Friday, 31 May 2024

تیرے قربان پیارے محمد گر رہا ہوں مجھے بھی سنبھالو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تیرے قربان پیارے محمدﷺ گر رہا ہوں مجھے بھی سنبھالو

اپنے پیارے نواسوں کا صدقہ یا نبیﷺ میری جھولی میں ڈالو

کوئی اپنا نہیں روزِ محشر ہے یہاں نفسا نفسی کا عالم

ہم گناہ گار ہیں یا محمدﷺ اپنی کملی میں ہم کو چھپا لو

نور سے نور ملنے چلا ہے مصطفیٰﷺ سے خدا کہہ رہا ہے

یہ ہے معراج کی رات پیارے اپنے چہرے سے پردہ ہٹا لو

حب احمد سے آیا قرینے میں دل

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حُبِ احمدﷺ سے آیا قرینے میں دل 

اب ہے دل میں مدینہ، مدینے میں دل 

دل کی قیمت بڑھانے کو رکھوا دیا 

میں نے عشقِ نبیؐ کے خزینے میں دل

قافلہ طیبہ جاتا ہوا دیکھا تھا 

اب نہیں مل رہا میرے سینے میں دل 

وہ ہر درد و غم سے کنارا کریں گے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ ہر درد و غم سے کنارا کریں گے

جو میرے نبیﷺ کو پکارا کریں گے

ہے جن کے دلوں میں محبت تمہاری

وہی ذکر آقاﷺ تمہارا کریں گے

اجازت اگر دیں ہمیں مصطفیٰﷺ تو

مدینے کا ہم بھی نظارا کریں گے

مرے شعور کی رعنائی ہیں جناب علی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مِرے شعور کی رعنائی ہیں جنابِ علیؑ

پڑھایا مجھ کو اب وجد نے ہے نصابِ علیؑ

مقامِ حیدر کرارؑ پوچھیے مت، جب

مقامِ اوج پہ ٹھہرے ہیں فیضیابِ علیؑ

علیؑ امامتِ شیخین اور غنی میں رہے 

قسم خدا کی وہ تینوں تھے انتخابِ علیؑ

پہلے تو کر لے یقیں محکم خدائے پاک پر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 پہلے تو کر لے یقیں محکم خدائے پاک پر

کامیابی کے لیے پھر رکھ نظر افلاک پر

شُکر کرتے ہیں خدا کا لوگ جو ہر حال میں 

نیند کر لیتے ہیں پوری وہ خس و خاشاک پر

آئینۂ دل میں رکھتا ہوں خیالِ یار کو

سوچ کا محور گھماتا ہوں میں جب بھی چاک پر

Thursday, 30 May 2024

نہ تو درد ہے نہ دوا رہی

 نہ تو درد ہے، نہ دوا رہی

نہ وفا رہی، نہ جفا رہی

کوئی دل سے کھیلے تو کس طرح

نہ وہ حسن ہے، نہ ادا رہی

نہ وہ مجنوں ہے نہ وہ لیلیٰ ہے

کہاں عشق میں وہ سزا رہی

بازار جہالت میں سخن بیچ رہا ہوں

 بازارِ جہالت میں سخن بیچ رہا ہوں

یہ گیت، یہ نغمات یہ فن بیچ رہا ہوں

ہے کوئی خریدار تو آواز لگائے؟

روٹی کے عوِض شعر و سخن بیچ رہا ہوں

کیا دام لگاتے ہو چلو تم ہی بتاؤ؟

سچائی کا انمول رتن بیچ رہا ہوں

دل مرا بے قرار آج بھی ہے

 آپ کا انتظار آج بھی ہے

دل مرا بے قرار آج بھی ہے

جب سے دیکھا ہے اک نظر تم کو

اس کا چھایا خمار آج بھی ہے

دوست تو بن گیا ہے وہ لیکن

نفرتوں کا غبار آج بھی ہے

گلی سے وہ گزرا ہے خوشبو لگا کے

 گلی سے وہ گزرا ہے خوشبو لگا کے

بتاتے رہے مجھ کو جھونکے ہوا کے

رلا کر ہنسایا، ہنسا کر رلایا

برابر وہ بچپن کی باتیں سنا کے

عجب ہے کہ اب بھی ہے محفل کا حصہ

وہ عاشق مزاجوں پہ انگلی اٹھا کے

چین پاؤں گا بس یہیں پر میں

 چین پاؤں گا بس یہیں پر میں

ہونٹ رکھوں تِری جبیں پر میں

اس کے جیسا کوئی مِلا کب تھا

کیسے مرتا نہ اُس حسیں پر میں

ایک دن لوٹ کے وہ آئے گا

جی رہا ہوں اِسی یقیں پر میں

افق کے اس پار ڈوبتا ہے جہاں پہ سورج

 نِروان


اُفق کے اُس پار

ڈُوبتا ہے جہاں پہ سُورج

وہیں کہیں بے حسی کے ارفع محل میں 

قسمت ہماری خوابیدہ سو رہی ہے

نجانے کب سے وہ منتظر ہے

کہ جیسے شہزادہ کوئی آ کر 

یہ دلکش مدینہ یہ پیارا مدینہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ دل کش مدینہ یہ پیارا مدینہ

ہے دنیا کی آنکھوں کا تارا مدینہ

ہے بے آسروں کا سہارا مدینہ

امیدوں کا مرکز ہمارا مدینہ

نہ جائے مرے ہاتھ سے باغ جنت

جو مل جائے تیرا سہارا مدینہ

جب ختم ہوئی تیرگی ایمان کی لو سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب ختم ہوئی تیرگی ایمان کی لو سے 

آسودہ ہوئے، سب تیرے فرمان کی لو سے

پیغام تیراﷺ علم و صداقت کا اُجالا 

توحید کا چرچا تیرے اعلان کی لو سے 

آقائے رسلﷺ آپ کی آمد کا کرشمہ 

تہذیب منور ہوئی انسان کی لو سے 

قد موزون حضرت میں ہے جلوہ کس قیامت کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


قدِ موزونِ حضرت میں ہے جلوہ کس قیامت کا

فرشتوں کو یہاں دعویٰ نہیں ہے استقامت کا

ہوا ہے شور عالم میں بپا کس کی ملاحت کا

کہ قصہ بے نمک ہے یوسفِ مصری کی صورت کا

تڑپ جاتا ہے دل پہلو میں یاد آتا ہے جب روضہ

مدینے کی جدائی سامنا ہے مجھ کو آفت کا

توصیف تیری خامہ جدت سے لکھوں گا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


توصیف تیری خامۂ جدت سے لکھوں گا

میں تیرا سراپا نئی صورت سے لکھوں گا

ہے ذات تریﷺ علمِ الٰہی کا مدینہ

اس شہر کو میں بابِ فضیلت سے لکھوں گا

اُجلا ہے فرشتوں سے ترے نور کا پیکر

اس منظرِ مہتاب کو حیرت سے لکھوں گا

نعت سرکار کہاں اور کہاں میں بیکار

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نعتِ سرکارﷺ کہاں اور کہاں میں بیکار

شعر گوئی ہے مری اُنؐ کے کرم کا اظہار

زیب دیتی ہے جہاں بانی انہیں قوموں کو

آپﷺ جیسا ہو جن اقوام کا میر و سردار

جب سے دیکھا ہے وہ خورشیدِ نبوت مَیں نے

تب سے رہتا ہے مرا بخت ہمیشہ بیدار

فیصلے کی اس گھڑی کا التوا اچھا لگا

 فیصلے کی اس گھڑی کا التوا اچھا لگا

ایک رشتہ ٹوٹنے سے بچ گیا، اچھا لگا

جان من، جان وفا خط میں لکھا اچھا لگا

دور سے اس نے مجھے اپنا کہا، اچھا لگا

میں نے غم کی دھن بھی چھیڑی اور خوشی کا راگ بھی

تم بتاؤ گیت میرا کون سا اچھا لگا؟

Wednesday, 29 May 2024

میں اپنی سمت کیا دیکھوں

 میں اپنی سمت کیا دیکھوں؟


میں اپنی سمت کیا دیکھوں 

کہ بے تصویر کی کوٸی شباہت بن نہیں سکتی 

بدن کے کھوکھلے پن کو زباں دینے سے کیا ہو گا

کہ خالی حرف پانی پر ہوا کا بُلبلا ٹھہرے 

ابھی اندر سے باہر تک

ہوا کا شور رقصاں ہے

کتنی مشکل سے اکیلے وقت گھر کاٹا گیا

 کتنی مشکل سے اکیلے وقت گھر کاٹا گیا

وقت کو دیوار و در کو دیکھ کر کاٹا گیا

یہ گُماں ہوتا رہا، وہ آنے والا ہے ابھی

سارا دن اس آس میں دہلیز پر کاٹا گیا

چُلبلاتے تھے پرندے گھونسلوں کو دیکھ کر

گھر بنانے کے لیے جس دم شجر کاٹا گیا

وہ ناز التفات و عنایت نہیں رہی

 وہ نازِ التفات و عنایت نہیں رہی

دنیا میں اب کسی سے محبت نہیں رہی

چہرہ شناسی عدسے کی محتاج کیوں نہ ہو

سچ بولنے کی ہم کو جو عادت نہیں رہی

یہ کتنے دکھ کی بات ہے تم کو نہیں پتا

اب مجھ کو میرے دل سے شکایت نہیں رہی

سنا ہے غم کی جھیلوں پر پرندے اب نہیں آتے

 سُنا ہے غم کی جھیلوں پر پرندے اب نہیں آتے

بہت اُجڑی فصیلوں پر پرندے اب نہیں آتے

مُنافق ہوں جو اندر سے سخاوت بھی دکھاتے ہوں 

سنا ایسی سبیلوں ہر پرندے اب نہیں آتے

جہاں اک بار ہو جائے اگر دھوکا کبھی ان سے 

سنا ہے پھر اپیلوں پر پرندے اب نہیں آتے

مرے ہجر کا تُو علاج کر کوئی حل بتا مرے سائیاں

 مرے ہجر کا تُو علاج کر کوئی حل بتا مرے سائیاں

مِرے درد کو مرے کرب کو تُو پرے ہٹا مِرے سائیاں

مجھے دیکھ جا مِرے چارہ گر میں تِری نظر کا شکار ہوں

کہاں کیوں ہوا کہاں کیا ہوا نہ مجھے سنا مِرے سائیاں

زرا ہاتھ رکھ کے تو ہاتھ پر مِری دھڑکنوں کو قرار دے

مجھے ریزہ ریزہ سمیٹ کر تُو گلے لگا مِرے سائیاں

تپش سے بھری دیواریں

 تپش سے بھری دیواریں


جی چاہتا ہے تپش سے بھری

دیوار کے سائے میں لیٹی بلی کو ایک واقعہ سناؤں

ان دنوں کا واقعہ جب کہانی

دلبرداشتہ ہو کر منڈیر سے باہر نہیں کُودتی تھی

کہانی گھاس کے اس تنکے سے

بھی ہمکلام ہوتی تھی جو انجانے

آپ فرزانہ جہان عشق میں دیوانہ ہم

 آپ فرزانہ، جہانِ عشق میں دیوانہ ہم

گُلشنِ ایجاد کو بھی سمجھے ہیں ویرانہ ہم

عالمِ دیوانگی بھی دو ورق ہے زیست کا

صبح کو جاتے تھے مسجد، شام کو میخانہ ہم

اس طرح لکھے تو بے شک ہو وہ کوئی داستاں

آپ ہوں گے اس کے عُنواں جس کے ہیں افسانہ ہم

اس لیے دربار تک آنے میں کچھ تاخیر کی

 اس لیے دربار تک آنے میں کچھ تاخیر کی

جان نکلی جا رہی تھی پاؤں میں زنجیر کی

اس جگہ پر بددعائیں دفن ہیں زیرِ زمیں

جس جگہ پر سانس رکتی ہے تری جاگیر کی

مار ڈالوں گا تری گریہ و زاری کی قسم

اے مرے یوسف بتا کس نے تری تحقیر کی؟

غربت اس کے دیس میں بھوکے سوئیں لوگ

 دوہا


غربت اس کے دیس میں بھوکے سوئیں لوگ

جنتا جائے بھاڑ میں، نیتا کے گھر بھوگ


طاہر سعید ہارون

کتوں کی فوڈ اسٹریٹ

 کتوں کی فوڈ اسٹریٹ

آج اتوار نہیں ہے

پھر بھی خالی جگہ اک پل میں پُر ہو جاتی ہے

چار اُٹھتے ہیں

دس آ جاتے ہیں

آج ہی کیوں ہم گھر سے نکلے

لسی، مکھن، ساگ، اچار، چاول، روٹی

چمن میں لائی ہے پھولوں کی آرزو تجھ کو

 بلبل


چمن میں لائی ہے پھولوں کی آرزو تجھ کو 

ملا کہاں سے یہ احساس رنگ و بو تجھ کو 

تری طرح کوئی سرگشتۂ جمال نہیں 

گلوں میں محو ہے کانٹوں کا کچھ خیال نہیں 

خزاں کا خوف نہ ہے باغباں کا ڈر تجھ کو 

مآل کار کا بھی کچھ خطر نہیں تجھ کو 

آپ پر جو نثار ہو جائے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آپ پر جو نثار ہو جائے

