Monday, 30 November 2015

مجھ کو بہ جان و دل قبول نغمے کو نغمہ ہی سمجھ

مجھ کو بہ جان و دل قبول نغمے کو نغمہ ہی سمجھ
ساز پہ بیتتی ہے کیا، یہ بھی کبھی کبھی سمجھ
عشق ہے تشنگی کا نام، توڑ دے گر مِلے بھی جام
شدتِ تشنگی نہ دیکھ، لذتِ تشنگی سمجھ
عقل کے کاروبار میں دل کو بھی رکھ شریک کار
دل کے معاملات میں عقل کو اجنبی سمجھ

جور و جفائے حسن بھی عشق کے حق میں کم نہیں

جور و جفائے حسن بھی عشق کے حق میں کم نہیں
دوست کے دستِ ناز سے غم بھی ملے تو کم نہیں
آفتِ جاں ہے دردِ دل، آنکھ ذرا بھی نم نہیں
بات یہ ہے کہ عشق کو فرصتِ رنج و غم نہیں
ناصحِ ناشناسِ غم ہو چکے اب بہت کرم
عشق عذابِ جاں سہی، آپ بھی کوئی کم نہیں

ہر چوٹ ابھر سی جاتی ہے ہر زخم ہرا ہو جاتا ہے

ہر چوٹ ابھر سی جاتی ہے ہر زخم ہرا ہو جاتا ہے
مدت میں کوئی جب ملتا ہے غم اور سوا ہو جاتا ہے
جب گرم جہاں میں معرکۂ تسلیم و رضا ہو جاتا ہے
منہ دیکھتی رہ جاتی ہے خِرد دل بڑھ کے فدا ہو جاتا ہے
جب حسنِ پشیماں گھبرا کے مائل بہ وفا ہو جاتا ہے
اس عشق نوازش دشمن کا حال اور برا ہو جاتا ہے

اے موت انہیں بھلائے زمانے گزر گئے

اے موت! انہیں بھلائے زمانے گزر گئے
آ جا کہ زہر کھائے زمانے گزر گئے
او جانے والے! آ، کہ تِرے انتظار میں
رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے
غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

دل کو تسکین یار لے ڈوبی

دل کو تسکینِ یار لے ڈوبی 
اس چمن کو بہار لے ڈوبی 
اشک تو پی گئے ہم انکے حضور 
آہ بے اختیار لے ڈوبی 
عشق کے کاروبار کو اکثر 
گرمئ کاروبار لے ڈوبی 

ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گلہ بھی ہے

ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گِلہ بھی ہے
گھر ایسے کو سونپ دیا جو آگ بھی ہے اور ہوا بھی ہے
اپنی انا کا جال کسی دن پاگل پن میں توڑوں گا
اپنی انا کے جال کو میں نے پاگل پن میں بُنا بھی ہے
دِیے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا
اسی ہوا سے جل بھی رہا تھا، اسی ہوا سے بجھا بھی ہے

جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں

جینے کی مزدوری کو بے گار کہوں یا کام کہوں
نقد مرگ عطا ہوتا ہے، صلہ کہوں، انعام کہوں
خوف کو میں نے ہنر بنایا دیکھ ایسا چالاک ہوں میں
تیرا نام نہیں لیتا ہوں، برکھا رت کی شام کہوں
اپنا حال نہ جانے کیا ہے ویسے بات بنانے کو
دنیا پوچھے درد بتاؤں، تُو پوچھے آرام کہوں

تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی دل کی بازی ہاری سائیں

تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی دل کی بازی ہاری سائیں
تیرا مذہب دنیا داری، میں الفت کی ماری سائیں
مثلِ خوشبو مہکی تھی میں اس کے وصل کی چھاؤں میں کل
سر پر تپتی دھوپ کھڑی اب، ساتھ میں ہجر کی باری سائیں
ہر اک موڑ پہ دل نے تجھ کو کیسے اپنا مان لیا ہے
مجھ کو مار گئی ہے تیری جھوٹی یہ دلداری سائیں

کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں میں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت

کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں میں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت
فریبِ ہستی میں رہنے والے رہے تِرا یہ جہاں سلامت
نہ کوئی بستی یہاں سلامت، نہ اس میں مکاں سلامت
یہی بہت ہے ہر ایک چہرے پہ بس ہے اشکِ رواں سلامت
پگھل چکا ہے وجود سارا، سلگ رہی ہے ہماری ہستی
چراغِ جاں کب کا بجھ چکا ہے، مگر ابھی تک دھواں سلامت

Sunday, 29 November 2015

تجھ میں پڑا ہوا ہوں میں پھر بھی جدا سمجھ مجھے

تجھ میں پڑا ہوا ہوں میں، پھر بھی جدا سمجھ مجھے
میں نے تجھے سمجھ لیا، تُو بھی ذرا سمجھ مجھے
سبزہ اگا کہ خاک اڑا، قبضے میں رکھ کہ چھوڑ جا
بھول سے بھر کہ دھیان سے، خالی جگہ سمجھ مجھے
ہاتھ میں کل جو ہاتھ تھا، نبض پہ آ گیا ہے آج
وقت کے عارضے میں ہوں، گزرا ہوا سمجھ مجھے

روپ بدل کر جانے کس پل کیا بن جائے مائے نی

نذرِ شاہ حسینؒ

روپ بدل کر، جانے کس پل، کیا بن جائے مائے نی
دِل کا آخر آ پہنچا ہے، درد کہاں تک جائے نی
اس کے بعد تو میں تھا جس نے جنگل بیلے چھانے تھے
میرے بعد اب کون ہے ایسا، جو رانجھا کہلائے نی
میں بھوکے کا بھوکا آخر، دن نکلے یا شام ڈھلے
روٹی، سالن پی جائے اورسالن، روٹی کھائے نی

ہم سے تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو

ہم سے تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
آنکھ اٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو
جب ملنے کو سوال کروں ہوں زلف و رخ دکھلاتے ہو
برسوں مجھ کو یوں ہی گزرے صبح و شام بتاتے ہو
بکھری رہی ہیں منہ پر زلفیں آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
کیونکہ چھپے میخوارئ شب جب ایسے رات کے ماتے ہو

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

غم رہا جب تک کہ دم ميں دم رہا

غم رہا جب تک کہ دم ميں دم رہا 
دم کے جانے کا نہايت غم رہا 
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک 
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا 
سنتے ہيں ليلیٰ کے خيمہ کو سياہ 
اس ميں مجنوں کا ولے ماتم رہا 

نکلوں جو یہاں سے تو بھلا جاؤں کہاں اور

نکلوں جو یہاں سے تو بھلا جاؤں کہاں اور
اس شہر کے لوگوں کا ہے دل اور زباں اور
ہے میرے سوا بھی کوئی بیزارِ جہاں اور
آئی ہے کہیں اور سے آوازِ فغاں اور
جز خلوت و لب بستگی و ضبط و تحیر
کیا بات کریں اپنے مکینوں سے مکاں اور

پاس ادب ہے اس لیے ہم بولتے نہیں

پاسِ ادب ہے اس لیے ہم بولتے نہیں
جب بولتے ہیں آپ سے کم بولتے نہیں
ہیں جس قدر بھی آپ کے شائستۂ نظر
کھا کھا کے دل پہ ناوکِ غم بولتے نہیں
آواز دے رہا ہے یہ آزر کدہ سے کون
ہم نے تو یہ سنا تھا صنم بولتے نہیں

مفت بازار محبت میں تماشا نہ بنے

مفت بازار محبت میں تماشا نہ بنے
جس کو بننا ہو سمجھ سوچ کے دیوانہ بنے
شمع ظاہر ہے کہ شعلے کے سوا کچھ بھی نہیں
کر سکے خاک جو خود کو وہی پروانہ بنے
حرم و دَیر کی راہوں میں تو مٹی ہے خراب
وہ مزے میں ہیں جو خاکِ درِ جانانہ بنے

زندگی گزرتی ہے یوں کبھی کبھی تنہا

زندگی گزرتی ہے یوں کبھی کبھی تنہا
جس طرح مقابر میں شب کی خامشی تنہا
دیکھیے تو برپا ہیں ہر قدم پہ ہنگامے
سوچیے تو دنیا میں ہے بس آدمی تنہا
فطرتاً تو کرتا ہے سیکڑوں جتن، لیکن
ہر بشر اٹھاتا ہے،۔ بارِ زندگی تنہا

دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا

دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا
خود سے نہ مل سکا تو مجھے سوچنا پڑا
اُس کا جو خط مِلا تو مجھے سوچنا پڑا
اپنا سا وہ لگا تو مجھے سوچنا پڑا
مجھ کو تھا یہ گماں کہ مجھی میں ہے اک انا 
دیکھی تِری انا تو مجھے سوچنا پڑا 

تمہارا وعدہ خدائی قرار تھوڑی ہے

تمہارا وعدہ خدائی قرار تھوڑی ہے
چمکتی شے کا کوئی اعتبار تھوڑی ہے
رئیس شہر! تِرا انتظار تھوڑی ہے
تِرے کرم پہ مِرا انحصار تھوڑی ہے
جنوں میں حد سے ہم اہلِ جنوں گزر جائیں
ہمارا اہلِ خرد میں شمار تھوڑی ہے

دیار شب کا مقدر ضرور چمکے گا

دیارِ شب کا مقدر ضرور چمکے گا
یہیں کہیں سے چراغوں کا نور چمکے گا
کہاں ہوں میں کوئی موسیٰؑ کہ اک صدا پہ مِری
وہ نور پھر سے سرِ کوہِ طور چمکے گا
تِرے جمال کا نشہ شراب جیسا ہے
ہماری آنکھوں سے اس کا سرور چمکے گا

بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی

بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی
تڑپ باقی رہے گی، جھوٹ ہے یہ
ملیں گے ہم، ملاقاتیں رہیں گی
نظر میں چہرہ کوئی اور ہو گا
گلے میں جھولتی بانہیں رہیں گی

آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا

آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
بس وہ ذرا سا فاصلہ باقی رہا نہ تھا
اب اس سفر کا سلسلہ شاید ہی ختم ہو
سب اپنی اپنی راہ لیں، ہم نے کہا نہ تھا
دروازے آج بند سمجھیے سلوک کے
یہ چلنے والا دور تلک سلسلہ نہ تھا

محو کمال آرزو مجھ کو بنا کے بھول جا

 محوِ کمالِ آرزو مجھ کو بنا کے بُھول جا

اپنے حریمِ ناز کا پردہ اُٹھا کے بھول جا

جلوہ ہے بے خودی طلب عشق ہے ہمت آزما

دیدۂ مست یار سے آنکھ مِلا کے بھول جا

لطفِ جفا اسی میں ہے یادِ جفا نہ آئے پھر

تجھ کو ستم کا واسطہ مجھ کو مِٹا کے بھول جا

موزوں کلام باعث لطف و سرور ہے

موزوں کلام باعثِ لطف و سرور ہے

لیکن بہ قصدِ لاف تعقل فتور ہے

تہذیبِ فکر کے لٰے رہبر ضرور ہے

دستِ سخن میں خضرِ سخنور شعور ہے

حاصل ہو ذہن کو جو ہدایت شعور سے

ظلمت کدے خیال کے بھر جایں نور سے

خود مست ہوں خود سے آ ملا ہوں

خود مست ہوں خود سے آ ملا ہوں
اب میں لبِ زخمِ بے گِلہ ہوں
میں ہمسفروں کی گرد کے بیچ
اک خود سفری کا قافلہ ہوں
خوشبو کے بدن میں تیرا ملبوس
دم لے کہ ابھی نہیں سِلا ہوں

