عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حشر میں کام نہ کوئی بھی میری جان آیا
میری بگڑی کو بنانے تِراﷺ احسان آیا
دیکھ کر شان تِریؐ اہلِ فلک تھے حیران
مرحبا صلِ علیٰﷺ عرش کا مہمان آیا
بن گیا عرشِ معلیٰ دلِ ویراں میرا
تِرا ارمان مِرے دل میں جو مہمان آیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حشر میں کام نہ کوئی بھی میری جان آیا
میری بگڑی کو بنانے تِراﷺ احسان آیا
دیکھ کر شان تِریؐ اہلِ فلک تھے حیران
مرحبا صلِ علیٰﷺ عرش کا مہمان آیا
بن گیا عرشِ معلیٰ دلِ ویراں میرا
تِرا ارمان مِرے دل میں جو مہمان آیا
عمر بھر ہم نے کوئی زخم نہ بھرتے دیکھا
دلِ مجروح طبیبوں سے الجھتے دیکھا
اتنی مہلت ہی نہ دی اس نے کہ ہم کچھ کہتے
ہم نے سمٹے ہوئے لفظوں کو بکھرتے دیکھا
آئے بادل تو گھڑے توڑ دئیے ہم نے بھی
اور پھر ان کو نہ آنگن میں برستے دیکھا
نم دیدہ ہیں معصوم سی کشمیر کی آنکھیں
حسرت سے انہیں تکتی ہیں تدبیر کی آنکھیں
زنداں کے غم و درد کا احساس ہے ان کو
اطراف مِرے لپٹی ہیں زنجیر کی آنکھیں
مل جاتی انہیں قوتِ گویائی تو کیا تھا
کچھ کہنے سے معذور ہیں تصویر کی آنکھیں
آرزو کب کوئی محتاج بیاں ہوتی ہے
خامشی خود ہی محبت کی زباں ہوتی ہے
راحت و عیش میں یہ بات کہاں ہوتی ہے
زندگی درد میں ڈوبے تو جواں ہوتی ہے
طالب عشق و محبت ہیں نہ پوچھو ہم سے
شب کہاں صبح کہاں شام کہاں ہوتی ہے
اک دوسرے کا درد سمجھتا کوئی نہیں
حیرت یہ ہے کہ خود سے شناسا کوئی نہیں
میں کب سے چیختا ہوں؛ بُرائی کو چھوڑو
افسوس، میری بات کو سُنتا کوئی نہیں
دیکھیں اگر بغور تو اپنے ہیں سب یہاں
سوچیں اگر بغور تو اپنا کوئی نہیں
کون کہتا ہے سر عرش بریں رہتا ہے
وہ تو اک درد ہے جو دل کے قریں رہتا ہے
چاند پر اپنے قدم آپ نے کیوں روک لیے
ایک گام اور کہ سورج بھی یہیں رہتا ہے
شمع کی طرح پگھلتا ہوں میں لمحہ لمحہ
میرے احساس میں اک شعلہ جبیں رہتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تنہائیوں میں اسم محمدﷺ پکار کے
دیکھا ہے ہم نے روح کو یوں بھی نکھار کے
دیکھو مِری زباں پہ درود و سلام ہے
احسان مجھ پہ کتنے ہیں پروردگار کے
اے کاش خاکِ طیبہ کا سرمہ ہمیں ملے
منظر وہ ہم بھی دیکھیں کبھی آرا پار کے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قافلہ ہے چلا کل مدینے کو پھر
میں تڑپ اپنی سب سے چھپاتی رہی
دل تھا غم سے بھرا روح رونے لگی
صبر پھر ان کو کرنا سکھاتی رہی
کب حضوری مدینہ ملے گی مجھے
یہ سوالوں کی گٹھری رلاتی رہے
کیا شکایت ہو بھلا اس سے ہو شکوہ کیسا
وقتِ مشکل جو نہیں اپنا تو اپنا کیسا
مفلسی شہر سے رخصت ہوئے عرصہ گزرا
پھر تِرے شہر میں یہ شور شرابہ کیسا
اب نئے پھول چمن میں بھی نہیں دکھتے ہیں
رنگ چھایا ہے بہاروں پہ خزاں سا کیسا
مقرر کی موت
تیری تقریروں سے کل دنیا کی محفل گرم تھی
لغو گو لفاظیوں سے پانی پانی شرم تھی
تیرے کچھ مخصوص جملے، تیرا کچھ مخصوص ڈھنگ
برق آسا رونما کرتا تھا محشر خیز ڈھنگ
کل جسے دنیا میں تُو سمجھا تھا وجہِ برتری
اب وہ کام آتی نہیں الفاظ کی جادوگری
رنج پر رنج مصیبت سی مصیبت دیکھی
ہجر مولا میں یہ آرام کی صورت دیکھی
محو دیدار رہے حشر میں عاشق تیرے
آنکھ اٹھا کر نہ کبھی خلد کی صورت دیکھی
لے لیا وعدۂ بخشش بھی دہائی کر کے
شافع حشر کی امت سے محبت دیکھی
جہانِ درد و غم ہے اور میں ہوں
تِرا نقش قدم ہے اور میں ہوں
کسی کی آنکھ نم ہے اور میں ہوں
وفورِ شوق کم ہے اور میں ہوں
مجھے ہے دولتِ کونین حاصل
مِرے رب کا کرم ہے اور میں ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے قلم کی جو بھی صدا ہے مولا
سبھی وہ تیری عطا ہے مولا
جی رہا ہوں دیارِ غم میں بھی
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مولا
تیرے کرم سے ڈھکا ہوا ہوں
یہ رحمتوں کی قبا ہے مولا
درد میرا جو صرف میرا ہو
آپ کس بات کے مسیحا ہو
جنگ لڑنی ہو جس کو رشتوں سے
ہو وہ پاگل نہیں تو پھر کیا ہو
وہ اتارے گئے فرشتوں سے
ہم کو جیسے زمیں پہ پھینکا ہو
سکوں تلاش نہ کر آرزو کے دیوانے
جو زندگی نے دیا ہے وہ زندگی جانے
اس اہتمام سے اکثر اٹھے ہیں پیمانے
کہ بوند بوند کو میں جانوں یا خدا جانے
دکھے ہوئے دل آدم میں ہے امید کی دھوم
ہیں ایک بات سے پیدا ہزار افسانے
انہیں مل گیا ہے ایسا دل پر سکوں کہاں سے
کہ ہوا ہے عشق ان کو میرے نالہ و فغاں سے
کبھی چھپ کے دیکھ آئے تِرے حسن کی تجلی
کبھی تیری انجمن میں گئے مِل کے پاسباں سے
مجھے دردِ دل مِٹا دے، کہ فنا ہے رازِ ہستی
تو حیاتِ جاوداں ہو مجھے مرگِ ناگہاں سے
رہ وفا میں عجب سلسلہ بھی ملتا ہے
کوئی ہے خوش تو کوئی غمزدہ بھی ملتا ہے
خوشی ہمیشہ ملے پیار میں کہاں ممکن
غمِ فراق کا کچھ ذائقہ بھی ملتا ہے
یہ مانا اس میں جفاؤں کا تذکرہ ہے بہت
کتابِ عشق میں بابِ وفا بھی ملتا ہے
نا اہل سے بھولے سے دانائی نہ لی جائے
دریا سے سمندر کی گہرائی نہ لی جائے
ہر پل ہو ثنا خوانی اس رب حقیقت کی
اس عالم عرفاں سے تنہائی نہ لی جائے
جس بزم میں ملتا ہو انصاف جہانگیری
اس بزم سے پھر کیسے اچھائی نہ لی جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے خالق کا مجھ پر کرم ہو گیا
نعت کا کچھ تو ساماں بہم ہو گیا
نعت پر نعت لکھتا رہا رات بھر
سرخرو ان کے آگے قلم ہو گیا
میری سوچوں کے ہر زاویے پر ادھر
نقش انﷺ کا ہی نقشِ قدم ہو گیا
غم حبیب نہ آیا ہے سازگار کسے
غم اور اتنا حسیں غم ہے ناگوار کسے
یہاں حفاظتِ زخمِ جگر ہے ناممکن
وہ اس لیے کہ ہے نظروں پہ اختیار کسے
شکست ہو کے رہی ہے ہر ایک چارہ گری
بلا کے لائیں گے اب میرے غمگسار کسے
رگوں میں زہر کا نشتر چبھو دیا میں نے
نہ راس آیا جو ہنسنا تو رو دیا میں نے
کہیں پہ کوئی مِرا عکس ہی نہیں ملتا
کس انتشار میں خود کو ڈبو دیا میں نے
تم اپنے خواب کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لینا
متاعِ جاں کی تمنا تو کھو دیا میں نے
ڈوبے نہ کبھی جو وہ قمر مانگ رہے ہیں
تاریک نہ ہو جو وہ سحر مانگ رہے ہیں
پھیلا کے تھکے ہاتھ یہ لب سوکھ چلے ہیں
ہوتا ہے دعا میں جو اثر مانگ رہے ہیں
پھر تُو جو گیا ساتھ بصارت بھی گئی ہے
آ جائے ںظر جس سے، نظر مانگ رہے ہیں
دل کے جذبات کو سینے میں چھپانا مشکل
اپنا گھر اپنے ہی ہاتھوں ہے جلانا مشکل
کیفیت دل کی تو چہرے سے عیاں ہوتی ہے
عشق اور مشک کو جیسے ہو چھپانا مشکل
مشکلیں آج بھی کچھ کم نہیں انساں کے لیے
آنے والا ہے مگر اور زمانا مشکل
بفیض عشق میرا تذکرہ کہاں نہ ہوا
فسانہ پھر بھی کوئی زیبِ داستاں نہ ہوا
ازل سے آپ ہی اپنے رہے ہیں دُشمنِ جاں
ہمارے درپئے آزار آسماں نہ ہوا
ہمیشہ یونہی تعصّب کی دُھوپ میں پگھلا
برہنہ سر پہ مِرے کوئی سائباں نہ ہوا
محتاج کرم صاحب مقدور کھڑے ہیں
نادار ہیں، مفلوج ہیں، معذور کھڑے ہیں
ناکردہ خطاؤں کی کئی تہمتیں اوڑھے
