ٹوٹی کشتی کا سفر ہو تو کنارا کیسا
اس نے یہ کہ کے مِرا بوجھ اُتارا کیسا
جیت لے جو بھی تجھے، اُس کو خسارا کیسا
کوئی دل ہار کے ہارا تو وہ ہارا کیسا
یوں تو کہنے کو رہا سارا زمانہ اپنا
جب کوئی ہاتھ نہ تھامے تو سہارا کیسا
ٹوٹی کشتی کا سفر ہو تو کنارا کیسا
اس نے یہ کہ کے مِرا بوجھ اُتارا کیسا
جیت لے جو بھی تجھے، اُس کو خسارا کیسا
کوئی دل ہار کے ہارا تو وہ ہارا کیسا
یوں تو کہنے کو رہا سارا زمانہ اپنا
جب کوئی ہاتھ نہ تھامے تو سہارا کیسا
خُون روتے ہیں نین سرحد پر
روز لُٹتا ہے چین سرحد پر
ہم کو معلوم ہیں یہاں کے دُکھ
ہم جو رہتے ہیں عین سرحد پر
یہاں لاشے بچھائے جاتے ہیں
اور وہاں لین دین سرحد پر
دل سلسلۂ شوق کی تشہیر بھی چاہے
زنجیر بھی آوازۂ زنجیر بھی چاہے
آرام کی صورت نظر آئے تو کچھ انساں
نیرنگ شب و روز میں تغیّر بھی چاہے
سودائے طلب کو نہ توکل کے عوض دے
یہ شرط تو خُود خالقِ تقدیر بھی چاہے
زباں بندی ہو تو اِظہار ہوں میں
جہاں پر ظُلم ہو، اِنکار ہوں میں
ضرورت میں چھپا اخبار ہوں میں
بہت سُوں کے لیے بیکار ہوں میں
بِنا مطلب نہیں مِلتا کسی سے
بلا کا ان دنوں عیّار ہوں میں
نوجوانو اٹھو کشمیر بچانے نکلو
غاصبوں کے در و دیوار جلانے نکلو
جو ہے منحوس لکیر اس کو مٹانے نکلو
نوجوانو اٹھو کشمیر بچانے نکلو
نہ کوئی شہر ہے اپنا نہ ہی کوئی گھر ہے
اس غلامی سے تو مرنا ہی بہت بہتر ہے
دیس اپنا ہے اسے اپنا بنانے نکلو
اپنے ملک میں
اصلاح ملک کا نعرہ لگاتا رہا کوئی
مذہب کی ڈفلی لے کے بجاتا رہا کوئی
بن کر مداری سانپ نچاتا رہا کوئی
اور مال لُوٹ لٗوٹ کے کھاتا رہا کوئی
اپنے وطن میں سب کا یہی حال ہو گیا
ایمان داریوں کا یہاں کال ہو گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
“انؐ کے ہو کر قریبِ خُدا ہو گئے”
ہم غلامِ نبیؐ کیا سے کیا ہو گئے
آپؐ کے دم سے ہستی مہکنے لگی
ہم خزاں پوش بادِ صبا ہو گئے
آپؐ کے ذکر سے دل کو راحت ملی
سارے الفاظ حمد و ثناء ہو گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سلام اُسؐ پر کہ جو محبوبِ رب العالمیں ہو کر
دِکھانے منزلِ حق آیا جو حق الیقیں ہو کر
تصور صاحبِ لولاکؐ کا دل میں مکیں ہو کر
دِکھاتا ہے جو منزل رہبرِ راہِ یقیں ہو کر
سلام اُسؐ پر کہ جس کی انگلیوں سے چشمے بہ نکلے
کِیا سیراب سب کو رحمت اللعالمیںﷺ ہو کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دلِ عصیاں کو میسّر نہیں ہے راحتِ دل
تیریؐ جب نعت میں لکھتا ہوں سکوں پاتا ہوں
خوف ہی رہتا ہے عاصی کو قیامت کا سدا
جب شفاعت کو میں تکتا ہوں سکوں پاتا ہوں
رب کا ہے کرم کہ اُمت میں مِرا نام بھی ہے
ماتھا میں فرش پہ رکھتا ہوں سکوں پاتا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گلا کٹے، مِرے لب سے کلامِ حق نِکلے
کسی طرح مِرے دُشمن کے دل سے شک نکلے
صفِ یزید سے حُرؑ اس طرح نکل آئے
کہ جیسے پردۂ شب سے رُخِ شفق نکلے
اب انتظار کی ہمت نہیں ہے میرے امامؑ
سیاہ ابر کی چادر ہٹے، دھنک نکلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قید سے چُھوٹ کے جب سیدِ سجادؑ آئے
اور سب اہلِ حرم با دلِ ناشاد آئے
باپ اور بھائی جو بیمار کو واں یاد آئے
قبر پر شہؑ کی یہ کرتے ہوئے فریاد آئے
اے پدر! طُول کھنچا اب میری بیماری کو
اُٹھ کے چھاتی سے لگا لیجیے آزاری کو
میری سہیلی مِری آرزو
ماضی کے دریچوں میں منظر ہے جُداگانہ
ہاتھوں میں قلم، لب پہ فردا کا ہے افسانہ
اس دشت نوردی کا حاصل تھے یہی لمحے
یوں ادب سرائے میں اک دوست کا آ جانا
تجدید تعلّق بھی دو دن کا فسانہ ہے
مُدت میں کہیں مِلنا، مِلتے ہی بِچھڑ جانا
احساس گُناہوں کا میرے پیچھے پڑا ہے
دن رات جو دِیمک کی طرح چاٹ رہا ہے
انسان کبھی جُرم پہ آمادہ نہ ہو گا
گر اتنا سمجھ لے کہ کوئی دیکھ رہا ہے
کچھ لوگ اسی بات پہ ناراض ہیں مجھ سے
شہرت کی بلندی پہ میرا نام لکھا ہے
تصورِ یار فکر کی بیہودگی پہ تُھو
شبِ غم رہِ غم تِری باقاعدگی پہ تُھو
ہر روز آئے دن مایوسیوں پہ خاک
میری تمام عُمر، سبھی زندگی پہ تُھو
دشتِ جنون فرش کی وسعتوں پہ تُف
پھیلی ہوئی نجاست و آلودگی پہ تُھو
وقت پڑنے پہ کوئی ہات دِکھا دیتا ہے
مطلبی آدمی اوقات دکھا دیتا ہے
میں تِرے حسن کے دیباچے میں کھویا ہوا ہوں
تُو مجھے آخری صفحات دکھا دیتا ہے
نیند اُڑ جاتی ہے انسان کی پہلے ہفتے
ہِجر اپنے سبھی اثرات دکھا دیتا ہے
غیر میں اپنوں میں کچھ پہچان کر
ہر کسی کو گھر میں نہ مہمان کر
کون کس کے کام آتا ہے یہاں
اپنی مُشکل خود میاں آسان کر
یاد کرنا موت کو تو ٹھیک ہے
جیتے جی مرنے کا نہ ارمان کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ملا فیض آقاﷺ کے دربار سے
بچایا ہے دُشمن کے ہر وار سے
درودوں سلاموں سے اذکار سے
”سکوں مل گیا نعتِ سرکار سے“
جو اُمت کی خاطر تھے روتے رہے
ہمیں عشق ہے ایسے دلدارؐ سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیسی حسیں ادا ہے شہِ کائناتﷺ کی
معراج میں بھی آپؐ نے اُمت کی بات کی
قرآنِ پاک اور حدیثِ رسولﷺ نے
ہر پل دکھائی راہ ہمیں ممکنات کی
رب کی ثنا میں گزرے ہیں دن رات آپِ کے
رب کی رضا سے جمع انہوں نے حیات کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گر دل میں ترے عشق محمد ہی نہیں ہے
اللہ کی قسم تُو بھی مُسلمان نہیں ہے
سب نبیوں کو مانا ہے تو سچ مانا ہے تُو نے
مرزے کو بھی مانے تو مسلمان نہیں ہے
طاغوت تو توہینِ رسالتﷺ کا ہے خوگر
جُوں جس پہ نہ رینگے وہ مسلمان نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شعورِ کُن فیکوں کی جلی کتاب علیؑ
نبیؐ مدینۂ دانش، تو اس کا باب علیؑ
مہک سے جس کی یہ سارا جہاں مہکتا ہے
وہ گُلستانِ محمدﷺ کا اک گُلاب علیؑ
جو نُورِ فہم کی برسات لے کے آتا ہے
خُدائے پاک کی رحمت کا وہ سحاب علیؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ بزمِ تصور میں آ کر، آنکھوں میں سمائے جاتے ہیں
آغاز کی منزل ختم ہوئی،۔ انجام بنائے جاتے ہیں
معراج کی شب کعبے سے نبیؐ تا عرش بلائے جاتے ہیں
جلوے جو بشر سے پنہاں تھے، آنکھوں کو دکھائے جاتے ہیں
ذرّاتِ جہانِ قلب و جگر،۔ آئینہ بنائے جاتے ہیں
خورشیدِ رسالتؐ کے جلوے، آنکھوں کو دکھائے جاتے ہیں
ارے واہ خدا تیری شان وہ چائے لائی
میں خود بھی ہوا حیران وہ چائے لائی
ہجر و وصل پہ تھا آج کا مضمون میرا
میں بتا ہی نہ سکا عنوان وہ چائے لائی
میں سوچ رہا تھا عشق کا پرچار کروں
حسرتوں کا ہُوا نقصان وہ چائے لائی
پل میں یاری کر لیتے ہو
باتیں اچھی کر لیتے ہو
کہے بنا میں رہ نہیں پاؤں
قابو دل بھی کر لیتے ہو
جس کے ساتھ بھی جاؤ اسی کو
پرچھائیں سی کر لیتے ہو
یہی بہت ہے کہ اُس کے خیال میں ہوں میں
خیال میں ہوں نگارِ جمال میں ہوں میں
کسی کے ڈھنگ میں ڈھل کر سڑک پہ چلتا ہوں
کسی کے رنگ میں شکلِ وصال میں ہوں میں
پرِ جمال کی طاقت ہے میری ہمراہی
بلندیوں کی طرف ہوں، کمال میں ہوں میں
کیا جانے کتنے ہی رنگوں میں ڈُوبی ہے
رنگ بدلتی دُنیا میں جو یک رنگی ہے
منظر منظر ڈھلتا جاتا ہے پِیلا پن
چہرہ چہرہ سبز اُداسی پھیل رہی ہے
پیلی سانسیں بُھوری آنکھیں سُرخ نگاہیں
عنابی احساس طبیعت تاریخی ہے
اب مِری نگاہوں میں اوج ہے نہ پستی ہے
ایک سیل مدہوشی،۔ اک ہجوم مستی ہے
