یہ مجھ سے کس طرح کی ضد دلِ برباد کرتا ہے
میں جس کو بھولنا چاہوں، اسی کو یاد کرتا ہے
قفس میں جس کے بازو شل ہوئے رزقِ اسیری سے
وہی صیدِ زبوں صیاد کو صیاد کرتا ہے
طریقے ظلم کے صیاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اڑ نہیں سکتا، اسے آزاد کرتا ہے
یہ مت سمجھ کے صاحبِ کردار نہیں ہوں
جیسا بھی ہوں میں رونقِ بازار نہیں ہوں
بھاتی ہیں دل کو گو یہ تِری مسکراہٹیں
لیکن میں اس ادا کا طلبگار نہیں ہوں
جو بات تجھ میں ہے وہ کسی اور میں کہاں
لیکن میں تِرے پیار کا حقدار نہیں ہوں