عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سبز گنبد پہ نظر شوق سے ڈالی میں نے
اپنی سوئی ہوئی تقدیر جگا لی میں نے
دل کی آواز پہ لبیک کہا، آنکھوں میں
خاک طیبہ کی سرِ راہ لگا لی میں نے
عکس ہے گنبدِ خضرٰی کا نگاہوں میں ابھی
تشنگی کچھ تو نگاہوں کی بجھا لی میں نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سبز گنبد پہ نظر شوق سے ڈالی میں نے
اپنی سوئی ہوئی تقدیر جگا لی میں نے
دل کی آواز پہ لبیک کہا، آنکھوں میں
خاک طیبہ کی سرِ راہ لگا لی میں نے
عکس ہے گنبدِ خضرٰی کا نگاہوں میں ابھی
تشنگی کچھ تو نگاہوں کی بجھا لی میں نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل کو سکون روح کو بالیدگی ملی
ذکرِ محمدیﷺ سے نئی زندگی ملی
کلیوں نے تِرا نام ہی چُپکے سے لیا تھا
پھولوں کو اک مہکتی ہوئی تازگی ملی
لولاک لما خلق، کی تنویر ہیں تارے
تیرے ظہور سے جنہیں تابندگی ملی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آئے ہیں جب وہ منبر و محراب سامنے
تسکیں کے کھل گئے ہیں کئی باب سامنے
کیوں جگمگا اُٹھے نہ شبِ تارِ زندگی
جب ہو رُخِ رسولﷺ کا مہتاب سامنے
پایا ہے لطفِ سرورِ عالمؐ کو چارہ ساز
جب ہو نہ کوئی صورتِ اسباب سامنے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خاک جب اس پیکرِ نوریؐ کا مدفن ہو گئی
ساری دنیا کی زمیں اندر سے روشن ہوگئی
وقت نے جب آپؐ کی سیرت کو لکھا حرف حرف
اک نئی تہذیبِ انسانی مدوِن ہو گئی
آپؐ کی رحمت نے بدلا تند خوؤں کا مزاج
برقِ سوزاں خود نگہبانِ نشیمن ہو گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل ہوا روشن محمدﷺ کا سراپا دیکھ کر
ہو گئیں پُر نُور آنکھیں اُن کا جلوہ دیکھ کر
دنگ ہے دنیا، عقیدت کا یہ نقشا دیکھ کر
سجدہ کرتی ہے جبیں نقشِ کفِ پا دیکھ کر
شانِ محبوبِ خدا کا غیر ممکن ہے جواب
کہہ اٹھا سارا زمانہ، ساری دنیا، دیکھ کر
ہم اس کے سامنے حسن و جمال کیا رکھتے
جو بے مثال ہے اس کی مثال کیا رکھتے
جو بے وفائی کو اپنا ہنر سمجھتا ہے
ہم اس کے آگے وفا کا سوال کیا رکھتے
ہمارا دل کسی جاگیر سے نہیں ارزاں
ہم اس کے سامنے مال و منال کیا رکھتے
اداس چہرے
میں تم سے محبت کرتا ہوں
جب تم روتی ہو
میں محبت کرتا ہوں
تمہارے دھندلائے ہوئے اداس چہرے سے
اداسی ہم دونوں کو پگھلا دیتی ہے
دو عشق تھے میرے دونوں میں مسئلہ نکلا
کتابیں بے زبان نكلیں محبوب بے وفا نکلا
صاحبِ عقل اتفاق سمجھے اہلِ دِل کرامت
گزرا تھا جہاں سے دیوانہ وہیں سے راستہ نکلا
بے کار ہی گئی مجھ پر طبیب کی مشقت بھی
زخم تھے گہرے نکلے درد تھا لا دوا نکلا
میرے بغیر
جب کہ تم موجود ہو مجھ میں
تو یہ خیال کہ میں چھوڑ چکا ہوں تم کو
مشکل ہے اس بات پہ یقین کرنا
یہ بے چینی، ہونٹوں کی لرزش
کپکپاہٹ یا جذبات کے مجروح
شہر انکار میں اقرار کے سکے کی کھنکتی رہی لذت جاناں
رفتہ رفتہ ہوئی کافور وہ ہر بات پہ تکرار کی لذت جاناں
خوب روتا تھا وہ معصوم کبھی مان بھی جاتا تھا کھلونے لے کر
اس کو بہلانا تھا لازم کہ تھی بازار میں ہر رنگ کی راحت جاناں
کیا وہ تہذیب تھی خود دار جو مٹی میں پڑی یوں ہی تڑپتی ہی ملی
کیا بہ صد حسن طلب وقت کی دہلیز پہ بیٹھی ہے قیامت جاناں
تو اس نے کہا یہ جام دیکھ
مئے ارغوان سے بھرا ہوا یہ جام دیکھ
یہ شام دیکھ! چمپئی کھلی کھلی
موتیے کے ہار میں چاندنی گندھی ہوئی
اور چاندنی بھی اس طرح گندھی ہوئی
کہ بام پر ندی کوئی چڑھی ہوئی
ندی بھی گویا حلب کی مٹھاس میں رچی ہوئی
شارٹ سرکٹ
میں ہوں بجلی کے سرکٹ میں اُلجھا ہوا
چند سنجیدہ نقطوں کے محور میں گم
ہاتھ میں کچھ رزِسٹر کیپسٹر لیے
ملٹی میٹر گلے میں پھنسائے ہوئے
سوچتا ہوں کہ ان کو میں کیسے ملاؤں
کہ سرکٹ مِرا دیر تک یوں چلے
ابھی تک ہے یہ راز سینہ بہ سینہ
محبت میں مرنا ہے مشکل، کہ جینا
اگر ہو نہ آہوں سے آباد سینہ
خِرد بے سلیقہ، جنوں بے قرینہ
وہی عظمتِ زندگی سے ہے واقف
کہ طوفاں سے گزرا ہے جن کا سفینہ
خواب آنکھوں سے جو ترتیل ہوا کرتے ہیں
اک صحیفے کی وہ تمثیل ہوا کرتے ہیں
گاؤں مدغم ہوں جو شہروں میں تو میٹھے چشمے
ایک دن زہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں
بعض اوقات مسافر کو شبِ ظلمت میں
راہ کے جگنو بھی قندیل ہوا کرتے ہیں
کعبۂ دل تمہی تو ہو قبلۂ جاں تم ہی تو ہو
تم پہ نثار جان و دل جان جہاں تم ہی تو ہو
تم سے ہے میری زندگی تم سے ہے میری بندگی
مجھ کو جہاں سے کیا غرض میرا جہاں تم ہی تو ہو
میرا نمود تم سے ہے، میرا وجود تم سے ہے
غیب و شہود تم سے ہے میں ہوں کہاں تم ہی تو ہو
پھول جو تیرے لیے ہم نے دھرے ہیں اب تک
سوکھ جانے پہ بھی خوشبو سے بھرے ہیں اب تک
آتشیں آنکھوں سے حیرت کا دھواں اٹھتا ہے
جڑ توانا ہے، مِرے پات ہرے ہیں اب تک
جھیل سی آنکھوں میں کِھل پایا نہیں کوئی کنول
رونقِ دِید سے ہم لوگ پرے ہیں اب تک
سیف الملوک سے
شہزادے
تُو خوش قسمت تھا
جس خواب کی اُنگلی تھامے
تُو رستم و کئے کی مٹی سے
سرکش دریاؤں تنگ نکیلی گھاٹیوں، سخت چٹانوں سے ہوتا ہوا
ان کی کیا قدر جن کی زبانیں بند ہیں (آخری بند)
بحرِ اوقیانوس سے بحیرہ عرب اور خلیج تک پھیلے ہوئے بچو
تم گندم کی بالیوں کی طرح ہماری امید ہو
تم ہی وہ نسل ہو
جو زنجیریں توڑے گی
جو ہمارے سروں کی افیون تلف کرے گی
وہ
وہ تو میری ادھیڑ عمر شاخوں کے خوفناک اندھیروں کے درمیان
ایک ناجائز خواب کا بے بنیاد گھونسلہ ہے
میری درویشانہ پیشانی پر رقاصہ کے پاؤں کے نکتے جیسا ایک نقش ہے
وہ ایک سلگتا ہوا چاند ہے میری انجام سے محروم جامنی رات کا
وہ میرے ادھیڑ عمر سینے میں
چھپ چھپ کر مہکتی غیر مہذب کثیف آگ ہے
گر تم مجھے بھولنا چاہو
میری ایک بات، سنو
خزاں کے موسم میں
کھڑکی سے ذرا پرے
سرخ ہوتے ہوئے پتوں پر
شفاف چاند کی زرد روشنی
کو چھونے کی کوشش کچھ یوں ہے
نہ زیادہ اور نہ کم
میں ایک عورت ہوں نہ زیادہ اور نہ کم
میں اپنی زندگی جیتی ہوں، جیسی کہ وہ ہے
میں اپنے بدن کے لیے اپنا اون خود کاتتی ہوں، تاگہ بہ تاگہ
کسی داستان ہومر کی تکمیل کے لیے نہیں
نہ اس کے سورج کے لیے
میں اپنی زندگی جیتی ہوں
میں دل ہر اک پر نثار کرتی تو ایک دنیا پڑی ہوئی تھی
وفا کا میں کاروبار کرتی تو ایک دنیا پڑی تھی
بھرے ہوئے اس جہان سے میں بچا کے دامن گزر رہی ہوں
کسی سے میں آنکھیں چار کرتی تو ایک دنیا پڑی ہوئی تھی
تمہی محبت کی ابتدا ہو تمہی محبت کی انتہا ہو
میں عشق جو بار بار کرتی تو ایک دنیا پڑی ہوئی تھی
یہ زندگی کے ماہ و سال، حال میں گزر گئے
جو حال میں نہیں تھے، وہ زوال میں گزر گئے
جو خار تھے وہ پھول ہیں جو خواب تھے وہ دھول ہیں
جلال میں گزر گئے، جمال میں گزر گئے
نگاہ کی کجی تھی، اور دماغ کا فتور تھا
جو دیکھنےمیں پست تھے کمال میں گزر گئے
ساری عمر کی ہمدم ہے شاداب رُتوں کی یاد
برسوں کے بے رحم سفر میں کچھ لمحوں کی یاد
کیسا زادِ راہ مسافر لے کے گیا ہے ساتھ
اک کھڑکی سے جھانکنے والی دو آنکھوں کی یاد
جیون کی اندھیر مسافت میں دَم ساز رفیق
ان ہونٹوں سے صادر ہوتی کچھ کرنوں کی یاد
نیند کی آغوش میں چھپ کر سمٹنا خواب سا
اور باہوں میں کسی کا وہ مچلنا خواب سا
جب دہلتی دھوپ میں جلنے لگا سایہ مِرا
چھاؤں میں آنچل کے لے کر، تیرا چلنا خواب سا
