عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس دَم خیالِ خام کو پروازِ مِلی ہے
اُس دم مِرے دھیان میں بس روشنی ہوئی
لفظوں کی ضو سے میرا دہن بھی چمک اُٹھا
اُس دم مِری زبان میں بس روشنی ہوئی
اک کہکشاں سی خواب کے پہلو میں آ گئی
آنکھوں کے درمیان میں بس روشنی ہوئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس دَم خیالِ خام کو پروازِ مِلی ہے
اُس دم مِرے دھیان میں بس روشنی ہوئی
لفظوں کی ضو سے میرا دہن بھی چمک اُٹھا
اُس دم مِری زبان میں بس روشنی ہوئی
اک کہکشاں سی خواب کے پہلو میں آ گئی
آنکھوں کے درمیان میں بس روشنی ہوئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل آپؐ کی خُوشبو سے ہے آباد نبی جی
کرتے ہیں ہر اک درد سے آزاد نبی جی
یہ جن و بشر، ماہ و مہر، دور کی باتیں
ذرّوں کی بھی سُن لیتے ہیں فریاد نبی جی
اک نظرِ کرم ہو تو کہیں داد بھی پاؤں
اب تک ہوں فقط مصرعۂ بیداد، نبی جی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے خدا! جن کا مقدر یہ زیاں ہو، میں نہ ہوں
سُوئے طیبہ دوستوں کا کارواں ہو میں نہ ہوں
جس کو حاصل ہی نہیں ہو گی شفاعت آپﷺ کی
حشر کے میداں میں وہ طبقہ جہاں ہو، میں نہ ہوں
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی مِری بد قسمتی
انؐ کے مداحوں میں ربِ دو جہاں ہو میں نہ ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قالو بلی٭ سے آج تک اعلانِ نعت ہے
امکان کی یہ بزم تو ایوان نعت ہے
یٰسین نعت، سورۂ رحمان نعت ہے
الحمد نعت، سورۂ عمران نعت ہے
عرفان نعت حق کی عطا پر ہے منحصر
آنکھیں ملیں تو پورا ہی قرآن نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کر اہتمام بھی ایماں کی روشنی کے لیے
درود شرط ہے ذکرِ محمدیﷺ کے لیے
تُلا ہوا ہے کرم بندہ پرورِی کے لیے
کُشادہ دامنِ رحمت ہے ہر کسی کے لیے
نہیں ہے حُسنِ عمل پاس آنسوؤں کے سِوا
چلا ہوں لے کے یہ موتی درِ نبیؐ کے لیے
زعفرانی غزل
اک روز کہا لیلیٰ نے رستہ میرا تُو چھوڑ دے
اے بے عمل عاشق! پیچھا میرا تو چھوڑ دے
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
گا گا کے میں ہاری سمجھ آتی نہیں زمانے کو
کھاتا پھرتا ہے تُو پتھر چوٹ لگتی ہے مُجھے
حال پہ میرے آتا نہیں ترس تُجھے
زعفرانی غزل
شادیاں کر چکا ہوں تین سے میں
اب ہوں خائف ہر اک حسین سے میں
کس قدر کانپتا ہوں بیوی سے
کہہ نہیں سکتا کچھ یقین سے میں
کچھ تو پہنچے گا آسماں تک بھی
پھینکتا ہوں بہت زمین سے میں
زعفرانی غزل
بستر پہ بغل میں مِرے تکیہ نہیں ہوتا
بیگم سے اگر میں کبھی رُوٹھا نہیں ہوتا
اب گھرکی یہ حالت ہے بتاؤں تجھے میں کیا
"گر دیگچہ ہوتا ہے تو چمچہ نہیں ہوتا”
بیگم سے پِٹا کرتے سبھی روز یقیناً
دُنیا میں اگر کوئی بھی جُھوٹا نہیں ہوتا
زعفرانی غزل
اہلِ خانہ ہیر کے، تھے کس لیے تھانے گئے؟
بھینس چوری کیس میں رانجھے کو پھنسوانے گئے
بے تُکے اشعار سُن کر خُون تو کھولا بہت
"لیکن اتنا تو ہُوا کچھ لوگ پہچانے گئے"
ہاتھ رکھتے تھے بہت ہلکا کبھی افطار میں
آہ لیکن اس برس، ہم بھی ہیں رمضانے گئے
زعفرانی غزل
گُم سُم سا جو بیٹھا ہوں بڑی دیر سے چُپ ہوں
بیگم کا لتاڑا ہوں،۔ بڑی دیر سے چپ ہوں
سسرال کے طعنوں کو بھی ہنس کھیل کے ٹالو
آخر یہی سمجھا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں
کنفیوز پولیس والے ہیں چھترول بھی کر کے
گُونگا ہوں کہ بہرہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مرحبا مرحبا مجتبیٰﷺ محترم
سید الانبیاءﷺ والضحیٰ محترم
صاحبِ عز و شان، ارجمند محترم
رب کے محبوب صلِ علیﷺ محترم
بھیجتا ہے خدا خود درودﷺ و سلام
جن و انس و ملائک فدا محترم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو مدح کر رہے ہیں رسالت مآبؐ کی
کب مانتے ہیں بات خُدا کی کتاب کی
ام الکتاب درس عمل جس نے دے دیا
دکهلائی راه جس نے عذاب و ثواب کی
سرچشمۂ حیات سمجهنے لگے اسے
سمجهی کہاں ہے اصلیت ہم نے سراب کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نکالیں گے سب پیچ و خم کملی والے
سوال وجود و عدم، کملی والے
تشکر، عنایت، کرم کملی والے
مجھ ایسے کا رکھا بھرم کملی والے
تِرےؐ نام پر گزرے میری عمریا
تِرےؐ عشق میں نکلے دم کملی والے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سید الانبیاءﷺ، سید المُرسلیںﷺ
آپﷺ کو یاد کرتا ہے قلبِ حزیں
آپﷺ عین الیقیں، آپ صادق امیں
آپﷺ کی ذات ہی فخرِ روٸے زمیں
عالمِ امر میں لامکاں کے مکیں
آپﷺ کا تخت، تختِ خدا کے قریں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اعظم ہے تُو عظیم ہے اے ربِ دو جہاں
عالم ہے تُو علیم ہے اے رب دو جہاں
ہم کیا ہیں صرف تیرے ارادے کا عکس ہیں
تُو مدرک فہیم ہے اے رب دو جہاں
دیتا ہے روز رزق بھی ہر اک جنین کو
تُو رازق کریم ہے اے رب دو جہاں
بے مہر مقدر کا ستارہ نہیں ہوتا
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ہوتا
پیارا تو ہمیں ہوتا ہے ہر دوست ہمارا
ہر دوست مگر جان سے پیارا نہیں ہوتا
کھو جاتے ہیں اشکوں کی روانی میں یوں منظر
دیدوں سے پلک تک بھی نظارہ نہیں ہوتا
گھر گھر آپس میں دُشمنی بھی ہے
بس کھچا کھچ بھری ہوئی بھی ہے
ایک لمحے کے واسطے ہی سہی
کالے بادل میں روشنی بھی ہے
نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے
تِرا لہجہ وہی تلوار جیسا تھا
مِری گردن میں خم ہر بار جیسا تھا
اُتر جاتا تو رُسوائی بہت ہوتی
کہ سر کا بوجھ بھی دستار جیسا تھا
تراشی ہیں غمِ دوراں نے تقدیریں
یہ خنجر بھی کسی اوزار جیسا تھا
سستا رہا ہوں میں ابھی ہلکان تو نہیں
یہ زندگی ہے اتنی بھی آسان تو نہیں
اے کاش اتفاق سے مل جائے وہ مگر
اس حسنِ اتفاق کا امکان تو نہیں
اے مستقل اداسی نہ مجھ میں قیام کر
ویران ہوں پر اتنا بھی ویران تو نہیں
میں کہہ رہا ہوں مِرے دوستا! نہیں ہونا
کہ حد سے زیادہ کبھی پارسا نہیں ہونا
وہ مجھ سے بول رہی ہے کہ عشق ہو تجھ کو
میں اس کو بول رہا ہوں؛ کہ جا نہیں ہونا
بغیر فکر جُدا ہو لے اور یہ لکھ لے
تِرے بغیر مجھے مسئلہ نہیں ہونا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زیر و زبر ہے دھڑکن تحریر ہے سوالی
در پر نبیؐ کے میری تقدیر ہے سوالی
خوابوں میں سبز گُنبد کا دلنشیں ہے منظر
ہو گا یہ کب حقیقت؟ تعبیر ہے سوالی
لب پر ہو نامِ احمدؐ جب میں جہاں سے جاؤں
رب سے مِری دُعا کی تاثیر ہے سوالی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مُژدہ کرم کا لے کر تشریف لا رہے ہیں
سرکارؐ نور پیکرﷺ تشریف لا رہے ہیں
آدمؑ کو فخر جن پر نازاں ہیں جن پہ عیسیٰؑ
بے شک وہی پیمبرؐ تشریف لا رہے ہیں
محشر کی دُھوپ کا اب خطرہ نہیں ہے آقاؐ
اوڑھے کرم کی چادر تشریف لا رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم نے کب درہم و دینار کی خواہش کی ہے
جب بھی کی، آپؐ کے دیدار کی خواہش کی ہے
اول اول جہاں "اِقراء" کی صدا گُونجی تھی
دِیدہ و دل نے اُسی غار کی خواہش کی ہے
کیا ہی اچھا ہو، سُنا دے کوئی مُژدہ آ کر
آپﷺ نے مجھ دلِ بیمار کی خواہش کی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمہی تو ہو رحمتِ دو عالم، درود تم پر، سلام تم پر