مہک سے اپنی گل تازہ مست رہتا ہے

مہک سے اپنی گلِ تازہ مست رہتا ہے
وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے
نگاہ سے کبھی گزرا نہیں وہ مست انداز
مگر خیال سے، اندازہ مست رہتا ہے
کہاں سے ہے رسدِ نشہ، اس کی خلوت میں
کہ رنگِ مست کا اندازہ مست رہتا ہے

کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ روٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی، لیکن
جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو
یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں
کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو

زندانیان شام و سحر خیریت سے ہیں

زندانیانِ شام و سحر، خیریت سے ہیں
ہر لمحہ جی رہے ہیں مگر خیریت سے ہیں
شہرِ یقیں میں اب کوئی دم خم نہیں رہا
دشتِ گماں کے خاک بسر خیریت سے ہیں
آخر ہے کون جو کسی پل کہہ سکے یہ بات
اللہ اور تمام بشر خیریت سے ہیں

میاں دل تجھے لے چلے حسن والے

میاں دل! تجھے لے چلے حسن والے
کہوں اور کیا، جا! خدا کے حوالے
ادھر آ ذرا تجھ سے مِل کر میں رو لوں
تُو مجھ سے ذرا مِل کے آنسو بہا لے
چلا اب تُو ساتھ اس کے تو بے بسی سے
لگا میرے پہلو میں فرقت کے بھالے

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے
ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں، لیکن
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے
زخم اس تیغ نگہ کا مِرے دل نے ہنس ہنس
اس مزیداری سے کھایا ہے کہ جی جانے ہے

ہیں گرچہ یاں تو اور بھی محبوب خوب خوب

ہیں گرچہ یاں تو اور بھی محبوب خوب خوب
لیکن اسی کو کہتے ہیں سب  خوب خوب خوب 
نامِ خدا میں کیا کہوں اس گل کے حسن میں
کیا کیا عیاں ہیں ناز کے اسلوب خوب خوب
فرقت میں اب کے بار تو دلدار نے ہمیں
خونی سے کیا ہی بھیجے ہیں مکتوب خوب خوب

تلاش رزق میں جائیں تو ہم کہاں جائیں

تلاشِ رزق میں جائیں تو ہم کہاں جائیں
زمین تنگ ہے، اور آسمان گیلا ہے
غریبِ شہر کے بچوں کے ہیں دہن سوکھے
امیرِ شہر کی کوٹھی کا لان گیلا ہے
سیاہ رات ہے، بارش ہے اور درندے ہیں
ذرا سنبھل کے قدم رکھ، مچان گیلا ہے

آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر ان دنوں

آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر ان دنوں
آسیب کی ہے زد میں مِرا شہر ان دنوں
اک دوسرے سے دہشت و گریباں ہیں آج کل
ڈھایا ہے دوستوں نے بڑا قہر ان دنوں
بھائی بہا رہا ہے یہاں بھائی کا لہو
یوں سُرخ ہو گیا ہے رُخِ دہر ان دنوں

غریب شہر نے جب بھی بلند کی آواز

غریبِ شہر نے جب بھی بلند کی آواز
امیرِ شہر نے جکڑی زبان مُٹّھی میں
یہی تو اصل اثاثہ تھا مرنے والے کا
دبا ہوا ہے جو اک سوکھا نان مُٹّھی میں
نہ جانے کس کے نصیبوں کو جگمگائے گا
لیے ہوئے ہے جو سونا کسان مُٹّھی میں

دیر سے آنے نہ آنے کا سبب کیا پوچھنا

دیر سے آنے نہ آنے کا سبب کیا پوچھنا
جانتا ہوں تجھ کو میں اے حیلہ جُو اچھی طرح
دو گھڑی آبیٹھ فرصت سے ہمارے پاس بھی
گفتگو آپس کی بھی کر لے کبھو اچھی طرح
دور تک آباد ہو جاتا ہے شہرِ عکسِ جاں 
آئینہ گر دیکھ لے اک خوبرو اچھی طرح

کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے

کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے 
وہ شخص پھر سے مِرے رابطے میں آ جائے 
اسے کرید رہا ہوں طرح طرح سے کہ وہ 
جہت جہت سے مِرے جائزے میں آ جائے
کمال جب ہے کہ ، سنورے وہ اپنے درپن میں 
اور اس کا عکس، مِرے آئینے میں آ جائے 

کہاں کہاں نہ ہوا لے گئی اڑا کے مجھے

کہاں کہاں نہ ہوا لے گئی اڑا کے مجھے
ستم یہ کس نے کیا ہے دھواں بنا کے مجھے
بہت اداس ہوا آئینہ دکھا کے مجھے
زمانہ دیکھ چکا ہے ہدف بنا کے مجھے
ابھی تھمی بھی نہ تھیں سسکیاں کہ رات گئے
کسی کی چیخ نے پھر رکھ دیا ہلا کے مجھے

وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا نظارا ہے

وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا نظارا ہے
قیامت نے ابھی کروٹ بدل کر سر ابھارا ہے
جوانی نے اسے اس خوش مذاقی سے سنوارا ہے
نہ عرض شوق کی جرأت، نہ ضبطِ غم کا یارا ہے
سحر ہوتے ہی وہ اس طرح شرما کر سدھارا ہے
کہ مجھ کو عمر بھر اب رنجِ محرومی گوارا ہے

خدا کی دین ہے وہ عجز عشق بھی جس میں

خدا کی دین ہے وہ عجزِ عشق بھی جس میں
غرورِ حسن کے انداز پائے جاتے ہیں
فغاں، فغاں! کہ  جنہیں مارِ آستیں کہیے
وہ لوگ میرے رفیقوں میں پائے جاتے ہیں
مِری وفا پہ نہ جا حسن کی شکست کو دیکھ
تِری جفا کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں

Saturday, 28 November 2015

کیا ہوا ایسا تمہارے شہر میں

 کیا ہُوا ایسا تمہارے شہر میں

میرا ہے چرچا تمہارے شہر میں

میری دل پُری کی خاطر ہی سہی

کوئی تو ہوتا تمہارے شہر میں

ہو گئی مسدُود ہر راہ فرار

حشر وہ اُٹھا تمہارے شہر میں

آج کس مست کی رخصت ہے مے خانے سے​

آج کس مست کی رخصت ہے میخانے سے​
شیشہ مل مل کے بہت روتا ہے پیمانے سے​
کٹ گئی پاؤں کی بیڑی جو پہن لی زنجیر​
ہوشیاری کوئی سیکھے تِرے دیوانے سے​
دیکھ سکتا نہیں دل یار سے پہلو خالی​
ہم کو معلوم ہوا آنکھ کے بھر آنے سے​

جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی

جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
پہر جہاں کٹ گئے، چار گھڑی اور بھی
پہلے ہی ساغر میں تھے ہم تو پڑے لوٹتے
اتنے میں ساقی نے دی اس سے کڑی اور بھی
پلکیں تو چھیدے تھیں دل، مارے تھی برچھی نگاہ
ابرو نے اس پر سے ایک تیغ جڑی اور بھی

لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا

لے کے دل مہر سے پھر رسمِ جفا کاری کیا
تم دل آرام ہو کرتے ہو دل آزاری کیا
تم سے جو ہو سو کرو ہم نہیں ہونے کے خفا
کچھ ہمیں اور سے کرنی ہے نئی یاری کیا
جوں حباب آئے ہیں ملنے کو نہ ہو چِیں بہ چِیں
ہم سے اک دم کے لیے کرتے ہو بے زاری کیا

کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب

کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب 
یعنی وہ شوخ ہم سے خفا بے سبب ہے اب 
آہ و فغاں و گریہ و اندوہ و درد و داغ
یہ جنسِ عشق ہے وہ مِرے پاس سب ہے اب
دیکھے سے جس کے غنچہ صفت گل ہو رشک ہے
ایسا تو اس جنم میں وہی غنچہ لب ہے اب

اکیلے پن کے اسی بے کنار صحرا میں

اکیلے پن کے اسی بے کنار صحرا میں
الجھی بکھری ہوئی قسمت کی لکیروں میں گھری
سفید کپڑوں سے زخموں کو اپنے ڈھانپے ہوئے 
(کفن کا رنگ نہیں ہے، یہ ہے پناہ کا رنگ)
پھر وہی میں، وہی چوراہا، وہی بے نام سکوت
دھواں، دھواں سی نظر، اور وہی سناٹا 
پھر سے احساس نے پہنا ہے بےحسی کا لباس

Friday, 27 November 2015

اللہ کرے کہ کوئی بھی میری طرح نہ ہو

اللہ کرے کہ کوئی بھی میری طرح نہ ہو
اللہ کرے کہ روح کی کوئی سطح نہ ہو
ٹوٹے ہوئے ہاتھوں سے کوئی بھیک نہ مانگے
جو فرض تھا وہ قرض ہے، پر اس طرح نہ ہو
سوچا تھا خوشبوؤں سے سانسیں بسائیں گے
چیخا لہو کہ دیکھو وہ قوسِ قزح نہ ہو

ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح​

ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح​
چمک اٹھے ہیں اندھیرے بھی روشنی کی طرح​
تمہارا نام ہے، یا آسماں نظروں میں ​
سمٹ آیا میری گم گشتہ زندگی کی طرح ​
کہر ہے دھند دھواں ہے جس کی شکل نہیں ​
کہ دل اک روح سے لپٹا ہے اجنبی کی طرح ​

حیا سے ٹوٹ کے آہ کانپتی برسات آئی

حیا سے ٹوٹ کے آہ کانپتی برسات آئی
آج اقرارِ جرم کر ہی لیں وہ رات آئی
دھنک سے رنگ لیے بجلیوں سی آنکھوں میں
کیسی معصوم امنگوں کی یہ بارات آئی
تمام دوڑے سائے وہیں پہ ٹھہر گئے
جھجک جھجک کے لرزتی جہاں یہ بات آئی

عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے

عیادت ہوتی جاتی ہے، عبادت ہوتی جاتی ہے
مِرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھِیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھِیگا پن ہی دیکھو، مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے
تیرے قدموں کی آہٹ کو ہے دل ڈھونڈتا ہر دم
ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے

اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے

اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے
روپہلی چاندنی ہے اور گھُپ اندھیرا ہے
کہیں کہیں کوئی تارہ، کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے
قدم قدم پہ بگولوں کو توڑتے جائیں
ادھر سے گزرے گا تو راستہ یہ تیرا ہے

چشم ساقی سے جس نے جام لیا

چشم ساقی سے جس نے جام لیا
اس نے پھر نشۂ مدام لیا
دل تغافل سے گر چلا جس دم
دستِ لطفِ صنم نے تھام لیا
صبح بہرِ سلام ہم نے نظیرؔ
پہلے اک پُر ادب مقام لیا

کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا

کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
گر اور بھی ہوتا کوئی اس طور کی چھب کا
بوسہ کی عوض ہوتے ہیں دشنام سے مسرور
اتنا تو کرم ہم پہ بھی ہے یار کے لب کا
اس کان کے جھمکے کی لٹک دیکھ لی شاید
ہر خوشہ اسی تاک میں رہتا ہے عنب کا

جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا

جھمک دکھاتے ہی اس دلربا نے لوٹ لیا
ہمیں تو پہلے ہی اس کی ادا نے لوٹ لیا
نگہ کے ٹھگ کی لگاوٹ نے فن سے کر غافل
ہنسی نے ڈال دی پھانسی، دعا نے لوٹ لیا
وفا جفا نے یہ کی جنگ زرگری ہم سے
وفا نے باتوں میں لگایا، جفا نے لوٹ لیا

