عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ان کا نہیں ہے ثانی، نہ ماضی نہ حال میں
میرے نبیﷺ ہیں یکتا جمال و کمال میں
آئے ہیں جب بھی وہ مِرے حسنِ خیال میں
نکھرے تمام رنگ سخن اک جمال میں
ظلمت کو دور کر کے وہ لائے ہیں روشنی
چمکا ہے نور جہل کے ذہن و خیال میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ان کا نہیں ہے ثانی، نہ ماضی نہ حال میں
میرے نبیﷺ ہیں یکتا جمال و کمال میں
آئے ہیں جب بھی وہ مِرے حسنِ خیال میں
نکھرے تمام رنگ سخن اک جمال میں
ظلمت کو دور کر کے وہ لائے ہیں روشنی
چمکا ہے نور جہل کے ذہن و خیال میں
چمن وہی ہے گھٹائیں وہی بہار وہی
مگر گلوں میں وہ اب رنگ و بو نہیں باقی
ہے دلکشی میں وہی اب بھی موسموں کی بہار
نظر میں کیفیت رنگ و بو نہیں باقی
شباب دہر کی اب بھی ہے وہ فراوانی
مگر خیال میں جوش نمو نہیں باقی
جو آہ ادھر نکلی وہ پہنچی ہے ادھر کیا
پتھر کے کلیجے پہ بھی ہوتا ہے اثر کیا
اک ساتھ نہ کشتہ کرے جو دل کو جگر کو
ابرو کی کماں کیسی ہے وہ تیر نظر کیا
تھا دہر میں آباد کبھی اپنا چمن بھی
اس اجڑے چمن کو بھلا اب خوف شرر کیا
شکستہ ساز کے کئی سروں میں بانٹ کر مجھے
دئیے گئے قدم قدم نئے نئے سفر مجھے
بکھر گیا میں ہر طرف کرن کرن شفق شفق
کرے کہاں کہاں تلاش اب مِری نظر مجھے
لہو کے بوند بوند میں ہے تیرے جسم کی مٹھاس
پلا دے کاش خوں مِرا کوئی نچوڑ کر مجھے
ہم نہ ہوں گے تو یوں ہی محفل سجی رہ جائے گی
اے چراغِ طُور! تیری روشنی رہ جائے گی
موجِ دریا سر پٹکتی، ہانپتی رہ جائے گی
جب سابوں میں الجھ کر تشنگی رہ جائے گی
تا بہ کے اڑتا رہے گا آدمیت کا مذاق
اک تماشا بن کے یارو! زندگی رہ جائے گی
غم عشق میں نہیں جو کسی نام تک نہ پہنچے
نہیں یاد نام وہ بھی جو سلام تک نہ پہنچے
وہ سلام ہی نہیں ہے جو پیام تک نہ پہنچے
وہ پیام ہی نہیں ہے جو کلام تک نہ پہنچے
وہ کلام ہی نہیں ہے جو تمام تک نہ پہنچے
وہ تمام ہی نہیں ہے جو دوام تک نہ پہنچے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدحتِ ختمِ رسلﷺ شاہِ مدینہ یا نبیﷺ
دل دھڑکتا ہے مرا کہتا ہے سینہ یا نبیﷺ
ہے دعا اتنی تِرے روضے کو چوموں ایک دن
پار یوں لگ جائے میرا بھی سفینہ یا نبیﷺ
نقش ماتھے پر سجاؤں آپﷺ کے نعلین کا
روزِ محشر بھی میں کہلاؤں نگینہ یا نبیﷺ
انتظار
دل کا سکوں بدل گیا حالتِ اضطرار سے
پرسشِ غم کرے تو کون، آ کے نحیف و زار سے
جان بہ تنگ آ گئی، اس دلِ بے قرار سے
اٹھنے لگے ہیں شعلے پھر دیدۂ اشکبار سے
دل کا سکوں بدل گیا حالتِ اضطرار سے
آنکھوں میں آ چلی ہے جاں شدتِ انتظار سے
وہ نگاہِ چشمِ طلسم گر مجھے دیکھتے ہی لجا گئی
وہ ادا جو سحرِ تمام سے بھی سوا کرشمہ دکھا گئی
یہی جام پرتو رخ ترا یہی تیری زلف کو آئینہ
مہ و ابرو مئے کی حسیں فضا اسے روکنا یہ فضا گئی
وہ مثالِ برق نمود ، گم گشتگی ، تبسمِ بے اماں
شفق آفریں سی وہ موجِ لب، دل و جاں میں آگ لگا گئی
مت پوچھ میرے جاہ کو حشمت کو کیا ہوا
حیران خود ہوں میں مری قسمت کو کیا ہوا
کیوں دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل گئی
ہر شے کی ایک دم سے یہ حالت کو کیا ہوا
انسانیت کے شاہ اخوت کے تاجور
ان سب کے حسن خلق کی عادت کو کیا ہوا
ایک وہ ہی شخص مجھ کو اب گوارہ بھی نہیں
جبر یہ اس کے سوا اپنا گزارہ بھی نہیں
شکل ہجرت رنگ لائیں آخرش سب کوششیں
ہم اگر لوٹے نہیں اس نے پکارا بھی نہیں
جس پہ تم خاموش ہو بس اک ذرا سی بات تھی
بات بھی ایسی کہ جس میں کچھ خسارہ بھی نہیں
کبھی حسرتوں کو جگا دیا کبھی حسرتوں کو سلا دیا
تِرے لطفِ خاص نے زندگی کو شہیدِ رسم بنا دیا
مجھے کیا خبر تھی چمن پہ یوں یہ طوافِ برقِ تپاں ہے کیوں
ذرا دیر پہلے یہیں کہیں مِرا آشیاں تھا لیا دیا
بہ ہزار سعئ گریز بھی بچی حادثوں سے نہ زندگی
تِری آرزو کا چراغ بھی نئی آندھیوں نے بجھا دیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الہٰی! لا الہ سے مل گیا رازِ نہاں تیرا
نشاں ہے بے نشاں تیرا، مکاں ہے لا مکاں تیرا
وہ اپنی حد سے اُڑ سکتا نہ ہو جب اک سرِ مو بھی
لگائے کھوج کیا جبریلؑ سدرہ آشیاں تیرا
تِرے نیرنگ قدرت میں قیاس و عقل حیراں ہے
جسے کونین کہتے ہیں طلسمِ کُن فکاں تیرا
پرواز
تم نے کہا؛
آسمان پر اک ذرا پتھر تو اٹھا کر دیکھو یارو
یہ حوصلہ اور ہمت کی نصیحت
اٹھا کر دیکھا تھا ہم نے بھی یارو
بتاؤں تمہیں کیا ہوا
یہ پتھر تو مجھ پر ہی آ گرا
چپ رہا میں کج ادائی ہو گئی
کہہ دیا کچھ بے وفائی ہو گئی
دوستی اس بے وفا سے کیا ہوئی
ساری دنیا سے لڑائی ہو گئی
دل کو ہم نے نذرِ جاناں کر دیا
اک بڑے غم سے رہائی ہو گئی
میں اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پایا
اسی لیے میں تجھے جان ہی نہیں پایا
یہ دیکھ کر وہ پریشاں ہے تیری محفل میں
کسی کو اس نے پریشان ہی نہیں پایا
ابھی سے تجھ کو پڑی ہے وصال کی مری جاں
ابھی تو ہجر نے عنوان ہی نہیں پایا
خوش کن نظر فریب سا منظر بھی آئے گا
چل اور تھوڑی دیر تِرا گھر بھی آئے گا
ہو گا یہ حادثہ بھی کبھی میرے شہر میں
آئینہ گر کے ہاتھ میں پتھر بھی آئے گا
کیوں اشتعال رکھتا ہے لمحوں کی کوکھ میں
پتھر کے پھر جواب میں خنجر بھی آئے گا
پوشیدہ زخم زخم جو نشتر میں لے چلے
ہم بھی خیالِ یار کو محشر میں لے چلے
ہم چل پڑے ہیں جانبِ منزل، اسی لیے
اپنے سروں کو طشتِ مقدر میں لے چلے
در در کی ٹھوکروں سے ہُوا فائدہ یہی
دیوار اپنی کھینچ کے ہم در میں لے چلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کر دیجیے کرم اب سرکارؐ آپ کا ہے
بندہ گدائے پرور بیمار آپﷺ کا ہے
ہر آنکھ کی ہے ٹھنڈک دل کی یہی تمنا
ہر گام ہر گھڑی وہ دیدار آپﷺ کا ہے
کوئی نہیں جہاں میں جس سے ملا ہو اتنا
جتنا ملا ہے سب کو یہ پیار آپﷺ کا ہے
ایاک نعبد و ایاک نستعین
سوچتی ہوں
جلتے بجھتے خیمے تھے
تشنگی کی شدت سے
چھوٹے چھوٹے بچوں کے بند ہوتی آنکھیں تھیں
اشقیا کا نرغہ تھا
فتح کے نقارے تھے
مکتب
جب مکتبوں سے علم اُٹھ جائے
اور عالموں کی زبانیں گُنگ ہو جائیں
تو بپھرتی ہوئی جوانیاں
طویل تجربوں کی بصیرتوں سے محروم ہو کر
بھٹکنے لگتی ہیں
ایسے میں جب کہیں سے کوئی سبق نہ ملے
نہ پوچھ مجھ سے تو کیسے کہاں سے لڑنا ہے
زمیں پہ رہ کے مجھے آسماں سے لڑنا ہے
ہماری ضد ہے کہ ہم کو فلاں سے لڑنا ہے
سمجھ میں آتا نہیں ہے کہاں سے لڑنا ہے
یہ شہریار ہی میرے چمن کا دشمن ہے
اسی لیے تو غم بوستاں سے لڑنا ہے
وہ بات جس سے یہ ڈر تھا کھلی تو جاں لے گی
سو اب یہ دیکھیے جا کے وہ دم کہاں لے گی
ملے گی جلنے سے فرصت ہمیں تو سوچیں گے
پناہ راکھ ہماری کہاں کہاں لے گی
یہ آگ جس نے جلائے ہیں شہروں جنگل سب
