Thursday, 31 March 2016

زبان کذب نہیں چل سکے گی یاں حق ہے

زبانِ کِذب نہیں چل سکے گی یاں، حق ہے
یہ بارگاہِ محبت کہ اے میاں! حق ہے
میں بعد و قرب کی تفریق میں پڑا ہی نہیں
مِرے کریم کا ہر ’دور و درمیاں‘ حق ہے
چھُپے ہوئے ہوں کہ ظاہر، سبھی برابر ہیں
حضورِ عشق، ہر اک مخفی و عیاں حق ہے

نار بہار کر سکے خاک کو کیمیا کرے

نار بہار کر سکے، خاک کو کیمیا کرے
جُز دمِ عشق صاحبو! کون یہ معجزہ کرے
یار کی بات اور تھی، یار کی بات اور ہے
اب کوئی لاکھ آئے اور ہم سے کہا سنا کرے
عکس پہ تہمتیں دھریں، نقش کو گالیاں بکیں
مُرتدِ آئینہ بتا! کون تِرا بھلا کرے؟

مجھ پہ کب آج ہی یہ بخت آیا

مجھ پہ کب آج ہی یہ بخت آیا
میں عدم ہی سے ہو کے مست آیا
بارگاہِ سخن میں بعد از میرؔ
کیسا کیسا ہوس پرست آیا
دلبرا! رقص دیکھنا ہے تجھے؟
میں ابھی کر کے بند و بست آیا

بدن سے روح تلک تشنگی اسی کی ہے

بدن سے روح تلک تشنگی اسی کی ہے
مگر یہ پیاس جگائی ہوئی اسی کی ہے
کچھ اس طرح سے نظر بند کر دیا اس نے
جدھر نگاہ اٹھے،۔ روشنی اسی کی ہے
رکھے ہیں سُوکھے ہوئے پھول بھی سلیقے سے
مِرے مزاج میں شائستگی اسی کی ہے

نام سے اس کے پکاروں خود کو

نام سے اس کے پکاروں خود کو
آج حیران ہی کر دوں خود کو
دست بردار ہوا وہ مجھ سے
اب میں کس طرح لٹاؤں خود کو
میرے حصے میں مِرا کچھ بھی نہیں
اس سے مل جاؤں تو پاؤں خود کو

صبر و قرار و ہوش و دل و دیں تو واں رہے

صبر و قرار و ہوش و دل و دِیں تو واں رہے
اے ہم نشیں! یہ کہہ تو بھلا ہم کہاں رہے
صیاد! شورِ نوحہ کچھ آنے لگا ہے کم
یاروں کے دُور ہم سے مگر آشیاں رہے
تُو تو چلی بہار! پر ان کی بھی کچھ خبر
جو سر بجیب غنچہ نہ  شگفتہ ساں رہے

درد پی لیتے ہیں اور داغ بچا جاتے ہیں

درد پی لیتے ہیں اور داغ بچا جاتے ہیں
یاں بلا نوش ہیں جو آئے چڑھا جاتے ہیں
دیکھ کر تم کو کہیں دور گئے ہم، لیکن
ٹک ٹھہر جاؤ تو پھر آپ میں آ جاتے ہیں
جب تلک پاؤں میں چلنے کی ہے طاقت باقی
حالِ دل آ کے کبھو تجھ کو دکھا جاتے ہیں

درد بن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ

درد بِن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
کارگر کیا ہو وہ پیکاں نہیں جس تیر کے بیچ
بند اسباب میں ہر گز نہ رہیں وارستہ
کب ٹھہرتی ہے صدا حلقۂ زنجیر کے بیچ
تشنہ لب مر گئے کتنے ہی تِرے کُوچے میں
ظاہراً آب نہ تھی تجھ دمِ شمشیر کے بیچ

شب غم سے ترے جان ہی پر آن بنی تھی

شب غم سے تِرے جان ہی پر آن بنی تھی
جو بال بدن پر ہے سو برچھی کی اَنی تھی
شب گِریہ سے وابستہ مِری دل شکنی تھی
جو بُوند تھی آنسو کی سو ہیرے کی کنی تھی
بے دردی ہے فرہاد سے نِسبت مجھے کرنا
آخر یہ جگر کاوی ہے وہ کوہ کنی تھی

Wednesday, 30 March 2016

ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے

ایک ٹہنی سے برگ ٹُوٹا ہے
ساری شاخوں سے خُون پھُوٹا ہے
اب تو قسمت پہ چھوڑ دے ملنا
تیز پانی میں ہاتھ چھُوٹا ہے
میں نے پھُولوں پہ ہاتھ رکھا تھا
کیوں ہتھیلی سے خُون پھُوٹا ہے

ریت پہ جب تصویر بنائی پانی کی

ریت پہ جب تصویر بنائی پانی کی
صحرا نے پھر خاک اُڑائی پانی کی
خون کی ندیاں بہہ جانے کے بعد کھُلا
دونوں کے ہے بیچ لڑائی پانی کی
کشتی کب غرقاب ہوئی معلوم نہیں
آنکھوں نے تصویر بنائی پانی کی

ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا

ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
دوستوں کو کہاں پکارا تھا
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا
روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے
آئینہ آگ سے گزارا تھا

نجانے آگ کیسی آئینوں میں سو رہی تھی

نجانے آگ کیسی آئینوں میں سو رہی تھی
دھواں بھی اٹھ رہا تھا روشنی بھی ہو رہی تھی
لہو میری نسوں میں بھی کبھی کا جم چکا تھا
بدن پر برف کو اوڑھے ندی بھی سو رہی تھی
چمکتے برتنوں میں خون گارا ہو رہا تھا
مِری آنکھوں میں بیٹھی کوئ خواہش رو رہی تھی

نیند کب اچھی لگی کب جاگنا اچھا لگا

نیند کب اچھی لگی، کب جاگنا اچھا لگا
میری آنکھوں کو وہی اک آئینہ اچھا لگا
جب بھی بازاروں سے گزروں تو مجھے پہچان کر
آئینوں کا میری جانب دیکھنا اچھا لگا
جانتے ہیں، رنگ اپنا ہے، نہ پر اپنے مگر
تتلیوں کے پیچھے پیچھے دوڑنا اچھا لگا

بھیگنے کا اک مسلسل سلسلہ بارش میں ہے

بھیگنے کا اک مسلسل سلسلہ بارش میں ہے
کیا کسی موسم میں ہو گا جو مزا بارش میں ہے
یوں کھُلی سڑکوں پر مت پھِرنا کہ موسم غیر ہے
اک تو موسم غیر، پھر ٹھنڈی ہوا بارش میں ہے
آسماں کا عکس پانی میں اترتے ہی کھُلا
آئینے کے سامنے، اک آئینہ بارش میں ہے

زخم اگر گل ہے تو پھر اس کا ثمر بھی ہو گا

زخم اگر گل ہے تو پھر اس کا ثمر بھی ہو گا
ہجر کی رات میں پوشیدہ قمر بھی ہو گا
کون سنتا ہے یہاں پست صدائی اتنی
تم اگر چیخ کے بولو تو اثر بھی ہو گا
کچھ نہ کچھ رختِ سفر پاس بچا کر رکھنا
اک سفر اور پسِ ختمِ سفر بھی ہو گا

دیکھتے خود کو کبھی بھیڑ میں کھو کر تم بھی

دیکھتےخود کو کبھی بھیڑ میں کھو کر تم بھی 
لوگ ہو کر نہیں ہوتے، وہاں ہو کر تم بھی 
میری خواہش تھی کبھی پاس تمہارے رکتا 
اپنے پیروں میں لیے پھرتے ہو چکر تم بھی 
ان درختوں کے تلے پہلے بھی لوگ آئے تھے
نام لکھ جاؤ مِرے دوست! یہاں پر تم بھی 

دم بھر کو چلتے چلتے ہم کیا ٹھہر گئے ہیں

دَم بھر کو چلتے چلتے ہم کیا ٹھہر گئے ہیں
لہرا اٹھے ہیں دریا،۔ صحرا ٹھہر گئے ہیں
تھا جانے کب سے جاری رقصِ نگارِ ہستی
ہم آئے ہیں تو سارے اعضأ ٹھہر گئے ہیں
ماحول کہ سایہ ہمراہ چل رہا ہے
اے شوق چل رہے ہیں ہم یا ٹھہر گئے ہیں

اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم

اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم
حالانکہ یہیں تھے کہیں آئے نہ گئے ہم
گرداب میں کیا ہے جسے طوفان مٹائے
ہاں، گردشِ دوراں سے مٹائے نہ گئے ہم
پالا تھا اسے باد سے باراں سے بچا کر
جس آگ سے اے شمع بچائے نہ گئے ہم

کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں

کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں
رات نے بھید سارے بتائے ہمیں
رازِ ہستی تو کیا کھل سکے گا کبھی
مل گئے تھے مگر کچھ کنائے ہمیں
گرد ہیں کاروانِ گزشتہ کی ہم
کیا اب آنکھوں پہ کوئی بٹھائے ہمیں

شعلہ شوق کی آغوش میں کیوںکر آؤں

شعلۂ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں
اک تمنا ہوں کہ مِٹ جاؤں اگر بر آؤں
ایک نغمہ ہوں اگر ان کے لبوں پر کھیلوں
ایک حسرت ہوں اگر خود کو میسر آؤں
ہر طرف سے مجھے کیا گھور رہی ہیں آنکھیں
خواب ہوں دیدۂ بے دار میں کیوں کر آؤں

پڑھو لا الہ الا اللہ یا سرور عالم صل علٰی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
پڑھو لا الہ الا اللہ یا سرورِ عالم صل علٰی

مالک کے غضب سے ڈرتے چلو
 کلیوں سے دامن بھرتے چلو
تعریف نبیﷺ کی کرتے چلو
پڑھو لا الہ الا اللہ یا سرورِ عالم صل علٰی
سلطانِ دو عالم، ختمِ رُسُلؐ
 اُمی لقب و استادِ کُل

Tuesday, 29 March 2016

آج شور پس دیوار نے سونے نہ دیا

آج شور پس دیوار نے سونے نہ دیا
پھر ہمیں جشن کے آثار نے سونے نہ دیا
آپ کے حسنِ طرحدار نے سونے نہ دیا
کششِ گیسوئے خمدار نے سونے نہ دیا
پھر بھڑک اٹھی ہیں چنگاریاں دل میں کیا کیا
پھر کسی آہِ شرر بار نے سونے نہ دیا

جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا

جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا
سرِ طاق دنیا کا غم رکھ دیا
دِکھا کر ہمیں دو جہانوں کے خواب
دلوں میں غمِ بیش و کم رکھ دیا
سحر دم فلک نے مِرے سامنے
بجائے سبو، خوانِ غم رکھ دیا

رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں

رقم کریں گے تِرا نام انتسابوں میں
کہ انتخابِ سخن ہے یہ انتخابوں میں
مِری بھری ہوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مقید ہیں ان حبابوں میں
ہر آن دل سے الجھتے ہیں دو جہان کے غم
گھِرا ہے ایک کبوتر کئی عقابوں میں

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے

خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے

خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے
تِری آواز اب تک آ رہی ہے
دلِ وحشی لیے جاتا ہے لیکن
ہوا زنجیر سی پہنا رہی ہے
تِرے شہرِ طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے

خوشی یاد آئی یا غم یاد آئے

خوشی یاد آئی یا غم یاد آئے
محبت کے ناز و نعم  یاد آئے
یہ کیوں دم بہ دم ہچکیاں آ رہی ہیں
کِیا یاد تم نے،۔ یا ہم یاد آئے
گلوں کی روش دیکھ کر گلستاں میں
شہیدوں کے نقشِ قدم یاد آئے

نگاہوں سے دل میں سمائے چلا جا

نگاہوں سے دل میں سمائے چلا جا
یونہی میری ہستی پہ چھائے چلا جا
مِرا ذوق ہے معرضِ گفتگو میں
ذرا رخ سے آنچل ہٹائے چلا جا
ابھی زندگی کے ہیں کچھ سانس باقی
چراغِ سحر جھلملائے چلا جا

ان کے جلوے کام اپنا کر گئے

ان کے جلوے کام اپنا کر گئے
ہم ہجومِ آرزو سے ڈر گئے
کیا مزا ہے تجھ میں اب اے زندگی
دوستی کے زخم سارے بھر گئے
مےکدے میں سر جھکائے شیخ جی
خشک لب آئے، دامن تر گئے

شمیم زلف یار آئے نہ آئے

شمیمِ زلف یار آئے نہ آئے
مِرے دل کو قرار آئے نہ آئے
ابھی ہوش آیا ہے اے یادِ جنوں
نہ تڑپا بار بار آئے نہ آئے
چراغِ زندگانی بجھ رہا ہے
وہ جانِ انتظار آئے نہ آئے

مانا جبیں نواز ترا سنگ در نہیں

مانا جبیں نواز تِرا سنگ در نہیں
قسمت میں ٹھوکریں ہیں تو پھر دربدر نہیں
اک انقلاب دیکھ رہا ہوں چمن چمن
میری نظر جہاں ہے تمہاری نظر نہیں
یہ قابلِ لحاظ ہے اس انجمن کی بات
نغموں کو راستہ ہے دعا کا گزر نہیں

کوئی نقش قدم یار ابھرنے نہ دیا

کوئی نقشِ قدمِ یار ابھرنے نہ دیا 
یہ سہارا بھی ہمیں راہگزر نے نہ دیا 
عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا 
شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا 
مئے معمول سے‘‘ ساقی نے گزرنے نہ دیا’’ 
حد سے زائد کبھی اک جام بھی بھرنے نہ دیا 

تو اور پوچھے میرا حال

تُو اور پوچھے میرا حال 
آگ لگا پھر پانی ڈال 
ساقی کی مستانہ چال 
نظریں زخمی، دل پامال 
دل کا داغوں سے وہ حال 
مفلس، لیکن مالا مال 

Monday, 28 March 2016

کس نے دیکھا خم ابرو کو ہے پیمانے میں

کس نے دیکھا خمِ ابرو کو ہے پیمانے میں
چل رہی آج جو تلوار ہے مے خانے میں
رات کو نیند نہ اس ماہ جبیں کو آئی
پھونکا افسوں تھا عجب ہم نے بھی افسانے میں
کیا نزاکت ہے کہ کل عکسِ دُرِ گوش سے آہ
یہ پڑا بوجھ کہ درد اس کے ہوا شانے میں

بہار آئی ہے بھر دے بادۂ گلگوں سے پیمانہ

بہار آئی ہے بھر دے بادۂ گلگوں سے پیمانہ
رہے لاکھوں برس ساقی! تِرا آباد مے خانہ
اسی رشکِ پری پر جان دیتا ہوں میں دیوانہ
ادا جس کی ہے بانکی، تِرچھی چتون، چال مستانہ
نِبھے کیونکر مِرے اور اس پری پیکر کے یارانہ
وہ بے پروا، میں سودائی، وہ سنگیں دل، میں دیوانہ

نہ غنچہ ہے نہ سنبل ہے، پڑا ہے باغ ویرانہ

نہ غنچہ ہے، نہ سنبل ہے، پڑا ہے باغ ویرانا
نہ گل ہے اور نہ بلبل ہے نہ ساقی ہے نہ پیمانا
ذرا اے جان! تم ٹھہرو ہمارے پاس بھی دَم بھر
دلِ بے تاب تو ٹھہرے،۔ چلے جانا، چلے جانا
چھکایا ایک پیالے میں، مجھے تُو نے قیامت تک
سلامت تُو رہے ساقی!،۔ رہے قائم یہ مے خانا

نہ درویشوں کا خرقہ چاہیے نہ تاج شاہانہ

نہ درویشوں کا خرقہ چاہیے، نہ تاجِ شاہانہ
مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانہ
نہ دیکھا وہ کہیں جلوہ، جو دیکھا خانۂ دل میں
بہت مسجد میں سر مارا، بہت سا ڈھونڈا بت خانہ
غنیمت جان جو دم گزرے کیفیت سے گلشن میں
دئیے جا ساقئ پیماں!،۔ بھر بھر کے🍷 پیمانا

شراب ناب ہے ہر رنگ کی اپنے پیالے میں

شرابِ ناب ہے ہر رنگ کی اپنے پیالے میں
وہ طرّہ کون سا گل میں ہے کیا ہے شاخِ لالے میں
فغاں میں، آہ میں، فریاد میں، شیوہ میں، نالے میں
سناؤں دردِ دل طاقت اگر ہو سننے والے میں
نہ کیوں ہولاکھ مستانہ ادائیں میرے نالے میں
گدائے مے کدہ ہوں ہر طرح کی ہے پیالے میں

دیکھیے ان سے ملاتا ہے خدا کون سے دن

دیکھئے ان سے ملاتا ہے خدا کون سے دن
کون سی رات ہو مقبول دعا کون سے دن
اب جدائی کی مصیبت نہیں اٹھتی مجھ سے
سر مِرا تن سے کریں گے وہ جدا کون سے دن
اس بہانے سے نہ آیا وہ مِری میت پر
اس ستمگر نے لگائی ہے حنا کون سے دن

جب کبھی تیری دید ہوتی ہے

جب کبھی تیری دید ہوتی ہے
ہم کو اس روز عید ہوتی ہے
جھک کے ملنا بڑی کرامت ہے
اس سے دنیا مرید ہوتی ہے
اچھے گُن دیکھ، اچھی شکل نہ دیکھ
سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے

جب ترا انتظار ہوتا ہے

جب تِرا انتظار ہوتا ہے
دل بہت بے قرار ہوتا ہے
خودپرستی ہے حسن کی معراج
آپ اپنے سے پیار ہوتا ہے
دل پہ چلتا ہے اختیار ان کا
جب یہ بے اختیار ہوتا ہے

کس قیامت کی تیری انجمن آرائی ہے

کس قیامت کی تیری انجمن آرائی ہے
بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے
گریۂ خوں سے یہاں رخصتِ بینائی ہے
اور وہ پوچھتے ہیں، آنکھ تِری آئی ہے
ذوقِ نظارہ مقدر سے ملے ت مل جائے
یوں تو ہونے کو ہر اک آنکھ میں بینائی ہے

اسم پڑھا اور جسم سے اٹھ کر عشق اٹھایا

اسم پڑھا اور جسم سے اٹھ کر عشق اٹھایا
دل درویش نے مست قلندر عشق اٹھایا
فرش پہ عرش کے بعد مکرر عشق اٹھایا
روح نے اب کے جسم کے اندر عشق اٹھایا
شاعر، صوفی، فلسفہ دان، ولی، پیغمبر
سب نے اپنے ظرف برابر عشق اٹھایا

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار تمنا کہیں جسے

اہل الفت کے حوالوں پہ ہنسی آتی ہے

اہلِ الفت کے حوالوں پہ ہنسی آتی ہے 
ليلیٰ مجنوں کی مثالوں پہ ہنسی آتی ہے 
جب بھی تکميلِ محبت کا خيال آتا ہے 
مجھ کو اپنے ہی خيالوں پہ ہنسی آتی ہے 
لوگ اپنے لیے اوروں ميں وفا ڈھونڈتے ہيں 
ان وفا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے 

ابھرا جب آکاش پہ تارا دونوں وقت ملے

ابھرا جب آکاش پہ تارا، دونوں وقت ملے
میں نے اچانک تجھے پکارا دونوں وقت ملے
سبز درختوں پر چُپ چھائی، ٹھہر گیا دریا
آج نگر سے کون سدھارا، دونوں وقت ملے
رات نے مجھ سے تارے چھینے، دن نے سورج لُوٹا
بھول گیا ہوں نام تمہارا، دونوں وقت ملے

زنداں میں بھی وہی لب و رخسار دیکھتے

زِنداں میں بھی وہی لب و رخسار دیکھتے
دروازہ دیکھتے،۔ کبھی دیوار دیکھتے
کس درجہ آنے والے زمانے کا خوف تھا
بجتا گجر تو شام کے آثار دیکھتے
سب دوڑتے تھے اس کی عیادت کے واسطے
جس کو ذرا سا نیند سے بے دار دیکھتے

یونہی نہیں یہ کائنات جلوت دلنشیں بنی

یونہی نہیں یہ کائنات، جلوتِ دل نشیں بنی
عشق سے ہر فلک بنا، عشق سے ہر زمیں بنی
عشق تمام تر اَنا،۔ عشق میں عاجزی کہاں
عشق وہ ذات ہے کہ جو راحتِ عاشقیں بنی
ہجر میں جھوٹ بول کر، عشق میں رَد ہُوا ہے تُو
نام تو ہو گیا تِرا،۔۔۔ بات تِری نہیں بنی

اگر تجھے ہی نہ محسوس دکھ ہوا میرا

اگر تجھے ہی نہ محسوس دکھ ہوا میرا
تو پھر خدا سے بھی بنتا نہیں گِلہ میرا
تُو مجھ سے ملنے کسی مصلحت سے آیا تھا
کہ تجھ سے ملتے ہوئے دم بہت گھٹا میرا
مِرے گریز میں کچھ دن بسر تو کر مِری جاں
تو اپنے آپ میں پائے گا واقعہ میرا

جھوٹ اور حرص کی دنیا سے پرے رہتے ہیں

جھوٹ اور حرص کی دنیا سے پرے رہتے ہیں
چل مِرے گاؤں، جہاں لوگ کھرے رہتے ہیں
گاؤں کے وسط میں دو جڑواں گھنے برگد ہیں
جو ہمہ وقت پرندوں سے بھرے رہتے ہیں
یار! ہم لوگ ہیں ہاری ہوئی منّت کے چراغ
جو کہ محراب میں کونے پہ دھرے رہتے ہیں

حلقۂ دل زدگاں اور بڑھاؤ آؤ

حلقۂ دل زدگاں اور بڑھاؤ، آؤ
ہم تو کہتے ہیں کہ ہاں عشق کماؤ، آؤ
ہم نہیں بارِ محبت کے سزاوار تو پھر
صاحبو! طنز نہ فرماؤ، اٹھاؤ، آؤ
ہم نہیں روکتے رَستا کسی نو وحشی کا
دشت جاگیر نہیں قیس کی، آؤ، آؤ

سب کے ہوتے ہوئے لگتا ہے کہ گھر خالی ہے

سب کے ہوتے ہوئے لگتا ہے کہ گھر خالی ہے
یہ تکلف ہے کہ جذبات کی پامالی ہے
آسمانوں سے اترنے کا ارادہ ہو تو سن 
شاخ پر ایک پرندے کی جگہ خالی ہے 
جس کی آنکھوں میں شرارت تھی وہ محبوبہ تھی
یہ جو مجبور سی عورت ہے یہ گھر والی ہے

لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں
عشق میں اتنا "خسارہ" ہے تو "گھر" جاتے ہیں
موت کو ہم نے کبھی کچھ نہیں سمجھا، مگر آج
اپنے بچوں کی طرف دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
زندگی "ایسے" بھی "حالات" بنا دیتی ہے
لوگ سانسوں کا کفن اوڑھ کے مر جاتے ہیں

ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس

ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس
میں بندگی کے زعم میں چِلا اٹھا کہ بس
اک کھیل نے ہمارا مقدر بدل دیا
وہ تو ہمیں پکار کے ایسا چھپا کہ بس
پہلے تو اک نشے کو کیا سر پہ خود سوار
پھر یوں کسی خیال سے جی ہٹ گیا کہ بس

جس طرف دیکھئے انبوہ سگاں رقص میں ہے

جس طرف دیکھیے انبوہِ سگاں رقص میں ہے
شہر آشوب لکھے کون، سناں رقص میں ہے
روح کی تھاپ نہ روکو کہ قیامت ہو گی
تم کو معلوم نہیں کون کہاں رقص میں ہے
میں تو مشکل میں ہوں اس تختِ سلیماں پر بھی
اور مِرے چاروں طرف سارا جہاں رقص میں ہے

ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں

ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
آگ بن کر سارے جنگل میں بھڑک سکتا ہوں میں
میں اگر تجھ کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے
اپنے لکھے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں
اک زمانے بعد آیا ہاتھ اس کا ہاتھ میں
دیکھنا یہ ہے مجھے کتنا بہک سکتا ہوں میں

Sunday, 27 March 2016

اک ستارے سے جدا خاک بکف ہوں میں بھی

اک ستارے سے جدا خاک بکف ہوں میں بھی
کوزہ گر دیکھ مجھے تیری طرف ہوں میں بھی
یہی خلوت ہے مِرا تختِ سلیماں کب سے
اِس خرابے میں زہے عز و شرف ہوں میں بھی
اتنا بے چین کہاں تھا میں گہر بننے کو
اپنے ساحل پہ گرفتارِ صدف ہوں میں بھی

عشق ہر چند مری جان سدا کھاتا ہے

عشق ہر چند مِری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے
آہ کب تک میں بکوں تیری بلا سنتی ہے
باتیں لوگوں کی جو کچھ دل مجھے سنواتا ہے
ہم نشیں پوچھ نہ اس شوخ کی خوبی مجھ سے
کیا کہوں تجھ سے غرض جی کو مِرے بھاتا ہے

ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا

ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
پر اسے آہ کچھ اثر نہ کیا
سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا
کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز
سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا
جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تُو نے آنکھ بھر دیکھا
نالہ، فریاد، آہ اور زاری
آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا

انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا

انداز وہ ہی سمجھے مِرے دل کی آہ کا
زخمی جو کوئی ہوا ہو کسی کی نگاہ کا
زاہد کو ہم نے دیکھ لیا جوں نگیں بہ عکس
روشن ہوا ہے نام تو اس رُو سیاہ کا
ہر چند فسق میں تو ہزاروں ہیں لذتیں
لیکن عجب مزہ ہے فقط جی کی چاہ کا

خود حجابوں سا، خود جمال سا تھا

خود حجابوں سا، خود جمال سا تھا
دل کا عالم بھی بے مثال سا تھا​
عکس میرا بھی آئینوں میں نہیں
وہ بھی اِک کیفیت خیال سا تھا​
دشت میں، سامنے تھا خیمۂ گل
دورِیوں میں عجب کمال سا تھا​

Saturday, 26 March 2016

پہلو میں تھی بہار ابھی کل کی بات ہے

پہلو میں تھی بہار ابھی کل کی بات ہے
دل تھام حریمِ یار ابھی کل کی بات ہے
وہ مل گئے تو ہم کو ہوئی قدرِ زندگی
جینا تھا ناگوار ابھی کل کی بات ہے
وہ شدت الم ہے کہ اب آنکھیں نم نہیں
رہتے تھے اشکبار ابھی کل کی بات ہے

ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے

ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے
وہ ساتھ نہ دیں پھر دھوپ تو کیا سائے میں بھی چلنا مشکل ہے
اب ہم پہ کھلا یہ راز چمن، الجھا کے بہاروں میں دامن
کانٹوں سے گزرنا آساں تھا، پھولوں سے نکلنا مشکل ہے
یارانِ سفر ہیں تیز قدم اے کشمکشِ دل کیا ہو گا
رکتا ہوں تو بچھڑا جاتا ہوں، چلتا ہوں تو چلنا مشکل ہے

رنگ رخ سے نہ کھلے نہ دل کا حال

رنگِ رخ سے نہ کھلے نہ دل کا حال
مجھ کو اے احتیاطِ عشق! سنبھال
اب ہے یہ احتیاطِ عشق کا حال
سانس لینا بھی ہو گیا ہے محال
بارہا تیری یاد میں گزرا
وہ بھی لمحہ کہ ہجر ہے نہ وصال

رہا یوں ہی نامکمل غم عشق کا فسانہ

رہا یوں ہی نامکمل، غمِ عشق کا فسانہ
کبھی مجھ کو نیند آئی، کبھی سو گیا زمانہ
یہ ادائیں بہکی بہکی،۔ یہ نگاہ ساحرانہ
کہ جہاں بھی تُو نے چاہا، وہیں رک گیا زمانہ
ذرا اپنے حسنِ خودبیں کو شکست سے بچانا
مِری ہر نظر ہے جلوہ، مِرے سامنے نہ آنا

ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا

ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا
کہ قتل کرنا ہو جس کو کہا نہیں جاتا
یہ کم ہے کیا کہ مِرے پاس بیٹھا رہتا ہے
وہ جب تلک مِرے دل کو دُکھا نہیں جاتا
تمہیں تو شہر کے آداب تک نہیں آتے
زیادہ کچھ یہاں پوچھا گُچھا نہیں جاتا

بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون

بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون
بچا ہی کیا ہے مِری خاک کو نکالے کون
تُو دوست ہے تو زباں سے کوئی قرار نہ کر
نہ جانے تجھ کو کسی وقت آزما لے کون
لہو میں تیرتا پھرتا ہے میرا خستہ بدن
میں ڈوب جاؤں تو زخموں کو دیکھے بھالے کون

ہے صدف گوہر سے خالی روشنی کیونکر ملے

ہے صدف گوہر سے خالی روشنی کیونکر ملے
آج شاید راستے میں کوئی پیغمبر ملے
کیسی رُت آئی کہ سارا باغ دشمن ہو گیا
شاخِ گل میں بھی ہمیں تلوار کے جوہر ملے
دور تک جن راستوں پر منتظر بیٹھے تھے لوگ
لوٹ کر بادِ صبا آئی تو کچھ پتھر ملے

میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا

میں نے مانا کام ہے نالہ دلِ ناشاد کا
ہے تغافل شیوہ آخر کس ستم ایجاد کا
ہائے وہ دل جو ہدف تھا ناوکِ بیداد کا
درد سہتا ہے وہی اب غفلتِ صیاد کا
نرگسِ مستانہ میں کیفیتِ جامِ شراب
قامتِ رعنا پہ عالم مصرعۂ استاد کا

ہوس سود میں سودائے زیاں کرتا ہوں

ہوسِ سود میں سودائے زیاں کرتا ہوں
جو مجھے چاہیے کرنا وہ کہاں کرتا ہوں
دل پھُنکا جاتا ہے، پر آہ کہاں کرتا ہوں
کس قدر پاس تِرا سوزِ نہاں کرتا ہوں
حال دل کچھ تو نگاہوں سے عیاں کرتا ہوں
اور کچھ طرزِ خموشی سے بیاں کرتا ہوں

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
 بس کچھ چلتا نہیں، کیا مفت جاتی ہے بہار
لالہ و گل نے ہماری خاک پر ڈالا ہے شور
کیا قیامت ہے موؤں کو بھی ستاتی ہے بہار
نرگس و گل کی دیکھو  کلیاں کھلی جاتی ہیں سب
پھر بھی انہی خوابیدہ مستوں کو جگاتی ہے بہار

چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا

چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا،۔ گل اپنا،۔ باغباں اپنا
الم سے یان تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا
ڈبایا ہائے آنکھوں نے مژہ کا خاندان اپنا

Friday, 25 March 2016

تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ

تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ
ہم نے ہر اک رنگ کو جانا تِرے آنچل کا رنگ
تیری آنکھوں کی چمک ہے ستاروں کی ضیا
رات کا ہے گھپ اندھیرا یا تِرے کاجل کا رنگ
دھڑکنوں کے تال پر وہ حال اپنے دل کا ہے
جیسے گوری کے تھرکتے پاؤں میں پائل کا رنگ

بیکار جو بیٹھا ہے تو کچھ کام ہی کر لے

بے کار جو بیٹھا ہے تو کچھ کام ہی کر لے
تُو دل پہ کوئی عشق کا الزام ہی دھر لے
آئیں گی ہر اک سمت سے بھنوروں کی صدائیں
اس زلف کی مہکار ذرا اور بکھر لے
ہر روز ملا کرتی نہیں حسن کی دولت
پلکوں سے اٹھا کر اسے جذبات میں بھر لے

یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی

ساحر کے لیے

یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی
وہ اک بیمارِ غم جو زندگی بھر کم سے کم سویا
نہ وہ جی بھر کے خود سویا نہ کوئی اس کا غم سویا
مگر اب کے اب وہ اپنے درد کی قسم کھا کر سویا
کبھی پہلے نہیں تھی بے قراری جو اسے اب تھی
یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی

قفس کا خوف نشیمن کا احترام نہیں

قفس کا خوف، نشیمن کا احترام نہیں
جنوں کے بعد کسی کو خرد سے کا م نہیں
شکم نے دل کی حقیقت بھی کھول دی آخر
مقامِ رزق سے آگے کوئی مقام نہیں
اگر حیات ہے باقی تو کائنات بھی ہے
ہمی نہ ہوں تو کسی چیز کو دوام نہیں

ٹکڑوں کو دل کے چنتا رہا ہوں تمام رات

ٹکڑوں کو دل کے چنتا رہا ہوں تمام رات
کانٹوں پہ جیسے چلتا رہا ہوں تمام رات
جاتے ہوئے وہ کہہ نہ سکی مجھ کو الوداع
یہ سوچ کے میں روتا رہا ہوں تمام رات
کس جرم کی سزا ہمیں لمحے میں مل گئی
جیتا رہا ہوں مرتا رہا ہوں تمام رات

جنازہ عدل کا نکلا ہے اک بیمار کے ہاتھوں

جنازہ عدل کا نکلا ہے اک بیمار کے ہاتھوں
عدالت بِک گئی اک بار پھر زردار کے ہاتھوں
ابھی پھر وار اس نے کر دیا دن کے اجالے میں
ابھی اک زخم کھایا تھا اسی تلوار کے ہاتھوں
بھروسا تھا سہارے کا ہمیں دیوار پہ لیکن
ہماری چھت گری گھر کی اسی دیوار کے ہاتھوں

عمر بھر عشق کسی طور نہ کم ہو آمین

عمر بھر عشق کسی طور نہ کم ہو، آمین 
دل کو ہر روز عطا نعمتِ غم ہو، آمین 
میرے کاسے کو ہے بس چار ہی سکوں کی طلب
عشق ہو،۔ وقت ہو،۔ کاغذ ہو،۔ قلم ہو، آمین 
حجرۂ ذات میں، یا محفلِ یاراں میں رہوں  
فکر دنیا کی مجھے ہو بھی تو کم ہو، آمین

بند آنکھو وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا

بند آنکھو! وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا 
اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا 
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا 
جب بھی تم چاہو جدا ہونا، جدا ہو جانا
تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ہرا ہو جانا

تم احتیاط کے مارے نہ آئے بارش میں

تم احتیاط کے مارے نہ آئے بارش میں
ہمارے ساتھ پرندے نہائے بارش میں
کھڑے تھے دونوں طرف پیڑ چھتریاں لے کر
کہ راستہ نہ کہیں بھیگ جائے بارش میں 
میں اتنے رنگ بکھرتے نہ دیکھ پاؤں گا
خدارا کوئی بھی تتلی نہ جائے بارش میں

Thursday, 24 March 2016

کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں

کہیں سے نیلے، کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں
ہمارے پیروں میں کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں
کہیں تو جھکنا پڑے گا نانِ جویں کی خاطر
نہ جانے کس کے کہاں نوالے پڑے ہوئے ہیں
وہ خوش بدن جس گلی سے گزرا تھا اس گلی میں
ہم آج بھی اپنا دل سنبھالے پڑے ہوئے ہیں

خزاں کا رنگ درختوں پہ آ کے بیٹھ گیا

خزاں کا رنگ درختوں پہ آ کے بیٹھ گیا 
میں تلملا کےاٹھا، پھڑپھڑا کے بیٹھ گیا 
کسی نے جام اچھالا بنامِ شامِ الم 
کوئی ملال کی وحشت چھپا کے بیٹھ گیا 
ملا نہ جب کوئی محفل میں ہم نشینی کو
میں اک خیال کے پہلو میں جا کے بیٹھ گیا 

میں رقص کناں حلقہ زنجیر سے نکلا

میں رقص کناں حلقۂ زنجیر سے نکلا 
ایک اور مقدر میری تقدیر سے نکلا 
اس عالمِ وحشت سے نکلنا تھا مجھے بھی 
گِریہ کی طرح میں دلِ دلگیر سے نکلا 
دنیا تِری نسبت سے ہی رنگین نہیں ہے 
میں آج تِرے نام کی جاگیر سے نکلا 

مجھے اداس کر گئے ہو خوش رہو

مجھے اداس کر گئے ہو، خوش رہو 
مِرے مزاج پر گئے ہو، خوش رہو 
مِرے لیے نہ رک سکے تو کیا ہوا 
جہاں کہیں ٹھہر گئے ہو، خوش رہو 
خوشی ہوئی ہے آج تم کو دیکھ کر 
بہت نکھر سنور گئے ہو، خوش رہو 

عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں لہو تو نہیں

عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں لہو تو نہیں
یہ کوئی اور جگہ ہو گی، لکھنؤ تو نہیں
یہاں تو چلتی ہیں چھریاں زبان سے پہلے
یہ میر انیس کی، آتش کی، گفتگو تو نہیں
تم اس کا رکھ لو کوئی اور نام موزوں سا
کِیا ہے خون سے جو تم نے، وضو تو نہیں

مری آنکھ کھل گئی یک بیک مری بیخودی کی سحر ہوئی

مِری آنکھ کُھل گئی یک بیک، مِری بے خودی کی سحر ہوئی
کہ مآلِ عشق سے آشنا یہ فریب خوردہ نظر ہوئی
وہ حسِین رُت بھی بدل گئی، وہ فضا بھی زیر و زبر ہوئی
ہوئی موت مجھ سے قریب تر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی
تِرے التفات نے کر دیا تھا مجھے نصیب سے بے خبر
میں تمام کیف و سرور تھا، مِری حد میں غم کا نہ تھا گزر

مجھے اے اہل کعبہ یاد کیا میخانہ آتا ہے

مجھے اے اہلِ کعبہ یاد کیا مے خانہ آتا ہے
اِدھر دیوانہ جاتا ہے، اُدھر پروانہ آتا ہے
نہ دل میں غیر آتا ہے، نہ صاحب خانہ آتا ہے
نظر چاروں طرف ویرانہ ہے، ویرانہ آتا ہے
تڑپتا،۔ لوٹتا،۔ اڑتا جو بے تابانہ آتا ہے
یہ مرغِ نامہ بر آتا ہے یا پروانہ آتا ہے

دل کی کلی نہ تجھ سے کبھی اے صبا کھلی

دل کی کلی نہ تجھ سے کبھی اے صبا کھلی
چمپا کھلی، گلاب کھلا، موتیا کھلی
ہم تو اسیرِ دام ہیں صیاد! ہم کو کیا
گلشن میں گر بہار بہت خوشنما کھلی
نالوں سے شق ہوا نہ جگر پاسبان کا
دیوارِ قید خانہ مگر بارہا کھلی

طبعیت کوئی دن میں بھر جائےگی

طبعیت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی
رہیں گی دمِ مرگ تک خواہشیں
یہ نیت کوئی آج بھر جائے گی
نہ تھی یہ خبر ہم کو اپنی بہار
ادھر آئے گی اور ادھر جائے گی

اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو

اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار! کہ تُو
میں ہر اک شخص سے رکھتا ہوں سروکار کہ تو
کم ثباتی مِری ہر دم ہے مخاطب بہ حباب
دیکھیں تو پہلے ہم اس بحر سے ہوں پار کہ تو
ناتوانی مِری گلشن میں یہ ہی بحثے ہے
دیکھیں اسے نکہتِ گل! ہم ہیں سبکبار کہ تو

غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس اگر اپنا

غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس اگر اپنا
تو ہنس کے وہ بولے ہے، میاں! فکر کر اپنا
باتوں سے کٹے کس کی بھلا راہ ہماری
گر بت کے سوا کوئی نہیں ہمسفر اپنا
عالم میں ہے گھر گھر خوشی و عیش، پر اس بن
ماتم کدہ ہم کو نظر آتا ہے گھر اپنا

اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پہ اپنا

اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پہ اپنا
جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا
کوچۂ دہر میں غافل نہ ہو پابندِ نشست
رہگزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا
غمزدہ اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ
زانوئے غم سے لیکن نہ اٹھا سر اپنا

امشب کسی کاکل کی حکایات ہیں واللہ

امشب کسی کاکل کی حکایات ہیں واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ
دل لوٹ لیا اس نے دِکھا دستِ حنائی
کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے واللہ
عالم ہے جوانی کا،۔ اور ابھرا ہوا سینہ
کیا گھات ہے، کیا گھات ہے، کیا گھات ہے واللہ

Tuesday, 22 March 2016

دل دے کے ہوا اس کو گنہگار تو میں ہوں

دل دے کے ہوا اس کو گنہگار تو میں ہوں
دے کس کو سزا وہ کہ سزاوار تو میں ہوں
ہے کون، کہ ایذا ہو جسے اپنی گوارا
ہوں اپنے اگر درپئے آزار تو میں ہوں
کہتا ہے مجھے عشق کہ تو غم سے ہراساں
کس واسطے ہے،۔ تیرا مددگارتو میں ہوں

محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو

محبت چاہیے باہم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
خوشی ہو اس میں یا ہو غم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہم اپنا عشق چمکائیں،۔۔ تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم، ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہمیشہ چاہتا ہے دل کہ مل کر کیجے مے نوشی
میسر جام ہے جم جم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو

یہ بزم میں نہیں ساقی شراب اڑتی ہے

یہ بزم میں نہیں ساقی شراب اڑتی ہے
ہماری دولتِ عمرِ شباب اڑتی ہے
عرق فشاں گلِ رخسار آج ہیں کس کے
صبا! چمن میں جو بوئے گلاب اڑتی ہے
کرے ہے قتل ہزاروں کو تیری تیغِ نگاہ
نہ اس کا مٹتا ہے جوہر، نہ آب اڑتی ہے

اے ظفر جو شباب کے دن تھے

اے ظفر جو شباب کے دن تھے
بس وہی خورد و خواب کے دن تھے
دورِ عشرت تھا اور عہدِ نشاط
جامِ صہبائے ناب کے دن تھے
تھا نہ کچھ خوفِ روزِ حساب
گُنۂ بے حساب کے دن تھے

ترے بغیر سکون و قرار کو ترسے

تِرے بغیر سکون و قرار کو ترسے
بہار میں بھی ہم اپنی بہار کو ترسے
ملا نہ چین کسی کل انہیں بھی تڑپا کر
قرار چھین کے وہ بھی قرار کو ترسے
وہ سامنے تھے مگر چشمِ شوق اٹھ نہ سکی
دمِ وصال بھی دیدارِ یار کو ترسے

ہوں ازل سے منتظر بیٹھا ہوا

ہوں ازل سے منتظر بیٹھا ہوا
اک قیامت آپ کا وعدہ ہوا
وہ تو الزامِ وفا سے بچ گئے
عشق میرا مفت میں رسوا ہوا
بات جو نظروں نے نظروں سے کہی
دور تک اس بات کا چرچا ہوا

خدا کے واسطے اب بے رخی سے کام نہ لے

خدا کے واسطے اب بے رخی سے کام نہ لے
تڑپ کے پھر کوئی دامن کو تیرے تھام نہ لے
بس اک سجدۂ شکرانہ پائے نازک پر
یہ مے کدہ ہے یہاں پر خدا کا نام نہ لے
زمانے بھر میں ہیں چرچے میری تباہی کی
میں ڈر رہا ہوں کوئی تیرا نام نہ لے

ہم سے بات میں پیچ نہ ڈال

ہم سے بات میں پیچ نہ ڈال
یوں مت دل کے چور نکال
مرنا ہے تو ڈرنا کیا
چلتا ہے کیوں چور کی چال
جوگی کو لوگوں سے کام
بین بجا اور سانپ نکال

یہاں تو پھر وہی دیوار و در نکل آئے

یہاں تو پھر وہی دیوار و در نکل آئے
کدھر سے یار چلے تھے کدھر نکل آئے
کہاں کا پائے وفا اور کہاں کا دشتِ طلب
کہ اب تو رستے کئی مختصر نکل آئے
ہوا رفیق نہ بے گار شوق میں کوئی
مقامِ زر پہ کئی معتبر نکل آئے

Monday, 21 March 2016

شریک بزم تمنا کی جستجو بھی گئی

شریکِ بزمِ تمنا کی جستجو بھی گئی
بجھے چراغ بھی، جینے کی آرزو بھی گئی
وہ رُت گزر بھی چکی جس میں پھول کھلنے تھے
دیارِ خواب سے تعبیرِ رنگ و بو بھی گئی
ہے زخم زخم سراپا  مِرا وجود، مگر
وہ بے دلی ہے کہ اب کاوشِ رفو بھی گئی

پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر

پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر
 اپنی شکستگی کا بھی تھوڑا خیال کر
ڈس لے تمہیں کو نہ موقع نکال کر
رکھو نہ آستیں میں کوئی سانپ پال کر
شرمندگی کا زخم نہ گہرا لگے کہیں
کچھ اس قدر دراز نہ دستِ سوال کر

تمہا رے چاہنے سے اور کیا ہو گا مری جاں

تمہا رے چاہنے سے اور کیا ہو گا مِری جاں
بدل جا ئے گی کیا یہ صورت دنیا مری جاں
نظر آتا نہیں لیکن رگ و پے میں رواں ہے
حقیقت سے ہے کیسا خواب کا رشتہ مری جاں
جگہ سے بے جگہ ہونا نہ پڑ جائے تمہیں بھی
بدلتا جا رہا ہے شہر کا نقشہ مری جاں

دن ڈھل چکا ہے اور گھڑی بھر کی شام ہے

دن ڈھل چکا ہے اور گھڑی بھر کی شام ہے
پھر اس کے بعد آج کا قصہ تمام ہے
اس زندگی سے میری نبھے گی تو کس طرح
میں سست رو ہوں اور یہ بہت تیز گام ہے
لاحاصلی کا ساتھ نہ چھوٹا تمام عمر
سینے میں خواہشوں کا وہی ازدحام ہے

حضور شاہ میں کوئی نہ سر خمیدہ ملا

حضورِ شاہ میں کوئی نہ سر خمیدہ ملا
اگرچہ دامنِ دل سب کا ہی دریدہ ملا
رہائی کیوں نہ ملی، اس کو چھوڑئیے لیکن
گواہ مجھ کو ہمیشہ ہی کور دیدہ ملا
کسی کے چہرے پہ خوشیوں کے پھول کھل نہ سکے
جسے بھی دیکھا وہی مجھ کو آب دیدہ ملا

شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی

شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی 
بکھر گیا جو ہوا سے نقشِ پا ہی سہی 
یہ حکم ہے کہ گئے موسموں کو یاد کروں
نئی رتوں کا تجسس مجھے ملا ہی سہی 
زمیں کے بعد ابھی آسماں کے دکھ بھی سہوں
مِرے لیے یہ سزا ہے بڑی عطا ہی سہی 

ہر اک بستی میں طوفاں آ گیا ہے

ہر اک بستی میں طوفاں آ گیا ہے
نہیں ہے کوئی جو زندہ بچا ہے
ہر اک کو موت کا دھڑکا لگا ہے
جسے دیکھو وہی سہما ہوا ہے
کہاں جاؤں میں اپنی پیاس لے کر
سمندر ریت کا پھیلا ہوا ہے

وہ خود سراب ہے لوگوں کو آب کیا دے گا

وہ خود سراب ہے اوروں کو آب کیا دے گا
جو اک فریب ہے وہ احتساب کیا دے گا
وہ میرے دور کا چنگیز ہے کسے معلوم
نہ جانے شہر کو تازہ عذاب کیا دے گا
وہ جس کے ہاتھ سے میرا لہو ٹپکتا ہے
وہ اپنے ظلم کا مجھ کو حساب کیا دے گا

مجھ سے بیگانہ رہا کرتی تھی شب بھر چاندنی

مجھ سے بیگانہ رہا کرتی تھی شب بھر چاندنی
ہو گئی اب تو میرے غم کی خوگر چاندنی
تن دریدہ تیرگی کو ڈھانپنے کے واسطے
لے کے آئی ہے نئی کرنوں کی چادر چاندنی
میں اندھیرے میں چلا تھا جانبِ منزل، مگر
چلتے چلتے بن گئی رستے میں رہبر چاندنی

آرزو نے جس کے پوروں سے تھا سہلایا مجھے

آرزو نے جس کے پوروں سے تھا سہلایا مجھے
راکھ آخر کر گیا اس چاند کا سایہ مجھے
گھپ اندھیرے میں اس کا جسم تھا چاندی کا شہر
 چاند جب نکلا عجب منظر نظر آیا مجھے
آنکھ پر تنکوں کی چلمن، ہونٹ پر لوہے کا قفل
تُو دلِ بے خانماں! کس گھر میں لے آیا مجھے

Saturday, 19 March 2016

جمال اسم شفق تاب سے عطا ہے مجھے

جمالِ اسمِ شفق تاب سے عطا ہے مجھے
کہ خاک و خواب کی نِسبت کا بھی پتا ہے مجھے
یہ میں جو آخرِ شب لَو پزیر ہوتا ہوں
دِیے نے اپنی طرح کا بنا لیا ہے مجھے
عبور کرنے سے پہلے یہ جھیل غور سے دیکھ
یہ آبِ زرد تو کچھ اور لگ رہا ہے مجھے

سکوت شام کا حصہ تو مت بنا مجھ کو

سکوتِ شام کا حصہ تو مت بنا مجھ کو
میں رنگ ہوں سو کسی موج سے ملا مجھ کو
میں ان دنوں تِری آنکھوں کے اختیار میں ہوں
جمالِ سبز! کسی تجربے میں لا مجھ کو
میں بوڑھے جسم کی ذِلت اٹھا نہیں سکتا
کسی قدیم تجلی سے کر نیا مجھ کو

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر
اپنا وجود اپنے لیے تو بحال کر
تیرا طلوع تیرے سوا تو کہیں نہیں
اپنے میں ڈوب اپنے ہی اندر زوال کر
اوروں کے فلسفے میں تِرا کچھ نہیں چھپا
اپنے جواب کے لیے خود سے سوال کر

اک سانولی کو عشق ہوا ہے فقیر سے

اک سانولی کو عشق ہوا ہے فقیر سے
شیلے کی نظم ملنے لگی روحِ میرؔ سے
روزِ ازل سے دائمی رشتہ ہے جانِ جاں
ہر غم پزیر روح کا ہر لَو پزیر سے
میں کیسے عشق چھوڑ کے دنیا سمیٹ لوں
میں کیسے انحراف کروں اپنے پیر سے

مجھے تم زندگی کہتی ہو اپنی

مجھے تم زندگی کہتی ہو اپنی 
اگر یوں ہے 
اگر میں ہی تمہاری زندگی ہوں تو 
تمہاری زندگی میں 
روشنی، خوشبو، ہواؤں، چاند تاروں سے مزین کوئی بھی لمحہ نہیں ہے 
بس دھواں ہے 

بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں

بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
بجھے ٹکڑے پڑے ہیں سگریٹوں کے راکھ دانوں میں
دھوئیں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے
ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں
بھلی لگتی ہے آنکھوں کو نئے پھولوں کی رنگت بھی
پرانے زمزمے بھی گونجتے رہتے ہیں کانوں میں

تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں

تم آئے ہو، تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
ہوائیں جن کی اندھی کھڑکیوں پر سر پٹکتی ہیں
میں ان کمروں میں پھر شمعیں جلا کر دیکھ لیتا ہوں
عجب کیا اس قرینے سے کوئی صورت نکل آئے
تِری باتوں کو خوابوں سے ملا کر دیکھ لیتا ہوں

ہر لمحہ ظلمتوں کی خدائی کا وقت ہے

ہر لمحہ ظلمتوں کی خدائی کا وقت ہے
شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے
کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ
ہشیار! ندیوں کی چڑھائی کا وقت ہے
ہوتے ہی شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے

لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں

لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں
سبب یہ ہے کہ اک مدت کنارے پر رہا ہوں میں
یہ جھونکے جن سے دل میں تازگی آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
انہی جھونکوں سے مرجھایا ہوا شب بھر رہا ہوں میں
تِرے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکھٹے کر رہا ہوں میں

آنکھوں کے بند باب لئے بھاگتے رہے

آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے
تھے سیکڑوں سوال، جوابوں کی بھیڑ میں
جینے کا ہم عذاب لیے بھاگتے رہے

چھوڑا ہے جس نے لا کے ہمیں اس بہاؤ تک

چھوڑا ہے جس نے لا کے ہمیں اس بہاؤ تک
وہ بھی ہمارے ساتھ تھا پچھلے پڑاؤ تک
حیرت پہ اختیار تھا، لیکن کچھ ان دنوں
عادت میں آ گئے ہیں بدن کے یہ گھاؤ تک
گھر جا کے لوٹنے کی ہے مہلت ہمیں کہاں
بازار ہی میں ٹھہریں گے تم سے نِبھاؤ تک

ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے

ہوائیں تیز تھیں، یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا
سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے

چہرے ہیں بد حواس تو آنکھیں بجھی بجھی

چہرے ہیں بدحواس تو آنکھیں بجھی بجھی
اے شہر دلبراں! تجھے کس کی نظر لگی
ماحول زرد زرد سا،۔ چپ چاپ ہے ہوا
آندھی کہیں قریب کی بستی سے پھر اٹھی
بستی سے دور، دن ڈھلے، پیڑوں کی چھاؤں میں
دیکھی ہے میں نے ایک صدا رینگتی ہوئی

یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو

فلمی گیت

یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو

آپ ہی اپنے تڑپنے کا مزا لیتے ہیں
ہنس کے ہر غم کو وہ سینے سے لگا لیتے ہیں

دل ہو کہ جاں میرا نام و نشاں تیرے پیار کے سنگ رہے

گیت

دل ہو کہ جاں، میرا نام و نشاں، تیرے پیار کے سنگ رہے
ہو وہ سماں کہ تمام جہاں، ہمیں دیکھ کے دنگ رہے

جانِ چمن، تیری سانس کرن، تیرا روپ سحر کی طرح
تیری نظر، میری راہگزر، تیری چاپ گجر کی طرح
طے ہو سفر، تیرے ساتھ اگر تو جوان امنگ رہے

شیشے میں چہرہ چہرے پہ آنکھیں

شیشے میں چہرہ، چہرے پہ آنکھیں
آنکھوں کے پیچھے، سپنوں کا جنگل
جنگل میں دریا، دریا میں لہریں
لہروں پہ کشتی، کشتی میں ہلچل
جذبات نکھریں، جب مجھ پر بکھریں
چندا کی کرنیں، شاخوں کے سائے

دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے
ایک لمحے کو مجھے اپنا زمانہ دے دے
چھاپ دے اپنے خد و خال مِری آنکھوں پر
پھر رہائش کے لیے آئینہ خانہ دے دے
اور کچھ تجھ سے نہیں مانگتا میرے آقا
نا رسائی کو زیارت کا بہانہ دے دے

بیگانگی کا ابر گراں بار کھل گیا

بے گانگی کا ابرِ گراں بار کھُل گیا
شب میں نے اس کو چھیڑا تو وہ یار کھل گیا
گلیوں میں شام ہوتے ہی نکلے حسین لوگ
ہر رہگزر پہ طبلۂ عیار کھل گیا
ہم نے چھپایا لاکھ مگر چھپ نہیں سکا
انجام کار رازِ دلِ زار کھل گیا

اور ہیں کتنی منزلیں باقی

اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں
خواب معدوم،۔ حسرتیں باقی

آتما کا روگ

آتما کا روگ

شراپ دے کے جا چکے ہیں سخت دل مہاتما
سمے کی قید گاہ میں بھٹک رہی ہے آتما
کہیں سلونے شیام ہیں نہ گوپیوں کا پھاگ ہے
نہ پائلوں کا شور ہے نہ بانسری کا راگ ہے
بس ان اکیلی رادھِکا ہے اور دکھ کی آگ ہے

اپنے گھر کو واپس جاؤ رہ رہ کر سمجھاتا ہے

اپنے گھر کو واپس جاؤ رہ رہ کر سمجھاتا ہے
جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے
اس کو بھی تو جا کر دیکھو اس کا حال بھی مجھ سا ہے
چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مر جاتا ہے
مجھ سے محبت بھی ہے اس کو لیکن یہ دستور ہے اس کا
غیر سے ملتا ہے ہنس ہنس کر مجھ سے ہی شرماتا ہے

Tuesday, 15 March 2016

جو دیا تو نے ہمیں وہ صورت زر رکھ لیا

جو دیا تُو نے ہمیں وہ صورتِ زر رکھ لیا
تُو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر ر کھ لیا
سسکیوں نے چار سُو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا
گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا

فیصلہ اس نے سنایا بھی نہیں تعزیر کا​

فیصلہ اس نے سنایا بھی نہیں تعزیر کا​
پڑ گیا ہے دل پہ پہلے ہی نشاں زنجیر کا​
خط چھپاؤں کس طرح سے محرمِ دلگیر سے​
لفظ ہر اک بولتا ہے پیار کی تحریر کا​
باقی سارے خط پہ دھبے آنسوؤں کے رہ گئے​
ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تِری تحریر کا​

میں بہہ رہا تھا کسی بحر بے خبر کی طرح

میں بہہ رہا تھا کسی بحرِ بے خبر کی طرح
وہ رقص کرتا ہوا آ گیا بھنور کی طرح
ہر اک لکیر ہے ہاتھوں پہ رہگزر کی طرح
یونہی تو عمر نہیں کٹ رہی سفر کی طرح
یونہی تو لوگ نہیں ڈوبتے ہیں مٹی میں
زمیں جو گھوم رہی ہے کسی بھنور کی طرح

