Monday, 30 May 2016

اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو

فلمی گیت

اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو
اپنا پرایا مہرباں نامہرباں کوئی نہ ہو
اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل ۔۔

جا کر کہیں کھو جاؤں میں نیند آئے اور سو جاؤں میں
دنیا مجھے ڈھونڈے، مگر میرا نشاں کوئی نہ ہو

چاند پھر نکلا مگر تم نہ آئے

فلمی گیت

چاند پھر نکلا مگر تم نہ آئے
جلا پھر میرا دل، کروں کیا میں ہائے
چاند پھر نکلا ۔۔۔

یہ رات کہتی ہے وہ دن گئے تیرے
یہ جانتا ہے دل کہ تم نہیں میرے
کھڑی ہوں میں پھر بھی نگاہیں بچھائے

Sunday, 29 May 2016

ایک اور رات

ایک اور رات

رات چُپ چاپ دبے پاؤں چلی جاتی ہے
صرف خاموش ہے، روتی نہیں، ہنستی بھی نہیں
کانچ کا نیلا سا گُنبد بھی اُڑا جاتا ہے
خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے
چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں
چاند کی چِکنی ڈَلی ہے کہ گھُلی جاتی ہے

خواب كی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

خواب كی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے 
ایسی تنہائی، کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں 
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشان تک نا بتائے 
ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

ہوائیں ان پڑھ ہیں

ہوائیں ان پڑھ ہیں

اب کے بار پھر
موجِ بہار نے
فرشِ سبز پر
ساعتِ مہر میں
ہار سنگھار سے
ہم دونوں کے نام لکھے ہیں

Saturday, 28 May 2016

عمر بھر کوئی بھی احسان نہ کرتے مجھ پر

عمر بھر کوئی بھی احسان نہ کرتے مجھ پر
میرے احباب مگر ایسے نہ ہنستے مجھ پر
فیصلہ کرتے ہوئے خوش تھا تو خوش ہی رہتا
اسکی آنکھوں سے کبھی اشک نہ گرتے مجھ پر
تم بھی مقتل میں چلے آتے تو اچھا ہوتا
چند احسان تمہارے بھی تو ہوتے مجھ پر

اب بھی مجھ کو شکوہ چشم نم سے ہے

اب بھی مجھ کو شکوہ چشمِ نم سے ہے
رِشتہ جس کا تنہائی کے غم سے ہے
عشق سہارے دیتا ہے ضعفِ دل کو 
ورنہ تو ہر خوشبو بھی موسم سے ہے
بھیگی آنکھوں نے کھولا ہے یہ عقدہ
شب کی ساری مستی تو شبنم سے ہے

Monday, 23 May 2016

سارے میخانے کا میخانہ نہیں تھوڑی سی

سارے مۓخانے کا مۓخانہ نہیں، تھوڑی سی
آپ کہہ دیں گے تو پی لیں یہیں، تھوڑی سی
میرے افسانے پہ اس جانِ تغافل نے کہا
یہ کہانی ہے در آغوشِ یقیں، تھوڑی سی
پھر خدا جانے کسے ہم میں سے فرصت نہ ملے
گفتگو آپ سے ہو جائے یہیں، تھوڑی سی

کوئی کس طرح رازِ الفت چھپائے

کوئی کس طرح رازِ الفت چھپائے
نگاہیں ملیں، اور قدم ڈگمگائے
وہ مجبوریوں پر مِری مسکرائے
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے
محبت میں کچھ اتفاقات بھی تھے
کہ جو میری تقدیر بننے نہ پائے

شان وفا تو ہے اگر کار وفا نہ ہو سکا

شانِ وفا تو ہے اگر کارِ وفا نہ ہو سکا
سر کو جھکائے رکھ اگر سجدہ ادا نہ ہو سکا
تیرے کرم سے فیضیاب کون گدا نہ ہو سکا
یہ تو مِرا نصیب ہے، میرا بھلا نہ ہو سکا
اپنی نظر سے پوچھ لے میرے جگر سے پوچھ لے
تیرا بھی آج تک کوئی میرے سوا نہ ہو سکا

محبت میں ہمیں یہ آخری صدمہ اٹھانا ہے

محبت میں ہمیں یہ آخری صدمہ اٹھانا ہے
جسے دل یاد کرتا ہے اسے دل سے بھلانا ہے
یونہی تیری طرح بیٹھے بٹھاۓ روٹھ جانا ہے
ہمیں دل آزما، اک دن تجھے بھی آزمانا ہے
بہت گنجائشیں رکھیں، نتیجہ پھر یہی نکلا
کہ تم کو مہرباں کہنا حقیقت کو چھپانا ہے

ہے مول بھاؤ میں بازار میں ہے ساتھ مرے

ہے مول بھاؤ میں، بازار میں ہے ساتھ مِرے
وہ ایک کارِ فنا زار میں ہے ساتھ مِرے
صلیبِ جاں سے وصال آسماں کے ساحل تک
ہر ایک لذتِ آزار میں ہے ساتھ مِرے
یہی بہت ہے مِرے جسم و جاں کا حصہ ہے
کہیں تو موجۂ خُوں بار میں ہے ساتھ مِرے

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے

یہی دھڑکا مِرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مِرے اثبات کو اِنکار سے باندھا ہوا ہے
مِرے ہاتھوں میں کیلیں گاڑھ رکھی ہیں کسی نے
مِرے ہی جسم کو دیوار سے باندھا ہوا ہے
یا رستہ دائروں کی قید میں ہے میری خاطر
یا میرے جسم کو پرکار سے باندھا ہوا ہے

ورود جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا

ورودِ جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا
لہو میں اترا، مگر زہر آب ہونے لگا
کوئ تو آۓ، سناۓ نویدِ تازہ مجھے
اٹھو کہ حشر سے پہلے حساب ہونے لگا
اسے  یہ شک  ہے جھلس جائیگا وہ ساتھ میرے
مجھے یہ خوف کہ میں آفتاب ہونے لگا

عجیب جنبش لب ہے خطاب بھی نہ کرے

عجیب جنبشِ لب ہے خطاب بھی نہ کرے
سوال کر کے مجھے لاجواب بھی نہ کرے 
وہ میرے قرب میں دوری کی چاشنی رکھے
مِرے لیے مِرا جینا عذاب بھی نہ کرے 
کبھی کبھی مجھے سیراب کر  کے خوش کر دے
ہمیشہ گمرہِ سحر سراب بھی نہ کرے 

جنہیں شعورِ فن منزل آشنائی رہا

جنہیں شعورِ فنِ منزل آشنائی رہا 
انہی کے دل میں گمانِ شکستہ پائی رہا
سراغ پا نہ سکے آپ اپنی منزل کا
وہ کم سواد، جنہیں شوقِ رہ نمائی رہا
ہمارے دامنِ عصیاں میں‌ منہ چھپاتے رہے
وہ لوگ، جن کو بڑا زعمِ پارسائی رہا

Sunday, 22 May 2016

اس کی نظروں نے جب اشارہ کیا

اس کی نظروں نے جب اشارہ کیا
ہم نے کب سوچنا گوارہ کیا
مذہبی ہیں سو جب بھی عشق ہوا
عشق سے پہلے استخارہ کیا
ترکِ الفت کا فیصلہ بدلا
ایک ہی پیار کو دوبارہ کیا

کوئی شجر بھی سر رہگزار تھا ہی نہیں

کوئی شجر بھی سرِ رہگزار تھا ہی نہیں
مِرے لیے یہ سفر سازگار تھا ہی نہیں
جنہوں نے جڑ سے اکھاڑا مجھے اندھیرے میں
وہ کہہ رہے ہیں کہ تُو سایہ دار تھا ہی نہیں
دیار غیر میں اس واسطے بھی جی نہ لگا
وہاں پہ ہم سا کوئی دلفگار تھا ہی نہیں

یوں مرنے میں سہولت آ گئی ہے

یوں مرنے میں سہولت آ گئی ہے
یزیدوں کی حکومت آ گئی ہے
چُنیں گے سوچ کر حاکم ہم اپنے
ہمیں کافی نصیحت آ گئی ہے
وہ خود کو بیچنے نکلا ہے پھر سے
کوئی تازہ ضرورت آ گئی ہے

ہلکی ہلکی بارش تھی

ہلکی ہلکی بارش تھی
تجھ سے ملن کی
خواہش تھی
لیکن تُو نہ ملنے آیا
میں نے دل کو یہ سمجھایا
یہ موسم کی سازش تھی
ہلکی ہلکی بارش تھی  

کاشف کمال

Saturday, 21 May 2016

رسوائیوں کا خوف ہے روتے نہیں ہیں ہم

رسوائیوں کا خوف ہے روتے نہیں ہیں ہم
تم سے بچھڑ کے رات میں سوتے نہیں ہیں ہم
اس پر تمہارے کا وصل کا افسانہ ہے لکھا
دامن لہو سے اپنا بھگوتے نہیں ہیں ہم
ہم سینچتے ہیں خون سے پھولوں کی وادیاں
کانٹے وفا کی راہ میں بوتے نہیں ہیں ہم

تم نہیں غم نہیں شراب نہیں

تم نہیں غم نہیں شراب نہیں
ایسی تنہائی کا جواب نہیں
گاہے گاہے اسے پڑھا کیجے
دل سے بہتر کوئی کتاب نہیں
جانے کس کس کی موت آئی ہے
آج رخ پہ کوئی نقاب نہیں

کوئی پاس آیا سویرے سویرے

کوئی پاس آیا سویرے سویرے 
مجھے آزمایا سویرے سویرے
میری داستاں کو ذرا سا بدل کر 
مجھے ہی سنایا سویرے سویرے
جو کہتا تھا کل شب سنبھلنا سنبھلنا 
وہی لڑکھڑایا، سویرے، سویرے

آنکھ جب بند کیا کرتے ہیں

آنکھ جب بند کِیا کرتے ہیں
سامنے آپ ہُوا کرتے ہیں
آپ جیسا ہی مجھے لگتا ہے
خواب میں جس سے مِلا کرتے ہیں
تُو اگر چھوڑ کے جاتا ہے تو کیا
حادثے روز ہُوا کرتے ہیں

Thursday, 19 May 2016

نیلی جھیل کنارے ہے اس بھید بھری کا گاؤں

نظم

نیلی جھیل کنارے ہے اس بھید بھری کا گاؤں
نین نقش میں جس کے چمکے ٹھنڈی میٹھی چھاؤں
روپ سروپ سراپا کندن، کیا ماتھا، کیا پاؤں

عشق کی کومل تال پہ ہم تھے کتنے مست مگن 
رنگ، بہار، گلاب، پرندے، چاند، شراب، پَوَن
سانولی سندرتا کی دھن میں گم تھے تن من دھن

تجھ کو بھی شوق سیر و تماشا ہے تو بتا

تجھ کو بھی شوقِ سیر و تماشا ہے تو بتا
اگلا پڑاؤ عشق ہے، چلنا ہے تو بتا 
کام آ پڑا ہے یار مجھے اک درخت سے
جنگل میں کوئی جاننے والا ہے تو بتا
بیٹھی ہے اچھے بَر کیلئے کب سے شامِ غم
تیری نظر میں کوئی اجالا ہے تو بتا

چڑھتے ہوئے دریا کی علامت نظر آئے

چڑھتے ہوئے دریا کی علامت نظر آئے
غصے میں وہ کچھ اور قیامت نظر آئے
گم اپنے ہی سائے میں ہیں ہٹ جائیں تو شاید
کھویا ہوا اپنا قد و قامت نظر آئے
کیا قہر ہے ہر سینے میں اک حشر بپا ہے
اک آدھ گریباں تو سلامت نظر آئے