کبھی بُجھے گی تو یہ صُورتِ خزاں لے گی
رخصتی
مری گڑیا تری رخصت کا دن بھی آ گیا آخر
سمٹ آیا ہے آنکھوں میں تیرا بیتا ہوا بچپن
ابھی کل کی ہی باتیں ہیں تو اک ننھی سی گڑیا تھی
ابھی کل ہی تو بابا سے بڑی ضد کر کے مانگے تھے
گلابی رنگ کے کپڑے وہ جوتے تتلیوں والے
ابھی کل ہی تو لایا تھا میں پہلی بار اک چوڑی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے اللہ
اے اللہ
تُو رحیم ہے، تُو کریم ہے
مگر تیرے بندے تیرے نام پر
ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں
تُو ان سے یقیناً حساب لے گا
کہ تُو عادل بھی ہے اور علیم بھی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم اہلِ بیت کا صدقہ ہی کھا رہے ہیں جناب
کرم خدا کا یہ اعزاز پا رہے ہیں جناب
کسی کو چاہیں کیوں دنیا میں پنجتن سے سوا
یہ آپ کون سا رستہ دکھا رہے ہیں جناب
حسنؑ، حسینؑ، علیؑ، فاطمہؑ، رسولِ خداﷺ
مباہلہ میں یہی پانچ جا رہے ہیں جناب
جو دل میں جاگی وہی طلب ہے
خوشی ہماری بڑی طلب ہے
کہاں ہوا ہے سکوں میسر
ابھی بھی ہم کو تِری طلب ہے
کمال دکھ ہے نئی محبت
نئے دنوں کی نئی طلب ہے
پرانے غم کو نئے میں نئے پرانے میں
جوانی بیت رہی ہے انہیں ملانے میں
مجھے مٹانے میں خود کو مٹا دیا اس نے
ربر کو گھسنا پڑا ہے لکھا مٹانے میں
فقط یہ لکڑی نہیں ہے تمہاری بیساکھی
شجر کے ہاتھ کٹے ہیں اسے بنانے میں
خود اپنے آپ سے اپنا گلہ نہیں کرتے
ہم اپنی بات کسی سے کہا نہیں کرتے
کھلونے ٹوٹے تو بازار سے لے آئیں گے
جو ٹوٹ جاتے ہیں دل وہ جڑا نہیں کرتے
تمہاری ذرہ نوازی ہے جو نواز دیا
ہم اپنے منہ میاں مٹھو بنا نہیں کرتے
تمہارے لیے
تمہارے لیے سنبھال کر رکھا تھا
زمین کی کشش سے باہر ایک آسمان
ایک گھوڑے کی پیٹھ
اور ایک سڑک جس پر
دھوپ چمکیلی
بارش البیلی ہوتی ہے
ہاتھ مرے قتل سے تو نہ اے نگار کھینچ
جسم پر گِراں ہے تیغِ آب دار کھینچ
تو اگر ہے مردِ عشق، چھوڑ آرزوئے وصل
کھینچ رنجِ ہجر کھینچ اور بے شمار کھینچ
حشر پر ہے دیدِ یار دل تُو کیوں ہے بیقرار
اور انتظار کھینچ،۔ اور انتظار کھینچ
جہاں کو بانٹ کر خوشیاں جو مسکانوں میں رہتے تھے
وہ محلوں میں نہیں تشنہ بیابانوں میں رہتے تھے
ہمارے گھر میں لایا کون ان مصنوعی پھولوں کو
یہاں پہلے تو اصلی پھول گلدانوں میں رہتے تھے
انہیں بھی شوق دنیا نے غلام اپنا بنا ڈالا
ہمیشہ غرق جو تسبیح کے دانوں میں رہتے تھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سفر میں حضر میں آگہی آپ ہیں
قول میں فعل میں روشنی آپ ہیں
قبر میں حشر میں بزمِ امکان میں
ضامن و شافعِ امتی آپﷺ ہیں
از ازل تا ابد جہاں میں ہر طرف
رحمتیں، برکتیں، عزتیں آپ ہیں
خسارہ
میرے دشمن، میرے دشمن، میرے دشمن
ذرا دیکھو، ذرا سوچو، ذرا سمجھو
کرب و مسکان کا کیا کوئی کنارا ہے
کون جیتا ہے، کون ہارا ہے
فتح و شکست کا گمان جو تمہارا ہے
اس پار لہو ہمارا ہے، اِس پار لہو تمہارا ہے
اگرچہ خود کو ہجوموں کے بیچ رکھتا ہُوں
جو سچ کہوں تو میں اُس کے بغیر تنہا ہوں
مجھے جہاں بھی وہ چاہے بہا کے لے جائے
وہ موجِ آب ہے اور میں نحیف تنکا ہوں
کئی برس سے نہیں ہوسکی مری تکمیل
میں ایک شخص کے اچھے دنوں کا وعدہ ہوں
ڈوبے ہیں اشک اشک سفینہ کہاں رہا
مر مر کے جی رہے ہیں تو جینا کہاں رہا
کن صحبتوں میں تھے کہ وہ نسبت بدل گئی
اب کوڑیوں میں رہ کے خزینہ کہاں رہا
تم کو کہا تھا کس نے کہ رہزن کا ساتھ دو
ماتھے پہ شرمسار پسینہ کہاں رہا
حق پسند لوگوں نے جب فریب کھایا ہے
وقت کے یزیدوں نے اپنا سر اٹھایا ہے
تشنگی کا ماتم کیوں ہاتھ میں سمندر رکھ
معجزہ یہ آدم نے بارہا دکھایا ہے
روشنی کا سورج ہے کرب کے سمندر میں
بے کسی کے آنگن میں ظلمتوں کا سایا ہے
زندوں میں بھی شمار کے قابل نہیں رہے
جو تیرے اعتبار کے قابل نہیں رہے
عہدِ خزاں اجاڑ گیا اس قدر انہیں
یہ پیڑ اب بہار کے قابل نہیں رہے
اپنا ضمیر بیچ کے بھر لیں تجوریاں
غیرت پہ انحصار کے قابل نہیں رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وجہ سکوں ارمانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم
جان و دل قربان محمد صلی اللہ علیہ و سلم
شافع محشر، ساقئ کوثر، رحمتِ عالم، ہادئ اُمت
اللہ اللہ شانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم
نغمۂ وحدت سب کو سنایا سوئی ہوئی روحوں کا جگایا
سبحان اللہ شانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اللہ کے مہمان
مجھے لوٹ کر نہیں آنا، میرا شہر مدینہ ہی ٹھہرے
میں مکہ کی گلیوں میں پھروں، مجھے کوئی راستہ نہ ملے
میرے پاؤں میں جولاں ایسی ہو، مجھے ہر جویا ہی خار لگے
زم زم جہاں امرت دھارا ہو، صریر کردگار لگے
مجھے لوٹ کر نہیں آنا، میرا شہر مدینہ ہی ٹھہرے
مجھے تو جان سے پیاری وطن کی حرمت ہے
وجود اس کا مقدس،. یہ میری جنت ہے
رہے ہمیشہ تُو خوشحال میرے پیارے وطن
تجھی سے میری ہیں خوشیاں تجھی سے راحت ہے
کیے عدو نے جتن ہیں تجھے مٹانے کے
خدا کے فضل نے رکھا تجھے سلامت ہے
یہاں زندگی کے سہارے بہت ہیں
جو ہے اک بھنور تو کنارے بہت ہیں
یہ مانا کہ تم ہو سکے نہ کسی کے
مگر اس جہاں میں تمہارے بہت ہیں
تِری چاہتوں کے طفیل اے خدایا
جہاں میں تِرے غم کے مارے بہت ہیں
خواب لکھوں یا کسی خواب کے ارماں لکھوں
داستاں تیری میں کیا دیدۂ حیراں لکھوں
سوزِ فرقت میں ترے ڈوبتے سورج دیکھوں
چاک پھر صحرا نَوردوں کے گریباں لکھوں
زرد موسم میں تجھے آس کا بادل سمجھوں
دشتِ ہجراں میں تجھے سبزۂ درماں لکھوں
دشت کی پیاس بھی دریاؤں کی طغیانی بھی
اپنی آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں حیرانی بھی
شہر میں اپنے سوا بھی کئی دیوانے ہیں
جن کے دامن میں ہے عزت بھی پشیمانی بھی
رقص کرتی ہوئی آتی ہے ہوا جنگل سے
شوق تو بڑھتا ہے بڑھ جاتی ہے ویرانی بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گاؤں آباد ہوئے شہر بسے آپؐ آئے
دشت گلزار بنے پھول کھلے آپؐ آئے
ظلمتیں ختم ہوئیں آپؐ کی آمد کے طفیل
روشنی پھیل گئی دیپ جلے آپؐ آئے
زندگی کا تھا سلیقہ نہ قرینہ کوئی
اپنے بگڑے ہوئے سب کام بنے آپؐ آئے
شہرِ ستمگر کا سنگدل موسم
یہ جو لاشیں گرائی گئی ہیں
دفنائی گئی ہیں
یا
گِدھوں (گدھ) نے گِدھوں کے حوالے کی ہیں
دل پہ یہ اک ایسا بوجھ بنی ہیں
نہ دل دھڑکتا ہے، نہ دل سوچتا ہے
کرفیو
سورج کی پہلی کرن
بچوں کی مسکان
ان کے چہروں سے
چاندنی نکھرتی
ان کے رونے سے
شام ہوتی ہے
لفظ گونگے ہو گئے لہجے کی عیاری کے بعد
وہ برہنہ ہو گیا اتنی اداکاری کے بعد
چند بوسیدہ کتابیں کرم خوردہ کچھ ورق
یہ صلہ بھی کم نہیں اک جرم فن کاری کے بعد
رات کے منظر کھلی آنکھوں میں پتھر ہو گئے
