Wednesday, 30 November 2016

یہ مجھ سے کس طرح کی ضد دل برباد کرتا ہے

یہ مجھ سے کس طرح کی ضد دلِ برباد کرتا ہے
میں جس کو بھولنا چاہوں، اسی کو یاد کرتا ہے
قفس میں جس کے بازو شل ہوئے رزقِ اسیری سے 
وہی صیدِ زبوں صیاد کو صیاد کرتا ہے
طریقے ظلم کے صیاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اڑ نہیں سکتا، اسے آزاد کرتا ہے

میری متاع سوز غم دِل نہیں رہا

میری متاع، سوزِ غمِ دل نہیں رہا 
میں روزگارِ عشق کے قابل نہیں رہا
کب سے یہ سر ہے دوش پر اپنے وبالِ دوش
کیا شہر بھر میں ایک بھی قاتل نہیں رہا
طے کی شکستِ دل سے رہِ اضطرابِ دل 
یہ مرحلہ بھی خیر سے مشکل نہیں رہا

مزاج زیست کا ایک ایک رخ دکھا کے چلے

مزاجِ زیست کا ایک ایک رخ دکھا کے چلے
ہم اپنی ذات سے، سارے حِجاب اٹھا کے چلے
ہمِیں ہیں راستۂ شوق میں سُبک رفتار
چلے زمانہ تو، ہم سے قدم مِلا کے چلے
نہ ہاتھ آیا کسی طرح وہ گلِ خوبی
بہت تلاش میں ہمراہ ہم صبا کے چلے

ہو گا سکوں بھی ہوتے ہوتے

ہو گا سکوں بھی ہوتے ہوتے
سو جاؤں گا، روتے روتے
آخر دل ہے، ٹھہر جائے گا
شام و سحر کے ہوتے ہوتے
وحشت ناک ہے خوابِ ہستی
چونک پڑا ہوں سوتے سوتے

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات
بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ یہیں رات کی رات
اس شبِ تار میں جانے کی اجازت کیا خوب
اور پھر اس پر یہ طرہ ہے کہ برسات کی رات
تکیۂ خشتِ خمِ مۓ فرشِ زمیں بسترِ خواب
چین سے کٹتی ہے رِندانِ خرابات کی رات

دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر

دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
جو ادھر دل میں ہے یا رب وہ ادھر پیدا کر
دُودِ دل عشق میں اتنا تو اثر پیدا کر
سر کٹے شمع کی مانند تو سر پیدا کر
پھر ہمارا دل گم گشتہ بھی مل جائیگا
پہلے تو اپنا دہن، اپنی کمر پیدا کر 

جس میں وہ جلوہ نما تھا دل شیدا ہے وہی

جس میں وہ جلوہ نما تھا دلِ شیدا ہے وہی
ہم سے پردہ ہے مگر محملِ لیلا ہے وہی
جو نکل جائے تمنا نہیں کہتے اس کو
جو کھٹکتی رہے پہلو میں تمنا ہے وہی
لے چلے دل تِرا دغِ محبت والے
جان دے کر جو خریدا ہے یہ سودا ہے وہی

مقتل شہر میں اک شور سنائی دے گا

مقتلِ شہر میں اک شور سنائی دے گا
سر پھِرا کوئی سرِ داردکھائی دے گا
ایک دن عدل کی زنجیر ہِلے گی یارو
وقت کا لمحہ ہمیں اذنِ رہائی دے گا
چہرۂ زیست سے سرکے گی جو شب کی چادر
ہم کو خورشید جہاں تاب دکھائی دے گا

ظلم سہتے ہیں دہائی نہیں دیتا کوئی

ظلم سہتے ہیں دُہائی نہیں دیتا کوئی
گرمئ تلخ نوائی نہیں دیتا کوئی
مقتلِ شہر میں اب قہر کا سناٹا ہے
جسم سولی پہ دکھائی نہیں دیتا کوئی
جو بھی آیا نئے مجلس ہی سجانے آیا
قیدِ پیہم سے رہائی نہیں دیتا کوئی

رخ حیات ہے شرمندہ جمال بہت

رخِ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت
جمی ہوئی ہے ابھی گردِ ماہ و سال بہت
گریز پا ہے جو مجھ سے تیرا وصال تو کیا
مِرا جنوں بھی ہے آمادۂ زوال بہت
مجھے ہر آن یہ دیتا ہے وصل کی لذت
وفا شناس ہے تجھ سے تیرا خیال بہت

شب سیاہ میں روشن خیال میرا تھا

شبِ سیاہ میں روشن خیال میرا تھا
میں کچھ نہیں تھا مگر یہ کمال میرا تھا
مِرے لہو کی چمک تھی نگار خانوں میں
تجوریوں کے اندر جو تھا مال میرا تھا
محاذِ فکر پہ کوئی بھی ڈٹ کے جم نہ سکا
عدو کے سامنے بس اک سوال میرا تھا

چلی ہوا تو کوئی یاد آ گیا پھر سے

چلی ہوا تو کوئی یاد آ گیا پھر سے
اڑی جو خاک تو آنسو رلا گیا پھر سے
ہوا کی طرح لہکتا تھا صحن گلشن میں
مہکتے سانس کو جھونکا بنا گیا پھر سے
ہر ایک دل میں تھا روشن چراغِ جاں کی طرح
ہُوا یہ کیا کہ دِئیے سب بجھا گیا پھر سے

محبتیں تھیں عجب دلنشیں فسانے تھے

محبتیں تھیں عجب دل نشیں فسانے تھے
تمہارے شہر کے موسم سبھی سہانے تھے
یہ اور بات کہ میں قیس تھا، نہ رانجھا تھا
ملے جو راہ میں عاشق سبھی دیوانے تھے
جسے بھی دیکھا وہ زلفِ حسین کا تھا اسیر
سنے تھے جتنے بھی قصے سبھی پرانے تھے

صبح خزاں ہوئی تو چلی سرد سی ہوا

صبحِ خزاں ہوئی تو چلی سرد سی ہوا
گہری اداس صبح میں وہ زرد سی ہوا
بادل کا رنگ نیلے فلک پہ اڑان میں
اور ملگجی دوپہر میں وہ درد سی ہوا
چلتی رہی تمام دن آبادیوں میں پھر 
فصل خزاں میں جھومتی اک گرد سی ہوا

وہ عہد وفا قربتوں کے خواب کیا ہوئے

وہ عہدِ وفا قربتوں کے خواب کیا ہوئے 
تشکیل جو کئے تھے وہ نصاب کیا ہوئے
ہم مل کے بدل ڈالیں گے یہ دورِ ستمگر 
نہ وہ زماں مکاں رہا، اسباب کیا ہوئے
مر مٹنے کے وعدوں کو ہوا لے گئی کہاں 
سودا ہے تیل نون کا احباب کیا ہوئے

بکھرے ہوئے سامان میں کیا ڈھونڈ رہا ہوں

بکھرے ہوئے سامان میں کیا ڈھونڈ رہا ہوں 
جو تم نے دیا عہدِ وفا ڈھونڈ رہا ہوں
ملتا ہی نہیں باد اڑا لے گئی سب کچھ 
اب بعد میں یہ کس کی ادا ڈھونڈ رہا ہوں
بس ایک مہک تیرے بدن کی رہی باقی 
شاید اسی خوشبو کو سدا ڈھونڈ رہا ہوں

ذوالفقار حیدری پہلا حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری پہلا حصہ

باطل شکن، مجاہدِ ایماں تھی ذوالفقار
تدبیرِ چارہ سازئِ انساں تھی ذوالفقار
شیرِ خدا کی جنبشِ مژگاں تھی ذوالفقار
آئینۂ جلالتِ یزداں تھی ذوالفقار
روشن ہے کائنات پہ قیمت میں قدر میں
اتری تھی آسمان سے چمکی تھی بدر میں

ذوالفقار حیدری دوسرا حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری دوسرا حصہ

خوش طرز و خوش صفات تھی شمشیرِ حیدری
آئینۂ ثبات تھی شمشیرِ حیدری
حلالِ مشکلات تھی شمشیرِ حیدری
حکمت کی ایک بات تھی شمشیرِ حیدری
ظلمت سے محوِ جنگ تھی تنویر کے لیے
تخریب کرتی پھرتی تھی تعمیر کے لیے

ذوالفقار حیدری تیسرا حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری تیسرا حصہ

لطفِ رسولؐ، رحمتِ باری تھی ذوالفقار
صحرا میں بوئے بہاری تھی ذوالفقار
سارے عرب میں جاری و ساری تھی ذوالفقار
ذہنِ ستم پہ ضربتِ کاری تھی ذوالفقار
محوِ دوا تھی مائلِ پیکار تو نہ تھی
کفار کا علاج تھی تلوار تو نہ تھی

ذوالفقار حیدری چوتھا حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری چوتھا حصہ

رعبِ غضب سے گورکنوں کو دبا لیا
بنتِ نبی کی قبر کو جس نے بچا لیا
لیتی تھی منکروں کے دلوں کی تلاشیاں
مقصد یہ تھا کہ دور کرے بدقماشیاں
دلداریاں بڑھیں تو مٹیں دل خراشیاں
کرتی تھی ریگزار میں وہ تخم پاشیاں

ذوالفقار حیدری پانچواں حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری پانچواں حصہ

تقدیسِ ذوالفقار کی کیا گفتگو کریں
دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں
ظلمت شکن چراغِ رہِ اہلِ اعتبار
ایماں پسند حُسنِ تیقن کی جلوہ زار
چلتی تھی ساتھ ساتھ لیے دین کی بہار
منشائے ذوالفقار تھا منشائے کردگار

ذوالفقار حیدری چھٹا حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری چھٹا حصہ

مسلک تھا ذوالفقار کا ایمان و اعتقاد
رکھتی تھی اپنے مالکِ صابر پہ اعتماد
دینا پڑی مؤرخِ عالم کو چپ کی داد
تھی سیفِ مرتضیٰ کی خموشی بھی اک جہاد
اسلام پر فساد کا در کھولتی نہ تھی
بعدِ رسولﷺ مصلحتاً بولتی نہ تھی

ذوالفقار حیدری ساتواں حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری ساتواں حصہ

پیغامِ انقلاب تھی شمشیرِ حیدری
پھیلا رہی تھی دہر میں آئینِ ہمسری
دیتی نہ تھی گدا پہ سلاطیں کو برتری
مطلق اسے پسند نہ تھی نابرابری
بڑھتا تھا اہلِ زر جو کوئی گھات کے لیے
کرتی تھی اس کو قتل مساوات کے لیے

ذوالفقار حیدری آٹھواں حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری آٹھواں حصہ

خونی تھی ذوالفقار، نہ قاتل تھی ذوالفقار
علمِ کتابِ پاک پہ عامل تھی ذوالفقار
دل ہنس پڑے، جدا حسد و کینہ ہو گئے
سینوں سے دور غصۂ دیرینہ ہو گئے
قلبِ جہاں، خلوص کا گنجینہ ہو گئے
لات و منات قصۂ پارینہ ہو گئے

