مالک کے غضب سے ڈرتے چلو
کلیوں سے دامن بھرتے چلو
تعریف نبیﷺ کی کرتے چلو
پڑھو لا الہ الا اللہ یا سرورِ عالم صل علٰی
سلطانِ دو عالم، ختمِ رُسُلؐ
اُمی لقب و استادِ کُل
مانا جبیں نواز تِرا سنگ در نہیں
قسمت میں ٹھوکریں ہیں تو پھر دربدر نہیں
اک انقلاب دیکھ رہا ہوں چمن چمن
میری نظر جہاں ہے تمہاری نظر نہیں
یہ قابلِ لحاظ ہے اس انجمن کی بات
نغموں کو راستہ ہے دعا کا گزر نہیں
کس قیامت کی تیری انجمن آرائی ہے
بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے
گریۂ خوں سے یہاں رخصتِ بینائی ہے
اور وہ پوچھتے ہیں، آنکھ تِری آئی ہے
ذوقِ نظارہ مقدر سے ملے ت مل جائے
یوں تو ہونے کو ہر اک آنکھ میں بینائی ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار تمنا کہیں جسے
لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں
عشق میں اتنا "خسارہ" ہے تو "گھر" جاتے ہیں
موت کو ہم نے کبھی کچھ نہیں سمجھا، مگر آج
اپنے بچوں کی طرف دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
زندگی "ایسے" بھی "حالات" بنا دیتی ہے
لوگ سانسوں کا کفن اوڑھ کے مر جاتے ہیں
عشق ہر چند مِری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے
آہ کب تک میں بکوں تیری بلا سنتی ہے
باتیں لوگوں کی جو کچھ دل مجھے سنواتا ہے
ہم نشیں پوچھ نہ اس شوخ کی خوبی مجھ سے
کیا کہوں تجھ سے غرض جی کو مِرے بھاتا ہے
ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
پر اسے آہ کچھ اثر نہ کیا
سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا
کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز
سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تُو نے آنکھ بھر دیکھا
نالہ، فریاد، آہ اور زاری
آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا
انداز وہ ہی سمجھے مِرے دل کی آہ کا
زخمی جو کوئی ہوا ہو کسی کی نگاہ کا
زاہد کو ہم نے دیکھ لیا جوں نگیں بہ عکس
روشن ہوا ہے نام تو اس رُو سیاہ کا
ہر چند فسق میں تو ہزاروں ہیں لذتیں
لیکن عجب مزہ ہے فقط جی کی چاہ کا
خود حجابوں سا، خود جمال سا تھا
دل کا عالم بھی بے مثال سا تھا
عکس میرا بھی آئینوں میں نہیں
وہ بھی اِک کیفیت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خیمۂ گل
دورِیوں میں عجب کمال سا تھا
وہ خود سراب ہے اوروں کو آب کیا دے گا
جو اک فریب ہے وہ احتساب کیا دے گا
وہ میرے دور کا چنگیز ہے کسے معلوم
نہ جانے شہر کو تازہ عذاب کیا دے گا
وہ جس کے ہاتھ سے میرا لہو ٹپکتا ہے
وہ اپنے ظلم کا مجھ کو حساب کیا دے گا