اے نگاہِ نامحرم عشق کی وہ بستی ہے
جس قدر اُجڑتی ہے اس قدر ہی بستی ہے
عاشقی و محبوبی آئینے کے دو رُخ ہیں
حُسن ایک بادہ ہے، عشق ایک مستی ہے
سوال و جواب
سوال
میں نے پوچھا زندگی سے تُو کیوں اس قدر کٹھن ہے
کہ جس میں ہیں ہر سُو کانٹے کیوں ایسا اک چمن ہے
کہ جو آگ سب جلا دے، وہی تیرا پیرہن ہے
مگر پھر بھی سب کو پیاری تجھے چاہے دُنیا ساری
جس سے بچ سکا نہ کوئی تیری ضرب ایسی کاری
جو زندگی کی کشاکش سے تنگ آئے ہیں
وہ آدمی تو نہیں، آدمی کے سائے ہیں
زمانہ لاکھ مٹائے،۔ مٹا نہیں سکتا
ہم ایسے نقش بھی راہوں میں چھوڑ آئے ہیں
یہ سادہ لوحی ہماری کہ آزما کر بھی
وفا کے نام پہ اکثر فریب کھائے ہیں
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
کاش میں سورج اور وہ زمیں ہوتی
اس کے گرد چکراتا رہتا میں ہر سمے
اور وہ ہر پل میرے حصار میں رہتی
خرم شہزاد
پُھول خُوشبو دھنک صبا سی ہے
ان لبوں کی ہنسی دوا سی ہے
کیا کرو گے تم آ کے میرے گھر
کچھ نہیں ہے یہاں، اُداسی ہے
کھو گیا ہے کوئی عزیز از جاں
زندگی کچھ خفا خفا سی ہے
رگِ جاں میں اُتر کر بولتا ہے
حقیقت میں سخن ور بولتا ہے
کسی سے کب وہ ڈر کر بولتا ہے
زبان حق قلندر بولتا ہے
عطا ہوتی ہے جس کو چشم بینا
تو قطرے میں سمندر بولتا ہے
گھر مِرے دل میں کر گئے شاید
درد بن کر اُتر گئے شاید
فصلیں لالچ کی کاٹنے والے
بانجھ دھرتی کو کر گئے شاید
وہ غریبوں کا خُون پی پی کر
موت سے پہلے مر گئے شاید
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت نعتیہ تروینی
جس جگہ شام و سحر روشنی بانٹی جائے
جس جگہ تیرگئ غم نہ ٹھہرنے پائے
ایسا مینارۂ انوار نبیﷺ کا در ہے
غزالہ انجم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عالم ہے کہ منتِ کشِ احسانِ نبیﷺ ہے
کونین پہ چھایا ہوا دامانِ نبیﷺ ہے
اللہُ غنی دیکھیے کیا شانِ نبیﷺ ہے
خلّاقِ دو عالم بھی ثناء خوانِ نبیﷺ ہے
اُمڈا ہوا سر چشمۂ فیضانِ نبیﷺ ہے
کیا منبعِ رحمت درِ ایوانِ نبیﷺ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میری آنکھوں میں سبز منظر ہے
سو مجھے روشنی میسّر ہے
خوب صورت ترین شہروں میں
شہرِ طیبہ کا پہلا نمبر ہے
اس جہاں کے تمام ناموں میں
اسمِ احمدﷺ سکون آور ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بلا اٹھا کے حرم کربلا میں آتے ہیں
مریض شام کے دارالشفا میں آتے ہیں
عجب شکوہ سے دشت بلا میں آتے ہیں
غم حسینؑ میں یاد خُدا میں آتے ہیں
جگر کے ٹکڑے بھرے دامنوں میں آئے ہیں
یہ قبر شہؑ پہ چڑھانے کو پھول لائے ہیں
جمالش زینت دل بود شب جائے کہ من بودم
اس کی خوبصورتی دل کی زینت تھی رات جہاں میں تھا
بہ چشمم دہر باطل بود شب جائے کہ من بودم
میری آنکھوں میں وہ رات تھی جہاں میں تھا
ز فیض جنبش ابروے آں شوخ کماں سازی
اس شوخ ابرو کی حرکت اور مزاح کے فضل سے
در بیانِ عافیت
از بلا تا رستہ گردی اے عزیز
اے عزیز مصیبت سے چھٹکارہ کی راہ
باز باید داشتن دست از دو چیز
دو چیزوں سے بے تعلق رہنا ہے
رو تو دست از نفس و دنیا بازدار
زندگی نفس اور دنیا سے الگ ہو کر گزار
زمیں کی پیاس بُجھاتے ہوئے لہُو کی قسم
ہم ایک ہوں گے شہیدانِ سرخرو کی قسم
چمن میں ایک نہ اک دن بہار آئے گی
ہے اس کو سینچے ہوئے خُون کی نمو کی قسم
جلے خیام کے صدقے تو روشنی کر دے
خُدایا! جلتے مکانوں کی آرزو کی قسم
چھت کی بوسیدگی دیکھے کہ وہ بادل دیکھے
اپنی تقدیر کا مُفلس تو فقط بل دیکھے
وہ بھی بچے ہیں للک ان میں یقینا ہو گی
ہائے قسمت نہ کبھی اطلس و مخمل دیکھے
فن دیا اپنا، انگوٹھا بھی دیا شاہوں کو
ہم نے اس دنیا میں کچھ ایسے بھی پاگل دیکھے
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
مٹا دے میری ہستی کو اگر ارمان باقی ہے
یہی فطرت ہے بس دل کی تجھے کیسے بتاؤں میں
بُھلا دوں ساری دنیاں کو تجھے کیسے بُھلاؤں میں
ابھی الزام لگنا ہے، ابھی زِندان باقی ہے
ابھی زندہ ہوں میں جاناں ابھی تو جان باقی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نیزے کی بُلندی سے جو سر بول رہا ہے
یہ نسبتِ حیدرؑ کا اثر بول رہا ہے
یہ دین کہ جس دین پہ نازاں ہے زمانہ
شبیرؑ کے سجدے کا ثمر بول رہا ہے
میں ابنِ علیؑ عکسِ نبیؐ فخرِ زمیں ہوں
میدان میں اکبرؑ سا نڈر بول رہا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دامِ فریبِ عشق تِرا شِرک ہے نہاں
ذکرِ خُدا سے تر نہیں تیری اگر زباں
ہر دم خیالِ یارِ بُتاں اور دل میں کیا
محبوب تیرا جو بھی ہو وہ وہم یا گُماں
قائم ہے ایک ذات وہی ربِ ذُوالجلال
مسجد ہے سامنے تِرا محبوب ہے کہاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کچھ نہیں دنیا میں اپنا، بس سوائے مصطفٰیؐ
زادِ راہ ہے بس یہی میرا، ولائے مصطفٰیؐ
ہو عطا مجھ کو یہ نعمت بہ وسیلہ سیدہؑ
لب پہ میرے ہر گھڑی ہو بس ثنائے مصطفٰیؐ
کیوں لبھائے گا مجھے دنیاوی منصب دوستو
ناز ہے میرا کہ میں ہوں خاک پائے مصطفٰیؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خُوشبو جو مِل گئی ہے یہ زُلفِ دراز سے
وہ لطف ہم نے پایا ہے عشقِ مجاز سے
کھانا بھی کھا رہا ہوں یہ ان کے کرم سے میں
سب کچھ یہ مِل رہا ہے مجھے بے نیاز سے
عشقِ نبیﷺ نے کر دیا ہم دوشِ آسماں
فرشِ زمیں بھی حیراں ہے میرے فراز سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمنا، آرزو حسرت مِرے سینے میں رہتی ہے
کروں جب آپؐ کی باتیں نمی آنکھوں میں رہتی ہے
مواجہ کی حدوں میں ہوں کہ ہوں طیبہ کی گلیوں میں
سلام اپنے لبوں پر، بندگی آنکھوں میں رہتی ہے
نبیﷺ کے در سے واپس آ کے ایسا حال ہے اپنا
کوئی بستی ہو طیبہ کی گلی آنکھوں میں رہتی ہے
خُود سے بچنے کا بہانہ نہ رہا
سبز پتّوں کا زمانہ نہ رہا
میں اذیّت کا پتہ لے کے چلی
اور پِھر اپنا ٹِھکانہ نہ رہا
ہائے ہِجرت کی نئی مجبوری
یاد ساتھی وہ پرانا نہ رہا
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
اکثر خوابوں میں
قصے پڑھتا رہتا ہوں
بند کتابوں میں
سائل آزاد
حال وہ عشق نے کیا میرا
اب نہیں خُود سے رابطہ میرا
موت کا مجھ کو کوئی خوف نہیں
کون روکے گا راستہ میرا؟
میرے دُشمن کو تُو نہ شہ دیتا
تجھ سے ہے بس یہی گِلہ میرا
سُنی سنائی سی تھیں بے وفائیاں کیا کیا
بنائیں لوگوں نے لیکن کہانیاں کیا کیا
اسے تو کارِ جہاں سے نہیں مِلی فُرصت
ہوئی ہیں دل کو مگر بدگُمانیاں کیا کیا
اُداسی، درد و غم و رنج، ہجر تنہائی
ملی ہیں پیار کی ہم کو نشانیاں کیا کیا
جھوٹ کی اب تجارت یہاں عام ہے
ہم پہ سچ بولنے کا ہی الزام ہے
شاعری بس تخیل کا ہی کام ہے
کون کہتا ہے یہ ایک الہام ہے
بِن پیے اک نشہ سا ہُوا ہے مجھے
یہ تِری آنکھیں ہیں یا کوئی جام ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وصیت: (مولا علیؑ بنام امام حسن مجتبیؑ)
علیؑ ابنِ عمراں کی ہے یہ وصیت
بہ نامِ حسنؑ مجتبیٰ نیک سیرت
مِرے سامنے اس جہاں کی حقیقت
فسانے سے بڑھ کے نہیں کوئی صُورت
ہے گُم اپنی ہستی میں اس کی بصیرت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کب تلک مُنتظر ہم رہیں یا نبیﷺ اپنا جلوۂ اطہر دکھا دیجیے
ہم فقیروں کی یا احمد مجتبیٰﷺ پیاس قلب و نظر کی بُجھا دیجیے
آپؐ زینت ازل کی ہیں خیرالوراﷺ آپؐ رونق ابد کی ہیں صلے علیٰ