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم

دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس، پیمانے کو ہم
مے بھی ہے، مِینا بھی ہے، ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
کیوں نہیں لیتا ہماری تُو خبر، اے بے خبر
کیا تِرے عاشق ہوئے تھے، درد و غم کھانے کو ہم

پیدا ہوئے ہیں چاہنے والے نئے نئے

پیدا ہوئے ہیں چاہنے والے نئے نئے
انداز یار نے ہیں نکالے نئے نئے
گیسو بڑھا کے روز دیا کرتے ہیں وہ بَل
ڈسنے کو میرے سانپ ہیں پالے نئے نئے
گردوں کے دور میں انہیں کمّل نہیں نصیب
جو لوگ اوڑھتے تھے دوشالے نئے نئے

جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرحدار سے ہم

جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم
رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم
سرخوشی میں یونہی دلشاد و غزلخواں گزرے
کوئے قاتل سے، کبھی کوچۂ دلدار سے ہم
کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا
ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم

مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے

نذرِ مولانا حسرت موہانی

مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے
کیا کچھ نہ مِلا ہے جو کبھی تجھ سے مِلے گا
اب تیرے نہ مِلنے کی شکایت نہ کریں گے
شب بِیت گئی ہے تو گزر جائے گا دن بھی

لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے

میجر اسحاق کی یاد میں

لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے
باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور
یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے
رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور
ہم سمجھے تھے صیّاد کا ترکش ہُوا خالی
باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور

شہر یاراں آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر

شہرِ یاراں

آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفلِ ابر
جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف
بجھتے بجھتے بجھ گئی ہے عرش کے حجروں میں آگ
دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف
اے صبا! شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام
سر جھکائے جا رہی ہے شہرِ یاراں کی طرف

دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت​

دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت​
درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے​
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت​
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے​
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں​
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے​

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی

نہ مجھے سہی مرا عکس ہی کبھی دیکھ دل میں اتار کے

نہ مجھے سہی مِرا عکس ہی کبھی دیکھ دل میں اتار کے 
کبھی تُو بھی تو مِری یاد میں کوئی شام دیکھ گزار کے 
خمِ زلف اپنے ہی ہاتھ سے تو ہمیشہ کیوں ہے سنوارتا 
کبھی دیکھ زلفوں کو جھومتے مِری انگلیوں سے سنوار کے 
جو بناتے ساز تھے جسم کو، جو بناتے نغمہ تھے قلب کو 
کبھی کاش لوٹ کے آ سکیں وہی جھونکے پھر سے بہار کے 

جو غرق کر دے اسے ناخدا کہیں کیسے

جو غرق کر دے اسے ناخدا کہیں کیسے
تمہیں کہو، تمہیں جانِ وفا کہیں کیسے
تمہارا حسن حقیقت ہے، چاند کا ہے سراب
تمہارے چہرے کو پھر چاند سا کہیں کیسے
حیا کا ان کی کوئی جُز ہمارا ہو بیٹھا
ہے ایک بات مگر برملا کہیں کیسے

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی
کیا کسی کو بھی قریب اپنے بلایا نہ کبھی
آتے رہنے کے لیے شکریہ اے یاد کے دوست
میں ہی مجرم ہوں، تِری یاد میں آیا نہ کبھی
اس کی البم میں تو تصویر مِری ہے موجود
اس نے تصویر کو سینے سے لگایا نہ کبھی

عمل سے پہلے عمل کا اصول یاد بھی ہے

عمل سے پہلے عمل کا اصول یاد بھی ہے
یقیں خدا پہ، خود اپنے پہ اعتماد بھی ہے
تو عبدِ عام نہیں ہے کہ تُو ہے عبدِ منیب
تلاشِ حق میں تدبر بھی، اجتہاد بھی ہے
بغیر ان کے ادھوری ہے داستانِ رسولؐ
حدیبیہ بھی ہے، ہجرت بھی ہے، جہاد بھی ہے

اک غم عشق ہی کب ہے ہمیں غم اور بھی ہیں

اک غمِ عشق ہی کب ہے، ہمیں غم اور بھی ہیں
صرف معشوق نہیں، اہلِ ستم اور بھی ہیں
تُو نہ ہوتا تو کہاں آتا یہ اندازِ سخن
بے وفائی ہی نہیں، تیرے کرم اور بھی ہیں
تیرے لوٹ آنے کی رکھیں گے نہ کوئی امید
پالنے ہوں گے بھرم ہی تو بھرم اور بھی ہیں

حقیقتوں سے جو نکلے تو خواب تک پہنچے

حقیقتوں سے جو نکلے تو خواب تک پہنچے
کہ جیسے کوئی سمندر سراب تک پہنچے
کہیں سے مِل نہ سکا مجھ کو اِذنِ گویائی
مِرے سوال ہی آخر جواب تک پہنچے
جو پارسا تھے رہے زعمِ پارسائی میں
گناہ گار ہی کارِ ثواب تک پہنچے

جو ہو سکے تو کبھی قید جسم و جاں سے نکل

جو ہو سکے تو کبھی قیدِ جسم و جاں سے نکل
یہاں سے میں بھی نکلتا ہوں تُو وہاں سے نکل
اِدھر اُدھر سے نکلنا بہت ہی مشکل ہے
بڑھے گی بھیڑ ابھی اور درمیاں سے نکل
زمیں بھی تیری ہے، مالک غلام بھی تیرے 
کبھی تو میرے خدا! اپنے آسماں سے نکل

کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے

کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے
سنا ہے ذکر ہمارا بھی داستان میں ہے
اسی نے دھوپ میں چلنے کی جیت لی بازی
وہ ایک شخص جو مدت سے سائبان میں ہے
زمین کو جو بھی اگانا ہے وہ اگائے گی
مجھے پتہ ہے میرا رزق آسمان میں ہے

کب تک سیج رہے کی سونی پھول یونہی کمہلائیں گے

کب تک سیج رہے کی سُونی، پھول یونہی کمہلائیں گے
بچھڑ کے جانے والے ساتھی جانے کب گھر آئیں گے
چاروں اور اندھیرا کب تک ظلم کے بان چلائے گا
کب تک آس لگائے ہم تیروں کی زد میں آئیں گے
اُجیارا کیا جانے کب تک آنکھوں کو ترسائے گا
جھلمل جھلمل کرتے تارے کب آکاش پہ چھائیں گے

مجھے یاد کرنے والو کبھی میرے پاس آؤ

مجھے یاد کرنے والو کبھی میرے پاس آؤ
گئے موسموں کی باتیں مجھے آن کر سناؤ
نہ خیالِ رنگ و بو ہے نہ کیس کی جستجو ہے
میرے ہاتھ میں سبو ہے، میرے ذہن میں الاؤ
کسی رات کی خموشی سے بھری اداس رُت میں
کوئی دل گزار نغمہ، کوئی دُکھ کا گیت گاؤ

مدت سے ڈھونڈتی ہے کسی کی نظر مجھے

مدت سے ڈھونڈتی ہے کسی کی نظر مجھے
میں کس مقام پر ہوں، نہیں ہے خبر مجھے
آوارگی اڑائے پھِری مثلِ بوئے گل 
 کوئی پکارتا ہی رہا عمر بھر مجھے
یوں جا رہا ہوں جیسے نہ آؤں گا پھر کبھی
مڑ مڑ کے دیکھتی ہے تِری رہگزر مجھے

عاشق ہوئے جس بت کو تھے نادان سمجھ کر​

عاشق ہوئے جس بت کو تھے نادان سمجھ کر​
بوسہ نہیں دیتا وہ مسلمان سمجھ کر​
مجھ کو نہ دکھا دستِ حنائی تو مری جان​
مر جاؤں گا میں پنجۂ مرجان سمجھ کر​
اتنا بھی نہ ہو درپئے جاں اے غمِ ہجراں​
کہتے نہیں کچھ ہم تجھے مہمان سمجھ کر​

رکھ پاؤں سر گور غریبان سمجھ کر​

رکھ پاؤں سرِ گورِ غریبان سمجھ کر​
چلتا ہے زمیں پر ہر اک انسان سمجھ کر​
ہشیار دلا رہیو کہ دکھلا کے وہ زلفیں​
لیتا ہے تجھے پہنچے میں نادان سمجھ کر​
سرکا ہے دوپٹا رخِ مہ وش پہ سحر کو​
گردوں پہ نکل مہرِ درخشان سمجھ کر​

انہیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرز جفا کیا ہے

انہیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرزِ جفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
یہ رنگِ بے کسی، رنگِ جنوں بن جائے گا غافل
سمجھ لے یاس و حرماں کے مرض کی انتہا کیا ہے

اڑا کر صحن گلشن سے مٹا کر آشیاں میرا

اڑا کر صحنِ گلشن سے، مٹا کر آشیاں میرا
مِرے سائے کے پیچھے پھِر رہا ہے باغباں میرا
مِرے احباب پیش آتے ہیں مجھ سے بے وفائی سے
وفاداری میں شاید کر رہے ہیں امتحاں میرا
تہ و بالا کیا ہے گردشِ اعمال نے مجھ کو
نہ دشمن ہے زمیں میری، نہ دشمن آسماں میرا

روش خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز

روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز
پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہو گی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز
نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز

اس کے کل کوچے میں ایسے ہنر سے گزرے

اس کے کل کوچے میں ایسے ہنر سے گزرے
ایک نے دیکھا نہیں، سب کی نظر سے گزرے
کیا عجب تیرِ نگاہ میرے جگر سے گزرے
پر وہ ہے تیر کہ آہن کی سپر سے گزرے
اس سر میں تو بہت آئے مسافر لیکن
جو ہے کیا جانے کہاں سے وہ کدھر سے گزرے

رات بھر مجھ کو غم یار نے سونے نہ دیا

رات بھر مجھ کو غمِ یار نے سونے نہ دیا
صبح کو خوفِ شب تار نے سونے نہ دیا ​ 
شمع کی طرح مجھے رات کٹی سولی پر
چین سے یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا ​
یہ کراہا تِرا بیمارِ الم درد کے ساتھ
کسی ہمسایہ کو بیمار نے سونے نہ دیا ​

واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں

واقف ہیں ہم کہ حضرتِ غم ایسے شخص ہیں
اور پھر ہم ان کے یار ہیں، ایسے شخص ہیں
دیوانے تیرے دشت میں رکھیں گے جب قدم
مجنوں بھی لے گا ان کے قدم، ایسے شخص ہیں
جن پہ ہوں ایسے ظلم و ستم ہم نہیں وہ لوگ
ہوں روز بلکہ لطف و کرم ایسے شخص ہیں

جام ہے شیشہ ہے ساقی بھی ہے برسات بھی ہے

جام ہے، شیشہ ہے، ساقی بھی ہے برسات بھی ہے
ان دنوں بادہ کشی دن بھی ہے اور رات بھی ہے
کچھ تو ہے اپنی طرف سے طلبِ ساغر مے
اور ساقی کی کچھ امداد و مدارات بھی ہے
جوشِ مستی بھی ہے، ہنگامِ ہم آغوشی بھی
خواہشِ وصل بھی ہے جائے ملاقات بھی ہے

جا کہیو ان سے نسیم سحر میرا چین گیا میری نیند گئی

جا کہیو ان سے نسیمِ سحر! میرا چین گیا، میری نیند گئی
تمہیں میری نہ مجھ کو تمہاری خبر، میرا چین گیا، میری نیند گئی
نہ حرم میں تمہارے یار پتہ، نہ سراغ دَیر میں ہے ملتا
کہاں جا کے میں جاؤں کدھر، میرا چین گیا، میری نیند گئی
اے بادشہِ خوبانِ جہاں! تیری موہنی صورت پہ قربان
کی میں نے جو تیری جبیں پہ نظر، میرا چین گیا، میری نیند گئی

