کبھی سسکی کو لفظ کی
شکل دے کر کاغذ پر اتارا ہے
کبھی آنسو کو ایک
آہ تک محدود کیا ہے
کبھی درد کو سینے میں
چھپا کر مسکرا لیا ہے
کبھی سسکی کو لفظ کی
شکل دے کر کاغذ پر اتارا ہے
کبھی آنسو کو ایک
آہ تک محدود کیا ہے
کبھی درد کو سینے میں
چھپا کر مسکرا لیا ہے
جب بھی کوئی دھوکا دینے لگتا ہے
میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگتا ہے
دیواروں میں کڑواہٹ آ جائے تو
دیواروں سے چُونا جھڑنے لگتا ہے
مجبوری جب دروازے تک آتی ہے
دروازے کو دیمک لگنے لگتا ہے
حالات ہی کچھ ایسے میرے یار ہو گئے
ہم ڈُوبنے کے واسطے تیار ہو گئے
اُس نے کہا طبیب ہوں بیمار ہے کوئی؟
جتنے بھی تندرست تھے بیمار ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ چھوڑ دیا اس نے میرا ساتھ
پھر یوں ہوا کہ راستے ہموار ہو گئے
عرصے کے بعد آج وہ دیکھا دراز میں
تیرا جو خط سنبھال کے رکھا دراز میں
گاؤں کی دھوپ شہر کی آغوش میں نہیں
جتنا قرار دیکھ کے آیا دراز میں
میں جانتا ہوں چھوڑ کے وہ جا چکا مجھے
لیکن ہے پیار آج بھی زندہ دراز میں
مجھ سے کیوں اِتنا خفا ہو گیا ہمسایہ مِرا
عید کے دن بھی کھٹکتا نہیں دروازہ مرا
میری آنکھوں سے سنور کر مجھے اُس نے یہ کہا
کتنے خوش بخت ہو تم اور یہ آئینہ مرا
آپ کے سامنے آنے سے بہت ڈرتا تھا
آپ کے سائے سے ٹکرا ہی گیا سایہ مرا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فہم و ادراک و تعقل سے نہ فرزانوں سے
زندگی سیکھیے شبیرؑ کے دیوانوں سے
غمِ شبّیرؑ کا موسم بھی عجب موسم ہے
خود بخود ہاتھ الجھتے ہیں گریبانوں سے
کربلا نام ہے جابر کی حکومت سے نجات
کربلا جنگ مسلسل ہے ستم رانوں سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بامِ نوا
وہ کہ جو لفظوں کو اُن کی اِنتہا تک لے گئی
جو علیؐ کے بعد لہجے کو خُدا تک لے گئی
انتقامِ خونِ سرورؐ جب تھا اپنے اوج پر
وہ ہجومِ غیظ کو فرشِ عزا تک لے گئی
ساکت و صامت کھڑے تھے آیتوں کے کاروں
وہ زباں دے کر اِنہیں بامِ نوا تک لے گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قاتل کا قصیدہ
اگر میرے بھائی کا قاتل
کوئی اور ہوتا
تو میں تا ابد
اس پر آہ و بکا کرتی رہتی
مگر اُس کا قاتل
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت کہنے کا اگر مجھ سلیقہ آ جائے
مجھ سے ملنے کو محمدؐ کا خلیفہ آ جائے
ہم تو چُپ چاپ نگاہوں کو جُھکا لیتے ہیں
گُفتگو میں جو کہیں لفظِ مدینہ آ جائے
پُھول بھی تجھ سے محبت کی مہک مانگیں گے
گر تیرے ہاتھوں میں نعتوں کا صحیفہ آ جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جہاں میں آئے ہیں ہم ذکر کبریا کے لیے
زباں ملی ہے ہمیں مدحِ مصطفیٰؐ کے لیے
الہیٰ تیرے محمدﷺ کی کر رہا ہوں ثناء
زبان دی ہے تو لہجہ بھی ثناء کے لیے
ملی مٹھاس لبوں کو جب ان کا نام آیا
