مگر نہیں تھا فقط میر خوار میں بھی تھا
کہ اہل درد میں آشفتہ کار میں بھی تھا
صبا کی طرح اسے بھی نہ تھا ثبات کہیں
نہ جانے کیا تھا بہت بے قرار میں بھی تھا
پناہ لینی پڑی تھی مجھے بھی سائے میں
رہین منت دیوار یار میں بھی تھا
مگر نہیں تھا فقط میر خوار میں بھی تھا
کہ اہل درد میں آشفتہ کار میں بھی تھا
صبا کی طرح اسے بھی نہ تھا ثبات کہیں
نہ جانے کیا تھا بہت بے قرار میں بھی تھا
پناہ لینی پڑی تھی مجھے بھی سائے میں
رہین منت دیوار یار میں بھی تھا
ہوا کو چیر کے اس تک صدا اگر پہنچے
محال ہے کہ مدد کو نہ چارہ گر پہنچے
دیار عشق کو راہ سِناں پہ چلتے ہوئے
جہاں پہ جسم نہ پہنچے وہاں پہ سر پہنچے
ٹھکانا دُور تھا، اور سامنا ہوا کا بھی
پہنچ نہ پائے پرندے سو ان کے پر پہنچے
جیون کا یہ کھیل تماشا یوں ہی چلتا رہتا ہے
دن پھرتے ہیں لوگوں میں اور وقت بدلتا رہتا ہے
یاروں سے ہم وقت بلا میں آنکھیں پھیر تو لیتے ہیں
لیکن اک انجانا سا دُکھ دل میں پلتا رہتا ہے
نظریں خیرہ کر دیتی ہے ایک جھلک لیلاؤں کی
اور پھر انساں پورا جیون آنکھیں ملتا رہتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فضائے حُسنِ تخیّل پہ چھا رہے ہیں علیؑ
بمثلِ کعبہ مِرا دل سجا رہے ہیں علیؑ
کہا ہے کعبے کی دیوار نے یہ ہنستے ہوئے
خدا کے گھر میں سُنا ہے کہ آ رہے ہیں علیؑ
لحد کے گوشۂ تنہائی کے اندھیرے میں
چراغِ نُورِ ولایت جلا رہے ہیں علیؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سمجھاتے ہیں منبر پہ نبیؐ مولا، عبادت
النظر اِلیٰ وجہِ علیؑ مولا، عبادت
جنت کے ہیں سردار جو نبیوں کے ہیں سردار
کرتے ہیں تہِ تیغ وہی مولا عبادت
مل جائے مِرا زخم کسی زخمِ جگر سے
گِن لیں مِری زنجیر زنی مولا عبادت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بھری ہو جس میں شفاعت نوازئیے ہم کو
اک ایسا کاسۂ رحمت نوازئیے ہم کو
خدا نے شہرِ مدینہ میں نوکری دے دی
دعائیں کی تھیں کہ شاہت نوازئیے ہم کو
ہر ایک سمت مدینہ دکھائی دیتا رہے
نظر کی ایسی سعادت نوازئیے ہم کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جنت البقیع ہو میرا ٹھکانہ کاش
ہو جاؤں ایک روز مدینے روانہ کاش
ہوتا رسولِ پاکﷺ کے شانہ بشانہ کاش
ہوتا مِرا زمانہ بھی اُن کا زمانہ کاش
ہو کر رہوں میں صرف خدا اور رسول کا
ہو میرا پھر کسی سے کوئی واسطہ نہ کاش
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اہلِ ایماں کو گلِ تر نظر آتے ہیں حسینؑ
اور کبھی ان سے بھی بڑھ کر نظر آتے ہیں حسینؑ
یوں تو ہم شکلِ پیمبرﷺ نظر آتے ہیں مگر
حالتِ جنگ میں حیدرؑ نظر آتے ہیں حسینؑ
جس طرح چاند بدل لیتا ہے شکلیں اپنی
کبھی اصغرؑ کبھی اکبرؑ نظر آتے ہیں حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فصیلِ کعبہ ہوئی شق، کہاں علیؑ آئے
خدا بھی خوش ہے کہ اس کے یہاں علیؑ آئے
بتا گئے تھے سبھی کو وہ رات ہجرت کی
جہاں سے جائیں محمدﷺ وہاں علیؑ آئے
بدر کا معرکہ درپیش ہو کہ خیبر ہو
پکارا جائے مدد کو جہاں، علیؑ آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
علیؑ کے چاہنے والوں کے دل کالے نہیں ہوتے
جہاں نورِ ولایت ہو وہاں تالے نہیں ہوتے
علیؑ زادوں نے بتلایا تحفظ کر کے عثماںؓ کا
جو رکھیں بُغض عثماںؓ سے علیؑ والے نہیں ہوتے
سرِ غار آپؐ کے دشمن ہوئے خود سے مخاطب یوں
اگر ہوتے یہیں دونوں تو یہ جالے نہیں ہوتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دیکھے ترا جلوہ تو تڑپ جائے نظر بھی
روشن ہیں تیرے نور سے سورج بھی قمر بھی
دی طائروں نے تیری رسالتﷺ کی گواہی
بول اُٹھے تیرے حکم سے پتھر بھی شجر بھی
جس وقت چلے تم ہوئے خوشبو سے معطر
کوچے بھی مکانات بھی دیوار بھی در بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرور عالی مقام جان دو عالم ہو تم
نیک سیر نیک نام ہادیٔ اعظم ہو تم
کون ہے ایسا بشر جو نہیں ممنونِ در
لطف کن خاص و عام رحمتِ عالم ہو تم
مظہر رب و دود کیوں نہ پڑھیں سب درود
کیوں نہ پڑھیں سب سلام سب کے مکرم ہو تم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چمکی ہے اسمِ نور سے لوحِ جبينِ دل
رشکِ صد آفتاب ہے شہرِ حسینِ دل
یادِ رسولِ پاکﷺ کا اللہ رے ارتباط
دل اس کا ہم نشیں ہے، وہ ہے ہم نشینِ دل
پھل پھول اس میں اُنؐ کی محبت کے ہیں فقط
شاداب جن کے دم سے ہوئی سر زمینِ دل
محبتوں میں حساب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
ہر ایک لمحہ عذاب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
یہ طے ہوا تھا وفا کی شمع جلا کرے گی
اندھیرا ہم پہ عتاب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
خزاں نہ آئے گی زندگی میں کبھی ہماری
اداس بیلا گلاب ہو گا، یہ طے کہاں تھا
ایک جیسے نیم جاں ماحول و منظر دُور تک
بے نوا بے نام لوگوں کے سمندر دور تک
بس وہی لفظوں کی بارش ایک سی ہر ابر سے
ایک سے پیاسی زمینوں کے مقدر دور تک
خاک ہوتے آتش احساس محرومی سے دل
برف مایوسی میں جکڑے ذہن اکثر دور تک
نہ کوئی اپنا غم ہے اور نہ اب کوئی خوشی اپنی
تمہیں کہہ دو کہ ہم کیسے گزاریں زندگی اپنی
❤فریب ہم سفر ہے اور راہ غم کا سناٹا❤
مناسب ہے کہ خود ہو اے جنوں اب رہبری اپنی
اجالا محفلوں میں کر کے بھی آنسو ہی ہاتھ آئے
نہ راس آئی کبھی خود شمع کو بھی روشنی اپنی
تیری بے رُخی مِری موت تھی ہُوا التفات کبھی کبھی
تِرے التفات کی خیر ہو کہ مِلی حیات کبھی کبھی
رہ آرزو میں کہیں کہیں مجھے روک دیتے ہیں حادثے
غمِ عشق ہے مِرا مستقل غمِ کائنات کبھی کبھی
مِری جُنبش لب غمزدہ جو تِرے مزاج پہ بار ہے
مِرے آنسوؤں کی زباں سے سن غم دل کی بات کبھی کبھی
دلِ ناصبور کو پھر وہی بُتِ بیوفا کی تلاش ہے
غم ابتداء تو اُٹھا چکا،۔ غمِ انتہا کی تلاش ہے
کسی بے وفا کا گِلہ بھی ہے کسی با وفا کی تلاش ہے
یہ فریبِ شوق کہ دل کو پھر کسی آشنا کی تلاش ہے
تِرا غم ہی غم رہے عمر بھر تِرے غم میں خود کو فنا کروں
مجھے ابتدائے شعور سے اسی انتہا کی تلاش ہے
یہاں تلک تو جبیں رُسوا کو سجدے اک در کے کام آئے
کیا جو رُخ میں نے سُوئے کعبہ تو بُت گروں سے سلام آئے
ہنسا نگاہوں میں باغ جنّت پہ دم میں نکلا سراب ہستی
طلب کے رستہ میں طالبوں کو بہت سے ایسے مقام آئے
ہو جس کو آنا، وہ آپ آئے، ہو جس کو جانا وہ آپ جائے
اب اپنی آنکھوں میں سب برابر وہ صبح ہو یا کہ شام آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو ان کا فضل و کرم ہو تو نعت اترتی ہے
نگاہ میں گوہرِ شرم ہو تو نعت اترتی ہے
جو پاک ہو دلِ نادم تو فضل ہوتا ہے
جو دل وابسطہ حرم ہو تو نعت اترتی ہے
با وضو ہو قبلہ رخ ہو تو اذان ہوتی ہے
پوری یہ رسمِ بھرم ہو تو نعت اترتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر مسافر سے میں خاکِ رہِ طیبہ مانگوں
خشک صحرا ہوں مگر عشرتِ دریا مانگوں
لفظ مِلتے ہی نہیں عرض تمنا کے لیے
مِل گیا تُو جو مجھے اب میں دعا کیا مانگوں
لوٹ آیا ہوں مدینے سے مگر میں ہر دم
وہی روضہ وہی منظر وہی جلوہ مانگوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے بہشت سے مطلب نہ خلد سے ہے غرض
مِرا جگر تو مدینے کے ہجر میں ہے فگار
کہاں کا باغ، کہاں کا چمن، کہاں کی سیر
مِری نظر میں تو ہر دم مدینہ کی ہے بہار
وہاں کے خار ہیں حوروں کی گردنوں کے ہار
ہیں آٹھوں باغوں میں فردوس کے وہیں کی بَہار
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دلِ بے تاب تُو ہے کس لیے نم دیدہ نم دیدہ
