عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
علی شاہِ حیدر اماما کبیرا
کہ بعد از نبی شد بشیراً نذیرا
علیؑ جوانمردوں کے اِمام کبیر ہیں اور
نبیِؐ آخرالزماںؐ کے بعد بشیر و نذیر ہیں
زمین و آسماں، عرش و کرسی بحکمش
علی داں علیٰ کل شئ قدیرا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
علی شاہِ حیدر اماما کبیرا
کہ بعد از نبی شد بشیراً نذیرا
علیؑ جوانمردوں کے اِمام کبیر ہیں اور
نبیِؐ آخرالزماںؐ کے بعد بشیر و نذیر ہیں
زمین و آسماں، عرش و کرسی بحکمش
علی داں علیٰ کل شئ قدیرا
گُلاب کی رُت سے جا کے پُوچھو تھے پر مِرے پاس تِتلیوں کے
مگر وہ چشمِ زدن کہ توبہ پہاڑ ٹُوٹے تھے بدلیوں کے
وہ سارا الزام سر پہ لے کر خُود اپنی قاتل ٹھہر چکی تھی
ہزار ڈھونڈو مِری قبا پر، نشاں مِلیں گے نہ اُنگلیوں کے
قُصور کس کا تھا کون جانے، نہ ہم ہی سمجھے، نہ تم پہ ظاہر
کسی طلب کا وجود ہیں ہم، شگاف کہتے ہیں پسلیوں کے
دنیائے محبت کی ہے رسم جداگانہ
فرزانہ ہے دیوانہ دیوانہ ہے فرزانہ
اک غیرت مریم کی ان شوخ اداؤں کو
کیا دے دیا ہم نے جو دل دے دیا نذرانہ
کیا اہل خرد سمجھیں کیا اس کی حقیقت ہے
برباد ہوئی بستی، آباد ہے ویرانہ
کیسے بتاؤں تم کو نہ جانے کدھر گیا
وہ عشق وشق چھوڑ کے شاید سدھر گیا
میں نے بھی اپنے آپ کو مصروف کر لیا
اور اس کی چاہتوں کا بھی دریا اتر گیا
لگتا ہے یوں کہ جیسے ابھی کل کی بات ہے
بچھڑے ہوئے کسی سے زمانہ گزر گیا
بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو
ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو
رات ضائع ہی گئی، لفظ بھی بے کار گئے
جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو
کیسے دیوانے ہیں یہ لوگ میری بستی کے
کیوں یہ دیوانہ کہا کرتے ہیں دیوانے کو
میں نے اس کو خواب میں دیکھا اور نجانے کتنی دیر
میرے ہاتھ میں ہاتھ تھا اس کا اور نجانے کتنی دیر
دل کے دروازے پر اس کی یاد نے کل شب دستک دی
میں دیوار سے لگ کر رویا اور نجانے کتنی دیر
اک مدت کے بعد مرا احساس ہوا ہرجائی کو
یعنی مجھ کو دیر سے سمجھا اور نجانے کتنی دیر
وہ بادشاہ تھا عشق کا اسے کہاں زوال ہے
وہ مل کے پھر بچھڑ گیا وہ صاحبِ کمال ہے
جنون تھم کے رہ گیا، پری کو موت آ گئی
ہمارے ساتھ ساتھ یہ خدا کو بھی ملال ہے
جسے زرا سا دیکھ لیں بقاء کا وہ گہر بنے
ہمارے جیسا کب، کہاں بتا کوئی مثال ہے
چاند سے، نور سے، شبنم سے، صبا سے، گل سے
اپنی امید کے چہروں سے محبت کی ہے
بزمِ جاناں کا تصور بھی سرِ دار رہا
ہم دِوانوں نے اشاروں سے محبت کی ہے
غنچۂ زخمِ،جگر، شبنمِ چشمِ نرگِس
عمر بھر ہم نے بہاروں سے محبت کی ہے
غمِ محبت سے کوئی نکالے مجھ کو
پستی سے بلندی پہ اٹھا لے مجھ کو
ڈراتے ہیں دن کے اجالے مجھ کو
اپنے دامن میں کوئی چھپا لے مجھ کو
اُن سے میرا تڑپنا نہ دیکھا گیا
کر دیا موجوں کے حوالے مجھ کو
دیوانے ذرا رقص جنوں تیز کیے جا
منطق سے خرد کی ابھی پرہیز کیے جا
میں تیرے معائب کو محاسن ہی کہوں گا
تو ظرف انا کو میرے لبریز کیے جا
خاموش نہ رہ غنچۂ سربستہ کی صورت
لب کھول تو ماحول کو گلریز کیے جا
پانچ لفظ
لفظ کہنے کو پانچ ہیں لیکن
خود میں رکھتے ہیں کتنی رعنائی
جان جاؤ تو ہے یہی سب کچھ
اور نہ سمجھو تو لفظ عام سے ہیں
ان کو کہنے کو حوصلہ درکار
بِن کہے بھی رہا نہیں جاتا
اک نئی شان سے پھر جشنِ بہاراں ہونا
گُلستاں! تجھ کو مبارک ہو بیاباں ہونا
پھُول کے رُوپ میں کانٹوں نے ہمیں پالا ہے
ہم کو آیا نہ کبھی غم سے پریشاں ہونا
میرے اشعار نے پگھلا دیں کسی کی آنکھیں
ایک بُت کو بھی میسر ہوا انساں ہونا
در و دیوار کا بدلا ہوا حلیہ لکھیں
اس حویلی کا کوئی دوسرا نقشہ لکھیں
نہ کنیزوں کا وہ جھرمٹ نہ بہی خواہوں کا
دل کی مانند محل کو بھی اکیلا لکھیں
پار جو ہم نے کیا آگ کا دریا وہ تھا
زندگی اب تجھے بیتا ہوا لمحہ لکھیں
یہ خاک و آتش و آب اور یہ ہوا کیا ہے؟
اگر میں ان سے بنا ہوں تو پھر مِرا کیا ہے؟
وصال، ہجر، محبت مجھے بتا کیا ہے؟
اگر کچھ ان کے علاوہ بھی ہے تو کیا کیا ہے؟
عجیب حسن ہے اس کی اداس آنکھوں میں
وہ آدمی ہے یا پھر کوئی دیوتا، کیا ہے؟
پلٹ کے آنے کا اک وسیلہ بنا رہے تھے
بچھڑنے والے نشانیاں چھوڑے جا ریے تھے
ہمیں محبت بھی ہو گئی تھی کسی حسیں سے
کلاس میں پھر بھی پہلے نمبر پہ آ رہے تھے
انہیں مصیبت میں ڈالنے کا سبب بنا ہوں
جو لوگ مجھ کو مصیبتوں سے بچا رہے تھے
میں نے گرتی ہوئی دیوار پہ تحریر کیا
جس نے آثار صنادید لکھی ہو وہی اسباب بغاوت لکھے
اس سے پہلے مگر اک رسم ملاقات بھی ہے
یہ بڑھاپے کی سزا ہے کہ جوانی کا عذاب
طشت میں پھول ہیں اور سر پہ سفر کا سورج
اور جو باقی ہے وہ عیار کی زنبیل میں ہے
آگ سے دُھلے آئینے
ہماری شکلیں آگ سے دُھلے آیئنوں نے مسخ کر دیں
پھول کمہلانے کی تکلیف جلنے سے بہرحال کم ہے
بستی بستی پناہ ڈھونڈتے رسول
اور درزوں میں چھُپے دھوکے
آسمان کس قدر دل گرفتہ ہے
میرا دل جیسے راکھ ہوتے ہوئے کسی ستارے کی آخری چیخ ہے
نگاہ و دل میں کوئی راہ و در نہیں رہتا
جو معتبر تھا اگر معتبر نہیں رہتا
یہ کون سارے جہاں میں بھٹکتا پھرتا ہے
کہیں رہے تو رہے، اپنے گھر نہیں رہتا
جو دل سے دیرپا ہوتا نہ درد کا رشتہ
تو میرے حرفِ دُعا میں اثر نہیں رہتا
کوئی وقت تھا یہاں شہر اِک تھا بسا ہُوا وہ کہاں گیا
یہیں اک محل لبِ آب جُو تھا بنا ہوا وہ کہاں گیا
وہ جو چاند میرے اُفق پہ تھا مجھے کیا خبر کہاں چھُپ گیا
وہ جو پھُول اک میرے صحن میں تھا کھلا ہوا وہ کہاں گیا
کوئی کامگار تھا بیچ کے کوئی ہوشیار خرید کے
پہ زرِ قلیل میں مال کو تھا بکا ہوا وہ کہاں گیا
رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی
ملبہ وہیں پڑا ہے اٹھانے کے بعد بھی
سمجھے تھے ہم کہ آخری دشواریاں ہیں یہ
اک اور تھا زمانہ، زمانے کے بعد بھی
کر ہجر میں شمار اسے وصل میں نہ لکھ
آیا نہ اب کی بار وہ آنے کے بعد بھی
یوں محبت سے مجھے میرا جنوں دیکھتا ہے
جیسے اک باپ مَرے بیٹے کا منہ دیکھتا ہے
خوف و امید کی تخلیط سے تکتا ہوں تجھے
سر کٹے جسم کو جوں کھولتا خوں دیکھتا ہے
پہلے تصویر بناتا ہے کسی قبر کی پھر
لکھ کے پہلو میں وہ اٹھ یار میں ہوں دیکھتا ہے
اجنبی کہکشائیں نمایاں ہوئیں اجنبی رات میں
پھُول چُنتی ہوئی لڑکیاں ہنس پڑیں دُور باغات میں
صبح دم ساحلوں پر ہوا نے لکھے گیت برسات کے
چاند کو گود میں بھر کے ناچے سمندر مدارات میں
ابر کی پہلی بُوندیں گریں آپ کی ادھ کھلی آنکھ میں
ادھ کھلی سیپیاں ساحلوں پر ترستی رہیں ساتھ میں
کب کسی کی بھی حیا کرتے ہیں
لوگ تو لوگ ہُوا کرتے ہیں
تُجھ کو جلدی ہے بچھڑ جانے کی
