اس آباد خرابے میں
لو وہ چاہِ شب سے نکلا، پچھلے پہر پیلا مہتاب
ذہن نے کھولی، رکتے رکتے، ماضی کی پارینہ کتاب
یادوں کے بے معنی دفتر، خوابوں کے افسردہ شہاب
سب کے سب خاموش زباں سے، کہتے ہیں اے خانہ خراب
گزری بات، صدی یا پل ہو، گزری بات ہے نقش بر آب
یہ روداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں