Sunday, 31 January 2016

پہلو کے آرپار اترتا ہوا سا ہو

پہلو کے آرپار اترتا ہوا سا ہو
اک شخص آئینے میں اترتا ہوا سا ہو
معشوق ایسا ڈھونڈیے قحط الرجال میں
ہر بات میں اگرتا مگرتا ہوا سا ہو
قیلولہ کر رہے ہوں کسی نیم کے تلے
میداں میں رخشِ عمر بھی چرتا ہوا سا ہو

ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا

ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
نفرت کا ریگ زار مگر درمیان تھا
لمحے کے ٹوٹنے کی صدا سن رہا تھا میں
جھپکی جو آنکھ،۔ سر پہ نیا آسمان تھا
کہنے کو ہاتھ باندھے کھڑے تھے نماز میں
پوچھو تو دوسری ہی طرف اپنا دھیان تھا

ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر

ہر خواب کالی رات کے سانچے میں ڈھال کر
یہ کون چھپ گیا ہے ستارے اچھال کر
ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر
خانہ خرابیوں میں تِرا بھی پتہ نہیں 
تجھ کو بھی کیا ملا ہمیں گھر سے نکال کر

پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں

پھر کسی خواب کے پردے سے پکارا جاؤں
پھر کسی یاد کی تلوار سے مارا جاؤں
پھر کوئی وسعتِ آفاق پہ سایہ ڈالے
پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں
دن کے ہنگاموں میں دامن کہیں میلا ہو جائے
رات کی نقرئی آتش میں نکھارا جاؤں

ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا

ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا
ایک مشتِ خاک جو بکھری تو صحرا کر دیا
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا
وارداتِ قلب لکھی ہم نے فرضی نام سے
اور ہاتھوں پاتھ اس کو خود ہی لے جا کر دیا

تصویریں بناؤں گا سخن کاری کروں گا

تصویریں بناؤں گا، سخن کاری کروں گا
اے ہجر! تِرے وصل کی تیاری کروں گا
مصروف تو رہنا ہے جدائی میں کسی طور
بچھڑے ہوئے لوگوں کی عزاداری کروں گا
ٹوٹی ہوئی ٹہنی کے بھی  سب زخم ہرے ہیں
اے عشق زدہ! میں تِری غمخواری کروں گا

نہروں میں وہی آب خنک جاری کروں گا

نہروں میں وہی آبِ خنک جاری کروں گا
دریا کی طرح دشت کی دلداری کروں گا
جو چاہے کسی قریۂ گل پوش میں بس جائے
میں تو اسی صحرا کی  نگہداری کروں گا
مٹی سے حلف خون میں رہتا ہے مِری جان  
پلٹوں گا تو اس عہد سے غداری کروں گا

خوشی سے کرتے ہیں ہر اک کے غم کا ماتم لوگ

خوشی سے کرتے ہیں ہر اک کے غم کا ماتم لوگ 
یہ لوگ اوروں کے دکھ بیچتے ہیں، اور ہم لوگ
یہ ریگ زاد تَری کی رمق نہیں رکھتے 
نہ جانے روتے ہیں کیسے یہ لوگ، بے نم لوگ
کبھی کبھار تو لگتا ہے،۔ اصل ہیں تو یہی 
یہ سارےموم کے پتلے، یہ سب مجسم لوگ

وہی ہے گیت جزیرے میں جل پری وہی ہے

وہی ہے گیت، جزیرے میں جل پری وہی ہے
یہ خواب اب بھی وہی ہے،۔ بعینہ وہی ہے
وہی ہے سبز سمندر میں نقرئی مٹی
جو بہہ رہی ہے تہِ آب روشنی وہی ہے
وہی ہے شوخ ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی
سفید ریت پہ لہروں کی سمفنی وہی ہے

وقت بے وقت بے سبب چاہے

وقت بے وقت، بے سبب چاہے
عشق ہوتا ہے جب بھی رب چاہے
کہہ دیا ناں کہ ہم تمہارے ہیں
آزما لو کبھی بھی جب چاہے
دل تو پہلے ہی ہم لٹا بیٹھے
جان حاضر ہے، لے لو جب چاہے

جھوٹ کہتے ہیں نور ہے دل کا

جھوٹ کہتے ہیں نور ہے دل کا
عشق، فتنہ حضور ہے دل کا
روتی رہتی ہیں رات دن آنکھیں
جبکہ ہوتا قصور ہے دل کا
ہم نہ کہتے تھے باز آ جاؤ
یہ محبت فتور ہے دل کا

ہجر بھی وصل کی مانند مزا دیتا ہے

ہجر بھی وصل کی مانند مزا دیتا ہے
جب تصور تِری تصویر بنا دیتا ہے
تجھ سے بچھڑا ہوں تو یہ راز کھلا ہے مجھ پر
درد بڑھتا ہے جو حد سے، تو مزا دیتا ہے
تجھ کو معلوم ہے کیا مست نگاہوں والے
کوئی چپ چاپ تجھے روز صدا دیتا ہے

آج مسرورِ تمنا ہو کہ قربت بولی

آج مسرورِ تمنا ہو کہ قربت بولی
کل اگر چشمِ دغاباز میں فرقت بولی؟
میں نے پلکوں سے تِرے انگ تراشے برسوں
تب کہیں جا کے تِرے حسن کی مورت بولی
لب تو خاموش ہیں، خاموش رہیں گے، لیکن
خود بخود یار اگر وجہِ شکایت بولی

Saturday, 30 January 2016

کیا کیا دھرے عجوبے ہیں شہر خیال میں

کیا کیا دھرے عجوبے ہیں شہرِ خیال میں
بیتے خوشی سے دن تو کٹے شب ملال میں
شاید کہ شب کی تہ میں ہے سورج چھپا ہوا
شب لگ رہی ہے کھوئی سی دن کے جمال میں
کوئی کرے نہ غور تو اس کا قصور ہے
اک اک جواب ورنہ ہے اک اک سوال کا

بپھری لہریں رات اندھیری اور بلا کی آندھی ہے

بپھری لہریں، رات اندھیری اور بلا کی آندھی ہے 
گردابوں نے بھی گھیرا ہے، ناؤ بھی ٹوٹی پھوٹی ہے
کس نے رکھ ڈالے انگارے دل سی شاخ کی آنکھوں پر
وہ کیوں بھولا یہ خوشیوں کے پھول کھلانے والی ہے
جس کو تیرا ساتھ ملا وہ خوش نہ رہے کیوں پھولوں سا
تیرا تو چھو لینا تک بھی ہجر کے روگ میں شافی ہے

بھڑک اٹھا ہے آلاؤ تمہاری فرقت کا

بھڑک اٹھا ہے آلاؤ تمہاری فرقت کا
نہیں ہے تم پہ اثر پھر بھی محبت کا
معانی ہی تو نہیں کیا بدل گئے اس کے
وفا کو نام جو دیتے ہو تم اذیت کا
تمہی بتاؤ مِرے ہو گے اور کیسے تم
علاجِ عجز بھی نکلا نہیں رعونت کا

شام سے ملنے گیا تو رات نے ٹھہرا لیا

شام سے ملنے گیا تو رات نے ٹھہرا لیا
جانے کیسے چاند نے سورج کو بھی بہکا لیا
ہم نے چپ کیا سادھ لی ہر شخص کی ہر بات پر
پھر ہُوا جتنا بھی جس سے اس نے بس تڑپا لیا
مانا اک الجھے ہُوئے ریشم سا ہم میں ربط تھا
جب سلجھ پایا نہ تھا،۔ تو اور کیوں الجھا لیا 

بھنور برہم ہوائیں گم کنارہ کیا بنے گا

بھنور، برہم ہوائیں، گم کنارہ کیا بنے گا
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا
بڑوں پر منکشف تھی سہل انگاری ہماری
ہمیں اجداد کہتے تھے تمہارا کیا بنے گا
ابھی سے خال و خد روشن ہوئے جاتے ہیں اسکے
کبھی جو چاک پر آیا تو گارا کیا بنے گا

کیا کیا ضرورتوں سے فزوں کھا گئی ہوا

کیا کیا ضرورتوں سے فزوں کھا گئی ہوا
کم پڑ گئی خرد،۔ تو جنوں کھا گئی ہوا
اب انہدامِ قصرِ تخیل کا وقت ہے
گن گن کے ایک ایک ستوں کھا گئی ہوا
ہم تو صدا سے خاک تھے، خوراکِ خاک تھے
دورِ ہوا سرشت کو کیوں کھا گئی ہوا

تپش کا ہر حوالہ نار زادہ چھین لیتا ہے

تپش کا ہر حوالہ نار زادہ چھین لیتا ہے
ٹھٹھرتی رات میں ہم سے لبادہ چھین لیتا ہے
طلب سے بڑھ کے دیتا ہے کوئی بنیا ہمیں قرضہ
ہمارے سیر ہونے پر افادہ چھین لیتا ہے
جسے بھی مدتوں محروم رکھا جائے روٹی سے
وہ موقعہ ہاتھ آنے پر زیادہ چھین لیتا ہے

نہیں زمیں پہ کسی کا بھی اعتبار مجھے

نہیں زمیں پہ کسی کا بھی اعتبار مجھے
کہا تھا کس نے کہ افلاک سے اتار مجھے
بہ سطحِ کوزہ گرِ دہر، چیختا ہے کوئی
میں جیسے حال میں ہوں چاک سے اتار مجھے
بس ایک دن کے لیے تُو مِری جگہ آ جا
بس ایک دن کے لیے سونپ اختیار مجھے

Friday, 29 January 2016

حیا و شرم سے چپ چاپ کب وہ آ کے چلے

 حیا و شرم سے چپ چاپ کب وہ آ کے چلے

اگر چلے تو مجھے سیدھیاں سنا کے چلے

وہ شاد شاد دمِ صبح مسکرا کے چلے

ستم تو یہ ہے کہ مجھ کو گلے لگا کے چلے

یہ چال ہے کہ قیامت ہے اے بُتِ کافر

خدا کرے کہ یوں ہی سامنے خدا کے چلے

کہو جب تم کہ ہے بیمار میرا

 کہو جب تم کہ ہے بیمار میرا

تو کیوں کر دور ہو آزار میرا

بُرائی میں بھی ہو گا کوئی مطلب

وہ کرتے ذکر کیوں بیکار میرا

مجھے کوسیں، بلا سے گالیاں دیں

مگر وہ نام لیں ہر بار میرا

قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزم شراب میں

 قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں

ساقی! ہزار شکر خدا کی جناب میں

جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں

سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں

دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں

محشر کے دن بٹھائے گئے آفتاب میں

کنار جو جو انہیں خواہش شراب ہوئی

 کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی

تو سرو سیخ ہوا،۔ فاختہ کباب ہوئی

عیاں جو یار کے دانتوں کی آب و تاب ہوئی

غریقِ سیلِ فنا موتیوں کی آب ہوئی

فراقِ یار میں چشم اس قدر پُر آب ہوئی

طنابِ عمر ہماری رگِ سحاب ہوئی

کیوں آبروئے دیدہ تر کھو رہے ہیں لوگ

کیوں آبروئے دیدۂ تر کھو رہے ہیں لوگ
اندھوں کی انجمن ہے جہاں رو رہے ہیں لوگ
اللہ رہے ،۔۔ یہ بے خبری اہلِ ہوش کی
 سورج نکل چکا ہے مگر سو رہے ہیں لوگ
کس کے لہو کا داغ ہے،۔ جو چھُوٹتا نہیں
ہاتھوں کو بار بار یہ کیوں دھو رہے ہیں لوگ