جا تجھے خُود سے جُدا کرتے ہیں
ہم چراغوں کی محبت میں یہاں
ان ہواؤں سے لڑا کرتے ہیں
منزل پہ تِری ذات کی تسخیر سے پہنچا
میں خواب تلک خواب کی تعبیر سے پہنچا
اب اس کے خسارے کو یہاں کون بھرے گا
نقصان عمارت کو جو تعمیر سے پہنچا
آواز میں سختی ہے فقط اس کے سبب سے
مجھ تک یہ تکبر مِری جاگیر سے پہنچا
برسوں کوئی ہمارے لیے جسم و جاں رہا
لیکن وہ اب فریب کا عالم کہاں رہا
ایسے بھی راستوں سے گزرنا پڑا کہ بس
وہ بد گماں رہے، کبھی میں بد گماں رہا
حالات نے مٹا دئیے ماضی کے سب نقوش
اک نام تھا جو مٹ کے بھی وِرد زباں رہا
جب میں تم سے محبت کرتا ہوں
جب میں تم سے محبت کرتا ہوں
ایک نئی زبان پُھوٹ پڑتی ہے
نئے شہر، نئے ملک دریافت ہونے لگتے ہیں
گھنٹے ننھے کتوں کی مانند سانس لینے لگتے ہیں
کتابوں کے صفحوں کے بیچ سے اناج کے خوشے اُگ آتے ہیں
پرندے تمہاری آنکھوں سے شہد کی بوندیں چُرا کر اڑنے لگتے ہیں
ایک تلوار سے پتھروں کا کبھی
کچھ بگڑتا نہیں بلکہ تلوار ہی
ٹوٹ جاتی ہے زخم مکافات سے
چھوٹ جاتی ہے خود ظلم کے ہات سے
لیکن انسان پر ظلم کے ہاتھ کو
روکنا فرض ہے موڑنا فرض ہے
لامتناہی وقت
وقت آپ کے ہاتھ میں لامتناہی ہے، میرے مالک
آپ کے منٹوں کو گننے والا کوئی نہیں ہے
دن اور راتیں گزرتی ہیں اور عمریں
پھولوں کی طرح کھلتے اور مرجھا جاتے ہیں
تم انتظار کرنا جانتے ہو
تیری صدیاں ایک دوسرے کے پیچھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت نعتیہ تروینی
جب بھی طوفان کوئی آیا ہے
اسم احمدﷺ زبان سے نکلا
روبرو آ گئے کئی ساحل
غزالہ انجم
کسی کے ساتھ کوئی شام کر لو
ہمارے نام کا بھی جام بھر لو
اکیلے جا رہے ہو سُوئے مقتل
دُعا میری کم از کم ساتھ کر لو
نظر لگ ہی گئی آخر کسی کی
کہا تھا کس نے اتنا بن سنور لو
چلو ایسا بھی کرتے ہیں
سفر تنہا بھی کرتے ہیں
انہیں ہم سے محبت ہے
ہمیں رسوا بھی کرتے ہیں
ہمیشہ جیتنے والے
کبھی ہارا کرتے ہیں
مِرے وجود کا خوشبو طواف کرتی ہے
تِری مہک ہے جو مجھ کو غلاف کرتی ہے
صدائے عشق لگانے سے پیشتر سُن لو
کہ یہ بھی سینوں میں گہرے شگاف کرتی ہے
میں چشمِ نم سے اسی واسطے گریزاں ہوں
مِرے غموں کا بھی یہ انکشاف کرتی ہے
دبستان اردو
وہ شیرینی میں دکنی کی زبان ریختہ جیسی
حزیں ایسی کہ جیسے میر کا دیوان کھل جائے
دقیق اتنی کہ گویا مصرعۂ غالب کا اک مضموں
طہارت میں ہے وہ اقبال کی بانگِ درا جیسی
اداسی میں وہ یاسیت زدہ ساحر کی نظموں کا حسیں پرتو
کہ ناصر کاظمی کی یاس میں ڈوبی غزل کی عکس ریزی ہے
تم تھے، اب نہیں ہو
مکڑی کے جالوں کے اس پار
دیکھنے والی تمہاری آنکھیں بینائی سے محروم ہوں گی
اور بھیڑیے ہوں گے
بھیڑیے کے ہاتھوں میں تمہارے لیے
کمزور بوسیدہ لکڑی سے بنے کافن ہوں گے
جنگل میں دور تک خون پھیلا ہو گا
یہ دل کا انکشاف ہے یہ عین شین قاف ہے
جو کعبے پر غلاف ہے یہ عین شین قاف ہے
تھی ارنی ضد کسی کی اور ملنے کو گیا کوئی
سو بات صاف صاف ہے یہ عین شین قاف ہے
مِری خرد کی ہو گئی جنون سے مصالحت
ہر اک خطا معاف ہے یہ عین شین قاف ہے
اس لیے بھی وه مجھے دل سے نہیں ملتی ہے
اس کی مشکل مِری مشکل سے نہیں ملتی ہے
وقت تسلیم بھی کرتا ہے نہیں بھی ہم کو
داد ملتی ہے مگر دل سے نہیں ملتی ہے
تُو ابھی ہجر کی بھٹی میں نہیں ٹھیک پکا
تیری تصویر ابھی سِل سے نہیں ملتی ہے
دل چاک جگر چاک گریباں دریدہ
یہ لوگ وہ ہیں جن کے ہیں ارمان دریدہ
کیا فائدہ جنگل میں درندوں کی کریں کھوج
انسان ہے اس شہر میں انسان دریدہ
چہرہ تو ہے کچھ اور، دکھاتا ہے وہ کچھ اور
اس دور میں ہر شخص ہے پہچان دریدہ
تو پهر تم یہ سمجهتی ہو
کہ میں جهوٹا، فریبی اور دهوکے باز یعنی اس طرح کا اور کیا کچھ ہوں
تمہاری بے قراری نے مجهے مجبور کر ڈالا
کہ میں وہ ساری باتیں تم سے کہہ دوں
جو مجهے مرشد نے کہنے سے بڑے دن ہو گئے تهے، روک رکها تها
وہ کہتے ہیں
کیوں لاؤں ترے شہر کے آثار اٹھا کر
دیوار اُٹھاتے نہیں دیوار اٹھا کر
تنکوں کی با نسبت تھے ضروری تو پرندے
کاندھوں پہ لیے پِھرتے ہیں اشجار اٹھا کر
اب بول، بنانی ہے کہاں پر نئی دنیا؟
میں گھر سے نکل آیا ہوں پرکار اٹھا کر
عمر کا نوحہ سنا جاتی ہے روز
دن کے بعد اک رات آ جاتی ہے روز
خواب کی تکمیل ہوتی ہے نہیں
نیند اک پتہ گِرا جاتی ہے روز
اک خوشی مشکل سے ملتی ہے کہیں
اک نظر اُس کو بھی کھا جاتی ہے روز
دھوکا
تم سے ملنے کے پھر آثار نہیں
دوریاں ڈسنے لگیں وصل کی امیدوں کو
ایک ایک لمحہ گزرتا ہے گراں دل پہ بہت
ایک موہوم توقع ہے ہنوز
تم کسی وقت کسی کام سے گزرو شاید
دیکھتی رہتی ہے چشم امید
ہلاکو، اب جو تم بغداد آؤ گے
تو سیلِ خوں سے دجلہ اپنے ساحل دھو چُکا ہو گا
یہاں اِک اور لشکر آتش و آہن کا لشکر چھاؤنی ڈالے پڑا ہو گا
کئی سو سال سے یہ شہر اپنی بے سکونی میں
کبھی سویا نہ تھا، سو آخر سو چُکا ہو گا
ہلاکو، اب جو تم بغداد آؤ گے
منزل شناس تھے جو مسافر، ٹہر رہے
جینا تھا جن کو وہ تِرے کوچے میں مر رہے
اب بے خبر رہے کوئی یا باخبر رہے
قسمت میں جن غریبوں کی مرنا تھا، مر رہے
سب جانتے ہیں موت نہیں اختیار میں
اب کیا کریں نہ قابلِ پرواز پَر رہے
سحر کیسا ہے دیکھو اس تاج میں شامل
ہوئی نفاست بادشاہ کے مزاج میں شامل
ہاتھ معصوموں کے خُون سے رنگ کے
اِبلیس لاکھوں ہوئے حجاج میں شامل
ہے اپنے ہی گُناہوں کا صِلہ یہ بھی
کہ برکت نہیں رہی اناج میں شامل
وہ چاند ابر سے جس وقت بے نقاب ہُوا
عجب شباب کے عالم میں انقلاب ہوا
جنوں کے حصے میں صحرا نوردیاں آئیں
تمام عمر کہاں عشق باریاب ہوا
چمن میں نغمہ سرا کیوں کوئی نہیں ملتا
ہوا تو کون سے موسم کا ہے عتاب ہوا
اک نظر دیکھیں تِرے لب، ایک پیمانے کو ہم
"دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم"
تشنگی بُجھتی کہاں ہے ساغر و مِینا سے پھر
جب سبو پلکیں تِری ہوں، جام چھلکانے کو ہم
گر پلانی ہے مجھے آنکھوں سے تُو نے ساقیا
کیوں بھلا پھر مُڑ کے دیکھیں، آج پیمانے کو ہم
خیالِ یار کا روشن جو ہے دِیا نہ بُجھا
رہِ حیات میں اس سے ہی ہے ضیا نہ بجھا
جو پیاس ہی ہے مقدر مِرا، تو پھر ساقی
پیالہ رہنے دے یہ تشنگی بڑھا نہ بجھا
شبِ وصال ہے، دم لے ذرا نمودِ سحر
ٹھہر، ابھی سے ستاروں کا سلسلہ نہ بجھا
تو کیا میں دل میں تری یاد بو نہیں پایا
کہ تیرے رنگ کا اک شعر ہو نہیں پایا
بچھڑتے وقت اک الماس لمس نے سونپا
میں چاہتا تھا بہت رونا، رو نہیں پایا
سند تھی کارِ مسیحائی کی صبا کے ہاتھ
مِرا علاج، ہواؤں سے ہو نہیں پایا
ہم لوگ، تیری بات، تِرے بعد مان کر
بس چُپ ہیں، غم کو قدرتی افتاد مان کر
اب دیکھیے کہ ساتھ نبھاتا ہے کتنے مِیل
