Saturday, 31 December 2016

گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ

گلزارِ ہست و بود نہ بے گانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستئ ناپائیدار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تُو میرا شوق دیکھ، مِرا انتظار دیکھ

آزاد کی رگ سخت ہے مانند رگ سنگ

آزاد کی رگ سخت ہے مانند رگِ سنگ 
محکوم کی رگ نرم ہے مانند رگِ تاک
محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید 
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک
آزاد کی دولت دل روشن، نفس گرم 
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک

خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تیری

خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم! تیری
شجر، حجر بهی خدا سے کلام کرتے ہیں
بهلا نبهے گی تیری ہم سے کیونکر اے واعظ
کہ ہم تو رسمِ محبت کو عام کرتے ہیں
میں ان کی محفلِ عشرت سے کانپ جاتا ہوں
جو گهر کو پهونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں

علامہ محمد اقبال

بانگ درا

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

تِرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مِری سادگی ديکھ کيا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
يہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ ميں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت

ہندی اسلام
برصغیر کا اسلام

ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خدا داد
اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

آ اے ندیم طاعت مینا و مے کریں

آ، اے ندیم! طاعتِ مِینا و مے کریں
اک جام پر نثار دو صد روم و رے کریں
ہو جائیں سطحِ وقت سے، آ، ہمنشیں بلند
مابینِ صبح و شام سفر تا بہ کے کریں
بجنے لگے درود سے محرابِ کائنات
انفاسِ روزگار سے پیدا وہ لے کریں

ندی کا موڑ چشمہ شیریں کا زیر و بم

اردو زبان

ندی کا موڑ چشمۂ شیریں کا زیر و بم 
چادرِ شبِ نجوم کی شبنم کا رختِ نَم 
موتی کی آب، گل کی مہک، ماہِ نو کا خم
ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوۓ ہے تُو
کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوۓ ہے تُو
لہجہ ملیؔح ہے کہ نمک خوار ہوں تیرا

پھر بہار آئی ہوا سے بوئے یار آنے لگی

بہار آنے لگی

پھر بہار آئی، ہوا سے بوۓ یار آنے لگی
پھر پپیہے کی صدا دیوانہ وار آنے لگی
پی کہاں کا شور اٹھا، 'حق سرّہٗ' کا غلغلہ
کوئلیں کوکیں، صدائے آبشار آنے لگی
کھیت جھومے ابر مچلا، پھول مہکے دل کھِلے
کونپلیں پھوٹیں، ہوائے مشکبار آنے لگی

برسات کی ایک شام

برسات کی ایک شام
(راجپوتانہ)

خنک ہواؤں میں اٹھتی جونیوں کا خرام
کنارِ دشت میں برسات کی گلابی شام
زمیں کے چہرۂ رنگیں پر آسماں کی ترنگ
خنک ہواؤں میں بھیگی ہوئی تہوں کا رنگ

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بے قرار کیا

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کِیا 
بس اب تمہیں پہ چلو ہم نے انحصار کیا
تمہارا ذکر نہیں ہے،۔ تمہارا نام نہیں
کیا نصیب کا شکوہ،۔ ہزار بار کیا
ثبوت یہ ہے محبت کی سادہ لوحی کا 
جب اس نے وعدہ کیا، ہم نے اعتبار کیا

عالی جس کا فن سخن میں اک انداز نرالا تھا

عالی جس کا فنِ سخن میں اک انداز نرالا تھا
نقدِ سخن میں ذکر یہ آیا، دوہے پڑھنے والا تھا
چند نئے شعروں کے شعلے کیسی لے میں بھڑکتے تھے 
تم آ کر سنتے تو سہی کل ساری رات اجالا تھا
جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو
برسوں بعد غزل کی رو میں ایک مضمون نکالا تھا 

تمہیں مجھ میں کیا نظر آ گیا جو میرا یہ روپ بنا گئے

تمہیں مجھ میں کیا نظر آ گیا جو میرا یہ روپ بنا گئے
وہ تمام لوگ جو عشق تھے وہ میرے وجود میں آ گئے
نہ تیرے سوا کوئی لکھ سکے نہ میرے سوا کوئی پڑھ سکے
یہ حروف بے ورق و سبق،۔ ہمیں کیا زباں سکھا گئے
نہ کر آج ہم سے یہ گفتگو مجھے کیوں ہوئی تیری جستجو 
ارے ہم بھی ایک خیال تھے سو تیرے بھی ذہن میں آ گئے 

میں دل میں ان کی یاد کے طوفاں کو پال کر

میں دل میں ان کی یاد کے طوفاں کو پال کر
لایا ہوں ایک موجِ تغزل نکال کر
پیمانۂ طرب میں کہیں بال آ گیا
میں گرچہ پی رہا تھا بہت ہی سنبھال کر
محفل جمی ہوئی ہے تِری راہ میں کوئی
اے گردشِ زمانہ! بس اتنا خیال کر

ممکن نہیں کہ بزم طرب پھر سجا سکوں

ممکن نہیں کہ بزم طرب پھر سجا سکوں
اب یہ بھی ہے بہت کہ تمہیں یاد آ سکوں
یہ کیا طلسم ہے کہ جلوہ گاہ سے
نزدیک آ سکوں نہ کہیں دور جا سکوں
ذوقِ نگاہ اور بہاروں کے درمیاں
پردے گرے ہیں وہ کہ نہ جن کو اٹھا سکوں

نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے

نظر اٹھا دلِ ناداں یہ جستجو کیا ہے
اسی کا جلوہ تو ہے اور روبرو کیا ہے 
کسی کی ایک نظر نے بتا دیا مجھ کو
سرورِ بادہ بے ساغر و سبو کیا ہے
قفس عذاب سہی، بلبلِ اسیر!، مگر
ذرا یہ سوچ کہ وہ دامِ رنگ و بو کیا ہے 

کیا سنائیں کسی کو حال اپنا

کیا سنائیں کسی کو حال اپنا
اپنے دل میں رہے ملال اپنا
شرمسار جواب ہو نہ سکا
بسکہ خوددار تھا سوال اپنا
کس نے دیکھا نہیں ہے بعد عروج
سایۂ چرخ میں زوال اپنا

ستم کوئی نیا ایجاد کرنا

ستم کوئی نیا ایجاد کرنا
تو مجھ کو بھی مِری جاں یاد کرنا
قیامت ہے دل نالاں قیامت
تِرا رہ رہ کے یہ فریاد کرنا
چلو اب لطف ہی کو آزماؤ 
تمہیں آتا نہیں بے داد کرنا

اچھی ہے تجھ میں کوئی شے اسے نہ غارت کر

اچھی ہے تجھ میں کوئی شے اسے نہ غارت کر
جو ہو سکے تو کہیں دل لگا محبت کر
ادا یہ کس کٹے پتے سے تو نے سیکھی ہے
ستم ہوا کا ہو اور شاخ سے شکایت کر
نہ ہو مخل مِرے اندر کی ایک دنیا میں
بڑی خوشی سے بر و بحر پر حکومت کر

اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چن رہا ہوں میں

اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چن رہا ہوں میں
خوابوں کے درمیان خبر چن رہا ہوں میں
کیا دل خراش کام ہوا ہے مِرے سپرد
اک زرد رت کے برگ و ثمر چن رہا ہوں میں
اک خواب تھا کہ ٹوٹ گیا خوں کے حبس میں
اب تند دھڑکنوں کے بھنور چن رہا ہوں میں

یہ بستی میں مچی ہے کھلبلی کیا

یہ بستی میں مچی ہے کھلبلی کیا
زمیں سے چھت کسی کی آ لگی کیا
دِیا طوفان میں بھی جل رہا ہے
ہوا سے ہو گئی ہے دوستی کیا
چرا تو لوں تِری خوشبو ہوا سے
رہے گی لیکن اس میں تازگی کیا

خرابوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں

خرابوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں
دلوں میں بھی فطر رکھے ہوئے ہیں
برابر رابطے ہیں دونوں جانب
اُدھر وہ، اِدھر ہم رکھے ہوئے ہیں
عدو ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں
عدو پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں

بہت اداس ہوں کوئی فسانہ کہہ مجھ سے

بہت اداس ہوں، کوئی فسانہ کہہ مجھ سے
نہیں یہ عہد بھی عہدِ وفا، نہ کہہ مجھ سے
اسی فضا میں مِرے روز و شب گزرتے ہیں
شکست ذات کا ہر ماجرا نہ کہہ مجھ سے
حیات اصل میں ہے اپنے قرب کا احساس
تِرے بغیر بھی جینا ہوا، نہ کہہ مجھ سے

وہ زندگی کہ جس میں اذیت نہیں کوئی

وہ زندگی کہ جس میں اذیت نہیں کوئی
اک خواب ہے کہ جسکی حقیقت نہیں کوئی
میری وفا کو زلف و لب و چشم سے نہ دیکھ
کارِ خلوصِ ذات کی اجرت نہیں کوئی
تسلیم تیرے ربط و خلوص و وفا کے نام
خوش ہوں کہ ان میں لفظِ محبت نہیں کوئی

سدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں

سدا اپنی روش اہلِ زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں
ہجوم اپنی جگہ تاریک جنگل کے درختوں کا
پرندے پھر بھی شاخِ آشیانہ یاد رکھتے ہیں
ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دشمن کا
نشانی یاد رکھتے ہیں، نشانہ یاد رکھتے ہیں

آنکھوں سے کام ہم نے بہت ہی جدا لیا

آنکھوں سے کام ہم نے بہت ہی جدا لیا
پَل بھر میں ان کو دشت سے دریا بنا لیا
ہوش و خرد کی چلتی کہاں ان کے سامنے 
دل نے کہا تو پیار کا بیڑا اٹھا لیا
اب اور مجھ فقیر کو بھاشن نہ دیجیۓ 
سن سن کے کان پک گئے خطباتِ عالیہ

عجب اک خواب دیکھے جا رہے ہیں

عجب اک خواب دیکھے جا رہے ہیں 
جنوں میں رقص کرتے جا رہے ہیں
ہمیں ناخن کی حاجت ہو رہی ہے 
ہمارے زخم بھرتے جا رہے ہیں
وہ جس جانب ہمارا کچھ نہیں ہے 
اسی جانب یہ رستے جا رہے ہیں

جو کچھ لگا وہ کوچہ گلفام میں لگا

جو کچھ لگا وہ کوچۂ گلفام میں لگا
پھر اس کے بعد نہ دل کسی کام میں لگا
جب اس ستم نواز سے منسوب کر دیا
اب اور تہمتیں نہ مِرے نام میں لگا
دل ہی کے ٹکڑے کر دیئے تُو نے تو خوش جمال
لے جا، انہیں بھی گھر کے در و بام میں لگا

شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں

شکستہ خواب کی تعبیر کر رہا ہوں میں
خود اپنے جرم کی تشہیر کر رہا ہوں میں
جلا رہا ہوں ہتھیلی پہ آنسوؤں کے چراغ
دعا کو قابلِ تاثیر کر رہا ہوں میں
کوئی تو ہمتِ مردانہ دیکھنے آتا
خود اپنی ذات کو تسخیر کر رہا ہوں میں

جہاں سے آئے تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں

جہاں سے آۓ تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں 
وہ صاحبانِ بشارت کہیں چلے گئے ہیں
زمیں پہ رینگتے رہنے کو ہم جو ہیں موجود
جو اہلِ شرم تھے زیرِ زمیں چلے گئے ہیں
بہشت ہے کہ نہیں ہے یہ تو ہی جانتا ہے
تِرے فقیر بہ نامِ یقیں، چلے گئے ہیں