خواب میں جاگے ہوئے لگتے ہیں بیداری کے بعد
ایک گزارش
شکستہ ہوں مگر دولت بھی ہے حاصل ہوئی ہم کو
گزارے ساتھ جو پل قدر اس کی ہو نہیں کس کو
بنے سرمایہ ہیں وہ زندگی کا پیار سے رکھنا
خدارا یادیں مت لینا
یہی یادیں ہیں لے جائیں گی ہم کو آخری دم تک
خوش تھا کہ کسی خواب کی تعبیر ہوا میں
افسوس کہ پھر خواب سے تعبیر ہوا میں
میں آپ قفس، آپ ہی زنجیر ہوا میں
یوں اپنے لیے باعثِ تعزیر ہوا میں
معمار نے بننے ہی نہیں دی کوئی صورت
ہر بار نئی طرز سے تعمیر ہوا میں
اگر ہے وہ جو برائے سگاں میسر ہے
تو کہنے دیجیے ہم کو کہاں میسر ہے
ہمیں پتہ ہے کہ ترتیب میں نہیں ہیں ہم
ہمیں وہی ہے کہ جو ناگہاں میسر ہے
مگر وہ تم جو نہ خود ہو نہ تذکرہ ہے کہیں
مگر یہ ہم جنہیں نام و نشاں میسر ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ضمیر خاک شہِ دو سراﷺ میں روشن ہے
مِرا خدا مِرے حرفِ دعا میں روشن ہے
وہ آندھیاں تھیں کہ میں کب کا بجھ گیا ہوتا
چراغِ ذات بھی حمد و ثناء میں روشن ہے
میں اپنی ماں کے وسیلے سے زندہ تر ٹھہروں
کہ وہ لہو مِرے صبر و رضا میں روشن ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دو وفا شعاروں کے ہمراہ یوں امام چلے
کہ جیسے تاروں کو لے کر مہِ تمام چلے
یہی تو مالکِ کوثر ہیں بد نصیب فرات
تِرے کنارے سے جو آج تشنہ کام چلے
فضائیں رونے لگیں مل کے سبز گنبد سے
حسینؑ کر کے مدینے کو جب سلام چلے
بنی چراغ سے لو، لو سے دل بنایا گیا
پھر اس کو لا کے ہواؤں میں آزمایا گیا
مِرے زوال کو کوئی جواز چاہیے تھا
مجھے جھکانا تھا سو آسماں جھکایا گیا
حصار طاق میں رکھے ہوئے چراغوں سے
میں اک چراغِ سرِ رہگزر جلایا گیا
جو بھی باقی نظر آئے ہے کہاں باقی ہے
چل دئیے سارے مکیں خالی مکاں باقی ہے
لاش کاندھوں پہ اٹھائے ہیں یقیں کی ہم لوگ
زندگی! پاس ترے زندہ گماں باقی ہے
صاحباں مثل کوئی توڑ گیا سانس کے تیر
جسم مٹی ہے سو مٹی کی کماں باقی ہے
یہ سوچا ہے کہ مر جائیں تمہارے وار سے پہلے
تمہاری جیت ہو جائے ہماری ہار سے پہلے
کسی لمحے تمہارا وار کاری ہو بھی سکتا ہے
مگر یہ سر ہی جائے گا مِری دستار سے پہلے
بتا کتنا گرا سکتا ہوں خود کو تیری خواہش پر
مِرا معیار بھی تُو ہے تِرے معیار سے پہلے
سب لوگ شام ہوتے ہی جب اپنے گھر گئے
صحرا کو ہم بھی شہر سے پھر لوٹ کر گئے
اچھے دنوں کی آس میں جانے کدھر گئے
جتنے تھے میرے خواب سہانے بکھر گئے
گہرائی ناپنے میں تھے کچھ لوگ منہمک
کچھ لوگ پانیوں میں بلا خوف اتر گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پتہ ہم کو چلی یہ بات قُرآں کے بتانے پر
خُدا کا قُرب ملتا ہے نبیؐ سے دل لگانے پر
اسے بھی بعثتِ سرکارؐ کا اعجاز ہی کہیے
وہﷺ آئے تو نظامِ زندگی آیا ٹھکانے پر
مکمل مقصدِ تخلیقِ آدم یوں کِیا رب نے
نبوت ختم کر دی رحمتِ عالمؐ کے آنے پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رسول پاک کی شفقت نہ ہر کسی کو ملی
وہ جس نے گھر کو لٹایا اسی سخی کو ملی
متاعِ زر تو لٹی، اور وہ سبھی کو ملی
غمِ حسینؑ کی نعمت کسی کسی کو ملی
سبھوں کے آقا ہیں مشکل کشا ہیں، مولیٰ ہیں
کہ خاک آپ کے در کی ہر اک ولی کو ملی
یہاں پہ جو ہے وہ مذہب شکار ہے ہاں ہے
خدا دلوں پہ دماغوں پہ بار ہے ہاں ہے
تمام مفتی و واعظ خدا کو بیچتے ہیں
تو کیا خدا بھی کوئی کاروبار ہے ہاں ہے
ہر ایک چیز میں تم عیب دیکھتے ہو نہیں
تمہارا لہجہ شکایت گزار ہے ہاں ہے
ہجوم غم میں جینا کس قدر صبر آزما ہوتا
اگر دردِ محبت سے یہ دل نا آشنا ہوتا
مِری لغزش نے رنگیں کر دیا ہر نقش ہستی کو
یہاں ہو کا سماں ہوتا اگر میں پارسا ہوتا
تمنا خود فریبی آرزو ہے جان کی دشمن
مسرت دل کو دینا تھی تو بس غم ہی دیا ہوتا
ایسی وسعت کہ چمکتے ہیں ستارے دل میں
اس کو رہنا ہی نہیں آیا ہمارے دل میں
سب نے آ آ کے مرا ذہنی توازن چھیڑا
لوگ جو جو بھی محبت سے اتارے دل میں
تو نے کیا جرم کیا ہوگا جو میں رہتا رہا
اتنا عرصہ مرے چندا ترے پیارے دل میں
کچھ نہ کیا ارباب جنوں نے پھر بھی اتنا کام کیا
دار بہ دار افتاد سے کھیلے زلف بہ زلف آرام کیا
ساون ساون شعلے بھڑکے گلشن گلشن آگ لگی
کیسا سورج ابھرا جس نے صبح کو آتش نام کیا
تنہائی بھی سناٹے بھی دل کو ڈستے جاتے ہیں
رہگیرو کس دیس میں آ کر ہم نے آج قیام کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قیامت تک رہے گردش میں پیمانہ محمدﷺ کا
عجب مے خانہ ہے یا رب یہ میخانہ محمدﷺ کا
نہ تھکتا ہے وفاؤں سے نہ ڈرتا ہے جفاؤں سے
مذاقِ عام سے عاشق ہے بے گانہ محمدﷺ کا
الٹ دیں جس نے دم بھر میں صفیں ایران و روما کی
کبھی ایسا بھی تھا ایک ایک دیوانہ محمدﷺ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے اعلیٰ و ارفع مقام محمدﷺ
دل و جان صدقے بنام محمدﷺ
مزہ آئے گا حشر میں مے کشی کا
ملے گا جو پینے کو جام محمدﷺ
رہو چین سے امن و محبت سے
ہے لازم ہمیں احترام محمدﷺ
ہزار نیزوں پہ اچھلے مگر نہیں ہوتا
حسینؑ جیسا زمانے میں سر نہیں ہوتا
جہاں ہر ایک کو ہو اعتبار کی خواہش
وہاں پہ کوئی کبھی معتبر نہیں ہوتا
مِری انا مجھے آوارگی پہ اکساتی
جو میرے ساتھ مِرا ہمسفر نہیں ہوتا
زوالِ عمرِ رفتہ میں کھڑا ہوں
اگرچہ دیکھنے میں چل رہا ہوں
بھنور کچھ اس قدر راس آ گئے ہیں
کناروں سے کنارہ کر رہا ہوں
اندھیر رات بھر سہنا پڑے گا
طلوعِ شام میں رکھا گیا ہوں
نہ گر ابلیس نے اس طرح آدم کو ٹھگا ہوتا
تو کیوں بنتی یہ دنیا کیوں یہ ہنگامہ بپا ہوتا
جگہ اپنی نہ کرسی پر، نہ مسند پر، نہ منبر پر
ڈبویا مجھ کو پینے نے، نہ پیتا میں تو کیا ہوتا
میاں مجنوں کو بی لیلیٰ کے ابا یوں نہ ٹھکراتے
وہ بے چارہ بے اے کر کے ڈپٹی ہو گیا ہوتا
بڑے خلوص سے سر کو کٹا رہا ہوں میں
حیات و موت کا جھگڑا مٹا رہا ہوں میں
غمِ حیات کا مژدہ سنا رہا ہوں میں
قفس کی بات گلستاں میں لا رہا ہوں میں
حوادثات زمانہ نہ سمجھے کوئی اسے
فسانہ ہائے محبت سنا رہا ہوں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قرآن پاک مطلعِ دیوانِ نعت ہے
اللہ کا کلام ہی شایانِ نعت ہے
یہ خوش نصیب حافظِ قرآنِ نعت ہے
کیسا فقیرِ نعت پہ احسانِ نعت ہے
صد شکر امتی ہے مسلمانِ نعت ہے
مجھ سا گدا غلامِ غلامانِ نعت ہے
کچھ اس طرح
کچھ اس طرح تم روبرو آؤ میرے
کہ تمہارے سوا کچھ نہ دکھائی دے
کچھ اس طرح تم پکارو مجھے
کہ تمہارے سوا کچھ نہ سنائی دے
کچھ اس طرح تیری موجودگی کے ہوں نشاں
اندر سے کھا رہی ہے جدائی حضور کی
باہر سے بند ہو گئی کھڑکی شعور کی
اک گلبدن کو پیار سکھانے میں کٹ گئی
پوچھو نہ ہم نے زندگی کیسے عبور کی
کھلنے لگے ہیں گیسو مِری خوش خصال کے
مٹنے کو ملگجی ہے سو حور و قصور کی