کیوں بیج محبت کا بھی بونے نہیں دیتے

کیوں بیج محبت کا بھی بونے نہیں دیتے

پُر امن فضا شہر کی ہونے نہیں دیتے

ہے دل پہ جو اک بوجھ وہ ہلکا نہیں ہوتا

تنہائی میں بھی دوست تو رونے نہیں دیتے

بس چیختے رہتے ہیں وہ طاقت کے نشے میں

ہمسایوں کو بھی چین سے سونے نہیں دیتے

نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا

نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں، کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غم عشق تو اپنا رفیق رہا، کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا، وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا، نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشین کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے

بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
بلا یہ کون لیتا جان پر، لیتے تو ہم لیتے
اسے کیا کام تھا وہ بے خبر کیوں پوچھتا پھِرتا
دلِ گم گشتہ کی اپنے خبر لیتے تو ہم لیتے
نہ لیتا مول سودا کوئی بازارِ محبت کا
مگر کچھ جان اپنی بیچ کر لیتے تو ہم لیتے

Wednesday, 25 November 2015

موجہ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے

موجۂ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے
دن تِرے نام سے آغاز نہیں کرسکتے
اس چمن زار میں ہم سبزۂ بیگانہ سہی
آپ ہم کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق کرنا ہے تو پھر سارا اثاثہ لائیں
اس میں تو کچھ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

عمر کا بھروسا کیا پل کا ساتھ ہو جائے

عمر کا بھروسا کیا، پَل کا ساتھ ہو جائے
ایک بار اکیلے میں، اس سے بات ہو جائے
دل کی گُنگ سرشاری اس کو جیت لے لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہو جائے
ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک انساں کے 
ساری زندگانی ہی بے ثبات ہو جائے

Tuesday, 24 November 2015

ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات

ایذا ہی دردِ ہجر سے پائی تمام رات
کل ایک لمحہ ہم نے نہ پائی تمام رات
بیدار ایک میں ہی فراقِ صنم میں ہوں
سوتی ہے ورنہ ساری خدائی تمام رات
اپنی شب وصال تھی یا جنگ غیر تھا
تھی ہر سخن پہ ان سے لڑائی تمام رات

کیوں منہ چھپا ہے کس لئے اتنا حجاب ہے

کیوں منہ چھپا ہے، کس لیے اتنا حجاب ہے
تیری تو شرم ہی تِرے رُخ پر نقاب ہے
بے کار اپنی عرضِ تمنا نہ جائے گی
میرا حریف غمزۂ حاضر جواب ہے
مشکل ہے وصل میں بھی تلافی فراق کی
پہلو میں گر یہی دلِ حسرت مآب ہے

دل درد آشنا دیا ہم کو

دل درد آشنا دیا ہم کو
لو دیا بھی تو کیا دیا ہم کو
فلکِ کج خرام نے آخر
خاک ہی میں ملا دیا ہم کو
ایک جلوے نے اس پری رو کے
اور عالم دکھا دیا ہم کو

کیا غصہ میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلہ میں

کیا غصہ میں آتا ہے جو کرتا ہوں گِلا میں
خود آپ انہیں چھیڑ کے لیتا ہوں مزا میں
فتنہ نے کہا دور ہی سے دیکھ کے ان کو
یہ آ کے اگر ناز سے بیٹھا، تو اٹھا میں
کیا پھول کے غنچہ ہے سرِ شاخ پہ خنداں
سمجھا ہے اسی طرح گزاروں گا سدا میں

عالی جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے

عالی جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے
ساتھ بھی دے تو آخر پیارے کوئی کہاں تک جائے
جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے
تم یہ کہو خود تم نے اب تک کتنے دیے جلائے
اپنا کام ہے صرف محبت باقی اس کا کام
جب چاہے وہ روٹھے ہم سے جب چاہے من جائے

کب تم بھٹکے کیوں تم بھٹکے کس کس کو سمجھاؤ گے

کب تم بھٹکے کیوں تم بھٹکے کس کس کو سمجھاؤ گے
اتنی دور تو آ پہنچے ہو اور کہاں تک جاؤ گے
اس چالیس برس میں تم نے کتنے دوست بنائے ہیں
اب جو عمر بچی ہے اس میں کتنے دوست بناؤ گے
بچپن کے سب سنگی ساتھی آخر کیونکر چھوٹ گئے
کوئی یار نیا پوچھے تو اس کو کیا بتلاؤ گے

اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے

اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے
یہ جو عالیؔ ہے یہ شاعر نہیں سودائی ہے
یہ تو سچ ہے مگر آگے تِری رسوائی ہے
میرے شکووں پہ نہ جا میں تو وہی ہوں جس نے 
بارہا ترکِ محبت کی قسم کھا ئی ہے

اب عالی جی اہل سخن کی صحبت سے گھبراتے ہیں

اب عالیؔ جی اہلِ سخن کی صحبت سے گھبراتے ہیں
جب کہیں بیٹھنا ہی پڑ جائے گیت پرانے گاتے ہیں
گیت پرانے سوہنے لیکن کب تک گائے جاؤ گے
ایک سے بول اور ایک سی لے سے کن رس بھی تھک جاتے ہیں
یہ سب شکوے سر آنکھوں پر، لیکن یارو! سوچو تو
ایسے خوش گویانِ سخن کیوں چپ ہو کر رہ جاتے ہیں

Monday, 23 November 2015

پتہ کہیں سے ترا اب کے پھر لگا لائے

پتہ کہیں سے تِرا اب کے پھر لگا لائے
سہانے خواب نیا مشغلہ اٹھا لائے
لگی تھی آگ تو یہ بھی تو اس کی زد میں تھے
عجیب لوگ ہیں دامن مگر بچا لائے
چلو تو راہ میں کتنے ہی دریا آتے ہیں
مگر یہ کیا کہ انہیں اپنے گھر بہا لائے

ٹھکانے یوں تو ہزاروں ترے جہان میں تھے

ٹھکانے یوں تو ہزاروں تِرے جہان میں تھے
کوئی صدا ہمیں روکے گی اس گمان میں تھے
عجیب بستی تھی، چہرے تو اپنے جیسے تھے
مگر صحیفے کسی اجنبی زبان میں تھے
بہت خوشی ہوئی ترکش کے خالی ہونے پر
ذرا جو غور کیا تیر سب کمان میں تھے

سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے

سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں، کیا ہوا ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
جو مڑ کے دیکھا تو ہو جائے گا بدن پتھر
کہانیوں میں سنا تھا، سو بھوگنا ہے مجھے
ابھی تلک تو کوئی واپسی کی راہ نہ تھی
کل ایک راہ گزر کا پتہ لگا ہے مجھے

بادباں کھولے گی اور بند قبا لے جائے گی

بادباں کھولے گی اور بندِ قبا لے جائے گی
رات پھر آئے پھر سب کچھ بہا لے جائے گی
خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسا کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی
یہ اندھیرے ہیں غنیمت کوئی رستہ ڈھونڈ لو
صبح کی پہلی کرن آنکھیں اٹھا لے جائے گی

تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اک شب غم سنور گئی ہے

تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اِک شبِ غم سنور گئی ہے
سنہری پوروں سے خواب ریزے سمیٹتی ہر سحر گئی ہے 
مہکتے جھونکے کے حرفِ تسکِیں میں جانی پہچانی لرزِشیں تھیں 
تمہاری سانسوں کی آنچ، کتنی قریب آ کر گزر گئی ہے
اب اس کا چارہ ہی کیا کہ اپنی طلب ہی لا انتہا تھی، ورنہ
وہ آنکھ جب بھی اٹھی ہے دامانِ درد پھولوں سے بھر گئی ہے

کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا

کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا
میں پیاس بانٹتا ہوں ضرورت نہیں تو جا
میں شہر شہر خوابوں کی گٹھڑی لیے پھِرا
بے دام تھا یہ مال پہ گاہک کوئی نہ تھا
پتھر پگھل کے ریت کے مانند نرم ہے
درد اتنی دیر ساتھ رہا، راس آ گیا

عجب کشاکش بیم و رجا ہے تنہائی

عجب کشاکشِ بیم و رجا ہے تنہائی
تِرے بغیر ترا سامنا ہے تنہائی
نئے دنوں کی صلیبیں گئے دنوں کے مزار
عذاب خود سے ملاقات کا ہے تنہائی
فضا میں ہیں کسی طوفانِ تند کے آثار
سفر طویل ہے اور راستا ہے تنہائی

تو سمجھتا ہے تو خود تیری نظر گہری نہیں

تُو سمجھتا ہے تو خود تیری نظر گہری نہیں
ورنہ بنیادِ خزاں، اے بے خبر! گہری نہیں
وصلِ شیریں ہے نہ جوئے شیر ہے تیرے نصیب
ضرب اے فرہاد! تیشے کی اگر گہری نہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ خود تیری نوا ہو نرم خیز
نیند لوگوں کی تو اے مرغِ سحر! گہری نہیں

تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے

تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے
یہ اور بات سہی، ہم نہ دیکھ پائیں گے
یقیں تو ہے کہ کھلے گا، نہ کھل سکا بھی اگر
درِ بہار پہ دستک دئیے ہی جائیں گے
غنودہ راہوں کو تک تک کے سوگوار نہ ہو
تِرے قدم ہی مسافر! انہیں جگائیں گے

فضائے صحن گلستاں ہے سوگوار ابھی

فضائے صحنِ گلستاں ہے سوگوار ابھی
خزاں کی قید میں ہے یوسفِ بہار ابھی
ابھی چمن پہ چمن کا گماں نہیں ہوتا
قبائے غنچہ کو ہونا ہے تار تار ابھی
ابھی ہے خندۂ گل بھی اگر تو زیر لبی
رکا رکا سا ہے کچھ نغمۂ ہزار ابھی

آرام نہ ہو دل کو تو اے یار کریں کیا

آرام نہ ہو دل کو تو اے یار! کریں کیا
پھِر پھِر کے یہیں آتے ہیں ناچار کریں کیا
گھبرا کے مرض سے مِرے یوں بولے طبیب آہ
چنگا نہیں ہوتا ہے یہ بیمار کریں کیا
اک روز بھی در پر جو نظر آئے نہ وہ یار
تو رہ کے بھلا ہم پسِ دیوار کریں کیا

سر تن سے میرے تو نے ستمگار اتارا

سر تن سے میرے تُو نے ستمگار اتارا
آخر کو محبت میں مجھے پار اتارا
رک کر مِری فریاد سے ہمسائے یہ بولے
کس شخص نے یاں لا کے یہ بیمار اتارا
سر کٹنے کاقاتل! میں کروں شکر کہاں تک
تُو نے تو یہ تن پر سے بڑا بار اتارا

اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا

اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا
جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا
کوچۂ دہر میں، غافل نہ ہو پابندِ نشست
رہگزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا
غم زدے اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ
زانوئے غم سے ولیکن نہ اٹھا سر اپنا

مبتلا بس کہ ہوں میں اس بت ہرجائی کا

مبتلا بس کہ ہوں میں اس بتِ ہرجائی کا
جابجا کیوں نہ ہوں شہرہ مِری رسوائی کا
دید سو طرح کے عالم کہ ہمیں تھی جس جا
عالم آتا ہے نظر اب وہیں تنہائی کا
تک کے ہر ایک کی صورت کو وہ رو دیتا ہے
ان دنوں میں ہے یہ نقشا تِرے سودائی کا

خورشید گہن سے چھوٹ چکا بدلی سے رہائی باقی ہے

خورشید گہن سے چھوٹ چکا بدلی سے رہائی باقی ہے
طوفان سے تو کشتی کھے لائے، ساحل پہ لڑائی باقی ہے
پیروں کی کٹی بیڑی جس دم، قیدی سمجھا، آزاد ہوا
یہ بھول گیا گردن میں ابھی زنجیرِ طلائی باقی ہے
رہرو دونوں خطروں سے اگر بچ نکلا، منزل پائے گا
اب راہزنی تو ختم ہوئی، ہاں راہنمائی باقی ہے

جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے

جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے
اِدھر بھی ہوش کے دشمن، اُدھر بھی دیوانے
کسی میں دم نہیں، اہلِ ستم سے کچھ بھی کہے
ستم زدوں کو ہر اک آ رہا ہے سمجھانے
فصیلِ باغ سے یہ آندھیاں رکیں گی کہیں 
چمن کی سمت بڑھے آ رہے ہیں ویرانے

چھپ کے دنیا سے سواد دل خاموش میں آ

چھپ کے دنیا سے سوادِ دلِ خاموش میں آ
آ یہاں تُو مِری ترسی ہوئی آغوش میں آ
اور دنیا میں تِرا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں
اے مِرے دل کی تمنا لبِ خاموش میں آ
مئے رنگیں! پسِ مِینا سے اشارے کب تک
ایک دن ساغرِ رِندانِ بلا نوش میں آ

Sunday, 22 November 2015

گور میں یاد قد یار نے سونے نہ دیا

گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا
واہ اے طالعِ خفتہ! کہ شبِ عیش میں بھی
وہم بے خوابئ اغیار نے سونے نہ دیا
وا رہیں صورتِ آغوش، سحر تک آنکھیں
شوقِ ہم خوبئ دلدار نے سونے نہ دیا

روز غم میں کیا قیامت ہے شب عشرت کی یاد

روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد
میری حالت دیکھ لو تغیر کتنی ہو چکی
وصل کے دن دم بہ دم کیوں شیشۂ ساعت کی یاد
میں ہوں بیکس اور بیکس پر ترحم ہے ضرور
حسنِ روز افزوں دلا دینا مِری حالت کی یاد

جی داغ غم رشک سے جل جائے تو اچھا

جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا
ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا
پروانہ بنا میرے جلانے کو وفادار
محفل میں کوئی شمع بدل جائے تو اچھا
کس چین سے نظارۂ ہر دم ہو میسر
دل کوچۂ دشمن میں بہل جائے تو اچھا

اس جنبش ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا

اس جنبشِ ابرو کا گِلہ ہو نہیں سکتا
دل گوشت ہے، ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا
کچھ تُو ہی اثر کر، تِرے قربان خموشی
نالوں سے تو کچھ کام مِرا ہو نہیں سکتا
گر غیر بھی ہو وقفِ ستم تو ہے مسلّم
کچھ تم سے بجز جور و جفا ہو نہیں سکتا

خیر جو چاہو وہ لے لو کہیں جھگڑا کیا ہے

خیر جو چاہو وہ لے لو کہیں جھگڑا کیا ہے
دل و جاں دونوں تمہارے ہیں، ہمارا کیا ہے
منہ کو یہ کس لیے آتا ہے کلیجا، کیا ہے
آج او دل کی تڑپ! تیرا ارادہ کیا ہے
کہیں کچھ حسرت و ارماں، کہیں داغِ ہجراں
دیکھو تو سینے کو شق کر کے مِرے کیا کیا ہے

چپ ہے کچھ خون کر کے بسمل کا

چپ ہے کچھ خون کر کے بسمل کا
واہ کیا پوچھنا ہے قاتل کا
ہم بھی اک بندۂ خدا تھے بتو
عشق نے بندہ کر دیا دل کا
کہہ کے وہ اٹھ گئے کہ 'مشکل ہے
'سہل کرنا تمہاری مشکل کا

کام تو ان کی محبت میں ہے ناکام سہی

کام تو ان کی محبت میں ہے ناکام سہی
نام تو عشق کے دفتر میں ہے بدنام سہی
عہد میں تیرے جفا ہی کا وفا نام سہی 
دل دُکھانا جسے کہتے ہیں، وہ آرام سہی
چلتے ہیں پیرِ مغان اور کوئی جام سہی
نقد تو پی ہے بہت، تھوڑی بے دام سہی

اف نہ کی شاکی جفا نہ ہوا

اف نہ کی شاکئ جفا نہ ہُوا
پھر بھی میرا وہ بیوفا نہ ہُوا
ہم سے بیگانہ ہر یگانہ ہوا
آشنا لیکن آشنا نہ ہُوا
ادھر آنے میں کی کمی اس نے
درد کم کم رہا، سوا نہ ہُوا

یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا

فلمی گیت

یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا
دھیرے دھیرے پیار کا بہانہ بن گیا

آپ کے پیار کا کچھ بھروسا نہیں
مار ڈالے نہ ہم کو ادا یہ کہیں
یہ حسیں وادیاں یہ سماں پیار کا
آپ کے دل میں یوں، یوں ہوا کہ نہیں

تمہیں دیکھ کر مجھ کو یوں لگ رہا ہے

فلمی گیت

تمہیں دیکھ کر مجھ کو یوں لگ رہا ہے
کہ جیسے حسینوں کا خدا مل گیا ہے

یہ بوجھل سی پلکیں، یہ متوالی آنکھیں
یہ بے چین دھڑکن، یہ بے تاب سانسیں

محبت کی دیوی تمہارا پجاری
تمہارے سوا کچھ نہیں چاہتا ہے

یہ ایک بات کہ اس بت کی ہمسری بھی نہیں​

یہ ایک بات کہ اس بت کی ہمسری بھی نہیں​
مبالغہ بھی نہیں، محض شاعری بھی نہیں​
ہم عاشقوں میں جو اک رسم ہے مروت کی​
تمہارے شہر میں از راہِ دلبری بھی نہیں​
یہاں ہم اپنی تمنا کے زخم کیا بیچیں
یہاں تو کوئی ستاروں کا جوہری بھی نہیں​

کس وقت اجالا پھیلے گا اے صبح و مسا کی تیرہ شبی

کس وقت اجالا پھیلے گا، اے صبح و مسا کی تیرہ شبی 
کب آئے گا دورِ ساغرِ دل، اے کوثرِ جاں کی تشنہ لبی 
سب سنگ بہ حبیب تھے، سر ہی نہ تھا، زخموں کا کوئی خوگر ہی نہ تھا 
ہر شخص میں تھی درماں طلبی، کیا کج کلہی ، کیا کم لقبی
ہم بات کریں تو کس سے کریں، بنیاد رکھیں تو کس پہ رکھیں 
اے اہلِ ہنر کے عجزِ سخن، اے زندگیوں کی بےسبی 

حصار خود نگراں سے نکل کے دیکھتے ہیں

حصارِ خود نگراں سے نکل کے دیکھتے ہیں
ہم آج انجمنِ جاں میں چل کے دیکھتے ہیں
رکے رکے سے شب و روز، منجمد لمحے
بساطِ زیست کے مہرے بدل کے دیکھتے ہیں
خود اپنے آپ درِ عافیت بھی وا ہو گا
ہم آج اہلِ زیاں خواب کل کے دیکھتے ہیں

شہر خاموش ہے سب نیزہ و خنجر چپ ہیں

شہر خاموش ہے، سب نیزہ و خنجر چپ ہیں
کیسی افتاد پڑی ہے کہ ستم گر چپ ہیں
خوں کا سیلاب تھا، جو سر سے ابھی گزرا ہے
بام و در اب بھی سسکتے ہیں مگر گھر چپ ہیں
چار سو دشت میں پھیلا ہے اداسی کا دھواں
پھول سہمے ہیں، ہوا ٹھہری ہے، منظر چپ ہیں

موسم ہجر ہے اک کوہ گراں کیا سمجھے

موسمِ ہجر ہے اِک کوہِ گراں، کیا سمجھے
عشق ہے کھیل نہیں ہے یہ میاں، کیا سمجھے
جس پہ گزری ہے وہ سمجھے گا گراں بارئ شب
داورِ صبح بجُز آہ و فغاں، کیا سمجھے
محشرِ زخم نمائی میں مسیحائی کیا
نشترِ وقت بَھلا دردِ نہاں، کیا سمجھے

یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے

یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے
تم سیکھ کر یہ خوئے ستم گر کہاں سے آئے
جب تھا محافظوں کی نگہبانیوں میں شہر
قاتل فصیلِ شہر کے اندر کہاں سے آئے
کیا پھر مجھے یہ اندھے کنویں میں گرائیں گے
بن کر یہ لوگ میرے برادر کہاں سے آئے

سفر کی راہ میں اک ریگزار ایسا تھا

سفر کی راہ میں اک ریگزار ایسا تھا
نظر نہ آتا تھا کچھ بھی غبار ایسا تھا
ہمارے قتل میں ہو جیسے ہاتھ اس کا بھی
ہماری موت پہ وہ سوگوار ایسا تھا
اسیرِ دائرۂ کائنات ہی رہی ذات
کسی طرح بھی نہ ٹوٹا حصار ایسا تھا

Friday, 20 November 2015

جب بچھڑتے تو وہ ملنے کی دعا کرتے تھے

جب بچھڑتے تو وہ ملنے کی دعا کرتے تھے
ہم عجب لوگوں کی بستی میں رہا کرتے تھے
راستے سارے تِرے گھر کی طرف جاتے ہیں
ایسے قصے کبھی بچپن میں سنا کرتے تھے
جب سے معصوم ہوئے سارا مزا جاتا رہا
ہم بھی زندہ تھے کبھی ہم بھی خطا کرتے تھے

صدائیں قید کروں آہٹیں چرا لے جاؤں

صدائیں قید کروں، آہٹیں چرا لے جاؤں
مہکتے جسم کی سب خوشبوئیں اڑا لے جاؤں
تِری امانتیں محفوظ رکھ نہ پاؤں گا
دوبارہ لوٹ کے آنے کی بس دعا لے جاؤں
‘کہا ہے دریا نے، ’وہ شرط ہار جائے گا
جو ایک دن میں اسے ساتھ میں بہا لے جاؤں

چلے چلیں گے زمانے کے ساتھ بھی اک دن

چلے چلیں گے زمانے کے ساتھ بھی اِک دن
قبول کرنا پڑے گی یہ مات بھی اِک دن
تماشا دیکھیں گے اس پار بھی کبھی آ کر
ضرور مانیں گے تیری یہ بات بھی اِک دن
یہ روز روز کے مِلنے کی عمر کتنی ہے
نباہ کرنا ہے اوروں کے ساتھ بھی اِک دن

گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے​

گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے​
تمام دریا کسی روز ڈوب جائیں گے ​
دعائیں لوریاں ماؤں کے پاس چھوڑ آئے​
بس ایک نیند بچی ہے، خرید لائیں گے ​
سفر تو پہلے بھی کتنے کئے، مگر اس بار​
یہ لگ رہا ہے تجھ کو بھی بھول جائیں گے ​

یہ درد و غم کا اداس موسم یہ وقت کے اجنبی قرینے

یہ درد و غم کا اداس موسم، یہ وقت کے اجنبی قرینے
نہ یاد محبوب کی گھٹا ہے نہ مست و ساغر بکف مہینے
گلے میں کرنوں کا ہار پہنے یہ کون آیا، یہ کون اترا
پگھل گیا درد کا اندھیرا، چمک اٹھے آرزو کی زینے
مِلا ہے جب کوئی زخم تازہ تو جگمگائے ہیں یوں ارادے
جلا دیا راستوں میں جیسے چراغِ عہدِ وفا کسی نے

