Tuesday, 31 December 2013

عشق اور عقل میں یکتائی کہاں دیکھتے ہیں

عشق اور عقل میں یکتائی کہاں دیکھتے ہیں
ہم جنُوں خیز ہیں، رُسوائی کہاں دیکھتے ہیں
ہم نہ ہاریں گے کسی گام پہ بھی دشتِ بلا
تیرے پالے ہوئے پسپائی کہاں دیکھتے ہیں
کوئی فرصت سی ہے فرصت کہ نہیں اپنی خبر
ایسی بے ساختہ تنہائی کہاں دیکھتے ہیں

ہوں کیوں نہ پشیماں در و دیوار ہمارے

ہوں کیوں نہ پشیماں در و دیوار ہمارے
 ملتے ہیں کسی دشت سے آثار ہمارے
 ہم لوگ اگر گھر میں چراغوں کو جگہ دیں
 جل جائیں حسد سے در و دیوار ہمارے
وہ جنسِ گراں ہم ہیں کہ بازارِ جہاں میں
 ڈھونڈے سے نہیں ملتے خریدار ہمارے

عکس بھی عرصہ حیران میں رکھا ہوا ہے

عکس بھی عرصۂ حیران میں رکھا ہُوا ہے 
کون یہ آئینہ رُو، دھیان میں رکھا ہوا ہے 
شام کی شام سے سرگوشی سُنی تھی اک بار 
بس تبھی سے تجھے امکان میں رکھا ہوا ہے 
ہاں ترے ذکر پہ اک کاٹ سی اُٹھتی ہے ابھی 
ہاں ابھی دل ترے بحران میں رکھا ہوا ہے 

Monday, 30 December 2013

سانس کو لمحۂ موجود کی دستک نہ لکھوں

سانس کو لمحۂ موجود کی دستک نہ لکھوں
اور میں حشر کو مسجود کی دستک نہ لکھوں
میرا ہونا بھی نہ ہونے سے برا لکھا جائے
قلبِ انساں پہ جو محمود کی دستک نہ لکھوں
کانپتے ہاتھ ڈراتے ہیں مگر سوچتا ہوں
بخت کی آنکھ میں کیا دود کی دستک نہ لکھوں

Sunday, 29 December 2013

یہ میز یہ کتاب یہ دیوار اور میں

 یہ میز، یہ کتاب، یہ دِیوار اور میں
 کھڑکی میں زرد پُھولوں کا انبار اور میں
 ہر شام اِس خیال سے ہوتا ہے جی اُداس
 پنچھی تو جا رہے ہیں اُفق پار اور میں
 اِک عُمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے
 اِک دُوسرے کے خوف سے دِیوار اور میں

سب خواب ہیں اشکوں کی روانی کے حوالے

سب خواب ہیں اشکوں کی روانی کے حوالے
لو ہم نے کِیا پیاس کو، پانی کے حوالے
 تُو زُود فراموش نہیں،۔ پر یہ بتا دے
کیا عشق بھی ہے یاد دہانی کے حوالے
 اے عمرِ رواں اب تیری رفتار کا ڈر کیا
میں خود کو کیا اس کی جوانی کے حوالے

کیا خوب یہ انا ہے کہ کشکول توڑ کر

 کیا خوب یہ انا ہے کہ کشکول توڑ کر
 اب تک کھڑے ہوۓ ہیں وہیں ہاتھ جوڑ کر
 مر ہی نہ جائے ضبطِ فغاں سے کہیں یہ شہر
 سینے سے اس کے آہ نکالو جھنجھوڑ کر
 سُنت ہے کوئی ہِجرتِ ثانی بھلا بتاؤ؟
 جاتا ہے کوئی اپنے مدینے کو چھوڑ کر

کہنی ہے ایک بات دل شادکام سے

 کہنی ہے ایک بات دلِ شاد کام سے
 تنگ آ گیا ہوں یار! محبت کے نام سے
 میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بِینا کا روگ ہے
 اور لوگ ہیں، کہ کام انہیں اپنے کام سے
 عُشّاق ہیں کہ مرنے کی لذّت سے ہیں نڈھال
 شمشِیر ہے، کہ نکلی نہیں ہے نیام سے

وہ میرے سامنے منظر اچھال دیتا ہے

 وہ میرے سامنے منظر اچھال دیتا ہے
 نظر اٹھاؤں، تو آنکھیں نکال دیتا ہے
 سرشت اسکی خنک چاندنی سہی، لیکن
 وہ چاند، سارا سمندر ابال دیتا ہے
 وہ میری آخری ہچکی کا منتظر ہے بہت
 میرا سِسکنا اسے اشتعال دیتا ہے

دعا لپیٹ کے رکھ دیں کلام چھوڑ دیں ہم

دُعا لپیٹ کے رکھ دیں، کلام چھوڑ دیں ہم
 تو کیا، یہ خُوش طلبی کا مقام چھوڑ دیں ہم
 ہماری خاک سے سونا بنانا مُشکل تھا
 جو بَن رہا ہے تو کیا اس کو خام چھوڑ دیں ہم
 کہاں کی قیدِ عناصر، کبھی جو حکم کرو
 تمہارے نام پہ سارے غلام چھوڑ دیں ہم

اِک چادر بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں

اِک چادرِ بوسیدہ، میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دُنیا کو، پاپوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹِکاتا ہوں، ہنگامۂ دُنیا پر
اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں
کیفیتِ بے خبری کیا چیز ہے، کیا جانوں
بُنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں

سروں پر چرخ زنگاری رہے گا

سروں پر چرخِ زنگاری رہے گا
 میاں! یہ سال بھی بھاری رہے گا
 وہی خُوئے سِتمگاراں رہے گی
 وہی آئینِ خُوں خواری رہے گا
 رہے گا صبر بھی سینوں میں، لیکن
بہ مجبوری، بہ لاچاری رہے گا

مجھ کو اتنی تو نہ ايذائے سفر دی جائے

مجھ کو اتنی تو نہ ايذائے سفر دی جائے
 دھوپ دی ہے تو کچھ چھاؤں بھی کر دی جائے
 اس درِ عدل پہ کیا کوئی پُکارے کہ جہاں
 سی دیئے جائيں لب، آواز اگر دی جائے
 کچھ تو ساماں ہو میسّر، ہمیں حفظِ جاں کا
 چلئے شمشیر نہ دی جائے، سِپر دی جائے

سچائیوں کی لو کہیں بجھتی ہوا سے ہے

سچائیوں کی لَو کہیں بجھتی ہوا سے ہے
 یہ دشت زندہ میرے چراغِ صدا سے ہے
 باہر نِکل کے دیکھیں تو آسودگانِ قصر
 کیا سارا شور میری ہی زنجیرِ پا سے ہے
 احوال کوئی پوچھے نہ پوچھے، ملال کیا
 شکوہ تو مجھ کو اپنے مزاج آشنا سے ہے

ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ

ہر ایک پَل کی اُداسی کو جانتا ہے تو آ
مِرے وجود کو تُو دل سے مانتا ہے تو آ
وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
تُو آ رہا ہے، مگر سچ کو مانتا ہے تو آ
مِرے دِیئے نے اندھیرے سے دوستی کر لی
مجھے تُو اپنے اُجالے میں جانتا ہے تو آ

خزاں نصیب میں رشتہ مگر بہار سے بھی

خزاں نصیب میں، رشتہ مگر بہار سے بھی
 مجھے تو گْل کی توقّع ہے نوکِ خار سے بھی
 مْصِر ہوں میں، کہ گِنا جاؤں باوقاروں میں
 اْنہیں یہ ضِد کہ میں خارج رہوں شُمار سے بھی
 جہاں بھی جاؤں، اسیرِ حیات رہتا ہوں
 یہ مسئلہ تو نہ حل ہو سکا فرار سے بھی

Friday, 27 December 2013

بے سبب پيار ميں کمی پہ نہ آ

بے سبب پيار ميں کمی پہ نہ آ
اے مِرے دوست! دُشمنی پہ نہ آ
رہروِ عشق! کچھ ڈگر کا خيال
اتنی دور آ کے کَج روی پہ نہ آ
ہمنشيں! حرمتِ سخن تک رہ
اس ميں امکانِ بے زری پہ نہ آ

ماں؛ خیال پیار محبت سے اس کو ماں کہئے

ماں

عظیم مرتبہ ہستئ دوجہاں کہئے
وجودِ نوعِ بشر کی ہے داستاں کہئے
خدا کے قُرب و محبت کا ارمغاں کہئے
سفر حیات کا جس سے ہو جاویداں کہئے
اسے سُکون و تحفّظ کا سائباں کہئے
یا وُسعتوں کے لئے ایک آسماں کہئے

Thursday, 26 December 2013

عمر کا بھروسا کیا پل کا سات ہو جائے

عمر کا بھروسا کیا، پَل کا سات ہو جائے
اک بار اکیلے میں، اس سے بات ہو جائے
دل کی گنگ سرشاری اس کوجیت لے لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہو جائے
ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک انسان کے
ساری زندگانی ہی بے ثبات ہو جائے

اپنا تو یہ کام ہے بھائی دل کا خون بہاتے رہنا

اپنا تو یہ کام ہے بھائی، دل کا خُون بہاتے رہنا
جاگ جاگ کر ان راتوں میں شعر کی آگ جلاتے رہنا
اپنے گھر سے دُور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
رات کے دشت میں پھول کھِلے ہیں، بھولی بسری یادوں کے
غم کی تیز شراب سے ان کے تیکھے نقش مٹاتے رہنا

Wednesday, 25 December 2013

کب اترے گا روح سے گارا مٹی کا

کب اترے گا روح سے گارا مٹی کا
مٹی کی ہے جھیل، کنارا مٹی کا
آنکھوں میں ہے صحراؤں سا سُونا پن
پاؤں کے نیچے ہے انگارا مٹی کا
میں نے ہر دم کی دلداری مٹی کی
میں نے ہر دم قرض اتارا مٹی کا

نہ سوال ہے نہ جواب ہے يہ عذاب ہے

نہ سوال ہے نہ جواب ہے، يہ عذاب ہے
يہ جو زندگی کی کتاب ہے، يہ عذاب ہے
يہ جو بے لگام ہے رخشِ وقت، يہ وہم ہے
يہ جو رات دن کا حساب ہے، يہ عذاب ہے
وہ جو کچی عمر کاجوگ تھا کوئی روگ تھا
يہ عنفوانِ شباب ہے، يہ عذاب ہے

مجھ کو رکھتی ہے یہ ناشاد اٹھا لی جائے

مجھ کو رکھتی ہے یہ ناشاد اٹھا لی جائے
زندگی نام کی اُفتاد اُٹھا لی جائے
کب تلک دیکھنی ہے راہ عمارت گر کی
خُود ہی ویرانے کی بُنیاد اُٹھا لی جائے
میرے ہوتے ہوئے نہ ہو گی شراکت دل میں
ہاں یہ پابندی مِرے بعد اُٹھا لی جائے

عکس کتنے اتر گئے مجھ میں

عکس کتنے اتر گئے مجھ میں
پھر نجانے کدھر گئے مجھ میں
میں وہ پَل تھا جو کھا گیا صدیاں
سب زمانے گزر گئے مجھ میں
یہ جو میں ہوں زرا سا باقی ہوں
وہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں

Tuesday, 24 December 2013

میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آ گیا

میرے رشکِ قمر تُو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا گیا
جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزا آ گیا
چاند کے سائے میں اے مِرے ساقیا! تُو نے ایسی پلائی مزا آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے
مئے کدے پہ برسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گر کے چھائی مزا آ گیا

جاگ اٹھیں گے درد پرانے زخموں کی انگنائی میں

جاگ اٹھیں گے درد پرانے زخموں کی انگنائی میں
دل کی چوٹ ابھر آئے گی مت نکلو پُروائی میں
کوئل کُوکی، موجِ صبا نے پاؤں میں گھنگھرو باندھ لیے
پیار کا نغمہ چھیڑ رہا ہے آج کوئی شہنائی میں
جو پہلے بدنام ہوئے تھے ان کو دنیا بھول گئی
ہم نے کیسے رنگ بھرے ہیں عشق تیری رُسوائی میں

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چَیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی
سب سے نظر بچا کہ وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی، گردشِ ماہ و سال بھی

Monday, 23 December 2013

کہنا غلط غلط تو چھپانا صحیح صحیح

کہنا غلط غلط تو چھپانا صحیح صحیح
قاصد کہا جو اس نے بتانا صحیح صحیح
یہ صبح صبح چہرے کی رنگت اڑی ہوئی
کل رات تم کہاں تھے بتانا صحیح صحیح
دل لے کے میرا ہاتھ میں کہتے ہیں مجھ سے وہ
کیا لو گے اس کا دام، بتانا صحیح صحیح

آواز دے کے خود کو بلایا نہیں گیا

آواز دے کے خُود کو بلایا نہیں گیا
ایسا گیا ہوں، لوٹ کے آیا نہیں گیا
کیسے شفیق پیڑ تھے، کٹنے کے بعد بھی
اُن کا مِرے وجود سے سایا نہیں گیا
بکھرا ہوا ہوں، کتنے زمانوں پہ ٹوٹ کر
پورا ابھی سمیٹ کے لایا نہیں گیا

خود پر بھی پوری طرح ابھی کب عیاں ہوں میں

خود پر بھی پوری طرح ابھی کب عیاں ہوں میں
تجھ کو گِلہ ہے تیری نظر سے نہاں ہوں میں
واقف نہیں ہے میری ابھی تشنگی سے تُو
دریا کو پی کے بحر کی جانب رواں ہوں میں
جلتے ہوئے چراغ میں تھا میں ہی روشنی
اُڑتا ہوا ہواؤں میں اب اک دُھواں ہوں میں

سر میں سودا بھی ہے اور خاک بھی ڈالی ہوئی ہے

سر میں سودا بھی ہے اور خاک بھی ڈالی ہوئی ہے
دونوں ہاتھوں سے یہ دستار سنبھالی ہوئی ہے
یہ جو جگنو ہیں، اندھیرا نہیں ہونے دیتے
ہم نے بھی سینے میں اک جوت جگا لی ہوئی ہے
ہم نے پھولوں کے علاقے میں قدم رکھنا ہے
وادئ خار سے اک راہ نکالی ہوئی ہے

فراق سایوں کی صورت کبھی ڈھلے گا نہیں

فراق سایوں کی صورت کبھی ڈھلے گا نہیں
اِس آئینے سے وہ چہرہ کبھی ہٹے گا نہیں
کسی نے ہم کو کہا تھا، ہمارے بعد کبھی
دیا جلاؤ گے، لیکن دیا جلے گا نہیں
یہ ہجرتوں کی کمائی ہے اِس طرح نہ لُٹا
اِن آنسوؤں کے بِنا یہ سفر کٹے گا نہیں

جب آنکھیں بجھ کر راکھ ہوئیں

جب آنکھیں بجھ کر راکھ ہوئیں
جب دل کا جوالا سرد پڑا
جب شام و سحر کے صحرا میں
خوابوں کے ستارے ریت ہوئے
جب عمرِ رواں کے میداں میں
سب زندہ جذبے کھیت ہوئے

Sunday, 22 December 2013

یہ کام اپنے سامنے کر جانا چاہئے

یہ کام اپنے سامنے کر جانا چاہئے
خوابوں کو سب میں بانٹ کے مر جانا چاہئے
اُتری نہیں ہے آج بھی کوئی شبِ وصال
میں سوچتا ہوں مجھ کو بھی گھر جانا چاہئے
جس روز قاتلوں کو پزیرائی ہو نصیب
اس روز اپنے آپ سے ڈر جانا چاہئے

بات شبیر کی گفتار میں رکھی ہوئی ہے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

بات شبیر کی گفتار میں رکھی ہوئی ہے
وجہِ انکار بھی انکار میں رکھی ہوئی ہے
سامنے سے کبھی ہٹتی نہیں صبحِ عاشور
میں نے وہ دیدۂ بیدار میں رکھی ہوئی ہے
دینِ حق جس سے شفایاب نظر آتا ہے
وہ شفا تو کسی بیمار میں رکھی ہوئی ہے

کٹے سر سے شہادت کا بیاں ہو جائے تو پھر

کٹے سر سے شہادت کا بیاں ہو جائے تو پھر
نمازی ایک نہ ہو اور اذاں ہو جائے تو پھر
ہمارے سامنے زر کی کوئی قیمت نہیں ہے
جسے ہم سُود کہتے ہیں زیاں ہو جائے تو پھر
خدا جانے، نتیجہ قیس کا آئے گا کیسا
محبت میں اگر اِک امتحاں ہو جائے تو پھر

میرا چہرہ مرے افکار سے لپٹا ہوا ہے

میرا چہرہ مِرے افکار سے لپٹا ہوا ہے
سارا گھر ایک ہی دیوار سے لپٹا ہوا ہے
بات یہ ایک پرندے نے بتائی ہے مجھے
یہ شجر سایۂ دیوار سے لپٹا ہوا ہے
کیسے آتا ہے اثر میری دعاؤں میں بھلا
کوئی تو قلبِ گنہ گار سے لپٹا ہوا ہے

جبروت کی لے صبر کی گفتار سے کم ہے

جبرُوت کی لَے صبر کی گفتار سے کم ہے
شاہوں کا حشم چہرۂ بیمار سے کم ہے
ایماں کی طرف آنے سے حُر کے یہ کُھلا راز
عالم کی جبِیں قلبِ گنہ گار سے کم ہے
شبیرؓ تیری بات کی کوئی نہیں تمثیل
اثباتِ جہاں بھی تیرے انکار سے کم ہے

یہ جہاں اس جہاں سے ملتا ہے

یہ جہاں اُس جہاں سے ملتا ہے
لامکاں بھی مکاں سے ملتا ہے
کتنا محدود کر لیا خود کو
اب خدا بھی اذاں سے ملتا ہے
عشق میں ہارنا ضروری ہے
سُود اس کا زیاں سے ملتا ہے

لفظ لا کے لب اظہار پہ رکھ دیتے ہیں

لفظ لا کے لبِ اظہار پہ رکھ دیتے ہیں
ہم ہیں جو دائرہ پرکار پہ رکھ دیتے ہیں
مل ہی جائے گی اسے اپنی خبر رات گئے
اپنی تصویر کو اخبار پہ رکھ دیتے ہیں
سیکھنے اس لئے آتا ہے زمانہ ہم سے
جو نہیں جانتے دیوار پہ رکھ دیتے ہیں

مے تو رکھی ہے جام غائب ہے

مے تو رکھی ہے جام غائب ہے
شعر حاضر، کلام غائب ہے
اپنی حالت ہے اس حرم کی جہاں
ہیں نمازی، امام غائب ہے
یہ ںگر کوفیوں کا ہے شاید
سب کے چہرے ہیں نام غائب ہے

کیا دکھاتا میں سند میں اسے تحریر کوئی

کیا دکھاتا میں سند میں اسے تحریر کوئی
آئینہ مجھ کو سمجھتا رہا تصویر کوئی
فکر میں اپنی نئی نسل کو دے آیا ہوں
اب مجھے روک کے دکھلائے تو زنجیر کوئی
وہ بدلتا رہا گھر کا مِرے منظر نامہ
میں لگاتا رہا دیوار پہ تصویر کوئی

گھر کا مرے شاید کوئی معمار نہیں ہے

گھر کا مِرے شاید کوئی معمار نہیں ہے
دیوار تو ہے، سایۂ دیوار نہیں ہے 
کھولی ہے دُکاں شہرِ خموشاں کے برابر 
کہتا ہے مسیحا کوئی بیمار نہں ہے 
نسبت ہے مجھے اس لئے کربل کی زمیں سے
"لڑتا ہوں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے" 

خواب کو اس کی ہی تعبیر میں رکھا جائے

خواب کو اس کی ہی تعبیر میں رکھا جائے
میرا چہرہ مِری تصویر میں رکھا جائے
میں وہ آیت ہوں مطالب ہیں بہت سے جس کے
ذکر میرا ابھی تفسیر میں رکھا جائے
مجھ کو مختار بنایا ہے تو پھر میرے خدا
میرا کہنا میری تقدیر میں رکھا جائے

پوری ہوئی دعا تو اثر ساتھ رکھ لیا

پوری ہوئی دعا تو اثر ساتھ رکھ لیا
اچھی لگی غزل تو ہنر ساتھ رکھ لیا
دشوار اس لئے مجھے رستے نہیں لگے
پاؤں تھکے تو عزمِ سفر ساتھ رکھ لیا
رکھا نہیں کسی کو بھی اپنے مکان میں
ہجرت جو کی تو اپنا ہی گھر ساتھ رکھ لیا

Saturday, 21 December 2013

غروب ہوتی ہوئی عمر میں لگا ہے مجھے

غروب ہوتی ہوئی عمر میں لگا ہے مجھے
یہ عشق عشق نہیں ہے کوئی دعا ہے مجھے
ہر ایک سمت چھلکتی ہے روشنی میری
کسی نے اتنا اجالوں سے بھر دیا ہے مجھے
میں اپنے آپ کو پھر کیوں نظر نہیں آتا
یہ کائنات اگر ایک آئینہ ہے مجھے

ہمیں بھی ترکِ تعلق کا دکھ بڑا ہے جناب

ہمیں بھی ترکِ تعلق کا دکھ بڑا ہے جناب
مگر یہ عشق کوئی اور سلسلہ ہے جناب
چلو چراغ نہیں دل کی لو سلامت ہے
کوئی تو ہے جو مرے ساتھ جل رہا ہے جناب
یہ ناؤ چھوڑنے والی ہے ساحلِ دنیا
کوئی افق سے مسلسل پکارتا ہے جناب

دیکھ اے شعلہ بدن حوصلہ داری میری

دیکھ اے شُعلہ بدن حوصلہ داری میری
خاک تھا، اور رہی آگ سے یاری میری
روک لو اب بھی کسی طرح مِرے اشکِ رواں
یہ نہ ہو تم بھی کرو گریہ زاری میری
کچھ نہیں کھلتا یہ کیا لوگ ہیں اور کیسی قطار
سب کے آخر میں بھی نہیں آئی باری میری

کونپلیں پھر پھوٹ آئیں شاخ پر کہنا اسے

کونپلیں پھر پھوٹ آئیں شاخ پر کہنا اُسے
وہ نہ سمجھا ہے نہ سمجھے گا مگر کہنا اسے
وقت کا طوفان ہر اک شے بہا کر لے گیا
کتنی تنہا ہو گئی ہے رہگزر کہنا اسے
جا رہا ہے چھوڑ کر تنہا مجھے جس کیلئے
چین نہ دے پائے گا وہ سیم و زر کہنا اسے