طواف کوچۂ جاناں کی بات کرتے رہو
سرور و مستی و ارماں کی بات کرتے رہو
نگاہِ حُسنِ مجسم نواز دے شاید
مقامِ رفعتِ انساں کی بات کرتے رہو
اندھیرے چار سُو چھائے ہوئے تو ہیں لیکن
نمودِ صبحِ درخشاں کی بات کرتے رہو
ہاتھ میں گر عصا نہیں ہوتا
بحر میں راستہ نہیں ہوتا
نیتیں پاک اگر نہیں ہوں تو
کوئی سجدہ ادا نہیں ہوتا
چار نظریں اگر نہیں ہوتیں
درد دل یوں بڑھا نہیں ہوتا
لہو سے ہم نے بھی سینچا ہے یہ شجر کیسا
ملی نہ چھاؤں بھی اس کی ہمیں ثمر کیسا
نہیں ہے حدِ نظر تک نشان منزل کے
یہ کر رہے ہیں خدا جانے ہم سفر کیسا
مِرے وجود کو جس نے بنا دیا شعلہ
نہاں تھا خاک میں میری وہ اک شرر کیسا
شاعر کا دل
آ ہوشں میں او طعنہ زن، کھول آنکھ او ہمت شکن
ہر بات پر حملے ہیں کیوں ہر وقت کیوں ہے خندہ زن
کیا جانے تو اے بے خبر، شاعر کا انداز سخن
رکھتا ہے تو سطحی نظر، وہ اپنی دھن میں ہے مگن
ہے تیری حدِ فکر سے کچھ ماسوا شاعر کا دل
یہ مسجد مندر مے خانے کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
سب جاناں ہیں تیرے کاشانے کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
اک ہست کا تیرے قائل ہے انکار پہ کوئی مائل ہے
اصلیت لیکن تو جانے کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
اک خلق میں شامل کرتا ہے اک سب سے اکیلا کہتا ہے
ہیں دونوں تیرے مستانے کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نور سراپا نور مجسم صلی اللہ علیہ و سلم
شافع اُمت، رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم
شانِ نبوت لے کر آئے، شمع ہدایت لے کر آئے
اُمت کے دم ساز و ہمدم صلی اللہ علیہ و سلم
کالی کملیا اوڑھنے والے، ظلمت کا رخ موڑنے والے
ہادئ دیں، انسانِ مکرم، صلی اللہ علیہ و سلم
ٹوٹی کمر
ٹوٹی کمر لیے روز وہ بوڑھا
صبح کے آٹھ بجے
اوزار اٹھائے
گھر سے نکل پڑتا ہے
ابھی منڈی میں اسے دھکے کھانے ہیں
پھر شام کو گھر راشن بھی لانا ہے
کل بھی جلے تھے دھوپ میں جلتے ہیں آج بھی
ہم لوگ سچ کی راہ پہ چلتے ہیں آج بھی
کل بھی مِرا وجود تھا دشمن کو ناگوار
کچھ لوگ میرے نام سے جلتے ہیں آج بھی
حُجرے دلوں کے کس لیے تاریک ہو گئے
تارے تو آسماں پہ نکلتے ہیں آج بھی
ہمیں ابرو کا خم اس کو ہمارا دل پسند آیا
چُنا قاتل نے ہم کو، اور ہمیں قاتل پسند آیا
عظیم آباد و آرا کو نثار اس پر کیا میں نے
جو مجھ کو عارضِ گلگوں کا ان کے تِل پسند آیا
مِرا بس ہو تو ایسی حُور کو سو جوتے لگواؤں
جسے جنت میں اک ملائے ہر محفل پسند آیا
بُتوں سے کچھ نہ ہوا جو ہوا خُدا سے ہوا
دوا سے کچھ نہ بنا جو ہوا دُعا سے ہوا
بھرم درازئی دامانِ یار کا نہ رہا
عجیب کام مِرے دستِ نارسا سے ہوا
دلوں کو صبر و سکوں تو نہ مل سکا لیکن
کوئی تو کام تِری چشمِ با حیا سے ہوا
سونے دیتا نہیں شب بھر دل بیمار مجھے
درد نے اٹھ کے پکارا ہے کئی بار مجھے
چل کے ظالم نہ دکھا شوخئ رفتار مجھے
نظر آتے ہیں قیامت کے سب آثار مجھے
قبر پر جب مری آتے ہیں تو رو دیتے ہیں
بعد مرنے کے وہ سمجھے ہیں وفادار مجھے
نہ کعبہ راہ میں اس کی نہ یہ بت خانہ آتا ہے
جب آتا ہے کسی پر دل تو بے تابانہ آتا ہے
نہ جامِ مئے نہ تنہا ساقئ مے خانہ آتا ہے
مِری نظروں میں جب آتا ہے کُل میخانہ آتا ہے
پگھل جاتا ہے سینے میں دل شمع فروزاں بھی
قدم بوسی کو جس دم سر بکف پروانہ آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بطحا کے گلستاں کا بھلا کیا جواب ہے
جنت قسم خدا کی یہاں آب آب ہے
کتنا حسیں دیارِ رسالت مآبﷺ ہے
ہر ذرہ اس زمین کا اک آفتاب ہے
لوگو! یہ صرف صدقۂ عالی جنابؐ ہے
ہم پر خدا کا جو کرمِ بے حساب ہے
اب ڈر نہیں لگتا
ایک ڈر تھا تنہائی کا
ایک ڈر تھا جدائی کا
جو مسلسل میرے ساتھ رہتا تھا
کل کا دن جو گزر گیا
بہت بھاری لگتا تھا
نہ کوئی ٹھور ٹھکانہ کدھر گیا ہو گا
یہاں سے اٹھ کے دیوانہ کدھر گیا ہو گا
تم اپنی ترچھی نگاہوں کے وار جانتے ہو
تمہیں خبر ہے نشانہ کدھر گیا ہو گا
کوئی رقیب نہیں ہے تو پھر بتائے کوئی
وہ کر کے ہم سے بہانہ کدھر گیا ہو گا
منافق سوچ سے کیوں شہر کو جھلسا ہوا دیکھیں
یہ حسرت ہے جنوں کی آگ کو بجھتا ہوا دیکھیں
سنیں گم سم کسی کی چیخ پہروں دل کی بستی میں
میانِ شب کسی منظر کو جب بدلا ہوا دیکھیں
تخیل کے دھوئیں میں چھپ نہ جائیں ساری آشائیں
چلو دریا میں بادل کو کہیں ٹھہرا ہوا دیکھیں
جس سے کہ بدل جائے ابھی قوم کی تقدیر
ایسی کوئی تقریر، اک ایسی کوئی تقریر
سب لوگ مظالم کے ہوئے جاتے ہیں عادی
اب کوئی نہیں کھینچتا انصاف کی زنجیر
ہتھیار کا ذکر اس میں نہ قاتل کا کوئی نام
تفصیل ہوئی ہے جو مِرے قتل کی تحریر
زمانے سے مری زندہ دلی دیکھی نہیں جاتی
خوشی ہو دوسروں کی تو خوشی دیکھی نہیں جاتی
الٰہی نور سے روشن ہیں راہیں اس کے بندوں کی
وہ ایسی روشنی ہے جو کبھی دیکھی نہیں جاتی
محبت ہی سے اس دنیا میں سارے کام چلتے ہیں
کسی سے کیوں کسی کی دوستی دیکھی نہیں جاتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
التجا ہے میری بس یہ رب سے
حمد منسوب ہو میرے رب سے
ہو میسر مجھے بھی یہ سلیقہ
نام لوں میں تیرا پر ادب سے
ہو ازل سے جو تیری ثنا خواں
کیا غرض ہو اسے روز و شب سے
ہم نے جب ترکِ تعلق کی قسم کھائی ہے
پھر دبے پاؤں تِری یاد چلی آئی ہے
خودبخود آنے لگا پھر اسی محفل کا خیال
زندگی مجھ کو کہاں آج تُو لے آئی ہے
جانے کیوں ہو گئے ہم آپ کی الفت میں اسیر
جانے کس جرم کی ہم نے یہ سزا پائی ہے
مکمل ہے کوئی تو بس خُدا ہے
ہمارے آپ میں رکھا ہی کیا ہے
کسی کی آج ہی دُنیا لُٹی ہے
کسی کو آج ہی سب کچھ مِلا ہے
مناسب ہے اگر تو کاٹ لیجے
ہمارا سر تو پہلے سے جُھکا ہے
سوکھے ہوئے درخت کے پتوں کو دیکھنا
پھر چہرۂ حیات کے زخموں کو دیکھنا
خوش رنگئ حیات کا پاؤ گے عکس تم
پتھر اُچھال کر ذرا لہروں کو دیکھنا
میری نظر میں یہ بھی عبادت خُدا کی ہے
شفقت بھری نگاہ سے بچوں کو دیکھنا
بجھی جاتی ہے شمع زندگی آہستہ آہستہ
مٹی جاتی ہے دل کی روشنی آہستہ آہستہ
سرِ دار و رسن بھی زندگی کے گیت گاتا ہوں
یہاں تک آ گئی دیوانگی آہستہ آہستہ
تصور میں ہزاروں مے کدے بنتے بگڑتے ہیں
مصیبت بن گئی ہے تشنگی آہستہ آہستہ
کیا روز و شب ہمارے سنور کر بھی آئیں گے
گزرے ہوئے وہ لمحے میسر بھی آئیں گے
کہہ دو کہ ہوشیار رہیں رہروانِ شوق
راہِ وفا میں سینکڑوں پتھر بھی آئیں گے
ڈوبے ہوئے ہیں خوابِ گراں میں ابھی تو لوگ
آنکھیں کُھلیں تو سامنے منظر بھی آئیں گے
اب کوئی جیت نہیں ہار نہیں کچھ بھی نہیں
میں جہاں ہوں وہاں سنسار نہیں کچھ بھی نہیں
ایک عالم کی خبر مجھ کو ہوئی جاتی ہے
میں خبردار، نہ ہشیار نہیں کچھ بھی نہیں