چل تو پڑا ہے وہ مِری فریاد مان کر
تم سب نے اُتنا رونا ہے، جتنا کہ میں کہوں
مجھ کو اصولِ گریہ کا استاد مان کر
اس عہدِ رنج اسی ابتلاء پہ پھول کِھلیں
لہو میں ڈوبتی ارضِ غزہ پہ پھول کھلیں
چکمتے خواب رہیں ان چمکتی آنکھوں میں
دلوں میں کونپلیں دستِ حنا پہ پھول کھلیں
مِری طرف سے محبت ملے ہمیشہ تجھے
تمہاری سمت میں چلتی ہوا پہ پھول کھلیں
حلقہ (انگشتری، انگوٹھی)
دخترک خنده کنان گفت کہ چیست
رازِ این حلقۂ زر
رازِ این حلقہ کہ انگشتِ مرا
این چنین تنگ گرفتہ ست بہ بر
چھوٹی لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا ہے
اس زرّیں حلقے کا راز
گفت پیغمبرﷺ با آواز بلند
بر توکل زانوئے اُشتر بہ بند
نبی پاکﷺ نے با آواز بلند تعلیم دی
اللہ پر توکل رکھو ساتھ ہی اُونٹ کے گھٹنے بھی باندھو
رمز الکاسب حبیب اللہ شنو
از توکل در سبب کاہل مشو
زِمن بری بہ مدینہ صبا سلامُ علیک
چُناں کہ می بُری زِ اہلِ وفا سلامُ علیک
شہہ مدینہ سے کہنا صبا سلام علیک
جو لے کے جائے پیامِ وفا سلام علیک
رساں رساں بہ درِ روضۂ رسولِ کریم
بہ صد تَضَرُّع زِ مَن بے نوا سلامُ علیک
بہ خوبی ہمچومہ تابندہ باشی
بہ ملک دلبری پاینده باشی
تیرا خوبصورت چہرہ چاند کی طرح چمکتا ہے
ملک حسن پہ تیری بادشاہی سلامت رہے
من درویش را کشتی بہ غمزہ
کرم کردى الٰہی زندہ باشی
وا رفتگان ز کویِ تو ہرگاه می روند
جان می دہند ہر قدم و راه می روند
وا رفتگان تیرے کوچے سے جب گزرتے ہیں
ہر قدم پر جان دیتے ہیں اور راستہ چلتے ہیں
ناچار ہر سحر ز درت بی کسانِ عشق
در دیده ہا سرشک و بہ لب آه می روند
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا
یہ اور بات کہ سورج افق پہ نکلا تھا
عجیب وجہ ملاقات تھی مِری اس سے
کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا
میں سب سمجھتی رہی اور مسکراتی رہی
مِرا مزاج ازل سے پیمبروں سا تھا
شام کہتی ہے کوئی بات جدا سی لکھوں
دل کا اصرار ہے پھر اس کی اداسی لکھوں
آج زخموں کو محبت کی عطا کے بدلے
تحفہ و تمغۂ احباب شناسی لکھوں
ساتھ ہو تم بھی مِرے ساتھ ہے تنہائی بھی
کون سے دل سے کسے وجہ اداسی لکھوں
نہ ان کو اور نہ ان کی انجمن کو یاد کرتے ہیں
یہاں ہم صرف یارانِ کہن کو یاد کرتے ہیں
صبا کے ساتھ بوئے گل بھی آج آئی ہے زنداں تک
چمن والے اسیرانِ چمن کو یاد کرتے ہیں
نہ جانے مصر کی تاریکیوں میں کب بہار آۓ
کئی یعقوب بوئے پیرہن کو یاد کرتے ہیں
دنیا ہے یہ کسی کا نہ اس میں قصور تھا
دو دوستوں کا مل کے بچھڑنا ضرور تھا
اس کے کرم پہ شک تجھے زاہد ضرور تھا
ورنہ تِرا قصور نہ کرنا قصور تھا
تم دور جب تلک تھے تو نغمہ بھی تھا فغاں
تم پاس آ گئے تو الم بھی سرور تھا
فاطمہ بن عبداللہ کے لیے
فاطمہ! تُو آبروئے اُمتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تيری مُشتِ خاک کا معصوم ہے
يہ سعادت، حُور صحرائی! تِری قسمت ميں تھی
غازيانِ دِيں کی سقٗائی تِری قسمت ميں تھی
يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سِپر
ہے جسارت آفريں شوقِ شہادت کس قدر
زعفرانی کلام
غریب اپنے سٹیٹس کے ہاتھوں مارا گیا
ہوا جو عشق میں رانجھا، وہی کنوارا گیا
ہوا یہ حال بھی شادی کے بعد شوہر کا
بچا جو ماں سے تو بیوی کی مار مارا گیا
پسر کی شادی پہ اماں نے آہ بھر کے کہا
لو آج میرے بڑھاپے کا بھی سہارا گیا
زعفرانی غزل
کوئی مولوی ہو کہ پیر ہو، کوئی شیخ ہو کہ ہو چودھری
"یہ قتیلِ غمزۂ چرچلی، وہ شہیدِ جلوۂ ڈالری"
نہ اسے خیالِ منسٹری نہ اُسے جنونِ گورنری
تری بارگاہ سے مل گئی جسے کوئی مِل کوئی فیکٹری
یہ خدا کے نام پہ بن گئے جو خدا کے دین کے چودھری
ابھی کل کی بات ہے کر رہے تھے صنم کدے میں ہری ہری
زعفرانی غزل
وه ڈهونڈ لے گا بہت جلد جانِ من کوئی اور
غلَط کہ پاس نہیں اُس کے آپشن کوئی اور
کوئی تو جا کے بتائے یہ بات کاتِب کو
کہ حُسنِ زن ہے کوئی اور حُسنِ ظن کوئی اور
کزن سے منگنی اسی وقت ٹوٹ جائے گی
مسِز بنا کے وہ لائے گا جب کرن کوئی اور
زعفرانی غزل
دبلاپا
صورت سے نظر آتے ہیں سوکھا ہوا میوہ
اک ٹھیس بھی لگ جائے تو برسوں کی ہے سیوا
آندھی میں کہیں نکلے تو بیوی ہوئی بیوہ
اس پر بھی یہ دبلوں کا ہمیشہ سے ہے شیوہ
غصہ ہے دھرا ناک پر لڑتے ہیں ہوا سے
بندوں سے نہ وہ خوش ہیں نہ راضی ہیں خدا سے
زعفرانی غزل
میرے ایمان پہ شک چھوڑ دے ناداں جاناں
پانچویں شادی نہیں کرتا مسلماں جاناں
کس طرح سیر کراؤں تجھے تاروں سے پرے
آ ٹپکتی ہے سر شام تری ماں جاناں
رشک کیسے نہ رقیبوں کے مقدر پہ کروں
وه پریشان سہی میں ہوں پشیماں جاناں
زندگی تیرے لیے خواب سہی، گیت
نقرئی گیتوں کی زرکار سجیلی کرنیں
نور برساتی رہیں تیرے شبستانوں میں
زندگی ٹھوکریں کھاتی رہی طوفانوں میں
تو کہاں سوچتی خوابوں کی سجل بانہوں میں
کیوں ڈھلکنے سے بھی معذور رہا کرتے ہیں
ہم اور ہوا
گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا
میری بھی تقدیر رہا ہے
تم نے بھی دُنیا دیکھی ہے
پھر بھی جب ہم ملتے ہیں
بچوں جیسی معصومی سے باتیں کرتے ہیں
تم کہتی ہو
اس اک سال میں
کتنے سال گزاریں گے ہم
ہر اک دن، اک سال مثال
ہر اک دن کی صبح کا سورج حرف سوال
ہر اک دن کی جھلسی ہوئی اور بھیگی ہوئی دوپہر زوال
ہر اک دن کی، ہر اک شام شام جمال
یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے
زال دنیا ہے عجب طرح کی علامۂ دہر
مرد دیں دار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے
بڑھتی جاتی ہے جو مشق ستم اس ظالم کی
کچھ محبت مری اصلاح مگر دیتی ہے
خضر راہ
ساحل دريا پہ ميں اک رات تھا محو نظر
گوشہ دل ميں چھپائے اک جہان اضطراب
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دريا نرم سير
تھی نظر حيراں کہ يہ دريا ہے يا تصوير آب
جيسے گہوارے ميں سو جاتا ہے طفل شير خوار
موج مضطر تھی کہيں گہرائيوں ميں مست خواب
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/٭تروینی/ترائلے
میرے سُورج
چار سُو اندھیرا ہے
کچھ تو روشنی بخشو
تم تو من کے سُورج ہو
لبنیٰ آصف
جس پہ روئے خود آگہی اس کی
ہر خوشی ہے نمائشی اس کی
اک نیا ضابطہ جنم دے گی
ہر روایت سے سرکشی اس کی
وقت پر آج بھی نہیں آیا
موڑ دوں گا اسے گھڑی اس کی
گل کا کھلنا ہے زخم کیا کہیے
زخم کھانے کی رسم کیا کہیے
دشت کی نبض دیکھتے رہنا
خون اب تک ہے گرم کیا کہیے
یہ روایت ہے سر بہ سر اب بھی
سر کٹانے کی رسم کیا کہیے
یار الفت عذاب لگتی ہے
اب محبت عذاب لگتی ہے
دوست دشمن نما جو ہوتے ہیں
ان سے رغبت عذاب لگتی ہے
اک شکایت سی جیسے گھر میں گئی
اب شکایت عذاب لگتی ہے
کس بات پہ ہنستے ہو؟