سماعتوں نے مزے نعتِ مصطفیؐ کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
در مدح امام حسینؑ و بی بی زینبؑ
یہ عاشقِ حسینؑ، وہ ہمشیر پر فدا
یہ منزل جفا ہیں، تو وہ حامل وفا
یہ ثانی بتولؑ، وہ ہمشانِ مرتضیٰؑ
دو مبتلائے کرب و بلا سے ہے کربلا
دونوں نے مل کے دِین نبیؐ، دِین کر دیا
اس داستاں کو اور بھی رنگین کر دیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوہِ ادراک سے کچھ نُطق کے نگیں دے دے
خانۂ عرض کو الفاظ کے مکیں دے دے
اس قلم سے نہ لکھی جائے گی مدحِ سرورؑ
مجھ کو جبریلؑ کا پر کوئی نورگیں دے دے
آسمانوں سے تقابل ہے درِ نعت گوئی
اس نہج کی کوئی قرطاس کو زمیں دے دے
مٹی سے تنگ
گھر سے بھاگے ہوئے لوگ ہم
اپنی مٹی سے بھی تنگ ہیں
جب بنائے گئے عکس سب کے سجائے گئے
مختلف زاویوں پر تبھی پھر ملائے گئے
ان گنت لوگ آپس میں ایسے کہ کر دی گئی
جب بات خواہشات سے آگے کی بات ہے
ظاہر ہے میری بات سے آگے کی بات ہے
آنکھوں نے دل پہ ساری حقیقت کو لکھ دیا
اور یہ قلم، دوات سے آگے کی بات ہے
روحِ فرات قید ہوئی ایک مشک میں
موسیٰؑ کے معجزات سے آگے کی بات ہے
وہ پس مرگ نہ لاشے کو اٹھانے دے گا
میری آغوش میں رہ رہ کے سرہانے دے گا
تیری فطرت تو وہی خانہ بدوشی ٹھہری
زندگی تجھ کو بھلا کون ٹھکانے دے گا
خط پرانے ہی سہی آج دوبارہ پڑھ لیں
تو کہاں وقت ہمیں اگلے زمانے دے گا
شاید گلشن پر صحرا کا سایہ ہے
ہر ٹہنی پر سراب نکل کر آیا ہے
آوازوں کا رقص ہے میرے چاروں سُو
خاموشی نے اتنا شور مچایا ہے
جھوٹ کی اس زرخیز زمیں سے ہم نے تو
کبھی نہ جو بویا تھا وہ بھی پایا ہے
خوشی سے پھولیں نہ اہل صحرا ابھی کہاں سے بہار آئی
ابھی تو پہنچا ہے آبلوں تک مِرا مذاق برہنہ پائی
تِرے مفکر سمجھ نہ پائے مزاج تہذیب مصطفائی
اصول جہد بقاء کے بندے بلند ہے ذوق خود فنائی
خلیلؑ مست مے جنوں تھا مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں
رضائے حق کی چُھری کے نیچے حیات آئی کی موت آئی
نہ کہنے کی سکت ہے نہ
سننے کی ہمت ہے
سب سے کٹ کے
تُجھ سے جڑنے
کو دل کرتا ہے سب
باتیں تجھے کہنے کو دل کرتا ہے
تُو بندھا تھا کسی گُمان کے ساتھ
آسماں ہے مِری اُڑان کے ساتھ
کُھردری ہو گئی سماعت بھی
چِھل گیا ہے بدن زبان کے ساتھ
اک خُدا پر ہمیں بھروسہ تھا
ہو گیا وہ بھی اس جہان کے ساتھ
ماورائے نظر گُماں کیا ہے
کچھ نہیں ہے جہاں وہاں کیا ہے
کچھ تو گُزرا ہے پانیوں جیسا
آبدیدہ سی چشمِ جاں کیا ہے
عجزِ گُل ہے شکستِ خُوشبو ہے
اور آزار گُلستاں کیا ہے
ملاقات
یہ آنگن، ہمارا آنگن ہے
ہم ہی اس کے ہیں رکھوالے
نہ گھر والے، نہ دروازے
روکیں ہم کو آنے سے
جُدائی میں سکوں پایا
ٹُوٹا جب تو جُڑ پایا
وفا کے دعووں پہ ہنس رہا تھا
مجھے نیا ہجر ہو گیا تھا
بہت ہی بد شکل نکلی دنیا
میں پہلے پردے پہ دیکھتا تھا
