فتح پانے کی نئی راہ نکالی اُس نے
میرا سر مانگ لیا بن کے سوالی اس نے
اپنی ہی ذات کے گُلشن میں کِیا آ کے قیام
بھُول کر وادیٔ کشمیر و منالی اس نے
قُرب مانگا تو دیا، ہِجر جو مانگا تو دیا
جو کہا میں نے کوئی بات نہ ٹالی اس نے
فتح پانے کی نئی راہ نکالی اُس نے
میرا سر مانگ لیا بن کے سوالی اس نے
اپنی ہی ذات کے گُلشن میں کِیا آ کے قیام
بھُول کر وادیٔ کشمیر و منالی اس نے
قُرب مانگا تو دیا، ہِجر جو مانگا تو دیا
جو کہا میں نے کوئی بات نہ ٹالی اس نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس دل میں آرزوئے حبیبؐ خدا نہیں
اس دل میں بھول کر بھی خدا جھانکتا نہیں
ہجرِ نبیﷺ میں کون سی شب رو دیا نہیں
ایسا ہوا نہیں،۔ کبھی ایسا ہوا نہیں
ہے جس کی ذات باعثِ تخلیقِ کائنات
ہفت آسماں میں کون انہیں جانتا نہیں
دل ناداں تمنائی بہت ہے
سنا ہے وہ بھی ہرجائی بہت ہے
وفا کی آس میں اک عمر گزری
جفا میں اس کی گہرائی بہت ہے
تلاطم خیز ہے طوفاں میں کشتی
سمندر سے شناسائی بہت ہے
دیکھ لی اس کی ذہانت دیکھ لی
جھوٹ ہے کتنی صداقت دیکھ لی
ایک جانب دیکھتا ہے رات دن
اور کہتا ہے حقیقت دیکھ لی
ڈوبتے رہتے ہیں سائے آپ میں
آپ کی میں نے ضرورت دیکھ لی
دل کی تختی سے مِری یاد کھرچنے والے
اس قدر جلد نہیں نقش یہ مٹنے والے
پھر کسی یاد کا پودا نہ لگانا دل میں
جان لیوا ہیں شگوفے بھی یہ کھلنے والے
گھپ اندھیروں کا تدارک بھی ضروری ٹھہرا
شب کے پہلو سے ہیں تارے بھی نکلنے والے
حادثے اب تو بہت تیز قدم آتے ہیں
یہ الگ بات کہ اخبار میں کم آتے ہیں
کون جلتے ہوئے ماحول کی تاریخ لکھے
بکنے والوں ہی کے ہاتھوں میں قلم آتے ہیں
کوئی اعزاز نہ منصب، نہ وظیفہ نہ خطاب
ہمیں درباروں کے آداب ابھی کم آتے ہیں
خال رخسار کو داغ مہ کامل باندھا
چشم مخمور کو کونین کا حاصل باندھا
ہم نے اس شہر ستمگر کے ہر اک ذرہ کو
ذوق سجدہ کی قسم سجدہ گہہ دل باندھا
ہم نے ہر وادیٔ پر خار کو زینت بخشی
سر پہ ہر خار کے اک طرۂ منزل باندھا
انفاسِ گُل و لالہ لہو بیز بہت ہے
اے مطربہ فریاد کے لے تیز بہت ہے
چل کر کسی صحرا کی کڑی دھوپ میں بیٹھو
اشجار کا سایہ تپش آمیز بہت ہے
دروازے بند کر کے جو بیٹھا ہوں گھر میں آج
دم گُھٹتا ہے، باہر کی ہوا تیز بہت ہے
گزر جاتے ہیں جو نظریں بچا کر بے خبر ہو کر
وہ کیا درماں کریں گے درد دل کا چارہ گر ہو کر
نہیں صیّاد کا شکوہ، یہی منظورِ قدرت تھا
قفس ہی میں ہمیں رہنا تھا یوں بے بال و پر ہو کر
زمانے بھر میں ہو آئے تمہاری دِید کی خاطر
چراغِ آرزو بن کر،۔ تمنائے نظر ہو کر
کوئی شکوہ نہ شکایت ہے بچھڑنے والے
بے وفائی تِری عادت ہے بچھڑنے والے
ہم جو زندہ ہیں تو زندہ بھی نہیں ہیں دیکھو
اک بپا روز قیامت ہے بچھڑنے والے
میری سانسوں کی روانی کا سبب پوچھتے ہو
تیرے چہرے کی تلاوت ہے بچھڑنے والے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سوزش سے میرے دل کی جلنے لگا ہے سینہ
اس کی دوا ہے لا دو خاکِ رہِ مدینہ
جس دم لبوں پہ آیا ذکرِ شہِﷺ مدینہ
باطل کی طاقتوں کو لو آ گیا پسینہ
اب غم نہیں ہے مجھ کو طوفاں میں ہے سفینہ
ہر دم زبان پر ہے ذکرِ شہﷺ مدینہ
میں نے ہر بار یہ خطا کی ہے
تیرے حق میں سدا دُعا کی ہے
اپنی سچائیوں کی مجرم ہوں
جھُوٹ سے آج ابتدا کی ہے
ہے عیاں مجھ پہ یہ وفا لیکن
بات میری نہیں خُدا کی ہے
ابھی حیات کا ماحول سازگار کہاں
بھلا حضور کہاں اور یہ خاکسار کہاں
بس ایک رسمِ ملاقات آج باقی ہے
کسی کے دل میں کسی کیلئے بھی پیار کہاں
خیالِ یار ہے وجہ سکونِ دل لیکن
خیالِ یار کہاں جلوہ گاہِ یار کہاں
بغور دیکھو تو زخموں کا اک چمن سا ہے
سکوت تشنہ تمناؤں کا کفن سا ہے
کبھی کھل اٹھتے ہیں یادوں کے بھی کنول ورنہ
بہار میں بھی یہ دل اک اداس بن سا ہے
ابھر رہا ہے جو نغمہ بہار کے دل سے
گداز و سوز کچھ اس میں ترے بدن سا ہے
دل کو منظور محبت کا جو اظہار ہوا اور بیمار ہوا
حضرتِ عشق سے بس اس کو سروکار ہوا، سب سے بیزار ہوا
کہہ کے منصور انا الحق جو خطا وار ہوا، بر سرِ دار ہو
اہل عالم میں نہاں عشق نہ زنہار ہوا، ضبط دشوار ہوا
آپ ہی حضرتِ موسیٰ نہیں غش کھا کے گرے، کب ملک ہوش میں تھے
دیکھ کر طور بھی محوِ رخِ دلدار ہوا، عاشقِ زار ہوا
پر جبریل بھی جس راہ میں جل جاتے ہیں
ہم وہاں سے بھی بہت دور نکل جاتے ہیں
محفل دل کو ہے مانگے کے اجالے سے گریز
دیپ داغوں کے سر شام ہی جل جاتے ہیں
صاف اڑ جاتا ہے خاصان خرابات کا رنگ
ہم وہ میخوار ہیں پی پی کے سنبھل جاتے ہیں
دُھوپ میں ساتھ ہے گھٹا کی طرح
تُو میرے لب پہ ہے دُعا کی طرح
مُسکرانا تِرا دُعا کی طرح
رُوٹھ جانا کسی سزا کی طرح
تیرے چہرے سے میری نظروں کا
واسطہ ہاتھ اور حنا کی طرح
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بدل جاتے ہیں اس کے باطنی حالات طیبہ میں
گزارے جو خلوصِ قلب سے کچھ رات طیبہ میں
متاعِ نور نے اس کو نوازا اپنے جلووں سے
سجا کر لے گیے اشکوں کی جو بارات طیبہ میں
انہیں دیکھے گا کب محروم ہے جو نور باطن سے
نمایاں آج بھی ہیں عشق کی آیات طیبہ میں
صبح گزری ہے کہاں شام کہاں گزرے گی
زندگی اب کے با اندازِ فغاں گزرے گی
اس کی خوشبو میں بسی بادِ صبا آئی اگر
سارے گلشن میں مہک ہو گی جہاں گزرے گی
روز و شب یوں تو کسی طرح بسر کی میں نے
جو بچی ہے وہ خدا جانے کہاں گزرے گی
پھر کوئی آ رہا ہے دل کے قریب
داغ تازہ کھلا ہے دل کے قریب
پھر کوئی یاد سایہ افگن ہے
دھندلی دھندلی فضا ہے دل کے قریب
پھر کوئی تازہ واردات ہوئی
جمگھٹا سا لگا ہے دل کے قریب
کشمکش
دل یہ بولے کہ باندھ رخت سفر
اور ذہن آئے بیڑیاں بن کر
اب اذیت تِرا مقدر ہے
تُو نکل جا یا دیکھ لے رک کر
ہاں مگر ایک ایک لمحہ وہ
جو تُو اس کشمکش سے گزرے گا
آج ان کی بزم میں جاتے ہیں ہم
دل کو نذر یار کر آتے ہیں ہم
وہ مجھے مجنوں کہیں، وحشی گنیں
زخمِ دل ان کو دکھا لاتے ہیں ہم
شوق سے کوئے جفا کو چل دئیے
جان پر کیسے ستم ڈھاتے ہیں ہم
ریت کی چادر اوڑھ کے سوئیں صحرا میں
دن بھر اپنے خواب جو بوئیں صحرا میں
دریا ہم کو ساحل پہ لا پھینکے گا
ہم تم اپنا آپ ڈبوئیں صحرا میں
ہجر کی جگمگ جگمگ کرتی تیغ میں ہم
سانسوں کا اک ہار پروئیں صحرا میں
چاروں اور اب پھُول ہی پھُول ہیں کیا گِنتے ہو داغوں کو
ہو توفیق تو دل💕 سے لگاؤ ان نَو رستہ باغوں کو
جلتے صحرا کی موجوں پر گِرتے پڑتے رہرو ہیں
چشمۂ آزادی کے جو اب تک ڈھونڈ رہے ہیں سراغوں کو
بادِ حوادث کی شہ پر خود ان کو راہ دکھاتے ہیں
وقت کے دھارے پر چھوڑا ہے ہم نے ایسے چراغوں کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اُڑا لا اے صبا! بُوئے محمدﷺ
کھِچا جاتا ہے دل سُوئے محمدﷺ
نسیم گُلشنِ طیبہ مجھے بھی
سُنگھا دے لا کے خُوشبوئے محمدﷺ
جو میں کرتا ہوں سجدہ سُوئے قبلہ
تو جھُک جاتا ہے دل سُوئے محمدﷺ
آن رہنے دے، شان رہنے دے
دل کے منہ میں زبان رہنے دے
دُشمنی کی حدوں کو پار نہ کر
دوستی کا گُمان رہنے دے
لُوٹنے والے لُوٹ لے سب کچھ
سر پہ اک سائبان رہنے دے
میرے گھر کے بام و در بھی مجھ سے تیرا پُوچھتے ہیں
شہر کے شام و سحر بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
کیا بتاؤں لوٹ آیا ہوں تِرے کوچے سے یوں
رکھے جو دل پر حجر بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
تُو ہی کہہ دے کیا بتاؤں ان کو میں تیرا پتہ؟
جو نہیں تھے با خبر وہ بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا
چاند جیسے کہ فلک سے یہ پھسل آیا تھا
میرا یہ دل جسے پتھر بھی بہت نرم لگے
برف جیسا مِرے سینے میں پگھل آیا تھا
ایسی وادی سے بھلا کون پلٹ کر آئے
ایک بچہ ہی سا تھا میں جو نکل آیا تھا
قتل کرنا ہو تو کب زہر دیا جاتا ہے
ان دنوں بس نظر انداز کیا جاتا ہے
زندگی زہر سہی جُرعۂ مانوس تو ہے
موت کا جامِ شفا کس سے پیا جاتا ہے
میں تو لمحات کا بکھرا ہوا شیرازہ ہوں
سوزنِ عمر سے کیوں مجھ کو سِیا جاتا ہے
پریشاں ہیں خرد مندوں کی حیرانی نہیں جاتی
مٹائی عقل سے تحریر پیشانی نہیں جاتی
بھلاتا ہوں انہیں جتنا وہ اتنے یاد آتے ہیں
خلش زخم محبت کی بہ آسانی نہیں جاتی
اگر ہو شیشۂ دل صاف تو دم بھر میں کھل جائے
حقیقت کیوں خدائے پاک کی جانی نہیں جاتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ زندہ رہ کے دکھائے ذرا ہوا سے الگ
جو کہہ رہے ہیں کہ ہے دین کربلا سے الگ
نہ ہوں گے مر کے بھی دہلیز سیدہؑ سے الگ
زمانہ ہوتا ہے تو ہو میری بلا سے الگ
نبیؐ سے، دین سے وہ لوگ ہیں خدا سے الگ
بھٹک کے بیٹھے ہیں جو آل مصطفیٰؐ سے الگ
دشت جنوں میں جلوۂ خوباں کی جستجو
کتنی عجیب ہے دل ناداں کی جستجو
گزری تھی زلف یار سے ہو کر نسیم شوق
اب تک ہے اس کی بوئے پریشاں کی جستجو
حیرت زدہ ہوں دیکھ کے یہ انقلاب نو
ہے شاخ گل کو آج گلستاں کی جستجو
اپنی بگڑی تو ان کی بن آئی
ہم تماشا ہیں، وہ تماشائی
روشنی بانٹنے جو آئے تھے
چھین کر لے گئے ہیں بینائی
مصلحت کے دبیز پردوں میں
با وفا کون،۔ کون ہرجائی
عشق میں ڈوب کے یہ حال ہے پروانے کا
خوف مرنے کا نہ کچھ شوق جِیے جانے کا
کون مانے گا کہ یہ خواب ہے دِیوانے کا
زندگی نام ہے محبوب کو پا جانے کا
پھول کمہلائے ہوئے خشک ہے ڈالی ڈالی
نام ہی نام ہے گلشن میں بہار آنے کا
اٹوٹ انگ ہے اس کا تو شاہ رگ میری
کہاں وہ لالے کی دھوتی کہاں یہ پگ میری
شکنجہ ڈھیلا کروں اور پاؤں ان کے پڑوں
ہنسی اڑاتا رہے اس پہ سارا جگ میری
وفا کی ان سے امیدیں رکھوں تو کافر ہوں
تقاضا ان کا ہے، دیکھیں ادائے سگ میری
ہوش مندوں کو بھی دیوانہ بنا دیتی ہے
بیخودی بزم میں سو رنگ جما دیتی ہے
عدل و انصاف نہیں حشر کے دن پہ موقوف
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
وقت کی بات ہے کچھ اور، وگرنہ اکثر
صلح کی بات بھی فتنوں کو ہوا دیتی ہے
صدائے کرب اٹھی نعرۂ فراغ لگا
کہیں مکان جلا، دُور سے چراغ لگا
یہ وہ زمیں ہے جہاں تہمتیں ہی اُگتی ہیں
کہا تھا کس نے یہاں نیکیوں کے باغ لگا
ہتھیلیوں میں اسے بھر کے میں تو پی ہی گیا
تھی نرم دھوپ، وہ چہرہ مجھے ایاغ لگا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں عاصی ہوں یہ مانا کام ہے میرا خطا کرنا
مگر ہے آپﷺ کا شیوہ عطاؤں پر عطا کرنا
سماعت آپؐ کی ایسی کہ دھڑکن کی صدا سن لے
ضروری تو نہیں اپنی زباں سے التجا کرنا
سواری آ رہی ہے سیدہ زہراؑ کی محشر میں
ادب سے سر جھکا لو سب نہ اب اونچی نگاہ کرنا
تُو یاد آیا اور مِری آنکھ بھر گئی
اکثر تِرے بغیر قیامت گزر گئی
اول تو مُفلسوں کی کوئی آرزو نہیں
پیدا کبھی ہوئی بھی تو گُھٹ گُھٹ کے مر گئی
اک عشق جیسے لفظ میں مُضمر ہو کائنات
اک حُسن جیسے دُھوپ چڑھی اور اُتر گئی
کہانی عشق کی یعنی یہی ہے
یہی ہے آگ اور پانی یہی ہے
میں کرتا آیا ہوں بس تیرے من کی
مجھے لگتا تھا من معنی یہی ہے
تِرے رخ سے نہیں ہٹتے کسی طور
نگاہوں کی نگہبانی یہی ہے
رائیگاں جاتا ہے کب الفت میں دیوانوں کا خوں
رنگ لاتا ہے کسی دن ان کے ارمانوں کا خوں
حسن گل پر اس قدر مائل نہ ہو اے عندلیب
ہو کے رہ جائے گا اک دن تیرے ارمانوں کا خوں
خاک بلبل نے سنوارا غازہ بھی کر حسن گل
اور نور شمع میں چمکا ہے پروانوں کا خوں
بذات خود اب تو نہ تکلیف فرما
تصور ہی رہنے دے تشریف فرما
مِری ہستیٔ عارفانہ سے مطلب
تُو اپنے تجاہل کی تعریف فرما
اگر شدتِ دردِ دل دیکھنی ہے
توجہ میں کچھ اور تخفیف فرما
اب وہ رکھتا ہے جدائی کے بہانے کتنے
جس نے دِکھلائے مجھے خواب سہانے کتنے
میرا دم ساز زمانہ ہے ابھی تک لیکن
میں جو گر جاؤں تو آئیں گے اٹھانے کتنے
جب بھی موسم ہو بہاروں کا کھلیں گے یہ بھی
ہاں یہی زخم جو لگتے ہیں پرانے کتنے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت کی فکر نے پیدا کیا منظر ایسا
خانۂ دل تو نہ تھا پہلے منور ایسا
جہل کا دور گیا،۔ عہدِ تدبر آیا
رکھ دیا سارے زمانے کو بدل کر ایسا
شکمِ پاکؐ سے باندھا تھا پیمبرؐ نے جسے
جنوں بغیر کبھی آگہی نہیں ہوتی
جلے نہ شمع تو کچھ روشنی نہیں ہوتی
وہ سجدہ سجدہ نہیں جس میں ہوش باقی ہو
بہ قید ہوش جو ہو بندگی نہیں ہوتی
قبائے حسن کی تابش اگر ہو آنکھوں میں
بشر کے دل میں کبھی تیرگی نہیں ہوتی
رات دن گزرتی ہے میری زندگی تنہا
جیسے صحن گلشن میں ہو کہیں کلی تنہا
پہلے تیرے جلووں کے ساتھ ساتھ آتی تھی
آ گئی مِرے لب پر آج کیوں ہنسی تنہا
موند لیں ستاروں نے تھک کے خودبخود آنکھیں
چاند کیوں لٹاتا ہے اپنی چاندنی تنہا
یہی بس ایک دعا مانگنا نہیں آتا
وفا کے بدلے وفا مانگنا نہیں آتا
ہمارا کام محبت سے پیش آنا ہے
کسی کا نام پتا مانگنا نہیں آتا
دریچہ کھول دیا ہے گھٹن سے بچنے کو
مگر زباں سے ہوا مانگنا نہیں آتا
حسن بھی ہے پناہ میں عشق بھی ہے پناہ میں
اک تِری نگاہ میں، اک مِری نگاہ میں
کھیل نہیں ہنسی نہیں حال میرا سن نہ سن
درد ہے دو جہان کا عشق کی ایک آہ میں
خوگرِ ظلم و جور کو شکوۂ التفات ہے
قلب سے اٹھ کے چھا گئی غم کی گھٹا نگاہ میں
خیر اندیش بنے، حق کی مذمت نہ کرے
خون اپنا ہے تو اپنوں سے بغاوت نہ کرے
ریشم و اطلس و کمخواب میں پلنے والا
ہم فقیروں سے الجھنے کی حماقت نہ کرے
بے وفائی کا اگر حسن کی کھل جائے بھرم
کوئی بھولے سے بھی اقرارِ محبت نہ کرے
دشمن جاں سے دوستی کر لی
یوں میاں ہم نے خود کشی کر لی
ایک مدت سے تھے پریشاں کچھ
جب نہ سوجھا تو شاعری کر لی
کہتے کہتے وہ رک گیا لیکن
بات بھولے سے ہی سہی کر لی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہادیٔ کُل جُز محمد مصطفیٰﷺ کوئی نہیں
رحمتہ للعالمیںﷺ ان کے سوا کوئی نہیں
جس کی خاکِ رہگزرہے غازۂ مہرِ فلک
وہ نہ ہوں تو روز و شب صبح و مسا کوئی نہیں
بن گئی طیبہ کی دوری اک سمندر کی طرح
ہے تصور اک سفینہ،۔ نا خدا کوئی نہیں
تیرے لیے یہ دل کبھی پتھر نہیں ہوا
تیری طلب رہی، تُو ہمسفر نہیں ہوا
تِرے انتظار میں کئی برسوں گزر گئے
تِری دِید کا اک پل بھی میسر نہیں ہوا
تم جیسے کی تلاش میں پھرتی رہی برسوں
تِرے سوا کوئی نظروں کا محور نہیں ہوا
مست ہوں مست ہوں خراب خراب
🍷ساقیا! ساقیا!، شراب شراب
آتش عشق سوں تری جل جل
دل ہوا دل ہوا کباب کباب💗
دور مکھ سوں عرق نہ کر گل رو
دے مجھے دے مجھے گلاب گلاب
مڑا جو تیری گلی کی جانب دوکانداروں نے سر اٹھائے
کھڑے تھے کوچہ میں جتنے بچے مجھے جو دیکھا تو کھلکھلائے
نہ جانے کتنوں نے گھورا مجھ کو نہ جانے کتنوں نے تاؤ کھائے
