Saturday, 31 August 2024

لا میں اور الا میں پوشیدہ ہے تقدیر جہاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

لاالہ الا ﷲ


لا میں اور اِلا میں پوشیدہ ہے تقدیرِ جہاں

لا ہے عرفانِ خودی، اِلا ہے تسخیرِ جہاں

قوم ہو یا فردِ واحد، لا جلال اِلا جمال

لا ہے آزادی تو اِلا رفعت و اوجِ کمال

لا سناتا ہے حدیثِ قبلِ آغازِ حیات

موجزن ہے کلمۂ اِلا میں آوازِ حیات

بے نوا وقت کی تند و تیز موجیں

 بے نوا


وقت کی تند و تیز موجیں

میرے چاروں جانب بہتی رہیں

اور میں بہ رغبت و رضا

اس کی ہر جگر پاش چوٹ سہتی رہی

ایک مبہم سی آس کے سہارے

کہ شاید کبھی

غم نے دلوں کو رام کیا اور گزر گیا

 غم نے دلوں کو رام کیا، اور گزر گیا

ظالم نے اپنا کام کیا، اور گزر گیا

صیاد کچھ تو خاطر اہل وفا کرے

یہ کیا اسیر دام کیا، اور گزر گیا

اے ساقیٔ! بہار تِرے ذوق کے نثار

ہر گُل کو ایک جام کیا، اور گزر گیا

دعائیں مانگ کے دل کو قرار رہتا ہے

 دعائیں مانگ کے دل کو قرار رہتا ہے

تِرے کرم کا ہمیں انتظار رہتا ہے

وہ میرے درد کو پڑھتا ہے میرے چہرے سے 

نمی ہو آنکھ میں تو بے قرار رہتا ہے

اگر کبھی میں جِھڑک دوں کسی سوالی کو

مِرا ضمیر بہت شرمسار رہتا ہے

نے کثرت سپاہ نہ ہتھیار دیکھ کر

 نے کثرت سپاہ نہ ہتھیار دیکھ کر

پسپا ہوا عدو مِرا کردار دیکھ کر

تلوار میں نے ڈال لی واپس میان میں

رستہ مذاکرات کا ہموار دیکھ کر

دُشمن نے پیش قدمی اچانک ہی روک لی

بانکے سجیلے جسموں کی دیوار دیکھ کر

ہوا کے دوش پہ اب میرا آشیانہ ہے

 ہوا کے دوش پہ اب میرا آشیانہ ہے

مجھے خبر ہے یہی گردشِ زمانہ ہے

قرار جاں ہیں بہاروں کے کچھ سِتم لیکن

خزاں کا طرزِ عمل بھی تو دوستانہ ہے

چمن میں حُسنِ تجلّی کا رنگ پھیل گیا

کلی کے رُخ پہ ہنسی جب سے عارفانہ ہے

وہ کعبے کی پر نور تجلیاں وہ مدینے کی مہکتی ہوئی گلیاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت 


وہ کعبے کی پر نور تجلیاں 

وہ مدینے کی مہکتی ہوئی گلیاں 

وہ مِنیٰ کے خیموں میں ساری رات جاگنا 

وہ عرفات میں رو رو کر بخشش کی بھیک مانگنا 

مُزدلفہ کی وہ تھکی تھکی سی رات

وہ پتھروں کا نشانہ بنتے جمرات

نبی تو رحمت حق ہیں نبی کو کیا کہیے

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نبیؐ تو رحمتِ حق ہیں نبیؐ کو کیا کہیے

سوال یہ ہے کہ اُن کے وصی کو کیا کہیے

خدا کے گھر میں جو پیدا ہوا بشکل بشر

خدا سے پوچھیے اُس آدمی کو کیا کہیے

قدم ہوا پہ ہوں اور ہاتھ میں درِ خیبر

یہ سوچتا ہوں کہ ایسے ولی کو کیا کہیے

فقط یہی ہے امید اک ہمارے جینے کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


فقط یہی ہے امید اک ہمارے جینے کی

نظر میں رہتی ہے ہر دم گلی مدینے کی

گلُوں کی ذات میں خُوشبو کا شائبہ ہی کہاں

مہک گُلوں میں ہے سرکارؐ کے پسینے کی

دیارِ احمدِ مختارﷺ اک نگینہ ہے

ہمیشہ بات کرو تم اسی نگینے کی

نقش نعلین کا جس نے بھی ہے پہنا تعویذ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نقشِ نعلین کا جس نے بھی ہے پہنا تعویذ

ہر مصیبت سے اُسے پھر ہے بچاتا تعویذ

اس لیے میں نے کسی سے بھی نہ مانگا تعویذ

اسمِ احمدﷺ کا وظیفہ ہی ہے میرا تعویذ

شوقِ دیدار جو ہو خوب بڑھاتا تعویذ

دلِ بیمار نے ہر دم وہی چاہا تعویذ

بے برگ نہ ہو ان کی محبت کا شجر دیکھ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بے برگ نہ ہو ان کی محبت کا شجر، دیکھ

پھر شوق سے ہر شاخ تمنا پہ ثمر دیکھ

محروم اگر تو ہے مدینے کے سفر سے

مایوس نہ ہو دیکھنے والوں کی نظر دیکھ

قر آن کے ہر لفظ میں مدحت ہے نبیؐ کی

آئے گی نظر چشم بصیرت سے مگر دیکھ

Friday, 30 August 2024

ہر گھڑی سانس ماجرا کیا ہے

 ہر گھڑی سانس ماجرا کیا ہے

زیست سے میرا رابطہ کیا ہے

قید ہیں خواب اک پرندے کے

پنجرے کی سمت دیکھتا کیا ہے

تتلیاں پھُول یا پری چہرے

خواب میں کوئی دیکھتا کیا ہے

غم کا لاوا دیکھ بہہ نکلا جہاں میں کس طرح

 غم کا لاوا دیکھ بہہ نکلا جہاں میں کس طرح

جی رہے ہیں لوگ اس آتش فشاں میں کس طرح

بے وفا کوئی نہ تھا، نا مہرباں کوئی نہ تھا

پڑ گئے رخنے فصیلِ کارواں میں کس طرح

دیکھنا ہے یہ لہو برسا ہے یا رنگِ بہار؟

لگ گئی ہے آگ سارے گلستاں میں کس طرح

معیار کو اٹھاؤں تو کردار گر پڑے

 معیار کو اٹھاؤں تو کردار گر پڑے

چھت کو سنبھالتا ہوں تو دیوار گر پڑے

تُو اور کیا بلند ہو، میں اور کیا گروں

دیکھوں بھی تیری سمت تو دستار گر پڑے

ایسا کوئی کمال کہ میدانِ جنگ میں

ہر جنگجُو کے ہاتھ سے تلوار گر پڑے

جب کوئی غم ہی نہ ہو اشک بہاؤں کیسے

 جب کوئی غم ہی نہ ہو اشک بہاؤں کیسے

خُود کو دنیا کی اداکاری سکھاؤں کیسے

تیری ہر ایک جھلک اور بڑھاتی ہے طلب

ایسے میں پیاس نگاہوں کی بُجھاؤں کیسے

خودبخود آنکھوں کے پیمانے چھلک پڑتے ہیں

شدت غم کو چُھپاؤں تو چُھپاؤں کیسے

میاں مجبوریوں کا ربط اکثر ٹوٹ جاتا ہے

 میاں مجبوریوں کا ربط اکثر ٹُوٹ جاتا ہے

وفائیں گر نہ ہوں بُنیاد میں گھر ٹوٹ جاتا ہے

شناور کو کوئی دلدل نہیں دریا دیا جائے

جہاں کم ظرف بیٹھے ہوں سخنور ٹوٹ جاتا ہے

انا خود دار کی رکھتی ہے اس کا سر بُلندی پر

کسی پورس کے آگے ہر سکندر ٹوٹ جاتا ہے

اجاڑ لفظوں کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں

 اجاڑ لفظوں کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں

جو خود نوشتہ ہے اس کہانی سے ڈر گئے ہیں

ہمیں ہوائے قریبِ صحرا نے یہ خبر دی

کہ تشنہ لب تیرے اب کے پانی سے ڈر گئے ہیں

ہوئے تھے تم غیر، لیکن اب مرحلہ ہے مشکل

تمہاری غیروں کی ترجمانی سے ڈر گئے ہیں

گمان تک ہے اماں لا الہ الا للہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


گمان تک ہے اماں لا الہ الا للہ

بلندیوں کا نشاں لا الہ الا للہ

تِرا سکون تو پنہاں ہے رازِ وحدت میں

بھٹک رہا ہے کہاں لا الہ الا للہ

یہی وہ نور ہے روشن ہے زندگی جس سے

جہاں تلک ہے جہاں لا الہ الا للہ

جذبۂ خدمتِ انساں مرے مولا دے دے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جذبۂ خدمتِ انساں مِرے مولا دے دے

مجھ کو تسکینِ دل و جاں مرے مولا دے دے

حج ادا کرنے کی توفیق عطا کر مجھ کو

اور مدینے کا بھی فیضاں مرے مولا دے دے

کب سے بیٹھا ہوں تِرے در پہ یہی آس لیے

اب مِرے درد کا درماں مرے مولا دے دے

بگڑی تیری دیکھنا پل میں بنے گی نعت پڑھ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بگڑی تیری دیکھنا پل میں بنے گی نعت پڑھ

اُن کے در سے بھیک بھی تجھ کو ملے گی نعت پڑھ

راحتِ قلب و جگر تُجھ کو ملے گی نعت پڑھ

ہر مصیبت ہر بلا تیری ٹلے گی نعت پڑھ

محفلِ سرکارﷺ میں دیوانے سنتے ہیں کلام

اور فرشتوں کی جماعت بھی سنے گی نعت پڑھ

در نبی پہ جھکے دل ہے سر کا در مخصوص

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


درِ نبیؐ پہ جھکے دل، ہے سر کا در مخصوص

کہ بندگی و عبادت کے ہیں ہُنر مخصوص

مِرے کریم اچٹتی سی اک نظر ہے بہت

زہے نصیب کہ مجھ پر ہو وہ نظر مخصوص

کھلے جو آنکھ تو ہو روبرو مزار پاک

کب آئےگی مِری ہستی میں وہ سحر مخصوص

مبارک مومنو جود و سخا کا چاند نکلا ہے

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مبارک مومنو! جود و سخا کا چاند نکلا ہے

"ربیع النور میں فضل خدا کا چاند نکلا ہے"

مِٹی ہے تیرگی چھایا اجالا سارے عالم میں

منور جس سے ہے سب اس ضیا کا چاند نکلا ہے

عجم پر اب عرب کی برتری ہرگز نہیں ہو گی

زمین مکہ پہ عز و علا کا چاند نکلا ہے

Thursday, 29 August 2024

وقت جنوں ہے اپنے تئیں تیز گام ہو

 وقتِ جنوں ہے اپنے تئیں تیز گام ہو

اے بخت کی زبان! ذرا بے لگام ہو

ہم آئیں گے ضرور کسی اور چاک پر

پہلے وجودِ خاک کا تو انہدام ہو

جو جو بھگت چکے ہیں غمِ سوختہ کا دور

کہتے ہیں دورِ ہجر میں جینا حرام ہو

پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے

 پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے

ہونٹوں پر آتے ہر قطرہ سوکھ رہا ہے

اندھے ہو کر بادل بھاگے پھرتے ہیں

گاتے گاتے ایک پرندہ آگ ہوا ہے

پھول اور پھل تو تازہ کونپل پر آتے ہیں

پیلا پتہ اس وحشت میں ٹوٹ رہا ہے

آنکھیں نکال درد کے منظر میں ڈال دے

 آنکھیں نکال، درد کے منظر میں ڈال دے

سِکّے یہ نور کے کسی چادر میں ڈال دے

یہ بوجھ لے کے پھرتا رہے گا کہاں کہاں

جتنی بھی نیکیاں ہیں سمندر میں ڈال دے

یہ نرم التماس کے لہجے کو ترک کر

وہ چیخ بن شگاف جو پتھر میں ڈال دے

نہاں جو روح میں ہے وہ بشر آواز دیتا ہے

 نہاں جو روح میں ہے وہ بشر آواز دیتا ہے

عزیزو! میں چلا مجھ کو خضر آواز دیتا ہے

خلیل عصر مجھ کو مان کر آواز دیتا ہے

کسی کافر جوانی کا شرر آواز دیتا ہے

مِری قسمت میں لکھی ہے مسافت حشر تک شاید

مِرے رکھتے ہی احساس سفر آواز دیتا ہے

اے دین وحدت کے پاسبانو اے قوم مسلم کے رہنماؤ

 علمائے دین کی خدمت میں


اے دینِ وحدت کے پاسبانو! اے قومِ مسلم کے رہنماؤ

اے وارث الانبیاء بزرگو! اے مذہبِ حق کے پیشواؤ

بڑے ادب سے میں آپ سے چاہتا ہوں اس بات کی اجازت

نہاں ہے جو آپ کی نظر سے بیاں کروں میں وہ اک حقیقت

میں مانتا ہوں کہ آپ حضرات نیک بھی ہیں، عظیم بھی ہیں

بزرگ بھی ہیں حکیم بھی ہیں، فقیہ بھی ہیں فہیم بھی ہیں

وہ نقش اول خیال اول حبیب اول وہ نام اول

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ نقش اول، خیال اول، حبیب اول، وہ نامِ اول