دیار سنگ میں شیشے کا گھر حاصل ہوا ہم کو

دیارِ سنگ میں شیشے کا گھر حاصل ہوا ہم کو
بڑی مشکل سے جینے کا ہنر حاصل ہوا ہم کو
یہ دولت کیسی دولت ہے غرورِ حسن کیا جانے
خدا کا شکر ہے،۔ حسنِ نظر حاصل ہوا ہم کو
بجز صحرا نوردی، اور تقدیرِ جنوں کیا تھی
کوئی دیوار ہاتھ آئی، نہ در حاصل ہوا ہم کو

ہم شعلہ نفرت کو بجھانے میں لگے ہیں

ہم شعلۂ نفرت کو بجھانے میں لگے ہیں
وہ ہیں کہ، فقط آگ لگانے میں لگے ہیں
انسان کا غم بانٹنے نکلے تھے جو گھر سے
وہ لوگ بھی اب کھانے کمانے میں لگے ہیں
اس شہر میں انصاف طلب کیجیے کس سے
منصف جہاں قاتل کو بچانے میں لگے ہیں

کچھ جنوں کی داستاں کچھ آگہی کی بات ہے

کچھ جنوں کی داستاں، کچھ آگہی کی بات ہے
کیا کہیں لمحوں میں ہم جو اک صدی کی بات ہے
چشمِ ساقی کا، نہ صہبا کا، نہ پیمانے کا ذکر
مے کدہ در مے کدہ، اب تشنگی کی بات ہے
انگنت افراد پر یاں حکمراں ہیں چند لوگ
نام ہے جمہوریت کا خواجگی کی بات ہے

خودبخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے

خودبخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے
کس بلا کی تمہیں جادو نظری آوے ہے
دل میں در آوے ہے ہر صبح کوئی یاد ایسے
جوں دبے پاؤں نسیمِ سحری آوے ہے
اور بھی زخم ہوئے جاتے ہیں گہرے دل کے
ہم تو سمجھے تھے تمہیں چارہ گری آوے ہے

تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے

تُو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے
تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے
جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار
وہ شخص مجھ کو بہت بدنصیب لگتا ہے
حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
نہ کوئی غیر، نہ کوئی رقیب لگتا ہے

وہ لوگ ہی ہر دور میں محبوب رہے ہیں

وہ لوگ ہی ہر دور میں محبوب رہے ہیں
جو عشق میں طالب نہیں مطلوب رہے ہیں
طوفان کی آواز تو آتی نہیں، لیکن
لگتا ہے سفینے سے کہیں ڈوب رہے ہیں
ان کو نہ پکارو غمِ دوران کے لقب سے
جو درد کسی نام سے منسوب رہے ہیں

زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا

زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا کہ ابھی وقت ہے سنبھلنے کا
بہار آئے، چلی جائے، پھر چلی آئے
مگر یہ درد کا موسم نہیں بدلنے کا
یہ ٹھیک ہے، ستاروں پہ گھوم آئے ہم
مگر کسے ہے سلیقہ زمیں پہ چلنے کا

Thursday, 28 January 2016

بے یار روزعید شب غم سے کم نہیں

بے یار روزِعید، شبِ غم سے کم نہیں
جامِ شراب،  دیدۂ پرنم سے کم نہیں
دیتا ہے دَورِ چرخ کسے فرصتِ نشاط
ہو جس کے پاس جام وہ اب جَم سے کم نہیں 
اس زلفِ فتنہ زا کے لیے اے مسیح دم 
کچھ دستِ شانہ پنجۂ مریمؑ سے کم نہیں

ان سے کچھ وصل کا ذکر اب نہيں لانا اچھا

ان سے کچھ وصل کا ذکر اب نہيں لانا اچھا
وہ جو کچھ کہيں تو تم بھی کہو جانا اچھا​
تم نے دشمن ہے جو اپنا ہميں جانا اچھا
يارِ نادان سے تو ہے دشمنِ دانا اچھا​
پھول گل مہندی کے لا لا نہ ہاتھوں ميں ملو
خونِ عاشق نہيں مرقد پہ بہانا اچھا​

وقت پیری شباب کی باتیں

وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں خواب کی باتیں
پھر مجھے لے چلا اُدھر دیکھو
دلِ خانہ خراب کی باتیں
سنتے ہیں اسے چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی ​

کسی کا یوں تو ہُوا کون عمر بھر، پھر بھی ​
یہ حسن وعشق تو دھوکا ہے سب، مگر پھر بھی​
ہزار بار زمانہ ۔۔۔ اِدھر سے گزرا ہے ​
نئی نئی سی ہے کچھ، تیری رہگزر پھر بھی​
خوشا اشارہٴ پیہم، زہے سکوتِ نظر​
دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی ​

عشق کی مایوسیوں میں سوز پنہاں کچھ نہیں

عشق کی مایوسیوں میں سوز پنہاں کچھ نہیں
اس ہوا میں یہ چراغ زیر داماں کچھ نہیں
کیا ہے دیکھو حسرتِ سیرِ گلستاں کچھ نہیں
کچھ نہیں اے ساکنانِ کنج زنداں! کچھ نہیں 
جینے والے جی رہے ہیں اور ہی عالم میں اب
دوستو! طولِ غمِ شبہائے ہجراں کچھ نہیں

وہ نہ جو قید وصال میں آیا جس نے جو چاہا سمجھا

وہ نہ جو قیدِ وصال میں آیا، جس نے جو چاہا سمجھا
ہم نے اسے محبوب بتایا، زاہد اسے خدا سمجھا
ایک ہی جل کے روپ تھے سارے، ساگر، دریا بادل
ناں اڑتا بادل یہ جانا ۔۔۔ ناں بہتا دریا سمجھا
آخر شب محمل بھی گزرا، محمل کے پیچھے بھی کوئی
میٹھی نیند میں سویا صحرا، پُروا کا جھونکا سمجھا

ان کا دعویٰ ان کی عدالت اور انہی کی تعزیرات

ان کا دعویٰ، ان کی عدالت اور انہی کی تعزیرات
ان کا دوست زمانہ سارا، اپنا دوست خدا کی ذات
اے یارو! اس فصل میں اپنا جوش جنوں رسوا نہ کرو
گلشن گلشن خاک اڑتی ہے پھول نہ غنچے ڈال نہ پات
مہر و مروت میں وہ ہمارے پتھر کے بت اچھے تھے
آئے تھے اب لوٹ چلے ہیں حضرتِ یزداں! تسلیمات

جوگ بجوگ کی باتیں جھوٹی سب جی کا بہلانا ہو

جوگ بجوگ کی باتیں جھوٹی، سب جی کا بہلانا ہُو
پھر بھی ہم سے جاتے جاتے ایک غزل سن جانا ہُو
ساری دنیا عقل کی بَیری، کون یہاں پر سیانا ہُو
ناحق نام دھریں سب ہم کو، دیوانا، دیوانا ہُو
نگری نگری لاکھوں دوارے، ہر دوارے پر لاکھ سخی
لیکن جب ہم بھول چکے ہیں ۔۔ دامن کا پھیلانا ہُو

فرض کرو ہم اہل وفا ہوں فرض کرو دیوانے ہوں

فرض کرو

فرض کرو، ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو، یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں، افسانے ہوں
فرض کرو، یہ جی کی بِپتا، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو، ابھی اور ہو اتنی، آدھی ہم نے چھپائی ہو
فرض کرو، تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو، یہ نین تمہارے سچ مچ کے مے خانے ہوں

کیسے انہیں بھلاؤں محبت جنہوں نے کی

کیسے انہیں بھلاؤں ۔۔ محبت جنہوں نے کی
مجھ کو تو وہ بھی یاد ہیں نفرت جنہوں نے کی
دنیا میں احترام کے قابل وہ لوگ ہیں
اے ذلتِ وفا تِری عزت جنہوں نے کی
تزئینِ کائنات کا باعث وہی بنے
دنیا سے اختلاف کی جرأت جنہوں نے کی

وہی ان کی ستیزہ کاری ہے

وہی ان کی ستیزہ کاری ہے
وہی بے چارگی ہماری ہے
وہی ان کا تغافلِ پیہم
وہی اپنی گِلہ گزاری ہے
وہی رخسار و چشم و لب ان کے
وہی بے چہرگی ہماری ہے

ملال دل سے علاج غم زمانہ کیا

ملالِ دل سے، علاجِ غمِ زمانہ کِیا
ضیائے مہر سے روشن چراغِ خانہ کِیا
سحر ہوئی تو وہ آئے لٹوں کو چھٹکاتے
ذرا خیالِ پریشانئ صبا نہ کِیا
ہزار شکر کہ ہم مصلحت شناس نہ تھے
کہ ہم نے جس سے کِیا عشق والہانہ کِیا

شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا

شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا
اس اونچ نیچ پر تو ٹھہرتے نہیں تھے پاؤں
کس دستِ شوق نے اسے دنیا بنا دیا
کن مٹھیوں نے بیج بکھیرے زمین پر
کن بارشوں نے اس کو تماشا بنا دیا

مشعل درد پھر اک بار جلا لی جائے

مشعلِ درد پھر اک بار جلا لی جائے
جشن ہو جائے، ذرا دھوم مچا لی جائے
خون میں جوش نہیں آیا، زمانہ گزرا
دوستو! آؤ، کوئی بات نکالی جائے
جان بھی میری چلی جائے تو کچھ بات نہیں
وار تیرا نہ مگر ایک بھی خالی جائے

دوست احباب کی نظروں میں برا ہو گیا میں

دوست احباب کی نظروں میں برا ہو گیا میں
وقت کی بات ہے کیا ہونا تھا، کیا ہو گیا میں
دل کے دروازے کو وا رکھنے کی عادت تھی مجھے
یاد آتا نہیں ۔۔ کب، کس سے جدا ہو گیا میں
کیسے تُو سنتا؟۔۔ بڑا شور تھا سناٹوں کا
دور سے آتی ہوئی ایسی صدا ہو گیا میں

سورج کا سفر ختم ہوا رات نہ آئی

سورج کا سفر ختم ہوا ۔۔۔ رات نہ آئی
حصے میں مِرے خوابوں کی سوغات نہ آئی
موسم ہی پہ ہم کرتے رہے تبصرہ تا دیر
دل جس سے دُکھے ایسی کوئی بات نہ آئی
یوں ڈور کو ہم وقت کی پکڑے تو ہوئے تھے
ایک بار مگر چھُوٹی ۔۔ تو پھر ہاتھ نہ آئی

کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی

کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی
کیا زندگی کی راہ میں کمبخت مر گئی
ناحق ہے دل کو صبح شبِ غم کا انتظار
تھوڑی سی اب ہے رات بہت کچھ گزر گئی
عمرِ رواں کی تیز روی کا بیاں کیا
اک برق کوند کر اِدھر آئی، اُدھر گئی

در دوست پر ہوں جھکائے سر مرے دل کو شغل نیاز ہے

درِ دوست پر ہوں جھکائے سر مِرے دل کو شغلِ نیاز ہے
نہ قعود ہے نہ قیام ہے ۔۔۔ یہ عجب طرح کی نماز ہے
جو کہوں تو ختم نہ ہو سکے جو سے کو ملی تو خلش رہے
تِرے دونوں گیسوؤں کا بیاں مِری زندگی زندگی سے مراد ہے
کوئی بات اٹھا کر نہ رکھی غرض، تھی نگاہِ شوق وہ بد بلا
عجب اس کا کیا جو وہ بخش دے ۔۔ کہ وہ رحیم بندہ نواز ہے

ہمیں کیا ہوا جو بدل گئے بڑی حیرتوں کا مقام ہے

ہمیں کیا ہُوا جو بدل گئے، بڑی حیرتوں کا مقام ہے
کہ وہی فلک ہے وہی زمیں وہی صبح ہے وہی شام ہے
میں نثار اپنے خیال پر کہ بغیر مئے کے ہیں مستیاں
نہ تو خُم ہے پیشِ نظر کوئی نہ سبُو ہے پاس نہ جام ہے
بڑی مشکلوں سے ہُوا ہے حل، یہ کتابِ عمر کا مسئلہ
انہیں وصلِ غیر حلال ہے، ہمیں شب کی نیند حرام ہے