باد صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا

بادِ صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا
یہ نہ پوچھو کہ یہاں رات سے پہلے کیا تھا
اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے
جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا
اے سمندر! تِری آنکھیں ہیں یہاں سب سے قدیم
اس جزیرے پہ مکانات سے پہلے کیا تھا

زمیں سنولا گئی تھی آسماں گہنا گیا تھا

زمیں سنولا گئی تھی، آسماں گہنا گیا تھا
قلم گم ہو گیا تھا، اور دہن پتھرا گیا تھا
ہم اپنے منتشر سامان پر بیٹھے ہوئے تھے
نئی ترتیب کا پیغام غالب آ گیا تھا
بس اتنا یاد ہے ہم بالکونی میں کھڑے تھے
اور ان دیکھی زمینوں سے بلاوا آ گیا تھا

عشق کو کشف کیا حسن کا قائل ہوا میں

عشق کو کشف کیا حسن کا قائل ہوا میں 
اور پھر اپنے لیے کلمۂ باطل ہوا میں 
راس آتی نہیں اب میرے لہو کو کوئی خاک 
ایسا اس جسم کا پابندِ سلاسل ہوا میں 
سارے اسرارِ فنا کھلتے رہے صبح تلک 
رات آئینۂ ہستی کے مقابل ہوا میں 

بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارہ خواب

بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں گوشوارۂ خواب
سو ہم اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں خسارۂ خواب
وہ اک چراغ مگر ہم سے دور دور جلا
ہمیں نے جس کو بنایا تھا استعارۂ خواب
چمک رہی ہے اک آواز میرے حجرے میں 
کلام کرتا ہے آنکھوں سے اک ستارۂ خواب

اثبات ذات میں ہوا انکار ہر طرف

اثباتِ ذات میں ہوا انکار ہر طرف
بس ہو رہی ہے اپنی ہی تکرار ہر طرف 
کیا حسن بک رہا ہے ہوس کی دکان میں
چڑھتی گئی ہے گرمئ بازار ہر طرف
یوں تھا کہ اک خیال نمو پا نہیں سکا 
الجھا پڑا ہے جذبۂ اظہار ہر طرف

وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی

وہ دل بر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی 
وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کے حال دل کو 
سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی 
ہمارے درمیاں یہ دکھ ہی قدرِ مشترک ہیں 
سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی 

یہ کیسا عشق میں ڈوبا ہوا کردار ہے صاحب

یہ کیسا عشق میں ڈوبا ہوا کردار ہے صاحب
ابھی تک اسکی جھولی میں وہی پندار ہے صاحب 
دبک کر اتنے سارے غم یہاں خاموش بیٹھے ہیں 
یہ دل ہے یا کسی صوفی کا اک دربار ہے صاحب  
میں تیری شرط پہ سب جنگلوں کو پار کر آئی 
بتا! اب میرے حصے کا کدھر گلزار ہے صاحب

کبھی ہم پہ مہر و مہ کا یہ نظام مہرباں ہو

کبھی ہم پہ مہر و مہ کا یہ نظام مہرباں ہو
کوئی صبح دوست ٹھہرے کوئی شام مہرباں ہو
یہ خدائے بحر و بحر بر کی بھی عجیب حکمتیں ہیں
کبھی تشنگی ہو قرباں، کبھی جام مہرباں ہو
کبھی شب کی خلوتوں میں نہ سنے وہ دل کی باتیں
کبھی مہربان ہو تو سرِ عام مہرباں ہو

سرخئ شام لگے مجھ کو شہیدوں کا لہو

سرخئ شام لگے مجھ کو شہیدوں کا لہو
اور ستارے کسی بیوہ کے لرزتے آنسو
آج خود ریگ اڑاتے ہوئے غزلیں گائیں
آج صحرا میں بگولہ تھا، نہ کوئی آہو
اس کی یادیں ہیں کہ کانٹوں سے بھرا سینہ ہے
چین ملتا ہی نہیں دل کو کسی بھی پہلو

ہر ایک شعر تری ہی مثال ہے کہ نہیں

ہر ایک شعر تِری ہی مثال ہے کہ نہیں
سخنوری میں یہ دستِ کمال ہے کہ نہیں
میں تیرے نام کی خاطر ہی ٹوٹ کر بکھرا
مِری شکست کا تجھ کو ملال ہے کہ نہیں
جواب دے کہ نہ دے یہ تِری رضا لیکن
سوال یہ ہے کہ اِذنِ سوال ہے کہ نہیں

Friday, 30 December 2016

جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے

جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے
ہم نے بس آپ کے لیے کیے تھے
تب کہیں جا کے اپنی مرضی کی
پہلے اپنوں سے مشورے کیے تھے
کبھی، اس کی نِگہ میسر تھی
کیسے کیسے مشاہدے کیے تھے

مرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات

مِرے حواس پہ حاوی رہی کوئی کوئی بات
کہ زندگی سے سوا خاص تھی کوئی کوئی بات
یہ اور بات، کہ محسوس تک نہ ہونے دوں
جکڑ سی لیتی ہے دل کو تِری کوئی کوئی بات
خوشی ہوئی، کہ ملاقات رائیگاں نہ گئی
اسے بھی میری طرح یاد تھی کوئی کوئی بات

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے
پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے 
تجھ سے جب مل کر بھی اداسی کم نہیں ہوتی
تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے
کیسے کسی کی یاد ہمیں زندہ رکھتی ہے
ایک خیال سہارا کیسے ہو سکتا ہے

وحشت شب چراغوں میں ڈھلتی رہی

وحشتِ شب چراغوں میں ڈھلتی رہی 
روشنی رنگ اپنے بدلتی رہی
اس ستارے میں تھی بے کلی جس کی لو 
گاہے بجھتی رہی، گاہے جلتی رہی
اس کی دستار سورج نما تھی بہت
سامنے اک دِیے کے پگھلتی رہی

لے گئے وہ ساتھ اپنے حسن سارا شام کا

لے گئے وہ ساتھ اپنے حسن سارا شام کا 
ہجر کی تصویر ہے اب ہر نظارا شام کا 
خیمہ زن ہیں چاند کے رستے میں گہری بدلیاں 
آندھیوں کی زد میں ہے پہلا ستارا شام کا 
روشنی اور تیرگی کی سرحدیں تھامے ہوئے 
درمیاں دن رات کے بہتا ہے دھارا شام کا 

ہمارے دل میں جو کچھ تھا وہی دیوار و در میں ہے

ہمارے دل میں جو کچھ تھا وہی دیوار و در میں ہے
کہ اس دیوانگی کے عکس کا آئینہ، گھر میں ہے
ہم اپنی روشنی کی جستجو میں اب کہاں جائیں 
دِیے کی لو کہیں بھی ہو ہواؤں کی نظر میں ہے
سفر کا انت ہے، اب راستے معدوم ہیں سارے 
مگر تسکینِ دل کو کارواں اپنا سفر میں ہے

یہ کس نے باغ سے اس شخص کو بلا لیا ہے

یہ کس نے باغ سے اس شخص کو بلا لیا ہے
پرند اڑ گئے، پیڑوں نے منہ بنا لیا ہے
اسے پتا تھا میں چھونے میں وقت لیتا ہوں 
سو اس نے وصل کا دورانیہ بڑھا لیا ہے
یہ رات نام نہیں لے رہی تھی کٹنے کا 
چراغ جوڑ کے لوگوں نے دن بنا لیا ہے

یہ کون راہ میں بیٹھے ہیں مسکراتے ہیں

یہ کون راہ میں بیٹھے ہیں مسکراتے ہیں 
مسافروں کو "غلط راستہ" بتاتے ہیں
تِرے لگائے ہوئے زخم کیوں نہیں بھرتے 
مِرے لگائے ہوئے پیڑ سوکھ جاتے ہیں
انہیں گِلہ تھا کہ میں نے انہیں نہیں چاہا 
یہ اب جو میری توجہ سے خوف کھاتے ہیں

بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا

بتا اے ابر! مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا
محاذِ عشق سے کب کون بچ کے نکلا ہے
تُو بچ گیا ہے تو خیرات کیوں نہیں کرتا
وہ جس کی چھاؤں میں پچیس سال گزرے ہیں
وہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا

جو برا ہو اسے بے خوف برا کہتے ہیں

جو بُرا ہو، اسے بے خوف بُرا کہتے ہیں
ڈر کے اچھا جو کہے وہ بھی برا کہتے ہیں
ایک ہی لفظ اترتا ہے سماعت میں، مگر
لوگ کہتے ہیں الگ، ہم بھی جدا کہتے ہیں
آتی جاتی یہ رُتیں یاد دلاتی ہیں تیری
کوئی موسم ہو اسے تیری ادا کہتے ہیں

آؤ نا بھیگے بھیگے موسم میں

آؤ نا 
بھیگے بھیگے موسم میں
بھیگے بھیگے منظر
ساکت لمحوں کی آنکھوں میں
صدیوں کی ویرانی جیسے
بھیگے بھیگے منظر

پیار سے میں جو روشنی رکھوں

پیار سے میں جو روشنی رکھوں
دھوپ کے گھر میں چاندنی رکھوں
ساری نظروں سے دوں فریب نکال
سارے چہروں پہ سادگی رکھوں
آگ ہی آگ،۔ آگہی کیسی
خار پر کیسے تازگی رکھوں

خیال و خواب میں جب اس پری کو دیکھتا ہوں

خیال و خواب میں جب اس پری کو دیکھتا ہوں
پلٹ کے گزری ہوئی زندگی کو دیکھتا ہوں
سنا ہے آج وہ آئے گا شام ڈھلتے ہی
فلک سے آتی ہوئی روشنی کو دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں مجھے کوئی دیکھتا ہے بہت
مگر میں دور کسی اور ہی کو دیکھتا ہوں

وہ سب یزید ان کے چہیتے یزید ہیں

وہ سب یزید، ان کے چہیتے یزید ہیں
کرتے ہیں قتلِ عام جو، سارے یزید ہیں
کچھ لوگ کھل کے سامنے آۓ ہوۓ ہیں اور
کچھ نام کے حسین ہیں، ویسے یزید ہیں
اوپر سے کچھ ہیں سنی و دیوبند، کچھ شیعہ
اندر سے جھانکیے جو تو پکے یزید ہیں

کیا ہے دوزخ کیا ہے جنت ایک بوتل اور دو

کیا ہے دوزخ، کیا ہے جنت، ایک بوتل اور دو
سب بتا دوں گا حقیقت، ایک بوتل اور دو
آسماں کی سیر کر لیتا ہوں میں پینے کے بعد
مجھ کو ہوتی ہے بشارت، ایک بوتل اور دو
بِن پیے دیکھوں تو یہ سب جھوٹ لگتا ہے مجھے 
معجزہ،۔ القا،۔ کرامت،۔ ایک بوتل اور دو

بس چراغوں کو بجھانا تھا چلے جانا تھا

بس چراغوں کو بجھانا تھا، چلے جانا تھا 
نیند میں سارا زمانہ تھا، چلے جانا تھا
پھر کسی حیلے بہانے کی ضرورت ہی نہ تھی 
تم نے گر چھوڑ کے جانا تھا، چلے جانا تھا
یہ ہے دنیا، یہاں ہر موڑ پہ دل ٹوٹتا ہے 
دل کے ٹکڑوں کو اٹھانا تھا، چلے جانا تھا