سرخی وصل پس دیدۂ تر پانی میں

سرخئ وصل پسِ دیدۂ تر پانی میں
کہاں دیکھے تھے عدیمؔ اتنے شرر پانی میں
تِری یادیں پسِ بادیدۂ تر پانی میں
کون کہتا ہے کہ بنتے نہیں گھر پانی میں
ڈوبتے یوں ہی نہیں دیدۂ تر پانی میں
یہی آنسو ہیں جو بنتے ہیں گہر پانی میں

مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ

مرتے ہیں تِرے پیار سے ہم اور زیادہ
تُو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
دے کیونکہ نہ وہ داغِ الم اور زیادہ
قیمت میں بڑھے دل کی درم اور زیادہ
ساتھ اپنے ہے اب فوجِ الم اور زیادہ
کر تُو بھی بلند آہ علم اور زیادہ

رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو 
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو 
ناخن نہ دے خدا تجھے اے پنجۂ جنوں 
دے گا تمام عقل کے بخیے ادھیڑ تُو 
اس صیدِ مضطرب کو تحمل سے ذبح کر 
دامان و آستیں نہ لہو میں لتھیڑ تُو 

دل عبادت سے چرانا اور جنت کی طلب

دل عبادت سے چرانا اور جنت کی طلب
کام چور اس کام پر کس منہ سے اجرت کی طلب
حشر تک دل میں رہے اس سروقامت کی طلب
یہ طلب ہے اپنی یارب کس قیامت کی طلب
دل سلگ جائے نہ جب تک اور بھڑک جائے نہ جہاں
کم نہ ہو قلیاں کش سوزِ محبت کی طلب

پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے

پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے
زنجیرِ پا ہے موجِ نسیمِ چمن مجھے
ہمدم وبالِ دوش نہ کر پیرہن مجھے
کانٹا سا کھٹکتا ہے مِرا تن بدن مجھے
ہوں شمع یا کہ شعلہ خبر کچھ نہیں مگر
فانوس ہو رہا ہے مرا پیرہن مجھے

ایڑیوں تک تری چوٹی کی رسائی ہوتی

ایڑیوں تک تِری چوٹی کی رسائی ہوتی
کل جو آنی تھی بلا، آج ہی آئی ہوتی
روزِ بِحراں شبِ تاریک جدائی ہوتی
مرضِ عشق و طبیعت سے لڑائی ہوتی
قدِ موزوں رخِ رنگیں جو دکھاتا تو انہیں
سر و قمری، گل و بلبل میں جدائی ہوتی

خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے

 خواہاں تِرے ہر رنگ میں اے یار ہمِیں تھے
یوسفؑ تھا اگرتُو، تو خریدار ہمیں تھے
بے داد کی محفل میں سزاوار ہمیں تھے
تقصیر کسی کی ہو، گنہگار ہمیں تھے
وعدہ ہمیں سے لبِ بام آنے کا ہوتا
سایہ کی طرح سے پسِ دیوار ہمیں تھے

ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کے دل تمام

ہوتا ہے سوزِ عشق سے جل جل کے دل تمام
کرتی ہے روح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عشق رکھتے ہیں تجھ سے حسینِ دہر 
دم بھرتے ہیں تِرا بتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک، کیا کریں 
خالی ہیں تیل سے تِرے چہرے کے تِل تمام

مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں

مِرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مِرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں
کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما نہیں

Monday, 14 March 2016

جس وقت نظر کوئی وہاں اور ہے آتا

جس وقت نظر کوئی وہاں اور ہے آتا
اس وقت میرے دل میں گماں اور ہے آتا
میرے دلِ نالاں کے جو نالوں سے ہو نالاں
کیا کوئی یہاں نالہ کناں اور ہے آتا
اے یاس و الم جاؤ مِرے خانۂ دل سے
مہمان کوئی اب تو یہاں اور ہے آتا

سوزش داغ الم سے پہلے بھیجا جل گیا

سوزشِ داغِ الم سے پہلے بھیجا جل گیا
بعد اس کے دل جلا اور پھر کلیجا جل گیا
اف مِرے مضمونِ سوزِ دل میں بھی کیا آگ ہے
خط جو قاصد اس کو میں نے لکھ کے بھیجا، جل گیا
تفتہ جانوں کو تِرے دوزخ ہے گلزارِ بہشت
وہ وہاں آرام سے ہے،۔ تُو کہے جا جل گیا

خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو

خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بے داد تُو
پر جو فریادی ہیں ان کی سن تو لے فریاد تو
دم بدم بھرتے ہیں ہوا خواہی کا دم
کر نہ بدخواہوں کے کہنے سے ہمیں برباد تو
کیا گُنہ، کیا جرم، کیا تقصیر میری، کیا خطا
بن گیا جو اس طرح حق میں میرے جلاد تو

کوچے میں اپنے دے وہ صنم مجھ کو گر جگہ

کوچے میں اپنے دے وہ صنم مجھ کو گر جگہ
باقی رہے نہ سجدہ سے بالشت بھر جگہ
دل سے نہیں نکلتا کسی طرح تیرِ غم
پکڑی ہے اس نے چارہ گرو اس قدر جگہ
وہ کون ہے کہ جسں کے لیے یہ شعاعِ مہر
جاروب لے کے جھاڑے ہے وقتِ سحر جگہ

عشق کا لطف غم سے اٹھتا ہے

عشق کا لطف غم سے اٹھتا ہے
غم جو اٹھتا ہے ہم سے اٹھتا ہے
فتنہ ان کے قدم سے اٹھتا ہے
ہر قدم کس ستم سے اٹھتا ہے
دیکھیے کیا فساد قاصد پر
میری طرزِ رقم سے اٹھتا ہے

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مِری مان جائیے
الله! تیری شان کے قربان جائیے
بگڑے ہوئے مزاج کو پہچان جائیے
سیدھی طرح نہ مانئے گا مان جائیے
کس کا ہے خوف روکنے والا ہی کون ہے
ہر روز کیوں نہ جائیے، مہمان جائیے

خرید کر دل عاشق کو یار لیتا جا

خرید کر دلِ عاشق کو یار لیتا جا
نہ ہوں جو دام گِرہ میں ادھار لیتا جا
نہ چھوڑ طائرِ دل کو ہمارے اے صیاد
یہ اپنے ساتھ ہی اپنا شکار لیتا جا
نکل کے جلد نہ جا اس قدر توقف کر
دعائے خیر،۔ دلِ بے قرار لیتا جا

شب وصل ضد میں بسر ہو گئی

شبِ وصل ضد میں بسر ہو گئی
نہیں ہوتے ہوتے سحر ہو گئی
نِگہ غیر پر بے اثر ہو گئی
تمہاری نظر کو نظر ہو گئی
کسک دل میں پھر چارہ گر ہو گئی
جو تسکیں پہر دوپہر ہو گئی

آنکھوں کے لیے جشن کا پیغام تو آیا

آنکھوں کے لیے جشن کا پیغام تو آیا 
تاخیر سے ہی چاند لبِ بام تو آیا
اس باغ میں اک پھول کھِلا میرے لیے بھی
خوشبو کی کہانی میں مِرا نام بھی تو آیا
پت جھڑ کا زمانہ تھا تو یہ بخت ہمارا
سیرِ چمنِ دل کو وہ گلفام تو آیا

گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے

گونگے لبوں پہ حرفِ تمنا کیا مجھے
کس کور چشم شب میں ستارا کیا مجھے
زخمِ ہنر کو سمجھے ہوئے ہے گل ہنر
کس شہرِ ناسپاس میں پیدا کیا مجھے
جب حرف ناشناس یہاں لفظ فہم ہیں
کیوں ذوقِ شعر دے کے تماشا کیا مجھے

پہنچے جو سر عرش تو نادار بہت تھے

پہنچے جو سرِ عرش تو نادار بہت تھے
دنیا کی محبت میں گرفتار بہت تھے
گھر ڈوب گیا اور انہیں آواز نہیں دی
حالانکہ مِرے سلسلے اس پار بہت تھے
چھت پڑنے کا وقت آیا تو کوئی نہیں آیا
دیوار گِرانے کو رضاکار بہت تھے

اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی

اپنی تقدیر کو پیٹے جو پریشاں ہے کوئی 
آپ کے بس میں علاجِ غمِ دوراں ہے کوئی 
ٹوکیے اس کو جو اس وقت غزلخواں ہے کوئی 
جیل میں نغمہ سرائی کا بھی امکاں ہے کوئی 
اپنی مرضی سے تو اگتے نہیں خودرَو پودے 
ہم غریبوں کا بہرحال نگہباں ہے کوئی 

مشکل سے اس بت کی قسمیں

مشکل سے اس بت کی قسمیں
دو سچی ہوتی ہیں دس میں
کاش مِرا دل بس میں ہوتا
ورنہ اس محفل کی رسمیں
اس کافر پر آئی جوانی
اور جوانی کس کے بس میں

راحت ملی نہ کاوش عزم سفر گئی

راحت ملی نہ کاوشِ عزمِ سفر گئی
منزل اگر یہی ہے تو دل سے اتر گئی
دشمن چھپے ہوئے ہیں جہاں تاک میں وہاں
میری نظر گئی نہ تمہاری نطر گئی
ممنونِ زلفِ دوست ہے بزمِ خیالِ یار
چاہا سنور گئی جو نہ چاہا بکھر گئی

ملی ہوئی ہے جو عزت عطا سمجھتے ہیں

ملی ہوئی ہے جو عزت، عطا سمجھتے ہیں
ہم ایسے لوگ خدا کو، خدا سمجھتے ہیں
کہاں چراغ بجھانا ہے،۔ کب جلانا ہے
کہاں کہاں ہے کہاں کی ہوا سمجھتے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ جلنا ہے آج خیموں نے
تمہاری آگ اگلتی نوا سمجھتے ہیں

لگی ہو آگ بجھانے کوئی نہیں آتا

لگی ہو آگ، بجھانے کوئی نہیں آتا
کسی کے گھر کو بچانے کوئی نہیں آتا
اس ایک بات نے ثابت قدم رکھا مجھ کو
گرے پڑوں کو اٹھانے کوئی نہیں آتا
بھٹکنا پڑتا ہے خود اپنی ذات کے اندر
کسی کو راہ دکھانے کوئی نہیں آتا

آگ دنیا میں لگانے کے لیے کافی ہے

آگ دنیا میں لگانے کے لیے کافی ہے
تِری تصویر جلانے کے لیے کافی ہے
ایک ہلکا سا اشارا بھی تِری آنکھوں کا
دل میں طوفان اٹھانے کے لیے کافی ہے
تِری آنکھوں کے کنارے پہ بسے لوگوں کو
ایک ریلہ ہی بہانے کے لیے کافی ہے

کس خرابے میں یہ انسان چلے آتے ہیں

کس خرابے میں یہ انسان چلے آتے ہیں
زندگی کرنے کو نادان چلے آتے ہیں
تم مجھے ره سے ہٹاؤ گے تو پچھتاؤ گے
میرے سائے میں تو طوفان چلے آتے ہیں
جس طرف جلوه نما ہوتا ہے وه سارے لوگ
آئینے تھام کے حیران چلے آتے ہیں

پیش نظر ہے عشق تو ہرگز دعا نہ مانگ

پیشِ نظر ہے عشق تو ہرگز دعا نہ مانگ
قرباں ہو شمعِ حسن پہ اور خوں بہا نہ مانگ
ترکِ خودی کو ترک خدایا کہ ترکِ ترک
عاشق ہے  بے غرض تو کوئی مدعا نہ مانگ
آنکھوں ہی آنکھوں میں لبِ فریاد پیش کر
کچھ بھی تو آشنا سے بجر آشنا نہ مانگ

