دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکسِ منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا
کون دے آواز خالی رات کے اندھے کنویں میں
کون اترے خواب سے محروم بستر میں اکیلا
اس کو تنہا کر گئی کروٹ کوئی پچھلے پہر کی
پھر اڑا بھاگا وہ سارا دن نگر بھر میں اکیلا
دل میں جمنے لگا ہے خوں شاید
آج کی رات سو سکوں شاید
اس کا ملنا محال ہے شاید
اس طرف سے گزر چلوں، شاید
اور تھوڑا سا زہر دے دیجے
اور تھوڑا سا جی اٹھوں شاید