دہر میں با وقار ہو جائے

مجھ سے دیوانِ نعتِ پاک رقم

کم سے کم تین چار ہو جائے

نقشِ پا پر لٹاؤں ماہ و نجوم

کاش یہ اختیار ہو جائے

Tuesday, 28 May 2024

قلب کی التجا مدینہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


قلب کی التجا مدینہ ہے

مقصدِ ہر دُعا مدینہ ہے

ذرہ ذرہ وہاں کا ہے گلشن

ہاں عجب پر فضا مدینہ ہے

کون ہے جو نہیں وہاں کا غلام

دہر کا آسرا مدینہ ہے

ہر مرض کی دوا درود شریف

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر مرض کی دوا درود شریف

دافعِ ہر بلا درودﷺ شریف

وِرد جس نے کِیا درود شریف

اور دل سے پڑھا درود شریف

حاجتیں سب روا ہوئیں اُس کی

ہے عجب کیمیا درود شریف

سید انس و جاں کا کرم ہو گیا

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سیدِ انس و جاںﷺ کا کرم ہو گیا

دور سر سے میرے بارِ غم ہو گیا

میں کہ تھا منتشر جادۂ زیست پر

آپؐ کی اک نگہ سے بہم ہو گیا

وہ تبسم فشاں لب جو یاد آ گئے

مندمل زخمِ تیغِ الم ہو گیا

نبی جی کو اک نعت سوغات دینے کا وعدہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

نعت سوغات


بہت دن سے میں نے

بدن کو کھجور اور پانی سوا

سب کے سب ذائقوں سے

بہت دور رکھا ہوا تھا

خیالوں کو غار حرا کے اجالوں میں

رہنے کی تاکید کی تھی 

میں درد ہوں ہزار میرے رنگ روپ ہیں

 میں درد ہوں ہزار میرے رنگ روپ ہیں

زخمِ جگر میں ہوں، میں کبھی چشمِ میں ہوں

کہنے کو ساحلوں کو مناظر ہیں سامنے

میں پھر بھی اپنی سوچ کے اندھے بھنور میں ہوں

مجھ کو مسافتوں کی تھکن زیر کر نہ جائے

شب کا سفر ہے، اور تلاشِ سحر میں ہوں

یہ بہاروں میں چمن کی داستاں ہو جائے گا

 یہ بہاروں میں چمن کی داستاں ہو جائے گا

غنچہ معصوم کانٹوں میں جواں ہو جائے گا

خار میری حسرتوں کے آپ کے جلووں کے پھول

یہ بہم ہو جائیں تو، اک گلستاں ہو جائے گا

آپ بھی روشن رکھیں اپنی محبت کے چراغ

یہ دِیے گل ہو گئے تو پھر دھواں ہو جائے گا

پرائے پن کا ہے اب تک پڑاؤ لہجے میں

 پرائے پن کا ہے اب تک پڑاؤ لہجے میں

کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ، لگاؤ لہجے میں

یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تم نے

عیاں ہے صاف کسی کا دباؤ لہجے میں

عد م توجہی گویا، مِری کھلی اُس کو

تبھی در آیا ہے اتنا تناؤ لہجے میں

جہاں تک میری آواز نہیں پہنچ سکتی

 میرے خواب


جہاں تک میری آواز نہیں پہنچ سکتی

میرے خواب وہاں تک چلے جاتے ہیں

جہاں میرے قدم تھک جاتے ہیں

وہاں میرے خواب آگے چلنا شروع کر دیتے ہیں

جب تم میری رسائی سے دور ہو جاتی ہو

میرے خواب تمہیں طھو آتے ہیں

یہ کار ریاضت بھی ہے خاموش تلاوت

 یہ کارِ ریاضت بھی ہے خاموش تلاوت

خاموش محبت بھی ہے خاموش تلاوت

اس دل کا کوئی زخم اِدھر سے نہ اُدھر ہو

احساسِ امانت بھی ہے خاموش تلاوت 

خاموش صحیفوں کی طرح اس کی ہے قامت 

آیات سی صورت بھی ہے خاموش تلاوت

جان و ایماں سے بڑھ کے پیارا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جان و ایماں سے بڑھ کے پیارا ہے

اُنﷺ کا غم شوق کا سنوارا ہے

مہر و مہ حشر تک کریں گے طواف

چشمِ سرکارﷺ کا اشارا ہے

ہاتھ پھیلانے کی نہیں حاجت

کیسے داتا کا یہ دوارا ہے

قبولیت کا یہی طریقہ نکالنا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


قبولیت کا یہی طریقہ نکالنا ہے

مجھے مدینے کی سمت رستا نکالنا ہے

درود پڑھ کر تمام کرنا ہے تیرگی کو

درونِ دشتِ غبار، دریا نکالنا ہے

بسا کے رکھنا ہے دل میں ان کی محبتوں کو

سوائے عشقِ رسولﷺ جو تھا، نکالنا ہے

ثنائے مصطفیٰ لکھنے سے پہلے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ثنائے مصطفیٰﷺ لکھنے سے پہلے

کرو سجدہ ادا لکھنے سے پہلے

اس آئینے میں عکسِ کبریا ہے

سنبھل کر دیکھنا لکھنے سے پہلے

نمازِ عشق ہے ذکرِ محمدﷺ

وضو کر لو ذرا لکھنے سے پہلے

کبھی رنج آئے نہ آلام آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کبھی رنج آئے نہ آلام آئے

جہاں مصطفیٰﷺ کا یہ انعام آئے

تمنا تھی یارب مِرے گھر بھی اک دن

یہ اک مُوئے زُلفِ سیہ فام آئے

مِرے گھر کے دیوار و در آج مہکے

مِرے اشک آخر مِرے کام آئے

آنکھوں سے کفر و جہل کی عینک اتار دیکھ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آنکھوں سے کفر و جہل کی عینک اُتار دیکھ

ہر شے میں کار سازیِ پروردگار دیکھ

کس کے اشارے پر یہ دھڑکتا ہے تیرا دل

کس کا ہے جسم و جاں پہ ترے اختیار دیکھ

کس نے بچھائی فرشِ زمیں دیکھ اے نگاہ

کس نے اُگائے اتنے حسیں کوہسار دیکھ

Monday, 27 May 2024

محبت اک پرندہ ہے اسے کیوں قید رکھتے ہو

 سنو جاناں


محبت اک پرندہ ہے

اسے کیوں قید رکھتے ہو

اسے آزاد کر دو تم

جہاں بھی گھوم کر آئے

محبت کی طبیعت میں نہیں

 ہوتی ہے من مانی

جس کو جانا کل اپنا سایا تھا

 جس کو جانا کل اپنا سایا تھا

وہ ہی اپنا میرا، پرایا تھا

ہم یہ سمجھے وہ لوٹ آیا ہے

در ہواؤں نے کھٹکھٹایا تھا

تُو جب آیا تھا پاس کے گاؤں

مجھ کو خوشبو نے آ بسایا تھا

حسین دنیا اجڑ گئی تو

 حسین دنیا اجڑ گئی تو؟


حسین دنیا اجڑ گئی تو اگر کہیں یہ بگڑ گئی تو

گماں سے آگے نکل گئی تو گماں سے آگے گمان کر لو

اٹھاؤ پردہ اور دیکھ لو خود زمیں فروشی کے روپ کتنے

نقاب پوشوں کی بھیڑ میں سب ہمارے کل کے سوداگر ہیں

ان ہی کی حرص و ہوس کے باعث ہماری دنیا اجڑ رہی ہے

گرم ہواؤں میں گھر رہی ہے

شمع وفا بجھی ہے نہ دل ہے بجھا ہوا

 شمع وفا بجھی ہے نہ دل ہے بجھا ہوا

تاریک کیسے پیار کا ہر راستہ ہوا

روشن ہے داغ داغ تمنا کا آج بھی

لیکن نگاہ گردش دوراں کو کیا ہوا

اک ہم کہ آشنا رہے ہر اک سے پیار میں

اک وہ کہ ہو کے آشنا نا آشنا ہوا

رفتہ رفتہ جذب الفت میں کمال آ ہی گیا

 رفتہ رفتہ جذبِ الفت میں کمال آ ہی گیا

ہجر کے پردے سے پیغام وصال آ ہی گیا

اضطرابِ دل بشکلِ راز آخر تا بہ کے

تشنۂ دیدار کے لب پر سوال آ ہی گیا

میرے دستِ آرزو میں لاکھ ناکامی پہ بھی

وہ نہیں تو ان کا دامانِ خیال آ ہی گیا

یہ کیسا معمہ ہے میں کس حال میں پہنچا

 یہ کیسا مُعمہ ہے میں کس حال میں پہنچا

اترا جو زمیں پر تو میں اک جال میں پہنچا

جس خال کے صدقے ہے زمیں کیا، یہ زمن کیا

نکلا جو میں خط سے تو اسی خال میں پہنچا

ظلمت کدۂ عشق میں رہ کس کو ملی ہے

جو آیا، وہی درد کے پاتال میں پہنچا

جب مصطفیٰ کے شہر میں چھاتی ہے چاندنی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب مصطفیٰؐ کے شہر میں چھاتی ہے چاندنی

صلِّ علیٰﷺ کا نغمہ سناتی ہے چاندنی

سینہ مِرا مدینہ بناتی ہے چاندنی

عشقِ نبیؐ کی جوت جگاتی ہے چاندنی

ممکن نہیں کہ چاند میں ہو ایسی روشنی

دنداں سے ان کے چھن کے جو آتی ہے چاندنی

مسند عرش سے تا بہ فرش حرم وہ سراپا کرم

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مسندِ عرش سے تا بہ فرشِ حرم، وہ سراپا کرم

وہ شہ انبیاءﷺ، وہ شفیعُ الاُمم، وہ سراپا کرم

اُنؐ کا ہر اِک سُخن عِلم و حکمت کے موتی لُٹاتا ہوا

اُن کی ہر بات کا زاویہ محترم، وہ سراپا کرم

میں نے چاہا کہ اِسمِ مُحمّدؐ لِکھوں اور خوش خط لِکھوں

اُنؐ کی سرکار میں سر نِگوں ہے قلم، وہ سراپا کرم

ناداروں کو علم کے موتی آقا نے انمول دئیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ناداروں کو علم کے موتی آقاﷺ نے انمول دئیے

