Monday, 30 November 2015
مجھ کو بہ جان و دل قبول نغمے کو نغمہ ہی سمجھ
جور و جفائے حسن بھی عشق کے حق میں کم نہیں
ہر چوٹ ابھر سی جاتی ہے ہر زخم ہرا ہو جاتا ہے
اے موت انہیں بھلائے زمانے گزر گئے
دل کو تسکین یار لے ڈوبی
ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گلہ بھی ہے
جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں
تخت نشین تھی عشق کی پھر بھی دل کی بازی ہاری سائیں
کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں میں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت
Sunday, 29 November 2015
تجھ میں پڑا ہوا ہوں میں پھر بھی جدا سمجھ مجھے
روپ بدل کر جانے کس پل کیا بن جائے مائے نی
ہم سے تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
غم رہا جب تک کہ دم ميں دم رہا
نکلوں جو یہاں سے تو بھلا جاؤں کہاں اور
پاس ادب ہے اس لیے ہم بولتے نہیں
مفت بازار محبت میں تماشا نہ بنے
زندگی گزرتی ہے یوں کبھی کبھی تنہا
دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا
تمہارا وعدہ خدائی قرار تھوڑی ہے
دیار شب کا مقدر ضرور چمکے گا
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
آنکھوں کے سامنے کوئی منظر نیا نہ تھا
محو کمال آرزو مجھ کو بنا کے بھول جا
محوِ کمالِ آرزو مجھ کو بنا کے بُھول جا
اپنے حریمِ ناز کا پردہ اُٹھا کے بھول جا
جلوہ ہے بے خودی طلب عشق ہے ہمت آزما
دیدۂ مست یار سے آنکھ مِلا کے بھول جا
لطفِ جفا اسی میں ہے یادِ جفا نہ آئے پھر
تجھ کو ستم کا واسطہ مجھ کو مِٹا کے بھول جا
موزوں کلام باعث لطف و سرور ہے
موزوں کلام باعثِ لطف و سرور ہے
لیکن بہ قصدِ لاف تعقل فتور ہے
تہذیبِ فکر کے لٰے رہبر ضرور ہے
دستِ سخن میں خضرِ سخنور شعور ہے
حاصل ہو ذہن کو جو ہدایت شعور سے
ظلمت کدے خیال کے بھر جایں نور سے
خود مست ہوں خود سے آ ملا ہوں
مہک سے اپنی گل تازہ مست رہتا ہے
کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
زندانیان شام و سحر خیریت سے ہیں
میاں دل تجھے لے چلے حسن والے
عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
ہیں گرچہ یاں تو اور بھی محبوب خوب خوب
تلاش رزق میں جائیں تو ہم کہاں جائیں
آئی ہوئی ہے خوف کی اک لہر ان دنوں
غریب شہر نے جب بھی بلند کی آواز
دیر سے آنے نہ آنے کا سبب کیا پوچھنا
کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے
کہاں کہاں نہ ہوا لے گئی اڑا کے مجھے
وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا نظارا ہے
خدا کی دین ہے وہ عجز عشق بھی جس میں
Saturday, 28 November 2015
کیا ہوا ایسا تمہارے شہر میں
کیا ہُوا ایسا تمہارے شہر میں
میرا ہے چرچا تمہارے شہر میں
میری دل پُری کی خاطر ہی سہی
کوئی تو ہوتا تمہارے شہر میں
ہو گئی مسدُود ہر راہ فرار
حشر وہ اُٹھا تمہارے شہر میں
آج کس مست کی رخصت ہے مے خانے سے
جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
لے کے دل مہر سے پھر رسم جفا کاری کیا
کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب
اکیلے پن کے اسی بے کنار صحرا میں
Friday, 27 November 2015
اللہ کرے کہ کوئی بھی میری طرح نہ ہو
ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح
حیا سے ٹوٹ کے آہ کانپتی برسات آئی
آج اقرارِ جرم کر ہی لیں وہ رات آئی
دھنک سے رنگ لیے بجلیوں سی آنکھوں میں
کیسی معصوم امنگوں کی یہ بارات آئی
تمام دوڑے سائے وہیں پہ ٹھہر گئے
جھجک جھجک کے لرزتی جہاں یہ بات آئی
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے
چشم ساقی سے جس نے جام لیا
کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا
ہمیں تو پہلے ہی اس کی ادا نے لوٹ لیا
نگہ کے ٹھگ کی لگاوٹ نے فن سے کر غافل
ہنسی نے ڈال دی پھانسی، دعا نے لوٹ لیا
وفا جفا نے یہ کی جنگ زرگری ہم سے
وفا نے باتوں میں لگایا، جفا نے لوٹ لیا
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
پیدا ہوئے ہیں چاہنے والے نئے نئے
جیسے ہم بزم ہیں پھر یار طرحدار سے ہم
مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے
شہر یاراں آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر
دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہ مجھے سہی مرا عکس ہی کبھی دیکھ دل میں اتار کے
جو غرق کر دے اسے ناخدا کہیں کیسے
کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی
عمل سے پہلے عمل کا اصول یاد بھی ہے
اک غم عشق ہی کب ہے ہمیں غم اور بھی ہیں
صرف معشوق نہیں، اہلِ ستم اور بھی ہیں
تُو نہ ہوتا تو کہاں آتا یہ اندازِ سخن
بے وفائی ہی نہیں، تیرے کرم اور بھی ہیں
تیرے لوٹ آنے کی رکھیں گے نہ کوئی امید
پالنے ہوں گے بھرم ہی تو بھرم اور بھی ہیں
حقیقتوں سے جو نکلے تو خواب تک پہنچے
جو ہو سکے تو کبھی قید جسم و جاں سے نکل
کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے
کب تک سیج رہے کی سونی پھول یونہی کمہلائیں گے
مجھے یاد کرنے والو کبھی میرے پاس آؤ
مدت سے ڈھونڈتی ہے کسی کی نظر مجھے
عاشق ہوئے جس بت کو تھے نادان سمجھ کر
رکھ پاؤں سر گور غریبان سمجھ کر
انہیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرز جفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
یہ رنگِ بے کسی، رنگِ جنوں بن جائے گا غافل
سمجھ لے یاس و حرماں کے مرض کی انتہا کیا ہے
اڑا کر صحن گلشن سے مٹا کر آشیاں میرا
روش خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز
پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہو گی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز
نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز
اس کے کل کوچے میں ایسے ہنر سے گزرے
رات بھر مجھ کو غم یار نے سونے نہ دیا
واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں
جام ہے شیشہ ہے ساقی بھی ہے برسات بھی ہے
جا کہیو ان سے نسیم سحر میرا چین گیا میری نیند گئی
کیوں بیج محبت کا بھی بونے نہیں دیتے
کیوں بیج محبت کا بھی بونے نہیں دیتے
پُر امن فضا شہر کی ہونے نہیں دیتے
ہے دل پہ جو اک بوجھ وہ ہلکا نہیں ہوتا
تنہائی میں بھی دوست تو رونے نہیں دیتے
بس چیختے رہتے ہیں وہ طاقت کے نشے میں
ہمسایوں کو بھی چین سے سونے نہیں دیتے
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
Wednesday, 25 November 2015
موجہ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے
عمر کا بھروسا کیا پل کا ساتھ ہو جائے
Tuesday, 24 November 2015
ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات
کیوں منہ چھپا ہے کس لئے اتنا حجاب ہے
دل درد آشنا دیا ہم کو
کیا غصہ میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلہ میں
عالی جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے
کب تم بھٹکے کیوں تم بھٹکے کس کس کو سمجھاؤ گے
اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے
اب عالی جی اہل سخن کی صحبت سے گھبراتے ہیں
Monday, 23 November 2015
پتہ کہیں سے ترا اب کے پھر لگا لائے
ٹھکانے یوں تو ہزاروں ترے جہان میں تھے
سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے
بادباں کھولے گی اور بند قبا لے جائے گی
تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اک شب غم سنور گئی ہے
کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا
عجب کشاکش بیم و رجا ہے تنہائی
تو سمجھتا ہے تو خود تیری نظر گہری نہیں
تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے
فضائے صحن گلستاں ہے سوگوار ابھی
آرام نہ ہو دل کو تو اے یار کریں کیا
سر تن سے میرے تو نے ستمگار اتارا
اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا
مبتلا بس کہ ہوں میں اس بت ہرجائی کا
خورشید گہن سے چھوٹ چکا بدلی سے رہائی باقی ہے
جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے
چھپ کے دنیا سے سواد دل خاموش میں آ
Sunday, 22 November 2015
گور میں یاد قد یار نے سونے نہ دیا
روز غم میں کیا قیامت ہے شب عشرت کی یاد
جی داغ غم رشک سے جل جائے تو اچھا
اس جنبش ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا
خیر جو چاہو وہ لے لو کہیں جھگڑا کیا ہے
چپ ہے کچھ خون کر کے بسمل کا
کام تو ان کی محبت میں ہے ناکام سہی
اف نہ کی شاکی جفا نہ ہوا
یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا
یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا
دھیرے دھیرے پیار کا بہانہ بن گیا
آپ کے پیار کا کچھ بھروسا نہیں
آپ کے دل میں یوں، یوں ہوا کہ نہیں
تمہیں دیکھ کر مجھ کو یوں لگ رہا ہے
تمہیں دیکھ کر مجھ کو یوں لگ رہا ہے
یہ ایک بات کہ اس بت کی ہمسری بھی نہیں
کس وقت اجالا پھیلے گا اے صبح و مسا کی تیرہ شبی
حصار خود نگراں سے نکل کے دیکھتے ہیں
شہر خاموش ہے سب نیزہ و خنجر چپ ہیں
موسم ہجر ہے اک کوہ گراں کیا سمجھے
یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے
سفر کی راہ میں اک ریگزار ایسا تھا
Friday, 20 November 2015
جب بچھڑتے تو وہ ملنے کی دعا کرتے تھے
صدائیں قید کروں آہٹیں چرا لے جاؤں
چلے چلیں گے زمانے کے ساتھ بھی اک دن
گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے
یہ درد و غم کا اداس موسم یہ وقت کے اجنبی قرینے
پھولوں کے دیے سانولی شاموں کے دھندلکے
نشاط غم بھی نہیں نغمہ وفا بھی نہیں
گزر رہا ہوں کہاں سے مجھے پتا بھی نہیں
جلا ہے کس کا لہو رات بھر چراغوں میں
غرورِ حسنِ سحر اب یہ پوچھتا بھی نہیں
اسی نگاہ نے جینا سکھا دیا مجھ کو
مِری حیات کو اب جس کا آسرا بھی نہیں
شب ہجر آہ گزر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا
جو لوگ ایک غم اپنا سنانے آتے ہیں
خاموش ترے کوچے میں جایا نہیں جاتا
چل دیا وہ رشک مہ گھر اپنا سونا ہو گیا
بھوک پہنوں میں بھوک اوڑھوں میں بھوک دیکھوں میں پیاس لکھوں
غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا
غم عشق اگر ملا تھا تو کبھی قرار ہوتا
کیا آپ نے بھی ہجر کے بیمار کو دیکھا
Thursday, 19 November 2015
پیر گلشن شاہ سے بیعت ہیں آپ
میں پڑوسی ہوں بڑے دیندار کا
وہ اعتماد خوئے ستم بھی بہانہ سا
بیٹھے ہوئے ایک ایک کا منہ دیکھ رہے ہیں
میں شعلہ اظہار ہوں کوتاہ ہوں قد تک
کفر کا رنگ جھلکتا ہے نہ اسلام کا رنگ
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غمخواروں میں
کلام کرتی نہیں میری چشم تر جیسے
زیست نعمت نہ سہی وقت کی گردش ہی سہی
ابرِِ رحمت نہ سہی، آتشِ شورش ہی سہی
دل مِرا آپ کا ہے، جان مِری آپ کی ہے
آپ کو مجھ سے سدا کے لیے رنجش ہی سہی
زیست میں آ کے مِری مجھ کو پرکھ لے اک بار
حکم تو چلتا نہیں تجھ پہ، گزارش ہی سہی
سب کی آنکھوں میں نظر آتی ہے صورت میری
کیا جانے ذوق و شوق کے بازار کیا ہوئے
ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں
دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہِیں لہرائے
ریت کی طرح کناروں پہ ہیں ڈرنے والے
غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی
شب کوئی بے سحر نہیں ہوتی
فرق ہے شمع و جلوہ میں ورنہ
روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی
یا مِرا ظرفِ کیف بڑھ جاتا
یا شراب اس قدر نہیں ہوتی
پوچھیں ترے ظلم کا سبب ہم
اتنے تو نہیں ہیں بے ادب ہم
الزام نہیں ہے فصلِ گل پر
خود اپنے جنوں کا ہیں سبب ہم
مافوقِ حدودِ جستجو تم
آوارۂ منزلِ طلب ہم
لرز لرز کے دل ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے
درس آداب جنوں یاد دلانے والے
شکستہ پا ہیں مگر پھر بھی چلتے جاتے ہیں
ظرف عالی ہوں کہ بھر کر بھی کبھی چھلکا نہیں
دنیا دنیا سیر سفر تھی شوق کی راہ تمام ہوئی
زہر ان کے ہیں مرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے
راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے
الجھے الجھے دھاگے دھاگے سے خیالوں کی طرح
کوئی کلی ہے نہ غنچہ نہ گل برائے صبا
راز دل جو تری محفل میں بھی افشا نہ ہوا
کیسے بند ہوا میخانہ اب معلوم ہوا
ان تلخ آنسوؤں کو نہ یوں منہ بنا کے پی
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
Tuesday, 17 November 2015
گناہ کیا ہے حرام کیا ہے حلال کیا ہے سوال یہ ہے
بغاوتیں بھی بہت بے وفائیاں بھی بہت
لگا ہے جان کو جو روگ جانے والا نہیں
نگاہیں مست آنکھیں مست لب سرشار ساقی ہے
کبھی خود شمع ہوتا ہے کبھی پروانہ ہوتا ہے
کبھی در در پھراتا ہے کبھی در پر نچاتا ہے
سینکڑوں آ کے رہے دل میں گماں ساری رات
چھین لیں دل وہ مرا فکر ادھر ہے تو یہی
Monday, 16 November 2015
ایسے پت جھڑ میں کہاں کوئی ٹھکانا اپنا
کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا
دیا جلے ساری رات
آ میرے پیار کی خوشبو منزل پہ تجھے پہنچائے
پر مجھ میں دھوپ نہیں ہے
میرا ایسا روپ نہیں ہے
کیسے گزر گئی ہے جوانی نہ پوچھیے
دھوپ کے سائے شام دلہن کی طرح
دھوپ کے سائے
شام دلہن کی طرح
اپنے رنگوں میں نہائی ہوئی شرمائی ہوئی بیٹھی ہے
گوشۂ چشم سے کاجل کی سیاہی ابھی آنسو بن کر
بہتے غازے میں نہیں جذب ہوئی
ابھی کھوئی نہیں بالوں کی دل افروز پریشانی میں
مسکراتی ہوئی سیندور کی مانگ
شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں
جبیں کا چاند بنوں آنکھ کا ستارا بنوں
کچھ کم تو نہیں تھے ہم بھی کسی اعتبار سے
اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے
دور دور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
اہل طوفاں آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں
کیوں دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو
بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
دار تک آئے حریم لب و رخسار سے لوگ
کہیں تو عشق کی آوارگی کو رنگ ملے
بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے
تم یاد آئے اور تمہارے ساتھ زمانے یاد آئے
دل کا چمن شاداب تھا پھر بھی خاک سی اڑتی رہتی ہے
کیسے زمانے، اے غمِ جاناں! تیرے بہانے یاد آئے
ہنسنے والوں سے ڈرتے تھے چھپ چھپ کر رو لیتے تھے
گہری گہری سوچ میں ڈوبے دو دیوانے یاد آئے
نہ ابر ہے نہ ہوا نیند کیوں نہیں آتی
برس چکی ہے گھٹا، نیند کیوں نہیں آتی
نئے نئے تھے جدائی کے دن تو بات بھی تھی
وہ دور بیت چکا، نیند کیوں نہیں آتی
جب یہ جان حزیں وقف آلام ہوئی
زخم سینے کے دھو لئے جائیں
بھیدی تو یہیں گھر کے مکینوں میں ملے گا
ہاتھ بندھے ہیں آنکھ مندی ہے لیکن اس سے حاصل کیا
بیمار انا کے ہاتھوں میں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں
تیغ میری نوادرات میں ہے
اور کشکول میرے ہات میں ہے
زخم کھاتا ہوں، مسکراتا ہوں
وار کرنا تِری صفات میں ہے
ہو رہا ہے غروب اِک سورج
ایک سکتہ سا کائنات میں ہے