پھولوں کے دیے سانولی شاموں کے دھندلکے

پھولوں کے دِیے سانولی شاموں کے دھندلکے
مکتوب چلے آئے ہیں اس جان غزل کے
آوارہ ستاروں کی طرح خواب ہمارے
پچھتائے بہت محفلِ جاناں سے نکل کے
جیسے مِری راتوں کے گل اندام سویرے
چپکے سے گزر جاتے ہیں اب راہ بدل کے

نشاط غم بھی نہیں نغمہ وفا بھی نہیں

نشاطِ غم بھی نہیں، نغمۂ وفا بھی نہیں
گزر رہا ہوں کہاں سے مجھے پتا بھی نہیں
جلا ہے کس کا لہو رات بھر چراغوں میں
غرورِ حسنِ  سحر اب یہ پوچھتا بھی نہیں
اسی نگاہ نے جینا سکھا دیا مجھ کو
مِری حیات کو اب جس کا آسرا بھی نہیں

شب ہجر آہ گزر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا

شبِ ہجر آہ گزر گئی، کہوں کس سے نالہ کدھر گیا
جو گزر گئی وہ گزر گئی، جو گزر گیا وہ گزر گیا
کوئ اپنے بچنے کا ڈھب نہیں، کوئی زندگی کا سبب نہیں
مِرے پاس دل بھی تو اب نہیں، وہ اُدھر گیا، یہ اِدھر گیا
کوئی درد ہو تو دوا کروں، نہ بنے دوا تو دعا کروں
اُسے کیا کہوں، اِسے کیا کروں کہ میں ان کے دل سے اتر گیا

جو لوگ ایک غم اپنا سنانے آتے ہیں

جو لوگ ایک غم اپنا سنانے آتے ہیں
وہ چار غم تِری محفل سے لے کے جاتے ہیں
ہر آدمی سے محبت کی سرگزشت نہ پوچھ
سنائے جانے کے قصے سنائے جاتے ہیں
بَری ہیں پُرسشِ اعمال سے جو دیوانے
تِری نہیں میں نہیں، ہاں میں ہاں ملاتے ہیں

خاموش ترے کوچے میں جایا نہیں جاتا

خاموش تِرے کوچے میں جایا نہیں جاتا
او بھُولنے والے! تُو بھُلایا نہیں جاتا
بدلے غمِ فُرقت کے مجھے مار ہی ڈالو
دو زہر، کہ یہ زہر تو کھایا نہیں جاتا
مجھ سے انہیں سب کچھ ہو محبت تو نہیں ہے
احسان محبت میں جتایا نہیں جاتا

چل دیا وہ رشک مہ گھر اپنا سونا ہو گیا

چل دیا وہ رشکِ مہ، گھر اپنا سونا ہو گیا 
”چار دن کی چاندنی تھی پھر اندھیرا ہو گیا“
پوچھتے کیا ہو کہ تیرا حال یہ کیا ہو گیا
تم نہ جانو تو خدا جانے مجھے کیا ہو گیا
عاشقی میں وہم بڑھتے بڑھتے سودا ہو گیا
قطرہ قطرہ جمع ہوتے ہوتے دریا ہو گیا

بھوک پہنوں میں بھوک اوڑھوں میں بھوک دیکھوں میں پیاس لکھوں

بھوک پہنوں میں بھوک اوڑھوں، میں بھوک دیکھوں، میں پیاس لکھوں
برہنہ جسموں کے واسطے میں خیال کاتوں، کپاس لکھوں
سسک سسک کر جو مر رہے ہیں، میں ان میں شامل ہوں اور پھر بھی
کسی کے دل میں امید بوؤں، کسی کی آنکھوں میں آس لکھوں
لہو کے قطرے بدن کے طائر، ہر ایک خواہش ہے شاخ میری
کسی زباں میں مہک اگاؤں، کسی کے لب پر مٹھاس لکھوں

غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا

غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا
کسی قیدی کا نہ کردار مثالی نکلا
چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا
صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا
سب کی شکلوں میں تِری شکل نظر آئی مجھے
قرعۂ فال مِرے نام پہ گالی نکلا

غم عشق اگر ملا تھا تو کبھی قرار ہوتا

غمِ عشق اگر ملِا تھا تو کبھی قرار ہوتا
کوئی زور دل پہ ہوتا، کوئی اختیار ہوتا
وہ کہیں اگر سرہانے دمِ احتضار قرار ہوتا
تو یقین تھا کہ مرنا مِرا یادگار ہوتا
مِرے بعد جمع کرتے وہ خطوطِ شوق میرے
یہ صحیفۂ محبت کبھی یادگار ہوتا

کیا آپ نے بھی ہجر کے بیمار کو دیکھا

کیا آپ نے بھی ہجر کے بیمار کو دیکھا
سنتے ہیں دعا مانگتے اغیار کو دیکھا
ہنگامہ یہ دیکھے ہوئے ہیں کون اٹھے گا
محشر کو نہ دیکھا، تِری رفتار کو دیکھا
دیں ابرِ کرم نے تِرے دامن کی ہوائیں
جب غرق غرق اپنے گنہ گار کو دیکھا

Thursday, 19 November 2015

پیر گلشن شاہ سے بیعت ہیں آپ

آپ کی تعریف

پیر گلشن شاہ سے بیعت ہیں آپ 
سونگھتے ہیں پھول کھاتے کچھ نہیں 
جھوٹ ہے پیتے پلاتے کچھ نہیں 
خلوتوں میں مرغ و ماہی کے سوا 
کر چکے ہیں ترک حیوان و غذا 

میں پڑوسی ہوں بڑے دیندار کا

میں پڑوسی ہوں بڑے دیں دار کا
کیا بگڑتا ہے مگر مے خوار کا
ہم وطن کے ہیں، وطن سرکار کا
حکم چلتا ہے مگر زردار کا
خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے
“کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا”

وہ اعتماد خوئے ستم بھی بہانہ سا

وہ اعتمادِ خوئے ستم بھی بہانہ ساز 
بے چارگئ کرب و الم بھی بہانہ ساز
کچھ بت بنا لیے ہیں چٹانیں تراش کر
دل بھی بہانہ ساز ہے، غم بھی بہانہ ساز
عذرِ وفا کے ساتھ جلاتے رہے چراغ
کھلتا ہے اب کہ دیدۂ نم بھی بہانہ ساز

بیٹھے ہوئے ایک ایک کا منہ دیکھ رہے ہیں

بیٹھے ہوئے ایک ایک کا منہ دیکھ رہے ہیں
کہتے پھریں کس کس سے، جو دُکھ ہم نے سہے ہیں
جی کو تو وہ اچھے لگے پر ان کی عنایت
دُکھ ان سے بھلے ہیں کہ مِرے ساتھ رہے ہیں
کب تم سے گِلہ ہم نے کیا کم نِگہی کا
ہاں دیکھنے والوں نے کچھ افسانے کہے ہیں

میں شعلہ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک

میں شعلۂ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک
وسعت مِرِی دیکھو تو ہے دیوارِ، ابد تک
ماحول میں سب گھولتے ہیں اپنی سیاہی
رخ ایک ہی تصویر کے ہیں نیک سے بد تک
کچھ فاصلے ایسے ہیں جو طے ہو نہیں سکتے
جو لوگ کہ بھٹکے ہیں، وہ بھٹکیں کے ابد تک

کفر کا رنگ جھلکتا ہے نہ اسلام کا رنگ

کفر کا رنگ جھلکتا ہے نہ اسلام کا رنگ
کچھ عجب ہے میرے افکار کے اصنام کا رنگ
چند افراد یہاں رنگوں کے سوداگر ہیں
کتنے چہرے ہیں کہ جن پر ہے فقط نام کا رنگ
منجمد غم کی فصیلوں میں گھِرے ہیں ہم لوگ
دل کے آئینے میں ہے حسرتِ ناکام کا رنگ

درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ

درد بڑھتا ہی رہے، ایسی دوا دے جاؤ
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلہ دے جاؤ
یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ
ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے
ناامیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ

میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غمخواروں میں

میری قسمت کہ وہ اب ہیں مِرے غمخواروں میں
کل جو شامل تھے تِرے حاشیہ برداروں میں
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں

کلام کرتی نہیں میری چشم تر جیسے

کلام کرتی نہیں میری چشم تر جیسے
تمہیں نہیں ہے مِرے حال کی خبر جیسے
کہیں جہاں میں سُکھ بھی نہیں ہے گھر جیسا
کہیں جہاں میں دُکھ بھی نہیں ہیں گھر جیسے
چلا ہے اس کی گلی کو اسی طرح انورؔ
سحر کو لوگ روانہ ہوں کام پر جیسے​

زیست نعمت نہ سہی وقت کی گردش ہی سہی

زیست نعمت نہ سہی، وقت کی گردش ہی سہی
ابرِِ رحمت نہ سہی، آتشِ شورش ہی سہی
دل مِرا آپ کا ہے، جان مِری آپ کی ہے
آپ کو مجھ سے سدا کے لیے رنجش ہی سہی
زیست میں آ کے مِری مجھ کو پرکھ لے اک بار
حکم تو چلتا نہیں تجھ پہ، گزارش ہی سہی

سب کی آنکھوں میں نظر آتی ہے صورت میری

سب کی آنکھوں میں نظر آتی ہے صورت میری
کتنے سانچوں میں ڈھلی، ایک محبت میری
تیرا پردہ ہی نہیں، میں تِرا اظہار بھی ہوں
تیری ہستی سے نمایاں ہے حقیقت میری
تجھ سے کچھ بھی نہیں کہوں، اپنی وفاؤں پہ ہنسوں
تیری بے گانہ روی اور اذیت میری

کیا جانے ذوق و شوق کے بازار کیا ہوئے

کیا جانے ذوق و شوق کے بازار کیا ہوئے
یوسفؑ پکارتا ہے، خریدار کیا ہوئے
گستاخئ نگاہِ تمنا کدھر گئی
تعزیرِ درد کے وہ سزاوار کیا ہوئے
صبر آزما وہ شوقِ نظارہ کہاں گیا
آسودگانِ سایۂ دیوار کیا ہوئے

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں
اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں، آہوں میں اشارا کرتے ہیں
کیا تجھ کو پتہ، کیا تجھ کو خبر، دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکلِ گیتی، ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں
اے موجِ بلا! ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں

مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا

مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر، راہ پر آنا نہیں آتا
ازل سے تیرا بندہ ہوں، تِرا ہر حکم آنکھوں کا
مگر، فرمانِ آزادی بجا لانا نہیں آتا

چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا

چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
دلیلِ راہِ محبت ہے فیصلہ دل کا
ہوائے کوچۂ قاتل سے بس نہیں چلتا
کشاں کشاں لیے جاتا ہے ولولہ دل کا
گِلہ کسے ہے کہ قاتل نے نِیم جاں چھوڑا
تڑپ تڑپ کے نکالوں گا حوصلہ دل کا

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھِرتے ہیں 
وہ تو بے چارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھِرتے ہیں 
جن گلیوں میں ہم نے سُکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں 
اُن گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھِرتے ہیں 
رُوپ سرُوپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے 
چاروں کھونٹ بگولے بن کر گھور اندھیرے پھِرتے ہیں 

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہِیں لہرائے

دن ڈھلا، شام ہوئی، پھول کہِیں لہرائے
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے
وہ کڑی دھوپ کے دن، وہ تپشِ راہِ وفا
وہ سوادِ شبِ گیسُو کے گھنیرے سائے
دولتِ طبعِ سخن گو ہے امانت اس کی
جب تِری چشمِ سخن ساز طلب فرمائے

ریت کی طرح کناروں پہ ہیں ڈرنے والے

ریت کی طرح کناروں پہ ہیں ڈرنے والے
موج در موج گئے پار اترنے والے
آج کانٹوں سے گریبان چھڑائیں تو سہی
لالہ و گل پہ کبھی پاؤں نہ دھرنے والے
روپ سے، چھب سے، پھبن سے کوئی آگاہ نہیں
نقش کارِ لب و عارج ہیں سنورنے والے

غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی

غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی
شب کوئی بے سحر نہیں ہوتی
فرق ہے شمع و جلوہ میں ورنہ
روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی
یا مِرا ظرفِ کیف بڑھ جاتا
یا شراب اس قدر نہیں ہوتی

پوچھیں ترے ظلم کا سبب ہم

پوچھیں تِرے ظلم کا سبب ہم
اتنے تو نہیں ہیں بے ادب ہم
الزام نہیں ہے فصلِ گل پر
خود اپنے جنوں کا ہیں سبب ہم
مافوقِ حدودِ جستجو تم
آوارۂ منزلِ طلب ہم

لرز لرز کے دل ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے

لرز لرز کے دلِ ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے
فراقِ ساز، کہیں روحِ نغمہ مر ہی نہ جائے
اتار لے کسی شیشے میں ساعتِ نغمہ
صدائے قافلۂ گل کہیں بکھر ہی نہ جائے
سنا بھی دے کدی گل کو فسونِ تنہائی
رہِ خیال سے یہ کارواں گزر ہی نہ جائے

درس آداب جنوں یاد دلانے والے

درس آداب جنوں یاد دلانے والے
آ گئے پھر مِری زنجیر ہلانے والے
کس طرح کھوئے گئے عکسِ رواں کی صورت
شہرِ حیراں میں تِرا کھوج لگانے والے
خمِ محراب پہ صدیوں کی سیہ گرد بھی دیکھ
طاقِ ویراں میں لہو اپنا جلانے والے

شکستہ پا ہیں مگر پھر بھی چلتے جاتے ہیں

شکستہ پا ہیں مگر پھر بھی چلتے جاتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں، گر کر سنبھلتے جاتے ہیں
عجب نہیں کہ نظامِ جہاں بدل جائے
خیال و حرف کے رشتے بدلتے جاتے ہیں
کوئی بچا نہیں پاتا ہے اپنی ہستی کو
سبھی اسی کی تمنا میں ڈھلتے جاتے ہیں

ظرف عالی ہوں کہ بھر کر بھی کبھی چھلکا نہیں

ظرفِ عالی ہوں کہ بھر کر بھی کبھی چھلکا نہیں
ہوں وہ دریا جو کناروں پہ کبھی بہتا نہیں
ہوں وہ پیمانہ کہ محفل جس کو ہاتھوں ہاتھ لے
میں وہ نشہ ہوں جو سر چڑھ کر کبھی اترا نہیں
کشتِ ہستی! تُو مجھے پہچان، تیری آس ہوں
میں وہ بادل ہوں جو اب تک ٹوٹ کر برسا نہیں

دنیا دنیا سیر سفر تھی شوق کی راہ تمام ہوئی

دنیا دنیا سیر سفر تھی، شوق کی راہ تمام ہوئی
اُس بستی میں صبح ہوئی تھی، اِس بستی میں شام ہوئی
موسم بدلے، دل کا سورج دکھ کی گھٹا میں ڈوب گیا
پیار کے لیل و نہار نہ پوچھو شام سے پہلے شام ہوئی
درد کی برکھا ٹوٹ کے برسی، پھوٹ بہے پلکوں کے بند
اس بارش میں وضعِ وفا کی ہر کوشش ناکام ہوئی

زہر ان کے ہیں مرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے

زہر ان کے ہیں مِرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے
یہ تو سب اپنے ہیں زیرِ آستیں پالے ہوئے
ان کے بھی موسم ہیں، ان کے بھی نکل آئیں گے ڈنک
بے ضرر سے اب جو بیٹھے ہیں سپر ڈالے ہوئے
بڑھ کے جو منظر دکھاتے تھے کبھی سیلاب کا
گھٹ کے وہ دریا، زمیں پر رینگتے نالے ہوئے

راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے

راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے
ہاں راہروِ مراد! قدم رکھ سنبھال کے
فتنوں کو دیکھ، اپنے قدم روک، بیٹھ جا
راتیں یہ آفتنوں کی ہیں، یہ دن وبال کے
لمحوں کی لے پہ گزری ہیں راتیں نشاط کی
کس دُھن میں دن کٹیں گے یہ رنج و ملال کے

الجھے الجھے دھاگے دھاگے سے خیالوں کی طرح

الجھے الجھے دھاگے دھاگے سے خیالوں کی طرح
ہو گیا ہوں ان دنوں تیرے سوالوں کی طرح
اپنے دل کی وسعتوں میں ہر طرف بھٹکا پھرا
بے کراں، روشن سرابوں میں غزالوں کی طرح 
یہ مِرا احساس ہے، یا جبرِ مسلسل کا اثر
اب کی رت مہکے نہیں گل پچھلے سالوں کی طرح

کوئی کلی ہے نہ غنچہ نہ گل برائے صبا

کوئی کلی ہے نہ غنچہ نہ گل برائے صبا
چمن میں کانٹے ہیں، دامن بچا کے آئے صبا
نہ اب طلسمِ بہاراں، نہ اب فسونِ جمال
وہ لمحے خواب ہوئے، خواب بھول جائے صبا
کبھی فضاؤں میں خوشبو اڑائے پھرتی تھی
مگر یہ دن کہ بہاروں میں خاک اڑائے صبا

راز دل جو تری محفل میں بھی افشا نہ ہوا

رازِ دل جو تِری محفل میں بھی افشا نہ ہوا
یا سرِ دار ہوا، یا سرِ مے خانہ ہوا
ایک ہم ہیں کہ تصور کی طرح ساتھ رہے
ایک تُو ہے کہ جو خلوت میں بھی تنہا نہ ہوا
کیا بھروسا ہے تِرے لطف و کرم کا اے دوست
جس طرح سایۂ دیوار ہوا یا نہ ہوا

کیسے بند ہوا میخانہ اب معلوم ہوا

کیسے بند ہوا مے خانہ اب معلوم ہوا
پی نہ سکا کم ظرف زمانہ، اب معلوم ہوا
اب ہوش آیا، حالِ زمانہ، اب معلوم ہوا
سب فرزانے، میں دیوانہ، اب معلوم ہوا
محفل خوش کیوں تھی، یہ حقیقت اب معلوم ہوئی
درد بھرا پنا افسانہ، اب معلوم ہوا

ان تلخ آنسوؤں کو نہ یوں منہ بنا کے پی

ان تلخ آنسوؤں کو نہ یوں منہ بنا کے پی
یہ مے ہے خود کشید، اسے مسکرا کے پی
اتریں گے کس کے حلق سے یہ دلخراش گھونٹ
کس کو پیام دوں، کہ مِرے ساتھ آ کے پی
مشروب جامِ جَم نہیں، غم ہے تِرا علاج
 شیرینئ کلام  سے شیریں بنا کے پی

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
بہ حالِ گمرہی پایا گیا ہوں
حرم سے دَیر میں لایا گیا ہوں
بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہوں

Tuesday, 17 November 2015

گناہ کیا ہے حرام کیا ہے حلال کیا ہے سوال یہ ہے

گناہ کیا ہے، حرام کیا ہے، حلال کیا ہے، سوال یہ ہے 
مجھے محبت سے کوئی روکے مجال کیا ہے، سوال یہ ہے 
وفا بھی میری، ادا بھی میری، دغا بھی میری، جفا بھی میری 
تو پھر محبت میں یار تیرا کمال کیا ہے، سوال یہ ہے 
ہیں بال بکھرے، ہے چال بہکی، یہ کون ہے آئینے میں میرے  
اور اس سے بڑھ کر کہ اسکے گالوں پہ لال کیا ہے، سوال یہ ہے

بغاوتیں بھی بہت بے وفائیاں بھی بہت

بغاوتیں بھی بہت، بے وفائیاں بھی بہت
محبتیں یوں تمہاری نباہیاں بھی بہت
وہی جو ہم نے سہی بے وفائی وہ سہتا
مِرے رقیب سے ہیں میری بھلائیاں بھی بہت
بہت سی حسرتیں بوڑھی ہوئی ہیں گھر بیٹھے
مگر کہ وقت پہ ہم نے بیاہیاں بھی بہت

لگا ہے جان کو جو روگ جانے والا نہیں

لگا ہے جان کو جو روگ جانے والا نہیں
مجھے پتہ ہے کہ اب تُو منانے والا نہیں
مکانِ دل میں کوئی آ کے بس گیا آسیب
وہ جانتا ہے یہاں کوئی آنے والا نہیں
مجھے لگا تھا وہ سب کچھ بھلا کے آئے گا
مجھے نہیں تھا پتہ وہ بھلانے والا نہیں

نگاہیں مست آنکھیں مست لب سرشار ساقی ہے

نگاہیں مست آنکھیں مست لب سرشار ساقی ہے
قلندر مست ہر دم ہے کہ اب یار ساقی ہے
ادائیں مست، چہرہ مست، زلفیں بھی مہکتی ہیں
کہاں مے کی ضرورت ہے، جہاں عیار ساقی ہے
کشش دونوں کی بڑھ کر ہے نجانے دل کدھر جائے
سرِ مئے خانہ ساغر ہے، سرِ دربار ساقی ہے

کبھی خود شمع ہوتا ہے کبھی پروانہ ہوتا ہے

کبھی خود شمع ہوتا ہے کبھی پروانہ ہوتا ہے
تِرا دیوانہ اے جاناں! بڑا مستانہ ہوتا ہے
عجب انداز کے جلوے دکھاتا ہے تُو ہر لمحہ
کہیں پہ کعبہ ہوتا ہے، کہیں بت خانہ ہوتا ہے
خدا محفوظ رکھے تیری آنکھوں کا نشہ ساقی
شرابِ عشق کا ہر دَم یہ مئے خانہ ہوتا ہے

کبھی در در پھراتا ہے کبھی در پر نچاتا ہے

کبھی در در پھراتا ہے کبھی در پر نچاتا ہے
صنم پردے کے اندر ہے، مجھے باہر نچاتا ہے
نشیلی آنکھ اس کی ہے، شرابی چال اس کی ہے
اسی آنکھوں کی مستی میں مجھے ساغر نچاتا ہے
عجب انداز سے وہ خوں بہاتا ہے مِرے دل کا
نظر سے قتل کرتا ہے، چھُپا خنجر نچاتا ہے

سینکڑوں آ کے رہے دل میں گماں ساری رات

سینکڑوں آ کے رہے دل میں گماں ساری رات
سچ کہو، تم نے گزاری ہے کہاں ساری رات
ہر نفس پر تِری آہٹ کا گماں ساری رات
دل رہا ہے تِری جانب نگراں ساری رات
جستجو میں تِری تھک ہار کے بیٹھا نہ گیا
دل جو دھڑکا، تو رہے اشک رواں ساری رات

چھین لیں دل وہ مرا فکر ادھر ہے تو یہی

چھین لیں دل وہ مِرا فکر ادھر ہے تو یہی
ان کا منشائے نظر کوئی اگر ہے تو یہی
وہ ضرور آئیں گے، گزریں گے ادھر سے اک دن
مجھ کو امید سرِ راہگزر ہے تو یہی
ان کا دیدار کہیں ہو، وہ کہیں مِل جائیں 
رات دن کوئی تقاضائے نظر ہے تو یہی

Monday, 16 November 2015

ایسے پت جھڑ میں کہاں کوئی ٹھکانا اپنا

ایسے پت جھڑ میں کہاں کوئی ٹھکانا اپنا
اب وہ پتے ہیں نہیں جن پہ تھا تکیا اپنا
صبح ہو جائے گی اپنی بھی بہا کر آنسو
شمع کی طرح ہے شب بھر کا فسانا اپنا
مدتوں سے ہمیں اپنی بھی نہ پہچان رہی
جانے کس طاق پہ رکھ آئے ہیں چہرا اپنا

کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا

کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا
یہاں تلک کا سفر ہم نے پا پیادہ کیا
جہاں پہ دیکھے قدم اپنے کچھ بھٹکتے ہوئے
وہیں ٹھہر کے فروزاں چراغِ بادہ کیا
لباس بدلے نہیں ہم نے موسموں کی طرح
کہ زیب تن جو کیا ایک ہی لبادہ کیا

دیا جلے ساری رات

گیت

دِیا جلے ساری رات
جل جل جائے، نِیر بہائے، مجھ بِرہن کے ساتھ
دِیا جلے ساری رات

پہنے سر پر تاج اگن کا
بھیدی میرے دُکھیا من کا
لایا اس اندھیارے گھر میں اشکوں کی سوغات
دِیا جلے ساری رات

آ میرے پیار کی خوشبو منزل پہ تجھے پہنچائے

آ میرے پیار کی خوشبو، منزل پہ تجھے پہنچائے
چلتا چل ہمراہی، میری زلف کے سائے سائے

سورج کی طرح میں چمکوں
پر مجھ میں دھوپ نہیں ہے 
جو شعلہ بن کر لپکے
میرا ایسا روپ نہیں ہے 
جو نظروں کو جھلسائے

کیسے گزر گئی ہے جوانی نہ پوچھیے

کیسے گزر گئی ہے جوانی نہ پوچھیے
دل رو رہا ہے کیوں، یہ کہانی نہ پوچھیے
برباد کر دیا ہے دلِ داغدار نے
میری کہانی میری زبانی نہ پوچھیے
کیا پوچھتے ہو عشق میں ہم کیسے لٹ گئے
یہ ہو چکی ہے بات پرانی نہ پوچھیے

دھوپ کے سائے شام دلہن کی طرح

 دھوپ کے سائے


شام دلہن کی طرح

اپنے رنگوں میں نہائی ہوئی شرمائی ہوئی بیٹھی ہے

گوشۂ چشم سے کاجل کی سیاہی ابھی آنسو بن کر

بہتے غازے میں نہیں جذب ہوئی

ابھی کھوئی نہیں بالوں کی دل افروز پریشانی میں

مسکراتی ہوئی سیندور کی مانگ

شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں

شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں
سب کچھ ملا ہے ایک خوشی کے سوا ہمیں
رہزن کہاں کہ شومئ تقدیر جانتے
رستے میں مل گیا تھا کوئی خضرؑ سا ہمیں
زنجیرِ پا بنے گی یہ خوشبوئے گل کبھی
وارفتگی میں دھیان کب اتنا رہا ہمیں

جبیں کا چاند بنوں آنکھ کا ستارا بنوں

جبیں کا چاند بنوں آنکھ کا ستارا بنوں
کسی جمالِ شفق تاب کا سہارا بنوں
محبتوں کی شکستوں کا اک خرابہ ہوں
خدارا! مجھ کو گراؤ کہ میں دوبارا بنوں
یہ بھیگی بھیگی ہواؤں کی سرد سرد مہک
جو دل کی آگ میں اترے تو کچھ گوارا بنوں

کچھ کم تو نہیں تھے ہم بھی کسی اعتبار سے

کچھ کم تو نہیں تھے ہم بھی کسی اعتبار سے
خم کھا گئے اپنی شکستوں کے بار سے
کس کو ہے اب دماغ تمنائے رنگ و بو
نادم ہیں دل کے جذبۂ بے اختیار سے
کوئی سکون پا نہ سکے جس کی چھاؤں میں
کیا فائدہ ہے اس شجرِ سایہ دار سے

اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول

فلمی گیت

اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
دوجے کے ہونٹوں پر دے کر اپنے گیت
کوئی نشانی چھوڑ، پھر دنیا سے ڈول

اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول

یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے

فلمی گیت

چلتے چلتے، یونہی کوئی مل گیا تھا
سرِ راہ چلتے چلتے
وہیں تھم کے رہ گئی ہے
میری رات ڈھلتے ڈھلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا 

دور دور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے

دُور دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
ہر قدم ہے نقشِ دل، ہر نگہ رگِ جاں ہے
بن گئی ہے مستی میں دل کی بات ہنگامہ
قطرہ تھی جو ساغر میں لب تک آ کے طوفاں ہے
ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے

اہل طوفاں آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں

اہلِ طوفاں آؤ! دل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسو، بھنور کو چشم جاناناں کہیں
دار پر چڑھ کر لگائیں نعرۂ زلف صنم 
سب ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دیوانہ کہیں
یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اس کے حضور
زندگی کو دل کہیں اور دل کو نذرانہ کہیں

کیوں دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو

کیوں دِلا! ہم ہوئے پابندِ غمِ یار کہ تُو
اب اذیت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تُو
ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا
جا کے ہم روتے ہیں پہروں پسِ دیوار کہ تُو
ہاتھ کیوں عشقِ بتاں سے نہ اٹھایا تُو نے
کفِ افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تُو

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
آوارۂ وطن کو لگے خوش وطن کی بات
مت پوچھ حال اپنے تُو بیمارِ عشق کا
ہونے لگی اب اس کی تو گور و کفن
عیش طرب کا ذکر کروں کیا میں دوستو
مجھ غم زدہ سے پوچھئے رنج و محن کی بات

دار تک آئے حریم لب و رخسار سے لوگ

دار تک آئے حریم لب و رخسار سے لوگ
باخبر کتنے ہیں حالات کی رفتار سے لوگ
دوست بن جاتے ہیں پیرایۂ اظہار سے لوگ
زخم دینے کو بھی آتے ہیں بڑے پیار سے لوگ
پرسشِ غم سے نئے زخم کھلا دیتے ہیں
یہ سبک چہرہ، یہ معصوم، یہ غمخوار سے لوگ

کہیں تو عشق کی آوارگی کو رنگ ملے

کہیں تو عشق کی آوارگی کو رنگ ملے
دیارِ گل نہیں ملتا، دیارِ سنگ ملے
ہمارے خون میں نہا کر بہار جب گزری
دھواں دھواں تھے جو چہرے وہ رنگ رنگ ملے
تِری گلی میں نہ جائیں تو پھر کہاں جائیں
وہ لوگ، وسعتِ صحرا بھی جن کو تنگ ملے

بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے

بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے
تم یاد آئے اور تمہارے ساتھ زمانے یاد آئے
دل کا چمن شاداب تھا پھر بھی خاک سی اڑتی رہتی ہے
کیسے زمانے، اے غمِ جاناں! تیرے بہانے یاد آئے
ہنسنے والوں سے ڈرتے تھے چھپ چھپ کر رو لیتے تھے
گہری گہری سوچ میں ڈوبے دو دیوانے یاد آئے

نہ ابر ہے نہ ہوا نیند کیوں نہیں آتی

نہ ابر ہے نہ ہوا نیند کیوں نہیں آتی
برس چکی ہے گھٹا، نیند کیوں نہیں آتی
نئے نئے تھے جدائی کے دن تو بات بھی تھی
وہ دور بیت چکا،  نیند کیوں نہیں آتی
بچھڑ بھی جاتے ہیں دنیا میں چاہنے والے
چلو ہوا سو ہوا،  نیند کیوں نہیں آتی

جب یہ جان حزیں وقف آلام ہوئی

جب یہ جانِ حزیں وقفِ آلام ہوئی 
وہ ساعت کیسے کیسے بدنام ہوئی
دل میں میٹھے میٹھے درد کے پھول کھلے 
پھر یادوں کی ہوا چلی پھر شام ہوئی
تیری خاطر تیرا نام نہ لیتے تھے 
لیکن چپ کی بات بہت بدنام ہوئی

زخم سینے کے دھو لئے جائیں

زخم سینے کے دھو لیے جائیں
چار آنسو ہیں، رو لیے جائیں
اس کی چھاگل میں آبِ لمس نہیں
جان سے ہاتھ دھو لیے جائیں
زندہ ہونا کچھ اور ہوتا ہے
سانس لیتے ہیں، سو لیے جائیں

بھیدی تو یہیں گھر کے مکینوں میں ملے گا

بھیدی تو یہیں گھر کے مکینوں میں ملے گا
طوفان بہرحال سفینوں میں ملے گا
سجدے جو چکائے ہیں غلط نقشِ قدم پر
اک داغ بھی تابندہ جبینوں میں ملے گا
سنتا ہوں کہ قائل ہے مِری طنز کا وہ بھی
ڈوبا ہوا ہر وقت پسینوں میں ملے گا

ہاتھ بندھے ہیں آنکھ مندی ہے لیکن اس سے حاصل کیا

ہاتھ بندھے ہیں، آنکھ مُندی ہے لیکن اس سے حاصل کیا
خون اگر حِدت رکھتا ہو، مقتل کیا ہے قاتل کیا
پیروں میں دو چار پھپھولے، سر میں تھوڑی گردِ سفر
وحشت کو اتنا ہی بہت ہے، بنجاروں کی منزل کیا
مٹی اور پسینہ مل کر خوشبو دینے لگتے ہیں
یوں سب کو مٹی ہونا ہے، عالم کیا اور جاہل کیا

بیمار انا کے ہاتھوں میں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں

بیمار انا کے ہاتھوں میں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں
ان کے ہی محلوں میں پل کر بچے موسیٰؑ بن جاتے ہیں
ہم سجدے میں جھک جاتے ہیں چاہے گردن پر خنجر ہو
اپنا سر اونچا رکھنے کو خود ہی نیزہ بن جاتے ہیں
یہ سیلِ فنا، وہ جوشِ نمو، پیہم آویزش دونوں میں
جنگل میں بستی اگتی ہے، قریے صحرا بن جاتے ہیں

تیغ میری نوادرات میں ہے

تیغ میری نوادرات میں ہے
اور کشکول میرے ہات میں ہے  
زخم کھاتا ہوں، مسکراتا ہوں
وار کرنا تِری صفات میں ہے
ہو رہا ہے غروب اِک سورج
ایک سکتہ سا کائنات میں ہے

چاند نے دیکھا ہے جب ہنستا ہوا چہرا ترا

چاند نے دیکھا ہے جب ہنستا ہوا چہرا تِرا
ہر حسیں چہرے سے پھر کرنے لگا چرچا تِرا
چودھویں شب چھوڑئیے میں نے تو پہلی شام سے
جب بھی دیکھا چاند کو، دیکھا ہے بس چہرا تِرا
چاند جیسا کوئی دنیا میں حسیں ہوتا نہیں تِرا
مجھ کو لیکن چاند پر بھی ہو گیا دھوکا تِرا

ہاں ہمیں ہے غرور کہتے ہیں

ہاں ہمیں ہے غرور کہتے ہیں
تجھ کو اپنا حضور کہتے ہیں
کوئی کہتا نہیں خدا بت کو
عشق والے ضرور کہتے ہیں
وہ نشہ چھا گیا تِرا جانم
عشق کو اب سرور کہتے ہیں

حریم دل میں بھی تو ہے سر بازار بھی تو ہے

حریم دل میں بھی تُو ہے سر بازار بھی تُو ہے
کبھی بندہ کبھی مولیٰ کبھی دلدار بھی تُو ہے
تِرے ہی ذات میں گم ہے مِرے سجدوں کی عظمت بھی
تِری سرکار کا میں ہوں، مِری سرکار بھی تُو ہے
تجھے سوچوں تجھے دیکھوں تجھے پوجوں تجھے ڈھونڈوں
مِرا مرشد بھی اب تُو ہے، مِرا اب یار بھی تُو ہے