کتاب آخر، رسول آخر، ہے مرتبہ اور مقام اول

تمام ان پر ہوئی رسالت وہ خاتم الانبیاء محمدﷺ

وہ آخری ہیں مگر فضیلت میں انبیاء پہ تمام اول

رفعنا ذکرک ہے شان ان کی، یہ دین ان پر ہوا مکمل

خدا کے محبوب مصطفیٰﷺ ہیں فضیلتِ اختتام اول

نظام زیست برہم ہے ہمارا یا رسول اللہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نظامِ زیست برہم ہے ہمارا یا رسول اللہ

کرم کی ہو نظر ہم پر خدارا یا رسول اللہ

یہی حسرت یہی خواہش یہی ہے آرزو آقا

مروں میں تو لبوں پر ہو یہ نعرہ یا رسول اللہ

خدا نے قلب پر میرے محمدﷺ نام لکھا ہے

قسم رب کی میں شیدہ ہوں تمہارا یا رسول اللہ

ہمیں راستوں کی خبر ملی تری چشم بندہ نواز سے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہمیں راستوں کی خبر ملی، تری چشمِ بندہ نواز سے

تِری اک نظر نےاٹھا دئیے سبھی پردے صیغۂ راز سے

رہِ عشقِ احمدِ مجتبیٰﷺ، پہ چلے تو دیکھتے دیکھتے

مِری آخرت کی نجات کے، نکل آئے کتنے جواز سے

تِرے حسن اور جمال کی، میں مثال کیسے بیاں کروں

تجھے رب نے خاص بنا دیا، بڑے پیار سے بڑے ناز سے

بیاں میں کروں اس طرح حمد تیری ملے دل کو راحت خدائے محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بیاں میں کروں اس طرح حمد تیری، ملے دل کو راحت خدائے محمدؐ

کرم ناتواں پر ہو ، بندہ ہوں تیرا، ہو مجھ پر عنایت، خدائے محمدؐ

تِرے در پہ یہ عرض اور التجا ہے، سلامت رہیں سب عزیز و اقارب

جو بیمار و لاچار ہیں تیرے بندے، ملے ان کو طاقت خدائے محمدؐ

خدایا کرم کر تجھے سب خبر ہے تِری رحمتوں کے سہارے ہیں جیتے

مِرا بخت جاگے میں پہنچوں مدینے، کھلے میری قسمت خدائے محمدؐ

ازل سے اب تک جو کُن کا مرکز بنا ہوا ہے وہی نبی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ازل سے اب تک جو کُن کا مرکز بنا ہوا ہے وہی نبی ہے

خدائے برتر کے نور سے جو بدن ڈھلا ہے وہی نبی ہے

جو آپﷺ بولے وہ حکمِ ربّی وہی سلیقہ وہی ہدایت

جو صرف رب کے لیے زباں کو چلا رہا ہے وہی نبی ہے

نبیﷺ کا کہنا، خدا کا کہنا، خدا کا کہنا نبیﷺ کا کہنا

خدا نے جس کے لیے یہ جملہ ادا کیا ہے وہی نبی ہے

Wednesday, 28 August 2024

زخم ہائے دل کو ان کی خاک پا یاد آ گئی

 زخم ہائے دل کو ان کی خاک پا یاد آ گئی

عشق کے آزار کی آخر دوا یاد آ گئی

وقت رخصت کیا بتائیں جان پر کیوں کر بنی

اس نے منہ موڑا ہی تھا ہم کو قضا یاد آ گئی

آج جب برہم ہوا مجھ سے زمانے کا مزاج

برہمئ حسن کی دل کش ادا یاد آ گئی

سنگ ریزوں کی طرح پیش نظر رہتے ہیں

 سنگ ریزوں کی طرح پیش نظر رہتے ہیں

میرے کاسے میں پڑے لعل و گہر رہتے ہیں

سائے چنتے ہیں کڑی دھوپ کے صحرا سے ہم

پا شکستہ ہیں مگر محو سفر رہتے ہیں

کال کوئل کی صدائیں نہ شفق رنگ کہیں

شہر میں جانے کہاں شام و سحر رہتے ہیں

خزاں سے کون سی شے چھین لی بہاروں نے

 خزاں سے کون سی شے چھین لی بہاروں نے

گُلوں کو آنکھ دکھائی چمن میں خاروں نے

چُھپا چُھپا کے رکھا تھا جسے بہاروں نے

اُگل دیا ہے وہی خُون لالہ زاروں نے

اسی مقام پہ پہنچے ہیں تیرے دیوانے

جہاں سے آنکھ چُرائی تھی ہوشیاروں نے

تخت و تاج بکتے ہیں اقتدار بکتا ہے

 تخت و تاج بکتے ہیں اقتدار بِکتا ہے

مال ہے یہ بکنے کا بار بار بکتا ہے

قیمتیں بڑھاتی ہے رات بکنے والوں کی

اونچے اونچے داموں میں انتظار بکتا ہے

قیس اور رانجھا کے اشک رائیگاں ٹھہرے

ایک مسکراہٹ پر آج پیار بکتا ہے

غم ہستی نہ کچھ فکر دل و جاں ہے جہاں میں ہوں

 غم ہستی نہ کچھ فکر دل و جاں ہے جہاں میں ہوں

کہ ہر ہر گام پر کوئی نگہباں ہے جہاں میں ہوں

ہر اک نظارہ سو پردوں میں پنہاں ہے جہاں میں ہوں

خدا جانے کہاں کل بزم امکاں ہے جہاں میں ہوں

ہر اک جذبہ تعین سے گریزاں ہے جہاں میں ہوں

غم دل بے نیاز کفر و ایماں ہے جہاں میں ہوں

یہ سر زمین پاک ہے یا ارض کربلا ہے یہ

 یہ سر زمین پاک ہے یا ارض کربلا ہے یہ 


ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتداء ہے یہ

اور اب وہ وقت آے گا کہ ساری قوم روئے گی 

اور اپنے دل کے داغ اپنے آنسوں سے دھوئے گی 

یہ سر زمین پاک ہے یا ارض کربلا ہے یہ 

یہ لوٹ مار قتل و خوں، ڈکیتیاں، تباہیاں 

بموں کی زد پہ ہنستی گاتی جگمگاتی بستیاں 

چھوڑ کے ہم آ گئے آقا کی گلیاں کس طرح

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چھوڑ کے ہم آ گئے آقاﷺ کی گلیاں کس طرح

دلِ حزیں یہ پوچھتا ہے ہو کے حیراں کس طرح

روضۂ اقدس پہ تو دل کی شفا تھی ہر گھڑی

دردِ دل کا اب کے ہو پائے کا درماں کس طرح

دل تو بستا ہے مدینۂ منور میں کہیں

سوچتے ہیں گھر بسانے کا ہو ساماں کس طرح

سبز گنبد ہو نظر کے آس پاس

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سبز گنبد ہو نظر کے آس پاس

گھر مِرا ہو اُن کے گھر کے آس پاس

نام سے تسکین ان کے پائے دل

درد بسمل ہے جگر کے آس پاس

دین سے جو دور کر دے یا خدا

جاؤں نہ اس مال و زر کے آس پاس

کوثر ملے نبی کی شراب لقا کے ساتھ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


گزرے یہ زندگانی فقط اس ادا کے ساتھ

"ذکرِ رسولِ پاکؐ ہو ذکرِ خُدا کے ساتھ"

پوری ہو آرزو مِری محشر کے دن خدا

کوثر ملے نبیﷺ کی شرابِ لقا کے ساتھ

محشر کا خوف دل میں مِرے کیوں رہے بھلا

آقاﷺ ہیں عیب پوش مِرے، کبریا کے ساتھ

دے کے سینوں کے لیے تحفۂ ایمان گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دے کے سینوں کے لیے تحفۂ ایمان گیا

سُوئے فردوس بریں آج وہ ذیشان گیا

جس کے سجدے ہوئے تلوار کے سائے میں ادا

بر سرِ نیزہ وہ پڑھتا ہوا قُرآن گیا

اپنے سینے میں لیے پھرتا ہے یادیں ان کی

وقت بھی مرتبۂ ابنِ علیؑ جان گیا

ہے میرے لیے وجہ سکوں نام محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے میرے لیے وجہِ سُکوں نام محمدﷺ

پھر کیسے فراموش کروں نام محمدﷺ

اس نام سے یہ ارض و سماوات ہیں قائم

کاشانۂ امکاں کا سُتوں نام محمدﷺ

سُرمہ کی طرح دِیدۂ گریاں میں لگاؤں

غازہ کی طرح رُخ پہ ملوں نام محمدﷺ

Tuesday, 27 August 2024

تمہیں کہنا نہیں آتا مجھے سننا ضروری ہے

 تمہیں کہنا نہیں آتا مجھے سننا ضروری ہے

یہی اک ہے سبب کہ داستاں اپنی ادھوری ہے

ہمارے مشغلے یکساں جدا انداز ہیں، لیکن

تبھی تو فاصلے ہیں بیچ میں، حائل یہ دوری ہے

تمہیں بھی گُفتگو کا شوق ہے میں بھی مقرر ہوں

مگر پھر گُفتگو میں ایک سامع تو ضروری ہے

تنبیہ یہ نظام عدل کے قوانین ہیں

 تنبیہ


یہ نظامِ عدل کے قوانین ہیں

دونوں پلڑے برابر رہیں

کچھ فرشتے ہیں اور کچھ شیاطین ہیں

سانس لینے کی پاداش میں

دھر لیے جائیں گے

سیاست جب ضرورت ہو نیا رشتہ بناتی ہے

 سیاست جب ضرورت ہو نیا رشتہ بناتی ہے

کوئی کتنا مخالف ہو، اسے اپنا بناتی ہے

شناسا خوف کی تصویر ہے اس کی بیاضوں میں

مِری بیٹی حسیں پنجرے میں اک چڑیا بناتی ہے

تخیل حرف میں ڈھل کر ابھر آتا ہے کاغذ پر

سراپا سوچتا ہوں میں غزل چہرہ بناتی ہے

بارہا یورش افکار نے سونے نہ دیا

 بار ہا یورشِ افکار نے سونے نہ دیا

فکرِ آزاد ہے، آزار نے سونے نہ دیا

تھی تصور میں نہاں خانۂ دل کی تصویر

رات بھر دیدۂ بیدار نے سونے نہ دیا

مجھ سے تھے بر سرِ پیکار مِرے ذہن و ضمیر

مجھ کو بیدارئ کردار نے سونے نہ دیا

جس کو کہتے ہیں قضا یا موت جس کا نام ہے

 جس کو کہتے ہیں قضا یا موت جس کا نام ہے

واقعی وہ دائمی راحت کا اک پیغام ہے

التزام چارہ سازی اک خیال خام ہے

چارہ گر میرے لیے تکلیف میں آرام ہے

اف رے یہ بیگانگی ہمدرد ہو تو کون ہو

ایک دل تھا وہ بھی صرف کثرت آلام ہے

پھر فضا میں کوئی زہریلا دھواں بھر جائے گا

 پھر فضا میں کوئی زہریلا دُھواں بھر جائے گا

پھر کسی دن اپنے اندر کچھ نہ کچھ مر جائے گا

پھیلتا جاتا ہے یہ جو ہر طرف اک شور سا

ایک سناٹا کسی دہلیز پر دھر جائے گا

یوں رہا تو سارے منظر بد نما ہو جائیں گے

اک بھیانک رنگ ہر تصویر میں بھر جائے گا

مقصود میرا مدح شہ خوش خصال ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مقصود میرا مدحِ شہ خوش خصال ہے