اسے بتاتا تھا میری باتیں
خدا مِری کال سن رہا تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عظمتِ بشر سے تھا ہاں وہ با خبر تنہا
فرش سے کِیا جس نے عرش کا سفر تنہا
آج اک عقیدت سے ہے زمانہ ساتھ اس کے
کربلا میں سمجھتے تھے جس کو اہلِ شر تنہا
وقتِ عصر آیا ہے،۔ مُقتدی کوئی نہیں
کرتے ہیں ادا سجدہ شاہِ بحر و بر تنہا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بس وہی انسان با توقیر ہے
جس کے دل میں الفت شبّیرؑ ہے
مدح سرورؑ میں ہماری شاعری
عشق کے قران کی تفسیر ہے
چشمِ ابراہیمؑ اور روئے حسینؑ
خواب ہے اور خواب کی تعبیر ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خلقتِ نعت جب ہوئی ہو گی
ابو طالبؑ نے ہی لکھی ہو گی
رُخ سے جس دم نقاب اُلٹے گا
سارے عالم میں روشنی ہو گی
پُوچھتے ہیں رسولؐ، آخر کب
قبرِ زہرا ؑ پہ روشنی ہو گی؟
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دیکھ لو توریت میں انجیل میں قرآن میں
آیتیں ہی آیتیں ہیں سیدہ کی شان میں
صحن میں والشمس ہے اور والضحا دالان میں
دین روشن ہو رہا ہے خانۂ عمران میں
ہم عشیرہ سے چلے ہیں لے کے سامان نجات
اب اسے کھو لیں گے جا کر حشر کے میدان میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کمالِ عشق کی معراج یوں نبھاتے ہیں
حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں
تڑپ رہی ہے زمیں، بحر و بر پہ لرزہ ہے
کل انبیاء کے لبوں پر سدائے گریہ ہے
ملائکہ سرِ افلاک خاک اڑاتے ہیں
حسینؑ زین سے سُوئے زمین آتے ہیں
کس بات پہ تم تکرارِ ملاقات کرو ہو
ہم ڈرتے ہیں جس بات سے وہ بات کرو ہو
مقتول تمہارا تمہیں کہتا ہے مسیحا
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
لہراؤ ہو زُلفوں کو جو رہ رہ کے جبیں پر
کرتے ہو کبھو دن تو کبھی رات کرو ہو
مِری پلکوں پہ اک دریا رُکا ہے
مگر، صحرا کی بولی بولتا ہے
مِرے جیون کے اِس پہلو میں شب ہے
اور اس پہلو سے سُورج جھانکتا ہے
میں تجھ کو اپنا سب کچھ مانتا ہوں
مِرے بارے میں تُو کیا سوچتا ہے؟
گو اس سے اب مرا کوئی رابطہ نہیں ہوتا
جدا وہ ہو کے بھی مجھ سے جدا نہیں ہوتا
وہ چند بول محبت سے ٹھیک ہو جائے
جو کھاد، پانی، دوا سے ہرا نہیں ہوتا
پرانی چیز ہمیشہ پرانی رہتی ہے
نئے لباس سے انساں نیا نہیں ہوتا
یار بھی رائیگاں بناتے ہیں
دھول کو آسماں بناتے ہیں
ہجر آباد ہو نہیں سکتا
دشت میں آشیاں بناتے ہیں
خودبخود ہی اترنے لگتے ہیں
لفظ جب داستاں بناتے ہیں
ایک سوچ
ایک سوچ عقل سے پھسل گئی
مجھے یاد تھی کہ بدل گئی
میری سوچ تھی کہ وہ خواب تھا
میری زندگی کا حساب تھا
میری جستجو کے برعکس تھی
میری مشکلوں کا وہ عکس تھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
در مدح شبیہہ پیمبرؐ امام حسنؑ
کوثر کے خواب کی ہیں یہ تعبیر دیکھیے
احمدﷺ کی با خدا ہیں یہ تصویر دیکھیے
لےکر حسنؑ کو گود میں کہتے تھے مصطفٰیؐ
کوثر کی جیتی جاگتی تفسیر دیکھیے
دیں گے قلم سے مات ہاں اعدائے دین کو
ایسے حسنؑ لڑیں گے بے شمشیر دیکھیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں مطمئن ہوں شفاعت مِرے رسولؐ کی ہے
رسولؐ میرے ہیں جنت مرے رسولؐ کی ہے
ہر ایک سانس عقیدت مرے رسولؐ کی ہے
یہ زندگی تو امانت مرے رسولؐ کی ہے
میں جانتا ہوں عدالت جو فیصلہ دے گی
میں جانتا ہوں وکالت مرے رسولؐ کی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جہان دیکھے فلک، ہاتھ اور دعا کی طرف
میں دیکھتا ہوں تِرے نقشِ خاکِ پا کی طرف
یہ کس کی آنکھ سے دنیا بہ طرزِ اشک گری
یہ کون لوٹ رہا ہے خفا خدا کی طرف
صدا لگا کے درِ دل پہ آرزوئے فقیر
پلٹ گئی ہے کہیں کاسۂ دعا کی طرف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حسیں سے حسیں تر سماں کر دیا ہے
جو ذکرِ شہہِ دو جہاں کر دیا ہے
یہ کہتے تھے ابنِ مظاہر سبھی سے
مجھے دیکھو شہہؑ نے جواں کر دیا ہے
سب ارزق کے بیٹوں کو قاسمؑ نے پل میں
جہنم کی جانب رواں کر دیا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آئینہ رکھ کے بر سر صحرا حسینؑ نے
بے چہرگی کو دے دیا چہرہ حسینؑ نے
پڑھ کر نماز عشق ٭فُرادا حسینؑ نے
توحید کو بچا لیا تنہا حسینؑ نے
درکار تھیں ازل کو ابد تک بلندیاں
سو اپنے قد کو سامنے رکھا حسینؑ نے
ایسا تو آسماں پہ بھی سجدہ نہیں ہو ا
جیسا کیا زمین پہ سجدہ حسینؑ نے
قوسین تک ہوئی تھی زیارت رسولؐ کی
قوسین تک بنا دیا رستہ حسینؑ نے
'جن صورتوں پہ زخم تھے جن سیرتوں پہ داغ '
کھل کر کیا انہی پہ تبرا حسینؑ نے
اب تک یزید دیدۂ عبرت نگاہ ہے
مارا ہے ایسا منہ پہ تماچہ حسینؑ نے
نوحے قصیدے منقبتیں مرثیے سلام
بخشا ہے یہ ادب کو قبیلہ حسینؑ نے
اب مجلس حسین میں آتا وہی تو ہے
رکھا ہے جس کا خلد میں حصہ حسینؑ نے
عباس حیدر زیدی
٭فرادا: الگ، تنہا، اکیلے
زخم ناسور کوئی ہونے سے
درد اُگتا ہے درد بونے سے
وہ تھا مرکوز میرے مرکز پہ
اور اُدھڑتا رہا میں کونے سے
چلو اب ہنس کے دیکھ لیتے ہیں
دل پگھلتے نہیں ہیں رونے سے
ہاتھ
اُس کا ہاتھ
اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے میں نے سوچا
دُنیا کو
ہاتھ کی طرح گرم اور سُندر ہونا چاہیے
کیدار ناتھ سنگھ
رات نے اس طرح ڈرائے لوگ
راستے سے پلٹ کے آئے لوگ
کوزہ گر نے نہیں بنائے تھے
مل گئے تھے بنے بنائے لوگ
بڑی جلدی میں تھی تباہی بھی
بھاگتے بھاگتے بچائے لوگ
دے سکو تو زندگانی دو مجھے
لفظ تو میں ہوں معانی دو مجھے
کھو نہ جائے مجھ میں اک بچہ ہے جو
یوں کرو کوئی کہانی دو مجھے
ہمزباں میرا یہاں کوئی نہیں
لاؤ اپنی بے زبانی دو مجھے
خدا کا خوف کرو ظالمو خُدا کے لیے
کہیں یہ ہاتھ نہ اُٹھ جائیں بد دُعا کے لیے