آپ خیر البشرﷺ وجہ کون و مکاں، پار بیڑا ہمارا لگا دیجیے
عرش والے بھی تیرے ثنا خواں ہیں اور ملائک تیرے در کے دربان ہیں
تیرے دربار عالی کی کیا شان ہے اپنے قدموں میں ہم کو بُلا لیجیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اسلام کی خاطر وہ رہے سینہ سپر، دیکھ
اصحاب میں موجود انھیں مثلِ قمر دیکھ
تجھ کو بھی یقیں آئے کرم بارئ رب پر
جا ان کا نگر دیکھ، کرم دیکھ ، سحر دیکھ
سرسبز رُتیں ان پہ اترتی ہیں ہمیشہ
مصروفِ ثنا ہیں جو مدینے میں شجر دیکھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قسم خُدا کی بہ لُطف و کمال برسا ہے
جہاں بھی نُورِ شہِؐ خُوش خصال برسا ہے
گُلوں میں رنگ و مہک یوں ہی تو نہیں آئے
چمن میں آپﷺ کا حُسن و جمال برسا ہے
درود پڑھتے ہوئے اُنؐ کا ذکر کرتے ہوئے
ہر ایک دل پہ کرم بے مثال برسا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
در نعت سیدالمرسلینﷺ (سیدالمرسلینﷺ کی تعریف میں)
بعد از گوئیم نعت مصطفٰے
حمد ربی کے بعد ہم رسولﷺ کی تعریف کرتے ہیں
آں کہ عالم یافت از نورش صفا
جن کے وجود پُر نُور سے عالم پاک و صاف ہوا
سیدِ کونین، ختم المُرسلیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
راوئ معتبر اس طرح سے کرتا ہے رقم
کربلا میں ہوئے وارد جو امامِ عالمؑ
چھ مہینے سے بھی عمر تھی اصغرؑ کی کم
گھر گیا نرغۂ روباہ میں وہ حق کا ضیغم
شبِ عاشور یہ حال اصغرؑ کم سن کا تھا
پیاسا آغوش میں مادر کی وہ دو دن کا تھا
جنگل میں آواز
میں کہتی تھی ان سے مجھے مار ڈالو
مگر میری آنکھیں نہ تم قید کرنا
میں کہتی تھی، میں نے ہے اک خواب دیکھا
جہاں نیک روحیں
سیہ میتوں پر بہت رو رہی تھیں
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
آثار بتاتے ہیں
دل مِرا کہتا ہے
سرکارﷺ بلاتے ہیں
مرتضیٰ اشعر
ٹپہ ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
موسم کی روانی میں
تم یاد بہت آئے
ہر رُوگردانی میں
شوزب حکیم
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
کہیں اُس پار اُترے ہیں
پرندے شام کی چھت پر
ستارہ وار اترے ہیں
نصیر احمد ناصر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
دُنیا
قطرۂ آب آب میں خرم
ذرۂ خاک خاک میں رقصاں
آدمی اپنے شہر میں تنہا
اسلم کولسری
عشق
وقت ایسا سمندر ہوا
جس کے دن رات میں
عشق ہے بِھیگتی شب میں ساعتیں ہیں
خامشی کا سماں
نیلگُوں آسماں
اور تِرا ساتھ ہے تو ہر اک پَل مجھے گُنگناتا مِلا
ایک کانٹا سا دل میں چُبھتا ہے
پُھول ہیں بے شمار راہوں میں
تُو نے یکلخت پھیر لی نظریں
آ گیا کون تیری بانہوں میں
جانے والا تو جا چکا عابد
مانگتے کیا ہو اب دعاؤں میں
چاہتا ہوں کہ مِرا دردِ جگر اور بڑھے
تیرگیٔ شب غم تا بہ سحر اور بڑھے
دُور ہے مجھ سے ابھی دامنِ صد رنگ ان کا
کارواں اشکوں کا اے دیدۂ تر اور بڑھے
یوں تو تنہا ہی چلا جاؤں گا میں منزل تک
تم اگر ساتھ چلو، عزمِ سفر اور بڑھے
صحرا کی کڑی دھوپ ہے تمثیلِ محبت
کیا اور کروں دوستو! تفصیلِ محبت
رہتی ہے بدن میں جو مِرے خوں کی طرح سے
میں کیسے کروں ختم یہ تحلیلِ محبت
ہر شخص سے نفرت کی مجھے بھیج ملی ہے
بیٹھا میں جہاں کھول کے زنبیل محبت
تنکا تنکا میں خوابوں کی محراب سے جمع کرتا رہا
بادِ انکار کا وہ تسلسل تھا سب کچھ بکھرتا رہا
اک سیہ پوش لمحے نے رنگوں بھری شام سے کیا کہا
رات بھر ماہِ روشن کا چہرہ اُترتا، نِکھرتا رہا
ہم وہ میوہ کہ جن سے کبھی ذائقوں نے بغاوت نہ کی
ہاں درختوں کی شاخوں سے، پتوں سے، موسم گُزرتا رہا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے شاہ خوباں ترا کرم ہے کہ مجھ پہ تیری حسِیں نظر ہے
میں تِیرگی سے نِکل چکی ہوں، مِرے لیے تو یہی سحر ہے
میں کب کی بیٹھی ہوں راستے میں دل و نظر کو بِچھا رکھا ہے
بس اِک اِشارے کی مُنتظر ہوں، کہ شوق میرا بھی مُنتظر ہے
شہؐ زمانہ سے خاص نِسبت ہے مجھ کو دنیا کا ڈر نہیں ہے
غلام ہوں میں، غلام ہوں میں، یہی حوالہ تو معتبر ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایمان آپﷺ حاصلِ ایمان آپﷺ ہیں
نازاں ہوں میں کہ اب مِری پہچان آپؐ ہیں
سب پر بقدرِ حوصلہ ہوتے ہیں مُنکشف
قُرآن آپؐ، معنئ قُرآن آپﷺ ہیں
وجہِ سکوں ہے اسمِ گرامی کا ایک وِرد
دُشواریوں میں کس قدر آسان آپؐ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ گھر وہ کوچہ وہ قریہ مکانِ رحمت ہے
رہا جو آپﷺ کا مسکن جہانِ رحمت ہے
پڑھا جو آپﷺ سے کلمہ نشانِ رحمت ہے
’’آپﷺ کا اسوہ جہانِ رحمت ہے‘‘
حضور! آپؐ کے دل پر خدا کا ہے احساں
حضور! آپؐ کے لب پر بیانِ رحمت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت کہتا ہوں پریشانی نہیں ہوتی ہے
اب مجھے بے سروسامانی نہیں ہوتی ہے
قیس کے دشت سے ہے شان جدا طیبہ کی
اس جگہ چاک گریبانی نہیں ہوتی ہے
کارِ دُشوار ہے، پر صل علٰی کہنے سے
کسی مصرعے میں پریشانی نہیں ہوتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجرئی جس کا جنازہ غیر نے دیکھا نہ تھا
اُس کی بہووں بیٹیوں کے واسطے پردا نہ تھا
پیاس بھی اور بُھوک بھی پیاروں کا غم افراطِ زخم
حضرتِ شبیرؑ پر رن میں قلق کیا کیا نہ تھا
تین دن سے بند تھا پانی شہؑ مظلوم پر
واہ رے صابر کہ مُطلق پیاس کا شکوا نہ تھا
رُوپ بہرُوپ
جسم کیا رُوح پر بھی خراشیں پڑیں
بُھولتی ہی نہیں کاٹ اُس طنز کی
کس قدر مُختصر دائرہ فکر کا
ابتداء آپ سے، انتہا بھی وہیں
ذات کی داستاں ختم ہوتی نہیں
دل سے نکلے کدُورت کبھی
تو محبت بھی عُنوان ہو
نیا سویرا
چلو سویرا ہُوا
اِذنِ پر کُشائی مِلا
مگر سوال تو یہ ہے مِرے تعاقب میں
دہانے کھولے ہوئے اب بھی بے شمار عفریت
مِرے بدن کا لہو چاٹنے کی فکر میں ہیں
قیس رامپوری
آج تیری خبر جو آئے گی
دامنِ دل مِرا جلائے گی
پاس آئے گی اور منائے گی
چائے ہاتھوں سے وہ پِلائے گی
دُشمنوں کا ہے یہ کرم مجھ پر
دوستی اب مجھے ستائے گی
وحشتِ دل نہ جب مِٹائی گئی
عصر پڑھ کے صدا لگائی گئی
ذِکر چھیڑا اُداس لوگوں کا
اور میری غزل سُنائی گئی
راستے میں بہت اندھیرا تھا
بات سے روشنی بنائی گئی
یہ دل مِرا، مِرے پہلو سے عنقریب چلا
شکست کھا کے غموں سے مِرا رقیب چلا
جب ان کی بزم سے اُٹھ کر کوئی غریب چلا
فضائیں چیخ اُٹھیں؛، حُسن کا نقیب چلا
وہ پھر سمیٹ کے بانہوں میں کائنات کا رنگ
گلے صُراحی سے مِل کر مِرا حبیب چلا
نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بِکھرا
یہ کیسا درد ہے میرے وجود میں بکھرا
لہو لہو تھا وہ مقتل کی حد پھلانگ گیا
مگر میں مر کے بھی تیری حدود میں بکھرا
گنوا دیا تھا بہت کچھ انا بچاتے ہوئے
جو بچ گیا تھا وہ نام و نمود میں بکھرا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حسین رُتوں سے مزین جمال آپؐ سے ہے
خُدا نے جو بھی دیا ہے کمال آپؐ سے ہے
یہ بُلبلوں کے ترانے،۔ یہ قمریوں کی ثناء
سدا درودﷺ کی شیریں مقال آپؐ سے ہے
ذرا بھی خوف نہیں ہے اندھیر نگری میں
ہمارے سر پہ شفاعت کی شال آپؐ سے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تیری الفت میں مبتلا رکھا
میں نے یوں دل کو پارسا رکھا
ہم گناہوں کے مارے ہیں آقاﷺ
آپﷺ نے بس ہمیں بچا رکھا
دہر میں آپﷺ سے روانی ہے