ایک جیسے ہیں مگر پھر بھی جدا ہیں سارے
درمیاں ہے کوئی دیوار نہیں کچھ بھی نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اک بار پھر فقیر پہ احسانِ نعت ہے
پھر بے ہنر کے ہاتھ قلمدانِ نعت ہے
حاصل جو شرف بوسہِ دامانِ نعت ہے
میرا کہاں کمال، یہ فیضانِ نعت ہے
فن کا کمال ہے نہ تخیل پہ منحصر
ہو جائے جو عطا وہی سامانِ نعت ہے
مصیبت کو نہ سمجھو تم مصیبت عین راحت ہے
مصیبت کو جو سمجھے عین راحت وہ کرامت ہے
نہ ہو مغموم جو غم سے، نہ ہو مسرور راحت سے
حقیقی ہے خوشی اس کو، مسرت ہی مسرت ہے
خوشی اور عیش و راحت میں، خدا کو بھول جاتے ہیں
خدا کو یاد اس حالت میں رکھنا، اک سعادت ہے
ہمدم کوئی رہا نہ کوئی ہمنوا رہا
بزم جہاں میں اب میں رہا بھی تو کیا رہا
شاید اسے خلوص و وفا کی تلاش تھی
کل ایک شخص مجھ کو بہت ڈھونڈتا رہا
تھیں جادۂ حیات میں دشواریاں بہت
تم ساتھ ہو لیے تو بہت حوصلا رہا
شکوہ کریں گے ہم نہ کبھی روزگار کا
گویا کہ یہ گِلہ ہے محبت میں یار کا
تھا وہ حکیم یار کسی بادہ خوار کا
درماں کِیا تھا خمر سے جس نے خمار کا
اے تیغِ یار! وصف ہے یہ تیری دھار کا
دُکھتا نہیں ہے وار سے دل دلفگار کا
دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں
ہم نے ساری عمر گنوا دی کشتی پار لگانے میں
بیگانے تو بے گانے تھے بیگانوں کا شکوہ کیا
اپنوں کا بھی ہاتھ رہا ہے گھر کو آگ لگانے میں
پل دو پل میں ڈھ جاتے ہیں تاج محل ارمانوں کے
لیکن برسوں لگ جاتے ہیں بگڑی بات بنانے میں
تجھے جاِداں بنا دے وہ اِرم قبول کر لے
مِرا مشورہ ہے تجھ کو کوئی غم قبول کر لے
بہ کمالِ عزمِ راسخ تُو سِتم قبول کر لے
کبھی دار تک گئے تھے وہ قدم قبول کر لے
کئی اور تشنہ لب ہیں تِری انجمن میں ساقی
میں وہ بُوالہوس نہیں ہوں جو کرم قبول کر لے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پیدا ہوا جو مالک کون و مکاں ہے آج
نور رسول پاکؐ سے روشن جہاں ہے آج
وحدت کا نور ذات سے پھیلا جو آپ کی
کفر و شرک سارے جہاں سے نہاں ہے آج
مومن جو ہے وہ پڑھتا درودﷺ و سلام ہے
مصروف نعتِ پاکؐ ہر ایک کی زباں ہے آج
میں اپنی دنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
پنپنے دیں گے یہ آلام روزگار کہاں
خِزاں کی گود میں ہنگامہ بہار کہاں
ہوائے دہر مگر ان کو سازگار کہاں
ترانہ ہائے وفا گنگنا تو سکتی ہوں
میں اپنی دنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
دل کا دریا چڑھ جائے تو
آنکھوں پر بند باندھنا مشکل ہو جاتا ہے
اک لمحہ اک صدی بنے تو
کہنے والی بات ادھوری رہ جاتی ہے
یہ موسم
یہ وصال کا موسم پتی پتی ہو جاتا ہے
جرأت ہے تو طوفاں سے گزر کیوں نہیں جاتے
زندہ نہیں احساس تو مر کیوں نہیں جاتے
گیسو تِرے لہرا کے بکھر کیوں نہیں جاتے
دل میں تِرے انداز اتر کیوں نہیں جاتے
میں گوشۂ تنہائی میں سستا لوں ذرا سا
کچھ دیر کو آلام ٹھہر کیوں نہیں جاتے
پل صراط ہے سورج کے آس پاس کہیں
چھپی نجات ہے سورج کے آس پاس کہیں
غموں کی دھوپ ہی دن کے سفر کا حاصل ہے
خوشی کی رات ہے سورج کے آس پاس کہیں
فنا کی گود میں ہم جی رہے ہیں دھرتی پر
نہاں حیات ہے سورج کے آس پاس کہیں
ملا جبیں کو جو اس آستاں سے اِذن سجود
زبان عشق پہ جاری ہوئے صلواۃ و درود
وہ اس کے بارگیہ ناز کی درخشانی
ہر ایک ذرے میں تھی برقی طور کی سی نمود
وه گیف بار تھا منظر کہ محو حیرت تھے
یہ مہر و مہ یہ ستارے یہ آسمان کبود
کسی نظر میں نہیں احترام کے قابل
جو آدمی نہیں ہوتا ہے کام کے قابل
نہ اس کی آنکھ کے پانی سے پیاس بُجھتی ہے
فقط لہو ہے دلِ تشنہ کام کے قابل
ہمارے پاس نہ زر ہے نہ مرتبہ اونچا
ہمیں کیوں آپ سمجھتے، سلام کے قابل
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فتحِ مکہ سے اقتباس
ہوا فتح مکہ سے اسلام روشن
نبیﷺ کی ہدایت کا پیغام روشن
قبائل کا تھا یہ ہمیشہ سے دعویٰ
بُتوں کی خُدائی کا مرکز ہے کعبہ
مسلمانوں نے کعبے پر فتح پائی
نہ کام آئی آخر بُتوں کی دُہائی
جب سے ہوئے ہیں ان کے طلبگار دوستو
کچھ زندگی سے ہو گیا ہے پیار دوستو
جی چاہتا ہے پوچھو کیا اس کو بھی پیار ہے
ڈر ہے کہیں نہ کر دے وہ انکار دوستو
کیا یہ ضروری ہے کہ لب ہی بولتے رہیں
آنکھوں سے بھی تو ہوتا ہے اظہار دوستو
سچ بولنے کے جرم میں نیزے پہ سر رہا
قاتل بہ عز و جاہ بھی نا معتبر رہا
کیا بارش بلا تھی کہ سب کچھ بہا گئی
اچھا ہوا ملنگ بے دیوار و در رہا
یا رب خطا معاف کہاں ڈھونڈھتا تجھے
میں اپنی ہی تلاش میں شام و سحر رہا
اٹھ زمیں سے بن ہوا سورج کو چھو
زندگی! کچھ کر نیا، سورج کو چھو
کس نے روکا ہے تِری پرواز کو
آسماں پر گھر بنا، سورج کو چھو
کچھ کبھی ایسا بھی کر؛ اغیار کی
راہ سے کانٹے ہٹا، سورج کو چھو
بوجھ بچوں کو اٹھانے کی سزا مت دینا
اور جینے کی بزرگوں کو دعا مت دینا
گوشۂ دل میں دبی ایک جو چنگاری ہے
خود بھڑک جائے گی اک روز ہوا مت دینا
خود مٹا دیں گے یہ الفاظ سیاہی اپنی
بوئے تحریر ہے کاغذ پہ جلا مت دینا
نُور مزدور
رُدالیو
شہرِ تِیرہ کے باسیو
ترک کر دو یہ اشکباری کی عادت
جان لو
شہرِ تاریک میں ممنوع ہے روشنی
کہ یہی رسم روا ہے
کبھی گرداب اور طوفان دیتے ہیں سہارے بھی
کبھی کشتی ڈبوتے ہیں دریا میں کنارے بھی
سنورتی ہے جہاں تیری وفا تیری خوشی ہمدم
بھڑکتے ہیں اسی دل میں تِرے غم کے شرارے بھی
زمانہ ہم سے پوچھے قدر اور قیمت اُجالوں کی
کیے ہیں ہم نے صدیوں تک اندھیروں میں گزارے بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چھیڑوں جو ذکر شاہِ زماں جھوم جھوم کر
چومیں ملائکہ یہ زباں جھوم جھوم کر
اللہ اللہ زارِ مدینے کی نزہتیں
قربان ہے بہارِ جناں جھوم جھوم کر
ذکرِ جناں پہ طیبہ نگاہوں میں پھر گیا
پہنچی نظر کہاں سے کہاں جھوم جھوم کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
موج فرات سر کو پٹختی ہے آئیے
مدھم سی چاندنی بھی چٹکتی ہے آئیے
ہر ذرہ کربلا کا بلاتا ہے پیار سے
رنج و الم میں ریت سسکتی ہے آئیے
سر سے اتر رہی ہے گرانبارئ فراق
چادر بتولؑ کی بھی سرکتی ہے آئیے
اب تو منزل نہ ہے سفر کوئی
ہمسفر ہے، نہ رہگزر کوئی
ہم چراغوں کے گھر میں رہتے ہیں
ہم کو جلنے کا ہے نہ ڈر کوئی
آج سورج سے میں یہ پوچھوں گا
میری قسمت میں ہے سحر کوئی
کسی نے جب طرفداری نہیں کی
مِرے سائے نے بھی یاری نہیں کی
سفر میں سامنا خطروں سے ہو گا
نہ پھر کہنا کہ تیاری نہیں کی
مقابل آئینہ رکھا ہمیشہ
کسی سلطاں کی درباری نہیں کی
سب یقیں بیچ کر سب گماں بیچ کر
میں تونگر ہوں سود و زیاں بیچ کر
جھڑ گئے میری شاخوں سے برگ و ثمر
پھر بہاریں خریدیں خزاں بیچ کر
اک نیا آشیانہ بناؤں گا میں
بر لب میکدہ اک مکاں بیچ کر
