نجانے کس طرح کیوں بدگمانی تم نے کی
کہانی تھی نہیں لیکن کہانی تم نے کی
مجھے یہ دُکھ نہیں ہے تم نے مجھ کو رد کیا
مجھے یہ دُکھ ہے کہ یہ مہربانی تم نے کی
ہمارا ایک کُنبہ تھا اچانک ایک دن
مِرے گھر بار سے نقلِ مکانی تم نے کی
نجانے کس طرح کیوں بدگمانی تم نے کی
کہانی تھی نہیں لیکن کہانی تم نے کی
مجھے یہ دُکھ نہیں ہے تم نے مجھ کو رد کیا
مجھے یہ دُکھ ہے کہ یہ مہربانی تم نے کی
ہمارا ایک کُنبہ تھا اچانک ایک دن
مِرے گھر بار سے نقلِ مکانی تم نے کی
خاک تھے غنچہ لب اور خواب تھی لہجے کی کھنک
جھڑ گیا قبر میں جب حُسنِ سراپا کا نمک
وہ جن آنکھوں میں تھی برسات کے منظر کی جھلک
اب ان آنکھوں میں سفیدی نہ سیاہی نہ دھنک
وہ صراحی سی جو گردن کی ہے ٹُوٹی پُھوٹی
وہ کمر ہی نہ رہی جس میں کہ پیدا ہو لچک
تیرے انکار سے اقرار بنایا ہوا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ باتوں کو گھمایا ہوا ہے
اک پری زاد ہے دھڑکن کے علاقے میں مقیم
جس نے ماحول کو پُر وجد بنایا ہوا ہے
لمس کی بھیک ملے تیرے تمنائی کو
جسم کاسہ تو زمانوں سے بنایا ہوا ہے
جان تمنا
حیرت ہے کہ اب وہ بھی ہیں قربانِ تمنا
قدرت نے بنایا تھا جنہیں جانِ تمنا
اظہارِ تمنا میں نہیں ہم کو تکلف
مشکل یہ ہے ملتا نہیں پُرسانِ تمنا
ہیں جتنے حسیں شہر میں یاں اتنے ہیں مدفن
سینہ ہے مِرا شہرِ خموشانِ تمنا
چمن کے بقا کی مِری آرزو ہے
جہالت غضب کی مِرے چار سُو ہے
خدا جانتا ہے مِرے واسطے خیر ہوگی
کہ ایمان میرا تو لا تقنطوا ہے
ترانہ وطن کی محبت کا گائے
وہ جو گُلستاں میں رہا با وُضو ہے
کثرتِ غم سے تو دُشوار نہیں ہوتی ہے
زندگی باعثِ آزار نہیں ہوتی ہے
ایک رستہ ہے کہ جو طے نہیں ہونے پاتا
ایک دیوار ہے جو پار نہیں ہوتی ہے
ہو بھی سکتی ہے کئی بار محبت، لیکن
یہ جو وحشت ہے یہ ہر بار نہیں ہوتی ہے
وہ تھا سائے کی پہنائیوں کے قرِیب
رت جگے آئے تنہائیوں کے قریب
اپنے ہی عکس کو مرتے دیکھا تھا جب
سب تھے اپنے ہی پرچھائیوں کے قریب
آج اس کی صدا روکتی نہ اگر
٭دشنہ تھا دل کی گہرائیوں کے قریب
تیرا اور میرا ساتھ
تیرا اور میرا ساتھ عالم برزخ سے ہے
عالم برزخ یعنی جہاں ارواح اک ساتھ تھیں
میں اور تم یعنی ہم
وہاں بھی اک ساتھ تھے
پھر مجھے اور تمہیں اک ساتھ
شاید تہہ در تہہ اک ساتھ سُلا دیا گیا
بس اک نِگاہ میں قِصہ تمام ہوتا ہے
تو کیا یہ واقعی اتنا سا کام ہوتا ہے؟
کسی کے سرد رویے پہ خامشی کا لحاف
یہ انتقام بھی کیا انتقام ہوتا ہے
کبھی کبھی کوئی لقمہ کہیں کہیں کوئی کام
حلال ہوتے ہوئے بھی حرام ہوتا ہے
چند دن آدمی خوشیوں میں جہاں رہتا ہے
پھر تو نیندوں میں بھی میلے کا سماں رہتا ہے
ہم تِرے شہر میں رہتے ہیں تو بس تیرے لیے
بِھیڑ میں گاؤں کا کوئی شخص کہاں رہتا ہے
تجھ کو دیکھوں تو عطا ہوتی ہے بِینائی مجھے
تیرے ہونے سے قلم میرا رواں رہتا ہے
کتنی آسانی نکل آتی ہے دُشواری سے
دل شفایاب ہوا ہِجر کی بیماری سے
تیرے خط جتنی تہوں میں بھی چُھپا کر رکھوں
تیرے ہاتھوں کی مہک آتی ہے الماری سے
وہی آنکھوں میں کوئی بُھوک درندوں جیسی
خُوش لباسی میں بھی لہجے وہی بازاری سے
میں راتیں ہجر کی کیسے گُزاروں
خراشیں کیسے خود دل کی اُتاروں
نہیں کرنی اگر کچھ بات مجھ سے
بھلا کس واسطے زُلفیں سنواروں
مِرے دل میں ٹھکانہ ہے غموں کا
میں جیون کیسے اپنا اب گُزاروں
لاکھ روکیں عدُو نہیں رُکتا
ظلم سے تند خُو نہیں رکتا
اس کشاکش سے دل پریشاں ہے
میں ٹھہرتا ہوں، تُو نہیں رکتا
سب پشیمانیاں ہیں ماضی کی
وہ مِرے روبرُو نہیں رکتا
اک دعا ہے جو مِرے سر پہ تنی رہتی ہے
ورنہ ہر وقت کہاں چھاؤں گھنی رہتی ہے
پیاس لگتی ہے تو اصغرؑ کا خیال آتا ہے
دل میں پیوست وہ نیزے کی انی رہتی ہے
مجھ کو زنجیر بپا رکھتے ہیں حالات مِرے
اور ہمراہ غریب الوطنی رہتی ہے
ان کہی
کیا بتائیں تمہیں
کتنی صدیاں مہاجر پرندوں کی مانند
اک شاخ سے دوسری شاخ پر آتے جاتے کٹیں
کتنی آہیں امیدوں کے افلاک پر جھلملاتے کٹیں
کتنے آنسو سرِ لوحِ مژگاں اتارے گئے
دُکھ سنوارے گئے
بِساط سے کہیں بڑھ کر بڑی لگاتے ہیں
بِچھڑنے والے بھی شرطیں کڑی لگاتے ہیں
کچھ اس طرح ہمیں جکڑا تِری محبت نے
کہ جیسے مُجرموں کو ہتھکڑی لگاتے ہیں
کوئی بھی رُت ہو یہ آنکھیں برستی رہتی ہیں
تمہارے دُکھ مِرے اندر جھڑی لگاتے ہیں
پُھول میں جو خُوشبو ہے میرے دل کے خُوں کی ہے
اور ہواؤں میں شورش سب میرے جنُوں کی ہے
یہ نہ ہو تو بس انساں برف ہو کے رہ جائے
زندگی میں سب گرمی ذات کے فسُوں کی ہے
ہم جو زر کو چُھو بھی لیں خاک ہو کے رہ جائیں
اک جھلک یہ ہلکی سی بختِ ٭واژگُوں کی ہے
ایسے نہ دیکھ گُھور کے نا یوں جبیں چڑھا
اب چُوڑیاں اتار، نہ یوں آستیں چڑھا
لب ہائے احمریں پہ یہ تُرشی نہیں بھلی
نصرت کا لب پہ نغمۂ دل آفریں چڑھا
ہے جو ہوا کی دوش پہ چادر کو چھوڑ دے
بالوں میں پُھول ڈال کے چُنری حسیں چڑھا
صرف ایسا نہیں تصویر لگا رکھی ہے
ہم نے دیوار کی قیمت بھی چُکا رکھی ہے
کوئی اتنا بھی نہ آزاد سمجھ لے ہم کو
اس لیے پاؤں میں زنجیر سجا رکھی ہے
ہم جو روتے ہیں تو روتے ہی چلے جاتے ہیں
اس نے ہنسنے کی بھی ترتیب بنا رکھی ہے
محبت کے قرینے سے اگر گُفتار ہو جائے
خُوشی سے آج میرا دل گُل و گُلزار ہو جائے
کروں باتیں میں اب تیرے در و دیوار سے ایسے
کہ جیسے درد میں کوئی مِرا غمخوار ہو جائے
مُرادوں کے کھلیں غُنچے اگر دامانِ اُلفت میں
تو ہر آتش کدہ اس کے لیے گُلزار ہو جائے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے*
کبھو نہ ہو
یہ سانحہ کبھو نہ ہو
کہ میں نماز ہجر پڑھ سکوں
اور آنکھ باوضو نہ ہو
ادا جعفری
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے*
نعتوں کا اُجالا ہے
عشقِ محمدﷺ تو
بخشش کا حوالہ ہے
مرتضیٰ اشعر
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے *
چھوٹی سی کہانی ہے
ہم کملے جھلّے ہیں
اور دنیا سیانی ہے
شوزب حکیم
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
رات کے بیکراں سمندر میں
چاند، خوابوں کی ڈوبتی ناؤ
میں مسافر دُکھی زمینوں کا
نصیر احمد ناصر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/٭تروینی/ترائلے
وہ جس سے سانس کا رشتہ بندھا ہوا تھا مِرا
دبا کے دانت تلے سانس کاٹ دی اس نے
کسی پتنگ کا مانجا محلے بھر میں لُٹا
گلزار
اس خواہش کا بوجھ اٹھانا مُشکل ہے
ساجن اب یہ ساتھ نبھانا مشکل ہے
ناممکن ہے اس کا راہیں تکتے رہنا
میرا بھی اب لوٹ کے جانا مشکل ہے
بات کٹھن ہے اس کو بھول کے جی لینا
جینے کو پھر اسے بھلانا مشکل ہے
خواب کا وقت ڈھل گیا تو پھر
دل بھی ٹالے سے ٹل گیا تو پھر
چاند کو ہاتھ میں نہیں لینا
چاند سے ہاتھ جل گیا تو پھر
مار ڈالو مگر گراؤ مت
میں کہیں پھر سنبھل گیا تو پھر
برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے
آشیانوں نے خاک رولی ہے
یاد کا کیا ہے، آ گئی پھر سے
آنکھ کا کیا ہے پھر سے رو لی ہے
دل کی باتوں کو دل سمجھتا ہے
دل کی بولی عجیب بولی ہے