اس جہاں میں حضورِ کیا رکھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آدمی کو پہلے با کردار ہونا چاہیے
تب محمدؐ مصطفیٰ سے پیار ہونا چاہیے
یہ کرم مجھ پر مِرے سرکارؐ ہونا چاہیے
آپﷺ کے دربار کا دیدار ہونا چاہیے
جو یہ کہتا ہے نبیؐ کا چاہنے والا ہوں میں
مومنوں کا اس کو خدمتگار ہونا چاہیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رہتے نہیں اوروں کے کبھی رحم و کرم پر
جو لوگ بھی چلتے ہیں تیرےﷺ نقش قدم پر
سوچا ہی تھا اوصاف رقم کرتا ہوں تیرےﷺ
اُترے ہیں ستارے میرے خُوش بخت قلم پر
ہر خطے نے پائی ہے نمو تیرے کرم سے
برسی ہے گھٹا ایسی عرب اور عجم پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدینہ شہر کے مالک مجھے خاکِ مدینہ دے
لگا لوں خاک پلکوں سے مجھے ایسا قرینہ دے
بچھا کر اپنے ہاتھوں پر میں پلکوں سے اسے چُوموں
حِرا کے غار میں موجود پوشیدہ دفینہ دے
جہاں خُوشرو کے قدموں کا ابھی تک لمس ہے باقی
وہاں کے سنگ جوہر ہیں مجھے ان سے نگینہ دے
چلو یادیں سمیٹو جان جاناں
وہ سب منظر
وہ سب راہیں
جہاں ہم ساتھ چلتے تھے
خُوشی سے دل مچلتے تھے
محبت سے بہلتے تھے
وہ سب منظر
عشق میں کار گزاری سے اُلجھ بیٹھا تھا
میں کبھی زُلف تمہاری سے الجھ بیٹھا تھا
خُون آلود مناظر سے پتہ چلتا ہے
آج پھر کھیل مداری سے الجھ بیٹھا تھا
اس کی گُفتار سے تحقیر کی بُو آتی تھی
اس لیے راج کماری سے الجھ بیٹھا تھا
اپنی تو یونہی ہجر میں جلتے ہُوئے گُزری
جیسے کسی درویش کی چلتے ہوئے گزری
اک بار جو خُورشید نے کی دن سے بغاوت
پھر تا بہ ابد اس کی بھی ڈھلتے ہوئے گزری
ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ ایسا ہی لکھا تھا
ہاتھوں کو تمام عمر ہی مَلتے ہوئے گزری
جو کچھ بھی کیا ہے قسمت نے، کاش اس کے مخالف ہو جاتا
ہم بے شک اُس کے نہ ہوتے، وہ شخص ہمارا ہو جاتا
جو قسمت مہربان ہوتی، جو ساتھ تمہارا لِکھ دیتی
روشن و تابندہ ہمارے بھی بخت کا ستارہ ہو جاتا
اس جیون کی وُقعت کیا ہے، پل بھر میں ہار دیتے تم پر
گر پیار سے اک بار ذرا جو تیرا اشارہ ہو جاتا
یک طرفہ محبت
کسی نے مجھ سے پُوچھا تھا
یہ یک طرفہ محبت کیسا رشتہ ہے؟
کہا میں نے؛
یہ یک طرفہ محبت درد کا ہی نام دُوجا ہے
ہمیشہ سنگدل دلبر کی چاہت کو ترسنا ہے
تمنّا دِید کی رکھنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کلیاں کِھلی ہوئی ہیں، غنچے کِھلا دئیے ہیں
گُلزار مُصطفٰیؐ نے، گُلشن سجا دئیے ہیں
توحید کے عَلم سے کعبہ سجا دیا ہے
ظُلمت کے بُتکدے میں پتھر گرا دئیے ہیں
قُربان ہو رہے ہیں جو حُرمتِ نبیﷺ پر
ان کو خُدا نے کتنے اہلِ وفا دئیے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
طیبہ کا شہر، شہرِ نِگاراں ہے آپﷺ سے
"لُطف و کرم کی بزم درخشاں ہے آپ سے"
دورِ خزاں کا آپﷺ ہی سرکار ہیں علاج
صحرائے زیست میں یہ بہاراں ہے آپ سے
نام نبیﷺ کو میں نے بنایا ہے آسرا
مُشکل ہر ایک راہ کی آساں ہے آپ سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت کا آپﷺ جسے اذن شہاؐ دیتے ہیں
تیرگی اس کے مقدر سے مٹا دیتے ہیں
راہِ طیبہ پہ جنوں رُکنے کہاں دیتا ہے
آبلے، شوقِ سفر اور بڑھا دیتے ہیں
کٹ تو سکتا ہے رہِ حق سے نہیں ہٹ سکتا
اپنے رستے پہ جسے آپﷺ لگا دیتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدینے کے سپنے سجانے لگے ہیں
زمانے کے غم ہم بُھلانے لگے ہیں
محمدﷺ کی رہتی ہے بس یاد دل میں
نبیؐ میرے دل میں سمانے لگے ہیں
شہنشاہ مہر و وفا ہیں وہیﷺ بس
جہانِ الم بُھول جانے لگے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عاصیوں کو در تمہارا مِل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
کشفِ رازِ مَن رانی یوں ہُوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے کاش گُزاروں میں اک شام مدینے میں
دل کو میرے آ جائے آرام مدینے میں
محبوب خدا آئے صورت میں محمدؐ کی
یا عرش سے اُترا ہے اسلام مدینے میں
جاروب کشی ہو یا زوار کی خدمت ہو
آقاؐ مجھے مل جائے کچھ کام مدینے میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل پہ مجرائی کے اس غم سے نہ کیوں چھائے گھٹا
شاہؑ پیاسے رہیں اک بُوند نہ برسائے گھٹا
جن کے ناناﷺ کے سدا سر پہ رہے سایہ فگن
اُس کا تن دُھوپ میں ہو اورنہ گِھر آئے گھٹا
سارے اطفال نباتات کو سیراب کرے
علی اصغرؑ کو پر اک بُوند نہ پہنچائے گھٹا
آرام و سکوں ہوئے روانہ
دل درد کا ہو گیا ٹھکانہ
افراط الم اسی سے پوچھو
جس کا کہ جلا ہو آشیانہ
کیا بدلی نگاہِ مہر آگیں
گویا کہ بدل گیا زمانہ
کسی لیلٰی نہ کسی ہیر کے ساتھ
رات کاٹی تِری تصویر کے ساتھ
تم کو جب اتنی شکایت ہے تو پھر
باندھ رکھو مجھے زنجیر کے ساتھ
بات یہ ہے کہ کسی ان پڑھ کا
دل بندھا ہے تِری تحریر کے ساتھ
پل تِری یاد کے بہانے کے
ہم نہ بھولے، نہ تھے بھلانے کے
توڑ ڈالوں نہ کیوں سبھی بندھن
ضبط کے، صبر کے، زمانے کے
اب جو بولوں تو کھول کر کہہ دوں
بھید سارے جو تھے چُھپانے کے
زُلف کو پیچ و تاب میں دیکھا
اپنا دل اضطراب میں دیکھا
رنگ و بُو زُلف کا تِرا جاناں
نافۂ مُشکِ ناب میں دیکھا
تیرے چُوں لول لب کی شیرینی
شکر و شہد ناب میں دیکھا
اسیر عشق ہوں برجستہ بات کرتا ہوں
اسے گُماں ہے کہ دانستہ بات کرتا ہوں
مُنافقت سے زباں تلخ ہونے لگتی ہے
وگرنہ میں بڑی شائستہ بات کرتا ہوں
کسی کے زعم و انا درگزر میں نہ رہیں
تو پھر گُزشتہ سے پیوستہ بات کرتا ہوں
جس کا بھی محبت پر ایمان نہیں ہوتا
آدم تو وہ ہوتا ہے،۔ انسان نہیں ہوتا
خیرات دِیا کیجے، یہ رب سے تجارت ہے
اور رب سے تجارت میں نُقصان نہیں ہوتا
دیکھا ہے اُسے چُھو کر، وہ آگ کی گُڑیا ہے
اور آگ کو چُھو لینا آسان نہیں ہوتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چشم کرم حضورؐ کی فیضانِ نعت ہے
رزقِ سخن مِلا جو یہ احسانِ نعت ہے
لِکھی ثناء تو ہو گئے الفاظ نُور نُور
اور جگمگا اُٹھا میرا دِیوانِ نعت ہے
مِدحت کے پُھول بے بہا دامن میں آ گئے
کِتنا وسیع اُنﷺ کا گُلستانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کہوں تو کیسے کہوں خود کو میں غلام نبیﷺ
میں لوں بھی کیسے بھلا اس زباں سے نام نبی
بلندیوں سے بھی بالا ہے مرتبہ ان کا
زمانہ کیسے سمجھ پائے گا مقام نبیﷺ
وہ جن کی شان میں قرآن نے قصیدے پڑھے
کیا ہے رب نے بھی کس درجہ احترام نبی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شان عالی آپ کی رب کے پیمبر یا نبیﷺ
آپﷺ نبیوں میں بڑے محبوبِ داور یا نبیؐ
رات دنِ روضے کا پھیرا میں لگاتا جھوم کر
کاش ہوتا میں مدینے کا کبوتر یا نبیؐﷺ
ہند سے پرواز کرتا میں مدینے کی طرف
میرے بازو میں جو لگ جاتا کبھی پر یا نبیؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر ایک وفادار کا سردار ہے عباسؑ
یعنی کے وفاداری کا معیار ہے عباسؑ
بازو کے بِنا بھی جو عدُو پر رہے حاوی
دُنیا میں فقط ایک ہی کِردار ہے عباسؑ
توصیف و ستائش میں یہی بات ہے کافی
شبیرؑ کے لشکر کا علم دار ہے عباسؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ خطا کار سا انسان مدینے میں رہے
بن کے سرکارؐ کا مہمان مدینے میں رہے
یوں ادا کرتے ہیں عّشّاق محبت کی نماز
سجدہ کعبے میں ہو اور دھیان مدینے میں رہے