قصے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے

قصّے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے
آ دیکھ ترے نام سے موسوم ہیں سارے
بس اس لیے ہر کام ادھورا ہی پڑا ہے
خادم بھی میری قوم کے مخدوم ہیں سارے
اب کون میرے پاؤں کی زنجیر کو کھولے
حاکم میری بستی کے بھی محکوم ہیں سارے

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدوں میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
ہم خاک نشینوں سے ہی کیوں کرتے ہیں نفرت
کیا پردہ نشینوں میں غلاظت نہیں ہوتی

ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہیئے

ہر وقت فکرِ مرگِ غریبانہ چاہیئے
صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیئے
دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رَستے میں اِک سلامِ رفیقانہ چاہیئے
آنکھوں میں اُمڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دُور کا یارانہ چاہیئے

Friday, 20 December 2013

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے راہروِ راہِ وفا دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے

تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی

تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی
آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ہوش اڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں
تیری بستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئی

تم آ گئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں

تم آ گئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں

دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو

دور فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو
کنجِ قفس میں سُن لیتے ہیں بُھولی بِسری باتوں کو
ریگِ رواں کی نرم تہوں کو چھیڑتی ہے جب کوئی ہوا
سُونے صحرا چیخ اُٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو
آتشِ غم کے سیلِ رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو

آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے

بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے
 یہ ہم سفر مرے کتنے گریز پا نکلے
 چلے تھے اور کسی راستے کی دھن میں مگر
 ہم اتفاق سے تیری گلی میں‌ آ نکلے
 غمِ فراق میں‌ کچھ دیر رو ہی لینے دو
 بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے
میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سور رہی ہے
چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

پھر ساون رُت کی پَوَن چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پُھولوں کی تم یاد آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سُونے آنگن میں
پھر امرت رَس کی بُوند پڑی تم یاد آئے

آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو

آرائشِ خیال بھی ہو دل کُشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے
زندگی تُو ہی بتا کیسے جیا چاہیے
میری نوائیں الگ، میری دعائیں الگ
میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے
نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن
میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے

کبھی کبھی تو جذب عشق مات کھا کے رہ گیا

کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا
کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا
جدائیوں کے مرحلے بھی حُسن سے تہی نہ تھے
کبھی کبھی تو شوق آئینے دکھا کے رہ گیا
کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں
زمانہ اس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا

جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے

جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
تُو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے
خیال ہی نہیں‌ آتا کسی مصیبت کا
ترے خیال میں ہر بات غم ربا سی ہے
جہاں میں یوں تو کسے چین ہے مگر پیارے

وہ دلنواز ہے نظر شناس نہیں

وہ دل نواز ہے، نظر شناس نہیں
میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
میرے لئے کوئی شایانِ التماس نہیں
تیرے اجالوں میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
میرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در

کہیں اُجڑی اُجڑی سی منزلیں کہیں ٹُوٹے پُھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو! جہاں لوگ پِھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پِھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر، نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ، کہاں رہ گئے مرے ہمسفر
جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ چاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر

ان کو مرے خلوص پہ شر کا گماں ہوا

ان کو مِرے خلوص پہ شر کا گماں ہوا
یعنی کِرن پہ شاخِ شرر کا گماں ہوا
اس روز آیا اپنی خدائی پہ اعتبار
جس روز خُود پہ مجھ کو بشر کا گماں ہوا
گلیاں بدلتے تیری گلی میں پہنچ گئے
آوارگی پہ اپنی سفر کا گماں ہوا

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے

اِس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں، زخم رہگزاروں کے
خلوتوں کے شیدائی، خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو، راز پردہ داروں کے
گیسوؤں کی چھاؤں میں، دل نواز چہرے ہیں
یا حسِیں دھندلکوں میں پھول ہیں چناروں کے

جہاں معبود ٹھہرايا گيا ہوں

جہاں معبود ٹھہرايا گيا ہوں
وہيں سُولی پہ لٹکايا گيا ہوں
سُنا ہر بار ميرا کلمۂ صدق
مگر ہر بار جھٹلايا گيا ہوں
عجب اِک سرِ مبہم ہے مِری ذات
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھايا گيا ہوں

لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے

لفظ ٹوٹے لبِ اظہار تک آتے آتے
مر گئے ہم تِرے معیار تک آتے آتے
ہم کو معلوم تھا آسودگی قسمت میں نہیں
جل گئے سایۂ دیوار تک آتے آتے
کس طرح سَلب ہوئی قوتِ گویائی بھی

آئینے کہتے ہیں اس خواب کو رسوا نہ کرو

آئینے کہتے ہیں، اس خواب کو رُسوا نہ کرو
ایسے کھوئے ہوئے انداز سے دیکھا نہ کرو
کیسے آ جاتی ہے کونپل پہ یہ جادُو کی لکیر
دن گزر جاتے ہیں، محسوس کرو یا نہ کرو 
کہیں دیوارِ قیامت، کبھی زنجیرِ ازل 
کیا کرو عشقِ زیاں کیش میں اور کیا نہ کرو

Wednesday, 18 December 2013

ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے

ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مِری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
مجھ کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تِرا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے

کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے

کون آیا؟ راستے آئینہ خانے ہو گئے 
رات روشن ہو گئی دن بھی سہانے ہو گئے 
کیوں حویلی کے اُجڑنے کا مُجھے افسوس ہو
سینکڑوں بے گھر پرندوں ‌کے ٹھکانے ہو گئے 
جاؤ ان کمروں کے آئینے اُٹھا کر پھینک دو
بے ادب یہ کہہ رہے ہیں‌ ہم پرانے ہو گئے ہیں

کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی

کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی
وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی
ہر اک سے کون محبت نباہ سکتا ہے؟
سو ہم نے دوستی یاری تو کی، وفا نہیں کی
شکستگی میں بھی پندارِ دل سلامت ہے
کہ اسکے در پہ تو پہنچے مگر صدا نہیں کی

کٹھن ہے راہگزر تھوڑی دور ساتھ چلو

کٹھن ہے راہگزر تھوڑی دُور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو
تمام عمر کہاں کوئی ساتھ ديتا ہے
يہ جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو
نشے ميں چُور ہوں ميں بھی تمہيں ہوش نہيں
بڑا مزہ ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو

جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے

جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے
مئے برستی ہے، فضاؤں پہ نشہ طاری ہے
میرے ساقی نے کہیں جام اچھالے ہوں گے
شمع وہ لائے ہیں ہم جلوہ گہِ جاناں سے
اب دو عالم میں اجالے ہی اجالے ہوں گے

کروں نہ یاد اگر کس طرح بھلاؤں اسے

کروں نہ یاد اگر کس طرح بھلاؤں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں سے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاؤں اسے

آ کے دیکھو تو کبھی تم میری ویرانی میں

آ کے دیکھو تو کبھی تم میری ویرانی میں
کتنے سامان ہیں اس بے سروسامانی میں
آج بھی دیکھ لیا اس نے کہ میں زندہ ہوں
چھوڑ آیا ہوں اسے آج بھی حیرانی میں
رات پھر تا بہ سحر شاخ افق خالی تھی
چاند پھر ڈوب گیا تیری پیشانی میں

ایک تصویر نظر آتی ہے شہ پاروں میں

ایک تصویر نظر آتی ہے شہ پاروں میں
مشترک سوچ ہے اس عہد کے فن کاروں میں
لوگ جنگل کی ہواؤں سے ہیں اتنے خائف
کوئی روزن ہی نہیں گاؤں کی دیواروں میں
جس کی پیشانی پہ تحریر تھا محنت کا نصاب
سرِفہرست وہی شخص ہے بے کاروں میں

آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے

آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اُترے
پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے
کچھ رنگ تو ابھرے تِری گُل پیرہنی کا
کچھ زنگ تو آئینۂ ایام سے اترے
ہوتے رہے دل لمحہ بہ لمحہ تہ و بالا
وہ زِینہ بہ زِینہ بڑے آرام سے اترے

کس طرح ياد کروں کيسے بھلاؤں تجھ کو

کس طرح ياد کروں، کيسے بھلاؤں تُجھ کو
تو کوئی رَسم نہيں ہے کہ نبھاؤں تجھ کو
روز آنکھوں سے بکھرتا ہے نيا خواب کوئی
دل يہ کہتا ہے نہ آنکھوں ميں سجاؤں تجھ کو
خوب ہوتے ہيں چاہت کے يہ ميٹھے رِشتے
بھول کر بھی کبھی دشمن نہ بناؤں تجھ کو

ہم تھے نیازمند شوق شوق نے ہم کو کیا دیا

ہم تھے نیازمندِ شوق، شوق نے ہم کو کیا دیا
صبح کا دُکھ بڑھا دیا، شام کا دُکھ بڑھا دیا
دن میں عذابِ ذات کے، تُو مِرا ساتھ بھی تو دے
نیند تھی میری زندگی، تُو نے مُجھے جگا دیا
واعظ و زاہد و فقیہ، تم کو بتائے بھی تو کون
وہ بھی عجیب شخص تھا، جس نے ہمیں خدا دیا

جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں

جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دِکھانے آ جاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں
دن بھر جو سُورج کے ڈر سے گلیوں میں چُھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پُرانے آ جاتے ہیں
جن لوگوں نے ان کی طلب میں صحراؤں کی دُھول اڑائی
اب یہ حسِیں ان کی قبروں پر پُھول چڑھانے آ جاتے ہیں

یاد یاراں سے مہکتا رہے باغ گل سرخ

یادِ یاراں سے مہکتا رہے باغِ گُلِ سُرخ
لَو دیے جائیں اندھیرے میں چراغِ گلِ سرخ
فصلِ گُل آئے گی، ٹھہرے گی، چلی جائے گی
اپنے دامن میں چھپائے ہوئے داغِ گلِ سرخ
دل کی وحشت کا اثر کم ہو تو شاید ہاتھ آئے
خس و خاشاک کے موسِم میں سراغِ گلِ سرخ

سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا

سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا
مرنے کا ہے موسم یہی، جی بھر کے مروں گا
آغاز طلب ہے مِرا افسانۂ ہستی
بنیاد تِری آنکھ کی مستی پہ دھروں گا
حالات مجھے خوابِ پریشان بنا لیں
حالات کو کچھ میں بھی پریشان کروں گا

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

نکتہ چِیں ہے، غمِ دل اس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو، مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے
کاش، یوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے

Tuesday, 17 December 2013

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے
خود پشیمان ہوئے اس کو نہ شرمندہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے

کہیں تو کاروان درد کی منزل ٹھہر جائے

کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے
کنارے آ لگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے
اماں کیسی کہ موجِ خُوں ابھی سَر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے
کوئی دَم بادبانِ کشتئ صہبا کو تہ رکھو
ذرا ٹھہرو غبارِ خاطرِ محفل ٹھہر جائے

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ھیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آنکھوں میں تیری بزم تماشا لئے ہوئے