جرم اس کو بھی لکھ دیا میرا
نام کیوں آپ نے لیا میرا
کبھی یہ دل اڑان بھر نہ سکا
کبھی پنجرہ نہ کھل سکا میرا
پوچھ لیتا ہے پھر کوئی تیرا
زخم رہتا ہے یوں ہرا میرا
سانپ اور سپیرا
ہم نے مسٹر دیا تھا یہ لکچر
ایک توبہ شکن لٹیرے کو
چھوڑی جو راہ اس پہ اب مت چل
چھوڑ دے بلکہ ہیرے پھیرے کو
فوج ہٹنے سے مطمعن مت ہو
اب پُلس کس رہی ہے گھیرے کو
ایک بے مقصد جذبہ
شام کے رنگوں میں ہے
ایک رنگ اس کا بھی
ذات کی حویلی کے
بالا خانے میں آتے
طلسماتی جھونکوں سے
اک پرانی الماری
گمشدگی
ماں آسمان ہوتی ہے
نیلی چادر
اُجلی ممتا
ایثار و رنج سے تمازت زدہ
ماں آسمان ہوتی ہے
گھٹاؤں کو سموئے
دُعا کو ہاتھ اٹھائے تو آپ یاد آئے
جو ہم نے اشک بہائے تو آپ یاد آئے
بہار لوٹ کے آئی تو آنکھ بھر آئی
صبا نے پُھول کھلائے تو آپ یاد آئے
کسی جگہ بھی کہیں بھی جو راہِ ہستی میں
پڑے ہیں شام کے سائے تو آپ یاد آئے
افسوں
(آج لوٹا ہوں آپ سے مل کر)
نہ جانے بات ہے کیا
ہر طرف خوشی سی ہے
ہر ایک شئے پہ چھنی
جیسے چاندنی سی ہے
خیال و خواب سہی
ایک زندگی سی ہے
کچھ ایسی جفاؤں میں لذت بڑھا دی
کہ جب دل دُکھا، ہم نے ان کو دُعا دی
تِرے عشق میں ہم نے ہستی مٹا دی
نہ بُھولے تجھے، اور دُنیا بُھلا دی
مزا درد کا دے کے تڑپانے والے
مجھے زندگی کی حقیقت بتا دی
رات بھر جلتے رہے آنکھیں، دِیا اور خواب بھی
رات بھر ٹھہرا رہا اک تال پر مِضراب بھی
رات بھر خالی مکاں میں خامشی کا شور تھا
رات بھر اُلجھے رہے میں اور مِرے احباب بھی
رات بھر پڑھتا رہا یہ دل صحیفہ ہِجر کا
رات بھر پھر نم رہے اوراق بھی ابواب بھی
یہاں کسے ہنسنے کی فرصت رکھی ہے
ایک سے نمٹو دوسری آفت رکھی ہے
ہر جانب اک کھیل ہے آپا دھاپی کا
منظر منظر کیسی وحشت رکھی ہے
سوچوں تو بازار بھی چھوٹا لگتا ہے
گھر کے اندر اتنی ضرورت رکھی ہے
ان کو آتی ہے ہنسی یار مِرے غصے پر
چلتی رہتی ہے یہ تلوار مرے غصے پر
ان کے غصے پہ مجھے بھی کبھی آ جائے ہنسی
وہ بھی غصہ کریں اک بار مرے غصے پر
جو ستم ڈھائے گئے ان کا کہیں ذکر نہیں
اور برہم ہیں سب اخبار مرے غصے پر
تُو نہ آیا مجھے منانے کو
کیا میں سمجھوں تِرے بہانے کو
کرب لفظوں میں ڈھل نہیں سکتا
زخم ہی ہیں تُجھے دِکھانے کو
جو چُھپایا ہے تیری نظروں نے
میں نے دیکھا ہے اُس خزانے کو
خبیث (اقتباس)
اک پیر جی کو ہو گئی چھ سال کی سزا
بچی کو اک دکھایا تھا قبلہ نے کچھ ہُنر
ایسا قبیح فعل کرے کوئی آدمی
طیش اُس پہ جو بھی آوے وہ کم ہے اُسی قدر
اس جُرم کے لحاظ سے ہے نرم یہ سزا
بہتر یہ تھا کہ کھینچتے ظالم کو دار پر
بج اُٹھے ہوا کے دف وجد میں کلی آئی
زندگی کے میلے میں رقص کی گھڑی آئی
میں بھی کتنی بھولی تھی ایک لطفِ مبہم پر
رقص گہ میں گُرگابی چھوڑ کر چلی آئی
چشم و دل کے سب آنسو اس ہوا میں کھِل اُٹھے
شاخسارِ مژگاں پر رُت گُلاب کی آئی
مکانِ جاں پہ بھلا کب مکیں کا حصہ ہے
یہ آسماں بھی سراسر زمیں کا حصہ ہے
بدن کی ساری رگیں جل گئیں مگر اب تک
جو جل نہ پایا، کسی دل نشیں کا حصہ ہے
ٹھہر بھی جاؤ کہ ہے بات کچھ مہینوں کی
گُماں کی ناف میں زندہ یقیں کا حصہ ہے
یہ کون آیا کہ ماحول کیا سے کیا ہُوا ہے
جہاں جہاں پہ تھا پتھر، وہ آئینہ ہوا ہے
فنا بھی اس کو ہو شاید سکون کا باعث
یہ دل کہ عشق میں دُشمن کے مبتلا ہوا ہے
اسے تو پُھولنا، پھلنا ہے تا دمِ آخر
یہ غم نصیب کے اندر کہیں اُگا ہوا ہے
جان غزل
اے مِری جانِ غزل آ میں تجھے پیار کروں
روزِ روشن تِرے چہرے سے اجالا مانگے
شام شرمائے تِری زلفِ دوتا کے آگے
تیری مسکان سے غنچوں کا مقدر جاگے
تجھ پہ قربان دل و جان مِرے یار کروں
اے مری جان غزل آ میں تجھے پیار کروں
وہ وقت جو تِری آغوش میں گزارا ہے
اسی کی یاد مِری زیست کا سہارا ہے
وقارِ خونِ شہیدانِ کربلا کی قسم
یزید مورچہ جیتا ہے، جنگ ہارا ہے
نشاطِ دل کیلئے جب بھی کوششیں کی ہے
کسی کی یاد نے احساسِ غم ابھارا ہے
پھول شاخوں پر نہیں، گلدان کمرے میں نہیں
اس کی نسبت سے جڑا سامان کمرے میں نہیں
آسمانوں کی طرف شاید سفر آغاز ہے
جسم بستر پر پڑا ہے، جان کمرے میں نہیں
میں صحیفوں کو سنبھالوں گی تو آخر کس طرح
رحل ہے ٹوٹی ہوئی، جزدان کمرے میں نہیں
زعفرانی غزل
اس کو دینا ہے، تر و تازہ نہیں لگ رہا ہے
پُھول کی عمر کا اندازہ نہیں لگ رہا ہے
چَھٹی حِس کہتی ہے اس بار پلٹ کر دیکھوں
کسی اوباش کا آوازہ نہیں لگ رہا
اس نے یہ کہہ کے مسیحائی نہیں کی میری
زخم گہرا ہے، مگر تازہ نہیں لگ رہا
طنزیہ شاعری
عیش و عشرت کی پناہوں میں رہے
جو ہمیشہ خانقاہوں میں رہے
آپ کی نظریں زمانے پر رہیں
ہم زمانے کی نگاہوں میں رہے
سجدہ ریزی میں گزاری زندگی
مُبتلا لیکن گُناہوں میں رہے
زعفرانی کلام
پردہ نہ اٹھا
آبکاری سے نہ ڈر، دوش پہ میخانہ اُٹھا
اک قدم یوں بھی تو اے جرأتِ رِندانہ اٹھا
اس کو آتی نہ تھی ایمان فروشی شاید
پڑھ کے لاحول تِری بزم سے دیوانہ اٹھا
تھی جو زردار بہو ساس سے وہ دب نہ سکی
لاکھ کوشش پہ بھی نہلے پہ دہلا نہ اٹھا
طنزیہ شاعری
کیسی تقسیم تھی، سب ایک ہی گھر کے نکلے
تیرے دربار سے جو جھولیاں بھر کے نکلے
دشت کو روند کے دریاؤں کو بھی پار کیا
اپنے پاؤں تو کسی اور سفر کے نکلے
جن کی دستار کو میں چُوم لیا کرتا تھا
وقت بدلا تو وہ دُشمن مِرے سر کے نکلے
ایک نہیں ہو سکتے
مجھے ایسا لگتا ہے
تیرا وجود
جیسے میری کوئی نظم ہے
جسے میں
اپنے جیون کی کتاب میں
رنگ و صفاتِ یار میں دل ڈھل نہیں رہا
شعلوں کی زد میں پُھول ہے اور جل نہیں رہا
وہ دُھوپ ہے کہ پیڑ بھی جلنے پہ آ گیا
وہ بُھوک ہے کہ شاخ پہ اب پھل نہیں رہا
لے آؤ میری آنکھ کی لَو کے قریب اسے
تم سے بُجھا چراغ اگر جل نہیں رہا
کئی دنوں سے اُداس لڑکی ہمارے دل کو جلا رہی ہے
دبیز لہجہ، شریف چہرہ زمانے بھر سے چُھپا رہی ہے
سخن سخن میں سجا کے آنسُو، نمازِ شب میں بہا کے آنسُو
وہ ڈھیر ساری دُعائیں کر کے خدا کو اپنے منا رہی ہے
خدا نے اس کو عظیم ہمت، کریم لہجہ عطا کیا ہے
وہ اپنے زخموں کا ہنس کے مجھ کو تمام نقشہ بتا رہی ہے
شب میں پُر نُور مناظر تو بڑے دیکھتے ہیں
چاند کے بیچ تِرے نقش بنے دیکھتے ہیں
نہیں دِکھتا ہے مجھے تُو، تو کوئی بات نہیں
میں انہیں دیکھ کے خوش ہوں جو تجھے دیکھتے ہیں
ساری دُنیا بھی پھریں، واپسی یہیں ہو گی
جو تجھے دیکھ چکے ہوں وہ کِسے دیکھتے ہیں
نہ بچا بچا کے نگاہ رکھ، یہ رُخِ کمال تو دیکھ لے
میں تِرے ہی حُسن کی مِثل ہوں، تُو مِرا جمال تو دیکھ لے
دمِ قتل آنکھوں کو پھیر کر، رکھی تیغ اس نے جو حلق پر
میں یہ چیختا ہی رہا وہاں،۔ مِرا انتقال تو دیکھ لے
بھلے بیچ رب کو تُو سامری، بھلے قومِ موسیٰ تباہ کر
نہ کلیمؑ پلٹے گا طُور سے کہ وہ ذُوالجلال تو دیکھ لے
درد آشنائی
یوں گُھل گئی ہے تِری رُوح مِرے وِجداں میں
جو راستے میں تِرے کانٹے درد کے آئیں
تو میرے پیروں میں ہر خار کی چُبھن اُترے
کبھی ستارے جو چمکیں تِرے سرِ مژگاں
تو میری آنکھوں میں ہر اشک کی جلن اُترے
ذرا سا غم بھی اگر تیرے پاس سے گُزرے