ہر لمحہ صبح و شام یہی اک خیال ہے

دل مضطرب ہے شوق میں اب تو یہ حال ہے

ہر آرزوئے فکر سُخن پائمال ہے

ہوں مبتلائے کشمکش دہر کیا کروں

کس وقت میں ثنائے شہ لا فتا کروں

ہوا ہے نہ ہو گا مثال محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہوا ہے نہ ہو گا مثالِ محمدﷺ

جمالِ خدا اور جمالِ محمدﷺ

دعا میری مقبول ہو ہی گئی ہے

طفیل شہ دینﷺ و آل محمدﷺ

سبھی کو ملی بھیک اُن ہی کے در سے

نہیں کس پہ یارو نوال محمدﷺ

شکم ماہی کبھی طور عطا کرتا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شکمِ ماہی کبھی طور عطا کرتا ہے

تیرگی اُس کی وہی نور عطا کرتا ہے

زرد موسم وہی دیتا ہے ہری ٹہنی کو

خالی پیڑوں کو وہی بُور عطا کرتا ہے

نارِ دوزخ بھی ہے مخلوق اُسی خالق کی

وہی فردوس وہی حور عطا کرتا ہے

دل نشیں حیدر کی الفت ہو گئی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل نشیں حیدرؑ کی الفت ہو گئی

روح افزا ان کی اطاعت ہو گئی

کیسی یاور حرؓ کی قسمت ہو گئی

مرتے ہی جاگیر جنت ہو گئی

وصفِ حیدرؑ میں ملتے نہیں لفظ

صرف اردو کی بضاعت ہو گئی

ان کی چوکھٹ کی نوکری اور میں

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ان کی چوکھٹ کی نوکری اور میں

ایک سلمان فارسی اور میں 

ایک پردہ تھا درمیاں حائل

محوِ گُفتار تھے علیؑ اور میں

موت کو چھوڑ کر چلے آئے

خیمۂ شہ میں زندگی اور میں

صد شکر ساتھ حمد کے اب نعت ہو گئی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ٹوٹا جمود، ان سے ملاقات ہو گئی

لب چپ رہے پر آنکھ سے برسات ہو گئی

تیرا کرم کہ آج تو خاموش رہ کہ بھی

حمد، نعت اور تجھ سے مناجات ہو گئی

لب پر درودﷺ، دل میں خداوند تیرا نام

صد شکر، ساتھ حمد کے اب نعت ہو گئی

Monday, 26 August 2024

کبھی سکوں تو کبھی خیر و شر دیا ہے مجھے

 کبھی سکوں تو کبھی خیر و شر دیا ہے مجھے

مِرے جنوں نے الگ سمت کر دیا ہے مجھے

میں اپنے آپ کو اکثر نظر نہیں آتی

کسی نے ایسے فراموش کر دیا ہے مجھے

سفر کے واسطے مہلت ہے چار دن کی فقط

خدا نے وقت بہت مختصر دیا ہے مجھے

بھری دوپہری میں اندھیارا آؤ پھر سے دیا جلائیں

 آؤ پھر سے دیا جلائیں


بھری دوپہری میں اندھیارا

سورج پرچھائیں سے ہارا

انترتم کا نیہہ نچوڑیں، بجھی ہوئی باتی سُلگائیں

آؤ پھر سے دیا جلائیں


ہم پڑاؤ کو سمجھے منزل

لکچھ ہوا آنکھوں سے اوجھل

خون ہی خون ہر سمت بہنے لگا

 نیا حکم نامہ


تغیر کا سیلاب آیا

تو زنجیریں ساری اٹھا لے گیا

شہنشاہیت کا

سنہرا سمندر ہوا لے گئی

اور سب کی نظر

ایک کالے عمامے کی جانب پر امید ہو کر اٹھی

ستم کی آرزو اے بد گماں باقی نہ رہ جائے

 ستم کی آرزو اے بد گماں باقی نہ رہ جائے

کوئی اہل وفا کا امتحاں باقی نہ رہ جائے

بہ طرز نو سنایا نو سنایا بارہا افسانۂ ہستی

کہ غم کا کوئی انداز بیاں باقی نہ رہ جائے

جہاں تک ہو سکے تجھ سے ہر اک لے میں پکار ان کو

دل محزوں کوئی طرز فغاں باقی نہ رہ جائے

انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا

 انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا

مجبور ہے اس سے کہ خدا ہو نہیں سکتا

وہ عقدہ مِرے کام میں تقدیر نے ڈالا

جو ناخن تدبیر سے وا ہو نہیں سکتا

دہشت سے کوئی نام بھی لیتا نہیں، ورنہ

اس بزم میں کیا ذکر مِرا ہوا نہیں سکتا

نیم انسان مخلوق سے

 نیم انسان مخلوق سے


ایک مخلوق نے اس کی تخلیق کی

خاکِ سفاک سے اس کا نطفہ بنایا گیا

رحمِ بے رحم کے

گھُپ اندھیروں میں رکھا گیا

آتشی بغض سے  

سارے اعضاء بنا کر انہیں  

بیاں کو نعت کہنے پر غرور اے سید بطحا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بیاں کو نعت کہنے پر غرور، اے سیدِ بطحاﷺ

زباں نے ہاتھ جوڑے ہیں حضور اے سیدِ بطحا

کلامِ رب مجسّم آپﷺ کی صورت میں دیکھا ہے

صفاتِ رب بھی ہیں بین السطور اے سیدِ بطحا

شبِ معراج جو باتیں ہوئیں وہ کس زباں میں تھیں

وہ تھا قرآں کہ انجیل و زبور اے سیدِ بطحا

حسین تیغ لیے تازہ دم دکھائی دیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حسینؑ تیغ لیے تازہ دم دکھائی دیا

ادھر جو لاکھوں کا لشکر تھا کم دکھائی دیا

کچھ اس طرح سے ہوا ذکرِ حضرتِ عباسؑ

دِیے کی لَو میں نبیﷺ کا عَلم دکھائی دیا

کوئی تو نوکِ سناں پر بھی سر اٹھا کے چلا

کسی کی تخت پہ گردن میں خم دکھائی دیا

ان کے لیے میں زندہ رہوں گا ان کے لیے مر جاؤں گا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ان کے لیے میں زندہ رہوں گا، ان کے لیے مر جاؤں گا

زور لگا لے تُو اے دنیا! تیرے ہاتھ نہ آؤں گا

موتیوں جیسے آنسو میں نے روک رکھے ہیں آنکھوں میں

یہ آنسو میں روضہ اطہرﷺ پر جا کر برساؤں گا

دنیا مجھ کو پاگل سمجھے، میں کیا جانوں دنیا کو

میرے پیارے کملی والےﷺ میں تیرے گن گاؤں گا

وصف لکھتا ہوں سر دیوان بسم اللہ کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وصف لکھتا ہوں سرِ دیوان بسم اللہ کا

لوحِ سینہ پر قلم بن کر الف اللہ کا

صفحۂ قرآن نہ کیوں رُوئے محمدؐ کو کہوں

ایسی صورت پر ہے موزوں تاج بسم اللہ کا

حُسنِ یوسفؑ یوں تِرے جلوے کا تھا پیغامبر

دو قدم رہتا ہے آگے جیسے تارا ماہ کا

عدوئے سامری فن دیکھے اعجازِ رقم میرا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عدوئے سامری فن دیکھے اعجازِ رقم میرا

عصائے موسوی ہے حمدِ خالق میں قلم میرا

برنگِ بُوئے گُل ہے ہر نفس یادِ الٰہی میں

قیامت تک بھرے گی دم نسیمِ صبحِ دم میرا

سلامت منزلِ مقصود تک اللہ پہنچا دے

مجھے آنکھیں دکھاتا ہے ہر اک نقشِ قدم میرا

Sunday, 25 August 2024

اندر کا موسم جب کبھی رنگ موسم بدلنے لگا

 اندر کا موسم


جب کبھی رنگِ موسم بدلنے لگا

رُت بدلنے لگی نِکھری نِکھری فضا

پھیلے کاجل کی مانند چھانے لگی

نیلے آکاش پہ کالی کالی گھٹا


فوزیہ تاج

جب زباں پر شکایتیں آئیں

 جب زباں پر شکایتیں آئیں

دردِ دل کی حکایتیں آئیں

دوست قدرت کا خاص تحفہ ہیں

کب میسّر یہ نعمتیں آئیں

جھُوٹ قائم سدا نہیں رہتا

کام آخر صداقتیں آئیں

دن کٹ رہے ہیں اپنے تری یاد کے سہارے

 دن کٹ رہے ہیں اپنے تری یاد کے سہارے

ورنہ کیسے جیتے، ہم قسمتوں کے مارے

عیاں نہ ہو کسی پہ اندر برستی بارش

بُوندوں میں بھیگتا رہا راوی کے کنارے

تنہائی کی وجہ سے خود بھی ہوں لا علم

لہریں یہ پوچھتی ہیں ساتھی کہاں تمہارے

وہ اشک ضبط اگر آنکھ سے نکل جاتا

 وہ اشکِ ضبط اگر آنکھ سے نکل جاتا

مجھے یقین ہے پتھر کا دل پگھل جاتا

خدا کا شکر اسے انسان سہہ گئے ورنہ

یہ ہجر ارض و سماوات تک نگل جاتا

بھرا ہوا تھا وہ رستہ حسین چہروں سے

قدم قدم پہ مِرا ذائقہ بدل جاتا

ہمسفر موج ہے قطرے کی دغا اس میں ہے

 ہمسفر موج ہے قطرے کی دغا اس میں ہے

یہ جو ہے میری بقا میری فنا اس میں ہے

التوا کیوں ہے ابھی منزل الفت کا حُصُول

راہ دُشوار نہیں آبلہ پا اس میں ہے

نرمیٔ گُل سے سوا ساخت میں ہے نرم و گُداز

سنگ خارا سا دل سخت بھی کیا اس میں ہے

عزت ہو یا کہ دولت نام و نسب کے شہرت

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عزت ہو یا کہ دولت، نام و نسب کے شہرت

کرتا وہی عطا ہے، کیا شان میرے رب کی

رازق بھی اس کو اپنا، مالک بھی اس کو اپنا

ہر کوئی مانتا ہے، کیا شان میرے رب کی

بھٹکا ہوا ہو کوئی گر راستے سے اپنے

سب کو سنبھالتا ہے، کیا شان میرے رب کی

چیز اول کتاب و سنت ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


پہلے یہ ہے کہ اندرین اخبار

یک حدیث اس طرح سے ہے اے یار

چیز اول کتاب و سنت ہے

دوسری چیز میری عترت ہے

یارو اس بات کو بھی حق سمجھو

ذکر سنت نہ جن حدیثوں میں ہو

اے الہ مجھ کو وہی میرا زمانہ دے دے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 اے الہ! مجھ کو وہی میرا زمانہ دے دے

کب میں کہتا ہوں مجھے تاجِ شہانہ دے دے

اپنی دہلیز پہ مرنے کا ٹھکانہ دے دے

تُو مجھے پارچۂ نانِ شبانہ دے دے

مِرے اللہ! میں کیا مانگوں؟ یہی کافی ہے

درد دے کر مجھے رونے کا بہانہ دے دے

کون کہتا ہے مجھے شان سکندر دے دے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کون کہتا ہے مجھے شان سکندر دے دے