مگر میں نظریں بچا کے سب کی نکل ہی آیا فرار ہو کر
میں تیری بستی سے آ گیا ہوں مگر بڑا ہی دلفگار ہو کر
رنگ وہ اب کہاں نسرین و نسترن میں
اجڑا پڑا ہوا کیا خاک ہے چمن میں
کچھ آرزو نہیں ہے، ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاکِ وطن کفن میں
💕نعرۂ اناالحق اور دعوئ محبت
رکھا ہوا تھا اور کیا منصور و کوہکن میں
سب کچھ ہو بس ضرور، مگر پیار چاہیے
مئے کا بھلا سرور مگر پیار چاہیے
ایمان و دین ہو گا، دوزخ اور جنتیں
خالص خدا کا نور مگر پیار چاہیے
اولاد، کام اور یہ غم روزگار کے
ہاں ہاں یہ ہو حضور مگر پیار چاہیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تیرے قربان ہمیں راہ دکھانے والے
خوابِ غفلت سے زمانے کو جگانے والے
تیرے اخلاق کی ملتی نہیں دنیا میں نظیر
دشمنوں کو بھی کلیجے سے لگانے والے
حشر تک بجھ نہیں سکتا تِری عظمت کا چراغ
ظلمتِ کفر کو دنیا سے مٹانے والے
محبوب سا انداز بیاں بے ادبی ہے
منصور اسی جُرم میں گردن زدنی ہے
خُود اپنے ہی چہرے کا تعین نہیں ہوتا
حالانکہ مِرا کام ہی آئینہ گری ہے
آنے دو ابھی جُبہ و دستار پہ پتھر
کچھ کعبہ نشینوں میں ابھی بولہبی ہے
تم نے اِک گیت اب اُچھالا ہے
ہم نے جب ساز توڑ ڈالا ہے
ظُلمتوں کا جو بول بالا ہے
کوئی سُورج نکلنے والا ہے
رنجشیں میرے کام آئی ہیں
لغزشوں نے مجھے سنبھالا ہے
لہو پکار کے چپ ہے زمین بولتی ہے
میں جھومتا ہوں کہ یہ کائنات ڈولتی ہے
ابھی زمین پہ اترے گی اس دریچے سے
وہ روشنی جو مسافر کی راہ کھولتی ہے
مزا تو یہ ہے کہ وہ زہر میں بجھی آواز
کبھی کبھی مِرے کانوں میں شہد گھولتی ہے
ہم یہ نہیں کہتے خطا ہم سے نہ ہو گی
لیکن یہ جفاؤں پہ وفا ہم سے نہ ہو گی
اے جانِ وفا! کہہ تو دیا ہم سے نہ ہو گی
یہ عمر بسر تیرے سوا ہم سے نہ ہو گی
کہہ لے ہمیں کچھ اور پہ غدار نہ کہیو
برداشت یہ تہمت با خدا ہم سے نہ ہو گی
سمے کی ڈور پکڑتے ہی جھُوٹ بولے ہیں
ہوا کی سمت سے لڑتے ہی جھوٹ بولے ہیں
تمہارے بعد کسی کا بھی دل نہیں توڑا
تمہارے بعد تو سب سے ہی جھوٹ بولے ہیں
تِرے بغیر نہ رہ سکنے والا آخری تھا
پھر اس کے بعد تو اچھے ہی جھوٹ بولے ہیں
جو کام تُو نے دیا تھا وہ ہو گیا مالک
میں جاتے جاتے کروں اور کیا، بتا مالک
پڑھوں نماز کہ روزی کماؤں یا مالک
چکاؤں قرض کروں فرض یا ادا مالک
مِرے نصیب میں کم اختیار تھا مالک
میں زندگی میں نہ تھا اپنی مرضی کا مالک
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ازل کے رازداں تم ہو ہمارے رہنما تم ہو
خدائی تم پہ شیدا ہے، خدا کا آئینہ تم ہو
تمہارے ہی کرم کا آسرا ہے دونوں عالم پر
تمہاری دید سے زندہ ہیں، وہ جامِ بقا تم ہو
بدل کر صورتِ ظاہر نمایاں آپﷺ ہیں جگ میں
کہیں پہ خضرِ منزل ہو، کہیں پر مصطفیٰ تم ہو
نیند آنکھوں میں سمو لوں تو سِیہ رات کٹے
یہ زمیں اوڑھ کے سو لوں تو سیہ رات کٹے
قطرۂ اشک بھی لَو دیتے ہیں جگنو کی طرح
دو گھڑی پھُوٹ کے رو لوں تو سیہ رات کٹے
رونے دھونے سے نہیں اُگتا خُوشی کا سُورج
قہقہے ہونٹ پہ بو لوں تو سیہ رات کٹے
اجڑے ہوئے جہان بہت وقت ہو گیا
زندہ ہے بس تھکان بہت وقت ہو گیا
اک قول تھا کہ ساتھ جئیں گے مریں گے ہم
بدلے ہوئے بیان بہت وقت ہو گیا
سن فصل عشق کی مری برباد ہو گئی
کب تک بھروں لگان بہت وقت ہو گیا
چرا کر نظر اک نظر دیکھ لینا
محبت کا پھر تم اثر دیکھ لینا
تمہیں اپنے جلوؤں سے فرصت ملے تو
ہمیں بھی کبھی اک نظر دیکھ لینا
کسک دل میں تم کو بھی محسوس ہو گی
جو مارے ہیں تیر نظر دیکھ لینا
چھوڑ دے مانگنے کی ادا چھوڑ دے
اپنا حق چھین لے التجا چھوڑ دے
چھوڑ دے اب مِرا تذکرہ چھوڑ دے
کچھ دنوں کو مجھے لاپتہ چھوڑ دے
ناخداؤں کا اب آسرا چھوڑ دے
اپنی کشتی بہ نام خدا چھوڑ دے
منتشر جب ذہن میں لفظوں کا شیرازہ ہوا
مجھ کو اک سادہ ورق کے دکھ کا اندازہ ہوا
یوں تو اک چبھتا ہوا احساس تھی اس کی نظر
چوٹ ہی ابھری نہ کوئی زخم ہی تازہ ہوا
موڑنا چاہا تھا میں نے سرپھرے لمحوں کا رخ
دیر میں اجڑی ہوئی شاخوں کو اندازہ ہوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شہ طیبہ محمدؐ کتنا پیارا نام ہے تیرا
لقب کتنا دلارا داعئ اسلام ہے تیرا
بنا کر رحمۃ اللعالمیں حق نے تجھے بھیجا
پیامِ امن دنیا کے لیے پیغام ہے تیرا
ہوا مبعوث عالم میں دلیلِ آخریں بن کر
جہاں کے ذرہ ذرہ کو ملا پیغام ہے تیرا
پتھر کے آدمی ہیں کوئی بولتا نہیں
اس شہر بے صدا میں کہیں بھی صدا نہیں
دلچسپ کس قدر تھی کہانی سکوت کی
شب بھر کسی شجر کا سراپا ہلا نہیں
کیسے کروں تلاش میں اپنے وجود کو
اس شہر میں کسی کو کسی کا پتا نہیں
بابِ دل جب بھی وا ہوا اپنا
اس میں نقصان ہی ہوا اپنا
کوئی دل والا آ ملے مجھ سے
در ہے رکھا کھلا ہوا اپنا
نقش پا ثبت ہیں لٹیروں کے
گھر سے غائب ہے رہنما اپنا
نگار صبح وطن کو ذرا سنورنے دو
نہیں ہے صاف فضائے وطن ابھی لیکن
رُندھا ہوا تھا جو مُدت سے وہ دُھواں تو گیا
کرو نہ غم کہ ہے برہم ابھی نظامِ چمن
خوشی مناؤ کہ سفّاک باغباں تو گیا
دلِ حیات ابھی تک بجھا بجھا ہی سہی
سیرابِ سخن ہوتے ہیں بارانِ قلم سے
لفظوں نے بڑے کھیل کیے عشق میں ہم سے
بس کارگہِ ہوش و خِرد جھَیل رہا ہوں
جی اوب گیا مجلسِ شوریٰ کے بھرم سے
قلعے بھی جلے جاتے ہیں خاشاک کی مانند
وہ آگ اُگلتی ہے زمیں نقشِ قدم سے
ہمدردیاں کسی سے کسی سے دعا ملی
یا رب صلہ ملا ہے مجھے یا سزا ملی
اس آدمی کو جانیے سب کچھ ہی مل گیا
جس آدمی کو دولت شرم و حیا ملی
کچھ لوگوں کی شکایتیں ہوں گی بجا مگر
ہم کو تو دوستی میں ہمیشہ وفا ملی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مالک ارض سما کے خاص دلبر آپ ہیں
سارے نبیوں میں شفیعِ روزِ محشر آپ ہیں
جن و انسان و ملائک نے نہ پایا یہ شرف
٭نقیب جنت، ساقئ تسنیم و کوثر آپ ہیں
جگمگا اٹھا ہو جن کے حسن سے عرشِ بریں
نورِ حق خود جس کا شیدا ہے وہ گوہر آپ ہیں
کسی کے عشق میں دل بیقرار کون کرے
وہی گناہ بتا بار بار کون کرے؟
اگر سفر میں سکوں ہے کسی مسافر کو
کہیں ٹھہر کے سکوں تار تار کون کرے
فریبیوں میں پریشاں ہے سب کے سب رشتے
یہاں وفاؤں پہ اب اعتبار کون کرے؟
خامشی اک زبان ہے سائیں
درد سحر البیان ہے سائیں
سب کی اپنی ہی ایک دنیا ہے
سب کا اپنا جہان ہے سائیں
لفظ سینے کے پار ہوتے ہیں
یعنی لہجہ کمان ہے سائیں
ایسے بھی محبت کی سزا دیتی ہے دنیا
مر جائیں تو جینے کی دعا دیتی ہے دنیا
ہم کون سے مومن تھے جو الزام نہ سہتے
پتھر کو بھی بھگوان بنا دیتی ہے دنیا
یہ زخمِ محبت ہے دکھانا نہ کسی کو
لا کر سر بازار سجا دیتی ہے دنیا
درد کچھ کم نہ ہوا اپنا دوا کھانے سے
اعتبار اٹھ گیا ہمدرد دوا خانے سے
اس بڑھاپے میں لگایا ہے انہوں نے سرما
باز آتے نہیں وہ اب بھی ستم ڈھانے سے
ان کے ابا کو رقیبوں نے بہت بھڑکایا
وہ تو اچھا ہوا بھڑکے نہیں بھڑکانے سے
ہم منصب و اعزاز کے طالب بھی نہیں تھے
پر مجرمِ انکارِ مراتب بھی نہیں تھے
لکھ لیتے تیری چاہ بھی ہم کاغذِ دل پر
افسوس کہ تقدیر کے کاتب بھی نہیں تھے
ابلیس مزاجوں کو بھی برداشت کیا ہے