باب جہالت بند کیا اور ذہنوں‌ کے در کھول دئیے 

انگاروں کو پھول بنایا، ذرّوں کو خورشید کیا

جن ہونٹوں میں زہر بھرا تھا ان کو میٹھے بول دئیے

میرے آقاﷺ آپ نے ان کو درس دیا ہے محنت کا

دنیا کے لوگوں نے جن کے ہاتھوں میں کشکول دئیے

رخ پہ نقاب ڈال کر خوب کہا کے دیکھ لے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رُخ پہ نقاب ڈال کر خوب کہا کے دیکھ لے

سامنے ہو کے چھپ گئے اور یہ کہا کے دیکھ لے

خود سے دکھائیں خود کو وہ ان کے کرم کی بات ہے

ورنہ محال ہے کوئی آنکھ اٹھا کے دیکھ لے

طُور پر صاف کہہ دیا موسیٰؑ کہ ہوش میں رہو

اور حبیبﷺ سے کہا، آ مجھے آ کے دیکھ لے

فارسی کے کھجوروں بھرے باغ کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


فارسی کے کھجوروں بھرے باغ کی، خاک ماتھے پہ ملتا شگُن کے لیے

میں بھی بِکتا ہوا جا بہ جا ایک دن، جا پہنچتا مدینے میں اُنؐ کے لیے

استعاروں کی رنگین برسات میں، ان کے در سے نگینوں کی خیرات لی

اے زمانے! یہ انؐ کی عطا ہے عطا، یہ جواہر کہاں دٙیکھ سُن کے لیے

سبز ڈفلی پہ پڑتی ہوئی تھاپ نے، خیر مقدم کیا میرے سُلطانؐ کا

لحن گونجا فرشتوں کی آواز کا، تار چھیڑا گیا ایک دُھن کے لیے

Sunday, 26 May 2024

محبت کے سفر میں بیٹھ جاتے تو نہیں ہیں

 محبت کے سفر میں بیٹھ جاتے تو نہیں ہیں

کسی کو اس سفر میں پر تھکاتے تو نہیں ہیں

کسی کو تم ستاؤ یہ محبت میں ہے جائز

کسی کو اس قدر لیکن رُلاتے تو نہیں ہیں

اندھیرا کر دیا تُو نے ذرا سا رُخ بدل کر

سیہ شب میں چراغوں کو بُجھاتے تو نہیں ہیں

جو شخص ناز حسن جوانی میں آ گرا

 جو شخص نازِ حُسنِ جوانی میں آ گِرا

سمجھو کہ وہ بھی نقل مکانی میں آ گرا

اُترا فراز سے تو لگا اس طرح مجھے

دشتِ نشیب کی میں گِرانی میں آ گرا

بچپن میں سنگ جو کہ اُٹھایا تھا ہاتھ میں

وہ سنگ جُوئے زورِ جوانی میں آ گرا

ہر موج ہے افسردہ تو مغموم ہیں دھارے

 ہر موج ہے افسردہ تو مغموم ہیں دھارے

ایسے میں کوئی شور تلاطم کو پکارے

خود نکہت گُل جُرم چمن میں تھی ملوث

جب غور سے دیکھا تو نہ بجلی نہ شرارے

مائل بہ تغیر ہے یہاں فطرت بے تاب

بدنام ہیں ساقی کی نگاہوں کے اشارے

زنجیریں جب ٹوٹیں گی جھنکار تو ہو گی

 ایفروایشیائی نغمہ


زنجیریں جب ٹوٹیں گی جھنکار تو ہو گی

صدیوں کی سوئی دنیا بیدار تو ہو گی


پھیلے ہوئے اس دھرتی پر ہیں لوگ جہاں تک

پہنچے گی زنجیروں کی جھنکار وہاں تک

دنیا جاگی تو کوئی محکوم نہ ہو گا

کوئی وطن آزادی سے محروم نہ ہو گا

دیکھو ابھی ہے وادئ کنعاں نگاہ میں

 ہارون کی آواز


دیکھو ابھی ہے وادئ کنعاں نگاہ میں 

تازہ ہر ایک نقشِ کفِ پا ہے راہ میں 

یعقوبؑ بے بصر سہی یوسفؑ کی چاہ میں 

لہرا رہا ہے آج بھی طُرّہ کلاہ میں 

یہ طُرّہ گِر گیا تو اُلٹ جائے گی زمیں 

محور سے اپنے اور بھی ہٹ جائے گی زمیں 

جب سے مستانے جوگی کا مشہور جہاں افسانہ ہوا

ترانۂ وحدت


جب سے مستانے جوگی کا مشہورِ جہاں افسانہ ہُوا

اُس روز سے بندۂ ناظر بھی پھر بزم میں نغمہ سرا نہ ہوا

کبھی منصب و جاہ کی چاٹ رہی، کبھی پیٹ کی پُوجا پاٹ رہی

لیکن، یہ دل کا کنول نہ کِھلا، اور غنچۂ خاطر وا نہ ہوا

کہیں لاگ رہی، کہیں پِیت رہی، کبھی ہار رہی، کبھی جِیت رہی

اس کلجگ کی یہی رِیت رہی، کوئی بند سے غم کے رہا نہ ہوا

وجہ تسکین جاں سرور دو جہاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وجہِ تسکینِ جاں، سرورِ دو جہاں

رفعتِ بے کراں، ماورائے گماں

آپﷺ کا نقشِ پا، سدرۃ المنتہیٰ

راستہ بن گیا، کہکشاں کہکشاں

آپؐ سے مُشکبُو ہے فضا چار سُو

آپؐ کی جستجو، گلستاں گلستاں

زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

شہاﷺ در پر ترے آئے ہوئے ہیں

کرم کی بھیک ہے سب کی تمنا

سوالی ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں

عمل کا کوئی سرمایہ نہیں ہے

جھکی نظریں ہیں، شرمائے ہوئے ہیں

صبا مجھ کو لا دے غبارِ مدینہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل میں ہے کہ مر کر بھی نہ نکلیں گے وہاں سے

اب کے ہمیں تقدیر جو دکھلائے مدینہ

سودا ہو جو سر میں تو مدینے کے سفر کا

ہو عشق تو عشقِ شہِ والائے مدینہ

کعبے کے لیے اور جگہ لاؤں کہاں سے

اس دل میں تو بستی ہے تمنائے مدینہ

یہ دل کش مدینہ یہ پیارا مدینہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ دل کش مدینہ یہ پیارا مدینہ

ہے دنیا کی آنکھوں کا تارا مدینہ

ہے بے آسروں کا سہارا مدینہ

امیدوں کا مرکز ہمارا مدینہ

نہ جائے مرے ہاتھ سے باغ جنت

جو مل جائے تیرا سہارا مدینہ

اپنے خوش سرشار بیگانے تو اعدا مطمئن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اپنے خوش، سرشار بیگانے تو اعدا مطمئن

رحمتِ آقاؐ سے ہے ہر ایک بندہ مطمئن

دولتِ عشقِ رسولِؐ حق جسے حاصل ہوئی

کون اس مرد خدا سے ہے زیادہ مطمئن

سنتِ ربِّ عُلیٰ ہے وجہِ اطمینانِ قلب

نعت کہتا ہوں تو میں رہتا ہوں کیسا مطمئن

Saturday, 25 May 2024

ملنے والے کہاں کہاں سے ملے

 ملنے والے کہاں کہاں سے ملے

موت کو زندگی جہاں سے ملے

ایسا خُوش رنگ پُھول ہے اک تو

تیرا ثانی ناں گُلستاں سے ملے

ڈُوب جا عشق کے سمندر میں

راستے دل کے تو وہاں سے ملے

کس چاند کی لگن میں دیوانے آدمی ہیں

 کس چاند کی لگن میں دیوانے آدمی ہیں

خود اپنی روشنی سے بے گانے آدمی ہیں

جو فرق تھا دلوں میں کس طرح جا سکے گا

اک بے وفا کے ٹوٹے یارانے آدمی ہیں

یوں گردش زمانہ تقدیر ہو چکی ہے

جیسے بساط غم پر پیمانے آدمی ہیں

نئی رتیں ہیں زمانے بدلنے والے ہیں

 نئی رُتیں ہیں زمانے بدلنے والے ہیں

سنا ہے غم کے فسانے بدلنے والے ہیں

خزاں رسیدہ چمن میں اُداس شاخوں پر

پرندے اپنے ٹھکانے بدلنے والے ہیں

وہ جن کے پیار میں گُزری ہے زندگی میری

مِرے وہ دوست پرانے بدلنے والے ہیں

آپ آئے مرے گھر میں یہی بات بہت ہے

 آپ آئے مرے گھر میں یہی بات بہت ہے

اک بھول سہی، بہرِ ملاقات بہت ہے

اک جنبشِ موہوم ذرا شیریں لبوں کو

اے راحتِ جاں! تلخئ حالات بہت ہے

اُلجھاؤ نہ زُلفوں سے دمکتے ہوئے عارض

کچھ چاندنی برسے کہ ابھی رات بہت ہے

پیسہ ہی رنگ روپ ہے پیسہ ہی مال ہے

 تضمیں بر 'پیسہ نامہ' اشک امرتسری


پیسہ نہ ہو تو ذہن میں دانائیاں نہ ہوں

پیسہ نہ ہو تو فکر میں گہرائیاں نہ ہوں

پیسہ نہ ہو تو شعر میں رعنائیاں نہ ہوں

پیسہ نہ ہو اگر تو قلم بھی کُدال ہے

پیسہ ہی رنگ رُوپ ہے، پیسہ ہی مال ہے

پیسہ نہ ہو تو آدمی چرغے کی مال ہے

دل و جانِ دو جہاں ہے کہ ہے جان ہر زمانہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل و جانِ دو جہاں ہے کہ ہے جانِ ہر زمانہ

جہاں سر ادب سے رکھ دو وہیں ان کا آستانہ

وہاں سر نہ کیسے خم ہو بصد عجز والہانہ

جہاں ذرّے ذرّے میں ہے اک ادائے معجزانہ

مجھے حشر کی تمازت بھلا کیا ستا سکے گی

تیری رحمتوں کا ہو گا مِرے سر پہ شامیانہ

ہر درد کا ہوتا ہے درمان مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر درد کا ہوتا ہے درمان مدینے میں

خالق کا بھی ہوتا ہے عرفان مدینے میں

خاک در اقدس پر رکھتی ہے جبیں دنیا

اس طرح نکلتے ہیں ارمان مدینے میں

ایماں کی فضائیں ہیں ایماں کی ہوائیں ہیں

ہوتا ہے غرض کامل ایمان مدینے میں

زندگی اس کی بصد رنگ دگر رہتی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زندگی اُس کی بصد رنگِ دگر رہتی ہے

جس کے ارماں کی مدینے پہ نظر رہتی ہے

نارسا عرض کو وحشت نہیں بننے دیتے

اُنؐ کو احساسِ نہاں تک کی خبر رہتی ہے

جان و دل، ہوش و خرد لوٹ کے آ جاتے ہیں

روح میں پھر بھی عجب موجِ سفر رہتی ہے

کونین کی ہر شے پہ جو چھایا ہے بہ تفصیل

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کونین کی ہر شے پہ جو چھایا ہے بہ تفصیل

سرکارؐ کی رحمت ہی کا سایہ ہے بہ تفصیل

اللہ نے کثرت سے کیا ذکرِ محمدﷺ

یہ اسمِ مبارک اُسے بھایا ہے بہ تفصیل

باعث ہیں جو تخلیقِ جہاں کے وہ بہ اجمال

لولاك لما ایک کنایہ ہے بہ تفصیل

نعت اظہار ہنر سے ماورا صنف سخن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نعت اظہارِ ہنر سے ماوراء صنفِ سخن

جس میں سچائی کا ہر اک زاویہ درکار ہے

ہو سخن گو بے عمل تو نعتیہ اشعار کا

لفظ ہر اک خود اسی کی لوحِ جاں پر بار ہے

کیفیّت، احوال، قصہ، واقعہ، جو کچھ بھی ہو

راست لفظوں میں اگر ڈھل جائے، بیڑا پار ہے

Friday, 24 May 2024

مہک رہی ہے لبوں پر مرے دعائے درود

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مہک رہی ہے لبوں پر مِرے دُعائے درُودؐ