درد کو نیچا دکھانا آ گیا

درد کو نیچا دکھانا آ گیا
چوٹ کھا کر مسکرانا آ گیا
مرثیہ خوانی سے اب گھٹتا ہے دم
زندگی کا گیت گانا آ گیا
رنجِ ناکامی سے دل بجھتا نہیں
وقت سے زور آزمانا آ گیا

عمر جینے میں جو گنوائی ہے

عمر جینے میں جو گنوائی ہے
بس وہی اپنے کام آئی ہے
قیدِ الفت سے بھاگنے والو
یہ اسیری نہیں رہائی ہے
بارہا حسن کے تبسم نے
درد و غم کی جھلک دکھائی ہے

دل کی بستی عجیب بستی ہے

دل کی بستی عجیب بستی ہے
یہ اجڑنے کے بعد بستی ہے
ابرِ نِیساں برس کے نہ ہو خجل
چشمِ ساقی سے مے برستی ہے
سارا عالم ہے خواب کا عالم
ساری ہستی، فریبِ ہستی ہے

زہر غم ہنس ہنس کے پینا چاہیے

زہرِ غم ہنس ہنس کے پینا  چاہیے
موت آنے تک تو جینا چاہیے
ایک تنکا ڈوبتے کا آسرا
کون کہتا ہے سفینا چاہیے
حسن کے جلووں سے جی بھرتا نہیں
ہر قدم پر طورِ سینا چاہیے

Sunday, 13 March 2016

یار تھا گلزار تھا مے تھی فضا تھی میں نہ تھا

یار تھا، گلزار تھا، مے تھی، فضا تھی، میں نہ تھا
لائقِ پا بوسِ جاناں کیا حنا تھی، میں نہ تھا
ہاتھ کیوں باندھے مِرے، چھلا اگر چوری ہو گیا
یہ سراپا شوخئ  دزدِ حنا تھی، میں نہ تھا
بے خودی میں لے لیا بوسہ، خطا کیجے معاف
یہ دل بے تاب کی ساری خطا تھی، میں نہ تھا

منہ نظر آوے نہ کیوں کر آنکھ میں اس یار کا

منہ نظر آوے نہ کیونکر آنکھ میں اس یار کا
آنکھ اپنی بن گئی ہے آئینہ دیدار کا
صفحۂ قرآن پر کھینچی ہے اک جدولِ سیاہ
مصحفِ رخ پر وہ سایہ زلف کے ہر تار کا
پاس ابرو کے مرصع کار ٹیکا ہے کہاں
ہے میاں قبضہ جڑاؤ یار کی تلوار کا

تیر تیرا جس کے سینہ سے گزر کر جائے گا

تیر تیرا جس کے سینہ سے گزر کر جائے گا
آپ جائے گا گزر، پر دل میں گھر کر جائے گا
وہ مقامِ عیش ہے دنیا کہ یاں سے جیتے جی
کون جاتا ہے اگر جائے گا مر کر جائے گا
چپکے چپکے نالہ کب سینے سے جائے گا نکل
جائے گا جس وقت یہ سب کوخبر کر جائے گا

اپنی جانب کو جسے تو نے لبھایا ہو گا

اپنی جانب کو جسے تُو نے لبھایا ہو گا
کوئی اور اس کو سوا تیرے نہ بھایا ہو گا
در تلک جس کو رسائی تِرے ہو گی اس نے
سنگِ در چوم کے آنکھوں سے لگایا ہو گا
دے گا وہ حرص و ہوس کو نہ کبھی دل میں جگہ
دل میں جس شخص کے تُو آپ سمایا ہو گا

Saturday, 12 March 2016

زخم دل کا وہ نظارا ہے کہ جی جانے ہے

زخمِ دل کا وہ نظارا ہے کہ جی جانے ہے
اتنا احسان تمہارا ہے کہ جی جانے ہے
دیکھنا پھر کہیں زلفیں نہ پریشاں ہو جائیں
اتنا مشکل سے سنوارا ہے کہ جی جانے ہے
یہ حسیں دور، جسے موسمِ گل کہتے ہیں
ایسا رو رو کے گزارا ہے کہ جی جانے ہے

پہلو نہ دکھے گا تو گزارا نہیں ہو گا

پہلو نہ دکھے گا تو گزارا نہیں ہو گا
ہم سا بھی کوئی درد کا مارا نہیں ہو گا
ہر شعر ہے تصویر مِرے زخمِ جگر کی
ہاں دیکھ، کہ پھر ایسا نظارا نہیں ہو گا
تُو سب کی سنے ہے کبھی میری بھی غزل سن
پھر ایسا خوش اسلوب دوبارا نہیں ہو گا

ذرا تلخیوں کا مزا لو تو جانیں

ذرا تلخیوں کا مزا لو تو جانیں
ہماری طرح دل لگا لو تو جانیں
پہاڑوں کو ہم نے اٹھایا ہے دل پر
تم اک کنکری بھی اٹھا لو تو جانیں
ستم سہتے جاؤ،۔ وفا کرتے جاؤ
دعائیں دو اور بددعا لو تو جانیں

نہ جانے کہاں جی ڈبوئے رہے ہیں

نہ جانے کہاں جی ڈبوئے رہے ہیں
کلیم آج کل کھوئے کھوئے رہے ہیں
خودی بھی نہیں بیخودی بھی نہیں ہے
نہ جاگے رہے ہیں نہ سوئے رہے ہیں
جو اشعار نکلے ہیں ان کی زباں سے
انہیں کے لہو میں ڈبوئے رہے ہیں

Friday, 11 March 2016

دل محو جمال ہو گیا ہے

دل محوِ جمال ہو گیا ہے
یا صَرفِ خیال ہو گیا ہے
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے
ہر لمحہ ہے آہ، آہ، لب پر
ہر سانس وبال ہو گیا ہے

ہم پہ وہ کب نگاہ کرتے تھے

ہم پہ وہ کب نگاہ کرتے تھے
اک ہمیں ان کی چاہ کرتے تھے
ہم تو بس ان کی چاہ  کرتے تھے
اور وہ ہم کو تباہ کرتے تھے
ان کی زلفوں کی یاد میں شب کو
دل جلا کر سیاہ کرتے تھے

نہیں سنتا دل ناشاد میری

نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری
رہائی کی امیدیں مجھ کو معلوم
تسلی کر نہ اے صیاد! میری
نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری

زندگی ایک اذیت ہے مجھے

زندگی ایک اذیت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے
دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے
تِری صورت، تِری زلفیں،۔ ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے

جوانی ہے غزل خوانی کے دن ہیں

جوانی ہے غزل خوانی کے دن ہیں
تمناؤں کی نادانی کے دن ہیں
نگاہوں میں جھجک ہے دل میں دھڑکن
محبت کی نگہبانی کے دن ہیں
بہت معصوم ہے ایک ایک لغزش
غرورِ پاک دامانی کے دن ہیں

تغافل خود ہے اقرار محبت

تغافل خود ہے اقرارِ محبت
یہ خاموشی ہے گفتارِ محبت
نہاں ہو یا نمایاں ہے بہرطور
محبت ہے سزاوارِ محبت
دلِ مہتاب ہو یا چشمِ انجم
نہیں ہے کون بیمارِ محبت

ہمیں رسم سفر آئی نہ انداز قیام آیا

ہمیں رسمِ سفر آئی نہ اندازِ قیام آیا
نجانے ہم کہاں ہوں گے اگر ان کا پیام آیا
دیارِ رنگ و نکہت میں گزر کیا ہوشمندوں کا
یہ پیغامِ بہار آیا تو دیوانوں کے نام آیا
سبو ہے شعلہ فشاں سایۂ دامانِ ساقی میں
لباسِ ہوش و تمکیں پھونک دینے کا مقام آیا

وفا کو پردۂ محرومئ دوام کیا

وفا کو پردۂ محرومئ دوام کیا
تمام عمر تِرے غم کا احترام کیا
انہیں نقاب اٹھانا بھی ہو گیا دشوار
کچھ اس طرح سے نگاہوں نے اژدہام کیا
خوشا وہ دردِ محبت کہ جس نے خود بڑھ کر
دلِ حزیں کی تسلی کا اہتمام کیا

اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے

اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے
ایک بھی شام نہ پھر اس نام سے خالی جائے
آنکھوں میں کاجل کی پرت جما لی جائے
سکھیوں سے یوں پریت کی جوت چھپا لی جائے
ریت ہے، سورج ہے، وسعت ہے، تنہائی ہے
لیکن، کب اس دل کی خام خیالی جائے

مرے گھر سے تمہارے آستاں تک

مِرے گھر سے تمہارے آستاں تک
گماں کے رنگ ہیں حدِ گماں تک
کئی موسم ہیں پھیلے درمیاں میں
بہاروں سے تِری، میری خزاں تک
ابھی سے رات کیوں ڈھلنے لگی ہے
ابھی آئیں نہیں باتیں زباں تک

سیکڑوں خوف مرے دل میں جڑے ہیں صاحب

سیکڑوں خوف مِرے دل میں جڑے ہیں صاحب
مِرے ڈر میرے رگ و پے میں گڑے ہیں صاحب
اِس برس ہم کو ستایا ہے زمانے نے بہت
سارے موسم تِرے ہجراں سے کڑے ہیں صاحب
آج پوچھے نہ کوئی صبر کے معنی ہم سے
آج ہم آخری منزل پہ کھڑے ہیں صاحب

سانس بھر کے لیے مل پائی رسائی مجھ کو

سانس بھر کے لیے مل پائی رسائی مجھ کو
پھر اسی شہر میں تقدیر ہے لائی مجھ کو
میں تِری قبر کی مٹی ہی جو چھونے پاتی
عمر بھر کے لیے کافی تھی کمائی مجھ کو
تُو یہیں ایسے ہی رستوں میں چلا کرتی تھی
تیری آہٹ مِری آنکھوں نے دکھائی مجھ کو

Thursday, 10 March 2016

میں جگنوؤں کی طرح رات بھر کا چاند ہوئی

میں جگنوؤں کی طرح رات بھر کا چاند ہوئی
ذرا سی دھوپ نکل آئی،۔ اور ماند ہوئی
حدودِ رقص سے آگے نکل گئی تھی کبھی
سو مورنی کی طرح عمر بھر کو راند ہوئی
مہِ تمام! ابھی چھت پہ کون آیا تھا؟
کہ جس کے آگے تِری روشنی بھی ماند ہوئی

جب ہو کے صبا کوچۂ تعزیر سے آئی

جب ہو کے صبا کوچۂ تعزیر سے آئی 
آواز عجب حلقۂ زنجیر سے آئی
خوشبو کا دریچہ بھی کھلا رنگ کے ہمراہ
اک یاد بھی لپٹی ہوئی تصویر سے آئی
گُل لے گئے عطار، ثمر کھا گئے طائر
سورج کی کرن باغ میں تاخیر سے آئی

ہوا سے جنگ میں ہوں بے اماں ہوں

ہوا سے جنگ میں ہوں بے اماں ہوں
شکستہ کشتیوں پر بادباں ہوں
میں سورج کی طرح ہوں دھوپ اوڑھے
اور اپنے آپ پر خود سائباں ہوں
مجھے بارش کی چاہت نے ڈبویا
میں پختہ شہر کا کچا مکاں ہوں

مرجھانے لگی ہیں پھر خراشیں

مرجھانے لگی ہیں پھر خراشیں
آؤ، کوئی زخم گر تلاشیں
ملبوس ہیں کہ نیلی طشتری میں
رقصاں ہیں سفیدیوں کی قاشیں
پیڑوں کی قبا ہی تھی قیامت
اور اس پہ بہار کی تراشیں