اللہ، اللہ، سر افروزئ صحرائے حجاز
ساری مخلوق کا سلطانؐ مدینے میں رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اُس پر سلام شاہؑ کو جس کا الم ہُوا
شانہ ہر ایک اُس کا بدن سے قلم ہوا
اکبرؑ کا غم ہُوا، غمِ اکبر امامؑ کو
اصغرؑ کا غم بھی کیا غم اکبرؑ سے کم ہوا
لکھنے لگی جو فاطمہ صغرؑا پدر کو خط
کاغذ تمام اشک کے بہنے سے نم ہوا
پِھر میسّر یہ ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
سامنے بیٹھ کے پھر بات کبھی ہو کہ نہ ہو
آؤ، ہم بوجھ دلوں کا ذرا ہلکا کر لیں
کیا خبر اشکوں کی برسات کبھی ہو کہ نہ ہو
یہ بھی مُمکن ہے کہ میں آپ کا دل رکھ پاؤں
پھر سے یہ عالمِ جذبات کبھی ہو کہ نہ ہو
خواب میں کر کے رہائی کے نظارے قیدی
جاگ کر روتے رہے آج بے چارے قیدی
آپ کی دُنیا میں جُھولے کی سہولت ہو گی
جُھولتے ہیں یہاں سُولی کے سہارے قیدی
جانتے تھے کہ رہائی کی کوئی راہ نہیں
روز کرتے تھے پر اندھوں کو اشارے قیدی
یہ جو میرے اندر پھیلی خاموشی ہے
تم کیا جانو کتنی گہری خاموشی ہے
اس کی اپنی ہی اک چھوٹی سی دُنیا ہے
اک گُڑیا ہے ایک سہیلی خاموشی ہے
تیرا سایہ تیرے ساتھ سفر کرتا ہے
میرے ساتھ مُسلسل چلتی خاموشی ہے
ملی نغمہ
ہم امن محبت کے پالے ہم چمن چمن مہکائیں گے
ہم پاکستان کے رکھوالے ہم اس کی شان بڑھائیں گے
تا ابد رہے گا قائم یہ قدرت کا اس پر سایا ہے
سو جانیں دے کر پُرکھوں نے یہ امن کا ٹکڑا پایا ہے
ہم اس کی عظمت کا جھنڈا ہر میداں میں لہرائیں گے
ہم پاکستان کے رکھوالے ہم اس کی شان بڑھائیں گے
اس سے پہلے ہی کہ مُرجھائے گُلزارِ محبت
اس سے پہلے ہی کہ مر جائے فشارِ الفت
اس سے پہلے ہی کہ اُمڈ آئے نزارِ نفرت
اس سے پہلے ہی کہ لڑکھڑائے دیدارِ چاہت
گُلِ امید ہی کِھلا دو
تم اک بار مُسکرا دو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر وہ بخشش کی تمنا نہ کرے محشر میں
جس نے تسبیح درودوںﷺ کی نہ دہرائی ہو
مجھ پہ جنت کے بھی در آپ ہی وا ہونے لگیں
حوضِ کوثر پہ اگر میری پذیرائی ہو
ذکر ہو نعت میں جب شعبِ ابی طالب کا
کیسے ممکن ہے کہ آواز نہ بھر آئی ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اللہ اللہ عشق کا کعبہ نظر آنے لگا
اے تصور گُنبدِ خضرا نظر آنے لگا
اب نگاہیں ہو چلیں میری حقیقت آشنا
چار جانب مجھ کو وہ روضہ نظر آنے لگا
عشقِ احمدؐ ہو گیا ہے جب سے دل میں ضَو فگن
مجھ کو اپنی زیست کا منشاء نظر آنے لگا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
منظر یہ سرِ عرش نیا دیکھ رہے ہیں
نعلینِ محمدﷺ کی ادا دیکھ رہے ہیں
سرکارِ دو عالمﷺ کا ابھی نام لیا ہے
سب گردشوں کا رنگ اُڑا دیکھ رہے ہیں
دُنیا میں کہاں آپؐ کے در سا ہے کوئی در
جس در کی طرف شاہ و گدا دیکھ رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فریاد یا رسولؐ ہے فریاد یا رسولﷺ
کمزور و ناتواں کی ہو امداد یا رسولؐ
اسلام کا مذاق ہے، ایمانِ ننگ ہے
چاروں طرف ہے اس قدر الحاد یا رسولؐ
جبلِ ابو قبیس سے پھر معجزہ دِکھا
بندے بھٹک گئے ہیں تِرے بعد یا رسولؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سجایا عرش ہے رب نے برائے مُرسل اعظمؐ
زبان قدسیاں پر ہے ثنائے مرسل اعظمﷺ
جمالِ نُور کا پیکر محمدﷺ گوہرِ یکتا
خُدا کو بھا گئی ہر اک ادائے مرسل اعظمؐ
شفاعت مُذْنِبِیں کی آپ فرمائیں گے محشر میں
کرم فرمائے گا اس دم خُدائے مرسل اعظمؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خالق نے جسؑ کے جدؐ کو اکثر سلام بھیجا
بیعت کا فاسقوں نے اُس کو پیام بھیجا
آیا جو رن میں اکبرؑ کہنے لگے یہ خُود سر
حضرتؑ نے اس کو کیوں کر زیرِ حسام بھیجا
حضرتؑ کو بُھوکا پیاسا اعداء نے ذبح کر کے
اہلِ حرم کی خاطر آب و طعام بھیجا
تعلق کے فسانے سب
نہیں ہوتے سہانے سب
تِری ہی جُستجو میں اب
بِتانے ہیں زمانے سب
چُھپے جو درد ہیں دل میں
تُجھی کو ہیں بتانے سب
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
صحرا کی دُختر
آنکھیں تر، سُوکھی گاگر
آگ اُگلتا تھر
سائل آزاد
کسی کے ساتھ وہ رنگین رات گُزری ہے
کہ ایک رات میں پوری حیات گزری ہے
مِلا ہے دستِ حِنائی سے بادۂ خُوش رنگ
نگاہ و دل پہ عجب واردات گزری ہے
وہ میرے پاس سے گُزرے تو یوں ہُوا محسوس
کہ خُوشبوؤں میں بسی کائنات گزری ہے
جب قفس میں مجھ کو یاد آشیاں آ جائے ہے
سامنے آنکھوں کے اک بجلی سی لہرا جائے ہے
دل مِرا وہ خانۂ ویراں ہے جل بجھنے پہ بھی
راکھ سے جس کی دھواں تا دیر اٹھتا جائے ہے
تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون
میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے ہے
آ غمِ دہر بھول جاتے ہیں
زور سے قہقہہ لگاتے ہیں
جی جلانے سے کچھ نہیں ہوتا
آؤ، مِل کر دِیا جلاتے ہیں
پھر بھی کُھلتا نہیں درِ اُمید
ایک مُدت سے کھٹکھٹاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گر شاہِ دو عالمؐ کے سہارے نہیں ہوتے
اُمت کے کبھی وارے نیارے نہیں ہوتے
پھر چاند کہاں ٹُوٹ کے جُڑتا مِرے آقاﷺ
گر آپِ کی اُنگلی کے اشارے نہیں ہوتے
سرکارؐ کی نگری کا بیاں حُسن ہو کیسے
ایسے تو کہیں اور نظارے نہیں ہوتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضورﷺ آپ کا جس کو سہارا مل جائے
بھنور کے بیچ بھی اس کو کنارہ مل جائے
نظر میں گنبدِ خضرا ہو، ہاتھ میں جالی
اے کاش! ایسا مجھے بھی نظارا مل جائے
وہ اک نگاہِ کرم جس میں پہلی نعت لکھی
حضورﷺ! ویسی نِگہ گر دوبارہ مل جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے نام پر طیبہ میں گر پکارا ہو
نہ کوئی دُکھ ہو ہمیں اور نہ خسارہ ہو
حضورؐ! زیست کا اوجِ کمال یہ ہو گا
حضورؐ! آپ کے قدموں پہ سر ہمارا ہو
حضورؐ! میرا مقدر بھی جگمگا اُٹھے
حضورؐ! میری طرف بھی اگر اشارہ ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدتوں سے میں تو اپنی عکس یابی کر رہا ہوں
من کو ذکرِ مصطفٰےﷺ سے آفتابی کر رہا ہوں
ان کے اسوے سے دئیے تشکیل خد و خال ان کے
اپنے باطن کی نگاہوں کو صحابی کر رہا ہوں
عشق ہوں خُوشبو بھری ہے گُفتگو، احباب میرے
میں تو اس بے رنگ دنیا کو گُلابی کر رہا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایسی قدرت نے تیری صورت سنواری یا رسولﷺ
دونوں عالم کو ہوئی یہ شکل پیاری یا رسولﷺ
ہے چمک تیرے دُرِ دَنداں میں جیسی یا نبیﷺ
موتیوں میں کب ہے ایسی آبداری یا رسولﷺ
اے تیری رِفعت کہ تیرے رب نے کی تجھ کو عطا
تاجدارانِ جہاں کی تاجداری یا رسولﷺ
سُورج اُگا تو زندگی کی شام ہو گئی
اب صُبح نو بھی موت کا پیغام ہو گئی
دل میں سما گئیں وہ زمانے کی نفرتیں
مہر و وفا بھی آخرش بدنام ہو گئی
انسان سارے مسجد و مندر میں بٹ گئے
انسانیت اس دور میں ناکام ہو گئی
بہت دُور ساحل ہے ابھی تک
کہ طُوفان حائل ہے ابھی تک
سخی ہے تُو مگر شکوہ کُناں ہے
جو خالی ہاتھ سائل ہے ابھی تک
مِرے جو ہمسفر تھے مر گئے کیا؟
کہ زندہ میرا قاتل ہے ابھی تک
کچھ کمی تو جہدِ آزادی میں ایسی رہ گئی
جو مِرے پاؤں میں یہ زنجیر اُلجھی رہ گئی
میرے اس کے درمیاں کھینچی گئی خونی لکیر
میں تڑپتا رہ گیا، اور وہ سسکتی رہ گئی
باڑ کے نزدیک مت جاؤ وہاں بارود ہے
ایک ممتا اپنے شہزادے سے کہتی رہ گئی
مداری
خبر کچھ اس طرح پھیلی، کہ جیسے آگ جنگل میں
