Monday, 31 October 2016
تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے
تری ہی طرح ہمیں یاد آنے والا ہو
دل ہے چپ بول رہا ہو جیسے
کیوں جاگتے ہو کیا سوچتے ہو کچھ ہم سے کہو
کیا سوچتے ہو
کچھ ہم سے کہو
تنہا نہ رہو
سوچا نہ کرو
یادوں کے برستے بادل کو پلکوں پہ سجانا ٹھیک نہیں
جو اپنے بس کی بات نہ ہو، اس کو دہرانا ٹھیک نہیں
ہمارا کیا ہے ہماری عادت سی ہو چکی ہے
ہماری عادت سی ہو چکی ہے
شفق کی بے خواب وادیوں میں بھٹکتے رہنا
گئی بہاروں کو یاد کرنا
فریب خوردہ سماعتوں کے فسوں میں رہنا
افق میں تحلیل ہوتے رنگوں کو رتجگوں میں تلاش کرنا
آئینہ گر کے دکھ پتھرہی رہو شیشہ نہ بنو
شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں
اس شہرمیں خالی چہروں پر
آنکھیں تو ابھرآئی ہیں مگر
آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں
خاموش رہو، آواز نہ دو
ملاحت جوانی تبسم اشارا
کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے
حسرت فیصلۂ درد جگر باقی ہے
شام کا وقت ہو کچھ رنگ سبو سامنے ہو
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ
وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے
ضرور اس کی توجہ کے رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
کسے ہے لوح وقت پر دوام سوچتے رہے
کسے ہے لوح وقت پر دوام سوچتے رہے
لکھے ہوئے تھے کیسے کیسے نام سوچتے رہے
رہِ حیات میں رکا ہے کون کتنی دیر کو
مسافروں کا وقفۂ قیام سوچتے رہے
کسے خبر ہے جلوہ گاہِ یار تک پہنچنے کو
سیاہ کتنے پڑتے ہیں مقام سوچتے رہے
Sunday, 30 October 2016
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے
مرا ہی رنگ پریدہ ہر اک نظر میں رہا
یوں اک پل مت سوچ کہ اب کیا ہو سکتا ہے
اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے
زندگی کی دلفریبی سے اماں کیا پاؤں گا
ایک حکایت تھرا اٹھی ایک فسانہ جاگ اٹھا
Saturday, 29 October 2016
وقت کے ہاتھ سے گزرے ہوئے لمحوں کی طرح
آ گئے اب تو ہر اک در پہ ہی دہشت والے
یہاں پہ بادشاہت ہے یہاں محکوم رہنا ہے
کتبہ
اندھیرے جگمگاتے ہیں تری جب یاد آتی ہے
آہ کے تار سے بندھی سانسیں
Friday, 28 October 2016
اک حور گنگنا رہی تھی شب مرے سخن
مرے نصیب میں کب ہیں مرے خدائے سخن
ہم کہ جو ایک آدم کی اولاد ہیں
ایک دھرتی پہ، ایک آسماں کے تلے، سانس لیتے ہیں جو
بے لباسی کے ملبوس میں آنکھ کھلتی ہے سب کی
اور دو گز زمیں میں، اسی جامۂ اصلی میں لوٹ جاتے ہیں سب
دھوپ، بارش، ہوا، روشنی کی سبھی نعمتیں
سب پہ ارزاں ہیں یکساں
دشمن خود اپنے ہی در و دیوار ہو گئے
حسین نوع بشر کی ہے آبرو تجھ سے
اپنی پسند چھوڑ دی اس کی خرید لی
ورثے کا کھیت بیچ کے کوٹھی خرید لی
اک عمر اپنے بیٹوں کو انگلی تھمائی پھر
بوڑھے نے اک دکان سے لاٹھی خرید لی
ویسے تو نرخ کم ہی تھے گندم کے اس برس
آئی تھی تیرے گاؤں سے مہنگی خرید لی
ان آنسوؤں کو شعر کے سانچے میں ڈھال کے
باغ جنت کے زینے سے واقف نہیں
کوئی چراغ جب انکار شام بھی نہ کرے
ترا کلام سمجھ کر سلام کرتا ہوں
Thursday, 27 October 2016
موج بہار کیا گئی گل بھی گئے صبا گئی
آ گئی ہے کہاں سے پھولوں میں
اندیکھی مجبوری میں
خواب پھولوں کے دیکھتی دیوار
اک تازہ دھن اکتارے پر
کسی دور دراز جزیرے میں
اک تازہ دھن اکتارے پر
موسم کے ایک اشارے پر
ہم بارش میں پیدل گھومیں
اور سفر کریں طیارے پر
زخم دل ہے تو مندمل کیا ہو
کراچی؛ شام تھی سمندر تھا
لوگ تھے، ستارے تھے
پھول جیسے ہاتھوں میں
دل نما غبارے تھے
ساحلوں پہ میلے تھے
ہر طرف جھمیلے تھے
دن کو جو شخص میری گھات میں تھا
دل مرے حوصلے بڑھائے گا
سمندر کی طرف بہتا ملا ہے
خزاں رہی نہ کبھی موسم بہار رہا
مکینوں کے لیے اک بوجھ لشکر چھوڑ جاتے ہیں
جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا
سانس لینا بھی اشجار کی جان پر ہو چلا تھا کڑا اور ہوا چل پڑی
پرند ہوتے اگر ہم ہمارے پر ہوتے
چاندی کے لیے اور نہ سونے کے لیے ہے
مجھ سے نفرت کی عجب راہ نکالی اس نے
اسی لئے نہیں مانوس کائنات سے میں
رات بھی اب نڈھال ہے بابا
Wednesday, 26 October 2016
سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی
اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھو جاتی ہے
فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
دل کی دل کو خبر نہیں ملتی
آیا وہ مرا جان بہاراں نظر آیا
سنا ہے یہ جب سے کہ وہ آ رہے ہیں
حسن سراپا عشق مجسم صلی اللہ علیہ و سلم
Tuesday, 25 October 2016
بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہو گا
کیا غم جاں اور کیا غم جاناں سب کے محرم راز ہوئے
رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں
یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے
بدگمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
اک نئے درد کا امکان بھی ہو سکتا ہے
سفر زاد سفر اور ہم سفر تبدیل کر کے
کوفۂ شب نے جو تعبیر کی حد جاری کی
کسی قدیم تعلق کی ابتدا کی طرح
وقت کی چادر کے چھیدوں کو
اپنی سانسوں کے دھاگے سے سِینے میں
پورے چھ دن لگ جاتے ہیں
کبھی کبھی انگلی میں چُبھ جاتی ہے
عمر کی سوئی تو خوں بہتا ہے
آخری دن مرہم پٹی میں کٹ جاتا ہے
ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
بڑھ گیا تھا پیاس کا احساس دریا دیکھ کر
تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
عشق یوسف میں دل زار جو یعقوب ہوا
خزان باغ کا ہوتا ہے گلستاں باعث
رخ اپنا ہم کو دکھلایا تو ہوتا
Monday, 24 October 2016
فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا
دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطف بہار کیا
درد دل پاس وفا جذبۂ ایماں ہونا
Friday, 21 October 2016
اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
سوہنی دھرتی سوہنی دھرتی اللہ رکھے
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہو گا یہ طے ہوا تھا
دعاؤں کے دیے جب جل رہے تھے
کھویا کھویا اداس سا ہو گا
قفس کا در کھلا ایک نیم جاں کم سن پرندہ
ایک نیم جاں، کم سن پرندہ
چند خستہ زائچوں پر
رقص کے انداز میں آگے بڑھا
پھر چونچ سے اپنا پسندیدہ
مصور زائچہ اس نے اٹھایا
Thursday, 20 October 2016
کچھ لوگ جو میرے دل کو اچھے لگتے تھے
جو میرے دل کو اچھے لگتے تھے
عمروں کے ریلے میں آئے
اور جا بھی چکے
کچھ دھندوں میں مصروف ہوئے
کچھ چوہا دوڑ میں جیتے گئے
دل درد آشنا میرا کسی کا ہمزباں کیوں ہو
عاشقِ بے داد ہیں پر قیس بیاباں اور ہے
آہ مجھ پر پھر ستم ہونے لگا
تشنۂ غم کے لئے وصل کا جام اچھا ہے
کون سے درد کی طالب میری شعلہ بیانی ہے
بیتے ہوئے دنوں کی فضا یاد آ گئی
زخم تمہارے بھر جائیں گے تھوڑی دیر لگے گی
یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے
دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
اس سے پہلے کے یہ خواہش وصل مٹے
کیوں یاد کے دریا کا کنارا نہیں ہوتا
مسئلہ ہے کہ کچھ کیا جائے
آپ کی رحمتوں کے سائے ہیں
ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے
اس کے ہونٹوں سے ادا ہونے لگا ہوں اب میں
جوان ہے رات ساقیا شراب لا شراب لا
دن آ گئے شباب کے آنچل سنبھالیے
بندہ قرار دے کے ڈرانے لگے مجھے
حسن ایسا کہ جو سب کو نظر آنے کا نہیں
جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر
ہمسفر رہ میں ہوئے جو سر منزل نہ ملے
اے اہل نظر سوز ہمیں ساز ہمیں ہیں
آیا ہے وقت خاص پھر اہل نیاز پر
ہاں ساقی پھر آنکھ ملانا رات گزرنے والی ہے