ہمراہ مِرے چلنے کو راہب بھی نہیں تھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ان کی یادوں کے پر سکوں لمحے غم زدوں کو قرار دیتے ہیں
صرف کرتے ہو بات تم اپنی وہ تو نسلیں سنوار دیتے ہیں
گر حقیقت شناس ہو لوگو! زندگی کی یہی حقیقت ہے
زندگی ہے انہیں کو جو ان کے آستاں پر گزار دیتے ہیں
ناؤ جس وقت ڈگمگاتی ہے ان کی نسبت ہی کام آتی ہے
خود کنارے پر تھام کر بازو آ کے طوفاں اتار دیتے ہیں
تِرے پہلو میں جب خلوت کا ہے سامان تھوڑے دن
بہت ہی خوبرُو بھی ہو رہے گا جان تھوڑے دن
بدن کے اس سرائے میں سکونت مستقل کیسی
ذرا اس روح کی سوچیں جو ہے مہمان تھوڑے دن
💓کسی در پر محبت کا قفل تھا زنگ آلودہ💓
کہ جس نے پھر وہ گھر کھولا رہا سنسان تھوڑے دن
نگاہ شوق نے میری جہاں دیکھا جدھر دیکھا
اسی کو جلوہ گر ہر سو بہ انداز دگر دیکھا
مریض عشق نے گھل گھل کے آخر جان ہی دے دی
دواؤں کا اثر میں نے تمہاری چارہ گر دیکھا
ہجوم رنج و غم حرمان و حسرت یاس و ناکامی
کہاں جز اس کے نخل عشق میں کوئی ثمر دیکھا
وزیروں کی اداکاری جو پہلے تھی سب اب بھی ہے
وہی نس نس میں مکاری جو پہلے تھی سب اب بھی ہے
وہی مسجد، وہی مندر، وہی نفرت بھرے بھاشن
وہی تلوار دو دھاری جو پہلے تھی سب اب بھی ہے
کمیشن پر کمیشن کھا رہے ہیں دیش کے لیڈر
وہ بندر بانٹ سرکاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
کبھی وہ لوگ تھوڑی سی خوشی سے خوش نہیں ہوتے
اگر جو لوگ اپنی زندگی سے خوش نہیں ہوتے
جنہیں راتوں میں اکثر چاندنی کا سکھ نہیں ملتا
وہ اوروں کے دیوں کی روشنی سے خوش نہیں ہوتے
اگر ہے فرق دل میں تو گلے بھی مت لگایا کر
دکھاوے کی کبھی ہم دوستی سے خوش نہیں ہوتے
جو ہمارے واسطے سب دین تھے ایمان تھے
ان کے ہاتھوں میں فقط غیروں کے ہی دیوان تھے
پھر کہا اس نے کہ جب ویران کر دے گی تمہیں
زندگی اس کو بتا ہم تو سدا ویران تھے
یہ نہیں کہ درد دل درد جگر کا خوف تھا
اس کے جانے سے ہمیں کچھ اور بھی نقصان تھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اگر پرتو فگن نور شہ ابرارﷺ ہو جاتا
جمالِ حق کا آئینہ در و دیوار ہو جاتا
جو مثلِ بوئے گیسو پھیلتا رنگ شب گیسو
گنہ گاروں کو ابرِ رحمتِ غفار ہو جاتا
چبھے پاؤں میں خار راہِ طیبہ کیا قیامت ہے
یہ کانٹا دل میں رہتا یا جگر کے پار ہو جاتا
پھر وہی رات جو تنہائی کے آغوش رہی
اک انیدی سی غزل خواب میں مدہوش رہی
ہم سے وہ اجنبی اور ان سے تھے انجانے ہم
تا ابد یوں ہی محبت یہ فراموش رہی
پردۂ چشم میں یادوں کے ذخیرے پر شور
جھانکتی ان سے جو تنہائی وہ خاموش رہی
ہمنوا مان لو گے تم
جب ہمیں جان لو گے تم
مسکراؤ نہ، یہ ڈر ہے
کچھ نہ کچھ ٹھان لو گے تم
زندگی خوار کر تو دی
اور کیا جان لو گے تم
سب کی آنکھیں تو کھلی ہیں دیکھتا کوئی نہیں
سانس سب کی چل رہی ہے جی رہا کوئی نہیں
میں سسکنے کی صدائیں سن رہا ہوں بار بار
آپ کہتے ہیں کہ گھر میں دوسرا کوئی نہیں
زندگانی نے لیے گو امتحاں در امتحاں
زندگانی سے مجھے پھر بھی گلہ کوئی نہیں
پوچھتے ہیں وہ ہمیں درد کہاں اُٹھتا ہے
اک جگہ ہو تو بتا دوں کہ یہاں اٹھتا ہے
بزم ہستی سے تو اٹھنے کا ہے دستور قدیم
دُکھ بڑا ہوتا ہے جب کوئی جواں اٹھتا ہے
جم کے بن جاتا ہے اک اور فلک زیر فلک
حسرتوں کا جو مِرے دل سے دھواں اٹھتا ہے
کہ جس میں محبت ضروری نہیں ہے
مجھے وہ عبادت ضروری نہیں ہے
میں بے انتہا چاہتا ہوں اسی کو
کرے وہ محبت ضروری نہیں ہے
مجھے تو ہی تو یاد آتا رہے بس
زیادہ عنایت ضروری نہیں ہے
ملتے رہے خلوص سے اغیار سب کے سب
لیکن خفا رہے غمخوار سب کے سب
دن بھر رہے ہیں آن و محبت کے تذکرے
شب بھر رہے ہیں خوف سے بیدار سب کے سب
گھر میں ہے اپنے عکس سے نالاں ہر ایک شخص
باہر ہیں اپنے سائے سے بیزار سب کے سب
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ دنیا اس کی ہمسر ہے نہ جنت اس کی ہمسر ہے
مدینے کی زمیں کا ہر نظارہ روح پرور ہے
مہہ و انجم کی حیرت کا ٹھکانہ ہی نہیں کوئی
خدائے دو جہاں کی راہ کا راہی سفر پر ہے
نظر اس کشمکش میں ہے در شاہ دو عالم پر
یہ در ہے آپ کا یا جنت الفردوس کا در ہے
گم ہوئے ہیں کہاں وہ پیارے لوگ
جو تھے چاہت کے استعارے لوگ
دھرتی وِیران، سب نگر ہیں اداس
کھو گئے جب سے چاند تارے لوگ
جن کے ہمراہ تھی بہارِ حیات
دے گئے عمر کے خسارے لوگ
نیازِ عشق سے نازِ بُتاں تک بات جا پہنچی
زمیں کا تذکرہ تھا آسماں تک بات جا پہنچی
محبت میں کہیں اک رازداں تک بات جا پہنچی
بس اب کیا تھا زمانے کی زباں تک بات جا پہنچی
زمانہ تاڑ لے گا میں نہ کہتا تھا یہ اب سمجھے
مجھے دیوانہ کہنے سے کہاں تک بات جا پہنچی
وہ شخص جس کے پاس کوئی مال و زر نہیں
وہ خوش نصیب ہے اسے اپنوں کا ڈر نہیں
عاشق ہوں ان پہ ان کی ولادت کے وقت سے
اور وہ یہ کہہ رہے ہیں مجھے کچھ خبر نہیں
وہ فکر مند ہیں کہ مجھے جیل بھیج دیں
ان کو بھی ہے پتا مِرے رہنے کو گھر نہیں
کیسے پاؤں تجھے گرداب نظر آتا ہے
اور تُو مجھ کو تہہ آب نظر آتا ہے
تُو جو دِکھ جائے تو میں عید مکمل سمجھوں
اب مجھے تجھ میں ہی مہتاب نظر آتا ہے
چاک دامن بھی ہے مفلس بھی ہے بے گھر بھی ہے
اس لیے زر کا اسے خواب نظر آتا ہے
سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے
آگے بڑھوں تو پیچھے سرکتے ہیں راستے
آنسو ہزار ٹوٹ کے برسیں تو پی کے چپ
اک قہقہہ اڑے تو کھنکتے ہیں راستے
سمجھو تو گھر سے گھر کا تعلق انہی سے ہے
دیکھو تو بے مقام بھٹکتے ہیں راستے
مقصود ہے جہاں کو تِرا امتحان اُٹھ
"تو ہے حقیقی عشق کا اک ترجمان آٹھ"
اے لشکرِ وفا کے مجاہد! کہاں ہے تُو؟
تجھ کو صدائیں دیتا ہے ہندوستان اٹھ
خاکِ وطن کو اپنے لہو کی خراج دے
اٹھنا ہے تیرا باعثِ امن و امان اٹھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل میں بسا کے دیکھ محبت رسولﷺ کی
ہر ہر نفس سے آئے گی نکہت رسولﷺ کی
دونوں جہاں میں جس نے کیا سرخرو ہمیں
وہ دیں ہمیں ملا ہے بدولت رسولﷺ کی
انسانیت کے باب میں سوچے عمل کرے
ہے آدمی پہ فرض یہ سنت رسولﷺ کی
صحرا کی رہگزار سے ہارے نہیں ہیں ہم
گلشن کی زندگی کے سہارے نہیں ہیں ہم
آہیں نکل پڑیں تو یہ عالم سلگ اٹھے
کہنے کو آدمی ہیں شرارے نہیں ہیں ہم
وابستگی ہے تم کو کسی سے ہوا کرے
لیکن نہ یہ کہو کہ تمہارے نہیں ہیں ہم
کچھ لوگ جو حاصل ہوں گنوائے نہیں جاتے
اس طرح خزانے تو لٹائے نہیں جاتے
امرت تِری باتوں کا ہی کافی ہے اجل کو
یوں زہر پیالے تو پلائے نہیں جاتے
کیوں ہم سے ہوئے جاتے ہو انجان اچانک
اس طرح تو پیمان بھلائے نہیں جاتے
آتش گل بن کے چمکی ہے بہار زخم دل
مظہر جشنِ چراغان ہے دیار زخم دل
اس کو پہچانتے ہیں قدردانِ بہار زخم دل
ہے بہارِ باغ سے بہتر بہارِ زخم دل
زخمِ دل دیکھا میرا تو ہنس کے فرمانے لگے
ایک مدت سے تھا تجھ کو انتظارِ زخم دل
زمانے میں کسی سے اب وفائیں کون کرتا ہے
یہاں سب زخم دیتے ہیں دوائیں کون کرتا ہے
گلہ شکوہ نہیں کوئی مگر سب کُچھ سمجھتا ہوں
بُجھانے کو دیے میرے ہوائیں کون کرتا ہے
لُٹا ہو کارواں جس کا اُجالوں کے اشاروں سے
اندھیری رات چلنے کی خطائیں کون کرتا ہے
حصار کے سبھی نظام گرد گرد ہو گئے
ہم اپنے اپنے جسم میں خلا نورد ہو گئے
روانیاں صفر ہوئیں مسافتیں کھنڈر ہوئیں
نجات کے تمام شاہکار سرد ہو گئے
ہوائے جاں کا کیا میاں اٹھا گئی اڑا گئی
جمے نہ تھے بدن میں ہم کہ پھر سے گرد ہو گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمسر میرے حضورﷺ کا آیا کوئی نہیں
چشم جہاں نے آپ سا دیکھا کوئی نہیں
جس مرتبے پر آپﷺ کو فائز کیا گیا
اس مرتبے پر آج تک پہنچا کوئی نہیں
میرے حضورؐ آپ سے پہلے بھی بعد بھی
سینۂ عرش پاک پر اترا کوئی نہیں
جادۂ درد کے حالات مِرے اپنے ہیں
راہ کے سارے طلسمات مرے اپنے ہیں
قفل گو ڈال گیا دستِ تشدد لب پر
ہمنوا میرے خیالات مرے اپنے ہیں
کیسے ہو ردِ بلا کیا ہو تباہی سے گریز
وہ جو ہیں باعثِ آفات مرے اپنے ہیں
میرے جذبوں کو محترم رکھنا
دیکھنا! پیار کا بھرم رکھنا
دل بدلتا ہے موسموں کی طرح
اس پہ تم اعتبار کم رکھنا
اک قیامت ہے ہر کسی کے لیے
دل کے کعبے میں اک صنم رکھنا
اداس رت میں تِرے بعد کی کہانی ہے
سکوت دل ہے ترے غم کی جاں فشانی ہے
نہ تیرے ساتھ گزرتے تو ہم گزر جاتے
یہی ہے بات اگرچہ ذرا پرانی ہے
محبتوں کے ڈسے ہیں تو نفرتیں لا دو
کہ یہ بھی اپنے بزرگوں کی اک نشانی ہے
نہ ہم سے پوچھیے آخر سفر سے کیا کما لائے
غنیمت یہ رہی طوفاں سے بس کشتی بچا لائے
گزارے ہیں جو دن ہم نے تمہیں محسوس تب ہوں گے
تمہاری بھی کبھی وہ زندگی میں دن خدا لائے
تمہاری بزم میں جا کر ہمیں تحفہ ملا ہے یہ
بہت سی تہمتیں بے داغ دامن پہ لگا لائے
کاٹ کر اشجار دھرتی پر گراتے ہو حضور
نام اپنا قاتلوں میں خود لکھاتے ہو حضور
جب یہ دھرتی پر ہیں گرتے لڑکھاتے چیختے
کس قدر اس وقت تم خوشیاں مناتے ہو حضور
پھول جب اک شاخ سے توڑو تو یہ بھی سوچنا
گود سے تم ماں کی بچّے کو چھڑاتے ہو حضور
چراغ و طاق پرانے مکاں سے ملتے ہیں
مگر یہ راز کھنڈر کے نشاں سے ملتے ہیں
نگار خانۂ ہستی میں رنگ کیا بھرنا
کہو گے نقش تمہارے فلاں سے ملتے ہیں
وہ جنگجو کسی قاتل سے بھی نہیں ملتے
جو حوصلے مجھے زخمی جواں سے ملتے ہیں
جو تمام عمر بن کر مِرا حوصلہ رہی ہے
وہی آج میری غیرت مجھے آزما رہی ہے
مِری فکر جانے مجھ کو کہاں لے کے جا رہی ہے
کہ قدم قدم پہ منزل سرِ راہ آ رہی ہے
نہیں چھوڑتی ہے مجھ کو کسی موڑ پر یہ دنیا
میں اسے رُلا رہا ہوں یہ مجھے رُلا رہی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اللہ رے شانِ حسنِ خدا ساز مصطفیٰﷺ
وہ ذات بے نیاز ہو اور نازِ مصطفیٰﷺ
اک بات ہے کہ ہاتھ میں باتیں کریں حجر
جنبش کرے اگر لبِ اعجازِ مصطفیٰﷺ
مرنے کو جانتے ہیں حیاتِ ابد ملی
جینے کو موت کہتے ہیں جانبازِ مصطفیٰﷺ
کہہ رہا تھا میں زمانہ گوش بر آواز تھا
دل شکن قصے کا کتنا دل نشیں انداز تھا
اف وہ دورِ حسن جب ہر لمحہ جان ناز تھا
کمسنی جانے پہ مچلی تھی شباب آغاز تھا
رخصتِ فریاد پر بھی میں سراپا راز تھا
گِریہ تھا بے آب یکسر نالہ بے آواز تھا
وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر
ہم بھاگتے تھے زلفِ گِرہ گِیر دیکھ کر
جب تک نہ خاک ہو جیے حاصل نہیں کمال
یہ بات کھل گئی ہمیں اکسیر دیکھ کر
عذرِ گناہ داورِ محشر سے کیوں کروں
غم مٹ گیا ہے نامۂ تقدیر دیکھ کر
بوجھ اپنے بدن کا بھی اٹھایا نہیں جاتا
اب مجھ سے یہ پیار اور کمایا نہیں جاتا
اس واسطے میں زخم دکھاتا نہیں اس کو
احساس تو ہوتا ہے، دِلایا نہیں جاتا
اک یارِ منافق نے سبق خوب دیا ہے
چاہوں بھی بتانا تو بتایا نہیں جاتا
دِیے کی لو مِری اندر سے نِسبت ہے
کہ ہر منظر کی پس منظر سے نسبت ہے
سہولت سے پڑا ہوں چاک پر اپنے
مِری مٹی کی کوزہ گر سے نسبت ہے
مِرے بٹوے میں کچھ سانسیں بقایا ہیں
بس اتنی سی ہی مجھ کو زر سے نسبت ہے
مِری تھکن مِرے قصدِ سفر سے ظاہر ہے
اداس شام کا منظر سحر سے ظاہر ہے
نہ کوئی شاخ عبارت نہ کوئی لفظ کا پھول
یہ عہد بانجھ ہے، قحطِ ہنر سے ظاہر ہے
جو پوچھا؛ کیا ہوئیں شاخیں ثمر بدست جو تھیں
کہا؛ کہ دیکھ لو سب کچھ شجر سے ظاہر ہے
لہو میں جسم کو جو تر بہ تر لے کر نہیں آئے
یقیناً نامہ بر اچھی خبر لے کر نہیں آئے
وفا کے بحر میں اک خواہشِ معصوم ڈوبی تھی
ابھی تک لاش ساحل پر بھنور لے کر نہیں آئے
تمہیں کیا ہے جو تنہائی میں ہم آنسو بہاتے ہیں
تمہاری بزم میں تو چشمِ تر لے کر نہیں آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ستم کی دار پہ جو سر سجا حسینؑ کا ہے
برائے دینِ نبیﷺ سر کٹا حسینؑ کا ہے
سنبھال کر اسے رکھنا زمینِ کرب و بلا
تِرے بدن پہ لہو جو گِرا حسینؑ کا ہے
ہزار سجدے ہوں قربان جس کی عظمت پر
وہ ایک آخری سجدہ ہوا حسینؑ کا ہے
تمہارے دل کی تمام حسرت
تم جو چاہو سمیٹ لوں گی
تمہاری انکھوں کے خواب سارے
اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گی
درد سارے شمار کرنا
بھر کے جھولی پھر ان کی
نیم خوابی
حسن کا دریا
چڑھتا ہے آنکھوں میں
یادوں کی ندی امڈتی ہے
اندھیرا ہے
اکیلا ہوں، شہر سے دور
نیم خوابی میں، کہیں ٹھٹکتا
آنکھ کا نیند سے رشتہ نہیں ہونے دیتا
میں تِرے خواب کو رسوا نہیں ہونے دیتا
جی تو کرتا ہے بہت پھوٹ کے رو لینے کا
میں مگر اپنا تماشہ نہیں ہونے دیتا
خود تو خاطر میں نہیں لاتا ہے مجھ کو لیکن
وہ مجھے اور کسی کا نہیں ہونے دیتا
فکرِ دوراں بھی تھکا دیتا ہے
"شب کو سناٹا جگا دیتا ہے"
کوئی مجنوں سے پتہ پوچھے تو
دشت کی راہ دکھا دیتا ہے
حاکمِ شہر جو بھی سچ بولے
اس کو سولی پہ چڑھا دیتا ہے
جن کے اندر چراغ جلتے ہیں
گھر سے باہر وہی نکلتے ہیں
برف گرتی ہے جن علاقوں میں
دھوپ کے کاروبار چلتے ہیں
ایسی کائی ہے اب مکانوں پر
دھوپ کے پاؤں بھی پھسلتے ہیں
بقدرِ شوق مزا اضطراب کا نہ ملا
کہ دل کو درد ملا بھی تو لا دوا نہ ملا
کہاں پہنچ کے ہوا ہے ملالِ گمشدگی
یہ سن رہا ہوں کہ ان کو مِرا پتا نہ ملا
مزا ملا تھا محبت کی ابتدا میں مگر
پھر اس کے بعد اذیت ملی مزا نہ ملا
سکون ہوتا ہے طوفاں بپا نہیں ہوتا
وہ ساتھ ہو تو سمندر خفا نہیں ہوتا
بلند ہوتے ہوئے ہاتھ کٹ چکے ہیں سب
یہاں کوئی بھی شریکِ دعا نہیں ہوتا
سفر میں رکھتی ہے اک نیم بیخودی مجھ کو
کبھی قدم تو کبھی راستہ نہیں ہوتا
یہ آخری زحمت ہے ذرا اور ٹھہر جائیں
بیمار ادھر جائے تو پھر آپ ادھر جائیں؟
یوں ظلمت شب میں چمک اٹھتے ہیں ستارے
جس طرح سے معصوم بھری نیند میں ڈر جائیں
اچھا تیری محفل سے چلے جاتے ہیں لیکن
یہ اور بتا دے کہ کہاں جائیں، کدھر جائیں؟
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
میں کہ بیگانۂ طلب بھی نہیں
ایسے گم سم ہوں تیری سوچوں میں
بات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں
اکرم کلیم
سیاسی دعا
وہ تو کہتے ہیں
یا خدا
کسی گونگی قوم کی عمر دراز کر دو
مگر کسی بہری قوم کو زبان دراز کبھی نہ کرنا
ایچ بی بلوچ
حزب اللہ لغاری
پاداش
کھوکھلی زیست کے
دائرے
جان لیوا کربناک لمحات ہیں
غم کے اژدر ہیں
یہ وقت کی شورشیں
اے چشمِ یار اتنا بتا دے زرا مجھے
یہ تُو نے اک نگاہ میں کیا کر دیا مجھے
وہ ہیں کہ شرم ان کے لیے پردہ دارِ حُسن
میں ہوں کہ شوقِ دید ہے بے انتہا مجھے
مجھ کو خودی نے ان کی نظر سے گِرا دیا
اے بے خودی! خدا کے لیے تُو اٹھا مجھے
بساط زندگی درہم کریں گے
ابھی کچھ اور تیرا غم کریں گے