یہ دور مسرت یہ تیور تمہارے

یہ دورِ مسرت، یہ تیور تمہارے
ابھرنے سے پہلے نہ ڈوبیں ستارے
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے، کنارے، کنارے
عجب چیز ہے یہ محبت کی بازی
جو ہارے وہ جیتے، جو جیتے وہ ہارے

جنوں کا راز محبت کا بھید پا نہ سکی

جنوں کا راز، محبت کا بھید پا نہ سکی
ہمارا ساتھ یہ دنیا، مگر نبھا نہ سکی
بکھر گیا ہوں فضاؤں میں بوئے گل کی طرح
مِرے وجود میں وسعت مِری سما نہ سکی
ہر اک قدم پہ صلیب آشنا ملے مجھ کو
یہ کائنات وفاؤں کا بار اٹھا نہ سکی

ہے غنیمت یہ فریب شب وعدہ اے دل

ہے غنیمت، یہ فریبِ شب وعدہ، اے دل
کیا کوئی دے گا تجھے اس سے زیادہ اے دل
مدتوں جان چھڑکتے رہے جس لمس پہ وہ
اوڑھ کر آ گیا خوشبو کا لبادہ اے دل
اب بھی روشن کیے بیٹھا ہے امیدوں کے چراغ
کتنا معصوم ہے تُو، کتنا ہے سادہ اے دل

چوب صحرا بھی وہاں رشک ثمر کہلائے

چوبِ صحرا بھی وہاں رشکِ ثمر کہلائے
ہم خزاں بخت شجر ہو کے حجر کہلائے
انکی پوروں میں ستارے بھی ہیں انگارے بھی
 وہ صدف جسم ہوئے،۔ آتشِ تر کہلائے
اپنی راہوں کا گلستاں بھی لگے وِیرانہ
ان کی دہلیز کی مٹی بھی گہر کہلائے

سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے

سیلاب کو نہ روکیے رستا بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لبِ دریا بنائیے
اب پتھروں پہ دیکھئے خوابوں کے آئینے
اب پانیوں میں پھول کا چہرہ بنائیے
ہونٹوں کا عکس، روپ کا رس، جسم کا طلسم
کیا کیا اسے تراشیے،۔۔ کیا کیا بنائیے

جنم جنم کی پیاس بجھائے ایک سلگتی آس

جنم جنم کی پیاس بجھائے، ایک سلگتی آس دل سیلابِ طلب بولان ہو جیسے
برق گرے، یا شعلے برسیں، پھر بھی رہے شاداب یہ تشنہ کشتِ طرب بولان ہو جیسے
زلزلہ در داماں ہے، لیکن خاک بسر ہے چاک گریباں زخمِ غمِ احساس سے چور
صدیوں کا محروم، ہزاروں عمروں کا ناکام وہ اک انسان کہ اب بولان ہو جیسے
بچھڑے ہوئے ساتھی نہ ملے پھر، آتے جاتے موسم بھی ناکام رہے، پر جانے کیوں
دل کی راہگزر ہے سونی، آس تھکی ہے، وہ عالم ہے جان بلب بولان ہو جیسے

وہ گل ہے اسے پردہ خاشاک نہ پہنا

وہ گل ہے اسے پردۂ خاشاک نہ پہنا 
خوشبو کو کبھی رنگ کی پوشاک نہ پہنا 
یہ چپ کی شکن دل کی تہوں میں نہ اتر جائے
سوچوں کی رِدا اے مِرے سفاک! نہ پہنا 
پانی پہ کبھی رنگ، کبھی زنگ نہ ٹھہرا
آئینے کو اے جانِ نظر! خاک نہ پہنا 

تو جو بچھڑا تو یہ محسوس ہوا

تُو جو بچھڑا تو یہ محسوس ہوا
جسم سے روح کا رشتہ کیا تھا
آ! مِرے ذہن کی آتش گِہ میں 
اور احساس کا کندن بن جا
اب کے آتی ہے پھواروں کی مہک
جل رہی ہے مِری نبضوں کی چِتا

Tuesday, 17 May 2016

لفظوں کو توڑ پھوڑ کے قابل ہوئے ہیں آپ

لفظوں کو توڑ پھوڑ کے قابل ہوئے ہیں آپ
عالم سمجھ رہے ہیں کہ جاہل ہوئے ہیں آپ
یادوں کی زعفران ہے کشمیر کی طرح
جب سے ہماری زیست میں داخل ہوئے ہیں آپ
یہ ابتداۓ عشق ہے، کیا کچھ بیاں کریں
اس شور کی طرف ابھی مائل ہوئے ہیں آپ

برسوں ترا رقیب رہا، بے وفا نہیں

برسوں تِرا رقیب رہا، بے وفا نہیں
پھر کیا سبب کہ تُو مجھے پہچانتا نہیں
کیا بات، کیا قصور، مِرا کیا گناہ ہے
میں دیکھتا ہوں پیار سے تو دیکھتا نہیں
کس منہ سے دوں حساب غمِ داغِ جرم کا
ننگِ بدن تھا کوئی فرشتہ تو تھا نہیں

سرخی لبوں کی چھین لے اور پیاس رہنے دے

سرخی لبوں کی چھین لے اور پیاس رہنے دے
کچھ دیر کے لیے مجھے حساس رہنے دے
خونِ جگر نکال لے،۔ پانی نچوڑ لے
لیکن متاعِ دل کو مِرے پاس رہنے دے
یہ شاعر غزل کی متاعِ لطیف ہے
احساس کے دیار میں احساس رہنے دے

بہ شوق دیدہ و نادیدہ خواب لکھنے آ

بہ شوق دیدہ و نادیدہ خواب لکھنے آ
یہ سادہ دل ہے، محبت کا باب لکھنے آ
لچک کے ٹوٹ  گئی شاخ شادمانی  کی 
ہنوز بستہ کلی ہوں،۔ گلاب لکھنے آ
عجب ہے دھند امید و یقیں کے چہرے پر
اس آئینے پہ کوئی آب و تاب لکھنے آ

Saturday, 14 May 2016

ہوئی شام ان کا خیال آ گیا

فلمی گیت

ہوئی شام ان کا خیال آ گیا
وہی زندگی کا سوال آ گیا
ہوئی شام ان کا خیال آ گیا

ابھی تک تو ہونٹوں پہ تھا تبسم کا اک سلسلہ
بہت شاد ماں تھے ہم ان کو بھلا کر
اچانک یہ کیا ہو گیا

جلتے ہیں جس کے لیے تیری آنکھوں کے دیے

گیت

🪔جلتے ہیں جس کے لیے تیری آنکھوں کے دِیے
ڈھونڈ لایا ہوں وہی گیت میں تیرے لیے
جلتے ہیں جس کے لیے

درد بن کے جو میرے دل میں رہا ڈھل نہ سکا
جادو بن کے تیری آنکھوں میں رہا چل نہ سکا
آج لایا ہوں وہی گیت میں تیرے لیے
جلتے ہیں جس کے لیے

لبریز اور جام کرو میں نشے میں ہوں

 لبریز اور جام کرو میں نشے میں ہوں

اتنا تو اہتمام کرو میں نشے میں ہوں

کرنا ہے مجھ کو صبحِ قیامت کا سامنا

رنگین اور کرو شام میں نشے میں ہوں

جنت، دل و نگاہ کی راحت کا نام ہے

کچھ سوچ کر کلام کرو میں نشے میں ہوں

ہم سے دیوانوں کا جب عزم جواں ہوتا ہے

 ہم سے دیوانوں کا جب عزم جواں ہوتا ہے

اک نیا راز زمانہ پہ عیاں ہوتا ہے

طورِ سینا ہو، وہ کعبہ ہو کہ بت خانہ ہو

اس کا دیدار جہاں چاہو وہاں ہوتا ہے

پھر فضا بدلی ہے، پھر شورِ اناالحق اٹھا

قصۂ دار کہیں پھر سے بیاں ہوتا ہے

اسی کو دیر و حرم بھی سلام کرتے ہیں

 اسی کو دَیر و حرم بھی سلام کرتے ہیں

ہم اہلِ دل جسے اپنا امام کرتے ہیں

وہاں کی خاک فرشتے بھی پا نہیں سکتے

جہاں پہ عشق کے مارے مقام کرتے ہیں

انہیں حیات میں اندیشۂ حیات کہاں

جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں

دامن کے تار تار میں موتی پرو لئے

 دامن کے تار تار میں موتی پرو لیے

حد سے بڑھا ملالِ جدائی تو رو لیے

فکرِ جہاں نے جب بھی کیا دل کو بے قرار

تھک کر تِرے خیال کی باہوں میں سو لیے

جرمِ وفا کی اور کوئی دیجئے سزا

اپنی جفا سے میری وفائیں نہ تولیے

یارب تیری رحمت سے گلہ کچھ بھی نہیں

عارفانہ کلام حمدیہ کلام

یا رب تیری رحمت سے گِلہ کچھ بھی نہیں
کیا میرے غمِ دل کی دوا کچھ بھی نہیں ہے
جب تک نہ فروزاں ہو تیری یاد کی مشعل
ظلمت میں ستاروں کی ضیا کچھ بھی نہیں ہے
رسوا سرِ بازار ہیں ہم تیرے فدائی
اب اپنی زمانے میں ہوا کچھ بھی نہیں ہے

الٰہی سہل میری زندگی کے امتحان کر دے

عارفانہ کلام حمدیہ کلام

الٰہی سہل میری زندگی کے امتحان کر دے
زمین کو گل بداماں آسماں کو مہرباں کر دے
یہ قطرہ ہے اسے پھیلا کے بحرِ بیکراں کر دے
یہ ذرہ ہے اسے چمکا کے مہرِ ضوفشاں کر دے
بھٹک پائے نہ کوئی راہرو راہِ صداقت سے
میرے حرفِ دعا کو تیرگی میں کہکشاں کر دے

زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی

زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی
جاری ہے ابھی گردشِ پا، سہمی ہوئی سی
دل ٹوٹ تو جاتا ہے، پہ گِریہ نہیں کرتا
کیا ڈر ہے کہ رہتی ہے وفا سہمی ہوئی سی
اٹھ جائے نظر بھُول کے گر جانبِ افلاک
ہونٹوں سے نکلتی ہے دعا سہمی ہوئی سی

Friday, 13 May 2016

عذاب بے دلئ جان مبتلا نہ گیا

عذابِ بے دلئ جانِ مبتلا، نہ گیا
جو سر پہ بار تھا اندیشۂ سزا، نہ گیا
خموش ہم بھی نہ تھے حضورِ یار، مگر
جو کہنا چاہتے تھے، بس وہی کہا نہ گیا
رہے مُصر کہ اٹھا دیں وہ انجمن سے ہمیں
ہم اٹھنا چاہتے تھے،۔۔ مگر اٹھا نہ گیا

دروازہ ترے شہر کا وا چاہئے مجھ کو

دروازہ تِرے شہر کا وا چاہیے مجھ کو
جینا ہے مجھے، تازہ ہوا چاہیے مجھ کو
آزار بھی تھے سب سے زیادہ مِری جاں پر
الطاف بھی اوروں سے سوا چاہیے مجھ کو
وہ گرم ہوائیں ہیں کہ کھلتی نہیں آنکھیں
صحرا میں ہوں بادل کی رِدا چاہیے مجھ کو

میں غیر ہوں دل سے یہ کھٹک جائے تو اچھا

میں غیر ہوں دل سے یہ کھٹک جائے تو اچھا
دل اس کا مِرے دل سے اٹک جائے تو اچھا
عاشق پہ تِرے اب سرِ شوریدہ گراں ہے
لا کر تِرے در پر جو پٹک جائے تو اچھا
اس کے دہنِ تنگ سے دل تنگ بہت ہے
غنچے سے یہ کہہ دو کہ چٹک جائے تو اچھا

بیدل ہوئے جاتے ہیں یہ ہے حال ہمارا

بے دل ہوئے جاتے ہیں یہ ہے حال ہمارا
دل پر انہیں دعویٰ ہے کہ ہے مال ہمارا
بلبل سے لڑا دیتے ہیں گل مجھ کو دکھا کر
دیتے ہیں وہ دھوکا کہ یہ ہے گال ہمارا
وہ لڑ کے قیامت سے مِری قبر پہ بولے
ہم اٹھنے نہ دیں گے یہ ہے پامال ہمارا

تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا

تھا بند وہ در پھر بھی میں سو بار گیا تھا
مانند ہوا پھاند کے دیوار گیا تھا
پھرتا ہوں میں بیدل مِرا دل کیوں نہیں دیتے
کیا تم سے جوا کھیل کے میں ہار گیا تھا
سودے کو نہ پوچھ آیا تھا تو ناز سے جس دن
گیسو ترا اس دن مِرے سر مار گیا تھا

دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا

دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے اتنا سمجھے رہنا تھا
کیوں ہنستے ہو میں جو برہنہ آج جنوں کے ہاتھوں ہوں
کچھ دن گزرے میں نے بھی بھی رنگ لباس اک پہنا تھا
نزع کے وقت آئے ہو تم اب پوچھ رہے ہو کیا مجھ سے
حالت میری سب کہہ گزری جو کچھ تم سے کہنا تھا

میں یوں شکوہ نہیں کرتا مجھے گر مات بھی ہوتی

میں یوں شکوہ نہیں کرتا مجھے گر مات بھی ہوتی
شکستہ پر اگر ہوتا تو کوئی بات بھی ہوتی
سفر کی دھند آنکھوں میں کئی نقشے بناتی ہے
مگرشہپر یہ کہتے ہیں کہیں اب رات بھی ہوتی
ہمیشہ دوستوں سے اپنے میں ہی جیت جاتا ہوں
مقابل آئینہ ہوتا کبھی تو مات بھی ہوتی

خواہش دل کو بجھے بھی اک زمانا ہو گیا

خواہشِ دل کو بجھے بھی اک زمانا ہو گیا
بے بسی تجھ سے مِرا رشتا پرانا ہو گیا
تھا بہت مشہور وہ اپنے ہنر کے رنگ میں
آج پھر اس سے خطا کیوں ہر نشانا ہو گیا
آؤ پھر دل کی عبادت گاہ مشترکہ بنے
نفرتوں کے شہر میں آنسو بہانا ہو گیا

اڑاتے آئے ہو کیا اپنے خواب زار کی خاک

اڑاتے آۓ ہو کیا اپنے خواب زار کی خاک
یہ اور خاک ہے، اک دشتِ بے کنار کی خاک
ڈرا رہے ہو سفر کی صعوبتوں سے ہمیں
تمہارے منہ میں بھی خاک اور رہگزار کی خاک
یہ میں نہیں ہوں تو پھر کس کی آمد آمد ہے
خوشی سے ناچتی پھرتی ہے رہگزار کی خاک

رنگ کا نور کا بو باس کا دھوکا ہی نہ ہو

رنگ کا، نور کا، بو باس کا دھوکا ہی نہ ہو 
زندگی عشرتِ احساس کا دھوکا ہی نہ ہو 
جیسے اک خواب ہوا عہدِ گزشتہ کا ثبات
دمِ آیندہ مِری آس کا دھوکا ہی نہ ہو
یہ نگیں بھی نہ ہو بس معجزۂ تارِ نظر 
یہ ہنر گوہر و الماس کا دھوکا ہی نہ ہو 

خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں

خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں
لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر! کہیں
بادِ صبا توں عقدہ کشا اس کی ہو جیو
مجھ سا گرفتہ دل اگر آوے نظر کہیں
اتنا وفور خوش نہیں آتا ہے اشک کا
عالم کو مت ڈبوئیو اے چشمِ تر! کہیں

عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا

عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
کوئی کسی بندہ کا خریدار نہ ہوتا
ہستی کی خرابی نظر آتی جو عدم میں
اس خواب سے ہرگز کوئی بیدار نہ ہوتا
کہتا ہے تجھے خاک نہ دوں غیر اذیت
یہ دل میں اگر تھی تو مِرا یار نہ ہوتا

یہ میرا مڑ مڑ کے دیکھ لینا بھی ہے مری شان رہبرانہ

یہ میرا مڑ مڑ کے دیکھ  لینا بھی ہے مِری شان رہبرانہ
قدم میں کس طرح تیز کر دوں کہ مِرے پیچھے ہے اک زمانہ
مِری نظر کو زبان دے کر تِرا سکوتِ مدبرانہ
مجھی سے کہلا رہا ہے مِری شکستِ خاموش کا فسانہ
فسوں میں بھی ہیں جنوں کے تیور، کشش میں بھی ہے تپش کا عالم
یہ آج کیا ہے کہ مضطرب ہے، تمہارا پندارِ فاتحانہ

گلے میں آپ کی بانہوں کا ہار باقی ہے

گلے میں آپ کی بانہوں کا ہار باقی ہے
تو پھر مِرے لیے فصلِ بہار باقی ہے
وہ اس نظر سے سرِ بزم دیکھتے ہیں مجھے
کہ جیسے دل پہ مِرے اختیار باقی ہے
وہ جا چکے ہیں اور آنکھوں پہ اعتبار نہیں
وہ آ چکے ہیں،۔۔ مگر انتظار باقی ہے

تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے

تجھے کون جانتا تھا،۔ مِری دوستی سے پہلے
تیرا حسن کچھ نہیں تھا مِری شاعری سے پہلے
ادھر آ رقیب میرے! میں تجھے گلے لگا لوں
مِرا عشق بے مزا تھا تِری دشمنی سے پہلے
کئی انقلاب آئے، کئی خوش خراب گزرے
نہ اٹھی مگر قیامت، تِری کم سِنی سے پہلے

یہ داڑھیاں یہ تلک دھاریاں نہیں چلتیں

یہ داڑھیاں یہ تلک دھاریاں نہیں چلتیں
ہمارے عہد میں مکاریاں نہیں چلتیں
قبیلے والوں کے دل جوڑیئے مِرے سردار
سروں کو کاٹ کے سرداریاں نہیں چلتیں
برا نہ مان،۔ اگر یار کچھ برا کہہ دے
دلوں کے کھیل میں خودداریاں نہیں چلتیں

Thursday, 12 May 2016

لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیارِ دل میں بسی ہوئی

لیے کائنات کی وسعتیں ہے دیارِ دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
نہیں تم تو کوئی غزل ہو کیا، کوئی رنگ و بُو کا بدل ہو کیا
یہ حیات کیا ہو، اجل ہو کیا،۔ نہ کھلی ہوئی نہ چھپی ہوئی
ہے یہ سچ کہ منظرِ خواب ہے، مِرے سامنے جو کتاب ہے
وہ جبیں کہ جس پہ گلاب کی کوئی پنکھڑی ہے پڑی ہوئی

اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے

اداس کاغذی موسم میں رنگ و بُو رکھ دے
ہر ایک پھول کے لب پہ میرا لہو رکھ دے
زبانِ گل سے چٹانیں تراشنے والے
سکوتِ نقش میں آرائشِ نمو رکھ دے
گِراں لگے ہے جو احسان دستِ قاتل کا
اٹھ اور تیغ کے لب پہ لبِ گلو رکھ دے

ہرے کھیتوں کو سوکھے کی نشانی دے کے آئی ہے

ہرے کھیتوں کو سوکھے کی نشانی دے کے آئی ہے
یہ برکھا جانے کن پودوں کو پانی دے کے آئی ہے
وہ جن کی نرمئ گفتار سے شادابیاں برسیں
انہیں فصلوں کو اب شعلہ بیانی دے کے آئی ہے
اتار آئی گھٹاؤں کو سمندر کی ہتھیلی پر
کنول کے پھول تاروں کو سیانی دے کے آئی ہے

نہ سفیر سلطنت ہوں نہ اسیر حکم شاہی

نہ سفیرِ سلطنت ہوں، نہ اسیرِ حکمِ شاہی
مِرا غم غمِ وطن ہے، میں قلم کا ہوں سپاہی
یہ معاملہ ہے دل کا کبھی فیصلہ تو ہو گا
تِرے ساتھ ہے عدالت، مِرے ساتھ ہے گواہی
نہ فریبِ راہبر سے، نہ سلوکِ راہزن سے
جہاں مطمئن ہُوا ہے وہیں لُٹ گیا ہے راہی

چارہ سازوں کی اذیت نہیں دیکھی جاتی

چارہ سازوں کی اذیت نہیں دیکھی جاتی 
تیرے بیمار کی حالت نہیں دیکھی جاتی 
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف 
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی 
 دن بہل جاتا ہے لیکن ترے دیوانوں کی 
شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی 

ظلم کی طرح اذیت میں ہے جس طرح حیات

ظلم کی طرح اذیت میں ہے جس طرح حیات
ایسا لگتا ہے کہ اب حشر ہے کچھ دیر کی بات
روز اک دوست کے مرنے کی خبر آتی ہے 
روز اک قتل پہ جس طرح کہ مامور ہے رات
خیمۂ غیر سے منگوائے ہوئے یہ مخبر
رن پڑے گا تو گھڑی بھر نہ دے پائیں گے ساتھ 

سلا رہا تھا نہ بیدار کر سکا تھا مجھے

سُلا رہا تھا، نہ بیدار کر سکا تھا مجھے
وہ جیسے خواب میں محسوس کر رہا تھا مجھے
یہی تھا چاند،۔ اور اس کو گواہ ٹھہرا کر 
ذرا سا یاد تو کر، تُو نے کیا کہا تھا مجھے
تمام رات میری خواب گاہ روشن تھی
کسی نے خواب میں اک پھول دے دیا تھا مجھے 

اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا

اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہُوا
مگر یہ دل تِری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرمِ محبت کہ جس پہ دل نے مِرے
سزا بھی پائی نہیں،۔ اور معاف بھی نہ ہوا

کافر بتوں سے مل کے مسلمان کیا رہے

کافر بتوں سے مِل کے مسلمان کیا رہے
ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
شمشیر اس کی حصہ برابر کرے ہے دو
ایسی لگی ہے ایک تو ارمان کیا رہے
ہے سر کے ساتھ مال و منال آدمی کا سب
جاتا رہے جو سر ہی تو سامان کیا رہے

آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے

آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
کرنا سلوک خوب ہے اہلِ نیاز سے
پھِرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور
کر لو موافقت کسو بے برگ و ساز سے
ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا
کوتاہی جو نہ ہووے یہ عمرِ دراز سے

غصے سے اٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر

غصے سے اٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
یارب رہِ طلب میں کوئی کب تلک پھرے
تسکین دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر

کیا زمانہ تھا کہ تھے دلدار کے یاروں میں ہم

کیا زمانہ تھا کہ تھے دِلدار کے یاروں میں ہم
شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم
اجڑی اجڑی بستی میں دنیا کی جی لگتا نہیں
تنگ آئے ہیں بہت ان چار دیواروں میں ہم
جو یہی ہے غم، الم، رنج و قلق ہجراں کا، تو
زندگی سے بے توقع ہیں ان آزاروں میں ہم

Wednesday, 11 May 2016

اب اپنی ذات سے آگے سفر کیا جائے

اب اپنی ذات سے آگے سفر کِیا جائے
ہر ایک مرحلۂ درد سر کِیا جائے
شکارِ کم نظری کیوں ہو کوئی میری طرح
کشادہ زاویۂ ہر نظر کِیا جائے
رہی ہے اپنی روش مختلف تو پھر ہر کام
خلافِ رسم ہی شام و سحر کِیا جائے

ہم نے جو راہ منتخب کی ہے

ہم نے جو راہ منتخب کی ہے
یاد رکھنا بڑے غضب کی ہے
جان کی اپنی، فکر کب کی ہے
ہم نے کس سے اماں طلب کی ہے
جانتے ہیں سبب تباہی کا
کب ہمیں جستجو سبب کی ہے

اک نظر تو میری طرف بھی دیکھ

اک نظر تو میری طرف بھی دیکھ
پھر مِرے دشمنوں کی صف بھی دیکھ
دیکھ خلوت میں سر خمیدہ مجھے
اور جلوت میں سر بکف بھی دیکھ
ابر نیساں! گزر نہ جا یوں ہی
تہی آغوشئ صدف بھی دیکھ

ہونے لگے ہیں رستے رستے آپس کے ٹکراؤ بہت

ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت
ایک ساتھ کے چلنے والوں میں بھی ہے الگاؤ بہت
بہکے بہکے سے بادل ہے کیا جانے یہ جائیں کدھر
بدلی ہوئی ہواؤں کا ہے ان پر آج دباؤ بہت
سوچ کا ہے یہ پھر کہ یارو! پیچ و خم کی دنیا میں
ڈھونڈ رہے ہو ایسا رستہ جس میں نہیں گھماؤ بہت

اتنی تو دید عشق کی تاثیر دیکھیے

اِتنی تو دیدِ عشق کی تاثیر دیکھیے
جس سمت دیکھیے، تِری تصویر دیکھیے
حد سے بڑھی ہے زلفِ گِرہ گِیر دیکھیے
الجھے کہیں نہ پاؤں میں زنجیر دیکھیے
اب کے کچھ اور ہی دلِ وحشی کا رنگ ہے
کیا گل کھِلائے دانۂ زنجیر دیکھیے

مغتنم ہے باغ عالم کی ہوا دو چار دن

مغتنم ہے باغِ عالم کی ہوا دو چار دن
صورتِ گل ہے یہاں نشوونما دو چار دن
اے بتِ کافر تِری اللہ رے بے پروائیاں
آشنا دو چار دن،۔ نا آشنا دو چار دن
واہ رے وعدہ تِرا، قربان وعدے کے تِرے
ایک دن کے ہو گئے اے بےوفا دو چار دن

رہنے والے تھے یہ نادان کہ جانے والے

رہنے والے تھے یہ نادان کہ جانے والے
خاک سمجھے نہ مکانوں کے بنانے والے
اٹھ کے پہلو سے کدھر آپ ہیں جانے والے
جگر و دل ہیں تڑپ کر نکل آنے والے
ایک اک سرو ہے شاہد چمنِ عالم کا
خاک میں مل گئے کیا کیا سر اٹھانے والے

کوئی صورت نہیں بچنے کی، وہ آفت آئی

کوئ صورت نہیں بچنے کی، وہ آفت آئی
کس قیامت کی بلائے شبِ فرقت آئی
مر گئے پر جو مجھے یاد وہ قامت آئی
ناز کرتی ہوئی مرقد پہ قیامت آئی
یار کو حسن ملا، بغض و حسد غیروں کو
قسمتوں سے مِرے حصے میں محبت آئی

Tuesday, 10 May 2016

اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا

اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا
وہ بھی تو ملے ہم سے، ہمیں اس سے ملیں کیا
لشکر کو بچائیں گی یہ دو چار صفیں کیا؟
‘اور ان میں بھی ہر شخص یہ کہتا ہے’ہمیں کیا
یہ تو سبھی کہتے ہیں کوئی فکر نہ کرنا
‘یہ کوئی بتاتا نہیں ہم کو کہ ’کریں کیا

درد میرے بعد بالکل جوں کا توں باقی رہا

درد میرے بعد بالکل جوں کا توں باقی رہا
جیسے مجنوں مر گیا، لیکن جنوں باقی رہا
کچھ انہیں رشتوں سے اس دل کا سکوں باقی رہا
ٹوٹنے کے بعد بھی، جس کا فسوں باقی رہا
مٹ گئے ہیں صورِ اسرافیلؑ سے پہلے ہی سب
پھر قیامت کے لیے اک میں ہی کیوں باقی رہا

کیا فکر جو دشمن ہیں مرے یار غزل کے

کیا فِکر جو دشمن ہیں مِرے یار غزل کے
مدّاح بھی مِل جائیں گے دو چار غزل کے
اسلُوب کے طوفان میں مضمون کی کشتی
اللہ اتارے گا،۔ مجھے پار غزل کے
طوفان ہو سینے میں مگر لب پہ خموشی
حضرات یہی ہوتے ہیں آثار غزل کے

Monday, 9 May 2016

اپنی محبتوں کی خدائی دیا نہ کر

اپنی محبتوں کی خدائی دِیا نہ کر
ہر بے طلب کے ہاتھ کمائی دیا نہ کر
دیتی ہے جب ذرا سی بھی آہٹ اذیتیں
ایسی خموشیوں میں سنائی دیا نہ کر
پہلے ہی حادثات کے اِمکان کم نہیں
یوں مجھ کو راستوں میں سُجھائی دیا نہ کر

بڑھ گئیں وحشتیں موسم کی عنایات کے بعد

بڑھ گئیں وحشتیں موسم کی عنایات کے بعد
ہم کبھی روئے کبھی ہنس دِئیے برسات کے بعد
اس طرح جیسے سبھی ہم سے مِلے پیار کے ساتھ
ہم کسی سے نہ مِلے تم سے ملاقات کے بعد
اتنی مضبوطی سے وِیرانے کے در بند ہوئے
دل میں اتری نہ کوئی ذات تِری ذات کے بعد

سکوت دل میں صدا ہو گیا کوئی نہ کوئی

سکوتِ دل میں صدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
نہ مِل سکا تو دعا ہو گیا کوئی نہ کوئی
میں کِس کو پوچھنے نکلوں کِسے تلاش کروں
قدم قدم پہ جدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
میں سب میں ایک سا تقسیم تھا مگر پھر بھی
کِسی بہانے خفا ہو گیا کوئی نہ کوئی

شمع چپ ہے بھی تو کیا دل کا اجالا بولے

شمع چُپ ہے بھی تو کیا، دل کا اُجالا بولے
وہ سُنے یا نہ سُنے، رات کا سکتہ بولے
اب کے موسم کوئی سایہ ہے نہ سبزے کا سراب
پیاسی آنکھوں میں سُلگتا ہُوا صحرا بولے
وہ کوئی گُل ہے کہ مہتاب، کرن ہے کہ دھنک
آپ وہ چُپ رہے اور اس کا سراپا بولے

دشت میں سفر ٹھہرا پھر مرے سفینے کا

دشت میں سفر ٹھہرا پھر مِرے سفینے کا
میں نے خواب دیکھا تھا برف کے پگھلنے کا
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
میری نبض چھُو آئے جن کے ہاتھ ہی تھے سُن
اور پھر ہُوا چرچا، میرے زخم بھرنے کا

دم گھٹے شہر بے حساب ہوا

دم گھُٹے شہر، بے حساب ہَوا
ہے میرے دور کا عذاب ہوا
رات بھر چاہ تھی چراغ چراغ
صبح دم سبز انقلاب ہوا
ان سنی دھڑکنوں کا درد سدا
ان کہی خواہشوں کے خواب ہوا

تا عمر سنی قضا کی دستک

تا عمر سنی قضا کی دستک
زنجیر تھی آشنا کی دستک
پھر ظلِ الہیٰ کے در پہ چمکی
تپتی ہوئی اک صدا کی دستک
مجھ برف مکاں سے کوئی پوچھے
سورج کی تھپک، ہوا کی دستک

نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا

نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں، پاسباں کوئی نہ تھا
خرم و شاداب چہرے،۔۔ ثابت و سیّار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا
کیا بلا کی شام تھی، صبحوں شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا، جہاں کوئی نہ تھا

سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں

سُن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں
کر یاد ان دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صرصر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں،۔ کیسا نگر سرد کر گئیں

تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں

تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
کبھی دل میں اداسی ہو تو ان میں جا نکلتا ہوں
پرانے دوستوں کو چپ سے بیٹھے دیکھ لیتا ہوں
چھپاتے ہیں بہت وہ گرمئ دل کو، مگر میں بھی
گلِ رخ پر اڑی رنگت کے چھِینٹے دیکھ لیتا ہوں

اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ

اُگا سبزہ در و دیوار پر، آہستہ آہستہ
ہُوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
گھِرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہِلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر، آہستہ آہستہ
بہت ہی سُست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سُرخ تر، آہستہ آہستہ

دور رہنے کی سزا دو مجھ کو

دور رہنے کی سزا دو مجھ کو
چاند کا نقش بنا دو مجھ کو
حرفِ اول لہو سے لکھو
حرفِ آخر ہوں مٹا دو مجھ کو
ایک ننھی سے کرن کیا لو گے
دھوپ کے ساتھ ملا دو مجھ کو

کنج عزلت سے اٹھو صبح بہاراں دیکھو

کنجِ عزلت سے اٹھو صبحِ بہاراں دیکھو
دوستو! نغمہ گرو! رقصِ غزالاں دیکھو
مٹ گیا رہگزاروں سے ہر اک نقشِ خزاں
ورقِ گل پہ لکھے اب نئے عنواں دیکھو
مطرباں! بہرِ قدم بوسئ شیریں سخناں
محفلِ گل میں چلو جشنِ بہاراں دیکھو

اچانک دلربا موسم کا دلآزار ہو جانا

اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا
دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا
تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں دیکھیں
محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہو جانا
ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی
ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دلدار ہو جانا 

شوق آشفتہ سراں دیدۂ تر مانگے ہے

شوقِ آشفتہ سراں، دیدۂ تر مانگے ہے 
ہے وہ کافر جو شبِ غم کی سحر مانگے ہے  
رنگ گل، روئے سحر، بوئے صبا کی سوگند 
ہر تماشا مِرا اندازِ نظر مانگے ہے
دل کو اندازِ تغافل کے بھی سائے تھے بہت
پھر بھی ناداں تِرا سایۂ در مانگے ہے

تھے ہی کیا اور مرحلے دل کے

تھے ہی کیا اور مرحلے دل کے
ہم بہت خوش ہیں آپ سے مل کے
اور اک دل نواز انگڑائی
راز کھلنے لگے ہیں محفل کے
لاؤ طوفاں میں ڈال دیں کشتی
کون کھائے فریب ساحل کے

آواز جرس ہے یا فغان ہے

آوازِ جرس ہے یا فغان ہے
کس حال میں قافلہ رواں ہے
اٹھتے اٹھتے اٹھیں گے پردے
صدیوں کا غبار درمیاں ہے
کس کس سے بچائے کوئی دل کو
ہر گام پہ ایک مہرباں ہے

Sunday, 8 May 2016

رفتہ رفتہ دل ہمارا تیرا دیوانہ ہوا

رفتہ رفتہ دل ہمارا، تیرا دیوانہ ہُوا
تھا ذرا سا واقعہ، اس پر یہ افسانہ ہوا
اب سزا جو بھی ملے، جتنی ملے، جیسی ملے
ہاں ہُوا اعلانِ الفت،۔۔ اور رِندانہ ہوا
ہے فضا خاموش، وحشت چار سُو، بوجھل ہوا
اس طرف کس کا گزر اے کُوئے جانانہ! ہوا

پاس ہے تم کو اگر پچھلی شناسائی کا

پاس ہے تم کو اگر پچھلی شناسائی کا
آؤ! دہرائیں فسانہ شبِ تنہائی کا
حسن کو شوق ہے گر انجمن آرائی کا
آۓ دیکھے وہ تماشا مِری رسوائی کا
زندگی ! میں تجھے مر مر کے جئے جاتا ہوں
کچھ تو انعام دے اس قافیہ پیمائی کا 

کافر الفت ساقی کوئی میخوار نہیں

کافرِ الفتِ ساقی کوئی مے خوار نہیں  
حیف، ان بادہ پرستوں پہ کہ دِیندار نہیں 
اہلِ محشر میں جو پُرسش کا سزاوار نہیں 
ایک میں تو ہوں، کوئی اور گنہگار نہیں
جتنے میکش ہیں، مئے ہوش کے متوالے ہیں 
کیا خراباتِ جہاں میں کوئی ہُشیار نہیں 

دنیا سے مجھے مطلب دنیا تو ہے دیوانی

دنیا سے مجھے مطلب، دنیا تو ہے دیوانی 
سنتا ہوں میں دنیا کی، کرتا ہوں غزلخوانی 
اے بے خودئ الفت! اعجاز ہے یہ تیرا 
مطلق نہیں اب مجھ کو احساسِ گراں جانی
اک عالمِ حیرت ہے، صورت کدۂ عالم 
دیکھو گے اسے جتنا، بڑھ جائے گی حیرانی 

Saturday, 7 May 2016

نامہ بر سے نہ ہم صبا سے کہیں

نامہ بر سے نہ ہم صبا سے کہیں
حال دل کا غم آشنا سے کہیں
تم خدا ہو، مگر ہمارے نہیں
جی میں آتا ہے، یہ خدا سے کہیں
حالِ دل سن چکے تو وہ بولے
“آپ افسانہ ابتدا سے کہیں”

خندہ لب سے غم دل کو نکھارا جائے

خندۂ لب سے غمِ دل کو نکھارا جائے
زیست کا قرض سلیقے سے اتارا
کسی چہرے پہ تبسم، نہ کسی آنکھ میں اشک
اجنبی شہر میں اب کون دوبارا جائے
شام کو بادہ کشی، شب کو تِری یاد کا جشن
مسئلہ یہ ہے، کہ دن کیسے گزارا جائے

تم نے سولی پہ لٹکتے جسے دیکھا ہو گا

تم نے سولی پہ لٹکتے جسے دیکھا ہو گا
وقت آئے گا، وہی شخص مسیحا ہو گا
خواب دیکھا تھا کہ صحرا میں بسیرا ہو گا
کیا خبر تھی کہ یہی خواب تو سچا ہو گا
ان کو دیکھا تو نگاہوں نے یہ محسوس کیا
ایسی صورت کو کبھی ہم نے بھی چاہا ہو گا

بتا دے اے مرے ساقی کی مستانوں کا کیا ہو گا

بتا دے اے مِرے ساقی کی مستانوں کا کیا ہو گا
اگر یہ توبہ کر لیں گے تو مے خانوں کا کیا ہو گا
جنہیں میں کہہ گیا، وہ درسِ غم تو دے گئے سب کو
لبوں تک جو نہیں آئے،ان افسانوں کا کیا ہو گا
اگر آبادیاں صحرا بنا دیں گے یہ فرزانے
خدا جانے کہ پھر انجام ویرانوں کا کیا ہو گا

اگر میں نگاہ محبت اٹھا دوں

اگر میں نگاہِ محبت اٹھا دوں
تو پھر تیرا چھپنا بھی مشکل بنا دوں
یہاں تک بڑھے کاش یہ لذتِ غم
وہ مجھ کو ستائے میں اس کو دعا دوں
مِرا بس چلے تو محبت کی خاطر
ہر اک کو میں اپنا ہی جیسا بنا دوں

سزاوار رشک جہاں ہو گئے ہم

سزا وارِ رشکِ جہاں ہو گئے ہم
تِرے عشق میں بے نشاں ہو گئے ہم
فسانہ غمِ ہجر کا کہتے کہتے
خود عبرت کی اک داستاں ہو گئے ہم
شب و روز بڑھتی گئی سوزشِ غم
یہاں تک کہ آتش بجاں ہو گئے ہم

دوستو اور پلاؤ کہ کڑی رات کٹے

دوستو! اور پلاؤ کہ کڑی رات کٹے
مئے میں کچھ اور ملا کہ کڑی رات کٹے
جام میں نور، شبنم ہے، شفق ہے نہ گداز
سرخ ہونٹوں سے پلاؤ کہ کڑی رات کٹے
تشنگی اب مئے کہنہ سے کہیں مٹتی ہے
اس سے بھی تند پلاؤ کہ کڑی رات کٹے

یہ ظالم ہوائیں یہ کافر گھٹائیں

یہ ظالم ہوائیں، یہ کافر گھٹائیں
چلی آئیں تنہا، انہیں بھی تو لائیں
ضرور ان سے مَس ہو گیا کوئی جھونکا
مہکتی ہوئی آ رہی ہیں ہوائیں
نہیں کوئی بابِ قبول آسماں پر
بھٹک کر کدھر جا رہی ہیں دعائیں

بربط اشک پر انہیں نغمہ غم سنا دیا

بربطِ اشک پر انہیں نغمۂ غم سنا دیا
جو نہ زباں سے گا سکے اسکو نظر سے گا دیا
پھر تو کہو کہ کیا تجھے ہم نے یہ کم صِلہ دیا
پیکرِ کیف کر دیا،۔ صاحبِ غم بنا دیا
اس نے جو زعمِ حسن میں رخ سے نقاب اٹھا دیا
ہم نے بھی شوقِ دید میں دل کو نظر بنا دیا

یہ نہیں اصل گلستاں حاصل گلستاں ہے اور

یہ نہیں اصلِ گلستاں، حاصلِ گلستاں ہے اور
جوشِ بہار پر نہ جا،۔ مرحلۂ خزا ں ہے اور
شاخ پہ کھِل کے ٹوٹنا،۔ پیشِ نسیم لوٹنا
قسمتِ یاسمن ہے اور طاقتِ باغباں ہے اور
حجلۂ یاسمن کہاں،۔ خار و خسِ چمن کہاں
برق و شرر کو لاگ ہے جس سے وہ آشیاں ہے اور

Friday, 6 May 2016

جب میں دنیا کے لئے بیچ کے گھر آیا تھا

جب میں دنیا کے لیے بیچ کے گھر آیا تھا
ان دنوں بھی مِرے حصے میں صِفر آیا تھا
کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو جھُلس ہی جاتا
آگ اگلتا ہوا سورج مِرے گھر آیا تھا
آج سڑکوں پہ تصویر بناتے رہیے
انگلیاں ٹوٹ چکیں جب یہ ہنر آیا تھا

صرف سچ اور جھوٹ کے میزان میں رکھے رہے

صرف سچ اور جھوٹ کے میزان میں رکھے رہے
ہم بہادر تھے،۔ مگر میدان میں رکھے رہے
جگنوؤں نے پھر اندھیروں سے لڑائی جیت لی
چاند سورج گھر کے روشندان میں رکھے رہے
دھیرے دھیرے ساری کرنیں خودکشی کرنے لگیں
ہم صحیفہ تھے،۔ مگر جزدان میں رکھے رہے

دیے جلائے تو انجام کیا ہوا میرا

دِیے جلائے تو انجام کیا ہُوا میرا
لکھا ہے تیز ہواؤں نے مرثیہ میرا
کہیں شریف نمازی، کہیں فریبی پیر
قبیلہ میرا، نسب میرا، سلسلہ میرا
میں چاہتا تھا، غزل آسمان ہو جائے
مگر زمین سے چپکا ہے قافیہ میرا

کچھ اور گمرہی دل کا راز کیا ہو گا

کچھ اور گمرہئ دل کا راز کیا ہو گا
اک اجنبی تھا کہیں راہ میں کھو گیا ہو گا
وہ جنکی رات تمہارے ہی دم سے روشن تھی
جو تم وہاں سے گئے ہو گے، کیا ہوا ہو گا
اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی
کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہو گا

تجھ کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی

تجھ کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی
مِرے سینے میں ہے لرزاں تِری آواز ابھی
اس نے دیکھا ہی نہیں درد کا آغاز ابھی
عشق کو اپنی تمناؤں پہ ہے ناز ابھی
تجھ کو منزل پہ پہنچنے کا ہے دعویٰ ہمدم
مجھ کو انجام نظر آتا ہے آغاز ابھی

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقف اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے، دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمہیں بھی چین نہ آئے مِرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ

ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ 
اس بستی کے بازاروں میں روز کہیں افسانے لوگ
یادوں سے بچنا مشکل ہے، ان کو کیسے سمجھائیں
ہجر کے اس صحرا تک ہم کو آتے ہیں سمجھانے لوگ
کون یہ جانے دیوانے پر کیسی سخت گزرتی ہے
آپس میں کچھ کہہ کر ہنستے ہیں جانے پہچانے لوگ

رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے

رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے، موسمِ کیف و مستی ہے
پھر بھی یہاں سے حدِ نظر تک پیاسوں کی اک بستی ہے
دل جیسا انمول رتن تو جب بھی گیا،۔ بے دام گیا
جان کی قیمت کیا مانگیں، یہ چیز تو خیر اب سستی ہے
دل کی کھیتی سُوکھ رہی ہے، کیسی یہ برسات ہوئی
خوابوں کے بادل آتے ہیں، لیکن آگ برستی ہے

او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا

او دل توڑ کے جانے والے! دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
ہاں میرے مجروح تبسم! خشک لبوں تک آتا جا
پھول کی ہست و بود یہی ہے، کھِلتا جا، مرجھاتا جا
میری چپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے، سنتا جا، شرماتا جا

اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا

اٹھو اب دیر ہوتی ہے وہاں چل کر سنور جانا
یقینی ہے گھڑی دو میں مریضِ غم کا مر جانا
مجھے ڈر ہے گلوں کے بوجھ سے مرقد نہ دَب جائے
انہیں عادت ہے جب آنا، ضرور احسان دھر جانا
حباب آ سامنے سب ولولے جوش جوانی کے
غضب تھا قلزمِ امید کا چڑھ کر اتر جانا

وہ جسے اب تک سمجھتا تھا میں پتھر سامنے تھا

وہ جسے اب تک سمجھتا تھا میں پتھر، سامنے تھا
اک پگھلتی موم کا سیال پیکر سامنے تھا
میں نے چاہا آنے والے وقت کا اک عکس دیکھوں
بے کراں ہوتے ہوئے لمحے کا منظر سامنے تھا
اپنی اک پہچان دی آئی گئی باتوں میں اس نے
آج وہ اپنے تعلق سے بھی بڑھ کر سامنے تھا

مست اڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے

مست اڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے
آن کی آن میں سارے اوراق منظر بکھر جائیں گے
شام چاندی سی اک یاد پلکوں پہ رکھ کر چلی جاۓ گی
اور ہم روشنی روشنی اپنے اندر اتر جائیں گے
کون ہیں کس جگہ ہیں کہ ٹوٹا ہے جن کے سفر کا نشہ
ایک ڈوبی سی آواز آتی ہے پیہم کہ گھر جائیں گے

Thursday, 5 May 2016

دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے

دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے
کچھ نہ کچھ نذرِ جہاں کرنا پڑے
دل کو ہے پھر چند کانٹوں کی تلاش
پھر نہ سیرِ گلستاں کرنا پڑے
حالِ دل ان کو بتانے کے لیے
ایک عالم سے بیاں کرنا پڑے