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی! چھوڑ دے پیچھا مِرا، میں باز آیا
مژدہ اے روح تجھے عشق سا دمساز آیا
نکہتِ فقر گئی ... شاہِ سر افراز آیا
پاس اپنے جو نیا کوئی فسوں ساز آیا
ہو رہے اس کے ہمیں یار تِرا ناز آیا

کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں

کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں
چل ساتھی کہیں ‌اور چلیں
اب کس گھاٹ پہ باندھیں ناؤ
اب یہ طوفاں کیسے ٹلیں
اب یہ مانگیں کون بھرے
اب یہ پودے کیسے پھلیں

گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں

گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں
فرصتِ شوق بن گئی دیوار
اب کہیں بھاگنے کا رستہ نہیں
ہوش کی تلخیاں مٹیں کیسے
جتنی پیتا ہوں، اتنا نشہ نہیں

یہ خواب سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی

یہ خوابِ سبز ہے یا رُت وہی پلٹ آئی
چھتوں پہ گھاس، ہوا میں نمی پلٹ آئی
کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے میں ‌تھی، پلٹ آئی
تِری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھُو نہ سکا
صبا بھی چند قدم ہی گئی ۔۔۔ پلٹ آئی

شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا

شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا
جانے کیا اضطراب میں دیکھا
گلکدوں کے طلسم بھول گئے
وہ تماشا نقاب میں دیکھا
آج ہم نے تمام حسنِ بہار
ایک برگِ گلاب میں دیکھا

دوست بھی بن کے عدالت کی گواہی آئے

دوست بھی بن کے عدالت کی گواہی آئے
اب تِرے حق میں جو آئے، تو خدا ہی آئے
میں نے اپنے لیے اے دوست یہ مانگی ہے دعا
دشمنوں کے بھی لیے ۔۔ لب پہ دعا ہی آئے
اس کی آواز میں ہے اس کے بدن کی خوشبو
وہ نہ آئے نہ سہی ۔۔ اس کی صدا ہی آئے

دست قاتل کو بھی ہم پیار کریں گے یارو

دستِ قاتل کو بھی ہم پیار کریں گے یارو
یہ تماشا بھی سرِ دار کریں گے یارو
صاحبِ عقل ہوتے ہیں دلیلوں سے خموش
ہم تو دیوانے ہیں، تکرار کریں گے یارو
جو سزا ہے وہی ہر بار ملے گی ہم کو
جو کیا ہے وہی ہر بار کریں گے یارو

غزل والوں کی جب جادو بیانی بول پڑتی ہے

غزل والوں کی جب جادو بیانی بول پڑتی ہے
حقیقت کچھ نہیں کہتی ۔۔ کہانی بول پڑتی ہے
زباں چپ ہو تو آنکھوں کی زبانی بول پڑتی ہے
محبت میں ہے اک عادت پرانی بول پڑتی ہے
امیری میں، غریبی میں، رئیسی میں، فقیری میں
کسی بھی حال میں آئے ۔۔ جوانی بول پڑتی ہے

کبھی تم کو ہم سے بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی تم کو ہم سے بھی پیار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ زمانہ اپنے پیار کا ۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یونہی بھول جاؤ گے ایک دم، ہمیں ساتھ رکھنے کو وہ قسم
ہمیں کیا خبر ہمیں کیا پتا ۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی اک نظر جو حیات تھی، وہی اک ذراسی جو بات تھی
مِری زندگی کا سوال تھا،۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

یا رب ہمیں دے عشق صنم اور زیادہ

 یا رب ہمیں دے عشقِ صنم اور زیادہ

کچھ تجھ سے نہیں مانگتے ہم اور زیادہ

دل لے کے نہ کچھ مانگ صنم اور زیادہ

مقدور نہیں تیری قسم اور زیادہ

ہستی سے ہوئی فکرِ عدم اور زیادہ

غم اور زیادہ ہے، الم اور زیادہ

میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا

 میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا

ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا

ہم نشیں، کیجیو تقریب تو شب باشی کی

آج کر نشے کا حیلہ میں مچل جاؤں گا

دل مِرے ضعف پہ کیا رحم تُو کھاتا ہے کہ میں

جان سے اب کے بچا ہوں تو سنبھل جاؤں گا

دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں

 دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں

یہ تو بیمار سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں

آپ کا زور مِرے دل پہ نہ کیونکر چلتا

کیا مِرا حب کا عمل تھا کہ جو چلتا ہی نہیں

چمنِ دہر میں یہ عاشقِ ناکام تِرا

وہ شجر ہے کہ کبھی پھولتا پھلتا ہی نہیں

تغافل کو طرز کرم جانتے ہیں

تغافل کو طرزِ کرم جانتے ہیں
تمہاری اداؤں کو ہم جانتے ہیں
فریبِ بہاراں نہ دو ہم کو یارو
کہ ہم اس کا سارا بھرم جانتے ہیں
چلے جا رہے ہیں مگر اپنی منزل
نہ تم جانتے ہو، نہ ہم جانتے ہیں

کس کے چہرہ پر غم کی دھول نہیں

کس کے چہرہ پر غم کی دھول نہیں
کون اس دور میں ملول نہیں
جس نے گلشن کو زندگی بخشی
اس کے دامن میں کوئی پھول نہیں
جس میں شامل نہ ہو تمہارا غم
وہ مسرت ہمیں قبول نہیں

جیب خالی ہو تو کیا ہوتا ہے

جیب خالی ہو تو کیا ہوتا ہے
دل غریبوں کا بڑا ہوتا ہے
وہی سجدہ ہے حقیقی سجدہ
زیرِ خنجر جو ادا ہوتا ہے 
کیا ستم ہے کہ جب آتی ہے بہار
دل کا ہر زخم ہرا ہوتا ہے

وہ آواز نفرت لگائی گئی

وہ آوازِ نفرت لگائی گئی
محبت کی ساری کمائی گئی
کبھی آگ میں اور کبھی دار پر
وفا ہر جگہ آزمائی گئی 
بڑی برق پا تھی، بڑی تیز رو
جوانی اک آندھی تھی آئی، گئی

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے

لوگ کہتے ہیں کہ تُو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے
ہائے اس وقت کو کوسوں کہ دعا دوں یارو
جس نے ہر درد مِرا چھین لیا ہے مجھ سے 
دل کا یہ حال کہ دھڑکے ہی چلا جاتا ہے
ایسا لگتا ہے کوئی جرم ہوا ہے مجھ سے

بھولے نہ کسی حال میں آداب نظر ہم

بھولے نہ کسی حال میں آدابِ نظر ہم
مڑ کر نہ تجھے دیکھ سکے وقتِ سفر ہم
اے حسن کسی نے تجھے اتنا تو نہ چاہا
برباد ہوا تیرے لیے کون ۔۔ مگر ہم 
جینے کا ہمیں خود نہ ملا وقت تو کیا ہے
لوگوں کو سکھاتے رہے جینے کا ہنر ہم

دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا

دیدہ و دل میں کوئی حسن بکھرتا ہی رہا
لاکھ پردوں میں چھپا کوئی سنورتا ہی رہا
روشنی کم نہ ہوئی وقت کے طوفانوں میں
دل کے دریا میں کوئی چاند اترتا ہی رہا 
راستے بھر کوئی آہٹ تھی کہ آتی ہی رہی
کوئی سایہ مِرے بازو سے گزرتا ہی رہا

Wednesday, 27 January 2016

نیندوں کا احتساب ہوا یا نہیں ہوا

نیندوں کا احتساب ہوا یا نہیں ہوا
سچا کسی کا خواب ہوا یا نہیں ہوا
بے داغ کوئی شکل نظر آئی یا نہیں
آئینہ بے نقاب ہوا ۔۔ یا نہیں ہوا
لائی گئیں کٹہرے میں کتنی عدالتیں
قانون لاجواب ہوا ۔۔ یا نہیں ہوا

سایہ کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں

سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں
تنہائی! بتا کیسے تجھے گھر سے نکالوں
اِک موج بھی مل جائے اگر مجھ کو صِلے میں
گِرتے ہوئے دریا کو سمندر سے نکالوں 
تیشے سے بجاتا پھروں میں بربطِ کہسار
نغمے جو مِرے دل میں ہیں، پتھر سے نکالوں

دیدہ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے

دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے
ظرف مردہ ہو تو سچائی کہاں سے آئے
پیار تعمیر ہو جب بغض کی بنیادوں پر
ملتی نظروں میں شناسائی کہاں سے آئے 
گم ہیں رنگوں میں خدوخال بھی تصویروں کے
پس پردہ کا تماشائی کہاں سے آئے

کچھ ایسا اترا میں اس سنگ دل کے شیشے میں

کچھ ایسا اترا میں اس سنگدل کے شیشے میں 
کہ چند سانس بھی آئے نہ اپنے حصے میں 
وہ ایک ایسے سمندر کے روپ میں آیا 
کہ عمر کٹ گئی جس کو عبور کرنے میں 
مجھے خود اپنی طلب کا نہیں ہے اندازہ 
یہ کائنات بھی تھوڑی ہے میرے کاسے میں 

مذکورہ تری بزم ميں کس کا نہيں آتا

مذکورہ تِری بزم ميں کس کا نہيں آتا
پر ذکر ہمارا نہيں آتا ۔۔۔ نہيں آتا
جينا ہميں اصلاً نظر اپنا نہيں آتا
گر آج بھی وہ رشکِ مسيحا نہيں آتا
کيا جانے اسے وہم ہے کيا ميرے طرف سے 
جو خواب ميں بھی رات کو نہيں آتا

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا ۔۔۔ تو کدھر جائیں گے
تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی
تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد

کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد 
سینے میں ہو گی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی گھڑی اگر وہ ملائم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
ہو عمرِ خضرؑ بھی تو ہو معلوم وقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے، ابھی چلے
ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بدقمار
جو چال ہم چلے ۔۔ سو نہایت بری چلے

Tuesday, 26 January 2016

کوئی قیمت نہ لگی اپنی خریداروں میں

کوئی قیمت نہ لگی اپنی خریداروں میں
عمر بھر خاک اڑاتے پھرے بازاروں میں
وہ تو کچھ ہم ہی تھے بیزارِ سکوتِ ساحل
ورنہ کیا زور تھا طوفان تِرے دھاروں میں 
ہے ستاروں میں گھِرا دل سا دھڑکتا ہوا چاند
یا کوئی سہمی سی جوگن ہے پرستاروں میں

محبتوں کو سلیقہ سکھا دیا میں نے

محبتوں کو سلیقہ سکھا دیا میں نے
تِرے بغیر بھی جی کر دکھا دیا میں نے
بچھڑنا میرا تو قسمت کی بات ہے لیکن
دعائیں دے، تجھے شاعر بنا دیا میں نے
جو تیری یاد دلاتا تھا، چہچہاتا تھا
منڈیر سے وہ پرندہ اڑا دیا میں نے

دن رات برستا ہو جو بادل نہیں دیکھا

دن رات برستا ہو جو بادل نہیں دیکھا
آنکھوں کی طرح کوئی بھی بادل نہیں دیکھا
کیوں لوگ یہاں دیتے ہیں رشتوں کی دہائی
اس پیڑ پہ ہم نے تو کوئی پھل نہیں دیکھا
انسان درندوں کی طرح گھوم رہے ہیں
شہروں کی طرح کوئی بھی جنگل نہیں دیکھا