آنکھوں میں تیری بزمِ تماشا لئے ہوئے
 جنّت میں بھی ہوں جنتِ دنیا لئے ہوئے
 پاسِ ادب میں جوشِ تمنّا لئے ہوئے
 میں بھی ہوں اِک حباب میں دریا لئے ہوئے
 کس طرح حُسنِ دوست ہے بے پردہ آشکار
 صد ہا حجابِ صورت و معنیٰ لئے ہوئے

ہم اشکِ غم ہیں اگر تھم رہے رہے نہ رہے

ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے، رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے، رہے نہ رہے
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے، رہے نہ رہے
مُجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ
کہ اس کے آنے تلک دم رہے، رہے نہ رہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

بنجارا
(سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا)

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شُتر، کیا گوئی پلا ، سر بھارا
کیا گیہوں، چانول، موٹھ ، مٹر، کیا آگ، دھواں، کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پُل بنا، چاہ بنا ۔۔۔ مسجد و تالاب بنا
چشمِ مخمور کا ہوں کس کی میں کشتہ یا رب
کہ مِری خاک سے بھی جام مئے ناب بنا
ہائے پچھتاتا ہوں کیوں اس سے کِیا بگاڑ
کہ جو اس طرح سے اب پِھرتا ہوں بیتاب بنا

موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے

موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گُل بُوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مِٹ جائیں گے
ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے
مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا
صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے

کیا کیا ہمارے خواب تھے جانے کہاں پہ کھو گئے

کیا کیا ہمارے خواب تھے، جانے کہاں پہ کھو گئے
تم بھی کسی کے ساتھ ہو، ہم بھی کسی کے ہو گئے
جانے وہ کیوں تھے, کون تھے, آئے تھے کس لیے یہاں
وہ جو فشارِ وقت میں، بوجھ سا ایک دھو گئے
اس کی نظر نے یوں کیا گردِ ملالِ جان کو صاف
اَبر برس کے جس طرح، سارے چمن کو دھو گئے

Monday, 16 December 2013

کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتہ جانتی ہے

کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتا جانتی ہے
کس طرف آگ لگانا ہے ہوا جانتی ہے
اُجلے کپڑوں میں رہو یا کہ نقابیں ڈالو
تم کو ہر رنگ میں خلقِ خدا جانتی ہے
روک پائے گی نہ زنجیر نہ دیوار کوئی
اپنی منزل کا پتہ آہِ رسا جانتی ہے

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے 
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے 
یوسفؑ نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے 
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے 
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے 
اب کہ مقابلے پہ میرے یار آ گئے 

تمہی میرے مندر تمہی میری پوجا تمہی دیوتا ہو

فلمی گیت

تمہی میرے مندر تمہی میری پوجا تمہی دیوتا ہو تمہی دیوتا ہو 
کوئی میری آنکھوں سے دیکھے تو سمجھے کہ تم میرے کیا ہو 
تمہی میری مندر ۔۔۔۔۔۔۔۔

جدھر دیکھتی ہوں ادھر تم ہی تم ہو 
نہ جانے مگر کن خیالوں میں گم ہو 
مجھے دیکھ کر ذرا مسکرا دو 
نہیں تو میں سمجھوں گی مجھ سے خفا ہو 
تمہی میرے مندر تمہی میری پوجا تمہی دیوتا ہو

چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ

فلمی گیت

چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بے گانہ
چل اڑ جا رے پنچھی۔۔۔۔۔۔

ختم ہوئے دن اس ڈالی کے جس پر تیرا بسیرا تھا
آج یہاں اور کل ہو وہاں یہ جوگی والا پھیرا تھا 
یہ تیری جاگیر نہیں تھی چار گھڑی کا ڈیرا تھا 
سدا رہا ہے اس دنیا میں کس کا آب و دانہ 
چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بے گانہ
چل اڑ جا رے پنچھی۔۔۔۔۔۔

یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی تیری اک ادا پہ نثار ہے

فلمی گیت

یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی تیری اک ادا پہ نثار ہے 
مجھے کیوں نہ ہو تیری آرزو تِری جستجو میں بہار ہے
یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی

تجھے کیا خبر ہے او بے خبر تیری اک نظر میں ہے کیا اثر 
جو غضب میں آئے تو قہر ہے، جو ہو مہرباں تو قرار ہے
مجھے کیوں نہ ہو تیری آرزو تِری جستجو میں بہار ہے
یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی

میرا دل یہ پکارے آ جا میرے غم کے سہارے آ جا

فلمی گیت

میرا دل یہ پکارے آ جا میرے غم کے سہارے آ جا 
بھیگا بھیگا ہے سماں ایسے میں ہے تُو کہاں 
میرا دل یہ پکارے آ جا ۔۔۔۔

تُو نہیں تو یہ رُت یہ ہوا کیا کروں 
دور تُجھ سے میں رہ کے بتا کیا کروں 
سُونا سُونا ہے جہاں اب جاؤں میں کہاں 
بس اتنا مجھے سمجھا جا 
بھیگا بھیگا ہے سماں ایسے میں ہے تو کہاں 
میرا دل یہ پکارے آ جا ۔۔۔۔

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے

فلمی گیت

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے
یوں حسرتوں کے داغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر سے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش میں
غم راہ میں کھڑے تھے، وہی ساتھ ہو لیے
خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے
یوں حسرتوں کے داغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ سیئو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو

نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو
مصلحت کا یہ تقاضا ہے، بھلا دو ہم کو
جرمِ سُقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو
زہر رکھا ہے تو یہ آبِ بقا دو ہم کو
بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں
ہم اگر سوئے ہوئے ہیں تو جگا دو ہم کو

اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا

 فلمی گیت

اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا

وہ رُوپ کہ جس رُوپ سے کلیاں بھی لجائیں
وہ زُلف کہ جس زُلف سے شرمائیں گھٹائیں
مے خانے نگاہوں کے، اداؤں کے ترانے
دے ڈالے مجھے اُس نے محبت کے خزانے

موسم یہاں موسم بدلنے میں کوئی لمحہ نہیں لگتا

موسم 

یہاں موسم بدلنے میں کوئی لمحہ نہیں لگتا
جنہیں اپنا کہو وہ بھی بدل جاتے ہیں اِک پَل میں
نئے موسم میں وہ بھی اِک نیا بہروپ لیتے ہیں
گمان و وہم سے بڑھ کر یقیں کو چوٹ دیتے ہیں
جو اِس دل کے بہت ہی پاس ہوں، وہ دُور ہوتے ہیں
وہ ایسا کرنے پر شاید بہت مجبُور ہوتے ہیں

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لئے

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے
ہم نے تو اپنے جسم پر زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے
میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اِس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے

میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا

میلے میں گَر نظر نہ آتا رُوپ کسی متوالی کا
پِھیکا پِھیکا رہ جاتا تہوار بھی اس دِیوالی کا
مایوں بیٹھے رُوپ سرُوپ کے روگ سے واقف لگتی ہے
آنچل بھیگا جاتا ہے اس دُلہن کی شاہبالی کا 
برتن برتن چیخ رہی تھی کون سمجھتا اُس کی بات
دل کا برتن خالی تھا، اُس برتن بیچنے والی کا

اس کی آنکھوں پہ مان تھا ہی نہیں

اُس کی آنکھوں پہ مان تھا ہی نہیں 
خواب تھے، خواب دان تھا ہی نہیں
میں تعاقُب میں چل پڑا جس کے
دھُول تھی، کاروان تھا ہی نہیں
دو زمیں زاد جس میں رہ سکتے
اس قدر آسمان تھا ہی نہیں 

تاصبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات

تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات 
نوچکیاں چلیں مِرے سر پر تمام رات
اللہ رے صبح عید کی اس حور کی خوشی
شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات
کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار
سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات

Sunday, 15 December 2013

راز ہے بہت گہرا بات اک ذرا سی ہے

راز ہے بہت گہرا، بات اک ذرا سی ہے
وہ ہیں سامنے پھر بھی چشمِ شوق پیاسی ہے
زندگی بھی برہم ہے، موت بھی خفا سی ہے
آج کل تو دونوں میں آپ کی ادا سی ہے
اپنی انجمن سے ہم یہ کہاں چلے آئے
ہر طرف اندھیرا ہے، ہر طرف اداسی ہے

پاؤں رکے نہ دشت کی وسعت تمام کی

پاؤں رُکے نہ دَشت کی وُسعت تمام کی
ہم نے تو عمر بھر یونہی ہجرت تمام کی
لو آج ہم نے توڑ دئے رابطے تمام
لو آج ہم نے عشق کی زحمت تمام کی
لو آج ہم نے کھینچ لی زنجیر ہجر کی
لو آج ہم نے دَشت میں وحشت تمام کی

چراغ سارے بجھا کر چلا گیا مجھ میں

چراغ سارے بجھا کر چلا گیا مُجھ میں
پھر اس کے بعد اجالا نہ ہو سکا مجھ میں
عجب اداس سی رت ہے کہ روز رات گئے
بنامِ عشق نکلتا ہے تعزیہ مجھ میں
نہیں نہیں میں کلیسا نہیں ہوں میرے خدا
اتر رہی ہے بھلا کیوں وہ راہبہ مجھ میں

تیری زمین تیرا آسماں برائے فروخت

تیری زمین تیرا آسماں برائے فروخت
مجھے تو لگتا ہے سارا جہاں برائے فروخت
بلک رہے ہیں میرے سامنے مِرے بچے
میں لکھ رہا ہوں مکاں پر مکاں برائے فروخت
ضعیف کوزہ گرا! زندگی بخیر یہ کیوں
لکھا ہوا ہے بتا خاکداں برائے فروخت

تو سمجھتا ہے کسی جھیل سے نکلا ہوا ہے

تُو سمجھتا ہے کسی جھیل سے نکلا ہوا ہے
آئینہ دشت کی تمثیل سے نکلا ہوا ہے
روشنی اِسمِ معلٰی ہے سو یہ اِسم کسی
آیتِ عشق کی تنزیل سے نکلا ہوا ہے
تُو سمجھتا ہے کہیں اور نہیں جانے کا
اور یہ دل تِری تحویل سے نکلا ہوا ہے

پہلے تو خلاؤں میں کچھ اشکال بناؤں

پہلے تو خلاؤں میں کچھ اشکال بناؤں
پھر واہموں سے اُن کے خد و خال بناؤں
دیوار بنانی ہے مجھے ریت سے ایسی
طوفان میں، آندھی میں جسے ڈھال بناؤں
کب تک یہ تِرے گیسو پریشان رہیں گے
اے زندگی! آ جا میں تِرے بال بناؤں

یوں حق کی رہ میں جان سے جانا پڑا مجھے

یوں حق کی رَہ میں جان سے جانا پڑا مجھے
اپنے لہو میں آپ نہانا پڑا مجھے
ہر دَور میں یزید مقابل رہا مِرے
ہر بار کربلا کو سجانا پڑا مجھے
سجدہ کناں تھے رات بھی مہر و مہ و نجوم
لیکن یہ خواب سب سے چھپانا پڑا مجھے