تھوڑی کڑوی ضرور ہے بابا

تحقیق

تھوڑی کڑوی ضرور ہے بابا 
اپنے غم کا مگر مداوا ہے
ذائقہ کا قصور ہے بابا
تلخ و شیریں میں فاصلہ کیا ہے
رنگ و روغن کو سال و سِن کو نہ دیکھ
پیڑ گننا، کہ آم کھانا ہے؟

رات پھر ان کا انتظار رہا

واردات

رات پھر ان کا انتظار رہا
رات پھر گاڑیاں گزرتی ہیں
وہ کوئی دم میں آئے جاتے ہیں
راہیں سرگوشیاں ہی کرتی رہیں
ایک امید باز دید جو تھی
دل کبھی یاس آشنا نہ ہوا

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے
پھر بھی تمہارے باغ ہیں لیکن من کی کھڑکی کھولی ہے
آؤ کہ پل بھر مل کے بیٹھیں بات سنیں اور بات کہیں
من کی بیتا، تن کا دکھڑا، دنیا کے حالات کہیں
اس دھرتی پر اس دھرتی کے بیٹوں کا کیا حال ہوا
رستے بستے ہنستے جگ میں جینا کیوں جنجال ہوا

دار و رسن کی گود کے پالے ہوئے ہیں ہم

دار و رسن کی گود کے پالے ہوئے ہیں ہم 
سانچے میں مشکلات کے ڈھالے ہوئے ہیں ہم
وہ دولتِ جنوں کہ زمانے سے اٹھ گئی
اس دولتِ جنوں کو سنبھالے ہوئے ہیں ہم
اپنے سروں کو نوکِ سناں پر بہ کر و فر
پُر ہول معرکوں میں اچھالے ہوئے ہیں ہم

اس دور پر آشوب میں اے عید نہ آ تو

عیدِ قرباں

اس دورِ پُر آشوب میں اے عید نہ آ تُو
آئی ہے تو اسلوبِ ابراہیمؑ سکھا تو
کشمیر کی جنت سے شہیدوں کا لہو مانگ
طاغوت کو اسلام کی طاقت سے ہرا تو
کونین کے آقاؐ کی رسالت کے علم کھول
توحید پرستوں کو سکھا صبر و رضا تو

یہ دور تیره و تاریک بیت جائے گا

جریدہ چٹان کی بندش پر میاں ممتاز دولتانہ کو مخاطب کرتے ہوئے

یہ دور تیره و تاریک بیت جائے گا
کبهی تو مہرِ جہاں تاب مسکرائے گا
ہمارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے ہمارا جواب لائے گا
وزارتیں تو کهلونا ہیں، ٹوٹ جائیں گی 
چٹان آئے گا آخر،۔ ضرور آئے گا

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھیں آنکھیں
وہ ایک خواب، کہ اب تک نظر نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں نارسائیوں کا گِلہ
سفر تمام ہوا،۔۔۔ ہم سفر نہیں آیا

ستارہ وار جلے پھر بجھا دیے گئے ہم

ستارہ وار جلے، پھر بجھا دیے گئے ہم
پھر اس کے بعد نظر سے گِرا دیے گئے ہم
عزیز تھے ہمیں نوواردانِ کوچۂ عشق
سو پیچھے ہٹتے گئے راستہ دیے گئے ہم
شکست و فتح کے سب فیصلے ہوۓ کہیں اور
مثال مالِ غنیمت لٹا دیے گئے ہم

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی
اور دامن قاتل کی ہوا اور طرح کی
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر ہے کچھ اور
دیتی ہے خبر خلقِ خدا اور طرح کی
کس دام اٹھائیں گے خریدار کہ اس بار
بازار میں ہے جنسِ وفا اور طرح کی

Thursday, 29 December 2016

آتش کدہ دل کو ہوا کیوں نہیں دیتے

آتش کدۂ دل کو ہوا کیوں نہیں دیتے
پتھر تو نہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے
سرمست اگر ہو تو سرِ بزمِ رقیباں
اک نعرۂ مستانہ لگا کیوں نہیں دیتے
سایہ ہے کہ خورشید کے دل کی ہے سیاہی
محرم ہو تو یہ راز بتا کیوں نہیں دیتے

جو کچھ بھی گزرنا ہے مرے دل پہ گزر جائے

جو کچھ بھی گزرنا ہے مِرے دل پہ گزر جائے
اترا ہوا چہرہ مِری دھرتی کا نکھر جائے
اک شہرِ صدا سینے میں آباد ہے، لیکن
اک عالمِ خاموش ہے جس سمت نظر جائے
ہم بھی ہیں کسی کہف کے اصحاب کی مانند
ایسا نہ ہو، جب آنکھ کھلے، وقت گزر جائے

جاگ اٹھا ہے سارا وطن

جاگ اٹھا ہے سارا وطن
رزمیہ ترانہ

ساتھیو! مجاہدو
جاگ اٹھا ہے سارا وطن
ساتھیو! مجاہدو

آج مظلوم ظالم سے ٹکرائیں گے
اپنی طاقت زمانے سے منوائیں گے

دور گردوں ہے مجھے در در پھرانے کے لیے

دورِ گردوں ہے مجھے در در پھرانے کے لیے
میرے باعث سے ہوئی گردش زمانے کے لیے
بے نوائی ہو مقدر میں تو کیجے عاشقی
یہ بہانہ خوب ہے، ذِلت اٹھانے کے لیے
شامِ غم کی آفتیں اے دل! میں تجھ سے کیا کہوں
کون، کس کس، بھیس میں آیا ڈرانے کے لیے

عجب عالم ہے گلشن میں فضائے سبزہ و گل سے

عجب عالم ہے گلشن میں فضائے سبزہ و گل سے
کوئی جامِ زمرد گوہرِ یاقوت سے بھر دے
چمن میں صبح کو اٹھتے ہیں شعلے آتشِ گل سے
صبوحی کے لیے ہم کو بھی ساقی آتشِ تر دے
لہو کی بوند بھی اب چشمِ لاغر میں نہیں باقی
علاجِ ناتوانی کے لیے خونِ کبوتر دے

نہ پوچھو ہم سے کیونکر زندگی کے دن گزرتے ہیں

نہ پوچھو ہم سے کیونکر زندگی کے دن گزرتے ہیں
کسی بے درد کی فرقت میں جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
کوئی ان سے کہے دل لے کے بھی یوں ہی مکر جانا
عدو کے سامنے جو گالیاں دے کر مکرتے ہیں
تماشا ہو جو ان کا بوسہ لے کر ہم مکر جائیں
بہت جو چاہنے والوں کا دل لے مکرتے ہیں

کل رات کو انہیں جو کہیں دیر ہو گئی

کل رات کو انہیں جو کہیں دیر ہو گئی
دنیا ہماری آنکھوں میں اندھیر ہو گئی
بیہودہ خواہشوں نے نہ جینے دیا ہمیں
ان موذیوں سے عقل اگر زیر ہو گئی
اے موت! تجھ کو کیا ہوا تُو ہی بلا سے آ
ان کو تو آتے آتے بڑی دیر ہو گئی

درد بے حد سا کوئی ڈھنگ کا آزار تو ہو

درد بے حد سا کوئی ڈھنگ کا آزار تو ہو
زیست کرنے کے لیے سر پہ اک پندار تو ہو
تجھ پہ بھی شہر کے کھل جائیں گے اسرار و رموز
تُو بھی میری طرح رسوا سرِ بازار تو ہو
ہم نہیں کوچۂ جاناں میں کوئی سہل پسند
راہ لینے کے لیے سامنے کوئی دیوار تو ہو

آپ کیوں ہو گئے اجنبی کی طرح

آپ کیوں ہو گئے اجنبی کی طرح
بات تو کیجیئے آدمی کی طرح
آپ جب تک مِرے ساتھ چلتے رہے
دھوپ نکلی، مگر چاندنی کی طرح
پھول برسے تھے کل جنکی گفتار سے
آج وہ ہو گئے پھلجھڑی کی طرح

ختم شور فغاں تھا دور تھی سیاہی بھی

ختم شورِ فغاں تھا، دور تھی سیاہی بھی
دم کے دم میں افسانہ تھا مِری تباہی بھی
التفات سمجھوں یا بے رخی کہوں اس کو
رہ گئی خلش بن کر اس کی کم نگاہی بھی
اس نظر کے اٹھنے میں، اس نظر کے جھکنے میں
نغمۂ سحر بھی ہے، آہِ صبح گاہی بھی

جنون دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے

جنونِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قد و گیسو سے اپنا سلسلہ دار و رسن تک ہے
مگر اے ہم قفس! کہتی ہے شوریدہ سری اپنی
یہ رسمِ قید و زنداں، ایک دیوارِ کہن تک ہے
کہاں بچ کر چلی اے فصلِ گل! مجھ آبلہ پا سے
مِرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے

چمن ہے مقتل نغمہ اب اور کیا کہیے

چمن ہے مقتلِ نغمہ اب اور کیا کہیے
بس اک سکوت کا عالم جسے نوا کہیے
اسیرِ بندِ زمانہ ہوں صاحبانِ چمن
مِری طرف سے گلوں کو بہت دعا کہیے
یہی ہے جی میں کہ وہ رفتۂ تغافل و ناز
کہیں ملے تو وہی قصۂ وفا کہیے

بے سبب لوگ بدلتے نہیں مسکن اپنا

بے سبب لوگ بدلتے نہیں مسکن اپنا
تم نے جلتے ہوئے دیکھا ہے نشیمن اپنا
کس کڑے وقت میں موسم نے گواہی مانگی
جب گریبان بھی اپنا ہے، نہ دامن اپنا
اپنے لٹ جانے کا الزام کسی کو کیا دوں
میں ہی تھا راہنما، میں ہی تھا راہزن اپنا

رفتہ رفتہ کہنے والے لوگ

رفتہ رفتہ کہنے والے لوگ
بن جاتے ہیں جلنے والے لوگ
اندر سے یہ ہوتے ہیں غمگین
اوپر اوپر ہنسنے والے لوگ
اکثر ہوتے ہیں یہ کینہ ساز
مسکینوں سے چہرے والے لوگ

عظمت فن کے پرستار ہیں ہم

عظمتِ فن کے پرستار ہیں ہم
یہ خطا ہے تو خطا وار ہیں ہم
جہد کی دھوپ ہے ایماں اپنا
منکرِ سایۂ دیوار ہیں ہم
جانتے ہیں تیرے غم کی قیمت
مانتے ہیں کہ گنہ گار ہیں ہم

ان شوخ حسينوں پہ مائل نہيں ہوتا

ان شوخ حسينوں پہ مائل نہيں ہوتا
کچھ اور بلا ہوتی وہ دل نہيں ہوتا
کچھ وصل کے وعدے سے بھی حاصل نہيں ہوتا
خوش اب تو خوشی سے بھی ميرا دل نہيں ہوتا
گردن تنِ بسمل سے جدا ہو گئی کب سے
گردن سے جدا خنجرِ قاتل نہيں ہوتا

ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کے عاشق

ہیں نہ زندوں میں نہ مُردوں میں کمر کے عاشق
نہ اِدھر کے ہیں الہٰی، نہ اُدھر کے عاشق
ہے وہی آنکھ جو مشتاق تِرے دید کی ہو
کان وہ ہیں جو رہیں تِری خبر کے عاشق
جتنے ناوک ہیں کماندار تِرے ترکش میں 
کچھ مِرے دل کے ہیں کچھ میرے جگر کے عاشق