کچھ دن سے زندگی مجھے پہچانتی نہیں

کچھ دن سے زندگی مجھے پہچانتی نہیں
یوں دیکھتی ہے جیسے مجھے جانتی نہیں
وہ بے وفا جو راہ میں ٹکرا گیا کہیں
کہہ دوں گی میں بھی صاف کہ پہچانتی نہیں
سمجھایا بارہا کہ بچو پیار ویار سے
لیکن کوئی سہیلی کہا مانتی نہیں

غم زندگی کا مجھ پر بخدا اثر نہیں ہے

غمِ زندگی کا مجھ پر بخدا اثر نہیں ہے
ابھی لب پہ ہے تبسم ابھی آنکھ تر نہیں ہے
تِری رحمتوں کی شاید اسے کچھ خبر نہیں ہے
جو نہ دل کو دل بنا دے، وہ نظر نظر نہیں ہے
بھلا کیوں نہ ہو تعجب مجھے اپنی سادگی پر
میں اسی پہ مر رہی ہوں جسے کچھ خبر نہیں ہے

ملنا تھا اتفاق بچھڑنا نصیب تھا

ملنا تھا اتفاق ... بچھڑنا نصیب تھا
وہ اتنی دور ہو گیا، جتنا قریب تھا
میں اس کو دیکھنے کو ترستی ہی رہ گئی
جس شخص کی ہتھیلی پہ میرا نصیب تھا
بستی کے سارے لوگ ہی آتش پرست تھے
گھر جل رہا تھا میرا ... سمندر قریب تھا

کہنے کو ہر اک حق کا پرستار ملے ہے

کہنے کو ہر اک حق کا پرستار ملے ہے 
اب دیکھیے کس کو شرفِ دار ملے ہے
ہوتی ہے خرد مصلحت اندیش ہی، لیکن 
محرومِ خرد ۔۔۔ مستحقِ دار ملے ہے
جو ظرف کے پیکر ہیں وہ ہوتے ہیں سرافراز 
کم ظرف کو کب حوصلۂ دار ملے ہے

شہر تا شہر پر ایک شور سا داناؤں میں

شہر تا شہر پر ایک شور سا داناؤں میں 
باڑھ کیا آئی ہے دیوانوں کی صحراؤں میں 
آج سوکھے ہوئے پتے سے بھی کم قیمت ہیں 
نام کل تک تھا ہمارا ۔۔ چمن آراؤں میں 
میری غیرت پہ ہے انگشت بدنداں ہر شخص 
’اب کے ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں‘

زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی

زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی
ایک تنویرِ حیات آج ابھرنے سے رہی
میں پیمبر نہیں، انسان ہوں، خطا کار انساں 
عرش سے کوئی وحی مجھ اترنے سے رہی  
میں نے کر رکھا ہے محصور چمن حد تک
شاخ تا شاخ کوئی برق گزرنے سےرہی

کردار خوش مقام کی سچائی دے گیا

کردار خوش مقام کی سچائی دے گیا 
جو دار کو حیات کی انگڑائی دے گیا 
بکھرا کچھ اس طرح کہ فلک تک ہوا بلند
میرا وجود موت کو اونچائی دے گیا 
کہتے ہیں وقت ہوتا ہے مرہم، مگر غلط 
یہ اور میرے زخموں کو گہرائی دے گیا 

یہ شوخی نگاہ کسی پر عیاں نہیں

یہ شوخئ نگاہ کسی پر عیاں نہیں
تاثیرِ دردِ عشق کہاں ہے کہاں نہیں
عشق اس طرح مٹا کہ عدم تک نشاں نہیں
آ سامنے کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں
مجھ کو بھی اپنے حال کا وہم و گماں نہیں
تم راز داں نہیں تو کوئی راز داں نہیں

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں
بھول جاتے ہیں کسی کو، مگر ایسا بھی نہیں
یاد کرتے ہیں کسی کو، مگر اتنا بھی نہیں 
تم نے پوچھا بھی نہیں، میں نے بتایا بھی نہیں
کیا مگر راز وہ ایسا تھا کہ جانا بھی نہیں

آج بھی قافلہ عشق رواں ہے کہ جو تھا

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے کہ جو تھا
آج بھی عشق لٹاتا دل و جاں ہے کہ جو تھا
آج بھی حسن وہی جنسِ گراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا

ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر تم پہروں پہروں روؤ ہو

ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر تم پہروں پہروں روؤ ہو
وہ بھی کوئی ہمیں جیسا ہے کیا تم اس میں دیکھو ہو
جن کو اتنا یاد کرو ہو، چلتے پھرتے سائے تھے
ان کو مِٹے تو مدت گزری نام و نشاں کیا پوچھو ہو
جانے بھی دو نام کسی کا آ گیا باتوں باتوں میں
ایسی بھی کیا چپ لگ جانا کچھ تو کہو کیا سوچو ہو

Monday, 25 January 2016

شہر دل کی گلیوں میں

شہرِ دل کی گلیوں میں
شام سے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گداز تنہائی

رات کے خواب سنائیں کس کو رات کے خواب سہانے تھے

رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانے تھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے، پر سب جانے پہچانے تھے
ضدی، وحشی، الھڑ، چنچل، میٹھے لوگ، رسیلے لوگ
ہونٹ ان کے غزلوں کے مصرعے، آنکھوں میں افسانے تھے
وحشت کی عنوان ہماری، ان میں سے جو نار بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے، انشاؔ جی دیوانے تھے

میں دور رکھوں گا خود کو تم سے تمہارے گھر بھی نہ آؤں گا

میں دور رکھوں گا خود کو تم سے تمہارے گھر بھی نہ آؤں گا
مگر تم اپنی شفیق نظروں میں اجنبیت سمو سکو گے
اگر میں راتوں کو کاہشِ غم سے تا سحر جاگتا رہوں گا
تو اس قدر پاس رہ کے بھی مجھ سے اس قدر دور رہ سکو گے
 مجھے تو منظور ہے یہ سب کچھ ، میں رو کے جی لوں سسک کے جی لوں
مگر مِری ایسی زندگی پر تمہیں کو شاید ملال ہو گا

جنگل جنگل شوق سے گھومو دشت کی سیر مدام کرو

جنگل جنگل شوق سے گھومو، دشت کی سیر مدام کرو
انشاؔ جی! ہم پاس بھی لیکن رات کی رات قیام کرو
اشکوں سے اپنے دل کی حکایت دامن پر ارقام کرو
عشق میں جب یہی کام ہے یارو! لے کے خدا کے نام کرو
کب سے کھڑے ہیں بر میں خراجِ عشق لیے سرِ راہگزر
ایک نظر سے سادہ رخو! ہم سادہ دلوں کو غلام کرو

خون دل سے کشت غم کو سینچتا رہتا ہوں میں

خونِ دل سے کشتِ غم کو سینچتا رہتا ہوں میں
خالی کاغذ پر لکیریں کھینچتا رہتا ہوں میں
آج سے مجھ پر مکمل ہو گیا دِینِ فِراق
ہاں تصور میں بھی اب تجھ سے جدا رہتا ہوں میں
تُو دیار حسن ہے، اونچی رہے تیری فصیل
میں ہوں دروازہ محبت کا، کھلا رہتا ہوں میں

پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا

پتہ اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
یہ مقتل بھی ہے اور کنجِ اماں بھی
یہ دل، یہ بے نشاں کمرہ ہمارا

پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے

پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے، یہ دریا کہاں کا ہے
دیوار پر کھلے ہیں نئے موسموں کے پھول
سایہ زمین پر کسی پچھلے مکاں کا ہے
چاروں طرف ہیں سبز سلاخیں بہار کی
جن میں گھِرا ہوا کوئی موسم خزاں کا ہے

تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا

تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا، کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا ... کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہمارے گلے میں تھا

پہلو میں میرے دیکھ وہی دل ہے آج بھی

پہلو میں میرے دیکھ وہی دل ہے آج بھی 
روشن اسی چراغ سے محفل ہے آج بھی 
اب بھی ہے کہکشاں تیرے پرتو سے راہِ شوق 
پُر نُور شام جادواں منزل ہے آج بھی 
اب بھی حیاتِ شوق کی کشتی ہے تیز رو 
ہر موج ایک امید کا ساحل ہے آج بھی 

زمیں ہو گی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے

زمیں ہو گی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں، ہم نہ کہتے تھے
علاجِ چاکِ پیراہن ہُوا تو ۔۔۔ اس طرح ہو گا 
سِیا جائےگا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
ترانے کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کر لیں گے 
عجب انداز سے پھیلے گا زِنداں ہم نہ کہتے تھے

تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا

تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا
یہ کم نہیں ہمیں جینے کا حوصلہ تو رہا
گزر ہی آئے کسی طرح تیرے دیوانے
قدم قدم پہ کوئی سخت مرحلہ تو رہا
چلو نہ عشق ہی جیتا نہ عقل ہار سکی
تمام وقت مزے کا مقابلہ تو رہا

Sunday, 24 January 2016

سوز و گداز شمع کو بیکار دیکھ کر

سوز و گدازِ شمع کو بے کار دیکھ کر
تڑپا ہوں صبح تک ۔۔ یہی آثار دیکھ کر
حشر آفریں ہیں کوئے محبت میں ہر قدم
ہم تو بڑھے تھے راہ کو ہموار دیکھ کر
گرتی رہیں تبسمِ پنہاں کی بجلیاں
ہم کو مشاہدہ کا طلبگار دیکھ کر

یہ مرقع ہے مری حسرت گویائی کا

اثر عشق سے ہوں صورتِ شمع خاموش
یہ مرقع ہے مِری حسرتِ گویائی کا
چمنِ دہر میں ہر پھول رہا پیشِ نظر
کھینچنا تھا ہمیں نقشہ تِری رعنائی کا
نظر آتی ہے مجھے حسن کی دنیا بے حس
کس کو افسانہ سناؤں ۔۔ شبِ تنہائی کا

زباں سے جو نہ ادا ہو وہ ماجرا ہوں میں

مِری خموشئ مجبور پر بھی ایک نظر
زباں سے جو نہ ادا ہو وہ ماجرا ہوں میں
نشان دو مجھے اے کوئے یار کے ذرو
یہیں کہیں کوئی شے آج کھو چکا ہوں میں
اس اضطراب پہ قربان اک جہانِ سکوں
کوئی سنبھال رہا ہے، تڑپ رہا ہوں میں

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا
دل کی بربادی کے بعد ان کا پیام آیا تو کیا 
چھوٹ گئیں نبضیں امیدیں دینے والی ہیں جواب 
اب ادھر سے نامہ بر لے کے پیام آیا تو کیا 
آج ہی مٹنا تھا اے دل! حسرتِ دیدار میں
تُو میری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا 

اپنی پلکوں پہ کسی شام سجا لو مجھ کو

اپنی پلکوں پہ کسی شام سجا لو مجھ کو
میں اگر روٹھ گیا ہوں تو منا لو مجھ کو
سوچ کے گہرے سمندر سے نکالو مجھ کو
دم گھٹا جائے ہے اب کوئی بچا لو مجھ کو
میں اگر پھول نہیں ہوں تو شرارہ بھی نہیں
اپنے دامن میں بلا خوف چھپا لو مجھ کو

گیسوؤں کی برہمی اچھی لگے

گیسوؤں کی برہمی اچھی لگے
یہ حسیں آوارگی ۔۔ اچھی لگے
اس کے ہونٹوں کی ہنسی اچھی لگے
اَدھ کھلی سی وہ کلی ۔۔ اچھی لگے
پیاس کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
اوس کی اک بوند بھی اچھی لگے

کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے

کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
دنیا ہے ۔۔ تِری زلفِ گرہ گیر نہیں ہے
کیوں تیری نوازش نہیں اب دیدہ و دل پر
کیا اب تِرے ترکش میں کوئی تیر نہیں ہے
ٹوکیں گے تجھے ہم تِرے اندازِ غلط پر 
مے خانہ ہے ساقی تِری جاگیر نہیں ہے

