آ، اسی جھیل کے کنارے آ
آ، مِرے پیار کے سہارے آ
آ، کہ ٹوٹے سکوت لہروں کا
آ، کہ بہنے لگیں یہ دھارے، آ
آ، کہ دل کو قرار آ جائے
آ، کہ دل بولے آرے آ، آرے آ
عمر بھر کاوشِ اظہار نے سونے نہ دیا
حرفِ نا گفتہ کے آزار نے سونے نہ دیا
دشت کی وسعت بے قید میں کیا نیند آتی
گھر کی قیدِ در و دیوار نے سونے نہ دیا
تھک کے سو رہنے کو رستے میں ٹھکانے تھے بہت
ہوسِ سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و مِلت! میں تِرے اوپر نثار
لے تِری ہِمّت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی اے ضُعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے