اک شخص آئینے میں اترتا ہوا سا ہو
معشوق ایسا ڈھونڈیے قحط الرجال میں
ہر بات میں اگرتا مگرتا ہوا سا ہو
قیلولہ کر رہے ہوں کسی نیم کے تلے
میداں میں رخشِ عمر بھی چرتا ہوا سا ہو
حیا و شرم سے چپ چاپ کب وہ آ کے چلے
اگر چلے تو مجھے سیدھیاں سنا کے چلے
وہ شاد شاد دمِ صبح مسکرا کے چلے
ستم تو یہ ہے کہ مجھ کو گلے لگا کے چلے
یہ چال ہے کہ قیامت ہے اے بُتِ کافر
خدا کرے کہ یوں ہی سامنے خدا کے چلے
کہو جب تم کہ ہے بیمار میرا
تو کیوں کر دور ہو آزار میرا
بُرائی میں بھی ہو گا کوئی مطلب
وہ کرتے ذکر کیوں بیکار میرا
مجھے کوسیں، بلا سے گالیاں دیں
مگر وہ نام لیں ہر بار میرا
قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں
ساقی! ہزار شکر خدا کی جناب میں
جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں
سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں
دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں
محشر کے دن بٹھائے گئے آفتاب میں
کنارِ جُو جو انہیں خواہشِ شراب ہوئی
تو سرو سیخ ہوا،۔ فاختہ کباب ہوئی
عیاں جو یار کے دانتوں کی آب و تاب ہوئی
غریقِ سیلِ فنا موتیوں کی آب ہوئی
فراقِ یار میں چشم اس قدر پُر آب ہوئی
طنابِ عمر ہماری رگِ سحاب ہوئی
یا رب ہمیں دے عشقِ صنم اور زیادہ
کچھ تجھ سے نہیں مانگتے ہم اور زیادہ
دل لے کے نہ کچھ مانگ صنم اور زیادہ
مقدور نہیں تیری قسم اور زیادہ
ہستی سے ہوئی فکرِ عدم اور زیادہ
غم اور زیادہ ہے، الم اور زیادہ
میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا
ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا
ہم نشیں، کیجیو تقریب تو شب باشی کی
آج کر نشے کا حیلہ میں مچل جاؤں گا
دل مِرے ضعف پہ کیا رحم تُو کھاتا ہے کہ میں
جان سے اب کے بچا ہوں تو سنبھل جاؤں گا
دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں
یہ تو بیمار سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں
آپ کا زور مِرے دل پہ نہ کیونکر چلتا
کیا مِرا حب کا عمل تھا کہ جو چلتا ہی نہیں
چمنِ دہر میں یہ عاشقِ ناکام تِرا
وہ شجر ہے کہ کبھی پھولتا پھلتا ہی نہیں
دل جگر سب آبلوں سے بھر چلے
مر چلے اے سوزِ فرقت! مر چلے
کہتی ہے رگ رگ ہماری حلق سے
دم میں دم جب تک رہے خنجر چلے
راہ ہے دشوار و منزل دور تر
پا شکستہ کیا کرے، کیونکر چلے
آنکھ میں بے کراں ملال کی شام
دیکھنا، عشق کے زوال کی شام
میری قسمت ہے تیرے ہجر کا دن
میری حسرت تیرے وصال کی شام
دہکی دہکی تیرے جمال کی صُبح
مہکی مہکی میرے خیال کی شام