اے ظرف! ترے آگے یہ مجبور کھڑے ہیں
یہ سچ ہے مرا گھر تو چراغوں سے جلا ہے
کیوں خاص تماشائی بڑے دور کھڑے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مہک بھر آئی پھولوں میں ہوئے شاخ و ثمر روشن
کفِ پائے محمدﷺ نے کیے شمس و قمر روشن
زمیں پر پیڑ چلتے ہیں،۔ کبھی سورج پلٹتا ہے
بہ فیضِ احمد مرسلﷺ ہوئے ہیں بحر و بر روشن
ہر اک پل سہارا عاصیوں کو ان کی رحمت کا
ہے جن کی سیرت اطہر کی ہر زیر و زبر روشن
عشق میں ہر بلا کو آنے دو
مجھ کو میرا مقام پانے دو
گزری باتوں کو کیسے جانے دوں
عہد ماضی کو یاد آنے دو
مرحلوں سے گریز کیا مانع
ہمت زیست کو بڑھانے دو
ہوئے بارش کو اتنے دن مگر پانی نہیں برسا
ذرا سی دیر کو برسا ہے من مانی نہیں برسا
ابھی ڈالے نہیں جھولے،۔ ابھی ساون نہیں آیا
ابھی بھادوں نہیں بھیگا، ابھی پانی نہیں برسا
جدھر دیکھو ادھر میلیا رنگت کے قبضے ہیں
زمیں پر رنگ لگتا ہے ابھی دھانی نہیں برسا
تصور میں مرے کعبہ نہ اب بتخانہ آتا ہے
نظر ہر سمت مجھ کو جلوۂ جانانہ آتا ہے
ہوا ہوں ایسا بے خود اک بت کافر کی الفت میں
کہ کعبہ میں بھی اب مجھ کو نظر بت خانہ آتا ہے
حقیقت میں نمود حسن ہی ہے عشق کا باعث
نمائش حسن کی ہوتی ہے جب پروانہ آتا ہے
کیا عجب مرنے پہ بھی عشق کی خُو ساتھ رہے
سُوکھ بھی جائے اگر پھُول تو بُو ساتھ رہے
کانپتے ہاتھوں سے دامانِ تقدس نہ چھٹے
میکدے جاؤں تو اک ظرفِ وضو ساتھ رہے
اے خیالِ رخِ جاناں! مِری جاں تجھ پہ نثار
دونوں عالم مجھے حاصل ہیں جو تُو ساتھ رہے
گُم ہو نہ جائے رونقِ بازار کیا کریں
مہنگائی اس قدر ہے خریدار کیا کریں
بچوں سے اپنے اُنس کا اصرار کیا کریں
ہم خود ہیں اپنی ذات سے بیزار کیا کریں
عزت کا پاس کوئی بھی کرتا نہیں ہے اب
شہرِ انا میں صاحبِ دستار کیا کریں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چہرہ شمس الضحیٰ، دلربا آپؐ کا
کوئی ثانی کہاں مصطفیٰﷺ آپ کا
حوض کوثر کے ساقی شہہ دوجہاں
دستِ قدرت ہے دستِ عطا آپ کا
شافعِ روز محشرﷺ کرم کیجیے
مجھ سے عاصی کو ہے آسرا آپ کا
نیا شگوفہ اشارۂ یار پر کھلا ہے
گلاب اب کے چمن کی دیوار پر کھلا ہے
یہ کیسی انگڑائی لی ہے احساس زندگی نے
مسیح کا رنگ روئے بیمار پر کھلا ہے
نفی کا جادو جگا رہی ہیں طلسمی آنکھیں
وہ حرف مطلب فصیل اظہار پر کھلا ہے
جس طرح سے پھولوں کی ڈالیاں مہکتی ہیں
میرے گھر کے آنگن میں بیٹیاں مہکتی ہیں
پھول سا بدن تیرا اس قدر معطر ہے🌼
خواب میں بھی چھو لوں تو انگلیاں مہکتی ہیں
ماں نے جو کھلائی تھیں اپنے پیارے ہاتھوں سے
ذہن میں ابھی تک وہ روٹیاں مہکتی ہیں
کیسے ہیں لوگ اور یہ کیسا دیار ہے
دیکھو جسے اسیرِ غمِ روزگار ہے
ہر ایک شخص بغض و حسد کا شکار ہے
یا رب! جہاں میں تیرے یہ کیا انتشار ہے
درماندگی سے لوگ ہراساں ہیں ہر طرف
دامانِ دل ہے چاک،۔ تو سینہ فگار ہے
دل کے کہنے پہ میں چلا ہی نہیں
عشق کی چال میں پھنسا ہی نہیں
اس گرانی میں عشق کو ٹٹولا
لاکھ پیٹا مگر چلا ہی نہیں
جس طرح میں لٹا جوانی میں
یوں کوئی آج تک لٹا ہی نہیں
اٹھو ردائے رعونت کو تار تار کریں
خدا کے نام پہ انسانیت سے پیار کریں
چلو چمن میں چراغاں بصد وقار کریں
بڑھو حیات کے دامن کو لالہ زار کریں
نئی فضائیں، نئی نکہتیں، نئی راہیں
گلِ مراد سے دامن کو مشکبار کریں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ خاتم المرسلینؐ جس نے
تمام شعبوں میں زندگی کے
عمل کے پیکر میں خود کو ڈھالا
امین ایسا
کہ خود امانت کو
اپنی قسمت پہ رشک آئے
محبت کی فراوانی نہیں ہے
زمانے! کوئی حیرانی نہیں ہے
اسے جس طرح تم چاہو بہا دو
ہے خوں انسان کا پانی نہیں ہے
بلند آوازِ حق کرتا رہوں گا
مجھے تسلیم آسانی نہیں ہے
ہنر مندی جو تہمت بھر ملی ہے
تو رسوائی بھی شہرت بھر ملی ہے
مجھے تعبیر کی جھوٹی نمائش
حسیں خوابوں کی جنت بھر ملی ہے
وہ کیسا پیڑ تھا جو چھاؤں اس کی
مجھے سورج کی حِدت بھر ملی ہے
زندگی کی راہوں میں پر خطر اندھیرا ہے
دیکھ کر قدم رکھنا ہمسفر اندھیرا ہے
غم کی رات میں یوں تو زخمِ دل بھی روشن ہے
پھر بھی دیکھ لے آ کر، کس قدر اندھیرا ہے
تابناک ماضی کے ان حسین محلوں کا
ہر چراغ مُردہ ہے، ہر کھنڈر اندھیرا ہے
بزمِ خُوباں سے اُٹھے دار و رسن تک پہنچے
آپ ہی آپ مِرے پاؤں گگن تک پہنچے
ایک میں ہی تھا جو صیّاد کی جھولی میں گرا
اُڑ گئے سارے پرندے جو چمن تک پہنچے
صرف دل ہی کو جلانا تو کوئی بات نہیں
عشق اک آگ اگر ہے تو بدن تک پہنچے
آگ نفرت کی بجھانے کے لیے کافی ہوں
میں تجھے پیار سکھانے کے لیے کافی ہوں
ایک قطرہ ہوں میں دریا تو نہیں ہوں لیکن
میں تِری پیاس بجھانے کے لیے کافی ہوں
میں ہوں کمزور مگر اتنا بھی کمزور نہیں
میں تِرا شہر جلانے کے لیے کافی ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوچۂ سرکارؐ کی باتیں کریں
خلد کے گلزار کی باتیں کریں
لحنِ داؤدی بھی ہے جس پر فدا
ان لب و رخسار کی باتیں کریں
نیکیاں آ جائیں گی کرنا ہمیں
سیدِ ابرارﷺ کی باتیں کریں
عظیم سچ
مرے خدایا
بچھڑ نہ جائے
جو مجھ سے اب تک ملا نہیں ہے
وہ میری راتوں کا رت جگا بھی
ہے میرے خوابوں کی چاندنی بھی
میں اس کو دیکھوں
چشم تر ہے کوئی سراب نہیں
درد دل اب کوئی عذاب نہیں
کیسے اس بات پر یقیں کر لوں
تو حقیقت ہے کوئی خواب نہیں
موسم گل کا ذکر رہنے دے
یہ مری بات کا جواب نہیں
اک قصۂ طویل ہے افسانہ دشت کا
آخر کہیں تو ختم ہو ویرانہ دشت کا
مجھ کو بھی غرق بحر تماشا میں کر دیا
اب حد سے بڑھتا جاتا ہے دیوانہ دشت کا
تعویذ آب کے سوا چارہ نہیں کوئی
آسیب تشنگی سے ہے یارانہ دشت کا
زخم گناہ چاہتی ہے جان ان دنوں
آنسو ہی اب تو ہو گئے پہچان ان دنوں
دوشیزۂ زندگی سے دل اچاٹ ہو گیا
ہے موت کی حسینہ سے پیمان ان دنوں
سنگ کھاتے کھاتے مر گیا آشفتہ آدمی
زندہ ہے مجھ میں اک نیا انسان ان دنوں
دلوں کے راز سپرد ہوا نہیں کرتے
ہم اہل دل ہیں تماشا بپا نہیں کرتے
کبھی گلوں کی وہ خواہش کیا نہیں کرتے
جنہیں عزیز ہیں کانٹے گلہ نہیں کرتے
ہمارے نام سے زندہ ہے سنت فرہاد
ہم اپنے چاک گریباں سیا نہیں کرتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رحمتوں کے نزول کر یا رب
زحمتیں سب فضول کر یا رب
راہ جو بھی جدھر کو جاتی ہو
اس کو راہِ رسولﷺ کر یا رب
بے اصولوں کا با اصول بنا
یعنی کانٹوں کو کو پھول کر یا رب
تبدیلی کا اشارہ
ابھی کچھ بھی نہیں بدلا
مگر آثار کہتے ہیں
اسی ظلمت گزیدہ راہ سے سورج کو آنا ہے
فصیلوں پر جمی گہری سیاہی کے افق سے
چمکتی دھوپ کے منظر کو کھلنا ہے
ہمیں اس نیند سے بیدار ہونا ہے
اس پہ جی سے گزر گئے شاید
نامہ بر جا کے مر گئے شاید
قاصد آتا نہیں خجالت سے
خط وہ لے کے مُکر گئے شاید
آئی جو ماہتاب میں رونق
بام سے وہ اُتر گئے شاید
سنگ جفا سے پس کے ولی خاک تو ہوا
بارے حریفِ گردشِ افلاک تو ہوا
یغمائے روزگار نے چھینا سکونِ دل
لیکن معاملات میں چالاک تو ہوا