میرے حصے کا بھی جی لینا میری دوست
میں اب وداع لیتا ہوں
میری دوست میں اب وداع لیتا ہوں
میں نے اک نظم لکھنی چاہی تھی
جسے تم تا عمر پڑھتی رہ سکو
تم
تم یہ سب کچھ بھول جانا میری دوست
اب وہ رہتا ہے زمانے کے قریب
میں بھی ہوں اس کو بھلانے کے قریب
میں نے اک عکس کو مرتے دیکھا
رات اک آئینہ خانے کے قریب
سب مجھے دیکھتے ہی دور ہوئے
سانپ جتنے تھے خزانے کے قریب
سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا
ساتھی کوئی تو رات کی تنہائیوں میں تھا
ہر زخم میرے جسم کا میرا گواہ ہے
میں بھی شریک اپنے تماشائیوں میں تھا
غیروں کی تہمتوں کا حوالہ بجا، مگر
میرا بھی ہاتھ کچھ مِری رُسوائیوں میں تھا
ہم جیسا کوئی عشق میں کامل تلاش کر
شایانِ شان مدِ مقابل تلاش کر
منزل سمجھ کے بیٹھ نہ ہر سنگِ میل کو
حُسنِ نظر کو بُھول کے حاصل تلاش کر
خاطر میں لا نہ گردشِ لیل و نہار کو
راہوں میں مت بھٹک کوئی منزل تلاش کر
سندر
تمہاری پلکوں کے سایوں میں
ایک دنیا بستی ہے
وہ دنیا کہ جس کے ہر ایک کونے میں
تمہاری خوبصورت ہنسی
جلترنگ کی طرح بجتی ہے
کر کے ان کا خیال یک طرفہ
ہو نہ غم سے نڈھال یک طرفہ
ان کے کانوں پہ جوں نہیں رینگی
کیوں ہے تم کو ملال یک طرفہ
تالی بجتی ہے دونوں ہاتھوں سے
اب چلیں گے نہ چال یک طرفہ
آنکھ میں اس کی کاجل ہے
موسم مست اور پاگل ہے
رستہ پُر ہے خاروں سے
آگے عشق کی منزل ہے
لکھوں گیت محبت کے
ذہن میں تیرا آنچل ہے
رات آنگن میں چاند اترا تھا
تم ملے تھے کہ خواب دیکھا تھا
اب کہ خود ہیں حصار ذات میں بند
ورنہ اپنا بھی زور چلتا تھا
شیشۂ دل پہ ایسی چوٹ پڑی
ایک لمحے میں ریزہ ریزہ تھا
دل سے دل لگ گیا دل لگی ہو گئی
ہوتے ہوتے یونہی عاشقی ہو گئی
ہجر کی دُھوپ میں رنگ کُملا گیا
اک سفید اپسرا سانولی ہو گئی
ایک دن اجنبی، اجنبی سے ملا
اور پھر یوں ہوا دوستی ہو گئی
محبت کی سنو
محبت کی سُنو، جب تک
محبت مہرباں تب تک
گھنے اشجار کی مانند
گُل و گُلزار کی مانند
محبت پاس آئے تو
محبت راس آئے تو
پُوچھتے ہیں یہ شاعری کیا ہے
ہائے، ایسی بھی سادگی کیا ہے
کیا کسی باغباں سے یہ پُوچھا
پُھول کیا شے ہے یہ کلی کیا ہے
یہ صبا کس بلا کا نام ہے اور
یہ ردا گُل پہ شبنمی کیا ہے
کسی نے کی یار کی گُفتگو، یاد آیا
دشت کو میں، مجھے تُو، یاد آیا
پُوچھی زندگی نے بے رُخی کی وجہ
میں نے کہا تھا ناکام آرزُو، یاد آیا
چاند دیکھا آسماں پر تو تیری یاد آئی
زمیں پر تُو گُل کے رُو برُو، یاد آیا
وہ جس دم عمر تھی بالک ہماری
سنہری آنکھ تھی گاہک ہماری
بہت چھپتے رہے بالآخر اک دن
ہویدا ہو گئی چشمک ہماری
دلوں سے دل ملے تھے جس گھڑی تب
بہت ہی تیز تھی دھک دھک، ہماری
چاندنی میں کتاب پڑھتے ہیں
ہم رخِ لاجواب پڑھتے ہیں
اس کی آنکھیں طلسم کے اوراق
جِن کو خانہ خراب پڑھتے ہیں
وہ جو آیت کی شکل میں پہنچی
با وضو، بے حساب پڑھتے ہیں
تجھ سے ربط نہیں بڑھانے میں نے
تجھ سے خوشبو کے ناطے ہیں
شہرِ دل کا مستقل باسی ہے تُو
ورنہ لوگ تو آتے جاتے ہیں
اُن کے شکم تو بھرتے ہی نہ ہوں گے
جو اناج تیرے ہاتھ کا کھاتے ہیں
فقیر وجد میں آنے کی جستجو میں رہا
خدا کا روپ بنانے کی جستجو میں رہا
تمہاری آنکھ سے سپنے کشید کرتے ہوئے
میں رتجگوں کو منانے کی جستجو میں رہا
تمہارے ساتھ تسلسل سے مسکراتے ہوئے
تمام روگ چھپانے کی جستجو میں رہا
بیٹھ کر اک روز اپنے دل کو سمجھاؤں گا میں
اس طرح چلتا رہا تو رائیگاں جاؤں گا میں
ایک دن ایسا بھی آئے گا بچھڑ جائے گا تُو
ایک شب ایسی بھی آئے گی کہ سو جاؤں گا میں
اس محبت کا بھرم قائم رہا تو پھر تجھے
ڈھونڈنے نکلوں گا اور رستے سے لوٹ آؤں گا میں
ہزار قصے تھے داستانوں میں رہ گئے ہیں
ہمارے یوسف تو قید خانوں میں رہ گئے ہیں
تمہارے آگے جو چُپ کھڑے ہیں، یہ بُت نہيں ہیں
پلٹ کے دیکھو کہ ہم چٹانوں میں رہ گئے ہیں
حضور کہنا، کسی کا جُھک کر سلام کرنا
یہ رکھ رکھاؤ بھی کچھ گھرانوں میں رہ گئے ہیں
مُدتوں سے جمی برف کے جونہی تودے پِگھلنے لگے
گہرے نمکین پانی جہازوں کے پیندے نِگلنے لگے
میں کہیں بیٹھ کر بِیتے لمحوں کو تسبیح کرتا رہا
اور آنکھوں کی تہہ میں چُھپے رنگ پرتیں بدلنے لگے
تیز آندھی کسی موج میں میرے آثار کو چُھو گئی
اور کسی عہد کے کتنے متروک معبد نِکلنے لگے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آپؐ محبوبِ خدا ہیں، مِرے رحمٰں کی قسم
آپﷺ امامِ انبیاء، عرش کے مہماں کی قسم
ذرے ذرے پہ وہاں نور برستا دیکھا
انؐ کے صحرا کی قسم انؐ کے گُلستاں کی قسم
چاند تاروں میں چمکتے رہے سُورج کی طرح
رب کی رحمت کی قسم، محفلِ یاراں کی قسم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خوابِ دیرینہ کو مولیٰ تُو حقیقت کر دے
جاؤں طیبہ تو وہیں سے مجھے رُخصت کر دے
تِرے محبوبﷺ کا یا رب میں پڑوسی بن جاؤں
دُور اُفتادہ کو تُو صاحب قُربت کر دے
مالکِ زیست ہے تُو تیرے لیے کیا مُشکل
موت کو میرے لیے باعثِ برکت کر دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کالی کملی میں جو ذیشان نظر آتا ہے
دونوں عالم کا نگہبان نظر آتا ہے
سیدِؐ کون و مکاں تیری عطاؤں کے نثار
تیرا محتاج بھی سُلطان نظر آتا ہے
آنکھ اُٹھتی ہے تو مِلتا ہے تلاوت کا مزا
تیراﷺ چہرہ ہمیں قُرآن نظر آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکرِ سرکارﷺ میں قرآن مہکتے دیکھا
ہم نے اللہ کا فرمان مہکتے دیکھا
سامنے بیٹھ کے محبوبﷺ کے مِدحت جو کہی
تیرا ہر لفظ اے حسانؓ مہکتے دیکھا
میں نے جب دل سے پڑھا صلی علیٰ صلی علیٰ
اپنے سینے میں گُلستان مہکتے دیکھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
منم ادنیٰ ثناء خوانِ محمدﷺ
غلامے از غلامانِ محمدﷺ
میں محمدﷺ کا ایک ادنیٰ سا ثناء خوان ہوں
جو محمدﷺ کے غلاموں کا غلام ہے
محمدﷺ ہست مہمانِ خداوند
دوعالم ہست مہمانِ محمدﷺ
صرف ایک لڑکی
اپنے سرد کمرے میں
میں اُداس بیٹھی ہوں
نیم وا دریچوں سے
نم ہوائیں آتی ہیں
میرے جسم کو چُھو کر
چاہے جس چاک پر گُھماؤ مجھے
تم مِرا آئینہ بناؤ مجھے
ڈُوب سکتی نہیں مِری آواز
لگنے والا نہیں یہ گھاؤ مجھے
ورنہ دل میں اُتر بھی سکتا ہوں
پہلی فُرصت میں بُھول جاؤ مجھے
زمیں پر تھا فلک تک آ گیا ہوں
میں اس کے ذہن و دل پر چھا گیا ہوں
بُرا کہہ لو، بھلے اچھا کہو اب
میں جیسا ہوں تمہیں تو بھا گیا ہوں
کہا تھا ناں مجھے مت آزمانا
یہ دیکھو میں پلٹ کر آ گیا ہوں
رنگ و بُو کا غُبار ہوتے تھے
پا بہ جولاں بہار ہوتے تھے
ہائے وہ رات جب تِرے گیسُو
سانس میں مُشکبار ہوتے تھے
ہائے وہ صبح جب تِرے عارض
قاصدانِ بہار ہوتے تھے
حق کسی کا ادا نہیں ہوتا
ورنہ انساں سے کیا نہیں ہوتا
دل کا جانا تو بات بعد کی ہے
دل کا آنا بُرا نہیں ہوتا
کیا ہوا دل کو مُدتیں گزریں
ذکر مہر و وفا نہیں ہوتا
اس قدر ظُلم نہ کر رسمِ وفا سے پہلے
راستے اور بھی ہیں مرگِ جفا سے پہلے
ساتھ رہنا ہی محبت میں نہیں ہے لازم
مرحلے اور بھی ہیں رنگِ حِنا سے پہلے
ہجر کی تاپ میں سُلگے تو بنے ہیں کندن