ذوالفقار حیدری نواں حصہ

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام

ذوالفقار حیدری نواں حصہ

اورنگ کے لیے نہ زر و تاج کے لیے
کوشاں تھی اس زمین کی معراج کے لیے
دانا تھی، دور بیں تھی، حقیقت شعار تھی
اسرارِ رزم و بزم کی آئینہ دار تھی
عہدِ مصالحت ہو تو حرفِ قرار تھی
تلوار تھی کہ مصلحتِ کردگار تھی

ذوالفقار حیدری دسواں حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری دسواں حصہ

شعلوں کو لالہ زار بناتی چلی گئی
ہر بولہب کی آگ بجھاتی چلی گئی
دنیائے شعلہ خو کیلئے نارِ جاں گسل
آتش فشاں مدام، شرر بار مستقل
لیکن جہانِ مہر و محبت میں نرم دل
آلِ خلیلؑ کے لیے خنکئ معتدل

ذوالفقار حیدری گیارہواں حصہ

عارفانہ کلام منقبت سلام
ذوالفقار حیدری گیارہواں حصہ

افسوس، حکمِ جنگ نہیں ذوالفقار کو
ورنہ الٹ کے رکھ دے ابھی کارزار کو
پانی پلائے لا کے شہِ دل فگار کو
پر کیا کرے، وہ مصلحتِ کردگار کو
تیغِ ظفر ہے فاتحِ بدر و حنین کی
چپ چاپ تک رہی ہے جو صورت حسین کی

جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
ان کا ہر عیب زمانے کو ہُنر لگتا ہے
چاند تارے میرے قدموں میں بِچھے جاتے ہیں
یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
ماں مجھے دیکھ کہ ناراض نہ ہو جائے کہیں
سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے

انجم رہبر

گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا

گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا
چڑیوں کو دانے، بچوں کو گڑدھانی دے مولا
دو اور دو کا جوڑ ہمیشہ ”چار“ کہاں ہوتا ہے
سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی نادانی دے مولا
پھر روشن کر زہر کا پیالہ، چمکا نئی صلیبیں 
جھوٹوں کی دنیا میں سچ کو تابانی دے مولا

تنہا تنہا ہم رو لیں گے محفل محفل گائیں گے

تنہا، تنہا، ہم رو لیں گے، محفل، محفل، گائیں گے
جب تک آنسو پاس رہیں گے تب تک گیت سنائیں گے
تم جو سوچو، وہ تم جانو، ہم تو اپنی کہتے ہیں
دیر نہ کرنا گھر جانے میں ورنہ گھر کھو جائیں گے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر وہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجئے پھر سمجھیۓ، زندگی کیا چیز ہے
ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں
آج جانا پیار کی جادو گری کیا چیز ہے
بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری
جھکتی آنکھوں نے بتایا مۓ کشی کیا چیز ہے

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو

دھوپ میں نکلو، گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے، کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
وہ ستارا ہے چمکنے دو یونہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے، اسے جسم بنا کر دیکھو
پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے، دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر تو دیکھو

ان کی مدحت کو قلم تحریر کر سکتا نہیں

نعتِ رسول مقبولﷺ

ان کی مدحت کو قلم تحریر کر سکتا نہیں
حرفِ موجِ نور کو زنجیر کر سکتا نہیں
جس کا مسلک پیرویٔ اسوۂ سرکارؐ ہے
کوئی اس انسان کو تسخیر کر سکتا نہیں
ذہن و دل کا مرکز و محور نہ ہو جب تک وہ ذات 
کوئی اپنی ذات کی تعمیر کر سکتا نہیں

وہ خواب ہی سہی پیش نظر تو اب بھی ہے

وہ خواب ہی سہی پیشِ نظر تو اب بھی ہے
بچھڑنے والا شریکِ سفر تو اب بھی ہے
زباں بریدہ سہی، میں خزاں گزیدہ سہی 
ہرا بھرا مرا زخمِ ہنر تو اب بھی ہے
لاکھ کڑے وقت نے دیوار ہجر اٹھا دی مگر 
خیال یار میرا ہمسفر تو اب بھی ہے

Tuesday, 29 November 2016

ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ

ہیں اشک مِری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
ہیں داغ مِرے سینے میں انجم سے زیادہ
سو رمز کی کرتا ہے اشارے میں باتیں
ہے لطف، خموشی میں تکلم سے زیادہ 
میخانے میں سو سو مرتبہ میں مر کے جیا ہوں
ہے قلقلِ مِینا مجھے قم قم سے زیادہ

جوش پر طوفانِ اشک اے دیدہ پر نم ہوا

جوش پر طوفانِ اشک اے دیدۂ پر نم ہوا
آگے تھا اک ہجر کا غم اب غمِ عالم ہوا
خاکساروں سے مِلا کرتے ہیں جھک کر سر بلند
آسماں پیشِ زمیں بہرِ تواضع خم ہوا
زندگی چشمِ جہاں میں خوار رکھتی ہے مدام
دوش پر سب نے لیا جب آدمی بے دم ہوا 

جل اٹھا باغ اس کی برق حسن کی تاثیر سے

جل اٹھا باغ اس کی برقِ حسن کی تاثیر سے
پھول اب گلچیں اٹھاتے ہیں تو آتش گیر سے
چھوٹتا ہے کب لہو میرا کسی تدبیر سے
تیغِ جوہردار قاتل ہے سوا زنجیر سے
مست ہے عالم مِرے اشعار کی تاثیر سے
مثلِ مِینا مے ٹپکتی ہے مِری تقریر سے

مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا

مِرا سینہ ہے مشرق آفتابِ داغ ہجراں کا ​
طلوعِ صبحِ محشر چاک ہے میرے گریباں کا​
ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں​
دلِ پُر داغ کو کیوں کر ہے عشق اس زلفِ پیچاں کا​
کسی خورشید رو کو جذبِ دل نے آج کھینچا ہے​
کہ نورِ صبحِ صادق ہے غبار اپنے بیاباں کا​

گھر سے باہر نکلے ہو تو گھر تک واپس آؤ بھی

گھر سے باہر نکلے ہو تو گھر تک واپس آؤ بھی
جیون ہی جب گھات میں ہو تو کہیں کہیں رک جاؤ بھی
اس کا کیا ہے وہ تو سب کا تم ہی اکیلے پھرے ہو
اب تم اپنے اکیلے پن کو اپنا میت بناؤ بھی
آنکھیں تم تھیں اور وہ اکثر نام تمہارا لیتا تھا
جانے والا اب نہ رکے گا، سوچو بھی آ جاؤ بھی

تم کہاں جا کے مری زحمتِ جاں کو سمجھو

تم کہاں جا کے مِری زحمتِ جاں کو سمجھو
مجھ میں بس جاؤ، مِرے دردِ نہاں کو سمجھو
ایسی افتاد تھی لب سی لیے ہم نے، لیکن
ہم پہ جو بیت گئی، اس کی زباں کو سمجھو
ہم کو خوش آیا ہے یوں جاں کا زیاں اب کے برس
چپ رہو تم بھی اگر جاں کے زیاں کو سمجھو

وعدہ کر کے نہ آنے والا آج بھی اب تک آیا نہیں

وعدہ کر کے نہ آنے والا آج بھی اب تک آیا نہیں
اس کو دیکھو آس کا مارا پگلا جی، گھبرایا نہیں
بات ہماری جھوٹ لگے تو اسکی گلی میں جا کر پوچھ
شام ہوئی گھر سے نکلا تھا، بھور بھئی، گھر آیا نہیں
کاجل گالوں پر پھیلا ہے، پیشانی بھی گیلی ہے
صبح کا چاند اور شام کا سورج کون گہن گہنایا نہیں

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا
فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ، تو بکھرنا ہی پڑے گا
پڑتی ہے تو پڑ جاۓ شِکن اس کی جبِیں پر
سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا

کفن بدوش ہم اپنے گھروں میں رہتے ہیں

کفن بدوش ہم اپنے گھروں میں رہتے ہیں
بے قید زیست اور مقبروں میں رہتے ہیں
جنہیں قریب سے سورج نظر نہیں آتا
وہ کم نگاہ بھی دیدہ وروں میں رہتے ہیں
یہاں زمیں کے تاجر تو ہیں بہت سے مگر
وطن فروش بھی سوداگروں میں رہتے ہیں

راہبر سو گئے ہمسفر سو گئے

راہبر سو گئے، ہم سفر سو گئے 
کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے
گیسوۓ وقت اب کون سلجھاۓ گا
بے خبر جاگ اٹھے، باخبر سو گئے 
یہ ہمارے مقدر کا اندھیر ہے
جب بھی نزدیک آئی سحر، سو گئے 

جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں

جسم پہ اپنے زخم سجانا سب کے بس کی بات نہیں
رت میں خزاں کی پھول کھلانا سب کے بس کی بات نہیں
خون سے اپنے دیپ جلانا سب کے بس کی بات نہیں
اپنے گھر کو آگ لگانا سب کے بس کی بات نہیں
یہ تو کام اسی کا ہے جو عشق کی آگ میں جل جائے
ذرے سے سورج بن جانا سب کے بس کی بات نہیں 

شعاع مہر سے خیرہ ہوئی نظر دیکھا

شعاعِ مہر سے خِیرہ ہوئی نظر دیکھا
نہ راس آیا ہمیں جلوۂ سحر، دیکھا 
خوشی سے غم کو کچھ اتنا قرِیب تر دیکھا 
جہاں تھی دھوپ وہیں سایۂ شجر دیکھا
جلا کے سوئے تھے اہلِ وفا، چراغِ وفا
کھلی جو آنکھ، اندھیرا شباب پر دیکھا

دست نازک سے تراشیدہ نہیں لگتا میں

دستِ نازک سے تراشیدہ نہیں لگتا میں
کیوں، تجھے حسن کا گرویدہ نہیں لگتا میں
تُو جو ہر روز نیا مشورہ دیتا ہے مجھے
کیا تجھے عشق میں سنجیدہ نہیں لگتا میں
یہ ہنر مجھ کو بڑی دیر کے بعد آیا ہے
رنج کے ساتھ جو رنجیدہ نہیں لگتا میں

جانے کیا سوچ کر بنا لیا ہے

جانے کیا سوچ کر بنا لیا ہے
خیر کو ہم نے شر بنا لیا ہے
صحن کے بیچ کھینچ دی ہے لکیر 
گھر کے اندر ہی گھر بنا لیا ہے
مستقل خواب ڈھونے والوں نے 
نیند کو رہگزر بنا لیا ہے

وفا کی جنگ مت کرنا کہ یہ بے کار جاتی ہے

وفا کی جنگ مت کرنا کہ یہ بیکار جاتی ہے
زمانہ جیت جاتا ہے، محبت ہار جاتی ہے
ہمارا تذکرہ چھوڑو، ہم ایسے لوگ ہیں جن کو 
نفرت کچھ نہیں کہتی، محبت مار جاتی ہے
چلی آتی ہے یہ جانے کس گلی سے شبِ ہجراں
نجانے کس کے گھر یہ ماتمی تلوار جاتی ہے

خود کو کسی کی راہگزر کس لیے کریں

خود کو کسی کی راہگزر کس لیے کریں
تُو ہمسفر نہیں تو سفر کس لیے کریں
جب تُو نے ہی نگاہ میں رکھا نہیں ہمیں
اب اور کسی کے ذہن میں گھر کس لیے کریں
کیوں تجھ کو یاد کر کے گنوائیں حسین شام
پلکوں کو تیرے نام پہ تر کس لیے کریں

رات سناٹے کی چادر میں پڑی ہے لپٹی

زندگی کا وقفہ

رات سناٹے کی چادر میں پڑی ہے لپٹی
پتیاں سڑکوں کی سب جاگ رہی ہیں جیسے
دیکھنا چاہتی ہیں شہر میں کیا ہوتا ہے
میں ہمیشہ کی طرح ہونٹوں میں سگریٹ کو دباۓ
سونے سے پہلے خیالات میں کھویا ہوا ہوں
دن میں کیا کچھ کیا اک جائزہ لیتا ہے ضمیر

نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں

بلاوا

نگر نگر کے دیس دیس کے پربت، ٹیلے اور بیاباں
ڈھونڈ رہے ہیں اب تک مجھ کو، کھیل رہے ہیں میرے ارماں
میرے سپنے، میرے آنسو، ان کی چھینر چھاؤں میں جیسے
دھول میں بیٹھے کھیل رہے ہوں بالک باپ سے روٹھے روٹھے
دن کے اجالے، سانجھ کی لالی، رات کے اندھیارے سے کوئی
مجھ کو آوازیں دیتا ہے، آؤ، آؤ، آؤ، آؤ

کوزہ گر​ کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے

کوزہ گر​

کہیں قومیت ہے کہیں ملک و ملّت کی زنجیر ہے
کہیں مذہبیت، کہیں حریت، ہر قدم پر عناں گیر ہے
اگر میں یہ پردہ ہٹا دوں جسے لفظ ماضی سے تعبیر کرتے رہے ہیں
اگر میں حدودِ زماں و مکاں سب مٹا دوں
اگر میں یہ دیواریں جتنی کھڑی ہیں گرا دوں
تو ہر قید اٹھ جائے، یہ زندگی جو قفس ہے

عمر گریزاں کے نام

عمر گریزاں کے نام
عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں 
اس کے دامن سے لپٹتا ہوں مناتا ہوں اسے 
واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا
داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے 
خواب ادھورے ہیں جو دہراتا ہوں ان خوابوں کو
زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے 

Monday, 28 November 2016

یہ مت سمجھ کے صاحب کردار نہیں ہوں

 یہ مت سمجھ کے صاحبِ کردار نہیں ہوں

جیسا بھی ہوں میں رونقِ بازار نہیں ہوں

بھاتی ہیں دل کو گو یہ تِری مسکراہٹیں

لیکن میں اس ادا کا طلبگار نہیں ہوں

جو بات تجھ میں ہے وہ کسی اور میں کہاں

لیکن میں تِرے پیار کا حقدار نہیں ہوں

پچھتا رہے ہیں تم پر دل کو نثار کر کے

پچھتا رہے ہیں تم پر دل کو نثار کر کے
کیسے بدل گئے ہو قول و قرار کر کے
‘تم نے کہا تھا ’جینا تم بِن محال ہے اب
برباد ہو گئے ہم یہ اعتبار کر کے
کھائے ہیں زخم اتنے چھلنی جگر ہوا ہے
فرصت ملے تو آؤ دیکھو شمار کر کے

وقت نازک ہے یہ پیغام سنایا جائے

وقت نازک ہے یہ پیغام سنایا جائے
ہر قدم سوچ سمجھ کر ہی اٹھایا جائے
منتشر رہنے میں اندیشۂ بربادی ہے
متحد رہنے کا پیمان کرایا جائے
فرقہ بندی نے کہیں کا نہیں چھوڑا ہم کو
مسلکی بغض کو اب دل سے مٹایا جائے

دارا گئے جہاں سے سکندر چلے گئے

دارا گئے جہاں سے، سکندر چلے گئے
چنگیز جیسے کتنے تونگر چلے گئے
ہٹلر بھی ایک قوم نہیں ختم کر سکا
اس جیسے بے شمار ستمگر چلے گئے
ان کی بساط کیا ہے جو چلتی ہیں آندھیاں
اٹھ کر یہاں سے کتنے بونڈر چلے گئے

ہم آشنا حیات سے اب ایسے کیا ہوئے

ہم آشنا حیات سے اب ایسے کیا ہوئے
جس نے دیا فریب، فدا برملا ہوئے
ایسی دروغ گوئی کی ہے چل پڑی ہوا
سچائیوں پہ شک کے گماں جابجا ہوئے
ہم پر جو اپنی جان لُٹانے کو آئے تھے
مشکل کے وقت لوگ وہی بے وفا ہوئے

شور اٹھتا ہے ندی نالوں میں دریاؤں میں

شور اٹھتا ہے ندی نالوں میں دریاؤں میں
چپ سمندر ہے کہیں اپنی ہی سیماؤں میں
ہر گھڑی کیسے بدل جاتے ہیں منظر یارو
زندگی دھوپ میں ہوتی ہے کبھی چھاؤں میں
ہر کوئی ہو کے ہی مجبور یہاں رقصاں ہے
وقت نے باندھ دئیے گھنگرو اگر پاؤں میں

تمھارے پیار میں جانم خوشی سے ڈول سکتے ہیں

تمہارے پیار میں جانم خوشی سے ڈول سکتے ہیں
تمہیں دل سے لگانے کو یہ باہیں کھول سکتے ہیں
ضروری تو نہیں کہ بات ہم کڑوی کریں سب سے
شہد لہجے سے ہم کانوں میں بھی رس گھول سکتے ہیں
ذرا سا مسکرا کر بات کرنے میں قباحت کیا
محبت میں دریچے دل کے سارے کھول سکتے ہیں

جگہ سب دلوں میں بنانے چلا ہوں

جگہ سب دلوں میں بنانے چلا ہوں 
میں دل دل میں الفت کو پانے چلا ہوں
خفا ہو گئے ہیں جو اک دوسرے سے
میں ان دوستوں کو منانے چلا ہوں
ہیں انساں مزیّن سبهی خوبیوں سے
یہ اک بات سب کو بتانے چلا ہوں

وہی حرص و ہوس کا تنگ زنداں ہے جہاں میں ہوں

وہی حرص و ہوس کا تنگ زنداں ہے جہاں میں ہوں
وہی انساں وہی دنیائے انساں ہے جہاں میں ہوں
تمنا قید، ہمت پا بہ جولاں ہے، جہاں میں ہوں
مجھے جکڑے ہوئے زنجیر امکاں ہے جہاں میں ہوں
کبھی شاید یہ محفل بھی ستاروں سے چمک اٹھے
ابھی تو اشکِ بے کس سے چراغاں ہے جہاں میں ہوں

بشر کو مشعل ایماں سے آگہی نہ ملی

بشر کو مشعلِ ایماں سے آگہی نہ ملی
دھواں وہ تھا کہ نگاہوں کو روشنی نہ ملی
خوشی کی معرفت اور غم کی آگہی نہ ملی
جسے جہاں میں محبت کی زندگی نہ ملی
یہ کہہ کے آخرِ شب شمع ہو گئی خاموش
کسی کی زندگی لینے سے زندگی نہ ملی

گزری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی

گزری حیات وہ نہ ہوئے مہرباں کبھی
سنتے تھے ہم کہ عشق نہیں رائیگاں کبھی
اتنا تو یاد سا ہے کہ ہم تھے جواں کبھی
پھرتی ہیں کچھ نگاہ میں پرچھائیاں کبھی
دو گل قفس میں رکھ کے نہ صیاد دے فریب
دیکھا ہے ہم نے جیسے نہیں آشیاں کبھی

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تاره بنا ڈالا

فلمی گیت، غزل

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تاره بنا ڈالا
میری آوارگی نے مجهـ کو آواره بنا ڈالا
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تاره بنا ڈالا

بڑا دلکش، بڑا رنگین ہے یہ شہر، کہتے ہیں
یہاں پر ہیں ہزاروں گهر، گهروں میں لوگ رہتے ہیں
مجهے اس شہر نے گلیوں کا بنجاره بنا ڈالا
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تاره بنا ڈالا

نہ کوئی امنگ ہے نہ کوئی ترنگ ہے

فلمی گیت

نہ کوئی امنگ ہے نہ کوئی ترنگ ہے
میری زندگی ہے کیا اک کٹی پتنگ ہے

آکاش سے گری میں اک بار کٹ کے ایسے 
دنیا نے پھر نہ پوچھو لوٹا ہے مجھ کو کیسے 
نہ کسی کا ساتھ ہے نہ کسی کا سنگ ہے
میری زندگی ہے کیا اک کٹی پتنگ ہے

آ جا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے

فلمی گیت

آ جا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے
او میرے متوا، میرے میت رے
آ جا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے

ترسے گی کب تک پیاسی نجریا
برسے گی کب میرے آنگن بدریا
چھوڑ کے آ جا، توڑ کے آجا

اگر دلبر کی رسوائی ہمیں منظور ہو جائے

فلمی گیت

اگر دلبر کی رسوائی ہمیں منظور ہو جاۓ
صنم تُو بے وفا کے نام سے مشہور ہو جاۓ

ہمیں فرصت نہیں ملتی کبھی آنسو بہانے سے
کئی غم پاس آ بیٹھے تِرے اک دور جانے سے
اگر تُو پاس آ بیٹھے تو سب غم دور ہو جاۓ
صنم تُو بے وفا کے نام سے مشہور ہو جاۓ

ہاں ساقی مستانہ بھر دے مرا پیمانہ

ہاں ساقئ مستانہ بھر دے مِرا پیمانہ
گھنگھور گھٹا ہے یا اڑتا ہوا مے خانہ
ہوتی ہیں شبِ غم میں یوں دل سے مِری باتیں
جس طرح سے سمجھائے دیوانے کو دیوانہ
کیا تم نے کہا دل سے، کیا دل نے کہا تم سے
بیٹھو تو سنائیں ہم اک روز یہ افسانہ

ہو چکے شکوے شکایت پھر خدا کے سامنے

ہو چکے شکوے شکایت پھر خدا کے سامنے
تم جو آ بیٹھو گے یوں ہی سر جھکا کے سامنے
وصل کی شب آسماں تاروں کے جامِ زرنگار
چاند کی کشتی میں لایا ہے لگا کے سامنے
کر رہے تھے غیر سے میری برائی آج وہ
کیا ہی جھینپے کی جو اک 'تسلیم' جا کے سامنے

یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں

یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے، کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
اک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
آرزؤں کا شباب اور مرگ حسرت ہائے ہائے
جب بہار آئی گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں

جوش الفت میں وہ قطرے کا فنا ہو جانا

جوشِ الفت میں وہ قطرے کا فنا ہو جانا
اس پہ دریا کا وہ لب تشنہ سوا ہو جانا
کوئی انداز ہے رہ رہ کے خفا ہو جانا
اپنے بندوں سے یہ کھچنا کہ خدا ہو جانا
ضبطِ غم سے مِری آہوں کے شرارے کجلائے 
بے ہوا کام ہے شعلے کا فنا ہو جانا 

رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی

رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
آنسو بہائے چار، طبیعت سنبھل گئی
میں نے ترس ترس کے گزاری ہے ساری عمر
میری نہ ہو گی جان جو حسرت نکل گئی
بے چین ہوں میں جب سے نہیں دل لگی کہیں
وہ درد کیا گیا کہ مِرے دل کی کل گئی

جبر کو اختیار کون کرے

جبر کو اختیار کون کرے
تم سے ظالم کو پیار کون کرے
زندگی ہے ہزار غم کا نام
اس سمندر کو پار کون کرے
آپ کا وعدہ، آپ کا دیدار 
حشر تک انتظار کون کرے

Sunday, 27 November 2016

قفس کی تیلیوں سے لے کہ شاخ آشیاں تک ہے

قفس کی تیلیوں سے لے کہ شاخ آشیاں تک ہے 
مِری دنیا یہاں سے ہے، مِری دنیا وہاں تک ہے
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے
خدا جانے کہاں سے جلوہؑ جاناں کہاں تک ہے
وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے

اٹھتا ہوا ہستی کا پردہ نظر آتا ہے

اٹھتا ہوا ہستی کا پردہ نظر آتا ہے
اب جلوہ حقیقت میں جلوہ نظر آتا ہے
ہر قطرے میں دریا کی موجیں نظر آتی ہیں 
ہر بندے کی صورت میں مولا نظر آتا ہے
اس صورتِ ظاہر کے نقشے کو مٹا پہلے 
پھر دیکھ تجھے تجھ میں، کیا کیا نظر آتا ہے

مکین دل نہ سمجھے پردہ دار لامکاں سمجھے

مکینِ دل نہ سمجھے، پردہ دارِ لامکاں سمجھے
کہاں تھے تم، مگر ہم کم نگاہی سے کہاں سمجھے
ہوئے خاموش جب فطرت کو اپنا ترجمہ سمجھے
ہر اک غنچے کو دل، ہر خار کو اپنی زباں سمجھے
فقط تھا امتحاں منظور جذبِ شوقِ کامل کا 
اٹھے پردے تو رازِ خنداں ہائے پاسباں سمجھے

ساقی پی کے ترے ہاتھ سے مستانہ بنوں

ساقی پی کے تِرے ہاتھ سے مستانہ بنوں
وجد میں رقص کناں صورت پیمانہ بنوں
لیلیٰ پردہ نشیں ہو، کبھی قیس عریاں
شمعِ محفل ہوں کبھی اورکبھی پروانہ بنوں
سر تا پا، نظرِ شوق کی پتلی بن کر
محوِ دیدارِ جمالِ رخِ جانانہ بنوں

سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں

سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
سفینہ جس کا ہے طوفاں وہ نا خدا ہوں میں
خود اپنے جلوۂ ہستی کا مبتلا ہوں میں
نہ مدعی ہوں نہ کسی کا مدعا ہوں میں
دیکھ لو شکل میری کس کا آئینہ ہوں میں
یار کی شکل ہے اور یار میں فنا ہوں میں

زبان شہر پر تازہ کہانی چھوڑ جاتا ہے

زبانِ شہر پر تازہ کہانی چھوڑ جاتا ہے
بچھڑتے وقت وہ اپنی نشانی چھوڑ جاتا ہے
چلا جاتا ہے خود صحرا سے ملنے کیلئے لیکن
ہماری منتظر آنکھوں میں پانی چھوڑ جاتا ہے
در و دیوارِ جسم و جاں کھنڈر سے لگنے لگتے ہیں
کوئی جب شہرِ دل کی حکمرانی چھوڑ جاتا ہے

دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے

عارفانہ کلام حمدیہ کلام

دل بھی ہے وہی دل کی تمنا بھی وہی ہے 
دنیا بھی وہی حاصل دنیا بھی وہی ہے
شکلیں ہیں الگ اس کی نہیں اور کوئ فرق 
دریا بھی وہی وسعت صحرا بھی وہی ہے
ہر کوئی مصیبت میں پریشان ہے ناحق 
غم بھی ہے وہی غم کا مداوا بھی وہی ہے

عظمتوں کا نشاں ہے تیرا نام

عارفانہ کلام حمدیہ کلام

عظمتوں کا نشاں ہے تیرا نام 
اک حسیں داستاں ہے تیرا نام
مجھ کو تجھ سے شکایتیں کیا کیا 
پھر بھی وردِ زباں ہے تیرا نام
دل میں یہ جذبے ہی سہی، لیکن 
روح میں بھی رواں ہے تیرا نام

سخت حیرت ہے کہ اب مبہم سی تصویروں میں ہے

سخت حیرت ہے کہ اب مبہم سی تصویروں میں ہے
کل جو میرِ کارواں تھا آج رہگیروں میں ہے
صاف گوئی کے لیے ہوں ہر سزا کا مستحق
اور کیا تقصیر کوئی میری تقصیروں میں ہے
ایسا لگتا ہے کہ ہم دونوں رہے ہیں ہم سفر
اسکا چہرہ بھی مِرے ماضی کی تصویروں میں ہے

یہ الگ بات زیادہ کبھی کم ہوتی ہے

یہ الگ بات، زیادہ کبھی کم ہوتی ہے
کیفیت دل کی ہر چہرے پہ رقم ہوتی ہے
دیر و کعبہ میں فقط سجدے ادا ہوتے ہیں
یہ ہے مۓ خانہ یہاں پُرسشِ غم ہوتی ہے
جب تمنا کے بیاباں سے گزرتا ہوں کبھی
دل بھی افسردہ سا اور آنکھ بھی نم ہوتی ہے

خوف کی علامت ہے رات کا سوا ہونا

خوف کی علامت ہے رات کا سوا ہونا
اس لئے تو لازم ہے ہاتھ میں دِیا ہونا
تیری یاد سے غافل کس طرح بھلا ممکن
جب تلک ہے تن پہ سر سانس کا روا ہونا
حاجتیں ضروری ہیں زندگی کے دامن میں
زندگی میں لازم ہے زندہ و بقا ہونا

آؤ پھر مل کے خواب ہو جائیں

آؤ پھر مل کے خواب ہو جائیں
دشت میں اک سراب ہو جائیں
جیسے بہتی تھی آگ پانی میں 
ایسے مثلِ حباب ہو جائیں
پھر ہوا ڈھونڈتی پھرے ہم کو 
پا سکے نہ حجاب ہو جائیں

آیا ترا خیال تو لب مثل گل ہلے

آیا تِرا خیال تو لب مثلِ گل ہِلے
آہٹ ہوئی تو ایسے لگا جیسے دل ہلے
سوچا تجهے تو حسن کا بہتا ہوا دریا
دیکها تو وقت جیسے رکا اور پَل ہلے
رستے میں دیکهنے کو مناظر کی انتہا
لیکن تِرے خیال سے ہرگز نہ دل ہلے

یقین آتا نہیں کیسے ہو گئے مٹی

یقین آتا نہیں کیسے ہو گئے مٹی 
ہوا نے درد سمیٹا تو بو گئے مٹی
صبح کا اسمِ حسیں تھے حسین سحر تم 
ڈھلی دوپہر ہوئی شام سو گئے مٹی
سپردِ خاک ہوئے تھے جہاں ادائے شہر 
پڑی جو قلب پہ تم نذر ہو گئے مٹی

شام پھر صحن میں اتر آئی

شام پھر صحن میں اتر آئی
بام و در سے اداسی گھر آئی
کیسے گزرا تھا سوچ کے یہ دن 
کس طرح چھپ کے شب سنور آئی
گم ہوئے کیسے دن میں خد و خال 
رات میں نکھرے جب وہ در آئی

سکوں ٹوٹا چلی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ

سکوں ٹوٹا چلی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ
بدلنے کو ہے یہ رنگ فضا آہستہ آہستہ
جنہیں ریگِ حوادث کی تہوں نے ڈھانپ رکھا تھا
ابھرنے کو ہیں پھر وہ نقشِ پا آہستہ آہستہ
وہ خوں جس نے ہمارے شہر کی مٹی کو سینچا تھا
اُگے گا صورتِ برگِ حنا آہستہ آہستہ

اب صاحب دوراں آتے ہیں اب فاتح میداں آتے ہیں

اب صاحب دوراں آتے ہیں، اب فاتحِ میداں آتے ہیں
وہ شیر تو شیرِ قالیں تھے، اب شیرِ نیستاں آتے ہیں
جو تند بگولوں سے الجھے، وہ عزمِ سفر کی بات کرے
اس منزل کے رستے میں کتنے ہی بیاباں آتے ہیں
آہنگ و تفنگ و تیر میں ہم، گاتے ہیں سرودِ آزادی
ہنگامۂ دار و گیر میں ہم سرمست و غزلخواں آتے ہیں

یادگار بادہ و پیمانہ ہیں

یادگارِ بادہ و پیمانہ ہیں
ہم چراغِ کشتۂ میخانہ ہیں
چند تنکوں میں نہ تھا لطفِ بہار
چند شعلے زینتِ کاشانہ ہیں
ہر حقیقت ہے فریبِ اعتبار
یہ حسیں جلوے اگر افسانہ ہیں

ادھر کی ہوا جب ادھر آ گئی

اُدھر کی ہوا جب اِدھر آ گئی
دلِ زار کو اور تڑپا گئی
جسے دل دیا ہم نے دل دے دیا
طبیعت جدھر آ گئی، آ گئی
دلِ زار میں نے کہا چرخ کو
مگر اس ستم گار پر چھا گئی

سر تن سے کہ تن سر سے جدا ہو نہیں سکتا

سر تن سے کہ تن سر سے جدا ہو نہیں سکتا
قاتل جو سلامت ہو تو کیا ہو نہیں سکتا
ہر وقت کے دکھ درد کا ساتھی ہے غمِ عشق
یہ دوست کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
شرما سے گئے کچھ وہ دمِ تذکرۂ وصل
جھیپے ہوئے لہجے میں کہا ہو نہیں سکتا

وہ شوخ اور دے مجھے ساغر شراب کا

وہ شوخ اور دے مجھے ساغر شراب کا
اب کس کو ہے خیال عذاب و ثواب کا
بے چین ہو کے بزم سے آخر وہ اٹھ گئے
دیکھا گیا نا حال میرے اضطراب کا
کہنے چلا ہے یار سے بے تابیوں کا حال
دیکھو تو حوصلہ دلِ پُر اضطراب کا

وہ شخص کیا ہوا وہ اس کا گھر کہاں ہو گا

وہ شخص کیا ہوا وہ اس کا گھر کہاں ہو گا
اب اس دیار میں، مجھ سے بسر کہاں ہو گا
میں جس کے ساۓ میں جا بیٹھتا تھا دن دن بھر
کوئی بتاۓ کہ اب وہ شجر کہاں ہو گا
نظر جھکا کے چرا لے گیا جو ہوش و خرد
پھر اس کا سامنا اب عمر بھر کہاں ہو گا

یہ کھڑکیاں تھیں یہ دیوار تھی یہاں در تھا

یہ کھڑکیاں تھیں یہ دیوار تھی یہاں در تھا
اسی زمین پہ یارو! کبھی میرا گھر تھا
درونِ دل کوئی ویرانہ بس گیا ہو گا
وگرنہ باغ میں ایسا نہ کوئی منظر تھا
میں خود کو سنگِ درِ دوست بھی سمجھ بیٹھا
وگرنہ میں تو مہ و مہر سے بھی برتر تھا