کہ ہر سو گاڑیوں کا شور برپا تھا
جہاں پر کچھ مداری کیمرے لے کر
تماشہ بیچنے کو آن پہنچے تھے
تماشہ ایک لڑکی کا
برہنہ جسم وہ لڑکی
اُداس موسم دُھواں فضائیں کہ خاک سُورج اُڑا رہا ہے
یہاں کے منظر بتا رہے ہیں یہاں کوئی سانحہ ہُوا ہے
یتیم لاغر غریب بچوں پہ بُھوک جیسی بلا پڑی ہے
امیر شہروں میں اپنی دولت عیاشیوں پر لُٹا رہا ہے
بنامِ مذہب، برائے مِلّت یہ نسل اور قومیّت کی جنگیں
خٗدائے برتر! تِری زمیں پر عجب تماشہ لگا ہوا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشقِ احمدﷺ کا دِیا دل میں جلائے رکھوں
ہر گھڑی ذِکر کی محفل بھی سجائے رکھوں
کاش قدموں میں بُلا لیں مجھے سرکارِ جہاں
پھر اسی در پہ جبیں اپنی جُھکائے رکھوں
باغِ طیبہ سے چُنوں روز ثناء کی کلیاں
خُود کو بس نعت نگاری میں لگائے رکھوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت خیرالوریٰﷺ
حاصل ہو آپؐ کی جو رضا خیرالوریٰﷺ
شفقت ہو آپ کی جو عطا خیرالوریٰﷺ
رحمت ہی برسے دل پہ سدا خیرالوریٰﷺ
مقبول میری کر لیں دُعا خیرالوریٰﷺ
محبوب دل کو آپﷺ کی رحمت سدا رہے
ایسے ہی میرے دل میں الفت سدا رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے نبیﷺ پیارے نبیؐ ہے مرتبہ بالا تیرا
جس جا کوئی پہنچا نہیںم پہنچا وہاں تلوا تیرا
خیرات دیتا ہے خدا ہر وقت تیرے نام کی
جس کو ملا جو کچھ ملا جتنا ملا صدقہ تیرا
یا مصطفیٰؐ، یا مجتبیٰؐ بھر دیجیئے کاسہ میرا
کر دو کرم رکھ لو بھرم سائل ہوں میں داتا تیرا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سر پر ہمارے سایۂ ذی شانِ نعت ہے
حاصل خُدا کے فضل سے ایقانِ نعت ہے
رکھتی ہے مُجھ کو نعت رہِ مُستقیم پر
مُجھ پر، مِری حیات پر احسانِ نعت ہے
جب لب سے اُن کا نام لیا، نعت ہو گئی
نادان ہے وہ شخص جو انجانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یوں منوّر ہے یہ دل غارِ حِرا ہو جیسے
اُس کے اندر کوئی مہتاب رہا ہو جیسے
گُنبدِ سبز ہے یوں تازہ بہ تازہ ہر آن
ذہن میں کوئی نیا پُھول کِھلا ہو جیسے
دلِ آوارہ کو بے ساختہ آیا ہے قرار
چند گھڑیاں تِری صُحبت میں رہا ہو جیسے
کتھئی شام
ایک کتھئی شام
ہواؤں میں عطر گھول گیا کوئی
لکھنے خوابوں کو پلکیں جو مُوندیں
کہ کاجل لگا گیا کوئی
صبح ہنستی تھی
حسِیں یہ زِندگانی ہو رہی ہے
وہ اب میری کہانی ہو رہی ہے
شعورِ گُفتگو جن کو نہیں ہے
اُنہیں کی راجدھانی ہو رہی ہے
ہے سر پہ بوجھ میرے پورے گھر کا
فنا میری جوانی ہو رہی ہے
فلک پر سجا ہے سحابِ محبت
چلو مِل کے بانٹیں گُلابِ محبت
کریں آج تقلیدِ اِقرارِ چاہت
گِرا کر سبھی ہم حِجابِ محبت
سبھی باب اس کے کریں آج ازبر
چلو، آج کھولیں کتابِ محبت
سوال ہدیۂ جاں مجھ سے اور پھر پس و پیش
میں پوچھتا ہوں یہ کیا آپ کو گماں گُزرا
لبوں پہ میرے تبسم تھا ان کی آنکھیں نم
ایک ایسا لمحہ بھی وقتِ وداع جاں گزرا
اس التفاتِ فراواں کے جائے صدقے
وہ میرے پاس سے جب گُزرا سرگراں گزرا
دما دم مست قلندر سخی شہباز قلندر؛ قوالی
دما دم مست قلندر، سخی شہباز قلندر
مفلس کی بات کر نہ تونگر کی بات کر
دارا کا ذکر کر نہ سکندر کی بات کر
کرنی ہے تو پھر آج سے حیدر کی بات کر
لعلوں کے لعل مست قلندر کی بات کر
دما دم مست قلندر، سخی شہباز قلندر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدﷺ نام اس دل میں جڑا مثلِ نگینہ ہے
اسی کا وِرد کرتی ہوں، یہی میرا خزینہ ہے
سدا ملتی ہی رہتی ہے مجھے خیرات جلووں کی
انہی کے نُور سے روشن نظر کا آبگینہ ہے
تصوّر میں ہمیشہ سامنے ہے والضحیٰ چہرہ
حقیقت میں بھی تو دیکھوں مِری حسرت دیرینہ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
روضۂ احمدِ مختارﷺ دِکھا دے یارب
بلبل زار کو گُلزار دکھا دے یارب
جن کے دیدار سے ملتا ہے دل و جاں کو سکوں
وہ حرم وہ در و دیوار دکھا دے یارب
آرزو جس کی تصور کو بھی مہکاتی ہے
وہ حسین شہر بس اک بار دکھا دے یا رب
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دلوں سے غم مٹاتا ہے محمدﷺ نام ایسا ہے
نگر اُجڑے بساتا ہے محمدﷺ نام ایسا ہے
انہی کے نام سے پائی فقیروں نے شہنشاہی
خُدا سے بھی ملاتا ہے محمدﷺ نام ایسا ہے
انہی کے ذکر سے روشن راتیں پھر لوٹ آتی ہیں
نصیبوں کو جگاتا ہے محمدﷺ نام ایسا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر مرغِ چمن نغمہ سرا سبحان اللہ سبحان اللہ
تسبیحِ خُدائے ہر دو سرا سبحان اللہ سبحان اللہ
ہے نقش و نگار ہر دو سرا سبحان اللہ سبحان اللہ
عنوان کتابِ ارض و سما، سبحان اللہ سبحان اللہ
کون اس کو بھلا پہچان سکے کون اس کی حقیقت جان سکے
میں ادا کروں تعریف خدا، سبحان اللہ سبحان اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
باغِ دو عالم دم سے تمہارے ہے گُلزار رسول اللہﷺ
کون و مکاں ہیں رُخ سے تمہارے پر انوار رسول اللہﷺ
تم ہو حشر کے راج دُلارے نُورِ الٰہی عرش کے تارے
نیّا موری لگا دو کنارے، کھیون ہار رسول اللہﷺ
مولیٰ تم نے ہمارے غم میں شب بھر رو کر کی ہیں آہیں
اُمت پر ہے روزِ ازل سے کتنا پیار رسول اللہﷺ
میں ماٹی کی مُورتی، ماٹی میرا دیس
ماٹی موری جات ہے، مَیں لائی سندیس
ماٹی بھید اَگم کا، ماٹی کی کیا بات
سُندر پُھول سے پوچھیو، ماٹی کیسا دیس
ماٹی میں جل اَگنی، ماٹی پَوَن جھکور
ماٹی ہی من موہنی، ماٹی کرے کلیس
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہﷺ
تو میناروں کا دیکھوں جگمگانا یا رسول اللہ
مِرے آقاؐ زیارت کو ترستی ہیں مِری آنکھیں
زیارت کا عطا ہو آب و دانہ، یا رسول اللہ
سُنہری جالیوں میں وہ چمکتی نُور کی کِرنیں
کبھی دیکھوں میں یہ منظر سُہانا یا رسول اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اوڑھ کر خاک مِری جاں مِرے اصغرؑ سو جا
ماں کی آغوش کہاں، اے مرے دلبر سو جا
اپنے ہی خون میں تر ہونے لگی سُوکھی زباں
حلق میں آ کے لگا تیرِ ستم گر، سو جا
کوزۀ آب لیے ہاتھ میں روتے روتے
ڈھونڈتی ہے تجھے بن میں تِری خواہر سو جا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فن اگر تائب سا اور تاثیر مظہر سی مِلے
نعت کے لفظوں سے کیوں خوشبو نہ عنبر سی ملے
چُوم لیتا ہوں تصور میں ہر ایسی آنکھ کو
جو کہ دیدارِ مدینہ کے لیے ترسی ملے
سامنے ہر پل رہے چوکھٹ رسول اللہؐ کی
غیر ممکن ہے، کہیں خیرات اس در سی ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عالم میں ہر اک اس کا شیدا نظر آتا ہے
اس طُور کا ہر ذرّہ موسیٰ نظر آتا ہے
بندہ کی معیّت میں مولا نظر آتا ہے
قطرے کی حقیقت میں دریا نظر آتا ہے
دریا کے تجسّس میں پیاسا ہی نہیں حیراں
دریا بھی تو پیاسے کا شیدا نظر آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس وقت خُدا کی رحمت سے مِدحت کا شعور آ جاتا ہے
الفاظ چمکنے لگتے ہیں، آواز میں نُور آ جاتا ہے
لاتا ہوں تصوّر میں جس دم، اخلاقِ کریمانہ اس کا
قرآن کے پیکر میں ڈھل کر، وہ جانِ زبور آ جاتا ہے
اک میں ہی نہیں کہتا لوگو، تاریخ گواہی دیتی ہے
اس نام پہ مرنے والوں کو جینے کا سرور آ جاتا ہے
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/٭تروینی/ترائلے
یاد
وقت کی ریت سرکتی جائے
خواب مجسّم ہونے تک
اپنے ماضی میں جیتے ہیں