میری تربت پر اگر آئیے گا

میری تُربت پر اگر آئیے گا
عمرِ رفتہ کو بھی بلوائیے گا
سب کی نظروں پہ نہ چڑھئیے اتنا
دیکھیئے، دل سے اتر جائیے گا
آئیے نزع میں بالیں پہ مِری
کوئی دم بیٹھ کے اٹھ جائیے گا

جل گیا دل مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے

جل گیا دل، مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے
جیسے لوں چلتی مِرے منہ سے ہوا نکلے ہے
لختِ دل، قطرۂ خوں، ٹکڑے جگر ہو ہو کر
کیا کہوں میں کہ مِری آنکھوں سے کیا نکلے ہے
میں جو ہر سو لگوں ہوں دیکھنے ہو کر مضطر
آنسو ہر میری نگہ ساتھ گتھا نکلے ہے

ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے

ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے
جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے
کیا رفتگی سے میری تم گفتگو کرو ہو
کھویا گیا نہیں میں ایسا جو کوئی پاوے
چھاتی کے داغ یکسر آنکھوں سے کھل رہے ہیں
دیکھیں ابھی محبت کیا کیا ہمیں دکھاوے

کیا کشت و خوں پہ ان دنوں میلان یار ہے

کیا کشت و خوں پہ ان دنوں میلانِ یار ہے
ہر جائے پوچھتا ہے کہ یاں کچھ شکار ہے
جاتا ہے اس کشندے کی جان چلا ہوا
صیدِ ازل رسیدہ ہے دل بے قرار ہے
آنکھیں جو میری باز ہیں جوں صید بسملی
اس ترک صید بند کا یہ انتظار ہے

ہر چند میرے حق میں کب اس کا ستم نہیں

ہر چند میرے حق میں کب اس کا ستم نہیں
پر اس ستم سے با مزہ لطف و کرم نہیں
درویش جو ہوئے تو گیا اعتبار سب
اب قابل اعتماد کے قول و قسم نہیں
حیرت میں سکتے سے بھی مِرا حال ہے پرے
آئینہ رکھ کے سامنے دیکھا تو دم نہیں

پند واعظ سنتے سنتے کان اپنے بھر گئے

پندِ واعظ سنتے سنتے کان اپنے بھر گئے
کیا عبادت کو ہمیں ہیں، سب فرشتے مر گئے 
پھوٹ کر روۓ جو چھالے، ہو گئے جنگل ہرے
چشمِ دریا بار جب برسی تو جل تھل بھر گئے
دیکھ سکتا کیا ہمارا حال، وہ نازک مزاج
آئینے میں آپ اپنی شکل سے ہم ڈر گئے

مرے کوچے میں وہ کن شوخیوں سے جابجا ٹھہرے

مِرے کوچے میں وہ کن شوخیوں سے جا بجا ٹھہرے
بڑھے بڑھ کر تھمے دم بھر چلے چل کر زرا ٹھہرے
تغافل کی نہ ٹھہرے آج قاتل فیصلہ ٹھہرے
نہیں تلوار تو فقرہ کوئی چلتا ہوا ٹھہرے
تسلی دل کو جو دیتے ہیں کیسے لوگ ہیں یا رب
جگر ہی جب نہ ٹھہرے تو جگر پر ہاتھ کیا ٹھہرے

کیوں کر اس کی نگہ ناز سے جینا ہو گا

کیونکر اس کی نگہِ ناز سے جینا ہو گا
“زہر دے اس پہ یہ تاکید کہ ”پینا ہو گا
تیری مژگاں کی نہ تھی دست درازی مشہور
دل جھپٹ کر کسی رہگیر کا چھینا ہو گا
چاک دل تیغِ تغافل سے کیا ہے تم نے
رشتۂ تار نظر سے تمہیں سِینا ہو گا

غیر بھی میری طرح کرتے ہیں آہیں کیونکر

غیر بھی میری طرح کرتے ہیں آہیں کیوں کر
میں بھی دیکھوں کہ پلٹتی ہیں نگاہیں کیوں کر
نہ دلاسا، نہ تسلی، نہ تشفی، نہ وفا
دوستی اس بتِ بدخو سے نباہیں کیوں کر
چاہ کا نام جب آتا ہے بگڑ جاتے ہو
وہ طریقہ تو بتاؤ تمہیں چاہیں کیوں کر

صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر سازنہیں

صرف اک سوز تو مجھ میں ہے، مگر سازنہیں
میں فقط درد ہوں، جس میں کوئی آواز نہیں
مجھ سے جو چاہیئے، وہ درسِ بصیرت لیجے 
میں خود آواز ہوں، میری کوئی آواز نہیں
وہ مزے ربطِ نہانی کے کہاں سے لاؤں
ہے نظر مجھ پہ، مگر اب غلط انداز نہیں

ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گہ نماز میں

ہوش کسی کا بھی نہ رکھ جلوہ گہِ نماز میں 
بلکہ خدا کو بھول جا، سجدۂ بے نیاز میں 
رازِ نشاطِ خلد ہے خندۂ دل نواز میں
غیب و شہود کے رموز نرگسِ نیم باز میں
آج تو اضطرابِ شوق حد سے سوا گزر گیا
اور بھی جان پڑ گئی عشوۂ جاں گداز میں

یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے

یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے 
ہم مرکے کیا کریں گے، کیا کر لِیا ہے جی کے 
محسوس ہو رہے ہیں، بادِ فنا کے جھونکے
کھُلنے لگے ہیں مجھ پر اسرار زندگی کے 
شرح و بیانِ غم ہے اِک مطلبِ مُقید 
خاموش ہوں کہ معنی صدہا ہیں خامشی کے 

دل کو لگتی ہے دلربا کی ادا

دل کو لگتی ہے، دل ربا کی ادا
جس میں بستی ہے، خوش ادا کی ادا
حرفِ بے جا ہے، میں اگر بولوں
دشمنِ ہوش ہے، پیا کی ادا
نقشِ دیوار کیوں نہ ہو عاشق
حیرت افزأ ہے بے وفا کی ادا

موسیٰ اگر جو دیکھے تجھ نور کا تماشہ

موسیٰ اگر جو دیکھے تجھ نور کا تماشا 
اس کوں پہاڑ ہووے پھر طور کا تماشا
اے رشکِ باغِ جنت! تجھ پر نظر کئے سوں 
رضواں کو ہووے دوزخ، پھر حور کا تماشا
کثرت کے پھول بن میں جاتے نہیں ہیں عارف 
بس ہے مؤحداں کوں منصور کا تماشا

وہ صنم جب سوں بسا دیدہ حیران میں آ

وہ صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ
آتشِ عشق پڑی عقل کے سامان میں آ
یاد آتا ہے مجھے جب وہ گلِ باغِ وفا
اشک کرتے ہیں مکاں گوشۂ دامان میں آ
نالہ و آہ کی تفصیل نہ پوچھو مجھ سوں
دفترِ درد بسا عشق کے دیوان میں آ

بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے

بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے
سوا تیرے، تِری محفل میں کیا ہے
یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا
تُو ہی تُو ہے بھری محفل میں کیا ہے
کسی کے بجھتے دل کی ہے نشانی 
چراغِ سرحدِ منزل میں کیا ہے

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
وہ مِرا پہلے پہل داخلِ زِنداں ہونا
قابلِ دید ہے اس گھر کا بھی ویراں ہونا
جس کے ہر گوشہ میں مخفی تھا بیاباں ہونا
جی نہ اٹھوں گا، ہے بے کار پشیماں ہونا
جاؤ اب ہو چکا جو کچھ تھا مِری جاں ہونا

Wednesday, 28 December 2016

چپ ہوں لیکن ہے خموشی بھی کلام آلودہ

چپ ہوں لیکن ہے خموشی بھی کلام آلودہ
تیغ پھر تیغ ہے، ہو لاکھ نیام آلودہ
ساقیا! بزم میں ارزاں ہیں بنامِ مے آج
آبِ ناپاک کے کچھ قطرۂ جام آلودہ
ایک دنیا کا تصور کوئی آسان نہیں
ذہنِ انساں ہے ابھی تک تو مقام آلودہ

جفا صیاد کی اہل وفا نے رائیگاں کر دی

جفا صیاد کی اہلِ وفا نے رائیگاں کر دی
قفس کی زندگی وقفِ خیالِ آشیاں کر دی
یہ دل کیا ہے کسی کو امتحانِ ظرف لینا تھا
تنِ خاکی میں اک چھوٹی سی چنگاری نہاں کر دی
بھرم حسنِ حقیقت کا کوئی کھلنے نہیں دیتا
نظر جب سامنے آئی، تجلی درمیاں کر دی

جل بجھی جب شمع دل پیغام شام آیا تو کیا

جل بجھی جب شمعِ دل، پیغامِ شام آیا تو کیا
مر چکی جب پیاس ساقی لے کے جام آیا تو کیا
تابِ جلوہ بھی تو ہو، وہ سُوۓ بام آیا تو کیا
چشم موسیٰ لے کے عشقِ تشنہ کام آیا تو کیا
گر چکی اک بار جب بجلی نگاہِ شوق پر
طور کی چوٹی سے پھر کوئی پیام آیا تو کیا

مجھ میں سر سبز رہے گاؤں کا منظر آمین

مجھ میں سر سبز رہے گاؤں کا منظر، آمین
شہر مر جائے مِرے جسم کے اندر، آمین
ڈوبتے ہاتھ اٹھے آب کے خالق امداد
ابر کہنے لگا آمین، سمندر آمین
ایسا لگتا ہے مجھے ڈھونڈ رہا ہے کوئی
اب تو ہٹ جائے بینائی کا پتھر، آمین

صبح گریہ نہ شام گریہ ہے

صبحِ گِریہ نہ شامِ گِریہ ہے
لمحہ لمحہ مقامِ گریہ ہے
گفتگو سے گریز کیجے گا 
خامشی ہم کلامِ گریہ ہے
عشق آباد کا سفر نامہ 
رائیگانی بنامِ گریہ ہے

نہ پوچھ کتنے مضافات کا بنا ہوا ہے

نہ پوچھ کتنے مضافات کا بنا ہوا ہے
یہ شہرِ غم ہے مِرے ہاتھ کا بنا ہوا ہے
کسی درخت کو جنگل میں ڈر نہیں لگتا
یہ آدمی ہے، جو خدشات کا بنا ہوا ہے
وہ جل پری تھی مگر خون پی گئی میرا
نشاں گلے پہ ابھی رات کا بنا ہوا ہے

اس کی آنکھوں میں طلب اپنی بڑھاتے ہوئے ہم

اس کی آنکھوں میں طلب اپنی بڑھاتے ہوئے ہم
ہونے لگتے ہیں عیاں خود کو چھپاتے ہوئے ہم
تجھ تک آتے ہیں عجب شوقِ گرفتاری میں
آپ اپنے لیے زنجیر بناتے ہوئے ہم
زادِ رہ اس لیے باندھا ہے کہ یہ دیکھ سکیں
کیسے لگتے ہیں تجھے چھوڑ کے جاتے ہوئے ہم

سامنے رکھ کے ترے تجھ سے چھپایا گیا ہوں

سامنے رکھ کے تِرے تجھ سے چھپایا گیا ہوں
میں تجھے ایک ہی پہلو سے دکھایا گیا ہوں
جا رہا ہوں کہیں پیغامِ محبت لے کر
پھول ہوں اور کسی دریا میں بہایا گیا ہوں
یہ جو ترتیب سے عاری ہیں در و بام مِرے
میں کسی خوف کی عجلت میں بنایا گیا ہوں