بہارِ نُطق سے رنگیں ہوئی فِضائے درودؐ

ہمارے لب پہ رہے لا اِلہ کا وِرد سدا

ہمارے قلب سے آتی رہے صدائے درودؐ

لیا جو نامِ مُحمدﷺ تو دفعتاً مجھ کو

مدینے پاک سے آنے لگی ہوائے درودؐ

جو کچھ ہے کائنات میں ان کی رضا سے ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جو کچھ ہے کائنات میں اُن کی رضا سے ہے 

جو مجھ کو مل رہا ہے وہ اُن کی عطا سے ہے 

نیزے پہ سر تھا اور تھا قرآں زبان پر 

یوں انتہائے عشق بھی کرب و بلا سے ہے 

بگڑی سنور ہی جاتی ہے اِس کے طفیل سے

نسبت جو ایک مدحتِ خیرالوریٰؐ سے ہے 

وقف در محبوب ہوئی اپنی جبیں آج

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وقفِ درِ محبوبﷺ ہوئی اپنی جبیں آج

ہمسر نہیں میرا کوئی بالائے زمیں آج

لکھنی ہے مجھے منقبتِ سرورِ دیں آج

ہے عرشِ معلیٰ مِرے شعروں کی زمیں آج

کس کے گلِ عارض کی صفت نظم ہوئی ہے

پھولوں سے بسی ہے مرے شعروں کی زمیں آج

رخ انور سے آئی روشنی سنسار میں پہلے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رخِ انورؐ سے آئی روشنی سنسار میں پہلے

چمک ایسی نہیں تھی ثابت و سیّار میں پہلے

خدا کا تذکرہ ہو یا بُتانِ دہر کی باتیں 

وہی اقرار میں اول وہی انکار میں پہلے

پرِ پرواز آقاؐ نے ودیعت کر دئیے ان کو

فشانی تو بہت تھی جعفرِ طیّارؓ میں پہلے

Thursday, 23 May 2024

تم جو ہونٹوں پر کھلاؤ گے عقیدت کے گلاب

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تم جو ہونٹوں پر کھلاؤ گے عقیدت کے گلاب

بالیقیں ہو جاؤ گے دونوں جہاں میں کامیاب

ابرِ رحمت کھل کے برسے گا شعورِ زیست پر

پہلے ہو دربار ذکرِ پاکؐ میں چشمِ پُر آب

شاملِ حال اس کے ہے لطفِ شہنشاہِ زمنؐ

ہر نفس صبح و مسا ہیں یاد جس کو آنجناب

اشک بہتے رہے دعا کے ساتھ

 اشک بہتے رہے دعا کے ساتھ

ربط ٹوٹا نہیں خدا کے ساتھ

فکرِ دنیا سے ماوراء کر دے

ہو اگر عشق انتہا کے ساتھ

جانے کس کو پکارتی ہوں میں

رات بھر ڈوبتی صدا کے ساتھ

محنت کرنا رات دن ہاری کا بیوہار

 دوہا


محنت کرنا رات دن ہاری کا بیوہار

لُوٹیں دونوں ہاتھوں سے ٹھاکر ساہوکار


طاہر سعید ہارون

ہر گھڑی یوں نہ کج ادائی کر

 ہر گھڑی یوں نہ کج ادائی کر

ٹوٹے دل تک بھی کچھ رسائی کر

کل بھلانا نہ ہو تجھے مشکل

آج تھوڑی سی بے وفائی کر

شوق سے ہم فقیر لوگوں پر

تُو بھی دو چار دن خدائی کر

وقت کی کروٹ ایسا کر دے

 وقت کی کروٹ ایسا کر دے

مجھ کو تیرے جیسا کر دے

میں کچھ اور ہی سوچ رہا ہوں

وقت نہ جانے کیسا کر دے

کُن کی قدرت رکھنے والے

جو اچھا ہو، ویسا کر دے

خواب خیموں کو بچانے میں بہت دیر لگی

 خواب خیموں کو بچانے میں بہت دیر لگی

راکھ کے ڈھیر اٹھانے میں بہت دیر لگی

شہر کا شہر ہی بازار میں در آیا تھا

بھیڑ لوگوں کی ہٹانے میں بہت دیر لگی

دو دھڑے ہو تو گئے ایک ہی چھت کے نیچے

دل کو دیوار اٹھانے میں بہت دیر لگی

زندگی سرد ہو گئی ہے کیا

 زندگی سرد ہو گئی ہے کیا

موت ہمدرد ہو گئی ہے کیا

اک ذرا اس کی سرد مہری سے

روح تک سرد ہوگئی ہے کیا

سبز و شاداب تھی مری دنیا

دیکھیے زرد ہو گئی ہے کیا

اندھیر نگری کی شاہزادی تلاشتی رہی اجالے

 اندھیر نگری


اندھیر نگری کی شاہزادی

تلاشتی رہی اجالے

وہ چاہتی تھی کہ

کاش سورج طلوع ہو ایسا

جو اس کی نگری کا گھپ اندھیرا

اپنی کرنوں سے بھسم کر دے

کب سے جاری ہے مدینے کا سفر یاد نہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کب سے جاری ہے مدینے کا سفر، یاد نہیں

دل پہ جو نقش ہوا یوں، وہ نگر، یاد نہیں

جب سے ہے گنبدِ اخضرکا جمال آنکھوں میں

تب سے جنت کے دریچے، کوئی در یاد نہیں

مِری آنکھوں میں حرم کے ہیں در و بام ابھی

یاد میں جو نہیں گزری، وہ سحر یاد نہیں

ہو سکتا نہیں کوئی بھی حسان مصطفیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہو سکتا نہیں کوئی بھی حسانِؓ مصطفیٰؐ 

وہ ہو گیا جو گیا قربان مصطفیٰﷺ

جس کو سنا حضور نے بٹھلا کے سامنے 

حاصل ہوا اسی کو ہے عرفان مصطفیٰؐ

حسانؓ بن ثابت کا مقام اللہ اکبر 

شامل ہیں گویا جملۂ یاران مصطفیٰؐ

ناز کر ناز کہ ہے ان کے طلبگاروں میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ناز کر ناز کہ ہے اُنؐ کے طلبگاروں میں

کم کسی سے نہیں نعمت یہ گنہگاروں میں

ہر طرف تم ہی نظر آئے ہو نظاروں میں

اس طرح بس گئے ہو تم مِرے افکاروں میں

ہجر کی آگ کسوٹی ہے محبت والوں

بُوالہوس رہ نہیں سکتے کبھی انگاروں میں

مصحف ناطق رخ پر نور ہے اس ماہ کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مصحفِ ناطق رُخِ پُر نُور ہے اس ماہ کا

ابروئے سلطانِ دیں طغرا ہے بسم اللہ کا

روضۂ اقدس ہے مرجع ہر گدا و شاہ کا

ہے وسیلہ نامِ حضرت سارے خلق اللہ کا

جب جھکی گردن نظر وہ قبۂ سبز آ گیا

قلب میرا بن گیا گنبد تِری درگاہ کا

Wednesday, 22 May 2024

درود ان پر کہ دست اقدس کو چھو گیا جو وہ چہرہ چمکا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


درود ان پر کہ دستِ اقدس کو چھُو گیا جو وہ چہرہ چمکا

سلام ان پر کہ چھُو کے ان کے قدم کو رستہ ہر ایک مہکا

درود ان پر کہ دستِ اقدس سے پانچ چشمے ہوئے تھے جاری

سلام ان پر کہ سیر ان سے ہوئی صحابہؓ کی فوج ساری

درود ان پر کہ جن کی آنکھیں بغیر سُرمہ کے سُرمگیں تھیں

سلام ان پر کہ وہ سفیدی میں سُرخ ڈوروں سے کیا حسیں تھیں

وہ گھر ایک خواب کی مانند

 دوپہر کے چہرے کی چِک

وہ گھر ایک خواب کی مانند ان دِنوں جاگتا ہے

تین کمرے، دو صحن، امرود کے پیڑ اور چار لڑکیاں

دوپہر کے چہرے کی چِک اٹھا کر

صحن میں چھڑکاؤ کرتی ہیں

گیلے بالوں کو نہا کر کمر پر چھوڑ دیتی ہیں

ان کے ہاتھوں میں کڑھائی کے فریم لب بستہ ہیں

اس پانی سے آنکھیں دھو لو

  اس پانی سے آنکھیں دھو لو

اس میں پانی میں پیر ڈبو لو

میں تنہا ہوں سُننے والا

تھوڑا سا تو اُونچا بولو

جانی پہچانی دستک ہے

جلدی سے دروازہ کھولو

پہاڑ ہو یا دشت ہو یا کوئی بحر مست ہو

 مرا مزاج اور ہے


پہاڑ ہو یا دشت ہو

یا کوئی بحرِ مست ہو

مِری نظر میں کچھ نہیں

میں چل پڑا سو چل پڑا

رکا نہیں جھکا نہیں

بہاؤ گرم خون میں

یہ بڑھا درد آج میں کل میں

 یہ بڑھا درد آج میں کل میں

کل تھا پیڑو میں آج کل کل میں

سوت جل کُکڑی آ گئی بل میں

بہل ہی جاتی ہے اپنی ہے چہل میں

تل نہیں مانگ میں زناخی میں

یہ کنہیا کھڑا ہے گوکل میں

بشر کے روپ میں پھرتے ہوئے خدا کا دکھ

 بشر کے روپ میں پھرتے ہوئے خدا کا دُکھ

کہ جانتا ہوں میں ہاری ہوئی انا کا دکھ

جو جاتے وقت سمیٹا سماعتوں نے تیری

میرے وہ ہونٹ کی لرزش تھی اور صدا کا دکھ

مجھے تو خیر تیری بد دُعا سے کچھ نہ ہُوا

کہ مجھ کو چاٹ گیا تیری بد دُعا کا دکھ

سرکار کے غلاموں میں جس کا شمار ہے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سرکارؐ کے غلاموں میں جس کا شمار ہے

لا ریب وہ زمانے میں عالی وقار ہے

بخشش کا تمغہ رب سے ملے گا ہمیں ضرور

یادِ نبیﷺ میں چشم اگر اشکبار ہے

ہم عاصیوں کی فکر میں رہتے ہیں مصطفیٰؐ

اک جانِ بے خطا پہ دو عالم کا بار ہے

درد ہو کوئی بھی میرے دل میں آپ ہیں دوا یا حسین

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


درد ہو کوئی بھی میرے دل میں آپ ہیں دوا یا حسینؑ

بانٹتی ہے تیری خاک کربل ہر کسی کو شفا یا حسینؑ

عشق تو سب نے رب سے کیا تھا تیرا انداز ہی کچھ الگ تھا

اپنا گھر بار سب کچھ کیا ہے راہِ حق میں فنا یا حسینؑ

صبر غازی نے ایسا کیا ہے اپنی تلوار کو ایسے روکا

جنگ میں رک گئی ہو جیسے تیغِ مشکل کشا یا حسینؑ

محمد کی گلی ہے اور ہم ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


محمدﷺ کی گلی ہے اور ہم ہیں

عروجِ زندگی ہے اور ہم ہیں

جمی ہیں گنبدِ خضریٰ پر نظریں

سرورِ سرمدی ہے اور ہم ہیں

درِ حضرتﷺ پر اپنی شان دیکھو

وفا کی چاندنی ہے اور ہم ہیں

عرش سے فرش تلک نقش فشاں تو ہی تو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عرش سے فرش تلک نقش فشاں تُو ہی تُو

رحمت کون و مکاں نُور جہاں تو ہی تو

چاند سورج کو بھی گویائی ملی ہے تجھ سے

کتنی خاموش زبانوں کی زباں تو ہی تو

نکہت گُل کے تبسم نے کہا تھا سب سے

دونوں عالم میں کراں تا بہ کراں تو ہی تو

ستارہ میری قسمت کا ذرا دیکھو کہاں ٹھہرا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ستارہ میری قسمت کا ذرا دیکھو کہاں ٹھہرا