یہ دنیا ہے ازل سے ایسی دنیا
اسے ہم اور کیا برہم کریں گے
تمہارے درد کے احیاء کی خاطر
جو ہم سے ہو سکے گا، ہم کریں گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم ہیں بندے اور تُو معبود ہے
تیری ذاتِ پاک ہی محمود ہے
دیکھنے والی نگاہیں بھی تو ہوں
اس کا جلوہ ہر جگہ موجود ہے
تیری قدرت کی کوئی حد ہی نہیں
عقلِ انسانی مگر محدود ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشقِ نبیؐ ہے حاصلِ جاں مدعائے دل
دل مبتلائے جاں رہے، جاں مبتلائے دل
تسکین پائے بھی تو بھلا کیسے پائے دل
خاکِ رہِ مدینہ ہے میری دوائے دل
جس دن سے دل یہ خلوتئ عشقِ شاہؐ ہے
ہستی ہے ایک شورشِ ہنگامہ زائے دل
جو مل جائے اک ہمسفر خوبصورت
تو ہو جائے اپنا سفر خوبصورت
ہے اپنوں میں شام و سحر خوبصورت
جہاں ہے محبت وہ گھر خوبصورت
غزل کا مطالعہ کیا تو یہ جانا
زبانوں میں اپنا جگر خوبصورت
زندگی ختم ہو جائے گی
مگر دستورِ زمانہ جاری رہے گا
روٹی کا قُطر زمین کے قطر سے
بہت بڑا ہے
اس حقیقت کو ان کے سوا
کوئی جان سکتا نہیں
وقت دہراتا ہے داستانِ زندگی
آج تک سمجھے نہ جس کو رہوانِ زندگی
خوابِ غفلت میں ہے ہر سُو پاسبانِ زندگی
کامیاب و کامراں ہیں قاتلانِ زندگی
سب کی منزل ایک ہے، انجام سب کا ایک ہے
کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں کاروانِ زندگی
اشک حسرت ہنسی کی بات نہیں
دردِ دل دل لگی کی بات نہیں
زلفِ برہم نے کر لیا ہے اسیر
اس میں کچھ برہمی کی بات نہیں
حُسن کی بے نیازیاں توبہ
عشق کی بے بسی کی بات نہیں
کہا اپنوں سے بھی بدظن بہت ہیں
کہا لنکا ہے یہ؛ راون بہت ہیں
کہا نیرنگی ذاتِ الہٰی
کہا انساں کے درپن بہت ہیں
جسے دیکھیں اُسی کو تم سے اُلفت
ہماری جان کے دشمن بہت ہیں
مرا لہجہ چرانا موت کا سامان کر لینا
یہی زاد سفر ہے تو سفر آسان کر لینا
طلب کے جال میں الجھا ہوا دل کب سمجھتا ہے
نئی دوزخ اگانا چھانو کا ارمان کر لینا
بھروسہ ایڑیاں رگڑے نہ کوئی آس دم توڑے
وفا کا نام بھی لینا تو دنیا چھان کر لینا
ضبط کی حد سے بھی جس وقت گزر جاتا ہے
درد ہونٹوں پہ ہنسی بن کے بکھر جاتا ہے
رنگ بھر جاتا ہے پھر عشق کے افسانے میں
اشک بن بن کے اگر خون جگر جاتا ہے
آج تک عالم وحشت میں پیے جاتے ہیں
کتنی مدت میں گھٹاؤں کا اثر جاتا ہے
جب قوم پر آفت آئی ہو جب ملک پڑا ہو مشکل میں
انسان وہ کیا مر مٹنے کا احساس نہ ہو جس کے دل میں
ہنسنے کا طریقہ پیدا کر، رونے کا سلیقہ پیدا کر
ہنس پھول کی صورت گلشن میں رو شمع کی صورت محفل میں
قاتل کے دل کی کمزوری نے سارا کام بگاڑ دیا
ہم تشنۂ شوق شہادت تھے خنجر بھی تھا دستِ قاتل میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پرچمِ اسلام چاروں سمت یوں لہرا دئیے
قیصر و کسریٰ کی عظمت ان کے تھی پیروں تلے
سورۂ کوثر میں تُو نے ان کا بتلایا مقام
تا ابد زندہ رہے احمدﷺ کا احد کے ساتھ نام
سنگِ اسود کا تقدس تیرے کعبہ کا مقام
سر بہ سجدہ ہو کے دنیا کر رہی ہے احترام
بس در و دیوار مل جاتے ہیں گھر ملتا نہیں
ایسا دستاروں کا جمگھٹ ہے کہ سر ملتا نہیں
خواہ دونوں ساتھ مل کر طے کریں یہ فاصلہ
اے ہوا! تجھ کو بھی کوئی ہمسفر ملتا نہیں
قمقموں کی آنچ نے پگھلا دئیے منظر تمام
چاند اب کوئی کسی بھی بام پر ملتا نہیں
جس کو موج بلا نے پالا ہے
کب وہ طوفاں سے ڈرنے والا ہے
دشمنوں سے نہیں شکوہ
ہم کو یاروں نے مار ڈالا ہے
یہ خموشی بتا رہی ہے ہمیں
کوئی طوفان آنے والا ہے
تمہارے یار کی ایسی کی تیسی
ہمارے پیار کی ایسی کی تیسی
تمہاری چوکیداری کر رہا ہے
دلِ بیدار کی ایسی کی تیسی
بہت سر پر چڑھا رکھا ہے میں نے
مِری دستار کی ایسی کی تیسی
منزلِ بے نشاں سے کیا حاصل
گم شدہ کارواں سے کیا حاصل
تنگ ہوتی زمیں کا ٹکڑا دے
وسعتِ آسماں سے کیا حاصل
کیا کریں جب کہ بُجھ گئیں آنکھیں
رونقِ بے کراں سے کیا حاصل
اپنے مزدور کی حالت پہ ذرا غور تو کر
گرد چہرے پہ لیے رنج و الم بولتا ہے
کیا تجھے علم نہیں ہے سر بازار طلب
جیب خالی ہو تو انساں کا بھرم بولتا ہے
تم نے دیکھا ہے سر شام ہرے پیڑوں پر
کیسے گزرے ہوے صدمات کا غم بولتا ہے
ایک عرصہ ہوا
میرے محلّے میں کوئل نہیں کُوکی
صبح چڑیوں کی آواز بھی مدّھم ہے
اب گھونسلوں کے تنکے بھی
بکھرے نہیں ملتے
وہ پروں کا ریشم سا پنکھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گنبد خضرا کو میں نے جب تلک دیکھا نہ تھا
دل میں اتنا حق پرستی کا مِرے جذبہ نہ تھا
راستوں میں ٹھوکریں جو کھاتا رہا تھا بار بار
یہ حقیقت ہے کہ نابینا تھا وہ بینا نہ تھا
پیڑ پر جو خوبصورت پھل نظر آتا رہا
وہ حقیقت میں بہت کھٹا تھا کچھ میٹھا نہ تھا
ہم کو واعظ نہ باغ ارم چاہیے
ایک ان کی نگاہ کرم چاہیے
دہر ہو یا کہ کعبہ ہو بت خانہ ہو
کچھ بھی ہو مجھ کو اپنا صنم چاہیے
دل ہمیشہ ہی جس میں الجھتا رہے
ان کی زلفوں کے وہ پیچ و خم چاہیے
زہر اک دوجے کے اندر بو رہا ہے آج کل
کس قدر زہریلا انساں ہو رہا ہے آج کل
شہر اپنا لوگ اپنے اور اپنا گھر بھی ہے
آدمی کیوں پھر بھی تنہا ہو رہا ہے آج کل
وقت سے پہلے مرے بچے بڑے ہونے لگے
اک عجب سا یہ زمانہ ہو رہا ہے آج کل
خوشی میں غم کی حالت کر کے دیکھوں
اسے اپنی ضرورت کر کے دیکھوں
زمانہ کہہ رہا ہے جانے کیا کیا
کبھی میں بھی محبت کر کے دیکھوں
نظر میں اب یہی اک راستا ہے
کہ خوابوں کو حقیقت کر کے دیکھوں
ریت پر ایک نیا نقش بنانے کے لیے
دیر کتنی لگی دیوار گرانے کے لیے
ہر کوئی خواب نہیں دیکھتا خوابوں میں یہاں
ہر کوئی مرتا نہیں تیرے زمانے کے لیے
فیصلہ تم بھی کرو ترکِ تعلق، کہ سفر
گھر سے آیا ہوں قدم کوئی اٹھانے کے لیے
جبین یار پہ آئی ہے برہمی کی شکن
کہاں بہار کہاں شوق و آرزو کا چمن
یہ تیرے روپ میں ڈوبا ترا گداز بدن
سحر کی گود میں جیسے ہمک رہا ہو چمن
ہر اک نگاہ اٹھی مجھ پہ انگلیاں بن کر
مگر کسی کو نہ سوجھے ترے خطوط بدن
درد بن کے کبھی غم بن کے ستاتا ہی رہا
اپنے ہونے کا وہ احساس دلاتا ہی رہا
وہ خریدار تو مدت ہوئی آتا ہی رہا
میں دکاں ہیروں کی پلکوں پہ سجاتا ہی رہا
ہائے وہ اس کے جدا ہونے کا منظر یا رب
وہ چلا بھی گیا میں ہاتھ ہلاتا ہی رہا
نہ کوئی چھت نہ کوئی سائبان رکھتے ہیں
ہم اپنے سر پہ کُھلا آسمان رکھتے ہیں
بچا کے ہم یہ بزرگوں کی شان رکھتے ہیں
نہیں ہے شمع مگر شمع دان رکھتے ہیں
گلے بھی ملتے ہیں ہاتھوں کو بھی ملاتے ہیں
غضب کی دُوری بھی ہم درمیان رکھتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ساری دُنیا ایک طرف ہے، شہرِ مدینہ ایک طرف
حُسنِ زمانہ ایک طرف ہے، آپ کا روضہ ایک طرف
غیر کے رستے کیوں جائیں ہم ہادئ عالم کے ہوتے
سارے مذاہب ایک طرف، شرعِ شہِ بطحاؐ ایک طرف
اِک جانب دُنیا کے شہنشاہوں کے عالی شان محل
عالم میں انوار لُٹاتا گُنبدِ خضرا ایک طرف
محبت کا ہے سرمایہ تصور آپ کا
کبھی فرصت نہ دے پایا تصور آپ کا
تبسم کی وجہ محفل میں سب پوچھا کئے
بڑی مشکل سے جھٹلایا تصور آپ کا
سلگتی آرزؤں کا دھواں تھا اشک تھے
کسی صورت نہ دھندلایا تصور آپ کا
جنوں پسند طبیعت پہ بار گزری ہے
خزاں چمن سے بہ رنگ بہار گزری ہے
وہ کس چمن کی بہار آج ہیں خدا جانے