ظلمتوں سے ہو چلی تھی جب شناسائی مِری
روشنی کی اک کرن کا پھر تڑپنا خواب سا
آج بھی تشنہ لبی تشنہ لبی ہے اے دوست
کیا نہ چھلکے گی جو آنکھوں میں بھری ہے اے دوست
جو کمی پہلے تھی وہ پھر بھی کمی ہے اے دوست
یہ جو تھوڑی سی ہنسی زیر لبی ہے اے دوست
آپ کو دیکھ مِرے ذوقِ فنا کو بھی دیکھ
یہ تِری شیشہ گری درد سری ہے اے دوست
بہت سے زخم جن کو مستقل مہمان رکھا ہے
بدن کی قید میں کچھ درد کا سامان رکھا ہے
کبھی لگتا ہے کہ میں آسمان کو چُھو کے آئی ہوں
کبھی لگتا ہے رستے میں کوئی طوفان رکھا ہے
ہر اک لمحہ گماں کی دسترس میں کیا بتائیں ہم
کہاں اُمید رکھی ہے، کہاں ایمان رکھا ہے
خواب زادی
کُھلے سمندر کی اور کب سے
یہ عقبی کھڑکی کُھلی ہوئی ہے
نگاہ کی حد سے پرے تک
یہ جھلملاتا سا نیلگوئی حسیں سمندر بِچھا ہوا ہے
کبھی کبھی کوئی کشتی یاں سے گزرتی ہے تو
ہم تمہیں کہیں بھی مل سکتے ہیں
ان گھروں میں جنہیں ہم
دفتروں سے لوٹنے کے لیے کرائے پر لیتے ہیں
یا ان دفتروں میں جہاں ہم
گھروں کا کرایہ دینے کے لیے نوکری کرتے ہیں
ان گاڑیوں میں جو ہمیں صبح گھر سے دفتر لے جانے کے لیے
نمو کی لگن میں
میں بارانی رقبہ ہوں
بارہ مہینے مِرے خُشک ہونٹوں پہ
اُڑتے ہوئے بادلوں کے بُلاروں سے اُٹھتی ہوئی دُھول
کا رقص ہے
دائیں بائیں دھڑکتی ہوئی چھاؤں میں
آنے والے دنوں کی ٹھٹھرتی ہوئی دُھوپ کا عکس ہے
ٹُھکرائی یہ کہ کر اس نے محبت سانولے رنگ کی
میں دیوی حُسن کی، تُو مُورت سانولے رنگ کی
اُس کے جیسے حسین نے جب دھوکہ دیا اُسے
بتاتا رہتا ہے اب دُنیا کو قیمت سانولے رنگ کی
سانولے کو جو آیا پسند نہیں تھا سانولے رنگ کا
حسین کبھی بنتے نہیں قسمت سانولے رنگ کی
بجھتی ہوئی سرد شام
آخری دن کا ڈوبتا سورج
تیری چوکھٹ پہ سجدہ ریز
اپنی کرنوں کے خالی کشکول الٹ کر
تھکی ہوئی یخ بستہ نگاہوں سے
میری دنیا کی تاریک راہداریوں میں
کبھی رستے کو روتے ہیں کبھی مشکل کو روتے ہیں
جو ناکام سفر ہوتے ہیں وہ منزل کو روتے ہیں
ذرا انداز تو دیکھے کوئی ان دل فگاروں کا
پلٹتے ہیں ورق ماضی کا مستقبل کو روتے ہیں
خدایا! کس قدر نادان ہیں یہ کشتیاں والے
سمندر پر نظر رکھتے ہیں اور ساحل کو روتے ہیں
ادق یہ بات سہی پھر بھی کر دکھائیں گے
بلندیوں پہ پہنچ کر تجھے بلائیں گے
مجھے وہ وقت وہ لمحات یاد آئیں گے
یہ ننھے لان میں جب تتلیاں اڑائیں گے
کیا ہے عہد اکیلے رہیں گے ہم دائم
بھری رہے تِری دنیا میں ہم نہ آئیں گے
حُسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں
یہ جفاؤں پہ جفا اب مجھے منظور نہیں
زُلف زنجیر سہی دل بھی گرفتار مگر
میں تِرے حلقۂ آداب کا محصور نہیں
دل کا سودا ہے جو پٹ جائے تو بہتر ورنہ
میں بھی مجبور نہیں آپ بھی مجبور نہیں
تِرے درختوں کی ٹہنیوں پر بہار اترے
تِری گزرگاہیں نیک راہوں کی منزلیں ہوں
مِرا زمانہ نئے نئے موسموں کی خوشبو
تِرے شب و روز کی مہک ہو
زمین پر جب بھی رات پھیلے
کرن جو ظلمت کو روشنی دے تِری کرن ہو
ایک حشر اٹھا رکھا ہے میرے من میں
یہ آگ کیوں بھڑکتی ہے میرے تن میں
مل جائیں مجھ کو سبھی الجھنوں کے جواب
کھول لوں گر میں تیرے عشق کی کتاب
میرے دل کی تیرگی چھٹ جائے ایک بار
میری روح کے صحرا میں ہو تیرے عشق کی بہار
اسی لیے تو خیالوں سے باندھ رکھے ہیں
یہ خواب آنکھ سے بینائی چھین لیتے ہیں
میں عام فہم سی باتیں بتانے آیا ہوں
کہ میرے پاس نہ غزلیں ہیں نہ قصیدے ہیں
ہمیں کسی کی محبت پہ کیا یقین رہے
ہمارے ساتھ فقط سازشیں ہیں، دھوکے ہیں
دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
شام ڈھلے اسلاف کے سائے سینے لگ کر روتے ہیں
آبلہ پائی دیکھنے والو! کیا ہو گا احساس تمہیں
مس ہوتے ہیں جب چھالوں سے راہ کے کنکر روتے ہیں
بیتابی کیا شئے ہوتی ہے رات میں آ کر دیکھو تو
گھر کے اندر رونے والے گھر کے باہر روتے ہیں
بُھول چُکا ہُوں بُرا ہے کیا اور اچھا کیا
غور سے دیکھو، میرا چہرہ بدلا کیا؟
لکھتے رہتے ہو برگد، پیپل، نظمیں
یاد ہے تم کو اب تک گاؤں کا رستہ کیا؟
یہ تو ہے اس دور کی انسانی فطرت
باہر سے کیا ہے، اندر سے نکلا کیا
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
تُو وہاں کیسی ہے مجھ کو، کیا بتائے گا جہاں
کیسے تیری یاد پھیلی، ہر گلی اور ہر مکاں
چاہتا ہوں پُھول بھِیجوں، پر تجھے کیسے وہاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
غم کے بادل آ گئے ہیں، اب بھلا کیسے چھٹیں
اک بری یاد کی برسی
جیسے گم گشتہ راستے کا سفر
جیسے تازہ ہوا ہو کوئی پھر زخم
جیسے بِن لکھی ہوئی اک ادھوری نظم
جیسے ان دیکھا اک قاتل سا پل
جیسے الجھا ہوا سوچ کا اک سرا
دل ایک شفا خانہ ہے تم آؤ یہاں پر
بھر جاتے ہیں عُشاق کے سب گھاؤ یہاں پر
پانی سے لبا لب ہے تِری چشمِ تمنا
اور ڈوبنے والی ہے میری ناؤ یہاں پر
میں دل میں لیے پھرتا ہوں بوسے کی تمنا
اے کاش کہ لگ جائے مِرا داؤ یہاں پر
لقمہ ذرا حرام کا ٹھونسا نہ پیٹ میں
اس نے ہوس تو ڈالنی چاہی پلیٹ میں
اس کے لبوں کا میٹھا مِرے منہ میں بھر گیا
اتنی نہیں مٹھاس ملی چاکلیٹ میں
میں آگ ہوں جو مجھ کو سمجھتا ہے آبِجو
آئے گا ایک روز وہ میری لپیٹ میں
تم مجھے حیران کر دیتی ہو
تم مجھے حیران کر دیتی ہو
کسی بچے کے کھلونے کی طرح
میں مہذب محسوس کرتا ہوں
جب تم سے پیار کرتا ہوں
تم سے پہلے وقت کا وجود ہی نہیں تھا
تمہارے بعد ریزہ ریزہ ہوجائے گا
پیٹ اور تہذیب
سب دلیلیں فلسفے مسترد
اس کی سلطان بھوک ہے
نہیں مانتا کسی تہذیب کو
پیٹ کا ایمان بھوک ہے
بھوک کا تہذیب پر اس لیے ایمان نہیں ہوتا
یہ جو کام رہ گئے ہیں انہیں رکھ کے جا رہی ہوں
مِری زندگی میں تجھ سے بہت تھک کے جا رہی ہوں
یہی درد کے بسیرے،۔ یہی ہجر کے اندھیرے
یہ جو سسکیاں ہیں ساری، میں تھپک کے جا رہی ہوں
فقط ایک سانس مہلت،۔ مگر امتحان اتنے
یہ جو تلخیاں تھیں تیری، انہیں چکھ کے جا رہی ہوں
مِری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک
مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک
دکانِ دل میں نوادر سجے ہوئے ہیں مگر
یہ وہ جگہ ہے کہ آتے نہیں لُٹیرے تک
مجھے قبول ہیں یہ گردشیں تہِ دل سے
رہیں جو صرف تِرے بازوؤں کے گھیرے تک
اماں مانگو نہ ان سے جاں فگاراں، ہم نہ کہتے تھے
غنیمِ شہر ہیں چابک سواراں، ہم نہ کہتے تھے
خِزاں نے تو فقط ملبوس چِھینے تھے درختوں سے
صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے
ترس جائے گی ہم سے بے نواؤں کو تِری گلیاں
ہمارے بعد اے شہرِ نگاراں! ہم نہ کہتے تھے
وقت کی بات
وقت حیران نگاہوں سے مجھے دیکھتا ہے
دیکھ کر حال کو شاید اسے ماضی کا خیال آتا ہے
وقت جب بھی کسی زرتاب و حسیں ماضی کے گہنائے ہوئے
حال سے دو چار ہوا کانپ اٹھا
اس کو معلوم نہیں ہے ماضی
کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
جفاؤں کے گلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں
مگر محشر کا دن ہے اپنے بیگانے بہت سے ہیں
بنائے دے رہی ہیں اجنبی ناداریاں مجھ کو
تِری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
دُھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سُرخ سُرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اُترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ستارے بانٹتا ہے وہ ضیا تقسیم کرتا ہے
سنا ہے حبس موسم میں ہوا تقسیم کرتا ہے
اسی کی اپنی بیٹی کی ہتھیلی خشک رہتی ہے
جو بوڑھا دھوپ میں دن بھر حنا تقسیم کرتا ہے
اسے روکو کہ باز آئے سراسر ہے یہ پاگل پن
جو بہروں کے محلوں میں صدا تقسیم کرتا ہے
بُھلا دئیے جاؤ گے تم
بُھلا دئیے جاؤ گے تم
جیسے
کبھی گزرے ہوئے زمانے میں
تم تھے ہی نہیں
بُھلا دئیے جاؤ گے تم
جیسے کوئی پرندہ
لفظ
لفظ نے لہو میں جنم لیا تھا
سیاہ جسم میں دھڑکتے ہوئے پرورش پائی تھی
اور لبوں اور منہ میں سے پرواز کر گیا تھا
بہت دور پھر، بہت قریب
یہ مہاجر نسلوں اور مردہ اجداد سے آیا تھا
رخ سے خورشید کے بادل جو سرک جاتا ہے
رنگ و انوار سے ہر ذرہ چمک جاتا ہے
اس قدر زور سے کیوں بھاگ رہے ہو لوگو
وقت سے تیز جو چلتا ہے وہ تھک جاتا ہے
رنگ و نکہت میں اگر ڈوبا ہوا ہو پیکر
ایک ہی پھول سے گلزار مہک جاتا ہے
گرمئی حیات کی حقیقت
چونکہ کوڈ سب گڈ مڈ ہو گئے ہیں
اور حقیقی سوچ کی جگہ
ظاہری نام و نمود نے لے لی ہے
چونکہ ہم
کبھی نہ لکھی جانے والی تاریخ
کے ہیرو پیدا کر رہے ہیں
جو نقش تھے پامال بنائے میں نے
پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے
تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر
پھر اپنے خد و خال بنائے میں نے
پھر کیا کیا کچھ شیخ جو آئے میں نے
خیمے کے وہ باہر ہی بٹھائے میں نے
نغمۂ یومِ آزادی
میں تو کیا نام نہ باقی مِرا آئندہ رہے
تُو مِری جان مگر زندہ و پائندہ رہے
تیری ٹھوڑی پہ یہ تارا، تِرے ماتھے پہ یہ چاند
تا قیامت یونہی رخشندہ و تابندہ رہے
حق ادا کر گئے جینے کا حقیقت میں وہی
ایک دن تجھ پہ جو مرنے کے لیے زندہ رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہیں ہے دوسرا کوئی ہمارا یا علی مولا
ہے بس اک آپ ہی کا تو سہارا یا علی مولا
ہیں ان کی ذات میں پنہاں سرور و وجد کے عالم
لگا کے دیکھ لو تم بھی یہ نعرہ یا علی مولا
جہاں مشکل پڑی کوئی تو میں چپ سادھ کر بیٹھا
پھر اس کے بعد دل چیخا ، پکارا یا علی مولا
میں سونی کلائی میں گہنے رہنا ہے سہاگن پہنوں گی
پہنی ہیں چوڑیاں بچپن سے، اب آہنی کنگن پہنوں گی
انصاف چڑھا ہے سُولی پر، کس در پہ دُہائی دیں جا کر
فریاد لکھی آئے گی نظر، میں وہ پیراہن پہنوں گی
یہ نیکلس ہار کا موسم تو مِرے جیون میں اب آیا ہے
تم لا کر دے دو طوق مجھے، ہے سُونی گردن پہنوں گی
سالگرہ کا تحفہ
میں تِری سالگرہ پر اے دوست
یہ بتا کون سا تحفہ بھیجوں
میری خواہش تو یہی ہے کہ تِری دعوت پر
سر کے بل چل کے میں خود جاؤں جنم دن پہ تِرے
ایک دلہن کی طرح تجھ کو سجانے کے لیے
تیری خوابیدہ امنگوں کو جگانے کے لیے
تجھ سے جب تک اس طرح اپنی شناسائی نہ تھی
اپنے گھر جیسی تو صحرا میں بھی تنہائی نہ تھی
اب تو رشک آتا ہے خود اپنے ہی جملوں پر ہمیں
اس سے پہلے تھی مگر یہ شانِ گویائی نہ تھی
اب مجھے کیوں اپنے مستقبل کا آتا ہے خیال
آج تک شاید مِرے ہمراہ دانائی نہ تھی
اب اس کو سوچ کے ہی دل اچھل اچھل رہا ہے
کتابِ روح میں جو صورتِ غزل رہا ہے
ملیں گی صحرا سے اک روز باقیات مِری
کہ رفتہ رفتہ سمندر جگہ بدل رہا ہے
یہ ایک رمز نہیں ہے شعوری کوشش ہے
کہ پست ہونا مِری رفعتوں میں ڈھل رہا ہے
صیاد کہہ رہا ہے رہائی نہ دیں گے ہم
اپنی ہے ضد قفس میں دکھائی نہ دیں گے ہم
اب جرم عاشقی پہ صفائی نہ دیں گے ہم
جاتی ہے جان جائے دہائی نہ دیں گے ہم
ہم داستان عشق ہیں ہم کو یہیں سنو
محشر کے شور میں تو سنائی نہ دیں گے ہم
ماں کے لیے ہدیۂ عقیدت
جو عزم و ہمت کی داستاں تھی وہ میری ماں تھی
جو نرم دل تھی جو سخت جاں تھی وہ میری ماں تھی
وہ میرے چہرے کی ہر اُداسی کو بھانپ لیتی
جو میری ہستی کی رازداں تھی وہ میری ماں تھی
میں جل رہا ہوں غموں کے صحرا میں دُھوپ اندر
جو ابرِ رحمت تھی درمیاں تھی وہ میری ماں تھی
غم کی فصلیں اُگ جاتی ہیں کاٹیں گے ہم خوشیاں کیسے
اُجیارے کو ڈس جاتی ہیں مایوسی کی رتیاں کیسے
ہر اک چڑیا اُڑ جائے گی گھر کے پھیلے آنگن سے
تنہائی کے ڈیروں میں ہم ڈھونڈیں گے وہ سکھیاں کیسے
دن ڈھلنے کے سارے موسم آنکھ میں پنہاں رہتے ہیں
بیٹھ کے خالی دروازے پر یاد کروں وہ گلیاں کیسے
میں ایک شفاف آئینہ ہوں
کہ جس سے ٹکرا کے ساری کرنیں پلٹ رہی ہیں
تمام رنگوں کی اصلیت کا گواہ ہوں میں
کہ ہر حقیقت
مِری نگاہوں سے معتبر ہے
مگر وہ چہرہ
ضیاء محی الدین کے ساتھ اِک جہان اُٹھ گیا
زمیں سرک گئی کہ سر سے آسمان اُٹھ گیا
ضیاء محی الدیں کے ساتھ اک جہان اٹھ گیا
دیا تھا جو انہوں نے، وہ قلم تو میرے پاس ہے
ہے دُکھ کہ حُرمتِ قلم کا پاسبان اٹھ گیا
اسی کے دم قدم سے تھی بہارِ بزمِ فکر و فن
وہ لے اپنے ساتھ سارا گلستان اٹھ گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جاں محمدﷺ کے گھرانے پہ لٹائے ہوئے ہیں
ہم درِ پنجتن پہ سر کو جھکائے ہوئے ہیں
نوکِ نیزہ پہ کٹے سر سے پڑھیں ہیں قرآں
کیا حسینؑ ابنِ علیؑ وجد میں آئے ہوئے ہیں
جلنے والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہو گا
دو ہیں کاندھوں پہ تو دو گود اٹھائے ہوئے ہیں
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
پی رہے تھے حق کے متوالے شہادت کے سبو
راہِ حق میں جان دے کر ہو رہے تھے سرخرو
سر زمینِ پاک کے جانباز، حق کے پاسباں
پڑھ رہے تھے کلمۂ حق خون سے کر کے وضو
حق کی خاطر کھیل جائیں گے ہم اپنی جان پر
وطن کے لیے دعائیہ نظم
اے وطن تُو سلامت رہے قیامت تک
اے خدا بے اثر ہے ہر فریاد
میری ملت کو حُبِ ملت دے
یا یہ گویائی چِھین لے مجھ سے
یا میری قوم کو سماعت دے
تعصب کے لبادے اس طرح سے
اقتباس از ترانۂ وطن
ہمارا وطن ہے ہمارا وطن
زمانے کی آنکھوں کا تارا وطن
ہمیں ساری دنیا سے پیا را وطن
تو غیروں کے پھندے سے آزاد ہو
پشیمان باہر کا صیاد ہو
دکھا دے یہ دلکش نظارا وطن
ملی ترانہ میرے وطن
جانِ فردوس ہیں تیرے کوہ و دمن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن
تُجھ پہ صدقے ہے تن تُجھ پہ قُرباں ہے مَن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن
تیرے دریاؤں میں ہیں سفینے رواں
اے مقامِ جہانگیر و نُورجہاں
ملی نغمہ؛ اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے
مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم
تُو سلامت رہے
سبز پرچم تیرا، چاند تارے تیرے
تیری بزمِ نگاری کے عنوان ہیں
تیری گلیاں، تیرے شہر، تیرے چمن
تیرے ہونٹوں کی جُنبش پہ قُربان ہیں
جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑی
اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے ہم
تُو سلامت رہے
ہو سکی تیرے رُخ پہ نہ قُرباں اگر
ائر کس کام آئے گی یہ زندگی
اپنے خوں سے بڑھاتے رہیں گے سدا
تیرے گُل رنگ چہرے کی تابندگی
جب بھی تیری نظر کا اشارہ مِلا
تحفۂ نفسِ جاں پیش کر دیں گے ہم
تو سلامت رہے
اے نگارِ وطن تُو سلامت رہے
شاعر لکھنوی
ملی نغمہ: وہ دن
بہتر سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا
جب اک سورج نکلنے پر
چمکتی دھوپ پھیلی تھی تو منظر جگمگایا تھا
اگرچہ میں نے وہ منظر بہ چشمِ خود نہیں دیکھا
مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں
کئی صدیوں سے صحرا میں بکھرتی ریت کی صورت
وطن کے لیے
وطن کے لیے نظم لکھنے سے پہلے
قلم، حرف کی بارگہ میں
بہت شرمسار و زبوں ہے
قلم سر نگوں ہے
قلم کیسے لکھے
وطن! تُو مِری ماں کا آنچل جو ہوتا
خوشبودار ہے مٹی میرے چمن کی
ہوا میں پیار ہے میرے وطن کی
میرے محافظ تو گہری نیند میں ہیں
سیاستدان کردار کی پستی پہ ہیں
جو جیت کہتے ہیں مال و زر کو
وہ بیچ دیتے ہیں اپنے ہی گھر کو
پاکستان کا ملی ترانہ
آزادی کی دھن میں کس نے آج ہمیں للکارا
خیبر کے گردوں پر چمکا ایک ہلا ل اک تارا
سبز ہلالی پرچم لے کر نکلا لشکر سارا
پربت کے سینے سے پھوٹا کیسا سرکش دھارا
سرمائے کا سوکھا جنگل اس میں سرخ شرارا
پاکستان ہمارا
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
پُورے ہُوئے اِک عمر کے ارمان ہمارے
ہم وہ جو کڑی دھوپ میں جسموں کو جلائیں
ہم وہ ہیں کہ صحراؤں کو گلزار بنائیں
ہم اپنا لہو خاک کے تودوں کو پلائیں
اس پر بھی گھروندے رہے ویران ہمارے
ہر ایک ذرے کی دلکشی میں، دمک رہا ہے ضمیر اپنا
سدا مہکتی رہے وہ مٹی، اٹھا ہے جس سے خمیر اپنا
بنی ہوئی ہیں نشانِ منزل تمام تر اس کی شاہرائیں
جواب رکھتا نہیں جہاں میں، یہ خطۂ بے نظیر اپنا
مِرے بھٹکنے کا زندگی بھر، نہیں کوئی احتمال یارو
کہ میں نے اس دشت کی ہوا کو بنا لیا دستگیر اپنا
صبر آ گیا یہ کہہ کر دل سے غمِ وطن میں
سب پھول ہی نہیں کانٹے بھی تھے چمن میں
بلبل ہے گلستاں میں، پروانہ انجمن میں
سب اپنے اپنے گھر ہیں اک ہم نہیں وطن میں
صیاد باغباں کی ہم سے کبھی نہ کھٹکی
جیسے رہے قفس میں ویسے رہے چمن میں
وطن کی سر زمیں سے عشق و الفت ہم بھی رکھتے ہیں
کھٹکتی جو رہے دل میں وہ حسرت ہم بھی رکھتے ہیں
ضرورت ہو تو مر مٹنے کی ہمت ہم بھی رکھتے ہیں
یہ جرأت، یہ شجاعت، یہ بسالت ہم بھی رکھتے ہیں
زمانے کو ہلا دینے کے دعوے باندھنے والو
زمانے کو ہلا دینے کی طاقت ہم بھی رکھتے ہیں
کیا کیا میں تیرے نام نگارِ وطن لکھوں
رشکِ مہ و نجوم تیری ہر کرن لکھوں
گلپوش و گل بدوش کہ گل پیرہن لکھوں
گلشن لکھوں، بہار لکھوں، گل بدن لکھوں
جاناں لکھوں کہ جان لکھوں، جانٍ من لکھوں
کیا کیا میں تیرے نام نگارِ وطن لکھوں
ملی شاعری
ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
قائد اعظم کی کہتے ہیں امانت ہم جسے
ورثہ یہ اے مہرباں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
وقت کا ہے یہ تقاضا متحد ہو جائیں ہم
کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ملی ترانہ میرے وطن کے راہنماؤ
اقتباس از منظر رخصت
اے اہل وفا ماتم نہ کرو، وہ وعدہ شکن گر جاتا ہے
جاتا ہے مسافر غم نہ کرو، مہماں ہی تھا گھر جاتا ہے
وہ دور مسرت آنے دو، قومی پرچم لہرانے دو
جاتی ہے غلامی جانے دو، صدیوں کا دلدر جاتا ہے
مل جل کے بڑھاؤ شان وطن، تعمیر کرو ایوان وطن
ماں جائے ہیں فرزندان وطن، جو غیر تھا باہر جاتا ہے
ارضِ مقدس
سربلند رہے تیرا تقدس، تیرا اللّٰه نگہبان
اے میری ارضِ مقدس، تیرا اللّٰه نگہبان
تیرا کھیت کھلیان آباد رہے
تیرا جنگل میدان آباد رہے
تیرے دریا بیابان آباد رہے
تیرا ذرہ ذرہ میری جان آباد رہے
عارفانہ کلام منقبت در شانِ فاطمۃ الزہراؑ
سیدّہ، خیرالنساء، اُم الائمۂ کرام
مادرِ آلِ محمدﷺ، دُخترِ خیرالانامؐ
رشکِ مریم، زوجۂ مولا علیؑ ذی احتشام
جملہ مستورات کی سردار و مخدومہ سلام
السّلام اے نور عین سرور ِکون و مکاںﷺ
بیٹے سردارانِ جنت، باپ فخرِ دو جہاںﷺ
عارفانہ کلام پنجتن کے طفیل
رحمتوں کی ہوئی برسات پنجتن کے طفیل
مانگے بن مل گئی خیرات پنجتن کے طفیل
تیرگی کا نہ کوئی ڈر نہ اندیشہ و خوف
دن میں ڈھلتی رہی ہر رات پنجتن کے طفیل
مانگنے کا تو سلیقہ ہمیں آتا ہی نہیں
بنا مانگے ہے یہ بہتات پنجتن کے طفیل
مریخ زادوں کو خبر پہنچے
زنان زہرہ کی خواب گاہوں میں کھلنے والے ضیا کے دفتر سمٹ رہے ہیں
کہ ان کے رحموں میں سبز رنگت کی زندگی کو جگانے والا کوئی نہیں ہے
وہ زہرہ زادی جو نوری سالوں کی اک صدی سے
حمل کی چاہ میں پگھل رہی ہے، وہ منتظر ہے کہ کوئی آئے
اور اس کی سُوکھے شکم میں اپنی بقا کے خلیوں کا سحر پھونکے
جیب و گریباں سی لینے میں دیوانہ مصروف ہوا
ان کی گلی میں آنا جانا مدت سے موقوف ہوا
ہاتھ کٹے تھے، ہونٹ سلے تھے سوچ بھی اب پتھرائی ہے
پہلے بدن مفلوج ہوا تھا، ذہن بھی اب ماؤف ہوا
کومل کرنیں پیتے رہنا کونپل کی معراج ہوئی
رنگوں کا طوفان تھا کیسے غُنچوں میں ملفوف ہوا
کچھ ہوا حاصل نہ اب تک کوششِ بے کار سے
دیکھ لیں گے سر بھی ٹکرا کر در و دیوار سے
سیدھے سادے راستے پر کیا اٹھائیں ہم قدم
پاؤں لپٹے جا رہے ہیں راہِ نا ہموار سے
اک ذرا سی نیند آئی تھی کہ پھر چونکا دیا
تنگ ہم تو آ گئے اپنے دلِ بیدار سے
تعجب یہ نہیں ہے غم کے ماروں کو نہ چین آیا
تڑپنا دیکھ کر میرا ستاروں کو نہ چین آیا
بڑھی بے تابئ دل جب تو بہنے ہی لگے آنسو
مِرے ہمراہ ان پنہاں ستاروں کو نہ چین آیا
رہے گردش میں ساری رات میری بے قراری پر
بڑے ہمدرد نکلے، چاند تاروں کو نہ چین آیا
اشعار کی تخلیق میں جلتا ہے جگر کیوں
یا رب مجھے بخشا ہے یہ جاں سوز ہنر کیوں
غم عشق کی سوغات ہے سینے سے لگا لے
پھولوں کی تمنا ہے تو کانٹوں سے حذر کیوں
کچھ حد سے سوا ہیں مِرے غمخوار، وگرنہ
رہتی ہے مِرے حال پہ یاروں کی نظر کیوں
پرندہ کمرے میں رہ گیا
رات نے جب گھڑیوں سے وقت اٹھا لیا
گھنٹی کی تیز آواز نے سارے پردوں کا رنگ اڑا دیا
کمرے میں چار آدمیوں نے اپنی اپنی سانسیں لیں
سانسیں مختلف رنگوں میں تھیں
ایک آدمی پرانے کلینڈر پر نشان لگا رہا تھا
دوسرا نیا کلینڈر ہاتھ میں مروڑ رہا تھا
دھوپ میں بارش
میں نے پوچھا
دھوپ میں بارش ہو سکتی ہے
یہ سن کر وہ ہنستے ہنستے رونے لگی
اور دھوپ میں بارش ہونے لگی
عارف معین بلے
خود آگہی بھی عجیب شے ہے
میں تم سے کٹ کر
تمام دنیا سے کٹ گیا ہوں
خود اپنے اندر سمٹ گیا ہوں
تمہارے اور میرے درمیاں جو بھی فاصلہ ہے
وہ اک گواہی ہے قُربتوں کی
ہے چبھن مستقل قرار کے ساتھ
پھول ڈالی پہ جیسے خار کے ساتھ
میرے گھر میں بھی کہکشاں کی طرح
ربط قائم ہے انتشار کے ساتھ
صبح کا انتظار ہے، لیکن
بے یقینی ہے اعتبار کے ساتھ
اپنا مِرا وہاں پہ کوئی بس نہیں رہا
رہنے کو جی نہیں تھا مِرا، پس، نہیں رہا
دو آتشہ سے کم نہ ہو آبِ گِراں خمار
صہبائے نِیم رس سے کبھی مَس نہیں رہا
فطرت وہی ہے، زہر وہی، سانپ بھی وہی
پھنکار تو رہا ہے، مگر ڈس نہیں رہا
اس کے لہجے کو اور انداز کو میں جانتا ہوں
اس کے انکار میں اقرار بھی ہو سکتا ہے
اس کی صورت پہ ہیں سیرت کے نمایاں اثرات
ایسے حالات میں تو پیار بھی ہو سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ہیں درِ نایاب
غیر دانستہ یہ اظہار بھی ہو سکتا ہے
عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں
اس طرح عیب نکالو نہ مسلسل مجھ میں
زندگی ہے مِری ٹھہرا ہوا پانی جیسے
ایک کنکر سے بھی ہو جاتی ہے ہلچل مجھ میں
میں بظاہر تو ہوں اک ذرہ زمیں پر، لیکن
اپنے ہونے کا ہے احساس مکمل مجھ میں
کیا سے کیا ہو گئی اس دور میں حالت گھر کی
دشت پُر نُور ہوئے بڑھ گئی ظُلمت گھر کی