وہ پردہ پوش ہیں ان کا کرم پوشیدہ پوشیدہ
یہ ممکن ہے نقابِ حسن کے پردے سرک جائیں
نگاہیں عشق کا ہے دیکھنا دزدیدہ دزدیدہ
تو وہ ہے شمعِ توحید جس کے حسن کے اوپر
جسے دیکھا وہ ہے پروانۂ نادیدہ نادیدہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اور کیا مانگوں مجھےعشقِ نبیﷺ کافی ہے
دین و دنیا کے سنورنے کو یہی کافی ہے
میں نے مانا کہ ہے جنت بھی بڑی شے یارب
میں کہاں جاؤں مجھے اُنؐ کی گلی کافی ہے
کبھی والشمس پڑھوں اور کبھی وَاللیل پڑھوں
صبح کافی ہے یہی،۔ شام یہی کافی ہے
مت پوچھ مسیحا کہ میں کیا ڈھونڈ رہی ہوں
اک درد مسلسل کی دوا ڈھونڈ رہی ہوں
بے ساختہ جو کھول دے اس دل کے دریچے
مانوس سی وہ ایک سدا ڈھونڈ رہی ہوں
سوئے ہوئے دل کے جو احساس جگا دے
اقبال کا وہ بانگ درا ڈھونڈ رہی ہوں
دریا ہیں پھر بھی مِلتے نہیں مجھ سے یار لوگ
جُرأت کہاں کہ صحرا سے ہوں ہم کنار لوگ
جادو فضا کا تھا کہ ہوا میں مِلا تھا زہر
پتھر ہوئے جہاں تھے وہیں بے شمار لوگ
اب سایہ و ثمر کی توقع کہاں رُکے
سُوکھے ہوئے شجر ہیں سرِ رہگزار لوگ
ہیں وقت کے محکوم تو بہکیں گے قدم اور
بدلے ہوئے حالات میں کھو جائیں گے ہم اور
افسانۂ اندوہ میں یکساں ہے ہر اک شخص
اس دور پُر آشوب میں تم اور نہ ہم اور
لے جاتے ہیں بتخانے سے دل اپنا جلا کر
رکھ لیں گے نئی شمع سر طاق حرم اور
کسی کی یاد کو اپنا شعار کر لیں گے
فضائے دہر کو ہم سازگار کر لیں گے
ہم اپنے غم کو خوشی میں شمار کر لیں گے
خزاں کے دور میں جشن بہار کر لیں گے
رسائی ہو گی جو اس بزم میں کبھی اپنی
نصیب والوں میں اپنا شمار کر لیں گے
مرثیۂ شامِ غریباں معہ احوالِ کربلا
نت نئی شامِ الم، شامِ غریباں لائی
ہر طرف خیمۂ اقدس میں اداسی چھائی
غم پہ غم اور مصیبت پہ مصیبت آئی
دم بخود تھی شہِ بیکس کی بہن ماں جائی
دھنس پڑے خانۂ اطہر میں ستمگر ہے ہے
لوٹ کر لے گئے سب مقع و چادر ہے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جھلسا رہی تھی جب ہمیں اپنی خطا کی دھوپ
ایسے میں ابر بن گئی صلے علٰی کی دھوپ
لے جاتی کفر تک ہمیں یہ مفلسی کی دھند
ہوتی نہ گر حضورؐ کے جود و سخا کی دھوپ
🌻فہمِ بشر کو سائباں،۔ اُمّی کا انکسار🌻
ورنہ اسے جلاتی تھی کبر و انا کی دھوپ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خانۂ دل کو درودوں سے سجایا ہوا ہے
آپؐ کے ذکر نے ہر غم سے بچایا ہوا ہے
اشک پلکوں پہ لکھے جاتے ہیں کیفیت دل
نیند نے روح میں اک خواب جگایا ہوا ہے
نغمۂ عشقِ نبیﷺ گونج رہا ہے ہر سُو
سینۂ دہر میں قرآن سمایا ہوا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فضائے فکر پر چھایا ہوا غبار اتار
ریاضِ جاں میں مرے رب نئی بہار اتار
اُجال كعبۂ دل کے غلافِ کہنہ کو
دیار سرورِ عالمﷺ میں ایک بار اتار
نجات بخش مجھے غیر کے تعلق سے
بہت ضعیف ہوں سر سے مِرے یہ بار اتار
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لمحہ لمحہ ذات میری معتبر ہوتی گئی
مجھ پہ چشمِ رحمتِ خیرالبشرؐ ہوتی گئی
جس کو جس کو لمسِ پائے مصطفیٰﷺ ملتا گیا
عطر کا چشمہ وہ ہر اک رہگزر ہوتی گئی
تم تو علمِ غیب سے لا علم کہتے تھے انہیں
ان کو اک اک بات کی لیکن خبر ہوتی گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سنور جائے گی سب کی عاقبت، سب کا بھلا ہو گا
قیامت میں محمدﷺ مصطفیٰﷺ کا آسرا ہو گا
عدالت سے نبیﷺ کی جس کو پروانہ عطا ہو گا
وہی بس مستحقِ رحمتِ رب العُلیٰﷻ ہو گا
پکاریں گے شفِیع المذنبِیںﷺ کو سب قیامت میں
وہاں پر سب کا نعرہ یا محمدﷺ مصطفیٰﷺ ہو گا
شعور صحرا میں مِرے آنے کی کچھ دُھوم سی ہے
عمل قیس کے اوٹھ جانے کی کچھ دھوم سی ہے
کشور عشق میں شاہی کا مِری ڈنکا ہے
نوبت وصل کے بھجوانے کی کچھ دھوم سی ہے
اب کے میں شور جنوں سے نہیں بچتا یارو
خلق میں میرے جگر کھانے کی کچھ دھوم سی ہے
جب جھوٹ راویوں کے قلم بولنے لگے
ہر خود سری کو جاہ و حشم بولنے لگے
اک اذن لب کشائی نے بے باک کر دیا
دیکھو کس اعتماد سے ہم بولنے لگے
کوئی کسی سے پوچھ رہا تھا ترا سراغ
اٹھ اٹھ کے میرے نقش قدم بولنے لگے
فضول کاموں میں کس سلیقے سے زندگانی نکالتے تھے
کہ اس کے اک ایک لفظ کے ہم ہزار معنی نکالتے تھے
ندیم، حیرت یے ایڑیوں کو رگڑ کے انساں نہ تم سے پگھلا
اور ان کو دیکھو جو ایڑیوں کو رگڑ کے پانی نکالتے تھے
جب اس کی راتوں میں نیند اڑتی تو وہ اداسی میں کال کرتی
پھر اپنی جھولی کھنگال کر ہم نئی کہانی نکالتے تھے
مظلومیت تو دیکھیے قبریں نہیں ملیں
پانی کے دل میں اُتری جو لاشیں، نہیں ملیں
دیکھیں جو بے گھروں کی مصیبت کو چُپ رہیں
ایسی کسی شریف کی آنکھیں نہیں ملیں
بھائی کسی کے بہہ گئے دریائے ظلم میں
یا رب کہیں سے خیر کی خبریں نہیں ملیں
پیراہن چاک و آوارۂ جنگل ہوتے
ہم جو رو پاتے نہیں کُھل کے تو پاگل ہوتے
تیرے ہاتھوں کو جو تھاما تو نئی روح ملی
ورنہ یہ طے تھا کہ خود ہاتھ مرے شَل ہوتے
آنکھیں ماتھے پہ وہ رکھتے ہیں ہمیں دیکھیں تو
کل جو آنکھوں پہ بٹھانے کو تھے بے کل ہوتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس دم دبایا مجھ کو گناہوں کے بار نے
میں شافعِﷺ گُنہ کو لگا پھر پکارنے
حضرتﷺ نے آ کے مجھ کو سبکدوش کر دیا
رحمت بڑی کی شافعِﷺ روزِ شمار نے
دیکھا بنا کے جب کہ محمدﷺ کا حسن و نور
محبوبﷺ اپنا کر لیا پروردگار نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشق میں لازم ہے اوّل ذات کوں فانی کرے
ہو فنا فی اللہ دائم یادِ یزدانی کرے
مرتبہ خلعت پناہی کا وہ پاوے گا جو کُئی
مثلِ اسماعیلؑ اوّل جی کوں قربانی کرے
زندگی پاوے ابد کی جگ میں وہ خضرِ وقت
جو آپس کوں فدوئ محبوبِﷺ سلطانی کرے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قلم سے لوح سے بھی قبل دن سے رات سے پہلے
نبیﷺ کا نور تھا موجود، موجودات سے پہلے
تلاوت دیدۂ آدم نے کی اسمِ محمدﷺ کی
ستونِ عرش پر کندہ تھا التحیات سے پہلے
وہی تھے صرف جو تلوار لے کر غار سے نکلے
پیمبرؐ، یوں نہ صف آرأ ہوئے، غزوات سے پہلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حج کا موسم میرے سینے میں ہے گھر بیٹھے ہوئے
دل مرا مکّے، مدینے میں ہے گھر بیٹھے ہوئے
ہوں منٰی میں،۔ کبھی عرفات میں،۔ مزدلفہ میں
لطف فردوس کا، جینے میں ہے گھر بیٹھے ہوئے
زائرو! میں بھی ہوں ہمراہ تمہارے، اس بار
عمر ذالحج کے مہینے میں ہے گھر بیٹھے ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سارے حرفوں میں اک حرف پیارا بہت اور یکتا بہت
سارے ناموں میں اک نام سوہنا بہت اور ہمارا بہت
اُس کی شاخوں پہ آ کر زمانوں کے موسم بسیرا کریں
اک شجر، جس کے دامن کا سایہ بہت اور گھنیرا بہت
ایک آہٹ کی تحویل میں ہیں زمیں آسماں کی حدیں
ایک آواز دیتی ہے پہرا بہت اور گھنیرا بہت
کر کے دُشوار یوں ہر ایک قدم کاہے کو
ہم لیے پھرتے رہے بارِ حشم کاہے کو
اشک سب اپنی روانی میں بہا لے جاتے
خواب ہم دیکھتے با دِیدۂ نم کاہے کو
غم کی تاثیر میں تخفیف کیا کرتے ہیں
کر کے نادان تماشائے الم کاہے کو
ملا ہے اذن در پردہ تماشا جاری رکھنا ہے
سو اب کے ہم کو دانستہ تماشا جاری رکھنا ہے
یہ دل تھک ہار بیٹھا ہے مگر آنکھوں کی ضد ہے یہ
کہ جب تک خواب ہیں زندہ تماشا جاری رکھنا ہے
ہمارے شہر کی ہر شام ہے شام غریباں سی
عزا دارو کرو وعدہ تماشا جاری رکھنا ہے
پھر ہجوم ہوس اور عالم تنہائی ہے
پھر وہی سلسلۂ انجمن آرائی ہے
رحم کر اے ہوس لذت آزار نہ چھیڑ
دل بیمار نے مر مر کے شفا پائی ہے