کہتے ہوئے حیات کے افسانے سو گئے

کہتے ہوئے حیات کے افسانے سو گئے
سب کو جگا کے آپ کے دیوانے سو گئے
آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھی صبحِ مے کدہ
آنکھیں ہوئیں جو بند تو مے خانے سو گئے
پھولوں کی سیج پر بھی کبھی مضطرب رہے
کانٹوں پہ بھی کبھی تِرے دیوانے سو گئے

روز اک شخص چلا جاتا ہے خواہش کرتا

روز اک شخص چلا جاتا ہے خواہش کرتا
ابھی آ جائے گا بادل کوئی ۔۔ بارش کرتا
گھر سے نکلا تو جہاں زاد خدا اتنے تھے
میں انا زاد بھی کس کس کی پرستش کرتا
ہم تو ہر لفظ میں جاناں تِری تصویر ہوئے
اس طرح کون سا آئینہ ۔۔ ستائش کرتا

تم نغمہ ماہ ہو انجم ہو تم سوز تمنا کیا جانو

تم نغمۂ ماہ ہو، انجم ہو، تم سوزِ تمنا کیا جانو
تم دردِ محبت کیا سمجھو، تم دل کا تڑپنا کیا جانو
سو بار اگر تم روٹھ گئے، ہم تم کو منا ہی لیتے تھے
ایک بار اگر ہم روٹھ گئے ۔۔ تم ہم کو منانا کیا جانو
تخریبِ محبت آسان ہے ۔۔ تعمیرِ محبت مشکل ہے
تم آگ لگانا سیکھ گئے ۔۔ تم آگ بجھانا کیا جانو

یہ کون ڈوب گیا اور ابھر گیا مجھ میں

یہ کون ڈوب گیا اور ابھر گیا مجھ میں 
یہ کون سائے کی صورت گزر گیا مجھ میں 
یہ کس کے سوگ میں شوریدہ حال پھرتا ہوں
وہ کون شخص تھا ایسا کہ مر گیا مجھ میں 
عجب ہوائے بہاراں نے چارہ سازی کی 
وہ زخم جس کو نہ بھرنا تھا بھر گیا مجھ میں

کوئی بجھتا ہوا منظر نہیں دیکھا جاتا

کوئی بجھتا ہوا منظر نہیں دیکھا جاتا
اب کسی آنکھ کو پتھر نہیں دیکھا جاتا
وہ ہمارا نہ سہی ۔۔ اور قبیلے کا سہی
ہم سے پسپا کوئی لشکرنہیں دیکھا جاتا
کیا یہ سچ ہے کہ تِرے آئینہ خانوں میں مجھے
میرے قامت کے برابر نہیں دیکھا جاتا

Friday, 22 January 2016

کچھ دور ہمارے ساتھ چلو ہم دل کی کہانی کہہ دیں گے

کچھ دور ہمارے ساتھ چلو، ہم دل کی کہانی کہہ دیں گے
سمجھے نہ جسے تم آنکھوں سے، وہ بات زبانی کہہ دیں گے
پھولوں کی طرح جب ہونٹوں پر، اک شوخ تبسم بکھرے گا
دھیرے سے تمہارے کانوں میں اک بات پرانی کہہ دیں گے
اظہارِ وفا تم کیا سمجھو۔۔۔ اقرارِ وفا تم کیا جانو
ہم ذکر کریں گے غیروں کا اور اپنی کہانی کہہ دیں گے

کریں سلام اسے تو کوئی جواب نہ دے

کریں سلام اسے تو کوئی جواب نہ دے
الہٰی اتنا بھی اس شخص کو حجاب نہ دے
تمام شہر کے چہروں کو پڑھنے نکلا ہوں
اے میرے دوست! مِرے ہاتھ میں کتاب نہ دے
غزل کے نام کو۔۔۔ بدنام کر دیا اس نے
کچھ اور دے مِرے ساقی مجھے شراب نہ دے

دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا

دنیا لٹی ۔۔ تو دور سے تکتا ہی رہ گیا ​
آنکھوں میں گھر کے خواب کا نقشا ہی رہ گیا ​
اس کے بدن کا لوچ تھا دریا کی موج میں ​
ساحل سے میں بہاؤ کو تکتا ہی رہ گیا ​
دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی ​
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا ​

بہت حسیں ہے مرا دلربا نہ ہو جائے

بہت حسیں ہے، مِرا دلربا نہ ہو جائے
مِری نظر میں وہ کافر خدا نہ ہو جائے
تمام شہر میں میری وفا کی خوشبو ہے
پرانا زخم کسی کا ۔۔ ہرا نہ ہو جائے
نجانے کتنے برس بعد وہ ملا ہے مجھے
ہے ڈر یہی کہ وہ پھر سے جدا نہ ہو جائے

تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے

تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے 
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے 
چلے گئے ۔۔ تو پکارے گی ہر صدا ہم کو 
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
لہو لہو کے سوا ۔۔ کچھ نہ دیکھ پاؤ گے
ہمارے نقشِ قدم اس قدر عیاں ہوں گے 

اے عشق تو نے واقف منزل بنا دیا

اے عشق! تُو نے واقفِ منزل بنا دیا
اب مرحلوں کو اور بھی مشکل بنا دیا
اللہ رے شوق، قیس کی جلوہ طرازیاں
اکثر غبارِ دشت کو محمل بنا دیا
میں غرق ہو رہا تھا کہ طوفانِ عشق نے
اک موجِ بے قرار کو ۔۔ ساحل بنا دیا

پھر اعتبار عشق کے قابل نہیں رہا

پھر اعتبارِ عشق کے قابل نہیں رہا
جو دل تِری نظر سے گرا دل نہیں رہا
نشتر چبھوئے اب نہ پشیمانئ نگاہ
مجھ کو تو شکوۂ خلشِ دل نہیں رہا
موجیں ابھار کر مجھے جس سمت لے چلیں
حدِ نگاہ تک کہیں ساحل نہیں رہا

ہو چکا ناکامی دل تک بیان زندگی

ہو چکا ناکامئ دل تک بیانِ زندگی
عشق نے اب کی مکمل داستانِ زندگی
ایک آہِ سرد میں مضمر ہیں لاکھوں واقعات
مختصر یوں کر رہا ہوں داستانِ زندگی
ہو چکی ہر بار گو اے شمع پروانوں کی خاک
ذرہ ذرہ میں ہے پنہاں، اک جہانِ زندگی

مرا حال تھا جہاں تک وہ ادا کیا زباں سے

مِرا حال تھا جہاں تک ۔۔۔ وہ ادا کِیا زباں سے
جو کہیں گے اشکِ رنگیں وہ الگ ہے داستاں سے
نہ سمجھ سکے ہم اب تک وہی فیصلہ تھا دل کا
جو کہا تِری نظر نے ۔۔۔ جو سنا تِری زباں سے
نہیں امتیاز ناصح! تِری پندِ بر محل کا
یہ مقامِ بیخودی ہے مجھے چھوڑ دے یہاں سے

بے چین طبعیت میں سبھاؤ کے لئے ہے

بے چین طبعیت میں سبھاؤ کے لیے ہے
اک درد ہے اور درد رچاؤ کے لیے ہے
تھا چشمہ جو آنکھوں میں سلگنے کے لیے تھا
ہے صحرا جو سینے میں بہاؤ کے لیے ہے
تاجر کی طرح تُو نے تعین کِیا میرا
جیسے میرا ہونا تیرے بھاؤ کے لیے ہے

آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد

آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد
لوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعد
وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد
کوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعد
آہیں بھرتی ہے شبِ ہجر یتیموں کی طرح
سرد ہو جاتی ہے ہر روز ہوا شام کے بعد

ایک بے نام سی وحشت نے مجھے گھیر لیا

ایک بے نام سی وحشت نے مجھے گھیر لیا
خوف نے درد نے حسرت نے مجھے گھیر لیا
بس اسی موڑ سے مڑنا تھا مجھے تیری طرف
ہائےکس جا پہ ضرورت نے مجھے گھیر لیا
یہ جو بے وجہ مخالف ہوا جاتا ہے نگر
در حقیقت مِری شہرت نے مجھے گھیر لیا

ضائع کرتے تھے ملاقاتوں کو

ضائع کرتے تھے ملاقاتوں کو
ہم سمجھتے ہی نہ تھے باتوں کو
ان کو عادت ہے مِری آنکھوں کی
کون سمجھائے گا برساتوں کو
کتنے معصوم ہیں وہ لوگ کہ جو
کچھ سمجھتے ہی نہیں راتوں کو

اب کیا کہیں کیا مشغلہ ہم دل زدہ لوگوں کا ہے

اب کیا کہیں کیا مشغلہ ہم دل زدہ لوگوں کا ہے
آوارگی شاموں کی ہے اور جاگنا راتوں کا ہے
دہشت سی کچھ رستوں میں ہے، کچھ شور سا پتوں کا ہے
اک سرسراتا سا وہم ۔۔۔ شام کے لمحوں کا ہے
وعدوں کی رُت رخصت ہوئی، باتوں کو چپ سی لگ گئی
ملنا تو اب خوابوں میں ہے ۔۔۔ رشتہ تو بس یادوں کا ہے

مرے عزیزو تمام دکھ ہے

مِرے عزیزو تمام دکھ ہے
مجھے محبت سے تکنے والو
مجھے عقيدت سے سننے والو
مِرے شکستہ حروف سے اپنے من کی دنيا بسانے والو
مِرے الم آفريں تکلم سے انبساطِ تمام کی لازوال شمعيں جلانے والو
بدن کو تحليل کرنے والی رياضتوں پرعبور پائے ہوئے، سکھوں کو تَجے ہوئے بے مثال لوگو
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھنے والو، عزيز بچو، ميں بجھ رہا ہوں

کچھ تو احوال غم دل بھی سنایا ہوتا

کچھ تو احوالِ غمِ دل بھی سنایا ہوتا
رک گیا تھا تو اسے اور بھی روکا ہوتا
شام اتری ہے سرِ عرصۂ صحرائے خیال
منظرِ دل سے کوئی چاند بھی ابھرا ہوتا
کسی پتے سے ہی ملتا کوئی عنوانِ بہار
پھول کوئی تو سرِ شاخ بھی مہکا ہوتا

شدت تلخیٔ حالات بڑھا دیتی ہے

شدتِ تلخیٔ حالات بڑھا دیتی ہے
آگہی درد کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے
کس کی آہٹ پہ فضا کان دھرے بیٹھی ہے
خامشی کس کو سرِ شام صدا دیتی ہے
نکہتِ گیسوئے دلدار کہاں بکھری ہے
پوچھتا ہوں تو ہوا خاک اڑا دیتی ہے

دل جگر سب آبلوں سے بھر چلے

 دل جگر سب آبلوں سے بھر چلے

مر چلے اے سوزِ فرقت! مر چلے

کہتی ہے رگ رگ ہماری حلق سے

دم میں دم جب تک رہے خنجر چلے

راہ ہے دشوار و منزل دور تر

پا شکستہ کیا کرے، کیونکر چلے

آنکھ میں بے کراں ملال کی شام

 آنکھ میں بے کراں ملال کی شام

دیکھنا، عشق کے زوال کی شام

میری قسمت ہے تیرے ہجر کا دن

میری حسرت تیرے وصال کی شام

دہکی دہکی تیرے جمال کی صُبح

مہکی مہکی میرے خیال کی شام

بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے

بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے
آپ کے دَم سے تو دنیا کا بھرم ہے قائم
آب جب ہیں تو زمانے کی ضرورت کیا ہے
تیرا کوچہ، تِرا در، تیری گلی کافی ہے
بے ٹھکانوں کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے

اب ترے غم سے تعلق کوئی پل کا تو نہیں

اب تِرے غم سے تعلق ۔۔ کوئی پل کا تو نہیں
دل میں رہتا ہے کبھی آنکھ سے چھلکا تو نہیں
تھوڑی ہی دیر میں اڑ جائے جو خوشبو کی طرح
رنگ یادوں کا تِری ۔۔۔ اس قدر ہلکا بھی نہیں
دلکشی بھی ہے تحیر بھی ہے تقدیس بھی ہے
عکس آنکھوں میں مِری تاج محل کا تو نہیں

جاؤ گے تو پچھتا کے چلے آؤ گے اک دن

جاؤ گے تو پچھتا کے چلے آؤ گے اک دن
تنہائی سے گھبرا کے چلے آؤ گے اک دن
روکا ہے کبھی تم کو نہ روکیں گے کبھی ہم
معلوم ہے تم جا کے چلے آؤ گے اک دن
جو دل تمہیں روکے گا کسی ڈر کے بہانے
اس دل کو بھی سمجھا کے چلے آؤ گے اک دن

یوں خالی ہاتھ میں ترے در سے گزر گیا

یوں خالی ہاتھ میں تِرے در سے گزر گیا
جیسے بھرے جہاں سے سکندر گزر گیا
کس کا گناہگار ہے ۔۔۔ یہ باثمر شجر
جو شخص آیا، مار کے پتھر گزر گیا
کیسے نظر میں ڈھونڈ کے لائے تھے اک ہلال
کیا وہ پلک جھپکتے ہی منظر گزر گیا

Thursday, 21 January 2016

اے درد ہجر یار غزل کہہ رہا ہوں میں

اے دردِ ہجرِ یار! غزل کہہ رہا ہوں میں
بے موسمِ بہار، غزل کہہ رہا ہوں مہیں
میرے بیانِ غم کا تسلسل نہ ٹوٹ جائے
گیسو ذرا سنوار، غزل کہہ رہا ہوں میں
راز و نیازِ عشق میں کیا دخل ہے تیرا
ہٹ فکرِ روزگار، غزل کہہ رہا ہوں میں

شعاع حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی

شعاعِ حسن تِرے حسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی
کسے ملیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی، جو دِیے جلاتی تھی
وہ دن تو تھے ہی حقیقت میں عمر کا حاصل
خوشا وہ دن، کہ ہمیں روز موت آتی تھی

یہ رنگ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی

یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
حنائے پائے خزاں ہے ۔۔ بہار اگر ہے بھی
یہ پیش خیمۂ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی
لہو کی شمیں جلاؤ ۔۔ قدم بڑھاتے چلو
سروں پہ سایۂ شب ہائے تار اگر ہے ابھی

زمیں کے لوگ ستارے ادھار مانگتے ہیں

زمیں کے لوگ ستارے ادھار مانگتے ہیں
خدا سے اس کے سہارے ادھار مانگتے ہیں
یہ کیسی بستی میں ہم نے دکان کھولی ہے
یہاں تو سارے کے سارے ادھارمانگ تے ہیں
یہ اپنی عمر سے آگے نکل گئے کیسے
غریب بچے غبارے ادھار مانگتے ہیں

جو مرض کوئی ہو دوا کرے جو بلا کوئی ہو دعا کرے

جو مرض کوئی ہو دوا کرے، جو بلا کوئی ہو دعا کرے
جو دوا دعا میں اثر نہ ہو۔۔ تو بتائیے کہ وہ کیا کرے
چلے آئے موج میں اس طرف، کہ فقیرِ طالبِ دید تھے
نہیں رحم کرتے جو اے بتو! تو خدا تمہارے بھلا کرے
یہ کہ ستم نیا ہے کہ ذکر تک ستم و جفا کا ہے جاں گسل
جو گلہ سے نکلے غبار کچھ تو بلا سے خوب گلا کرے

کس پہ قابو جو تجھی پر نہیں قابو اپنا

کس پہ قابو جو تجھی پر نہیں قابو اپنا
کس سے امید ہمیں جب نہ ہُوا تُو اپنا
جامِ مے دیکھ کے جاتا رہا قابو اپنا
لڑکھڑا تا ہوں پکڑے کوئی بازو اپنا
نگہتِ گل بہت اِترائی ہوئی پھِرتی ہے
وہ کہیں کھول بھی دیں طرۂ گیسو اپنا

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اس کوچہ کے ہر ذرہ سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
نہیں اٹھتے قدم کیوں جانبِ دَیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں

مصیبت جس سے زائل ہو وہی سامان کر دے گا

مصیبت جس سے زائل ہو وہی سامان کر دے گا
نہ گھبرانا، خدا سب مشکلیں آسان کر دے گا
خوشی سے مشکلوں کا سامنا کر، منہ نہ پھیر اے دل
تِرے عقدوں کا حل، تِرا یہی اوسان کر دے گا
بشر پر منحصر کیا، تذکرہ اس کا تو ہے ناحق
یہ عشقِ ذوفتوں، حیواں کو بھی انسان کر دے گا

اے حسن یار شرم یہ کیا انقلاب ہے

اے حسنِ یار شرم یہ کیا انقلاب ہے
تجھ سے زیادہ درد تِرا کامیاب ہے
عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوشِ محبت جواب ہے
تیری عنایتیں کہ نہیں نذرِ جاں قبول
تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے

Wednesday, 20 January 2016

آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا

آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا
تاریک مثلِ آہ جو آنکھوں کا نور تھا
کیا صبح ہی سے شامِ بلا کا ظہور تھا
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ نظر تو ۔۔۔ تو نظر کا قصور تھا

یہ میخانہ ہے بزم جم نہیں ہے

یہ مے خانہ ہے بزمِ جم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
شکستِ دل شکستِ غم نہیں ہے
مجھے اتنا سہارا کم نہیں ہے
ذرا سا دل ہے لیکن کم نہیں ہے
اس میں کون سا عالم نہیں ہے

جان کر منجملۂ خاصان مے خانہ مجھے

جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
ننگِ مے خانہ تھا میں ساقی نے یہ کیا کر دیا
پینے والے کہہ اٹھے یا پیرِ مے خانہ مجھے
سبزہ و گل، موج و دریا، انجم و خورشید و ماہ
اِک تعلق سب سے ہے، لیکن رقیبانہ مجھے

رستے میں غیر مل گئے یا رات ہو گئی

رستے میں غیر مل گئے یا رات ہو گئی
ان کے لیے کوئی نہ کوئی بات ہو گئی
ان کی طرف سے ترکِ ملاقات ہو گئی
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی
آنسو تھمے تو آنکھوں ہی میں بات ہو گئی
مے خانے جیسے کھل گئے برسات ہو گئی

پھر کہو گے تم مقابل کی سزا کے واسطے

پھر کہو گے تم مقابل کی سزا کے واسطے
آئینے کو ہاتھ سے رکھ دو خدا کے واسطے
کعبۂ دل کو نہ تاکو تم جفا کے واسطے
اے بتو! یہ گھر خدا کا ہے، خدا کے واسطے
یا الٰہی! کِس طرف سے پاس ہے بابِ اثر
کون سا نزدیک ہے رستہ دعا کے واسطے

ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے

ہزاروں فریاد کر رہے ہیں مگر کسی پر نظر نہیں ہے
وہ محو ہیں آئینے میں ایسے کہ ان کو اپنی خبر نہیں ہے
مریضِ فرقت کا ہے یہ عالم کہ شام سے کچھ خبر نہیں ہے
وہ دیکھنے آئیں گے سحر کو ۔۔۔ یہاں امیدِ سحر نہیں ہے
خوشی تو یہ ہے جواب آیا مآل پیشِ نظر نہیں ہے
لفافہ قاصد سے لے لیا ہے لکھے ہوئے کی خبر نہیں ہے

عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو

عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
ہر ایک نقش تمنا کا ہو گیا دھندلا
ہر ایک زخم میرے دل کا بھر گیا یارو
بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرقِ آب ہوئی
چڑھا ہوا تھا جو دریا ۔۔۔ اتر گیا یارو

زندگی جب بھی تیری بزم میں لاتی ہے ہمیں

زندگی جب بھی تیری بزم میں لاتی ہے ہمیں
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
سرخ پھولوں سے مہک اٹھتی ہیں دل کی راہیں
دن ڈھلے یوں تیری آواز بلاتی ہے ہمیں
یاد تیری کبھی دستک کبھی سرگوشی سے
رات کے پچھلے پہر روز جگاتی ہے ہمیں

جو کہتے ہیں کہیں دریا نہیں ہے

جو کہتے ہیں کہیں دریا نہیں ہے
سنا ان سے، کوئی پیاسا نہیں ہے
دِیا لے کر وہاں ہم جا رہے ہیں
جہاں سورج کبھی ڈھلتا نہیں ہے
نہ جانے کیوں ہمیں لگتا ہے ایسا
زمیں پر آسماں سایہ نہیں ہے

دل میں طوفان ہے اور آنکھ طغیانی ہے

دل میں طوفان ہے اور آنکھ طغیانی ہے
زندگی! ہم نے مگر ہار نہیں مانی ہے
غمزدہ وہ بھی ہیں دشوار ہے مرنا جن کو
وہ بھی شاکی ہیں جنہیں جینے کی آسانی ہے
دور تک ریت کا کانپتا ہوا صحرا تھا جہاں
پیاس کی کس کا کرشمہ ہے، وہاں پانی ہے

شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں

شامِ غم یاد ہے ۔۔۔ کب شمع جلی، یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں
دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گزری تھی
کب دھندلکا ہوا ۔۔ کب ناؤ چلی، یاد نہیں
ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی۔۔ ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں

دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے

دل میں وہ شور نہ آنکھوں میں وہ نم رہتا ہے
اب تپِ ہجر۔۔۔ توقع سے بھی کم رہتا ہے
کبھی شعلے سے لپکتے تھے مِرے سینے میں
اب کسی وقت دھواں سا کوئی دم رہتا ہے
کیا خدا جانے مِرے دل کو ہوا تیرے بعد
نہ خوشی اس میں ٹھہرتی ہے نہ غم رہتا ہے

چھٹ گیا ابر شفق کھل گئی تارے نکلے

چھٹ گیا ابر، شفق کھل گئی، تارے نکلے
بند کمروں سے تِرے درد کے مارے نکلے
شاخ پر پنکھڑیاں ہوں کہ پلک پر آنسو
تیرے دامن کی جھلک دیکھ کے سارے نکلے
تُو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہوکر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
بھولنے والے! وقت کے ایوانوں میں کون ٹھہرتا ہے
بِیتی شام کے دروازے پر کس کو بلانے آئے گا
آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اک بدلی سے اک تارا
پھر بدلی کی یورش ہو گی پھر تارا چھپ جائے گا

یہ کون جا رہا ہے مرا گاؤں چھوڑ کے

یہ کون جا رہا ہے مِرا گاؤں چھوڑ کے
آنکھوں نے رکھ دیے ہیں سمندر نچوڑ کے
میں اپنی شکل ڈھونڈتی رہتی ہوں رات بھر
آئینے توڑ کے کبھی ۔۔ آئینے جوڑ کے
آندھی کا کوئی خوف نہ خطرہ ہواؤں کا
میں نے دیے بنائے ہیں سورج کو توڑ کے

ہاتھ یوں ہاتھ میں نہیں ملتا

ہاتھ یوں ہاتھ میں نہیں ملتا
پیار سوغات میں نہیں ملتا
پیار ملتا ہے پیار سے انجمؔ
پیار خیرات میں نہیں ملتا

انجم رہبر

اپنی آوارہ مزاجی کو نیا نام نہ دو

اپنی آوارہ مزاجی کو نیا نام نہ دو 
مجھ کو جنت سے نکلوانے کا الزام نہ دو
مے کدے بند بھی ہو جائیں تو پروا نہ کرو
کسی کم ظرف کے ہاتھوں میں مگر جام نہ دو