دل کو مدافعت کے طریقے تو آ گئے
لُٹ کر رہِ حیات میں بے باک تو ہوا
قلندر تھا کوئی سلطان تھا میں
کوئی دن دشت میں مہمان تھا میں
گِرا دیکھا اٹھایا نہ کسی نے
کہ لا وارث کوئی سامان تھا میں
چھُوا تم نے تو مجھ میں جان آئی
تو کیا اتنے دنوں بے جان تھا میں
گزر جہاں کے خنجرِ دو دم سے کھیلتا ہُوا
خوشی سے کھیلتا ہوا، الم سے کھیلتا ہوا
ہوائے دَیر و کعبہ و حرم سے دُور دُور
ہوائے دَیر و کعبہ و حرم سے کھیلتا ہوا
کسی کے گیسوؤں کے پیچ و خم کا ہو کے رہ گیا
کسی کے گیسوؤں کے پیچ و خم سے کھیلتا ہوا
فائدہ کچھ نہیں اشاروں سے
ہم بہت دور ہیں کناروں سے
دل منور ہوا شراروں سے
ہم کو نسبت ہے چاند تاروں سے
خوب مہکے خزاں کے موسم میں
زخم کھائے تھے جو بہاروں سے
نگاہ شوق تجھے کامیاب کس نے کیا
دل تباہ کو خانہ خراب کس نے کیا
کتاب غم کی کئی لوگ لکھ رہے تھے مگر
ہمارے نام اسے انتساب کس نے کیا
خموش درد کو اظہار کی زباں دے کر
خود اپنے آپ کو یوں بے نقاب کس نے کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دیار مصطفیٰﷺ کی آرزو ہے
درِ خیرالوریٰﷺ کی آرزو ہے
لگا لے آنکھ سے روضے کی جالی
یہ ان کے ہر گدا کی آرزو ہے
ملے حسنینؑ کا مجھ کو اتارا
غلامِ مصطفیٰؐ کی آرزو ہے
وہ لڑکی
جو تمہاری ہمسفر ہے
جسے میں نے کبھی
دیکھا نہیں
جسے میں نے کبھی جانا نہیں ہے
اس انجان لڑکی کے لیے
اس کا جھوٹ سند ہے حد ہے
میری سچ بات بھی رد ہے حد ہے
ایسی کرتا وہ مدد ہے، حد ہے
چھوٹا کرتا میرا قد ہے، حد ہے
بھوک سے لوگ گنواتے ہیں جان
اور سڑتی یہ رسد ہے، حد ہے
کب دھلتی ہے چہرے سے یہ گردِ سفر پوچھو
آوارہ ہواؤں سے موسم کی خبر پوچھو
پھر لوگ بناتے ہیں تعمیر کا منصوبہ
مٹ جائیں گے نقشہ سے کیا اور بھی گھر پوچھو
کہنے کو تو کہہ دیں گے احوال زمانے کا
اور خود سے بھی غافل ہیں سچ بات اگر پوچھو
ہمیشہ کسی امتحاں میں رہا
رہا بھی تو کیا اس جہاں میں رہا
وہ دریا پہ مجھ کو بُلاتا رہا
مگر میں صفِ تشنگاں میں رہا
میں بُجھنے لگا تو بہت دیر تک
اُجالا چراغِ زیاں میں رہا
یوں جو کھلتا ہے زمانے کا بھرم اچھا ہے
ہم پہ ہوتے ہیں زمانے کے ستم اچھا ہے
وہ قدم کیا جو تجسس میں رہے منزل کے
بڑھ کے خود چوم لے منزل وہ قدم اچھا ہے
ہے تمنائے اسیری تو کبھی اس میں الجھ
گیسوئے وقت کا پیچ اچھا ہے خم اچھا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے آقاؐ مرے سرکارؐ مدینے والے
دیکھ لوں طیبہ کا گلزار مدینے والے
زحمتِ لطف ہو سرکارؐ مدینے والے
سر پہ عصیاں کا ہے انبار مدینے والے
تم غریبوں کے ہو غمخوار مدینے والے
ہو ادھر بھی نظر اک بار مدینے والے
اگر سکون نہیں اپنے آشیانے میں
تو زندگی ہے اجیرن میاں زمانے میں
ہے خوں کا پیاسا یہاں بھائی ایک بھائی کا
بڑا فساد ہے انسان کے فسانے میں
جو ہیں ہوس کے پجاری وہ مال و زر کے لیے
نہیں ہے خوف انہیں خوں کا خوں بہانے میں
بدل گئی ترے دل کی فضا خدا حافظ
کریں گے کیا یہاں اہلِ وفا خدا حافظ
ترے سوا بھی کئی لوگ مجھ سے بچھڑے ہیں
سنا ہے میں نے کئی مرتبہ خدا حافظ
کسی نے چُپکے سے رستہ بدل لیا اپنا
کسی نے شور مچا کر کہا خدا حافظ
شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا
سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا
ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال
ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا
ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے
دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا
آنکھوں کو آنسوؤں سے محبت ہے کیا کروں
دل پر تمہارے غم کی حکومت ہے کیا کروں
شیشوں کا ہے مکان کہ حیرانیوں کا گھر
صورت ہر ایک تیری ہی صورت ہے کیا کروں
ہو کر کبھی ادھر سے گزرتی نہیں بہار
میرے چمن کو تیری ضرورت ہے کیا کروں
جسے لالچ نہ ہو ایسا بڑی مشکل سے ملتا ہے
غریب انسان کو رشتہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
امیروں کے تو قدموں میں پڑی رہتی ہے یہ دولت
مگر مزدور کو پیسہ بڑی مشکل سے ملتا ہے
اندھیروں میں اجالا ڈھونڈنے والوں کو سمجھا دو
سیاست میں کوئی "سچا" بڑی مشکل سے ملتا ہے
دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ
تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ
میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لیے
دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ
ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں
صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کرتا ہے یہ دعا دل بیمار کا چراغ
آنکھوں کو عطا کیجیے دیدار کا چراغ
احباب کا چراغ نہ اغیار کا چراغ
دل میں جلاؤ الفت سرکار کا چراغ
واللہ راہ حق سے وہ ہرگز نہیں ہٹا
جو لے کے چلا ہے تِرے کردار کا چراغ
مُدتوں بعد مِلا ہے تُو
اور
ایک بار پھر احساس کی لویں جاگ اُٹھی ہیں
تُو اب بھی میرا ہے
صرف میرا
تیری آنکھوں میں میرا ہی عکس ہے
لفظ کی تلاش
میں تو عمر بھر لفظ کی تلاش میں رہا
اس سعئ کار میں دنیا نے بہت کچھ کہا
گھر والوں نے بھی نکال باہر کیا اور کہا؛
جاؤ بازار میں تلاش کرو اس کا صلہ
فاقے کرو گے تو دماغ ٹھکانے آ جائے گا
اب پاؤں میں سکت نہیں
جب تلک نام تِرا وِردِ زباں رہتا ہے
دل کی بستی میں عجب ایک سماں رہتا ہے
ایک مُدت ہوئی وہ شخص جُدا ہے مجھ سے
اب خُدا جانے وہ کیسا ہے، کہاں رہتا ہے
یوں نہیں ہے کہ ہمیں تیرے ستِم یاد نہیں
زخم بھر جائے اگر پھر بھی نشاں رہتا ہے
وہ زخم دے کے مجھے اندمال پُوچھے گا
تڑپتے دیکھے گا اور میرا حال پوچھے گا
مِری تو جتنی بھی گُزری ہے ہجر میں گُزری
تو مجھ سے کیا کوئی لُطفِ وِصال پوچھے گا
وہ جس کی چاہ میں سب کچھ لُٹا دیا میں نے
وہی تو زیست کا حاصل مآل پوچھے گا
اس نے یہ فاصلہ اس واسطے رکھا ہو گا
پاس آ کر مرے بیٹھے گا تو چرچا ہو گا
آج پھر اس نے مجھے یاد کیا ہے شاید
دل نے یوں ہی تو نہیں شور مچایا ہو گا
دیکھنا لوگ محبت کی مثالیں دیں گے
نام آئے گا مِرا ذکر تمہارا ہو گا
یہاں کیا قتل خوابوں کا ہوا ہے
تِری آنکھوں میں کیوں کرفیو لگا ہے
میں جس کے عشق میں مٹی ہوا تھا
اسے سونے کے پانی سے لکھا ہے
مِری آنکھوں میں اکثر دکھنے والا
مِری آواز کے پیچھے چھپا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پیار ہی پیار کا گلستاں آپﷺ ہیں
میرا دل آپ ہیں میری جاں آپ ہیں
جو ملا آپ سے آپﷺ کا ہو گیا
خلق کا اک عظیم آسماں آپ ہیں
آپ کا جو نہیں وہ کسی کا نہیں
ایسے گستاخ کے پھر کہاں آپ ہیں
شیشے کا مکان
مٹھی بھر خاک سے زیست کا سامان
ریت کے تودے پر شیشے کا مکان
جو بن جائے تو مکینوں کے دھڑکتے دل
خوف سے لرزا و ہراساں رہیں ہر پل
کہ پورب سے آئی آندھی
یا پچھم سے پتھر کی ضرب
خامشی باعث رسوائی نہیں ہوتی ہے
مستقل بولنا دانائی نہیں ہوتی ہے
ہر جگہ دل کے پھپھولے نہیں پھوڑا کرتے