خیال سود احساس زیاں تک ساتھ دیتا ہے

خیالِ سود احساسِ زیاں تک ساتھ دیتا ہے
یقیں کتنا ہی پختہ ہو گماں تک ساتھ دیتا ہے
بدلتے جا رہے ہیں دم بہ دم حالات دنیا کے
تمہارا غم بھی اب دیکھیں کہاں تک ساتھ دیتا ہے
خیالِ نا خدا پھر بھی مسلط ہے زمانے پر
کہاں کوئی بھلا سیلِ رواں تک ساتھ دیتا ہے

کتنے گم کردہ جواہر کا خزینہ نکلا

کتنے گم کردہ جواہر کا خزینہ نکلا
جب زمیں کھود کے دیکھی میرا سینہ نکلا
رات بھر خواب اترتے ہیں ان آنکھوں میں
چاند جب جھیل پہ آیا تو یہ زینہ نکلا
کیسا دشمن ہے کہ سینے سے لگایا پھر بھی
اس کے دل سے نہ کسی طور بھی کِینہ نکلا

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
ہو گیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے
آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں
درمیاں تو جو بھی کچھ تھا اس کو وسعت کھا گئی
ہر طرف ارض و سما میں انتہائیں رہ گئیں

لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے

لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے
جب چاہے کوئی پھونک دے خوابوں کے نشیمن
آنکھوں کے اجڑنے کے زمانے نہیں ہوتے
جو زخم عزیزوں نے محبت سے دئیے ہوں
وہ زخم زمانے کو دِکھانے نہیں ہوتے

سر پر جو سائباں تھے پگھلتے ہیں دھوپ میں

سر پر جو سائباں تھے پگھلتے ہیں دھوپ میں
سب دم بخود کھڑے ہوئے جلتے ہیں دھوپ میں
پہچاننا کسی کا کسی کو، کٹھن ہوا
چہرے ہزار رنگ بدلتے ہیں دھوپ میں
بادل جو ہمسفر تھے کہاں کھو گئے کہ ہم
تنہا سلگتی ریت پہ جلتے ہیں دھوپ میں

بھیڑ میں ہے مگر اکیلا ہے

بھیڑ میں ہے مگر اکیلا ہے
اس کا قد دوسروں سے اونچا ہے
اپنے اپنے دکھوں کی دنیا میں
میں بھی تنہا ہوں وہ بھی تنہا ہے
منزلیں غم کی طے نہیں ہوتیں
راستہ، ساتھ ساتھ چلتا ہے

گھر تھا خالی کھلا تھا دروازہ

گھر تھا خالی، کھلا تھا دروازہ 
ہجرتوں کی صدا تھا دروازہ
مدتوں بعد جب مِلے دونوں 
چپ تھا میں، بولتا تھا دروازہ
دستکیں دے رہی تھی تنہائی 
"کون ہے،" پوچھتا تھا دروازہ

رت جگا ہو کہ گھنی نیند بدلتا ہی نہیں

رت جگا ہو کہ گھنی نیند، بدلتا ہی نہیں
ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں
ایک آنسو ہے کہ آنکھوں سے چھلکنا چاہے
ایک پتھر ہے کہ سینے میں پگھلتا ہی نہیں
ایک سورج ہے کہ ٹھہرا ہے سوا نیزے پر
ایک سایہ ہے کہ سر سے مِرے ٹلتا ہی نہیں

بجھے بجھے سے رہے ہم کسی کو پا کے بھی

بجھے بجھے سے رہے ہم کسی کو پا کے بھی
نہ پائی روشنی ہم نے دِیے جلا کے بھی
ڈھلی ہے وقت کی رفتار میری سانسوں میں
بدل رہے ہیں میرے ساتھ رخ ہوا کے بھی
کسی کو اپنے غمِ دل کی ہو خبر کیسے
کہ ہم تو زخم چھپاتے ہیں مسکرا کے بھی

نہ صبا کی دوستی ہے نہ فضا کی ہمدمی ہے

نہ صبا کی دوستی ہے نہ فضا کی ہمدمی ہے
جہاں پھول کِھل رہے تھے وہاں دھول اب جمی ہے
ہوئے ہم قریب لیکن،۔ ہیں نصیب اپنے اپنے
تیرے لب پہ مسکراہٹ، مِری آنکھ میں نمی ہے
تجھے پا لیا ہے میں نے مگر اب بھی سوچتی ہوں
میری زندگی میں شاید کسی چیز کی کمی ہے

تشریف شب کو لانا کیوں عار جانتے ہیں

تشریف شب کو لانا کیوں عار جانتے ہیں
شاید کہ آپ ہم کو بدکار جانتے ہیں
زلفوں کے پیچ میں ہم گو جانتے نہیں کچھ
پر سر پٹک کے اپنا من ہار جانتے ہیں
وحشت میں جو جو ہم نے پتھروں سے سر کو مارا
صحرا میں جا کے پوچھو، کہسار جانتے ہیں

شب وصال میں دل پر قلق ابھی سے ہے

شبِ وصال میں دل پر قلق ابھی سے ہے
سحر ہے دور میرا رنگ فق ابھی سے ہے
ہنوز دفن ہوا ہی نہیں تِرا بسمل
کہ زلزلے میں زمیں کا طبق ابھی سے ہے
میں لکھ چکا ہی نہیں حالِ دل کہ اسکی طرف
ہوائے شوق میں اڑتا ورق ابھی سے ہے

بھرا مستوں نے ہے مے خانۂ عشق

بھرا مستوں نے ہے میخانۂ عشق
سدا لبریز ہے پیمانۂ عشق
جلے ہے کس مزے سے شمع رو پر
دلِ عشاق ہے پروانۂ عشق
جنوں کے دشت گردوں کی نظر میں
ہے رشکِ گلستان پروانۂ عشق

درد دل میری آہ سے پوچھو

دردِ دل میری آہ سے پوچھو
سبب اس کی نگاہ سے پوچھو
باعثِ تیرہ بختئ عالم
اسکی زلفِ سیاہ سے پوچھو
اسکی تیغِ ستم کا شرح و بیاں
جا کسی بے گناہ سے پوچھو

جب سنا موتی نے تجھ دنداں کے موتی کا بہا

جب سُنا موتی نے تجھ دنداں کے موتی کا بہا
آب میں شرمندگی سوں ڈوب جوں پانی بہا
مردماں کو دیکھ کر بِسمل تِرے کوچہ کے بیچ
ڈر گیا اور چشم سے آنسو کے جا ہے خوں بہا
اب تمہارے سُرخ لب ہم نے تاڑ کر پوچھا تھا مول
جوہری کہنے لگے یہ لعل ہے گا بے بہا

اس درجہ پائمال نہ ہوتے جفا سے ہم

اس درجہ پائمال نہ ہوتے جفا سے ہم
لُوٹے گئے سیاستِ مہر و وفا سے ہم
باقی ہی کیا رہا ہے تجھے مانگنے کے بعد
بس اک دعا میں چھُوٹ گئے ہر دعا سے ہم
“یہ کیا کہا، ”جنوں ہے محبت کی انتہا
اے بے خبر! چلے ہیں اسی انتہا سے ہم

زبان و دل محو کشمکش ہیں کسی میں بھی حوصلہ نہیں ہے

زبان و دل محوِ کشمکش ہیں، کسی میں بھی حوصلہ نہیں ہے
دعا شریکِ زباں نہیں ہے،۔ زباں شریکِ دعا نہیں ہے
بجا کہ ناحق شناسیوں میں گزار دی ہم نے عمر ساری
مگر ہماری سیاہ کاری۔ تِرے کرم سے سوا نہیں ہے
مِری خطاؤں کا عذر سن کر، ترس تمہیں بھی ضرور آئے
مگر جسے تم خطا سمجھ لو، یہ کیسے کہہ دوں خطا نہیں ہے

Wednesday, 4 May 2016

ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے

ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے
یہ بعد میں سہی کس بات سے مکرنا ہے
تو میرے ساتھ کہاں تک چلے گا میرے غزال
میں راستہ ہوں مجھے شہر سے گزرنا ہے
کنار آب میں کب تک گنوں گا لہروں کو
ہے شام سر پہ مجھے پار بھی اترنا ہے

بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آ جائے گی

بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آ جائے گی
کھل کے رو لو گے تو چہرے پر چمک آ جائے گی
پنکھڑی جتنا بچائے چور جھونکوں سے اسے
پھول تو جب بھی کھِلا اس کی مہک آ جائے گی
آج بھی مجھ کو یہ لگتا ہے کہ اگلے موڑ پر
جس پہ اک پیلا مکاں تھا، وہ سڑک آ جائے گی

دل کو نیلام کر کے دیکھیں ہم

دل کو نیلام کر کے دیکھیں ہم
خود کو بے دام کر کے دیکھیں ہم
تجربہ یہ برا نہیں ہو گا
صبح کو شام کر کے دیکھیں ہم
شب میں کسبِ معاش کو نکلیں
دن میں آرام کر کے دیکھیں ہم

جو میری آہ سے نکلا دھواں ہے میری مٹی کا

جو میری آہ سے نکلا دھواں ہے میری مٹی کا
مِرے اندر نِہاں آتش فشاں ہے میری مٹی کا
دِیے ہیں طاق پر روشن مگر ضو میرے اندر ہے
جو کچھ کچھ تیرگی ہے وہ سماں ہے میری مٹی کا
مِرے جلووں کی پامالی نہ دیکھی جائے گی مجھ سے
ہنر کچھ اس طرح سے رائیگاں ہے میری مٹی کا

زور بڑھنے لگا ہواؤں میں

زور بڑھنے لگا ہواؤں میں
یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں
کب کے معتوب ہو گئے ہوتے
خاک شدت رہی خطاؤں میں
سوندھی مٹی وہ ادھ جلے چولہے
دل دھڑکتے ہوئے گپھاؤں میں

پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو

پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو
ہم جگاۓ رکھیں گے گھر کے سائبانوں کو
روشنی کے مینارے، شہر میں ہوئے قائم
کالا پوت ڈالو اب، سارے شمع دانوں کو
تیز بہتے قدموں سے ڈھک گئی ہیں سب سڑکیں
آہٹوں کی عادت تھی سُونے پائیدانوں کو

بے حسی پر مری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے

بے حسی پر مِری وہ خوش تھا کہ پتھر ہی تو ہے
میں بھی چپ تھا کہ چلو سینے میں خنجر ہی تو ہے
دھو کے تُو میرا لہو، اپنے ہنر کو نہ چھپا
کہ یہ سرخی تِری شمشمیر کا جوہر ہی تو ہے
راہ نکلی تو کوئی توڑ کے چٹانوں کو
سامنے تیرہ و تاریک سمندر ہی تو ہے

بجھ کر بھی شعلہ دام ہوا میں اسیر ہے

بجھ کر بھی شعلہ دامِ ہوا میں اسیر ہے
قائم ابھی فضا میں دھوئیں کی لکیر ہے
گزرا ہوں اسکے در سے تو کچھ مانگ لوں مگر
کشکول بے طلب ہے،۔۔ صدا بے فقیر ہے
جو چاہے اچھے داموں میں اس کو خرید لے
وہ آدمی برا نہیں پر بے ضمیر ہے

یہ کس کی یاد کا غم دستکیں پلکوں پہ دیتا ہے

یہ کس کی یاد کا غم دستکیں پلکوں پہ دیتا ہے
مسافر کس نگر کا خیمہ گاہ، دل میں ٹھہرا ہے
سُتے چہرے سے، سرخ آنکھوں سے ہنس کر بولنے والا
یہ لگتا ہے کہ ساری رات تنہائی میں رویا ہے
کسی گزرے ہوئے کمزور لمحے کا فسوں تھا وہ
زمانے نے محبت نام جس اک شے کا رکھا ہے