تم لوگ جو ہنستے ہو
کس بات پہ ہنستے ہو؟
مجھ کو بھی تو بتلاؤ
میں بھی تو ذرا ہنس لوں
دیکھو تو مِری صورت
ماتھے پہ تناؤ ہیں
عرصوں کے آنسو
تکیے میں بسے آنسو
آنکھوں سے جو
پونچھے نہ گئے
ان سارے دنوں
کی تہوں سے جو
بہتے ہی رہے
اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے
ذرا سی دیر میں انسان کیا سے کیا ہو جائے
نہ جانے کتنے دلوں سے امنڈ پڑے آنسو
خدا کرے یہ مرا ساز بے صدا ہو جائے
کسی کتاب کسی رہنما کی حاجت کیا
ہر ایک نقص اگر شعر میں روا ہو جائے
تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے
جب بھی خیال آیا بڑا ڈر لگا مجھے
جب بھی کیا ارادۂ ترک تعلقات
کیا جانے کیوں وہ شوخ حسیں تر لگا مجھے
پرکھا تو ظلمتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا
دیکھا تو ایک نور کا پیکر لگا مجھے
غمگساری
دوست مایوس نہ ہو
سلسلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر
تیری پلکوں پہ یہ اشکوں کے ستارے کیسے
تجھ کو غم ہے تری محبوب تجھے مل نہ سکی
اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے
جب پڑی چوٹ حقائق کی تو وہ ٹوٹ گئی
رعنائی وہ گل میں ہے نہ برنائی سحر میں
اک بات ہے جو آپ کی دُزدیدہ نظر میں
معلوم یہ ہوتا ہے نہیں منزلِ مقصود
محسوس یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہے سفر میں
قیمت میں مہ و مہر سے بڑھ کے ہوں مگر قدر
اِک سنگ ہوں ٹھکرایا ہوا راہگزر میں
زعفرانی کلام
بوڑھے شوہر سے محبت کی نشانی مانگے
کام کرنے کو بھی گھر والی زنانی مانگے
عشق آسان نہیں پوچھ کسی ٹھرکی سے
اتنا مشکل ہے کہ بے کار جوانی مانگے
سر پہ پڑتا ہےمحبت سے وہ تگڑا بیلن
وہ جو بیوی سے کبھی حسن معانی مانگے
نقاد زعفرانی کلام
نقاد سے ملنا ہے خطرناک کہ ہر دم
وہ حالت تبخیر تخیل میں ملے گا
دن رات وہ اک خاص اکڑفوں کی ادا سے
ذہنیت معکوس کے فرغل میں ملے گا
بس ایک ہی محور پہ وہ ناچے گا ہمیشہ
جب دیکھیے گرداب تقابل میں ملے گا
زعفرانی غزل
اینگلُردو غزل
کبھی وہ اوف لائن ہے کبھی وہ اون لائن ہے
مگر ای میل بھیجی ہے کہ سب اچھا ہے، فائن ہے
لگا کر چونا کتھا، پان کے پتے کو دل کر لے
کہ دل ہو جس طرح کا بھی، محبت ہی کا سائن ہے
کسی دن پَیک کر کے میں تجھے یہ پوسٹ کردوں گا
یہ دل میرا، تجھے معلوم ہے، سونے کا کائن ہے
زعفرانی غزل
ضلع ناظم کی تنخواہ
ملے گی بھاری جو تنخواہ ضلع ناظم کو
لگے گی ڈی سی او کی آہ ضلع ناظم کو
نہ صرف سیلری ستر ہزار ماہانہ
ضلع کے لوگوں کو دینا پڑے گا جرمانہ
کرایہ گھر کا بھی کیا کم ہے پورے تیس ہزار
ملے گا صاحبو! ہر ماہ ضلع ناظم کو
زعفرانی غزل
آن لائن عاشق
نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے
سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے
جس کو صدمہ شب تنہائی کے ایام کا ہے
ایسے عاشق کے لیے نیٹ بہت کام کا ہے
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے
عشق انسان کو گوگل پہ بٹھا دیتا ہے
زعفرانی غزل
"دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا"
میری خاطر، ہیر کے چاچے سے ٹکراویں گے کیا
گنج زخمی ہے مگر ناخن بھی چھوٹے ہیں ابھی
"زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا"
صاف کیوں آتی نہیں آواز موبی لنک پر
"ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے، کیا؟"
بابا
تمہاری جانب دعا کے موتی روانہ کرتے
دکھا یہ سکتے
کہ لاڈلی کی سُنہری آنکھیں بھری ہوئی تھیں
وہ ایک چِٹھی کہ جس میں خُود کو دِلاسہ دیتے
بِلک رہی تھی
وہ بِکھرے صفحات ڈائری کے
کبھی بہار بنے اور سنور گئے ہم لوگ
کبھی غبار کی صورت بکھر گئے ہم لوگ
کبھی حیات کے خورشید ماہتاب ہوئے
کبھی حیات کو تاریک کر گئے ہم لوگ
کبھی ہجوم حوادث سے بے خطر گزرے
کبھی ہواؤں کے جھونکوں سے ڈر گئے ہم لوگ
روح میں درد کا پیوند لگانے والا
تیرا ہر خواب ہے پلکوں کو جلانے والا
اک تصور کے سوا رات کے سناٹے میں
کون ہے بند کواڑوں کو ہلانے والا
میری حسرت ہے سلیقے سے کوئی تیر چلے
کیا یہاں کوئی نہیں ٹھیک نشانے والا
محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے
یہ اس سیارے کا قصہ نہیں ہے
کہیں دریا کہیں صحرا نہیں ہے
ہر اک رستے میں اک رستہ نہیں ہے
اسے میں کیوں پکارے جا رہا ہوں
وہی تو ہے جو کچھ سنتا نہیں ہے
فلسفے کو عشق کی دھیمی سلگتی آگ پر
شعر ہونے کے لیے کتنے زمن کَڑھنا پڑا
احسن تقویم کی فطرت سمجھنے کے لیے
لومڑی کے بعد سانپوں کا چلن پڑھنا پڑا
دخترِ انگور کی دوشیزگی کو الوداع
ہاں وہ مِینا بن گئی پر چار دن سڑنا پڑا
قتل
ہر دل میں ایک قبرستان ہوتا ہے
اس قبرستان میں ٹوٹے ہوئے رشتوں
اور کھوئے ہوئے دوستوں کی قبریں موجود رہتی ہیں
کچھ مزاروں پر چراغ جلتے رہتے ہیں
جن میں خون جلتا اور یادیں دھواں دیتی رہتی ہیں
کچھ قبریں ویران رہتی ہیں
برف کا ڈھیر ہوں صحرا ہوں نہ دریا ہوں میں
مت کو مت سوچ کہ آزاد پرندہ ہوں میں
میری رگ رگ میں لہو دوڑ رہا ہے تیرا
غور سے دیکھ مجھے تیرا ہی چہرہ ہوں میں
دُھوپ ٹھہری ہے نہیں آ کے کبھی میرے قریب
وقت کے تار پہ بھیگا ہوا کپڑا ہوں میں
وہ حقیقت تھی کہ سپنا تھا کسی کو دے دیا
جو بھی اپنے پاس اپنا تھا کسی کو دے دیا
جسم اپنے کو پرایا جان کر ہی رکھ لیا
رُوح کیا تھی اِک تماشا تھا کسی کو دے دیا
اِک طرف زوروں پہ تھی فرمائشیں دل دو ہمیں
دوسری جانب یہ کہنا تھا کسی کو دے دیا
غم اتنے اپنے دامن دل سے لِپٹ گئے
تجھ سے بچھڑ کے ہم کئی قسطوں میں بٹ گئے
کیوں یہ دیار میرے لیے تنگ سا لگا
کیا بات ہے کہ دامنِ صحرا سِمٹ گئے
اس سے کہیں بھی نام تمہارا نہیں مِلا
ہم ہر ورق کتابِ وفا کے پلٹ گئے
رگوں سے یاد کا نیلا لہو نچوڑتا ہوں
میں باغِ ہجر سے ہر شام پھول توڑتا ہوں
یہ اور بات کبھی جاگتے نہیں ہیں ہم
اُسے ہلاتا ہوں، خود کو کبھی جھنجوڑتا ہوں
کوئی بھی چاہے تو آسانی سے چھڑا لے جائے
اب ایک ہاتھ پکڑتا ہوں ایک چھوڑتا ہوں
کسی کانٹے سے رشتہ، کیل سے نِسبت تمہاری ہے
بہت ہی سخت سنگِ میل سے نسبت تمہاری ہے
تمہارے ہاتھ کے چُھونے سے سانسیں رکنے لگتی ہیں
صحیح کہنا، کیا عزرائیل سے نسبت تمہاری ہے؟
جو تم نے کُرۂ دل پر یہ کعبہ ہے بنا ڈالا
پتا لگتا ہے اسماعیلؑ سے نسبت تمہاری ہے
زعفرانی کلام
اصلی ہو یا نقلی سائیں
ڈگری تو ہے ڈگری سائیں
مجھ سے پنگا مت لینا تو
ورنہ قسمت بگڑی سائیں
اردو ٹھیک سے بول نہ پاؤں
کیسے بولوں عربی سائیں
زعفرانی غزل
چھوٹی سی ایک کہانی
چھوٹی سی ایک کہانی ہے
لیکن وہ بڑی پرانی ہے
ملتان کے پاس اِک بستی تھی
بستی میں خلقت بستی تھی
اس بستی میں جو رہتے تھے
سب اس کو نگری کہتے تھے