انجم رہبر

سچ بات مان لیجئے چہرے پہ دھول ہے

سچ بات مان لیجیے چہرے پہ دھول ہے
الزام آئینوں پہ لگانا فضول ہے
تیری نوازشیں ہوں تو کانٹا بھی پھول ہے
غم بھی مجھے قبول، خوشی بھی قبول ہے
اس پار۔۔ اب تو کوئی تیرا منتظر نہیں
کچے گھڑے پہ تیر کر جانا فضول ہے

ماں کے قدموں سے جو لپٹی وہی جنت اچھی

کیا بھلا اس کے مقابل کوئی نعمت اچھی
ماں کے قدموں سے جو لپٹی وہی جنت اچھی
حج کے طالب ہو تو دیکھا کرو ماں کا چہرہ
اس سے ہو جاتی ہے کعبہ کی زیارت اچھی
میرے بچے بھی مجھے اچھی طرح برتیں گے
میں نے کی ہو گی اگر ماں! تِری خدمت اچھی

درد محبت کیا ہوتا ہے تم کیا جانو

دردِ محبت کیا ہوتا ہے تم کیا جانو
جذبۂ حلفت کیا ہوتا ہے تم کیا جانو
یہ گھر بار لوٹنے والے بتلائیں گے
شوق شہادت کیا ہوتا ہے تم کیا جانو
کاش کہ تم ہوتے اس کے انجام سے واقف
نشۂ شہرت کیا ہوتا ہے ۔۔۔ تم کیا جانو

دل یگانہ ہے تو دلدار نے بخشا مجھ کو

دل یگانہ ہے تو دلدار نے بخشا مجھ کو
یہ صلہ دل سے مِرے یار نے بخشا مجھ کو
وقتِ جلوۂ نظارہ ۔۔ کہاں تھی مجھ میں
حوصلہ نرگسِ بیمار نے بخشا مجھ کو
عمر بھر  بادہ گساری کے بھرم کی خاطر
جام اک ساقیٔ پندار نے بخشا مجھ کو

خون تھوکا شب فرقت میں بسر ہونے تک

خون تھوکا شبِ فرقت میں بسر ہونے تک
کیا بتاؤں کہ جو بِیتی ہے سحر ہونے تک
کہکشاں کی ہیں تِری یاد میں آنکھیں ہر شب
اور کیا چاہیۓ ۔۔ اب خون جگر ہونے تک
کوئی مہتاب جو چمکا بھی تو بس یوں چمکا
بجھ گیا ۔۔۔ باعثِ التفاتِ نظر ہونے تک

بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا ہوں

بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا ہوں
اڑنے کے لیے آج بھی پر تول رہا ہوں
بے باک سخنور ہوں زباں کھول رہا ہوں
کچھ بولنا مشکل ہے، مگر بول رہا ہوں
تجھ سے مِرے غمخوار نہ کہنا پڑے مجھ کو
میں اشک ہوں مٹی میں کہیں رول رہا ہوں

Tuesday, 19 January 2016

آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے

آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی، جگا کر چلے گئے
حسنِ ازل کی شام دکھا کر چلے گئے
اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے
چہرے تک آستین وہ لا کر چلے گئے
کیا راز تھا کہ جس کو چھپا کر چلے گئے

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

دنیا کے ستم یاد ۔۔۔ نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بہ لب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ میرے بھولنے والے نے کیا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد

برابر سے بچ کر گزر جانے والے

برابر سے بچ کر گزر جانے والے
یہ نالے نہیں بے اثر جانے والے
نہیں جانتے کچھ کہ جانا کہاں ہے
چلے جا رہے ہیں، مگر جانے والے
مِرے دل کی بے تابیاں بھی ساتھ لے جا
دبے پاؤں ۔۔ منہ پھیر کر جانے والے

کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن

کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ۔۔ ایک نشیمن
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن ۔۔۔۔ اپنا اپنا دامن
عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے
عشق ہے کارِ شیشہ و آہن

Monday, 18 January 2016

کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے

کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے
شراب خانے پہ ابرِ بہار ہوتا ہے
کسی کا غم ہو مِرے دل پہ بار ہوتا ہے
اسی کا نام ۔۔۔ غمِ روزگار ہوتا ہے
الہٰی خیر ہو ان بے زباں اسیروں کی
قفس کے سامنے ذکرِ بہار ہوتا ہے

قاتل بہار گل سے ہے گلزار دیکھیے

قاتل بہار گل سے ہے گلزار دیکھیے
ہر شاخ جھک کے بن گئی تلوار دیکھیے
ہیں شام سے کچھ اور ہی آثار دیکھیے
کیا صبح تک ہو حالتِ بیمار دیکھیے
بجلی سے لڑ گئی نگہِ یار دیکھیے
وہ آسماں پہ چل گئی تلوار دیکھیے

بوڑھا پنواڑی اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری

بوڑھا پنواڑی

بوڑھا پنواڑی، اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری
آنکھوں میں جیون کی بجھتی اگنی کی چنگاری
نام کی اک ہَٹی کے اندر بوسید الماری
آگے پیتل کے تختے پر اس کی دنیا ساری
پان، کتھا، سگرٹ، تمباکو، چونا، لونگ، سپاری
عمر اس بوڑھے پنواڑی کی پان لگاتے گزری
چونا گھولتے، چھالیا کاٹتے، کتھ پگھلاتے گزری

ظالم وہ تری پہلی نظر یاد رہے گی

ظالم! وہ تِری پہلی نظر یاد رہے گی
میں بھولنا چاہوں بھی مگر یاد رہے گی
اک قاتل و معصوم ادا نقش ہے دل پر
اک سادہ و پرکار نظر ۔۔ یاد رہے گی
ہونٹوں سے چھلکتا ہوا نازک سا تبسم
تابندگئ سلکِ گہر یاد رہے گی

لمحہ درد کو اعجاز تمنا جانو

لمحۂ درد کو ۔۔۔۔۔ اعجازِ تمنا جانو
ظرف کی بات ہے قاتل کو مسیحا جانو
ایک ہے موجِ صبا، موجِ شرر، موجِ نمو
پھول کھِل جائیں تو ظالم کا سراپا جانو
تم نے کب دیکھے وہ لمحے جو گزرتے ہی نہیں
درد کی رات کسے کہتے ہیں ۔۔ تم کیا جانو

داد بھی فتنہ بیداد بھی قاتل کی طرف

داد بھی، فتنۂ بے داد بھی قاتل کی طرف
بے گناہی کے سوا کون تھا، بسمل کی طرف
منزِلیں راہ میں تھیں ۔۔ نقشِ قدم کی صورت
ہم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا کسی منزِل کی طرف
مقتل ناز سے گزرے، تو گزرنے والے 
پھول کچھ پھینک گئے، دامنِ قاتل کی طرف

نارسائی میں فغاں کی آبرو ہے دوستو

نارسائی میں فغاں کی آبرو ہے دوستو
عاشقی پیہم تلاش و جستجو ہے دوستو
آئینہ خانے میں کیا رکھا ہے حیرت کے سوا
جو نظر آتا ہے ۔ عکسِ آرزو ہے دوستو
کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیا کرتے ہیں لوگ
خامشی بھی ایک طرزِ گفتگو ہے ۔۔۔ دوستو

ترا حسن بھی بہانہ مرا عشق بھی بہانہ

تِرا حسن بھی بہانہ مِرا عشق بھی بہانہ
یہ لطیف استعارے نہ سمجھ سکا زمانہ
میں نثار دستِ نازک جو اٹھائے نازِ شانہ
کہ سنور گئیں یہ زلفیں، تو سنور گیا زمانہ
تِری زندگی تبسم، مِری زندگی تلاطم
مِری زندگی حقیقت، تِری زندگی فسانہ

میں صدقے تجھ پہ ادا تیرے مسکرانے کی

میں صدقے تجھ پہ ادا تیرے مسکرانے کی
سمیٹے لیتی ہے۔۔ رنگینیاں زمانے کی
جو ضبطِ شوق نے باندھا طلسمِ خود داری
شکایت آپ کی روٹھی ہوئی ادا نے کی
کچھ اور جرأت دستِ ہوس بڑھاتی ہے
وہ برہمی جو ہو تمہید مسکرانے کی

بہت مشکل ہے پاس لذت درد جگر کرنا

بہت مشکل ہے۔۔ پاسِ لذتِ دردِ جگر کرنا
کسی سے عشق کرنا اور وہ بھی عمر بھر کرنا
سرِ محفل ۔۔ تِرا وہ پُرسشِ زخمِ جگر کرنا
مِری جانب بمشکل اک نظر کرنا ۔ مگر کرنا
مسلم ہو گئی ہے بے اختیاری ۔۔۔ جذبِ باطن کی
محبت اس سے سے کرنا جس سے نفرت اس قدر کرنا

ہم نے دیکھا ہے اجالے سے اندھیرا ہونا

ہم نے دیکھا ہے اجالے سے اندھیرا ہونا
آنکھ رکھ کر ہمیں آتا نہیں اندھا ہونا
وہ کسی اور کا کیا ہو گا، جو اپنا نہ ہوا
پہلے اے عشق! سکھا دے ہمیں اپنا ہونا
اے تجلی ہے نگاہوں کی رعایت تِرا فرض
اے تجلی! تجھے زیبا نہیں ۔۔ پردا ہونا

حوصلہ دل کا نکل جانے دے

حوصلہ دل کا ۔۔ نکل جانے دے
مجھ کو جلنے دے، پگھل جانے دے
آنچ پھولوں پہ نہ آنے دے، مگر
خس و خاشاک کو جل جانے دے
مدتوں بعد ۔۔۔ صبا آئی ہے
موسمِ دل کو بدل جانے دے

بجھنے کے بعد جلنا گوارا نہیں کیا

بجھنے کے بعد جلنا گوارا نہیں کیا
ہم نے کوئی بھی کام دوبارا نہیں کیا
اچھا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے یہ
دنیا نے کیوں خیال ہمارا نہیں کیا؟
جینے کی لت پڑی نہیں شاید اسی لیے
جھوٹی تسلیوں پہ ۔۔ گزارا نہیں کیا

کیا ارادہ تجھے بارہا بھلانے کا

کِیا ارادہ تجھے بارہا ۔۔ بھلانے کا
ملا نہ عذر ہی کوئی مگر ٹھکانے کا
یہ کیسی اجنبی دستک تھی کیسی آہٹ تھی
تِرے سوا تھا کسے حق مجھے جگانے کا
یہ آنکھ ہے کہ نہیں دیکھا کچھ سوا تیرے
یہ دل عجب ہے کہ غم ہے اسے زمانے کا

محفل میں بہت لوگ تھے میں تنہا گیا تھا

محفل میں بہت لوگ تھے میں تنہا گیا تھا
ہاں تجھ کو وہاں دیکھ کر کچھ ڈر سا لگا تھا
یہ حادثہ کس وقت، کہاں، کیسے ہوا تھا
پیاسوں کے تعاقب میں سنا دریا گیا تھا
آنکھیں ہیں کہ بس روزنِ دیوار ہوئی ہیں
اس طرح تجھے پہلے کبھی دیکھا گیا تھا

Sunday, 17 January 2016

لو آج کی شب بھی سو چکے ہم

لو آج کی شب بھی سو چکے ہم

شامِ جدائی پھر لوٹ آئی سوئے ہوئے فتنوں کو جگایا
اک بے نام کسک کے ہاتھوں، بات بات پہ دل بھر آیا
آج بھی شاید ساتھ تمہارا منزل تک دینا ہے ستارو
پہلے بھی ہم نے اکثر تم کو صبح کی وادی تک پہنچایا
آنکھ مچولی کھیلا کریں گے کب تک یہ راتوں کے دھندلکے
چاپ چاپ پر دل پوچھے گا، یہ کون آیا ۔ یہ کون آیا