داد لیں کس سے تری دید کی اے حسن نگار
خود تماشا ترے جلوہ کا تماشائی ہے
آدمی کو درد کا سارا علاقہ لکھ دیا
ہاتھ میں اس کے قلم تھا جو بھی چاہا لکھ دیا
نصرتیں چاہو تو اپنے آپ سے ہجرت کرو
کاتبِ قسمت نے مکے کو مدینہ لکھ دیا
بتکدوں کو شوخیاں دیں مسجدوں کو حوصلے
اور پیشانی پے میری اپنا سجدہ لکھ دیا
ہمیں سے جستجوئے دوست کی ٹھانی نہیں جاتی
تن آسانی بری شے ہے، تن آسانی نہیں جاتی
ہمیشہ دامن اشکِ خوں سے لالہ زار رہتا ہے
یہ فطرت کے تبسم کی گل افشانی نہیں جاتی
نظامِ دہر اگر میرے لیے بدلا تو کیا بدلا
کسی گھر سے بھی شامِ غم بآسانی نہیں جاتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سُوئے کربلا
وادئ عشق میں سرخ پرچم لیے
پا برہنہ ہیں عشاق کے قافلے
چار جانب ہے شوق ملاقات کا
ایک محشر بپا
چومتی ہے جبینوں کو خاک شفا
وادئ عشق سے آ رہی ہے صدا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں ہندوستان میں ہوں اور مدینہ پاس رہتا ہے
انگوٹھی دور رہتی ہے، نگینہ پاس رہتا ہے
لگا رکھی ہے لو سرکارؐ کے دربار سے میں نے
اسی دربار سے جنت کا زینہ پاس رہتا ہے
کہیں اب کے برس بھی رہ نہ جاؤں زیارت سے
بہت روتا ہوں جب حج کا مہینہ پاس رہتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اقراء باسمہہ رب کے نام
قرآں کا اُترا ہے پیغام
تُو ہے مولا، علیم و خبیر
داتا، آقا، سمیع و بصیر
ہم پہ کرم کر ربِّ کریم
حمد ہے تیری پیارے حکیم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰؑ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِؑ مظلوم! کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیلؑ
فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
غم دل کہ دل کو دُکھانا پڑے گا
ہمیں آج پھر مُسکرانا پڑے گا
وہ پھر مل گیا ہے ہمیں اتفاقاً
کہ پھر ہاتھ رسماً ملانا پڑے گا
نہیں دیکھا جاتا ہے غم بجلیوں کا
ہمیں خُود نشمین جلانا پڑے گا
سنائیں غم کی کسے کہانی ہمیں تو اپنے ستا رہے ہیں
ہمیشہ صبح ومسا وہ دل پر ستم کے خنجر چلا رہے ہیں
نہ کوئی انگلش نہ کوئی جرمن نہ کوئی رشین نہ کوئی ٹرکی
مٹانے والے ہیں اپنے ہندی جو آج ہم کو مٹا رہے ہیں
چلو چلو یاروں رنگ تھیٹر دکھائیں تم کو وہاں پر لبرل
جو چند ٹکڑوں پہ سیم و زر کے نیا تماشہ دکھا رہے ہیں
یہ اعتماد مجھے شہسوار کرتا ہے
وہ مجھ کو اپنی سپاہ میں شمار کرتا ہے
وہیں سے راہِ تعلق کُشادہ ہوتی ہے
جہاں وہ راہِ مفر اختیار کرتا ہے
تمام آنکھوں میں روشن ہے اک چراغِ دعا
یہاں ہر ایک ترا انتظار کرتا ہے
خود اپنے کھوج میں جانے کدھر نکلتے رہے
کوئی نہیں تھا سو سائے کے ساتھ چلتے رہے
زبان سے تو محبت کے پھول جھڑتے تھے
پر آستینوں میں نفرت کے سانپ پلتے رہے
ملا نہ کچھ تو بالآخر بہ امر مجبوری
سلف کا جرم زمیں زادگی نگلتے رہے
ہم اہل حرم ہیں اب ہم سے یہ کفر گوارہ کیسے ہو
ہم لوگ انالحق بولیں گے ہم لوگ انالحق بولیں گے
جب دنیا کے بت خانوں میں اصنام کی پوجا جاری ہو
جب انسان کی عظمت پر اک پتھر کا دم بھاری ہو
جب من کی جمنا میلی ہو اور روح میں اک بیزاری ہو
جب جھوٹ کے ان بھگوانوں سے ایمان پہ لرزہ طاری ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ان کا دیدار مجھے وقت نزع ہو جائے
زندگی تیرا ہر اک فرض ادا ہو جائے
قبلہ رخ ہو کے مجھے یاد مدینہ آئے
سجدۂ عشق میرا کیسے قضا ہو جائے
جالیوں سے بھی میرا آگے مقدّر لکھنا
چادر عشق پکڑ لوں تو مزہ ہو جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ محوِ بقا، نورِ سما، گہرِ صدف ہے
وہ ابنِ علیؑ، آلِ محمدﷺ کا شرف ہے
دیکھو تو رہِ عشق میں منزل کا تعین
دربارِ نبیؐ، کرب و بلا، تختِ نجف ہے
ہر لفظِ ملامت ہے رواں سوئے منافق
تہذیب مگر آج بھی خیموں کی طرف ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حقیقت آشنائی مصطفیٰؐ کے گھر سے ملتی ہے
علیؑ و فاطمؑہ،۔ شبیرؑ و شبرؑ سے ملتی ہے
نہیں اندیشہ اس کشتی کو جس کے ناخدا یہ ہیں
بڑے آرام سے ساحل پہ وہ لنگر سے ملتی ہے
علیؑ ہیں ساتھ حق کے اور علیؑ کے ساتھ حق یارو
خبر اس کی ہمیں فرمانِ پیغمبرﷺ سے ملتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جہانِ جبر کی حالت سمجھ میں آنے لگی
سو کربلا کی ضرورت سمجھ میں آنے لگی
یزید! تُو بھی نئے شمر پرورش کر لے
ادھر ہمیں بھی شہادت سمجھ میں آنے لگی
اِدھر حسینؑ نے سجدہ میں سر جُھکایا، اُدھر
مباہلہ کی حقیقت سمجھ میں آنے لگی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے جن کی خاکِ پا رُخِ مہ پر لگی ہوئی
اُن کی لگن ہے دل کو برابر لگی ہوئی
شاہِؐ اُممﷺ لُٹائے چلے جا رہے ہیں جام
پیاسوں کی بھیڑ ہے سرِ کوثر لگی ہوئی
زہراؑ، حسینؑ اور حسنؑ کا غلام ہوں
مہرِ علیؒ کی مُہر ہے مجھ پر لگی ہوئی
دل میں یوں تیری یاد آئی ہے
جیسے دنیا یہیں سمائی ہے
عشق ہے تابِ دید سے محروم
حسن تو محوِ خود نمائی ہے
تجھ کو میں زندگی سمجھتا ہوں
اس لیے خوفِ بے وفائی ہے
سب مطمئن تھے صبح کا اخبار دیکھ کر
خائف تھے ہم نوشتۂ دیوار دیکھ کر
منصف گواہ حد ہے کہ مظلوم بک گئے
قیمت لگی جو ظرف خریدار دیکھ کر
میں بوریا نشین غریب الدیار فقیر
حیراں تھا شان و شوکت دربار دیکھ کر
پتھروں کے راستے پر کہکشاں ہے زندگی
کچھ دِنوں سے میرے اوپر مہرباں ہے زندگی
اِس سے قربت کی تمنا نے ہمیں جھلسا دیا
آتشِ نمرود سے اٹھتا دھواں ہے زندگی
اِس تنفس کے سفر میں راہزن ملتے نہیں
رہبروں سے لٹنے والا کارواں ہے زندگی
کسی کم ظرف کا احسان مِرا مسئلہ ہے
اب چڑھائی نہیں ڈھلوان مرا مسئلہ ہے
خود کو ترتیب سے رکھتے ہوئے رک جاتا ہوں
مجھ میں ٹھہرا ہوا طوفان مرا مسئلہ ہے
میں کہ برباد بھی آباد نظر آتا ہوں
نظر آتا ہوں کہ پہچان مرا مسئلہ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
غبارِ جاں ہے فدائے محمدﷺ عربی
اُڑی ہے لے کے ہوائے محمدﷺ عربی
وسیلہ کیا ہے سوائے محمدﷺ عربی
خدا بھی ہے تو خدائے محمدﷺ عربی
چمن حیات کا برسوں سے تھا خزاں دیدہ
بہار آئی جو آئے محمدﷺ عربی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمام ارض و سما، مہر و مہ کا محور ہے
کہ تُو ہی خالقِ کل تُو ہی ربِ اکبر ہے
تِری بلندی سے ساری بلندیاں ہیں نگوں
کہ ختم تجھ پہ ہی سب مِدحتوں کا دفتر ہے
یہ رنگ و نور، بہار و خزاں، یہ لالہ و گل
یہاں وجود میں جو شے ہے تیری مظہر ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ویرانے سے چلتا ہوا گلزار میں آوے
یوں ابنِ قحافہ تِری سرکار میں آوے
الہام ہو یوں مدحِ ابو بکرؓ خرد پر
تائیدِ علیؑ جیسے کہ اشعار میں آوے
جب دونوں کے ہونے کو مقید کرے خالق
ممکن ہی نہیں تیسرا پھر غار میں آوے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو راہ حق کی زمانے بھر کو دکھا رہا ہے وہ مصطفیٰؐ ہے
خدا کے گھر کو جو آ کے کعبہ بنا رہا ہے وہ مصطفیٰؐ ہے
بنائے شمس و قمر بچھائی زمین، عرشِ علیٰ بنایا
تو جس کی خاطر خدا یہ دنیا سجا رہا ہے وہ مصطفیٰؐ ہے
ہو مال و دولت یا خوں پسینا خدیجہؑ بى بى کا ہے خزینہ
خدا کے دیں پہ جو اپنا سب کچھ لٹا رہا ہے وہ مصطفیٰؐ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہو شوق کیوں نہ نعت رسولؐ دو سرا کا
مضمون ہو عیاں دل میں جو لولاک لما کا
تھی بعثت رسولﷺ خداوند کو منظور
تھا پھل وہ بشارت کا نتیجہ تھا دعا کا
پہنچا یا ہے کس اوج سعادت پہ جہاں کو
پھر رتبہ ہوکم عرش سے کیوں غار حرا کا
نبیﷺ کے شہر میں زینہ بہ زینہ آ گیا ہوں
