات ہے
آج اپنے پاس سے ہمیں رکھتے ہو دُور دُور
ہم بِن نہ تھا قرار، ابھی کل کی بات ہے

کیا غم ہے اگر شکوہ غم عام ہے پیارے

کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے
تو دل کو دُکھا، تیرا یہی کام ہے پیارے
تیرے ہی تبسم کا سحر نام ہے پیارے
تو کھول دے گیسو تو بھری شام ہے پیارے
جب پیار کیا، چین سے کیا کام ہے پیارے
اس میں تو تڑپنے ہی میں آرام ہے پیارے

Sunday, 22 October 2017

نگاہ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے

نگاہِ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے 
کسی کی کچھ نہیں چلتی ہے جب تقدیر پھرتی ہے 
مرقع ہے مِری آنکھوں میں کیا یارانِ رفتہ کا 
جو نظروں کے تلے ہر ایک کی تصویر پھرتی ہے 
تِرا دیوانہ جب سے اٹھ گیا صحرائے وحشت سے 
بگولے کی طرح سے ڈھونڈھتی زنجیر پھرتی ہے 

وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں

وہ میرا درد دل کیا جانتے ہیں 
تڑپنے کو تماشا جانتے ہیں 
بہار گل ہے خار آنکھوں میں تجھ بن 
چمن کو ہم تو صحرا جانتے ہیں 
کہیں کیا حال دل اپنا بتوں سے 
جو ہے دل میں تمنا جانتے ہیں 

نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال

نہ پوچھ ہجر میں جو کچھ ہوا ہمارا حال 
جسے نہ عشق ہو وہ جانے کیا ہمارا حال 
یقین ہے کہ کہیں گے وہ ہم صفیروں سے 
قفس میں دیکھ گئی ہے صبا ہمارا حال 
عجب ہے اس کا جو اب تک نہیں سنا اس نے 
فسانۂ سر بازار تھا ہمارا حال 

حزیں تم اپنی کبھی وضع بھی سنوارو گے

حزیں تم اپنی کبھی وضع بھی سنوارو گے 
قمیص خود ہی گرے گی تو پھر اتارو گے
خلا نوردو! بہت ذرے انتظار میں ہیں 
جہاز کون سا پاتال میں اتارو گے
اتر کے نیچے کبھی میرے ساتھ بھی تو چلو 
بلند کھڑکیوں سے کب تلک پکارو گے

عمر بھر بہتے ہیں غم کے تند رو دھاروں کے ساتھ

عمر بھر بہتے ہیں غم کے تند رو دھاروں کے ساتھ 
جانے کیوں ہوتے ہیں اتنے ظلم فنکاروں کے ساتھ 
ابر کی صورت برستے ہیں بلند و پست پر 
ہم نہیں آنسو بہاتے لگ کے دیواروں کے ساتھ 
ذہن کے پردے پہ رقصندہ ہیں پیاسی صورتیں 
ہم نشے میں کیسے بہہ سکتے ہیں میخواروں کے ساتھ 

درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی

درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی 
رات کی راکھ میں سلگی کوئی چنگاری سی 
دیکھیے شہر میں کب باد یقیں چلتی ہے 
کو بہ کو پھیلی ہے اوہام کی بیماری سی 
موت کا وار تو میں سہہ گیا ہنستے ہنستے 
زندگی تُو ہی کوئی چوٹ لگا کاری سی 

میری جان لینے والے ترا دم نکل نہ جائے

میری جان لینے والے تِرا دم نکل نہ جائے
میرا عشق تو جواں ہے تِرا حسن ڈھل نہ جائے
مِرے حال پر کرم کر مِری زندگی کے داتا
تِرا نام لیتے لیتے مِرا دم نکل نہ جائے
نہیں خوف بجلیوں کا مجھے ڈر جو ہے تو یہ ہے
سرِ بزم بے ارادہ مِرا دل مچل نہ جائے