زندگی شرط نہیں وصلِ رِدا سے پہلے
گھر میں دفتر میں یا دُکان میں ہے
جو جہاں بھی ہے امتحان میں ہے
رُخ بدلنے میں دیر مت کرنا
تیر اب تک تیری کمان میں ہے
خُوشبوؤں کا سفر ہے اور میں ہوں
جب سے گُلشن میرے گُمان میں ہے
عشق تیرے دھیان سے آگے چلا گیا
یہ مسئلہ میری جان سے آگے چلا گیا
ضائع نہ کیجیے وقت حساب کتاب میں
مسئلہ نفع نقصان سے آگے چلا گیا
اتنے جنون میں مانگا تجھے خدا سے
ہاتھ میرا آسمان سے آگے چلا گیا
کناروں پر کھڑے دیکھے ہیں میں نے
تِرے جیسے بڑے دیکھے ہیں میں نے
گلابوں کی حقیقت جانتا ہوں
کتابوں میں پڑے دیکھے ہیں میں نے
یقیناً لڑکیاں اب تھک چکی ہیں
کئی ٹُوٹے گھڑے دیکھے ہیں میں نے
دل کے ماروں کے بھی حالات سمجھ
سمجھ یار، میری بات سمجھ
چہرے بس یوں ہی ہلکان نہیں ہوتے
فسُردگی کی دوست، علامات سمجھ
محبت میں ہیں پوشیدہ وحشتیں آج کل
نئے دور کے ہیں یار فسادات سمجھ
لکھ دے پہلا نصاب پانی میں
اک مکمل کتاب پانی میں
زندگی لازمی ہے پانی میں
رنج، راحت، عذاب پانی میں
اتنی وحشت سوار ہے سر پہ
دِکھ رہا ہے سراب پانی میں
زندگی
کچھ دنوں سے
ایک خیال
میرے ذہن میں
بار بار آتا ہے
کہ میں اس پہاڑ پر
چڑھوں گا ایک دن
میں زندگی کے ہزاروں عذاب جھیل گیا
عذاب کیا ہیں میں کتنے ہی خواب جھیل گیا
یہ پیاس، دھوپ، سفر، دشت اور میں تنہا
غنیمِ وقت کا اک اک حساب جھیل گیا
میں اپنے آپ سے مِل کر بہت پشیماں ہوں
بچھڑتے رہنے کا پیہم عذاب جھیل گیا
طعنہ کسی کو دوں گا، نہ تہمت لگاؤں گا
کوئی وفا کرے نہ کرے، میں نبھاؤں گا
کیسے بس اک شکست پہ ہمت میں ہار دوں
دو چار بار خود کو ابھی آزماؤں گا
میں نے سُنا ہے بیٹھے ہیں وہ انتظار میں
ہائے، یہ سادگی کہ انہیں میں مناؤں گا
درِ خیال بھی کھولیں، سیاہ شب بھی کریں
پھر اس کے بعد تجھے سوچیں یہ غضب بھی کریں
وہ جس نے شام کے ماتھے پہ ہاتھ پھیرا ہے
ہم اس چراغِ ہوا ساز کا ادب بھی کریں
سیاہیاں سی بکھرنے لگی ہیں سینے میں
اب اس ستارۂ شب تاب کی طلب بھی کریں
بات
بات جو ہچکی بن کے رہ گئی
بات جو گال پہ بارش کا
پہلا قطرہ بن کے گری
بات جو بسر کئے لمحوں کا
ایک مسلسل نغمہ بنی
بات جو ان بھوری آنکھوں میں
کرتے تو ہو اس کو نظر انداز عزیزو
یاد آئے گا اِک روز تمہیں ناز عزیزو
دبتی ہے کہاں عشق کی آواز عزیزو
سُولی پہ بھی ہے نغمہ سرا ناز عزیزو
کیا چیز تھی وہ چشمِ فسُوں ساز عزیزو
آیا کبھی اپنے میں نہ پھر ناز عزیزو
اُٹھتے ہیں قدم تیز ہوا ہے مِرے پیچھے
لگتا ہے کوئی قافلہ سا ہے مرے پیچھے
جس بزم میں جاتا ہوں مجھے ملتی ہے عزت
وہ یوں کہ مِری ماں کی دُعا ہے مرے پیچھے
بے منزل مقصود میں غلطاں ہوں سفر میں
افسوس زمانے تُو چلا ہے مرے پیچھے
مِری نظر میں وہ حق دارِ بادہ ہے ہی نہیں
کہ جس کے ظرف کا دامن کشادہ یے ہی نہیں
تکلفات سے پُر ہیں مزاج لوگوں کے
یہاں کسی کی بھی گُفتار سادہ ہے ہی نہیں
میں آئینے سے گُزرتا ہوں روز کترا کر
کہ خود سے ملنے کا میرا ارادہ ہے ہی نہیں
ہمیں بس دین داری مشتہر کرنا نہیں آیا
بھڑکتے دل کے شعلوں کو شرر کرنا نہیں آیا
منافق ہے تو کر لے شوق سے یہ کام روزانہ
مجھے سچ جُھوٹ کو شِیر و شکر کرنا نہیں آیا
وہاں اخلاق کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے سب
بھلے بندوں کو فی النّارِ سقر کرنا نہیں آیا
سنا ہے کھیل بگڑتے ہیں خود پسندی سے
سو ہم نے کام نکالے، نیاز مندی سے
محبتوں کا فقط ایک دِین ہوتا ہے
گریز کیوں نہیں کرتے ہو فرقہ بندی سے
تمام درد گلے آ کے لگ گئے تھے میرے
بس ایک بار صدا دی تھی درد مندی سے
بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں
کوئی سمجھائے مجھ کو کیا ہوں میں
رات بکھرے ہوئے ستاروں کو
دن کی باتیں سنا رہا ہوں میں
میرے دل میں ہیں غم زمانے کے
ساری دنیا کا ماجرا ہوں میں
جس میں راجہ نہ کوئی رانی ہے
وہ جوانی بھی کیا جوانی ہے
کب تلک اس کا رونا روئیں گے
یار چھوڑو یہ زندگانی ہے
ہم سے پوچھو نا قیس کے بارے
دشت کی خاک ہم نے چھانی ہے
ان دلبروں کی بات میں اپنی جگہ کہاں
اس پوری کائنات میں اپنی جگہ کہاں
وہ ناصحانہ شہر کو شامل کریں گے اب
پیچیدہ حادثات میں اپنی جگہ کہاں
یہ سوچ کر میں آپ کی محفل سے اٹھ گیا
اس حلقۂ اثبات میں اپنی جگہ کہاں
زخم در زخم مشقت کو بڑھانے کا ہے
عشق وہ رزق ہے جو روز کمانے کا ہے
تیری ضد پر جو لگایا ہے بمشکل پھر آج
قہقہہ یہ مِرے بچپن کے زمانے کا ہے
میں عدالت سے رکھوں کیسے امید انصاف
میرا دشمن ہی بڑے اونچے گھرانے کا ہے
طنزیہ شاعری
عورتوں کے حق میں ہر مذہب کا ہر ملّت کا فرد
جانور تھا، دیوتا، عفریت تھا، شیطان تھا
باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو کہ ہو فرزند وہ
مرد کُل اشکال میں فرعونِ بے سامان تھا
مرد کی نا آشنا نظروں میں عورت کا وجود
اک مُورت، ایک کھلونا، ایک تنِ بے جان تھا
زعفرانی کلام
جنہیں روٹی نہیں ملتی مزے سے کیک کھائیں گے
وہ دھوتی سے ہیں جو محروم وہ مخمل سلائیں گے
جو چپل کو ترستے ہیں وہ سب فُل بوٹ پائیں گے
میں کم قیمت پہ میک اپ کی تمام اشیاء منگاؤں گا
ضعیفہ کو جواں، حبشن کو امریکن بناؤں گا
زعفرانی کلام
دہر میں کچھ اس طرح حیرانیاں پیدا کرو
سرو کے پودے پہ بھی ’خُرمانیاں‘ پیدا کرو
یا تو پھر پکڑو نہ بے لائسنس موٹر سائیکل
یا ’پروسیجر‘ میں کچھ آسانیاں پیدا کرو
کچھ تو شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہو سکے
بال بچوں کی جگہ استانیاں پیدا کرو
زعفرانی غزل
آئے ہیں پیر مغاں خود مے و مینا لے کر
ہم سنبھل جائیں عجب کیا ہے سنبھالا لے کر
کیا ہوا اے شیخ! بتا وقتِ اذاں کعبے میں
ہم پہنچ جائیں جو ناقوسِ کلیسا لے کر
وہ یہ کہتے ہیں کہ ناحق ہوئے ہم بدنام
ساتھ ساتھ اپنے ہمیں تُو نے ڈبویا لے کر
زعفرانی غزل
ازل ترازو میں رکھا عدم لگایا گیا
ہمارا بھاؤ نہایت ہی کم لگایا گیا
دیارِ شاہ عنایت میں تھک گئے رقاص
پھر اس پہ ڈھونڈ کے اک محترم لگایا گیا
بدن میں درد نہ جاگے تو نیند آتی نہیں
ہمارے سینے سے یہ کیسا غم لگایا گیا
تحفۂ درویش
بحرِ غم میں ہے سخت طغیانی
سر سے اوپر گزر گیا پانی
کب تک اے نزہتِ برشتہ جگر
شور یا رب سے عرشِ جنبانی
رونے دھونے سے جان کھونے سے
کہیں بنتے ہیں کام دیوانی
زعفرانی کلام
پنشن نامہ (اقتباس)
میں وہ موتی ہوں کہ جس کی ہو چکی ہے ختم آب
یا نصابِ درس سے خارج شدہ کوئی کتاب
یا مریض ایسا کہ جس کو چارہ گر دے دیں جواب
یا وہ بیوی جس کا شوہر چھوڑ دے اُس سے خطاب
جس کا مصرف کچھ نہیں ایسی ہوں اُترن کیا کروں؟
عمر پنشن کیا کروں،۔ اے عمر پنشن کیا کروں؟
خالی گھر
ایک آہٹ
اور اتنا سناٹا
گھر ہے
دیوار و در سے کیا پوچھیں
روز سنسان شب کی چوکھٹ پر
سائے جب اونگھتے ہیں فرصت کے
فرق اتنا تھا میرے رونے پہ جب ابر برسا
وہ برسا ٹوٹ کے، اور میں ٹوٹ کر برسا
عشق کے کھیل میں لازم و ملزوم رہے دونوں
سر پر پتھر برسے، کبھی پتھر پہ سر برسا
آئینہ دیکھ کر ہوئی تسلی اکیلا نہیں ہوں
پچھلی شب جب مجھ پر تنہائی کا ڈر برسا
نہیں ہو سکتا مِرے یار! نہیں ہو سکتا
عشق عاشق کا طرفدار نہیں ہو سکتا
مر رہا ہے جو مِری ایک جھلک کی خاطر
اس کا کہنا تھا اسے پیار نہیں ہو سکتا
چاند سورج کو بھی آغوش میں لے لیتا ہے
اور اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا
اشک ضائع ہو رہے تھے، دیکھ کر روتا نہ تھا
جس جگہ بنتا تھا رونا، میں اُدھر روتا نہ تھا
صرف تیری چُپ نے میرے گال گیلے کر دئیے
میں تو وہ ہوں جو کسی کی موت پر روتا نہ تھا
مجھ پہ کتنے سانحے گزرے پر اُن آنکھوں کو کیا
میرا دُکھ یہ ہے کہ میرا ہمسفر روتا نہ تھا
چھیڑا جو عرضِ حال تو سارے نکل گئے
اک ایک کر کے چرخ سے تارے نکل گئے
لوگوں کے دل کو جیتنے آئے تھے، جیت کر
نقشہ زمیں کا جنگ میں ہارے، نکل گئے
مومی مجسمے تھے تپش سے پِگھل گئے
دِیپک چِھڑا تو درد کے مارے نکل گئے
زعفرانی کلام
جُوتے کو سجدہ
نمازی کے لیے ہیں اُس کے جوتے دردِ سر مسٹر
کہ جیبوں میں نہیں آتے، الگ بھی دھر نہیں سکتا
نظر سے دُور رکھنے میں ہے کھٹکا قدر دانوں کا
سکونِ قلب سے پوری عبادت کر نہیں سکتا
نظر کے سامنے رکھے تو اُس میں یہ قباحت ہے
خدا کا بندہ ہے جُوتے کو سجدہ کر نہیں سکتا
سورج ساگر
تِرے منظر پر کوئی چاند ابھرے
کچھ کہتا رہے تِری لہروں سے
تُو چاند کی چاہت میں پُھولے
میں جلتا رہوں بس تیرے لیے
مجھے کیا لینا مجھے کیا کہنا
مِرے ساگر میں وہ سورج ہوں
یہ درد ایسے بھی خُوئے کمال تک آئے
اثر شگفتگئ خال خال تک آئے
کسی کے ہاتھ ہی راضی نہ تھے رفُو کے لیے
وگرنہ زخم حدِ اِندمال تک آئے
کلی چٹک کے لبوں کے مزاج تک پہنچی
گُلاب ٹُوٹ کے سُرخئ گال تک آئے
میرے محبوب مِرے دل کو جلایا نہ کرو
ساز چھیڑا نہ کرو، گیت سُنایا نہ کرو
جاؤ، آباد کرو اپنی تمناؤں کو
مجھ کو محفل کا تماشائی بنایا نہ کرو
میری راہوں میں جو کانٹے ہیں تو کیوں پھول ملیں
میرے دامن کو اُلجھنے دو، چُھڑایا نہ کرو
پیام
دلِ فسردہ کو اب طاقتِ قرار نہیں
نگاہِ شوق کو اب تابِ انتظار نہیں
نہیں نہیں مجھے برداشت اب نہیں کی نہیں
خدا کے واسطے کہنا نہ اب کی بار؛ نہیں
ہمیشہ وعدے کیے اب کے مِل ہی جا آ کر
حیات و وعدہ و دنیا کا اعتبار نہیں
ترے جمال کے صدقے وفا پرست ہوں میں
اگرچہ دنیا کے آگے نگاہِ پست ہوں میں
ہر ایک صفحے پہ ہے جیت کا سماں لیکن
تمام شد کی جگہ نقطۂ شکست ہوں میں
نشے میں رکھتی ہے تیرے وصال کی شدت
کسے خبر ہے کہ دورانِ ہجر مست ہوں میں
جب جب خیالِ یار کے بندِ قبا کُھلے
خُوشبو کے سات رنگ مِرے احساس میں گُھلے
ہر صبح، تیری چشم کُشائی کو دیکھنے
اترے تِری دہلیز پہ کرنوں کے قافلے
ممکن نہیں زباں سے بیان ہو فُغانِ دل
اے کاش میرے دل کو کسی شب زباں ملے
کسی کا بس نہیں چلتا گلابی شام کے آگے
کہ توبہ ٹُوٹ جاتی ہے چھلکتے جام کے آگے
نہ ملتی دولتِ دنیا، سکونِ دل تو مل جاتا
نہ دل جُھکتا اگر اس کا کئی اصنام کے آگے
تھکن میری مجھے بستر کی جانب جب بُلاتی ہے
نکل آتا ہے کوئی کام پھر آرام کے آگے
مجھ کو لگا جنوں کے پر، عشق سے ہمکلام کر
چاند اُفق پہ آئے جب،۔ وحشتِ دل! خِرام کر
ایک سرائے غم کی ہے، جس کا یہ ہے مطالبہ
دن میں کہیں بھی رہ مگر، شب میں یہاں قیام کر
اب تو معاملے میں ہے فتح و شکست کا سا رنگ
جسم کی سلطنت نہ سونپ، دل بھی ہمارے نام کر
ساحرہ
قدیم زمانوں کا سحر
آج لوک داستان کہلاتا ہے
پھر بھی میرے ریتیلے خوابوں میں
صحرائی وحشتوں سے بھری
تمہاری یہ دو سنہری آنکھیں
گاربیج کلکٹر
رات کو سونے سے پہلے
اپنے سارے گیت لکھ لو
اپنی سب نظموں کا املا ٹھیک کر لو
صبح کو کفن لے کر
مؤرخ آئے گا
کہانی سنو
تم نے
گائک کے بول سنے ہیں
اور میں نے
گائک کو دیکھا ہے
تنہا شخص کا کرب
ترجیح
اسے تھا دھوپ میں
جلنا گوارہ کیوں
کبھی بھی دھیان سے تم نے نہیں سوچا
نہیں ایسا نہیں تھا وہ
شجر کے سائے سے محروم تھا یکسر
بتاؤں میں تمہیں اس نے
میرے سر سے مِرا سائباں اُٹھ گیا
سایہ دار اک شجر مہرباں،اٹھ گیا
وہ محبت کی تھا اک زباں، اٹھ گیا
خامشی جس کی رشک بیاں، اٹھ گیا
استقامت کا کوہِ گراں، اٹھ گیا
سخت تکلیف میں لب پہ شکوہ نہیں
سلطانیہ بورڈنگ ہاؤس علیگڑھ کی رسمِ افتتاح یکم مارچ 1914 میں پڑھی گئی
خندہ زن ہیں اہل دل مثل گل گلزار آج
نغمہ زن جوں عندلیب شکرین منقار آج
عجب قُرب شاہ سے بے شادی کیے نوشاہ ہیں
کیفِ جامِ فرح سے بے مئے پیے سرشار آج
دولتِ فکر و مسرت سے ہیں مالا مال سب
مٹ گیا فرقِ قبیحِ مُفلس و زردار آج
زعفرانی کلام
لیڈر بھپکیاں
بے کسوں کے گُل یہاں چودہ طبق ہیں
جتنے بھی بدمست ہیں سب ہم ورق ہیں
تفرقے ہیں اور دسیسہ کاریاں ہیں
پینگ لینے کے لیے بھی اپنی اپنی باریاں ہیں
لوریاں دینے کو لیڈر بھپکیاں ہیں
زعفرانی غزل
دل آنکھوں سے عاشق بچائے ہوئے ہیں
ہرن کو وہ چیتا بنائے ہوئے ہیں
نہیں لکھتے ہیں خط جو ہم کو وہ قاصد
کسی کے سکھائے پڑھائے ہوئے ہیں
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار نہ تلوار ان سے
"یہ بازو مِرے آزمائے ہوئے ہیں"
(اقتباس از ماڈرن بنجارہ نامہ (زعفرانی کلام
گو چومتے ہیں سب ہاتھ ترے
اور تو بڑا ہے اک مولانا
مت بھول کہ غافل تجھ کو بھی
اِک روز یہاں سے ہے جانا
کیا بکرے، نقدی، شیرینی
کیا نذر، نیاز اور نذرانہ
زعفرانی غزل
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
اے مرغِ سحر ککڑوں کوں بول کہیں جلدی
تُو بھی شبِ فرقت میں گونگا نظر آتا ہے
داڑھی کو تِری واعظ سب دیکھ کے کہتے ہیں
وہ قصر تقدس کا چھجا نظر آتا ہے
تمام عمر کا قصہ لکھوں، ارادہ تھا
لکھا تو دل کا ورق اپنا پھر بھی سادہ تھا
گماں یقین کی حد تک کبھی نہیں آیا
ہماری فہم کا دامن ہی کچھ زیادہ تھا
مجھی پہ ختم ہوئیں دوست داریاں ساری
کہ میرے درد کا دریا بہت کشادہ تھا
وقت ہر چند ہے کڑا دُختر
ہار دینا نہ حوصلہ دختر
ہے تپش تیز تر شبِ غم کی
اوڑھ لو دھوپ کی رِدا دختر
زندگی پر محیط ہوتا ہے
ایک لمحے کا فیصلہ دختر
دل تو دل سارا گھر اُداسی ہے
آج تو اس قدر اداسی ہے
پتے پتے پہ ہِجر لکھا ہے
ہر شجر ہر شجر اداسی ہے
کہکشاؤں کو رشک تھا جس پر
اب تو وہ راہگزر اداسی ہے
سر دشت جنوں ہم انجمن کی بات کرتے ہیں
ہے زاغوں کے تصرف میں چمن کی بات کرتے ہیں
لسانیت ہے، رنگ و نسل، فرقوں کا تعصب ہے
مگر اسلام کے بیٹے، وطن کی بات کرتے ہیں
ہمارے ہمسفر ہیں کہکشائیں، ماہ و انجم بھی
کسی کم ظرف سے کب، دادِ فن کی بات کرتے ہیں
زندگی کا سفر ختم ہوتا رہا تم مجھے دم بہ دم یاد آتے رہے
میری ویران پلکوں پہ دن ڈھلتے ہی کچھ ستارے مگر جگمگاتے رہے
لٹ گئی زندگی بجھ گئے دیپ بھی دور تک پھر نہ باقی رہی روشنی
اس اندھیرے میں بھی ہم تری یاد سے اپنی ویران محفل سجاتے رہے
تم سے بچھڑے ہوئے ایک مدت ہوئی دن گزرتا رہا وقت ٹلتا رہا
شام آتی رہی، دل دھڑکتا رہا، ہم چراغ محبت جلاتے رہے
طنزیہ کلام
بہن یاد رکھ دستِ حسرت ملے گی
سیانوں کے کہنے پہ گر تُو چلے گی
جہنم میں جھونک اے بہن! یہ فتیلے
انہیں کی طرح ورنہ تُو بھی جلے گی
یہ تعویذ کیا پار بیڑا کریں گے