تو اگر ایسا سمجھتا ہے تو ایسا نہیں ہے

تُو اگر ایسا سمجھتا ہے تو ایسا نہیں ہے
عشق جس چیز کو کہتے ہیں تماشا نہیں ہے
اک الاؤ سا بھڑکتا ہے مِرے سینے میں 
جو تجھے یاد نہ کرنے کا نتیجہ نہیں ہے
تجھ سے شکوہ ہے مجھے دوست، زمانے سے نہیں 
تُو مِری ذات کا حصہ ہے، زمانہ نہیں ہے

مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی

مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی
ہم مانگنا چاہیں گے انکار کی آزادی
سائے میں پڑے رہئے یا پھوڑ کے سر چلئے
بس ایک گلی تک ہے دیوار کی آزادی
کچھ دیر کا ہنگامہ پھر ایک سی خاموشی
دوچار گھڑی کی ہے بیمار کی آزادی

گزرتے وقت کے ہمراہ چل نہیں سکتا

گزرتے وقت کے ہمراہ چل نہیں سکتا
میں اپنے آپ سے آگے نکل نہیں سکتا
تم آسمان ہو رنگت بدل بھی سکتے ہو
میں خاک و خون ہوں، خود کو بدل نہیں سکتا
دبی ہوئی ہیں بہت خواہشیں مِرے دل میں
یہ اور بات کہ کھل کے مچل نہیں سکتا

Tuesday, 3 May 2016

سچ پہ اصرار بھی ضروری ہے

سچ پہ اصرار بھی ضروری ہے
حسنِ اظہار بھی ضروری ہے
یونہی بدنامیاں نہیں ملتیں
اچھا کردار بھی ضروری ہے
وحشتیں ایسے ہی نہیں ہوتیں
رہ میں دیوار بھی ضروری ہے

غم زمانہ کریں ترک خوش خیالی کریں

غمِ زمانہ کریں ترک، خوش خیالی کریں
جہاں تلک ہو مزاجوں کو لا ابالی کریں
بہت سے اور عوامل بھی اس میں شامل ہیں
ہر ایک بات پہ کیوں اپنی گوشمالی کریں
اجاڑنی نہیں دل کی ہری بھری فصلیں
خود اپنے ہاتھوں سے مت اپنی پائمالی کریں

میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا

میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
سورج کی روشنی نے بڑا کام کر دیا
ہاتھوں پہ میرے اپنے لہو کا نشان تھا
لوگوں نے اس کے قتل کا الزام دھر دیا
گندم کا بیج پانی کی چھاگل اور اک چراغ
جب میں چلا تو اس نے یہ زاد سفر دیا

جو مجھ کو دیکھ کے کل رات رو پڑا تھا بہت

جو مجھ کو دیکھ کے کل رات رو پڑا تھا بہت
وہ میرا کچھ بھی نہ تھا، پھر بھی آشنا تھا بہت
میں اب بھی رات گئے اس کی گونج سنتا ہوں
وہ حرف کم تھا، بہت کم، مگر صدا تھا بہت
زمیں کے سینے میں سورج کہاں سے اترے ہیں
فلک پہ دور کوئی بیٹھا سوچتا تھا بہت

ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں

ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں
مگر جب راستوں میں چاند ابھرا چل پڑے ہیں
زمانہ اپنی عریانی پہ خوں روئے گا کب تک
ہمیں دیکھو کہ اپنے آپ کو اوڑھے ہوئے ہیں
مِرا بستر کسی فٹ پاتھ پر جا کر لگا دو
مِرے بچے ابھی سے مجھ سے ترکہ مانگتے ہیں

خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں

خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں
میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں
اوپر سے اتر کے تازہ دَم تھا
نیچے سے اتر کے تھک گیا ہوں
اب تم بھی تو جی کے تھک رہے ہو
اب میں بھی تو مر کے تھک گیا ہوں

عجب حالت ہماری ہو گئی ہے

عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے
سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے
بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے
جانِ جاں تجھ کو اب تِری خاطر
یاد ہم کوئی دَم نہیں کرتے
دوسری ہار کی ہوس ہے، سو ہم
سرِ تسلیم خَم نہیں کرتے

رہن سرشاری فضا کے ہیں

رہن سرشارئ فضا کے ہیں
آج کے بعد ہم ہوا کے ہیں
ہم کو ہرگز نہیں خدا منظور
یعنی ہم بے طرح خدا کے ہیں
کائناتِ سکوت بس خاموش
ہم تو شوقِ سخن سرا کے ہیں

غم ایک رات کا مہمان تھوڑی ہوتا ہے

غم ایک رات کا مہمان تھوڑی ہوتا ہے
کہ اس کے جانے کا امکان تھوڑی ہوتا ہے
ہزار طرح کے روگ اس کے ساتھ آتے ہیں
یہ عشق، بے سر و سامان تھوڑی ہوتا ہے
تمہیں جو دیکھنے ہم آ گئے، تو حیرت کیوں
خود اپنے آپ پہ احسان تھوڑی ہوتا ہے

آنکھوں سے کوئے یار کا منظر نہیں گیا

آنکھوں سے کُوئے یار کا منظر نہیں گیا
حالانکہ دس برس سے میں اس گھر نہیں گیا
اس نے مذاق میں کہا، میں روٹھ جاؤں گی
لیکن مِرے وجود سے یہ ڈر نہیں گیا
بچوں کے ساتھ آج اسے دیکھا تو دکھ ہوا
ان میں سے کوئی ایک بھی ماں پر نہیں گیا

بدن میں قطرہ قطرہ زہر اتارا جا رہا ہے

بدن میں قطرہ قطرہ زہر اتارا جا رہا ہے
کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دور ہیں گرداب ہم سے
مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے
جہاں کچھ روز پہلے راندۂ دہلیز تھے ہم
انہی گلیوں سے اب ہم کو پکارا جا رہا ہے

ہمارے پاس رہے یا کنارا کر جائے

ہمارے پاس رہے یا کنارا کر جائے
اداسیوں کا وہ کوئی تو چارا کر جائے
ہم آج ہی سے توقع اٹھائے لیتے ہیں
مبادا کل وہ ہمیں بے سہارا کر جائے
خفا وہ ہم سے ہے لیکن کبھی ملے تو سہی
وفا نہیں تو جفا ہی دوبارا کر جائے

احترام لب و رخسار تک آ پہنچے ہیں

احترامِ لب و رخسار تک آ پہنچے ہیں
بوالہوس بھی مِرے معیار تک آ پہنچے ہیں
جو حقائق تھے وہ اشکوں سے ہم آغوش ہوئے
جو فسانے تھے وہ سرکار تک آ پہنچے ہیں
کیا وہ نظروں کو جھروکے میں معلق کر دیں
جو تِرے سایۂ دیوار تک آ پہنچے ہیں

اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
اک ہوش رہا انعام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
وہ دیکھ، ستاروں کے موتی ہر آن بکھرتے جاتے ہیں
افلاک پہ ہے کہرام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
گو دیکھ چکا ہوں پہلے بھی نظارہ دریا نوشی کا 
اک اور صلائے عام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے

جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے
پھر کسی اور کی کچھ بات نہ مانی دل نے
ایک وحشت سے کسی دوسری وحشت کی طرف
اب کے پھر کی ہے کوئی نقل مکانی دل نے
اب بھی نوحے ہیں جدائی کے، وہی ماتم ہے
ترک کب کی ہے کوئی رسم پرانی دل نے

چمک آئے کہاں سے پیار کی لوگوں کے سینوں میں

چمک آئے کہاں سے پیار کی لوگوں کے سینوں میں 
وہ آب و تاب ہی باقی نہیں دل کے نگینوں میں
قرینہ کیا ہوا شامل محبت کے قرینوں میں
عجب اک شور سا برپا ہے ساری مہ جبینوں میں
کسی ایسی گھڑی دل میں ہوئی مہتاب کی خواہش
ہزاروں چاند اتر آئے حسینوں کی جبینوں میں

گم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم​

گم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم​
کیا ہم کو کھلی آنکھیں دیکھیں، اک خواب ہو تم اک خواب ہیں ہم​
کیا محشر خیز جدائی ہے،۔ کیا وصل قیامت کا ہو گا​
جذبات کا اک سیلاب ہو تم،۔ جذبات کا اک سیلاب ہیں ہم​
آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اک ساون ہے اک بھادوں ہے​
اے غم کی ندی تُو فکر نہ کر، اس وقت بہت سیراب ہیں ہم​

درد حیات تیرے فسانے کہاں گئے

دردِ حیات تیرے فسانے کہاں گئے
دل جن سے زندہ تھا وہ ترانے کہاں گئے
جن کے طفیل باغ و بہاراں تھی زندگی
وہ دوست وہ حبیب نہ جانے کہاں گئے
آج ممکن ہو پھر تو دیدۂ نم تازہ کریں
دردِ دل جاگ کہ سوئے ہوئے غم تازہ کریں

کس متاع شوق کی ہم جستجو کرتے رہے

کس متاعِ شوق کی ہم جستجو کرتے رہے
زندگی بھر زندگی کی آرزو کرتے رہے
جب حریفوں کی زباں تھی شعلہ گفتاری میں غرق
ہم تغزل کی زباں میں گفتگو کرتے رہے
اور ہوں گے جن کو ہو گا چاک دامانی پہ ناز
ہم جنوں میں چاک دامن کو رفو کرتے رہے

کہوں کیا کہ عشق کیا ہے عجب اس کا ہے فسانہ

کہوں کیا کہ عشق کیا ہے عجب اس کا ہے فسانہ 
کبھی زیست کا سہارا، کبھی موت کا بہانہ
تِرے آستاں کو چھوڑا تو ملا نہ پھر ٹھکانہ
وہی کاوشِ مسلسل،. وہی گردشِ زمانہ
کبھی گلستاں کا جانچا، کبھی کہکشاں کو پرکھا
مِرے ذوقِ جستجو کو نہ ملا کوئی ٹھکانہ

Monday, 2 May 2016

جتنے وحشی ہیں چلے جاتے ہیں صحرا کی طرف

جتنے وحشی ہیں چلے جاتے ہیں صحرا کی طرف
کوئی جاتا ہی نہیں خیمۂ لیلیٰ کی طرف
ہم حریفوں کی تمنا میں مرے جاتے ہیں
انگلیاں اٹھنے لگیں دیدۂ بِینا کی طرف
ہر طرف صبح نے اک جال بچھا رکھا ہے
اوس کی بوند کہاں جاتی ہے دریا کی طرف

حدِ نگاہ تلک کیا دکھائی دیتا ہے

حدِ نگاہ تلک کیا دکھائی دیتا ہے
بس ایک پیاس کا صحرا دکھائی دیتا ہے
 پیا تھا اس نے کبھی زہرِ آگہی شاید
یہ آسمان جو نیلا دکھائی دیتا ہے
ہوائیں ننگی چٹانوں پہ رقص کرتی ہیں
وہ کس طرح کا جزیرہ دکھائی دیتا ہے

دوستو جان پہ بن آئی ہے

دوستو! جان پہ بن آئی ہے
یہ بڑے شہر کی تنہائی ہے
سر ہتھیلی پر اگا ہی لے گا
جس نے جینے کی قسم کھائی ہے
مارنا بھی نہیں آتا جن کو
ان کو بھی شوقِ مسیحائی ہے

دل کو ویرانہ کہو گے مجھے معلوم نہ تھا

دل کو ویرانہ کہو گے مجھے معلوم نہ تھا
پھر بھی دل ہی میں رہو گے مجھے معلوم نہ تھا
ساتھ دنیا کا میں چھوڑوں گا تمہاری خاطر
اور تم ساتھ نہ دو گے مجھے معلوم نہ تھا
چپ جو ہوں کوئی بری بات ہے میرے دل میں
تم بھی یہ بات کہو گے، مجھے معلوم نہ تھا