ہیں تم پہ سو جان سے فدا ہم، درود تم پر، سلام تم پر
خُدا کی رحمت کا ابر برسا، سکوں دلِ مُضطرب کو آیا
درودﷺ تم پر پڑھا ہے جس دم، درود تم پر، سلام تم پر
چراغ توحید کا جلایا ہے تم نے ایسا کہ تا قیامت
نہ روشنی جس کی ہو گی مدھم، درود تم پر، سلام تم پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کہیں نہ دیکھا زمانے بھر میں جو کچھ مدینے میں آ کے دیکھا
تجلیوں کا لگا ہے میلہ جِدھر نگاہیں اُٹھا کے دیکھا
وہ دیکھو دیکھو سُنہری جالی، اِدھر سوالی، اُدھر سوالی
قریب سے جو بھی ان کے گُزرا حضورؐ نے مُسکرا کے دیکھا
عجیب لذت ہے بے خُودی کی، عجب کشش ہے درِ نبیؐ کی
سرُور کیسا ہے کچھ نہ پُوچھو لِپٹ کے سینے لگا کے دیکھا
عشق سمندر
درد جزیرے
یاد کی لہریں
سِیپیں آنکھ سی
اشک ہیں موتی
ریت سے لپٹی
نہ پوچھ ڈھونڈ لی راہ فرار کاہے کو
لگائیں داؤ پہ اپنا وقار کاہے کو
فریب دیتے رہے ہیں ہمیشہ لوگ جسے
کسی پہ ہو گا اسے اعتبار کاہے کو
وفا سرشت میں جس کی نہیں تمہی بولو
دلائیں یاد ہم قول و قرار کاہے کو
ملنے لگے ہیں اب تو یہ ملنا نہ چھوڑیۓ
ہم دل کے صاف ہیں ہمیں تنہا نہ چھوڑیۓ
ہم کو اکیلا کر کے تماشا نہ کیجیۓ
قابل نہیں جو آپ کے رُسوا نہ چھوڑیۓ
اِک دل کی آس کا ہے یہ ناتا نہ توڑیۓ
آنکھوں کو میری یوں ہی تو بھیگا نہ چھوڑیۓ
ہمارے خون دل سے تر جو اس کی آستیں ہوتی
کہانی عشق کی کتنی حسیں اور دلنشیں ہوتی
تمنّا تھی نِگہ تیری محبت آفریں ہوتی
تصوّر دل میں جب ہوتا نگاہِ واپسیں ہوتی
حیات و موت کی یکجا جہاں پر کشمش ہوتی
مِری وارفتگئ شوق کی منزل وہیں ہوتی
رہروانِ آرزو
سحر ہوئی تو کسے خبر تھی
کہ چاند نکلا تھا جب فلک پر تو کیا سمے تھا
سیاہ راتوں میں جانے کتنے ستارے چُپکے سے جھلملا کر
فصیلِ شب میں نقب لگا کر
وفورِ تیرہ شبی کے ہاتھوں ہی جل بُجھے تھے
خلا کے پہلو میں ایسے کتنے شہاب ٹُوٹے، ستارے ڈُوبے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کر دے کرشمہ ایسا عبورِ کتاب دے
دینا تو جس کو چاہے اسے بے حساب دے
سُورج کی آرزو میں کُچل ڈالی کہکشاں
کس خاک میں تھے کتنے ستارے حساب دے
رحمت کے ساتھ چاہوں رضائے خُدا بھی ہو
محشر کے روز بخش نہ کوئی عتاب دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدﷺ نے لوگو دُعا کی، دوا کی
مگر صرف تم نے خطا کی، دعا کی
محبت،۔ رواداری،۔ تکریم آدم
یہی اُسوِۂ حسنٰی مِرے مصطفیِٰؐ کی
یہ فِرقوں کے جھگڑے یہ اُلجھے مسائل
تُو بُھولا روایت بھی دِینِ خدا کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دیکھتا ہوں قافلے طیبہ سے جب آتے ہُوئے
آنکھ بھر آتی ہے اکثر دل کو سمجھاتے ہوئے
کچھ تو ایسا ہے کہ ذوقِ دِید بُجھتا ہی نہیں
مِلتے ہیں زائر وہیں کی بات دُہراتے ہوئے
سیرتِ سرکارﷺ پڑھ کر ہم سے ننگِ زندگی
آئینے کے پاس سے جاتے ہیں کتراتے ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ دولت کی تمنا ہے، نہ شہرت کی تمنا ہے
جو سچ پوچھو محمدﷺ کی زیارت کی تمنا ہے
خُدا کو اور پیغمبرﷺ کو جیسی اچھی لگتی ہے
مجھے ویسی ہی صُورت اور سیرت کی تمنا ہے
مِرا سب کچھ رسول اللہﷺ پر قُربان ہو جائے
خُدا شاہد ہے مجھ کو اس سعادت کی تمنا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر چلا خامہ قصیدہ کی طرف بعدِ غزل
کہ ہے چکر میں سخن گو کا دماغِ مختل
مے گُلرنگ ہے کیا شمعِ شبِ فکر کا پُھول
چلتے چلتے جو قلم ہاتھ سے جاتا ہے نکل
چھینٹے دینے سے نہ محفوظ رہی قُلزم و نیل
نہ بچا خاک اُڑانے سے کوئی دشت و جبل
مُوڈی
یہ کیا کہ جب تمہارا مُوڈ ہو
میرا نمبر ملاؤ
مجھے بولو؛ کہ تم سے بات کرنی ہے
اور مجھ سے پیار چاہو
سُنو! جاناں
بہت چاہا ہے میں نے تم کو
کھیل
یہ جو ہم سب کھیلتے ہیں
ریت کے اس کھیل جیسا ہی تو ہے
جس میں بچے ریت کو اوپر اُچھالیں
اور جب چہروں پہ آئے
اپنے اپنے منہ چھپائیں
یہ جو ہم سب کھیلتے ہیں
چتا میں بیٹھی خواہش
کہ جلتے بدن کی سرائے سے
کچھ فاصلے پر
اگر آنکھ میں ایک آنسو لیے
تم یہ سوچو
کہ دشت تمنا میں جلتا ہوا یہ پڑاؤ
تمہاری تھکن کا پڑاؤ ہے شاید
یہ کیسا ستم گر اِشارا ہُوا ہے
بہاروں میں گُل سے کِنارا ہوا ہے
اے جانِ جہاں خوف کا ہے یہ عالم
تِرے بِن بھی رہنا گوارا ہوا ہے
کہ ہے آسماں، دھرتی سب کے برابر
سمجھ لو اِشارہ دوبارا ہوا ہے
طلبِ شِفا کا تم کو سلیقہ نہیں کوئی
دیوارِ گِریہ ہے یہ مسیحا نہیں کوئی
رستے کے انتخاب میں دونوں اسِیر ہیں
گاڑی کے ایک بیل کی منشا نہیں کوئی
تنہائیوں کا بھوت ہمیشہ ہے ساتھ ساتھ
یعنی، کہ اس جہان میں تنہا نہیں کوئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خاموش ہیں الفاظ، کُھلا دستِ دُعا ہے
اشکوں کی روانی میں تِرا شکر بجا ہے
گلیوں میں تِری گُھوم رہے ہیں بلا مقصد
پانے کے لیے خُود کو تجھے سونپ دیا ہے
ہر پل تُو ہی موجود ہے، تنہا میں نہیں ہوں
احساسِ سکوں تیری محبت میں مِلا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تِری ہے ازل سے جاری ثنا مِرے اللہ
تِری ہی ذات کو ہے بس بقا مرے اللہ
فقط ہے تُو ہی جو نظمِ جہاں چلاتا ہے
یہ راز ہر کسی پہ ہے کُھلا مرے اللہ
کمی نہیں ہے کسی چیز کی مِرے گھر میں
کِیا ہے تُو نے ہی سب کچھ عطا مرے اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نبی میرا نرالا ہے، وہ اونچی شان والا ہے
حبیبِ رب تعالیٰ ہے، وہ اونچی شان والا ہے
کہا یوں آمنہ سے نُوریوں نے، سرورِ کونینؐ
تِرے گھر آنے والا، وہ اونچی شان والا ہے
دِکھا کر والضحیٰ چہرہ غرور اس چاند کا سارا
یوں پل میں توڑ ڈالا ہے، وہ اونچی شان والا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل چاہتا ہے مجھ سے مدینے کی بات ہو
شہرِ نبیؐ میں ہر گھڑی جینے کی بات ہو
وردِ نبیﷺ کو اپنا سہارا بنائے رکھ
جب بحرِ بے کراں میں سفینے کی بات ہو
خوشبو طواف کرتی ہے ہر اس مقام کا
جب بھی جہاں نبیؐ کے پسینے کی بات ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یاد آئی ہے مدینے کی رلانے کے لیے
اشک بے تاب ہیں برسات منانے کے لیے
آپﷺ کی بندہ نوازی کے تصدق جاؤں
اِذن عاصی کو عطا کیجیے آنے کے لیے
غم کے طوفاں میں ہے سرکارؐ سفینہ دل کا
نا خدا! آئیے، ساحل پہ لگانے کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مختلف رنگ سے اظہار کی صورت مِل جائے
نعت سرکارﷺ میں جذبوں کو صداقت مل جائے
یہ محبت ہے نبیﷺ سے، کوئی پیمانہ نہیں
وہی خوش بخت ہے جس کو ذرا شِدت مل جائے
راستہ بُھول کے صحرا میں کہیں جا نکلوں
اور پھر اڑتے پرندوں کی بشارت مل جائے
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/٭تروینی/ترائلے
وقت عصر
زندگی شام کا ہے اک منظر
میری آنکھوں میں یاد کے بادل
اور بالوں پہ برف کا موسم
لبنیٰ آصف
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
تم اک ایسی صورت ہو
جس کا نام لبوں سے پہلے
آنکھوں میں آ جاتا ہے
زعیم رشید
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
میں نے دیکھے خواب میں
روشنی کے دستخط
رات کی کتاب میں
نصیر احمد ناصر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
تو کیا جانے
ڈھل گئی رات پھر دسمبر کی
شیلف میں سو گئیں کتابیں تک
ایک تیرا خیال روشن ہے
اسلم کولسری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
وہ مجھے خواب میں مِلے اور میں
اُس کو آنکھوں سے چُوم لوں یک دم
سب مُرادیں تو بر نہیں آتی
شوزب حکیم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کبھی لب پہ نعت سجا سکوں مجھے اِذن دے
میں مدینہ جا کے سُنا سکوں مجھے اذن دے
مِری التجائیں حضور انؐ کے پہنچ سکیں
انہیںؐ دُکھ میں اپنے سُنا سکوں مجھے اذن دے
مِری عمر گُزرے فقط حضورﷺ کی یاد میں
کہ میں اپنی ذات بھُلا سکوں مجھے اذن دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ جو روشن ماہ ہے میرے حضورﷺ
تیری گردِ راہ میرے حضورﷺ
ہے اسی پہ مہرباں میرا خدا
جس کو تیری چاہ میرے حضورﷺ
یہ زمیں اور خوبصورت آسماں
تیری جلوہ گاہ میرے حضورﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درود پڑھتے رہیں زندگی بناتے جائیں
خُدا کے ساتھ مِلیں، زندگی بناتے جائیں
حِرا کے غار سے آواز یہ بلند ہوئی
ہمارے ساتھ چلیں زندگی بناتے جائیں
یہ بارگاہِ ادب ہے، یہاں پہ واجب ہے
بلند سانس نہ لیں، زندگی بناتے جائیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زباں پہ جب آئے نام سرورﷺ درود پڑھنا سلام پڑھنا
بھلا ہے کیا کام اس سے بڑھ کر درود پڑھنا سلام پڑھنا
لطافتوں کی فضا میں اپنی بڑے مزے سے گُزر رہی ہے
ہمیں بحکمِ خُدائے بر تر درودﷺ پڑھنا سلام پڑھنا
وہ سدرۃ المنتہیٰ پہ جا کر پلٹ کے لمحے میں آنے والے
انہیں کا ہر وقت نام لے کر درودﷺ پڑھنا سلام پڑھنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں خوابِ نُور سے بیدار ہو کے آیا ہوں
نبیؐ کے عشق سے سرشار ہو کے آیا ہوں
ہو انﷺ کی محفلِ میلاد کا بیاں کیسے
میں گویا آپؐ کے دربار ہو کے آیا ہوں
میں جان دے دوں گا آقاؐ تمہاری عزت پر
میں گھر سے ہر طرح تیار ہو کے آیا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ارماں ہے مِرے دل میں دیارِ نبیﷺ کا
بردہ ہوں میں دربار رسولِ عربیﷺ کا
شہرت کا میں طالب ہوں نہ دولت کا پُجاری
نازاں ہوں کہ اک سگ ہوں مدینے کی گلی کا
سلطانِ مدینہﷺ نے کئی بار نوازا
عالم ہے وہ ہی پھر بھی میری تشنہ لبی کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سخن کو رُتبہ مِلا ہے مِری زباں کے لیے
زباں مِلی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لیے
زمیں بنائی گئی کس کے آستاں کے لیے
کہ لا مکاں بھی اُٹھا سرو قد مکاں کے لیے
تِرے زمانے کے باعث زمیں کی رونق ہے
مِلا زمین کو رُتبہ تِرے زماں کے لیے
روشنی سے بھلا جگنو یہ نکلتا کیوں ہے
عکس اس کا میری آنکھوں میں بکھرتا کیوں ہے
گُفتگو میں جو ذرا ذِکر کبھی آ جائے
درد طوفاں کی طرح دل میں مچلتا کیوں ہے
رات بھر چاند نے چُومی ہے تیری پیشانی
اُس کو افسوس ہے سُورج یہ نکلتا کیوں ہے
چوٹ نہیں ہے گھاؤ ہے
حملہ کب ہے؟ داؤ ہے
دریا اپنے زور پہ ہے
ٹُوٹی پُھوٹی ناؤ ہے
شہرِ انا سے پُوچھو تو
کس کا کتنا بھاؤ ہے؟
اردو پنجابی مکس زعفرانی غزل
حُسن کی توپ کا گولہ مارا تیرا ککھ نہ رہے
تجھ پہ گِر جائے قُطبی تارا، تیرا ککھ نہ رہے
بنکنگ کونسل والے تیری ہر شے قُرقی کر دیں
چڑھ جائے تجھ پر قرضہ بھارا تیرا ککھ نہ رہے
سردی اندر نہر کے بنّے ساری رات کھلوتے
تُو نہ آئی، لایا لارا، تیرا ککھ نہ رہے
زعفرانی غزل
شاگرد فعل حال سے آگے نہیں گئے
ڈُو، ڈز کی بول چال سے آگے نہیں گئے
وہ ساڑھی، جیولری کے تحائف پہ تھی بضد
ہم سو روپے کی شال سے آگے نہیں گئے
بیمار ایسے میرے محلے میں ہیں کئی
جو نرس و ہسپتال سے آگے نہیں گئے
کھل کہ ہنسنے پہ وہ سوچیں کہ ٹیکس لگایا جائے
ممکن ہے اب اشکباری پہ بھی ٹیکس لگایا جائے
سردیوں میں دُھوپ سیکنا بھی جُرم ہی تصوّر ہو
مُمکن ہے گرمیوں میں چھاؤں پہ ٹیکس لگایا جائے
سامان زیست تو پہلے ہی میسّر نہیں مالیے کے بغیر
اب مجلسِ شاہی چاہے کہ مرنے پہ ٹیکس لگایا جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل اگر غافل ہے پر جاگتی ہیں انگلیاں
نعت لکھتی ہوں تو میری کانپتی ہیں انگلیاں
جس سے بڑھ جائے گا رتبہ دونوں عالم میں میرا
اس گدائی کا سلیقہ مانگتی ہیں انگلیاں
گُنبدِ خضرا کا سایہ اور تراوت اوڑھ کر
ساتھ میرے شب گئے تک جاگتی ہیں انگلیاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آنکھوں کو اُدھر شہرِ مدینہ نظر آیا
ہر سمت اُجالا ہی اُجالا نظر آیا
ہر شخص تِرےؐ عشق میں ڈُوبا ہُوا دیکھا
ہر شخص تِریؐ دید کا پیاسا نظر آیا
جس راہ سے گُزری مِرے آقاؐ کی سواری
بہتا ہُوا انوار کا دریا نظر آیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے آقاﷺ جسے اک جام پلا دیتے ہیں
اس کے خوابیدہ مُقدر کو جگا دیتے ہیں
جس کو سرکارﷺ دِکھاتے ہیں جمالِ انور
اس کی آنکھوں سے حجابات اُٹھا دیتے ہیں
جس پہ اندازِ کریمی سے نظر کرتے ہیں
دل سے عصیاں کی سیاہی کو مِٹا دیتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رحمت کے دربار سجائے جاتے ہیں
آج زمیں پر عرش بِچھائے جاتے ہیں
آج وہ وجہِ خلقت جگ میں آیا ہے
جس کے لیے ہم لوگ بنائے جاتے ہیں
اسمِ نبیﷺ کا وِرد پکانا پڑتا ہے
صحرا میں یوں پُھول کِھلائے جاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شاہدِ گل کا لیے ساتھ ہے ڈولا بادل
برق کہتی ہے مبارک تجھے سہرا بادل
دُور پہنچی لبِ جاں بخشِ نبیؐ کی شہرت
سُن زرا کہتے ہیں کیا حضرتِ عیسٰی بادل
چشمِ انصاف سے دیکھ آپؐ کے دندان شریف
دُرِّ یکتا ہے تیرا گرچہ یگانا بادل
گھر ہی گھر کے دِیے بُجھاتا ہے
یہ تعصّب فقط رُلاتا ہے
آئینہ اپنا ہی دُشمن بن کر
چہرہ سچ کا مجھے دِکھاتا ہے
کوئی تو بات اس میں ہے ایسی
جو میری رُوح میں سماتا ہے
روگ
ایک سہما ضعیف مالی
اپنی مُٹھی میں درد تھامے
آنسوؤں سے یہ کہہ رہا تھا؛
چند پتّے یقین جانو
ٹُوٹتے ہیں بہار میں بھی
بجا کہ آپ کی گِنتی وفا شعار میں ہے
یہ دل کہ آج بھی جو شُغلِ انتظار میں ہے
توقعات کے پرزے اُڑا دئیے میں نے
رگِ اُمید بھی دامن کے تار تار میں ہے
ہُوا جو فیضِ خُدا، روشنی میں بدلے گی
جو تیرگئ گُنہ، فردِ جُرم کار میں ہے
مِری نظر کی طرح دل پرند اوجھل ہے
ہر ایک خواب کا حاصل پرند اوجھل ہے
شجر جو کہہ نہ سکے آسماں وہی سُن لے
یقیں ہے وہم کی منزل پرند اوجھل ہے
شفق شفق وہی سُرخی اُڑان کی تعبیر
اُفق اُفق وہی محفل، پرند اوجھل ہے
خُوشی کی بات تھی لیکن مجھے رُلا گئی ہے
کہاں سے بات چلی تھی، کہاں تک آ گئی ہے
مِرا خُدا تو یقیناً بھرم رکھے گا مِرا
میں جانتا ہوں کہ اُس تک مِری دُعا گئی ہے
میں عام طور پہ چلتا ہوں اُس سے آگے مگر
کہیں کہیں مِرے آگے مِری انا گئی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے رب ذوالجلال، اے ذی قوہ و المتین
میرے پروردگار
کروں تیری حمد میں صبح و شام
جیسے کرتے ہیں پرندے لیل و نہار
تیری رحمتوں کی کوئی حد نہیں
تیری نعمتوں کے خوان
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
توانا رکھتی ہے ہر آن آرزُوئے رسولﷺ
نڈھال ہونے نہیں دیتی جستجُوئے رسولﷺ