یاد آتا ہے رہ کر پھر وہی زمانہ ساقی کا
لدی جو پھولوں سے تھی شاخ آشیانے کی
سب یہی کہتے ہیں مجھ کو ترا سودائی ہے
حال دل جس نے سنا گریہ کیا
خود میں ملا لے یا ہم سے آ مل
اے نورِ کامل، اے نورِ کامل
روزِ ازل بھی رشتہ یہی تھا
تُو ہم میں پنہاں ہم تجھ میں شامل
ہم سا رضا جو تم سا جفا جو
دیکھا نہ معمول پایا نہ عامل
آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے
صبح کو آہیں بھر لیں گے ہم
Wednesday, 19 October 2016
بہار بے سپر جام یار گزرے ہے
گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں
دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
اللہ ہووے بلبل ناشاد کی طرف
کوئی عشق میں مجھ سا افزوں نہ نکلا
جگر کو داغ کی مانند لالہ کیا کرتا
شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
کچھ محبت میں عجب شیوۂ دلدار رہا
آرزو مند شہادت آہ بھر کر رہ گیا
مزا الفت میں کیا دونوں کو حاصل ہو نہیں سکتا
روز کا غم تو کہیں اے دل شیدا جائے
گر وقت کڑی دھوپ ہی بن جائے تو کیا ہو
دستگیر محترم دوستو وہ جو خاموش ہیں جانے کب بول اٹھیں
وہ جو خاموش ہیں جانے کب بول اٹھیں
اس لیے چند چاندی کے چمچے منگاؤ
اور نگراں رہو
جیسے ہی لب کشائی ہو کوئی
ایک چاندی کا چمچہ
بانسری رات کے پر کیف سناٹے میں بنسی کی صدا
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ، لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی، کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں، پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آ رہی ہے اس طرح جیسے، کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی، پلکوں کو اکساتی ہوئی
Tuesday, 18 October 2016
اپنے بیماروں کو درد لادوا دینے لگے
اپنا چمن نہیں تو خزاں کیا بہار کیا
ساتھ دے گا کوئی اب کیا سر منزل میرا
یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے
یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بے گانے کہاں جاتے
تیرے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے
قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں
میری تقدیر کے لکھے ہوۓ دانے کہاں جاتے
نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی
ہجومِ غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے
تیرہ بختی کو کسی طرح چھپایا نہ گیا
تِیرہ بختی کو کسی طرح چھپایا نہ گیا
دو قدم چھوڑ کے مجھ کو مِرا سایا نہ گیا
تیرے آگے سرِ تسلیم جھکایا نہ گیا
تِرے ہوتے بھی خدا تجھ کو بنایا نہ گیا
الله، الله، مِرے دل میں سمانے والے
وسعتِ کون و مکاں میں بھی سمایا نہ گیا
دوئی کا تذکرہ توحید میں پایا نہیں جاتا
دوئی کا تذکرہ توحید میں پایا نہیں جاتا
جہاں میری رسائی ہے مِرا سایا نہیں جاتا
کسی سے میری منزل کا پتہ پایا نہیں جاتا
جہاں میں ہوں فرشتوں سے وہاں جایا نہیں جاتا
مِرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے در سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا
دل کے صحرا میں کهوئے ہوئے دوستو سوچنا چهوڑ دو
گھر کے باہر ہے زمستان بہت سردی ہے
Monday, 17 October 2016
درون ذات پرندوں کا شور تب سے اٹھا
جاں لٹا سکتے ہیں اپنی دل بہا سکتے ہیں ہم
چشمِ تر سے آنسوؤں نے رواں ہونا ہی تھا
خوشی دے کر جو غم پایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا
کچھ بول میر کارواں (مکمل)
صبا غنچوں کو مہکاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
ہماری شرط وفا یہی ہے وفا کرو گے وفا کریں گے
خیالی ملاقات ہوتی رہی
ہمارے عزم مسلسل کی تاب و تب دیکھو
ہجر و وصال کی گرمی سہتا ہے
طلب آسودگی کی عرصہ دنیا میں رکھتے ہیں
تم نے خبر نہ لی مرے حال خراب کی