بن کے پیغامِ سکوں بخش ٹھہرتی بھی نہیں
زندگی درد کی راہوں سے گزرتی بھی نہیں
دل سے جاتا بھی نہیں ان کی جدائی کا خٰال
ہائے تقدیر محبت کی سنورتی بھی نہیں
اس قدر یورشِ افکار نے گھیرا ہے مجھے
ذہن میں اب کوئی تصویر ابھرتی بھی نہیں
آدمی انسان سے حیوان کیسے ہو گیا
ایک زندہ ملک قبرستان کیسے ہو گیا
آگ دینے والے ہی آئے ہیں مجھ سے پوچھنے
ایک پل میں شہر یہ ویران کیسے ہو گیا
کون ہے وہ میرے حق میں جو دعائیں کرتا ہے
سخت مشکل مرحلہ آسان کیسے ہو گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب محمدؐ سے کسی شے کی بھی نسبت ہو جائے
پتھروں کی بھی زباں نعت کی صورت ہو جائے
ذکر تو ہوتا ہی رہتا ہے یہاں دنیا کا
آئیے ذکرِ نبیﷺ ذکر رسالتﷺ ہو جائے
خواب میں دیکھ لوں ان کو تو آنکھیں نم ہوں
نام جب لوں میں محمدؐ کا تو مدحت ہو جائے
نہ کوئی شام تھی اس دن کی نہ سویرا تھا
نہ کوئی عکس تھا اس میں نہ کوئی چہرہ تھا
شب خیال میں کچھ تیرتی سی کرنیں تھی
فراز فکر کے اوپر چراغ میرا تھا
ستارے دیکھ کے اس کو چراغ پا تھے بہت
وہ چاند اپنی حویلی سے آج نکلا تھا
پھر بہانہ بن گیا ہے میل کا
ایک ڈبہ ہے ہمارا ریل کا
اور بھی نزدیک اس کے آ گیا
فائدہ ہوتا ہے دھکم پیل کا
خلعتِ شاہی کے جیسی وہ لگے
عام سا اک سوٹ ہوں میں سیل کا
گلے میں طوق کو زنجیر سمجھنا چھوڑو
ہر محرومی کو تقدیر سمجھنا چھوڑو
تم اگر حق بھی نہ لے پاؤ تو پھر بہتر ہے
ہاتھ میں لوہے کو شمشیر سمجھنا چھوڑو
جو سمجھتے ہیں کہ معراج فقط مسند ہے
ایسے لوگوں کو بھی تم پیر سمجھنا چھوڑو
ایسی کوئی رات بھی آئے اترے میری چھت پر چاند
میں دیوانہ اس کا ہوں، بن جائے میرا دلبر چاند
ایسا کب سوچا تھا میں نے ہو گا دل کا پتھر چاند
دیکھ رہا ہے میرے رونے پر مجھ کو ہنس ہنس کر چاند
اس کی عادت میں شامل یا مجبوری ہے کوئی جو
آوارہ گردی کرتا ہے کیوں راتوں کو اکثر چاند
رسم نبھانے آئیں گے دکھانے کے لیے رو لیں گے
مجھے دفنا کے یہ لوگ اپنی اپنی راہ ہو لیں گے
زندگی بھر تو کسی نے سکون لینے نہیں دیا ہے
اچھا ہے سب کفن اوڑھ کر چین سے سو لیں گے
محبت کرتے وقت ذرا سا بھی یہ احساس نہیں ہوا
کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے کانٹے بولیں گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیا شانِ "رَفَعْنا" ہے؛ کیسی یہ بڑائی ہے
مختارِ دو عالم کے قبضے میں خدائی ہے
یہ رنگِ بشارت کی تعبیرِ طلائی ہے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف ان کی رسائی ہے
گر ان کی رَسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
اپنوں نے یہاں حرفِ انکار دیا ہم کو
لبِ ساحل ہیں یا گرداب میں ہیں
بہت موسم ہے ہم اک خواب میں ہیں
فصیلوں پر صدائیں اگ رہی ہیں
زبانیں گمشدہ محراب میں ہیں
یہی لمحہ ہے، مجھ کو فتح کر لو
مِرے سارے سپاہی خواب میں ہیں
صبح نشور کیوں مری آنکھوں میں نور آ گیا
اس کی نقاب الٹ گئی، یا کوہِ طور آ گیا
تیرے بغیر بھی مجھے پینا حضور آ گیا
آنکھوں سے مے چھلک گئی دل کو سرور آ گیا
وہ بھی عجیب وقت تھا مجھ پہ حیات تنگ تھی
لیکن اسی عذاب میں جینا ضرور آ گیا
اک اضطراب جو دل میں بہت چڑھا ہوا ہے
کئی دن سے یہ دریائے دل چڑھا ہوا ہے
نواحِ شہر میں ہر سُو ہے ایک سناٹا
دیارِ دل میں مگر شور سا مچا ہوا ہے
یہ شہر شہرِ نگاراں ہے اس کے پر گھر کا
ہر ایک فرد کئی کا کٹا ہوا ہے
ظلمت و نور میں وحدت نہیں ہو گی ہم سے
یعنی ما بعدِ صداقت نہیں ہو گی ہم سے
جن کی تعبیر میں ہستی کا زیاں بھی ہو قبول
ایسے خوابوں کی اہانت نہیں ہو گی ہم سے
ہم حسینیؑ ہیں ملوکانہ اصولوں کے خلاف
اے یزیدی! تِری بیعت نہیں ہو گی ہم سے
جونہی پُر جوش پنچھی کی اڑانیں ٹُوٹ جاتی ہیں
اُسی لمحے ہماری بھی کمانیں ٹوٹ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کی باتیں ہیں انہیں بیٹا نہیں بدلو
نئے لہجے ملانے سے زبانیں ٹوٹ جاتی ہیں
تِرا نقصان واجب ہے کہ ان کا کچھ نہ جائے گا
وہ آنکھیں سامنے ہوں تو کمانیں ٹوٹ جاتی ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل مست مئے جلوۂ جاناں محمدﷺ
آنکھوں میں ہے نورِ رخِ جاناں محمدﷺ
دل بن گیا آئینۂ حیرانِ محمدﷺ
صدقے تِرے اے جلوۂ جانانِ محمدﷺ
اللہ بچائے نظرِ کفر سے دل کو
پھر جوش میں ہے جذبۂ ایمانِ محمدﷺ
ہو جائیں گے جس روز سبھی کام مکمل
آ جائے گا اس روح کو آرام مکمل
دل میں ہے مگر اس سے کبھی کہہ نہیں پائے
آنے سے ترے ہوتی ہے یہ شام مکمل
باتوں میں مہارت جسے حاصل نہیں ہوتی
اکثر وہی ہو جاتا ہے ناکام مکمل
بے اثر ٹھہری مسیحا کی دعا میرے بعد
زخم کو باقی نہیں کوئی گلہ میرے بعد
میں ہی آیا ہوں سر دشت تمنائے وصال
ہے لہو رنگ ہر اک گل کی قبا میرے بعد
جانے کیوں ضائع ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
جانے کیوں بند ہوئے چاکِ قبا میرے بعد
ہم نے دیکھے عجب عجب گونگے
تھی زباں تو مگر تھے سب گونگے
کر شکایت نہ بے زبانوں کی
نطق والے ہوئے ہیں جب گونگے
حشر برپا ہے بیچ دریا میں
دونوں ساحل ہیں لب بہ لب گونگے
کچھ سناؤ بہت اداس ہوں میں
گیت گاؤ، بہت اداس ہوں میں
دل کی دنیا اجاڑنے والے
مان جاؤ، بہت اداس ہوں میں
میری دیوانگی کا مت سوچو
پاس آؤ، بہت اداس ہوں میں
سنا ہے جب سے خدا کا کلام راحت ہے
ہر ایک درس کا موضوع عام راحت ہے
کدورتوں سے کشائش ملا نہیں کرتی
جہان بھر کو ہمارا پیام راحت ہے
میں اختیار کے ہوتے ہوئے کہاں خوش تھا
ہوا ہوں جب سے کسی کا غلام راحت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
والضحیٰ رخسار کی توصیف ہے
زلف بھی واللیل کی تعریف ہے
ہے قدِ رعنا ہی نخلِ بٰسِقٰت
سرو میں رفتار کی تشریف ہے
کیا کہیں داندانِ روشن کے لیے
دستِ قدرت کی کھلی تصنیف ہے
دغا دے گئی عمر فانی کسی کی
ہوئی مختصر یوں کہانی کسی کی
کسی پہ مجسم شباب آ رہا ہے
لٹی جا رہی ہے جوانی کسی کی
سر بسر مرگ اجل ڈھونڈتی ہے
معاذ اللہ یہ ناتوانی کسی کی
گزر چکے ہیں رگ جاں پہ حادثے کتنے
زبان وقت چکھے اور ذائقے کتنے
شجر گرا تھا کہ انساں پھلوں پہ ٹوٹ پڑے
کسے یہ ہوش کہ اس پر تھے گھونسلے کتنے
وہ رات جس کے سبھی خواب رنگ لاتے تھے
اس ایک رات میں ہم خواب دیکھتے کتنے
مزا الم میں نہیں لطف سوزِ جاں میں نہیں
سبب یہ ہے کہ تپش پردۂ فغاں میں نہیں
شبہ اگر تمہیں آدم کی داستاں میں نہیں
تو پھر گناہ کوئی سجدۂ بُتاں میں نہیں
سب اٹھ چکے ہیں محبت میں جس قدر تھے حجاب
میں اب وہاں ہوں جہاں کوئی درمیاں میں نہیں
اب نہ حسرت ہے کہ احسان اٹھایا جائے
خوں کے بدلے میں مرا خون بہایا جائے
ہم تو حیراں ہیں کہ اب قتل یہ کس سر جائے
حاکمِ وقت کسی طور بلایا جائے
ایک اندیشۂ بے نام سے لرزاں ہو تو پھر