زعفرانی غزل
جوتے نامہ
ہائے یہ کس گمان میں لکھا
وہ بھی اردو زبان میں لکھا
ہم کو کیا ہو گیا زمانے دیکھ
ہم نے جوتوں کی شان میں لکھا
جوتے پیروں کے بھی محافظ ہیں
جوتے چہروں کے بھی محافظ ہیں
زعفرانی غزل
کیا بچے سلجھے ہوتے ہیں
جب گیند سے الجھے ہوتے ہیں
وہ اس لیے مجھ کو بھاتے ہیں
دن بیتے یاد دلاتے ہیں
وہ کتنے حسین بسیرے تھے
جب دور غموں سے ڈیرے تھے
زعفرانی غزل
دستور بن رہا ہے
کھوڑو اکڑ رہا ہے اور نون رہا ہے
روٹھا ہے سہروردی ممدوٹ تن رہا ہے
اور فضل الحق کہ اپنی دُھن میں مگن رہا ہے
دستور بن رہا ہے، دستور بن رہا ہے
سردار امیر اعظم گیسُو سنوارتا ہے
جو عقدہ مشکل ہے وہ آسان سا کیوں ہے
پھر بھی میرا دل اتنا پریشان سا کیوں ہے
گلیوں کا یہ انبوہ، یہ بازار کی رونق
یہ شہر مگر پھر بھی بیابان سا کیوں ہے
کیوں بدلا ہُوا طرزِ تکلم ہے کسی کا
دیرینہ رفاقت پہ بھی انجان کیوں ہے
قائداعظم کو خراجِ تحسین
تُو نے ذروں کو کرنوں کی دستار دی
سنگریزوں کو لعل و گوہر کر دیا
خاکِ رہ سے شعائیں لپکنے لگیں
گرد کو مہر کا ہمسفر کر دیا
تُو کہ تھا پیکرِ نظم و ضبط و یقین
تُو کہ تھا واقفِ رازِ فردا و دی
میں ایسا تھا کہ ایسا ہو گیا ہوں
مجھے ہونا تھا کیا، کیا ہو گیا ہوں
تِری دنیا میں جینے کی تمنا
تِری چاہت میں اندھا ہو گیا ہوں
ہے کوئی اور بھی دنیا میں تنہا
کہ میں تنہا اکیلا ہو گیا ہوں
جو مٹی کے کھلونے بیچتا تھا
خُدائی کے وہ نقشے بیچتا تھا
جو اک آواز دھیمی آ رہی تھی
کوئی مجبور، فاقے بیچتا تھا
کسی کی جان کی قیمت تھی کوڑی
کوئی لاکھوں کے لمحے بیچتا تھا
دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
ہے یقیں کچھ، گمان میں کچھ ہے
صنم اپنے کو ہم خُدا جو کہیں
کب قصور اس کی شان میں کچھ ہے
کچھ نہ دیکھا کسی مکان میں ہم
کہتے ہیں لا مکان میں کچھ ہے
سقراط
پتھر کاٹنے والے کو معلوم نہیں تھا
اپنا آپ ہی سب سے بھاری پتھر ہے
جسم کا پتھر کٹ جائے تو رستہ بہتر کٹ جاتا ہے
ڈھیروں پتھر کاٹ کاٹ کے
وہ روز و شب کاٹ رہا تھا
اُس کو یہ معلوم نہیں تھا اس کا بیٹا
خواہشیں
چلو اس دیس چلتے ہیں
جہاں پر رنگ بستے ہوں
جہاں پر پھول کھلتے ہوں
جہاں بارش کی صورت میں
سبھی خوشیاں برستی ہوں
جہاں پر رنج کے پودوں پہ
تم تھک گئیں
تم آزادی کے گھوڑے کی سواری تھک گئیں
اور آزادی کے گھوڑے نے تمہیں گرا دیا
تم میرے سینے کے جنگل سے اکتا گئیں
اور رات کو گانے والے جھینگروں کی موسیقی سے بھی
تم چاند کی چادر پر
ننگے بدن سونے سے بھی اکتا گئیں
برنگِ حبیب جالب
میں نے اُس سے یہ کہا
آزادی کا مطلب کیا
میں نے اُس سے یہ کہا
سب کو روٹی اور گھر دِلا
مفت تعلیم، سستا علاج
اور حق روزگار دلا
یہ لوگ جبر پہ کرتے جو احتجاج نہیں
سو ان سے اس لیے ملتا مرا مزاج نہیں
جو سچ بتائے وہ پاگل بتایا جاتا ہے
یہاں پہ حق کو سمجھنے کا اب رواج نہیں
غنیم شہر کو معلوم ہی نہیں کہ مجھے
بجز خدا کے کسی کا بھی احتیاج نہیں
آزادی
خوف سے آزادی ہی آزادی ہے
میں تجھ سے دعویٰ کرتا ہوں میری مادر وطن
عمروں کے بوجھ سے آزادی، سر جھکا کر
آپ کی کمر توڑنا، آپ کی آنکھوں کو اشارے سے اندھا کرنا
مستقبل کی کال؛
نیند کے طوق سے آزادی جس کے ساتھ
اللہ اکبر، اللہ اکبر
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر اللہ اکبر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جب بھی سپاہیوں سے پیمبر کا پوچھیے
خندق کا ذکر کیجیے خیبر کا پوچھیے
بدر و احد کے قائدِ لشکر کا پوچھیے
یا غزوہ تبوک کے سرور کا پوچھیے
ہم کو حنین و مکہ و موتہ بھی یاد ہیں
ہم امتی بانئ رسم جہاد ہیں
آئینے اور آبگینے توڑ ڈالو
دل، نظر کے سب نگینے توڑ ڈالو
خوشگمانی اور مروت جو بھی رکھیں
دل تو دل ہیں تم وہ سینے توڑ ڈالو
سب فریب و جور والے کھیل کھیلو
ربط والے سب قرینے توڑ ڈالو
شیشے شیشے کو پیوست جاں مت کرو
چند تنکوں کو اتنا گراں مت کرو
روشنی جس جگہ جھانکتی بھی نہیں
اس اندھیرے کو تم آسماں مت کرو
ایک کمرے میں رہنا ہے سب کو یہاں
گیلے پتے جلا کر دھواں مت کرو
کہاں کہاں ہے رکھا زاد صبح و شام مِرا
یہ کس جہان تونگر میں ہے قیام مرا
ہے کس بہار کی خواہش میں جسم صحرا بدوش
ہے کس صدا کی طلب میں نڈھال نام مرا
ہزار اس کو میں سمجھاؤں، دل سنبھلتا نہیں
کہ سرکشی پہ ہے آمادہ یہ غلام مرا
مُنافقت نہ دِکھائے، خُوشی خُوشی نِکلے
جِسے نِکلنا ہے دل سے مِرے، ابھی نکلے
تُو جس کو چاہے اُسے اور سے محبت ہو
اور اُس کی پہلی محبت ہی آخری نکلے
تُو میرے شعر پہ ہنستا ہے، یہ دُعا ہے مِری
کہ تیرے بچوں کی نس نس سے شاعری نکلے
ذکر جس کا سحر و شام سے وابستہ ہے
روشنی ذہن کی اس نام سے وابستہ ہے
جیسے ذرہ کبھی سورج کے مقابل آ جائے
یوں مِرا نام تِرے نام سے وابستہ ہے
دن کے صحرا میں بہت دیر سے شام آتی ہے
اس سے ملنے کی دُعا شام سے وابستہ ہے
نظر ثانی
دامن میں تو چھید پڑے ہیں
کیسے بھر کر لائیں تارے
ایک اک کر کے گر جائیں گے
رستے میں سارے کے سارے
پوری ہو پائے جو ہم سے
تِرے جانے کا اتنا غم ہوا ہے
بیاباں اشکِ خون سے نم ہوا ہے
مِری ہر سانس میں خُوشبو ہے اس کی
مِرے اندر وہ ایسے ضم ہوا ہے
محبت حد سے بڑھتی جا رہی ہے
بس آنا جانا تھوڑا کم ہوا ہے
جاتے ہیں وہاں سے گر کہیں ہم
ہر پھر کے پھر آتے ہیں وہیں ہم
صد حیف کہ کُنجِ بے کسی میں
کوئی نہیں اور ہیں ہمیں ہم
خاموشی کی مہر ہے دہن پر
ہیں حلقۂ غم میں جوں نگیں ہم
خواجہ سرا کا خُدا سے شکوہ
اے خُدا! خدائی کے منبر سے اتر
اور آ کے دیکھ، لوگ ہمیں نامکمل نامکمل کہہ کر
تیرے خالقِ کائنات ہونے پر اُنگلیاں اُٹھاتے ہیں
اے خُدا! راہ چلتے ہوئے اشرف المخلوقات ہم پہ جملے کس کر
اپنے مکمل ہونے پہ فخر کر رہے ہیں
اے خُدا! کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ
اسیر
ترا می خواهم و دانم کہ ہرگز
به کامِ دل در آغوشت نگیرم
تویی آن آسمانِ صاف و روشن
من این کنجِ قفس، مرغی اسیرم
مجھے تمہاری آرزو ہے میں جانتی ہوں کہ جیسا میرا دل چاہتا ہے
اُس طرح تمہیں آغوش میں نہیں لے پاؤں گی
جنگ ختم ہو جائے گی
لیڈر گرما گرمی سے ملیں گے
اور رہ جائے گی تو وہ بوڑھی ماں
جو اپنے شہید بیٹے کی منتظر ہو گی
وہ نوجوان لڑکی جو اپنے محبوب کا انتظار کرے گی
اور وہ بچے جو اپنے بہادر باپ کے منتظر ہوں گے
تمہارا حسن میری دیوانگی
روشنی چراغ سے زیادہ اہم ہوتی ہے
نظم کتاب سے زیادہ اہم ہوتی ہے
بوسہ ہونٹوں سے زیادہ اہم ہوتا ہے
تمہارے نام میری خطوط
ہم دونوں سے زیادہ اہم ہیں
صرف یہی وہ دستاویز ہے
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ مَن فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