کب تک دل مایوس کو برباد کریں گے
قید غم حیات سے گھبرا رہا ہوں میں
ظلمتوں کے نرغے میں روشنی کا ہالا ہے
ہم صبح میں ڈھالیں گے رخ شام ہمیں دو
کہاں چلے ہو مجھے چھوڑ دوستاں تنہا
اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے
Sunday, 16 October 2016
سکوت نیم شبی میں صدا لگاتا ہوا
مٹنے والا تھا جو اک نقش ابھارا میں نے
بنا کے عرش معلی نماز پڑھتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بنا کے عرشِ معلّی، نماز پڑھتا ہے
امام خاک پہ بیٹھا نماز پڑھتا ہے
سوار گِرتے رہے ٹُوٹتی رہی تسبیح
بوقتِ عصر اکیلا نماز پڑھتا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ قیدی امام کے پیچھے
ہر ایک ماتمی حلقہ نماز پڑھتا ہے
کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے
نہ اب ہم سا کوئی پیاسا ملے گا
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
اک خواب دل آویز کی نسبت سے ملا کیا
نہ معجزہ ہے کربلا نہ حادثہ ہے کربلا
زرہ صبر سے پیکان ستم کھینچتے ہیں
اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
سرفروشی ہے ایماں تمہارا
جرأتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کرے سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
اے شجاعت کے زندہ نشانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
اللہ اکبر اللہ اکبر ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں
دین ہمارا دینِ مکمل، استعمار ہے باطلِ ارذل
خیر ہے جد و جہدِ مسلسل
عند اللہ، عنداللہ، عنداللہ، عنداللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
وہ شفیعنا وہ حبیبنا کہ جو ہیں نہایت جستجو
مجھے اپنے پاس بلا لیا مجھے دی اجازت گفتگو
بَلَغَ العُلےٰ بکمالہٖ، یہ پڑھا انہی کے حضور میں
کَشَفَ الدُّجےٰ بِجَمَالِہِ یہ کہا ان کے رو برو
حَسُنَت جَمِیعُ خِصَالِہٖ یہی اک پیام قدم قدم
صَلُّو عَلَیہِ وَ آلِہٖ یہی اک کلام ہے کو بہ کو
Saturday, 15 October 2016
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
نہیں کہ آگ تری انگلیوں کے مس میں نہیں
کبھی خود کو درد شناس کرو کبھی آؤ نا
ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
بت کیا ہیں بشر کیا ہے یہ سب سلسلہ کیا ہے
پھونک ڈالے تپش غم تو برا بھی کیا ہے
میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایہ ہوتا
اس گرمی بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
کہاں میں کہاں مدح ذات گرامی
سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
دعائے شام و سحر لا الٰہ الا اللہ
ذرہ بھی اگر رنگ خدائی نہیں دیتا
Friday, 14 October 2016
ہے نام سے خدا کے آغاز کا اجالا
ہے نام سے خدا کے آغاز کا اجالا
جو مہربان بڑا ہے، بے حد جو رحم والا
تعریف سب خدا کی، جو رب ہے عالموں کا
جو مہرباں بڑا ہے، بے حد جو رحم والا
محشر کے دن کا مالک، روزِ جزا کا والی
تجھ کو ہی پوجتے ہیں، ہم تیرے ہی سوالی
آدمی اک تضاد باہم ہے
کبھی جنت کبھی جہنم ہے
غم ہے اک نعمتِ خداوندی
جتنا برتو اسی قدر کم ہے
التفات آپ کا بجا،۔ لیکن
کیا خوشی ہے کہ آنکھ پُرنم ہے
دل کے معاملے میں فقط ہم ہی ہم نہیں
لوگ کہتے ہیں عبادت کو بھلا رکھا ہے
جیسے وہ تمکا چاہت ہیں
دل کو دھڑکا ہے کہ اس کا بھی پتا کوئی نہیں
نقش بر آب تھا مجھ کو تھی بقا یوں ہی کب
جلتا کب تک وہ اک دیا آخر
کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا
پہلا پتھر صبا ہمارے رفیقوں سے جا کے یہ کہنا
ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا
سنتے رہے ہم، لب پہ تِرا نام نہ آیا
دیوانے کو تکتی ہیں تِرے شہر کی گلیاں
نکلا، تو اِدھر لَوٹ کے بدنام نہ آیا
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا