Monday, 31 October 2016

تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے

تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گئے
دنیا یہ کہہ رہی ہے مۓ خوار ہو گئے
دو گھونٹ کیا پیۓ کہ گناہگار ہو گئے
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے

تری ہی طرح ہمیں یاد آنے والا ہو

تِری ہی طرح ہمیں یاد آنے والا ہو
تِرے سوا بھی کوئی تو ستانے والا ہو
وہ کس امید پہ گھر میں رہے کہ جس گھر میں
نہ آنے والا ہو کوئی،۔ نہ جانے والا ہو
ہے دوستوں کے لیے آئینہ نظر میری
نظر ملائے جو نظریں ملانے والا ہو

دل ہے چپ بول رہا ہو جیسے

دل ہے چپ بول رہا ہو جیسے
خود میں غم گھول رہا ہو جیسے
اب وہ یوں دیکھ رہا ہے مجھ کو 
ظرف کو تول رہا ہو جیسے
گھِر کے پھر آ گئے کالے بادل 
زلف وہ کھول رہا ہو جیسے

کیوں جاگتے ہو کیا سوچتے ہو کچھ ہم سے کہو

کیوں جاگتے ہو
کیا سوچتے ہو
کچھ ہم سے کہو
تنہا نہ رہو
سوچا نہ کرو
یادوں کے برستے بادل کو پلکوں پہ سجانا ٹھیک نہیں
جو اپنے بس کی بات نہ ہو، اس کو دہرانا ٹھیک نہیں

ہمارا کیا ہے ہماری عادت سی ہو چکی ہے

ہمارا کیا ہے
ہماری عادت سی ہو چکی ہے
شفق کی بے خواب وادیوں میں بھٹکتے رہنا
گئی بہاروں کو یاد کرنا
فریب خوردہ سماعتوں کے فسوں میں رہنا
افق میں تحلیل ہوتے رنگوں کو رتجگوں میں تلاش کرنا

آئینہ گر کے دکھ پتھرہی رہو شیشہ نہ بنو

آئینہ گر کے دُکھ

پتھر ہی رہو، شیشہ نہ بنو
شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں
اس شہرمیں خالی چہروں پر
آنکھیں تو ابھرآئی ہیں مگر
آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں
خاموش رہو، آواز نہ دو

ملاحت جوانی تبسم اشارا

ملاحت، جوانی، تبسم، اشارا
انہیں کافروں نے تو شاعر کو مارا
محبت بھی ظالم عجب بے بسی ہے
نہ وہ ہی ہمارے، نہ دل ہی ہمارا
میں تنکوں کا دامن پکڑتا نہیں ہوں
محبت میں ڈوبا تو کیسا سہارا

کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے

کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے
یہ بادل اڑ کے آتے ہیں مگر سایا نہیں کرتے
یہی کانٹے تو کچھ خوددار ہیں صحن گلستاں میں
کہ شبنم کے لیے دامن تو پھیلایا نہیں کرتے
وہ لے لیں گوشۂ دامن میں اپنے یا فلک چن لے
مِری آنکھوں میں آنسو بار بار آیا نہیں کرتے

حسرت فیصلۂ درد جگر باقی ہے

حسرتِ فیصلۂ دردِ جگر باقی ہے
اور ابھی سلسلۂ شام و سحر باقی ہے
آئیے اور نظر سے بھی زمانہ دیکھیں 
زندگی ہے تو محبت کی نظر باقی ہے
یا مِری صبح میں رونق نہیں ہنگاموں کی
یا مِری شام بعنوانِ سحر باقی ہے

شام کا وقت ہو کچھ رنگ سبو سامنے ہو

شام کا وقت ہو کچھ رنگ سبو سامنے ہو
یا کوئی آئینہ چیں، آئینہ رو سامنے ہو
یا کوئی نغمہ بہ عنوان تخیل گونجے
یا کوئی شعلہ بہ انداز نمو سامنے ہو
تُو نہ ہو تو تِرا اک پرتوِ گل رنگ سہی
میں یہ کب کہتا ہوں اے دوست کہ تُو سامنے ہو

میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے

 میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے

یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے

کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ

وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے

ضرور اس کی توجہ کے رہبری ہو گی

نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے

کسے ہے لوح وقت پر دوام سوچتے رہے

 کسے ہے لوح وقت پر دوام سوچتے رہے

لکھے ہوئے تھے کیسے کیسے نام سوچتے رہے

رہِ حیات میں رکا ہے کون کتنی دیر کو

مسافروں کا وقفۂ قیام سوچتے رہے

کسے خبر ہے جلوہ گاہِ یار تک پہنچنے کو

سیاہ کتنے پڑتے ہیں مقام سوچتے رہے

Sunday, 30 October 2016

ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم

ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم 
دل لے کے سرِ عرصۂ غم آ تو گئے ہم 
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا 
رودادِ وفا، دار پہ دہرا تو گئے ہم 
کہتے تھے جو اب کوئ جاں سے نہیں گزرتا 
لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم 

اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا

اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا ہی نہیں پیارے با اجازت لکھنا
نہ صلہ کی، نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا

اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے

اب کیا سوچیں کیا حالات تھے، کس کارن یہ زہر پیا ہے
ہم نے اس کے شہر کو چھوڑا اور آنکھوں کو مُوند لیا ہے
اپنا یہ شیوہ تو نہیں تھا،۔۔۔ اپنے غم اوروں کو سونپیں
خود تو جاگتے یا سوتے ہیں اس کو کیوں بے خواب کیا ہے
خلقت کے آوازے بھی تھے بند اس کے دروازے بھی تھے
پھر بھی اس کوچے سے گزرے پھر بھی اس کا نام لیا ہے

مرا ہی رنگ پریدہ ہر اک نظر میں رہا

مِرا ہی رنگ پریدہ ہر اک نظر میں رہا
وگرنہ درد کا موسم تو شہر بھر میں رہا
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
کچھ اس طرح سے گزری ہے زندگی جیسے
تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا

یوں اک پل مت سوچ کہ اب کیا ہو سکتا ہے

یوں اک پَل مت سوچ کہ اب کیا ہو سکتا ہے
اک لمحے کی اوٹ بھی، فردا ہو سکتا ہے
ان آنکھوں کے اندر بھی درکار ہیں آنکھیں
چہرے کے پیچھے بھی چہرہ ہو سکتا ہے
کچھ روحیں بھی چلتی ہیں بیساکھی لے کر
آدھا شخص بھی، پورے قد کا ہو سکتا ہے

اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے

اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے
چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
تنہا میں جل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ
ان تک گئی جو آگ،۔ بجھانے لگے مجھے
آنکھوں میں جب تلک رہے کتنا غریب تھا
آنسو لٹا دئیے تو خزانے لگے مجھے

زندگی کی دلفریبی سے اماں کیا پاؤں گا

زندگی کی دل فریبی سے اماں کیا پاؤں گا
میں اسی کافر ادا پر جاں فدا کر جاؤں گا
ناصحا! اس بات کا کچھ پہلے کر لے فیصلہ
تُو مجھے سمجھائے گا یا میں تجھے سمجھاؤں گا
ہر مکاں سے ہی کوئی آواز اگر آنے لگی
میں تجھے پہچاننے کس کس مکاں میں جاؤں گا

ایک حکایت تھرا اٹھی ایک فسانہ جاگ اٹھا

ایک حکایت تھرّا اٹھی ایک فسانہ جاگ اٹھا
اس نے جدھر کو ہنس کر دیکھا حیرت خانہ جاگ اٹھا
میرے جنوں نے چپ سادھی تھی اسکی نظر پھر ہنسنے لگی
اک دیوانہ سویا ہی تھا،۔۔ اک دیوانہ جاگ اٹھا
شمع اکیلی جلتی رہی کل رات بڑی مایوسی سے
جونہی مگر وہ راکھ ہوئی مورکھ پروانہ جاگ اٹھا

Saturday, 29 October 2016

وقت کے ہاتھ سے گزرے ہوئے لمحوں کی طرح

وقت کے ہاتھ سے گزرے ہوئے لمحوں کی طرح
بھول جاؤ گے مجھے تم بھی تو لوگوں کی طرح
راہ میں، ہر کسی پتھر کو نہ ٹھوکر پہ رکھو
کچھ پڑے سنگ بھی ہوتے ہیں نگینوں کی طرح
جسم ہلکان ہو زخموں سے تو ایسا بھی نہیں
خون بہہ سکتا ہے آنکھوں سے بھی اشکوں کی طرح

آ گئے اب تو ہر اک در پہ ہی دہشت والے

آ گئے اب تو ہر اک در پہ ہی دہشت والے
مر گئے لوگ تو اس شہر کی حرمت والے
وہ جو ہجرت تھی کہانی میں لہو سے منسوب
کیا وہی لوگ وطن سے تھے محبت والے
اب ہے جذبوں میں تجارت بھی ملاوٹ کی طرح
رہ گئے اب تو سبھی رشتے ضرورت والے

یہاں پہ بادشاہت ہے یہاں محکوم رہنا ہے

یہاں پہ بادشاہت ہے، یہاں محکوم رہنا ہے
ابھی ساری بہاروں کو خیالوں کو سوالوں میں
یہاں جمہور کے قصے رہیں گے چند حوالوں تک
ذہن رہ جائیں گے قیدی غلامی کے نصابوں میں
اگر یہ روشنی آزادی ‎اظہار ہی گم ہے
سبق کس کا دیا جاتا ہے بچوں کو کتابوں میں

کتبہ

کتبہ

میں نے اپنے گھر کے
سب لوگوں کے چہروں کی
اونچی دیوار کے پیچھے 
اس کا چہرہ چُن دیا ہے
اس اونچی دیوار سے لگ کے 
رو رہی ہے ۔۔ انارکلی

بشریٰ حزیں

اندھیرے جگمگاتے ہیں تری جب یاد آتی ہے

اندھیرے جگمگاتے ہیں تِری جب یاد آتی ہے
ستارے مسکراتے ہیں تِری جب یاد آتی ہے
تمہارے ساتھ وابستہ ہماری ذات ہے ایسے
ہمِیں ہم یاد آتے ہیں تِری جب یاد آتی ہے
ترنم ہو، تخیل ہو کہ جانِ شاعری تم ہو
نظارے گنگناتے ہیں تِری جب یاد آتی ہے

آہ کے تار سے بندھی سانسیں

آہ کے تار سے بندھی سانسیں
ہائے یہ زہر میں بجھی سانسیں
کاٹتی کیوں نہیں رگِ ہستی
اف یہ سینے کو کاٹتی سانسیں
رات میں زہر گھول دیتی ہیں 
جاگتی اور سوچتی سانسیں

Friday, 28 October 2016

اک حور گنگنا رہی تھی شب مرے سخن

اک حور گنگنا رہی تھی شب مِرے سخن
خود مجھ کو بھولنے لگے تھے تب مِرے سخن
ہونٹوں کے تِل کو بھول گئے سارے نکتہ چیں
ایسے نِپے تُلے تھے تِرے لب مِرے سخن
رِندوں میں دھوم تھی مِری غزلوں کی خیر سے
زاہد نے بھی اٹھا لیے ہیں اب مِرے سخن

مرے نصیب میں کب ہیں مرے خدائے سخن

مِرے نصیب میں کب ہیں مِرے خدائے سخن
وہ چند حرف جو دائم ہوں ماورائے سخن
ہے تیرے نام سے آغاز منتہائے سخن
تِری خبر جو نہیں میرے مبتدائے سخن
یہ کم نصیبی بھی کم کم نصیب ہوتی ہے
تِری تلاش میں نکلے تو ڈھونڈ لائے سخن

ہم کہ جو ایک آدم کی اولاد ہیں

ایک آدمؑ کی اولاد

ہم کہ جو ایک آدمؑ کی اولاد ہیں
ایک دھرتی پہ، ایک آسماں کے تلے، سانس لیتے ہیں جو
بے لباسی کے ملبوس میں آنکھ کھلتی ہے سب کی
اور دو گز زمیں میں، اسی جامۂ اصلی میں لوٹ جاتے ہیں سب
دھوپ، بارش، ہوا، روشنی کی سبھی نعمتیں
سب پہ ارزاں ہیں یکساں

دشمن خود اپنے ہی در و دیوار ہو گئے

دشمن خود اپنے ہی در و دیوار ہو گئے
ہم تم سے پیار کر کے گنہ گار ہو گئے
پھیلے تو سب جہاں کو ملی ہم سے روشنی 
سمٹے تو تیرا سایۂ دیوار ہو گئے
اک سازِ بے صدا کی طرح ہم خموش تھے
گویا ہوئے تو شعلۂ اظہار ہو گئے

حسین نوع بشر کی ہے آبرو تجھ سے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام عالی مقام

حسینؓ نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے
حدیثِ حرمتِ انساں ہے سرخرو تجھ سے
ملایا خاک میں تُو نے ستمگروں کا غرور
یزیدیت کے ارادے ہوئے لہو تجھ سے
بہت بلند ہے تیری جراحتوں کا مقام
صداقتوں کے چمن میں ہے رنگ و بُو تجھ سے

اپنی پسند چھوڑ دی اس کی خرید لی

اپنی پسند چھوڑ دی اس کی خرید لی
ورثے کا کھیت بیچ کے کوٹھی خرید لی
اک عمر اپنے بیٹوں کو انگلی تھمائی پھر
بوڑھے نے اک دکان سے لاٹھی خرید لی
ویسے تو نرخ کم ہی تھے گندم کے اس برس
آئی تھی تیرے گاؤں سے مہنگی خرید لی

ان آنسوؤں کو شعر کے سانچے میں ڈھال کے

ان آنسوؤں کو شعر کے سانچے میں ڈھال کے
خوش ہوں میں اپنےضبط کو دھوکے میں ڈال کے
سن، اے خیال یار! فراغت تو دے مجھے
لے لوں ذرا میں جائزے دنیا کے حال کے
”کہہ دو جو ایک بار “مجھے تم سے پیار ہے
اثرات کب رہیں گے یہ حزن و ملال کے

باغ جنت کے زینے سے واقف نہیں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

باغِ جنت کے زینے سے واقف نہیں 
جو ہمارے مدینے سے واقف نہیں
عطر اپنی جگہ، پھول اپنی جگہ 
تُو کسیؐ کے پسینے سے واقف نہیں
ورنہ یوں راستے میں اترتا ہے کون 
غالباً تُو سفینے سے واقف نہیں

کوئی چراغ جب انکار شام بھی نہ کرے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام عالی مقام

کوئی چراغ جب انکارِ شام بھی نہ کرے
کرے گا کون، اگر یہ امام بھی نہ کرے
مِری کسی سے نہیں دشمنی مگر جو شخص 
نہیں حسین کا، مجھ سے کلام بھی نہ کرے
گِراں گزرتی ہے جس دل پہ یادگارِ حسین 
حضورِ حق میں سجود و قیام بھی نہ کرے

ترا کلام سمجھ کر سلام کرتا ہوں

نعتِ رسولِ مقبولﷺ

تِرا کلام سمجھ کر سلام کرتا ہوں
میں روشنی کا بہت احترام کرتا ہوں
مجھے شعور نہیں نعت کیسے ہوتی ہے
قلم کے ساتھ سجود و قیام کرتا ہوں
میں دان کرتا ہوں گھر گھر جو دُر عقیدت کے
خدا کی خاص عنایت کو عام کرتا ہوں

Thursday, 27 October 2016

موج بہار کیا گئی گل بھی گئے صبا گئی

موجِ بہار کیا گئی، گل بھی گئے، صبا گئی
شاخِ شجر یہ دیکھ کر سکتے میں جیسے آ گئی
شاخ پہ میری نغمہ سنج کتنے طیور تھے مگر
آئی خزاں تو ایک اک صورتِ آشنا گئی
حرفِ وفا میں روشنی آئے کہاں سے دوستو
جتنے دِیے تھے شہر میں سارے ہوا بجھا گئی

آ گئی ہے کہاں سے پھولوں میں

آ گئی ہے کہاں سے پھولوں میں
موجِ خوشبو کہ تھی نہ شاخوں میں
ان لبوں سے چرا کے لائے ہیں
رنگ ایسے نہ تھے گلابوں میں
دیکھتا ہی رہا انہیں ساحل
کھو گئے ہیں حباب موجوں میں

اندیکھی مجبوری میں

ان دیکھی مجبوری میں
پھول کھلا ہے کھڑکی میں
کس سے ملنے جاتا ہے
دریا بیٹھ کے کشتی میں
عکس فلک پر روشن ہے
چاند ہے بہتے پانی میں

خواب پھولوں کے دیکھتی دیوار

خواب پھولوں کے دیکھتی دیوار
اُس کے گھر تک پہنچ گئی دیوار
پوچھتے ہو کہ اَن کہی کیا ہے
تم نے دیکھی نہیں کبھی دیوار 
تُو نہیں ہے تو اب تِری تصویر
دیکھتی ہے گھڑی گھڑی دیوار

اک تازہ دھن اکتارے پر

اک تازہ دھن اکتارے پر

اس شور بھرے سیارے پر
کسی دور دراز جزیرے میں
اک تازہ دھن اکتارے پر
موسم کے ایک اشارے پر
ہم بارش میں پیدل گھومیں
اور سفر کریں طیارے پر

زخم دل ہے تو مندمل کیا ہو

زخمِ دل ہے تو مندمل کیا ہو
اور زخمی نہ ہو تو دل کیا ہو
جو سراپا ہو سنگِ مرمر کا
وہ اگر ہو نہ سنگ دل، کیا ہو
ہِجر لاحق ہو جس کو صدیوں سے
اس کو سرطان کیا ہو، سِل کیا ہو

کراچی؛ شام تھی سمندر تھا

کراچی

شام تھی، سمندر تھا
لوگ تھے، ستارے تھے
پھول جیسے ہاتھوں میں
دل نما غبارے تھے
ساحلوں پہ میلے تھے
ہر طرف جھمیلے تھے

دن کو جو شخص میری گھات میں تھا

دن کو جو شخص میری گھات میں تھا
شب جو آئی، مِری ہی ذات میں تھا
اس نے مانگا نہ اک ستارہ بھی
آسماں جبکہ میرے ہات میں تھا
درس دیتا ہُوا بغاوت کا
ایک جگنو اندھیری رات میں تھا

دل مرے حوصلے بڑھائے گا

دل مِرے حوصلے بڑھائے گا
ہجر کا لمحہ بِیت جائے گا
بولتا ہے منڈیر پر کوّا
آج کوئی ضرور آئے گا
کشتیوں کو ابھارنے والا
ایک دن خود ہی ڈوب جائے گا

سمندر کی طرف بہتا ملا ہے

سمندر کی طرف بہتا ملا ہے
جو دریا بھی ملا پیاسا ملا ہے
کوئی دیکھے مِری معراجِ وحشت
مجھے دریا میں بھی صحرا ملا ہے
خضرؑ کی رہنمائی میں چلا تھا
یہی جو راہ میں بھٹکا ملا ہے

خزاں رہی نہ کبھی موسم بہار رہا

خزاں رہی نہ کبھی موسم بہار رہا
چمن تو گردشِ حالات کا شکار رہا
عجیب رنگ ہے اب کے برس بہاروں کا
نہ گل کھلے نہ کوئی نخلِ سایہ دار رہا
عجیب بات ہے ہم نے کسی سے کچھ نہ کہا
ہجومِ غم میں ہمیں دل پہ اختیار رہا

مکینوں کے لیے اک بوجھ لشکر چھوڑ جاتے ہیں

مکینوں کے لیے اک بوجھ لشکر چھوڑ جاتے ہیں
گرا دیتے ہیں دیواریں، تو پتھر چھوڑ جاتے ہیں
یہ کمسن پھول سے چہرے زمیں کی گود میں سو کر
گھروں میں گھومتے سایوں کے پیکر چھوڑ جاتے ہیں
سُبک رفتار لمحے پھر کبھی واپس نہیں آتے
یہ اَن تھک راہرو، انساں کو اکثر چھوڑ جاتے ہیں

جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا
سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا
حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا
جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا
کچھ اس لیے بھی تِرے نام کے ہوئے دشمن
تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا

سانس لینا بھی اشجار کی جان پر ہو چلا تھا کڑا اور ہوا چل پڑی

سانس لینا بھی اشجار کی جان پر ہو چلا تھا کڑا، اور ہوا چل پڑی
پھر سے رنگِ فضا معتدل ہو گیا، حبس حد سے بڑھا، اور ہوا چل پڑی
پار اترنے کے پختہ ارادے مِرے، لے گئے سمتِ ساحل اڑا کر مجھے
نرم رو موجِ دریا پہ تیرا ہی تھا میرا کچا گھڑا، اور ہوا چل پڑی
اپنے گھوڑوں کی اڑتی ہوئی دھول نے میرے دشمن کے لشکر کو اندھا کیا
ہم پیادوں کا یوں ہی بھرم رہ گیا، پہلا دستہ لڑا، اور ہوا چل پڑی

پرند ہوتے اگر ہم ہمارے پر ہوتے

پرندے ہوتے اگر ہم، ہمارے پر ہوتے
ذرا سی دیر میں اک دوسرے کے گھر ہوتے
بھلے سے ہجر کی راتین طویل تر ہوتیں
مگر نہ وصل کے دن اتنے مختصر ہوتے
ہم اپنے محور و مرکز سے کٹ گئے ورنہ
اس ایک در کے جو ہوتے نہ در بدر ہوتے

چاندی کے لیے اور نہ سونے کے لیے ہے

چاندی کے لیے اور نہ سونے کے لیے ہے 
بچے کا سبھی شور کھلونے کے لیے ہے
دیتا ہے شب و روز مجھے ایک ہی احساس
جو کچھ ہے مِرے پاس وہ کھونے کے لیے ہے
دل تیرے تصور میں تڑپنے پہ ہے مامور
اور آنکھ غمِ ہجر میں رونے کے لیے ہے

مجھ سے نفرت کی عجب راہ نکالی اس نے

مجھ سے نفرت کی عجب راہ نکالی اس نے
میرے دشمن سے بہت دوستی پالی اس نے
وہ میرے در کی روایت سے بہت واقف تھا
میرا سر مانگ لیا بن کے سوالی اس نے
میری میت سے اسے آۓ گی اپنی خوشبو 
بس یہی سوچ کے مٹی نہیں ڈالی اس نے

اسی لئے نہیں مانوس کائنات سے میں

اسی لیے نہیں مانوس کائنات سے میں
ہر ایک لمحہ بچھڑتا ہوں اپنی ذات سے میں
مِرے غروب کا ماتم نہ کر میں زندہ ہوں 
کہ مجھ سے رات پِنپتی ہے اور رات سے میں
ابھی تو سانس کے زِنداں سے آ رہی ہے صدا 
تھکا نہیں ہوں ابھی شرحِ حادثات سے میں

رات بھی اب نڈھال ہے بابا

رات بھی اب نڈھال ہے بابا
روشنی کا سوال ہے بابا
کچھ نہيں خدوخال کی صورت
سب تمنا کا جال ہے بابا
يہ سمندر تو سوکھ جاتے ہيں
تشنگی لازوال ہے بابا

Wednesday, 26 October 2016

سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی

سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی 
چراغ جلتے ہیں اور روشنی نہیں آتی
کسی کے ناز پہ افسردہ خاطری دل کی 
ہنسی کی بات ہے پھر بھی ہنسی نہیں آتی
نہ پوچھ ہیّت طرف و چمن کہ ایسی بھی 
بہار باغ میں بہکی ہوئی نہیں آتی

اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھو جاتی ہے

اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھو جاتی ہے
شب کو آ کر مِرے آغوش میں سو جاتی ہے
یہ نگاہوں کے اندھیرے نہیں چھٹنے پاتے
صبح کا ذکر نہیں، صبح تو ہو جاتی ہے
رشتۂ جاں کو سنبھالے ہوں کہ اکثر تِری یاد
اس میں دو چار گہر آ کے پِرو جاتی ہے

فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے

فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خون ہی خون مجھے رنگِ سحر لگتا ہے
مان لوں کيسے کہ ميں عيب سراپا ہوں فقط
ميرے احباب کا يہ حسنِ نظر لگتا ہے
کل جسے پھونکا تھا يہ کہہ کے کہ دشمن کا ہے گھر
سوچتا ہوں تو وہ آج اپنا ہی گھر لگتا ہے

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

سرِ محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے​
تُو نے روکا بھی تھا مجرم کی خطا سے پہلے ​
اشک آنکھوں میں ہیں، ہونٹوں پہ بُکا سے پہلے ​
قافلہ غم کا چلا،۔ بانگِ درا سے پہلے ​
اڑ گیا جیسے یکایک میرے شانوں پر سے ​
وہ جو اک بوجھ تھا، تسلیمِ خطا سے پہلے​

دل کی دل کو خبر نہیں ملتی

دل کی دل کو خبر نہیں مِلتی
جب نظر سے نظر نہیں ملتی
سحر آئ ہے دن کی دھوپ لیے
اب، نسیمِ سحر نہیں ملتی
دلِ معصوم کی وہ پہلی چوٹ
دوستوں سے نظر نہیں ملتی

آیا وہ مرا جان بہاراں نظر آیا

آیا وہ مِرا جانِ بہاراں نظر آیا
ہر سمت گلستاں ہی گلستاں نظر آیا
پھر چھیڑ دیا روح کو مضرابِ نظر نے
پھر تیر سا پیوستِ رگِ جاں نظر آیا
پھر کاکلِ شبرنگ میں جھلکا رخِ روشن 
پھر کُفر کے آغوش میں اِیماں نظر آیا

سنا ہے یہ جب سے کہ وہ آ رہے ہیں

سُنا ہے یہ جب سے کہ وہ آ رہے ہیں
دل و جاں دیوانے ہوئے جا رہے ہیں
معطر ، معطر، خراماں، خراماں
نسیم آ رہی ہے، کہ وہ آ رہے ہیں
نگاہیں گلابی، ادائیں شرابی
بہکتے مچلتے چلے آ رہے ہیں

حسن سراپا عشق مجسم صلی اللہ علیہ و سلم

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہدیۂ نعت بحضور سرورِ کائناتﷺ

حُسن سراپا، عشقِ مجسم، صلی اللہ علیہ و سلم
رُوئے منور گیسوئے پُرخم، صلی اللہ علیہ و سلم
سوز سراپا، درد مجسم، عاشقِ امت، شافعِ عالم 
آنسو تیرے، شبنم، شبنم، صلی اللہ علیہ و سلم
صاحبِ قرآں فخرِ رسولاں خسروِ دین و رحمتِ یزداں
بادۂ عرفاں، ساقیٔ عالم، صلی اللہ علیہ و سلم

Tuesday, 25 October 2016

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لائے ہیں ویرانوں کی
کل گنے جائیں گے زمرے میں ستم رانوں کے
خیر مانگیں گے اگر آج ستم رانوں کی
خواب باطل بھی تو ہوتے ہیں تن آسمانوں کے
سعئ مشکور بھی ہوتی ہے گراں جانوں کی

پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہو گا

پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہو گا
زخمِ دیرینہ سے پھر خون ہی ٹپکا ہو گا
بِیتی باتوں کے وہ ناسُور ہرے پھر ہوں گے
بات نکلے گی تو پھر بات کو رکھنا ہو گا
یورشیں کر کے اُمڈ آئیں گی سُونی شامیں
لاکھ بھٹکیں کسی عنوان نہ سویرا ہو گا

کیا غم جاں اور کیا غم جاناں سب کے محرم راز ہوئے

کیا غمِ جاں اور کیا غمِ جاناں سب کے محرمِ راز ہوئے
اب مجبورِ نوا بھی نہیں ہیں، اب تو پردۂ ساز ہوئے
خوئے فراق ہی آڑے آئی آخر ہم مجبوروں کے
میل ملاپ پہ قادر جب سے آپ ایسے دم باز ہوئے
لازم ہے درویش کی خاطر پردہ دنیا داری کا
ورنہ ہم تو فقیر ہیں جب سے یار زمانہ ساز ہوئے

رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں

رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں 
جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قیدِ مقام کہاں
بھیگی رات ہے سونی گھڑیاں اب وہ جلوۂ عام تمام 
بندھن توڑ کے جاؤں لیکن اے دلِ ناکام! کہاں
اب وہ حسرت رسوا بن کر جزوِ حیات ہے برسوں سے 
جس سے وحشت کرتے تھے تم اب وہ خیالِ خام کہاں

یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے

یہاں کی فکر وہاں کا خیال رکھا ہے 
اکیلے دونوں جہاں کو سنبھال رکھا ہے 
سیاہ گیسو کو شانوں پہ ڈال رکھا ہے
بلا کا سانپ سپیرے نے پال رکھا ہے
مجھے تو حشر کے وعدے پہ ٹال رکھا ہے
اجل کا نام بدل کر وصال رکھا ہے  

بدگمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا

بدگمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا 
زندہ رکھنے کے لیے رکھا ہے اچھا سلسلہ
اک مِٹایا، دوسرا ارمان پیدا کر دیا 
آپ سمجھانے بھی آئے قبلہ و کعبہ تو کب
عشق نے جب بے نیازِ دین و دنیا کر دیا 

اک نئے درد کا امکان بھی ہو سکتا ہے

اک نئے درد کا امکان بھی ہو سکتا ہے
دل تو خوشیوں سے پریشان بھی ہو سکتا ہے
ایک ہی ہاتھ میں پتھر بھی ہے آئینہ بھی 
اس تعلق میں تو نقصان بھی ہو سکتا ہے
یہ جو اک اشک لرزتا ہے مِری پلکوں پر 
سات دریاؤں کا عنوان بھی ہو سکتا ہے

سفر زاد سفر اور ہم سفر تبدیل کر کے

سفر، زادِ سفر اور ہم سفر تبدیل کر کے
بہت پچھتا رہا ہوں رہگزر تبدیل کر کے
تيری خواہش ہے اب کے اور نہ تيری آرزو ہے
پرندے جا چکے ہیں يہ شجر تبدیل کر کے 
سو لازم ہے غلط فہمی دلوں ميں اور بڑھ جائے 
کہ پہنچائی گئی ہے مجھ تک خبر تبدیل کر کے 

کوفۂ شب نے جو تعبیر کی حد جاری کی

کوفۂ شب نے جو تعبیر کی حد جاری کی
میں نے جلتے ہوئے خوابوں کی عزاداری کی
وقت نے اس کے مقدر میں لکھی تاریکی 
جس نے چڑھتے ہوئے سورج کی طرفداری کی
دل دھڑکنے پہ مصر تھا سو دھڑکتا ہی رہا 
لمحۂ دید نے آنکھوں کی نگہ داری کی

کسی قدیم تعلق کی ابتدا کی طرح

کسی قدیم تعلق کی ابتدا کی طرح
وه شخص ایک سمندر ہے میں ہوا کی طرح
یہ کس نگاه کی تقدیس کا خیال آیا 
کہ آ گئی ہے غزل ہونٹ پر دعا کی طرح
پلک سے روح تلک بهیگتا رہا شب بھر
کسی کی یاد برستی رہی گهٹا کی طرح

وقت کی چادر کے چھیدوں کو

وقت کی چادر کے چھیدوں کو
اپنی سانسوں کے دھاگے سے سِینے میں
پورے چھ دن لگ جاتے ہیں
کبھی کبھی انگلی میں چُبھ جاتی ہے
عمر کی سوئی تو خوں بہتا ہے
آخری دن مرہم پٹی میں کٹ جاتا ہے

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم
کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم
کاہے کا ترکِ وطن، کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی، اسی دیش کی اولاد ہیں ہم

بڑھ گیا تھا پیاس کا احساس دریا دیکھ کر

بڑھ گیا تھا پیاس کا احساس دریا دیکھ کر
ہم پلٹ آئے مگر پانی کو پیاسا دیکھ کر
ہم بھی ہیں شاید کسی بھٹکی ہوئی کشتی کے لوگ
چیخنے لگتے ہیں خوابوں میں جزیرہ دیکھ کر
جس کی جتنی حیثیت ہے اس کے نام اتنا خلوص
بھیک دیتے ہیں یہاں کے لوگ کاسا دیکھ کر

تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا

تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
میں تنہا تھا، مگر اتنا نہیں تھا
تیری تصویر سے کرتا تھا باتیں
میرے کمرے میں آئینہ نہیں تھا
سمندر نے مجھے پیاسا ہی رکھا
میں جب صحرا میں تھا پیاسا نہیں تھا 

عشق یوسف میں دل زار جو یعقوب ہوا

عشقِ یوسفؑ میں دلِ زار جو یعقوبؑ ہُوا
رنج پر صبر کِیا، صورتِ ایوبؑ ہوا
اے پری اس میں جو تعریفِ سلیماںؑ ہے رقم
میرا دیوان بھی بلقیس کا مکتوب ہوا
خفتگی میں جو مِری تختِ سلیماںؑ گزرا
بخت بیدار ہوا، خواب گیا، خوب ہوا

خزان باغ کا ہوتا ہے گلستاں باعث

خزانِ باغ کا ہوتا ہے گلستاں باعث
ہوا چمن کی صفائی کا باغباں باعث
کسی غریب کے دل کو چھپا کے لُوٹو گے
نقاب پوشی کا ہو جائے گا عیاں باعث
ردیفی غزلوں میں کیونکر مزا ملے سب کو
سمجھ ہی لیتے ہیں اپنی تو نکتہ داں باعث

رخ اپنا ہم کو دکھلایا تو ہوتا

رُخ اپنا ہم کو دِکھلایا تو ہوتا
ذرا سورج کو شرمایا تو ہوتا
مِرے دل کا پتا ملتا انہیں میں
ذرا زُلفوں کو سلجھایا تو ہوتا
مجھی کو واعظا پند و نصیحت
کبھی اس کو بھی سمجھایا تو ہوتا

Monday, 24 October 2016

فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا

فنا کا ہوش آنا، زندگی کا دردِ سر جانا
اجل کیا ہے، خمار بادۂ ہستی اتر جانا
عزیزانِ وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
عروسِ جاں! نیا پیراہن ہستی بدلتی ہے
فقط تمہید آنے کی ہے دنیا سے گزر جانا

دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطف بہار کیا

دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا
یہ دل کی تازگی ہے، وہ دل کی فسردگی
اس گلشنِ جہاں کی خزاں کیا، بہار کیا
کس کے فسونِِ حسن کا دنیا طلسم ہے
ہیں لوحِ آسماں پہ یہ نقش و نگار کیا

درد دل پاس وفا جذبۂ ایماں ہونا

دردِ دل، پاسِ وفا، جذبۂ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا
نو گرفتارِ بلا، طرزِ وفا کیا جانیں 
کوئی ناشاد سکھا دے انہیں نالاں ہونا
رو کے دنیا میں ہے یوں ترکِ ہوس کی کوشش
جس طرح اپنے ہی سائے سے گریزاں ہونا

Friday, 21 October 2016

اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے

اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے
وہ سامنے بیٹھے ہیں، کافی یہ عنایت ہے 
مت دیکھ انہیں اے دل! اس طرح محبت سے
افسانہ بنا لیں گے، لوگوں کی تو عادت ہے
گلشن سے جدا ہو کر پھولوں نے یہ جانا ہے
اس دنیا میں ہنسنے کی کتنی بڑی قیمت ہے 

بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا

محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور 
مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا
محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ
نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا

اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں

نذرِ مجاہد 

اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد! تجھے کیا پیش کروں

تُو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کے
ابھرا ہرگام پہ فتح کا نعرہ بن کے 
اس شجاعت کا کیا میں تجھے صلہ پیش کروں
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں

سوہنی دھرتی سوہنی دھرتی اللہ رکھے

ملی  نغمہ

سوہنی دھرتی سوہنی دھرتی اللہ رکھے
قدم قدم آباد تجھے، قدم قدم آباد تجھے
سوہنی دھرتی سوہنی دھرتی اللہ رکھے

تیرا ہر اک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا
تیرے دم سے شان ہماری تجھ سے نام ہمارا
جب تک ہے یہ دنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں

ملی ترانہ

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں

ایک چمن کے پھول ہیں سارے، ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں، سرگم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں

یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے

ملی نغمہ

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ جالے، رہگزر تمہارے ہیں

محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہو گا یہ طے ہوا تھا

محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
وہی ہوا ناں، بدلتے موسم میں تم نے ہم کو بھلا دیا ہے
کوئی بھی رُت ہو نہ چاہتوں کو زوال ہو گا، یہ طے ہوا تھا
یہ کیا کہ سانسیں اکھڑ گئی ہیں سفر کے آغاز میں ہی یارو
کوئی بھی تھک کے نہ راستے میں نڈھال ہو گا، یہ طے ہوا تھا

دعاؤں کے دیے جب جل رہے تھے

دعاؤں کے دِیے جب جل رہے تھے
مِرے غم آنسوؤں میں ڈھل رہے تھے
کسی نیکی کا سایہ تھا سروں پر
جو لمحے آفتوں کے ٹل رہے تھے
ہوا احساس یہ آدھی صدی بعد
یہاں پر صرف رستے چل رہے تھے

کھویا کھویا اداس سا ہو گا

کھویا کھویا، اداس سا ہو گا
تم سے وہ شخص جب ملا ہو گا
قُرب کا ذکر جب چلا ہو گا
درمیاں کوئی فاصلہ ہو گا
روح سے روح ہو چکی بدظن
جسم سے جسم کب جدا ہو گا

قفس کا در کھلا ایک نیم جاں کم سن پرندہ

قفس کا در کھلا
ایک نیم جاں، کم سن پرندہ
چند خستہ زائچوں پر
رقص کے انداز میں آگے بڑھا
پھر چونچ سے اپنا پسندیدہ
مصور زائچہ اس نے اٹھایا

Thursday, 20 October 2016

کچھ لوگ جو میرے دل کو اچھے لگتے تھے

کچھ لوگ
جو میرے دل کو اچھے لگتے تھے
عمروں کے ریلے میں آئے
اور جا بھی چکے
کچھ دھندوں میں مصروف ہوئے
کچھ چوہا دوڑ میں جیتے گئے

دل درد آشنا میرا کسی کا ہمزباں کیوں ہو

دلِ درد آشنا میرا، کسی کا ہم زباں کیوں ہو
عیاں انجام ہو جس کا وہ میری داستاں کیوں ہو 
نہ سوچو پہلے کیا انجام ہو گا دل کے سودا کا 
دمِ ہنگامہ آرائی، غم سود و زیاں کیوں ہو
کِیا بادِ صبا نے حسن کا ہر چار سُو شہرہ  
چمن میں آج گلچیں کو ہراسِ باغباں کیوں ہو 

عاشقِ بے داد ہیں پر قیس بیاباں اور ہے

عاشقِ بیداد ہیں پر قیسِ بیاباں اور ہے
شیرِ قالِیں اور ہیں شیرِ نِیستاں اور ہے
قتل کا فتوی دیا قاضی نے اس سے کیا ہوا
نِیم بِسمل جس سے ہوں وہ تیغِ براں اور ہے 
باغِ شالامار کا سودا مِرے سر میں نہیں
جس چمن میں ہے مِرا گل، وہ گلستاں اور ہے 

آہ مجھ پر پھر ستم ہونے لگا

آہ، مجھ پر پھر ستم ہونے لگا 
دور جب سے وہ صنم ہونے لگا
حالِ زارِ قلبِ مضطر سینے پر
خونِ دل سے اب رقم ہونے لگا
گلرخوں کی بے وفائی دیکھ کر
بارِ غم  سے سرو، خم ہونے لگا

تشنۂ غم کے لئے وصل کا جام اچھا ہے

تشنۂ غم کے لئے وصل کا جام اچھا ہے
عندلیبوں کے لئے گل کا پیام اچھا ہے 
درِ دولت پہ گئے، بار نہ پایا  اے دل
تو ہے بیکس تجھے عزت کا مقام اچھا ہے 
رازِ سر بستہ کی دل میں ہے حفاظت لازم
مال رکھنے کے لئے مال گودام اچھا ہے

کون سے درد کی طالب میری شعلہ بیانی ہے

کون سے درد کی طالب میری شعلہ بیانی ہے
سحر ہے، باغ ہے، مستی بھرا دل ہے جوانی ہے
یہ بے برگ و نوا شاخیں، یہ بے صوت و صدا چشمے 
دلیلِ ابرِ گوہر بار میری نغمہ خوانی ہے
سرور زندگی میں بے خودی درجۂ خرابی ہے  
خودی ہے ریزہ ریزہ، یہ حصارِ بدگمانی ہے

بیتے ہوئے دنوں کی فضا یاد آ گئی

بِیتے ہوئے دنوں کی فضا یاد آ گئی 
وہ چاندنی وہ گھر وہ ہوا یاد آ گئی 
جیسے، کوئی پکار رہا ہو کہیں مجھے 
یہ آدھی رات کس کی صدا یاد آ گئی 
تازہ تھا زخمِ ہجر تو تدبیر کچھ نہ کی
اب لا علاج ہے تو دوا یاد آ گئی

زخم تمہارے بھر جائیں گے تھوڑی دیر لگے گی

زخم تمہارے بھر جائیں گے، تھوڑی دیر لگے گی
بے صبری سے کام لیا تو، اور بھی دیر لگے گی
یوں بے حال نہ ہو اے دل! بس آتے ہی ہوں گے وہ
کل بھی دیر لگی تھی ان کو، آج بھی دیر لگے گی
سیکھ لیا ہے میں نے اپنے آپ سے باتیں کرنا
فکر نہیں، ان کو آنے میں کتنی دیر لگے گی

یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے

یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے
میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے
اس قدر ہِجر میں کی نجم شماری ہم نے
جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے
دوستی میں تو کوئی شک نہیں اس کی، پر وہ
دوست دشمن کا زیادہ ہے، ہمارا کم ہے

دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل، وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے، چمن کوئی بھی ہو
صورتِ حالات ہی پر بات کرنی ہے اگر
پھر مخاطب ہو کوئی بھی، انجمن کوئی بھی ہو
ہے وہی لا حاصلی دستِ ہنر کی منتظر
آخرش سر پھوڑتا ہے، کوہکن کوئی بھی ہو

اس سے پہلے کے یہ خواہش وصل مٹے

خواہش

اس سے پہلے کے یہ خواہشِ وصل مٹے
اس سے پہلے کے میری آنکھ میں تارے نہ رہیں
اس سے پہلے کے میرے خون میں گرمی نہ رہے
اس سے پہلے کے میری سانس میں خوشبو نہ رہے
مہرباں ہو کے ہمیشہ کے لیے نہ آؤ

کیوں یاد کے دریا کا کنارا نہیں ہوتا

کیوں یاد کے دریا کا کنارا نہیں ہوتا 
ٹوٹے ہوئے خوابوں پہ گزارا نہیں ہوتا
پھرتے ہیں تیرے شہر میں ہم ابر کی صورت 
تجھ سے تو برسنے کا اشارا نہیں ہوتا
قبضہ ہے میرے دل پہ تیری یاد کا جاناں 
اس جبر مسلسل سے کنارا نہیں ہوتا

مسئلہ ہے کہ کچھ کیا جائے

مسئلہ ہے کہ کچھ کِیا جائے 
مسئلہ ہے کہ کیا کیا جائے
زندگی زہر کا پیالہ ہے 
مسئلہ ہے کہ یہ پیا جائے
پیراہنِ حیات ادھڑا ہے 
مسئلہ ہے کہ یہ سِیا جائے

آپ کی رحمتوں کے سائے ہیں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

آپؐ کی رحمتوں کے سائے ہیں 
ہم نے کیا کیا نصیب پائے ہیں
بن کے قرآن میں سراج و منیر 
دونوں عالم کو جگمگائے ہیں
سفر معراج سے ہمارے لیے 
تحفۂ مغفرت بھی لائے ہیں

ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے

ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے
دعا پہنچ بھی گئی خاکداں کے اندر سے
کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
مجھے پڑاؤ میں خطرہ سفر سے بڑھ کر ہے
کہ راہزن ہے مِرے کارواں کے اندر سے

اس کے ہونٹوں سے ادا ہونے لگا ہوں اب میں

اس کے ہونٹوں سے ادا ہونے لگا ہوں اب میں
ٹھہر، اے زیست! دعا ہونے لگا ہوں اب میں
خود سے لپٹا لے مجھے، چوم لے ماتھا میرا
زندگی تجھ سے جدا ہونے لگا ہوں اب میں
آنے والے ہیں ابھی مجھ پر کئی اور الزام
یعنی کچھ اور بڑا ہونے لگا ہوں اب میں

جوان ہے رات ساقیا شراب لا شراب لا

جوان ہے رات ساقیا! شراب لا، شراب لا 
ذرا سی پیاس تو بجھا، شراب لا، شراب لا 
تیرے شباب پر سدا کرم رہے بہار کا 
تجھے لگے میری دعا شراب لا، شراب لا 
یہاں کوئی نہ جی سکا نہ جی سکے گا ہوش میں 
مٹا دے نام ہوش کا، شراب لا، شراب لا 