سب کی دہلیزوں پہ جلتے ہیں تعصب کے چراغ
کیا کرے گا کوئی ایسے میں حفاظت گھر کی
خامشی، فرض، روایات، عنایت، ایثار
انہیں بنیادوں پہ موقوف ہے عظمت گھر کی
دل پر وفا کا بوجھ اُٹھاتے رہے ہیں ہم
اپنا ہر امتیاز مٹاتے رہے ہیں ہم
منہ پر جو یہ جلے ہوئے دامن کی راکھ ہے
شعلوں میں زندگی کے نہاتے رہے ہیں ہم
اتنا نہ کُھل سکا کہ ہوا کس طرف کی ہے
سارے جہاں کی خاک اُڑاتے رہے ہیں ہم
ایسی تسکین جو کھو کر ملے پا کر دیکھو
دولتِ مہر و مروت کو لٹا کر دیکھو
یورشِ غم نے بنایا ہے نشانِ عبرت
میں ہوں معتوبِ محبت مجھے آ کر دیکھو
دیکھنا تم پہ بھی رحمت کی گھٹا برسے گی
غم کے ماروں کے لیے اشک بہا کر دیکھو
صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤ گے لوگو
وہ عالمِ وحشت ہے کہ مر جاؤ گے لوگو
یادوں کے تعاقب میں اگر جاؤ گے لوگو
میری ہی طرح تم بھی بِکھر جاؤ گے لوگو
وہ موجِ صبا بھی ہو تو ہُشیار ہی رہنا
سُوکھے ہُوئے پتے ہو بِکھر جاؤ گے لوگو
بے جنم تعبیروں کا اسقاط
چیونٹیوں کی طرح رات دن مصروف رہتی ہیں
ایک بے کار اور اذیت ناک مشقت میں
جب ان کے دن کو دیمک چاٹ جاتی ہے
وہ شام ہوتے ہی جوان ہونے لگتی ہیں
اور سورج ان کی کوکھ میں غروب ہوجاتا ہے
مانوں نہ کبھی داتا، مٹی کے خداؤں کو
اوقات میں ہوں لاتا، مٹی کے خداؤں کو
سب نظریں جھکاتے ہیں، میں آنکھیں دکھاتا ہوں
اک آنکھ نہیں بھاتا، مٹی کے خداؤں کو
جو آنکھ میں جھونکی ہے، وہ دُھول ہے چٹوائی
میں ایسے ہوں تڑپاتا، مٹی کے خداؤں کو
چارہ گر اب میں رہوں گا ترے احسان سے پرے
جا رہا ہوں میں ہر اک درد سے درماں سے پرے
دل کی خواہش ہے کہ آرام سے بیٹھوں لیکن
ہاتھ جاتا ہی نہیں چاکِ گریباں سے پرے
سینۂ چاک میں لایا تھا مسیحائی کو
ڈر کے جا بیٹھے ہو تم دلِ عریاں سے پرے
جب تک مرے خیال کو وسعت نہیں ملی
تتلی کو رنگ پھولوں کو نکہت نہیں ملی
کیا کرتے اس سے ہاتھ ملا کر بتائیے
دل کیسے ملتا جس سے طبیعت نہیں ملی
خود کو تلاش نے میں کہیں کہو گیے ہیں ہم
ڈھونڈا بھی آئینے میں تو صورت نہیں ملی
پھر یوں ہوا کہ ہم بھی گروہوں میں بٹ گئے
یوں ہم رہِ مراد سے خود ہی پلٹ گئے
ایسا نہیں کہ اپنی روش ہی غلط ہوئی
ہم اس غلط روش پہ ڈِھٹائی سے ڈٹ گئے
کھاتے تھے کب غنیم سے اپنے شکست ہم
اپنے تو بُرج، اپنے ہی ہاتھوں اُلٹ گئے
دوزخی عورتیں
آگ کی چادروں میں لپیٹی ہوئی دوزخی عورتیں
عورتیں! جن کے پہلو بہزاد کی انگلیوں سے تراشے گئے
جن کے سینوں و کولہوں نے پیدا کئے اینجلو
دوزخی عورتیں جو سدا اہل ایمان کی آزمائش رہیں
عورتیں! جن کے ہونٹوں نے چکھا ہے انکار کا ذائقہ
عورتیں! جن کی ہر اک ادا ابن آدم کی تائید سے ماورا
محبتوں میں مِرا بخت نارسا بھی تھا
وہ چارہ ساز مِرا زخم دیکھتا بھی تھا
ستم شناس مِرے دکھ سے باخبر ہی نہیں
وہ مہرباں جو کبھی مجھ سے آشنا بھی تھا
مِری مثال مجھے دے رہے تھے شہر کے لوگ
پتا چلا میں کسی دور میں بھلا بھی تھا
گڑھے مردے اکھاڑو گے، عفونت پھیل جائے گی
جو ماضی کو کریدو گے، نحوست پھیل جائے گی
جفا کا سوچنا بھی مت، وگرنہ اگلی نسلوں میں
محبت کی امانت میں، خیانت پھیل جائے گی
جو ماضی تھا وہ ماضی تھا، ابھی تو سب تمہارا ہے
یقیں کر لو، یقیں جانو محبت پھیل جائے گی
ٹوٹے حوصلے سے بڑھ گیا ہے بیمار کا بوجھ
میری آرزو کی ندامت تیرے انکار کا بوجھ
کون اٹھاتا ہے روندی ہوئی کلیوں کے لاڈ
بنیاد خود نہیں اٹھاتی گِرتی دیوار کا بوجھ
تیرے چہرے پر دیکھا تو قیمت پتا چلی
ہم سمجھتے تھے تِل کو رخسار کا بوجھ
کہاں شکوہ زمانے کا پس دیوار کرتے ہیں
ہمیں کرنا ہے جو بھی ہم سر بازار کرتے ہیں
زمانے سے رواداری کا رشتہ اب بھی باقی ہے
مگر سودا کسی سے دل کا ہم اک بار کرتے ہیں
محاذ جنگ پر سینہ سپر ہو کر میں چلتا ہوں
مگر بزدل ہمیشہ پشت پر ہی وار کرتے ہیں
بے وفا اب نہ محبت کی دُہائی دوں گا
زندگی بھر میں تجھے زخم جُدائی دوں گا
جو مجھے جیسا سمجھتا ہے سمجھنے دیجے
اپنے بارے میں کہاں تک میں صفائی دوں گا
میرے حصے میں بھی آیا ہے بلندی کا سفر
آسماں والوں تمہیں میں بھی دکھائی دوں گا
امیرِ شہر سے سائل بڑا ہے
بہت نادار لیکن دل بڑا ہے
لہو جمنے سے پہلے خون بہا دے
یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے
چٹانوں میں گھرا ہے اور چُپ ہے
سمندر سے کہیں ساحل بڑا ہے
جہاں دریا کہیں اپنے کنارے چھوڑ دیتا ہے
کوئی اٹھتا ہے اور طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے
مجھے بے دست و پا کر کے بھی خوف اس کا نہیں جاتا
کہیں بھی حادثہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے
بچھڑ کے تجھ سے کچھ جانا اگر تو اس قدر جانا
وہ مٹی ہوں جسے دریا کنارے چھوڑ دیتا ہے
ہجومِ گردشِ دوراں ہے کیا غزل کہیے
دل و دماغ پریشاں ہے کیا غزل کہیے
یہ کس نے آگ لگا دی گُلوں کے دامن میں
دھواں دھواں سا گلستاں ہے کیا غزل کہیے
جلائے جاتے ہیں اب گھر میں آنسوؤں کے چراغ
عجیب جشن چراغاں ہے کیا غزل کہیے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
آج میں اس طرح اکیلا ہوں
جیسے پتے شجر سے جھڑ جائیں
جیسے پنچھی شجر سے اڑ جائیں
اکرم کلیم
آرزو، حسرت، تمنا، مدعا کوئی نہیں
جب سے تم ہو میرے دل میں دوسرا کوئی نہیں
ہے وفائی کا مجھے تجھ سے گلہ کوئی نہیں
پیار تو میں نے کیا، تیری خطا کوئی نہیں
چاہنے والا ہوں تیرا جب کبھی میں نے کہا
کہہ دیا اس بے وفا نے تُو مِرا کوئی نہیں
تمام رات وہ جاگا کسی کے وعدے پر
وفا کو آ ہی گئی نیند رات ڈھلنے پر
جو سب کا دوست تھا ہر انجمن کی رونق تھا
کل اس کی لاش ملی اس کے گھر کے ملبے پر
ہر ایک دوست کے چہرے کو غور سے دیکھا
فقط خلوص کا غازہ تھا سب کے چہرے پر
کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی
یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی
پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے
ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی
ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا
برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی
ہوئے جو بند کچھ رستے، کئی بہتر نکل آئے
عدو نے ہاتھ کاٹے تو ہمارے پر نکل آئے
نظر آتی کہاں تھیں دوستو خود گردنیں کل تک
یہاں جن گردنوں پہ اب کشیدہ سر نکل آئے
ارے تُو تو مِری آواز پر نکلا نہیں باہر
ہزاروں لوگ میری خامشی سن کر نکل آئے
طوفاں سے بچ کے دامنِ ساحل میں رہ گیا
مشکل کے بعد اور بھی مشکل میں رہ گیا
اک شور تھا جو گوشۂ محفل میں رہ گیا
اک درد تھا جو دل سے اٹھا دل میں رہ گیا
اب وہ نگاہِ ناز ہوئی مائلِ کرم
جب کوئی مدعا نہ مِرے دل میں رہ گیا
غرورِ کوہ کے ہوتے نیازِ کاہ رکھتے ہیں
تِرے ہمراہ رہنے کو قدم کوتاہ رکھتے ہیں
اندھیروں میں بھی گُم ہوتی نہیں سمتِ سفر اپنی
نگاہوں میں فروزاں اک شبیہِ ماہ رکھتے ہیں
یہ دُنیا کیا ہمیں اپنی ڈگر پر لے کے جائے گی
ہم اپنے ساتھ بھی مرضی کی رسم و راہ رکھتے ہیں
پونر جنم
ایک نئے رُوپ اور
ایک نئی اُمنگ سے
زندگی کی ترنگ سے
فلک بوس وادیاں
ان میں پھیلی ندیاں
روشنی کی اک دھار
مختصر یہ کوئی تماشا ہو
اب یہاں واقعی تماشا ہو
دائرہ دار ہے جہاں اپنا
جو ہوا پھر وہی تماشا ہو
کیا خبر موت ہو تماشائی
کیا پتہ موت ہی تماشا ہو
ہم نفس جب لکیر کھینچتے ہیں
لوگ لفظوں کے تیر کھینچتے ہیں
لڑکھڑاہٹ سرشت میں کب تھی
دل کو تجھ ایسے پِیر کھینچتے ہیں
خیمۂ شب کی ڈوریوں کو صنم
یہ تمہارے اسیر کھینچتے ہیں
اقرار
حال دل جو بیاں ہو جائے
راز آنکھوں سے عیاں ہو جائے
وہ جو تھام کے رکھی ہو کہیں
اس محبت کا گماں ہو جائے
آرزو دل کے نہاں خانوں میں
دفعتاً جو جواں ہو جائے
موجۂ درد کو اتنا تو اُچھالا جائے
جس طرف ابر چلے، میرا حوالہ جائے
دل کے صحرا میں تہی چشم کھڑا سوچتا ھوں
کس طرح اتنی تمناؤں کو پالا جائے
میرا تو سات زمانوں میں کہیں ذکر نہیں
کِن زمینوں میں مجھے ڈھونڈنے والا جائے
پاس رہ کر بھی دور ہو جانا
مثل اک کوہ نور ہو جانا
ایک شیریں زباں کو دیکھا ہے
لذت آمچور ہو جانا
حسن مغرور سامنے ہو اگر
کون سوچے گا دور ہو جانا
وہ یہیں ہے شہر میں ٹھہرا ہُوا
زخم دل کا اور بھی گہرا ہوا
میں وفا کی آنکھ سے ٹپکا ہوا
ایک آنسو جو بہت رُسوا ہوا
مُدتیں گُزریں اُسے بچھڑے ہوئے
لمحہ لمحہ پھر بھی ہے چونکا ہوا
اتنا بتائیے مجھ کو
میں کہ مفلس غریب اک شاعر
آپ اور آپ کی گِراں مائی
آپ اور آپ کی یہ رعنائی
ایک سورج اور ایک تاریکی
ایک دانا، اور ایک سودائی
کیا علاقہ ہے آپ میں مجھ میں
محبت اپنا اظہار کر لیتی ہے
سُولی پہ چڑھ کے
کھال کھینچ کر
پہاڑ سے کُود کر
یا سمندر میں ڈُوب کر
محبت اپنا اظہار کر لیتی ہے
انا کے جال سے، جو قیدِ ذات سے نکلا
وہ مثلِ نُورِ سحر، شب کی گھات سے نکلا
ہر ایک قطرہ بنا، حرفِ وصفِ کاکُلِ یار
نہا کے خوب قلم جب دوات سے نکلا
وہ معتبر نہ رہا چشمِ اہلِ اُلفت میں
جو اُس کے دائرۂ التفات سے نکلا
زندگانی ہنس کے طے اپنا سفر کر جائے گی
یوں اجل کا معجزہ اک روز سر کر جائے گی
کیا خبر تھی چاہ اس کی دل میں گھر کر جائے گی
مجھ کو خود میرے ہی اندر در بدر کر جائے گی
پہلے اپنا خوں تو بھر دوں زندگی کی مانگ میں
جب اسے جانا ہی ٹھہرا بن سنور کر جائے گی
جب تک رشتہ جام سبو کا باقی ہے
شہر میں امکاں ہاؤ ہو کا باقی ہے
جلتے زخموں سے آوازیں آتی ہیں
شاید کوئی کام رفو کا باقی ہے
پتے نے ٹہنی سے آخر پوچھ لیا
کیا کوئی جھونکا اور بھی لُو کا باقی ہے
ہر نظر آج برملا تو اٹھی
تہمتِ عرضِ مدعا تو اٹھی
مسجدوں پر سکوت طاری تھا
میکدے سے کوئی صدا تو اٹھی
ان کے شانوں پہ زلف لہرائی
ہو کہ بارش نہ ہو، گھٹا تو اٹھی
ایک دھندلا سا خواب ہے دنیا
در حقیقت سراب ہے دنیا
ہم نے مانا خراب ہے دنیا
پر یہ آخر جناب ہے، دنیا
اے مِرے دل! نہ پھول دنیا پر
اے مِرے دل! حباب ہے دنیا
دل کا کوئی سیلف میڈ آسمان تھا
نہ اسے کوئی وراثتی زمین ملی
یہ معرفت کی ہواؤں کا والی ہے
یہ یاسیت کی مملکت کا شہزادہ ہے
جُھومتے جُھومتے رُک جائے
اور چلتے چلتے ہانپنے لگے
یہ کیا پڑی ہے تجھے دل جلوں میں بیٹھنے کی
یہ عمر تو ہے میاں! دوستوں میں بیٹھنے کی
چھپائی جاتی نہیں زردیاں سو دور ہوں میں
وگرنہ ہوتی ہے خواہش گلوں میں بیٹھنے کی
شمار میرا بھی کرتے ہیں لوگ ان میں مگر
مِری مجال کہاں شاعروں میں بیٹھنے کی
زمانے سے بغاوت ہے، نہیں تو
مجھے تم سے محبت ہے، نہیں تو
یہ سانسیں اب بھی دیکھو چل رہی ہیں
مجھے تیری ضرورت ہے، نہیں تو
میرا دل ہے کہ بس اب بُجھ چکا ہے
ذرا سی بھی کدُورت ہے، نہیں تو
شرحِ خُونِ آرزو کا اک نیا انداز ہُوں
گرمئ احساس سے جو بج اُٹھے وہ ساز ہوں
زلزلوں کی زد میں آئے شہر کے ملبے تلے
جلتی بُجھتی زندگی کی آخری آواز ہوں
پانیوں سے دُور ہوں میں بال و پر ہوتے ہوئے
سالخُوردہ ہنس کی میں حسرتِ پرواز ہوں
غم جو پیمانۂ دل بھر کے اچھل جاتے ہیں
سرد آہوں، کبھی شعروں میں ڈھل جاتے ہیں
دستِ ساقی سے جو پیتے ہیں بہل جاتے ہیں
چشمِ ساقی سے جو پیتے ہیں سنبھل جاتے ہیں
کرنا اظہار ضروری ہے کسی بھی صورت
ورنہ ذہنوں میں خیالات بھی گُھل جاتے ہیں
مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے کوئی گلزار نہ بن
چھوڑ دے راہ مِری، راہ میں دیوار نہ بن
یہ جو دنیا ہے تِرے ہاتھ نہیں آنے کی
کاغذی پھول کی خوشبو کا طلبگار نہ بن
مار ڈالے نہ یہ احساسِ رقابت مجھ کو
تُو مِرا بن کہ نہ بن، اس کا طرفدار نہ بن
اب چھوڑ دو یہ جان کا جنجال دوستو
دو چار سن لو پیار کے اقوال دوستو
اک اور خالی تھال سجا لیں گے لوگ یہ
بھر جائے خواہشوں کا جب اک تھال دوستو
قسموں پہ ان کی کرنا نہ ہرگز یقین تم
رکھیں گے وا یہ روزن ابطال دوستو
ٹُوٹ چکی ہوں، جوڑ دے سائیں
دُکھ دریا کو موڑ دے سائیں
تجھ بِن کون سہارا ہے گر
ساتھ مِرا تُو چھوڑ دے سائیں
تیرے سوا کسی در پہ جُھکے تو
میرا ماتھا پھوڑ دے سائیں
تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا
ہم زمیں زادوں کے سر پر آسماں رہنے دیا
لفظ وہ برتے کہ ساری بات مبہم ہو گئی
اک پردہ تھا کہ حائل درمیاں رہنے دیا
آنکھ بستی نے سبھی موسم مسافر کر دئیے
ایک اشکوں کی روانی کا سماں رہنے دیا
صدیوں کو راستے دکھا لمحوں کو سازگار کر
دل کو بنا چراغِ شب سورج کو شرمسار کر
شکر، سکوں نصیبِ جاں، صبر، حیات رائیگاں
سوزِ طریق زندگی لمحوں یہ اختیار کر
ان کے بغیر روح کو کیسے ملے کھلی فضا
آگ کو ہم زباں بنا دریا کو راز دار کر
چھوڑ جاتے ہیں مِرے یار مجھے غاروں میں
میری تنہائی کھلا کرتی ہے تہواروں میں
حسن بڑھتا ہے اگر زخم سلیقے سے لگیں
کیسا دلکش نظر آتا ہے فلک تاروں میں
تجھ کو معلوم نہیں لذتِ لمسِ اول
تُو بہت بعد میں آیا ہے طرحداروں میں
نہ جانے کیوں اس گھڑی بکھرنے سے رہ گیا تھا
میں اس کی آواز پر ٹھہرنے سے رہ گیا تھا
اس ایک لمحے کی رائیگانی کا دکھ ہے سارا
وہ تیری قربت میں جو گزرنے سے رہ گیا تھا
خوشی کے رستے کو مسکراتا ہوا گیا ہے
وہ غم جو دل میں قیام کرنے سے رہ گیا تھا
حال کیسا ہے یہ بھی اب میں بتاؤں پیغام کی صورت
تمہارے دل میں کسک نہیں اُٹھتی الہام کی صورت
کچھ اجنبی سے رستوں پر کوئی ہمدم ملا تھا
یوں جیسے خاردار راہ پر ملے کوئی گُل و گُلزار کی صورت
شام ڈھلتے ہی منڈیروں پر چراغوں کو جلاتے ہیں
اور دو آنکھیں دہلیز پر ٹکی ہوتی ہیں انتظار کی صورت
گلی پڑی تھی کہیں راستہ پڑا ہوا تھا
دلوں کے بیچ عجب فاصلہ پڑا ہوا تھا
اُلجھ رہا تھا بھنور جب ہماری ناؤ کے ساتھ
بہت قریب کوئی آسرا پڑا ہوا تھا
سُلگتی شام تھی صحرا تھا جلتے خیمے تھے
قریب خیموں کے دستِ دُعا پڑا ہوا تھا
حرف لفظوں کی طرف لفظ معانی کی طرف
لوٹ آئے سبھی کردار کہانی کی طرف
ہوش کھو بیٹھا تھا میں زردئ جاں سے اور پھر
اک ہوا آئی اڑا لے گئی پانی کی طرف
پہلے مصرعے میں تجھے سوچ لیا ہو جس نے
جانا پڑتا ہے اسے مصرعۂ ثانی کی طرف
میرے باپ مجھے اجازت دو
اے میرے باپ! مجھے اجازت دو
مجھے اجازت دو کہ میں
تمہارا کوئی پوتا نہ پیدا کروں
تاکہ جو میں نے تمہارے ساتھ کیا
وہ میرے ساتھ نہ کر سکے
مجھے تمہارا انتظار کرنا اچھا لگتا ہے
مجھے تمہارا انتظار کرنا اچھا لگتا ہے
یوں ہے کہ تم موجود نہیں ہو
تم بہت فاصلے سے مجھے سنتی ہو
اور میری آواز تمہیں چُھو نہیں سکتی
یوں ہے کہ تمہاری آنکھیں کہیں اڑ گئی ہیں
بغاوت
جب میں نے کہا
میں تم سے محبت کرتا ہوں
تو جانتا تھا
ایک بغاوت کی رہنمائی کر رہا ہوں
قبیلے کے قانون کے خلاف بغاوت
اپنے خلاف بغاوت
بس اے بہار کے سورج! بڑھا یہ قہر کا رنگ