مجھے خبر ملی ہے کہ اے محبوب! آج رات تُو آئے گا
میرا سر اس راہ پر قربان، جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا
غم و قصۂ فراقت، بکُشد چنان کہ دانم
اگرم چو بخت روزے، بہ کنار خواہی آمد
تیرے دستِ اختیار میں زمانوں کی کوئی قید نہیں
کوئی نہیں ایسا تیرے لمحوں کا جو حساب رکھے
شب و روز گزرتے ہیں ڈھلتی ہیں عمریں ایسے
جیسے کھلتے ہیں یہ پھول پھر مُرجھائے چلے جاتے ہیں
اک تیری ذات ہے جو انتظار کے ان لمحوں کا
رکھتی ہے علم کہ کیسے گزرنا ہے انہیں
اک سبز خواہش
وہ زرد موسم میں سبز خواہش
کی شاہزادی
خزاں رسیدہ چمن میں آئی
تو سب نے دیکھا
کہ دُھند رستوں سے چھٹ گئی ہے
ہوا کے آنگن سے حبس کی بدنما سی
ہم مر گئے کسی پہ میاں اس یقین میں
رہتے ہیں آسمان کئی اس زمین میں
آٹے کی اک قطار میں سب لگ گئے یہاں
مغرب کے تجربات نے جاں بھر دی ٹِین میں
اقبال! تب سے آپ کے شاہین مر گئے
جب سے یہ گُم ہوئے ہیں کسی مہ جبین میں
تنہائی یوں بھی تو مٹائی جا سکتی ہے
سائے سے بھی ٹیک لگائی جا سکتی ہے
کاغذ پر اک دشت بنایا جا سکتا ہے
اور اس میں بھی خاک اڑائی جا سکتی ہے
صحن میں کوٸی پیڑ اگایا جا سکتا ہے
یوں گھر کی توقیر بڑھائی جا سکتی ہے
خبر یہی ہے قرینے سے داستان سے میں
سرک رہا ہوں تماشے کے درمیان سے میں
غضب تو یہ ہے کہ دونوں نے ہجر کاٹ لیا
نہ جاں سے تو ہی گیا نہ ہی اپنی جان سے میں
نظر ملاتے ہوئے حالتِ سرور میں ہوں
کلام کرتے ہوئے مہوشِ گمان سے میں
عشق جھیلا ہے تو چہرہ زرد ہونا چاہیے
حُسن کے شیدائیوں کو مرد ہونا چاہیے
بد گُمانی پونچھ کر آنچل سے کوئی چوم لے
اس لیے تصویر پر کچھ گرد ہونا چاہیے
سچ کہو تو ہر کہانی داستان اپنی ہی ہے
آدمی کے دل میں تھوڑا درد ہونا چاہیے
چھُپاؤ گے اشکوں کی برسات کب تک
محبت کی زائل علامات کب تک
کبھی آتشِ حُسن سے آنکھ تاپی
حرارت کے دل میں ہیں جذبات کب تک
کبھی بعد مُدت کے ہم یاد آئیں
ہو پانی میں عکسِ ملاقات کب تک
ہر کوئی اپنی اپنی کہانی لیے ہوئے
بس روئے جا رہا ہے زبانی لیے ہوئے
اب ڈھونڈتا ہے جانے وہ مُجھ کو کہاں کہاں
اِک شہرِ طلسمات کی رانی لیے ہوئے
بیٹھے ہوئے ہیں چوک میں کُچھ عاشقِ رسولؐ
دینے کو سب کو موت کا پانی لیے ہوئے
وہیں پہ غم ہے جہاں پر خوشی پڑی ہوئی ہے
اور ان کے بیچ میں بھی دشمنی پڑی ہوئی ہے
نمٹ لوں اس سے تو سوچوں گا اپنے بارے میں
ابھی تو میرے گلے زندگی پڑی ہوئی ہے
نگاہ مجھ پہ کرے گا ضرور دشت جنوں
ذرا سی خاک مِرے سر میں بھی پڑی ہوئی ہے
ذہن میں مشکلوں کا حل آیا
ایک ہیجان سے نکل آیا
کتنی آسودگی تھی جنت میں
پھر میسر مجھے وہ پھل آیا
مجھ سے پھر بھی وہ دو قدم پہ رہا
جس کی خاطر میں میلوں چل آیا
آدمی
جو چاند پر گیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جو گپ اڑا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جو ہنس ہنسا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جو جی جلا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ہیں آدمی کے سارے زمانے میں رنگ روپ
ہیں آدمی ہی چاندنی اور آدمی ہی دھوپ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ دنیا ہے فانی
تجھے ہی بقا ہے
تُو میرا خدا ہے
میں اب ڈھل رہا ہوں
یا ڈھلنے لگا ہوں
مِرے جذبے پستی کی تلخی کو سہنے لگے ہیں
اسے عید مبارک کہتی ہوں
آج بھی برسوں بعد مِرے
کانوں میں صدا تیری آئے
میں چاند ہوں جاناں، چاندہوں مَیں
سُن چاند ہوں تیری عید کا میں
پیغام ہوں ایک نوید کا میں
رنگوں سے سجی، خُوشبومیں بسی
عید کی خریداری
مسلماں قرض لے کر عید کا ساماں خریدیں گے
جو دانا ہیں وہ بیچیں گے جو ہیں ناداں خریدیں گے
جو سیاں شوق سے کھائیں وہ سویاں خریدیں گے
مرکب سود کا سودا بہ نقد جاں خریدیں گے
مسلمانوں کے سر پر جب مہ شوال آتا ہے
تو ان کی اقتصادیات میں بھونچال آتا ہے
اِک مجمعِ کثیر میں چُھپتا ہوا چراغ
اِک دوسرے چراغ کی لو اوڑھتے ہوئے
سمجھا رہا ہے آخری حُجت کے طور پر
لوگوں کو روشنی کی وراثت کا مسئلہ
اور چند چہرے ہیں کہ جنہیں تِیرگی کا غم
پہلوئے آفتاب میں بھی کھائے جاتا ہے
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
ہم کو اگر میسّر جاناں کی دید ہوتی
قیمت میں دِیدِ رُخ کی ہم نقدِ جاں لگاتے
بازارِ ناز لگتا، دل کی خرید ہوتی
کچھ اپنی بات کہتے کچھ میرا حال سُنتے
ناز و نیاز کی یوں گُفت و شنید ہوتی
دل کو تسکین نہیں اشکِ دما دم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی
ہم نشیں کیا کہوں اس رشکِ مہِ تاباں بِن
صبحِ عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی
کاش اے جانِ المناک، نکل جاوے تُو
اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی
عید کا دن منا کے دیکھیں گے
اُن کی محفل میں جا کے دیکھیں گے
کس طرح روشنی بکھرتی ہے
آج اُس کو ہنسا کے دیکھیں گے
زندگی جھُوم جھُوم جائے گی
وہ اگر مُسکرا کے دیکھیں گے
عید
بھیڑ میں مکانوں کی
ایک بند دروازہ
سُونے سُونے آنگن میں
ڈھیر سُوکھے پتّوں کا
خشُک پیڑ سے لِپٹی
بے حساب تنہائی
چاکِ دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تصویر کہاں بھُول گیا عید کا چاند
اُن کے اَبرُوئے خمیدہ کی طرح تِیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چُپکے سے کہا عید کا چاند
لب پہ آ جائے تو حق بات کی تردید کہاں
ڈھانپ سکتے ہو بھلا گرد میں خورشید کہاں
ڈوبنے والوں نے جو ہاتھ، ہلائے سرِ آب
ظلم کے حق میں ٹھہرتی ہے وُہ تائید کہاں
شہر میں عام ہے جو خون خرابے کی فضا
دیکھیے لے کے ہمیں جائے یہ تمہید کہاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اِذن مل جائے گر مدینے سے
نعت میں لکھ سکوں قرینے سے
کچھ نگینے عطا ہوں سائل کو
آپؐ کے عِلم کے خزینے سے
رشک ہوتا ہے اُن گُلابوں پر
جن کو نِسبت ہوئی پسینے سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نصرت حضورؐ اس نے تو پا لی ہے آپﷺ کی
جس نے بھی نعت دل میں بسا لی ہے آپﷺ کی
جس نے بھی نعت دل میں بسا لی ہے آپﷺ کی
نصرت حضورؐ اس نے تو پا لی ہے آپﷺ کی
سارے جہاں میں ان کی بھی توقیر بڑھ گئی
جب سے گُلوں نے خُوشبو چُرا لی ہے آپﷺ کی
سینت رکھی ہے درونِ ذات تنہائی بہت
رنج و غم کی دل میں ہے لیکن پذیرائی بہت
زعم ہے جن سے تعلق پر تمہیں، بتلائیں کیا
تھی ہماری بھی کبھی ان سے شناسائی بہت
جان لو گے اک ذرا مشکل گھڑی آنے تو دو
دوست دنیا میں بہت کم ہیں، تماشائی بہت
غریب گھر میں رہا اشکبار عید کے دن
نہیں مِلا ہے کسی سے اُدھار عید کے دن
طلب کہاں سے کرے پوری اپنے بچوں کی