تمام دعوے محبت کے میرے ناقص ہیں
جو میرے طرزِ عمل سے نہ جھلکے خُوئے رسولؐ
مرے لیے ہیں یہ عنبر یہ مشک بے معنی
مجھے تو رکھتی ہے سرمست ایک بُوئے رسولؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِلتی ہے ہر اک غم کی دوا کُوئے نبی سے
ہوتا ہے کروڑوں کا بھلا کوئے نبی سے
رُخ کر کے میں طیبہ کی طرف سوتا ہوں اکثر
آتی ہے محبت کی ہوا کوئے نبی سے
کیا شانِ سخاوت ہے مدینے کے سخی کی
مانگا جو کسی نے وہ مِلا کوئے نبی سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گُلِ خُوش رنگ رسولِ مدنی العربیؐ
زیبِ دامانِ ابد،۔ طرۂ دستارِ ازل
نہ کوئی اس کا مشابہ ہے نہ ہمسر نہ نظیر
نہ کوئی اس کا مماثل، نہ مقابل، نہ بدل
اوجِ رفعت کا قمر، نخلِ دو عالم کا ثمر
بحرِ وحدت کا گہر، چشمۂ کثرت کا کنول
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیا غم اگر غموں کی ہے کثرت درودﷺ پڑھ
پائے گا دل سکوں کی لذت درودﷺ پڑھ
تڑپائے جب بھی کوئی مصیبت درود پڑھ
پہنچے گی دستِ غیب سے نصرت درود پڑھ
پڑھ، ہاں بصد خلوص و عقیدت درود پڑھ
فرمائیں گے حضورﷺ سماعت درود پڑھ
ناز اُٹھانے سے رہے، حال سنانے سے رہے
تیری آواز پہ ہم دوڑ کے آنے سے رہے
ہم نے تصدیق کی، تردید کی، زحمت نہیں کی
خلق میں ورنہ مرے تیرے فسانے سے رہے
یوں نہیں ہے کہ تِرے بعد نہیں زخم ملے
سرسری کہنے پہ ہم، یار، دکھانے سے رہے
کرن اک معجزہ سا کر گئی ہے
دھنک کمرے میں میرے بھر گئی ہے
اُچک کر دیکھتی تھی نیند تم کو
لو یہ آنکھوں سے گِر کر مر گئی ہے
خموشی چُھپ رہی ہے اب صدا سے
یہ بچی اجنبی سے ڈر گئی ہے
جب سے دل میں تِرے ہم اتارے گئے ہم تو مارے گئے
ہم تجھے جیت کر تجھ کو ہارے گئے ہم تو مارے گئے
جب فلک سے زمیں پر اُتارے گئے، ہم تو مارے گئے
خُلد کے رفتہ رفتہ نظارے گئے، ہم تو مارے گئے
توڑ لائیں گے تارے تمہارے لیے عہد و پیمان تھا
پر مقدر کے اپنے ستارے گئے، ہم تو مارے گئے
امیرِ شہر ہے اور اہتمامِ در بدری
یہ شام کرتے ہیں ہم بھی بنامِ در بدری
ہمارے پاؤں میں زنجیرِ جبرِ اہلِ سِتم
ہمارے سر پہ مُسلط نظامِ در بدری
مکِین باندھ کے بیٹھے ہوئے ہیں رختِ سفر
انہیں مِلا ہے کہِیں سے پیامِ در بدری
دیر ہو جائے گی پھر کس کو سُنائی دو گے
دشت خُود بول اُٹھے گا تو دُہائی دو گے
اب تو اس پردۂ افلاک سے باہر آ جاؤ
ہم بھی ہو جائیں گے مُنکر تو دکھائی دو گے
اب اسیرانِ قفس جیسے قفس میں بھی نہیں
اب کہاں ہو گی رہائی، جو رہائی دو گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کرم یہ رحمتِ ربّ الانام کر دینا
عطائے جلوۂ دارالسّلام کر دینا
پیامِ اذنِ حضوری مجھے ملے جس دم
زباں پہ جاری محمدﷺ کا نام کر دینا
نہ لُوں میں دولتِ کونین آپؐ کے بدلے
تو روزِ حشر، شفاعت امام کر دینا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
راحتِ جان ذِکر اُنﷺ کا ہے
دِین و ایمان ذِکر انﷺ کا ہے
انؐ کی توصیف میں ہے ہر سورہ
سارا قرآن ذِکر انﷺ کا ہے
آج رِم جِھم ہے نُور کی گھر میں
آج مہمان ذِکر انﷺ کا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرا خُدا وہی ہے
یہ کائنات جس نے تخلیق کی عدم سے
قائم ہے نظمِ ہستی جس ذات کے کرم سے
نورِ ازل سے جس کے دنیا میں روشنی ہے
میرا خُدا وہی ہے، میرا خُدا وہی ہے
سب کی ضرورتوں کا سامان کرنے والا
سارے جہاں پہ اپنا احسان کرنے والا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں عم زادِ نبیؐ، شیرِ خدا کا مرثیہ لکھوں
اگر رونے سے فرصت ہو تو یہ سوچوں کہ کیا لکھوں
علیؑ، وہ بُو تُرابؑ و حیدرِؑ کرار کی باتیں
ابوالحسنینؑ، دامادِ نبیﷺ، سردار کی باتیں
وہی جس کو ملی دنیا میں جنت کی بشارت بھی
نبیؐ کی جانشینی یعنی پھر چوتھی خلافت بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت نعتیہ مثنوی
کیا حسن کا معیار ہیں سرکارِ دو عالمﷺ
اللہ کا شہکار ہیں سرکارِ دو عالمﷺ
زُلفوں کی ادا رات کو شرمائے ہوئے تھی
چہرے کی چمک چاند کو اُجلائے ہوئے تھی
کِھلتے تھے سبھی پُھول خد و خالِ نبیؐ سے
سب رنگ تھے مقبول خد و خالِ نبیؐ سے
اپنا آپ سہارا بن
پُختہ ایک کِنارا بن
سب کو چَین سکُون مِلے
پیار کا ایسا دھارا بن
رستہ صاف دِکھائی دے
ایسا ایک سِتارا بن
تھکی تھکی اُداس شام
پڑی ہے بے لباس شام
ہے برف انگ انگ پر
دُھنی ہوئی کپاس شام
شفق شراب سُرخ گوں
بھرا ہوا گلاس شام
یہ کہانی مجھے دے دو
تم اپنی گمشدہ سانسوں کا احوال مجھے دے دو
اُلجھی ہوئی ایک کہانی ہی سہی
یہ کہانی مجھے دے دو
تم اپنی نم پلکوں کا احوال مجھے دے دو
دُکھوں کا ایک سمندر ہی سہی
یہ سمندر مجھے دے دو
دل کو جلا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
صبر آزما رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
نغمے سُنا رہی ہے بُوندوں کی پائلوں کے
بے خُود بنا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
وِیران جو پڑی ہیں گلیاں میرے شہر کی
مجھ کو دِکھا رہی ہے کھڑکی میرے قفس کی
رفعت کیوں روتے ہو پیارے!، کچھ تو اپنا حال سناؤ
کس سے دل کو لگا بیٹھے ہو، ہم کو بھی تو کچھ بتلاؤ
کون ہے جس کی یاد میں اکثر کھوئے کھوئے سے رہتے ہو
عشق بھلا کب راز رہا ہے، مان بھی جاؤ، اب نہ چُھپاؤ
یارو! ہم غمگین بہت ہیں،۔ ہم کو تنہا ہی رہنے دو
آج اکیلے ہی پی لیں گے، مے کی صُراحی دیتے جاؤ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مکمل ہو کیسے ثنائے محمدﷺ
قیامت تلک ہے عطائے محمدﷺ
ہے امرِ الہٰی، نوائے محمدﷺ
ضیائے خدا سے، ضیائےمحمدﷺ
خدا کا کرم ہے عطائے محمدﷺ
ہے سارا ہی عالم گدائے محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
انؐ کی چوکھٹ پہ جو پڑا ہوتا
اپنی قامت سے بھی بڑا ہوتا
کاش ہوتا درخت برگد کا
آپؐ کے رستے میں کھڑا ہوتا
میں چٹائی کھجور کی یا پھر
انؐ کے گھر میں رکھا گھڑا ہوتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زینۂ جاں پہ پاؤں دھرتا ہُوا
قریۂ رُوح میں اُترتا ہوا
زُلف والیل ہے بکھرتی ہوئی
چہرہ والشمس ہے اُبھرتا ہوا
رُوحِ کونین وجد کرتی ہوئی
ایک قُرآن بات کرتا ہوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پیکرِ دل رُبا بن کے آیا
رُوحِ ارض و سما بن کے آیا
سب رسولِ خُدا بن کے آئے
وہ حبیبِ خداﷺ بن کے آیا
حضرت آمنہ کا دُلاراﷺ
وہ حلیمہ کی آنکھوں کا تاراﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لکھوں اک مختصر جملہ کہ روضہ ہے محمدﷺ کا
یہی مسند الیہ اچھا سبب ہے رفعِ مسند کا
مٹانا لوحِ دل سے نقشِ ناموس اب وجد کا
دبستان محبت میں سبق تھا مجھ کو ابجد کا
الٰہی، کس کے غم میں نکلے آنسو چشم فتاں سے
کہ عطر فتنہ میں ڈوبا ہے رومال اُس سہی قد کا
محل کی رِیت، رِوایت سے تنگ شہزادی
بڑے سکون سے ہے میرے سنگ شہزادی
تُو میری مان، کبھی کاخِ خُسروی سے اُتر
تجھے دِکھاؤں خُدائی کے رنگ شہزادی
زمینِ دل میں گُلِ آرزو تو کِھلنے دے
مہک اُٹھے گا تِرا انگ انگ شہزادی
جب سے ہے تجھ سے آنکھ ستمگر! لگی ہوئی
اک آگ سی جگر مییں ہے، دلبر! لگی ہوئی
جب سے ہُوا ہے مجھ سے تیرا عشق، ماہ رُو
اک آگ سی جگر کے ہے اندر لگی ہوئی