بھلا ناؤ کاغذ کی کیونکر چلے گی
زعفرانی غزل
دونوں مکان چپکے سے جوئے میں ہار کے
"وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے"
مشکل ہے کہ پھر نقد کی جانب نظر کرے
اک بار جس کو پڑ گئے چسکے ادھار کے
غم روزگار کے بھی کڑے ہیں بہت مگر
دکھ اس سے بھی زیادہ ہیں بیروزگار کے
زعفرانی غزل
سہانی یاد کا دھوکا نہ خرچ ہو جائے
مِرا یہ آخری سکّہ، نہ خرچ ہو جائے
مجھے یہ شوق،، مِرا کم سخن کہے کچھ تو
اسے یہ فکر کہ جملہ نہ خرچ ہو جائے
گلاب سُوکھ نہ جائے کتاب میں رکھا
پسِ نقاب ہی چہرہ نہ خرچ ہو جائے
زعفرانی غزل
دل بشیراں سے بھر نہ جائے کہیں
"وہ بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں"
آج آنا ہے اس نے میکے سے
"آج کا دن گزر نہ جائے کہیں"
اس کو بانٹا نہ کر رقیبوں میں
"حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں"
طنزیہ کلام
اس کو کون کہے گا تحفہ، خالص کھرے نصیبوں کا
ایک امیر کے گھر میں رزق پچاس ہزار غریبوں کا
سج رہی تھی جس جگہ کل تک کتابوں کی دُکان
اس جگہ اب لکڑیوں کا ٹال دیکھا جائے گا
ایک چمچہ دال کا اور ایک ٹکڑا نان کا
امتحاں روزانہ لیتا ہے مِرے ایمان کا
اپنی بیتی ہوئی رنگین جوانی دے گا
مجھ کو تصویر بھی دے گا تو پرانی دے گا
چھوڑ جائے گا مِرے جسم میں بکھرا کے مجھے
وقتِ رخصت بھی وہ اک شام سہانی دے گا
عمر بھر میں کوئی جادو کی چھڑی ڈھونڈوں گی
میری ہر رات کو پریوں کی کہانی دے گا
شامل ہو تم سانسوں میں
مہکو دن اور راتوں میں
عکس تمہارا دِکھتا ہے
نظموں میں اور غزلوں میں
اب وہ تیرے حصے کا
بانٹوں پیار پرندوں میں
گُلوں سے کرتا ہے جب گُفتگو نہیں تکتا
کسی طرف بھی مِرا خوش گلُو نہیں تکتا
وہ شخص دیکھیے مطلب پرست ہے کتنا
جو پُھول دیکھتا ہے رنگ و بُو نہیں تکتا
نہ جانے کیا تِری آنکھوں میں ہے سمایا ہوا
جو ہم تکاتے ہیں تجھ کو وہ تُو نہیں تکتا
میری محبت
تم ایک ملکہ ہو
اور خوبصورتی تمہارے تخت کی زینت ہے
جب جب تم قدم بڑھاتی ہو
تمہاری بھلائی کے لیے زمین بچھی چلی جاتی ہے
اور آسمان اپنے ستاروں کے ساتھ تم پر مسکراتا ہے
کبھی کچھ بھول جاتا ہوں کبھی کچھ یاد کرتا ہوں
مجھے بے چین رکھتی ہیں تِری دلدار سی آنکھیں
سمجھ میں وہ تو آتا ہے، سمجھ پر میں نہیں پاتا
بہت آسان چہرے پر بہت دُشوار سی آنکھیں
مجھے لگتا تھا بدلو گے، مگر بدلے نہیں ہو تم
وہی سنگین سا لہجہ، وہی ہُشیار سی آنکھیں
اک عجب سے فسوں میں یہاں لوگ ہیں جیسے گھوڑے ہوں کامل سدھائے ہوئے
اجنبی ہاتھ میں ہیں لگامیں سبھی، کچھ تو بے ہوش ہیں، کچھ سُلائے ہوئے
کیا عجب لوگ ہیں میری دنیا کے یہ، دائروں میں بٹے، اور بٹتے رہے
کس کی آواز پر چل پڑے ہیں سبھی، اپنے ہاتھوں میں لاشے اُٹھائے ہوئے
روشنی کی زمیں پر مِرے مہرباں، اک زمانے تلک رات بوئی گئی
اور سیاہی کی ان ساری اجناس سے، سامری ہے دُکاں کو سجائے ہوئے
مِرے جیون کا یوں واحد سہارا چھن گیا مجھ سے
کہ جیسے ہاتھ میں تھاما غبارہ چھن گیا مجھ سے
نہیں آنکھوں کی بینائی کے جانے پر فغاں میری
گِلہ یہ ہے کہ سورج کا نظارہ چھن گیا مجھ سے
مجھے لگتا ہے دریا کی بھی سازش تھی ڈبونے میں
میں پہنچا جب کنارے پر، کنارہ چھن گیا مجھ سے
دنیائے خرابات سے پہلے بھی کہیں تھا
میں اپنی ملاقات سے پہلے بھی کہیں تھا
عالم تو ابھی کل کی ہیں تخلیق مِرے دوست
میں ارض و سماوات سے پہلے بھی کہیں تھا
میں آج بھی ہوں، کل بھی کہیں ہوں گا یقیناً
اور عرصۂ اوقات سے پہلے بھی کہیں تھا
فریبِ منظرِ معمول چاہتی ہے کیا
یہ کھڑکیوں پہ جمی دھول، چاہتی ہے کیا
اکھڑتی سانسوں میں اٹکا ہوا ہے ذکر کوئی
یہ آرزوئے زیاں طول چاہتی ہے کیا
کھڑی ہے ہاتھ میں لے کے چراغ ساحل پر
ہوائے شب کوئی مستول چاہتی ہے کیا
عجب اک شان سے دربار حق میں سرخرو ٹھہرے
جو دنیا کے کٹہرو ں میں عدو کے روبرو ٹھہرے
بھرے گلشن میں جن پہ انگلیاں اٹھیں وہی غنچے
فرشتوں کی کتابوں میں چمن کی آبرو ٹھہرے
اڑا کر لے گئی جنت کی خوشبو جن کو گلشن سے
انہی پھولوں کا مسکن کیوں نہ دل کی آرزو ٹھہرے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ ہو کیوں کر محبت اس شہِؐ لو لاک سے پیدا
کِیا جس کو خدا نے اپنے نورِ پاک سے پیدا
جنوں تُو سچ بتا یہ دشت کیا صحرائے بطحا ہے؟
کشش ہے اس جگہ کے ہر خس و خاشاک سے پیدا
عیاں ہے نغمۂ بُلبل سے گُلشن میں ثنا تیری
ترانہ کی صدا ہے ہر گُلِ صد چاک سے پیدا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جا کر انہیں سنائیں، حالِ دلِ تپیدہ
ہم ان کے رو برو ہوں، ہے خواہشِ شدیدہ
ہے یہ کسب فیض دیکھو، سر پیش بدوؤں کے
ہوئیں کسریٰ اور قیصر کی بھی گردنیں خمیدہ
سلمان فارسیؓ ہوں،۔ یا ہوں بلالؓ حبشی
درِ مصطفیٰﷺ پہ آ کر ہوئے کیسے برگزیدہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اک سخی کا دیکھ کر آیا ہوں در
دے رہا ہوں سب فقیروں کو خبر
آرمیدہ گرچہ وہﷺ طیبہ میں ہیں
ہے یہ ساری کائنات آقاﷺ کا گھر
آ گیا افلاک پر نُورِ زمیںﷺ
آ گئے معراج پر خیرالبشرﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محبت کہہ رہی ہے نعت بے خوف و خطر لکھیں
مگر اِذنِ شریعت ہے، جو لکھیں سوچ کر لکھیں
وہ ممدوحِ خدا ہیں آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں
اگر ہو نعت لکھنا تھام کر قلب و جگر لکھیں
فقط اِسمِ گرامیﷺ ہی رقم کر دیں تو کافی ہے
کہے گر نعت کوئی مختصر سے مختصر لکھیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم کھولتے ہیں راز کہ کس سے ہے کیا مُراد
نعتِ رسولﷺ سے ہے ثنائے خدا مراد
مدّاحئ نبیﷺ کو کِیا جس نے اِختیار
وہ شخص کامگار ہے، وہ شخص با مراد
اللہ کے کرم کی ہے تعمیم جس جگہ
اے دوستو! ہے اس سے عرب کی فضا مراد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل آپﷺ پر تصدق جاں آپﷺ پر سے صدقے
آنکھوں سے سر ہے قرباں آنکھیں ہیں سر سے صدقے
کہتے ہیں گرد عارض باہم یہ دونوں گیسو
میں ہوں اِدھر سے صدقے تو بھی اُدھر سے صدقے
کہتا ہے مہر و مہ سے رُخ دیکھ کر نبیﷺ کا
تو شام سے ہے قرباں میں ہوں سحر سے صدقے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
انوار برستے ہیں اس پاک نگر کی راہوں میں
اک کیف کا عالم ہوتا ہے طیبہ کی مست ہواؤں میں
اس نامِ محمدﷺ کے صدقے بگڑی ہوئی قسمت بنتی ہے
اس کو بھی پناہ مل جاتی ہے جو ڈُوب گیا ہو گناہوں میں
گیسوئے محمدﷺ کی خُوشبو، اللہ اللہ کیا خُوشبو ہے
احساس معطر ہوتا ہے، واللیل کی مہکی چھاؤں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نغمۂ محمدی
وہ پاکیزہ چشمہ
جو اوجِ فلک سے چٹانوں پہ اترا
سحابوں سے اوپر بلند آسمانوں پہ
جولاں ملائک کی چشم نگہداشت کے سائے سائے
چٹانوں کی آغوش میں عہد برنائی تک جوئے جولاں بنا
چٹانوں سے نیچے اترتے اترتے
خدا کرے، کبھی آئے نہ سازگار مجھے
یہ دل کا درد جو رکھتا ہے بیقرار مجھے
نہ راہ پر ہے، نہ منزل پہ اختیار مجھے
یہ لے چلی ہے کہاں جستجوئے یار مجھے
عجیب چیز ہیں رُسوائیاں محبت کی