خدا کہوں گا تمہیں ناخدا کہوں گا تمہیں

خدا کہوں گا تمہیں، ناخدا کہوں گا تمہیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمہیں
میری پسند، میرے نام پر نہ حرف آئے
بہت حسیں، بہت با وفا کہوں گا تمہیں
ہزار دوست ہیں، وجہِ ملال پوچھیں گے
سبب تو صرف تمہی ہو، میں کیا کہوں گا تمہیں

ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو

ایک عجیب راگ ہے، ایک عجیب گفتگو
سات سروں کی آگ ہے، آٹھویں سر کی جستجو
بجھتے ہوئے مِرے خیال، جن میں ہزارہا سوال
پھر سے بھڑک کے روح میں، پھیل گئے ہیں چار سو
تیرہ شبی پہ صبر تھا، سو وہ کسی کو بھا گیا
آپ ہی آپ چھا گیا، ایک سحابِ رنگ و بو

برہمی میں بھی وہ ابہام روا رکھتے تھے

برہمی میں بھی وہ ابہام روا رکھتے تھے
کئی الفاظ تو مفہومِ وفا رکھتے تھے
اگلے وقتوں کے حسینوں سے گواہی لے لو 
ہم بھی ایک اپنی جوانی کی ہوا رکھتے تھے 
ہم جو آ پہنچے تو احساں ہے تیرا ہی، ورنہ 
سبھی رستے تِری منزل سے جدا رکھتے تھے

ہمیں حنوط کرو ہم جیتے جی فرعونوں جیسے افضل تھے

ہمیں حنوط کرو 

ہم جیتے جی فرعونوں جیسے افضل تھے
برتر، اعلیٰ، سب سے اونچے
ہم مخدوم، مکرم، مقبول و ماجد
سب کے آقا تھے
آج ہماری ہار ہوئی ہے

چیز چمکیلی سی بیٹھی تھی مرے پھن میں تنی

چیز چمکیلی سی بیٹھی تھی مِرے پھن میں تنی
سنگِ اسود کا کوئی ٹکڑا تھا، یا پارس منی
کھٹکھٹائیں کس کا در اس شہر کے دریوزہ گر
گانٹھ کے پکے ہیں دونوں، شوم کیا اور کیا غنی
اک زمرد وقت آنے پر اگلنا ہی پڑا
بھول سے وہ کیوں نگل بیٹھی تھی ہیرے کی کنی

بوڑھا دڑھیل پیڑ تھا جانے کس طوفان میں اکھڑا تھا

بوڑھا دڑھیل پیڑ تھا، جانے کس طوفان میں اُکھڑا تھا
کیا دیکھوں اب پیچھے مڑ کر، میں کب گھر سے اجڑا تھا
چوکھٹ پر آنکھیں دفنائیں، دروازے سے پیار کیا
ستیہ پال آنند کی ہجرت کا بس اتنا دکھڑا تھا
پھٹے پرانے کپڑے تھے اس بھیک مانگتے بچے کے
پتی پتی بکھری ہوئی تھی، پھول بھی ادھڑا ادھڑا تھا

رہی فراق میں بھی شکل رو برو تیری

رہی فراق میں بھی شکل روبرو تیری
شبہیہ کھینچی تصور نے ہوبہو تیری
معاف رکھ جو ہے گُلہائے تر سے پیار مجھے
کہ اِن میں رنگ تِرا کچھ ہے، کچھ ہے بو تیری
نسیمِ صبح کا جھونکا نفس نفس تیرا
رہے گی سوختہ جانوں کو آرزو تیری

تن خاکی رہے گا ہمرہ انوار جاں کب تک

تنِ خاکی رہے گا ہم رہِ انوارِ جاں کب تک
چلے گی کارواں کے ساتھ گردِ کارواں کب تک
اِدھر بھی ایک جھونکا اے ہوائے فصلِ آزادی
رہوں زنجیرئ اندیشۂ سود و زیاں کب تک
نسیمِ فصلِ گُل آئی نہ ان بارہ مہینوں میں
رہے گی باغ میں اے باغباں دورِ خزاں کب تک

ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں

ہجراں کی شب جو درد کے مارے اداس ہیں
ان کی نظر میں چاند ستارے اداس ہیں
آنکھیں وہ پھر گئیں کہ زمانہ الٹ گیا
جیتے تھے جو نظر کے سہارے اداس ہیں
کیا ہیر اب کہیں ہے نہ رانجھے کا جانشیں
کیوں اے چناب! تیرے کنارے اداس ہیں

میان چشم و دل ہیں آتشیں موجوں کے دریا

میانِ چشم و دل ہیں آتشیں موجوں کے دریا 
سلگتے آنسوؤں میں ڈھل گئے یادوں کے دریا
رہی زیرِ قدم کیوں نیند میں بھی ارضِ وحشت 
تلاطم خیز تھے دل میں کئی خوابوں کے دریا
ٹھہرتی کیا نظر کوئی تڑپتے آئینے پر
پسِ آئینہ تھے زنگارئ پر خوں کے دریا

اپنے وجود کو کھلے پانی میں آ کے دیکھ

اپنے وجود کو کھلے پانی میں آ کے دیکھ
اے برف برف موج روانی میں آ کے دیکھ
اک بے کراں طلسم ہے بہتا ہوا خیال 
لفظوں کی آبجو کو معانی میں آ کے دیکھ
بے کیف و بے مراد ہے آزادئ عمل 
کردار کا جواز کہانی میں آ کے دیکھ

کسی کی سمت رہے رات پرفشاں مرے خواب

کسی کی سمت رہے رات پرفشاں مِرے خواب 
ستارے پھول ہوئے اور تتلیاں مرے خواب
یہ کیا سفر ہے کہ جس کا کوئی قیام نہیں 
زرا قدم جو رکے تو ہوئے رواں مرے خواب
غبار تھا، میں سدا کارواں سے دور رہا 
کہ شعلہ شعلہ تھی منزل دھواں دھواں مرے خواب

لکھا ہے امن کی اور جنگ کی تمثیل سے پہلے

لکھا ہے امن کی اور جنگ کی تمثیل سے پہلے
لہو کا ایک دریا ہے،۔ مِری تکمیل سے پہلے
کہا ں سے ہے کہاں تک یہ تِرے انکار کا ماضی
کہ وہ سیلِ بلا کیا تھا فرات و نیل سے پہلے 
ابھی تو روشنی کا سلسلہ آگے بڑھانا ہے 
تِرا ایواں لرزتا ہے ہر اک قندیل سے پہلے 

نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے

نہیں کہ پند و نصیحت کا قحط پڑ گیا ہے
ہماری بات میں برکت کا قحط پڑ گیا ہے
تو پھر یہ ردِ مناجات کی نحوست کیوں
کبھی سنا کہ عبادت کا قحط پڑ گیا ہے
ملال یہ ہے کہ اس پر کوئی ملول نہیں
ہمارے شہر میں حیرت کا قحط پڑ گیا ہے

عرض الم بہ طرز تماشا بھی چاہیے

عرضِ الم بہ طرزِ تماشا بھی چاہیے
دنیا کو حال ہی نہیں حلیہ بھی چاہیے
دل یہ بھی چاہتا ہے کہ سب کچھ بیان ہو
اندر کی بات کا اِسے پردہ بھی چاہیے
اے دل! کسی بھی طرح مجھے دستیاب کر
جتنا بھی چاہیے اسے جیسا بھی چاہیے

نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا

نہیں ایسا بھی کہ یکسر نہیں رہنے والا
دل میں یہ شور برابر نہیں رہنے والا
جس طرح خامشی لفظوں میں ڈھلی جاتی ہے
اس میں تاثیر کا عنصر نہیں رہنے والا
اب یہ کس شکل میں ظاہر ہو خدا ہی جانے
رنج ایسا ہے کہ اندر نہیں رہنے والا

اب کے وہ حال چاہتا ہوں

اب کے وہ حال چاہتا ہوں
ہر پل دھمال چاہتا ہوں 
کچھ اور طرح کا ہجر بھی دے
کچھ اور ہی وصال چاہتا ہوں 
عشق ایسا کہ روح کھینچ ڈالے
زخم اک بے مثال چاہتا ہوں 

کیا غلط ہے کہ رو برو کوئی تھا

کیا غلط ہے کہ رو بہ رو کوئی تھا 
مجھ سے بھی محوِ گفت گو کوئی تھا 
اک عجب ضد کا شاخسانہ کہیں 
زخم اب تک جو بے رفو کوئی تھا
مجھ سے شیریں سخن بہت سے تھے
شہر میں تجھ سا خوبرو کوئی تھا 

اک خلش بے سبب اٹھا لائے

اک خلش بے سبب اٹھا لائے
ہم بھی کیسی طلب اٹھا لائے 
یار گِریہ اٹھائے پھرتے تھے 
اب کے موجِ طرب اٹھا لائے 
کج کلاہی پہ حرف آیا تو 
ہم بھی نام و نسب اٹھا لائے 

یہ شہر نیند سے بیدار ہونے والا ہے

سنا ہے آئینہ بردار ہونے والا ہے
یہ شہر نیند سے بیدار ہونے والا ہے
بچھڑنے والے بچھڑ جا مگر یہ دھیان رہے
یہیں سے راستہ ہموار ہونے والا ہے 
میں چاہتا ہوں کہ شمشیر بے نیام نہ ہو
مگر یہ فیصلہ ناچار ہونے والا ہے

کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے

کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے
بہت پختہ بہت ہی پاس سے باندھا ہوا ہے
ہمارے تخت کو مشروط کر رکھا ہے اس نے
ہمارے تاج کو بَن باس سے باندھا ہوا ہے
سیاہی عمر بھر میرے تعاقب میں رہے گی
کہ میں نے جسم کو قرطاس سے باندھا ہوا ہے

رہے گا جسم میں، اور جان سے گذارے گا

رہے گا جسم میں، اور جان سے گزارے گا
وہ روز لذتِ وجدان سے گزارے گا
نواز دے گا وہ بحرِ خود آگہی سے مجھے
پھر ایک عالمِ انجان سے گزارے گا
یہ عشق ذوق وسلیقۂ  بندگی ہے مجھے
یہ کفر کوچۂ ایمان سے گزارے گا

میرا وجدان مجھے کل کا پتہ دیتا ہے

میرا وجدان مجھے کل کا پتہ دیتا ہے
خواب میں اصل حقیقت بھی دکھا دیتا ہے
کون دیتا ہے مِرے پختہ ارادوں کو شکست
کون تدبیر کو تقدیر بنا دیتا ہے
کئی صدیاں کبھی اک لمحہ جنم دیتی ہیں
ایک لمحہ کئی صدیوں کی سزا دیتا ہے

میں کہاں سے چلا تھا تری چاہ میں دل دھڑکنے لگا سوچتے سوچتے

میں کہاں سے چلا تھا تِری چاہ میں دل دھڑکنے لگا سوچتے سوچتے
اجنبی راستے، بے صدا منزلیں،۔ میں کہاں آ گیا سوچتے سوچتے
اب گھنیرے اندھیرے ہیں گھیرے ہوئے دور کچھ اور ہم سے سویرے ہوئے 
روشنی کے کہاں پر بسیرے ہوئے،۔ ذہن دھندلا گیا سوچتے سوچتے
مشعلیں بجھ گئیں نقش پا مٹ گئے، منزلیں چھپ گئیں رہنما لٹ گئے
بے یقینی کے صحرا میں گم ہو گیا فکر کا قافلہ،۔ سوچتے سوچتے