جلا گئی ہے تِری دھوپ میرے شہر کا رنگ
شجر کو سبز قبا دیکھ کر یہ اُلجھن ہے
کہاں پہ رنگِ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ
کنارِ جوئے رواں جب سے قتل گاہ بنی
ہجوم اُمڈنے لگا دیکھنے کو نہر کا رنگ
مجھے کسی سے کسی بات کا گِلا ہی نہیں
کہ اپنے دل کے سوا کوئی مُدعا ہی نہیں
تِرا کرم مِرے دن کلفتوں کے یوں گزرے
مجھے لگا کہ مِرے ساتھ کچھ ہُوا ہی نہیں
لہولہان ہو دل یا قلم ہو سر جانا
تِری گلی کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں
قہقہے ہونٹ مگر زخم کِیے دیتے ہیں
چلو دِکھلاتے نہِیں چاک سِیے دیتے ہیں
کون سُقراط کی مانند پِیے گا پیالہ
آؤ یہ کارِ جہاں ہم ہی کِیے دیتے ہیں
گھر میں مُدت کے اندھیروں کو مِٹانے کے لیے
اِستعارے کو وہ آنکھوں کے دِیے دیتے ہیں
احباب چھٹے محبوب چھٹے گھر چھوٹ گیا در چھوٹ گیا
جب دل سے تمنا چھوٹ گئی، سب رشتہ ناتا ٹوٹ گیا
اے ساقیٔ بزم کیف حیات اب مجھ کو پیاسا جانے دے
مے جس میں مِری تقدیر کی تھی وہ شیشہ تجھ سے ٹوٹ گیا
گو شیشہ گر قدرت نے بہت ٹوٹے ہوئے شیشے جوڑ دئیے
لیکن یہ ہمارا شیشۂ دل جوڑا نہ گیا یوں ٹوٹ گیا
اے روحِ زندگی
اے خدا کی قوتِ تخلیق
کون سی نئی دنیائیں آباد کرنے میں مصروف ہو گئی ہے تُو
اس ہماری دنیا کی جانب بھی پلٹ کر دیکھ
جو لمحہ بہ لمحہ ویران سے ویران تر ہوتی جا رہی ہے
اے روحِ زندگی
میری دنیا گول نہیں
میری دنیا
ایک سیدھی لکیر ہے
جس کے ایک طرف ایک کمرا ہے
اور دوسری طرف
ایک لیپ ٹاپ
اس کمرے میں ایک گھڑی ہے
آؤ میرے شہر کے لوگو! اپنی اپنی بات کریں
پیت کی مات کے قصے چھیڑیں پاگل دل کی بات کریں
کالی رات کا جزو بنے تو کتنے جیون بیت گئے
صبحوں کے سندیسے لائیں بھولی بسری بات کریں
دیکھو پھولِ سماعت کوئی لفظوں سے مجروح نہ ہو
دھرتی کے دکھ گھول کے پی لیں، کوئی پیاری بات کریں
دل تھا زخمی پھر بھی ہم ہنس دینے پر مجبور ہوئے
اس کا نتیجہ بس یہ نکلا، زخم جو تھے ناسور ہوئے
معصوم محبت ہے اپنی، یعنی اپنا حال یہ ہے
ان کو دیکھا ایک نظر، بس دیکھا اور مسرور ہوئے
دنیا کے اس شیش محل میں کس نے یوں پتھراو کیا
شیشے تو پھر شیشے ٹہرے دل بھی چکنا چور ہوئے
شاہین کی لپک (فضائی شاہینوں کا نغمہ)
یہ سنا اور فوراً لپکتے ہوئے
دو جواں سال شہباز اپنے بڑھے
ایک لمحہ گزرنے نہ پایا کہ وہ
تھے جہازوں کی ہودوں میں بیٹھے ہوئے
اک اشارہ کیا اور چنگھاڑ کر
انجن ان کے جہازوں کے منہ پھاڑ کر
اور جب پرچم ملا
(فضائی شاہینوں کا نغمہ)
مردانِ با وقار و خواتینِ محترم
لے کر خدا کا نام اٹھاتا ہوں پھر قلم
جس کی عنایتوں سے ہمیں قوم کا علم
بخشا گیا ہے آج یہی جان کر کہ ہم
بے خوف ہیں، جری ہیں، غیور و دلیر ہیں
جانباز و جاں نثار ہیں، شیروں کے شیر ہیں
محبت
ہواؤں کی طرح ہلکی
یہ خوشبو کی طرح مدھم
یہ رنگوں کی طرح جاذب
کبھی خوش کُن، کبھی پُر نم
بڑے دلکش ہیں سب منظر
یہ جن کو حُسن دیتی ہے
شب کا انجام فاتحانہ ہُوا
مجھ کو تکیہ بھی تیرا شانہ ہوا
سب ہی مجرم ہیں ایک دُوجے کے
میں ہُوا، تم ہُوئے، زمانہ ہوا
اب تو دونوں کہیں نہیں لگتے
دل ہُوا یا مِرا نشانہ ہوا
دل کس سے ملنے کی چاہ میں ہوتا ہے
کیوں جنگل میں بھیڑیا شب بھر روتا ہے
کس کو کسی سے ہے امید وفاؤں کی
پانی کب بد رو کا کوئی بلوتا ہے
چاندنی اس کا نور اڑا لے جاتی ہے
رات کو چھت پر جا کر جو بھی سوتا ہے
ہم دشتِ دل کو نقش سے آباد کر سکیں
ملتے رہا کرو کہ تمہیں یاد کر سکیں
خود پر تو ایک عمر سے بس چل نہیں رہا
چڑیا خرید لاؤ کہ آزاد کر سکیں
اشکوں میں ہے سمائی ہوئی ایک جل ہری
اے کاش اس پری کو زمیں زاد کر سکیں
جو پارسا ہیں وہ ہرگز نہ پارسا ہوتے
اگر گناہ کی لذت سے آشنا ہوتے
ہوا کے دوش پہ جو اُڑ رہے ہیں گرد و غبار
اگر زمین پہ ہوتے تو نقشِ پا ہوتے
یہ برگِ سبز جو ہیں چھائوں میں بہاروں کی
خزاں کی دھوپ میں جلتے تو کیمیا ہوتے
مِلنے کی کوئی آس نہ شِدت ہُوا کرے
ایسی محبتوں پر لعنت ہوا کرے
ہم مانتے نہیں تِرے لفظوں کے کرب کو
پیلی ذرا جُدائی میں رنگت ہوا کرے
کوئی سکیل ہو، کوئی پیما نہ کاش ہو
جس میں بیان پیار کی وُقعت ہوا کرے
ایسا نہیں ہوتا، کبھی ویسا نہیں ہوتا
در اصل مقدر میں وہ لکھا نہیں ہوتا
اے غُربتِ جاں کیسے تجھے سب سے چھپاؤں
کپڑے نہیں ہوتے، کبھی جوتا نہیں ہوتا
وہ رات مِری ذات میں شامل ہی نہیں ہے
جس رات تِری بانہوں کا تکیہ نہیں ہوتا
سو ہاتھ اٹھے کرب کی خوشبو کو چُرانے
کیا زخم لگائے ہیں مِرے تن پہ ہوا نے
رستے میں کوئی پیڑ جو مل جائے تو بیٹھوں
وہ بار اٹھایا ہے کہ دُکھنے لگے شانے
آنکھوں میں بسی تھی تِرے چہرے کی تمازت
چلنے نہ دیا راہ میں زنجیر صدا نے
کیا سروں کے ساتھ ہے سازش دُھواں ہوتی ہوئی سی
پاؤں کے نیچے کوئی شے آسماں ہوتی ہوئی سی
ذہن کے آئینے میں گُلِ نُور مُرجھایا ہوا سا
مُشکِ قُربت، یاد جنت رائیگاں ہوتی ہوئی سی
عمر بھر آزار کی لذت، وہ شرطِ خوش کلامی
جم گئی نم دیدہ آنکھوں میں بیاں ہوتی ہوئی سی
یہ سُوجھی ہے کیا آپ کو شیخ صاحب
جو چُپ سادھ لی آپ نے شیخ صاحب
لپیٹا تھا ناصر جب جب منہ سوچا میں نے
محبت ہی کمزور تھی آپ کی جو نہیں روک پائی اسے شیخ صاحب
سجیلا تھا گُل آپ کے باغ کا سب سے وہ شیخ صاحب
گیا وہ، گئی بزم یاراں کی رونق گئی اس کی خوشبو
آتی جاتی سانسوں سے رابطہ بھی رکھنا ہے
زندگی سے تھوڑا سا فاصلہ بھی رکھنا ہے
اک نئی تمنا کو دل میں پلنے دینا ہے
اور ٹوٹ جانے کا حوصلہ بھی رکھنا ہے
یوں تو ایک تنہائی ساتھ ساتھ چلتی ہے
اب نیا سفر ہے تو قافلہ بھی رکھنا ہے
مِرا سخن جو تمہارے خیال تک پہنچا
تو خستہ حال بھی اپنے کمال تک پہنچا
نکھار اور بڑھا ہے گلاب کا تب سے
یہ تیرے ہونٹوں کی جب سے مثال تک پہنچا
خوشا نصیب کہ دل آ گیا ہے آنکھوں میں
یہ بے زباں بھی کسی عرضِ حال تک پہنچا
لیجیے ختم ہوا گردش تقدیر کا رنگ
آئیے دیکھیے مٹتی ہوئی تصویر کا رنگ
ہم نے جھیلی ہیں زمانے میں کشش کی کڑیاں
ہم سے پوچھے کوئی بگڑی ہوئی تقدیر کا رنگ
ذکر تدبیر عبث فکر رہائی بے سود
جب کہ مٹتا نظر آنے لگا تقدیر کا رنگ
سرائے دار کا اتنا کوئی اُدھار نہ تھا
مگر وہ خواب مجھے یوں بھی سازگار نہ تھا
مِری شعاع اندھیرے میں کام آئی مجھے
مِرا کسی کے چراغوں پہ انحصار نہ تھا
تمہارے واسطے وہ کام بھی کیے میں نے
وہ کام جن پہ مِرا کوئی اختیار نہ تھا
شکر ہے خیریت سے ہوں صاحب
آپ سے اور کیا کہوں صاحب
اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں
اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب
ذلتِ زیست یا شکستِ ضمیر
یہ سہوں میں کہ وہ سہوں صاحب
کسی گمان، کسی آگہی سے خائف ہے
عجیب شخص ہے، وہ ہر کسی سے خائف ہے
ستارہ ڈوب گیا اعتبار کا شاید
تِرا اندھیرا مِری تیرگی سے خائف ہے
چراغ قتل کیے جا رہے ہیں گلیوں میں
تمام شہر یہاں روشنی سے خائف ہے
اک ضرورت میں صرف ہو گئے تھے
پھر مِرے ہاتھ برف ہو گئے تھے
لفظ کی طرح تھے کبھی ہم لوگ
اور پھر حرف حرف ہو گئے تھے
شہر کی ہر گلی کشادہ تھی
لوگ ہی تنک ظرف ہو گئے تھے
دل میں ہر چند آرزُو تھی بہت
کام تھوڑا تھا گُفتگُو تھی بہت
سنگ منزل یہ چھیڑتا ہے مجھے
آ تجھے میری جُستجُو تھی بہت
کون ہے جس سے میں نہیں الجھا