ساغر نہیں شراب نہیں یا گھٹا نہیں

ساغر نہیں، شراب نہیں، یا گھٹا نہیں
ان کی سیاہ زلف کے سائے میں کیا نہیں
ہمدم نہیں، عزیز نہیں، آشنا نہیں
تیرے سوا کوئی بھی مِرا آسرا نہیں
تاکید کر رہے ہیں وہ اپنی نگاہ سے
یہ ان کا خاص رنگ ہے حسنِ ادا نہیں

حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو

حیات کھینچ کے لے آئی ہے کہاں مجھ کو
سنا رہا ہے وہ میری ہی داستاں مجھ کو
توجہ دی نہ کبھی اس کی بات پر میں نے
بنانا چاہا کئی بار راز داں مجھ کو
کسی کی شکل کسی کو نظر نہیں آتی
تمام شہر لگے ہے دھواں دھواں مجھ کو

Friday, 20 October 2017

چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا

چشمِ ظاہر سے رخِ یار کا پردہ دیکھا 
آنکھیں جب پھوٹ گئیں تب یہ تماشا دیکھا 
دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے تمہیں کیسا چاہا 
پوچھنا یہ ہے کہ تم نے ہمیں کیسا دیکھا 
پھر جلاؤ گے کبھی طالبِ دیدار کا خط 
سیکڑوں آنکھوں سے اس نے تمہیں دیکھا دیکھا

چھپ گیا یار خود نما ہو کر

چھپ گیا یار خود نما ہو کر 
رہ گئی چشمِ شوق وا ہو کر 
بیقراروں سے ان کو شرم آئی 
شوخیاں رہ گئیں حیا ہو کر 
کیا کہوں کیا ہے میرے دل کی خوشی 
تم چلے جاؤ گے خفا ہو کر 

کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے

کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے 
کچھ یہ بے چپن طبیعت بھی بری ہوتی ہے 
جیتے جی میرے نہ آئے تو نہ آئے، اب آؤ 
کیا شہیدوں کی زیارت بھی بری ہوتی ہے 
آپ کی ضد نے مجھے اور پلائی حضرت 
شیخ جی! اتنی نصیحت بھی بری ہوتی ہے 

مرے مرنے سے تم کو فکر اے دلدار کیسی ہے

مِرے مرنے سے تم کو فکر اے دلدار کیسی ہے 
تمہاری دل لگی کو محفلِ اغیار کیسی ہے 
ہمارے گھر سے جانا مسکرا کر پھر یہ فرمانا 
تمہیں میری قسم دیکھو مِری رفتار کیسی ہے 
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں غیر سے اور تم سے کیوں بگڑی 
ذرا ہم بھی سنیں آپس میں یہ تکرار کیسی ہے 

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے

اترنے والی دکھوں کی برات سے پہلے
چراغ بانٹ دو بستی میں رات سے پہلے
یوں ہی ملے گا نہ آب حیات کا چشمہ
گزرنا ہوگا لہو کی فرات سے پہلے
بشر جو آج ہے تہذیب و ارتقا کا امیں
فقط درندہ تھا عرفان ذات سے پہلے

کیا گل کھلائے دیکھئے تپتی ہوئی ہوا

کیا گل کھلائے دیکھیے تپتی ہوئی ہوا 
مسموم ہو گئی ہے مہکتی ہوئی ہوا 
یہ چیتھڑوں میں پھول یہ سرگرمِ کار لوگ 
یہ دوپہر کی دھوپ یہ جلتی ہوئی ہوا 
زندہ وہی رہے گا جسے ہو شعورِ زیست 
کہتی ہے روز رنگ بدلتی ہوئی ہوا 

اس کا نہیں ہے غم کوئ جاں سے اگر گزر گئے

اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے 
دکھ کی اندھیری قبر پر ہم بھی چراغ دھر گئے 
شان و شکوہ کیا ہوئے، قیصر و جَم کدھر گئے 
تخت الٹ الٹ گئے، تاج بکھر بکھر گئے 
فکرِ معاش نے سبھی جذبوں کو سرد کر دیا 
سڑکوں پہ دن گزر گیا ہو کے نڈھال گھر گئے