خدا ہے مدح خواں جس کا میں اُس کا مدح خواں ٹھہرا

وہ لمحہ جس میں تُو دریا سے پیاسا ہی نکل آیا

حیاتِ خضرؑ سے پوچھوں کہ وہ کتنا گراں ٹھہرا

تِری یادوں کے صدقے دل قریبِ عرش تھا کتنا

یہاں سے آہ اُٹھی اور وہاں جا کر دُھواں ٹھہرا

آؤ اے جنتیو گنبد خضریٰ دیکھو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آؤ اے جنتیو! گنبدِ خضریٰ دیکھو

قبلۂ عرش ہے یہ قصرِ معلیٰ ٰدیکھو

آؤ اے خضرؑ! مدینے کا تماشہ دیکھو

سبز پردوں کا مِری آنکھوں سے جلوہ دیکھو

دیکھو وہ سامنے میزاب کے ہے گنبدِ سبز

اہلِ کعبہ! ادھر آؤ مِرا کعبہ دیکھو

Tuesday, 21 May 2024

دل لگا بیٹھا ہوں لاہور کے ہنگاموں سے

 دل لگا بیٹھا ہوں لاہور کے ہنگاموں سے

پیار ہے پھر بھی ہری پور، تِری شاموں سے

کبھی آندھی، کبھی شعلہ، کبھی نغمہ، کبھی رنگ

اپنا ماضی مجھے یاد آئے کئی ناموں سے

ایک وہ دن کہ بناں دید تڑپ جاتے تھے

ایک یہ دن کہ بہل جاتے ہیں پیغاموں سے

گل فروشوں کی خاطر محبت کرو

 تم محبت کرو

شاہراہوں پہ ہاتھوں میں گجرے لیے 

ایک دن آپ یوں ہم کو مل جائیں گے

ہم نے سوچا نہ تھا

گنگناتے ہوئے گاڑیوں کی طرف دوڑتے 

گل فروشوں کی خاطر محبت کرو

چائے خانوں کے دروازوں پر منتظر

ماہ طیبہ سے ضیا بار ہیں مخدوم جہاں

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 ماہِ طیبہ سے ضیا بار ہیں مخدومِ جہاں

چرخِ عظمت پہ نمودار ہیں مخدومِ جہاں

جامِ توحید سے سرشار ہیں مخدومِ جہاں

بالیقیں واقفِ اسرار ہیں مخدومِ جہاں

حضرتِ خضر جنہیں جھولا جُھلایا کرتے

وہ ولایت کے علمدار ہیں مخدوم جہاں

چراغ دین و دنیا ہے محمد

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 چراغِ دین و دنیا ہے محمدﷺ

فروغِ عرشِ اعلیٰ ہے محمدﷺ

میں ہوں وہ قطرۂ بے مثل و نایاب

کہ جس قطرے کا دریا ہے محمدﷺ

نہ مثل اس کا، نہ اس کا کوئی مانند

خدا ہے ایک، یکتا ہے محمدﷺ

ملی ہے یہ دولت رسول کریم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ملی ہے یہ دولت رسولِ کریمﷺ

درودوں کی کثرت رسولِ کریمﷺ

یہاں آپ پر جو بھی ایمان لایا 

نہیں اس کی قیمت رسول کریمﷺ

بساؤں مدینے میں گھر بار اپنا

 مِری ہے یہ  حسرت رسولِ کریمﷺ

پارسائی حضور کا صدقہ

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 پارسائی حضورﷺ کا صدقہ

یہ کمائی حضورﷺ کا صدقہ

میرے لب پر ہیں نور کے دانے

لب کشائی حضورﷺ کا صدقہ

مجھ کو منزل کا راستہ جو ملا

یہ بھلائی حضورﷺ کا صدقہ

مرے دل کو مدینے کی تمنا بھی وہی دیں گے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مِرے دل کو مدینے کی تمنا بھی وہی دیں گے

پھر اس کے بعد طیبہ کا بلاوا بھی وہی دیں گے

مجھے کیا غم وسائل کا وه حل ہیں سب مسائل کا

کہ جو ازن سفر دیں گے کرایہ بھی وہی دیں گے

بچانا جن کو آتا ہے قیامت خیز طوفاں سے

مِری غمگین کشتی کو کنارہ بھی وہی دیں گے

زباں پہ نام محمد جو بار بار آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 زباں پہ نامِ محمدﷺ جو بار بار آئے

تو کیوں نہ گلشنِ توحید پر نکھار آئے

جو دل کی سمت نظر کی تو سامنے تھے رسولؐ

پکارنے کو تو ہم جا بجا پکار آئے

بکھر گئے افقِ جاں پہ رنگِ صبحِ ازل

عجب طرح سے مجھے مژدۂ بہار آئے

حصار دین کے منظر میں آزر ہو نہیں سکتا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حصار دین کے منظر میں آزر ہو نہیں سکتا

جہاں ظلمت کدہ ہو دل منور ہو نہیں سکتا

لقب پایا ہے سیف اللہ کا خالدؓ کی ہستی نے

شجاعت میں کوئی ان کے برابر ہو نہیں سکتا

گواہی سب سے پہلے دی شبِ معراج کی اس نے

جہاں میں دوسرا صدیق اکبرؓ ہو نہیں سکتا

Monday, 20 May 2024

ہم نے جس کے لیے پھولوں کے جہاں چھوڑے ہیں

 ہم نے جس کے لیے پھولوں کے جہاں چھوڑے ہیں

اس نے اس دل میں فقط زخم نہاں چھوڑے ہیں

ہم نے خود اپنے اصولوں کی حفاظت کے لیے

دولتیں چھوڑ دیں شہرت کی جہاں چھوڑے ہیں

زندگی ہم نے تِرا ساتھ نبھانے کے لیے

تپتے صحرا میں بھی قدموں کے نشاں چھوڑے ہیں

ٹھاکر گیہوں لے گیا ہاری بھوسا کھائے

 دوہا


ٹھاکر گیہوں لے گیا ہاری بھوسا کھائے

کاگا رہا پکارتا انیائے، انیائے


طاہر سعید ہارون

سورج اب غم کا چھپا ہے شاید

 سورج اب غم کا چھپا ہے شاید

چاند خوشیوں کا اگا ہے شاید

زندگی اوڑھ چکی تاریکی

دل کوئی ڈوب رہا ہے شاید

آنکھ اس کی بھی نظر آتی ہے نم

کانٹا اس کے بھی چبھا ہے شاید

کوئی افسانۂ زندان سناتا ہے مجھے

 کوئی افسانۂ زندان سناتا ہے مجھے

اور جینے کی تدابیر بتاتا ہے مجھے

ایک ہی دکھ ہے کہ دیوار سے لگ کر کوئی

روئے جاتا ہے مجھے، گھورتا جاتا ہے مجھے

ایک سایہ ہے مِرا، ڈل کے کنارے بیٹھا

اور ہر روز وہ اُس پار بُلاتا ہے مجھے

تمہارا راج تمہارا رواج کچھ بھی کرو

 تمہارا راج تمہارا رواج کچھ بھی کرو

کہ سو رہا ہے ہمارا سماج کچھ بھی کرو

بہت بلند فصیلیں ہیں قصر شاہی کی

سنے گا کون، صدا احتجاج کچھ بھی کرو

بساط جرم کسی دن ضرور پلٹے گی

تمہارے ہاتھ میں طاقت ہے آج کچھ بھی کرو

میں کلہاڑے سے نہیں ڈرا نہ کبھی آرے سے

 ایک درخت کی دہشت


میں کلہاڑے سے نہیں ڈرا

نہ کبھی آرے سے

میں تو خود کلہاڑے اور آرے کے دستے سے جڑا ہوں

میں چاہتا ہوں

کوئی آنکھ میرے بدن میں اترے

میرے دل تک پہنچے

میں اکثر دیکھنے جاتا تھا اس کو جس کی ماں مرتی

ماں کی یاد میں اک نظم


میں اکثر دیکھنے جاتا تھا اس کو جس کی ماں مرتی

اور اپنے دل میں کہتا تھا یہ کیسا شخص ہے؟

اب بھی جیے جاتا ہے

آخر کون اس کے گھر میں ہے

جس کے لیے یہ سختیاں سہتا ہے تکلیفیں اٹھاتا ہے

تھکن دن کی سمیٹے شب کو گھر جانے پہ

رب کی عطا ہیں مصطفیٰ شاہ امم شاہ زماں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رب کی عطا ہیں مصطفیٰﷺ، شاہِ اُمم شاہِ زماں

روشن ہوئے ہیں آپؐ سے کون و مکاں سے لامکاں

آپﷺ کی آمد اس جہاں میں ہے اک نعمتِ یزداں

واری گئی ساری زمین صدقے ہوئے سات آسماں

ذرہ ذرہِ کائنات مہک رہا ہے آپﷺ سے

اے نسیمِ گُل رُخاں، اے بہارِ گلستاں

یہ قلب و نظر ہے برائے مدینہ

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ قلب و نظر ہے برائے مدینہ

نثارِ مدینہ،۔ فدائے مدینہ

مدینے کے دن ہوں مدینے کی راتیں

خدا دیکھیے، کب دکھائے مدینہ

وہ ذکر نبیﷺ ہو کہ ذکرِ خدا ہو

مجھے ہر طرح یاد آئے مدینہ

دونوں عالم میں فروزاں ہے اجالا تیرا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دونوں عالم میں فروزاں ہے اُجالا تیرا

مظہرِ نُورِ خدا ہے رُخِ زیبا تیرا

اُس کی آنکھوں میں مدینے کی جھلک دیکھتا ہوں

جب بھی آتا ہے کوئی دیکھ کے روضہ تیرا

اے براہیمی لقب ہاشمی و مُطّلبی

ساری دنیا سے معطر ہے قبیلہ تیرا

نبی تشریف لائے ہیں یہاں غفار کے صدقے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نبی تشریف لائے ہیں یہاں غفار کے صدقے

منور ہو گئے سارے جہاں سرکارؐ کے صدقے

زیارت کرنے جو آیا عبادت کرنے لگتا ہے

ہوا غارِ حِرا میں یہ عمل سرکارؐ کے صدقے

جو احکامِ الہی ہیں عجب توفیق دیتے ہیں

عمل کرتی ہے اُمت آپؐ کے کردار کے صدقے

ہے بلندی کا نشاں نعلین اقدس آپ کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے بلندی کا نشاں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی

چومتا ہے آسماں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی

اُس زمیں کو دیکھتے ہیں رشک سے اہل فلک

رکھی جاتی ہے جہاں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی

کیوں نہ ہم چشمِ تصور سے کریں اس کا طواف

لوحِ دل پر ہے عیاں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی

مجھ کو مرنے میں بھی جینے کو قرینہ چاہیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھ کو مرنے میں بھی جینے کو قرینہ چاہیے