میرے معبود! مجھے فقر ابو ذرؑ دے دے

عشق جو تُو نے اویس قرنیؑ کو بخشا

ہو جو ممکن تو مجھے اس سے فزوں تر دے دے

تاجور بھی میرے قدموں میں سعادت ڈھونڈیں

زینت سر کو جو نعلین پیمبرﷺ دے دے

آنکھ کھولی نہیں قطرے نے گہر ہونے تک

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آنکھ کھولی نہیں قطرے نے گہر ہونے تک

یعنی سرکارِ دو عالمﷺ کی نظر ہونے تک

اس کے معصوم تبسم پہ بلاغت قربان

سو رہا ہے کوئی گھٹی کے اثر ہونے تک

ایسی کونپل کی نمو دیکھنے والی ہو گی

باغباں جس پہ نظر رکھے شجرہونے تک

Saturday, 24 August 2024

یہی ہے ریت یہاں آج کل خدائی کی

 یہی ہے رِیت یہاں آج کل خُدائی کی

خُدا کا نام لیا،۔ اور بے وفائی کی

جو لوگ چاند کے حالے کا ذِکر کرتے ہیں

وہ بات ہے تِری چُوڑی کی اور کلائی ک

گُھٹن سے مر تو گئے اک اندھیر پنجرے میں

پر ہم نے بھیک نہ مانگی کبھی رِہائی کی

ربط قائم ہی رہے زخم تو بھر جائے گا

 ربط قائم ہی رہے زخم تو بھر جائے گا

"وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گُزر جائے گا"

غُنچۂ شوق لگائے کبھی اُمیدِ بہار

خطرِ طالعِ ناساز سے مر جائے گا

دل بھی پاگل ہے سمجھتا ہے جسے راحتِ جاں

جب بھی آئے گا مِری آنکھ کو بھر جائے گا

اے دوست اب سہاروں کی عادت نہیں رہی

 اے دوست اب سہاروں کی عادت نہیں رہی

تیری تو کیا کسی کی ضرورت نہیں رہی

اب کے ہماری جنگ ہے خود اپنے آپ سے

یعنی کہ جیت ہار کی وُقعت نہیں رہی 

اک بات پوچھنی ہے خدا سے بروزِ حشر

کیا آپ کو بھی ہم سے محبت نہیں رہی؟ 

میں دولت کی طاقت سے منکر نہیں ہوں

 دولت


میں دولت کی طاقت سے منکر نہیں ہوں

اس کا حق و باطل کے نشاں مٹانا بُرا لگتا ہے

لوگ کیا کیا جتن کرتے ہیں اس کو حاصل کرنے میں

یہاں تک رُوح اور جسم کے سودے کر لیتے ہیں

اس کے حکم پر زمین اور آسمان اُٹھا لیتے ہیں

اس کے ایماء پر اپنا ایمان لُٹا دیتے ہیں

پیار ان کو دیکھ کر بے اختیار آ ہی گیا

 پیار ان کو دیکھ کر بے اختیار آ ہی گیا

وہ جو آئے، دل مِرا دیوانہ وار آ ہی گیا

دل مِرے پہلو سے جائے گا نہ آتا تھا یقیں

اک نظر دیکھا انہیں تو اعتبار آ ہی گیا

اب گیا ان کا تصور جی گیا بیمار عشق

شدت غم میں بھی چہرے پر نکھار آ ہی گیا

بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا

 بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا

زندگی دھوپ میں صحرا کا سفر ہے بابا

تم کہاں آ گئے شیشوں کی تمنّا لے کر

یہ تو اک سنگ فروشوں کا نگر ہے بابا

ہم ہیں قید در و دیوار سے آزاد ہمیں

جس جگہ رات گزاری وہی گھر ہے بابا

حرف سوئے لب اظہار نکل ہی آیا

 حرف سوئے لب اظہار نکل ہی آیا

خانۂ قید سے عیّار نکل ہی آیا

دستکوں میں وہی انداز تھا وقفہ تھا وہی

حلقۂ درد سے بیمار نکل ہی آیا

پوچھنے آیا ہے وہ آخری خواہش میری

آخرش موقعۂ اظہار نکل ہی آیا

روضے پہ حاضری کی ہے خواہش مرے نبی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


روضے پہ حاضری کی ہے خواہش مِرے نبیؐ

کر بھی رہی ہوں اپنی سی کوشش مرے نبیؐ

ہو جائے جو کرم تو سنور جائیں میرے دن

مجھ پر کڑی ہے وقت کی گردش، مرے نبیؐ

دامن میں چاہے کتنی خطائیں ہوں، روزِ حشر

کرنا ہے آپ ہی کو سفارش، مرے نبیؐ

ہے اس لیے دلوں میں محبت حسین کی

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے اس لیے دلوں میں محبت حسینؑ کی

عکس شبیہ مصطفیٰﷺ صورت حسینؑ کی

اللہ ہی جانتا ہے مقامِ حسینؑ کو

کیا پا سکے گا کوئی حقیقت حسینؑ کی

قرآں سنا رہے ہیں وہ نیزے کی نوک پر

کتنی عظیم تر ہے عبادت حسینؑ کی

چاند ہے آپ کا چاندنی آپ کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چاند ہے آپ کا چاندنی آپؐ کی

فخرِ کونین ہے زندگی آپؐ کی

فخرِ آدم صفی آپؐ کی ذات ہے

فخرِ خُلدِ بریں سادگی آپؐ کی

میری اوقات کیا میں جو کچھ کہہ سکوں

شعر ہیں آپؐ کے شاعری آپؐ کی

آل اطہر کے فضل میں اے یار

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آل اطہر کے فضل میں اے یار

ہوں گی قرآں میں آیتیں بسیار

آیتِ اول اے خجستہ خصال

جو ہے سرچشمۂ مناقبِ آل

بے تردد ہے آیتِ تطہیر

سُن اسے گوش سے بالتفسیر

آنگن سے جو رحمت کی ہواؤں کا گزر ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آنگن سے جو رحمت کی ہواؤں کا گزر ہے

یہ ذکرِ نبی پاکﷺ کی برکت کا اثر ہے

اس اسم کی خوشبو سے سبھی لفظ مُعَطر

اس نام کی شبنم سے سخن یہ گُلِ تر ہے

سینے میں دھڑکتی ہوئی ان کی ہی محبت

ہر سانس یہ لگتا ہے مدینے کا سفر ہے

Friday, 23 August 2024

مرحبا صد مرحبا اے مدح خوان مصطفیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مرحبا صد مرحبا اے مدح خوانِ مصطفیٰﷺ

تجھ کو دنیا ہی میں ہے حاصل امان مصطفیٰﷺ

مصطفیٰﷺ ہیں مظہرِ شانِ جمالِ حُسنِ ذات

ذرہ ذرہ سے عیاں ہے عز و شانِ مصطفیٰﷺ

مصطفیٰﷺ ہیں باعثِ تخلیقِ بزمِ کائنات

یہ جہاں روزِ ازل سے ہے جہانِ مصطفیٰﷺ

لوگ آتے ہیں میرے دل کو دکھانے والے

 لوگ آتے ہیں میرے دل کو دُکھانے والے

کوئی بھی تُجھ سا نہیں چھوڑ کے جانے والے

اب تُو کس زعم میں مر جانے کی دھمکی دے گا

اب تو باقی بھی نہیں سوگ منانے والے

کچھ نئی چیز نیا جادو اگر ہے تو دِکھا

عشق کے نام پہ لوگوں کو نچانے والے

کیا پتہ کل ہو نہ ہو

 آج اک ہنسی اور بانٹ لو

آج اک آنسو اور پی لو

آج اک دُعا اور مانگ لو

آج اک زندگی اور جی لو

آج اک سپنا اور دیکھ لو

آج 

کیا پتہ، کل ہو نہ ہو


جاوید اختر

پھول آنکھوں تک آ جائیں تو

مہلت


 پُھول آنکھوں تک آ جائیں تو 

رنگ معطل ہو جاتے ہیں

خُوشبو سانسوں میں گُھل مِل کر 

کھو جاتی ہے

بینائی پلکوں کے پیچھے سو جاتی ہے

منظر مہمل ہو جاتے ہیں

محبتوں کا سفر کاش پھر دوبارہ ہو

 محبتوں کا سفر کاش پھر دوبارہ ہو

ہو دل کے پاس کوئی اور غم کا چارہ ہو

کوئی تو ہو جو غم زندگی سمجھ پائے

کوئی تو ہو جو مِری زیست کا سہارا ہو

یہی دعا ہے کہ اللہ ہی صبر دے اس کو

کہ میری طرح کہیں جو بھی غم کا مارا ہو

بھلا یہ بھی عدالت طے کرے گی کیا

 بھلا یہ بھی عدالت طے کرے گی کیا؟

بھلا یہ بھی سیاست طے کرے گی کیا؟

بھلا یہ بھی ریاست طے کرے گی کیا؟

کہ عِدّت میری کتنی ہو؟

کہ مُدّت اس کی کتنی ہو؟

کہ کس سے میں کروں شادی ؟

خلق پر سورۂ رحمان کے اسرار کھلیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خلق پر سورۂ رحمان کے اسرار کُھلیں

عشقِ شبیرؑ میں قرآن کے اسرار کھلیں

گُھٹنیوں زیست چلے صدیوں تلک تب شاید

تیر کے سامنے مُسکان کے اسرار کھلیں

دیکھ کر دیپ رخِ فوجِ حسینیؑ، بولا

کاش ناچیز پہ انسان کے اسرار کھلیں

رئیس الانبیاء آئے شفیع المذنبین آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


رئیس الانبیاء آئے شفیع المذنبینﷺ آئے

گنہ گارو! مبارک رحمۃ اللعالمینﷺ آئے

شہِ لولاک مقصودِ ازل دُرِّ ثمیںﷺ آئے

مبارک کنت کنزا مخفیا کے دل نشیں آئے

بصارت کیا بصیرت لوٹ آئے فیضِ پنہاں سے

جو نابینا کے خوابوں میں وہ چشمِ سرمگیں آئے

مدحت سرکار میں لازم ہے خوئے احتیاط

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مِدحتِ سرکار میں لازم ہے خُوئے احتیاط 

یعنی پہلے فکر کو لے جاوٴ سُوئے احتیاط 

ضبط کر اے دل وفورِ شوق در شہرِ نبیﷺ 

ہوش کر اے گِریہ تُو بھی کہ ہے کُوئے احتیاط 

قط  لگاوٴ یوں قلم خُوش خط لکھے نعتِ نبیﷺ

نعت کے ہر لفظ سے آتی ہو بُوئے احتیاط  

حرف کی کائنات مانگتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حرف کی کائنات مانگتے ہیں

منقبت، حمد، نعت مانگتے ہیں

ہم سبھی آپ کے ہیں آپ کے ہیں

رحمت التفات مانگتے ہیں 

بے ثباتی نے گھیر رکھا ہے 

دیجیے ہم ثبات مانگتے ہیں

Thursday, 22 August 2024

کہنے لگا یہ غار حرا کوہ طور سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کہنے لگا یہ، غارِ حرا، کوہِ طُور سے