آس یہاں اچھے کی امید ایسے ہی ہے

آس

یہاں
اچھے کی امید ایسے ہی ہے
جیسے
سورج کے مغرب سے نکلنے کا امکان
تاریخ کے ہولناک تھپیڑے

دہشت گردی الامان و الحفیظ و الحذر

دہشت گردی

الامان و الحفیظ و الحذر
ہو چکی اب تو خمیدہ
میرے
ایماں کی کمر
جھک گئے شملے سبھی اجداد کی تاریخ کے

سچے موتی

سُچے موتی

کانچ کو
ہیرا، موتی کہہ کے
سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہو
کھوٹے سِکے بے شرمی سے
کیسے خوب چلاتے ہو

میرے آنچل تلے آنکھ مت کھولئیے

میرے آنچل تلے آنکھ مت کھولیۓ
اور سو لیجیۓ آنکھ مت کھولیۓ

نیند کو نیند آئی نہیں ہے ابھی
پیار سپنوں کی دیوی یہیں ہے ابھی
جل رہے ہیں دیے آنکھ مت کھولیۓ
اور سو لیجیۓ آنکھ مت کھولیۓ

تو وہی ترا شباب وہی

تُو وہی،۔۔ تِرا شباب وہی
کیوں نہ ہو مجھ کو اضطراب وہی
ظاہراً جس کو ہو گی ناکامی
ہو گا الفت میں کامیاب وہی
دیکھتی ہیں تِری نگاہیں کیا
ہے مِرا عالمِ خراب وہی

وہ مرا پیچ و تاب دیکھیں گے

وہ مِرا پیچ و تاب دیکھیں گے
حالتِ اضطراب دیکھیں گے
ذرے ذرے کو تیرے صدقے میں
رشکِ صد آفتاب دیکھیں گے
تیری مست انکھڑیوں میں اے ساقی
لطفِ کیفِ شراب دیکھیں گے

ہم نے اتنا تو دور سے دیکھا

ہم نے اتنا تو دور سے دیکھا
تم نے ہم کو غرور سے دیکھا
پھر بھی زد میں نگاہ آہی گئی
لاکھ جلوؤں کو دور سے دیکھا
حسن والوں نے عشق والوں کو
جب بھی دیکھا غرور سے دیکھا

دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا

دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکسِ منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا
کون دے آواز خالی رات کے اندھے کنویں میں
کون اترے خواب سے محروم بستر میں اکیلا
اس کو تنہا کر گئی کروٹ کوئی پچھلے پہر کی
پھر اڑا بھاگا وہ سارا دن نگر بھر میں اکیلا

پی چکے تھے زہر غم خستہ جاں پڑے تھے ہم چین تھا

پی چکے تھے زہرِ غم خستہ جاں پڑے تھے ہم چین تھا
پھر کسی تمنا نے سانپ کی طرح ہم کو ڈس لیا
سر میں جو بھی تھا سودا اڑ گیا خلاؤں میں مثلِ گرد
ہم پڑے ہیں رستے میں نیم جاں شکستہ دل خستہ پا
میرے گھر تک آتے ہی کیوں جدا ہوئی تجھ سے کچھ بتا
ایک اور آہٹ بھی ساتھ ساتھ تھی تیرے اے صبا

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا
پھیلتی جاۓ گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا
میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
آخری تارا پسِ کہسار ڈھلتا جائے گا

دل فرط مسرت سے مرا جھوم اٹھا ہے

دل فرطِ مسرت سے مِرا جھوم اٹھا ہے
اب عالمِ تنہائی کا ہم راز ملا ہے
تہذیب و تمدن کی بہاروں کو جلا ہے
شوریدہ زمیں پر بھی جہاں پھول کھلا ہے
ہم کو یہ سبق روزِ ازل سے ہی ملا ہے
اک ذاتِ خدا، باقی ہر اک چیز فنا ہے

روح میں تو نے کیسا درد اتارا ہے

روح میں تُو نے کیسا درد اتارا ہے
ہر موسم میں دل بے چین ہمارا ہے
سانس اکھڑنے تک لڑنا ہے لہروں سے
خوف نہیں، اور کتنی دور کنارا ہے
دیپ کی صورت رات جلی ہیں آنکھیں بھی
دیکھ ہمیں کیا مشکل وقت گزارا ہے

کاش ہوتا مزاج پانی کا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کاش ہوتا مزاج پانی کا
ہم پہ ہوتا نہ راج پانی کا
پیاس ہی پیاس کربلا اور تم
خون تھا بس خراج پانی کا
سوچا تھا آنکھ بند کر کے حسین
ہو گیا امتزاج پانی کا

خواب تعبیر ہونے والے ہیں

خواب تعبیر ہونے والے ہیں
ہم بھی تحریر ہونے والے ہیں
یہ جو سچ کا الاپ ہیں کرتے
یہ بھی تصویر ہونے والے ہیں
اب دکھاتا ہوں تم کو میں جادو
لفظ شمشیر ہونے والے ہیں

ٹوٹے دل کا ملال کر لوں کیا

ٹوٹے دل کا ملال کر لوں کیا
ربط پھر سے بحال کر لوں کیا
یار مجھ کو اگر اجازت دے
میں بھی تھوڑی دھمال کر لوں کیا
کھو کہ خود کو میں ذات میں تیری
عشق اپنا کمال کر لوں کیا

صرف میرے لئے نہیں رہنا

صرف میرے لیے نہیں رہنا
تم مِرے بعد بھی حسیں رہنا
پیڑ کی طرح جس جگہ پھوٹا
عمر بھر ہے مجھے وہیں رہنا
مشغلہ ہے شریف لوگوں کا
صورتِ مار آستیں رہنا

بکھرے بکھرے بال اور صورت کھوئی کھوئی

بکھرے بکھرے بال اور صورت کھوئی کھوئی
من گھائل کرتی ہیں آنکھیں روئی روئی
ملبے کے نیچے سے نکلا ماں کا لاشہ
اور ماں کی گودی میں بچی سوئی سوئی
سرد ہوائیں شہروں شہروں چیخیں لائیں
مرہم مرہم، خیمہ خیمہ، لوئی لوئی

دل میں جمنے لگا ہے خوں شاید

دل میں جمنے لگا ہے خوں شاید
آج کی رات سو سکوں شاید
اس کا ملنا محال ہے شاید
اس طرف سے گزر چلوں، شاید
اور تھوڑا سا زہر دے دیجے
اور تھوڑا سا جی اٹھوں شاید

آرزوئے دوام کرتا ہوں

آرزوئے دوام کرتا ہوں
زندگی وقفِ عام کرتا ہوں
آپ سے اختلاف ہے، لیکن
آپ کا احترام کرتا ہوں
مجھ کو تقریب سے تعلق کیا
میں فقط اہتمام کرتا ہوں

Tuesday, 27 December 2016

راحت دل کا موسم بیتا انگاروں کی رت آئی

راحتِ دل کا موسم بیتا، انگاروں کی رت آئی
پھول کی خوشبو باغ سے روٹھی برقِ ستم لہرائی
غم کے نگر میں رہنے والو! خرمنِ جاں کی خیر نہیں
دہکی دہکی آگ لیے ہیں آج کروڑوں سودائی
رات کسی کی محفل میں کل ساز تھے وحشی ہاتھوں میں
ہم نے کلیجا تھام کے دیکھی لحن و نوا کی رسوائی

مجھے چشم ناز سے دیکھیے کوئی لہر دل میں اٹھائیے

مجھے چشم ناز سے دیکھیے کوئی لہر دل میں اٹھائیے
یہ شبِ وصال حسین ہے، اسے آج یوں نہ گنوائیے
یہ لٹیں ہیں بکھری جبیں پہ کیوں، یہ غلافی پلکیں ہیں بھیگی کیوں
مِرے غم کا آپ کو واسطہ، مجھے اپنا حال سنائیے
کوئی پیالہ مے کا نہ مانگوں گا، نہ ہی حرفِ شکوہ سناؤں گا
مِری بس ہے اتنی سی آرزو، مجھے بزم سے نہ اٹھائیے

پہلے پہل جب امبر کے نیچے ہم تم ملے تھے

پہلے پہل جب امبر کے نیچے ہم تم ملے تھے
خوشبو اڑی تھی، شمعیں جلی تھیں، غنچے کھلے تھے
یاد آ رہا ہے اک خوابِ شیریں دیکھا تھا ہم نے
کل مفلسوں کے ساغر بھرے تھے، دامن سلے تھے
کل ہی کا تو یہ قصہ ہے یارو! قاتل کے ڈر سے
ہر کوئی چپ تھا، پہرہ لگا تھا اور لب سلے تھے

خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی

خوف کے سیل مسلسل سے نکالے مجھے کوئی
میں پیمبر تو نہیں ہوں کہ بچا لے مجھے کوئی
اپنی دنیا کے مہ و مہر سمیٹے سرِ شام
کر گیا جادۂ فردا کے حوالے مجھے کوئی
اتنی دیر اور تؤقف، کہ یہ آنکھیں بجھ جائیں
کسی بے نور خرابے میں اجالے مجھے کوئی

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

مِرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسکو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اسکو مختصر کر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے

روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے
زمیں کہیں کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے
جو حرفِ حق کی حمایت میں ہو وہ گمنامی
ہزار وضع کے نام و نشاں سے اچھی ہے
عجب نہیں کل اسی کی زبان کھینچی جائے
جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے

دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی

دوست کیا خود کو بھی پرسش کی اجازت نہیں دی
دل کو خوں ہونے دیا، آنکھ کو زحمت نہیں دی
ہم بھی اس سلسلۂ عشق میں بیعت ہیں جسے
ہجر نے دکھ نہ دیا، وصل نے راحت نہیں دی
ہم بھی اک شام بہت الجھے ہوۓ تھے خود میں
ایک شام اس کو بھی حالات نے مہلت نہیں دی

اندھی شبو بے قرار راتو

اندھی شبو بے قرار راتو

اندھی شبو، بے قرار راتو 
اب تو کوئی جگمگاتا جگنو
اب کوئی تمتماتا مہتاب
اب تو کوئی مہرباں ستارہ
گلیوں میں قریب شام ہر روز
لگتا ہے جو صورتوں کا میلہ 

جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل

جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل

دل بہلنے کی نہیں کوئی سبیل
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
ڈالتا ہوں اپنے ماضی پر نگاہ
گاہے گاہے کھنچتا ہوں سرد آہ
کس طرح اب دل کو رِہ پر لاؤں میں
کس بہانے سے اسے بھلاؤں میں

کیوں نام ہم اس کے بتلائیں

کیوں نام ہم اس کے بتلائیں

تم اس لڑکی کو دیکھتے ہو
تم اس لڑکی کو جانتے ہو
وہ اجلی گوری، نہیں، نہیں
وہ مست چکوری، نہیں، نہیں
وہ جس کا کرتا نیلا ہے
وہ جس کا آنچل پیلا ہے 

دل کو از راہ دل لگی نہ لگا

دل کو از راہِ دل لگی نہ لگا 
یونہی ہونٹوں سے بانسری نہ لگا
جلد ہی میں بدلنے والی ہوں 
آئینے! مجھ سے دوستی نہ لگا 
بجھ بھی سکتے ہیں آنکھ کے آنسو 
اپنی چلمن سے روشنی نہ لگا 