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں
میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں
مِری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیقِ آشنائی نہ دے
میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
میرے دِیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے

ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے

ہم غزل میں تِرا چرچا نہیں ہونے دیتے
تیری یادوں کو بھی رسوا نہیں ہونے دیتے​
کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے​
عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لیے
ہم کسی گھر میں اجالا نہیں ہونے دیتے​

فصیل جاں میں دریچہ لگانے والا ہوں

فصیلِ جاں میں دریچہ لگانے والا ہوں
میں تجھ سے اور تعلق بڑھانے والا ہوں
تِرے لیے مجھے لاہور سے محبت ہے
یہ بات سارے جہاں کو بتانے والا ہوں
سہیلیوں میں سنائے گی تُو غزل میری
گٹار پر میں جسے گنگنانے والا ہوں

یہ جو چڑیوں نے بہت شور مچایا ہوا ہے

یہ جو چڑیوں نے بہت شور مچایا ہوا ہے
ایسا لگتا ہے کہ ملنے کوئی آیا ہوا ہے
میرے گھر میں تِری آوازیں ہیں پھیلی مِری جاں
یہاں میلہ تِری یادوں نے لگایا ہوا ہے
یہ جو تم قصہ محبت کا سناتے ہو مجھے
وہی قصہ ہے کہ جو میرا سنایا ہوا ہے

نہ جانے کیا بات ہے کہ جس پر اڑا ہوا ہوں

نہ جانے کیا بات ہے کہ جس پر اڑا ہوا ہوں
میں آج کل اپنے آپ سے بھی لڑا ہوا ہوں
تُو کتنی صدیوں سے چھوڑ کر جا چکا ہے مجھ کو
مگر میں تیرے ہی راستے میں پڑا ہوا ہوں
کبھی جو موسم سے ہار جاؤ، تو لوٹ آنا
کہ میں تناور شجر وہیں پر کھڑا ہوا ہوں

اس زلف جاں کوں صنم کی بلا کہو

اس زلفِ جاں کوں صنم کی بلا کہو
افعی کہو، سیاہ کہو، اژدھا کہو
قاتل نگہ کوں پوچھتے کیا ہو کہ کیا کہو
خنجر کہو، کٹار کہو، نیمچا کہو
ٹک واسطے خدا کے مِرا عجز جا کہو
بے کس کہو، غریب کہو، خاک پا کہو

شوق بڑھتا ہے مرے دل کا دل افگاروں کے بیچ

شوق بڑھتا ہے مِرے دل کا دل افگاروں کے بیچ
جوش کرتا ہے جنوں مجنوں کا گلزاروں کے بیچ
عاشقاں کے بیچ مت لے جا دلِ بے شوق کو
شیشۂ خالی کو کیا عزت ہے میخواروں کے بیچ
رو بہ رو اور آنکھ اوجھل ایک ساں ہو جس کا پیار
اس طرح کا کم نظر آتا ہے کوئی یاروں کے بیچ

بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ

بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ
کہ جوں کر گرم ہو ہے آفتاب آہستہ آہستہ
کیا خط نیں ترے مکھ کوں خراب آہستہ آہستہ
گہن جوں ماہ کوں لیتا ہے داب آہستہ آہستہ
لگا ہے آپ سیں اے جاں ترے عاشق کا دل رہ رہ
کرے ہے مست کوں بے خود شراب آہستہ آہستہ

بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں

بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے در کی راحت کہاں سے لائیں
ڈھونڈیں کہاں وہ نالۂ شبِ تاب کا جمال
آہِ سحر گہی کی صباحت کہاں سے لائیں
سمجھائیں کیسے دل کی نزاکت کا ماجرہ
خاموشئ نظر کی خطابت کہاں سے لائیں

ہم ایک خواب لیے ماہ و سال سے گزرے

ہم ایک خواب لیے ماہ و سال سے گزرے
ہزاروں رنج، ہزاروں ملال سے گزرے
ہمیں ملا جو کوئی آسماں تو صورتِ ماہ
نہ جانے کتنے عروج و زوال سے گزرے
کبھی غریبوں کی آہوں میں کی بسر ہم نے
کبھی امیروں کے جاہ و جلال سے گزرے

شریک محفل دار و رسن کچھ اور بھی ہیں

شریک محفل دار و رسن کچھ اور بھی ہیں
ستم گرو! ابھی اہلِ کفن کچھ اور بھی ہیں
رواں رواں یونہی اے ننھی بوندیوں کے ابر
کہ اس دیار میں اجڑے چمن کچھ اور بھی ہیں
خدا کرے نہ تھکیں حشر تک جنوں کے پاؤں
ابھی مناظرِ دشت و دمن کچھ اور بھی ہیں

Saturday, 26 November 2016

کس سمت لے گئیں مجھے اس دل کی دھڑکنیں

کس سمت لے گئیں مجھے اس دل کی دھڑکنیں
پیچھے پکارتی رہیں منزل کی دھڑکنیں
گو تیرے التفات کے قابل نہیں،۔۔ مگر
ملتی ہیں تیرے دل سے مرے دل کی دھڑکنیں
مخمور کر گیا مجھے تیرا خرامِ ناز
نغمے جگا گئیں تِری پائل کی دھڑکنیں

انساں ہوں گھر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں

انساں ہوں گھِر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
یادوں کے نقش کندہ ہیں ناموں کے روپ میں
ہم نے بھی دن گزارے درختوں کی چھاؤں میں
دوڑا رگوں میں خوں کی طرح شور شہر کا
خاموشیوں نے چھین لیا چین گاؤں میں

وہی لڑکی بھوری آنکھوں والی

وہی لڑکی
بھوری آنکھوں والی لڑکی
تجھ سے پہلے میرے پاس بھی آتی تھی
اپنے گھر کی اک اک بات سناتی تھی
مہندی اور وسمے سے عاری کالے بالوں والی امی
جلتے چراغوں جیسے آنکھوں والی بہنوں

صبا خمار تھی موسم شراب ایسا تھا

صبا خمار تھی، موسم شراب ایسا تھا
بدن کی شاخ پہ چہرہ گلاب ایسا تھا
اک اضطراب سا لفظوں کی کائنات میں تھا
تہِ خیال کہیں پیچ و تاب ایسا تھا
سحر تھی سادہ ورق، آفتاب کاتب تھا
ظہورِ عالمِ امکاں، کتاب ایسا تھا

کیا لمس تھا کہ سارا بدن جگمگا گیا

کیا لمس تھا کہ سارا بدن جگمگا گیا
پردے اٹھے، نقاب ہٹے، فاصلہ گیا
پھر ایک دن ہوا نے کہا، میں تو تھک گئی
خوشبو کا بوجھ میری کمر کو جھکا گیا
ٹھہرو کہ آئینوں پہ ابھی گرد ہے جمی
سینوں کا سارا زہر نگاہوں میں آ گیا

چلی کب ہوا کب مٹا نقش پا

سفر کا دوسرا مرحلہ

چلی کب ہوا، کب مٹا نقش پا 
کب گری ریت کی وہ ردا 
جس میں چھپتے ہوئے تُو نے مجھ سے کہا؛
آگے بڑھ، آگے بڑھتا ہی جا 
مڑ کے تکنے کا اب فائدہ؟ 

Friday, 25 November 2016

ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے

ملال ہے، مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کے شدت سے لال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکرمند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے، اڑان سے پہلے
یہ شوقِ ہجر ہے، شوقِ وصال تھوڑی ہے

تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے

تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
پھر موسمِ بہار مرے گلستاں میں ہے
اک خواب ہے کہ بارِ دِگر دیکھتے ہیں ہم
اک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے
تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سوا
جگنو سی یہ زمیں جو کفِ آسماں میں ہے

وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہوا

وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
براہِ راست ملاقات کو زمانہ ہوا
وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا بلاوا تو اک بہانہ ہوا
خدا کرے تِری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
یہ آنکھیں جن کو کبھی دکھ کا حوصلہ نہ ہوا

پھر ایک بار تجھی سے سوال کرنا ہے

پھر ایک بار تجھی سے سوال کرنا ہے
نگاہ میں تیرا منصب بحال کرنا ہے
لہو سے سینچ دیا اور پھر یہ طے پایا
اسی گلاب کو اب پائمال کرنا ہے
اس ایک مرہمِ نو روز و لمسِ تازہ سے
پرانے زخموں کا بھی اِندمال کرنا ہے

کون ناموس رسالت کا نگہبان ہو گیا

اقتباس از نوحۂ امام عالی مقام بر امام حسین

کون ناموسِ رسالت کا نگہبان ہو گیا
کس کا سر نیزے کو پہنچا کون قرباں ہو گیا
کس نے کی صبحِ ملوکیت کی شامِ اولیں
کون شمعِ ظلمتِ شامِ غریباں ہو گیا
کس کی شہ رگ پر یزیدی ہاتھ اٹھے بے دریغ
کون تھا، جس کا لہو، تفسیرِ قرآں ہو گیا

قرن اول کی روایت کا نگہدار حسین​

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

قرنِ اول کی روایت کا نگہدار حسین​
بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرارؓ حسینؓ
عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم​
وادیٔ نجد میں اسلام کی للکار حسین​
کوئ انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو​
اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین​

ہوں مرے ماں باپ قرباں اس مقدس نام پر

عارفانہ کلام منقبت سلام بر ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ

ہوں مرے ماں باپ قرباں اس مقدس نام پر
عائشہؓ کے سینکڑوں احسان ہیں اسلام پر
جس کی عفت کی گواہی دی کلام اللہ نے
جس کی غیرت کے نشاں ہیں دامنِ ایام پر
جس کو بخشا تھا پیمبرﷺ نے ”حمیرا“ کا لقب
مہر و مہ کی رونقیں قربان اس کے نام پر

اگر ام القریٰ میں خالق کونین نے شورش

آرزو 

اگر ام القریٰ میں خالق کونین نے شورشؔ
بہ عہدِ احمدِ مرسلﷺ مجھے پیدا کیا ہوتا
حِرا کی خاک میں تحلیل میرے جسم و جاں ہوتے
میری لوحِ جبیں پر آپﷺ ہی کا نقش پا ہوتا
قدوم سرورِ کونینﷺ کی عظمت بحمد للہ
میں خاکِ رہگزر ہوتا تو پھر بھی کیمیا ہوتا

ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم صلی اللہ علیہ و سلم

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
نعت رسول مقبولﷺ

ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم
صلی اللہ علیہ و سلم
تیرے ثنا خواں عالم عالم
صلی اللہ علیہ و سلم
ہم ہیں تیرے نام کے لیوا
اے دھرتی کے پانی دیوا

Wednesday, 23 November 2016

ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے

ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے
وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
پیار کی خاطر کبھی ہم کر سکتے ہیں
وہ تیری مزدوری بھی ہو سکتی ہیں
سکھ کا دن کچھ پہلے بھی چڑھ سکتا ہے
دکھ کی رات عبوری بھی ہو سکتی ہے

کیا کہا جائے محبت کیا ہے

کیا کہا جائے محبت کیا ہے
دیکھ لو! یہ مِری حالت کیا ہے
تم نہ اجڑے نہ گھروں سے نکلے
تمہیں کیا علم کہ غربت کیا ہے
جب تِرے بندے ہی منکر ہیں تِرے
پھر تِرا قبضۂ قدرت کیا ہے