بہار جن کے لیے بے قرار گزری ہے
ہر ایک پھول کا دامن جو آیا چاک نظر
نسیمِ صبح چمن شرمسار گزری ہے
پھر تجھے یاد کیا جائے، پکارا جائے
آج کا دن تِری گلیوں میں گزارا جائے
عمر کٹتی تھی کہاں اپنی کہ جو کاٹی ہے
کیسے ممکن ہے، تجھے جیت کے ہارا جائے
یہ محبت کا تقاضا ہے کہ شامِ ہجراں
تیری یادوں کا کوئی نقش سنوارا جائے
افلاس میں بھی رنگ بدن کا نہیں اُترا
فاقے بھی کئے ہم نے تو چہرہ نہیں اترا
اک جھونک ہی میں چھو لیا قدموں نے زمیں کو
افلاک سے وہ زینہ بہ زینہ نہیں اترا
پیوست زمیں ہو گئیں سب عظمتیں لیکن
جسموں سے تکبر کا لبادہ نہیں اترا
تِری بے نیازیوں کا مجھے کچھ گِلہ نہیں ہے
مِرا دل ہے خوب واقف تِرا دل برا نہیں ہے
غمِ دوست درحقیقت تِرا رہنمائے منزل
وہ کم نگاہ نکلا جسے حوصلہ نہیں ہے
مِرے عشق کا مقدر مِری زندگی کا حاصل
غمِ یار کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے
زندگی سوز محبت سے سنواری ہے تِرے بندوں نے
لاکھ دشوار سہی، پھر بھی گزاری ہے ترے بندوں نے
خودکشی، روگ، حوادث ہیں تِرے حکم کی تعمیل کے روپ
بازئ زیست کبھی جان کے ہاری ہے ترے بندوں نے
نوچ لیتا ہے اسے موت کا نقاد کڑی نظروں سے
جھیل کر عمر جو تصویر ابھاری ہے ترے بندوں نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حبیب کبریا ہیں نازش انساں محمدﷺ ہیں
امین و صادق و سرچشمۂ ایماں محمدﷺ ہیں
نبیوں میں مقام امتیازی ہے محمدﷺ کا
جہاں میں آخری پیغمبر دوراں محمدﷺ ہیں
محمدﷺ کا یہی احسان ہے تاریخِ انساں پر
کہ بنیادِ نزولِ مصحفِ قرآں محمدﷺ ہیں
باتیں بناتا ہے وہ مِرے دل کو توڑ کے
لفظوں کے منہ چھپاتا ہے کاغذ مروڑ کے
اک ملتفت نگاہ کے دھوکے میں لٹ گئی
رکھّی تھی ہم نے دل میں خوشی جوڑ جوڑ کے
اک بے زباں خلش کوئی چونکی ہے اس طرح
جیسے اٹھا دے نیند سے کوئی جھنجھوڑ کے
ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں
ہم ایک دل میں کئی روگ پالے بیٹھے ہیں
ابھی نہ زور دکھائے یہ کہہ دو آندھی سے
ابھی ہم اپنے ارادوں کو ٹالے بیٹھے ہیں
ستم گروں نے بہاروں پہ کر لیا قبضہ
چمن کو خون جگر دینے والے بیٹھے ہیں
کوئی اس شہر میں غارت گرِ جاں ہے کہ نہیں
جاں نثاروں کا ٹھکانہ بھی یہاں ہے کہ نہیں
باغ برگِ گل و لالہ ہوا تو ہے، مگر
عہد گُلگشت مِرا چرغ رواں ہے کہ نہیں
خلد میں سب ہے مگر اپنے بھٹکنے کے لیے
وادئ وسوسہ و وہم و گماں ہے کہ نہیں
خواب میں پہلے تو کچھ چہرے نظر آنے لگے
اور پھر ان پر کئی پردے نظر آنے لگے
عشق میں اک دو نہیں سارے نظر آنے لگے
سب تمہارے پیار کے مارے نظر آنے لگے
بے مزا سی ہو گئی ہے تب سے میری شاعری
جب سے تیرے حسن پر پہرے نظر آنے لگے
دل میں ہو درد عشق لبوں پر فغاں نہ ہو
ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو
غیرت یہ چاہتی ہے کہ اس راہ پر چلو
جس راہ میں کسی کے قدم کا نشاں نہ ہو
منزل کی جستجو ہے تو اے رہروان عشق
تنہا روی ہو پیرویٔ کارواں نہ ہو
موجِ خوشبوئے صبا نے بھی نہارا ہے مجھے
جب کبھی تم نے محبت سے پکارا ہے مجھے
جس سے محبوب کے دیدار کا رستہ نکلے
عشق میں ایسی مشقت بھی گوارا ہے مجھے
یوں تِری یاد کے ہمراہ بہا جاتا ہوں
جیسے دریا میں کسی چھل کا سہارا ہے مجھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے خدا تیری خدائی ہر جگہ
تیری ہی جلوہ نمائی ہر جگہ
کُل کا تُو مختار ہے، رحمان ہے
اور مجبورِ محض انسان ہے
تُو ہی تُو ہے خالقِ کُل کائنات
ختم ہوتی ہے تُجھی پر ساری بات
رستہ بھی ہمی لوگ تھے راہی بھی ہمیں تھے
اور اپنی مسافت کی گواہی بھی ہمیں تھے
جو جنگ چھڑی تھی اسے جیتے بھی ہمیں لوگ
رن چھوڑ کے بھاگے وہ سپاہی بھی ہمیں تھے
وہ شہر بسا بھی تھا ہماری ہی بدولت
اس شہر تمنا کی تباہی بھی ہمیں تھے
دھرتی کے علاوہ تو گزارا نہیں ہونا
رہنا ہے مجھے خاک، ستارہ نہیں ہونا
میں اور کسی در پہ چلا جاتا یہاں سے
پہلے ہی بتا دیتے، تمہارا نہیں ہونا
خود پر بھی تو انسان کا حق ہوتا ہے کوئی
جس کا بھی مجھے ہونا ہے، سارا نہیں ہونا
ہجوم غم میں خوشی کا جواز رہنے دے
حیات و موت میں کچھ امتیاز رہنے دے
ابھی غموں کی بہت تیز دھوپ ہے اے دوست
ابھی تو سایۂ زُلفِ دراز رہنے دے
میں چاہتا ہوں غمِ دل سے بے نیاز رہوں
نگاہِ ناز اگر بے نیاز رہنے دے
صبر کر دل ناداں کس لیے تُو روتا ہے
بے وفا زمانے میں کون کس کا ہوتا ہے
جس کو میں نے بخشے ہیں پھول شادمانی کے
اب وہی مِرے دل میں خارِ غم چبھوتا ہے
نا مُراد اشکوں سے تر تو ہو گیا دامن
ہاں مگر لہو دل کا دل کے زخم دھوتا ہے
جب ہم حدود دیر و حرم سے گزر گئے
ہر سمت ان کا جلوہ عیاں تھا جدھر گئے
اس طرح وہ نگاہ کرم آج کر گئے
دل کو سرور بادۂ الفت سے بھر گئے
وہ ہم کو اپنے دل کے ہی اندر نہاں ملا
جس کی تلاش کرتے ہوئے در بدر گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے دامن میں ہے کچھ خاک ان کے آستانے کی
زمانہ اب کرے ہمت مِری قیمت لگانے کی
بجز حُبِ نبیؐ کچھ بھی نہ کام آئے گا محشر میں
ریاضت، بندگی، تقویٰ، سخاوت، التجا، نیکی
اسے پھر دولتِ کون و مکاں کی کیا ضرورت ہے
جسے کچھ خاک مل جائے تمہارے آستانے کی
وہ جو موسم گرما کی پہلی بارش کا چھینٹا تھا
تپ والے آنگن میں سوندھی خوشبو بن کر بکھرا تھا
اس کی بابت پہروں سوچتے رہنا اچھا لگتا تھا
بات کوئی بھی یاد نہیں ہاں لہجہ دھڑکن جیسا تھا
ہم نے کب جھولے ڈالے تھے ہم نے کب پینگیں لی تھیں
پیڑ کی سب شاخوں پہ زمانے کی آنکھوں کا پہرا تھا
یہ عالم اب دھویں کا کارخانہ لگ رہا ہے
براہ راست سانسوں پر نشانہ لگ رہا ہے
ہمارے عہد کی حیوانیت کا سرخ قصہ
قرون جاہلیت کا فسانہ لگ رہا ہے
چراغوں کو مہیا کیجئے سورج پناہی
ہواؤں کا رویہ جارحانہ لگ رہا ہے
تخت بدلا ہے، تاج بدلا ہے
جانے کیا بدلے، راج بدلا ہے
پورا پورا نہ سہی دیکھو تو
کچھ نہ کچھ تو سماج بدلا ہے
کاش راحت نصیب ہو سب کو
راجدھانی میں راج بدلا ہے
دل میں بندوں کے بہت خوف خدا تھا پہلے
یہ زمانہ کبھی اتنا نہ برا تھا پہلے
رام کے راج کی تصویر تھی اپنی دھرتی
مسلک فکر و عمل انس و وفا تھا پہلے
ایک انسان سے بے وجہ ہو انسان کو بیر
یہ وطیرہ کبھی دیکھا نہ سنا تھا پہلے
امیر شہر کی خلعت اگرچہ بھاری ہے
ہمیں خبر ہے کہ کس در کا وہ بھکاری ہے
کہ لوگ لٹتے چلے آ رہے ہیں صدیوں سے
تِری عطا کا عجب سب کو فیض جاری ہے
ہمارے پاس عصا بھی ہے اور دست سفید
تمہارے پاس اگر سانپ ہے، پٹاری ہے
زخم سنتے ہیں لہو بولتا ہے
چاک چپ ہے تو رفو بولتا ہے
خامشی ایسی کہ دیکھی نہ سنی
ہر طرف عالم ہُو بولتا ہے
خواب سمجھوں کہ حقیقت اس کو
اک پرندہ لبِ جُو بولتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نور ہی نور ہے تا عرشِ بریں آج کی رات
راستہ تکتے ہیں جبریلِ امیںؑ آج کی رات
ہیں وہی پھول، وہی روز کے ماہ و انجم
جانے کیوں لگتی ہے ہر چیز حسیں آج کی رات
بن کے گہوارۂ مطلوبِ دو عالم یہ زمیں
بڑھ گئی چاند ستاروں سے کہیں آج کی رات
ہے یہ مر مٹنے کا انعام تمہیں کیا معلوم
لذت دشنۂ بدنام تمہیں کیا معلوم
تم نے دیکھی ہے فقط میری پریشاں حالی
مجھ پہ کیا کیا ہوئے اکرام تمہیں کیا معلوم
حیرتی ہو کے اٹھائے ہوئے دل پھرتے ہیں