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے
ہم اہلِ محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہلِ محبت کو ۔۔ آزارِ جوانی ہے 
یاں چاند کے داغوں کو سینے میں دباتے ہیں
دنیا کہے دیوانہ ۔۔ یہ دنیا دیوانی ہے

ہم نے نہ کہا تھا کہ وہ کیا کیا نہ کریں گے

ہم نے نہ کہا تھا کہ وہ کیا کیا نہ کریں گے
ہاں صبر کی کہتے ہو تو انشاؔ نہ کریں گے
بڑھ جائے گا ۔۔ آزارِ محبت ہے یہ لوگو
وہ ایک نظر دیکھ کے اچھا نہ کریں گے
ان سے یہ کہو ایسے دیوانوں سے نہ الجھیں
سن لیں گے ۔ مگر آپ کا کہنا نہ کریں گے

مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا

مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے گا
بس یہی نہ درد کچھ دل کا سوا ہو جائے گا
وہ مِرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں
دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے گا
گھر سے کچھ خوابوں سے ملنے کیلیے نکلے تھے ہم
کیا خبر تھی ۔۔ زندگی سے سامنا ہو جائے گا

زندگی سے ایک دن موسم خفا ہو جائیں گے

زندگی سے ایک دن موسم خفا ہو جائیں گے
رنگ گل اور بوئے گل دونوں ہوا ہو جائیں گے
آنکھ سے آنسو نکل جائیں گے اور ٹہنی سے پھول
وقت بدلے گا ۔۔ تو سب قیدی رہا ہو جائیں گے
پھول سے خوشبو بچھڑ جائے گی سورج سے کرن
سال سے دن وقت سے لمحے جدا ہو جائیں گے

دنیا میں سراغ رہ دنیا نہیں ملتا

دنیا میں سراغِ رہِ دنیا نہیں ملتا
دریا میں اتر جائیں تو دریا نہیں ملتا
باقی تو مکمل ہے تمنا کی عمارت
اک گزرے ہوئے وقت کا شیشہ نہیں ملتا
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا

چھن گئی تیری تمنا بھی تمنائی سے

چھن گئی تیری تمنا بھی تمنائی سے
دل بہلتے ہیں کہیں حوصلہ افزائی سے
کیسا روشن تھا تِرا نیند میں ڈوبا چہرہ
جیسے ابھرا ہو کسی خواب کی گہرائی سے
وہی آشفتہ مزاجی وہی خوشیاں وہی غم
عشق کا کام لیا ہم نے شناسائی سے

اکیلے پن کی اذیتوں کو شمار کرنا بھی سیکھ لو گے

اکیلے پن کی اذیتوں کو شمار کرنا بھی سیکھ لو گے
کرو گے الفت تو روز جینا یہ روز مرنا بھی سیکھ لو گے 
کوئی ارادہ، ابھی تخیل میں پھول بن کے مہک رہا ہے 
جب آسماں نے مزاج بدلا تو پھر بکھرنا بھی سیکھ لو گے 
محبتوں کے یہ سارے رستے ہی سہل لگتے ہیں ابتدأ میں 
تم آج چل تو رہے ہو لیکن کہیں ٹھہرنا بھی سیکھ لو گے 

آنکھوں میں کہیں عکس تمہارا نہیں کوئی

آنکھوں میں کہیں عکس تمہارا نہیں کوئی 
آنسو ہیں بہت ۔ اور ستارا نہیں کوئی 
مدت ہوئی اک بار بھی دیکھا نہیں تجھ کو 
اور تیرے سوا دن بھی گزرا نہیں کوئی 
کہتے ہیں سبھی لوگ کہ پیاری ہے یہ دنیا 
دنیا میں مگر آپ سے پیارا نہیں کوئی 

اب کے محبتوں میں یہ کیا معجزے ہوئے

اب کے محبتوں میں یہ کیا معجزے ہوئے
ہم خود کو سوچتے ہیں تجھے سوچتے ہوئے 
اک بار تجھ کو سوچا سرِ شام اور پھر 
اک اور رات بیت گئی ۔۔ جاگتے ہوئے 
ہم منزلِ عدم کے اندھیروں میں کھو گئے 
جب سے الگ تمہارے مِرے راستے ہوئے 

منزل قریب آئے کوئی راستہ ملے

منزل قریب آئے کوئی راستہ ملے 
دشتِ جنوں میں ساتھ اگر آپ کا ملے 
ہم نے تو آپ کو مانگا ہے آپ سے 
لوگوں کو جو ملے وہ بنامِ خدا ملے 
اس بار وصلِ یار بھی مرنے کے بعد ہو 
اس بار ہم کو جرم سے پہلے سزا ملے 

نہ شوالے نہ کلیسا نہ حرم جھوٹے ہیں

نہ شوالے، نہ کلیسا، نہ حرم جھوٹے ہیں
بس یہی سچ ہے کے تم جھوٹے ہو ہم جھوٹے ہیں
ہم نے دیکھا ہی نہیں بولتے ان کو اب تک
کون کہتا ہے کے پتھر کے صنم جھوٹے ہیں
ان سے ملیے تو خوشی ہوتی ہے ان سے مل کر
شہر کے دوسرے لوگوں سے جو کم جھوٹے ہیں

جو شاخ ٹوٹتی ہے لچکتی ضرور ہے

جو شاخ ٹوٹتی ہے، لچکتی ضرور ہے
بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے
ہوتا ہے جس کو دعویٰ کسی کی تلاش کا
کہتے ہیں وہ نگاہ، ۔ بھٹکتی ضرور ہے
جو جام چھو لیا ہو کسی بے شعور نے
اس جام سے شراب چھلکتی ضرور ہے

بے بسی جرم ہے حوصلہ جرم ہے

بے بسی جرم ہے، حوصلہ جرم ہے 
زندگی! تیری اک اک ادا جرم ہے 
اے صنم! تیرے بارے میں کچھ سوچ کر 
اپنے بارے میں ‌کچھ سوچنا جرم ہے 
یاد رکھنا تجھے، میرا ایک جرم تھا 
بھول جانا تجھے، دوسرا جرم ہے 

دیکھا تو میرا سایہ بھی مجھ سے جدا ملا

دیکھا تو میرا سایہ بھی مجھ سے جدا ملا
سوچا تو ہر کسی سے میرا سلسلہ ملا
شعرِ وفا میں اب کسے اہلِ وفا کہیں
ہم سے گلے ملا تو وہی بے وفا ملا
فرصت کسے تھی جو میرے حالات پوچھتا
ہر شخص اپنے بارے میں کچھ سوچتا ملا

مہکی ہیں فضائیں کس کے لیے چھائی ہیں گھٹائیں کس کے لیے

مہکی ہیں فضائیں کس کے لیے چھائی ہیں گھٹائیں کس کے لیے
مے خانے میں جب ساقی ہی نہیں میخانے میں جائیں کس کے لیے
جب مجھ سے نگاہیں ملتے ہی تم آج خفا ہو بیٹھے ہو
پھر یہ تو بتاؤ کل تم نے مانگی تھی دعائیں کس کے لیے
وہ رسمِ خرد کے دیوانے ۔۔ ہر طرزِ جنوں کے شیدائی
وہ ہوش گنوائیں کس کے لیے، ہم ہوش میں آئیں کس کے لیے

دیوانگی نے خوب کرشمے دکھائے ہیں

دیوانگی نے خوب کرشمے دکھائے ہیں
اکثر تِرے بغیر بھی ہم مسکرائے ہیں
اب اے غمِ زمانہ! تِرا کیا خیال ہے
ہم اپنے ساتھ لے کے غمِ عشق آئے ہیں
میخانے کی طرف جو بڑھے ہیں تو ہوشیار
کعبہ کا رخ کیا ہے تو ہم ڈگمگائے ہیں

یہ بھی اک دستور ہے شاید پرانا آپ کا

یہ بھی اک دستور ہے شاید پرانا آپ کا
آتے آتے راستے سے لوٹ جانا آپ کا

آپ اپنی اک جگہ کوئی مقرر کیجیے
ہم سے اب ڈھونڈا نہیں جاتا ٹھکانا آپ کا
آتے آتے راستے سے لوٹ جانا آپ کا

Saturday, 16 January 2016

حد نگاہ تک یہ زمیں ہے سیاہ پھر

حدِ نگاہ تک یہ زمیں ہے سیاہ پھر
نکلی ہے جگنوؤں کی بھٹکتی سپاہ پھر
ہونٹوں پہ آ رہا ہے ، کوئی نام بار بار
سناٹوں کے طلسم کو توڑے گی آہ پھر 
پچھلے سفر کی گرد کو دامن سے جھاڑ دو
آواز دے رہی ہے ۔۔ کوئی سُونی راہ پھر

اب تجھے بھی بھولنا ہو گا مجھے معلوم ہے

اب تجھے بھی بھولنا ہو گا مجھے معلوم ہے
بعد اس کے اور کیا ہو گا مجھے معلوم ہے
نیند آئے گی، نہ خواب آئیں گے ہجراں رات میں
جاگنا، بس جاگنا ہو گا ۔۔ مجھے معلوم ہے 
اک مکاں ہو گا، مکیں ہو گا نہ کوئی منتظر
صرف دروازہ کھلا ہو گا مجھے معلوم ہے

خون میں لت پت ہو گئے سائے بھی اشجار کے

خون میں لت پت ہو گئے سائے بھی اشجار کے
کتنے گہرے وار تھے،خوشبو کی تلوار کے
اک لمبی چپ کے سوا، بستی میں کیا رہ گیا
کب سے ہم پر بند ہیں دروازے اظہار کے 
آؤ! اٹھو، کچھ کریں، صحرا کی جانب چلیں
بیٹھے بیٹھے تھک گئے سائے میں دلدار کے

قصہ مرے جنوں کا بہت یاد آئے گا

قصہ مِرے جنوں کا بہت یاد آئے گا
جب جب کوئی چراغ ہوا میں جلائے گا
راتوں کو جاگتے ہیں، اسی واسطے کہ خواب
دیکھےگا بند آنکھیں تو پھر لوٹ جائے گا 
کب سے بچا کے رکھی ہے اک بوند اوس کی
کس روز تو وفا کو مِری آزمائے گا

پی کر شراب عشق جو سرشار ہو گئے

پی کر شرابِ عشق جو سرشار ہو گئے
بارِ غمِ جہاں سے سُبک سار ہو گئے
لب آشنا جو خواہشِ دیدار ہو گئی
پہلے سے بھی زیادہ وہ خوددار ہو گئے
راہِ طلب میں حدِ ادب سدِ راہ تھی
آگے قدم بڑھانے سے ناچار ہو گئے

جس قدر شکوے تھے سب حرف دعا ہونے لگے

جس قدر شکوے تھے، سب حرفِ دعا ہونے لگے
ہم کسی کی آرزو میں، ‌کیا سے کیا ہونے لگے
بے کسی نے، بے زبانی کو زباں کیا بخش دی
جو نہ کہہ سکتے تھے، اشکوں سے ادا ہونے لگے
ہم زمانہ کی سخن فہمی کا شکوہ کیا کریں
جب ذرا سی بات پر تم بھی خفا ہونے لگے

میرا جانا نہ ہوا آپ کا آنا نہ ہوا

میرا جانا نہ ہوا،۔ آپ کا آنا نہ ہوا
بات اتنی تھی مگر اس پہ یہ افسانہ ہوا
جان دینے میں مجھے عذر نہیں ہے لیکن
ہاں! اگر پھر بھی مِرے غم کا مداوا نہ ہوا
گِر گیا ہو گا لہو آنکھ سے انجانے میں
ورنہ کب ہم کو تِرا درد گوارا نہ ہوا