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
اب اس بات پہ میرے یار الجھتے ہیں
کہ ہر بات سن لیتا ہوں، جذباتی نہیں ہوتا
گرفتارِ وفا! رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا

راہ بھولا ہوں مگر یہ مری خامی تو نہیں

راہ بھولا ہوں مگر یہ مِری خامی تو نہیں
میں کہیں اور سے آیا ہوں مقامی تو نہیں
اونچا لہجہ ہے فقط زورِ دلائل کے لئے
یہ مِری جان! مِری تلخ کلامی تو نہیں
ان درختوں کو دعا دو کہ جو رستے میں نہ تھے
جلدی آنے کا سبب تیز خرامی تو نہیں

جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے

جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے
مِرے یقیں کو قرین قیاس اتارتی ہے
ہمارے شہر کی یہ وحشیانہ آب و ہوا
ہر ایک روح میں جنگل کی باس اتارتی ہے
یہ زندگی تو لبھانے لگی ہمیں ایسے
کہ جیسے کوئی حسینہ لباس اتارتی ہے

شکست زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا

شکستِ زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا
تو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا
کہا نہیں تھا مِرا جسم اور بھر یا رب
سو اب یہ خاک تِرے پاس بچ گئی ہے نا
میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں
مگر جو بیچ میں کمبخت شاعری ہے نا

ساقی رخ حیات سے پردہ اٹھا دیا

ساقی! رخِ حیات سے پردہ اٹھا دیا
جامِ سفال میں یہ مجھے کیا پلا دیا
بسملؔ ہی تھا جو وقتِ اجل مسکرا دیا
دنیا کو اس کی موت نے جینا سکھا دیا
ہم نے نہیں تو کس نے نظر کو زبان دی
حالِ زبوں کہا نہ گیا، اور سنا دیا

شباب نودمیدہ پر گدا ہونے کا وقت آیا

شبابِ نَودمیدہ پر گدا ہونے کا وقت آیا
خدا کے نام سے ناآشنا ہونے کا وقت آیا
تِری زلفوں کے سایہ سے جدا ہونے کا وقت آیا
پھر اپنے بخت پر ماتم سرا ہونے کا وقت آیا
نویدِ وصل دینا مجھے پلکوں کے سایہ میں
دو عالم کی حدوں سے ماورأ ہونے کا وقت آیا

حاصل فردوس تو ہو جائے ویرانہ ابھی

حاصل فردوس تو ہو جائے ویرانہ ابھی
مائلِ گِریہ نہیں ہے تِرا دیوانہ ابھی
میں بدل تو دوں زمانے کا یہ فرسودہ نظام
مجھ تک آیا ہی نہیں اے دوست! پیمانہ ابھی
آگ میں جل کر وصالِ دوست ہوتا ہے نصیب
ہے طوافِ شمع میں مصروف پروانہ ابھی

ہم ترے ہر راز سے محرم رہے

ہم تِرے ہر راز سے محرم رہے
خوش رہے، گو مبتلائے غم رہے
جب تک اس باغِ جہاں میں ہم رہے
مبتلائے آفتِ پیہم رہے
ہم بنے ہیں تختۂ مشقِ ستم
امتحاں گاہِ وفا میں ہم رہے

اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا

اک آفتِ جاں ہے جو مداوا مِرے دل کا
اچھا کوئی پھر کیوں ہو مسیحا مرے دل کا
کیوں بِھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشہ ہے تڑپنا مرے دل کا
بازارِ محبت میں کمی کرتی ہے تقدیر
بن بن کے بِگڑ جاتا ہے سودا مرے دل کا

کیوں خرابات میں لاف ہمہ دانی واعظ

کیوں خرابات میں لافِ ہمہ دانی واعظ
کون سنتا ہے تِری ہرزہ بیانی واعظ
دفترِ وعظ کے نقطے بھی نہ ہوں گے اتنے 
جتنے ہیں دل میں مِرے داغِ نہانی واعظ
سچ سہی جنت و دوزخ کا فسانہ، لیکن 
کس طرح مان لوں میں تیری زبانی واعظ

چاندنی رہتی ہے شب بھر زیر پا بالائے سر​

چاندنی رہتی ہے شب بھر زیرِ پا بالائے سر​
ہائے میں اور ایک چادر زیرِ پا بالائے سر​
خار ہائے دشتِ غربت داغِ سودائے جنوں​
کچھ نہ کچھ رکھتا ہوں اکثر زیرِ پا بالائے سر​
بھاگ کر جاؤں کہاں پست و بلندِ دہر سے​
ہیں زمین و چرخ گھر گھر زیرِ پا بالائے سر​

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب
اس کے جانے کا دکھ ہوا ہے اب
میری آنکھوں میں خواب ہیں جس کے
اس کی آنکھوں میں رت جگا ہے اب
سنتے آتے ہیں قافلہ دل کا
رہ گزر میں کہیں رکا ہے اب

حادثہ روز نیا واقعہ تھا روز وہی

حادثہ روز نیا واقعہ تھا روز وہی
زخم ہر لمحہ نئے درد ملا روز وہی
وہی اک وصل کی خواہش کیلئے ہجر کی شام
وحشت جاں کے لئے حرفِ دعا روز وہی
وہی اک شخص کی خاطر نئی بست کا پتہ
شکلیں پر روز نئی راہ وفا روز وہی

دیکھوں تو شہر بھر ہی تماشا دکھائی دے

دیکھوں تو شہر بھر ہی تماشا دکھائی دے
چیخوں تو پیڑ پات بھی بہرا دکھائی دے
ہر شخص اپنے آپ کو کرتا رہے تلاش
ہر شخص اپنے اپ میں چھپتا دکھائی دے
میں ہی نہیں ہوں اپنی تباہی کی داستاں
وہ بھی اب اپنے آپ سے لڑتا دکھائی دے

Tuesday, 22 November 2016

پھونکا کرتی تھی اماں کان میں کیا

پھونکا کرتی تھی اماں کان میں کیا
ہے وظیفہ وہ تیرے دھیان میں کیا
وہ جو ہے گاؤں میں بزرگوں کا
آتا جاتا ہے اس مکان میں کیا؟
رقص کرتی تھیں خوشبوئیں گھر میں
اماں رکھتی تھی پاندان میں کیا

دم گھٹ نہ جائے ہجر کے سوز و گداز سے

دم گھٹ نہ جائے ہجر کے سوز و گداز سے 
پردے اٹھا بھی دیجئے راز و نیاز سے 
یا رب یہی گلہ ہے تعصب طراز سے 
“اہلِ حرم کو ضد ہے ہماری نماز سے” 
افسوس یہ رہے گا ہمیشہ، کہ میرا نام 
منسوب ہو نہ پایا کتابِ ایاز سے 

عکس جب اس کا رو برو رکهنا

عکس جب اس کا روبرو رکهنا
اپنی آنکهوں کو با وضو رکهنا
سننے والوں کے دل مہک اٹهیں
اپنے لفظوں میں ایسی بو رکهنا
پاس رکهنا سدا، وفاؤں کا
یوں محبت کی آبرو رکهنا

کسی کے دل کو اگر تابعدار کرنا ہے

کسی کے دل کو اگر تابعدار کرنا ہے
ضروری لہجہ بھی نرم اختیار کرنا ہے
کسی یتیم کو شفقت سے دیکھ لینا بھی
نگاہ و دل کو عبادت گزار کرنا ہے
سنبھالو بادباں، پتوار، کشتیاں، تم ہی
ہمیں تو ڈوب کے دریا کو پار کرنا ہے

اس نے بھی آنا جانا چھوڑ دیا

اس نے بھی آنا جانا چھوڑ دیا
جس کی خاطر زمانہ چھوڑ دیا
خوفِ طوفاں سے آج بھی ہم نے
کیا دِیوں کو جلانا چھوڑ دیا
چھَل فریبی سے اب تو باز آؤ
ہم نے اب دھوکا کھانا چھوڑ دیا

کب سوچا تھا ایسا ہو گا

کب سوچا تھا ایسا ہو گا
اجلا دَھن بھی کالا ہو گا
کل تک جس پر ناز تھا سب کو
آج وہ وہ کھوٹا سِکہ ہو گا
چائے پییں گے شکر کی
جیب میں جبکہ پیسہ ہو گا

افضل المخلوق شاہکار ہے

افضل المخلوق شاہکار ہے
آدمی جو صاحبِ کردار ہے
رمزِ الفت بھول بیٹھے ہیں سبھی
جبکہ ہر کوئی ہی دعوے دار ہے
لوگ پڑھتے ہیں بڑے ہی غور سے
گویا کہ چہرہ نہیں اخبار ہے

شوق الفت کا زمانہ تمہیں اب یاد نہیں

شوقِ الفت کا زمانہ تمہیں اب یاد نہیں
بام پر روز کا آنا تمہیں اب یاد نہیں
وہ تبسم وہ ادائیں وہ اشارے مجھ کو
تیر نظروں کے چلانا تمہیں اب یاد نہیں
دیکھنا شوق میں اور خود ہی حیا کے باعث
اپنی نظروں کو جھکانا تمہیں اب یاد نہیں

جتنا تمہیں ہے پیارا اتنا ہمیں یہ پیارا

جتنا تمہیں ہے پیارا اتنا ہمیں یہ پیارا
جو عقل سے ہیں کورے ان کو نہیں گوارا
ہم نے بھی سرحدوں پہ لڑ لڑ کے جان دی ہے
یہ سر پھرے نہ سمجھیں ان کا ہے بس اجارہ
رہنا ہے ساتھ ہی جب پھر مل کے رہنا سیکھو
تم بانٹو غم ہمارے، ہم بانٹیں دکھ تمہارا

جو حاکم ہیں وہی اشرار دیکھوں

جو حاکم ہیں وہی اشرار دیکھوں
ستم ہوتے سرِ بازار دیکھوں
امیروں کے اثاثوں پر اثاثے 
غریبوں کو بہت لاچار دیکھوں
کروں امید منزل کی میں کیسے
بھٹکتا قافلہ سالار دیکھوں

Monday, 21 November 2016

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ دے

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ دے
تُو تو صاحب میرا محبوب الہٰی
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ دے

ہمری چنریا، پیا کی پگریا
وہ تو دونوں بسنتی رنگ دے

جو تُو مانگے رنگ کی رنگائی
مورا جوبن گِروی رکھ لے

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
کیسے بھر لاؤں متھرا سے مٹکی
میں جو گئی تھی پنیا بھرن کو
دوڑ، جھپٹ، موری مٹکی پٹکی
بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
کیسے بھر لاؤں متھرا سے مٹکی

میں تو پیا سے نیناں لڑا آئی رے

میں تو پیا سے نیناں لڑا آئی رے
میں تو پیا سے نیناں لڑا آئی رے
گھر ناری کنواری کہے سو کرے
میں تو پیا سے نیناں لڑا آئی رے
سوہنی صُورتیا، موہنی مُورتیا
میں تو ہِردے کے پیچھے سما آئی رے