سمندر بھی ہوا عبرت نشان پانی ہی پانی

سمندر بھی ہوا عبرت نشان پانی ہی پانی
کنارے اور ان کے درمیاں، پانی ہی پانی 
عجب دنیا ہے، اس کو فکرِ دنیا ہی نہیں ہے 
فقط دیکھا ہے تو گِریہ کناں، پانی ہی پانی
پریشانی بھی مانع ہے بیانِ حالِ دل میں
نہ ہو جائے کہیں اپنی زباں پانی ہی پانی

پھیکا پھیکا مرے چہرے پہ وہی رنگ سا ہے

پھیکا پھیکا مِرے چہرے پہ وہی رنگ سا ہے
اتنا آرام میسر ہے کہ دل تنگ سا ہے
میں نے پلکوں کو کئی روز سے موندا ہی نہیں
شاخ پر ایک پرندہ بھی بہت دنگ سا ہے
اس قدر شہرِ خموشاں میں ہے اس بار ہجوم
شور ایسا کہ سراسر جو کسی جنگ سا ہے

زماں مکاں سے بھی کچھ ماورا بنانے میں

زماں مکاں سے بھی کچھ ماورا بنانے میں
میں منہمک ہوں بہت خود کو لا بنانے میں 
چراغِ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا 
میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں 
یہ دل کہ صحبتِ خوباں میں تھا خراب بہت 
سو، عمر لگ گئی اس کو ذرا بنانے میں 

بدن سمٹا ہوا اور دشت جاں پھیلا ہوا ہے

بدن سمٹا ہوا اور دشتِ جاں پھیلا ہوا ہے
سو، تا حدِ نظر وہم وگماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے

تجھ کو پتا ہے پیاس کی شدت کسے ملی

تجھ کو پتا ہے پیاس کی شدت کسے ملی
اے موجِ آب! تیری حلاوت کسے ملی
ہم سے اڑا کے شوقِ سفر کون لے گیا
بے نام موسموں کی رفاقت کسے ملی 
کس کے لبوں سے نغمہ و شیریں دہن ملا
اس جسمِ بے پناہ کی قربت کسے ملی

ہمراہ چل رہا تھا مگر دیکھتا نہ تھا

ہمراہ چل رہا تھا مگر دیکھتا نہ تھا
جیسے کہ وہ کبھی کا مِرا آشیانہ تھا
سارے بدن پہ آگ کی لپٹیں سوار تھیں
دریا میں کودنے کے سوا راستہ نہ تھا
اک دوسرے سے دور رہے ہم تمام عمر
ویسے ہمارے بیچ کوئی فاصلہ نہ تھا

وہ اگر بے نقاب ہو جائے

وہ اگر بے نقاب ہو جائے
ہر نظر آفتاب ہو جائے
دیکھ اس طرح مست آنکھوں سے
پھول جامِ شراب ہو جائے
اک نگاہِ کرم مِری جانب
ذرہ پھر آفتاب ہو جائے

پہلی نظر تھی دل کا مول

پہلی نظر تھی دل کا مول
اب آنسو کے موتی رول
آنکھیں کچھ گھبرائی سی
دل کی حالت ڈانوا ڈول
شاید وہ پھر آ جائیں
کہتے دنیا ہے گول

دیکھ کر ان کے مسکرانے کو

دیکھ کر ان کے مسکرانے کو
طول دیتے رہے فسانے کو
روشنی دوسروں کی قسمت ہے
رہ گئے ہم دِیے🪔 جلانے کو
ہم خود اپنی ہنسی اڑاتے ہیں
مسکراتے ہیں غم چھپانے کو

کوئی پیکر ہے نہ خوشبو ہے نہ آواز ہے وہ

کوئی پیکر ہے نہ خوشبو ہے نہ آواز ہے وہ
ہاتھ لگتا ہی نہیں۔ ایسا کوئی راز ہے وہ
ایک صورت ہے جو مٹتی ہے بنا کرتی ہے
کبھی انجام ہے میرا، کبھی آغاز ہے وہ
اس کو دنیا میں میری طرح ضرر کیوں پہنچے
میں زمانے کا مخالف ہوں جہاں ساز ہے وہ

چھوڑ آئے سر پہ تھی جو ابر کی چادر کہاں

چھوڑ آئے سر پہ تھی جو ابر کی چادر کہاں
چلچلاتی دھوپ میں جاتے ہو ننگے سر کہاں
میں مخاطب خود سے ہوں، میرا مخاطب کون ہے
جائے گی میری صدا دیوار سے باہر کہاں
سوچ لو پیچھے وہی تشکیک کا صحرا ہے پھر
لوٹتے ہو سرحدِ ادراک تک آ کر کہاں

پھوڑتے پھرتے ہیں ہر سنگ سے ہم سر اپنا

پھوڑتے پھرتے ہیں ہر سنگ سے ہم سر اپنا
پھینک لو تم بھی بڑے شوق سے پتھر اپنا
خود کو ہم چھوڑ کے نکلے ہیں سفر پر یہ کہاں
تہ کِیا رکھا ہے کس دیس میں بستر اپنا
تم نے اک بار بھی خود سے نہیں پوچھا ہم کو
ہم نے بھیجا کیے احوال برابر اپنا

لڑ کے جاتے ہو تو ایک تیغ لگاتے جاؤ

لڑ کے جاتے ہو تو ایک تیغ لگاتے جاؤ
ہاتھ اٹھاتے ہو تو یوں ہاتھ اٹھاتے جاؤ
وعدۂ شام کرو، صبح کو جاتے ہو اگر
کوئی بے وقت جو سوئے تو جگاتے جاؤ
کہیں بدنام نہ ہو جاؤ پشیماں کیوں ہو
ہاتھ ملتے ہو تو مہندی بھی لگاتے جاؤ

چارہ گر مشورۂ ترک وفا دیتے ہیں

چارہ گر مشورۂ ترکِ وفا دیتے ہیں
زہر دیتے ہیں یہ ظالم کہ دوا دیتے ہیں
مجھ کو یہ خوف کہ تم بھی کہیں ان میں سے نہ ہو
چاہنے والے کو جو لوگ دغا دیتے ہیں
کان تک اس کے نہ پہنچے تو نہ پہنچے فریاد
سننے والوں کا کلیجا تو پکا دیتے ہیں

برے یا بھلے لہو رونے والے

برے یا بھلے لہو رونے والے
یہی لوگ ہیں سرخرو ہونے والے
تہِ چرخ برپا ہوئے حشر کیا کیا
مزاروں میں سویا کیے سونے والے
زہے خوش نصیبی شہیدانِ غم کی
مزاروں سے ہنستے اٹھے رونے والے

مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو

فلمی گیت

مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو
مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے
نہ جانے مجھے کیوں یقیں ہو چلا ہے
میرے پیار کو تم مٹا نہ سکو گے

مِری یاد ہو گی، جدھر جاؤ گے تم
کبھی نغمہ بن کے کبھی بن کے آنسو

میں جس دن بھلا دوں ترا پیار دل سے

فلمی  گیت

میں جس دن بھلا دوں تِرا پیار دل سے
وہ دن آخری ہو میری زندگی کا
یہ آنکھیں اسی رات ہو جائیں اندھی
جو تیرے سوا دیکھیں سپنا کسی کا

مجھے اپنے دل سے اترنے نہ دینا
میں خوشبو ہوں مجھ کو بکھرنے نہ دینا

اتنے پر مغز ہیں دلائل کیا

اتنے پُر مغز ہیں دلائل کیا
دل کو کر لو گے اپنے قائل کیا
روشنی، روشنی، پکارتے ہو
روشنی کے نہیں مسائل کیا
ہاتھ پھیلانا کوئی کم تو نہیں
پیٹ دکھلائے تم کو سائل کیا

مجھ پہ جب اپنا انکشاف ہوا

مجھ پہ جب اپنا انکشاف ہوا
اپنے ہونے پر اختلاف ہوا
تم نے در تو بنا لیا، لیکن
وہ جو دیوار میں شگاف ہوا
کیا توقع زمیں سے ہم رکھتے
آسماں ہی جہاں خلاف ہوا

عجیب سی رتیں تھیں اور عجب ہی پیرہن ملا

عجیب سی رتیں تھیں اور عجب ہی پیرہن ملا
کہ لوگ پھول مانگتے تھے اور انہیں کفن ملا
گلی گلی میں بس رچی ہوئی ہے خون کی مہک
یہ موسم بہار بھی عجب تجھے وطن ملا
ہر ایک اپنی ذات کے حصار میں اسیر تھا
کہ خود فریبیوں میں ہی ہر ایک موجزن ملا

منظر تمام آج تک آنکھوں پہ بوجھ ہیں

منظر تمام آج تک آنکھوں پہ بوجھ ہیں
جتنے بھی خواب ہیں مِری پلکوں پہ بوجھ ہیں
اترے گا چاند تو مِری بھر آۓ گی یہ آنکھ
تارے فلک سے ٹوٹ کر راتوں پہ بوجھ ہیں
سوچوں پہ نقش ہیں وہ جو پَل تھے وصال کے
دکھ ہجر کے تمام ہی لمحوں پہ بوجھ ہیں

ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے

ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے
وہ ایک شخص جو دل کے مکاں میں رہتا ہے
نہ دن نکلتا ہے اس کا،۔ نہ شام ہوتی ہے
اب اس طرح سے بھی کوئی جہاں میں رہتا ہے
یقین ہے، کہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے
گمان ہے تو وہ اب تک گماں میں رہتا ہے

بجھی ہے آگ مگر اس قدر زیادہ نہیں

بجھی ہے آگ مگر اس قدر زیادہ نہیں
دوبارہ ملنے کا امکان ہے، ارادہ نہیں
کیا ہے وقت نے یوں تار تار پیراہن
برہنگی کے سوا جسم پر لبادہ نہیں
تِرا خیال ہے تنہائیاں ہیں اور میں ہوں
مِرے نصیب میں اب وصل کا اعادہ نہیں

دل مرے سینے میں کچھ روز کا مہمان سا ہے

دل مِرے سینے میں کچھ روز کا مہمان سا ہے
اس نئی سوچ سے مجھ کو ذرا خفقان سا ہے
ملتفت جو نہیں ہوتا تھا کبھی میری طرف
وہ مِرا دشمنِ جاں، مجھ پہ مہربان سا ہے
خون آشامی میں اس کا نہیں ثانی کوئی
دیکھنے میں تو بظاہر وہ اک انسان سا ہے

عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں

عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں
بذکرِ حور للچایا گیا ہوں
بنی ہے تب مسلماں کی سی صورت
جب انگاروں پہ تڑپایا گیا ہوں
تصور سے بنایا پیکرِ گل
کہاں تھا میں کہاں لایا گیا ہوں

یہ حالت ہو گئی ضبط فغاں سے

یہ حالت ہو گئی ضبطِ فغاں سے
پھُنکا جاتا ہے دل سوزِ نہاں سے
بھلا آئے یقیں ہم کو کہاں سے
ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے
گلے مل لوں ذرا عمرِ رواں سے
اٹھایا جا رہا ہوں آستاں سے

میرے لہو میں دیے جس کے خوں کے جلتے ہیں

بابل 

میرے لہو میں دِیے جس کے خوں کے جلتے ہیں
نقوش جس کے میرے خال و خد میں ڈھلتے ہیں
مہک سے جس کی گل و لالہ مجھ میں کھلتے ہیں
میری ہنسی میں سبھی رنگ اس کے ملتے ہیں

وہ جس کی تھام کے انگلی کو چلنا سیکھا تھا
قلم سے اس کے ہی میں نے یہ لکھنا سیکھا تھا