مِلنے کا اشتیاق تو ہو گا، حضورؐ سے

کیسے مِلائے نُور سے نظریں، یہ رُوسیاہ

تکتا ہوں اُنؐ کا روضہ مگر دُور دُور سے

انسان، رب کو سب سے زیادہ عزیز ہے

ظاہر ہُوا یہ راز انہیؐ کے ظہور سے 

جب بھی سحر آئی یہاں بادۂ گلگوں کا نشہ

 جب بھی سحر آئی یہاں

بادۂ گلگوں کا نشہ

ابر کے پیکر میں رچا

چشمہ سیمیں میں بہا

موج کے ساغر میں رچا

آتش گلزار بنا غنچۂ احمر میں رچا

مری بھی مان مرا عکس مت دکھا مجھ کو

 مِری بھی مان مِرا عکس مت دکھا مجھ کو

میں رو پڑوں گا مِرے سامنے نہ لا مجھ کو

میں بند کمرے کی مجبوریوں میں لیٹا رہا

پکارتی پھری بازار میں ہوا مجھ کو

تُو سامنے ہے تو آواز کون سُنتا ہے

جو ہو سکے تو کہیں دُور سے بلا مجھ کو

ارے مجھ سے اداکاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی

 ارے مجھ سے اداکاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی

کبھی مجھ سے یہ مکاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی

کہا ہے پھول کو ہی پھول میں نے خار کو بھی خار

کسی کی بھی طرفداری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی

محبت ساتھ چلنا ہے سجن کے ساتھ آہستہ 

اور اس میں تیز رفتاری ہوئی ہے نا کبھی ہو گی

دل آرزو کے باب سے آگے نہیں بڑھا

 دل آرزو کے باب سے آگے نہیں بڑھا

یعنی، کہ دستیاب سے آگے نہیں بڑھا

صد شکر بال رہ گئے اس عمر تک کہ یوں

قضیہ کبھی خضاب سے آگے نہیں بڑھا

انیسویں صدی سا ہمارا جو عشق تھا

شعروں کے انتخاب سے آگے نہیں بڑھا

نوجوانو بات ہے جرأت کی تم سوئے رہو

 نوجوانو! بات ہے جرأت کی، تم سوئے رہو

کیا ضرورت ہے تمہیں ہمت کی، تم سوئے رہو

دیکھ لو تم کس طرح اغیار کے ہاتھوں سے بس

لٹ رہی ہے آبرو ملت کی، تم سوئے رہو

واعظانِ قوم! بس محراب و منبر کے سوا

کچھ خبر تم کو نہیں اُمت کی، تم سوئے رہو

پڑھو درود کہ دھڑکن میں اعتدال رہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


‎نظر میں نُور رہے سانس بھی بحال رہے

پڑھو درُودﷺ کہ دھڑکن میں اِعتدال رہے

بسی ہوئی ہو محمدﷺ کی یاد جس دل میں

تو کیسے اُس میں کوئی غم، کوئی ملال رہے

سنبھل کے چلنا ادب سے جُھکائے سر اپنے

کہ بارگاہِ رِسالتﷺ ہے یہ خیال رہے

اور اس سے قبل کہ حرف یقیں گماں ہو جائے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اور اِس سے قبل کہ حرفِ یقیں گماں ہو جائے

تِری نظر کی طلب ہے،۔اگر یہاں ہو جائے

یہ وہ کمال نہیں ہے،۔ زوال ہو جس کو

یہ وہ چراغ نہیں ہے کہ جو دھواں ہو جائے

یہ میرا دل ہے، گلستاں بھی اِس میں، صحرا بھی

یہ تیری بارشِ رحمت پہ ہے، جہاں ہو جائے

ہر اک شجر قصیدہ تھا ہر اک کھجور نعت

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر اک شجر قصیدہ تھا ہر اک کھجور نعت

صحرا کو کر گیا شبِ اسریٰ کا نور نعت

احمدﷺ حمیدؐ حامدؐ و محمودﷺ کی قسم

عین السطور حمد ہے بین السطور نعت

انجیل تیسری ہے تو قرآن آخری

تورات پہلی نعت تھی دُوجی زبور نعت

جبین انجم و ماہتاب جس بندے نے کی روشن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جبینِ انجم و ماہتاب جس بندے نے کی روشن

اسی کے  ذکر سے ہوتا ہے ذہن آدمی روشن

اُدھر اُس نور پیکر نے فقط جھاڑا تھا دامن کو

اِدھر مٹی پہ خود ہونے لگے تارے کئی روشن

ہمارے پاس اک ایسا دُعاؤں کا صحیفہ ہے

دلوں کے ساتھ جو کر دے خِرد کی ہر گلی روشن

پیمبر بن کے خالِق کے بہت سارے رسول ‌آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


پیمبرؑ بن کے خالِق کے، بہت سارے رسولؑ ‌آئے

بہت ہی مہرباں بن کر مگر پیارے رسولﷺ آئے

سفر طے کر کے صدیوں کا کہیں سدرہ سے بھی آگے

خدائے لم یزل کے کر کے نظارے رسولﷺ آئے

وہ جن کے اک اشارے سے ہوا تھا چاند دو ٹکڑے

ہوئے پُر نور جن کے نور سے تارے، رسولؐ آئے

Wednesday, 21 August 2024

کوئی چہرہ نہیں بنتا

 کوئی چہرہ نہیں بنتا


میں تصویر بناتی ہوں

تخیل کے رنگوں سے

ہر طرح کے رنگ بھرتی ہوں

مگر پھر بھی

کوئی چہرہ نہیں بنتا


فوزیہ تاج

دیکھ کر آپ کو دعا کرنا

 دیکھ کر آپ کو دعا کرنا 

پھر نمازیں سبھی ادا کرنا 

عشق دیکھو کہاں پہ لے آیا 

صبر کرنا کہ التجا کرنا 

چھوڑ جاتے ہو یہ تو بتلا دو

آپ کے بعد ہم نے کیا کرنا

لگا کے دم ترے غم کی گھٹن سمیٹی ہے

 لگا کے دم تِرے غم کی گُھٹن سمیٹی ہے

دُھوئیں میں دل کی کی ہر اک آرزو لپیٹی ہے

کہ قتل بنتا ہے غیرت کے نام پر اس کا

مِری جوانی تِرے غم کے ساتھ لیٹی ہے

کسی کی سُرمئی زُلفوں کو چُومنے کے بعد

بدن میں خُون کی رنگت بھی اب سلیٹی ہے

جو بھی تلوار تک نہیں پہنچا

 جو بھی تلوار تک نہیں پہنچا 

میرے معیار تک نہیں پہنچا

برسوں پہلے مکاں کا سوچا تھا 

ایک دیوار تک نہیں پہنچا 

میری منصور سی طبیعت ہے 

میں یونہی دار تک نہیں پہنچا

اے ہمنشیں فسانۂ دین خدا نہ پوچھ

 مسدس


اے ہمنشیں فسانۂ دینِ خدا نہ پوچھ

اسلام پہ جو وقت مصیبت پڑا نہ پوچھ

کس طرح کاروانِ صداقت لٹا نہ پوچھ

بعد رسولﷺ دہر میں کیا کچھ ہوا نہ پوچھ

کہتی ہے شامِ غم یہ سحر کے چراغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

حسن کی معراج ہیں عکس نبی مولا حسن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حُسن کی معراج ہیں عکسِ نبیؐ، مولا حسنؑ

ابرِ گوہر بار ہیں ابنِ علیؑ، ۔مولا حسنؑ

حضرتِ عبّاسؑ نے سیکھا جہادِ خامشی

ان کے استادِ معظّم مرشدی مولا حسنؑ

لے سبق در سے حسنؑ کے یہ زمانہ صبر کا

امن کی تاریخ کی اوّل صدی مولا حسنؑ

علی مختلف آدمی ہے منقبت مولا علی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


علیؑ مختلف آدمی ہے

تم نے اب تک

اسے صرف تلوار سے ماپنے کی سعی کی ہے

اندھی عقیدت کی پرکار سے ماپنے کی سعی کی ہے

اتھلی محبت کی مہکار سے ماپنے کی سعی کی ہے

یا بُغض کے بار سے ماپنے کی سعی ہے

پھر آج ترے ذکر سے بیدار ہوا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


پھر آج تِرےﷺ ذکر سے بیدار ہُوا ہے

یہ دل تِریﷺ رحمت کا طلبگار ہوا ہے

سرکارؐ کی الفت سے جو سرشار ہوا ہے

وہ رب کی عطاؤں کا سزاوار ہوا ہے

پھر حق کی شہادت میں زباں کھولی ہے میں نے

پھر میرا مقدر رسن و دار ہوا ہے

مرے سخن میں یہی اک کلام کافی ہے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مِرے سخن میں یہی اِک کلام کافی ہے

نبیؐ کی نعت لکھوں بس یہ کام کافی ہے

نہ شہرتیں، نہ ہی اعلیٰ مقام کافی ہے

فقیر کو تو محمدﷺ کا نام کافی ہے

بہشت، خُلد بریں اور عدن نہ مانگوں میں

مدینے پاک میں تھوڑا قیام کافی ہے

روح کمال احمد مختار ہے وفا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

علمدارِ کربلا (مسدس)


روح کمال احمدﷺ مختار ہے وفا

حسن و جمال حیدرؑ کرار ہے وفا

محبوب خاص ایزد غفار ہے وفا

انسانیت کی نسل کا معیار ہے وفا

کہتا ہوں صاف میثم تمار کی طرح

ہو باوفا تو شہ کے علمدار کی طرح

Tuesday, 20 August 2024

جو لوگ تم سے نفرت کرتے ہوں گے

 نفرت


جو لوگ تم سے نفرت کرتے ہوں گے

اب کچھ تو کرتے ہی ہوں گے

آخر کس بات پہ نفرت کرتے ہوں گے

بہت ڈھونڈی ہے میں نے بھی وہ ایک بات یا وہ ساری باتیں

جو میرے دل میں بھی نفرت پیدا کر دیں

زیادہ نہیں بس اتنی کہ میں سکون سے جی سکوں

سانپ ابھی تک جھوم رہا ہے

 گناہوں کے ٹیلے پر


اب جسموں کے تہہ خانوں میں

جاگ اٹھا ہے کالا جادو

بھاری بھرکم دیواروں نے

قاتل نغمہ چھیڑ دیا ہے

بحرصدا پھر مست ہوا ہے

ڈوب گئے اخلاقی قدروں کے سب ہاتھی

وفا کے راستے کو بھی نہ آئیں گے

 وفا کے راستے کو بھی نہ آئیں گے

وہ حال پُوچھنے کو بھی نہ آئیں گے

یہ باغ سارا سُوکھ جائے گا یونہی

وہ پھُول توڑنے کو بھی نہ آئیں گے

جو لوگ آج میرے ساتھ ساتھ ہیں

یہ کل کو تھُوکنے کو بھی نہ آئیں گے

ماں ہے معراج تو محبت کی

 حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا


ماں! ہے معراج تُو محبت کی

ہے علامت وقار و عظمت کی

میں نے تیری ہمیشہ خدمت کی

کبھی ٹالا نہیں کہا تیرا

حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا


پاک جذبوں کا نام ہے ماں تُو

آس نگر میں رہنے والے سادہ سچے لوگو

 نیا سال


آس نگر میں رہنے والے سادہ سچے لوگو 

نیند کا موسم بیت گیا ہے اپنی آنکھیں کھولو 

کل کیا کھویا، کل کیا پایا، آؤ حساب لگائیں 

آنے والا کل کیا ہو گا؟ آؤ نصاب بنائیں 

جانے والے کل میں ہم نے دُکھ کے صحرا دیکھے 

آش نراش میں گُھلتی دیکھی غم کے دریا دیکھے 

شان سے جانب مقتل شہ ذی شان گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شان سے جانبِ مقتل شہِؑ ذی شان گیا

دینِ احمدﷺ کا بڑھاتا ہوا وہ مان گیا

ایسا رُتبہ کہ چلا رب سے ملاقات کو جب

نوکِ نیزہ پہ بھی پڑھتا ہوا قرآن گیا

جس کو مخلوقِ میں رکھا تھا خدا نے افضل

بربریت کی ہر اک حد پہ وہ انسان گیا

جو بھی ہو سکتا ہے نصرت کا وہ عنوان تھا وہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت مرثیۂ عباسؑ


جو بھی ہو سکتا ہے نصرت کا وہ عنوان تھا وہ

ہر طرح آلِؑ پیمبرﷺ کا نگہبان تھا وہ

کبھی سقہ کبھی خادم کبھی دربان تھا وہ

معجزہ تھا شہِ بیکس کا، کہ انسان تھا وہ

رات کو خیمۂ سرورؑ کا نگہدار بنا

صبح کو فوجِ حسینی کا علمدار بنا

تیری عظمت کے ملے اور نشاں تیرے بعد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تیری عظمت کے ملے اور نشاں تیرے بعد

اور بھی میٹھا ہوا تیرا کنواں، تیرے بعد

وہ ہو مکہ کہ مدینہ، اے حیا دار سخی

کوئی تجھ سا نہ وہاں تھا نہ یہاں، تیرے بعد

امن کی آخری دیوار گری ہو جیسے

ہر طرف پھیل گئے شور و فغاں، تیرے بعد

کس شان سے ہوتی ہے ملاقات مکمل

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کس شان سے ہوتی ہے ملاقات مکمل

اک سیر میں اٹھتے ہیں حجابات مکمل

توحید کا مضمون بھی قُل سے ہوا آغاز

محبوب کے ہونٹوں سے ہوئی بات مکمل

کشاف حقیقت ہے نکیرین کی ترتیب

سرکارﷺ پہ ہوتے ہیں سوالات مکمل

ہے تصور میں عہد نبی سامنے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے تصور میں عہدِ نبیﷺ سامنے، اس زمانے کے پل جگمگاتے ہوئے

آنکھ کے سامنے ہیں مناظر بہت، چلتے پھرتے ہوئے، آتے جاتے ہوئے

ایک چادر کو تھامے ہوئے ہیں سبھی، چاہتے ہیں سبھی آپ سے منصفی

آپ کے دستِ فیصل میں سنگِ سیہ سب قبیلوں کا جھگڑا مٹاتے ہوئے

عتبہ ابن ربیعہ ہے بیٹھا ہوا، صحنِ کعبہ میں ہاتھوں کو ٹیکے ہوئے

اور نبیﷺ اس کو ترغیب و ترہیب کی چند آیاتِ قرآں سناتے ہوئے

Monday, 19 August 2024

یہ ہیں سادھو رام پکے چالباز

 حکایت نامۂ اسم


یہ ہیں سادھو رام پکے چالباز

وہ ہیں عبداللہ پڑھیں کیونکر نماز

نین سُکھ ہیں جنم سے ہی سُور داس

اور خوش دل رام ہیں تصویرِ یاس

رستم و سُہراب ہیں کتنے نحیف

واہ مسٹر ینگ اور اتنے ضعیف

میں فلسطین ہوں اس دور کے آوارہ مزاج

 میں فلسطین ہوں اس دور کے آوارہ مزاج

طنز کستے ہیں مِرے جسم کی عُریانی پر

مِرے قدموں سے زمیں چھیننے والے مردود

ہنستے رہتے ہیں مِری بے سر و سامانی پر

ٹھیک ہے میری طرف رُخ ہے تِرے تیروں کا

ٹھیک ہے دہر میں مجھ سا کوئی مظلوم نہیں

جو رازِ اسمِ محمد کو جان پائیں گے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جو رازِ اسمِ محمدﷺ کو جان پائیں گے

وہ سطحِ آب پہ سورج کو کھینچ لائیں گے

درود پڑھتے ہوئے یہ یقین رکھتے ہیں

کریم ہیں وہؐ کسی دن ہمیں بلائیں گے

جو شانِ سرورِ کون و مکاں بیان کریں

فلک نصیب ہیں، پلکوں پہ ہم بٹھائیں گے

اور نعت کائنات کے دل میں اتر گئی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


موجود و غائبات کے دل میں اُتر گئی

وہ ذات، شش جہات کے دل میں اتر گئی

حمدِ خداﷻ حصار ہوئی کائنات پر

اور نعت کائنات کے دل میں اتر گئی

اُس ذاتِ بے مثال کو ایسا ملا ثبات

ہر ہر ادا ثبات کے دل میں اتر گئی

نبی کے عشق میں اس طرح کام ہوتا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نبیؐ کے عشق میں اس طرح کام ہوتا ہے 

درودﷺ ہوتا ہے لب پر سلام ہوتا ہے 

سخن سرائی پہ ان کی عطائیں ہوتی ہیں

نبیؐ کے لطف و کرم سے کلام ہوتا ہے

بچھا کے رکھا ہے دامانِ قلب و جاں اپنا

مِرے حضورؐ کا اس میں قیام ہوتا ہے 

بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیار دو عالم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم

اِس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دو عالم

جس پر ترے پیغام کی گرہیں نہیں کُھلتیں

اُس پر کہاں کُھل پاتے ہیں اسرارِ دو عالم

آ کر یہاں ملتے ہیں چراغ اور ستارہ

لگتا ہے اِسی غار میں دربارِ دو عالم

کہا تھا ایک دن ورقہ بن نوفل نے کبریٰ سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کہا تھا ایک دن

ورقہ بن نوفل نے کبریٰؓ سے

فرشتہ جو بھی آیا ابنِ عبداللہﷺ سے ملنے

وہ ان سے پہلے آیا تھا

کبھی موسیٰؑ کی خدمت میں

کبھی عیسیٰؑ کی خدمت میں

حضرت آدم سے پیدا ہو گیا جب آدمی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

اقتباس از"لولاک" منظوم سیرت رسول پاکﷺ  حصۂ اول ولادت سے پہلے


حضرتِ آدم سے پیدا ہو گیا جب آدمی

سمتِ امکانات میں بڑھنے لگا جب آدمی

سینۂ صحرا میں ہر دم جگمگاتا تھا کوئی

تیرہ و تاریک لمحوں سے گزرنے کے لیے

٭

آدمی کے راستوں میں رنگ بھرنے کے لیے

Sunday, 18 August 2024

کھل گیا عقدۂ ہستی تو کفن مانگ لیا

 کُھل گیا عُقدۂ ہستی تو کفن مانگ لیا

زیست نے موت سے جینے کا چلن مانگ لیا

پھُوٹ کر سینۂ کُہسار سے بہنے کے لیے

چشمۂ آب نے دامانِ دمن مانگ لیا

کیا تعجب ہے اگر مانگ لی چہرے سے نقاب

دورِ حاضر نے تو پیراہنِ تن مانگ لیا

چلو اچھا ہوا میں چل بسی اور میرا مستقبل

 بدھیا


چلو اچھا ہوا میں چل بسی اور میرا مستقبل

مِرے ہمراہ میرے پیٹ میں دم توڑ بیٹھا ہے

وگرنہ کس نے جانا ہے

کہ وہ بھی زندگی بھر گرم آلو چھیلتا رہتا

انہیں کو لیلتا رہتا

چلو اچھا ہوا ایسی غلاظت سے

ظلم ہوتا ہے تو زنجیر ہلا دیتا ہوں

 ظُلم ہوتا ہے تو زنجیر ہلا دیتا ہوں 

نیند سے ظِل الہیٰ کو جگا دیتا ہوں 

مجھ کو تاریخ سے نِسبت ہے تو بس اتنی ہے

روز بچوں کو نیا جھُوٹ سنا دیتا ہوں 

آج بھی چھیڑ کے تقسیم کا خُونی قصہ 

اپنے ماں باپ کو اکثر میں رُلا دیتا ہوں 

سسکتی تان پہ تو گیت کوئی گا چلا جا

 سسکتی تان پہ تُو گیت کوئی گا، چلا جا

دہکتی آگ پہ مجھ کو ذرا نچا، چلا جا

میں دیکھتا تھا اسے جسم سے جدا کر کے

پھر ایک روز اسے کہہ دیا کہ جا چلا جا

اب آ گیا ہے مرا حال پوچھنے کو تو سن

اداس رہتا ہوں تھوڑا سا مسکرا، چلا جا

فیض کی سن کر سبھی سود و زیاں رہنے دئیے

 فیض کی سُن کر سبھی سُود و زیاں رہنے دئیے  

جب محبت ہو گئی،۔ کارِ جہاں رہنے دئیے 

ایک کُنجِ عافیت کافی تھا، سو اہلِ جنوں  

بس گئے دل میں کسی کے، دو جہاں رہنے دئیے

شاہزادے جنگ میں اک کوہ پر بیٹھے رہے  

اور میداں میں سپاہی بے اماں رہنے دئیے

بڑھا ہوا مرا ایمان آج کی شب ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بڑھا ہوا مِرا ایمان، آج کی شب ہے

قسم خدا کی یہ ایقان، آج کی شب ہے

صمیمِ قلب سے شب بھر خدا کا ذکر کرو

نزولِ رحمتِ رحمان، آج کی شب ہے

تِرے کرم سے تِری بخشش و عنایت سے

بھرا ہوا مِرا دامان، آج کی شب ہے

روح انساں کو حقیقت سے ملانے والے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


روح انساں کو حقیقت سے ملانے والے

مرحبا نغمۂ توحید سنانے والے

دَور پر دَور چلے بادۂ اخلاص کا پھر

منتظر بیٹھے ہیں سب پینے پلانے والے

کر دے بیدار ذرا پھر سے ضمیر انساں

خوابِ غفلت سے زمانے کو جگانے والے

ذکر سرکار سے چہرے پہ خوشی آتی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ذکرِ سرکارؐ سے چہرے پہ خوشی آتی ہے

منہ میں گویا کوئی مصری کی ڈلی آتی ہے

رت جگا روز ہی ہوتا ہے مدینے کے لیے 

نیند امیدِ زیارت پہ کبھی آتی ہے

رشک کرتی ہیں مِرے خواب نگر پر آنکھیں

خواب میں جوں ہی مدینے کی گلی آتی ہے

نور مطلق کے رنگیں نظارے کہاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نور مطلق کے رنگیں نظارے کہاں

رُوئے احمدﷺ کہاں چاند تارے کہاں

مل سکیں گے یہ دونوں کنارے کہاں

عشق اپنا کہاں حق کے پیارے کہاں

چاند شق ہو گیا،۔ آبرو پا گیا

یہ کہاں اور ان کے اشارے کہاں

کیا بیاں انساں سے ہو عظمت رسول اللہ کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کیا بیاں انساں سے ہو عظمت رسول اللہؐ کی

خود خدا کرتا ہے جب مِدحت رسول اللہ کی

دل میں حسرت ہے تو ہے حسرت رسول اللہ کی

خواہشِ قُربت ہے تو قُربت رسول اللہ کی

پہلے اپنے قلب کو آلائشوں سے پاک کر

ہر طرف دیکھے گا پھر صُورت رسول اللہ کی

Saturday, 17 August 2024

بات یہ تجھ کو اگر گوارا نہیں

 بات یہ تُجھ کو اگر گوارا نہیں

تو میرے بھی دل سے

اسے نکال دے

کیونکہ مصلحت تیری

میری سمجھ سے ہے بالا

علم ہے تیرا میری سوچ سے ورا اُل ورا

ٹی وی اینکرز وہ مرے دوست تھے یا دشمن تھے

 ٹی وی اینکرز


وہ مرے دوست تھے یا دشمن تھے

میری بے چارگی پہ روتے تھے

غم غلط ہو گیا مِرا آخر


محمد احمد

جگنوؤں کے قتل میں ناکام ہو کر

 شکست خوردہ نظم


جگنوؤں کے قتل میں ناکام ہو کر

جب وہ

اپنے ہاتھ میں خنجر لیے لوٹا

تو اس کے گھر کے سارے پھول

زخمی ہو چکے تھے


سلیم انصاری

مکین خاموش ہیں گھر بولتے ہیں

 مکین خاموش ہیں گھر بولتے ہیں

ہمارے شہر میں ڈر بولتے ہیں

بصارت ہو تو قطرے میں سمندر

سماعت ہو تو منظر بولتے ہیں

وصال یار کا افسوں سلامت

رگ و پے میں سمندر بولتے ہیں

دوست دشمن نظر نہیں آتے

 دوست دشمن نظر نہیں آتے

اب تو پتھر بھی گھر نہیں آتے

دوستی ہو گئی ستاروں سے

خواب اب رات بھر نہیں آتے

سب کو رونا مِرا مذاق لگے

اشک آنکھوں میں بھر نہیں آتے

توقع کیا تمہیں کوئی گزری ہوئی بات یاد آئے گی

 توقع


جب ہوا

دھیمے لہجوں میں کچھ گُنگناتی ہوئی

خواب آسا، سماعت کو چھو جائے، تو

کیا تمہیں کوئی گُزری ہوئی بات یاد آئے گی؟


پروین شاکر

پچیس شاعروں میں جو تھا ایک مسخرا

 زعفرانی کلام


پچیس شاعروں میں جو تھا ایک مسخرا

اُس کو مشاعرے کی نظامت ہوئی عطا

جتنے تھے حاضرین بنے سب تماش بین

برہم تھی اس لیے ہی فضائے مشاعرا

شاعر تھے جتنے سب ہی لفافوں کے تھے حریص

اس مسخرے کو کرتے وہ ناراض کیوں بھلا

ہر اک منظر وہیں ٹھہرا لگے گا

 ہر اک منظر وہیں ٹھہرا لگے گا

کبھی دریا کبھی صحرا لگے گا

ہوائیں لے اُڑے گی خوشبوؤں کو

تِرے دامن میں بس کانٹا لگے گا

کتابیں پھینک دو دریا میں ساری

پڑھو گے خُود کو تو اچھا لگے گا

خبریں اس کی تفصیل بیاں ہو کیسے

 خبریں


اس کی تفصیل بیاں ہو کیسے

صورتِ حال جو ہے سب کی

اگلے دو منٹوں میں دُنیا بھر میں

کوئی اک دوڑ لگاتا ہو گا

کوئی آرام سے لیٹا ہو گا

کوئی محبوب سے چمٹا ہو گا

زندگی بھر کی دعاؤں کا صلہ ہوتا ہے

زندگی بھر کی دعاؤں کا صلہ ہوتا ہے

اک وہ سجدہ جو تِرے در پہ ادا ہوتا ہے

دوستو! پرسش احوال سے کیا ہوتا ہے

اس تسلی سے تو غم اور سوا ہوتا ہے

جو ہلاک روش خود‌ نگری ہو جائیں

ان کو آئینہ دکھانے سے بھی کیا ہوتا ہے

چند حاجات مطلبی کے لیے

 چند حاجاتِ مطلبی کے لیے

پھر بڑھے ہاتھ دوستی کے لیے

فخر اور وہ بھی گُمرہی کے لیے

نا مناسب ہے آدمی کے لیے

جو ہیں بدنام کج روی کے لیے

وہ ہی آئے ہیں رہبری کے لیے

حسین چہرہ شمائل کا گوشوارہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حسین چہرہ شمائل کا گوشوارہ ہے

کمال خلق خصائل کا اک شمارہ ہے

خیال خام ہے تیرے بغیر شنوائی

تُو کل جہان میں رحمت کا استعارہ ہے

عطا ہو تجھے ندرت کتاب و حکمت کی

تُو انبیاء کے دبستاں کا شاہ پارہ ہے

زر کی نہ سیم کی نہ نگینے کی بات کر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زر کی، نہ سیم کی، نہ نگینے کی بات کر

کرنی ہی ہے تو مجھ سے مدینے  کی بات کر

بے کار ہیں چمن کے گلابوں کی خوشبوئیں

تُو میرے مصطفیٰﷺ کے پسینے کی بات کر

اِک میں ہوں اور ایک ہے دریائے رنج و غم

شہرِ نبیﷺ کو جاتے سفینے کی بات

آ گیا شہر اماں آہستہ چل

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

 

آ گیا شہرِ اماں، آہستہ چل

اے فقیرِ آستاں، آہستہ چل

گردشِ حالات رکتی ہے جہاں

اے دل اب تُو ہے وہاں آہستہ چل

اے مِری آہٹ مدینہ آ گیا

دھڑکنوں کے درمیاں آہستہ چل

گر طلب سے بھی کچھ ماسوا چاہیے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


گر طلب سے بھی کچھ ماسوا چاہیے

اُنﷺ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے

ڈوبتی ناؤ کو ناخدا چاہیے

اِک نظر اے شہِ دو سراﷺ چاہیے

دل کو دیدِ رُخِ مصطفیٰﷺ چاہیے

آئینے کے لیے آئینہ چاہیے

بڑھیا کی تم لاٹھی بنے مجبور کا ساتھی بنے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بڑھیا کی تم لاٹھی بنے، مجبور کا ساتھی بنے

اک تم بھی ہو اس شہر میں

اک وہ بھی ہیں اس شہر میں

جن کے سحر کے خوف سے

ترکِ وطن کرتی ہوں میں

بیٹا تمہارا نام کیا؟

اے حبیب کبریا خیرالبشر خیرالوریٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے حبیبِ کبریا خیرالبشر خیرالوریٰ

تاجدارِ انبیاء، خیرالبشر، خیرالوریٰ

آپ رحمت آپ برکت آپ سب کے خیر خواہ

قاسِمِ ارض و سما خیرالبشر خیرالوریٰ

یہ وظیفہ سب وظیفوں سے ہے افضل دوستو

یا محمد مصطفیٰﷺ خیرالبشر خیرالوریٰ

Friday, 16 August 2024

پریشاں ہو کے اپنی زندگی سے

 پریشاں ہو کے اپنی زندگی سے

کنارا کر لیا تھا ہر کسی سے

ہمیشہ در گزر کرتے رہیں کیا

تمہاری بے رخی کو ہم خوشی سے

دکھا کر دل ہمارا کیا ملے گا

بتاؤ؛ پوچھتی ہوں عاجزی سے

یہ فریبی سیاست نہیں چاہیے

 یہ فریبی سیاست نہیں چاہیے

اب خیالوں کی جنت نہیں چاہیے

تم ترقی فحاشی کو کہتے رہو

ہم کو غیرت کی قیمت نہیں چاہیے

قتل ہونے کو کہتے ہو تم حادثہ

ایسی جھوٹی حقیقت نہیں چاہیے

ہو مبارک یہ فیصلہ تجھ کو

 ہو مبارک یہ فیصلہ تجھ کو

جا، کِیا دل سے اب رِہا تجھ کو

ایک دن تجھ کو چھوڑ جائے گا

دے رہا ہے جو آسرا تجھ کو

بات کیوں کر نہیں رہے مجھ سے

کیا ہے درپیش مسئلہ تجھ کو؟

سب عمر تو جاری نہیں رہتا ہے سفر بھی

 سب عُمر تو جاری نہیں رہتا ہے سفر بھی

آتا ہے کسی دن تو بشر لوٹ کے گھر بھی

منزل تو بڑی شے، نہ ملی راہگزر بھی

باندھا تھا بڑے شوق سے کیا رختِ سفر بھی

اندر سے پھپھوندے ہوئے دیوار بھی، در بھی

دیکھے ہیں بڑے لوگوں کے ہم نے بڑے گھر بھی

قلزم خون شہیداں کے یہ دھارے تو نہیں

 سنگِ بے حس ہیں یہ، رنگین شرارے تو نہیں 

بُت کسی اور کے ہوں گے، یہ ہمارے تو نہیں 

اِن سے کچھ کام نکل سکتے ہیں اِس دنیا کے 

یہ اکابر مگر اُخریٰ کے سہارے تو نہیں 

ہم نفس ہی سے ہے تکمیلِ چمن آرائی 

شب کے ساتھی مِرے جگنو ہیں، ستارے تو نہیں 

سلام اس کو کیا جس کے نام چار طرف

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


سلام اس کو کیا جس کے نام چار طرف

اسی کے نام درودﷺ و سلام چار طرف

پڑی تھی گھیرے ہوئے فوجِ شام چار طرف

حسینؑ بیچ میں تھے روک تھام چار طرف

خضرؑ بھی لا نہ سکے ایک بوند پانی کی

یہ اشقیاء کا رہا انتظام چار طرف

خالق نے بنایا ہے نگہبان محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خالق نے بنایا ہے نگہبانِ محمدﷺ

گویا ابو طالبؑ ہوئے جزدانِ محمدﷺ

اسلام کے ظاہر سے بھی پہلے تھے مسلماں

ایسا ہے کوئی اور مسلمانِ محمدﷺ

رتبہ ابو طالبؑ کا وہ سمجھے گا بھلا کیا

جو شخص کہ رکھتا نہیں عرفانِ محمدﷺ

یہ بات طے ہے کہ اللہ دینے والا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ بات طے ہے کہ اللہ دینے والا ہے

مگر کسی کا بھی انداز لینے والا ہے

نکل سفر پہ تو پھر گہرے پانیوں سے نہ ڈر

وہ اور ہے جو تِری ناؤ کھینے والا ہے

وہ مجھ پہ آج بہت مہربان لگتا تھا

مجھے یقین ہے پھر داؤ دینے والا ہے

اتر رہی جگہ جگہ سکینہ ہے مدینہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اُتر رہی جگہ جگہ سکینہ ہے، مدینہ ہے

کہ زندگی کا خوب تر قرینہ ہے، مدینہ ہے

گلی گلی میں چار سُو ہے جنتوں کا راستہ

اُمید و مغفرت کا اِک سفینہ ہے، مدینہ ہے

فدا رہیں یہ مال و زر غبارِ خاکِ طیبہ پر

جو برکتوں کا قیمتی خزینہ ہے، مدینہ ہے

نعت کہنے کا جوں ہی ارادہ کیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نعت کہنے کا جوں ہی ارادہ کیا

ذہن و دل پر عجب خوف طاری ہوا

کس زباں سے کروں ان کی نعت و ثنا

میں خطا کار ہوں، وہ حبیبِ خدا

خالق دو جہاں ، قادر کُن فکاں

انﷺ کا رطب الساں

دن رات ہے رحمت کی برسات مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دن رات ہے رحمت کی برسات مدینے میں

اک عمر سے بہتر ہے اک رات مدینے میں

اقصیٰ بھی مقدس ہے کعبہ بھی مقدس ہے

پر سب سے نرالی ہے اک بات مدینے میں

ہر زائر طیبہ کی پیشانی ملک چومے

بڑھ جاتے ہیں انساں کے درجات مدینے میں

Thursday, 15 August 2024

دریا کے پاس کوئی کنارا نہیں رہا

 دریا کے پاس کوئی کنارا نہیں رہا

قسمت کا ساتھ میرے ستارا نہیں رہا

اپنوں کا اک ہجوم تھا ساحل پہ مستقل

ڈوبے تو تنکے کا بھی سہارا نہیں رہا

یادوں کا تیری چھن گیا جب اختیار بھی

کچھ بھی تو میرے یار ہمارا نہیں رہا

لاکھ کچھ نہ ہم کہتے بے زباں رہے ہوتے

 لاکھ کچھ نہ ہم کہتے بے زباں رہے ہوتے 

آپ تو بہ ہر صورت بد گماں رہے ہوتے 

وہ تو رنگ لے آئی اپنے خون کی گرمی 

ورنہ سارے قصے میں ہم کہاں رہے ہوتے 

رات کے بھنور میں ہیں ہم چراغ کی صورت 

ساتھ ساتھ ہوتے تو کہکشاں رہے ہوتے 

یوں آج تری بات اشارات میں گم ہے

 یوں آج تِری بات اشارات میں گُم ہے 

جیسے کوئی تصریح کنایات میں گم ہے

ہر فرد کی نظریں ہیں اُٹھی چرخ کی جانب

وہ چاند کی مانند سموات میں گم ہے

اب تک ہے تر و تازہ تِری دِید کی سوغات 

دل اب بھی تِرے لُطفِ ملاقات میں گم ہے

بچھڑتے ٹوٹتے رشتوں کو ہم نے دیکھا تھا

 بچھڑتے ٹوٹتے رشتوں کو ہم نے دیکھا تھا

یہ وقت ہم پہ بھی گزرے گا یہ نہ سوچا تھا

نمی تھی پلکوں پہ بھیگا ہوا سا تکیہ تھا

پتہ چلا کہ کوئی خواب ہم نے دیکھا تھا

ہمارے ذہن میں اب تک اسی کی ہے خوشبو

تمہارے صحن میں بیلے کا ایک پودا تھا

جو نام سب سے ہو پیارا اسے مکان پہ لکھ

 جو نام سب سے ہو پیارا اسے مکان پہ لکھ

بدن کی حد سے گزر اور اس کو جان پہ لکھ

بجا ہے کرتے ہیں پانی پہ دستخط سب لوگ

جو حوصلہ ہے تو نام اپنا آسمان پہ لکھ

تو لکھنے بیٹھا ہے میرے خلوص کا قصہ

یقین پر نہیں لکھتا نہ لکھ گمان پہ لکھ

محبت عام کرنے میں زرا تکلیف تو ہو گی

 ہمیں داتا کے بندوں کے دلوں کو رام کرنے میں

محبت عام کرنے میں

خدا کا کام کرنے میں

ذرا تکلیف تو ہو گی

کوئی انگلی اٹھائے گا

کوئی باتیں بنائے گا

پاس ہے مال و متاع اور نہ دانائی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