خواہش وصل کو صورت وہ عطا کر دی ہے

خواہشِ وصل کو صورت وہ عطا کر دی ہے
ہجر پائندہ رہے ہم نے دُعا کر دی ہے
آئینہ خانے پہ چڑھ دوڑے ہو پتھر لے کر
آئینوں نے کہو کیا ایسی خطا کر دی ہے؟
خاک زادہ ہوں سو قسمت نے گواہی میری
ایک عالم میں مِری خاک اُڑا کر دی ہے

کاش ہم کھل کے زندگی کرتے

کاش ہم کھل کے زندگی کرتے
عمر گزری ہے خودکشی کرتے
بجلیاں اس طرف نہیں آئیں
ورنہ ہم گھر میں روشنی کرتے
کون دشمن تری طرح کا تھا؟
اور ہم کس سے دوستی کرتے؟

Saturday, 14 December 2013

جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے

جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے
بڑے خلوص سے دل نذرِ جام کرتا ہے
ہمِیں سے قوسِ قزح کو مِلی ہے رنگینی
ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے
ہمارے چاکِ گریباں سے کھیلنے والو
ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا

ساقی کی ہر نگاہ پہ بَل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا، لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے، تھرّا کے پی گیا
زاہد! یہ میری شوخئ رندانہ دیکھنا
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں
مِری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں مِلتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سُنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی

ذِکرِ شبِ فراق سے وحشت اُسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اُسے بھی تھی
مُجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دِید کا
رَستہ بدل کے چلنے کی عادت اُسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گُفتگو
مُصروف میں بھی کم تھا فراغت اُسے بھی تھی

جنوں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا

جنوں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنی ذات کی سچائیوں سے ڈرتا رہا
محبتوں سے شناسا ہوا میں جس دن سے
پھر اس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا
وہ چاہتا تھا کہ تنہا ملوں، تو بات کرے
میں کیا کروں میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا

رشتۂ آدم و حوا

رِشتۂ آدمؑ و حوّا

میری معصوم فروزی، مِری معبودۂ جاں
مِل گیا ہے مُجھے مکتوبِ محبت کا جواب
اس کے اندازِ نگارش سے پریشاں ہوں میں
وحشت افزا ہے مِرے واسطے اسلوبِ خطاب
دیکھنا تھے مُجھے شرمائے ہوئے کچھ جُملے
یہ احادیث و روایات نہیں سُننا تھیں

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی مِلنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے

بِیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے
یہ آخری چراغ بجھائے نہیں بنے
دنیا نے جب مِرا نہیں بننے دیا اُنہیں
پتھر تو بن گئے، وہ پرائے نہیں بنے
توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے

کوئی حسرت بھی نہیں کوئی تمنا بھی نہیں

کوئی حسرت بھی نہیں، کوئی تمنّا بھی نہیں
دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں
روٹھ کر بیٹھ گئی ہمتِ دُشوار پسند
راہ میں اب کوئی جلتا ہوا صحرا بھی نہیں
آگے کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے ہنس دیتے تھے
اب یہ عالم ہے کہ کوئی دیکھنے والا بھی نہیں

یہ کاروبار چمن اس نے جب سنبھالا ہے

یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے
فضا میں لالہ و گُل کا لہُو اچھالا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے
ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو
زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے

جلا رہا تھا جو سورج وہ ڈھل بھی سکتا تھا

جلا رہا تھا جو سورج وہ ڈھل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا تو مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ دل کی بات کو دل میں چھپا کے بیٹھا رہا
کہ مسئلے کا کوئی حل نکل بھی سکتا تھا
رکھا ہی کیا تھا مِرے گھر میں جس کا دکھ ہوتا
جلانے والے! تِرا ہاتھ جل بھی سکتا تھا

سدا بہار ہے کتنا یہ شاخسانۂ درد

سدا بہار ہے کتنا یہ شاخسانۂ درد
کہ بِیت کر بھی گزرتا نہیں زمانۂ درد
صدائے شورِ سگاں تک یہاں نہیں آتی
عجب سکوت سے معمور ہے یہ خانۂ درد
چراغِ منظرِ بے منظری اس آنکھ میں ہے
اسی کے دَم سے ہے روشن یہ آستانۂ درد

کہے نہ کچھ بھی فقط اعتراف کر ڈالے

کہے نہ کچھ بھی فقط اعتراف کر ڈالے
میں رو پڑوں تو مِرے اشک صاف کر ڈالے
کچھ ایسے نقش ہوئی دھیان میں وہ قامتِ سرو
کبھی کبھی تو شجر کے طواف کر ڈالے
میں اپنے وقت سے اس واسطے بنا کے رکھوں
یہ پھر نہ فیصلہ میرے خلاف کر ڈالے

زیادہ پی لی تھی جو کل شام کا منظر ناچا

زیادہ پی لی تھی جو کل شام کا منظر ناچا
یا پھر ایسا ہے کہ اندر کا قلندر ناچا
اب تلک چھنن چھنن چھن کی صدا آتی ہے
کون "بُلھا" تھا جو اس روح میں آ کر ناچا
اُس نے یکبار جو محفل میں اُٹھائی پلکیں
دستِ ساقی، کبھی بوتل، کبھی ساغر ناچا

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
نہ ٭جُھکاوو تم نگاہیں، کہیں رات ڈھل نہ جائے
ابھی رات کچھ ہے باقی، نہ اٹھا نقاب ساقی
تِرا رِند گِرتے گِرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
مِری زندگی کے مالک مِرے دل پہ ہاتھ رکھ دے
تِرے آنے کی خوشی میں مِرا دَم نکل نہ جائے

کام کرتی رہی وہ چشم فسوں ساز اپنا

کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سر افراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا

Thursday, 12 December 2013

ہم ہی ٹھہرے ہیں سزاوار خطا کچھ بھی نہیں

ہم ہی ٹھہرے ہیں سزاوار، خطا کچھ بھی نہیں
تُو سمجھتا ہے تِرے بعد ہوا کچھ بھی نہیں
یاد جب آئی تِری، یاد رہا کچھ بھی نہیں
دل نے بس آہ بھری اور کہا کچھ بھی نہیں
وقت کی طرح یہ سانسیں بھی رواں ہیں اب تک
ایک بس اشک تھمے اور رکا کچھ بھی نہیں

نفسِ مضمون بناتے ہیں بدل دیتے ہیں

نفسِ مضمون بناتے ہیں، بدل دیتے ہیں
کتنے عنوان سجاتے ہیں، بدل دیتے ہیں
تیرے آنے کی خبر سنتے ہی، گھر کی چیزیں
کبھی رکھتے ہیں، اٹھاتے ہیں، بدل دیتے ہیں
حسن ترتیب "تسلی" نہیں دیتا "دل" کو
گُل سے گُلدان سجاتے ہیں، بدل دیتے ہیں

اس کے لہجے میں شکایت ہے خفا ہے مجھ سے

اسکے لہجے میں شکایت ہے، خفا ہے مجھ سے
پھر بھی پہلے کی طرح ہنس کے مِلا ہے مجھ سے
وہ یہی سوچ کے رَستے میں رُکا تھا شاید
اِک تعلق تو بہرحال رہا ہے مجھ سے
کیا خبر تُو ہی خطاوار ہے، ہرجائی ہے
بارہا دل کو یہ الزام مِلا ہے مجھ سے

کسک رہی گر گنوائیں نیندیں نہ چین پایا تو کیا کرو گے

کسک رہی گر، گنوائیں نیندیں، نہ چین پایا تو کیا کرو گے
گئی رُتوں نے مِری طرح سے تمہیں رُلایا تو کیا کرو گے
یہ شان، عہدہ، یہ رُتبہ، درجہ، ترقیوں کا یہ طنطنہ سا
کسی بھی لمحے نے کر دیا گر تمہیں پرایا تو کیا کرو گے
ابھی ہیں معقول عُذر سارے، جواز بھی ہیں بجا تمہارے
کبھی جو مصروف ہو کے میں نے تمہیں بھلایا تو کیا کرو گے

جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر

جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چِنتا اتر
ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر
جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا
حقّا الٰہی کیا کِیا، آنسو چلے بھر لائے کر
توں تو ہمارا یار ہے، تجھ پر ہمارا پیار ہے
تجھ دوستی بسیار ہے، اِک شب مِلو تم آئے کر

منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ

منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ
چُھوٹے جو بُوئے گُل کی طرح سے چمن کو چھوڑ
اے روح! کیا بدن میں پڑی ہے بدن کو چھوڑ
میلا بہت ہُوا ہے، اب اس پیرہن کو چھوڑ
ہے روح کو ہوس کہ نہ چھوڑے بدن کا ساتھ
غربت پکارتی ہے کہ غافل، وطن کو چھوڑ

گہے وصال تھا جس سے تو گاہ فرقت تھی

گہے وصال تھا جس سے تو گاہ فرقت تھی
وہ کوئی شخص نہیں تھا وہ ایک حالت تھی
وہ بات جس کا گِلہ تک نہیں مجھے، پر ہے
کہ میری چاہ نہیں تھی، مِری ضرورت تھی
وہ بے دِلی کی ہوائیں چلیں کہ بُھول گئے
کہ دل کے کون سے موسم کی کیا روایت تھی

خواب تھا دیدۂ بیدار تلک آیا تھا

خواب تھا دیدۂ بیدار تلک آیا تھا
دشت بھٹکتا ہُوا دیوار تلک آیا تھا
اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دُشمن میرے کردار تلک آیا تھا
اتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کے عزادار تلک آیا تھا

Wednesday, 11 December 2013

دل کا عجیب حال ہے تیری صدا کے بعد

دل کا عجیب حال ہے تیری صدا کے بعد
جیسے کہ آسمان کا منظر گھٹا کے بعد
کیا کیا نقوش ہم نے ابھارے تھے ریت پر
باقی رہا نہ کوئی بھی وحشی ہوا کے بعد
بکھری ہوئی تھین چارسو پھولوں کی پتیاں
گلشن سنور سنور گیا تھا باد صبا کے بعد

چاند تارے جب آنگن سے گزرتے ہوں گے

چاند تارے جب آنگن سے گزرتے ہوں گے
شامؔ وہ لوگ ہمیں یاد تو کرتے ہوں گے
ایک یہ صبح کہ ویراں ہے گزرگاہِ خیال
ایک وہ صبح جہاں بال سنورتے ہوں گے
جب کبھی چوڑیاں ٹکرا کے کھنکتی ہوں گی
گھر کی تنہائی میں کیا رنگ بکھرتے ہوں گے

پھر موسم خیال کی ٹھنڈی ہوا چلی

پھر موسم خیال کی ٹھنڈی ہوا چلی
پھر پھیلنے لگی تِری خوشبو گلی گلی
دل کیف انتظار میں یوں ڈھل کے رہ گیا
پانی میں جیسے گھل گئی ہو برف کی ڈلی
کتنے مکان جھانکتی پھرتی ہے چاندنی
کیا جانے کس کو ڈھونڈتی پھرتی ہے منچلی

لکھ اپنی ڈائری میں کبھی میرا نام بھی

لکھ اپنی ڈائری میں کبھی میرا نام بھی
ان رنگ رنگ لفظوں میں اک سادہ نام بھی
دن تھے کہ تیری کار کا نمبر بھی یاد تھا
اب ہیں کہ ہم کو بھول گا اپنا نام بھی
گرمی تھی وہ مکان کا سب کچھ جھلس گئی
دل کا ورق بھی راکھ ہوا ،اس کا نام بھی

یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی

فلمی گیت

یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی
اک روشنی اندھیروں میں بکھرا گیا کوئی

وہ حادثہ، وہ پہلی ملاقات کیا کہوں
کتنی عجب تھی صورتِ حالات کیا کہوں
یوں قہر وہ غضب وہ جفا مجھ کو یاد ہے
وہ اس کی بے رخی کی ادا مجھ کو یاد ہے

Monday, 9 December 2013

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو

نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
کسے بزمِ شوق میں لائیں ہم دلِ بے قرار کوئی تو ہو
کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شبِ طرب
مگر اے نگارِ وفا طلب! تِرا اعتبار کوئی تو ہو
کہیں تارِ دامنِ گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئی تو ہو

نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے

نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے، کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے، کیا کیا جائے
ہمیں بھی عرضِ تمنا کا ڈھب نہیں آتا
مزاجِ یار بھی سادہ ہے، کیا کیا جائے
کچھ اپنے دوست بھی ترکش بدوش پھرتے ہیں
کچھ اپنا دل بھی کشادہ ہے، کیا کیا جائے

جلا دیا شجر جاں کے سبز بخت نہ تھا

جلا دیا شجرِ جاں کے سبز بخت نہ تھا
کسی بھی رُت میں ہرا ہو یہ وہ درخت نہ تھا
جو خواب دیکھا تھا شہزادیوں نے پچھلے پہر
پھر اس کے بعد مقدر میں تاج و تخت نہ تھا
ذرا سے جبر سے میں بھی تو ٹوٹ سکتی تھی
مری طرح سے طبیعت کا وہ بھی سخت نہ تھا

سرگوشی بہار سے خوشبو کے در کھلے

سرگوشئ بہار سے خوشبو کے در کھُلے
کس اسم کے جمال سے بابِ ہنر کھلے
جب رنگ پا بہ گِل ہوں، ہوائیں بھی قید ہوں
کیا اس فضا میں پرچمِ زخمِ جگر کھلے
خیمے سے دُور، شام ڈھلے، اجنبی جگہ
نکلی ہوں کس کی کھوج میں، بے وقت، سر کھلے

عشاق نہ پتھر نہ گدا کوئی نہیں ہے

عشّاق نہ پتھر نہ گدا کوئی نہیں ہے
اب شہر میں سایوں کے سوا کوئی نہیں ہے
بچھڑے ہوئے لوگوں کا پتہ کون بتائے
رستوں میں بجز بادِ بلا کوئی نہیں ہے
میں اپنی محبت میں گرفتار ہوا ہوں
اس درد کی قسمت میں دوا کوئی نہیں ہے

حادثے کیا کیا تمہاری بے رخی سے ہو گئے

حادثے کیا کیا تمہاری بے رخی سے ہو گئے
ساری دنیا کے لیے ہم اجنبی سے ہو گئے
کچھ تمہارے گیسوؤں کی برہمی نے کر دئیے 
کچُھ اندھیرے میرے گھر میں روشنی سے ہو گئے
بندہ پرور، کھل گیا ہے آستانوں کا بَھرم
آشنا کچھ لوگ رازِ بندگی سے ہو گئے

خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دے گا​

خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دے گا​
وہ کر کے خواب کا وعدہ، مجھے بےخواب کر دے گا​
کسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشتِ ویراں پر​
اُچٹتی سے نظر ڈالے گا اور شاداب کر دے گا​
وہ اپنا حق سمجھ کر بھول جائے گا ہر اِک احساں​
پھر اِس رسمِ انا کو داخلِ آداب کر دے گا​

جو ہر مقام پر تجھے وحشت میں چھوڑ دے

جو ہر مقام پر تجھے وحشت میں چھوڑ دے
اک دن اسے بھی غم کی مسافت میں چھوڑ دے
خوش آ گئی ہے لذتِ سنگِ سخن مجھے
اے دوست مجھ کو کوئے ملامت میں چھوڑ دے
میں ایسا جنگ جُو ہوں جو میدانِ جنگ میں
دشمن کو زیر کر کہ مروّت میں چھوڑ دے

میں مطمئن تھا کہ اظہر چلا گیا ہے کہیں

میں مطمئن تھا کہ اظہر چلا گیا ہے کہیں
یہ شخص تو میرے اندر چھپا ہوا ہے کہیں
میں شعر کہتا ہوں اب بھی تو اس کا مطلب ہے
کوئی دریچۂ خوشبو ابھی کھلا ہے کہیں
اجڑتے شہر تجھے دیکھ کر لگا ہے مجھے
کہ جیسے پہلے بھی یہ سانحہ ہوا ہے کہیں

پتا ہوں آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوں میں

پتّا ہوں، آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوں میں
گرتے ہوئے درخت سے کتنا بڑا ہوں میں
میرے ہَرے وجود سے پہچان اس کی تھی
بے چہرہ ہو گیا ہے وہ، جب سے جھڑا ہوں میں
پرچم ہوں روشنی کا، مِرا احترام کر
تاریکیوں کا راستہ روکے کھڑا ہوں میں

مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے

مجھ کو مارا ہے ہر اِک درد و دوا سے پہلے
دی سزا عشق نے، ہر جرم و خطا سے پہلے
آتشِ عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے
ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دُعا سے پہلے
فتنے برپا ہوئے ہرغنچہٴ سر بستہ سے
کھل گیا رازِ چمن چاکِ قبا سے پہلے

کن لفظوں میں اتنی کڑوی اتنی کسیلی بات لکھوں

کن لفظوں میں اتنی کڑوی، اتنی کسیلی بات لکھوں
شہر کی میں تہذیب نبھاؤں، یا اپنے حالات لکھوں
غم نہیں لکھوں کیا میں غم کو، جشن لکھوں کیا ماتم کو
جو دیکھے ہیں میں نے جنازے کیا ان کو بارات لکھوں
کیسے لکھوں میں چاند کے قصے، کیسے لکھوں میں پھول کی بات
ریت اڑائے گرم ہوا تو کیسے میں برسات لکھوں

بلوہ آ نینوں سے خوف مٹاؤں

بَلوا

آ نینوں سے خوف مِٹاؤں
ماتھے سے بارُود ہٹاؤں
جس شب مجھ سے تُو بچھڑا تھا
خُود کو یہیں پہ بُھول گیا تھا
آ میں تجھ سے تجھے مِلاؤں
بستی میں سب سوداگر ہیں
پورا لالچ، آدھا تول

جسے خود سے ہی نہیں فرصتیں جسے دھیان اپنے جمال کا

جسے خود سے ہی نہیں فرصتیں، جسے دھیان اپنے جمال کا
اسے کیا خبر مِرے شوق کی، اسے کیا پتا مِرے حال کا
مِرے کوچہ گرد نے لوٹ کر مِرے دل پہ اشک گرا دیا
اسے ایک پَل نے مِٹا دیا، جو حساب تھا مہ و سال کا
تجھے شوق دِید غروب ہے، مِری آنکھ دیکھ بھری ہوئی
کہیں تیرے ہِجر کی تیرگی، کہیں رنگ میرے ملال کا

میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں

میں سچ کہوں پسِ دیوار جھوٹ بولتے ہیں
مرے خلاف، مِرے یار جھوٹ بولتے ہیں
ملی ہے جب سے انہیں بولنے کی آزادی
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں
بتا رہی ہے یہ تقریبِ منبر و محراب
کہ متقی و ریاکار جھوٹ بولتے ہیں

عکس تالاب کے پانی میں نہیں بھی ہوتے

عکس تالاب کے پانی میں نہیں بھی ہوتے
کئی کردار کہانی میں نہیں بھی ہوتے
چاٹ لیتی ہے خزاں جسم کا خوشہ خوشہ
پھول سے زخم نشانی میں نہیں بھی ہوتے
رقص کرتا ہوں تو کرتا ہی چلا جاتا ہوں
کبھی جذبات روانی میں نہیں بھی ہوتے

Sunday, 8 December 2013

دل میں اب طاقت کہاں خوننابہ افشانی کرے

دل میں اب طاقت کہاں خوننابہ افشانی کرے 
ورنہ غم وہ زہر ہے پتھر کو بھی پانی کرے 
عقل وہ ناصح کہ ہر دم لغزشِ پا کا خیال 
دل وہ دیوانہ یہی چاہے کہ نادانی کرے 
ہاں مجھے بھی ہو گِلہ بے مہرئ حالات کا 
تجھ کو آزُردہ اگر میری پریشانی کرے 

میں نے آغاز سے انجام سفر جانا ہے

میں نے آغاز سے انجامِ سفر جانا ہے 
سب کو دو چار قدم چل کے ٹھہر جانا ہے 
غم وہ صحرائے تمنا کہ بگولے کی طرح
جس کو منزل نہ ملی اس کو بکھر جانا ہے 
تیری نظروں میں مِرے درد کی قیمت کیا تھی
میرے دامن نے تو آنسو کو گْہر جانا ہے 

کوئی شام ایسی بھی شام ہو کہ ہو صرف میرے ہی نام سے

کوئی شام ایسی بھی شام ہو کہ ہو صرف میرے ہی نام سے
میرے سامعیں ہوں شگفتہ دل، مِرے دل گداز کلام سے
مِری گفتگو کے گلاب سے ہوں دلوں میں ایسی شگفتگی
کوئی ایسی نکہتِ خاص ہو کہ مہک اُٹھے در و بام سے
کوئی رنگ ان میں مَیں کیا بھروں، انہیں یاد رکھ کے بھی کیا کروں
یہ جو بِھیڑ بھاڑ میں شہر کی مجھے لوگ ملتے ہیں عام سے

روبرو وہ ہے عبادت کر رہا ہوں

رُوبرُو وہ ہے، عبادت کر رہا ہُوں
اُسکے چہرے کی تلاوت کر رہا ہوں
لو خریدو اِک نظر کے مول مجھ کو
اپنی قیمت میں رعایت کر رہا ہوں
لی ہے ضبط نے مجھ سے اجازت
اپنے مہمانوں کو رخصت کر رہا ہوں

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال

گیت

چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
ایک تُو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اُجلے رُوپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی جیسی چال

گلوئے یزداں میں نوک سناں بھی ٹوٹی ہے

گلوئے یزداں میں نوکِ سِناں بھی ٹوٹی ہے
کشاکشِ دلِ پیغمبراں بھی ٹوٹی ہے
سراب ہے کہ حقیقت، نظارہ ہے کہ فریب
یقیں بھی ٹوٹا ہے، طرزِ گماں بھی ٹوٹی ہے
اندھیری رات کا یہ نیم باز سناٹا
گلوں کی سانس رگِ گلستاں میں ٹوٹی ہے

کڑی تنہائیوں کو ہمسفر کہتا رہا ہوں میں

کَڑی تنہائیوں کو ہمسفر کہتا رہا ہوں میں 
خیال یار! تُجھ کو مُعتبر کہتا رہا ہوں میں
کرایا شامِ فُرقت نے تعارف ایک نیا اُس کا
وہ ایک دریا کہ جسکو چشمِ تر کہتا رہا ہوں میں
وہاں بھی لوگ اپنی کِرچیاں چُنتے نظر آئے
جہاں کے پتّھروں کو بے ضرر کہتا رہا ہوں میں