جاتی نہیں یہ جان، نا آتی ہے اس قدر
کیسی یہ چوٹ ہے میرے دل پر لگی ہوئی
بھلے بُجھانے کی ضد پہ ہوا اڑی ہوئی ہے
مگر چراغ کی لو اور بھی بڑھی ہوئی ہے
میں سوچتا ہوں اسے سر پہ رکھ لیا جائے
زمین کب سے مِرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہے
تمہارے لہجے کی لُکنت بتا رہی ہے مجھے
کہ تم نے خود سے ہی یہ داستاں گڑھی ہوئی ہے
کچھ آنسو رو لینے کے بعد نذرِ خواب ہو گیا
میں تم کو یاد کرتے کرتے گہری نیند سو گیا
رگیں لکیریں ہو گئیں، مسام نُقطے بن گئے
بدن تمہاری یاد میں حروفِ نظم ہو گیا
میں بُھول آیا کھول کر کتابِ عُمر پڑھتے وقت
سحابِ غم جو گُزرا کل ورق ورق بھگو گیا
آیت نہیں چھوڑی کوئی منتر نہیں چھوڑا
پر دُکھ کی ہواؤں نے مرا گھر نہیں چھوڑا
میں خُود ہی چلا آیا سرِ دشتِ محبت
یہ سانپ کسی نے میرے اُوپر نہیں چھوڑا
بیٹھا ہوں ہر اک شخص نکالے ہوئے دل سے
اس فون میں آج ایک بھی نمبر نہیں چھوڑا
ملتے نہیں ہیں ایسے خزانے اِدھر اُدھر
ہم ڈھونڈنے ہیں یار پرانے اِدھر اُدھر
دو چار پیگ تجھ کو بُھلانے کے واسطے
ہم جا رہے ہیں پینے پلانے اِدھر اُدھر
پھر اس کے بعد لوٹ کر آئے نہیں کبھی
گھر سے گئے تھے بچے، کمانے اِدھر اُدھر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو
آؤ، اے حاجیو! احمدﷺ کا سراپا دیکھو
لطفِ کوثر کا تمہیں آئے گا پانی پی کر
انؐ کی ٹھوکر سے نکلتا ہوا دریا دیکھو
کیسی ہوتی ہے تڑپ عشق کی اے عاشقِ جاں
شمعِ اُمید میں پروانے کا جلنا دیکھو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درودﷺ لب پر سجا رہے ہیں
خُدا کی سُنت نبھا رہے ہیں
نکال کر اپنے دل سے دُنیا
مدینہ اس میں بسا رہے ہیں
نبیِؐ بر حق کی نعت کہہ کر
ربیع الاوّل منا رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جھکی ہوئی یہ جبیں ہے، حضورﷺ دیکھیں نا
ہمارا قلبِ حزیں ہے، حضورﷺ دیکھیں نا
کسی کا کوئی تو ہوتا ہے اتنے لوگوں میں
ہمارا کوئی نہیں ہے، حضورﷺ دیکھیں نا
ہماری آنکھ میں خوشیوں کا رقص ہوتا تھا
اب ان میں درد مکیں ہے، حضورؐ دیکھیں نا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آمدِ مصطفیٰﷺ، مرحبا مرحبا
آ گیا لب پہ خود سے ہی صلے علیٰ
انؐ کے جلوے سے ہے ماند یہ ماہتاب
اور منہ کو چُھپاتا ہے اب آفتاب
بس کہ جاری ہے صلے علیٰ کی ہی جاپ
بالیقیں دُھل رہے ہیں مِرے سارے پاپ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سب سے اعلٰی تِری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصّل کا یہی ہے مجمل
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مِرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل
دین و دنیا میں کسی کا نہ سہارا ہو مجھے
صرف تیرا ہی بھروسہ تِری قوت تِرا بل
باوجود
مِرا سوال دوسرا تھا تم نے کیا سمجھ لیا
میں آرزو کے محل کی مسحُور اک پری سی تھی
جس کی چال میں لچک تھی جس کے ہونٹ پہ ہنسی
تم آرزو کے محل کی دیوار سے لگے ہوئے
کھڑے تھے میری زندگی کی ڈور سے جُڑے ہوئے
میں آنکھ بھر کے دیکھتی تمہیں
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
تو نے دیکھا ہے جس نظر سے مجھے
ایسی نظروں سے کون دیکھتا ہے
آگ کتنوں کو لگ گئی ہو گی
عالمگیر ہراج
خواہ محصور ہی کر دیں در و دیوار مجھے
گھر کو بننے نہیں دینا کبھی بازار مجھے
میں اسے دستِ عدو میں نہیں جانے دوں گا
سر کی قیمت پہ بھی مہنگی نہیں دستار مجھے
میں جو چلتا ہوں تو آنکھیں بھی کُھلی رکھتا ہوں
اتنا سادہ بھی نہ سمجھیں مِرے سالار مجھے
ایک دوست کے نام
پت جھڑ کا موسم
سردی کی دستک اور ہم
ہر ایک سے الگ سوچتے
انجانہ خیال لیے ہوئے
کسی پتے کے گرنے کی آہٹ سن کر
دل کا اچانک دھڑک اٹھنا
ہمارا بوکھلائے سے اطراف تکنا
بھول جاتے ہیں سبھی لوگ جو راحت مل جائے
جانے اس زندگی میں کب کوئی وحشت مل جائے
ہم وہیں کے ہوئے ہیں جس جگہ عزت مل جائے
ان ارادوں کو جہاں سے ذرا قوت مل جائے
بس تری سوچ ہی ہو سکتی ہے ممکن ہی نہیں
کہ کسی نوچے ہوئے جسم سے چاہت مل جائے
یہ کہاں تھی میری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
میری طرح کاش انہیں بھی میرا انتظار ہوتا
یہ ہے میرے دل کی حسرت یہ ہے میرے دل کا ارماں
ذرا مجھ سے ہوتی الفت ذرا مجھ سے پیار ہوتا
اسی انتظار میں ہوں کسی دن وہ دن بھی ہوگا
تجھے آرزو یہ ہو گی کہ میں ہمکنار ہوتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محبت میں عقیدے کی پذیرائی ضروری ہے
محمدﷺ کے لیے لفظوں میں سچائی ضروری ہے
ہو اتنی تاب اِن آنکھوں میں ان کا دیکھ لوں روضہ
مگر اس کے لیے آنکھوں میں بینائی ضروری ہے
میں اس سے پہلے کہ آباد کر لوں قبر کا گوشہ
مجھے اک بار پھر کعبے کی انگنائی ضروری ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیا جُھکا کعبے کی جانب کو ہے قبلا بادل
سجدے کرتا ہے سُوئے طیبہ و بطحا بادل
چھوڑ کر بتکدۂ ہند و صنم خانۂ بُرج
آج کعبہ میں بچھائے ہے مُصلّا بادل
سبزۂ چرخ کو اندھیاری لگا کر لایا
شہسوارِ عربیﷺ کے لیے کالا بادل
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر چمن آپﷺ کا ہر گلی آپﷺ کی
سارے عالم میں ہے روشنی آپﷺ کی
سارے نبیوں میں اعلی مقام آپﷺ کا
سارے نبیوں میں ہے رہبری آپﷺ کی
ساری دنیا بنی آپﷺ ہی کے لیے
ہم نے دیکھی مگر سادگی آپﷺ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے یٰسین و طہٰ جو نام محمدﷺ
خدا جانتا ہے مقامِ محمدﷺ
انہیں کا ہے مستقبل و حال و ماضی
یہ ہے رفعت و احتشامِ محمدﷺ
زمانے کو تعبیر عشرت ملے گی
جب آئے گا زیرِ نظامِ محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل ہو مِرا پیمانۂ انصارِ محمدﷺ
یہ سر ہو مگر کاش سزاوارِ محمدﷺ
ہوتی ہیں محیط ان کی کرم زار عطائیں
کھنچتا ہے جہاں حلقۂ پرکارِ محمدﷺ
اک وصفِ سرِ مُو بھی نہ انجام کو پہنچا
ہر چند رہی جوششِ بُستارِ محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الفاظ محترم ہیں کہ نعتِ نبیﷺ کے ہیں
اوراق اور قلم مِرے سب روشنی کے ہیں
اشکوں سے حرف حرف کا چہرہ دُھلا ہوا
انداز مختلف مِری نامہ بری کے ہیں
ہر سمت چاند اور ستاروں کا ہے ہجوم
منظر کمال آپؐ کی روشن گلی کے ہیں
یہ مسئلہ رہا ہے ذرا دل حضوُر کا
دِکھتا تھا صاف صاف جو منظر تھا دُور کا
عورت کو دیکھیۓ کبھی اندر کی آنکھ سے
پھر تذکرہ کریں گے پلٹ کر نہ حُور کا
جس کا ہے اختیار، سزا بھی اُسی کی ہو
اُلجھا ہوا سوال نہیں یاں قصور کا
شعلۂ عشق نے جلا ڈالا
کیا تھا میں، اور کیا بنا ڈالا
مجھ اس دلنشیں نے اپنا کر
دل سے ہر بُت مِرے گِرا ڈالا
مجھ ایسا شعور بخشا گیا
جس نے غم کا دِیا بُجھا ڈالا
آپ سے میرے سِتارے نہیں مِلنے والے
جیسے دریا کے کِنارے نہیں ملنے والے
لوگ جتنے بھی یہاں اردو زباں بولتے ہیں
ان کو انداز تمہارے نہیں ملنے والے
لڑکھڑاتے ہوئے یہ جان لیا تھا میں نے
تیری بانہوں کے سہارے نہیں ملنے والے
فکرِ معاش، شاعری، اس پر تمہاری یاد
اک تو سزا سی زندگی، اس پر تمہاری یاد
سچ پوچھیۓ تو رات قیامت سے کم نہیں
صحت خراب، بے گھری، اس پر تمہاری یاد
ہم تو تمہارے شہر میں برباد ہو گئے