مِری تصویر کھینچو، میں مدینہ آ گیا ہوں
مجھے تشہیر سے اب کوئی بدہضمی نہ ہو گی
میں اپنے ساتھ لے کر کارمینا آ گیا ہوں
برائے آخرت کتنی کمائی کر رہا ہوں
عبادت بھی میں سوشل میڈیائی کر رہا ہوں
بہت شور تھا
ایک پہیہ گھومنا شروع ہوا
سب خاموش ہو گئے
پہیے کو رکنے کو کہا
پر وہ گھومتا جا رہا تھا
لوگ، اس کے عادی ہو گئے
مِٹ نہ جائیں سراب دوری کے
نقش دیکھا کریں گے پانی کے
ہم سروں پر اُٹھائے پھرتے ہیں
سب در و بام اُس حویلی کے
آخری موڑ تھا شکیبائی
ترجماں سو گئے کہانی کے
ہم جو انساں کے غم اٹھاتے ہیں
خوب کو خوب تر بناتے ہیں
زندگی خواب ہی سہی، لیکن
خواب تعبیر چھوڑ جاتے ہیں
بے حقیقت مسرتوں کے لیے
زندگی بھر فریب کھاتے ہیں
گھماؤ ایسا کہ شدت نے گھیر لینا ہے
کسے خبر تھی محبت نے گھیر لینا ہے
پتا تو ہے نا مجھے چھوڑنے کی سوچتے شخص
تِرے بنا مجھے وحشت نے گھیر لینا ہے
تِری گلی سے جو گزرا تو یہ کھلا مجھ پر
زمانے بعد بھی عادت نے گھیر لینا ہے
کبھی نظر سے کبھی سلسلے سے نکلے ہیں
تمام زاویے ہر فلسفے سے نکلے ہیں
قدم قدم پہ نئے راز سامنے آئے
تِرے فراق میں جس راستے سے نکلے ہیں
مِرے خلاف جو سازش رچانے والے تھے
وہ سارے لوگ مرے قافلے سے نکلے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لا تقنطو من رحمت اللہ
(مسجد جمکران کے اس محرابِ مقدس پر کہی گئی نظم، جو امامِ زمانہ سے منسوب ہے)
سنا ہے رات کے پچھلے پہر اکثر
اسی گلفام محرابِ منقش میں
زمانے کا مسیحا
وقت کی جلتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر
اسمِ اعظم ورد کرتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یونہی زبان کو مِدحت عطا نہیں ہوتی
وضو نہ آنکھ کا ہو تو ثنا نہیں ہوتی
ثنائے سرورِ عالمﷺ سے دل معطر ہے
کہ میرے قلب سے خوشبو جدا نہیں ہوتی
نمیدہ آنکھ سے مانگو جو شاہِ بطحہؐ سے
بتاؤ کون سی مُشکِل کُشا نہیں ہوتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بخش دیتا ہے وہ خطاؤں کو
ہاتھ اُٹھتے ہیں جب دُعاؤں کو
دل سے گِرتا ہوں جب میں سجدوں میں
دُور کرتا ہے سب بلاؤں کو
میں پرندہ ہوں تھک بھی جاتا ہوں
پر لگاتا ہے وہ فضاؤں کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حامی و حاجت روا کوئی نہیں
جُز تِرے مُشکل کُشا کوئی نہیں
ہر صفت میں اپنی یکتا کون ہے
تیرے جیسا دوسرا کوئی نہیں
دل کی کیفیّت بتاؤں کیا تجھے
تجھ سے بہتر جانتا کوئی نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اتنا خوشرنگ کہ خوابوں کا نگر لگتا ہے
گنبدِ سبز سے یہ شہر گُہر لگتا ہے
پاؤں آقاؐ نے اِنہی گلیوں میں رکھے ہوں گے
پاؤں رکھتے ہُوئے ایمان سے ڈر لگتا ہے
پلکیں جھاڑُو کے تصور سے دمک اُٹھتی ہیں
راستہ آپﷺ کی گر راہ گُزر لگتا ہے
وہ اب خلل بھی بہت اس جہاں میں ڈالے گا
زمیں کی وحشتیں اب آسماں میں ڈالے گا
سراغِ منزلِ جاناں مٹائے گا یوں ہی
وہ انتشار بہت کارواں میں ڈالے گا
نصیب ہونے نہ دے گا سکوں کی نیند کبھی
وہ تیز دھوپ بھی اب سائباں میں ڈالے گا
زخم میرے دل پہ اک ایسا لگا
اپنی جاں کا روح کو دھڑکا لگا
اس کا چہرہ بھی جو اوروں سا لگا
آسماں پہ چاند مٹی کا لگا
دیکھتا کیا کیا کنار آبجو
خود میں اپنے آپ کو الٹا لگا
رعایا اپنی سے جو فورسز لڑاتا ہے
وہ جان لے کہ ایسے ملک ٹوٹ جاتا ہے
تمہارا فیصلہ یہ ہے کہ حق نہیں دینا؟
یہ تم سے کون ایسے فیصلے کراتا ہے
آباء و جد کو گہرے پانیوں میں ڈبوا کر
یہ میرپور ہی تیرے قمقمے جلاتا ہے
دیکھ پگلی! جو فرشتوں کی طرح لگتے ہیں
وقت آنے پہ درندوں کی طرح لگتے ہیں
جانے کس غم میں گرفتار ہیں بستی کے مکیں
نوجواں لوگ بھی بوڑھوں کی طرح لگتے ہیں
کچھ فقیروں میں بھی ہیں شاہی عناصر موجود
اور کچھ شاہ فقیروں کی طرح لگتے ہیں
صد رنگ ترے جبر کی لذت ہی الگ ہے
گزری ہے جو دل پر وہ قیامت ہی الگ ہے
لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر
ٹوٹے ہوئے پتوں کی حکایت ہی الگ ہے
پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوئی کہتا ہے دھرم خلق میں کھویا اس نے
کوئی کہتا ہے کہ نام اپنا ڈبویا اس نے
کوئی جل بھُن کے حسد سے یہی کرتا ہے سخن
رام ایسا ہو کٹے اس کی زباں اس کا دہن
کم سنی میں تو یہ ہرگز بھی نہ تھا اس کا چلن
جب جواں ہونے کو آئی تو سیکھا ہے یہ فن
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہزار منبر و محراب ہم کریں روشن
بغیر مدح علی کیا ہوں محفلیں روشن
ولا وہ در ہے جہاں ایسے طاق ہیں روشن
ابد تلک جو دیے سے دیا کریں روشن
اگر نہ جلتے سرو۔ں کے چراغ راہوں میں
نہ منزلیں کبھی ہوتیں نہ سرحدیں روشن
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نغمہ ملک جو گائیں وہ تسبیحِ فاطمہؑ
حیدرؑ جو گُنگنائیں وہ تسبیح فاطمہؑ
جو خود نبیﷺ سُنائیں وہ تسبیح فاطمؑہ
جبریلؑ لے کے آئیں وہ تسبیح فاطمہؑ
یہ وہ ہیں جن سے عورتیں دُنیا کی باشرف
خُود عصمت بتولؑ ہے کانِ دُرِ نجف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نظروں سے آپ کیوں ہیں نہاں
آ بھی جائیے آ جائيے امام زمانؑ
دین خدا ہے دشمن دیں کے حصار میں
دلوائے جلد فتح ہمیں کارزار میں
دم گھٹ رہا ہے ایٹمی گرد و غبار میں
ہر لمحہ کٹ رہا ہے فقط انتظار میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پڑا ہوں در پہ تیرے مثلِ کاہ یا زہراؑ
ملے فقیر کو خیراتِ جاہ یا زہراؑ
ہے مرتضیٰؑ تیرے شوہر، تو مصطفیٰؐ بابا
زہے یہ اوج و شرف، عز و جاہ یا زہراؑ
ملے جو اس کی اجازت مجھے شریعت سے
تو تیرا در ہو میری سجدہ گاہ یا زہراؑ
اندیشہ
پُروا تو ہرجائی ہے
پچِھم سے ہو کر آئی ہے
پچِھم میں میرا محبوب بھی ہے
تُو کیا سِکھلا کر آئی ہے؟
زبیدہ صابر
شفٹنگ/Shifting
شفٹنگ کے دوران نہ جانے
کیا کیا چیزیں ٹوٹ گئی تھیں
کچھ آئینے کچھ برتن اور کچھ گملے بھی ٹوٹے تھے
لیکن ٹھیک سے یاد نہیں ہے
شفٹنگ کے دوران نہ جانے
کیا کیا چیزیں ٹوٹ گئی تھیں
وہم کا ورد بتایا ہے گماں لکھا ہے
میرا کردار کہانی میں کہاں لکھا یے
پانچ حرفوں کی ارادت کو محبت جانا
چارگھڑیوں کی سکونت کو مکاں لکھا ہے
خامشی میری روایت میں وظیفہ ٹھہری
میں نے ہر سانس کو فطرت کی زبان لکھا ہے
آزادی
خوف سے آزادی ہی آزادی ہے
میں تجھ سے دعویٰ کرتا ہوں میری مادرِ وطن
عمروں کے بوجھ سے آزادی، سر جُھکا کر
آپ کی کمر توڑنا، آپ کی آنکھوں کو اشارے سے اندھا کرنا
مستقبل کی کال؛
نیند کے طوق سے آزادی جس کے ساتھ
ذرا ادب سے لیا جائے نام پتھر کا
ابھی ہے کعبے کے اندر قیام پتھر کا
نہ جانے کیا دلِ ماموم پر گزر جاتی
خدا نہ کردہ جو ہوتا امام پتھر کا
ہر ایک ہاتھ میں پتھر بلند ہونے تک
پتہ ہی کب تھا کہ کیا ہے نظام پتھر کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ستم ظریفی رہے کب تلک روا مجھ پر
کھلے گی کب یہ مدینے کی بند ہوا مجھ پر
ترس رہی ہوں مدینے میں سانس لینے کو
کھٹن کیوں زاد سفر اتنا اب ہوا مجھ پر
ہو میرے کفن میں شامل عظیم زم زم بھی
تہہ زمین بھی تازہ رہے قبا مجھ پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خدا سے باتیں
میں نہ مشرک کہ بنا کر تیری پوجوں مورت
نہ میں نادان کہ چاہوں گا مجازی صورت
میں نہ ہندو کہ کسی کو کہوں اوتار تِرا
نہ میں کافر ہوں کہ کرتا پھروں انکار تِرا
میں نہ عیسائی کروں تین میں تقسیم تجھے
نہ میں یونانی کہ صدہا کروں تسلیم تجھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عِشقِ رسولﷺ کیا ہے اللہ سے لَو لگانا
مومن کی رُوح ڈھلنا، قرآں کو راہ کرنا
عشقِ رسولﷺ کیا ہے، حق کو حیات کرنا
فرقوں میں بٹ نہ جانا، ہر بت کو پاش کرنا
عشقِ رسولﷺ کیا ہے، قائم نماز کرنا
لازم زکوٰۃ دینا، خیرات صدقہ کرنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اسلام کی شوکت، صدف دیں کا گُہر ہے
شہکار رسالتؐ جسے کہیۓ، وہ عُمرؓ ہے
جس نام کے صدقے سے دُعاؤں میں اثر ہے
وہ نامِ عُمرؓ،۔ نامِ عُمرؓ،۔ نامِ عُمرؓ ہے
وہ صحنِ حرم اور وہ اِک اینٹ کا تکیہ
کیا تربیتِ سرورِؐ عالَمﷺ کا اثر ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس وقت اک گروہِ شریر و جفا شعار
جباّر و قہر بار و ستم گار و ہرزہ کار
خود بین و خود فریب و خود آرا و خود شمار
باطل نواز و خانہ بر انداز و حق شکار
دامانِ صلح و جَیبِ اماں پھاڑنے لگے
ہر بام پر جُنوں کے علَم گاڑنے لگے
میں خفا ہوں خُود سے مُدت سے
ہو سکے تو صُلح کرا دے کوئی
مجھے مجھ سے بچھڑے مُدت ہوئی
مجھے مجھ سے اب ملا دے کوئی
ہے غم سے دل پتھر ہوا
اب لگ کے گلے رُلا دے کوئی
زندگی شاہ کی چوکھٹ پہ کیوں واری جائے
تخت سے نعش کیوں نہ اب یہ اُتاری جائے
ظُلم کو ہم نے بہت دیر تلک جھیلا ہے
اب کہ لازم ہے کیا جان بھی ہاری جائے
قوم کو ظُلم سے جھٹکارا دلانا ہو گا
دیکھنا رائیگاں محنت نہ ہماری جائے
باگھ
دونوں کے درمیان
عجیب و غریب رشتہ تھا
ایک طرف بھوک تھی
دوسری طرف درد ہی درد
دونوں کے درمیان
کوئی پل نہیں تھا
رہنما سے کارواں کا رابطہ ہی کیا رہا
کارواں سے دور ہے تو رہنما ہی کیا رہا
آدمی کا آدمی سے واسطہ ہی کیا رہا
خود ہی سوچو زندگی کا فلسفہ ہی کیا رہا
رہبران قوم کے جذبات ہی جاتے رہے
منزل مقصود کا اب راستہ ہی کیا رہا
پلکوں پہ رُکا قطرۂ مُضطر کی طرح ہوں
باہر سے بھی بے چین میں اندر کی طرح ہوں
باہر سے مِرے جسم کی دیوار کھڑی ہے
اندر سے میں اک ٹُوٹے ہوئے گھر کی طرح ہوں
نظروں سے گِرا دو کہ مجھے دیوتا مانو
پتھر کے تراشے ہوئے پیکر کی طرح ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ان کی نسبت جو ساتھ لگتی ہے
محترم اپنی ذات لگتی ہے
جب محمدﷺ کا ذکر آتا ہے
وجد میں کائنات لگتی ہے
مجھ کو جینا ہے اب مدینے میں
زندگی بے ثبات لگتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سلام اس پر
درود اس پر
یہ ایسے صادق کا ذکر ہے جو صداقتوں کا امین بھی تھا
زمین کی پستیوں پہ رہ کر
فلک کا رفعت نشین بھی تھا
جو بے یقینی کی تیرگی میں اک آفتاب یقین بھی تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
و من شر حاسد اذا حسد (نظمیہ تفسير سورة الفلق)
میرا حاسد
مجھے بدنام کرنے کے لیے
ہر دن نئے الزام دیتا ہے
انہیں اخبار میں چھپوا کے
یوں خوش ہوتا ہے
جیسے کہ موت آ ہی گئی مجھ کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکر سے طالوت کے الله نے واضح کیا
بادشاہِ اہلِ دینِ حق بھی چُنتا ہے خدا
کرتا ہے اعلان جس کا اس کی جانب سے نبیؐ
حسب قرآں اور کسی کو حق اس کا نہیں
چاہتی تھی کھیلنا معصوم کے ایمان سے
پاکبازی پیاری تھی یوسفؑ کو اپنی جان سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سلام اُنؐ پر، درود اُنؐ پر
وہؐ کہہ رہے تھے
زمیں نے بوجھ ایسے آدمی کا نہیں اٹھایا
جو تم سے سچا ہو، اے ابوذرؓ
وہؐ کہہ رہے تھے
فلک نے سایہ نہیں کیا ایسے آدمی پر
اسیر
اُفق کے سُرخ کُہرے میں کُہستاں ڈُوبا ڈُوبا ہے
پکھیرُو کُنج میں جھنکار کو اپنی سموتے ہیں
تلاطم گھاس کے بن کا تھما، تارے درختوں کی
گھنی شاخوں کے آویزاں میں موتی سے پروتے ہیں
سبھی سکھیاں گھروں کو لے کے گاگر جا چکیں کب کی
دریچوں سے اب ان کی روشنی رہ رہ کے چھنتی ہے
خشک ٹہنی پہ ہری چھال نہیں آئے گی
تیرے منصور پہ اب کھال نہیں آئے گی
تیرا ماتھا م<رے ہونٹوں کو نہیں پہنچے گا
میرے ماتھے پہ تری شال نہیں آئے گی
کیا ہوئیں عورتیں جو گریہ گزار آتی تھیں
اب کوئی کھولے ہوئے بال نہیں آئے گی
عبادتوں میں حرِیف و حلِیف کون کرے
حرم میں فرقِ خبِیث و شرِیف کون کرے
محال ہو گیا مذہب کا سچ بیاں کرنا
کروڑوں لوگوں کو اپنا حرِیف کون کرے
ہر اک پاس دلیلیں ہیں اپنے مسلک کی
اب اتنے ٹھوس دلائل نحِیف کون کرے
اے فلسطین کے ننھے منے شہیدو
تم تو جنت کے باغوں میں جھولا جھول رہے ہو
ذرا ہماری بے بسی دیکھو اے فردوس کی مہکتی کلیو
ہم دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہیں تو بموں کا اژدھا ہمارے ہاتھ نگل جاتا ہے
ہم چیختے چلاتے بھی نہیں کہ ہماری آہوں کا دھواں
بارودوں کے دھندلکے میں ضم ہو کر اسے بے وقعت کر جاتا ہے
دِلوں کا درد کہنے میں چھہتّر سال لگتے ہیں
یہاں بس کر اُجڑنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
چھہتر سال پہلے بھی غلامی سی غلامی تھی
وہی زِندان سجنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
سروں سے میری عورت کے دوپٹے کھینچنے والو
خدا کا ڈر اُترنے میں چھہتر سال لگتے ہیں
ریت کے اک شہر میں آباد ہیں در در کے لوگ
بے زمیں بے آسماں بے پاؤں کے بے سر کے لوگ
میرا گھائل جسم ہے میری رہائش کا پتہ
میں جہاں رہتا ہوں رہتے ہیں وہاں پتھر کے لوگ
ایک اک لمحہ ہے قطرہ زندگی کے خُون کا
عافیت کا سانس بھی لیتے ہیں تو ڈر ڈر کے لوگ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تُو مُذل تُو مُقیت تُو مُجیب تُو قدیم
سبحان اللہ و بحمد سبحان اللہ العظیم
تُو متین تُو محصی تُو مُحی تُو مُقیم
سبحان اللہ و بحمد سبحان اللہ العظیم
تُو محصی تُو مُبدی تُو مُعید تُو کریم
سبحان اللہ و بحمد سبحان اللہ العظیم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مژدۂ رحمت حق ہم کو سنانے والے
مرحبا آتشِ دوزخ سے بچانے والے
جتنے اللہ نے بھیجے ہیں نبیؑ دنیا میں
تیریؐ آمد کی خبر سب ہیں سنانے والے
مجھ سے ناشاد کو پہنچا دے دَرِ احمدؐ تک
میرے خالق میرے بچھڑوں کے ملانے والے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مولا حسینؑ کا جو عزادار ہے، وہ شخص
میرے نبیﷺ کا سچ وفادار ہے وہ شخص
آلِؑ نبی کے غم میں گزارے جو زندگی
خُلدِ بریں کا اصل میں حقدار ہے وہ شخص
ذکر حسینؑ سن کے بھی جس کے بہے نہ اشک
بے کار ہے، جہان کا بے کار ہے وہ شخص
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض
یہ عرض ہے حضور بڑے بے نوا کی عرض
اُن کے گدا کے در پہ ہے یوں بادشاہ کی عرض
جیسے ہو بادشاہ کے در پہ گدا کی عرض
عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تُلا ہوا
وہ دل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شہنشاہؐﷺ کون و مکاں آ رہے ہیں
ادب! سرورِ مُرسلاںﷺ آ رہے ہیں
رسالت کے رُوحِ رواں آ رہے ہیں
بصد عظمت و عِز و شاں آ رہے ہیں
جلَو میں لیے قُدسیاں آ رہے ہیں
شہنشاہؐﷺ کون و مکاں آ رہے ہیں
یہی ذکر ہے آج ایک ایک گھر میں
درد بخشا گیا ہے سہنے کو
کیسی دُنیا ملی ہے رہنے کو
قافیہ تنگ ہے اگرچہ میاں
اشک کافی ہیں حال کہنے کو
اتنی اچھی نہیں ہے در بدری
سینہ حاضر ہے تیرے رہنے کو
شہر بھر میں مجھے ایسے نہ گُھمایا جاتا
اس محبت کو تماشا نہ بنایا جاتا
میں کہ جس چاک پہ ٹُوٹا تھا تِرے ہاتھوں سے
کاش اس چاک پہ اب پھر سے بنایا جاتا
یاد رکھنے کی اذیت سے گُزرنے کے لیے
بھُولنے کا بھی ہُنر مجھ کو سکھایا جاتا
عجیب حال میں اپنی حیات رہتی ہے
میں اُس سے جیت بھی جاؤں تو مات رہتی ہے
وہ مجھ سے پیار بھی کرتی ہے یا نہیں کرتی
وہ میرے ساتھ ہو پھر بھی یہ بات رہتی ہے
جو دل کی ساری تمنا کی شمعیں بجھ جائیں