لبنیٰ آصف
اندیشۂ ملال نہ خوفِ گزند ہے
دل کو فقط طوافِ تصوّر پسند ہے
فُرصت خُمارِ چشم کو لمحات چند ہے
وائے نِگاہ و دل کہ درِ یار بند ہے
حائل نہیں ہے اس کے مِرے درمیاں کوئی
فصلِ دراز برقِ نظر کو زقند ہے
غلامی
کیا مجھ سے نفرت کی
محض یہی
وجہ ہے
کہ میں ایک سیاہ فام ہوں
میرے ہونٹ بڑے بڑے اور رنگ سیاہ ہے
میری نحیف ٹانگوں پہ کھڑا جسم کانپ رہا ہے
دِیوار پہ بیٹھا رہوں پر باندھ کے اپنے
جِیتا ہے کوئی دستِ ہُنر باندھ کے اپنے
اغیار کا لشکر تھا مگر پِچھلی صفوں سے
شمشیر بکف آئے کمر باندھ کے اپنے
مندر کا سہارا تو پُجاری کا دِیا ہے
تُو لے جا بھلے شمس و قمر باندھ کے اپنے
میں تو وعدہ وفا کا نبھاتا رہا
وہ ستم پر ستم مجھ پہ ڈھاتا رہا
ہجر کا جشن ایسے مناتا رہا
نام لکھ لکھ کے تیرا مٹاتا رہا
ہر قدم پر ہوئی آزمائش کڑی
ہر کوئی بس مجھے آزماتا رہا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تیری چوکھٹ پہ جب آنا ہو گا
کتنا خُوش بخت وہ لمحہ ہو گا
میں درِ پاکؐ پہ رکھ دوں گی جبیں
اور محبت میں جو سجدہ ہو گا
اس کی آنکھوں کے ملائک شیدا
جس نے سرکارؐ کو دیکھا ہو گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اظہارِ عقیدت میں بہت وقت گُزارا
حسّانؓ سے آگے نہ بڑھا شعر ہمارا
کونین کی ہر چند کہ دولت ملی اُنؐ کو
کیا شان تھی فاقوں پہ ہی ہوتا تھا گُزارا
قُدرت کی عطا معجزۂ شقِ قمر ہے
دو نِیم ہُوا چاند نے پایا جو اِشارا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
برائے نقشِ منور شریک ہوتا ہے
سُخن میں سوچ کا جوہر شریک ہوتا ہے
نبیؐ کا ذکر وہ ذکرِ عظیم ہے جس میں
مِرا خدا بھی برابر شریک ہوتا ہے
خُمار خانۂ دُنیا فضول ہے، صاحب
تو اس فریب میں کیوں کر شریک ہوتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لولاک زیرِ سایۂ فیضانِ نعت ہے
وجہِ قرار، نِسبتِ دامانِ نعت ہے
نازاں بہارِ خُلد ہے اپنے نصیب پر
فرحاں بفیضِ ثروتِ بارانِ نعت ہے
جو حرفِ کُن ہے باعثِ آغازِ کائنات
مستور اُس میں دعوت و اعلانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کس چیز کی کمی ہے مولیٰ تِری گلی میں
دُنیا تِری گلی میں عقبیٰ تری گلی میں
جام سفال اس کا تاجِ شہنشاہی ہو
آ جائے جو بھکاری داتا تری گلی میں
دیوانگی پے میری ہنستے ہیں عقل والے
تیری گلی کا رستہ پُوچھا تری گلی میں
یوں دشتِ خواب سے تعبیر کے سراب لیے
بہا رہی ہے محبت سرِ چناب دِیے
ہم اہلِ عشق کسی نُور کے تعاقب میں
بس ایک رات کے جیون میں بے حساب جیے
کھڑے ہیں طاقِ گُماں میں بُجھے چراغ کے پاس
سِیہ غُلام ہتھیلی پہ دل گُلاب کیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذوقِ سخن جو لازمِ سامانِ نعت ہے
عشقِ رسولﷺ شاملِ ارکانِ نعت ہے
نعتِ نبیﷺ سُنا گئے دادا رسولؐ کے
گویا جہاں میں ان سے ہی عرفانِ نعت ہے
لب پہ جنابِ آمنہؑ کے نعت ہے رواں
لوری کے حرف حرف میں اک شانِ نعت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِری دُھوپ کو بھی گداز دے مِرے کرب کو بھی تمام کر
کوئی سایہ لطفِ عمیم کا سر دشت غم مِرے نام کر
مِری روسیاہی سے روٹھ کر نہ رلا مجھے، نہ گنوا مجھے
مِری راحتیں مجھے پھیر دے، مجھے تھام مجھ سے کلام کر
یہ جو بُوند بوند ٹپک رہی ییں مِری جبیں سے نِدامتیں
سرِ باب لُطف و قبولیت اِنہیں بہرہ مند مقام کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت در نعت سجایا جو شمارہ دل کا
اک تعلق سا بنا میرا، تمہارا، دل کا
تیرے انوار سے بڑھ جائے گی آنکھوں کی ضیا
تیرے دیدار سے کم ہو گا خسارہ دل کا
گُنبدِ سبز کے سائے میں اگر بیٹھو گے
سبز ہو جائے گا اک روز نظارہ دل کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لائقِ حمد و ثنائے بے کراں ربِ جلیل
بے نظیر و بے مثال و بے شریک و بے عدیل
کون ہے اس کے سوا فرماں روائے کائنات
قادرِ مُطلق وہی، حاکم وہی بے قال و قیل
اس نے موسیٰؑ کو کلیم اللہ کا بخشا خطاب
اور ابراہیمؑ کو اپنا بنایا ہے خلیل
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرکارِ مدینہ مِرے سرکارِ مدینہ
اس طرح سے جینا کوئی جینے میں ہے جینا
اے کاش! مقدر میں ہو دیدار مدینہ
مجبور ہوں، لاچار ہوں، بے بس ہوں یہی نا
سرکارِ مدینہ مِرے سرکارِ مدینہ
اے سرورِ کونینؐ، اے امت کے نگہباں
بدلی ہوئی دنیا کی نظر دیکھ رہے ہیں
پھلتا ہوا نفرت کا شجر دیکھ رہے ہیں
بستی کے سُلگتے ہوئے گھر دیکھ رہے ہیں
دل دوز مناظر ہیں، مگر دیکھ رہے ہیں
وہ کر بھی چُکے غیر سے اقرارِ محبت
ہم بیٹھے دُعاؤں میں اثر دیکھ رہے ہیں
سِتم تو کرتا ہے لیکن دُعا بھی دیتا ہے
مِرا حریف مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے
ہے جس کا ایک تبسّم قرارِ جاں اپنا
اسی کا طرزِ تغافل رُلا بھی دیتا ہے
بجا کہ ہِجر کا عالم عذاب ہے یارو
مگر یہ عرصۂ فُرقت مزا بھی دیتا ہے
ڈھلے سورج چلے آتے ہیں وہ اپنے ٹھکانوں میں
پرندے کب رہا کرتے ہیں ہر دم آشیانوں میں
خدا نے پر دئیے ہیں اس لیے پرواز کرتے ہیں
زمیں پہ کب لگے ہے دل لگے ہے آسمانوں میں
زرا سا دل ملا پھر بھی بلند ہیں حوصلے ان کے
کبھی لگتا نہیں ہے ڈر انہیں اونچی اُڑانوں میں
غم نگاہوں میں چُھپائے پسِ دیوار ملے
لوگ اس دور میں اپنے سے بھی بیزار ملے
تمتماتے ہوئے چہروں کے تجسّس میں ہمیں
ہر گُزر گاہ پہ بھیگے ہوئے رُخسار ملے
کوئی ایسا نہ تھا، جو درد کا سودا کرتا
سب تِرے شہر میں خُوشیوں خریدار ملے
مجھ کو گہرائی میں مٹی کی اُتر جانا ہے
زندگی باندھ لے سامانِ سفر، جانا ہے
گھر کی دہلیز پہ روشن ہیں وہ بُجھتی آنکھیں
مجھ کو مت روک، مجھے لوٹ کے گھر جانا ہے
میں وہ میلے میں بھٹکتا ہوا اک بچہ ہوں
جس کے ماں باپ کو روتے ہوئے مر جانا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضوری کے تصور ہی سے روشن دل ہمارا ہے
یہی روشن تصور کائناتی استعارہ ہے
ہر اک مشکل گھڑی میں زیست کی ان کو پُکارا ہے
مجھے تو دو جہاں میں ایک ان کا ہی سہارا ہے
بوقت مرگ ان کا نور روشن قبر کو کر دے
فقط اس آس پر تیرگی جاں کو گوارا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
امام المُرسلیں تم ہو شفیعِ عاصیاں تمﷺ ہو
دل و جاں تم پہ صدقے مونس بیچارگاں تم ہو
مِری ہستی کی عظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی
تمہاری خاکِ پا ہوں میں شہ کون و مکاںﷺ تم ہو
قسم اس پُرسش پیہم کی اے جُود و عطا والے
خُدا کی رحمتیں اس پر ہیں جس پر مہرباں تم ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عجب ہے کیف عجب ہے خُمار آنکھوں میں
بسا ہوا ہے نبیﷺ کا دیار آنکھوں میں
جو آئی یادِ مدینہ تو آنسوؤں کی طرح
چُھپا لیا ہے اسے بے قرار آنکھوں میں
مجھے تلاش نہیں سُرمہ بصیرت کی
ہے ان کی راہگُزر کا غُبار آنکھوں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نور آنکھوں میں تو چہروں پہ اُجالے ہوں گے
مصطفیٰﷺ والوں کے انداز نرالے ہوں گے
حشر میں اُنﷺ کی شفاعت کے حوالے ہوں گے
ہم گُنہ گاروں کو سرکارﷺ سنبھالے ہوں گے
نزع میں انﷺ کے تصور سے مقدر چمکا
قبر میں اب تو اُجالے ہی اُجالے ہوں گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے یہ مال و زر کیا تختِ دارا و سکندر کیا