اُس سلگتے ہوئے آنچل کو بجھایا جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمہارا نام نامی پر اثر ہے یا رسول اللہﷺ
تمہاری ذات سب سے معتبر ہے یا رسول اللہ
پریشانی میں تم پر ہی نظر ہے یا رسول اللہ
تمہارا تذکرہ شام و سحر ہے یا رسول اللہﷺ
سبھی نبیوں میں افضل اور ختم المرسلیں تم ہو
تمہاری شان سب سے مقتدر ہے یا رسول اللہ
چمن میں سیر کی خاطر جو گلعذار آئے
خراج حسن ادا کرنے برگ و بار آئے
حریم ناز کی معجز نمائیوں کے رموز
اگر کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آئے
سرور طور کے جلوے سے ہے جنہیں حاصل
وہ سجدہ گاہ محبت میں بے قرار آئے
خبر یہ تھی کہ فریب نظر کا موسم ہے
یہاں تو معرکۂ خیر و شر کا موسم ہے
بنا رہا ہوں خود اپنے لہو سے نقش و نگار
کہ یہ نمائش دیوار و در کا موسم ہے
یہ زرد زرد سے چہروں پہ لکھ دیا کس نے
ہمارے شہر میں بارانِ زر کا موسم ہے
دردمندی
دیکھتے دیکھتے
چیونٹیاں کتنی روندی گئیں
آخری سانس تک
پلٹ کر جھپٹنے کی امید میں
سر اٹھاتی رہیں
دیکھتے دیکھتے
راستے کو یہی بتا رہا ہوں
میں کسی اور سمت جا رہا ہوں
خود کو مسند پہ فرض کرتے ہوئے
آخری فیصلہ سنا رہا ہوں
ایک دیوار گرنے والی ہے
ایک دیوار ابھی اٹھا رہا ہوں
وہ جنہیں غم بھلے سے لگتے ہیں
حادثوں میں پلے سے لگتے ہیں
ان سے ماضی کی داستاں پوچھو
وہ جو کھنڈر جلے سے لگتے ہیں
ہم سجاتے ہیں بزم یادوں کی
جب کبھی فاصلے سے لگتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تزئین چار سو ہے محمدؐ کے شہر میں
فردوس ہو بہو ہے محمدؐ کے شہر میں
اللہ رے مزاج بدلتا نہیں جنوں
دیوانہ سرخرو ہے محمدؐ کے شہر میں
ہستی لٹا کے دیکھ لے ہستی کا مرتبہ
آئینہ رو برو ہے محمدؐ کے شہر میں
دئیے کو پھر بجھانا چاہتی ہے
ہوا کوئی بہانہ چاہتی ہے
سُجھانا چاہتا ہے راہ تارا
مگر شب بیت جانا چاہتی ہے
نئی شاخیں شجر پر کب اُگیں گی
کہ چڑیا آشیانہ چاہتی ہے
سچ کے گلے میں جھوٹ کا خنجر اتر گیا
الزام میرے قتل کا میرے ہی سر گیا
ہمدرد جو نگاہ تھی بے نور ہو گئی
خنجر کی پیاس دیکھ کے قاتل بھی ڈر گیا
جس کو رہا عزیز تقدس صلیب کا
اپنے لہو سے وقت کو رنگین کر گیا
چھپے ہیں آپ کی عظمت کے اشتہار بہت
پھنسیں گے جال میں میری طرح شکار بہت
خبر ہے ان دنوں بازار بھاؤ اچھا ہے
اٹھان پر ہے ضمیروں کا کاروبار بہت
یہ زندگی ہے یہاں ملنا اور بچھڑنا کیا
ملیں گے ہم کو بھی دلبر تمہیں بھی یار بہت
پیٹھ پیچھے سے تیرے وار بھی دیکھ آئے ہیں
جو تھا پوشیدہ وہ کردار بھی دیکھ آئے ہیں
خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے والے
اپنی آنکھوں سے تیری ہار بھی دیکھ آئے ہیں
خود کو جو چارہ گرِِ قوم کہا کرتے ہیں
بر لبِ گور وہ بیمار بھی دیکھ آئے ہیں
بھیڑ
کہیں یہ وہ بھیڑ تو نہیں ہے
کہ جو درختوں میں زندہ نبیوں کو کاٹتی تھی
جو وقتِ تصلیبِ ابن مریمؑ تماش بیں تھی
جو آگ میں پھینکے جانے والے
خلیلِ یزداں پہ ہنس رہی تھی
جو ثور کی غار تک نبیؐ کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جانب عرش وہ محبوب خدا کا نکلا
اب تو ارمان تِرا عرشِ معلا نکلا
عرش والے شبِ معراج بچھے جاتے ہیں
جب سرِ عرش وہ اللہ کا پیارا نکلا
منہ ہی تکتے رہے افلاک کے رہنے والے
واہ کس شان سے محبوب ہمارا نکلا
یہ محبت ہے دکھاوا مت کہو
میری وحشت کو تماشا مت کہو
ہر کسی کو خضر کا مت نام دو
ہر اندھیرے کو اجالا مت کہو
ریت میں پوشیدہ بیٹھے ہیں بھنور
ایسے ساحل کو کنارا مت کہو
خمسہ بر غزل غالب (اقتباس)
تجھ کو کچھ بھی ابھی پتہ کیا ہے
تُو نہیں جانتا وفا کیا ہے
درد ہے درد کے سوا کیا ہے
“دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے”
“آخر اس درد کی دوا کیا ہے”
سوچ کا جب کبھی چلا راہوار
آپ کے سینے میں گر جو دل نہیں
زندگی پھر اتنی بھی مشکل نہیں
جس سے وابستہ ہے ہر غم اور خوشی
ہاں مجھے وہ شخص بھی حاصل نہیں
سب یہاں اس شہر میں مظلوم ہیں
کوئی بھی اس شہر میں قاتل نہیں
آزادگی
وقت کا بوجھ
پتھریلی چپ
اونچے اونچے پہاڑ
میں پہاڑوں کے دامن میں پھیلی ہوئی گھاس پر
پتی پتی کی تحریر پڑھتا ہوں
اسرار میں غرق ہوں
دل کی دہلیز پہ آ، رنج کی تصویر میں آ
خواب! آنکھوں سے نکل، اب کسی تعبیر میں آ
پھر اسیری نے پکارا ہے، تجھے مانگتی ہے
پھر وفا کہتی ہے؛ آ حلقۂ زنجیر میں آ
پھول شادابئ موسم کا ہُنر بھول گئے
تھک بھی جا بادِ صبا! کوچۂ تعزیر میں آ
پئے جاتا ہوں ساقی کی نظر سے
مجھے کیا گردش شام و سحر سے
مناسب ہے غرور حسن لیکن
اتر جائے گا سودا بھی یہ سر سے
یہ کن بیتے دنوں کی یاد آئی
یہ کیسے اشک ٹپکے چشم تر سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مفلسوں کو بھی مدینے میں بلا لے آقا
یاد کرتے ہیں ترے چاہنے والے آقاﷺ
تیرے ہی حسن کا پرتو ہیں مہ و مہر و نجوم
دونوں عالم میں تِرے دم سے اجالے آقا
آسماں دور، زمیں تنگ ہوئی جاتی ہے
ان عذابوں سے ہمیں کون نکالے آقاﷺ
آنے والوں میں وہی محفل میں تنہا سا لگا
مجھ کو لیکن جانے کیوں وہ شخص اپنا سا لگا
دیدنی ہے گرچہ عالم میں ہر اک نقشِ حیات
دیکھنے والی نظر کو صرف خاکہ سا لگا
آج تک آئینہ میں نے غور سے دیکھا نہ تھا
جو ورق کھولا وہ اپنا ہی سراپا سا لگا
میں لبِ دریا کھڑا ہوں تشنگی بُجھتی نہیں
آج تک پیاسا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
پڑتی ہے پیاسے بدن پر مست ساون کی پھوار
رُوح تک بھیگا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
میں کوئی مجبور و بے بس تو نہیں ہوں اے فرات
پیاس سے رُوٹھا کھڑا ہوں تشنگی بجھتی نہیں
عشق کی بات وفاؤں کی کہانی رکھ دے
ہو گئی آج ہر اک رسم پرانی رکھ دے
منتظر ہے مِری پیشانی کسی سورج کی
اپنے ہونٹوں سے جو تو ایک نشانی رکھ دے
گفتگو میری مرا دوست سمجھتا ہی نہیں
اس کے دل میں مِرے لفظوں کے معانی رکھ دے
گویا ہے تاب عشق میں بیمار کی طلب
آ جا تو اب سمجھ کے دل زار کی طلب
پھر چشم وا کرے ہے رخ یار کی طلب
کہ دید کو ہے پھر کسی دیدار کی طلب
اور لمس کو ہے پھر اسی رخسار کی طلب
ابرو کرے ہے پھر سے نگہ یار کی طلب
کتاب زیست میں ایسا کوئی بھی باب نہیں
تمہارے عشق کا جس پر لکھا حساب نہیں
شراب خانے میں دو بوند بھی شراب نہیں
ہمارے واسطے اس سے بڑا عذاب نہیں
ہوئی یہ زندگی تاریک رات کے مانند
تو ماہتاب نہیں میں بھی آفتاب نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدینے کو جانے کو جی چاہتا ہے
نصیب آزمانے کو جی چاہتا ہے
عجم چھوڑ کر پھر زمینِ عرب میں
وہ بستی بسانے کو جی چاہتا ہے
رہِ شوق و الفت میں ہر ہر قدم پر
مِرا سر جھکانے کو جی چاہتا ہے
جب کلی پھول ہو گئی یوں ہی