اسی وہ غم میں رہا بے قرار عید کے دن
لپٹ لپٹ کے جگر گوشے مانگتے رہے ہیں
کھلونا لا دو کوئی اب کی بار عید کے دن
لبیک یا الاقصیٰ
صدائے خیمۂ آلِ عبا میں حاضر ہوں
خلاف جبر بہ صبر و رضا میں حاضر ہوں
ہزار سال کی تاخیر سے سہی لیکن
بنام عشق شہ کربلاؑ میں حاضر ہوں
تُو میری خاک اُڑا کر مجھے امر کر دے
ہوائے کوچۂ خیرالوریٰ میں حاضر ہوں
گواہی دو
کہ تم اس دور سے گزرے ہو جب
دورِ خزاں تھا
گواہی دو
کہ بہتے وقت کے دھارے بہت سنگین تھے تب
بہاؤ تیز تھا، اور تیرنا مشکل تھا بے حد
گواہی دو
شہدائے پولیس کی نذر
ستم رسیدہ، اجل کے راہی
ہماری پولیس کے سپاہی
کہ جن کو ہم سب کی کم نگاہی کا کوئی شکوہ ہے ناں گِلہ ہے
وہ جانتے ہیں
کہ اُن کی قربانیوں کا لوگوں کے پاس تھوڑی کوئی صِلہ ہے
وہ جانتے ہیں
لائی اک حلقۂ زنجیر نشانی میں ہوا
جانے کیا کہتی ہے پیغام زبانی میں ہوا
منزلیں راہ میں آتی ہیں، گُزر جاتی ہیں
راستہ بھُول گئی اپنی روانی میں ہوا
کبھی بغداد کی گلیوں سے غزلخواں گُزری
کبھی مصروف ہوئی مرثیہ خوانی میں ہوا
یہ رسیاں تو کھول دو، یہ طوق اب اتار دو
ہم آدمی نہیں ہیں کیا؟، ہمیں بھی اختیار دو
ہمیں بھی اختیار دو کہ ہم بھی گفتگو کریں
ہمارے اپنے جشن ہوں، ہم اپنی ہا و ہو کریں
ہمارے ہاتھ، پیر، آنکھ، کان، سر نہیں ہیں کیا
ہمارے شوق اور یقیں، ہمارے ڈر نہیں ہیں کیا
سُن لے تخت پہ بیٹھنے والے
سُن لے
ہم سے روٹی چھیننے والے سُن لے
یہ تو طے ہے بھُوک ہماری
نفرت کی منہ زور آندھی میں بدل چکی ہے
جب یہ نفرت طُوفانی غصے میں ڈھل کر
تیرے گھر تک پہنچے گی
وہ رات ابھی تک باقی ہے
جس رات جرنیلوں کا جرگہ بیٹھا
جس رات ’جمہوریت اور عوام‘ پر
کار و کاری‘ کا الزام عاید ہوا’
جس رات اس دیس کی محبت مقتول بنی
جس رات جبر کا پیاسا خنجر
اس سرزمین کے سینے میں پیوست ہوا
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
یہ آبروئے خونِ شہیداں کا ہے سوال
اے ربِ ذوالجلال اے ربِ ذوالجلال
خون اور آنسوؤں سے بھری ہے یہ داستاں
نسلوں کی جد وجہد، زمانوں کا ظلم و جبر
ایسی کوئی سڑک کہ جہاں خوں گرا نہ ہو
تم بھلائے گئے
تم بھلائے گئے
یوں بھلائے گئے جیسے تھے ہی نہیں
تم بھلائے گئے
جیسے (کھنڈرات میں) پنچھیوں کی قضا
یا کنیسے کی خاموش، گم سم فضا
راہ چلتی محبت (پراگندہ خواب)
سکونِ دل کدھر بیٹھا ہے تنہا
پرندہ شاخ پر بیٹھا ہے تنہا
ہجومِ شہر میں صد کرّ و فر سے
وہ بیٹھا ہے مگر بیٹھا ہے تنہا
کسی کی چاندنی میں شاہزادہ
سراپا تر بہ تر بیٹھا ہے تنہا
ہے یہی وقت اِن کا دامن تھام لے
گرنے والے! اب علیؑ کا نام لے
مرحبوں کے سر پہ ہے تیغِ علیؑ
اپنا بدلا صبح لے یا شام لے
ہے مئے حُب علیؑ کچھ تُند و تیز
حُر بنے جو مستیوں سے کام لے
آنکھوں کو کیجیے ورق دل میں ڈبوئیے قلم
ممکن ہے رقم ہو سکے ارضِ یروشلم کا غم
سُورج چڑھا ضرور ہے لیکن ڈھلی نہ شامِ غم
صدیاں ہوئی پکارتے؛ آ، اے نسیمِ صبح دم
بھیڑوں کی بھیڑ سے کوئی بچے اُٹھا کے لے گیا
غفلتِ خواب میں رہے اہل عربِ، اہل عجم
در کھلا رکھتے ہیں، گھر کو بھی سجا دیتے ہیں
رات بھر دل کو ہم ایسے ہی دغا دیتے ہیں
سانس تھم جاتی ہے، دھڑکن بھی بگڑ جاتی ہے
جب وہ چہرے پہ گری زُلف ہٹا دیتے ہیں
تیری یادوں نے مجھے نیند سے محروم کیا
سو بھی جاؤں تو تِرے خواب جگا دیتے ہیں
ابا تم نے گھوڑے کو گھر میں تنہا کیوں چھوڑا؟
پیارے ابا! آج مجھے تم کس جانب لے جاتے ہو؟
پیارے بیٹے! جس جانب دلدار ہوائیں چلتی ہیں
یہ کہہ کر وہ باپ اور بیٹا کھلیانوں سے نکلے
اور پرانے عکا شہر کی دیواروں تک پہنچے
بونا پارٹ کے سنگ دل لشکریوں نے جہاں بنائے
گرمی سے بچنے کو ٹیلوں کے مصنوعی سائے
جیسی ہو ویسی ہی آ جاؤ
سنگھار کو رہنے دو
بال اگر بکھرے ہیں
سیدھی مانگ نہیں نکلی
جیسی ہو ویسی ہی آ جاؤ
کاجل کی ضرورت کیا؟
بغاوت
جب میں نے کہا
میں تم سے محبت کرتا ہوں
تو جانتا تھا
ایک بغاوت کی رہنمائی کر رہا ہوں
قبیلے کے قانون کے خلاف بغاوت
اپنے خلاف بغاوت
اختیار نہ کیا گیا راستہ
زرد جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا
اور افسوس دونوں پہ چلنا تو ممکن نہ تھا
مجھ کو ہونا تھا بس ایک ہی کا مسافر، میں دیکھا کیا
دیر تک ایک کو حدِ امکان تک
وہاں تک جہاں ہو رہا تھا وہ خم کھا کے جنگل میں گُم
میں نے پھر دوسرے کو لیا، وہ جو اُتنا ہی خوشرنگ تھا
تم یہاں ہو
اور کہیں مت جاؤ
تم میری آخری سِسکی تک ٹھہرو
اور مجھ سے کسی خوفزدہ شخص کی طرح لِپٹ جاؤ
کہ کبھی ایک اجنبی سایہ تمہاری آنکھوں سے گُزرا تھا
اب بھی ہاں ابھی بھی تم میرے لیے شہد آشام بنتی ہو
فرشتۂ محبت
جس گھر میں عورت نہیں ہے، وہاں محبت و شفقت نہیں ہے
جس کا دل مر جائے، اُس کی روح بھی مر جاتی ہے
تقدیر نے کہیں بھی مرد کو کامل اور عورت کو ناقص نہیں لکھا
عورت ازل ہی سے خانۂ ہستی کا ستون ہے
بنیاد کے بغیر کون کوئی عمارت بنا سکتا ہے؟
عورت اگر زندگی کے راستے میں چراغ بن کر نہ جلتی
واپسی کا سفر
میں کہ ابہام کے راستے سے پرے
ڈھونڈتی تھی جسے
وہ یقیں، بے یقینی کے مسند پہ بیٹھا ہوا
کوئی ابہام تھا
گریہ سچ ہے تو کیوں
تیرگی میں مجھے روشنی کا گماں ہی پلٹنے نہ دے
عین ممکن ہے کوئی آنکھ بھی بیدار نہ ہو
صبح پیڑوں پہ اگر چڑیوں کی چہکار نہ ہو
تیری آمد پہ ہر اک شخص کی خواہش ہو گی
مجھ سوا کوئی گلابوں کا خریدار نہ ہو
گردش وقت سے آ دونوں ہی مل کر ڈھونڈیں
ایسا پل جس میں بچھڑنا ہمیں دشوار نہ ہو
میں نے جب قطرہ لکھا اُس نے سمندر پڑھ لیا
میرے باہر ہی سے اُس نے میرا اندر پڑھ لیا
میں چھپاتا رہ گیا دنیا سے اپنے آپ کو
میری آنکھوں میں مجھے دنیا نے اکثر پڑھ لیا
میں نے اس کو مہرباں لکھا، کرم فرما لکھا
لیکن اُس ظالم ستمگر نے ستمگر پڑھ لیا
یہ نہ پوچھو کہ جدا ہو کے کدھر جائیں گے
اب کے بچھڑیں گے مِری جان تو مر جائیں گے
ہم نے یہ سوچ کے منزل کا تعیّن نہ کِیا
آپ جائیں گے جِدھر ہم بھی اُدھر جائیں گے
آپ کے پیار پہ نازاں ہوں، بھرم رکھیے گا
ورنہ پھر آپ مِرے دل سے اُتر جائیں گے
مہمل الفاظ پر مشتمل غزل
اپنی من مانی کرنی ہے، سُننا وُننا کچھ بھی نہیں
باتیں واتیں عشق وِشق کی ہوتا ووتا کچھ بھی نہیں
فلم ولم سے سیکھے سپنے، ماتم واتم رنج و الم
ساری اداکاری ہے پیارے، ہوتا ووتا کچھ بھی نہیں
واویلا کرنے کو لوگو! کوئی بہانہ ہونا تھا
پاس واس ہے اپنے کیا؟ سو کھونا وونا کچھ بھی نہیں
ہے جس کا نام عورت
دھنک رنگوں سی ہے وہ
حسیں ہیں رنگ سارے
محبت کا ستارہ
وفا کا استعارہ
سفر میں زندگی کے
اب کے برس بھی نکلا چاند
لیکن تھا وہ سُونا چاند
برسوں اِدھر اُدھر بھٹک کر
بھول گیا اپنا رستہ چاند
ایک مانگو تو دو ملتے ہیں