شہِ بطحاؐ کا ادنیٰ اُمتی ہوں اس سے بڑھ کر کیا
عزیز از جان ہیں کانٹے بھی طیبہ کی ببولوں کے
مِرے نزدیک جنّت کی کوئی شاخ گُل تر کیا
مقامات شہِ لولاکﷺ کی رفعت کا اندازہ
لگا پائیں گے جبرئیل امیںؑ کے بازوئے پر کیا
رُوٹھنا تو فقط بہانہ تھا
آپ کا ظرف آزمانا تھا
غیر کو پا کے مُجھ کو بُھول گیا
جس سے رشتہ مِرا پرانا تھا
میں اُسے یاد کر رہی تھی سدا
’ورنہ اُس نے تو بُھول جانا تھا‘
ہم تو بِکنے کو ہیں تیار زُلیخا یوسف
آپ بن جائیں خریدار زلیخا یوسف
تُو نے قصّے تو لکھے ہوں گے ہزاروں لیکن
ہے مُصنف تِرا شہکار زلیخا یوسف
ہر کہانی میں گُنہ گار نہیں ہوتا مرد
لڑکیوں پڑھ تو لو اک بار زلیخا یوسف
آنکھ میں پانی بھر کر لائے کون
اس جلتے ہوئے شہر کو بچائے کون
ایک تو محبت اور وہ بھی ناکام
میں بد نصیب، مِرا نصیب بنائے کون
اُمید اُن کے ہاتھوں جام پینے کی
ایسی اُمید پوری کرے تو کرے کون
خواہ مِری چِیخ بھی سُنائی دے
پِھر بھی تُو مطمئن دکھائی دے
آج زِندان نے کہا مجھ سے
یار مُجھ کو تو تُو رِہائی دے
میں نے اِک بار بھی پُکارا نہیں
کیوں مُجھے بارہا سُنائی دے
حاکم شہر انا لگتی ہے
یہ تو صورت سے قضا لگتی ہے
ان بُتوں کو نہ دو الزام کوئی
ان کی ہر بات خُدا لگتی ہے
ماں کے قدموں میں جو جنت ٹھہری
اس کی جھڑکی بھی دُعا لگتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ساری دنیا کو غمِ شہؑ میں رُلانے والا
چاند اُبھرا ہے عزا خانے سجانے والا
مرثیہ، تعزیہ، ماتم، یہ مجالس گھر گھر
کون ہے شہؑ کی عزاداری مِٹانے والا
مائیں غازیؑ کے علم پر یہ دُعا مانگتی ہیں
اِک پسر چاہیے پرچم کو اُٹھانے والا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نبیﷺ کے نام کا صدقہ اتارنے والی
یہ عائشہؓ ہیں نبیﷺ کو پکارنے والی
سہاری جائے گی محشر میں آبِ کوثر پر
حضورؐ کو دمِ رحلت سہارنے والے والی
حدیث و مصحف ربی تِرے رہین رہے
صحابیوںؓ کے ہُنر کو نکھارنے والی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت در مدح عباس
زہراؑ کا اعتبار ہے عباسؑ کا وجود
کس درجہ ذی وقار ہے عباسؑ کا وجود
اہلِ وفا کے دل میں ہے عباسؑ کا مقام
ہر بے وفا پہ بار ہے عباسؑ کا وجود
جھوٹی قسم نہ کھائے گا عباسؑ کی کوئی
تا حشر برقرار ہے عباسؑ کا وجود
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت در مدح مولا علی
حُسن اصنافِ سُخن مدح کی جاگیر میں ہے
گوشۂ فکر نیا اب مِری تقدیر میں ہے
ذوالفقار آئی فلک سے مِرا ایماں ہے مگر
زورِ حیدرؑ سے الگ دم کہاں شمشیر میں ہے
فکر کو اور بھی ذی شان بنا لوں تو چلوں
بزم مدحت میں چراغ اپنا جلا لوں تو چلوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کشادہ ذہن میں آتی ہے رفعتِ عثمانؓ
عظیم دل میں سماتی ہے عظمتِ عثمانؓ
حسینیؑ کون ہے اور کون ہے سبائی یہاں
نسب سبھی کے بتاتی ہے نسبتِ عثمانؓ
عراق ان کا، فلسطین ان کا، شام ان کا
کہاں کہاں نظر آتی ہے سطوتِ عثمانؓ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مستنیرِ نُورِ وحدت حضرتِ فاروقؓ ہیں
ہالۂ ماہِ رسالتﷺ حضرتِ فاروقؓ ہیں
ہیں وصالِ مصطفیٰ پر آپ صدمے سے نڈھال
غم زدہ، تصویرِ حسرت حضرتِ فاروقؓ ہیں
ان کی حالت دیکھ لو پھر تم کہو انصاف سے
کیا طلب گارِ خلافت حضرتِ فاروقؓ ہیں؟
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سچے کی سند سچوں کا سُلطان، ابوبکرؓ
پھر نعرہ فرشتوں کا کہ؛ قربان، ابوبکرؓ
ہر پہلے نے دیکھا تھا کہ پہلا ہے ابوبکرؓ
ہر پچھلے کا بھی پہلا رہا ایمان، ابوبکرؓ
ملنا ہو کسی کو جو محمدﷺ سے، تو سُن لے
پہلے بھی تھا، ہے آج بھی دربان، ابوبکرؓ
صِلہ
مجھ کو شب نے دیا
جاگنے کا صِلہ
آنکھ جھپکی نہیں
میرے احساس کی
تنظیم الفردوس
دیارِ درد کے صحرا کو پار کر لوں گر
ملے گا کیا؟ جو تِرا اعتبار کر لوں گر
ہوا چراغ بُجھانے کے پھر سے درپے ہے
میں ہاتھ جوڑ کے ان کو حصار کر لوں گر
عجب ہے حال مِرا اس کے وار سہہ سہہ کر
میں مرتے مرتے بھی اک بار پیار کر لوں گر
نام لے کر جو تِرا آگ سے کھیلا ہو گا
ہاتھ میں اس کے چراغِ یدِ بیضا ہو گا
رشتۂ عمرجو ٹُوٹا بھی تو پھر کیا ہو گا
فکرِ امروز نہ اندیشۂ فردا ہو گا
نالہ سنجیٔ عنادل وہی سمجھا ہو گا
آشیاں جس نے اُجڑتے ہوئے دیکھا ہو گا
اس سے پہلے تِرے کوچے میں تماشا ہوتا
یہ مناسب تھا مِرے واسطے رستہ ہوتا
عمر بھر میری یہ کوشش تجھے جی بھر دیکھوں
تیرے چہرے پہ کِھلا رنگ مجھ ایسا ہوتا
میں بہت تیز چلا اپنے کناروں سے پرے
میں اگر دشت نہ ہوتا، تِرا دریا ہوتا
خواہشوں کی دستک
جسم کی فصیلوں کے آہنی دریچوں پر
بے صدا سے رنگوں کی خواہشوں کی دستک ہے
جسم کے حصاروں میں نیم وا دریچوں سے جھانکنے کو نکلا ہوں
گھر کی سخت تاریکی بے زبان سناٹے
ان گنت کتابوں نے مجھ کو روک کر پوچھا
ہم ہیں دوست دیرینہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کبھی سوچا باغِ حیات میں، یہ جو سوگ شکلِ بہار ہے
جمِ عاشقاں ہے جو سینہ زن، کہ مسیحا اک سرِ دار ہے
یا حسینؑ تیرے ہی سوگ میں، ہیں حزین صدیوں کی ساعتیں
تُو گواہی سورۂ عصر کی، ہر قرن پہ تیرا حصار ہے
ہے گواہ فُطرسِ نِیم جاں، تُو نے مہد میں بھی عطا کیا
کہ جہانِ کُن فیکون میں، تُو ولیِ پروردگار ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مرثیہ سے اقتباس
رستے کے روکنے کو ادھر لشکری چلے
رہوار کی یہ چال کہ جیسے پری چلے
موسیٰ کا ہے عصا کہ نہ جادُوگری چلے
مُنہ زوریاں چلیں نہ کوئی خُود سری چلے
خُود فاصلے سمٹ گئے رفتار دیکھ کر
گیتی کا دل اُلٹ گیا رہوار دیکھ کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مظلوم کی فریاد، ندا ابنِ علیؑ ہے
عظمت کے مناروں کی صدا ابنِ علیؑ ہے
سرکارِ دو عالمؐ کی کمر اس کی سواری
عظمت کے مناروں کی صدا ابنِ علیؑ ہے
ظالم کی کسی طور حمایت نہیں کرنا
اس قول کی تائید بنا ابنِ علیؑ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اثر شہادتِ عظمیٰ کا جاوِدانی ہے
غمِ حسینؑ ہے باقی، جہان فانی ہے
حسینؑ نے جو دیا جان دے کے درسِ عمل
سمجھ لے کوئی تو دستورِ زندگانی ہے
لگا رکھا ہے غمِ کربلا سے سینے کو
بہت غموں سے مجھے طاقت آزمانی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت در مدح عباسؑ
شباب، حُسن، عشق (مرثیہ)
شباب
جذبہ دل کا ہے ممنون ریاضت کا شباب
وجہ الہام ہوا فہم و فراست کا شباب
دلبری میں نظر آتا ہے قیامت کا شباب
رخ ممدوح کا اک عکس ہے جنت کا شباب
داستاں در داستاں جلتا رہا
شہرِ جاں شہرِ اماں جلتا رہا
تیرگی میں روشنی ہوتی رہی
روشنی کا اک جہاں جلتا رہا
رات کی رانی کی خُوشبو بُجھ گئی
خُوشبوؤں کا کارواں جلتا رہا
اجازت دیں اگر مجھ کو
ایک ایسے ملک میں جہاں مفکرین کو قتل کر دیا جاتا ہو
اور لکھاریوں کو کافر گردانا جاتا ہو
اور کتابیں نذرِ آتش کر دی جاتی ہوں
وہ معاشرے جو دوسرے (کی سوچ کو قبول کرنے) سے انکار کریں
اور بولنے کی پابندی ہو اور سوچ پہ پہرا ہو
اور سوال کرنا گناہ ٹھہرے
جب سرکشی کا کوئی کنارہ نہیں رہا
دیکھو ناں خواب کوئی ہمارا نہیں رہا
ہے اپنے جان جاناں سے صحبت چراغ کی
اپنا نصیب جلنا بھی پیارا نہیں رہا
گرتے ہیں مے کدہ میں فراموش خرد سے
اٹھتے ہیں جان کر کہ سہارا نہیں رہا