تو شمس آئے قمر اپنی رات رہتی ہے
ریزگاری کی طرح کام میں لاتا ہے مجھے
خرچ کرتا ہے مجھے روز کماتا ہے مجھے
میں بھی چپ چاپ نئی شکل میں ڈھل جاتا ہوں
اپنے انداز سے ہر شخص بناتا ہے مجھے
بین کرتا ہے مِری آنکھ سے ٹوٹا ہوا خواب
خود ہی روتا ہے وہ روز رُلاتا ہے مجھے
بیان کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے
جہاں ہے کعبہ وہاں دل دکھائی دیتا ہے
وہاں سے دور بہت دور اپنی منزل ہے
جہاں کتاب میں ساحل دکھائی دیتا ہے
زمین و آسماں کب تک کے آزمایں گے
کیا اہلِ دل کبھی بزدل دکھائی دیتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
والفجر چاندنی کا ہے آنچل لیے ہوئے
والتّین ڈالی دینے کو ہے پھل لیے ہوئے
واللیل بہر چشم ہے کاجل لیے ہوئے
والشّمس آگے آگے ہے مشعل لیے ہوئے
والفتح خوش ہے دیکھ کے حسنِ شباب کو
والعادیات تھامے ہوئے ہے رکاب کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کتنا میٹھا کتنا پیارا
نامِ محمدؐ نامِ علیؑ
آنکھوں کی ٹھنڈَک دل کا اُجالا
نامِ محمدؐ نامِ علیؑ
ہستی اپنی عشقِ محمدؐ
دولت اپنی حُب علیؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رب نے شرحِ والضحیٰ ان کا رخِ زیبا کیا
گیسوؤں کو شرحِ والیل إذا یغشیٰ کیا
ان کی آنکھوں کو کیا تفسیرِ مازاغ البصر
ان کے سینہ کو الم نشرح کا آئینہ کیا
حضرتِ موسیٰ سے رب نےلن ترانی کہہ دیا
میرے آقاﷺ پر عیاں جلوہ شبِ اسریٰ کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ سے کہتا ہے کوئی صلّے علیٰ اور بھی ایک
دلِ مسعود! تُو پڑھ اُن کی ثنا اور بھی ایک
ڈھانپ لے جو میرے عیبوں کو سرِ حشر شہا
ہو عطا حشر کے دن ایسی رِدا اور بھی ایک
جس سے ہو ختم سدا عُسرت و نکبت کی فضا
آئے طیبہ سے خُدا! ایسی ہوا اور بھی ایک
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسّر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحیٰﷺ تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سر کٹ گیا حسین کا رب کی ثناء کے بعد
سانسیں ملی ہیں دین کو شہؑ کی عطا کے بعد
باطل کا حق سے معرکہ زہراؑ کے لال نے
جیتا ہے اے مِرے خدا کتنی جفا کے بعد
مِثلِ حسینؑ کوئی نہ ہو گا جہان میں
ہو گی نہ کربلا کوئی اِس کربلا کے بعد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ملول ایسا ہوا منظرِ قضا سے میں
کہ روتا پیٹتا نکلا ہوں کربلا سے میں
تو اہلِ بیتؑ کی نصرت کو کیوں نہیں پہنچا؟
سوال مجھ سے کرے گا خدا، خدا سے میں
میں رو پڑا تو مجھے یاد آیا صبرِ حُسینؑ
سو اپنے آپ کو دینے لگا دلاسے میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسینؑ
دو جہاں میں آپ کی ہے کامرانی یا حسینؑ
آپ کے محسن جو تھے وہ قتل سارے ہو گئے
پھر بھی لب پر آپ کے ہے شادمانی یا حسینؑ
جو مٹانا چاہتے تھے مٹ گئے دنیا سے وہ
ہار میں بھی آپ کی ہے کامرانی یا حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ گھر چراغ تھا اور تیرگی یزید کی فوج
علیؑ کے نُور میں کیا دیکھتی یزید کی فوج
فُرات فرطِ نِدامت سے منہ چُھپاتا ہوا
اور اپنی پیاس چُھپاتی ہوئی یزید کی فوج
لڑائی آج بھی جاری ہے آب و تاب کے ساتھ
وہی حسینؑ کا کنبہ وہی یزید کی فوج
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ شہیدوں کا لہو
ہے شہیدوں کا لہُو خاص عطائے باری
قوم اور فرد کو بھی دیتا ہے اک زیست نئی
ہے رواں جس کی رگوں میں ہے وہ قسمت کا دھنی
یہ شہیدوں کا لہو
یہ شہیدوں کا لہو پھول کھلا دے بن میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آیا وہ وقت ظہر کا مابینِ کارزار
آگے بڑھا نماز کو حیدرؑ کا ورثہ دار
تیر آ رہے تھے لشکرِ اعدا سے بار بار
صف میں بڑھے سعیدؓ و زہیرؓ وفا شعار
یہ جاں نثاریاں تھیں جو رتبے بڑے ہوئے
الله! یہ امامؑ سے آگے کھڑے ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزار جنت کی
سواری آنے والی ہے شہیدان محبت کی
گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں اُمت کی
کوئی تقدیر تو دیکھے اسیران محبت کی
شہید ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیونکر ہو
ہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغ جنت کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سروں کی بھیٹ چڑھاتے ہیں کربلا والے
خدا کا دین بچاتے ہیں یوں خدا والے
رضائے حق میں سمائے ہیں یوں خدا والے
رہیں گے شر تلک زندہ کربلا والے
یزیدیت کے مقابل حسینیت کی جیت
مہان ہو گئے دنیا میں کربلا والے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صرف شبیرؑ کا ہوتا نہیں سر نیزوں پر
اس جگہ دین بھی کرتا ہے سفر نیزوں پر
ہاں وہی بیبیاں خیموں میں تلاوت کرتی
شان سے جاتے ہوئے ان کے پسر نیزوں پر
شاہ کی گود میں اصغرؑ ہیں لہو میں ڈوبے
دشمنِ آلِؑ پیمبرﷺ کی نظر نیزوں پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تنویر پر طمانچے، پھولوں پہ تازیانہ
عفت مآب کنبہ، عالی نسب گھرانہ
تسبیح میں ستارے، آفاق کا مصلّی
تطہیر کی قناتیں، رحمت کا شامیانہ
آیات کا تسلسل، اسرار پر تفکّر
تمجید کا ترنّم، توحید کا ترانہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اقربا کٹ گئے جب شاہؑ كے باری باری
اور عدم چلنے کی اس شاہ نے کی تیاری
خیمے کا پردہ اُٹھا زینؑ العباء اک باری
دیکھ مقتل کی طرف کرنے لگے یوں زاری
خُلد كے کُوچ میں ہم کو نہیں بُلواتے ہو
قافلے والو! ہمیں چھوڑے چلے جاتے ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حال ہم سنائيں گے، جب امام آئيں گے
زخم دل دکھائيں گے، جب امام آئيں گے
محفل جمائيں گے، جب امام آئيں گے
بام و در سجائيں گے، جب امام آئيں گے
جشن ہم منائيں گے، جب امام آئيں گے
زخم ہیں ابھی تازہ مکہ اور مدینہ کے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمیں ہے جان سے بڑھ کر حسینؑ کا ماتم
کریں گے قبر میں جا کر حسینؑ کا ماتم
عزا حسینؑ کی اور یہ صدائیں ماتم کی
بنے گا شافعِ محشر حسینؑ کا ماتم
کریں گے ماتمِ عباسؑ، ماتمِ اکبرؑ
کریں گے شاہ کے نوکر حسینؑ کا ماتم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کلام کرتا رہا بار بار نیزے پر
کسی کے لہجے میں پروردگار نیزے پر
حُسینؑ تیرے کٹے سر پہ بوسہ دینے کو
رسولؐ کرتے رہے انتظار نیزے پر
ہُوَ الجمیلُ یُحِبُّ الجمال پڑھتے ہوئے
ہُوا حُسینؑ کا اکبرؑ سوار نیزے پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جلال کرب و بلا کیا ہے یہ خدا جانے
جلے خیام کے نزدیک ہیں جو ویرانے
انہیں کی خاک سے تسبیح کے بنے دانے
ہمیں سکھایا ہے نیر یہ ابنِ زہراؑ نے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم نہ کہو
جو کربلا نہیں لکھتے انہیں قلم نہ کہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں آنکھ سے پیاسا ہوں، میری آس ہے عباسؑ
ہم تشنہ مزاجوں کی فقط پیاس ہے عباسؑ
وہ ایسا جرّی، ایسا جرّی، ایسا جرّی ہے
تلوار لرزتی ہے کہ میقاس ہے عباسؑ
سب کٹ چکے تو پھر میرے آقاؐ یہ پکارے
اے قافلے والو! کہیں عباسؑ ہے عباسؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
باغ جنت کے ہیں بہر مدح خوان اہل بیت
تم کو مُژدہ نار کا اے دشمنان اہل بیت
کس زباں سے ہو بیاں عز و شان اہل بیت
مدح گوئے مصطفیٰؐ ہے مدح خوان اہل بیت
ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شان اہل بیت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