نہ اختیار ہے ان کو، نہ اختیار مجھے
مجھے ہر کام سے پہلے
سحر سے شام سے پہلے
یہی اک کام کرنا ہے
تمہارا نام لینا ہے
تمہی کو یاد کرنا ہے
کہ جب بھی درد پینا ہے
آج یا کل نہیں ہونے والے
مسئلے حل نہیں ہونے والے
اب تِرے حسنِ جنوں خیز سے بھی
لوگ پاگل نہیں ہونے والے
کام آغاز ہوئے ہیں ایسے
جو مکمل نہیں ہونے والے
کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا
اپنا ہی پتا نہ ہم نے پایا
دل کس کے جمال میں ہوا گم
اکثر یہ خیال ہی نہ آیا
ہم تو تِرے ذکر کا ہوئے جزو
تُو نے ہمیں کس طرح بُھلایا
طے کروں گا یہ اندھیرا میں اکیلا کیسے
میرے ہمراہ چلے گا میرا سایا کیسے
میری آنکھوں کی چکا چوند بتا سکتی ہے
جس کو دیکھا ہی نہ جائے، اُسے دیکھا کیسے
چاندنی اُس سے لپٹ جائے، ہوائیں چھیڑیں
کوئی رہ سکتا ہے دنیا میں اچُھوتا کیسے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو روشن طور پر تھا وہ تجلّی دل میں رکھتے ہیں
رسول اللہﷺ کا نقشِ کفِ پا دل میں رکھتے ہیں
سمائی ہے محبت سرورِ کونینﷺ کی اس میں
کہاں ہم فکرِ دِیں اور فکرِ دنیا دل میں رکھتے ہیں
یہی جینے کا باعث ہے تمہارے نا مُرادوں کے
کہ پوشیدہ تمہاری یاد آقاﷺ دل میں رکھتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اسی کا حکم جاری ہے زمینوں آسمانوں میں
اور ان کے درمیان جو ہیں مکینوں اور مکانوں میں
ہوا چلتی ہے باغوں میں تو اس کی یاد آتی ہے
ستارے، چاند، سورج ہیں سبھی اس کے نشانوں میں
اسی کے دم سے طے ہوتی ہے منزل خوابِ ہستی کی
وہ نام اک حرفِ نورانی ہے ظلمت کے جہانوں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شکر صد شکر کہ رہتی ہے مجھے یادِ مدینہ
دل رہتا ہے ہر وقت مِرا شادِ مدینہ
ہر وقت نگاہوں میں تصور میں تُو ہی ہے
اللہ رے، اے حسنِ خدا دادِ مدینہ
اس کے ہی تصدق میں سنور جاتا ہے کردار
سب سے بڑی نعمت ہی فقط یادِ مدینہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صحرا حضور آپ کے دم سے چمن ہوا
پتھر کا یہ نصیب کہ وہ گُل بدن ہوا
رحمت کے باب کھول دئیے ہیں حضورؐ نے
سورج سے فیض یاب مہِ سیم تن ہوا
تاریکی حیات کا منظر بدل گیا
نورِ ازل ہویدا سرِ انجمن ہوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درود اس نور پر جس سے ورود انوار نے پایا
تحیّر اور محبت سے زمیں ساکت، فلک شیدا
نگہ اس فخر نرگس آنکھ والی ما طغیٰ والی
وہ رنگ اس زُلفِ مُشکیں کا کہ والیلِ اذا یغشیٰ
ہراک سینے میں شوق ان سے دلوں میں زندہ ذوق ان سے
زباں کوئی ہو ذکر ان کا، کوئی سر ہو وہی سودا
تمام عمر کا قصہ لکھوں، ارادہ تھا
لکھا تو دل کا ورق اپنا پھر بھی سادہ تھا
گماں یقین کی حد تک کبھی نہیں آیا
ہماری فہم کا دامن ہی کچھ زیادہ تھا
مجھی پہ ختم ہوئیں دوست داریاں ساری
کہ میرے درد کا دریا بہت کشادہ تھا
رُخ ہواؤں کے کسی سمت ہوں منظر ہیں وہی
ٹوپیاں رنگ بدلتی ہیں، مگر سر ہیں وہی
جن کے اجداد کی مہریں در و دیوار پہ ہیں
کیا ستم ہے کہ بھرے شہر میں بے گھر ہیں وہی
پھول ہی پھول تھے خوابوں میں سر وادیٔ شب
صبح دم راہوں میں جلتے ہوئے پتھر ہیں وہی
افسون انتظار
اور میں دیکھوں گا محصور دھوئیں کا بادل
کس طرح جُھولتا،۔ لہراتا ہوا نکلے گا
کس طرح ساحل و دریا کا غم انگیز سکوں
وقت کے نغمئ سیلاب میں گُھل جائے گا
جاگتے لمحوں کی انگڑائی، طرحدار کرن
رنگ و آہنگ کی زلفوں کو اچھالا دے گی
بعد مرنے کے بھی دنیا میں ہو چرچا میرا
ایسی شہرت کی بلندی ہو ٹھکانہ میرا
میں ہوں اک پریم پجاری اے مِری جان حیات
تُو ہے مندر، تُو کلیسا، تُو ہی کعبہ میرا
میرے بیٹے کی نگاہوں میں ہیں کچھ خواب مِرے
زندگی اس کی ہے جینے کا سہارا میرا
ہم زمیں کا آتشیں ابھار دیکھتے رہے
سہمے سہمے سے ہی بس غبار دیکھتے رہے
شہرتیں، یہ دولتیں، یہ مسندیں، ملیں پہ ہم
بے نیاز ہی رہے، ہزار دیکھتے رہے
آخرش زمانہ ان کو چھوڑ آگے بڑھ گیا
ہر قدم جو عزت و وقار دیکھتے رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہوا ہے مدِّ بسم اللہ غازہ تیری وحدت کا
بنا کیا خوب طغریٰ ہے یہ منشورِ سعادت کا
ہوئی ہے آیتِ الحمد سے رحمت تِری ظاہر
نہیں ہے اب تِرے بندوں کو کچھ کھٹکا قیامت کا
رسولِ ہاشمیﷺ جلوہ ہے تیرے نورِ اقدس کا
سہارا عاصیوں کو ہو گیا ان کی شفاعت کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے آقاﷺ سے نِسبت ہو گئی ہے
نظر سے ساری دنیا کھو گئی ہے
لگی تھی جو جھڑی اشکوں کی کل شب
وہ فصلِ حُبِ احمدﷺ بو گئی ہے
ضیا اُبھری ہے عشقِ مصطفیٰﷺ کی
مِری تیرہ نصیبی سو گئی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شان انؐ کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چُپ ہو جائیے
سونپ دیجے دیدۂ تر کو زباں کی حسرتیں
اور اس عالم میں جتنا بن پڑے رو جائیے
یا حصارِ لفظ سے باہر زمینِ شعر میں
ہو سکے تو سرد آہوں کے شجر بو جائیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوئی مثل مصطفیٰﷺ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
انہیں خلق کر کے نازاں ہوا خود ہی دستِ قدرت
کوئی شاہکار ایسا، کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
مِرے طاقِ جاں میں نِسبت کے چراغ جل رہے ہیں
مجھے خوف تیرگی کا، کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اِس رہنما سے مانگ نہ اُس رہنما سے مانگ
شورش جو مانگنا ہے وہ اپنے خدا سے مانگ
ہنگامۂ وغا میں شہیدوں کا بانکپن
مردان بالاکوٹ کی آہِ رسا سے مانگ
قبروں میں کیا دھرا ہے بجُز کاروبارِ شِرک
تفسیر اس کلام کی ربّ العُلا سے مانگ
٭ ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
اے دل بے ہنر
پھول کی پتیاں نوچ کر
آندھیوں کی گلی میں بچھا دی گئی
اے دل بے ہنر
ادا جعفری
کافی کپ کے ساتھ پڑی زندگی
میں زندہ ہوں
مجھے کوئی نہیں مار سکتا
میرے مرنے کے بعد بھی
تم
کبھی بھی کہیں بھی جا سکتی ہو
گلاب جامن کے ساتھ سموسے کھانے
سُورج تو سب کا دَھن ہے
اُپلے تھاپتے
آخر تم شرماتی کیوں ہو
مُڑ مُڑ کے کیا دیکھتی ہو
لوگ تو اپنے بُرے کام کی سند بھی
آسمانی کتاب سے لاتے ہیں
لڑکی
منافق
چلو ہم منافق کی سازش سے
محفوظ رہنے کی تدبیر سوچیں
یہ ایذا رساں
اپنی فطرت سے
مجبور ہو کر
کبھی وار کرتے نہیں سامنے سے
نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہیے ہے
محبت چاہیے تھی بس، محبت چاہیے ہے
سہا جاتا نہیں ہم سے غم ہجر مسلسل
ذرا سی دیر کو تیری رفاقت چاہیے ہے
تِرا دیدار ہو آنکھیں کسی بھی سمت دیکھیں
سو ہر چہرے میں اب تیری شباہت چاہیے ہے
کون الجھے اس کی بے اعتنائیوں پہ اس ستمگر سے
جس کی ایک مسکراہٹ میرے آنسوؤں پہ بھاری ہے
ہجر کے فقط لمحات نے ہی نڈھال کر دیا تم کو
میرے ہمنوا! ہم نے تو یوں حیات گزاری ہے
اس کی کرچیوں سے گھائل نہ ہو کہیں ماں کا دل
میں نے یہ سوچ کہ اپنی ذات سنواری ہے
زعفرانی غزل
رہ گئے بھوت ختم شد سب راج
موری نگری میں گدھن پایو تاج
گیت جُھوٹا یہ لِکھت ہے نسّاج