ز حال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں

ز حالِ مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے

بنتِ لمحات
تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے
اسے بھلا سا کوئ نام دو، وفا کی جگہ
غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر
دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی
رواں دواں ہوۓ خوشبو کے قافلے ہر سُو
خلاۓ صبح میں گونجی سحر کی شہنائ

درد کی حد سے پرے

درد کی حد سے پرے
درد کی حد سے پرے کوئ نہیں جا سکتا
درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں
ایک سناٹا ہے، احساس کی ادراک کی موت
یہ کُرہ، گھومتی پھرتی یہ ستم کوش زمیں
خاک اور آب کا اک گولا ہے بے رونق سا
آؤ چھپ جائیں، چلو موت کے ڈر سے بھاگیں

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں

بے تعلقی
شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں
جو کبھی سنگِ گراں بن کے مِرے سر پہ گِرا
راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر
جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا
اشک بن کر مِری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے
جو کبھی خونِ جگر بن کے مِژہ پر آیا

جب نئے شہر میں جاتا ہوں وہاں کے در و بام

نیا شہر

جب نئے شہر میں جاتا ہوں، وہاں کے در و بام
لوگ وارفتہ، سراسیمہ، دکانیں، بازار
بت نئے راہنماؤں کے، پرانے معبد
حُزن آلود شفا خانے مریضوں کی قطار
تار گھر، ریل کے پل، بجلی کے کھمبے، تھیٹر
راہ میں دونوں طرف نیم برہنہ اشجار

نقرئی گھنٹیاں سی بجتی ہیں

دور کی آواز
نقرئی گھنٹیاں سی بجتی ہیں
دھیمی آواز میرے کانوں میں
دور سے آ رہی ہے، تم شاید
بھولے بِسرے ہوۓ زمانوں میں 
اپنی میری شرارتیں، شکوے 
یاد کر کر کے ہنس رہی ہو کہیں

اختر الایمان

Sunday, 20 November 2016

سر سے اونچا نہ رکھوں کیوں بھلا دستار کو میں

سر سے اونچا نہ رکھوں کیوں بھلا دستار کو میں
داغ لگنے نہیں دیتا کبھی کردار کو میں
خود اندھیروں کی مسافت کو مقدر کر کے
روشنی بھیک میں دے آیا شبِ تار کو میں
ہو کے مایوس نہ گر جاؤں کسی روز کہیں
ڈھونڈتا پھرتا کسی دیدۂ بیدار کو میں

گو کہ ہر دم رہا ہے آنکھوں میں

گو کہ ہر دم رہا ہے آنکھوں میں
پھر بھی کچھ کم رہا ہے آنکھوں میں
شہرِ لندن میں عمر بیتی، مگر
عکسِ جہلم رہا ہے آنکھوں میں
دل کا محرم تو بس وہی اک تھا
وہ جو کم کم رہا ہے آنکھوں میں

ہو تيرے بياباں کی ہوا تجھ کو گوارا

بڈھے بلوچ کی نصيحت بيٹے کو

ہو تيرے بياباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت ميں چاہے صفتِ سيل رواں چل
وادی يہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غيرت ہے بڑی چيز جہانِ تگ و دو ميں
پہناتی ہے درويش کو تاجِ سرِ دارا

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
مقامِ گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے

تجھے ياد کيا نہيں ہے مرے دل کا وہ زمانہ

تجھے ياد کيا نہيں ہے مِرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبت، وہ نگہ کا تازيانہ
يہ بتانِ عصر حاضر کہ بنے ہيں مدرسے ميں
نہ ادائے کافرانہ،۔ نہ تراش آزرانہ
نہيں اس کھلی فضا ميں کوئی گوشۂ فراغت
يہ جہاں عجب جہاں ہے، نہ قفس نہ آشيانہ

تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول

سلطان ٹیپو کی وصیت

تُو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز 
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں 
محفل گداز! گرمئ محفل نہ کر قبول

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن​

مردِ مسلمان

ہر لحظہ ہے مؤمن کی نئی شان، نئی آن​
گفتار میں، کردار میں، اﷲ کی برہان
قہّاری و غفّاری و قدوسی و جبروت​
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان​
ہمسایۂ جبریلِ امیں،۔ بندۂ خاکی​
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان​

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام

خودی کا سرِ نہاں، لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں، لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ
کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سود و زیاں، لا الہ الا اللہ

Saturday, 19 November 2016

اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی

اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی
پھر پھنسا زلفوں میں دل، پھر وہی آفت آئی
مر کے بھی جذبِ دلِ قیس میں تاثیر یہ تھی
خاک اڑاتی ہوئی لیلیٰ سرِ تربت آئی
مسجدیں شہر کی اے پیرِ مغاں خالی ہیں
مے کدے میں تو جماعت کی جماعت آئی

ترے کوچے کا رہنما چاہتا ہوں

ترے کوچے کا رہ نما چاہتا ہوں
مگر غیر کا نقشِ پا چاہتا ہوں
جہاں تک ہو تجھ سے جفا چاہتا ہوں
کہ میں امتحانِ وفا چاہتا ہوں
خدا سے ترا چاہنا چاہتا ہوں
مرا چاہنا دیکھ کیا چاہتا ہوں

اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا

اتنا تو جانتے ہیں کہ عاشق فنا ہوا
اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا
شانِ کرم تھی یہ بھی اگر وہ جدا ہوا
کیا محنت طلب میں نہ حاصل مزا ہوا
میں اور کوئے عشق مرے اور یہ نصیب
ذوقِ فنا خضر کی طرح رہ نما ہوا

نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر

نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر
کرم کرے وہ نشان قدم تو پتھر پر
تمہارے حسن کی تصویر کوئی کیا کھینچے
نظر ٹھہرتی نہیں عارضِ منور پر
کسی نے لی رہِ کعبہ کوئی گیا سُوئے دَیر
پڑے رہے ترے بندے مگر ترے در پر

نہ مرض کچھ ہے نہ آسیب نہ سایا ہم کو

نہ مرض کچھ ہے نہ آسیب، نہ سایا ہم کو
اک پری زاد نے دیوانہ بنایا ہم کو
ہاۓ قدموں سے بھی اک دن نہ لگایا ہم کو
دھیان میں خاک برابربھی نہ لایا ہم کو
دل کی بے تابیوں سے طائرِ بسمل کی طرح
خاک پراس کی جدائی نے لٹایا ہم کو

رات ہے رات تو بس مرد خوش اوقات کی رات

رات ہے رات تو بس مردِ خوش اوقات کی رات
گریۂ شوق کی یا ذوقِ مناجات کی رات
ہم گدایانِ در پیر خرابات کی رات
ہے شبِ قدر سے دعویِٰ مساوات کی رات
گریۂ غم ہے کہ ساون کی جھڑی تا دم صبح
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات

شوق راتوں کو ہے درپے کہ تپاں ہو جاؤں

شوق راتوں کو ہے درپے کہ تپاں ہو جاؤں
رقصِ وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں
ساتھ اگر بادِ سحر دے تو پسِ محملِ یار
اک بھٹکتی ہوئی آوازِ فغاں ہو جاؤں
اب یہ احساس کا عالم ہے کہ شاید کسی رات
نفسِ سرد سے بھی شعلہ بہ جاں ہو جاؤں

اٹھو زمانے کے آشوب کا ازالہ کریں

اٹھو! زمانے کے آشوب کا ازالہ کریں
بنامِ گل بدناں، رخ سُوئے پیالہ کریں
بیادِ دیدۂ مخمور پر پیالہ کریں
اٹھو کہ زہر کا پھر زہر سے ازالہ کریں
وہ رِند ہیں، نہ اٹھائیں بہار کا احساں
ورود ہم تِری خلوت میں بے حوالہ کریں

فرش گل بچھوائیں رنگ و بو کی ارزانی کریں

فرشِ گل بچھوائیں، رنگ و بو کی ارزانی کریں
آؤ بلقیسانِ دوراں سے سلیمانی کریں
پھر پریشاں ہو کوئی زلفِ سمن بو اور ہم
رات بھر تحقیقِ اسبابِ پریشانی کریں
واعظانِ شہر ہیں سب آدمیت کے مزار
لا صراحی ان مزاروں پر گل افشانی کریں

اصلاح اہل ہوش کا یارا نہیں ہمیں

اصلاحِ اہلِ ہوش کا یارا نہیں ہمیں
اس قوم پر خدا نے اتارا نہیں ہمیں
ہم مۓ گسار بھی تھے سراپا سخا و جود
لیکن کبھی کسی نے پکارا نہیں ہمیں
دل کے معاملات میں کیا دوسروں کو دخل
تائیدِ ایزدی بھی گوارا نہیں ہمیں

ہم آہوان شب کا بھرم کھولتے رہے

ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے
میزانِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے
عکسِ جمالِ یار بھی کیا تھا، کہ دیر تک
آئینے قمریوں کی طرح بولتے رہے
کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سبو رہا
اسرار کتمِ راز میں پر تولتے رہے

Wednesday, 16 November 2016

ابھی تک ہم نہیں بولے

ابھی تک ہم نہیں بولے

ابھی تو آپ ہیں اور آپ کا زورِ خطابت ہے
بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے
ابھی تو لب کشائی آپ کی اپنی گواہی ہے
ابھی تو آپ ہیں ظل الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے
ابھی تو علم و حکمت، لفظ و گوہر آپ ہی کے ہیں
ابھی سب فیصلے، سب مہر و محور آپ ہی کے ہیں

پکارا جا رہا ہے پھر کسی کو قتل ہونا ہے

پکارا جا رہا ہے، پھر کسی کو قتل ہونا ہے
تو چلتا ہوں کہ اب تنہا مجھی کو قتل ہونا ہے
غبارِ تیرگی یوں حلقہ در حلقہ سمٹتا ہے
کہ اب اس شہرِ دل کی روشنی کو قتل ہونا ہے
امید اک ڈھونڈ ہی لیتے تھے اس دل کے خرابے میں
تو اب یوں ہے کہ اس امید ہی کو قتل ہونا ہے

کون گماں یقیں بنا کون سا گھاؤ بھر گیا

جون ایلیا کے سانحۂ ارتحال پر

کون گماں یقیں بنا، کون سا گھاؤ بھر گیا
جیسے سبھی گزر گئے جونؔ بھی کل گزر گیا 
اس کا چراغِ وصل تو ہجر سے رابطے میں تھا
وہ بھی نہ جل سکا اُدھر، یہ بھی اِدھر بکھر گیا
زیست کی رونقیں تمام اس کی تلاش میں رہیں
اور وہ غم نژاد جونؔ کس کو خبر کدھر گیا

فطرت کے پجاری کچھ تو بتا

فطرت ایک مفلس کی نظر میں

فطرت کے پجاری کچھ تو بتا، کیا حسن ہے ان گلزاروں میں
ہے کون سی رعنائی آخر، ان پھولوں میں ان خاروں میں
وہ خواہ سلگتے ہوں شب بھر، وہ خواہ چمکتے ہوں شب بھر
میں نے بھی تو دیکھا ہے اکژ، کیا بات نئی ہے تاروں میں
اس چاند کی ٹھنڈی کرنوں سے، مجھ کو تو سکوں ہوتا ہی نہیں
مجھ کو تو جنوں ہوتا ہی نہیں، جب پھرتا ہوں گلزاروں میں