روح و تن آپ پہ قربان اباعبداللہؑ
حرز جاں آپ کے فرمان اباعبدللہؑ
درس توحید ہے ہر فاسق و فاجر کی نفی
رمز عاشور ہے انکار ستمگار و شقی
لعن ہے سید حمزہؑ کے جگر خواروں پر
لعن ہے بغض میں جلتے ہوئے خونخواروں پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زیبِ تاجِ سیادتؐ پہ بے حد درود
افتخارِ امامتؐ پہ بے حد درود
شانِ پیغمبریتؐ پہ بے حد درود
فتحِ بابِ نبوتؐ پہ بے حد درود
ختمِ دورِ رسالتؐ پہ لاکھوں سلام
ماہتابِ نبوتؐ پہ بے حد درود
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم سب اے کاش جہنم میں ہی جاتے مولا
پر نہ یہ داغِ جگر آپ اُٹھاتے مولا
امن عصیاں سے نہ ہم حشر میں پاتے مولا
آپ غربت میں مگر سر نہ کٹاتے مولا
ہجرِ صغراؑ کا نہ داغِ علی اکبرؑ سہتے
چین سے گھر میں صدا قبلۂ عالم رہتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گلی گلی میں اذاں ہے، حُسینؑ زندہ باد
یزیدِ وقت کہاں ہے؟، حسینؑ زندہ باد
نبیﷺ کی آلؑ کا غم باضمیر آنکھوں سے
مثالِ اشک رواں ہے، حسینؑ زندہ باد
میں بے سہارا نہیں زندگی کے جنگل میں
مِرا امامِ زماںؑ ہے، حسینؑ زندہ باد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پیاس کتنی ہی بڑھے قلب کی دنیا کی طرف
پھر بھی شبیرؑ نہ دیکھے کبھی دریا کی طرف
جس کے قدموں کے تلے کھیل رہی ہو جنت
رخ بھلا کیا وہ کرے رونقِ دنیا کی طرف
اس کو فردوس کی دیتے ہیں بشارت سرکارؐ
کربلا ہو کے جو جائے شہِ بطحاؐ کی طرف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ دین محمدﷺ کا تیرے نام سے زندہ ہے
اللہ کا بھی کلمہ تیرے نام سے زندہ ہے
پھیلی ہیں زمانے میں توحید کی تنویریں
گونجی ہیں تیرے دم سے کونین میں تکبیریں
حق تجھ سے ہے پائندہ تیرے نام سے زندہ ہے
تعبیرِ خلیلؑ ہے تُو اور فخر مسیحا کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زیست جس کی باندی ہے، وہ حُسینؑ میرا ہے
موت جس پر مرتی ہے، وہ حسینؑ میرا ہے
جس کی سب خُدائی ہے، وہ حسینؑ میرا ہے
کبریا بھی اُس کا ہے، انبیاء بھی اُس کے ہیں
غوثیہ بھی اُس کے ہیں، اولیاء بھی اُس کے ہیں
خلد ساری جس کی ہے، وہ حسینؑ میرا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اوجِ امکانِ بشر کا سلسلہ ہے کربلا
عبدیت کی شانِ تسلیم و رضا ہے کربلا
رُوح ہو بیمار تو خاکِ شفا ہے کربلا
خالقِ اکبر کا زندہ معجزہ ہے کربلا
غمگساری، دوست داری ، بیقراری کے لیے
کربلا ہے، کربلا ہے، کربلا ہے کربلا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لا حاصلی کے بین پہ گریہ نہیں کیا
بے پر کے شور و شین پہ گریہ نہیں کیا
گریہ کیا ہے سن کے رسولؐ و بتولؑ کو
ہم نے یونہی حسینؑ پہ گریہ نہیں کیا
ہم لوگ وقتِ فجر بھی روتے رہے، فقط
ظہرین و مغربین پہ گریہ نہیں کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی
کئی دلوں پہ کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی
اِدھر زمیں پہ گِرا ہاشمی چراغ، اُدھر
فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاکؐ بیٹھ گئی
بدن جو بزمِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں
بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صدق و یقین و مہر و محبت حسینؑ ہیں
دستورِ زندگی كی حقیقت حسینؑ ہیں
سجدوں كی كہكشاں سے عبارت ہے جن كی ذات
وہ آشنائے روحِ عبادت حسینؑ ہیں
بخشا گیا ہے اُن كو وقارِ خود آگہی
اپنے لیے تو نورِ بصیرت حسینؑ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
علم اٹھا کر وہ حق نشانوں سے آ رہے ہیں
حسینؑ جگ میں کئی زمانوں سے آ رہے ہیں
ہدف یزیدوں کا آج بھی ہیں رسول زادے
کہ تیر اب بھی انہی کمانوں سے آ رہے ہیں
ابھی بھی بازار شام ویسا ہی ظلم خُو ہے
ابھی بھی پتھر انہی مکانوں سے آ رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہو رہی ہے پھر لہو میں ابتدائے کربلا
سر سے پا تک کچھ نہیں ہے ماسِوائے کربلا
سامنے آتا ہے پانی تو میں ہٹ جاتا ہوں دُور
پیاس کو محفوظ رکھتا ہوں برائے کربلا
زندگی ہی زندگی تھا نوکِ نیزہ پر وہ سر
روشنی ہی روشنی تھی وہ ہوائے کربلا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حسینؑ بادل حسینؑ بارش حسینؑ موسم حسینؑ پانی
حسینؑ مقتل لہو کا جنگل کٹا کے سر درگُزر کا بانی
حسینؑ حمد و ثنا کی مستی حسینؑ اک سوزِ نوحہ خوانی
حسینؑ شاہِد حسینؑ واحِد کہاں سے لاؤ گے اُس کا ثانی
حسینؑ میرا حسینؑ تیرا حسینؑ سب کا
حسینؑ حیدرؑ کا مصطفیٰﷺ کا حسینؑ رب کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رنج ایسے نہ کبھی اہلِ جہاں نے دیکھے
امتحاں جیسے ہیں شبیرِؑ جواں نے دیکھے
طے کیے جتنے سرِ نوکِ سناں پل بھر میں
وہ مراتب تھے کہاں کون و مکاں نے دیکھے
غمِ شبیرؑ پہ دل گیر رہا میں صدیوں
کیا مقامات مِری آہ و فغاں نے دیکھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہی نہیں کہ فقط کربلا حسینؑ سے ہے
حسینؑ سے ہیں محمدؐ، خدا حسینؑ سے ہے
کسی نے پوچھ لیا کس کے دم سے ہے اسلام
قضا و قدر نے جھک کر کہا حسینؑ سے ہے
ہزار چشمۂ آبِ رواں ہیں دنیا میں
مگر یہ پیاس کا دریا بہا حسینؑ سے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر کہاں ذہن میں اپنا کوئی غم آتا ہے
سامنے جب بھی تراؑ نقش قدم آتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ دریا سے قمر اُبھرے گا
شام سے منتظر آنکھوں میں بھی نم آتا ہے
اب مِرا بیٹا بھی پڑھ لیتا ہے نوحہ تیرا
شکر یا مولاؑ! مِرے گھر میں کرم آتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درِ حسینؑ پہ جا کر یہ سر جھُکانا ہے
غمِ حسینؑ میں ہی اشکِ غم بہانا ہے
نبیؐ کی بیٹیؑ کو دینا ہے لال کا پُرسہ
یہ قلب کھول کے اپنا اُنہیں دکھانا ہے
مقامِ اکبرِ ذی جاہؑ کو جو پہنچوں گی
واں سر کو پیٹ کے اکبرؑ کا غم منانا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مباہلے سے یہ جو داستاں ہوئی آغاز
تتمہ اس کا ہے سادہ بہ دشت کرب و بلا
حسینؑ، زینبؑ و عباسؑ، اکبرؑ و قاسمؑ
مباہلے کا اعادہ بہ دشت کرب و بلا
صراط حق کو شب و روز مانگنے والو
یہ دیکھو حق کا ہے جادہ بہ دشت کرب وبلا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عزا میں کوئی خسارا طلب نہیں کرتے
حُسینؑ والے دلاسہ طلب نہیں کرتے
اسی لیے نہیں روتے ہیں آپ کربل پر
حضور آپ سے پُرسہ طلب نہیں کرتے
نہیں ہے کوئی بھی رشتہ ثقیفہ سے اپنا
ہم اہلِ عشق ہیں، دنیا طلب نہیں کرتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لایا ہے خون، رنگِ دگر کربلا کے بعد
اونچا ہوا حسینؑ کا سر کربلا کے بعد
پاسِ حرم،۔ لحاظِ نبوّت،۔ بقائے دیں
کیا کچھ تھا اس کے پیشِ نظر کربلا کے بعد
اے رہ نوردِ شوق، شہادت تِرے نثار
طے ہو گیا ہے تیرا سفر کربلا کے بعد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سینے میں جس کے ہے بسی الفت حسینؑ کی
بس وہ بیان کرتا ہے عظمت حسینؑ کی
جان و جگر سے کرتے ہیں مدحت حسینؑ کی
محشر میں کام آئے گی چاہت حسینؑ کی
جس کو نبیﷺ سے پیار، محبت ہے دوستو
وہ دل میں کیسے پالے گا نفرت حسینؑ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دعائیں مانگی ہیں ہم نے برسوں جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر
ملا ہے تب مصطفیٰﷺ سا بندہ خدا خدا کر خدا خدا کر
پیوں گی میں گنگا جل نہ ساقی گناہ سمجھوں جو دے برہمن
ثواب لے لے میں تیرے صدقے شراب طاہر پلا پلا کر