لطفِ محبوبِﷺ خدا خاکِ مدینہ چاہیے

آئینے پر دل کے ہو نورِ محمدﷺ کی جِلا

جو قیامت تک چلے ایسا سفینہ چاہیے

جلوۂ سرکارؐ تو نظروں کا مسکن ہے مگر

چشمِ بینا چاہیے،۔ ہاں چشمِ بینا چاہیے

Sunday, 19 May 2024

سبز لہجہ کہاں سمجھتا ہے

 سبز لہجہ کہاں سمجھتا ہے

وہ تو اپنی زباں سمجھتا ہے

زاویے راس آ گئے اس کو

دُھوپ کو سائباں سمجھتا ہے

راستے کُھل گئے ہیں اس پہ مگر

منزلوں کو دُھواں سمجھتا ہے

ان کا جب تیر نظر یاد آیا

 ان کا جب تیرِ نظر یاد آیا

رو دئیے زخمِ جگر یاد آیا

جب اسے میں نے بُھلانا چاہا

اور وہ رشکِ قمر یاد آیا

کیا کہوں وحشتِ زندانِ فراق

کبھی صحرا، کبھی گھر یاد آیا

اپنی اوقات تو دکھائے گا

 اپنی اوقات تُو دِکھائے گا

کر کے سازش مجھے گِرائے گا

تجھ سے بس زہر کی توقع ہے

ناگ تریاق کیا پِلائے گا

دین اس کی ہے عزت و ذِلت

تُو مِرا کیا بگاڑ پائے گا

ہم فقیروں کی جیب خالی ہے

 ہم فقیروں کی جیب خالی ہے

یاد لیکن تِری بچا لی ہے

آسماں سے کوئی خیال اترے

ذوق یا رب مِرا سوالی ہے

راز پنہاں تھے سب خزاؤں کے

خشک پتوں نے بات اچھالی ہے

کتنا کمزور ہے ایمان پتا لگتا ہے

 کتنا کمزور ہے ایمان پتا لگتا ہے

گھر میں آیا ہوا مہمان بُرا لگتا ہے

میں نے ہونٹوں پہ تبسّم تو سجا رکھا ہے

غم بُھلانے میں مگر وقت بڑا لگتا ہے

آپ بے کار مجھے شجرہ دِکھانے آئے

آپ جو بھی ہیں وہ لہجے سے پتا لگتا ہے

پھر ہمیں دار فضیلت میں بلائیں سلطاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


پھر ہمیں دارِ فضیلت میں بُلائیں، سلطاں

پھرسے دل چاہنے والوں کےجِلائیں، سلطاں

آرزوئے دلِ مضطر ہے فقط اتنی سی

آپؐ کی دید کی کرتے ہیں دعائیں، سلطاں

دوریوں سے تِرے عشّاق رہیں افسردہ

جُز غمِ ہجر، نہ کچھ قلب میں پائیں، سلطاں

اے لوگو محمد سے وفا کیوں نہیں کرتے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے لوگو محمدﷺ سے وفا کیوں نہیں کرتے

احکام شریعت کے ادا کیوں نہیں کرتے

جنت کی تمنا ہے اگر دل میں تمہارے

تم راہ ہدایت پہ چلا کیوں نہیں کرتے

یہ روح بھی زخمی ہے اور جسم بھی زخمی

قران سے زخموں کی دوا کیوں نہیں کرتے

رسول پاک کی آمد کی آہٹ دور سے آئی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رسولِ پاکﷺ کی آمد کی آہٹ دور سے آئی

پھر ان کے نور کی بھی جگمگاہٹ دور سے آئی

ملے ایمان، قرآں اور حدیثِ پاک کے تحفے

ہمارے ملک میں اک مسکراہٹ دور سے آئی

ضیا سرکارؐ کے قدموں کی ہم نے یوں بھی پائی ہے

ستاروں کی زمیں پہ جھلملاہٹ دور سے آئی

وفورِ شوق کی محفل ہے میری تنہائی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وفورِ شوق کی محفل ہے میری تنہائی

"بڑے وقار کی حامل ہے میری تنہائی"

مدینہ جب بھی نظر آئے، آئے خلوت میں

مِری ضمانتِ منزِل ہے میری تنہائی

حضورؐ! آپ کو سوچوں جو پہروں خلوت میں

تو زندگی کا مِری دل ہے میری تنہائی

دل مبتلائے رنج ہے ممکن ہے یوں علاج

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل مبتلائے رنج ہے ممکن ہے یوں علاج 

کر دیجیے عطا مجھے خاک مدینہ آج  

چبھنے لگے ہیں مجھ کو یہ دنیا کے تخت و تاج

جب سے ہوا ہے دل پہ میرے مصطفیٰؐ کا راج

میرا امام صاحبِ کوثر ہی ہے فقط

محشر میں اے خدا مِری رکھ لیجیے گا لاج

تا ابد ممکن نہیں تنویر فاراں کا جواب

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تا ابد ممکن نہیں تنویرِ فاراں کا جواب

پرتَوِ روئے نبیﷺ سے آئینے ہیں آب آب

مل نہیں سکتا قیامت تک کہیں اُس کا جواب

جس نے پتھریلی زمینوں پر اُگائے ہیں گلاب

مصطفیٰ یا مصطفیٰ یا مصطفیٰ یا مصطفیٰﷺ

بس یہی میرا سبق ہے بس یہی میرا نصاب

Saturday, 18 May 2024

عشق آفات کی جو زد میں ہے

 عشق آفات کی جو زد میں ہے

جانے کس کی نگاہِ بد میں ہے

میرے جیسا کوئی حسین نہیں

مُبتلا شہر کیوں حسد میں ہے

تم نے دیکھا ہے کرب کا چہرہ

جو نہاں میرے خال و خد میں ہے

لبوں پر آ سکے کوئی دعا کیا

 لبوں پر آ سکے کوئی دُعا کیا

بچا ہے تلخ یادوں کے سوا کیا

خُدا سے دشمنی رکھتے ہو جب تم

بچائیں کشتیوں کو نا خُدا کیا

تِرے دیوانے بھی کچھ کہہ رہے ہیں

ذرا سُن تو ہے ان کا مُدعا کیا

خوشی کے ساتھ اٹھے سرخوشی کے ساتھ چلے

 خوشی کے ساتھ اُٹھے سر خوشی کے ساتھ چلے

یہ ہم بھی کیا ہیں جو آیا اسی کے کے ساتھ چلے

تمام عمر نہ بدلا تِرے مزاج کا رنگ

تمام عمر تِری بے رُخی کے ساتھ چلے

عجب نہیں کہ چلے ہم سراب کی جانب

عجب تو یہ ہے کہ دریا دلی کے ساتھ چلے

میرے مولا یہ کس کی چاہت ہے

 میرے مولا یہ کس کی چاہت ہے

اور چاہت بھی کیا مصیبت ہے 

خودکشی کے کئی طریقے ہیں 

سب سے پہلا مگر محبت ہے 

گر بچھڑنا ہے تو اجازت کیا 

ہاتھ چھوڑو، تمہیں اجازت ہے 

دیوار و در کا نام تھا کوئی مکاں نہ تھا

 دیوار و در کا نام تھا کوئی مکاں نہ تھا 

میں جس زمین پر تھا وہاں آسماں نہ تھا 

میں دشمنوں کی طرح رہا خود سے دور کیوں 

اپنے سوا تو کوئی مِرے درمیاں نہ تھا 

قدموں میں تپتی ریت تھی چاروں طرف تھی آگ 

اور زندگی کے سر پر کوئی سائباں نہ تھا 

روداد غم انہیں کو سنانے میں رہ گئے

 روداد غم انہیں کو سنانے میں رہ گئے

جو لوگ با وقار زمانے میں رہ گئے

آتے میں رہ گئے، کبھی جاتے میں رہ گئے

اچھا سا کوئی شعر سنانے میں رہ گئے

جانا تھا جس کو پار وہ آخر چلے گئے

کچھ لوگ صرف اشک بہانے میں رہ گئے

ازل سے پہلے ابد کے بعد کچھ نہیں تیرے سوا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ازل سے پہلے ابد کے بعد کچھ نہیں تیرے سوا

حرفِ اول حرفِ آخر کوئی نہیں تیرے سوا

شعورِ خُدائے وَحدَہُ لاَ شرِیکَ لَہُ

کون کرے مجھ کو عطا بس تیرے سوا

نُور ہی بس نُور تیرا چار سُو اے خُدا

کون جلائے چراغ دل میں تیرے سوا

نعت نبی کی بزم میں خوشبو بکھیر کر

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نعت نبیؐ کی بزم میں خوشبو بکھیر کر

باطل توجّہات کو پل بھر میں زیر کر

ناموسِ مصطفیٰؐ پہ جو آئے ذرا بھی آنچ

جان و جہاں لٹانے میں بالکل نہ دیر کر

کاغذ پہ میں نے احمدِؐ مرسل جہاں لکھا

ہالہ بنا دیا ہے فرشتوں نے گھیر کر

جب کسی طور نہ دارین کا صدقہ اترے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب کسی طور نہ دارین کا صدقہ اُترے

کِس طرح پھر شہِ کونینؐ کا صدقہ اُترے

ان گِنت جنتیں بٹ جائیں گنہگاروں میں

اُنؐ کے ماں باپ کریمین کا صدقہ اُترے

اِک اُچٹتی سی نظر ڈال دیں سرکارؐ اگر

کعبتہ اللہ کے طرفین کا صدقہ اُترے

گھوم آیا اگرچہ ہے سب افلاک تصور

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


گھوم آیا اگرچہ ہے سب افلاک تصور

چومے ہے مدینے کی مگر خاک تصور

جس پر کروں نقش آپؐ کے نعلینِ مقدس

لاؤں میں کہاں سے بھلا وہ پاک تصور

پہنچو جو مدینے میں تو رہنا ہے مؤدب

اس شہر میں ہونا نہیں بے باک تصور

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

پاون تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی

اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا

مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اگائے

پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا

Friday, 17 May 2024

تیری آواز آتی رہتی ہے

 تیری آواز آتی رہتی ہے

زندگی مُسکراتی رہتی ہے

آنکھ بنجر تو ہو چکی ہے مگر

نم مُسلسل بناتی رہتی ہے

پارسائی کا زعم بڑھنے پر

آدمیت بھی جاتی رہتی ہے

اس کو پانا کبھی آسان کہاں ہوتا ہے

 اس کو پانا کبھی آسان کہاں ہوتا ہے

عشق میں وصل کا امکان کہاں ہوتا ہے

دل سے نکلوں بھی تو اُس ذہن میں آ جاتا ہوں

یعنی نفرت کا بھی نقصان کہاں ہوتا ہے

شکر ہے اس کی نظر ہم کو میسر ہے میاں

ورنہ ہر درد کا درمان کہاں ہوتا ہے

جو چاہتوں کی راہ میں مصلوب ہو گئے

 جو چاہتوں کی راہ میں مصلوب ہو گئے

وہ رب کائنات میں مصلوب ہو گئے

منزل کی سمت ہم چلے اتنے یقین سے

منزل کو اپنے آپ ہی مطلوب ہو گئے

اے حُسن! تیری بندہ پروری کا شکریہ

ہم تم سے مل کے صاحب اسلوب ہو گئے

خود ہمیں مرغوب تھی جب رسم رسوائی بہت

 خود ہمیں مرغوب تھی جب رسمِ رُسوائی بہت

دیر تک ہنستے رہے ہم پر تماشائی بہت

جانے ساحل کی ہوا نے ریت پر کیا لکھ دیا

بادلوں کی آنکھ بھی اس بار بھر آئی بہت

سارا دن اس کو بُھلانے کی تگ و دو میں کٹا

شام کے سائے ڈھلے تو اس کی یاد آئی بہت

ہمارے دکھ پرانے ہو گئے ہیں

 ہمارے دُکھ پرانے ہو گئے ہیں

اُسے بُھولے زمانے ہو گئے ہیں

طلب میری زیادہ تو نہیں ہے

تِرے خالی خزانے ہو گئے ہیں

ہزاروں تِیر اندازوں سے بچتے

نگاہوں کے نشانے ہو گئے ہیں

سنتا یہاں پہ کون ہے آشفتہ سر کی بات

 کُوزے میں خواہ لائے کوئی بحر و بر کی بات

سُنتا یہاں پہ کون ہے آشفتہ سر کی بات

دل کی، زباں پہ آئی تو محسوس یُوں ہُوا

بازار میں ہو آ گئی جس طرح گھر کی بات

بہکا نہ پائے گا ہمیں لفظوں کا ہیر پھیر

پڑھنے لگی ہے اب تو نظر ہی نظر کی بات

اپنی عظمت یوں زمانے کو دکھا دیتے ہیں آپ

   عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اپنی عظمت یُوں زمانے کو دکھا دیتے ہیں آپﷺ

لوگ پتھر مارتے ہیں اور دُعا دیتے ہیں آپﷺ

دِین کی تبلیغ کا انداز ہے کیا مُنفرد

لوگ کُوڑا پھینکتے ہیں مُسکرا دیتے ہیں آپﷺ

بند مُٹھی سے صدائے لا الہ آنے لگی

پتھروں کو کلمۂ وحدت پڑھا دیتے ہیں آپﷺ

مجھ کو آقا نے مدینے میں بلایا ہی نہ تھا

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھ کو آقاﷺ نے مدینے میں بلایا ہی نہ تھا

نعت کہنے کا سلیقہ مجھے آیا ہی نہ تھا

روشنی نور کے اندر سے گزر جاتی تھی

بس اسی واسطے سرکارؐ کا سایہ ہی نہ تھا

اک ندامت کی امانت تھا ازل سے آنسو

جُز تِرے در کے کہیں اور بہایا ہی نہ تھا

وائے تقدیر تاج عظمت کونین رکھ دینا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وائے تقدیر تاج عظمت کونین رکھ دینا

مِرے سر پر مِرے سرکارؐ کے نعلین رکھ دینا

الٰہی دیکھ لوں میں بھی تو اب روئے محمدﷺ کو

مِری آنکھیں ذرا قوسین کے مابین رکھ دینا

کہا اللہ نے قوسین کب حد ہے محمدﷺ کی

جہاں یہ آپؐ رک جائیں وہیں قوسین رکھ دینا

دیکھیں گے انبیاء بھی نظریں اٹھا اٹھا کے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دیکھیں گے انبیاء بھی نظریں اٹھا اٹھا کے

محشر میں جب محمدﷺ آئیں گے مسکرا کے

چاہیں گے جو محمدﷺ وہ ہی خداﷻ کرے گا

سب اختیار محشر اُنﷺ کو عطا کرے گا

بخشے گی انؐ کی رحمت مجرم بلا بلا کے

اک طرف عاصیوں کو وہ بخشوا رہے ہیں

شاہوں کے بھی سرتاج غلامان محمد

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شاہوں کے بھی سرتاج غلامانِ محمدﷺ 

یاران محمدﷺ تو ہیں، یارانِ محمدﷺ 

تابندہ عقیدہ دیا، تہذیب عطا کی 

تاریخ نہ بھولے گی یہ احسانِ محمدﷺ

محدود نہیں یہ مہ و سال و صدی میں

ہر درد کی آواز ہے اعلانِ محمدﷺ

Thursday, 16 May 2024

دل جب خالی ہو جاتا ہے

 دل جب خالی ہو جاتا ہے

اور بھی بھاری ہو جاتا ہے

جب تو ساقی ہو جاتا ہے

عشق شرابی ہو جاتا ہے

میں جب تک کچھ طے کرتا ہوں

سب کچھ ماضی ہو جاتا ہے

نور صبح تاباں کو دیر ہے چمکنے میں

 نورِ صبحِ تاباں کو 

 دیر ہے چمکنے میں

شب کی اس طوالت کو 

اک خیال کے ہمراہ

دُور لے کے چلتے ہیں

آؤ راہِ ماضی پر

آپ غالب پرست چپ ہی رہیں

 آپ غالب پرست چپ ہی رہیں

میر اور میری ہائے ہائے پر

اپنا لہجہ درست رکھیے گا

کون آئے گا پھیکی چائے پر

اب اسی کو وصال سمجھیں آپ

سایہ پڑتا رہے گا سائے پر

جب تلک آنکھ کو لگایا نہیں

 جب تلک آنکھ کو لگایا نہیں

وہ مِرے خواب تک میں آیا نہیں

اس لیے ٹھیک دیکھ سکتا ہوں

آنکھ کو بے سبب بہایا نہیں

کُھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہوں

نیند کو میں نے آزمایا نہیں

ہمارے گھر میں گل حسنا نہیں آیا

 گل حسنا


ملک صاحب کے گھر سے

اس کو فرصت تو نہ ملتی تھی

مگر پھر بھی

وہ جانے کتنی دو پہروں

کئی مصروف شاموں سے

چُرایا وقت لے کر آ نکلتا تھا

بے نوا موسموں میں پرندے زمیں پر اترتے نہیں

 تبصرہ


بے نوا موسموں میں

پرندے زمیں پر اترتے نہیں

صحن میں آ بھی جائیں 

تو نزدیک آتے نہیں

دلکشا وادیوں کوہساروں سے

نغموں کی سوغات لاتے نہیں 

چشم پر نم ابھی مرہون اثر ہو نہ سکی

 چشمِ پُر نم ابھی مرہونِ اثر ہو نہ سکی

زندگی خاک نشینوں کی بسر ہو نہ سکی

مےکدے کی وہی مانوس فضا اور دلِ زار

ایک بھی رات با اندازِ دِگر ہو نہ سکی

غمِ جاناں، غمِ دوراں کی گزرگاہوں سے

گزرے کچھ ایسے کہ خود اپنی خبر ہو نہ سکی

فریب ذوق کو ہر رنگ میں عیاں دیکھا

فریب ذوق کو ہر رنگ میں عیاں دیکھا

جہاں جہاں تجھے ڈھونڈا وہاں وہاں دیکھا

وہی ہے دشت جنوں اور وہی ہے تنہائی

تِرے فریب کو اے گردِ کارواں دیکھا

ہے برق کو بھی کوئی لاگ نا مرادوں سے

گری تڑپ کے جہاں اس نے آشیاں دیکھا

نفرت کی آگ لگائے ہوئے ہیں لوگ

 نفرت کی آگ لگائے ہوئے ہیں لوگ

مہرو وفا کا درس بُھلا ئے ہوئے ہیں لوگ

مشکل ہے گلستاں میں گزر عندلیب کا

ہراک قدم پہ دام بچھا ئے ہوئے ہیں لوگ

اس شہر بے اماں میں تو جینا محال ہے

مقتل گلی گلی میں سجا ئے ہوئے ہیں لوگ

سلام قوم کے احساس حق پسندی کو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

انقلابِ ایران


سلام قوم کے احساسِ حق پسندی کو

سلام گردشِ طوفاں میں تختہ بندی کو

سلام عزمِ خمینی کی فتح مندی کو

سلام پرچمِ ایران کی سر بلندی کو

سکوت قوم کا جھنکار بن گیا آخر

لہو غریبوں کا تلوار بن گیا آخر

یا محمد ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس

عارفانہ کلام  حمد نعت منقبت


یا محمدﷺ ایسی عزت آپؐ نے پائی کہ بس

کی شبِ معراج رب نے وہ پذیرائی کہ بس

ایک پل میں مصطفیٰﷺ کو عرش پر بُلوا لیا

اپنے بندے کی خدا کو ایسی یاد آئی کہ بس

گنتے گنتے تھک گئیں تاروں کی ناز انگلیاں

مصطفیٰﷺ کے ہیں زمیں پر اتنے شیدائی کہ بس

Wednesday, 15 May 2024

یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اسے اٹھا لو

 یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو

اُٹھانے والوں سے کچھ جُدا ہے، اسے اٹھا لو

وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اُٹھا لیا تھا

یہ ان کے بارے میں پُوچھتا ہے، اسے اٹھا لو

اسے بتایا بھی تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نئیں

مگر یہ اپنی ہی بولتا ہے، اسے اٹھا لو

ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو

 ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو

آپ کی مرضی ہے آقا جتنے بندے مار دو

پہلے ہی کڑواہٹوں کی زد میں ہے میری زمیں

اور تم اوپر سے میرے مِیٹھے بندے مار دو

اب تو اپنے جُھوٹ سے نظریں ہٹانے کے لیے

ایک ہی رستہ بچا ہے؛ سچے بندے مار دو

دل کی حالت سنبھل گئی ہے اب

 دل کی حالت سنبھل گئی ہے اب

یاد آگے نکل گئی ہے اب

کل تو شامل تھا میری قسمت میں

میری قسمت بدل گئی ہے اب

وہ میرا حال تم سے پوچھے گا

اُس سے کہنا سنبھل گئی ہے اب

اس نے آباد کیا شہر وفا دل کی طرح

 اس نے آباد کیا شہرِ وفا دل کی طرح 

آئی گرتے ہوئے اک گھر سے صدا دل کی طرح 

خُون چُھپتا سا چلا جاتا ہے افلاک تا خاک 

خارزاروں سے گُزرتی ہے صبا دل کی طرح 

کس طرح گیند چلی جاتی ہے گھر سے باہر 

کھلکھلاتے ہوئے بچوں نے کہا دل کی طرح 

حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

 حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں

بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری

تمام رات گُزاری ہے سرد بانہوں میں

اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں

بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں

سپرد آہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

 سپرد آہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے 

یہ دل تباہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے 

غموں سے شغل رفاقت تو خیر مشکل تھا 

مگر نباہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے 

طلسم جنت آدم تھا رات کا منظر 

جو ہم گناہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے 

روئے بدر الدجیٰ دیکھتے رہ گئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رُوئے بدر الدجیٰ دیکھتے رہ گئے

چہرۂ والضحٰے دیکھتے رہ گئے

حُسنِ خیر الوریٰ میں خُدا کی قسم

ہم جمالِ خُدا دیکھتے رہ گئے

چاند دو ٹکڑے ہو کر تصدق ہوا 

دُشمنِ مُصطفیٰؐ دیکھتے رہ گئے

جہاں بھی جاؤں اپنا ہو کے بے گانہ محمد کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جہاں بھی جاؤں اپنا ہو کے بے گانہ محمدؐ کا

مجھے سب زیر لب کہتے ہیں دیوانہ محمدؐ کا

ارے بے عقل بن جا ایسا فرزانہ محمدؐ کا

کہیں سب ہوش والے تجھ کو دیوانہ محمدؐ کا

محمدﷺ کی حقیقت بس علیؑ خدا جانے

زبانِ خلق پر جاری ہے افسانہ محمدؐ کا

Tuesday, 14 May 2024

یہ مرا جرم ہے اور اس کی سزا گولی ہے

 یہ مِرا جُرم ہے اور اس کی سزا گولی ہے

دورِِ ظُلمت میں چراغوں کی دُکاں کھولی ہے

اس کو کہتے ہیں میاں ہاتھ کا خالی ہونا

نہ کوئی دُکھ ہے مِرے پاس نہ ہمجولی ہے

کون آباد کرے آ کے یہاں بستی کو؟

دشت زادوں نے یہاں خاک بہت رولی ہے

جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی

 جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی

افسوس ہر بساط سے باہر لگی ہوئی

اس کی تپش نے اور بھی سلگا رکھا ہے کچھ

جو آگ ہے مکان سے باہر لگی ہوئی

سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر

اب تک جو آنکھ تھی تِرے در پر لگی ہوئی

دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا تِرا 

معجزہ حسنِ صوت کا، زمزمۂ صدا ترا

میرا کمال فن، تِرے حسن کلام کا غلام 

بات تھی جانفزا تِری، لہجہ تھا دلربا ترا 

جاں تِری سر بہ سر جمال! دل تِرا، آئینہ مثال 

تجھ کو تِرے عدُو نے بھی دیکھا تو ہو گیا ترا 

مر بھر ذکر کربلا ہے عشق

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب کسی کو کہیں ہوا ہے عشق

پھر چھپائے نہیں چھپا ہے عشق

عشق کی روح پر جو ہو بنیاد

تب کہیں جا کے دیر پا ہے عشق

جو انیس و دبیر ہیں ان کا

مر بھر ذکر کربلا ہے عشق

بیان ہو نہیں سکتیں عنایتیں اس کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بیان ہو نہیں سکتیں عنایتیں اس کی