کتنی بلندیوں پہ سر دار آئے ہیں

کتنی بلندیوں پہ سرِ دار آئے ہیں
کسی معرکہ میں اہلِ جنوں ہار آئے ہیں
گھبرا اٹھے ہیں ظلمت شب سے تو بارہا
نالے ہمارے لب پہ شرربار آئے ہیں
اے قصہ گو! ازل سے جو بیتی ہے وہ سنا
کچھ لوگ تیرے فن کے پرستار آئے ہیں

داغ غم دل سے کسی طرح مٹایا نہ گیا

داغِ غم دل سے کسی طرح مٹایا نہ گیا
میں نے چاہا بھی مگر تم کو بھلایا نہ گیا
عمر بھر یوں تو زمانے کے مصائب جھیلے
تیری نظروں کا مگر بار اٹھایا نہ گیا
روٹھنے والوں سے اتنا کوئی جا کر پوچھے
خود ہی روٹھے رہے یا ہم سے منایا نہ گیا

ہر گام شکست جان و تن ہے

ہر گام شکستِ جان و تن ہے
گلیوں میں غبار موجزن ہے
آسودۂ خواب ہو نہ جاؤں
نس نس اک مدھ بھری تھکن ہے
میرے شب و روز کون دیکھے
دنیا تِرے دھیان میں مگن ہے

اک شان جنوں سے ہے پذیرائی ہماری

اک شانِ جنوں سے ہے پذیرائی ہماری
اب ترکِ محبت میں ہے رسوائی ہماری
مِل اپنی تمنا کی تب و تاب میں ہم سے
دیکھ اپنے خد و خال میں رعنائی ہماری
ہر صبح کسی رخ کے بلاوے پہ گئے ہم
ہر شام کو مقتل سے خبر آئی ہماری

کتنے پیچ و تاب میں زنجیر ہونا ہے مجھے

کتنے پیچ و تاب میں زنجیر ہونا ہے مجھے
گرد میں گم خواب کی تعبیر ہونا ہے مجھے
جسکی تابندہ تڑپ صدیوں میں بھی سینوں میں بھی
ایک ایسے لمحے کی تفسیر ہونا ہے مجھے
خستہ دم ہوتے ہوئے دیوار و در سے کیا کہوں
کیسے خِشت و خاک سے تعمیر ہونا مجھے

ہیں پس حشر بھی اب حشر نہ جانے کیا کیا

ہیں پسِ حشر بھی اب حشر نہ جانے کیا کیا
کیا قیامت لیے آئیں گے زمانے کیا کیا
ہم پہ جو گزری، سنائیں بھی تو کن لوگوں کو
جو حقائق میں بھی بھر دیں گے فسانے کیا کیا
سچ کی تردید میں کیا جھوٹ گھڑے جائیں گے
اور پھر جھوٹ چھپانے کو بہانے کیا کیا

جس طرح لوگ خسارے ميں بہت سوچتے ہيں

جس طرح لوگ خسارے ميں بہت سوچتے ہيں
آج کل ہم تِرے بارے ميں بہت سوچتے ہيں
کون حالات کی سوچوں کے تموج ميں نہيں
ہم بھی بہ کر اسی دھارے ميں بہت سوچتے ہيں
ہنرِ کوزہ گری نے انہيں بخشی ہے تراش
يا یہ سب نقش تھے گارے ميں، بہت سوچتے ہيں

در پر ترے قیمت پہ ہوں میں لایا ہوا شخص

در پر تِرے قیمت پہ ہوں میں لایا ہُوا شخص
یا مالِ غنیمت میں کوئی آیا ہوا شخص
تہذیبِ غلامی کے اداروں میں ملا ہے
ہر شخص کو اک دوسرا پہنایا ہوا شخص
ہر سر ہے تہِ سایۂ افلاک گراں سر
ہر شخص ہے اک سائے میں اک سایہ ہوا شخص

رنگ بدلا یار کا وہ پیار کی باتیں گئیں

رنگ بدلا یار کا، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں
پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سیہ مستی، وہ برساتیں گئیں
اللہ، اللہ، کہہ کے بس اک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں

Tuesday, 15 November 2016

دل ابھی تک جوان ہے پیارے

دل ابھی تک جوان ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
رات کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے
تلخ کر دی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے

آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے

آ ہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اتارنے
غفلت ذرا نہ کی مِرے غفلت شعار نے
اب تک اسیرِ دامِ فریبِ حیات ہوں
مجھ کو بھلا دیا مِرے پروردگار نے
او بے نصیب دن کے تصور سے خوش نہ ہو
چولا بدل لیا ہے شبِ انتظار نے

تو بھی کسی کا پیار نہ پائے خدا کرے

تُو بھی کسی کا پیار نہ پائے خدا کرے
تجھ کو تیرا نصیب رلائے خدا کرے
راتوں میں تجھ کو نیند نہ آئے خدا کرے
تُو دربدر کی ٹھوکریں کھائے خدا کرے
تجھ پر شب وصال کی راتیں حرام ہوں
شمعیں جلا جلا کہ بجھائے خدا کرے

توبہ کا پاس رند مے آشام ہو چکا

توبہ کا پاس رندِ مے آشام ہو چکا
بس ہو چکا تقدسِ اسلام ہو چکا
شمعِ حرم تھا گاہ، گہے دَیر کا چراغ
میں زیبِ کفر و رونقِ اسلام ہو چکا
دیں دار برہمن کہے، کافر بتائے شیخ 
دونوں طرف سے موردِ الزام ہو چکا

کھلی ہے کنج قفس میں مری زباں صیاد

کھلی ہے کنجِ قفس میں مِری زباں صیاد
میں ماجرائے چمن کیا کروں بیاں صیاد
دکھائے گا نہ اگر سیرِ بوستاں صیاد
پھڑک پھڑک کے قفس ہی میں دوں جاں صیاد
جہاں گیا میں گیا لے کے دام واں صیاد
پھرا تلاش میں میری کہاں کہاں صیاد

رک گیا اک پری سے جی ہی تو ہے

رک گیا اک پری سے جی ہی تو ہے
نہ نبھی ہم سے دوستی ہی تو ہے
نہ رہا ہوش، بے خودی ہی تو ہے
ساقیا! شغل مے کشی ہی تو ہے
للہ الحمد کیا نمود ہوئی
بن پڑی ہم سے عاشقی ہی تو ہے

رکھو خدمت میں مجھ سے کام تو لو

رکھو خدمت میں مجھ سے کام تو لو
بات کرتے نہیں،۔ سلام تو لو
ناز و انداز و حسن و خوبی میں
کون ہے تم سا، اس کا نام تو لو
پھر تڑپ لیجیو گرفتارو
دم بھر آرام، زیرِ دام تو لو

سب سے بہتر میں کہ میرا ذکر اس محفل میں ہے

سب سے بہتر میں کہ میرا ذکر اس محفل میں ہے
مجھ سے بہتر وہ کہ جس کی یاد اس کے دل میں ہے
مجھ سے چھپ سکتی نہیں ہے آپ کی کوئی ادا
دل میرا آئینہ ہے،۔ اور آپ کی محفل میں ہے
جس سے پوچھو میزباں ہے، جس کو دیکھو منتظم
پھر کہاں محفل اگر وہ فتنہ گر محفل میں ہے

بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں

بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں
کہ دل کی حسرت تو مٹ چکی ہے اب اپنی ہستی مٹا رہا ہوں
تیری ہی صورت کے دیکھنے کو بتوں کی تصویریں لا رہا ہوں 
کہ خوبیاں سب کی جمع کر کے تیرا تصور بنا رہا ہوں
کفن میں خود کو چھپا دیا ہے کہ تجھ کو پردے کی ہو نہ زحمت 
نقاب اپنے لئے بنا کر حجاب تیرا اٹھا رہا ہوں

خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے​

خونِ دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے​
ہم کو جی کھول کے رونے میں مزا ملتا ہے​
ہم سے اس عشقِ مجازی کی حقیقت پوچھو​
کہ یہ بت جب نہیں ملتے، تو خدا ملتا ہے​
شوق سے کر مجھے پامال، مگر یہ تو بتا​
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے​

آپ دنیا بھر سے الفت کیجئے

آپ دنیا بھر سے الفت کیجیۓ
مجھ کو میرا دل عنایت کیجیۓ
ضبط سے کیا خونِ حسرت کیجیۓ
ایک نالہ کر کے فرصت کیجیۓ
ضعف کہتا ہے کہ منزل دور ہے
شوق کہتا ہے کہ ہمت کیجیۓ

طول غم سے مختصر غم کی کہانی ہو گئی

طولِ غم سے مختصر غم کی کہانی ہو گئی
جب بھری اک آہ دل کی نوحہ خوانی ہو گئی
ختم دل چسپی تِری اے دار فانی ہو گئی
ہم بھی زندہ تھے کب وہ زندگانی ہو گئی
ہر قدم پر ایک نالہ،۔ ہر قدم پر ایک آہ
زندگی کیا ایک شرحِ سخت جانی ہو گئی

گردش دہر بھی اک گردش پیمانہ ہے

گردشِ دہر بھی اک گردشِ پیمانہ ہے
ذرے ذرے میں تِرا جلوۂ مستانہ ہے
کیا کہوں دل کی تباہی کا اثر ہے کتنا
ساری دنیا نگہِ یاس میں ویرانہ ہے
حالت محفلِ عشرت ہے رقم سب اس میں
ایک دفتر کے برابر پرِ پروانہ ہے

ہو لاکھ چارہ سازی لیکن اثر نہیں ہے

ہو لاکھ چارہ سازی لیکن اثر نہیں ہے
ہاں درخورِ مداوا زخمِ جگر نہیں ہے
مدت سے ڈھونڈتا ہوں ملتا مگر نہیں ہے
وہ اک سکونِ خاطر جو بیشتر نہیں ہے
دل تھا تو ہو رہا تھا احساس زندگی بھی 
زندہ ہوں اب کہ مردہ مجھ کو خبر نہیں ہے

طلسم شام خزاں نہ ٹوٹے گا دل کو یہ اعتبار سا ہے

طلسمِ شامِ خزاں نہ ٹوٹے گا دل کو یہ اعتبار سا ہے
طلوعِ صبحِ بہار کا پھر نہ جانے کیوں انتظارسا ہے
تِرے تصور میں غرق ہوں میں تِرا ہی قرب و جوار سا ہے
خزاں صفت شامِ غم کو میں نے بنا لیا خوشگوار سا ہے
فریبِ دنیا عیاذ باللہ،۔۔ غمِ زمانہ کی سازشیں اف
قرار کی صورتوں میں بھی اب مِرا یہ دل بیقرار سا ہے

پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں

پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں
تنہائی کی گھڑیاں اکثر ہم اس طرح گزارا کرتے ہیں
یہ عشق کے مارے بے چارے کب درد کا چارہ کرتے ہیں
ہر چوٹ کو سہتے ہیں ہنس کر، ہر زخم گوارا کرتے ہیں
وہ آگ کی بھٹی سے پہلے طالب کو گزارا کرتے ہیں
پھر کہہ کے خلیل اللہ اسے الفت سے پکارا کرتے ہیں