گو مِری طبع صلح جُو تھی بہت
جانتا ہوں کہ وہ وقت بھی آئے گا
جب مِری شاعری کو اچانک کبھی
چاند آکاش گنگا میں نہلائے گا
جانتا ہوں کہ وہ وقت بھی آئے گا
جب زباں کا تعصب نہ ہو گا کہیں
میری خوشبو سے ہر اک مہک جائے گا
زمانہ پوچھ رہا ہے مِرے سخن کا جواب
ریاضتیں بھی ہیں لیکن عطا ہے فن کا جواب
کوئی تو شہر سے تھک ہار کر بھی آئے گا
یہی ہے گاؤں کا جنگل کا اور بن کا جواب
ہمیں تو بس تِری باتوں میں آنا ہوتا ہے
ہمارے فہم میں اتنا ہے بھولے پن کا جواب
چاہت کا آب، توجہ کی دُھوپ دینے سے
فصل ہری اُگتی ہے محبت کے بیج بونے سے
خواب جب ہجر کے منظر دکھانے لگیں
اک خوف آتا ہے پھر سونے سے
دل کی نرمی کی علامت ہے یہ تو
مگر غلط باتیں منسوب ہیں رونے سے
بڑھیں گے اور بھی یوں سلسلے حجابوں کے
کر اپنی بات، حوالے نہ دے کتابوں کے
میں شہرِ گُل کا مسافر مِرے شریک سفر
صعوبتوں کی یہ راتیں یہ دن عذابوں کے
تِری نظر سے عبارت تھے تیرے ساتھ گئے
وہ پھول میرے خیالوں کے رنگ خوابوں کے
کل ایک شعر میں، میں نے یوں استعارا کیا
تمہاری آنکھوں کو اک جھیل کا نظارہ کیا
وہ کیا ہے پہلے مِرا دل نہیں لگا اس سے
سو میں نے اس سے وہی عشق پھر دوبارہ کیا
امیر لوگ نمائش بنا رہے تھے جسے
کسی نے سانسوں کو بیچا تو پھر غبارہ کیا
آنکھ میں پھیلے کاجل کی مجبوری سمجھا کر
اے دل! پہلے بات ہماری پوری سمجھا کر
قربت کا مفہوم یہی ہے دوسرے لفظوں میں
بال برابر دوری کو بھی دوری سمجھا کر
مفت میں مت بیکار سمجھ ہم فارغ لوگوں کو
سانسوں کی ترسیل کو بھی مزدوری سمجھا کر
رنگ دے (گیت)
میری بے رنگی مٹا دے، مجھ کو اپنا رنگ دے
مجھ کو اپنے رنگ میں، تُو میرے سجنا رنگ دے
نیلا نیلا ہے سمندر، نیلا نیلا آسماں
رنگ آفاقی ہے نیلا، مجھ کو نیلا رنگ دے
تیری قدرت اور محبت کے بہت سے رنگ ہیں
گھول کر یہ رنگ سب، تُو میرا چولا رنگ دے
تیرے بیمار ہیں، تجھ ہی سے دوا لیتے ہیں
زہر کھا لیتے ہیں، تجھ ہی کو دعا دیتے ہیں
یہ اسیری ہے تو رہائی سے کہیں بہتر ہے
اس بہانے تیری قُربت کا مزہ لیتے ہیں
ذکر ان کا ہو ملاقات سے بہتر کیونکر
دیکھ کر ان کو ہی زخم کو جِلا دیتے ہیں
میں تو سمجھا تھا کوئی بوڑھا شجر بیچا ہے
کیا خبر تھی کہ پرندوں کا نگر بیچا ہے
حال مت پوچھ مِرے فاقہ زدہ لوگوں کا
آنکھ بیچی تو کہیں نورِ نظر بیچا ہے
جانے کیسی تھی وہ مجبوری کہ ماں نے اپنا
چند سِکوں کے عوض لختِ جگر بیچا ہے
گو کلیجا شبِ فُرقت میں پگھل جاتا ہے
اے غمِ ہجر! تِرا کام تو چل جاتا ہے
دلِ بے تاب سے وہ زلفِ رسا کہتی ہے
جو محبت میں بگڑتا ہے، سنبھل جاتا ہے
ہم کو سوتے سے جگاتے ہیں جگانے والے
قافلہ جب کہ بہت دُور نکل جاتا ہے
آسمانوں کی بلندی سے اتر آیا ہوں
اے زمیں مجھ کو سہارا دے میں گھر آیا ہوں
مُدتوں بعد پکارا مِری وحشت نے مجھے
مُدتوں بعد میں صحرا میں نظر آیا ہوں
دیکھ راہوں میں مِری خار بچھانے والے
میں اُدھر چھوڑ کے گُلزار اِدھر آیا ہوں
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
ٹھہرو تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو
منع کیوں کرتے ہو عشق بت شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو، غم کھانے دو
کچھ اس بلا کا تِرا ربط آشنا ہونا
کہ ہر جفا کا بہ اندازۂ وفا ہونا
ستم شعار تِری آرزو پہ کیا موقوف
کسی خلش کا گوارہ نہیں جدا ہونا
جہاں میں پھر نہ کہیں وجہ رشک ہو جائے
تِرے کرم سے مِرا مورد جفا ہونا
قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے
آپ تو آئے نہیں پر پھول مہنگے ہو گئے
ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ
ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے
مجھ کو اس حسن نظر کی داد ملنی چاہیے
پہلے سے اچھے تھے جو کچھ اور اچھے ہو گئے
ہر بات پر نہ یوں ہمیں غصہ کریں حضور
کچھ بد مزاج لوگ ہیں دیکھا کریں حضور
اک دن ہوا کے خوف سے کہنے لگا چراغ
میرا یوں شاعری میں نہ چرچا کریں حضور
جتنا جنوں ہے جیب میں باہر نکالیے
بازار ہے یہ عشق کا خرچہ کریں حضور
تمہاری جانب بھی کیا یونہی بدحواس آتی ہے تم سناؤ
یہاں کہیں سے ہوا بھی آئے اداس آتی ہے تم سناؤ
تمہیں بتایا تھا پیڑ پودوں کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے
اور اب درختوں کے خشک پتوں سے باس آتی ہے تم سناؤ
میں کیا سناؤں کہ میرے جیسی سدا کی بنجر زمین پر بھی
تمہارے جیسوں کے بول پڑنے سے گھاس آتی ہے تم سناؤ
یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
یہ دل گئے دنوں کی رفاقت میں اب بھی ہے
اک یاد ہے جو نقش ہے لوحِ دماغ پر
اک زخم ہے جو دل کی حفاظت میں اب بھی ہے
رُکتے نہیں ہیں آنکھ میں آنسُو کسی طرح
یہ کاروانِ شوق، مُسافت میں اب بھی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں مدینے جو پہنچی تو دل میں مِرے روشنی ہو گئی
رُوح مُردہ تھی لیکن مجھے یوں لگا زندگی ہو گئی
پھر سحابِ کرم سے خزاؤں میں بھی پُھول کِھلنے لگے
دیکھ کر سبز گُنبد بہاروں سے بس دوستی ہو گئی
ہے مِرے واسطے تو یہ روشن مدینہ ہی روشن جہاں
چاند یثرب سے اُبھرا تو چاروں طرف چاندنی ہو گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
والضحیٰ، واللیل کی آیاتِ پُر انوار سوچ
سوچنا ہے تو شبیہ احمد مختارﷺ سوچ
نعت پاک مصطفیٰؐ کے واسطے درکار ہے
عشق، پاکیزہ تخیل، عشق میں سرشار سوچ
ماورائے عقل و دانش مصطفیٰؐ کی رفعتیں
محو حیرت عقل ہے بے بال و پر افکار سوچ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آقائے مدینہﷺ ہی لجپال ہمارے ہیں
سرکارؐ کے منگتوں میں سب چاند ستارے ہیں
توصیف کی رم جھم ہیں آیاتِ خداوندی
مِدحت کی لیے ٹھنڈک قرآن کے پارے ہیں
کل شب مِرے آنگن میں طیبہ کی ہوا اتری
ساون کی گھٹائیں ہیں، رحمت کے اشارے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت میں کیسے کہوں انؐ کی رضا سے پہلے
میرے ماتھے پہ پسینہ ہے ثنا سے پہلے
نور کا نام نہ تھا عالمِ امکاں میں کہیں
جلوۂ صاحب لولاک لما سے پہلے
اُنؐ کا در وہ درِ دولت ہے جہاں شام و سحر
بھیک ملتی ہے فقیروں کو صدا سے پہلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یادِ نبیﷺ کا گلشن مہکا مہکا لگتا ہے
محفل میں موجود ہیں آقاﷺ ایسا لگتا ہے
نامِ محمدﷺ کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے
پیارے نبیؐ کا ذکر بھی ہم کو پیارا لگتا ہے
لب پر نغمے صلِّ علیٰ کے، ہاتھوں میں کشکول
دیکھو انﷺ کا منگتا کتنا اچھا لگتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سَیلِ گفتارِ محمدﷺ زمزم و مُشک و گُلاب
اور وہ لب ہائے گویا، روشنی، خُوشبو، حِنا
کاروانِ نور و نکہت ان کے سانسوں کی مہک
اور وہ کومل سا مُکھڑا، روشنی، خُوشبو، حنا
ذاتِ ختمِ المرسلینﷺ خُورشید، عنبر، تازگی
حیدرؑ و حسنینؑ و زہراؑ، روشنی، خُوشبو، حنا
ہم ساتھ نہ بھی چلیں لیکن
ہمارے رستے جدا نہیں ہوتے
دوری جو ہو درپیش تو ایسی
جیسے دو قطب ملا نہیں ہوتے
تیری یاد میں نکلتے ہیں بہہ کر
آنکھ سے موتی وہ چرا نہیں ہوتے
اک دعا چاند کو دیکھ کر
خدائے عالم، عظیم و اکبر
نظر عید کا جو چاند آیا
ہے آسماں پر
خدآیا میرے تو اس قمر کو
سلامتی کا، امن کا اور آشتی کا
نشاں بنا دے