تمام فاصلے میرے ہیں قربتیں اس کی

نماز کیوں نہ ہو معراج آدمی کے لیے

سمیٹ لیتے ہیں سجدے مساففتیں اس کی

نبیؐ و آلِ نبیؑ سے ہے اتنا پیار اسے

درودِ پاک میں رہتی ہیں شرکتیں اس کی

Monday, 13 May 2024

مجھے سب نے بتایا ہے کہ میں ان ڈور پودا ہوں

  اِن ڈور پلانٹ

مجھے سب نے بتایا ہے

کہ میں اِن ڈور پودا ہوں

دمکتے سبز پتے زرد پڑ کر سُوکھ جاتے ہیں

سُنا ہے روشنی بھی لازمی عنصر ہے جینے کا

اندھیرے کا تسلسل زندگی کو چاٹ جاتا ہے

مجھے بھی زندہ رہنے کو ضیاء درکار ہے سائیں

یا نبی کس قدر آبلے ہیں تیرے ہر ایک نقش قدم میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یا نبیﷺ کس قدر آبلے ہیں تیرے ہر ایک نقشِ قدم میں

تُو نے دنیا بدل دی ہماری صرف ترسٹھ برس رہ کے ہم میں

اب بھی باقی ہے بستر کی گرمی اب بھی زنجیرِ در ہل رہی ہے

تھی کروڑوں برس کی مسافت طے ہوئی ایک پل سے بھی کم میں

روشنی ان کے قدموں سے لے کر طاق راتوں میں ڈھونڈا جو میں نے

مل گئی قدر کی رات مجھ کو میرے آقاﷺ کی زلفوں کے خم میں

دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے

 دنیا میں تِری درد کا درمان نہیں ہے

ہر سمت خُدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے

طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے

ظالم ہے، لُٹیرا ہے، وہ سُلطان نہیں ہے

یہ بات غلط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں

یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے

قاری تم کون ہو

 قاری، تم کون ہو 

جو اب سے سو سال بعد میری نظمیں پڑھ رہے ہو؟

میں تمہیں بہار کی اس دولت سے ایک بھی پھول

اس بادل سے ایک بھی سنہری کرن نہیں بھیج سکتا

اپنے دروازے کھولو اور باہر دیکھو

اپنے پروان چڑھتے ہوئے باغ سے 

سو سال قبل مٹ گئے پھولوں کی معطر یادیں جمع کرو

جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے

 جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے

آگ سے نکلے تو انگارہ بنے

شام کی بھیگی ہوئی پلکوں میں پھر

کوئی آنسو آئے اور تارا بنے

لوح دل پہ نقش اب کوئی نہیں

وقت ہے آ جاؤ شہ پارا بنے

وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے

 وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے 

اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے 

میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس 

وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے 

الٹ رہا تھا مِری زندگی کے وہ اوراق 

کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے 

روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں

 روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں 

کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں 

ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہیے 

ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں 

کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ 

وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں 

ٹپکتے شعلوں کی برسات میں نہاؤں گا

 ٹپکتے شعلوں کی برسات میں نہاؤں گا 

اب آ گیا ہوں تو اس شہر سے نہ جاؤں گا 

کشش ہے گھر میں نہ باہر کی رونقیں باقی 

یونہی رہا تو کہاں جا کے مسکراؤں گا 

یہ گیلی گیلی سی خوشبو یہ نرم نرم نگاہ 

تمہارے پاس رہا میں تو بھیگ جاؤں گا 

ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک

 ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک

بہت ہیں مرحلے باقی ہمیں زنجیر کرنے تک

ہمارے ہجر کے قصے سمیٹو گے تو لکهو گے

ہزاروں بار سوچو گے ہمیں تحریر کرنے تک

ہمارا دل ہے پیمانہ، سو پیمانہ تو چهلکے گا

چلو دو گهونٹ تم بهر لو ہمیں تاثیر کرنے تک

صبح خیرات کے آنگن میں غریبی ہو گی

 عید کا چاند دیکھ کر


صبح خیرات کے آنگن میں غریبی ہو گی

پھر وہی صدقۂ جاں اب کے برس پائیں گے

اور ہر دست مخیر میں چمکتے سکے

ملگجے جسموں کی حالت پہ ترس کھائیں گے

غم کے تپتے ہوئے صحرا پہ خوشی کے بادل

بے ارادہ ہی سر راہ برس جائیں گے

گھڑی بھر کے لیے مر کر ابد تک جینے آتے ہیں

 شہانِ کربلا


گھڑی بھر کے لیے مر کر ابد تک جینے آتے ہیں

مجاہد جب کبھی جامِ شہادت پینے آتے ہیں

دکھانے قاتلوں کو ان کے چہرے پیغمبر

لیے ہاتھوں میں اپنے خون کے آئینے آتے ہیں

اک ایسے اوج پر مینار ہے شوقِ شہادت کا

جہاں قربانیوں کے زینے آتے ہیں

سوا اس کے نہ کوئی لفظ نا کوئی صدا نکلے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سوا اس کے نہ کوئی لفظ نا کوئی صدا نِکلے

زبان و دل سے بس صلے علٰی صلے علٰی نکلے

حیاتِ طائرِ خوش بخت ہر دم بوسہ گیری کو

عقیدت سے مزیّن ڈُھونڈنے نعلینِ پا نکلے

بتاؤں کیا فضیلت ارضِ طیبہ کی تمہیں اس سے

شفا نکلے، دوا نکلے، خزانے بے بہا نکلے

Sunday, 12 May 2024

مجھ کو تو اپنی جان سے بھی پیارا ہے ان کا نام

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھ کو تو اپنی جاں سے بھی پیارا ہے ان کا نام 

شب ہے اگر حیات ، ستارا ہے ان کا نام 

تنہائی کس طرح مجھے محصور کر سکے 

جب میرے دل میں انجمن آرا ہے ان کا نام

ہر شخص کے دکھوں کا مداوا ہے ان کی ذات 

سب پا شکستگاں کا سہارا ہے ان کا نام

جو آنکھوں سے لگائی جائے گی مٹی مدینے کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جو آنکھوں سے لگائی جائے گی مٹی مدینے کی

تو جلوے عرش کے دکھلائے گی مٹی مدینے کی

مدینے کی زمیں پر صاحب معراج آتے ہیں

یہی سے آسماں کہلائے گی مٹی مدینے کی

یہ ہے شہر مدینہ یاں ادب سے سر کے بل چلیے

نہیں تو پاؤں میں آ جائے گی مٹی مدینے کی

یہاں کیا کام ہاتھوں کا یہاں کیا ذکر دامن کا

کہ پلکوں سے اٹھائی جائے گی مٹی مدینے کی

وہاں کیا آ سکے گی ایسی سرسبزی وہ شادابی

بھلا جنت کہاں سے لائے گی مٹی مدینے کی

جدا ہوتی نہیں ابنِ علیؑ کے پائے اطہر سے

زمینِ کربلا تک جائے گی مٹی مدینے کی

وہ انساں جو نہ حاصل کر سکے عرفاں محمدؐ کا

اسے ہرگز نہیں اپنائے گی مٹی مدینے کی

بھلا مجھ کو زمینِ ہند کب تک روک سکتی ہے

سروش اک دن مدینے جائے گی مٹی مدینے کی


آغا سروش حیدرآبادی

غالب کا رنگ میر کا لہجہ مجھے بھی دے

 غالب کا رنگ میر کا لہجہ مجھے بھی دے

لفظوں سے کھیلنے کا سلیقہ مجھے بھی دے

تیری نوازشیں ہیں ہر اک خاص و عام پر

دریا ہے تیرا نام تو قطرہ مجھے بھی دے

سجدوں کو میرے پھر تِری چوکھٹ نصیب ہو

منزل تلک پہنچنے کا رستہ مجھے بھی دے

آہ بصورتِ عشق یہ گدازیاں

 شاخسانہ


آہ بصورتِ عشق یہ گدازیاں

کبھی خود کی خود پہ جھیل تُو

کبھی عقد کر تو سرور سے

کبھی کھول نشے کی نکیل تُو

کبھی علم ہو تجھے بے خودی

کبھی خرد کو کر فیل تُو

ہنس ہنس کے بولنے کی فضا کون لے گیا

 ہنس ہنس کے بولنے کی فضا کون لے گیا

آنگن سے شور و غل کی صدا کون لے گیا

پینے لگی ہیں زہر تفکر شرارتیں

بچوں سے بھولے پن کی ادا کون لے گیا

سچ بولنے کی ساری روایت کہاں گئی

ورثے میں جو ملی تھی فضا کون لے گیا

رات ڈھلتے ہی سفیران قمر آتے ہیں

 رات ڈھلتے ہی سفیرانِ قمر آتے ہیں

دل کے آئینے میں سو عکس اُتر آتے ہیں

سیل مہتاب سے جب نقش اُبھر آتے ہیں

اوس گِرتی ہے تو پیغام شرر آتے ہیں

ساعت دید کا گُلزار ہو یا سایۂ دار

ایسے کتنے ہی مقاماتِ سفر آتے ہیں

پتھروں کے درمیاں بہتی ندی اچھی لگی

 پتھروں کے درمیاں بہتی ندی اچھی لگی

جب حصار غم میں گزری زندگی اچھی لگی

ایک پتھر پھینکنے پر گاؤں کے تالاب میں

پُر سکوں موجوں کی اکثر برہمی اچھی لگی

شب کی تنہائی میں دروازے پہ دستک دفعتاً

گُھپ اندھیرے میں اچانک روشنی اچھی لگی

باغ دل میں کوئی غنچہ نہ کھلا تیرے بعد

 باغِ دل میں کوئی غنچہ نہ کِھلا تیرے بعد

بھول کر آئی نہ اس سمت صبا تیرے بعد

تیری زلفوں کی مہک تیرے بدن کی خوشبو

ڈھونڈتی پھرتی ہے اک پگلی ہوا تیرے بعد

وہی میلے وہی پنگھٹ وہی جھولے وہی گیت

گاؤں میں پر کوئی تجھ سا نہ ملا تیرے بعد

تھک کے بیٹھا تھا کہ منزل نظر آئی مجھ کو

 تھک کے بیٹھا تھا کہ منزل نظر آئی مجھ کو 

حوصلہ دینے لگی آبلہ پائی مجھ کو 

نذر کر دیتے ہیں وہ اپنی کمائی مجھ کو 

سر اٹھانے نہیں دیتے مِرے بھائی مجھ کو 

میں جہاں جاتا ہوں اس پیکر نوری کے سوا 

اور کچھ بھی نہیں دیتا ہے دکھائی مجھ کو 

حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا

 حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا

مِرا دل تیرا جلوہ تھا، تِرا جلوہ مِرا دل تھا

ہوا نظارہ لیکن یوں کہ نظارہ بھی مشکل تھا

جہاں تک کام کرتی تھیں نگاہیں طور حائل تھا

رہا جان تمنا بن کے جب تک جان مشکل تھا

نہ تھی مشکل تو اس کے بعد پھر کچھ بھی نہ تھا دل تھا

Saturday, 11 May 2024

اس شان سے وہ آج پئے امتحاں چلے

 اِس شان سے وہ آج پئے امتحاں چلے

فتنوں نے پاؤں چُوم کے پوچھا، کہاں چلے

کیا پوچھتے ہو ہجر کے مارے کہاں چلے

آتے نہیں پلٹ کے جہاں سے وہاں چلے

کس صید پہ لیے ہوئے تیر و کماں چلے 

میں تو یہاں ہوں سینہ سپر، تم کہاں چلے

لوگ جو صاحب کردار ہوا کرتے تھے

 لوگ جو صاحبِ کِردار ہُوا کرتے تھے

بس وہی قابلِ دستار ہوا کرتے تھے

یہ الگ بات وہ تھا دورِ جہالت، لیکن

لوگ ان پڑھ بھی سمجھدار ہوا کرتے تھے

سامنے آ کے نبھاتے تھے عداوت اپنی

پیٹھ پیچھے سے کہاں وار ہوا کرتے تھے