زندگی کو زوال ہے اب تو
روگ اپنی مثال ہے اب تو
ایسے بدلے ہیں ڈھنگ دنیا نے
ٹھوکروں پہ کمال ہے اب تو
سوچ نادم، خیال رنجیدہ
جینا گویا ملال ہے اب تو
آج بھڑکی رگِ وحشت ترے دیوانوں کی
قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی
پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا
ٹولیاں بندھ کے چلیں دشت کو دیوانوں کی
آج کیا سُوجھ رہی ہے ترے دیوانوں کو
دھجیاں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں گریبانوں کی