اس کے لگ جانے کا انجام تمہیں کیا معلوم
صبح کے اجلے جزیروں پہ بھی طاری ہوئی شام
سہمے سہمے ہیں مناظر کہ شکاری ہوئی شام
ہر طرف روشنی و رنگ کا رقص پیہم
یاد آتی ہے تِرے ساتھ گزاری ہوئی شام
جم گئیں گہری اداسی کی تہیں پلکوں پر
اوڑھ کے تیرا خیال اور بھی بھاری ہوئی شام
خاموشی تری چیخ سے یہ بھید کھلا ہے
سناٹے سے بھی لپٹی ہوئی کوئی صدا ہے
اے ذوق نظر! دیکھ ترے سامنے کیا ہے
کہنہ ہی سہی آنکھ پہ منظر تو نیا ہے
وہ چاند نہ نکلا تو ستارے بھی تھے گم صم
سورج بھی بہت دیر سے بیدار ہوا ہے
بیکار گھڑی
بہت دنوں سے دیکھ رہا ہوں
میز پر پڑی بیکار گھڑی کو
کئی بار سوچا ہے
اسے ڈسٹ بن میں پھینک دوں
کیونکہ بیکار گھڑی کو
اس ملک کا کباڑی بھی نہیں لیتا
کہیں صیاد اور گلچیں کی بن آئی تو کیا ہو گا
خزاں لے کر بہاروں کا کفن آئی تو کیا ہو گا
کبھی سوچا بھی تم نے بادۂ عشرت کے متوالو
جبینِ وقت پر کوئی شکن آئی تو کیا ہو گا
گریباں کیا سمجھ کر سی رہے ہو اپنے دیوانو
ہنسی ان کے لبوں پر دفعتاً آئی تو کیا ہو گا
اگر کریں کبھی وعدہ کریں نبھانے کو
فقط کریں نہ ہمیں یوں ہی آزمانے کو
ہمیں یقین نہیں اب تمہاری باتوں پر
بڑا جواز کوئی چاہیے لبھانے کو
ہمارا نام زمانے کی دل کی دھڑکن ہے
ہمارے نام سے آواز دو زمانے کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو نصیب ہو تو شمار ہو یہ نیاز مایۂ ناز میں
کہ لگی ہو خاکِ در حضورؐ مری جبینِ نیاز میں
یہ ہے اپنا حالِ دلِ حزیں غمِ عشقِ شاہِ حجاز میں
کہ برنگِ شمع تمام عمر کٹی ہے سوز و گداز میں
جو ہر ایک دل میں اثر کرے وہ کلامِ شاہِ انامؐ ہے
کہ جسے عظیم خدا کہے وہ ہے خلق بندہ نواز میں
دکھانے کے لیے یاری ہی کر لیں
محبت کی اداکاری ہی کر لیں💕
نبھانی پڑتی ہیں دنیا کی رسمیں
چلو دشمن کی غمخواری ہی کر لیں
بغیر اس کے نہیں جی پائیں گے ہم
یہ کہہ کر خود مکاری ہی کر لیں
خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے
پرواز بارِ دوش ہے تو پر سمیٹ لے
اپنی طلب کو غیر کی دہلیز پر نہ ڈال
وہ ہاتھ کھنچ گیا ہے تو چادر سمیٹ لے
سُرخی طلوعِ صبح کی لوحِ اُفق پہ لکھ
سارے بدن کا خُون جبیں پر سمیٹ لے
یہ دنیا بڑی بے بصر ہے میاں
یہ دامن کہاں میرا تر ہے میاں
نہیں جانتے، سب لُٹا آؤ گے
یہ رستہ بڑا پُر خطر ہے میاں
رہِ زیست انجانی پُر ہول ہے
کڑا اور لمبا سفر ہے میاں
کوئی بے کس کوئی مجبور مٹا ہی ہو گا
جب لگی آگ تو گھر کوئی جلا ہی ہو گا
ہم نے مانا کہ ہے افواہ، مگر کیوں پھیلی؟
بات تو ہو گی کوئی، کچھ تو ہوا ہی ہو گا
کون آتا ہے تِری پُرسشِ غم کو ناداں؟
جس کے قدموں کی تھی آہٹ کوئی راہی ہو گا
خلوص اور محبت یہاں روا ہی نہیں
کہ ایسے لفظوں سے اب لوگ آشنا ہی نہیں
بوقتِ مرگ خدا یاد آ گیا اس کو
جو کہہ رہا تھا کسی کا کوئی خدا ہی نہیں
جو بے گناہ تھا وہ زینتِ صلیب ہوا
گناہ گار کی خاطر کوئی سزا ہی نہیں
اشک گرنے لگے آنکھوں میں گُلِ تر اُترا
پھر مِرے سینۂ احساس میں خنجر اترا
کوئی کوچہ نہ سڑک، گھر نہ محلہ کوئی
چاند کیا دیکھ کے اس شہر کے اندر اترا
دور تک جس کے تعاقب میں گئے تھے ہم بھی
شہ سوار ایسا نہ جانے کہاں جا کر اترا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے چلا جس نور سے، یہ سارا شجرا نور کا
مصطفیٰﷺ کی ذات ہی ہے، وہ ستارا نور کا
ٹوٹا پہلا کنگرا تھا، کفر کے ایوانوں کا
آمنہؑ نے دیکھا تھا جب، پہلا دھارا نور کا
چاند بھی مثلِ حسن، صدقہ ہے یہ نعلین کا
چہرۂ انورﷺ تو ہے اک شاہ پارا نور کا
“رُوئے گُل”
پیرہن کی تیرے خُوشبو ہر دفعہ
یہ کہاں سے لے کے آتی ہے بہار
لوٹ کر لاتی ہے جو خُوشرنگ پھُول
دامن دِل پر سجاتی ہے بہار
دِل ہم ایسوں کا جلانے کے لیے
پھُول پر شبنم سجاتی ہے بہار
لفظ جب تک وضو نہیں کرتے
ہم تِری گفتگو نہیں کرتے
شوق ہے نا تمام جب تک ہم
اشکِ دل تک لہو نہیں کرتے
درد سارے عزیز ہیں تیرے
زخم کوئی رفو نہیں کرتے
ضمیر اپنا بڑا بد نصیب لگتا ہے
یہ اپنے آپ کا گویا رقیب لگتا ہے
صدا کے گھنگرو ہیں ساکت نہ روشنی نہ کرن
یہ شہرِ دل تو بڑا ہی عجیب لگتا ہے
ہو آسماں کہ مِری آرزو کا مرکز ہو
بہت ہی دور ہے، لیکن قریب لگتا ہے
روز دل کو مِرے اک زخم نیا دیتے ہیں
آپ کیا اپنا بنانے کی سزا دیتے ہیں
میری بیتابیٔ دل کا جو اڑاتے ہیں مذاق
وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
لوگ کہتے ہیں جسے ظرف وہ اپنا ہے مزاج
اپنے دشمن سے بھی ہم پیار جتا دیتے ہیں
کس کا دل ہے جو تِرے حسن پہ شیدا نہ ہوا
صورتِ آئینہ حیران؛ تماشہ نہ ہوا
مجھ کو ہر وقت رہی فضلِ خدا پر امید
میں کسی حال میں مایوسِ تمنا نہ ہوا
اثرِ آہِ شرر بار نہ ہو کیا معنی
کچھ نہیں کھیل ہوا عشق کا سودا نہ ہوا
جب سے شہر دل کا رکھوالا گیا
مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا گیا
کوششیں سب رائیگاں ہوتی گئیں
ٹُوٹ کر ہی پاؤں کا چھالا گیا
سانپ سے نیندوں میں لہراتے رہے
خواب کے پنجرے میں کیا پالا گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِرے لب پہ آئی ہے نعت عشقِ سرکارؐ کے ساتھ
مِرے دل کا کوچہ ہے شاد عشقِ سرکارؐ کے ساتھ
لیا تھا ان سے عرق مانگ اک گُلِ زار نے جب
معطر سب گُل تبھی سے ہیں عشقِ سرکارؐ کے ساتھ
اشارے سے ٹُوٹ کر چاند بھی ہو چُکا مثالی
بنا چندا بھی مثلِ حُسن عشقِ سرکارؐ کے ساتھ
پیار کرتے ہو ساتھ ڈرتے ہو
اس کا کیا ہو گا جس پہ مرتے ہو
شام خود کو سمیٹتے ہو مگر
صبح ہوتے ہی پھر بکھرتے ہو
جس نے تم سے چرا لیا تم کو
دم اسی بے وفا کا بھرتے ہو
اسلاف کی عظمت کے نشاں، رکھوں کہاں کہاں
افلاس ہے پیہم رقصاں،۔ جاؤں جہاں جہاں
دِکھتا نہیں ہے کیوں یہ، اربابِ مجال کو
ہے درد مِرے گُلشن کا، کتنا نماں نماں
سنتا نہیں کوئی بھی، کس اور دوں دُہائی میں
بہرے جہاں میں رہتا ہوں، چیخوں کہاں کہاں
جھولتا سایہ
یہ جھولتا سایہ
سانپ ہے یا رسی
یہ جاننے سے پہلے
کیا یہ ماننا ہو گا
کے کوئی ایک ہے
اور اک نہیں ہے
جلے گا چاند ستارے دُھواں اُڑائیں گے
ہمارے خواب تِری آنکھ میں جب آئیں گے
مِری نظر سے وہ چہرے اُتر نہیں سکتے
جنہیں یہ اہلِ نظر جلد بھُول جائیں گے
غزل سناؤ، بہلنا بہت ضروری ہے
ہنسیں گے لوگ ہم آنسو اگر بہائیں گے
فرقِ فِطرت پہ چمکتا ہے گُہر کیا کہیے
اس اندھیرے کے مسافر کا سفر کیا کہیے
ایک ذرّے کا ہے اعجازِ اثر کیا کہیے
سیپ کے بطن میں پلتا ہے گہر کیا کہیے
وقت، حالات، مقدّر کی شکایت کیسی؟
اپنا انداز ہے خود زیر و زبر کیا کہیے
دیکھ کر اور کُھلا گیسوئے شبگیر کا رنگ
بدلا بدلا سا رخِ صاحبِ زنجیر کا رنگ
قدر جلوؤں کی بڑھی ذوقِ نظر سے میرے
حیرتی کیوں نہ ہو آئینۂ توقیر کا رنگ
💗بادۂ غم 🍸 ہے اسیرِ خطِ پیمانۂ دل
ہائے کیا چیز ہے یہ مستئ دلگیر کا رنگ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حق کے پیارے عرش کے تارے صلی اللہ علیہ و سلم
آمنہ بی بی کے راج دلارے صلی اللہ علیہ و سلم
پہنچے فلک پر جب شہِ والا دیکھ کے ان کا قامت والا
حور و ملائک سب یہ پکارے صلی اللہ علیہ و سلم
واہ ری شانِ سیدِ والا، منہ سے ان کا نام جو نکلا
بن گئے بگڑے کام ہمارے صلی اللہ علیہ و سلم