ہو گیا کتنا سستا چاند
تنہائی کی رات عجب ہے
آنکھوں میں برسات عجب ہے
دل کو تم نے توڑ دیا کیوں
اے ساتھی یہ بات عجب ہے
خاموشی کو توڑ دو ساتھی
اس دل میں جذبات عجب ہے
کب تمنا کوئی ہے جینے میں
سانس بس چل رہی ہے سینے میں
کوہ کن ہو تو ڈھونڈ لے دل میں
کیا چھپا ہے مرے دفینے میں
کچھ الٹ جائے سانس کی ترتیب
ایک وحشت ہے اس قرینے میں
چار دن ترک مے پر یہ قائم رہیں مے گساروں کا کوئی بھروسہ نہیں
کب اُٹھا دیں قدم مے کدے کی طرف غم کے ماروں کا کوئی بھروسہ نہیں
مہکی مہکی فضا، بہکی بہکی نظر، لڑکھڑاتی زباں، ڈگمگاتے قدم
جا رہے ہیں کدھر اور پہنچیں کہاں، بادہ خواروں کا کوئی بھروسہ نہیں
دل میں بے تابیوں کا سمندر لیے، ڈھونڈنے تو چلے ہیں سکوں کی جگہ
شام ہو مے کدے میں کہ مسجد میں ہو، بے قراروں کا کوئی بھروسہ نہیں
نہ سمجھی میں کہ ہے تیری رضا کیا
نیاز و ناز نا مقبول دونوں
نہ سمجھی میں کہ ہے تیری رضا کیا
جفا و ناز کی خوگر ہوں پنہاں
خدا معلوم ہے رسم وفا کیا
پنہاں بریلوی
رابعہ پنہاں
جب ہونٹوں پہ پیار ترانے آ جاتے ہیں
جیون رُت پہ رُوپ سہانے آ جاتے ہیں
ہم تو پُھولوں کی خُوشبو سے اُکتا کر
تیرے بدن کی باس چُرانے آ جاتے ہیں
اکثر تیرے مدہوشوں سے مِل کر بھی
کچھ لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں
ان کے رُخ پر حجاب رہتا ہے
جیسے مہ پر سحاب رہتا ہے
وصل کا جب سوال ہو ان سے
بس ''نہیں'' میں جواب رہتا ہے
پاس رہ کر بھی درمیاں اپنے
فاصلہ بے حساب رہتا ہے
میرے خوابوں کی تم حویلی ہو
تم میرا عشق ہو، سہیلی ہو
میں جماؤں ہتھیلی پر سرسوں
ہاتھ میں گر تِری ہتھیلی ہو
میں بنفشہ کا پُھول ہوں اور تم
میری محبوبہ ہو، چمیلی ہو
کیوں نہ ہو جلوۂ دیدار عزیز
جان کس کو نہیں اے یار عزیز
کیا یوں ہی ملتے ہیں ملنے والے
دوست اغیار ہیں، اغیار عزیز
زندگی سے مجھے آنکھیں پیاری
پیاری آنکھوں سے وہ دیدار عزیز
اس نے دیکھا نہیں مُڑ کے جاتے ہوئے
مدتیں ہو گئیں دل جلاتے ہوئے
جانے کیوں چل دیا اس طرح رُوٹھ کر
میں نے چاہا تھا جس کو کبھی ٹُوٹ کر
خواب ٹُوٹا وہ ہی ہاتھ سے چُھوٹ کر
وہ تو لے ہی گیا دل مِرا لُوٹ کر
سب رنگی
ست رنگی زندگی
سولہ سنگار کیے بیٹھی ہے
تیری پازیب سے
کتنی ہی دُھنیں پُھوٹتی ہیں
تجھ سے ہی رنگ لیے
رعشنی سنگیت کی دُھن
آنکھیں
یہ جو تمہاری آنکھیں ہیں
یہ جو مجھے دیکھتی ہیں
یہ جو مجھے کھوجتی ہیں
یہ جو مجھے سوچتی ہیں
اک سحر سا پھیلا دیتی ہیں
یہ پیار سا بڑھا دیتی ہیں
کیسے رشتے ہیں کچے دھاگے ہیں
دوست اب دشمنوں سے آگے ہیں
جب سے دیکھا ہے چاندنی کا چلن
تب سے اپنے نصیب جاگے ہیں
آؤ ناں ہاتھ، ہاتھ میں دے دو
پیار اُترا ہے، نین لاگے ہیں
تری توجہ کا یہ ثمر ہے
تری توجہ اگر مجھے بال و پر نہ دیتی
تو مجھ پہ یہ آسمان نہ کُھلتا
رموز سے بھری ہوئی کائنات خود کو چُھپائے رکھتی
تِری توجہ کا یہ ثمر ہے
کہ اب میں غیب و حضور کا فرق جانتا ہوں
تِری توجہ میں معرفت کے سبھی لطائف چُھپے ہوئے ہیں
کروڑ پتی
جب بھی دیکھوں میں ٹی وی
پوچھیں مجھ سے بچن جی
کون بنے گا کروڑ پتی
میں کہتا ہوں ان سے یہی
میں نہ بنوں گا کروڑ پتی
رقصاں ہوا سفینہ بھی پاگل ہوا کے ساتھ
ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ
اس دور بے حسی میں تری خاک پا سے ہم
الحاق مانگتے ہیں تری ہر رضا کے ساتھ
اشکوں کے پیرہن میں یوں لپٹی تھی ہر خوشی
ملتا رہا سکون نئی اک سزا کے ساتھ
تیرے آنے کی تھی پیش گوئی آج بھی
تیری یادوں کی مالا پروئی آج بھی
زمانے کی بھیڑ میں کہاں کھو گئے ہو
منتظر ہے تمہارا کوئی آج بھی
میری آنکھوں کے لال ڈورے تو دیکھو
کم بخت پھر نہیں سوئیں آج بھی
ہنس کے ٹال دیتے ہو
مٹی ہی ڈال دیتے ہو
روداد جو جنون کی ہے
ہوا میں اچھال دیتے ہو
میں جب سناوں حسرتیں
بات کو رخ کمال دیتے ہو
پردہ داروں کی محفل کے وسط میں عریاں سناٹا
میلوں میل عزاداروں کے بیچ میں رقصاں سناٹا
جب کانوں کو چیر رہے ہوں طعنوں تشنوں کے نشتر
ایسے لمحوں میں ہوتا ہے درد کا درماں سناٹا
راکھ ہوئیں وہ شامیں جن میں لمس کی تڑپن باقی تھی
اب تو بس اک مے کی حاجت، باقی ارماں سناٹا
خود مزے دار طبیعت ہے تو ساماں کیسا
زخم دل آپ ہیں شورش پہ نمکداں کیسا
ہاتھ وحشت میں نہ پونچھے تو گریباں کیسا
خار صحرا سے نہ الجھے تو وہ داماں کیسا
کوچۂ یار کو دعویٰ ہے کہ جنت میں ہوں
خلد کہتے ہیں کسے روضۂ رضواں کیسا
حیات اپنی وہ معتبر ہے
ترے تصور کا نور اب بھی
نگاہِ روشن کی راہ میں ہے
رگوں میں اب کے سکون اُترا
کہ دل جو تیری پناہ میں ہے
تیری اُلفت میں کٹ گئی جو
حیات اپنی وہ معتبر ہے
اس سے پیارا کنول نہیں کوئی
ماں کا نعم البدل نہیں کوئی
جو تیری قرب میں گزارے ہیں
دلکشیں اس سے پل نہیں کوئی
ماں ہی بس ہر خطا پہ کہتی ہے
ٹھیک ہے بیٹا چل، نہیں کوئی
عشق چاہت کا نام ہوتا ہے
حُسن کا احترام ہوتا ہے
محفلِ دل میں یار کا چرچا
صبح ہوتا ہے، شام ہوتا ہے
درد مندوں کا حال مت پوچھو
ان کو غم سے ہی کام ہوتا ہے
غم کی توقیر کو بڑھا دینا
رو نہ پاؤ تو مسکرا دینا
میں وجوہات پیدا کر دوں گا
جب بچھڑنا ہو تم بتا دینا
جانے والوں کے پاؤں پڑ جانا
آنے والوں کو راستہ دینا
نئے موسم کی عزاداری
آنکھ سے اشکوں کو اپنے غم میں بہنا چاہیے
ایک دن سب سے الگ ہو کر بھی رہنا چاہیے
ضبط سے آزاد کر کے زیر و بم آواز کا
سامنے سب کے جو دل میں آئے کہنا چاہیے
ریت کے ٹیلے چلیں لہر سمندر پر کبھی
سطحِ صحرا پر کبھی دریا کو بہنا چاہیے
زندگی میں کبھی نہ تھا سب کچھ
تم ملے تو مجھے ملا سب کچھ
چاہتا ہے جو عشق کی دولت
راہِ الفت میں تو لٹا سب کچھ
کل جہاں میں مرا ہے کیا ہمدم
اب تو سب کچھ ہوا ترا، سب کچھ
جن کا دل ہی مزار ہو جائے
ان پہ واجب ہے دار ہو جائے
اب تو ممکن ہے جو ملے ہم سے
وہ تہجد گزار ہو جائے
ان دنوں دوستی بڑھا رہا ہوں
جو بھی چاہے شمار ہو جائے
اے قریۂ غم وادئ دل گیر کے لوگو
مایوس نہ ہونا مرے کشمیر کے لوگو
مانا کہ بڑی دیر سے یہ جنگ و جدل ہے
کب کس کو میسر یہاں تسکین کا پل ہے
صدیوں کی غلامی میں کئی خواب ہیں ٹوٹے
ٹوٹے ہوئے خوابوں پہ یہ رونا کوئی حل ہے
کچھ لوگ جو نخوت سے مجھے گُھور رہے ہیں
ماحول سے شاید یہ بہت دور رہے ہیں
کیا کہیے کہ کیا ہو گیا اس شہر کا عالم
جس شہر میں اُلفت کے بھی دستور رہے ہیں
مجبور کسے کہتے ہیں یہ کون بتائے
پوچھے کوئی ان سے کہ جو مجبور رہے ہیں
میری قسمت میں بھی ایسا کوئی سجدہ کر دے
جو مِرے سارے گناہوں کا مداوا کر دے
ساری دنیا سے چُھڑا کر مجھے اپنا کر دے
میری مٹی کو خدایا مِرا سونا کردے
میں تیرا چاہنے والا ہوں مگر ہے حسرت
جن کو تُو چاہتا ہے مجھ کو بھی ویسا کر دے