گو ہمیں حاصل جو تھی وہ تن آسانی گئی

گو ہمیں حاصل جو تھی وہ تن آسانی گئی
دوستو! لیکن تمہاری ذات پہچانی گئی
باغباں بدلا تو ہم سمجھے پریشانی گئی
خیر، جلدی ہی یہ خوش فہمی یہ نادانی گئی
جا رہے ہیں دوست یوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
جس طرح ان سے مِری صورت نہ پہچانی گئی

آپ کا رتبہ سلامت آپ من مانی کریں

آپ کا رتبہ سلامت،۔ آپ من مانی کریں 
دوسروں کو درسِ عبرت ہو وہ نادانی کریں 
خوشنما غزلیں جو شاعر صرفِ عریانی کریں 
کس طرح ظاہر زمانے کی ستم رانی کریں 
جب بھی دھندلائے شرافت خستہ حالی کے سبب 
عارضِ عصمت پہ آنسو شبنم افشانی کریں 

تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے

تجربے جن کو جنوں کے نہ گریبانوں کے 
طنز کرتے ہیں وہ حالات پہ دیوانوں کے 
کہہ رہے ہیں کہ پڑو پاؤں نگہبانوں کے 
آپ ہمدرد ہیں ہم سوختہ سامانوں کے 
کھل گئے بھید جو رندوں پہ جہاں بانوں کے 
ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے 

ان کے مداح اس زمانے میں

ان کے مداح اس زمانے میں 
جیسے کتے، قصائی خانے میں 
جن کے پینے میں ہوں نہ کھانے میں 
منہمک ہیں مجھے ستانے میں 
’’سوچیے تو پڑے گی کَے گھر کی‘‘ 
بات بگڑی اگر بنانے میں 

Wednesday, 9 March 2016

دل بیتاب تو جب تجھ سے ملا دیکھیں گے

دل بے تاب تو جب تجھ سے ملا دیکھیں گے
پھر تڑپنا تِرا اے قبلہ نما! دیکھیں گے
چشم سے پردۂ غفلت جو اٹھا دیکھیں گے
سب سے باہم تجھے اور سب سے جدا دیکھیں گے
آئینے کو ہے پریشاں نظری کا لپکا
ہم کسی اور کو کب تیرے سوا دیکھیں گے

ہم سے مستی میں بھی خم کا نہ گلو ٹوٹ گیا​

ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلُو ٹوٹ گیا​
تجھ سے پر ساقئ کم ظرف! سبُو ٹوٹ گیا​
شیخ صاحب کی نمازِ سحری کو ہے سلام​
حسنِ نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا​
پیچ و تاب اس دلِ صد چاک نے کھایا جو کوئی
دستِ شانہ سے تِری زلف کا مُو ٹوٹ گیا​

موسم گل میں عجب رنگ ہے میخانے کا

موسمِ گل میں عجب رنگ ہے مے خانے کا
 شیشہ جھکتا ہے کہ منہ چوم لے پیمانے کا
خوب انصاف تِری انجمنِ ناز میں ہے
شمع کا رنگ جمے، خون ہو پروانے کا
میں سمجھتا ہوں تِری عشوہ گری اے ساقی
کام کرتی ہے نظر،۔۔ نام ہے پیمانے کا

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

نگاہ برق نہیں،۔۔ چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جوابِ خشک سنوں ساقیا! یہ تاب نہیں
جواب دے کہ نہ دے یہ نہ کہہ شراب نہیں
ہمیں تو دور سے آنکھیں دکھائی جاتی ہیں
نقاب لپٹی ہے اس پر کوئی عتاب نہیں

صبا نے مجھ کو سنگھائی ہے جب سے بو تیری

صبا نے مجھ کو سنگھائی ہے جب سے بُو تیری 
چمن چمن لیے پھرتی ہے جستجُو تیری 
اب اور تیر لگانے کی کیا ضرورت ہے 
کھٹک رہی ہے کلیجے میں آرزُو تیری 
یہ چار چاند مِرے عشق نے لگائے ہیں 
کہ آج حسن میں شہرت ہے چار سُو تیری 

آج تک دل کی آرزو ہے وہی

آج تک دل کی آرزُو ہے وہی
پھُول مُرجھا گیا ہے بُو ہے وہی
سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تُو ہے وہی
تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
تجھ سے ملنے کی آرزُو ہے وہی

Tuesday, 8 March 2016

چارہ سوز جگر کب قرب جانانہ ہوا

چارۂ سوزِ جگر کب قربِ جانانہ ہوا
شمع کے پہلو میں جل کر خاک پروانہ ہوا
ایک قطرہ آبِ نیساں کا صدف کی گود میں
فرضِ حسنِ تربیت سے درِ یک دانہ ہوا
التفاتِ عشق سے بڑھتا رہا القابِ حسن
جان سے جاناں ہوا، جاناں سے جانانہ ہوا

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا 
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا 
قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے 
مدد اتنی اے بال و پرواز دینا 
نہ خاموش رہنا مِرے ہم صفیرو 
جب آواز دوں، تم بھی آواز دینا 

سوز و گداز عشق کے قابل نہیں رہا

سوز و گدازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس سے فروغِ حسن تھا وہ دل نہیں رہا
اللہ رے بے حجابئ حسنِ نظارہ سوز
پردہ نگاہِ شوق کا حائل نہیں رہا
یوسفؑ کا حسن عشقِ زلیخا کو دے دعا
عودِ شباب اب کوئی مشکل نہیں رہا

مری لحد پہ کوئی سوگوار تک نہ رہا

مِری لحد پہ کوئی سوگوار تک نہ رہا
ہوا چلی کہ چراغِ مزار تک نہ رہا
ہوئے بھی حضرتِ ناصح تو کب کرم فرما
جب اپنے دل پہ ہمیں اختیار تک نہ رہا
جنوں میں ہم نے جہاں کی ہے جادہ فرسائی
وہاں جو دیکھئے اب کوئی خار تک نہ رہا

یہ عشق کب دل خانہ خراب سے چھوٹا

یہ عشق کب دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا
بہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھوٹا
دل اس کے گیسوئے پُرپیچ و تاب سے چھوٹا
بڑی بلا سے یہ نکلا، عذاب سے چھوٹا
نگاہِ مست نے سرشار کر دیا مجھ کو
شراب مجھ سے چھٹی میں شراب سے چھوٹا

کچھ لاگ کچھ لگاؤ محبت میں چاہیے

کچھ لاگ کچھ لگاؤ محبت میں چاہئے
دونوں طرح کا رنگ طبیعت میں چاہئے
یہ کیا کہ بت بنے ہوئے بیٹھے ہو بزم میں
کچھ بے تکلفی بھی تو خلوت میں چاہئے
وہ ابتدائے عشق میں حاصل ہوئی مجھے
جو بات انتہائے محبت میں چاہئے

تم لگا دو عاشق دل گیر پر

تم لگا دو عاشقِ دل گیر پر
ناز ہو جس تیغ پر جس تیر پر
چارہ گر مرتے ہیں کیوں تدبیر پر
چھوڑ دیں مجھ کو مِری تقدیر پر
اس نگاہِ امتحاں کو دیکھنا
ہے کبھی مجھ پر کبھی شمشیر پر

کیا ہم نے عذاب شب ہجراں نہیں دیکھا

کیا ہم نے عذابِ شبِ ہجراں نہیں دیکھا
تم کو نہ یقیں آئے تو ہاں ہاں نہیں دیکھا
کيا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ ديکھوں
پھر بھی يہ کہوں جلوۂ جاناں نہيں ديکھا
جو دیکھتے ہیں دیکھنے والے تِرے انداز
تُو نے وہ تماشا ہی مِری جاں نہيں ديکھا

Monday, 7 March 2016

مرتے ہیں ترے پیار سے ہم اور زیادہ

مرتے ہیں تِرے پیار سے ہم اور زیادہ
تُو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
گھبرانا جو یاد آیا تِرا ہو کے ہم آغوش
گھبرانے لگا سینہ میں دم اور زیادہ
تیز اس نے جو کی تیغِ ستم اور زیادہ
مشتاقِ شہادت ہوئے ہم اور زیادہ

نگہ کا وار تھا دل پر پھڑکنے جان لگی

نِگہ کا وار تھا دل پر، پھڑکنے جان لگی
چلی تھی برچھی کسی پر، کسی کے آن لگی
تِرا زباں سے مِلانا زباں جو یاد آیا
نہ ہائے ہائے میں تالو سے پھر زبان لگی
کسی کے دل کا سنو حال، دل لگا کر تم
جو ہووے دل کو تمہارے بھی، مہربان لگی

ترے کوچے کو وہ بیمار غم دارالشفا سمجھے

تِرے کوچے کو وہ بیمارِ غم دارالشفا سمجھے 
اجل کو جو طبیب اور مرگ کو اپنی دوا سمجھے   
ستم کو ہم کرم سمجھے،۔۔ جفا کو ہم وفا سمجھے 
اور اس پر بھی نہ سمجھے وہ تو اس بت سے خدا سمجھے
تجھے اے سنگ دل آرامِ جانِ مبتلا سمجھے 
پڑیں پتھر سمجھ پر اپنی ہم سمجھے تو کیا سمجھے

وہ کون ہے مجھ پر جو تاسف نہیں‌ کرتا

وہ کون ہے مجھ پر جو تأسف نہیں‌ کرتا
پر میرا جگر دیکھ کہ میں‌ اف نہیں‌ کرتا   
کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں‌ ان کے 
اور دم مِرا جانے میں توقف نہیں‌ کرتا   
دل فقر کی دولت سے مِرا اتنا غنی ہے 
دنیا کے زر و مال پہ میں تف نہیں‌ کرتا

Saturday, 5 March 2016

دل کی حالت ہے اضطرابی پھر

دل کی حالت ہے اضطرابی پھر
کوئی لائے گا یہ خرابی پھر
ایک مدت کے بعد خوابوں کا
پیرہن ہو گیا گلابی پھر
لے رہی ہے طویل رات کے بعد
زندگی غسلِ آفتابی پھر

نیم خوابی کا فسوں ٹوٹ رہا ہو جیسے

نیم خوابی کا فسوں ٹوٹ رہا ہو جیسے
آنکھ کا نیند سے دل چھوٹ رہا ہو جیسے
رنگ پھیلا تھا لہو میں، نہ ستارہ چمکا
اب کے ہر لمس تِرا جھوٹ رہا ہو جیسے
پھر شفق رنگ ہوئی کوچۂ جاناں کی زمیں
آبلہ پاؤں کا پھر پھوٹ رہا ہو جیسے

دنیا سے بے نیاز ہوں اپنی ہوا میں ہوں

دنیا سے بے نیاز ہوں،۔ اپنی ہوا میں ہوں
جب تک میں تیرے دل کی محبت سرا میں ہوں
اِک تخت اور میرے برابر وہ شاہ زاد
لگتا ہے آج رات میں شہرِ سبا میں ہوں
خوشبو کو رقص کرتے ہوئے دیکھنے لگی
سحرِ بہار میں کہ طلسمِ صبا میں ہوں

بار احساں اٹھائے جس تس کا

بارِ احساں اٹھائے جس تِس کا
دل اسیرِ طلب ہوا کس کا
ایک پل میں گزر گئی وہ شام
صبح سے انتظار تھا جس کا
یہ دعائے شفا ہے، یا کچھ اور
اس نے بھیجا ہے پھول نرگس کا

بادل برس رہا تھا وہ جب میہماں ہوا

بادل برس رہا تھا وہ جب میہماں ہُوا
کل شام وہ مجھ پہ عجب مہرباں ہوا
شاخِ گلِ انار کھِلی بھی تو سنگ میں
وہ دل تِرا ہوا یا لبِ خوں فشاں ہوا
مرغِ سحر کی تیز صدا پچھلی رات کو
ایسی تھی جیسے کوئ سفر پر رواں ہوا