چلو اک نظم لکھتے ہیں

چلو اک نظم لکھتے ہیں
چلو ہم دونوں مل کر آج کوئی نظم لکھتے ہیں
سنیرے پانیوں پر اک سنہری نظم لکھتے ہیں
اک ایسی نظم جس میں 
آسمانی جھیل کے پانی کی نیلاہٹ
شفق گوں آسماں کی لالیوں کے عکس ٹھہرے ہوں

بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے

بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے
غلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمہاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زلفِ خم بہ خم کیا ہے

کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا

کُنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھُلا
کاش کے ہوتا قفس کا در کھلا
ہم پکاریں اور کھلے، یوں کون جائے
یار کا دروازہ پاویں گر کھلا
ہم کو ہے اس رازداری پر گھمنڈ
دوست کا ہے راز دشمن پر کھلا

زہر غم کر چکا تھا میرا کام

زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
مۓ ہی پھر کیوں نہ میں پیۓ جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہے زیست حرام
بوسہ کیسا،۔ یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذتِ دشنام

بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار

بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
وفورِ اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مِرے دیوار و در در و دیوار
نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

Monday, 26 December 2016

لوگوں کا کیا قصور کہ نادان میں ہی تھا

لوگوں کا کیا قصور کہ نادان میں ہی تھا
اپنی حماقتوں سے پریشان میں ہی تھا
مجبور تھا، وہ حوصلہ کس پر نکالتا
اس کیلئے تو شہر میں آسان میں ہی تھا
میرا ہی خوف اس کو برابر لگا رہا 
یہ جانتے ہوئے کہ نگہبان میں ہی تھا

ابھی تک راز فطرت ہے اگر چاہے بیاں ہو جا

نذرِ اقبال

ابھی تک رازِ فطرت ہے اگر چاہے بیاں ہو جا
کبھی اپنی زمیں ہو جا، کبھی تُو آسماں ہو جا
بھلا کب تک سناتا جاۓ گا اغیار کے قصے
خود اپنی داستاں لکھ اور پھر خود ہی بیاں ہو جا
تُو ہی جادہ، تُو ہی منزل، تجھے رہرو سے کیا مطلب
کبھی صحرا، کبھی دریا، کبھی سیلِ رواں ہو جا

ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں

ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں 
پھر بلاتی ہیں کسی کو بادبانی کشتیاں
موجِ دریا نے کہا کیا، ساحلوں سے کیا ملا
کہہ گئیں کل رات سب اپنی کہانی کشتیاں
خامشی سے ڈوبنے والے ہمیں کیا دے گئے
ایک انجانے سفر کی کچھ نشانی کشتیاں 

دریا کے کناروں سے بھی سیلاب رکا کیا

دریا کے کناروں سے بھی سیلاب رکا کیا
جائز ہے جفا کاروں سے بھی کوئی گِلہ کیا
بے لوث کہاں ہوتی ہے اغراض پرستی
پتھر پہ اثر کرتی کبھی دیکھی دوا کیا؟
بجھ جاتی ہے گو پیاس تو کچھ پانی بھی پی کر
پر پیٹ ہوا کھا کے کبھی کوئی بھرا کیا

ہمارا جرم ہے یہ ہم زمانہ ساز نہیں

ہمارا جرم ہے یہ ہم زمانہ ساز نہیں
فریب کار نہیں، یعنی چال باز نہیں
کسی سے ذکر بھی کیوں کرتے اپنی غربت کا
کسی کے آگے ہُوا دست ہی دراز نہیں
کبھی غرض کوئی پوجی نہ اسکا سوچا بھی
ہمیں تو جاں نثاری پہ اپنی ناز نہیں

خوش بخت ہیں آزاد ہیں جو اپنے سخن میں

خوش بخت ہیں آزاد ہیں جو اپنے سخن میں
خوش بخت ہیں جو قید ہے نیکی کے چلن میں
اس آنکھ نے کیا ہوتا ہُوا دیکھ لیا ہے
بھونچال سا برپا ہے عجب میرے بدن میں
جو کام کرو جب بھی کرو ڈوب کے اس میں
ہر ایک تحیر ہے جنوں زار لگن میں

اس کو رہنے دے ان آنکھوں میں وہی بھائے تجھے

اس کو رہنے دے ان آنکھوں میں وہی بھائے تجھے
کام وہ کر کہ جو کرنے سے سکوں آئے تجھے
ڈوب جانا ہی مقدر ہے تو پھر کیوں ہر بار
کوئی دریا کے کنارے سے پکڑ لائے تجھے
تُو کہاں مانے گی،۔ تُو دل کی بہت مانتی ہے
دوست بھی ڈرنے لگے دیتے ہوئے رائے تجھے

تو نے سوچا ہی نہیں کچھ بھی ہٹا کر اس سے

تُو نے سوچا ہی نہیں کچھ بھی ہٹا کر اس سے
اب بچھڑنا ہے تو پھر خود کو جدا کر اس سے
وہ بگڑتا ہے،۔ تو دنیا ہی بگڑ جاتی ہے
اس لیے رکھنی پڑی مجھ کو بنا کر اس سے
بات کیا ہے کہ اٹھائی ہی نہ جائیں پلکیں
بات ہو جب بھی تو پلکوں کو جھکا کر اس سے 

در و دیوار سے جالا نہیں جاتا اماں

در و دیوار سے جالا نہیں جاتا اماں
مجھ سے گھر بار سنبھالا نہیں جاتا اماں
فکرِ عقبیٰ ہو کہ دنیا ہو، کہ ہو فکرِ فراق
روگ کیسا بھی ہو، پالا نہیں جاتا اماں
یہ جو کچھ اشک مِری آنکھوں میں در آئے ہیں
ان کو الفاظ میں ڈھالا نہیں جاتا اماں

حرف تا حرف افتاد کی شاعری

حرف تا حرف افتاد کی شاعری
دل کی، اس شہرِ برباد کی شاعری
چشمِ باراں کا دکھ بانٹنا فرض ہے
کچھ کریں ابر کی، باد کی شاعری
ربط کے دور میں خوب لکھتے تھے ہم 
بے سبب، بے مزا، بعد کی شاعری 

میرے ہاتھ تمہیں ڈھونڈتے ہیں

ہاتھ تمہیں ڈھونڈتے ہیں 

میرے ہاتھ تمہیں ڈھونڈتے ہیں 
جب تمہارے ہاتھ، میرے ہاتھوں سے بچھڑ جائیں 
میرے ہاتھ تمہارے ہاتھوں کے عادی ہو چکے ہیں 
اور اب تنہا نہیں رہ سکتے 
تم دور چلے چلی جاؤ تو پھر 
جانے انجانے میں، سوتے جاگتے میں

خواہشیں عجیب ہوتی ہیں

خواہشیں عجیب ہوتی ہیں 

خواہشیں عجیب ہوتی ہیں
نہ ان کی کوئی حد ہے اور نہ ان کو کوئی حساب 
یہ آزاد رو پرندوں کی طرح 
دوسروں کی زمینوں
اور دوسروں کے آسمانوں پر بے شرمی سے اڑتی ہیں

کتوں سے ڈر نہیں لگتا

کتوں سے ڈر نہیں لگتا

یہ جھوٹ نہیں ہے
مجھے کتوں سے تو ڈر نہیں لگتا 
لیکن باؤلے کتے بہرحال خطرناک ہوتے ہیں 
خاص طور پر، جب باؤلے کتے اپنی آنکھوں پر 
نفرت کا سیاہ چشمہ لگا لیں

ڈسٹ بن میں سب کچھ ڈالا جا سکتا ہے

ڈسٹ بِن

ڈسٹ بِن میں سب کچھ ڈالا جا سکتا ہے
گھر کا کچرا
چھوٹا موٹا فالتو سامان
خالی لِپ اسٹک
ٹوٹی ہوئی چوڑیاں

پہلے تیار کیوں نہیں ہوتا

پہلے تیار کیوں نہیں ہوتا
جسم بیدارکیوں نہیں ہوتا
میں نے بھیدوں سے بھر لیا خود کو
مجھ سے اظہار کیوں نہیں ہوتا
ٹوٹتا جا رہا ہوں بارش سے
سارا مسمار کیوں نہیں ہوتا

لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے

لمحاتِ وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے
وہ ہاتھ بڑھ نہ پاۓ کہ گھونگھٹ سمٹ گئے
خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں
ہم بد گماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے
شہرِ وفا میں دھوپ کا ساتھی کوئی نہیں
سورج سروں پہ آیا تو ساۓ بھی گھٹ گئے

ہم سے جو کچھ کہنا ہے وہ بعد میں کہہ

ہم سے جو کچھ کہنا ہے وہ بعد میں کہہ
اچھی ندیا! آج ذرا آہستہ بہہ
ہوا مِرے جوڑے میں پھول سجاتی جا
دیکھ رہی ہوں اپنے من موہن کی رِہ
آج تو سچ مچ کے شہزادے آئیں گے
نِندیا پیاری، آج نہ کچھ پریوں کی کہہ

سایہ قصر یار میں بیٹھا

سایۂ قصرِ یار میں بیٹھا
میں تھا اپنے خمار میں بیٹھا
اس کا آنا تھا، خواب میں آنا
میں عبث انتظار میں بیٹھا
کوئی صورت نہیں ہے اس جیسی
اس کو دیکھو، ہزار میں بیٹھا

لمحہ لمحہ دم بہ دم

لمحہ لمحہ دم بہ دم
بس فنا ہونے کا غم
ہے خوشی بھی اس جگہ
اے مِری خُوئے الم
کیا وہاں ہے بھی کوئی
اے رہِ ملک عدم

مشرق میں غریبوں کی نہیں کوئی رہی گور

مشرق میں غریبوں کی نہیں کوئی رہی گور 
سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں مغرب کے کفن چور 
لکھتا ہوں فلسطیں کے شہیدوں کی کہانی 
آلودہ لہو سے ہیں میری انگلیوں کے پور 
یہ خون ہے وہی جسکی جھلکتی ہوئی سرخی 
ہے مایۂ رنگینئ افسانۂ بالفور 

Sunday, 25 December 2016

کام انگریز کو دنیا سے مجھے دین سے ہے

کام انگریز کو دنیا سے مجھے دِین سے ہے 
اس کے قانون کی ٹکر میرے آئین سے ہے 
خونِ اسلام سے گل رنگ ہوا روضۂ اقدس 
خبر اڑتی ہوئی آئی یہ فلسطین سے ہے 
سینۂ توحید کے بیٹے کا مشبک ہے اگر 
تو وہ تثلیث کے فرزند کی سنگیں سے ہے 

دیرینہ ہے فرنگ کی اسلام دشمنی

دیرینہ ہے فرنگ کی اسلام دشمنی 
ہے پہلے دن کی اس سے ہماری کتاچھنی 
دنیا کے سب یہود ہیں انگریز کے حلیف 
دونوں کے ساتھ جنگ مسلمان کی ٹھنی
تہذیبِ نو کی جلوہ گری سے خدا بچائے 
پھیلی ہوئی ہے جس کی فلسطیں میں روشنی 

ہندوؤں سے ہے نہ سکھوں سے نہ سرکار سے ہے

ہندوؤں سے ہے نہ سکھوں سے نہ سرکار سے ہے
گلہ رسوائیِ اسلام کا احرار سے ہے 
حرف پنجاب میں ناموسِ نبیﷺ پر آیا 
قائم اس ظلم کی بنیاد ان اشرار سے ہے 
پانچ ککوں کا ہے پابند شریعت کا امیر
اس میں طاقت ہی تو کرپان کی جھنکار سے ہے