دن آ گئے شباب کے آنچل سنبھالیے

دن آ گئے شباب کے آنچل سنبھالئے
ہونے لگی ہے شہر میں ہلچل، سنبھالئے
چلیے سنبھل سنبھل کے کٹھن راہِ عشق ہے
نازک بڑی ہے آپ کی پائل، سنبھالئے
سج دھج کے آپ نکلے سرِ راہ خیر ہو
ٹکرا نہ جائے آپ کا پاگل، سنبھالئے

بندہ قرار دے کے ڈرانے لگے مجھے

بندہ قرار دے کے ڈرانے لگے مجھے
میرے بناۓ بُت ہی بنانے لگے مجھے
کیسا نیا خیال مِرے ذہن میں جگا
یکدم تمام لفظ پرانے لگے مجھے
کس منہ سے اب پروں کی تمنا کِیا کروں 
میرے تخیلات اڑانے لگے مجھے

حسن ایسا کہ جو سب کو نظر آنے کا نہیں

حسن ایسا کہ جو سب کو نظر آنے کا نہیں
عشق اتنا کہ مِرے دل میں سمانے کا نہیں
بات ہے اور زباں پر نہیں لانے والی
راز ہے اور کسی سے بھی چھپانے کا نہیں
جی میں آتی ہے کہ لَے اور اٹھاتا جاؤں
اور یہ گیت کسی کو بھی سنانے کا نہیں

جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر

جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر
سائے کو دھوپ میں پھیلا لے نہ ہرجائی کر
فکر کو ذہن کی دیوار پہ تصویر بنا
آنکھ کو مدح سرا، دل کو تماشائی کر
ہیں تِری ذات میں بھی بوکلموں ہنگامے
تُو اسے صرف تماشا گہِ تنہائی کر

ہمسفر رہ میں ہوئے جو سر منزل نہ ملے

ہمسفر رہ میں ہوئے جو سرِ منزل نہ ملے
مل گئے ہیں بڑے آساں جو بمشکل نہ ملے
ہم بچھڑ جائیں تو ممکن ہے کچھ اخلاص بڑھے
مدتوں ساتھ رہے دوستو! اور دل نہ ملے
مندمل یہ تو ہوئے جاتے ہیں سب وقت کے ساتھ
زخم سینے میں ہمیں داد کے قابل نہ ملے

اے اہل نظر سوز ہمیں ساز ہمیں ہیں

اے اہلِ نظر! سوز ہمِیں، ساز ہمِیں ہیں
عالم میں پسِ پردۂ ہر راز ہمیں ہیں
منسوب ہمیں سے ہیں گُل و مُل کی روایات
جو شوق بھی ہو، نقطۂ آغاز ہمیں ہیں
اے شاہدِ کونین! اٹھا، پردۂ اسرار
اب خلوتیانِ حرمِ ناز ہمیں ہیں

آیا ہے وقت خاص پھر اہل نیاز پر

آیا ہے وقتِ خاص پھر اہلِ نیاز پر
پہرے بٹھاؤ جلوہ فروشانِ ناز پر
سمجھیں گے مہ وشوں کو حقیقت پسند کیا
آو، مِری طرف، کہ سند ہوں مجاز پر
بزمِ قدح وہ عالمِ اسباب ہے جہاں
کرتے ہیں غزنوی کو مقرر ایاز پر

ہاں ساقی پھر آنکھ ملانا رات گزرنے والی ہے

ہاں ساقی! پھر آنکھ ملانا، رات گزرنے والی ہے
جانے کب پلٹے یہ زمانا، رات گزرنے والی ہے
اب کچھ سننا ہے نہ سنانا، رات گزرنے والی ہے
ختم ہے اب بے کہے فسانا، رات گزرنے والی ہے
جلدی کیا ہے برقِ تبسم! دھواں بنے گا خود آنسو
دن ہو لے، پھر آگ لگانا، رات گزرنے والی ہے

یاد آتا ہے رہ کر پھر وہی زمانہ ساقی کا

یاد آتا ہے رہ کر، پھر وہی زمانا ساقی کا
میرے قصدِ توبہ پر، پہروں سمجھانا ساقی کا
پہلے پہل وہ ساغرِ بر کف ہاتھ بڑھانا ساقی کا
آنکھ ملانے کی کوشش میں شرما جانا ساقی کا
وقت کا رنگیں آئینہ ہے یا مۓ خانہ ساقی کا
رات کا چاند اور دن کا سورج ہر پیمانا ساقی کا

لدی جو پھولوں سے تھی شاخ آشیانے کی

لدی جو پھولوں سے تھی شاخ آشیانے کی
وہی ہوا،۔ کہ نظر لگ گئی زمانے کی
زمیں! دہائی ہے، اے آسماں! دہائی ہے 
مٹے ہوؤں کو بھی کوشش ہے اب مٹانے کی
نصیحتیں تِری ناصح! مِرے سر آنکھوں پر 
جو خود کسی کو ضرورت ہو دل لگانے کی

سب یہی کہتے ہیں مجھ کو ترا سودائی ہے

سب یہی کہتے ہیں مجھ کو تِرا سودائی ہے
اب مِرا ہوش میں آنا تِری رسوائی ہے
گرمئ عشق مسلّم،۔ مگر اپنی حد میں
آج تک حسن کے دامن پہ بھی آنچ آئی ہے
کچھ تو کوچہ تِرا جنت کا نمونہ ہے بھی
کچھ مِرے حسنِ تخیل کی بھی رعنائی ہے

حال دل جس نے سنا گریہ کیا

حالِ دل جس نے سنا گِریہ کِیا
ہم نہ روئے، ہاں تِرا کہنا کِیا
یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے
تم نے جب وعدہ کِیا، ایفا کِیا
پھر کسی جانِ وفا کی یاد نے
اشکِ بے مقدور کو دریا کِیا

خود میں ملا لے یا ہم سے آ مل

خود میں ملا لے یا ہم سے آ مل
اے نورِ کامل، اے نورِ کامل
روزِ ازل بھی رشتہ یہی تھا
تُو ہم میں پنہاں ہم تجھ میں شامل
ہم سا رضا جو تم سا جفا جو
دیکھا نہ معمول پایا نہ عامل

آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے

آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے
کھو گئے ہیں کہاں تلاش کرو
دامن چاک کے ستاروں کو
کھا گیا آسماں تلاش کرو
ڈھونڈ کے لاؤ یوسفوں کے تیس
کارواں کارواں تلاش کرو

صبح کو آہیں بھر لیں گے ہم

صبح کو آہیں بھر لیں گے ہم
رات کو نالے کر لیں گے ہم
مست رہو تم حال میں اپنے
تم بن کیا ہم جی نہ سکیں گے
پھر بھی کہو تو خوش خوش جی لیں
سوچ سکو تو بگڑا کیا ہے

Wednesday, 19 October 2016

بہار بے سپر جام یار گزرے ہے

بہار بے سپر جامِ یار گزرے ہے
نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے
شراب حلق سے ہوتی نہیں فرو تجھ بِن
گلوۓ خشک سے تیغِ آبدار گزرے ہے
گزر مِرا تِرے کوچے میں گو نہیں تو نہ ہو
مِرے خیال میں تُو لاکھ بار گزرے ہے

گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں

گدا دستِ اہلِ کرم دیکھتے ہیں 
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں 
نہ دیکھا جو کچھ جام میں جَم نے اپنے 
سو اک قطرۂ مۓ میں ہم دیکھتے ہیں 
یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری 
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں 

دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف

دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
جوں صید وقتِ ذبح کے صیاد کی طرف
نے دانہ ہم قیاس کی نے لحاظِ دام
دھس گئے قفس میں دکھ کے صیاد کی طرف
غیروں کی بات پر نہ کہوں کان مت رکھو
لیکن کبھو تو میری بھی فریاد کی طرف

اللہ ہووے بلبل ناشاد کی طرف

اللہ ہووے بلبلِ ناشاد کی طرف
گلچیں جو بولتا ہے تو صیاد کی طرف
برسوں سے قدِ یار کا مضموں نہیں بندھا
مدت ہوئی گئے نہیں شمشاد کی طرف
چلنے میں کی جو شوقِ شہادت نے رہبری
گردن جھکائی کوچۂ جلاد کی طرف

کوئی عشق میں مجھ سا افزوں نہ نکلا

کوئی عشق میں مجھ سا افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چِیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا 
بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا

جگر کو داغ کی مانند لالہ کیا کرتا

جگر کو داغ کی مانند لالہ کیا کرتا
لبالب اپنے لہو کا پیالہ کیا کرتا
دیا نوشتہ نہ اس بت کو دل کے سودے میں
خدا کے گھر بھلا میں قبالہ کیا کرتا
بجا کیا اسے توڑا جو سر سے دریا کے
حباب لے کے یہ خالی پیالہ کیا کرتا

شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا

شبِ فراق کچھ ایسا خیالِ یار رہا
کہ رات بھر دلِ غم دیدہ بیقرار رہا
کہے گی حشر کے دن اسکی رحمتِ بیحد
کہ بے گناہ سے اچھا گناہ گار رہا
تِرا خیال بھی کس درجہ شوخ ہے اے شوخ
کہ جتنی دیر رہا دل میں بے  قرار رہا

کچھ محبت میں عجب شیوۂ دلدار رہا

کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
مجھ سے انکار رہا، غیر سے اقرار رہا
کچھ سروکار نہیں، جان رہے یا نہ رہے
نہ رہا ان سے تو پھر کس سے سروکار رہا
شبِ خلوت وہی حجت، وہی تکرار رہی
وہی قصہ، وہی غصہ، وہی انکار رہا

آرزو مند شہادت آہ بھر کر رہ گیا

آرزو مندِ شہادت،۔۔۔۔ آہ بھر کر رہ گیا
روح کھنچ کر رہ گئی کھنچ کر جو خنجر رہ گیا
کیا بتاؤں کس طرح دل میں وہ خنجر رہ گیا
آرزو ہو کر سمایا،۔۔۔ درد بن کر رہ گیا
ماجرائے قتل کہنے کو زباں پر رہ گیا
کس کی گردن رہ گئی اب کس کا خنجر رہ گیا

مزا الفت میں کیا دونوں کو حاصل ہو نہیں سکتا

مزہ الفت میں کیا دونوں کو حاصل ہو نہیں سکتا
مگر مشکل ہے ایک ان کا مِرا دل ہو نہیں سکتا
جفا و رشک سہنے کے قابل ہو نہیں سکتا
مِرا دل ہو بھی، ہو سکتا ہے تِرا دل ہو نہیں سکتا
کسی کے رنج و غم میں کوئی شامل ہو نہیں سکتا
مِرا ساتھی، مِرا حامی، مِرا دل ہو نہیں سکتا

روز کا غم تو کہیں اے دل شیدا جائے

روز کا غم تو کہیں اے دلِ شیدا جائے
وہ نہ آئیں نہ سہی موت مِری آ جائے
لطف تو جب ہے تمنا کو بھی لیتا جائے
آپ کا تیر مِرے دل سے نہ تنہا جائے
شکوۂ ظلم و ستم شوق سے عشاق کریں
مگر اتنا کہ وہ بے درد نہ گھبرا جائے

گر وقت کڑی دھوپ ہی بن جائے تو کیا ہو

گر وقت کڑی دھوپ ہی بن جائے تو کیا ہو
وہ پھول سا چہرہ بھی جو کمہلائے تو کیا ہو 
موج مۓ گل رنگ کی لرزش ہے کہ رفتار 
اے بادہ وشو! یوں جو چھلک جائے تو کیا ہو 
ڈسنے کو چڑھی آتی ہے ناگن سی شبِ تار 
صندل سا بدن بھی جو نہ یاد آئے تو کیا ہو 

دستگیر محترم دوستو وہ جو خاموش ہیں جانے کب بول اٹھیں

دستگیر

محترم دوستو
وہ جو خاموش ہیں جانے کب بول اٹھیں
اس لیے چند چاندی کے چمچے منگاؤ
اور نگراں رہو
جیسے ہی لب کشائی ہو کوئی
ایک چاندی کا چمچہ

بانسری رات کے پر کیف سناٹے میں بنسی کی صدا

بانسری

رات کے پُرکیف سناٹے میں، بنسی کی صدا
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ، لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی، کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں، پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آ رہی ہے اس طرح جیسے، کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی، پلکوں کو اکساتی ہوئی

Tuesday, 18 October 2016

اپنے بیماروں کو درد لادوا دینے لگے

اپنے بیماروں کو دردِ لا دوا دینے لگے
آہ، کیا دینا تھا تم کو اور کیا دینے لگے
دیکھنا شوخی کہ محوِ درس خاموشی ہوا
جب مجھے طعنے ستمگر کے مزا دینے لگے
غم نہیں، پیشانیاں خالی ہوں مثلِ ماہِ نو
دھن یہی ہے سنگِ در تیرا ضیا دینے لگے

اپنا چمن نہیں تو خزاں کیا بہار کیا

اپنا چمن نہیں تو خزاں کیا بہار کیا
بلبل ہو نغمہ سنج سرِ شاخسار کیا
منت پذیرِ شوق، نہ مانوسِ اضطراب
تجھ کو قرار آئے دلِ بے قرار کیا
غفلت کا ہے یہ حال کہ اب تک خبر نہیں
اس انجمن میں کیا ہے نہاں، آشکار کیا

ساتھ دے گا کوئی اب کیا سر منزل میرا

ساتھ دے گا کوئی اب کیا سرِ منزل میرا
مجھ سے بیگانہ ہوا جاتا ہے خود دل میرا
دل گم گشتہ کو میں بیٹھ کے دم بھر رو لوں
چھوڑ دے ساتھ زرا حسرتِ منزل میرا
میرا ہر نقشِ قدم درس گاہِ عبرت ہے
اس قدر خاک سے ہموار ہوا دل میرا

یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے

 یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بے گانے کہاں جاتے

تیرے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے

قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں

میری تقدیر کے لکھے ہوۓ دانے کہاں جاتے

نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی

ہجومِ غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے

تیرہ بختی کو کسی طرح چھپایا نہ گیا

 تِیرہ بختی کو کسی طرح چھپایا نہ گیا

دو قدم چھوڑ کے مجھ کو مِرا سایا نہ گیا 

تیرے آگے سرِ تسلیم جھکایا نہ گیا

تِرے ہوتے بھی خدا تجھ کو بنایا نہ گیا

الله، الله، مِرے دل میں سمانے والے

وسعتِ کون و مکاں میں بھی سمایا نہ گیا

دوئی کا تذکرہ توحید میں پایا نہیں جاتا

 دوئی کا تذکرہ توحید میں پایا نہیں جاتا

جہاں میری رسائی ہے مِرا سایا نہیں جاتا

کسی سے میری منزل کا پتہ پایا نہیں جاتا

جہاں میں ہوں فرشتوں سے وہاں جایا نہیں جاتا

مِرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے

تمہارے در سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا

دل کے صحرا میں کهوئے ہوئے دوستو سوچنا چهوڑ دو

دل کے صحرا میں کهوئے ہوئے دوستو، سوچنا چهوڑ دو
اپنے ساۓ کی راہ میں نہ دیوار ہو، سوچنا چهوڑ دو
خود ہی صدمہ بنے اپنے احساس کا، تم نے سوچا بهی کیا
اور سوچو تو خود بهی تماشا بنو، سوچنا چهوڑ دو
چاندنی رات میں کیا کسی نے کہا، کیا کسی نے سنا
عہدِ ماضی کے خونیں بهنور سے بچو، سوچنا چهوڑ دو

گھر کے باہر ہے زمستان بہت سردی ہے

گھر کے باہر ہے زمستان بہت سردی ہے
یہیں رہ جاؤ مِری جان! بہت سردی ہے
نہ کہیں حرف نہ آواز، نہ صورت نہ صدا
گرم، اے دیدۂ ویران! بہت سردی ہے
ٹہنیاں بھیگتی جاتی ہیں، دھواں اٹھتا ہے
جب سے سُلگا ہے گلستان، بہت سردی ہے

Monday, 17 October 2016

درون ذات پرندوں کا شور تب سے اٹھا

درونِ ذات پرندوں کا شور تب سے اُٹھا
جب ایک شام دِیا حجرۂ طلب سے اٹھا
مکالمے پہ ہی نوواردان حیرت تھے
بِنا کلام کئے خانۂ عجب سے اٹھا
سو کیا بتائیں تمہیں کاذبِینِ ہجر! یہ دل
نواحِ درد سے کس تلخئ سبب سے اٹھا

جاں لٹا سکتے ہیں اپنی دل بہا سکتے ہیں ہم

جاں لٹا سکتے ہیں اپنی، دل بہا سکتے ہیں ہم
چہرۂ ظلمت کو آئینہ دِکھا سکتے ہیں ہم
اہلِ سُنت ہیں تو کیا، ماتم نہیں کرتے تو کیا
ان عزاداروں کو پانی تو پِلا سکتے ہیں ہم
محفلوں کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو
کتنے بھوکے ہیں جنہیں لنگر کرا سکتے ہیں ہم

چشمِ تر سے آنسوؤں نے رواں ہونا ہی تھا

چشمِ تر سے آنسوؤں نے رواں ہونا ہی تھا
آخر اس چشمے نے اک دن بیکراں ہونا ہی تھا
دو قدم ہی چل کے دھوکا دے گیا ہم سفر 
راہِ منزل نے بھی تو پھر بے نشاں ہونا ہی تھا
کر لیا جب خود غرض لوگوں پہ اندھا اعتماد 
پھر مِری قربانیوں نے رائیگاں ہونا ہی تھا

خوشی دے کر جو غم پایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا

خوشی دے کر جو غم پایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا
وہی اِک زخم پھر کھایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا
میرے مجبور سینے پر تشدد کے نشانوں کو
زمانہ دیکھنے آیا،۔ نتیجہ کچھ نہیں نکلا 
مِری قسمت بدلنے کے لیے ہر ایک محفل میں
بہت کچھ اس نے فرمایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا

کچھ بول میر کارواں (مکمل)

کچھ بول میرِ کارواں

جب لٹ رہا ہو گلستاں، جب جل رہے ہوں آشیاں
جب گر رہی ہوں بجلیاں، جب ہو فضاؤں میں دھواں
جب شہر ہوں آتش فشاں، جب راکھ ہو جائیں مکاں
پھر وہ مکیں جائیں کہاں،۔ کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

صبا غنچوں کو مہکاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے

صبا غنچوں کو مہکاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
گلستاں میں بہار آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
گلِ امید، شاخِ خُرّمی پر لہلہا اٹھا
مسرّت آج اِٹھلاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
کسی نے توڑ ڈالا ہے طلسمِ شامِ غم شاید
ضیا ہر سمت لہراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے

ہماری شرط وفا یہی ہے وفا کرو گے وفا کریں گے

ہماری شرطِ وفا یہی ہے، وفا کرو گے، وفا کریں گے
ہمارا ملنا ہے ایسا ملنا،۔ ملا کرو گے، ملا کریں گے
کسی سے دب کر نہ ہم رہیں گے، ہمارا شیوہ نہیں خوشامد
برا کہو گے، برا کہیں گے،۔ ثنا کرو گے، ثنا کریں گے
ہمارا پینا پلانا کیا ہے،۔۔ ہمارا پینا پلانا یہ ہے
پلاؤ گے تم ، پلائیں گے ہم، پیا کرو گے، پیا کریں گے

خیالی ملاقات ہوتی رہی

خیالی ملاقات ہوتی رہی
خموشی میں بھی بات ہوتی رہی
ہر اک چال الٹی چلے وہ، مگر
مجھے مات پر مات ہوتی رہی
کھٹکتی رہی دل میں جو رات دن
وہی بات دن رات ہوتی رہی

ہمارے عزم مسلسل کی تاب و تب دیکھو

ہمارے عزمِ مسلسل کی تاب و تب دیکھو
سحر کی گود میں رنگِ شکست شب دیکھو
بطونِ غیب سے پیدا ہوا ہے لشکرِ نَو
لہو اگلنے لگے، قاتلانِ شب دیکھو
ادیب پا بہ سلاسل تو شعر بر سرِ دار
کھُلا ہوا ہے یہاں مقتلِ ادب دیکھو

ہجر و وصال کی گرمی سہتا ہے

ہجر و وصال کی گرمی سہتا ہے
دل درویش ہے پھر بھی راضی رہتا ہے
ہر آنسو میں آتش کی آمیزش ہے
دل میں شاید آگ کا دریا بہتا ہے
مجھ سے بچھڑ کے پہروں رویا کرتا تھا
وہ جو میرے حال پہ ہنستا رہتا ہے

طلب آسودگی کی عرصہ دنیا میں رکھتے ہیں

طلب آسودگی کی عرصۂ دنیا میں رکھتے ہیں
امیدِ فصلِ گل ہے اور قدم صحرا میں رکھتے ہیں
ہوئے ہیں اس قدر مانوس ہم پیمانِ فردا سے
کہ اب دِل کا سفینہ ہجر کے دریا میں رکھتے ہیں
بشر کو دیکھئے با ایں ہمہ ساحل پہ مرتا ہے
حباب اپنا اثاثہ سیلِ بے پروا میں رکھتے ہیں

تم نے خبر نہ لی مرے حال خراب کی

تم نے خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی
کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی
تھی الوداعِ ہوشِ تجلئ مختصر
میرا تو کام کر گئی جُنبش نقاب کی
وہ میرے ساتھ ساتھ مجسم تِرا خیال
وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی

کب تک دل مایوس کو برباد کریں گے

کب تک دلِ مایوس کو برباد کریں گے
اب ہم تِری امید سے فریاد کریں گے
کعبے پہ ہی موقوف نہیں، ضد ہے بتوں کو
جس گھر میں رہیں گے اسے برباد کریں گے
یکسوئی سے بیٹھیں گے تو اے خلوتِ زنداں
تدبیرِ سکونِ دلِ ناشاد کریں گے

قید غم حیات سے گھبرا رہا ہوں میں

قیدِ غمِ حیات سے گھبرا رہا ہوں میں
گھبرا رہا ہوں اور جیۓ جا رہا ہوں میں
منزل کا کچھ پتہ ہے نہ راہوں سے واسطہ
لے جا رہا ہے شوق، چلا جا رہا ہوں میں
کیا میرے ترکِ وعدہ کا تجھ کو یقیں نہیں
ساقی! تِرے لبوں کی قسم کھا رہا ہوں میں

ظلمتوں کے نرغے میں روشنی کا ہالا ہے

ظلمتوں کے نرغے میں روشنی کا ہالا ہے
صبح جس کو کہتے ہیں رات کا سنبھالا ہے
کس میں کور چشمی ہے، کون آنکھ والا ہے
اک طرف اندھیرا ہے، اک طرف اجالا ہے
درد جب سِوا ہو جائے، خود ہی ہاتھ رکھ لیجے
کون دل کے زخموں پر ہاتھ رکھنے والا ہے

ہم صبح میں ڈھالیں گے رخ شام ہمیں دو

ہم صبح میں ڈھالیں گے رخِ شام ہمیں دو
بے نور ہے، آئینۂ ایام ہمیں دو
اشکوں کو تبسم کا چلن ہم نے سکھایا
شائستگئ ضبط کا انعام ہمیں دو
ہم پیار کی خاطر رسن و دار تک آئے
الزام جو دینا ہو، وہ الزام ہمیں دو

کہاں چلے ہو مجھے چھوڑ دوستاں تنہا

کہاں چلے ہو مجھے چھوڑ دوستاں تنہا
میں بِن تمہارے رہوں کس طرح یہاں تنہا
کہا اے یار نظر کر، کہ روزِ اول سے
جو اس جہان سے آیا ہے اس جہاں تنہا
دو دم کی سیر کر آپس میں باغِ دنیا بیچ
اسی طرح سے چلا جائے گا وہاں تنہا

اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے

اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے
سب چھوڑ ہم کو غم میں نہ جانے کدھر گئے
جو اس پری کو شیشۂ دل میں اتارتے 
وے علمِ عاشقی کے سیانے کدھر گئے
معلوم ہے کسی کو کہ وہ آج شعلہ خُو
مجھ کو لگا کے آگ لگانے کدھر گئے

Sunday, 16 October 2016

سکوت نیم شبی میں صدا لگاتا ہوا

سکوتِ نیم شبی میں صدا لگاتا ہوا
میں ایک حرف ہوں کوہِ ندا سے آتا ہوا
پھر ایک ہاتھ اسی خاک سے نمایاں ہوا
گزشت و رفت کے ہر نقش کو مٹاتا ہوا
کوئی تو ہے جو پسِ طاق رکھتا جاتا ہے
یہ سارے پھول تیرے ہونٹ سے لگاتا ہوا

مٹنے والا تھا جو اک نقش ابھارا میں نے

مٹنے والا تھا جو اک نقش ابھارا میں نے
اپنے ہونٹوں سے لگا زنگ اتارا میں نے
آئینہ، عمر کی تفصیل بتا دیتا ہے
اک نظر دیکھ لیا خود کو دوبارا میں نے
ویسی ہی شکل کا اک شخص مِرے سامنے تھا
ٹوٹتی نیند میں جو نام پکارا میں نے

بنا کے عرش معلی نماز پڑھتا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بنا کے عرشِ معلّی، نماز پڑھتا ہے

امام خاک پہ بیٹھا نماز پڑھتا ہے

سوار گِرتے رہے ٹُوٹتی رہی تسبیح

بوقتِ عصر اکیلا نماز پڑھتا ہے

میں دیکھتا ہوں کہ قیدی امام کے پیچھے

ہر ایک ماتمی حلقہ نماز پڑھتا ہے

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجئے
آسماں دیکھتے رہا کیجئے 
چار دیوارئ عناصر میں
کودتے پھاندتے رہا کیجئے
اس تحیّر کے کارخانے میں
انگلیاں کاٹتے رہا کیجئے

نہ اب ہم سا کوئی پیاسا ملے گا

نہ اب ہم سا کوئی پیاسا ملے گا
نہ اب ایسا کوئی دریا ملے گا
مِرے پیروں تلے دنیا ملے گی
رِدائے فقر میں مولا ملے گا
یہاں سورج ملے گا سر جھکائے
یہاں الٹا ہوا کاسہ ملے گا

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں

تِرے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
خدا جانے مِری گٹھڑی میں کیا ہے
نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں

اک خواب دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

اک خوابِ دلآویز کی نسبت سے ملا کیا
جز دربدری اس درِ دولت سے ملا کیا
آشوب فراغت! تِرے مجرم، تِرے مجبور
کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے ملا کیا
اک نغمہ کہ‌ خود اپنے ہی آہنگ سے محجوب
اک عمر کے پندارِ سماعت سے ملا کیا

نہ معجزہ ہے کربلا نہ حادثہ ہے کربلا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

نہ معجزہ ہے کربلا، نہ حادثہ ہے کربلا
جو خون سے لکھا گیا وہ فیصلہ ہے کربلا
یہی نہیں کہ صرف اپنے عہد میں ہوا، آج بھی
جہانِ مصلحت میں حرفِ برملا ہے کربلا
ہر ایک جبر کے خلاف خیر کے محاذ پر
جو مستقل بپا رہے وہ معرکہ ہے کربلا

زرہ صبر سے پیکان ستم کھینچتے ہیں

زرۂ صبر سے پیکانِ ستم کھینچتے ہیں
ایک منظر ہے کہ ہم دم ہمہ دم کھینچتے ہیں
شہر کے لوگ تو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مہر
ان لکیروں سے عبارت ہے جو ہم کھینچتے ہیں 
حکم ہوتا ہے تو سجدے میں جھکا دیتے ہیں سر
اذن ملتا ہے تو شمشیرِ دودم کھینچتے ہیں

اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

رزمیہ گیت

اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
سرفروشی ہے ایماں تمہارا
جرأتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کرے سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
اے شجاعت کے زندہ نشانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

اللہ اکبر اللہ اکبر ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں

اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں
دین ہمارا دینِ مکمل، استعمار ہے باطلِ ارذل
خیر ہے جد و جہدِ مسلسل
عند اللہ، عنداللہ، عنداللہ، عنداللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر

وہ شفیعنا وہ حبیبنا کہ جو ہیں نہایت جستجو

نعت رسول کریمﷺ

وہ شفیعنٰا وہ حبیبنٰا کہ جو ہیں نہایت جستجو
مجھے اپنے پاس بلا لیا مجھے دی اجازت گفتگو
بَلَغَ العُلےٰ بکمالہٖ، یہ پڑھا انہی کے حضور میں
کَشَفَ الدُّجےٰ بِجَمَالِہِ یہ کہا ان کے رو برو
حَسُنَت جَمِیعُ خِصَالِہٖ یہی اک پیام قدم قدم
صَلُّو عَلَیہِ وَ آلِہٖ یہی اک کلام ہے کو بہ کو

Saturday, 15 October 2016

عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے

عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا، غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
چہرے کو بے چہرہ کر کے، بدلے میں
چلیے، کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے 
سچ کہتے ہو، روز کی دنیاداری میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے

نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا

نظر کے سامنے رہنا، نظر نہیں آنا
تِرے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اسے عمر بھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

نہیں کہ آگ تری انگلیوں کے مس میں نہیں

نہیں کہ آگ تِری انگلیوں کے مَس میں نہیں
لہو کا ولولہ شاید مِری ہوس میں نہیں
کروں زبانِ غزل میں اسے ادا کیوں کر
وہ راز جو کہ اشاروں کی دسترس میں نہیں
یہ فصلِ گُل ہے،۔ مگر اے ہوائے آوارہ
وہ خوشبوؤں کا ترنم تِرے نفس میں نہیں

کبھی خود کو درد شناس کرو کبھی آؤ نا

کبھی خود کو درد شناس کرو، کبھی آؤ نا
مجھے اتنا تو نہ اداس کرو، کبھی آؤ نا
مِری عمر سرائے مہکے ہے، گُلِ ہجراں سے
کبھی آؤ آ کر باس کرو،۔۔ کبھی آؤ نا 
مجھے چاند میں شکل دکھائی دے، جو دہائی دے
کوئی چارۂ ہوش و حواس کرو،۔ کبھی آؤ نا

ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا

ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
ہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی
ہر صبح سُلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا 
اپنا تو نہیں تھا میں کبھی اورغموں نے
مارا مجھے ایسا، رہا تیرا نہ خدا کا

بت کیا ہیں بشر کیا ہے یہ سب سلسلہ کیا ہے

بُت کیا ہیں، بشر کیا ہے، یہ سب سلسلہ کیا ہے
پھر میں ہوں، مِرا دل ہے، مِری غارِ حرا ہے
جو آنکھوں کے آگے ہے یقیں ہے کہ گماں ہے
جو آنکھوں سے اوجھل ہے خلا ہے کہ خدا ہے 
تارے مِری قسمت ہیں کہ جلتے ہوئے پتھر
دنیا مِری جنت ہے کہ شیطاں کی سزا ہے

پھونک ڈالے تپش غم تو برا بھی کیا ہے

پھونک ڈالے تپشِ غم تو برا بھی کیا ہے
چند یادوں کے سوا دِل میں رہا بھی کیا ہے
بے نوا ہو گا نہ اس شہر میں ہم سا کوئی
زندگی! تجھ سے مگر ہم کو گِلہ بھی کیا ہے
کہیں اک آہ میں افسانے بیاں ہوتے ہیں؟
ہم نے اس دشمنِ ارماں سے کہا بھی کیا ہے

میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایہ ہوتا

میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایا ہوتا
دل زدہ کوئی گھڑی بھر کو تو ٹھہرا ہوتا
اب تو وہ شاخ بھی شاید ہی گلستاں میں ملے
کاش، اس پھول کو اس وقت ہی توڑا ہوتا 
وقت فرصت نہیں دے گا ہمیں مڑنے کی کبھی
آگے بڑھتے ہوئے ہم نے جو یہ سوچا ہوتا

اس گرمی بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی

اس گرمئ بازار سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی
سچ جانیئے دکان کے اندر نہیں کچھ بھی
ہم جہدِ مسلسل سے جہاں ٹوٹ کے گر جائیں
وہ لمحہ حقیقت ہے مقدر نہیں کچھ بھی 
مجبور تجسس نے کِیا ہے ہمیں، ورنہ
اس قید کی دیوار کے باہر نہیں کچھ بھی

کہاں میں کہاں مدح ذات گرامی

نعت رسول کریمﷺ

کہاں میں، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی، نہ رومی، نہ قدسی نہ جامی
پسینے پسینے ہُوا جا رہا ہوں
کہاں یہ زباں اور کہاں نامِ نامی
سلام اس شہنشاہِ ہر دو سرا پر
درود اس امامِ صفِ انبیأ پر

سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سلام بر رحمۃ اللعالمینﷺ

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

دعائے شام و سحر لا الٰہ الا اللہ

لا الٰہ الا اللہ

دعائے شام و سحر، لا الٰہ الا اللہ
یہی ہے زادِ سفر، لا الٰہ الا اللہ
سکونِ قلب و جگر، لا الٰہ الا اللہ
کمالِ فکر و نظر، لا الٰہ الا اللہ
نہ کہکشاں نہ قمر، لا الٰہ الا اللہ
نہ کچھ اِدھر نہ اُدھر، لا الٰہ الا اللہ

ذرہ بھی اگر رنگ خدائی نہیں دیتا

ذرہ بھی اگر رنگِ خُدائی نہیں دیتا
اندھا ہے تجھے کچھ بھی دِکھائی نہیں دیتا
دل کی بُری عادت ہے جو مِٹتا ہے بتوں پر
واللہ، میں ان کو تو بُرائی نہیں دیتا
کس طرح جوانی میں چلوں راہ پر ناصح
یہ عمر ہی ایسی ہے سُجھائی نہیں دیتا

Friday, 14 October 2016

ہے نام سے خدا کے آغاز کا اجالا

منظوم ترجمہ سوره فاتحہ

ہے نام سے خدا کے آغاز کا اجالا
جو مہربان بڑا ہے، بے حد جو رحم والا
تعریف سب خدا کی، جو رب ہے عالموں کا
جو مہرباں بڑا ہے، بے حد جو رحم والا
محشر کے دن کا مالک، روزِ جزا کا والی
تجھ کو ہی پوجتے ہیں، ہم تیرے ہی سوالی

آدمی اک تضاد باہم ہے

آدمی اک تضادِ باہم ہے
کبھی جنت کبھی جہنم ہے
غم ہے اک نعمتِ خداوندی
جتنا برتو اسی قدر کم ہے
التفات آپ کا بجا،۔ لیکن
کیا خوشی ہے کہ آنکھ پُرنم ہے

دل کے معاملے میں فقط ہم ہی ہم نہیں

دل کے معاملے میں فقط ہم ہی ہم نہیں
وہ کون ہے یہاں جو گرفتارِ غم نہیں
مر کے بھی آستاں سے نہ سر اٹھائیں
عہدِ وفا ہے اپنا یہ تیری قسم نہیں
جو آیا، گفتگو کو ترستا چلا گیا
حالانکہ کوئے دوست ہے راہِ عدم نہیں

لوگ کہتے ہیں عبادت کو بھلا رکھا ہے

لوگ کہتے ہیں عبادت کو بھلا رکھا ہے
اپنے سجدوں میں تمہیں ہم نے سجا رکھا ہے
ہر ستم ہم کو گوارا ہے ہر اک غم ہے قبول
ہم نے دل زخموں سے گلزار بنا رکھا ہے
دل سے جاتا ہی نہیں وعدۂ اولیٰ کا خیال
ورنہ ان ٹوٹے ہوئے وعدوں میں کیا رکھا ہے

جیسے وہ تمکا چاہت ہیں

سوکن

جیسے وہ تم کا چاہت ہیں
ہم کا بھی چاہت تھے
نین جوت جلاوت تھے
نردوہی سے کیسے کہن ہم
اک دن ایسا آوے گا
تمرا دل بھی ترسے گا
جب آنکھ سے ساون برسے گا

دل کو دھڑکا ہے کہ اس کا بھی پتا کوئی نہیں

دل کو دھڑکا ہے کہ اس کا بھی پتا کوئی نہیں
اب کے پسپائی میں سنتے ہیں بچا کوئی نہیں
رُو بہ رُو الفاظ کے رکھے ہیں عریاں آئینے
جسم پر آواز کے بندِ قبا کوئی نہیں
اسکے زخمی دست و پا پر رکھتا مرہم رک کے کون
راستے میں ایک پَل کو بھی رکا کوئی نہیں

نقش بر آب تھا مجھ کو تھی بقا یوں ہی کب

نقش بر آب تھا مجھ کو تھی بقا یوں ہی کب
میں نے مانگی کوئی جینے کی دعا یوں ہی کب
رنگ لائی ہے کچھ اب میرے لہو کی سرخی
اس کے ہاتھوں پہ کھِلا رنگِ حنا یوں ہی کب
اب سرِ راہ کوئی شمع جلے گی کیوں کر
سست رفتار تھی دنیا کی ہوا یوں ہی کب

جلتا کب تک وہ اک دیا آخر

جلتا کب تک وہ اک دِیا آخر
تیز تھی وقت کی ہَوا آخر
رہتی مربوط ساز سے کب تک
منتشر ہو گئی نوا آخر 
دور تک پھر نہیں کوئی آواز
ہے وہی دشتِ بے صدا آخر

کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا

کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا
قلزم نے بڑھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا 
اک موجِ خونِ خلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اک طوقِ فردِ جرم تھا، کس کے گلے میں تھا

پہلا پتھر صبا ہمارے رفیقوں سے جا کے یہ کہنا

پہلا پتھر

صبا! ہمارے رفیقوں سے جا کے یہ کہنا
بصد تشکر و اخلاص و حسن و خو ش ادبی
کہ جو سلوک بھی ہم پر روا ہوا اس میں 
نہ کوئ رمز نہاں ہے، نہ کوئ بُوالعجبی
ہمارے واسطے یہ رات بھی مقدر تھی
کہ حرف آۓ ستاروں پہ بے چراغی کا

ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا

ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا
سنتے رہے ہم، لب پہ تِرا نام نہ آیا
دیوانے کو تکتی ہیں تِرے شہر کی گلیاں
نکلا، تو اِدھر لَوٹ کے بدنام نہ آیا
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا

درد دل بھی غم دوراں کے برابر سے اٹھا

دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا 
آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا
تابشِ حسن بھی تھی، آتشِ دنیا بھی، مگر 
شعلہ جس نے مجھے پھونکا مِرے اندر سے اٹھا
کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی 
آگ بھی، ابر بھی، طوفان بھی ساغر سے اٹھا

احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا

احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا
میں شہر جاں کو راکھ بنا دینے آؤں گا
لکھے تھے حرفِ شوق جو میں نے تِرے لیے 
اب آنسوؤں سے ان کو مٹا دینے آؤں گا 
تُو نے عطا کئے ہیں مجھے کتنے رنج و غم 
اس لطف خاص کا میں صِلہ دینے آؤں گا 

میں نے کہا کہ حسن کو اپنے چھپا کے رکھ

میں نے کہا کہ حسن کو اپنے چھپا کے رکھ
اس نے کہا تُو اپنی نگاہیں جھکا کے رکھ
میں نے کہا کہ دید میسر ہو کس طرح؟
اس نے کہا کہ آئینہ دل میں سجا کے رکھ 
میں نے کہا کہ راہِ محبت ہے اور میں 
اس نے کہا قدم کو قدم سے ملا کے رکھ 

جسے چاہوں اسے اپنا بنا کر چھوڑ دیتا ہوں

جسے چاہوں اسے اپنا بنا کر چھوڑ دیتا ہوں
حسینوں کو بہت نزدیک لا کر چھوڑ دیتا ہوں
میں اپنے دشمنوں سے بھی عداوت کر نہیں سکتا
خود اپنے قاتلوں کو مسکرا کر چھوڑ دیتا ہوں
جنونِ شوق میں حائل نہ ہوں منطق کی دیواریں
خِرد کی راہ میں کانٹے بچھا کر چھوڑ دیتا ہوں

Thursday, 13 October 2016

حجاب اٹھے ہیں لیکن وہ رو بہ رو تو نہیں

حجاب اٹھے ہیں لیکن وہ رو برو تو نہیں 
شریک عشق کہیں کوئی آرزو تو نہیں
یہ خود فریبئ احساس آرزو تو نہیں
تِری تلاش کہیں اپنی جستجو تو نہیں
سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی
کہیں یہی تِرا اندازِ گفتگو تو نہیں؟

ہم ترا عہد محبت ٹھہرے

ہم، تِرا عہدِ محبت ٹھہرے
لوحِ نسیاں کی جسارت ٹھہرے
دل لہو کر کے یہ قسمت ٹھہرے
سنگ فن کار کی اُجرت ٹھہرے
مقتلِ جاں کی ضرورت ٹھہرے
ہم، کہ شایانِ محبت ٹھہرے

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا
پرچھائیں زندہ رہ گئی، انسان مر گیا
بربادیاں تو میرا مقدر ہی تھیں مگر
چہروں سے دوستی ملمع اتر گیا 
اے دوپہر کی دھوپ! بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایا کدھر گیا؟

اے دل خود ناشناس ایسا بھی کیا

اے دلِ خود ناشناس ایسا بھی کیا
آئینہ،۔ اور اس قدر تنہا بھی کیا
اس کو دیکھا بھی، مگر دیکھا بھی کیا 
عرصۂ خواہش میں اک لمحہ بھی کیا
درد کا رشتہ بھی ہے تجھ سے بہت 
اور پھر یہ درد کا رشتہ بھی کیا 

تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے

فلمی گیت مردانہ
(بآواز محمد رفیع)

تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے

یہ آسمان، یہ بادل، یہ راستے، یہ ہوا
ہر ایک چیز ہے اپنی جگہ ٹھکانے سے
کئی دنوں سے شکایت نہیں زمانے سے
یہ زندگی ہے سفر، تُو سفر کی منزل ہے

بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا

بے نام سا یہ درد، ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بِیت گیا ہے، وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے، کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے، میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے، وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا

جانے والوں سے رابطہ رکھنا

جانے والوں سے رابطہ رکھنا
دوستو! رسمِ فاتحہ رکھنا
جب کسی سے کوئی گِلہ رکھنا
سامنے اپنے آئینہ رکھنا
یوں اجالوں سے واسطہ رکھنا
شمع کے پاس ہی ہَوا رکھنا

مورا جیا نہ لگے بن تیرے یار

مورا جیا نہ لگے

فلمی  گیت

مورا جیا نہ لگے بِن تیرے یار
رات نہ بِیتے دن نہ ڈھلے
تیرے بِنا کیا گیت رچے
مورا جیا نہ لگے بِن تیرے یار
مورا جیا نہ لگے۔۔۔

میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں

میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں

گیت

میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں
کیوں صدا آ رہی ہے چھنانن چھن چھنانن چھنانن چھنانن 
میں نے ہاتھوں میں کنگن تو پہنا نہیں 
کیوں صدا آ رہی ہے کھنانن کھن چھنانن چھنانن چھنانن
میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں

یہ جھکی جھکی نگاہیں انہیں میں سلام کر لوں

فلمی  گیت

یہ جھکی جھکی نگاہیں، انہیں میں سلام کر لوں
یہیں اپنی صبح کر لوں، یہیں اپنی شام کر لوں
یہ جھکی جھکی نگاہیں

تیرا غم تیری محبت، تیرا درد تیری حسرت
تیری ہو اگر اجازت، تو میں اپنے نام کر لوں

روز کہتا ہوں بھول جاؤں تجھے

روز کہتا ہوں بھول جاؤں تجھے
فلمی گیت 

جانتا ہوں کے بے وفا تو ہے دل کے ہاتھوں فریب کھاتا ہوں
روز کہتا ہوں بھول جاؤں تجھے روز یہ بات بھول جاتا ہوں
روز کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔

تیری چاہت میں رات کٹتی تھی دن تیری یاد میں گزرتا تھا
تُو کسی اور کی امانت تھی پھر بھی میں تجھ سے پیار کرتا تھا

Wednesday, 12 October 2016

اٹھنے لگا دھواں دل غم انتساب سے

اٹھنے لگا دھواں دلِ غم انتساب سے
کجلا نہ جائیں ارض و سما آفتاب سے
لفظوں میں گھٹ نہ جائے معانی کا دم کہیں
لَو دے اٹھے نہ حرفِ جنوں احتساب سے
زیرِ زمیں درختوں کی بڑھنے لگیں جڑیں
خورشید، ابر اٹھانے لگا نقشِ آب سے

اس شہر خفتگان میں کوئی تو اذان دے

اس شہر خُفتگاں میں کوئی تو اذان دے
ایسا نہ ہو زمیں کا جواب آسمان دے
پڑھنا ہے تو نوشتۂ بین السطور پڑھ
تحریرِ بے حروف کے معنی پہ دھیان دے 
سورج تو کیا بجھے گا مگر اے ہوائے مہر
تپتی زمیں پہ ابر کی چادر ہی تان دے