تن پر لباسِ ماتمی،۔ اس پر تمہاری یاد
تجھ سے اس راہ میں اب بات نہیں ہو سکتی
تُو بھی چاہے تو ملاقات نہیں ہو سکتی
دن تو دن راتیں گُزرتی تھیں تِرے ساتھ کبھی
اب تِرے ساتھ کوئی رات نہیں ہو سکتی
اے ستمگر! کیوں ستم مجھ پہ روا رکھتا ہے
روز مِلتے ہیں، مگر بات نہیں ہو سکتی
زہر کے جام مجھے اس نے پِلائے، ہائے
پھر بھی کہتا ہوں کہیں رُوٹھ نہ جائے ہائے
مجھ کو بدنام محبت کی کہانی نے کِیا
مجھ پہ حالات نے وہ ظُلم ہیں ڈھائے ہائے
اس کی ہر ایک ادا لُوٹ لیا کرتی ہے
اس نے غم اتنے مجھے دے دئیے ہائے ہائے
چُھوا جو تُو نے تو دل کے چراغ جلتے چلے گئے
کُھلی جو آنکھ تو روشن چراغ بُجھتے چلے گئے
تم ساتھ تھے تو دُنیا تھی مِری، جہاں میرا تھا
رُخِ یار مُڑا تو یہ آبلہ بدن تڑپتے چلے گئے
انتہا تو یہ تھی تِری صُورت آنکھوں میں لیے پِھرے
تِرے جانے پر میرے سارے گھمنڈ ٹُوٹتے چلے گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وقت کے شاہ سے دارا نہ سکندر سے مِلا
جو ملا ہم کو وہ محبوبؐ تِرے در سے ملا
مِدحتِ شہﷺ کا ہنر مجھ کو مقدر سے ملا
فیض کا جیسے کوئی قطرہ سمندر سے ملا
انؐ کے لب ہائے مقدس کی لطافت کاسراغ
گُلشنِ خُلد کے نایاب گُلِ تر سے ملا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کب میرے پاس آپ کے شایانِ نعت ہے
میرے حضورﷺ دل میں یہ ارمانِ نعت ہے
قرآں بیاں کرتا ہے، توصیف آپﷺ کی
یعنی قرآنِ پاک ہی شایانِ نعت ہے قرآن
میرے حضورﷺ آپ کا مِدحت نگار ہوں
میرے حضورؐ مجھ پہ یہ احسانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پُر کیف مناظر ہیں دن رات مدینے میں
رحمت کی برستی ہے برسات مدینے میں
میں آقاؐ کے روضے پر رو رو کے دُعا مانگوں
مل جاتی ہے بخشش کی سوغات مدینے میں
آقاﷺ کے قدم چُھو کر اُجلی ہے زمیں دیکھو
سُورج کی طرح دیکھے ذرات مدینے میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زندگی جب ہو پریشاں گردشِ ایّام سے
دل سکوں پاتا ہے بس خیرالوریٰؐ کے نام سے
میں درُودِ پاکﷺ سے بس آشنا ہوں دوستو
میں تو واقف ہی نہیں ہوں درد سے، آلام سے
میں نے تو رحمت کی بس اِک بُوند مانگی تھی مگر
اِک سمندر آ ملا مجھ جیسے تشنہ کام سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے زندگی میں یا رب سرِ بندگی عطا کر
میرے دل کی بے حسی کو غمِ عاشقی عطا کر
تیرے درد کی چمک ہو تیری یاد کی کسک ہو
میرے دل کی دھڑکنوں کو نئی بے کلی عطا کر
جو تُجھی سے لو لگا دے جو مجھے میرا پتا دے
میرے عہد کی زباں میں مجھے گُمرہی عطا کر
یہ غم کی مرضی
پلٹ کے یک دم
وہ دل پہ مرہم کا بوجھ ڈالے
یا پھر بھٹکنے سے اک مسافر کی
چلتی سانسوں کو توڑ ڈالے
یوں ہم شکستہ مکان کی مانند
اداسیوں کو بُھگت رہے ہیں
دھوکا دینے والے سے بھی اکثر
دھوکا ہو جاتا ہے
جال میں آنے والا پنچھی
جال لگانے والے سے بھی بڑھ کر
بھوکا ہوتا ہے
محسن ظفر ستی
سبب
کھنڈر دیکھ کر
شہروں کی تباہی کے اسباب بتانے والے آثارِ قدیمہ کے ماہرو
مجھے اک چوڑی کے ٹکڑے ملے ہیں
انہیں دیکھ کر چوڑی کے ٹوٹنے کا سبب بتا دو
سلمان صدیقی
مجھے چھوڑ تُو جسے جا ملا تُجھے کیا ملا
مجھے عُمر بھر کا خلا ملا تجھے کیا ملا
تُو گیا تُو تجھ پہ وفا کے در سبھی بند تھے
مجھے مے کدہ تو کُھلا، تجھے کیا ملا
میں تیری تلاش میں دُور تک تھا بھٹک گیا
مجھے راستے میں خُدا ملا تجھے کیا ملا
بھنور میں ناؤ ہے بارش کے اِمتحان کے بعد
ہے آسرا کوئی کمزور بادبان کے بعد؟
قسم اُٹھائی ہے خالق نے جسؐ کے چہرے کی
وہ جانتا ہے کہ کیا ہے اس آسمان کے بعد
ملے گی کتنی اذیّت ہمیں جُدائی میں
چلیں گے درد کے نغمے خُوشی کی تان کے بعد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے خُدا سرورِ کونینؐ کا روضہ دیکھوں
ہے تمنّا مِرے دل میں؛ کہ مدینہ دیکھوں
چُوم لوں چشمِ عقیدت سے درِ آقاﷺ کو
چشمِ آداب سے میں گُنبدِ خضرا دیکھوں
جبکہ ہو پیشِ نظر میرے سُنہری جالی
دیر تک کیوں نہ میں منظر وہ سُہانا دیکھوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صحرا نصیب لوگ ہیں بارانِ نعت ہے
ہم سُوکھتے نہیں ہیں تو احسانِ نعت ہے
پھیلی ہوئی ہے رحمتِ عالم کچھ اس طرح
سینہ بہ سینہ سایۂ شاخانِ نعت ہے
یہ سبز دل کے مہرباں یہ اشک چشم لوگ
یہ درد خوئے حلقۂ یارانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضورﷺ کاش میں ہوتا اسی زمانے میں
اور ایک روز مِری چِڑیا مر گئی ہوتی
حضورﷺ! اور میں روتا تو آپؐ آ جاتے
زمیں پہ بیٹھ کے پھر مجھ سے تعزیت کرتے
حضورﷺ کاش میں ہوتا وہ ننھا بچہ جسے
حضورﷺ آپؐ کے گھر داخلے پہ روک نہ تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ختمِ رُسلؐ کے آنے کی تاثیر دیکھنا
اب آگے آگے صبح کی تنویر دیکھنا
معراجِ شوق، نسخۂ اکسیر دیکھنا
پھر اسوۂ حضورؐ میں تفسیر دیکھنا
انسانیت کو آپﷺ نے جاوید کر دیا
انسانیت کی عظمت و توقیر دیکھنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کر کے آغازِ سحر نامِ خدا سے پہلے
گُلشنِ جاں میں پہنچنا ہے صبا سے پہلے
نہ کوئی دل سا غنی ہے، نہ کوئی دل سا فقیر
ان کے الطاف کے بعد، ان کی عطا سے پہلے
قلبِ صدیقؓ و عمرؓ، سینہ عثمانؓ و علیؓ
چمنِ عشق ہیں ایجادِ صبا سے پہلے
بچپن چُھوٹ جائے گا
میرے بچپن کی یادوں میں
بسی پیاری سہیلی
میرا دل چاہتا ہے
تجھ سے ملنے کو
میں تجھ کو ڈھونڈنا چاہوں
تو بے شک ڈھونڈ سکتی ہوں
سحر کا اُجالا ابھی دُور ہے
اندھیروں کی یورش بدستور ہے
برستے ہیں ہر روز بادل یہاں
بپھرنا ہواؤں کا دستور ہے
کسک ہے وہ دل میں جو مٹتی نہیں
یقیناً کوئی زخم ناسُور ہے
عالی
اس نے لاہوت پر پھونک ماری
اور ایک کہانی نے جنم لیا
اس ایک کہانی سے کئی کہانیاں زندگی میں داخل ہو گئیں
اس نے اپنی کالی گدڑی میں سے کردار برآمد کیے
اور تمام کہانیاں اسرار کے دھندلکے سے
کیٹ واک
تلاطم خوشبوؤں کا آ رہا ہے
وہ لشکر آہوؤں کا آ رہا ہے
بُت طناز ہر کوئی بڑے ہی ناز سے یوں چل رہا ہے
کہ جیسے بے خبر ہو اس حقیقت سے
نظر اس کی کہاں ہے، پیر پڑتے ہیں کہاں پر
خدا سن اے خدا سن
وہ جو میری زندگی کی پینٹنگ
تُو نے بنا رکھی ہوئی تھی نا
وہ کسی شررارتی بچے کے ہاتھ لگ گئی ہے
وہ بچہ اس پینٹنگ سے برش
اور کلر لے کے کھیلنے میں لگا ہوا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے راز دار عرش، شہِ کائنات آپﷺ
اللہ میزباں ہوا جس کا وہ ذات آپﷺ
حُسنِ کلام ایسا کہ حیراں سماعتیں
رحمت کی بات آپؐ، محبت کی بات آپؐ
شبنم مزاج ایسے کہ شعلے بُجھا دئیے
تھے اولین ناشر اخلاقیات آپﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گر زباں وصف الہیٰ میں جو کھولی جائے
چاشنی نام محمدﷺکی بھی گھولی جائے
مجھ کو کرنی ہے محمدؐ کے گھرانے کی ثنا
اب زباں کوثر و تسنیم سے دھو لی جآئے
جُز علیؑ کون ہے ایسا کہ جس کی خاطر
خود ٭جدار حرمِ پاک کی کھولی جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو دو جہاں کے لیے ہیں امام آپؐ ہیں وہ
خدا کے بعد ہے جن کا مقام آپؐ ہیں وہ
نبوتوں کی لڑی کا سبھی سے ہوتے ہوئے
ہوا ہے سلسلہ جن پر تمام آپؐ ہیں وہ
بیان کر کے خُدائے کریم کی عظمت