اک برگ سبز شاخ سے کر کے جدا بھی دیکھ

اک برگِ سبز شاخ سے کر کے جدا بھی دیکھ
میں پھر بھی جی رہا ہوں، مرا حوصلہ بھی دیکھ
ذرّے کی شکل میں مجھے سِمٹا ہُوا نہ جان
صحرا کے رُوپ میں مجھے پھیلا ہُوا بھی دیکھ
تُو نے تو مُشتِ خاک سمجھ کے اُڑا دیا
اب مجھ کو اپنی راہ میں بکھرا ہُوا بھی دیکھ

کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں

کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں
تُم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یُوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بُھول گئی ہوں
پُھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں

کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا

کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا
میں جس کو ڈھونڈتا تھا مِرے آئینے میں تھا
چھڑکا جسے عدم کے سمندر پہ آپ نے
صحرا تمام خاک کے اس بُلبلے میں تھا
سُنتا ہوں سرنِگوں تھے فرِشتے تِرے حضور
میں، جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا

کوفے کے قریب ہو گیا ہے

کوفے کے قریب ہو گیا ہے
لاہور عجیب ہو گیا ہے
ہر دوست ہے میرے خوں کا پیاسا
ہر دوست رقیب ہو گیا ہے
ہر آنکھ کی ظلمتوں سے یاری
ہر ذہن مہیب ہو گیا ہے

ہمارے دل میں کہیں درد ہے نہیں ہے نا

ہمارے دل میں کہیں درد ہے، نہیں ہے نا
ہمارا چہرہ بھلا زرد ہے، نہیں ہے نا
سنا ہے آدمی مر سکتا ہے بچھڑتے ہوئے
ہمارا ہاتھ چھوؤ، سرد ہے، نہیں ہے نا
سنا ہے ہجر میں چہروں پہ دھول اڑتی ہے
ہمارے رخ پہ کہیں گرد ہے، نہیں ہے نا

Saturday, 7 December 2013

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
تِرا ہاتھ، ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اُٹھا سکے نہ جُھکا سکے
اُڑی زُلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو نہ وہ کہہ سکے، مِرے شعر و نغمہ میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنہیں چُھو سکا، قدحِ شراب میں ڈھل گئے

آخر غم جاناں کو اے دل، بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا

آخر غمِ جاناں کو اے دل، بڑھ کر غمِ دوراں ہونا تھا
اس قطرے کو بننا تھا دریا، اس موج کو طوفاں ہونا تھا
ہر موڑ پہ مِل جاتے ہیں ابھی فردوس و جناں کے شیدائی
تجھ کو تو ابھی کچھ اور حسِیں، اے عالمِ امکاں ہونا تھا
وہ جس کے گدازِ محنت سے پُرنُور شبستاں ہے تیرا
اے شوخ اسی بازو پہ تِری زُلفوں کو پریشاں ہونا تھا

ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ

ہم کو جنُوں کیا سِکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو، چار گریباں تم سے زیادہ
چاکِ جگر محتاجِ رفُو ہے، آج تو دامن صَرفِ لہُو ہے
اِک موسم تھا، ہم کو رہا ہے شوقِ بہاراں تم سے زیادہ
عہدِ وفا یاروں سے نبھائیں، نازِ حریفاں ہنس کے اُٹھائیں
جب ہمیں ارماں تم سے سوا تھا، اب ہیں پشیماں  تم سے زیادہ

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے

جلا کے مشعلِ جاں ہم جنُوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے، ہمارے سات چلے
دیارِ شام نہیں، منزلِ سحر بھی نہیں
عجب نگر ہے یہاں دن چلے نہ رات چلے
ہمارے لب نہ سہی وہ دہانِ زخم سہی
وہیں پہنچتی ہے یارو کہیں سے بات چلے

مسرتوں کو یہ اہل ہوس نہ کھو دیتے

مسرّتوں کو یہ اہلِ ہوَس نہ کھو دیتے
جو ہر خوشی میں تَرے غم کو بھی سمو دیتے
کہاں وہ شب کہ تِرے گیسوؤں کے سائے میں
خیالِ صُبح سے ہم آستِیں بِھگو دیتے
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کیلئے
ہم ایک بار تِری آرزو بھی کھو دیتے

دشت میں رخت نہ دے خواب کی مہلت دے دے

دشت میں رَخت نہ دے خواب کی مہلت دے دے
کم سے کم عشق میں اتنی تو سہولت دے دے
اِک سکوں میرے تعاقب میں چلا آتا ہے
زندگی مجھ کو نئے دُکھ کی بشارت دے دے
کوئی مقتل سے بلاتا ہے سو محبوب مرے
اب بچھڑنے کی مجھے ہنس کے اجازت دے دے

سوچ بالفرض اگر تجھ کو بھلانا پڑ جائے

سوچ بالفرض اگر تجھ کو بھلانا پڑ جائے
اس محبت کو کبھی آگ لگانا پڑ جائے
بڑھتا آتا ہے مرا ہاتھ مری اپنی طرف
عین ممکن ہے کہ اب ہاتھ اٹھانا پڑ جائے
یار ممکن ہو تو کچھ دور رہا کر مجھ سے
کیا خبر تجھ کو کبھی چھوڑ کے جانا پڑ جائے

پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

فلمی گیت

پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ 
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمیں پر رات بھاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں تو آج کی شب پَو پَھٹے تک جاگنا ہو گا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

فرصت میں اوپر والے کو دھیان جب آیا تیرا

فُرصت میں اُوپر والے کو دھیان جب آیا تیرا
چاند کی کِرنیں گوندھ کے اس نے جسم بنایا تیرا
میں دیوار سے کان لگا کر سنتا دھڑکن تیری
کاش مجھے تقدیر بنا دیتی ہمسایہ تیرا
شانے تیرے چاندی چاندی، زُلفیں سونا سونا
چور بنا دیتا ہے سب کو یہ سرمایہ تیرا

شامل میرا دشمن صف یاراں میں ‌رہے گا

شامل میرا دُشمن صفِ یاراں میں ‌رہے گا
یہ تِیر بھی پیوستِ رگِ جاں میں ‌رہے گا
اِک رسمِ جنُوں اپنے مقدّر میں ‌ رہے گی
اِک چاک سدا اپنے گریباں میں ‌رہے گا
اِک اشک ہے آنکھوں میں‌ سو چمکے کا کہاں ‌تک
یہ چاند زدِ شامِ غریباں میں رہے گا

سایہ گل سے بہر طور جدا ہو جانا

سایۂ گُل سے بہر طور جُدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا
اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا
موسمِ گُل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غُنچہ سے خُوشبو کا رہا ہو جانا

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑ کھڑاتے ہیں

ذرا کچھ اور قربت زیرِ داماں لڑ کھڑاتے ہیں
مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں
تخیّل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصوّر میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
قرارِ دین و دُنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہے
سہارے دیکھ کر زُلفِ پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

یوں تو کہنے کو تھا دل کی ترجمانی کا سفر

یوں تو کہنے کو تھا دل کی ترجمانی کا سفر
تھا بہت دشوار لفظوں میں کہانی کا سفر
پہلے ہر کردار سے پوچھیں گے اسکی خیریت
پھر بتائیں گے، رہا کیسا کہانی کا سفر
تم مجھے دریا سمجھ لو اور میری زندگی
کوہساروں سے سمندر کی روانی کا سفر

نیندوں کا احتساب ہوا یا نہیں ہوا

نیندوں کا احتساب ہُوا یا نہیں ہُوا
سچا کسی کا خواب ہوا یا نہیں ہوا
بے داغ کوئی شکل نظر آئی یا نہیں
آئینہ بے نقاب ہوا یا نہیں ہوا
لائی گئیں کٹہرے میں کتنی عدالتیں
قانون لاجواب ہوا یا نہیں ہوا

کبھی جو چھیڑ گئی یاد رفتگاں محسن

کبھی جو چھیڑ گئی یادِ رفتگاں محسن
بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن
ہوا نے راکھ اُ ڑائی تو دل کو یاد آیا
کہ جل بجھیں میرے خوابوں کی بستیاں محسن
کھنڈر ہے عہدِ گزشتہ نہ چھو نہ چھیڑ اسے
کھلیں تو بند نہ ہو اس کی کھڑکیاں محسن

عذاب دید میں ‌آنکھیں لہو لہو کر کے

عذابِ دِید میں ‌آنکھیں لہُو لہُو کر کے
میں شرمسار ہُوا تیری جستجُو کر کے
سُنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی، مگر پیرہن رفُو کر کے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرُو کر کے

صبح جب خیمۂ مہتاب کا دَر کھولے گی

صُبح جب خیمۂ مہتاب کا دَر کھولے گی
زندگی دیر سے سِمٹے ہوئے پر کھولے گی
حدِ اَفلاک مِرے خواب کو پامال نہ کر
ورنہ یہ نیند نئی راہگُزر کھولے گی
بند کلیوں کے تعاقب میں بھٹکتی ہوئی شب
پھر کبھی لوٹ کے آئی تو یہ گھر کھولے گی

حسن کو تھوڑا سا اسرار میں رہنے دیا جائے

حسن کو تھوڑا سا اسرار میں رہنے دِیا جائے
عشق کو اپنے ہی آزار میں رہنے دِیا جائے
راستہ جو کہ نکلتا ہے گلی کی جانب
کیا ضروری ہے کہ دیوار میں رہنے دِیا جائے
ہم نے مانا کہ اطاعت میں سہولت ہے مگر
جو رہے اس کو تو انکار میں رہنے دِیا جائے

کبھی سراب کبھی ریگ رائیگاں سے ہوا

کبھی سراب کبھی ریگِ رائیگاں سے ہُوا
مجھے یقین ہمیشہ کسی گماں سے ہُوا
پڑاؤ جونہی کِیا میں نے نصف رستے میں
نئے سفر کا تہیّہ نئے مکاں سے ہُوا
بدل لِیا تھا ہواؤں سے میں نے پانی کو
بلند جونہی میں دریا کے درمیاں سے ہُوا

ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے

ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے

اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے خزاں میں پتّے اُگانے والا
گُلوں کی خُوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی دِکھائے محبتوں کے سراب مجھ کو
میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے

اے مظلومو اے محکومو

وصایا: فیض

اے مظلومو، اے محکومو، اے نادارو، اے ناچارو
اِک راز سنو، آواز سنو، ہوتا ہے کہاں آغاز سنو
خاموش لبوں کی جُنبش سے
دُنیا کے خُدا سب ڈرتے ہیں
سجدوں میں پڑے سر اُٹھ جائیں
مسنَد پہ جمے رَب ڈرتے ہیں

Friday, 6 December 2013

شاعرہ

شاعرہ

مجھے مت بتانا
مجھے مت بتانا
کہ تم نے مجھے چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا
تو کیوں اور کس وجہ سے
ابھی تو تمہارے بچھڑنے کا دکھ بھی نہیں کم ہوا
ابھی تو میں

بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا

بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں، تم کنارہ دیکھنا
یوں بچھڑنا بھی بہت آسان نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
🌝کس شباہت کو لیے آیا ہے چاند
اے شبِ ہجراں! ذرا اپنا ستارہ دیکھنا