ہر جگہ زخم پہ ترپائی نہیں ہوتی ہے
ہم غریبوں کے نوالوں پہ اثر پڑتا ہے
ہر کسی کے لیے مہنگائی نہیں ہوتی ہے
دل کی اک حرف و حکایات ہے یہ بھی نہ سہی
گر مری بات میں کچھ بات ہے یہ بھی نہ سہی
عید کو بھی وہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے نہ ملیں
اک برس دن کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
دل میں جو کچھ ہے تمہارے نہیں پنہاں مجھ سے
ظاہری لطف و مدارات ہے یہ بھی نہ سہی
حال ہمارا کیا پوچھو ہو آگ دبی اکساؤ ہو
شعلے کب کے راکھ ہوئے اب خاک انہیں لہکاؤ ہو
پیڑ پہ جب پھل پات نہیں تو پت جھڑ کیا لے جائے گا
خرمن کب کا خاک ہوا بے کار ہمیں دھڑکاؤ ہو
کوئی ڈگر ہموار ملے تو اس کے سادھن کر ڈالو
ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر جان کے دھوکا کھاؤ ہو
ترانۂ مسلم
زور ایماں سے اگر کام مسلماں لے لے
زندگی خضر سے لے نوح سے طوفاں لے لے
جتنے تاریک مراحل ہیں منور ہو جائیں
ہاتھ میں دل کی اگر شمع فروزاں لے لے
زندگی عزم طلب، عزم کو جرأت کی تلاش
خوف تجھ سے نہ کہیں موت کا پیماں لے لے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آفاقِ دل میں طلعتِ فن اور بڑھ گئی
نعتِ نبیؐ سے تابِ سخن اور بڑھ گئی
خیرات لیے کے آئی صبا اُن کے باغ سے
رنگینئ جمالِ چمن اور بڑھ گئی
بزمِ ثنائے زلف میں جب سے ہوئی شریک
دنیا میں قدرِ مُشکِ ختن اور بڑھ گئی
دار پر بھی تجھے پکارا ہے
کس قدر حوصلہ ہمارا ہے
حوصلے چھو رہے ہیں ساحل کو
گرچہ گرداب میں شکارا ہے
جو چمکتا ہے صبح مشرق سے
وہ مِرے بخت کا ستارا ہے
متاع ہوش یہاں سب نے بیچ ڈالی ہے
تمہارے شہر کی تہذیب ہی نرالی ہے
ہم اہل درد ہیں تقسیم ہو نہیں سکتے
ہماری داستاں گلشن میں ڈالی ڈالی ہے
نہ جانے بزم سے کس کو اٹھا دیا تم نے
تمام شہر وفا آج خالی خالی ہے
سپاٹ چہرہ ہے آنکھوں میں خواب تک بھی نہیں
بچھڑ رہے ہیں، مگر اضطراب تک بھی نہیں
تِرا خیال تو پھر بھی وجود رکھتا ہے
میں ایسا دشت ہوں جس میں سراب تک بھی نہیں
وہ چاہتا ہے کہ تحفے میں باغ دوں اس کو
مِری رسائی تو شاخِ گُلاب تک بھی نہیں
کوئی تو حسب خواہ بھی میرا دکھائی دے
جس کو جہاں میں کہہ سکوں اپنا دکھائی دے
کس نے بنایا ایسا مِرے شہر کا نظام
انسانیت بھی خون کا دریا دکھائی دے
گرد و غبار راہ سے ایسا ہٹاؤ تم
پانی کے طرح شہر کا نقشہ دکھائی دے
اگرچہ سر نہیں شانوں پہ سر کی آگ تو ہے
بریدہ دست سہی پر ہنر کی آگ تو ہے
جنوں کا اپنا تماشا، خرد کی اپنی مہک
ہمارے پاؤں میں روشن سفر کی آگ تو ہے
خموش شہر میں پھر قہقہہ سنائی دیا
اے زیست تجھ کو مبارک خبر کی آگ تو ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لایا ہوں میں گلاب کا لہجہ نچوڑ کے
داتا کی مدح کرنی تھی خوشبو کو جوڑ کے
ہوتا ہے جب چمن میں خراماں حسن کا لال
پڑتے ہیں پاؤں سرو و سمن دوڑ دوڑ کے
اتنا کہا تھا میں نے کہ داتا کا ہوں غلام
ساحل پہ خود گیا ہے بھنور مجھ کو چھوڑ کے
پنجرے
میت پر نہ روؤ
کہ یہ آزاد ہوئیں
رونا ہے تو ان
ان یادوں پر روؤ
کہ یہ سانسوں کے
پنجرے سے
کیا عجب شخص ہے وہ، خندۂ بسمل والا
بے دلی میں بھی بہر گام لگے دل والا
کوئی ہوتا ہے مِرے عالمِ محبوسی میں
نشۂ باد چُرا لاتا ہے ساحل والا
دیکھ تا دیر نہ رکھ چاک نگاہی اپنی
بند گلیوں کے اندھیروں سے کہیں سِلوا لا
وفا شناس ہی جب عشق کا امیں نہ رہے
تو کیا رہے بھی اگر طور ملحدیں نہ رہے
تیری گلی کے نکالے نکل گئے بن کو
رہا نہ کچھ بھی ہمارا جو ہم وہیں نہ رہے
اس ایک پل کو غذائے حیات کر لوں گا
کبھی تو تیری زباں محور نہیں نہ رہے
ہوا پھر عکس اپنا یوں جدا آہستہ آہستہ
کہ جیسے ہاتھ سے رنگ حنا آہستہ آہستہ
بہت مانوس نظروں سے اچانک کیسے ہٹ جاتا
میں منظر سے پس منظر ہوا آہستہ آہستہ
پھر اس کے بعد ڈھونڈا جائے گا میرا بدن یعنی
مجھے مشہور کر دے گی ہوا آہستہ آہستہ
ساقی نہ میکشوں کا کھلے راز میرے بعد
دروازہ مے کدہ کا رہے باز میرے بعد
آئیں گی یاد ان کو مِری نغمہ سنجیاں
مجھ کو کریں گے یاد ہم آواز میرے بعد
میں خاک ہو کے مٹ ہی گیا راہِ عشق میں
اس انتہا کا ہو گا نہ آغاز میرے بعد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایک عورت ہے جو مشہورِ زماں ہوتی ہے
عقدِ سرکارﷺ میں آتی ہے تو ماں ہوتی ہے
چاروں بیٹی میں خدیجہؑ کا جمال آیا ہے
چوتھی بیٹی سے مگر خوب عیاں ہوتی ہے
شعر قرطاس پہ آتے ہیں برائے تمدیح
آپؐ کی یاد رگ و پَے میں رواں ہوتی ہے
یہ نارِ محبت کہیں تجھ کو نہ جلا دے
یادوں کی دبی راکھ کو ہرگز نا ہوا دے
لازم نہیں ہر بار تجھے ہم ہوں میسر
ممکن ہے تو اس بار ہمیں سچ میں گنوا دے
کب تک تِری یادوں کی اذیت کو سہوں میں
اس کرب سے مجھ کو کوئی آزاد کرا دے
اچھے خاصے لوگ برے ہو جاتے ہیں
جاگنے کا دعویٰ کر کے سو جاتے ہیں
شہر کا بھی دستور وہی جنگل والا
کھوجنے والے ہی اکثر کھو جاتے ہیں
دیوانوں کی گھات میں بیٹھنے والے لوگ
سنتے ہیں اک دن پاگل ہو جاتے ہیں
چاہتوں کا وہ سلسلہ بھی نہیں
دل مری بات مانتا بھی نہیں
کیوں ہے یہ تیرگی بتاؤ تو
اک دیا بھی یہاں پہ جلتا نہیں
دل پہ میرے جو تم نے لکھا تھا
نام اب تک تِرا مِٹا بھی نہیں
خواب آنکھوں میں ٹُوٹ جاتے ہیں
روز ہم کِرچیاں اُٹھاتے ہیں
آدمی ہیں مگر خدا کی قسم
ہم خداؤں کے کام آتے ہیں
بزمِ رِنداں سجے گی آج کی شب
آ تجھے روشنی میں لاتے ہیں
مجھ کو پاگل، وحشی، ظالم نیتن یاہو لگتا ہے
امریکہ کو کب یہ مجرم نیتن یاہو لگتا ہے
مذہب سب کا اپنا اپنا ، سب کا تقدس لازم ہے
سب سے بڑا اس وقت جو شاتم نیتن یاہو لگتا ہے
مسجد رب کی یاد کا حجرہ مسجد پر جو بم پھوڑے
حق کا منکر، کفر کا سنگم نیتن یاہو لگتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رحمت و نور کا اک چشمۂ جاری قرآں
باغِ عالم کے لیے بادِ بہاری قرآں
آئی ہے نبضِ دو عالم میں حرارت اس سے
بزمِ کونین میں ہے جلوۂ باری، قرآں
مصدرِ حکمت و دانائی ہے اک اک نقطہ
ہر اندھیرے میں ہے اک تابشِ کاری، قرآں
ارضِ مقدس
حرف شرمندہ ہیں
لفظ گھائل ہیں آج
جملے بے معنی ہیں
مذمت ناکافی ہے آج
فلسطین لہو لہو ہے آج
یہ مسکن ہے انبیاء کا
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
یہ کوئی اجنبی جزیرہ ہے
ہم نفس ہے نہ کوئی ہم آواز
کتنا مجبور ہو گیا ہوں میں
اکرم کلیم
بے سبب تھوڑی جاگتے ہیں ہم
رات کا درد بانٹتے ہیں ہم
خون رستہ ہے چاند سے شب بھر
نوکِ خامہ سے چاٹتے ہیں ہم
کوئی آہٹ طواف کرتی ہے
دائرہ وار ناچتے ہیں ہم
میں شاہراہ غم پہ تھا حیراں کھڑا ہوا
قسمت کی بات ہے کہ تِرا سامنا ہوا
تیری جفا تو ایک بہانہ ہے ورنہ دوست
دل تھا ہمارا روز ازل کا دکھا ہوا
ویرانۂ حیات میں دل کا یہ حال ہے
جیسے خزاں میں پھول اکیلا کھلا ہوا
رہ کے پستی میں بلندی پہ نظر رکھتے ہیں
راہ دشوار سہی، عزمِ سفر رکھتے ہیں