پڑھوں میں جن پہ درودؐ و سلام آپؐ ہیں وہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یوں تو سبھی کے واسطے فیضانِ نعت ہے
لیکن، کسی کسی کو ہی عرفانِ نعت ہے
لغزش سے ہو نہ جائے سبھی کچھ ہی رائگاں
احباب! احتیاط، یہ میدانِ نعت ہے
اشکوں کے ساتھ جانبِ طیبہ میں چل دیا
زنبیلِ چشم میں یہی سامانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رابطہ فکر و عمل میں جہاں کم پاتا ہے
ذہن رہ رہ کے مدینے کی طرف جاتا ہے
جب بھی مہجورئ طیبہ کا خیال آتا ہے
ایک کانٹا مِرے احساس میں چُبھ جاتا ہے
آپؐ کا ذکر ہے رکھتا ہے تر و تازہ ہمیں
یہی مُستقبل تاباں کا خبر لاتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ازل کے نُور کو جب اس میں آشکار کیا
خود اپنی ذات پہ خالق نے افتخار کیا
جبینِ ذرّہ میں سُورج سجا دئیے تُو نے
شبِ سِیہ کو تجلّی سے ہمکنار کیا
تِرے جمال نے بخشا تصوّرات کو نُور
تِرے خیال نے ذہنوں کو اُستوار کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جتنا میرے خدا کو ہے میرا نبیؐ عزیز
کونین میں کسی کو نہ ہو گا کوئی عزیز
خاکِ مدینہ پر مجھے اللہ موت دے
وہ مُردہ دل ہے جس کو نہ ہو یہ زندگی عزیز
کیوں جائیں ہم کہیں کہ غنی تم نے کر دیا
اب تو یہ گھر پسند، یہ در، یہ گلی عزیز
وقت دانائیِ فن مانگتا ہے
اک نیا طرزِ سخن مانگتا ہے
مرہمِ زخمِ جگر دے کر وہ
مجھ سے گُلرنگِ چمن مانگتا ہے
صرف اک شب کی مسافت کے عِوض
کتنی صدیوں کی تھکن مانگتا ہے
کوئی بھی نیند سے بیدار نہیں
دُور تک صُبح کے آثار نہیں
زندگی! اتنا بتا دے کہ تِرا
کون سا مرحلہ دُشوار نہیں
نعرہ زن اِبنِ علیؑ کے لیکن
حیف ہے جرأتِ اِنکار نہیں
تم سے اک دن کہیں ملیں گے ہم
خرچ خود کو تبھی کریں گے ہم
عشق! تجھ کو خبر بھی ہے اب کے
تیرے ساحل سے جا لگیں گے ہم
کس نے رستے میں چاند رکھا ہے
اس سے ٹکرا کے گر پڑیں گے ہم
گھومتا ہے مگر نہ جائے کہیں
وہ تہی دست مر نہ جائے کہیں
آؤ، راہوں سے خار چُنتے ہیں
سوختہ دل گُزر نہ جائے کہیں
چند گھڑیاں ہیں پیار کر لے دوست
بے وفا دل مُکر نہ جانے کہیں
مِری آنکھوں کے سمندر بھی اُتر سکتے ہیں
ٹُوٹ کر خواب مِرے یوں بھی بکھر سکتے ہیں
وہ اگر پیار سے دیکھیں تو وہ کر سکتے ہیں
ہم اگر جان سے چاہیں تو گُزر سکتے ہیں
کیا ضروری ہے مجھے جان سے جانا ہو گا
زُلف کے خمِ تر ایسے بھی سنور سکتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زندگی دیتا ہے، جینے کی ادا دیتا ہے
نُکتہ سنجوں کو وہی ذہنِ رسا دیتا ہے
کینوس اُس کی زمین اور فلک دونوں ہیں
وہ کہیں رنگ، کہیں نُور سجا دیتا ہے
اُس کو معلوم ہے تخلیق کے اسرار و رموز
قطرۂ آب پہ تصویر بنا دیتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دیکھو یہ کیسا مطلعِ عُنوانِ نعت ہے
نُورِ خُدا کے سامنے دِیوانِ نعت ہے
اس دورِ ابتلاء میں بھی حسّانِ نعت ہے
وہ شخص جس کے پاس قلمدانِ نعت ہے
کلیاں، گُلاب، چاند، ستارے، یہ روشنی
اس کائناتِ ارض پہ احسانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لحد میں وہ صُورت دکھائی گئی ہے
مِری سوئی قسمت جگائی گئی ہے
نہیں تھا کسی کو جو منظر پہ لانا
تو کیوں بزمِ عالم سجائی گئی ہے
صبا سے نہ کی جائے کیوں کر محبت
بہت اُنؐ کے کُوچے میں آئی گئی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رشتے تمام توڑ کے سارے جہاں سے ہم
وابستہ ہو گئے ہیں تیرےﷺ آستاں سے ہم
ہر رُخ سے ہر جگہ تھی مصائب کی روشیں
اُنﷺ کا کرم نہ ہوتا تو بچتے کہاں سے ہم
ہم ہیں غلام، اُنﷺ کی غلامی پہ ناز ہے
پہچانے جائیں گے اسی نام و نشاں سے ہم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ کیوں آرائشیں کرتا خُدا دُنیا کے ساماں میں
تمہیں دُولہا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں
یہ رنگینی یہ شادابی کہاں گُلزارِ رِضواں میں
ہزاروں جنتیں آ کر بسی ہیں کُوئے جاناں میں
خزاں کا کس طرح ہو دخل جنت کے گُلستاں میں
بہاریں بس چکی ہیں جلوۂ رنگینِ جاناں میں
مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
جو خواب زندہ ہے مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
نہ جانے کیوں اِضطرار سا ہے، ہر اِک پَل بے قرار سا ہے
یہ خوف دل میں اُتر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
عجب سی ساعت ہے آج سر پر، کہ آنچ آئی ہوئی ہے گھر پر
دُعا کہیں بے اثر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
شہید بچے
کیا بیان کرے واصف
سانحہ پشاور کے
سب شہید بچوں کے
والدین کے صدمے
چند سال پہلے تک
ناشتے کی ٹیبل پر
تم زندہ ہو
جب تک دُنیا باقی ہے تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو، تم زندہ ہو
خُوشبو کی طرح اے پُھولو، تم زندہ ہو
ہر ماں کی پُر نم آنکھوں میں
ہر باپ کے ٹُوٹے خوابوں میں
ہر بہن کی اُلجھی سانسوں میں
ڈر لگتا ہے
سانحہ پشاور کے شہید طلباء کے نام
پھر وہی صبح کہ جس صبح نے مانگا آ کر
تنِ مجروح سے صد چاک لبادے کا خراج
پھر وہی شام کہ جس شام کے دامن میں ہے
میرے لفظوں کی اداسی، میری آنکھوں کا مزاج
پھر وہی رنگ کہ جس رنگ سے اوراقِ حیات
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے بیتاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں
خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا
تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں
ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے
اے ارضِ وطن! تِرے دشمن ہم تِرے قاتل ہم
(۱)
چوبیس برس کی فردِ عمل، ہر دل زخمی ہر گھر مقتل
اے ارضِ وطن! تِرے غم کی قسم، تِرے دشمن ہم تِرے قاتل ہم
قیدی شیرو، زخمی بیٹو
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، ہم تُم سے بہت شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن! تِرے غم کی قسم، تِرے دشمن ہم تِرے قاتل ہم
سولہ 16 دسمبر یوم سکوت مشرقی پاکستان
آج کے دن تھی وطن پہ چھا گئی خونیں گھٹا
آج کے دن تھا، لہو کا چار سُو چِھینٹا پڑا
آج کے دن شادیانے تھے عدُو کے گھر بجے
آج کے دن میرے گھر سے شورِ ماتم تھا اُٹھا
آج کے دن پارہ پارہ غیرتِ مِلّی ہوئی
آج کے دن خون میرا آنسوؤں کی جا بجا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرکارِﷺ دو جہاں ہیں سردار انبیاء کے
تخلیق کا ہیں باعث محبوب ہیں خُدا کے
معراج کی تھی جو شب پردے میں اس نے دیکھے
راز و نیاز جیسے بندے کے اور خُدا کے
مِدحت انہیں کی لب پہ جاری رہے ہمیشہ
ہونٹوں تک آ گئے ہیں کچھ لفظ یہ دُعا کے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بات اور وہ بھی مصطفیٰؐ کی بات
ہے نوازش، کرم، عطا کی بات
روشنی، چاندنی، ضیا کی بات
ہے اسی ذاتِ با صفاﷺ کی بات
کیا روش، رنگ، طرز اور اسلُوب
نعت میں جب ہو خُود خُدا کی بات
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
روشن ازل سے شمع شبستانِ نعت ہے
"ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے"
میری رگوں میں بھی ابوطالب کا ہے لہو
میری ہر ایک سانس پہ فیضانِ نعت ہے
جبریلؑ ہوں کہ ہم سے فقیرانِ بے نوا