پاس ہے مال و متاع اور نہ دانائی ہے

لطفِ سرکار سے ہم جیسوں کی شنوائی ہے

کوئی بوذرؓ، کوئی قنبرؒ، کوئی مقدادؓ بنا

درِ احمدؐ سے ہوئی جن کی شناسائی ہے

درِ احمدﷺ پہ ملی، منا، کی سلماں کو سند

لطف ایسا ہے یہاں ایسی پذیرائی ہے

خاک جب آپ کے زیرِ کف پا آتی ہے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خاک جب آپ کے زیرِ کفِ پا آتی ہے

خود نمائی پہ ستاروں کو حیا آتی ہے

ایک در خُلد میں ایسا ہے مقدر والا

جس کو کھولیں تو مدینے کی ہوا آتی ہے

پھر کہیں جاکہ زمانے میں ضیا بانٹتی ہے

چاندنی پہلے پہل غارِ حِرا آتی ہے

چار سو پھیلتا جاتا ہے سویرا تیرا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چار سو پھیلتا جاتا ہے سویرا تیرا

یا نبیؐ خوش ہے بہت چاہنے والا تیرا

یہ مِرے شعر کی معراج نہیں تو کیا ہے؟

نام یوں مصرعۂ موزوں میں سمانا تیرا

بخششیں کرتی ہے اِک نیم نگاہی تیری

معتبر کرتا ہے کم تر کو حوالہ تیرا

دل بھی سلگاؤ کہ پھر عشق نکل کر آئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل بھی سلگاؤ کہ پھر عشق نکل کر آئے

روشنی اصل میں وہ ہے کہ جو جل کر آئے

کب سے منسوخ زمانہ تھا زمیں پر رائج

پھر حضورﷺ آپ گئے وقت بدل کر آئے

کیا سفر تھا وہ مدینے سے محمد کی طرف

لوگ بے ہوش تھے اور ہوش میں چل کر آئے

مٹیں رنج و غم آزما کے تو دیکھو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مٹیں رنج و غم آزما کے تو دیکھو

ذرا اُنﷺ کی محفل سجا کے تو دیکھو

سکوں ہو گا حاصل دلِ مضطرب کو

خیال اُنﷺ کا دل میں بسا کے تو دیکھو

یہ کیوں کہتے ہیں ہم مدینہ مدینہ

کبھی تم مدینے میں جا کے تو دیکھو

Wednesday, 14 August 2024

اے زمین فلسطین تیری قسم

 اے زمینِ فلسطین تیری قسم 

تیرے آگے جھکے گی جبینِ ستم

ہے قسم ہم کو حق کی نہ چھوڑیں گے ہم

پشتِ باطل کو اب جلد توڑیں گے ہم

حق کے گاڑیں گے تیری زمیں پر علم

اے زمینِ فلسطین تیری قسم

پردیس جانے والے اب لوٹ کے بھی آ جا

 پردیس جانے والے اب لوٹ کے بھی آ جا

کہ بجھ نہ جائے یوں ہی چراغ زندگی کا

برسوں سے میری آنکھیں راہ تک رہی ہیں تیرا

دل رکھ دیا ہے راہ میں، تحفہ ہے یہ ذرا سا

کس کو سناؤں ہجر مسلسل کی یہ کہانی

کچھ آ کے میری سن لے، اپنی مجھے سنا جا

کل پردیس میں یاد آئے گی دھیان میں رکھ

 کل پردیس میں یاد آئے گی دھیان میں رکھ

اپنے شہر کی مٹی بھی سامان میں رکھ

سارے جسم کو لے کر گھوم زمانے میں

بس اک دل کی دھڑکن پاکستان میں رکھ

جانے کس رستے سے کِرنیں آ جائیں

دل دہلیز پہ، آنکھیں روشندان میں رکھ

دیس پردیس میں رلتے ہوئے گڑیاؤں کے بابا جانی

 دیس پردیس میں رُلتے ہوئے گُڑیاؤں کے بابا جانی

ہاتھ پتھر کے ہوئے ایسے جگہ باقی نہیں چھالوں کو

نیند کے نام پہ کُچھ کروٹیں لے پاتے ہیں

کِتنا ہنستے ہیں یہ باسی لطیفے سُن کر

وقت بے وقت نمی رہتی ہے کیوں آنکھوں میں

میلا بستر ہو، یا بِکھرا ہوا کمرہ ہو

ترک وطن مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو

 ترکِ وطن


مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو

نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر

منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے

رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر


ہر فریبِ تازہ کو مسکرا کے دیکھا تھا

دل کو عہدِ رفتہ کے طور ابھی نہیں بھولے

جانے کوئی کب کہہ دے جانا ہے مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جانے کوئی کب کہہ دے، جانا ہے مدینے میں

کچھ پھول درودوں کے لانا ہے مدینے میں

وہ گنبدِ خضراء بھی دیکھیں تو ذرا جا کر

خوابوں کی وہ تعبیریں پانا ہے مدینے میں

اللہ ہی تو واحد ہے، معبودِ حقیقی ہے

ہو کر ہمیں کعبے سے جانا ہے مدینے میں

مطلع فاراں سے چمکا وہ عجب تر آفتاب

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مطلع فاراں سے چمکا وہ عجب تر آفتاب

دیر تک دیکھا کیا حیرت سے چھپ کر آفتاب

اُنﷺ کے آگے اور ٹھہریں کفر کی تاریکیاں

وہ جو ذروں کو بنا دیں مسکرا کر آفتاب

بن گئی ہیں بزم ہستی جگمگانے کے لیے

عارضِ احمدﷺ کی تنویریں سمٹ کر آفتاب

کوئی محشر بھی ہوتا کوئی پل تلوار ہو جاتا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کوئی محشر بھی ہوتا، کوئی پُل تلوار ہو جاتا 

میں تیراﷺ نام لیتا، پاؤں رکھتا، پار ہو جاتا 

اگر سورج اُتر آتا، سوا نیزے کی دُوری پر 

وہاں بھی نام تیراﷺ سایۂ دیوار ہو جاتا 

اُدھر دیکھا نہیں آقاؐ نے، تو کچھ بھید ہے ورنہ 

جہنم پر نظر پڑتی تو وہ گلزار ہو جاتا 

نہ پوچھ ہم سے یہ کس وقت کب درود پڑھا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نہ پوچھ ہم سے یہ کس وقت کب درود پڑھا

نبیﷺ کی آلؑ پہ بس روز و شب درود پڑھا

قرار کی ہوئی جب بھی طلب درود پڑھا

سکون دل کو ملا میں نے جب درود پڑھا

جب انﷺ کا ذکر ہوا تو یہ آنکھ بھر آئی

جب انﷺ کا نام سنا زیرِ لب درود پڑھا

Tuesday, 13 August 2024

حسرت دید ارض نبی رہ گئی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حسرتِ دیدِ ارضِ نبیؐ رہ گئی

شاخِ نخلِ تمنّا ہری رہ گئی

دیکھ تو آئے نجد و حجاز و یمن

حسرتِ دِیدِ ارضِ نبیﷺ رہ گئی

اُمتِ مُسلمہ جس کو مل کر منائے

ایک میلاد ہی کی خوشی رہ گئی

ذرا سی بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

 ذرا سی بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

کہ جن پہ مان ہوں ان سے گِلہ نہیں کرتے

تیری عطا ہے سو دل سے لگائے بیٹھے ہیں

ہر ایک درد تو ہم بھی سہا نہیں کرتے

تمہیں بھی پیار ہے اور بےقرار ہم بھی ہیں

تو کیوں ملن کا کوئی سلسلہ نہیں کرتے

چند سانسوں کا بھرم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

 چند سانسوں کا بھرم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

یہ غنیمت کوئی کم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

میرے دشمن تو مجھے مار چکے تھے کب کا

یہ خبر ان پہ تو بم ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی

میں تو سمجھا تھا مِری موت پہ روئے ہیں مگر

ان کو اس بات کا غم  ہے کہ میں زندہ ہوں ابھی 

ابو کے نام میرے تنہا خدا

 ابو کے نام


میرے تنہا خدا

میں نے پچیس برس اس کے سائے کے بن

اس کے بن

ایسے تنہا گزارے کہ جیسے کسی دشت میں

میل ہا میل تک

کوئی پانی نہ ہو اور مسافر بھی واقف ہو اس سے

وہ بے نیاز شب و روز و ماہ و سال گیا

 وہ بے نیاز شب و روز و ماہ و سال گیا

اب اس کے گمشدہ ہونے کا احتمال گیا

وہ اک خیال کہ ہر دم جہاں خیال گیا

کبھی عذاب میں رکھا کبھی سنبھال گیا

جو شہر لفظ و معانی سے دور دور رہا

وہ بے ہنر تری گلیوں سے با کمال گیا

بجا کہ اس کو مرا غم سمجھ میں آتا ہے

 بجا! کہ اس کو مِرا غم سمجھ میں آتا ہے

ہے جتنا اس سے زرا کم سمجھ میں آتا ہے

وہ چاہے جون ہو، غالب ہو یا خدائے سخن

گزر چکا ہو تو موسم سمجھ میں آتا ہے

وہ ایسی نظم جو فوراً زباں پہ چڑھتی ہے

میں ایسا شعر، جو اک دم سمجھ میں آتا ہے 

حیدر کے فضائل پہ لکھے جائیں گے دیواں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت تضمین بر کلامِ اقبال


حیدرؑ کے فضائل پہ لکھے جائیں گے دیواں

"گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی بُرہاں"

جبریلؑ بیاں کرتے ہیں اک ضرب کی تفسیر

"دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں"

مشغولِ تلاوت جو سرِ نوکِ سناں ہے

"قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں"

چلو دونوں علی مولا کو یکساں مان لیتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


قلم کی اس صداقت کو زمانے مان لیتے ہیں

قصیدہ لکھتے ہیں تو لہجۂ قرآن لیتے ہیں

تمنا ہے کہ مدحت کا اثر ہو روح پر اپنی

علیؑ کا ذکر سننے کو خدا سے کان لیتے ہیں

زمانہ تیز ہے لوگوں نے چہرے اوڑھ رکھے ہیں

علیؑ کا ذکر کر کے ہم انہیں پہچان لیتے ہیں

لگتا ہے مرا بھائی علی بول رہا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لگتا ہے مِرا بھائی علیؑ بول رہا ہے

یہ پیشِ جلی میرا نبیﷺ بول رہا ہے

پہنچے سرِ معراج تو کہتے ہیں محمدﷺ 

لہجے میں بھلا کس کے جلی بول رہا ہے

جب غور سے آوار سنی بولے پیمبرﷺ 

شاید کہ مِرا اپنا کوئی بول رہا ہے

شعر میں آنے لگے گی تازگی یعنی علی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شعر میں آنے لگے گی تازگی یعنی علیؑ

جب ملے گی آگہی کو روشنی یعنی علیؑ

عرش کی جانب روانہ کر دیا میں نے خیال

اب فرشتے بھی کریں گے شاعری یعنی علیؑ

اُس طرف ’لَو لَا‘ کا نعرہ اور ’سَلُونِی‘ اِس طرف

ہم نے پایا ہے فرازِ آگہی، یعنی علیؑ