کہ بہت پیارا ہمارا دھیراج
موری اِچّھا ہے کہ دیکھوں میں آج
کیسے چُغلی ہے لگاوے درّاج
(زعفرانی غزل (تضمین
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی ڈھابوں میں ملیں
جیسے کچھ پُوڈری ہر روز خرابوں میں ملیں
میں نے پیپسی میں ملائی ہے، ذرا سی سپرائٹ
نشہ بڑھتا ہے نوشابے جو نوشابوں میں ملیں
ڈھونڈ مت بیڈ کی درازوں میں چُھپائے پیسے
یہ خزانے تجھے ممکن ہے جُرابوں میں ملیں
زعفرانی غزل
مجنوں کا جو اے لیلیٰ جوتا نہ پھٹا ہوتا
پیچھے تِرے ناقہ کے کیوں برہنہ پا ہوتا
بے فائدہ غُل مچتا، کیا جانیے کیا ہوتا
گر ان کی گلی ہوتی اور میرا گلا ہوتا
ہوتا اگر آدم کا دنیا میں کوئی بھائی
نسل بنی آدم کا واللہ چچا ہوتا
زعفرانی کلام
بیویاں
سسرال میں جو میکے سے آتی ہیں بیویاں
سو سو طرح سے دُھوم مچاتی ہیں بیویاں
کھانے مزے مزے کے کھلاتی ہیں بیویاں
جینے کا جو مزا ہے چکھاتی ہیں بیویاں
کچھ دن تو خوب عیش کراتی ہیں بیویاں
پھر اس کے بعد خون رُلاتی ہیں بیویاں
زعفرانی غزل
وبائے الاٹمنٹ
ہر سمت ہے بلند صدائے الاٹمنٹ
ہائے الاٹمنٹ تو وائے الاٹمنٹ
دنیا ہے اور دین ولائے الاٹمنٹ
اب لوگ جی رہے ہیں برائے الاٹمنٹ
بندے کا اب خدا ہے خدائے الاٹمنٹ
چکی ملے، مشین ملے، بادباں ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بھر دے تو ساقیا مئے اطہر سے جام کو
ہو کر میں تر دماغ لکھوں اس کلام کو
حیراں ہوں دل میں نور یہ کس کا سماں گیا
جس نے نکال پھینکا خیالاتِ خام کو
جاروب کش ہے بادِ سحر کس کے باغ کی
ہر شاخِ گُل خمیدہ ہے کس کے سلام کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خواہش نہیں ذرا بھی مجھے نام وام کی
میرے قلم کو پیاس ہے کوثر کے جام کی
یہ دل کہ جس میں پیار بسا ہے حضورؐ کا
اِک چیز بس یہی ہے مِرے پاس کام کی
پیغامِ شاہِ دیںﷺ کی محتاج کائنات
رحمت ہے سب کے واسطے اُنؐ کے پیام کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تِراؐ ہمسفر نہ ٹھہرے
تِراؐ حوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے
حقیقتِ بندگی کی راہیں مدینہ طیبہ سے گزریں
ملے نہ اس شخص کو خدا بھی جو تیریؐ دہلیز پر نہ ٹھہرے
کُھلی ہوں آنکھیں کہ نیند والی، نہ جائے کوئی بھی سانس خالی
درودؐ جاری رہے لبوں پر، یہ سلسلہ لمحہ بھر نہ ٹھہرے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عہد نبیﷺ میں
شہر نبیﷺ کا
کاش میں ذرّہ ہوتا
انؐ کے پیروں کو میں چُھوتا
اور انؐ کے قدموں میں رُلتا
مجھ کو اُڑاتی بادِ رحمت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سیرت کے معجزے وہ دِکھائے رسولﷺ نے
آتش کدے میں پُھول کھلائے رسولﷺ نے
کانٹے بُرائیوں کے ہٹائے رسولﷺ نے
اچھائیوں کے باغ لگائے رسولﷺ نے
دُنیا میں کتنے رنج اُٹھائے رسولﷺ نے
دریا بھی رحمتوں کے بہائے رسولﷺ نے
آس ٹوٹی تو دل و جاں مِیں کئی زنگ لگے
خواب کے جُھولے پہ جب اُوس گری زنگ لگے
دل وہ گاڑی ہے جو بارش مِیں زدِ آب رہی
ایسی بارش مِیں تو گاڑی بھی کھڑی زنگ لگے
آرزو پوری نہ ہو، خواب کی تعبیر نہ ہو
کشتئ شوق کو اس رنج سے بھی زنگ لگے
گفتگو کرنے لگے ریت کے انبار کے ساتھ
دوستی ہو گئی آخر مِری اشجار کے ساتھ
عشق جیسے کہیں چُھونے سے بھی لگ جاتا ہو
کون بیٹھے گا بھلا آپ کے بیمار کے ساتھ
صاحبو! مجھ کو ابھی رقص نہیں آتا ہے
جُھوم لیتا ہوں فقط شام کے آثار کے ساتھ
کوئی صبح تو ایسی ہو
تِری آواز پر جاگوں
تِری مدھم سی سرگوشی
سماعت میں گُھلے جیسے
کسی ویران بستی پر
محبت کی بہاروں کا
جو نہ وہم و گمان میں آوے
کس طرح تیرے دھیان میں آوے
تجھ سے ہمدم رکھوں نہ پوشیدہ
حالِ دل گر بیان میں آوے
میری یہ آرزو ہے وقتِ مرگ
اس کی آواز کان میں آوے
میری دنیا میں ابھی رقصِ شرر ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے با اندازِ دگر ہوتا ہے
بُھول جاتے ہیں تِرے چاہنے والے تجھ کو
اِس قدر سخت یہ ہستی کا سفر ہوتا ہے
اب نہ وہ جوشِ وفا ہے، نہ وہ اندازِ طلب
اب بھی لیکن تِرے کوچے سے گزر ہوتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لوحِ دل پر کِھنچ گیا ہے یہ الف اللہ کا
ہے نشانِ عشقِ صادق وہ رسول اللہؐ کا
ناصیہ سائی جہاں کی آج کرتے ہیں ملک
ہوں گدا روزِ ازل سے میں اسی درگاہ کا
شعلۂ ہجرِ شہِ دیںﷺ نے جلایا ہے مجھے
لا مکاں تک اب دُھواں جاتا ہے میری آہ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
طیبہ کی رہگزر نہیں روضے پہ حاضری نہیں
زندہ تو ہوں یہاں، مگر زندگی زندگی نہیں
چاند ہی اور تھا وہاں، گنبدِ سبز کے قریب
چاند تو ہے یہاں بھی اک، چاندنی چاندنی نہیں
طیبہ میں تھا تو تارِ دل، رہتا تھا مُرتعش سدا
قریۂ جاں میں اب مگر کوئی ہما ہمی نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بے رحموں کے پتھر کھا کر گُل برسانے والا وہ
ظُلم و ستم کو دُنیا سے اک لخت مٹانے والا وہ
اس سے نسبتِ خاص کا ہر دم ڈھونگ رچانے والے ہم
اور عمل کے میداں میں ہم سب کو بُلانے والا وہ
کُفر زدہ ماحول میں لمبی تان کے سونے والے ہم
ایسے ہر ماحول میں اک پل چین نہ پانے والا وہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ناداروں كو علم كے موتى آقاﷺ نے انمول دئیے
بابِ جہالت بند كيا اور ذہنوں کے در كھول دئیے
انگاروں كو پُھول بنايا،۔ ذروں كو خُورشيد كيا
جن ہونٹوں ميں زہر بھرا تھا ان كو ميٹھے بول دئیے
خشک پسينہ ہونے سے پہلے مزدورى مزدور كو دى
منگتوں كو محنت سکھلائى، اور پھنكوا كشكول دئیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہی جو خالق جہاں کا ہے، وہی خدا ہے، وہی خدا ہے
جو روح جسموں میں ڈالتا ہے وہی خدا ہے، وہی خدا ہے
وہ جس کی حِکمت کی سرفرازی، وہ جس کی قدرت کی کارسازی
ہر ایک ذرّہ میں رونما ہے، وہی خدا ہے، وہی خدا ہے
وہ بے حقیقت سا ایک دانہ، جو آب و گِل میں تھا مِٹنے والا
جو اس میں کونپل نکالتا ہے، وہی خدا ہے، وہی خدا ہے
سفر کو جب بھی کسی داستان میں رکھنا
قدم یقین میں، منزل گمان میں رکھنا
جو ساتھ ہے وہی گھر کا نصیب ہے لیکن
جو کھو گیا ہے اسے بھی مکان میں رکھنا
جو دیکھتی ہیں نگاہیں وہی نہیں سب کچھ
یہ احتیاط بھی اپنے بیان میں رکھا
زعفرانی غزل
موبائل کے فتنے میں سب مُبتلا ہیں
جو پہلے نہیں تھے وہ اب مبتلا ہیں
مبلغ،۔ مدرِس،۔ مجاہد،۔ مقرر
عجب شے کی لَت میں عجب مبتلا ہیں
مصور، مصنف،۔ زمیں دار، دہقاں
میراثی و عالی نسب مبتلا ہیں
زعفرانی غزل
قابض رہا ہے دل پہ جو سلطان کی طرح
آخر نکل گیا شہِ ایران کی طرح
ظاہر میں سرد و زرد ہے کاغان کی طرح
لیکن مزاج اس کا ہے ملتان کی طرح
راز و نیاز میں بھی اکڑ فُوں نہیں گئی
وہ خط بھی لکھ رہا ہے تو چالان کی طرح
زعفرانی غزل
تیرے رہنے کو مناسب تھا کہ چھپر ہوتا
کہ نہ چوکھٹ تِری ہوتی نہ مِرا سر ہوتا
قسمت نجد کا گر قیس کمشنر ہوتا
لیڈی لیلیٰ کی ہوا خوری کو موٹر ہوتا
غیر مل جل کے اٹھا لیتے کہ تھے بے غیرت
گو پہاڑ آپ کے احسان کا چھپر ہوتا