چارہ گر

چارہ گر

ایک چمبیلی کے منڈوے تلے
مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بدن
پیار کی آگ میں جل گئے
پیار حرفِ وفا

کوئی آواز

کوئی آواز
جب تنہا مسافت میں
میرے ہمراہ چلتی ہے
کوئی پرچھائیں
جب میری بُجھی آنکھوں میں
چُبھتے اشک چُنتی ہے

ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں

ایسا بننا سنورنا مُبارک تُمہیں
کم سے کم اِتنا کہنا ہمارا کرو
چاند شرمائے گا چاندنی رات میں
یُوں نہ زُلفوں کو اپنی سنوارا کرو

یہ تبسّم یہ عارض یہ روشن جبِیں
یہ ادا یہ نِگاہیں یہ زُلفیں حسِیں

Wednesday, 4 December 2013

امید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں

امید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں
حیاتِ عشق کی وہ صبح و شام بھی تو نہیں
بس اک فریبِ نظر تھا جمال گیسو و رخ
وہ صبح بھی تو نہیں اب وہ شام بھی تو نہیں
وفورِ سوزِ نہاں کا علاج کیوں کر ہو
جو لے سکے کوئی وہ تیرا نام بھی تو نہیں

دیار غیر میں سوز وطن کی آنچ نہ پوچھ

دیارِ غیر میں سوزِ وطن کی آنچ نہ پوچھ
خزاں میں صبحِ بہارِ چمن کی آنچ نہ پوچھ
فضا ہے دہکی ہوئی، رقص میں ہیں شعلۂ گل
جہاں وہ شوخ ہے اس انجمن کی آنچ نہ پوچھ
قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیرِ پردۂ ساز
بدن سے لپٹے ہوئے پیرہن کی آنچ نہ پوچھ

کچھ مضطرب سی عشق کی دنیا ہے آج تک

کچھ مضطرب سی عشق کی دُنیا ہے آج تک
جیسے کہ حُسن کو نہیں دیکھا ہے آج تک
بس اِک جھلک دکھا کے جسے تُو گزر گیا
وہ چشمِ شوق محوِ تماشا ہے آج تک
یوں تو اداس غمکدۂ عشق ہے، مگر
اس گھر میں اِک چراغ سا جلتا ہے آج تک

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
دل کی بستی خراب ہو کے رہی
عشق کا نام کیوں کریں بدنام
زندگی تھی عذاب ہو کے رہی
نگہِ شوخ  کا مآل نہ پوچھ
سر بسر اضطراب ہو کے رہی

ایسے کچھ سانحے بھی ہوتے ہیں

ایسے کچھ سانحے بھی ہوتے ہیں
ہسنا چاہیں تو لوگ روتے ہیں
کوئی بستی نہیں ہمارے لیے
ہم جو ویرانیوں کے ہوتے ہیں
ہم بہت دیر جاگنے کے عوض
اپنے خوابوں کے ساتھ سوتے ہیں

یہ جاں کہ فرصت غم سے بھی ہاتھ دھو گئی ہے

یہ جاں کہ فرصتِ غم سے بھی ہاتھ دھو گئی ہے
 بھلا چکی تھی تجھے، آج خود کو رو گئی ہے
 ہمیں بھی تجھ سا تغافل شعار بننا تھا
 یہ بات کاش نہ ہوتی، مگر یہ ہو گئی ہے
 بہت سے دن گئے وہ رُت نہ لوٹ کر آئی
 جو آئی جب کبھی، دامن بھگو بھگو گئی ہے

صورت ارض سماوات میں اپنے لیے بھی

صورتِ ارض سماوات میں اپنے لیے بھی
اِک ستارہ کہیں اس رات میں اپنے لیے بھی
نِگہ رہتی ہے تِرے سولہ سنگھاروں کی طرف
ہو اشارہ جو کسی بات میں اپنے لیے بھی
جانے کس رُوپ کرے گھات عدوئے اذلی
سات کنکر ہیں مِرے ہات میں اپنے لیے بھی

Monday, 2 December 2013

حرم کو جائیے یا دیر میں بسر کریے

حرم کو جائیے، یا دَیر میں بسر کریے
تِری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے
کٹے ہے، دیکھئے یُوں عمر کب تلک اپنی
کہ سُنیۓ نام تِرا اور چشم تر کریے
وہ مست ناز تو مچلا ہے کیا جتائیے حال
جو بے خبر ہو بھلا اُس کے تئیں خبر کریے

تیری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

تیری گُفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے
کبھی جھانکا تِری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے
لمس کے دَم سے بصارت بھی، بصیرت بھی مِلی
چُھو کے دیکھا تو جو پتھر تھے، نِرے ریشم تھے
تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں
میرے گھر کے یہی ہیرے تھے، یہی نیلم تھے

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذِیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اس نے
بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مِرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی مِرے ہرجائی کی

مرحلے شوق کے دشوار ہوا کرتے ہیں

مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خُوددار ہُوا کرتے ہیں

اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے

اُٹھے تِری محفل سے تو کِس کام کے اُٹھے
دل تھام کے بیٹھے تھے، جگر تھام کے اٹھے
دم بھر مِرے پہلُو میں اُنہیں چین کہاں ہے
بیٹھے، کہ بہانے سے کسی کام کے اٹھے
افسوس سے اغیار نے کیا کیا نہ مَلے ہاتھ
وہ بزم سے جب ہاتھ مِرا تھام کے اٹھے

شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا

شمعِ مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا
تم جس پہ رو رہے تھے یہ کِس کا مزار تھا
تڑپوں گا عمر بھی دلِ مرحوم کے لیے
کمبخت نامراد، لڑکپن کا یار تھا
سودائے عشق اور ہے، وحشت کچھ اور شے
مجنُوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا

خلق کہتی ہے جسے دل تِرے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا
اک معمہ ہے سمجھنےکا نہ سمجھا نے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مِرے مر جانے کا

ادا کردار کس کو کون سا کرنا ہے لکھا جا چکا ہے

ادا کردار کس کو، کون سا، کرنا ہے لِکھا جا چُکا ہے
کہ صدیوں پہلے ہی اِک جنگ کے بارے میں سوچا جا چُکا ہے
زمین تیری تپِش کم ہونے میں اب ہے ذرا سی دیر باقی
کمانوں کو حدِ اِمکان تک میداں میں کھینچا جا چُکا ہے
بگولے حلقہ باندھے بَین کرتے ہیں اَلَم کی سَرزمیں پر
سِنانِ ظُلم کو غُربت کے سینے میں اُتارا جا چُکا ہے

کس کس ادا سے ان سے نہ تھی بات کی جناب

کِس کِس ادا سے ان سے نہ تھی بات کی جناب
 بنتی اگر جو بات، تو کیا بات تھی جناب
ہو کر جُدا نہ دے ہے تکلّف مِزاج سے
اب تک وہ گفتگو میں کریں آپ، جی، جناب
بارآور آپ پر نہ ہوں کیوں کوششیں مِری
کب تک یہ بے ثمر سی رہے آشتی جناب

بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہے

بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہے
جو آئے راس، دل اکثر وہ موسم ڈھونڈ لیتا ہے
کسی لمحے اکیلا پن اگر محسوس ہو دل کو
خیالِ یار کے دامن سے کچھ غم ڈھونڈ لیتا ہے
کسی رُت سے رہے مشرُوط کب ہیں روزوشب میرے
جہاں جیسا یہ چاہے دل وہ موسم ڈھونڈ لیتا ہے

موسم گل مرا خوشیوں کا زمانہ وہ تھا

موسمِ گل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
ہنس کے جینے کا اگر تھا تو بہانہ وہ تھا
اک عجب دَور جوانی کا کبھی یوں بھی رہا
میں کہانی جو زبانوں پہ فسانہ وہ تھا
اپنا کر لایا ہر اِک غم میں کہ جس پر تھوڑا
یہ گُماں تک بھی ہُوا اُس کا نشانہ وہ تھا

جب جب کئے ستم تو رعایت کبھی نہ کی

جب جب کِئے سِتم، تو رعایت کبھی نہ کی
کیسے کہیں کہ اُس نے نہایت کبھی نہ کی
کیا ہو گِلہ سِتم میں رعایت کبھی نہ کی
سچ پُوچھیے تو ہم نے شکایت کبھی نہ کی
چاہت ہمارے خُوں میں سدا موجزن رہی
صد شُکر نفرتوں نے سرایت کبھی نہ کی

خالی سینے میں دھڑکتے ہوئے آوازے سے

خالی سینے میں دھڑکتے ہوئے آوازے سے
بھر گئی عمر مِری سانس کے خمیازے سے
منتظر" ہی نہ رہا "بامِ تمنا" پہ کوئی"
اور ہوا آ کے گزرتی رہی دروازے سے
شامِ صد رنگ مِرے آئینہ خانے میں ٹھہر
میں نے تصویر بنانی ہے تِرے غازے سے

Sunday, 1 December 2013

یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا

یارب! غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا،۔۔ یا دل نہ دیا ہوتا
ناکامِ تمنا دل، اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا

نہ چھوڑا دل کو اے کافر تیرے پیکان ایسے ہیں

نہ چھوڑا دل کو اے کافِر تیرے پیکان ایسے ہیں
خُدا کا گھر اُڑا لے جائیں، یہ مہمان ایسے ہیں
کرے گا بے وفائی مجھ سے تو سامان ایسے ہیں
تیری جانب سے مجھ کو وہم میری جان ایسے ہیں
فرشتہ کو پکڑ رکھیں تِرے دربان ایسے ہیں
خدا سے بھی نہیں ڈرتے یہ بے ایمان ایسے ہیں

تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی

تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
حیاتِ تازہ سے لبریز کائنات ہوئی
تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت
کہا تو روٹھ گئے یہ بھی کوئی بات ہوئی
حیات، رازِ سکوں پا گئی، ازل ٹھہری
ازل میں تھوڑی سی لرزِش ہوئی حیات ہوئی

دل خون ہو تو کیونکر نہ لہو آنکھ سے برسے

دل خون ہو تو کیونکر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدۂ تر سے
کچھ دیر تو اس قلب شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاؤ اس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حُدی خواں
مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے

تو بنا کے پھر سے بگاڑ دے مجھے چاک سے نہ اتارنا

تُو بنا کے پھر سے بگاڑ دے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
رہوں کوزہ گر ترے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
تری چوبِ چاک کی گردشیں مِرے آب و گِل میں اُتر گئیں
مِرے پاؤں ڈوری سے کاٹ کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا
تِری اُنگلیاں مِرے جسم میں یونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کفِ کوزہ گر مِری مان لے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا

چراغ میلے سے باہر رکھا گیا وہ بھی

چراغ میلے سے باہر رکھا گیا وہ بھی
ہوا کی طرح سے نامعتبر رہا وہ بھی
زمین زاد بھی بھولا جو لفظِ رہداری
فصیلِ شہر سے باہر کھڑا رہا وہ بھی
میں اس کے سارے رویوں پر معترض ہوتی
مِری طرح سے مگر تھا دُکھا ہوا وہ بھی

بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سلسِلے بھی نہیں

بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سِلسِلے بھی نہیں
شکستِ خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں
نہیں، نہیں، یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے، آ کے چلے بھی گئے، ملے بھی نہیں
یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تِری یاد کے ڈھلے بھی نہیں