سایہ فگن ہر ایک پہ دامانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں جو کچھ روز مدینے میں بسر کر آتا
مجھ سے بگڑے کا مقدر بھی سنور کر آتا
ہر جگہ جاتا جہاں میرے نبیﷺ جاتے تھے
شہرِ طائف کی بھی گلیوں سے گُزر کر آتا
میں حرم جاتا، حِرا جاتا اور انﷺ کے در پر
دل میں ٹھہری ہے جو شب اس کو سحر کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حرف حرف عزت ہو، لفظ لفط مدحت ہو
سوچ سوچ نُدرت ہو، شعر شعر حُرمت ہو
لہجہ لہجہ امرت ہو، صفحہ صفحہ عظمت ہو
نعت وہ لکھوں جس میں عِجز ہو، عقیدت ہو
پُھول پُھول نکہت ہو، نجم نجم رفعت ہو
زیست زیست چاہت ہو، خواب خواب قُربت ہو
سفر میں بادِ مخالف فقط بہانہ تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
نظر سے ہو گیا اوجھل وہ تب یہ ہوش آیا
صدائیں دینی تھیں اُس کو اُسے بلانا تھا
کِیا تھا قلزمِ غم قید اُس ایک قطرے میں
وہ ایک اشک جو ہم کو نہیں بہانا تھا
لگنا بنتا تو نہیں مہر مگر لگتا ہے
مجھ سے انسان کو بھی رات سے ڈر لگتا ہے
اس کو رکھوں گا چُھپا کر میں کتابِ دل میں
وه مجھے مور کا ٹُوٹا ہوا پر لگتا ہے
مِرے جیسوں کو ڈبو دیتی ہے جب بھی چاہے
آپ کی آنکھ پہ دریا کا اثر لگتا ہے
زندگی
نفرتیں دندناتی ہوئی چار سُو
قتل و غارت گری کا نیا دور ہے
لالہ زاروں کو کیکر کی چھاں کھا گئی
تتلیاں زخم خوردہ بلکنے لگی
جگنوؤں میں بھی اک خوف کی لہر ہے
خار، اب کے برستے ہوئے باغ میں
تماشہ ختم ہونے کی صعوبت جان لیوا ہے
کسی کو جان لینے کی اذیت جان لیوا ہے
یہ حضرت قیس کا نوحہ سرِ دیوار لکھ ڈالو
محبت سوچ کر کرنا، محبت جان لیوا ہے
اگر کرنا ضروری ہو دلِ ناچار نہ مانے
محبت تک تو جائز ہے، عقیدت جان لیوا ہے
ہمارے سامنے کچھ ذکر غیروں کا اگر ہو گا
بشر ہیں ہم بھی صاحب دیکھیے ناحق کا شر ہو گا
نہ مُڑ کر تُو نے دیکھا اور نہ میں تڑپا نہ خنجر
نہ دل ہووے گا تیرا سا نہ میرا سا جگر ہو گا
میں کچھ مجنوں نہیں ہوں جو کہ صحرا کو چلا جاؤں
تمہارے در سے سر پھوڑوں گا سودا بھی اگر ہو گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ بشر عالم میں بے حد خُوب ہے
جس کو بھی در آپؐ کا مطلُوب ہے
دو جہاں قدموں تلے جس کے رہیں
وہ فقط رب کا مِرے محبُوبﷺ ہے
زخم دے جو اس کو بھی چاہت ملے
میرے آقاﷺ کا یہی اسلُوب ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا رب سُوئے مدینہ مستانہ بن کے جاؤں
اس شمعِ دو جہاںؐ کا پروانہ بن کے جاؤں
عالم کی آرزو کا افسانہ بن کے جاؤں
اور اپنی حسرتوں کا نذرانہ بن کے جاؤں
جُز ان کی آرزو کے کوئی نہ مُدعا ہو
دنیا کی ہر طلب سے بیگانہ بن کے جاؤ ں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بیٹھا ہوں با ادب کہ اب امکانِ نعت ہے
آنسو نہیں عقیل! یہ بارانِ نعت ہے
اول سے لے کے ناس تلک سوچتا ہوں میں
قرآن سامنے ہے یا دیوانِ نعت ہے؟
قلب و نظر کی پاکی ضروری ہے نعت میں
ورنہ تُو کس طرح کا سخن دانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ابتداء فہرست عنوان گوشوارہ کچھ نہیں
ماسوا مِدحتؐ کے ہستی کا شمارہ کچھ نہیں
وجہ بخشش باعثِ اعزاز نعت مصطفیٰﷺ
فائدے دونوں جہاں کے اور خسارہ کچھ نہیں
اپنے منگتوں کو دیا اتنا کہ ان کے ہونٹ پر
بارِ دِیگر، باز خواہی، پھر، دوبارہ کچھ نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مُسلَّم ہے محمدﷺ سے وفا، صدیقِؓ اکبر کی
نہیں بُھولی ہے دُنیا کو ادا، صدیقِ اکبر کی
ہم اُن کی مدح گوئی داخلِ سنت نہ کیوں سمجھیں
نبیﷺ تعریف کرتے تھے سدا، صدیقِ اکبر کی
رسولُ اللّٰهﷺ کے لُطف و کرم سے یہ مِلا رُتبہ
مدد کرتا رہا ہر دَم خدا، صدیقِ اکبر کی
ایک آرزو؛ بانگ درا
دُنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب
کیا لُطف انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
دل کے آنگن میں
آنسو موتی بن جائیں
اب کے ساون میں
فاطمہ زہرا جبیں
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
آج بارش ہوئی تو ہر اخبار
نقش بر آب ہو گیا پھر سے
نقش بر آب اب کسے بھیجوں؟
محمد کامران
نجومی
میرے ہاتھ کی ٹوٹی پُھوٹی
آڑھی ترچھی چند لکیریں
ایک نجومی دیکھ کے بولا
تیری نیت ٹھیک ہے بیٹا
تیری قسمت ٹھیک نہیں ہے
مدثر عظیم
جمے رہنا ڈٹے رہنا
ہوا کی سرسراہٹ
حبس کی طاقت سے لڑ کر
کہ رہی ہے
جمے رہنا
کہ استعمار کی دیوار کی
بات کیا بات کا خلاصہ ہے
تُو مِری آخری تمنّا ہے
اے شبِ ہجر چھوڑ ذکرِ فراق
تُو بتا تیرا کیا ارادہ ہے؟
آپ پھر کل کی بات کرتے ہیں
ہم نے مر مر کے آج دیکھا ہے
لا حاصل
میں نے بہت چاہا
کہ تجھ کو کھونے کے خوف کو
مرنے نہ دوں
پر اک دن
تُو نے مجھ کو کھو دیا
اور خوف
دُکھ سے مر گیا
آبشاروں کی یاد آتی ہے
پھر کناروں کی یاد آتی ہے
جو نہیں ہیں مگر انہیں سے ہوں
ان نظاروں کی یاد آتی ہے
زخم پہلے اُبھر کے آتے ہیں
پھر ہزاروں کی یاد آتی ہے
اس سے پہلے کہ عام ہو جائے
یہ وبا بے لگام ہو جائے
ہر طرف خوف کا اجارہ ہو
اور جینا حرام ہو جائے
ہم پہ لازم ہے احتیاط کریں
تا کہ فتنہ تمام ہو جائے
کور چشمی کے قید خانے میں
گُونگی دہلیز پر دِیے رکھ کر
چاہتے ہیں کہ روشنی بولے
خُون کس طرح کام آتا ہے
میرے قاتل کی تشنگی بولے
قتل گاہوں سے دھجیاں چُن کر
وقت کُنت علم بناتا ہے
میں روز دیکھتا ہوں آئینہ
میرے چہرے پر جو بخت کی سیاہی ہے
میرے نہیں کسی اور کے کرموں کی سزا ہے
مجھ سے پُوچھا جو ہوتا میری تخلیق سے پہلے
میں اپنے تخلیق کے مقصد کا سوال پُوچھتا
اپنے بخت کی ساری تحریر پر معترض ہوتا
یہ کیا ہو رہا ہے؟
یہاں اس خیالی ثقافت کے بخیے
اُدھڑ سے گٸے ہیں
یہاں تیرگی اپنے قد کاٹھ سے
آگے بڑھنے لگی ہے
یہاں پر قدامت نے جِدت سے مِل کر
عجب ظُلم کرنے کی ٹھانی ہوٸی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل مِرے ساتھ اب مدینے چل
چل گُناہوں کے داغ دھونے چل
رات دن ہم جو کرتے رہتے ہیں
اُن خطاؤں پہ آج رونے چل
آپﷺ کے روضۂ مُقدس کا
کر طواف اور کونے کونے چل
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آپﷺ سے جو مِلا ہدایت ہے
آپﷺ نے جو دیا وہ رحمت ہے
آپﷺ کی شان ہی نِرالی ہے
آپﷺ کو سوچنا عبادت ہے
آپﷺ سا کوئی بھی نہیں آقاﷺ
آپﷺ کی ہر ادا عنایت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نوکِ مژہ پہ اشک بہ عنوانِ نعت ہے
یعنی سخن کی ذیل میں امکانِ نعت ہے
وہ حرفِ سبز کاش عطا ہو کبھی مجھے
میں جس کو کہہ سکوں کہ یہ شایانِ نعت ہے
جز مدحِ شاہؐ جو بھی ہے کاغذ پہ بوجھ ہے
خامے کا ننگ ہے یہ جو نسیانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حاصل ہے مجھ کو درسِ ثنا اس نصاب سے
مشہور ہے جہاں میں جو اُم الکتاب سے
صدقہ عطا ہو حضرت حسانؓ کا شہاﷺ
دربار عالی جاہ سے، عالی جناب سے
جاتا ہے سوئے مرکزِ انوار روز کیوں
مقدور ہو تو پوچھے کوئی آفتاب سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جُھکی ہے شکر میں دُنیا حضورﷺ آ ہی گئے
اب انتظار ہے کیسا حضورﷺ آ ہی گئے
اندھیرے فوت ہوئے، ظُلمتیں تمام ہوئیں
ہُوا جہاں میں اُجالا، حضورﷺ آ ہی گئے
یہ کس کے رُعب کا عالم ہے بُت لرزتے ہیں
پُکار اُٹھا ہے کعبہ؛ حضورﷺ آ ہی گئے