پھول سے دھول ہو گئی یوں ہی
ایک اہل نظر نے مجھ کو چنا
پھر میں مقبول ہو گئی یوں ہی
اس کے طرزِ عمل سے کیا شکوہ
میں ہی معمول ہو گئی یوں ہی
یوں تو ہونے کو کیا نہیں ہوتا
آدمی بس خدا نہیں ہوتا
درد دل ٹوٹنے کا جان من
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
پینے پڑتے ہیں سینکڑوں آنسو
درد خود تو دوا نہیں ہوتا
غموں کی دوپہر میں کام آیا
کسی کے ریشمی آنچل کا سایہ
یہ کس نے پھر ہمیں آواز دی ہے
ہمارے غم کدے میں کون آیا
مِری تاریک ہستی میں نہ جانے
چراغ آرزو کس نے جلایا
یوں گردشِ حالات ہے کچھ اور طرح کی
دنیا کی تو ہر بات ہے کچھ اور طرح کی
برسی ہے گلستان میں اب خون کی بارش
اس بار کی برسات ہے کچھ اور طرح کی
تھوڑا سا بھرم رکھنا مِرے عشق کا یا رب
یہ منزلِ آفات ہے کچھ اور طرح کی
وفا کا عزم کچھ اور استوار بنا
بنانے والے مِرے دل کو بے قرار بنا
چمن کی سیر میں لطف آ گیا خدا کی قسم
تصور آ کے تِرا زینتِ بہار بنا
جہاں میں تیرے مقابل کوئی حسیں نہ رہے
تُو اپنی زُلف کو کچھ اور تابدار بنا
آئیں گے وہ کبھی مگر زیست کا اعتبار کیا
لائے گا رنگ دیکھیے عالم انتظار کیا
اپنی خوشی نہ آئے ہیں اپنی خوشی نہ جائیں گے
ان کے حریمِ ناز میں ہم کو ہے اختیار کیا
قید قفس میں ہم نفس گزری ہو جس کی زندگی
اس کو خزاں کی کیا خبر جانے گا وہ بہار کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ تھا جب کچھ تو ذاتِ کبریا تھی
وہی تو عرش پر جلوہ نما تھی
مجسم نور سر تا پا حیا تھی
فدا اس ذات پر ذاتِ خدا تھی
حیات افروز جس کی ہر ادا تھی
وہی تخلیقِ عالم کی بِنا تھی
ہر دم ہے یہ احساس کہ ہر کام غلط ہے
ہر بات کا آغاز غلط، انجام غلط ہے
بیکار نہ چھیڑے کوئی اب قصۂ الفت
ناموسِ وفا کی ہوسِ خام غلط ہے
بے صرفہ جلاتے رہے ہر تارِ نفس ہم
مت پیار کا لو نام کہ یہ نام غلط ہے
دنیا میں جب مصائب دنیا نہ کم ہوئے
تنگ آ کے ہم ہی راہئ ملکِ عدم ہوئے
مجھ سے حرم میں ایک بھی سجدہ نہ ہو سکا
توبہ مزاحم ایسے بتانِ حرم ہوئے
ہاں ہاں کیا تھا میں نے ہی حق کا علم بلند
ہاں ہاں اسی لیے مِرے بازو قلم ہوئے
جسم کی قید میں ہوں کشمکش ذات میں ہوں
ایک سکے کی طرح کاسۂ خیرات میں ہوں
تم سے ملنے کے لیے تم سے جدا ہوتا ہوں
کیا کروں جانِ وفا! نرغۂ حالات میں ہوں
کل کا دن کیوں نہ رکھیں ترک تعلق کے لیے
آج کچھ میں بھی تمہاری طرح جذبات میں ہوں
خدا کی شان ہم پھر کوچۂ دلدار میں آئے
خوشا قسمت کہ پھر ہم آج بزم یار میں آئے
کرے کوئی زلیخا قدردانی دیکھیے کب تک
وہ یوسف ہیں کہ بکنے مصر کے بازار میں آئے
طبیعت ہو چکی ہے سیر اپنی سیر گلشن سے
جنوں کی خیر ہو پھر وادیٔ پر خار میں آئے
سازشوں کی بھیڑ تھی چہرہ چھپا کر چل دئیے
نفرتوں کی آگ سے دامن بچا کر چل دئیے
نا مکمل داستاں دل میں سمٹ کر رہ گئی
وہ زمانہ کی کئی باتیں سنا کر چل دئیے
ذکر میرا گفتگو میں جب کبھی بھی آ گیا
مسکرائے اور پھر نظریں جھکا کر چل دئیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تصدق دل و جاں حبیبِ خدا
فدا دین و ایماں حبیبِ خدا
تِرے عشق کا جس کو تمغہ ملے
گدا ہو سلیماں حبیبِ خدا
تُو ہی درد میرا رہے اور تُو
مِرے دل کا درماں حبیبِ خدا
بروز حشر مِرا احتساب کیا ہو گا
کہ اس زمیں کے سوا اور عذاب کیا ہو گا
مدام فکر میں بے عقل کا تسلسل کار
کتاب زیست کا آئندہ باب کیا ہو گا
جواں دلوں میں فقط نفرتیں ہی ملتی ہیں
زیادہ اس سے کوئی انقلاب کیا ہو گا
فکر
کھونٹے سے بندھی بکری
اپنے دائرے میں
چر چکنے کے بعد
چبا رہی ہے
گلے کی رسی
تو مر چکی ہے میں مر رہا ہوں
میں زندگی سے گزر رہا ہوں
جو آنے والی ہے ایک پل میں
اسی گھڑی سے میں ڈر رہا ہوں
تمہارے بچوں کی پرورش میں
ہر ایک تقصیر کر رہا ہوں
مایوس زندگی کے سہارے چلے گئے
ٹھکرا کے ہم کو دوست ہمارے چلے گئے
امید و آرزو کی بہاروں کے ساتھ ساتھ
گلزار زندگی کے نظارے چلے گئے
ہر منزل حیات پہ ان کو کیا تلاش
ہر راہ میں ہم ان کو پکارے چلے گئے
جب سے ان سے اپنا یارانہ ہوا
اپنا دل اپنوں سے بیگانہ ہوا
دل میں جب سے وہ ہوئے مسند نشیں
یک بیک آباد ویرانہ ہوا
یار کے در کی گدائی کیا ملی
اب مزاج اپنا یہ شاہانہ ہوا
دیوانے گریباں کے ہر تار سے الجھے
صحرا سے جو گزرے تو سرِ خار سے الجھے
مجبور سے الجھے، کبھی مختار سے الجھے
یعنی کبھی دل سے، کبھی دلدار سے الجھے
الجھاؤ ہی الجھاؤ ہے تقدیر میں شاید
دامن سے کبھی جبہ و دستار سے الجھے
آگہی کے شہر میں یہ حادثہ دیکھا گیا
پھینک کر سنگِ ملامت آئینہ توڑا گیا
ذہن پر احساسِ محرومی کا پردہ ڈال کر
کتنے لوگوں کو بھرے بازار میں لوٹا گیا
ٹوٹتے رشتوں کو پھر تجدید کرنے کے لیے
زندگی کے ساز کو نغمہ نیا بخشا گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سب انبیاء کے قلب کا ارماں ہیں مصطفیٰؐ
کونین کے وجود کا عنواں ہیں مصطفیٰؐ
ہر زاوئیے سے آیتِ قرآں ہیں مصطفیٰؐ
ایماں ہے میرا پرتوِ یزداں ہیں مصطفیٰؐؐ
بیمار مصطفیٰؐ ہوں زمانے سے چارہ گر
میرے غموں کے درد کا درماں ہیں مصطفیٰؐ
توڑ دیتی ہیں بیڑیاں اکثر
قید میں رہ کے بیٹیاں اکثر
چیر دیتی ہیں دل کے دامن کو
تنگ ذہنوں کی برچھیاں اکثر
خواب آنکھوں میں چھوڑ کر آدھے
جاگ جاتی ہیں لڑکیاں اکثر
جو کہا اس سے بھی سوا کہیے
پر جو کہنا ہے برملا کہیے
دل کو اپنے سنبھال لیجیے ذرا
ان سے اپنا جو مدعا کہیے
آپ اب دل کو صاف کر لیجیے
وہ کہ ہے دل میں جو بھرا کہیے
٭ گل کے نام٭
میرے نغموں کی شاہزادی ہو
نُزہتِ فکر کی تم عادی ہو
رُوپ وہ جس میں ہے حیا کا رنگ
عشرتِ آرزو،۔ وفا کا رنگ
پھُولوں کی تازگی بھی شامل ہے
نغمۂ زندگی بھی شامل ہے
کہیں شکوہ نہ ہو ساقی ترے میخانے کا
رہ نہ جائے کوئی منہ دیکھ کے پیمانے کا
مالکِ کُل ہے، وہ ہر شہر کے ویرانے کا
کہیں ملتا ہے دماغ آپ کے دیوانے کا
پاؤں پر شمع کے چپ چاپ فدا ہو جانا
ان کو مرغوب ہے انداز یہ پروانے کا
جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
ندامت سے سبکساری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
صداقت سے گراں باری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
مزاجوں میں وہ مکاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
دلوں کو سچ سے بیزاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
تخیل میں بظاہر انقلاب آیا تو ہے لیکن
ستم کی گرم بازاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
مقام آدمیت امتحاں کی منزل ہے
کسی کے واسطے آساں کسی کو مشکل ہے
نہیں فریب خلوص اور خلوص میں کوئی فرق
بہ یک نگاہ کریں امتیاز مشکل ہے
یہیں سے راستے امکان کے نکلتے ہیں
ہمارا قلب مصفا ایک ایسی منزل ہے