برنگ گل داغ حب حیدرؑ ہمارے سینے میں ہے نمایاں
یہ پھول رکھا ہے ہم نے دل میں بتوں سے نظریں بچا بچا کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دلِ بے تاب کو سینے سے لگا لے آ جا
کہ سنبھلتا نہیں کم بخت سنبھالے آ جا
پاؤں ہیں طولِ شب غم نے نکالے آ جا
خواب میں زلف کو مکھڑے سے لگا لے آ جا
بے نقاب آج تو اے گیسوؤں والے آ جا
نہیں خورشید کو ملتا تِرے سائے کا پتہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدح و ثنائے کامل و اکمل کریں گے ہم
جو کارِ نعت کرنا ہے پَل پَل کریں گے ہم
شعبان کے جو آخری عشرے میں کی شروع
رمضاں میں یہ کتاب مکمل کریں گے ہم
جب جب ہو ذکرِ پاک، شہِ اِنس و جان کا
پیہم خلوصِ دل سے مفصل کریں گے ہم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اک برہمنِ ہند تجھے پیار کرے ہے
چُوٹی سے ہمالہ کی نمسکار کرے ہے
جو برہم کو جانے اسے کہتے ہیں برہمن
کچھ جان کے اپنا مجھے آدھار کرے ہے
کاشی میں بھی کعبے کی زیارت اسے حاصل
تیری ہی محبت یہ چمتکار کرے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
روشن ہمارا دل ہے محمدﷺ کے نُور سے
لائے ہیں اس چراغ کو ہم کوہِ طُور سے
موسیٰؑ نے اس کو طُور پہ دیکھا تھا دور سے
روشن ہوئی ہے شمع حرم جس کے نور سے
خلوت ہو ایسی جس میں فرشتے نہ سن سکیں
اک دل کی بات عرض کروں گا حضورؐ سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شبِ حیات میں جلتا دیا حسینؑ کا غم
سدا دلوں میں رہے گا ہرا حسینؑ کا غم
نہ پوچھ کون ہیں سب سے عزیز دنیا میں
ہیں اک رسولؐ خدا، دوسرا حسینؑ کا غم
نہ چھوٹ پائے گا دامانِ صبر تجھ سے کبھی
اگر پتہ ہو تجھے کیوں ملا حسینؑ کا غم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
داد دینے کے لیے شامل پیمبرﷺ ہو گئے
لب کشا جب جشن میں شہؑ کے سخنور ہو گئے
حُرؑ کو آتا دیکھ کے بولے حسینؑ ابنِ علیؑ
کربلا تیار ہے، پورے بَہتّر ہو گئے
اک نظر شبیرؑ کو دیکھا میانِ حشر میں
حشر کے ہنگام میں حالات بہتر ہو گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لہو ہماری رگوں میں جب تک رواں رہے گا
ہمیشہ ذکرِ حسینؑ زیرِ زباں رہے گا
کسی بھی غم کو دوام اب تک ملا نہیں ہے
مگر غمِ کربلا ہمیشہ جواں رہے گا
یہی وہ غم ہے جو وجہِ تسکینِ قلب و جاں ہے
جسے بھی دولت یہ مل گئی شادماں رہے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب گردشِ کونین کا عرفان ملے گا
ہر دائرہ حیدرؑ کا ثنا خوان ملے گا
یہ سینۂ حیدرؑ ہے کہ جُزدانِ ازل ہے
انجیل سے پہلے یہاں قُرآن ملے گا
مُڑ شہرِ نجف کی طرف اے راہئ فردوس
اس موڑ سے رستہ تجھے آسان ملے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تلۂ زینبیہؑ
میں ٹیلے پر کھڑی یہ دیکھتی ہوں
کہ میرا بھائی جو کہتا تھا
وہ پورا ہوا ہے
محاذِ کربلا سر ہو چکا
اور اب
محاذِ شام میرے سامنے ہے
شام کے وقت ٹھکانے پہ نہیں آتا تھا
وہ پرندہ جو نشانے پہ نہیں آتا تھا
امتی گھیر کے لاتے تھے اسی گھر کی طرف
دکھ محمدﷺ کے گھرانے پہ نہیں آتا تھا
میری خاموشی اسے کھینچ کے لے آئی ہے
وہ جو آواز لگانے پہ نہیں آتا تھا
مِری ماں سب سے پیاری ہے
مری ماں مسکراتی ہے تو اندر دل کے گوشوں میں بڑا ہی لطف آتا ہے
بڑا ماحول ہوتا ہے
فضا میں رقص دِکھتا ہے
حسیں ہر شخص دِکھتا ہے
میں اُن قدموں کو چُھوتا ہوں تو اِک آواز آتی ہے
عدنان مجھ سے وقت نے جب کُھل کے بات کی
مجھ پر تمام گِرہیں کُھلیں کائنات کی
ترتیب دے رہا ہوں میں رستوں کے پیچ و خَم
آئینہ ہو رہی ہے روِش شش جہات کی
بینائی جانتی ہے کہ آنکھوں کی ڈور سے
لمبائی ماپتے ہیں مِرے خواب، رات کی
حر کہہ رہے ہیں آگ سے مولا نکال دیں
عاصی ہوں میرا نام شہیدوں میں ڈال دیں
مقتل میں الاماں کا ہے اب شور چار سُو
مجھ کو سخی یہ تیر کماں اور ڈھال دیں
آلؑ نبیﷺ بھی ناز کرے اس کے بخت پر
اپنا وہ جس کے واسطے بی بی رومال دیں
تمام شہر کو جو سچ ہوا بتاؤں گا
پھر اس کی جتنی بھی قیمت ہوئی چکاؤں گا
میں ہجر والوں کا اک قافلہ بناؤں گا
تمہارے بعد بھی جی کر تمہیں دکھاؤں گا
جنہوں نے مل کے مرے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں
انہیں یہ ڈر تھا کہ میں آئینہ بناؤں گا
امینِ راز ہے مردان حر کی درویشی
کہ جبرئیل سے ہے اس کو نسبت خویشی
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے
فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی
نگاہ گرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں
نہ آہ سرد کہ ہے گوسفندی و میشی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کمان ظلم وہ دست خطا سے ملتی ہے
گلے وہ پھول کی خوشبو ہوا سے ملتی ہے
بکھر رہی ہے فضا میں اذانِ کی شبنم
وہ روحِ لحنِ محمدﷺ صبا سے ملتی ہے
سمندروں کو سُکھا دے جو حدتِ لب سے
ہمیں وہ تشنہ لبی نینوا سے ملتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خامۂ اشفاق ہے مبہوت فن سجدے میں ہے
بارگاہِ نعت میں حرفِ سخن سجدے میں ہے
شاہِ دو عالمؐ کے جسمِ مشک زا کے سامنے
عود و عنبر منفعل مُشکِ ختن سجدے میں ہے
شام کو تھی چاندنی کوئے نبیؐ میں سر بہ خم
صبح دم خورشید کی پہلی کرن سجدے میں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہبۂ عشق ملا صلّے علیٰ آپ کے ساتھ
دل مرا جُڑتا گیا، صلّے علیٰ آپ کے ساتھ
ایک مشکل کشا ہے مولا امامِ حیدرؑ
ہر طرب میں وہ رہا، صلّے علیٰ آپ کے ساتھ
مردِ میدان رہا تھا جو ہر اک میداں میں
پھر وفا کرنے لگا، صلّے علیٰ آپ کے ساتھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میدانِ کربلا
جب کربلا میں داخلۂ شاہ دیں ہوا
دشت بلا نمونۂ خلد بریں ہوا
سر جُھک گیا فلک کا یہ اوج زمیں ہوا
خُورشید محو حُسنِ حسینِؑ حسیں ہوا
پایا فروغ نیر دیں کے ظہور سے
جنگل کو چاند لگ گئے زہراؑ کے نور سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی
حسینؑ ابنِ علیؑ کے غم میں ہوں دنیا سے بیگانہ
ہجومِ خلق میں بھی میری تنہائی نہیں جاتی
اداسی چھا رہی ہے روح پر شامِ غریباں کی
طبیعت ہے کہ بہلانے سے بہلائی نہیں جاتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
"کہیں تاریخ میں شبیرؑ سا سجدہ نہیں ملتا"
گُہر سبطِؑ نبیﷺ سا کوئی تابندہ نہیں ملتا
کیا پرچار شہؑ نے حق کا پیہم زیرِ خنجر بھی
جو یہ سجدہ نہ ہوتا، دین بھی زندہ نہیں ملتا
لُٹا کے گھر بھرا اپنا رضائیں رب کی حاصل کیں
اے نفسِ مطمئن! ایسا کہیں سودا نہیں ملتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رازِ حیات کیا یہ بتایا ہے آپﷺ نے
مجھ کو مِرے خدا سے ملایا ہے آپﷺ نے
بھٹکے ہوئے تھے راہ سے اہلِ زمین سب
رستہ جو عین حق تھا دکھایا ہے آپﷺ نے
باطل کے زیرِ سایہ تھے ہم مُبتلائے شرک
بس اک خُدا، خُدا ہے بتایا ہے آپﷺ نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بولا یہ ہاتھ جوڑ کے دستِ خدا کا لالؑ
حضرتؐ کو برقرار رکھے رب ذوالجلال
پوشاک یہ پہن کے تو ہم خوش ہوئے کمال
ناقہ نہیں کہ جس پہ چڑھیں اب ہے یہ ملال
عزت میں ہیں بزرگ، شرف میں زیادہ ہیں
لڑکے تو سب سوار ہیں، اور ہم پیادہ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زمیں پہ نور کا ہے آسماں مدینے میں
“ ٭”رسولِ پاک کا ہے آستاں مدینے میں
ہے رحمتوں کا زمیں پر مکاں مدینے میں
حضورؐ عرش پہ مہمان جس کے ہوتے ہیں
حبیبِﷺ کبریا قرآں کی جاں مدینے میں
خُدا کے نُور کا ہے رازداں مدینے میں