فردوس کی طہور بھی آخر شراب ہے

فردوس کی طہور بھی آخر شراب ہے
مجھ کو نہ چلو، میری نیت خراب ہے
ذرے کا حسن ذرہ نہیں،۔ آفتاب ہے
مشکل یہ آ پڑی ہے کہ زیرِ نقاب ہے
ہے اک یہی جھلک تو مِری جانِ جستجو
کیوں مان لوں کہ آب نہیں ہے شراب ہے

اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں ​
قائم کِیا ہے میں نے عدم کے وجود کو ​
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں ​
ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار​
کیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں ​

منزل کے رہے نہ رہگزر کے

منزل کے رہے نہ رہگزر کے
اللہ رے حادثے سفر کے
وعدہ نہ دلاؤ یاد ان کا
نادِم ہیں ہم اعتبار کر کے
خاموش ہیں یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے

جنون عشق کی منزل وہی ہے

جنونِ عشق کی منزل وہی ہے
جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے
انہی مجبوریوں نے مار ڈالا
کہ تیری ہر خوشی میری خوشی ہے
ابھی ہے ان کے آنے کی توقع
ابھی راہوں میں کچھ کچھ روشنی ہے

علاج تلخی ایام کی ضرورت ہے

علاجِ تلخیٔ ایام کی ضرورت ہے
فسانے ہو چکے اب کام کی ضرورت ہے
مِری حیات بھی صدمے اٹھا نہیں سکتی
تِری نظر کو بھی آرام کی ضرورت ہے
غمِ جہاں کا تصور بھی جرم ہے اب تو
غمِ جہاں کو نئے نام کی ضرورت ہے

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کِواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نگاہِ آئینہ معلوم،۔۔ عکس نا معلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو
زمیں کے گِرد بھی پانی زمیں کے اندر بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو، تیرتا ہی نہ ہو

صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی

صحن کو چمکا گئی، بیلوں کو گیلا کر گئی
رات بارش کی فلک کو اور نیلا کر گئی
دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کر گئی
کچھ تو اسکے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی اس کو سریلا کر گئی

نشیب وہم فراز گریز پا کے لیے

نشیبِ وہم، فرازِ گریز پا کے لیے
حصار خاک ہے حد پر ہر انتہا کے لیے
وفورِ نشہ سے رنگت سیاہ سی ہے مِری
جلا ہوں میں بھی عجب چشم سرمہ سا کے لیے
ہے ارد گرد گھنا بَن ہرے درختوں کا
کھُلا ہے در کسی دیوار میں ہوا کے لیے

کیا توقع کرے کوئی ہم سے

کیا توقع کرے کوئی ہم سے
اک محبت نہ ہو سکی ہم سے
بات اس کم سخن کی کرتے ہیں
چھِن نہ جائے سخن وری ہم سے
باغ ایسا اتر گیا دل میں
پھر وہ کھڑکی نہیں کھلی ہم سے

شب میں دن کا بوجھ اٹھایا دن میں شب بیداری کی

شب میں دن کا بوجھ اٹھایا دن میں شب بیداری کی
دل پر دل کی ضرب لگائی ایک محبت جاری کی
کشتی کو کشتی کہہ دینا ممکن تھا آسان نہ تھا
دریاؤں کی خاک اڑائی، ملاحوں سے یاری کی
کوئی حد، کوئی اندازہ، کب تک گرتے جانا ہے
خندق سے خاموشی گہری، اس سے گہری تاریکی

ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی نہیں گئے

ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی، نہیں گئے
اور انتہا تو یہ ہے کہ گھر بھی نہیں گئے
وہ خواب جانے کیسے خرابے میں گم ہوئے
اس پار بھی نہیں ہیں، ادھر بھی نہیں گئے
صاحب! تمہیں خبر ہی کہاں تھی کہ ہم بھی ہیں
ویسے تو اب بھی ہیں، کوئی مر بھی نہیں گئے

ہجر کیا چیز مرے یار بنا دیتا ہے

ہجر کیا چیز مِرے یار بنا دیتا ہے 
دشت کے دشت کو گلزار بنا دیتا ہے 
معجزہ یہ بھی تِرے حسن کا دیکھا ہم نے 
جو رقیبوں کو بھی دلدار بنا دیتا ہے
پھر مِرا صبر مجھے ڈھال بنا دیتا 
جب کوئی حرف کو تلوار بنا دیتا ہے 

نہیں معلوم مسیحا مجھے کیا دیتا ہے

نہیں معلوم مسیحا مجھے کیا دیتا ہے 
زہر دیتا ہے کہ کم بخت دوا دیتا ہے 
مشکلیں جھیل لے طوفان و حوادث سے نہ ڈر 
درد انسان کو انسان بنا دیتا ہے
آتشِ عشق بھڑک اٹھتی ہے دل میں میرے 
جب کوئی دامنِ الفت کی ہوا دیتا ہے 

خاطرِ مجروح لیتا ہے مزا تاثیر کا

خاطرِ مجروح لیتا ہے مزا تاثیر کا 
زخم بھرتا ہی نہیں انکی نظر کے تیر کا 
آب و تابِ آئینہ کم ہو گئی تو کیا ہوا 
رفتہ رفتہ رنگ اڑ جاتا ہے ہر تصویر کا
بیخودی میں بھی کیا ضبطِ خودی کا اہتمام 
یوں تو اکساتا رہا جذبہ مجھے تقصیر کا 

مالی کے عشق نے نہ گلستاں کے پیار نے

مالی کے عشق نے نہ گلستاں کے پیار نے 
دھوکا دیا ہے مجھ کو ادائے بہار نے 
دیکھا جو ان کو قلب پہ قابو نہیں رہا 
مجبور کر دیا دلِ بے اختیار نے
ساقی تِری شراب سے کچھ واسطہ نہیں 
بے خود بنا دیا مجھے صہبائے یار نے 

Sunday, 1 May 2016

چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہو گا

چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہو گا
یہ تماشا بھی کسی دن ہمیں کرنا ہو گا
ریت کا ڈھیر تھے ہم، سوچ لیا تھا ہم نے
جب ہوا تیز چلے گی، تو بکھرنا ہو گا
ہر نئے موڑ پہ یہ سوچ قدم روکے گی
جانے اب کون سی راہوں سے گزرنا ہو گا

نہ راستہ نہ کوئی ڈگر ہے یہاں

نہ راستہ نہ کوئی ڈگر ہے یہاں
مگر سب کی قسمت سفر ہے یہاں
سنائی نہ دے گی دلوں کی صدا
دماغوں میں وہ شور و شر ہے یہاں
ہواؤں کی انگلی پکڑ کر چلو
وسیلہ اک یہی معتبر ہے یہاں

مکینوں کو ترستا ہر مکاں ہے

مکینوں کو ترستا ہر مکاں ہے
مگر اب شہر میں امن و اماں ہے
لٹی کیوں دن دہاڑے گھر کی پونجی
جو اس گھر کا محافظ تھا، کہاں ہے
فسانے گڑھ رہا ہے جھوٹ ان کا
مگر میری صداقت بے زباں ہے

اپنا یہی ہے صحن یہی سائبان ہے

اپنا یہی ہے صحن یہی سائبان ہے
پھیلی ہوئی زمین کھلا آسمان ہے
چاروں طرف ہوا کی لچکتی کمان ہے
یہ شاخ سے پرند کی پہلی اڑان ہے
جو چل پڑے ہیں کشتئ موجِ رواں لیے
چادر ہوا کی ان کے لیے بادبان ہے

ہے کوئی خوشی یا ہے الم یہ بھی تو سوچو

ہے کوئی خوشی یا ہے الم یہ بھی تو سوچو 
کیوں آنکھ مِری ہو گئی نم یہ بھی تو سوچو 
آزادئ اظہار کا چرچا تو بہت ہے 
لکھو یہ امانت ہے قلم، یہ بھی تو سوچو
کس بات نے بے زار کیا زیست سے ان کو 
کیوں باندھ کے مر جاتے ہیں بم یہ بھی تو سوچو 

اک ایک کرن معدوم ہوئی سب آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے

اک ایک کرن معدوم ہوئی سب آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے
حالات بدلنے لگتے ہی،۔ سب یار ہمارے ٹوٹ گئے 
پھر ضبط کا دامن چھوٹ گیا، پھر دل پہ رہا کب اپنا بس 
موجوں میں جو شدت آئی تھی، دریا کے کنارے ٹوٹ گئے
کچھ شیش محل سے منظر جو پلکوں پہ سجائے رکھے تھے 
پتھراؤ کا موسم کیا آیا، وہ سارے نظارے ٹوٹ گئے 

پوچھ مت دیکھ کہ کیا حال اریب آج بھی ہے

پوچھ مت دیکھ کہ کیا حال اریب آج بھی ہے
اپنے ہی شہر میں بے چارہ غریب آج بھی ہے
تھی تو مرہم کی ضرورت پہ تِری یاد کے ساتھ
ایک نشتر سا مِرے دل کے قریب آج بھی ہے
دوست پھر دوست ہے اب اس سے شکایت کیا ہو
خود مِرا بختِ سیہ،۔ میرا رقیب آج بھی ہے

ستارے ڈوب چکے ماہتاب باقی ہے

ستارے ڈوب چکے، ماہتاب باقی ہے 
مِر ے گلاس میں تھوڑی شراب باقی ہے
گلوں میں رنگ، بہاروں میں دلکشی ہے ابھی
تِرا جمال سلامت،۔۔ شباب باقی ہے
میں تیری زلف کی آیت سے جب گزرنے لگا
'کہا یہ رخ نے کہ 'پوری کتاب باقی ہے

غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں

غم کدے وہ جو تِرے گام سے جل اٹھتے ہیں
بت کدے وہ جو مِرے نام سے جل اٹھتے ہیں
رات تاریک سہی،۔ میری طرف تو دیکھو
کتنے مہتاب ابھی جام سے جل اٹھتے ہیں
رات کے درد کو کچھ اور بڑھانے کے لیے
ہم سے کچھ سوختہ جاں شام سے جل اٹھتے ہیں

اسباب نہ لشکر نہ سپر کوئی نہیں تھا

اسباب نہ لشکر، نہ سِپر، کوئی نہیں تھا
سالار کو ایسے میں بھی ڈر کوئی نہیں تھا
میں لوٹ کے آیا تو زمانہ تھا کوئی اور
بستی تو سلامت تھی، مگر کوئی نہیں تھا
اس وقت کی باتیں بھی مجھے اس نے بتائیں
جب میرے لیے بابِ خبر کوئی نہیں تھا

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا
میں شاخِ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا
بدن میں دل تھا معلق، خلا میں نظریں تھیں
مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا
پھر ایک رات مجھی پر جھپٹ پڑا مِرا ضبط
جسے میں پال رہا تھا، کوئی درندہ تھا

تم سے چھٹ کر چیت میں اب کے جو بھی حالت اس کی ہو

تم سے چھٹ کر چیت میں اب کے جو بھی حالت اسکی ہو
جس نے اے متوالی رادھا! تم سے ہولی کھیلی ہو
ساون میں یوں ابر کے ٹکڑے بہکے بہکے پھرتے ہیں
جیسے کسی شاعر کی طبیعت بہکی بہکی پھرتی ہو
چھَٹ گیا بادل، تھم گیا پانی، منظر کی یہ حالت ہے
جیسے کوئی غمگین حسینہ، رو دھو کر چپ بیٹھی ہو

نظر سے محبت جتانا نہ آیا

نظر سے محبت جتانا نہ آیا
تمہیں یار! آنکھیں لڑانا نہ آیا
کٹی عمر ساری حسینوں میں لیکن
سلیقے سے دل بھی لگانا نہ آیا
چمن میں گلوں نے بہت کوششیں کیں
تمہاری طرح مسکرانا نہ آیا