ہم کو منزل سے اندھیرے نہیں بھٹکا سکتے
اپنے دامن میں کئی شمس و قمر رکھتے ہیں
دیکھنے میں تو ہیں پھولوں سے بھی نازک یارو
اپنے دامن میں مگر برق و شرر رکھتے ہیں
زندگی کا رسن و دار سمجھ رکھا تھا
راہِ یک گام و دُشوار سمجھ رکھا تھا
تھا عجب میرے گناہوں میں اک احساس لطیف
مجھ کو خود جس نے خطاوار سمجھ رکھا تھا
وہ محض دھوپ کا اک رخ تھا جسے لوگوں نے
آج تک سایۂ دیوار سمجھ رکھا تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
غریبوں کی حاجت روا کرنے والے
فقیروں کو دولت عطا کرنے والے
عفو کرنے والے عطا کرنے والے
کرم چاہتے ہیں خطا کرنے والے
اشارے سے مردے جِلا دینے والے
تبسم سے دل کی دوا کرنے والے
پوچھ مت کل آئینہ میں کیا ہوا
اپنے زندہ ہونے کا دھوکہ ہوا
روز سورج ڈوبتا اگتا ہوا
وقت کی اک کیل پر لٹکا ہوا
آ گیا لے کر ادھاری روشنی
چاند نے سورج کو ہے پہنا ہوا
مکر و فریب و ظلم و جفا چھوڑئیے حضور
اچھا نہیں یہ آپ کا حد سے سوا غرور
بینا جو آنکھ دل کی ہو ذرہ ہے آفتاب
ظلمت جو دل میں ہو تو کسی شے میں کیوں ہو نور
آلودگئ ذہن و دل ہی کی یہ دین ہے
چہرہ پہ ہی خوشی ہے نہ تو دل میں کچھ سرور
بُجھ نہ جائے مِرا دیا سائیں
تیز ہونے لگی ہوا سائیں
تُو ہی سُن لے کہ تُو ہی سنتا ہے
کون سُنتا ہے پھر دُعا سائیں
گھر جلانا بنا کے دنیا بھی
بند ہو اب یہ سلسلہ سائیں
چمن میں رہ کے بھی دل کو اگر قرار نہیں
تو یہ بہار کی توہین ہے بہار نہیں
تمہارا حسن جو پھولوں سے آشکار نہیں
مِری نگاہ بھی شرمندۂ بہار نہیں
حضور آپ کے وعدوں کا کیا یقیں آئے
یہاں تو زیست پہ بھی اپنی اعتبار نہیں
نہ دے فریب وفا لے نہ امتحاں اپنا
ہے بے نیاز کرم یار بد گماں اپنا
پہنچ چکے تھے سر شاخ گل اسیر ہوئے
لٹا ہے سامنے منزل کے کارواں اپنا
ہر ایک ذرۂ عالم ہے اور سجدۂ شوق
رکھیں اٹھا کے وہ اب سنگ آستاں اپنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حُسنِ فطرت کو ہجومِ عاشقاں درکار تھا
عاشقوں کو بہرِ سجدہ آستاں درکار تھا
زندگی تھی چلچلاتی دھوپ میں زار و زبوں
رہروں کو سایۂ ابرِ رواں درکار تھا
بحر کو موتی ملے، تاروں کو تنویریں ملیں
اس سخاوت کو شہ ہر دو جہاںﷺ درکار تھا
ملی نغمہ
اے وطن اے وطن جانِ من جانِ من
من بھی تجھ پر فدا اور فدا تجھ پہ تن
جان تُو ہے مِری تُو مِری شان ہے
میرا ہر خواب تُو میرا ارمان ہے
تیری مٹی ہی تو میری پہچان ہے
میری جنت ہیں تیرے یہ کوہ و دمن
رزمیہ ملی ترانہ
ہمارے پاک وطن کی شان
ہمارے شیر دلیر جوان
خدا کی رحمت اِن کے ساتھ
خدا کا ہاتھ ہے اِن کا ہاتھ
ہے اِن کے دَم سے پاکستان
ہمارے شیر دلیر جوان
لہو (رزمیہ ترانہ)
ہم اس لہو کا علَم بنا لیں
سنان و سیف و قلم بنا لیں
وطن کو دے کے مقامِ کعبہ
اسی کو احرام ہم بنا لیں
یہ خاک ماتھے پہ مل کے نکلیں
اسے نشانِ حشم بنا لیں
اے ہوا کے راہیو بادلوں کے ساتھیو (ترانۂ فضائیہ)
اے ہوا کے راہیو بادلوں کے ساتھیو
پرفشاں مجاہدو
تم وطن کی لاج ہو
پاک سرزمین کی
اپنی جاں پہ کھیل کے
تم بنے سلامتی
رزمیہ ملی ترانہ
وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو
مجھے خود اپنے نغموں سے بھی پیارے تم ہو
وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو
کتنے پامرد ہو تم، کتنے جری، کتنے کریم
مجھ سے پوچھو تو کہ دراصل تم ہو کتنے عظیم
وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو
اے وطن اے وطن
اے وطن اے وطن، ہم تِرے پاسباں
اے چمن اے چمن، ہم تِرے باغباں
چاندنی دھوپ بادل برستی گھٹا
ہر نظارہ حسیں،۔ ہر ادا دلربا
گل بداماں تِری دل نشیں داریاں
اے وطن اے وطن، ہم ترے پاسباں
رزمیہ ملی ترانہ
تکبیر سے فضا کو جگاتے ہوئے بڑھو
نعرہ علیؑ علیؑ کا لگاتے ہوئے بڑھو
تم میں سے ایک ایک ہے بھاری ہزار پر
دشمن کو فنِ جنگ دکھاتے ہوئے بڑھو
تکبیر سے فضا کو جگاتے ہوئے بڑھو
نعرہ علی علی کا لگاتے ہوئے بڑھو
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر (رزمیہ ملی ترانہ)
وادیوں میں گھاٹیوں میں سر بکف
بادلوں کے ساتھ ساتھ صف بہ صف
دشمنوں کے مورچوں پہ ہر طرف
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
بے مثال ارضِ پاک کے جواں
ہم اس لہو کا خراج لیں گے (رزمیہ ملی ترانہ)
لہو جو سرحد پہ بہہ رہا ہے
لہو جو سرحد پہ بہہ چکا ہے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
ہم اس لہو کا خراج لیں گے
خراج لیں گے ۔۔۔
پھر وقتِ جہاد آیا
پھر شیرِ خدا جاگے پھر وقتِ جہاد آیا
پھر آج شہیدوں کا لہو رنگِ حنا لایا
پھر شیرِ خدا جاگے۔۔۔
لب چومنے غازی کے پھر آج دعا آئی
پھر نصر من اللہ کی سینوں سے صدا آئی
پھر شیرِ خدا جاگے پھر وقتِ جہاد آیا
شاہیں صفت یہ تیرے جواں (ہوا بازِ وطن)
شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک
ان غازیوں پہ سایہ فگن ہے خدائے پاک
شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک
سینوں میں صبر و ضبط و سکونو رضاکا نور
چہروں پہ لطف و مہر و خلوص و وفا کا نور
پیشانیوں پہ جذبۂ بے انتہا کا نور
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں نعت لکھوں اور ہو جائے تکمیل سفر لکھتے لکھتے
میں اپنے گھر سے جا پہنچوں سرکارؐ کے گھر لکھتے لکھتے
تعریف نبیﷺ کے گیسو کی، اور وصف نبی کے چہرے کا
میں شام کو لکھنے بیٹھوں اگر ہو جائے سحر لکھتے لکھتے
پھر اُن کے تبسم کا خاکہ الفاظ میں کچھ کچھ کھینچ سکوں
کھلتی ہوئی کلیوں پر میری پڑ جائے نظر لکھتے لکھتے
نظم "سیلن زدہ روح" سے اقتباس
میں محبت کر کے اب
تنہائیوں کی دلدل میں بیٹھے اب کسی
ابابیل کی منتظر ہوں
کہ شاید دو بوند محبت مل جائے
اور میں جی لوں
چند اور پل
گر نمی آنکھ کی صحرا کو عطا ہو جائے
اس سِسکتی ہوئی مٹی کا بھلا ہو جائے
جو تِری آنکھ میں ہے میرے دروں تک آئے
جو تِرے دل میں ہے وہ میری صدا ہو جائے
دشت کو کھینچ کے لاؤں گا یہاں آنگن تک
رُوحِ مجنوں کو اگر مجھ سے گِلہ ہو جائے
یہ غم نہیں ہے کہ اب آہِ نارسا بھی نہیں
یہ کیا ہوا کہ مِرے لب پہ التجا بھی نہیں
ستم ہے، اب بھی امیدِ وفا پہ جیتا ہے
وہ کم نصیب کہ شائستۂ جفا بھی نہیں
نگاہِ ناز، عبارت ہے زندگی جس سے
شریکِ درد تو کیا، درد آشنا بھی نہیں
وینٹیلیٹر جسم کو نقلی سانسوں سے بھرتا تھا
میں زندہ تھا اخراجات کے بوجھ تلے مرتا تھا
سڑک پہ پیلے پیلے بیریر سب کا رستہ روکیں
لیکن میں چلنے کا رسیا رکنے سے ڈرتا تھا
دھرنے پہ بیٹھنے والے پاگل پچھڑی ذات کے تھے سب
ڈی ایس ایل آر والا بس فوٹو سیزن کرتا تھا
خشک آنکھوں کی کہانی دشت دشت اپنی ہی تھی
نم ہواؤں میں صدائے بازگشت اپنی ہی تھی
ڈھونڈتے پھرتے رہے تھے سایہ سایہ زندگی
دھوپ کی گلیوں میں صبح و شام گشت اپنی ہی تھی
جاگتی رہتی تھیں آنکھیں خانہ خانہ خوف خوف
خواب کی روشن نمائی طشت طشت اپنی ہی تھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت تضمین بر کلام رضا
جو ٭اعیان ثابت ہیں کہلانے والے
قلم سے سرِ لوح تک آنے والے
وہ کیفِ ہبا میں بکھر جانے والے
’’چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے‘‘
’’مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے‘‘
ٹریش کین
کباڑ اے کباڑ اے
ہر اتوار کی دوپہر میں
بگولہ صفت دندناتی کباڑی کی آواز
خوابیدہ گلیوں کی
چُپ کا فسوں توڑتی ہے
تو جی چاہتا ہے
میری فریاد کے شعلوں کو عنایت سمجھو
میرے ہر زخم کو الفت کی روایت سمجھو
ایک مجبور تمنا کی گراں بار تھکن
میں نے کب تم سے کہا یہ اسے الفت سمجھو
لذتِ غم میں نہیں خونِ تمنا کا علاج
مِری ہر ٹیس کو خاموش بغاوت سمجھو
اے خیال یار جب تک ساتھ تو چلتا رہا
آندھیوں میں بھی چراغ زندگی جلتا رہا
مسکرا کر میں کٹھن راہوں پہ بھی
کھلنے والوں کو میرا یہ حوصلہ کھلتا رہا
پھوٹتے ہی آبلے پاؤں کے مٹ جائے کا سوز
میں اسی امید پر کانٹوں پہ بھی چلتا رہا
تھکا ہارا ہوں مدت سے کہیں سستا نہیں پایا
خزانہ وقت کا کھویا ہے ورنہ کیا نہیں پایا
سوائے ذاتِ اقدس کے کوئی پرساں نہیں دیکھا
کچھ ایسے زخم پوشیدہ ہیں جو دکھلا نہیں پایا
یوں اشکوں کو پیے جانا، جیے جانا یونہی تنہا
مِرا وجدان بنتے ہیں جو میں چھلکا نہیں پایا
یہ جو دنیا ہے تغیر کی عجب وادی ہے
حکم دیتا تھا جو کل آج وہ فریادی ہے
یہ بھی احسان ہے قاتل کا تِرے ورثا پر
اس نے میت تِری دہلیز پہ پہنچا دی ہے
کیا ہوا لوگ اگر بات نہیں کر سکتے
شہر میں گھومنے پھرنے کی تو آزادی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گنبدِ سبز کے جلووں میں وہ رعنائی ہے
دیکھنے والے اسے دیکھیں تو ٹُک دیکھتے ہیں
اے مِرے سیرِ سماوات کو جانے والےﷺ
یہ زمانے تِری پرواز کو رُک دیکھتے ہیں
رودِ کوثر سے مِری ہستی کی سینچائی ہو
مجھ کو تحقیر سےکچھ ابرِ تنک دیکھتے ہیں
ہم تھے سقراط نا سرمد نا ابو زر لوگو
پھر بھی ٹھہرائے گئے سرکش و خود سر لوگو
دین اسلام کے دشمن ہیں کافر، لیکن
دستِ مُسلم میں ہے ہے تلوار نا خنجر لوگو
ان کے ہر خون کے قطرے میں ہے جنت پنہاں
کون رُتبے میں ہے شہداء کے برابر لوگو
روتے روتے چہرے پر کیا گزری ہے
بستر پر اور تکیے پر کیا گزری ہے
تم سے تو ہر اشک چھپا لے آئے پر
ہم سے پوچھو چشمے پر کیا گزری ہے
جس رشتے کی خاطر حد سے گزرے ہم
ٹوٹا تو اس رشتے پر کیا گزری ہے
حادثوں نے دوستی صدیوں پرانی چھین لی
معترف تھی جس کی دنیا وہ کہانی چھین لی
میرے سر پہ سایہ دیکھا جب غمِ حالات کا
ایک کرم فرما نے اپنی مہربانی چھین لی
ہو بھلا تیرا زمانے تو نے میری ذات سے
ہر تمنا چھین لی،۔ ہر شادمانی چھین لی
دل کو گِلہ خِرد سے کبھی کچھ جنوں سے ہے
سب شورِ شہرِ جاں میں تمہارے فسوں سے ہے
حیرت میں سب ہیں سطح سمندر کہ موجِ تُند
طوفاں جو یہ اٹھا ہے، اٹھا کس سکوں سے ہے
کب منحصر کسی پہ کسی کا ہے اب وجود
سر پر جو آسماں ہے لگا کس ستوں سے ہے
میں تجھ کو سجدہ کروں تُو مِرا خدا تو نہیں
بُرا سہی مگر اتنا بھی میں بُرا تو نہیں
گِرا جو خاک پہ افلاک کانپ کانپ اٹھے
مِرا لہو ہے یہ زاہد تِری دعا تو نہیں
ستم کا ہر سر و ساماں جلا کے دم لیں گے
ہمارے دل کا الاؤ ابھی بُجھا تو نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ثمرۂ شوق نئی فصلوں میں رکھا جائے
شجرۂ نعت مِری نسلوں میں رکھا جائے
میرے بچوں کو بھی ہو مدحِ نبیؐ کی توفیق
نسل در نسل مجھے بردوں میں رکھا جائے
با ادب نعت کہیں نعت پڑھیں نعت سنیں
پاک لفظوں کو ادب لہجوں میں رکھا جائے
آنگن میں پیڑ ہو گا تو پتھر بھی آئے گا
اس گھر تلک جو آ گیا، اندر بھی آئے گا
رکھو گے گر نہ فاصلہ تیشہ گروں سے تم
اڑ کے تمہاری آنکھ میں کنکر بھی آئے گا
سُلگا کے چلے آئے ہو جو آگ صحن میں
اس کا دُھواں اب گھر سے باہر بھی آئے گا
کم بخت مشورے سے بغاوت نہ کر سکا
یعنی کہ تجربے سے بغاوت نہ کر سکا
کچھ خواب چیختے رہے دہلیزِ چشم پر
لیکن میں رتجگے سے بغاوت نہ کر سکا
جرگے نے اختلاف کا بھی حق دیا مگر
کوئی بھی فیصلے سے بغاوت نہ کر سکا
رات کے ڈر سے فضا میں خامشی بہنے لگی
سب ستارے گر گئے اور چاندنی بہنے لگی
آنکھ کیسے موڑ پر میری کھلی تھی نیند میں
خواب میں تصویر تھی جو ادھ بنی بہنے لگی
واقعے کیسے سناؤں تیز آندھی کے تمہیں
کتنی مشکل سے بنی تھی جھونپڑی بہنے لگی
ہر خرد مند تو محفل میں بہانے سے اٹھا
ضبط کا بار فقط ایک دوانے سے اٹھا
بھول بیٹھے ہیں تجھے سارے زمانے والے
ہاتھ اب تو بھی تو بے درد زمانے سے اٹھا
ہاں میری نیک مزاجی میری کمزوری تھی
سارا فتنہ تو مِرے ہاتھ ملانے سے اٹھا
نہ فکرِ طوق و سلاسل نہ خوفِ دار و رسن
💖بلاکشانِ محبت ہیں آگہی دشمن💖
نمودِ لالہ و گل میں ہے عکسِ پیراہن
تِرے جمال کا پرتو بہارِ توبہ شکن
برا ہو دستِ جنوں کا یہ کیا قیامت ہے
نہ میری جیب سلامت نہ آپ کا دامن
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آنکھوں کا نور دل کی ضیا آپ ہی تو ہیں
ہر تیرگی میں راہنما آپﷺ ہی تو ہیں
تکرار و تثنیہ کو نہیں جس میں شائبہ
وہ ایک شاہکار خدا آپﷺ ہی تو ہیں
جن سے ہر ایک مرحلہ کرب میں ہمیں
درس ثبات و صبر ملا آپﷺ ہی تو ہیں
دماغ جاگ رہے ہیں وجود نیند میں ہے
یہود ہوش میں، آلِ سعود نیند میں ہے
خلافِ ظلم یہ بولے تو کس طرح بولے
کہ یہ علامتِ قومِ ثمود نیند میں ہے
اذان سہمی ہوئی ہے، رکوع شرمندہ
قیام اونگھ رہا ہے، قعود نیند میں ہے
ابھی کشمیر باقی ہے
جسے کل مار کر سمجھے تھے تم کہ جیت لی بازی
اسی غیرت کے پیکر کی ابھی ہمشیر باقی ہے
وہ جس کے ہاتھ کی مہندی ادھوری رہ گئی کل شب
نہ جانے کون رانجھا تھا، یہ کس کی ہیر باقی ہے
تمہیں لگتا ہے لکھی جا چکی بارود سے قسمت
لہو سے لکھ رہے ہیں ہم، ابھی تحریر باقی ہے
جہاں بارود پھٹتا ہے، فنا کا رقص کرتا ہے
لہو معصوم جانوں کا بھی کیا کیا رقص کرتا ہے
ہمارا ہی تماشا ہے لگا دربار دنیا میں
ہمیں خود ہیں تماشائی، تماشا رقص کرتا ہے
کہ اس کی راکھ سے شاید نیا سورج طلوع ہو گا
وہ اک پنچھی یہاں پھر سے فنا کا رقص کرتا ہے
کوئی گر اشک بھی پونچھے تو غم ہلکا نہیں ہوتا
گھڑی آگے بڑھا دینے سے دن چھوٹا نہیں ہوتا
پلاتی ہیں کسے اب دودھ مائیں با وضو ہو کر
تبھی تو ہم میں اب ٹیپو کوئی پیدا نہیں ہوتا
گناہوں کی بھیانک برفباری ہم کو کھا جاتی
خدا کے رحم کا سورج اگر چمکا نہیں ہوتا
سحر کے انتظار میں
سحر کے انتظار میں تمام خواب سو گئے
چراغ بجھ گئے طویل رات کے حصار میں
کہیں پہ ٹمٹمائی گر کسی نظرکی روشنی
مہیب آندھیوں نے اک غبار میں بدل دیا
کہیں پہ جھلملائی یاد کی کوئی کرن اگر
تو خامشی کے اژدہوں نے اس کو بھی نگل لیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو ہر لمحہ ذکرِ نبیؐ کر رہے ہیں
بلندی پہ قسمت وہی کر رہے ہیں
جو کرتے ہیں سنت ادا مصطفیٰؐ کی
وہی خوش نما زندگی کر رہے ہیِں
وہ ابن علیؑ ہیں جو کرب و بلا میں
سپردِ خدا ہر خوشی کر رہے ہیں
دل پہ یادوں کا بار تھوڑی ہے
اشک پلکوں کے پار تھوڑی ہے
یونہی دہلیز پر جمی ہے نظر
آپ کا انتظار تھوڑی ہے
خواب کے خوشنما جزیرے پر
پریوں کا ہی سنگھار تھوڑی ہے
کبھی عروج کبھی وہ زوال دیتا ہے
کوئی تو ہے جو فلک پر اچھال دیتا ہے
وہی تو سنگ تراشوں کا دست پنہاں ہے
وہی تو سیپ سے موتی نکال دیتا ہے
عذاب لگنے لگے جب حیات تب بھی وہی
فشار زیست سے آ کر نکال دیتا ہے
اک خلش سی تھی نہ کہنے کی نہ سمجھانے کی
اب وہی ہو گئی سرخی کسی افسانے کی
لوگ سمجھاتے رہے راہ خرد نے رد کی
گرمئ شوق نہ کم ہو سکی دیوانے کی
آپ پر جرأتِ اقرار سے گزری ہے
میں سمجھتا ہوں نہ کوشش کریں سمجھانے کی
ملا نہ دیر و حرم میں کہیں نشاں ان کا
حد نگاہ سے باہر ہے آستاں ان کا
نگاہ ملتے ہی ہم دل پکڑ کے بیٹھ گئے
لگا جو تیر نظر آ کے ناگہاں ان کا
کیے ہیں راہ وفا میں وہیں وہیں سجدے
ملا ہے نقش کف پا جہاں جہاں ان کا
ہم خاک تھے لیکن نہ قدم خاک پہ رکھا
جو گرد اڑائی اسے افلاک پہ رکھا
مٹھی تھی ہواؤں میں کہ مٹھی میں ہوا تھی
کیوں کارکسانی خس و خاشاک پہ رکھا
سیراب کیے ابر منافق نے مِرے کھیت
لہرانے لگی فصل تو چکماک پہ رکھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خم جس کی فضیلت پہ دو عالم کی جبیں ہے
سجدۂ کونین وہ طیبہ کی زمیں ہے
دنیا کا عقیدہ بھی اپنا بھی یقیں ہے
جو بات ہے طیبہ میں کہیں اور نہیں ہے
اے خاک مدینہ! تِرے اعجاز کے صدقے
ہے عرش نشیں جو بھی یہاں فرش نشیں ہے
نہ جانے آج کیوں ضد پر اڑی ہے
محبت سامنے میرے کھڑی ہے
زمانے کو بڑھاوے کی ہے عادت
وگرنہ بات کب اتنی بڑی ہے
بھلا کیوں وقت بھاگا جا رہا ہے
گھڑی تو سامنے میرے پڑی ہے
صحرا کا کوئی پھول معطر تو نہیں تھا
تھا ایک چھلاوا کوئی منظر تو نہیں تھا
پھر کیوں تری تصویر ڈھلی روح میں میری
افسوں تِری آنکھوں کا مصور تو نہیں تھا
بن کر مِرا اپنا وہ بنا حسرت جاوید
تھا خاک کا پتلا ہی مقدر تو نہیں تھا
منزل پہ شام ہو گئی سورج بھی ڈھل گیا
کانٹا ہمارے پاؤں کا آخر نکل گیا
زُلفوں کے رات رات اندھیروں کے درمیاں
ننھا سا اک چراغ محبت کا جل گیا
آنکھیں جھکی جھکی رہیں پلکوں کے بوجھ سے
جانے کہاں سے تیر اچانک ہی چل گیا
غازیوں او ر شہداء کے نام
لہو مقدس تھا بہہ گیا ہے
وہ جذبہ دلبرانہ
وہ جہدِ عاشقانہ
وہ تقویٰ زاہدانہ
اب دِل ہے عارفانہ
تمہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے
تمہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے
تمہاری مشعلِ وفا فروغِ شش جہات ہے
تمہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے
تمہاری ضو سے دلنشین جبین کائنات ہے
بقا کی روشنی ہو تم پناہ اندھیری رات ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اللہ رے کونین پہ احسانِ محمدﷺ
اب تک ہے رواں چشمۂ فیضانِ محمدﷺ
تحقیر کا گوشہ نہ کوئی ڈھونڈ منافق
ہر آیتِ قرآں ہے ثنا خوانِ محمدﷺ
اے اہلِ خِرد چاک گریباں کو نہ دیکھو
سرتاجِ سلاطیں ہیں گدایانِ محمدﷺ
قاتل ہے ان میں کون، یہ کیسے لگے سراغ
دامن پہ آج کس کے نہیں ہیں لہو کے داغ
اب درد و غم کی بات نہ آئے زبان پر
اعلان ہو رہا ہے کہ ہر دل ہے باغ باغ
مدہوشیوں میں اہلِ ہوس کو خبر نہ تھی
ایک ایک کر کے بزم میں بُجھتے رہے چراغ
تیور بھی دیکھ لیجیے پہلے گھٹاؤں کے
پھر بادبان کھولیے رخ پر ہواؤں کے
تم ساتھ ہو تو دھوپ بھی مجھ کو قبول ہے
تم دور ہو تو پاس بھی جاؤں نہ چھاؤں کے
خود ہی چراغ وعدہ بجھا دے جو ہو سکے
یہ حوصلے بھی دیکھ لے میری وفاؤں کے
کیوں شہر میں ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ
کیا حال محلے کا ہے جا اپنا مکاں دیکھ
آفاق اڑانوں کے ابھی اور بہت ہیں
اے طائر پرواز کبھی اپنا جہاں دیکھ
دیتا نہیں نفرت کا شجر دھوپ میں سایہ
بہتر ہے کوئی سایۂ دیوار اماں دیکھ
لوگ کیوں ہراساں ہیں کیوں سکوت طاری ہے
حادثوں کی سرخی میں آج کس کی باری ہے
بزم کی وہ بد نظمی، تم نے میرے سر ڈالی
شہر کا یہ ہنگامہ کس کی ذمہ داری ہے
بار جھوٹ کا لے کر جب چلا تو میں خوش تھا
تب یہ کتنا ہلکا تھا، آج کتنا بھاری ہے
اتنی آسانی سے گر تجھ کو خدا مل جائے گا
پھر تو تیری وحشتوں کو حوصلہ مل جائے گا
تکڑموں سے تجھ کو جنت کا پتا مل جائے گا
پر سفارش سے وہاں کیا داخلہ مل جائے گا
تیرگی تو بس تماشہ دیکھتی رہ جائے گی
آندھیوں سے سازشاً بجھتا دیا مل جائے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محیط ایسا دل و ذہن پر مدینہ ہے
نظر ادھر ہی اٹھے گی جدھر مدینہ ہے
نظارے صاف نظر آتے ہیں حقیقت کے
کہ لا مکاں سے قریب اس قدر مدینہ ہے
خیال شام و سحر ہے مجھے مدینے کا
نظر کے سامنے شام و سحر مدینہ ہے
دل نے قصہ کیا رقم کچھ تو
درد بھی ہو گیا ہے کم کچھ تو
کتنا گمراہ تھا مسافر وہ
راہ پر لائے اس کو ہم کچھ تو
کیا ضروری تھی بات بتلاؤ؟
بول دو مجھ کو ایک دم کچھ تو
ضمیر چپ ہے اگر یہ گمان کرنے لگوں
جو سوچتا ہوں وہ سب کچھ بیان کرنے لگوں
یہ آنسوؤں کے ستارے، یہ درد کا سورج
خیال خود کو نہ میں آسمان کرنے لگوں
کہیں سے پھر کوئی پر مانگتا ہوا آئے
تلاش اپنے لیے جب اڑان کرنے لگوں
عجب ستم ہے کہ تیرے حصے سے گھٹ رہا ہوں
میں تیرا ہو کر بھی اور لوگوں میں بٹ رہا ہوں
تو ایک سیل رواں کی صورت گزر رہا ہے
میں اک جزیرہ ہوں ہر کنارے سے کٹ رہا ہوں
کھلیں گے اسرار عشق عزلت نشینیوں میں
میں ایک دنیا سے ایک دل میں سمٹ رہا ہوں
یہ کہاں کی الفت ہے دور دور رہتے ہو
میرے تو نہ بن پائے مجھ کو اپنا کہتے ہو
مل کے بانٹ لیں گے ہم رنج اور خوشی اپنی
درد پھر جو ہوتا ہے کیوں اکیلا سہتے ہو
میرا کچھ کہا تیرے دل کو لگ گیا شاید
بات بھی نہیں کرتے کھوئے کھوئے رہتے ہو
لایا نصیب محلوں سے کچے مکان میں
پھر بھی کمی نہ آئی مِری آن بان میں
ہر دھوپ سے بچا کے جو رکھے امان میں
یا رب! پناہ دے دے اسی سائبان میں
چھوڑا نہ پاسدارئ اسلاف کا چلن
ہم تھے زمیں پہ یا کہ اڑے آسمان میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سبق آموز گفتار محمدﷺ
حیات افروز کردار محمدﷺ
لٹاتا ہے جو دولت دین حق کی
وہی ہے ایک دربار محمدﷺ
دعائیں کیں مخالف کے لیے بھی
کوئی دیکھے تو کردار محمدﷺ
پیار نے یہ بھی دن ہے دکھلایا
مجھ سے اپنا ہی روٹھا ہے سایا
میں نے شعروں میں اس کو ڈھال لیا
زخم جو بھی جگر پہ ہے آیا
تم نے کیسے کیا ہے بٹوارہ
میرے حصے میں تو نہیں آیا
نظر کی بات پہنچے گی نظر تک
اُڑے گی دُھول پھر دیوار و در تک
کوئی منزل تصوّر ہی ہے شاید
سفر کوئی ہو پہنچے گا سفر تک
ابھی اک بُوند چُپکے سے گِری ہے
کوئی آیا تھا شاید چشمِ تر تک
زندگی آج یہ کس موڑ پہ لے آئی ہے
بھیڑ نظروں میں ہے احساس میں تنہائی ہے
یہ الگ بات کہ انجان نظر آئی ہے
زیست سے ویسے تو برسوں کی شناسائی ہے
جیسے آتا ہو دبے پاؤں کوئی پاس مِرے
اس طرح دل کے دھڑکنے کی صدا آئی ہے
ایسے ہرجائی سے کوئی کس طرح یاری کرے
بھول کر اپنوں کو جو غیروں کی غمخواری کرے
سب کے آگے تو بنا پھرتا ہے وہ معصوم سا
جب ہمارے سامنے آئے تو مکاری کرے
وہ کلرکی سے ترقی پا کے افسر ہو گیا
حرکتیں لیکن ابھی تک وہ بھی بازاری کرے
کارل مارکس
بـے بسی کی گُفاؤں میں بیٹھے
اِن غلاموں کی یہی فطرت ہے
زندگی بھر یہ دوزخی رہ کر
اِس خواہش کا بُت بناتے ہیں
موت کے بعد جئیں جنت میں
بیٹھ کر سامنے سدا بُت کے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب بھی کوئی کرتا ہے گُفتگو مدینہ کی
اور بھی رُلاتی ہے آرزو مدینہ کی
مسکن محمدﷺ کا احترام لازم ہے
گُفتگو نہیں کرنا بے وضو مدینہ کی
ان کے دل میں بھی مولیٰ عشقِ مصطفیٰ بھر دے
جو کبھی نہیں کرتے گُفتگو مدینہ کی
راکھ کر دے گی یہ چمن سائیں
اب کے بھڑکی ہے جو اگن سائیں
چند لمحوں میں کیسے اُترے گی
یہ جو صدیوں کی ہے تھکن سائیں
دیکھنے سے تِرے سنورتے ہیں
حُسن،۔ تقدیر،۔ بانکپن سائیں
دیکھا نہیں وہ آدمی تنہا کہوں جسے
وہ آج تک ملا نہیں اپنا کہوں جسے
صدیوں سے انتظار ہے اس ایک شخص کا
آئے ہو کتنی دیر سے اتنا کہوں جسے
نظریں ترس کے رہ گئیں تا عکس آبشار
دیکھا نہیں ہے پانی کا قطرہ کہوں جسے
کیوں خطا ہیں تِرے اوسان مِری جان بتا
ہو نہ ہو تو ہے پریشان مری جان بتا
دیکھ چہرہ یہ تِرا کھا بھی رہا ہے چُغلی
یوں نہ بن بے وجہ انجان مری جان بتا
سن چکا بس میں بہت اور نہیں سننی ہے
کچھ نہیں ہے کی یہ گردان مری جان بتا
بھڑک اُٹھا، سوزِ نہاں، کہتے کہتے
زباں جل گئی داستاں کہتے کہتے
مِٹی دیکھتے دیکھتے، نوجوانی
گلستان میں آئی خزاں کہتے کہتے
تحمل کی دُنیا لُٹی جا رہی ہے
یہ کیوں چُپ ہوا رازداں کہتے کہتے
میں فلسطین ہوں، میں فلسطین ہوں
یہ میری قوم کے حکمراں بھی سنیں
میری اجڑی ہوئی داستاں بھی سنیں
جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں
ساری دنیا کے وہ رہنما بھی سنیں
صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میری جانب جب توجہ آپ کی ہو جائے گی
زندگی میری کمالِ بندگی ہو جائے گی
تجربے کی بات ہے چاہو تو کر کے دیکھ لو
ٹوٹ کر رونے سے پیہم حاضری ہو جائے گی
جامِ حُبِ شاہ سے جو تر ہوئے قلب و جگر
ختم پھر ہر ایک اپنی تشنگی ہو جائے گی
جو تم نے پوچھا ہے
تو میں بتلاتی ہوں
ہجر کے لمحوں میں کب
برس ہوتے ہیں
ان میں تو
صدیاں ہوتی ہیں
عینی اسد
کیا دیکھے گا انسان وہاں اپنی نظر سے
ظلمات کی بارش ہو جہاں شمس و قمر سے
ہو جاتی ہے مظلوم کی فریاد کہاں گم
کہتا ہے فلک گزرا ہے سو بار ادھر سے
گلشن کو سجایا ہے چراغاں بھی کروں گا
بہنے دو ابھی اور لہو میرے جگر سے
بس یہ کام یہ نادان نہیں کرتے ہیں
آدمی اپنے کو انسان نہیں کرتے ہیں
جان دے کر ہمیں یہ بات سمجھ میں آئی
جان ہر شخص پہ قربان نہیں کرتے ہیں
سر جھکانے کی کسی در پہ ضرورت کیا ہے
اس قدر غیر پہ احسان نہیں کرتے ہیں
دشمن مِرے پیچھے ہے تو دریا مِرے آگے
اب کوئی بچا ہی نہیں رستہ مرے آگے
توہین نہ کر تو مِری غربت کی سر عام
مت پھینک حقارت سے یہ سکہ مرے آگے
میں سچ کا طرفدار تھا وہ جھوٹ کا حامی
تا دیر بھلا کیسے ٹھہرتا مرے آگے
ہاں میں کشمیر ہوں، ہاں میں کشمیر ہوں
نہ بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر ہوں
نہ میں جنت سی اب کوئی تصویر ہوں
جس کو مل کر کے صدیوں سے لوٹا گیا
میں وہ اجڑی ہوئی ایک جاگیر ہوں
ہاں میں کشمیر ہوں ہاں میں کشمیر ہوں
بارش ہوئی تو شہر کے تالاب بھر گئے
کچھ لوگ ڈُوبتے ہوئے دُھل کر نکھر گئے
سُورج چمک اُٹھا تو نگاہیں بھٹک گئیں
آئی جو صُبح نو تو بصارت سے ڈر گئے
دریا بپھر گئے تو سمندر سے جا ملے
ڈُوبے جو ان کے ساتھ کنارے کدھر گئے
اپنے ہی گھر کے سامنے ہوں بت بنا ہوا
پردے ہٹے ہوئے ہیں دریچہ کھلا ہوا
یوں ہی ادھر ادھر کی سناتے رہو مجھے
موسم بہت اداس ہے دل ہے دکھا ہوا
آواز دے کے پوچھ لو کیا ہو گیا اسے
وہ شخص جا رہا ہے بہت سوچتا ہوا
جس طرح آج گرفتار وطن سے نکلے
نامرادانہ کوئی یوں نہ چمن سے نکلے
طوق و زنجیر پہن کر تو بن آئی نہ مراد
شاید اب کام وفا دار و رسن سے نکلے
ہم نے دیکھے ہیں بہت گردش ایام کے رنگ
بار ہا کشمکش چرخ کہن سے نکلے
"لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری"
سُن لے تُو آج یہ فریاد خدایا میری
تیرے محبوبؐ نے جس سمت کیے تھے سجدے
حکم سے تیرے وہ اصحابِ نبیؐ کے سجدے
سینکڑوں غم لیے سینے میں ہے غمگین کھڑا
اب فقط تیرے سہارے ہے فلسطین کھڑا
کوئی بتلاؤ کہ یہ ناؤ کہاں ٹھہرے گی
کب قضا آئے گی کب عمر رواں ٹھہرے گی
زندگی ایک حقیقت سہی لیکن اے دوست
گر یہی حال رہا وہم و گماں ٹھہرے گی
سوئے جولاں گہ ہستی نگراں ہے دیکھو
یہ نظر اب رخ ساقی پہ کہاں ٹھہرے گی
دلوں میں جذبۂ نفرت ہے کیا کیا جائے
زباں پہ دعویٔ الفت ہے کیا کیا جائے
ہزار قسم کے الزام سن کے بھی چپ ہیں
ہمارا جرم شرافت ہے کیا کیا جائے
نہ دشمنوں سے عداوت نہ دوستوں کا لحاظ
اسی کا نام صداقت ہے کیا کیا جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عطا کر الٰہی
عطا کر الٰہی، الٰہی عطا کر
مجھے مصطفیٰﷺ کی محبت عطا کر
اس بحرِ پُر کیف میں ڈوب جاؤں
مجھے ڈوب جانے کی عزت عطا کر
عطا کر الٰہی
کشمیر کے لیے
برف اوڑھے ہوئے دلنشیں راستے
چاند کی روشنی میں نہائے ہوئے
آبشاروں کی بہتی ہوئی راگنی
سُرخ پتوں میں لپٹے چناروں کے جُھنڈ
حُسن تیرا کریں لفظ کیسے بیاں؟
تجھ کو جنُت یونہی تو کہا نہ گیا
روگ الفت کا جسے لگ جائے ہے
لطف جینے کا وہی کچھ پائے ہے
یوں مٹا جاتا ہے راہ عشق میں
خاک پروانہ یہی بتلائے ہے
وعدہ آنےکا کیا ہے آئیں گے
اے دلِ ناداں کیوں گھبرائے ہے
زباں کو سرخ انگاروں میں دیکھو
قلم سفاک تلواروں میں دیکھو
کتابوں نے جسے لکھا منافق
قصیدے اس کے اخباروں میں دیکھو
یہ گھر منسوب جس کے نام سے ہے
اسی کا جسم دیواروں میں دیکھو
کب ہوئی ختم رات یاد نہیں
کیا ہوئی ان سے بات یاد نہیں
کب لٹا کارواں ستاروں کا
کب لٹی کائنات یاد نہیں
کیسے گزرے وہ بے خبر لمحے
کیسے گزری حیات یاد نہیں
اشک پلکوں پر اٹک کر رہ گئے
قافلے رستے میں تھک کر رہ گئے
بجھ گئے جل جل کے آشا کے دیے
رات جگنو سے چمک کر رہ گئے
کوئی ان کا پوچھنے والا نہ تھا
پھل درختوں پر جو پک کر رہ گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدینے پاک سے جو لوگ لو لگاتے ہیں
خود اپنے در پہ انہیں مصطفیٰؐ بلاتے ہیں
غموں کی دھوپ کبھی ان چھو نہیں سکتی
لبوں پہ ڈالی درودوں کی جو سجاتے ہیں
خدا کے فضل سے مداح مصطفیٰﷺ ہیں ہم
ہمیشہ عشق میں نعت نبیﷺ سناتے ہیں
ہم اپنے آہ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں لوگو
اندھیری رات میں ملتا نہیں نشاں لوگو
میں اپنی شکل نہ پہچان پائی شیشے میں
یہ کیا ہوا میرا چہرہ گیا کہاں لوگو
ہر ایک آرزو دھوکہ ہر ایک خواب فریب
وہ خواب، خوابِ سفر ہے دھواں دھواں لوگو