حبس زدہ کئی تاریک گھر ہیں بستی میں
نہ کوئی در ہے، نہ کھڑکی کہیں ہوا کے لیے
گُلاب، رات کی رانی، چنبیلی اور نرگس
یہ پُھول میں نے چُنے ہیں تِری قبا کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اقتباس از قصیدہ بحضور سیدۃ النساءؑ
زینتِ حجلۂ عِفّت ہیں جنابِ زہراؑ
رونقِ کشور عصمت ہیں جنابِ زہراؑ
خلق میں حق کی ودیعت ہے جنابِ زہراؑ
پرتوِ مہر نبوتﷺ ہیں جنابِ زہراؑ
باپ کی طرح سے یکتائے زمانہ یہ ہوئیں
مختصر یہ ہے کہ دنیا میں یگانہ یہ ہوئیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر سمت میں ہے تو جلوہ نما اے نور محمد صلی اللہ
آفاق کو تُو نے گھیر لیا، اے نورِ محمد صلی اللہ
دِکھلا کے چمک بالائے فلک آدمؑ کو کیا مسجود ملک
موسیٰ کو بنایا انی انا،۔ اے نور محمد صلی اللہ
تُو سب میں نہاں سب تجھ سے عیاں ہے تیرے لیے یہ کون و مکاں
باہر ہے بیاں سے تیری ثناء، اے نور محمد صلی اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم کو محبوب ہے ہر ایک ادا آقاؐ کی
ایسے ہوتی ہے دیوانوں پہ عطا آقا کی
تیری توفیق سے لیتے ہیں تِرا نام خدا
تیری توفيق سے کرتے ہیں ثنا آقا کی
ناز پھر کیوں نہ کریں ہم کہ عمرؓ والے ہیں
جس کو اسلام میں لائی ہے دعا آقا کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دامن میں ہے خزینۂ عرفان فاطمہؑ
کتنے امیر ہیں یہ غریبان فاطمہؑ
رکھا تھا آیتوں نے جسے تول تول کر
تھا گھر میں فاطمہؑ کے وہ سامان فاطمہؑ
نان و نمک یہیں سے ملتا ہے خلق کو
گھر ہے نبیﷺ کا خاصۂ خاصان فاطمہؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شمشیرِ ابوالفضل العباسؑ
ثانئ حیدرِ کرّار کی تلوار ہوں میں
دشمنِ دینِ خدا کے لیے للکار ہوں میں
شام والوں کے لیے آہنی دیوار ہوں میں
غیظ آ جائے تو پھر موت کا بازار ہوں میں
موت سر پہ ہو کھڑی جب میں وہی لمحہ ہوں
رعب میں تیغِ ید اللہ کی ہم پلّہ ہوں
یار! اپنوں کی خُرافات پہ غم کیا کرنا
دُشمنوں کے بھی سوالات پہ غم کیا کرنا
رات دن اشکوں کی برسات پہ غم کیا کرنا
اپنے بگڑے ہوئے حالات پہ غم کیا کرنا
وقت کیسا بھی ہو دو پل میں گُزر جائے گا
درد میں ڈُوبی ہوئی رات پہ غم کیا کرنا
شہر میں رات
بجلی چمکی، پانی گرنے کا ڈر ہے
وہ کیوں بھاگے جاتے ہیں جن کے گھر ہیں
وہ کیوں چپ ہیں جن کو آتی ہے بھاشا
وہ کیا ہے جو دکھتا ہے دھواں دھواں سا
وہ کیا ہے ہرا ہرا سا جس کے آگے
ہیں الجھ گئے جینے کے سارے دھاگے
ہے انتظار مقدّر تو انتظار کرو
پر اپنے دل کی فضا کو بھی خوشگوار کرو
تمہارے پیچھے لگی ہیں اُداسیاں کب سے
کسی پڑاؤ پر رُک کر انہیں شکار کرو
ہمارے خوابوں کا در کھٹکھٹاتی رہتی ہیں
تم اپنی یادوں کو سمجھاؤ، ہشیار کرو
اٹھو یہاں سے کہیں اور جا کے سو جاؤ
یہاں کے شور سے بھاگو کہیں بھی کھو جاؤ
لہو لہو نہ کرو زندگی کے چہرے کو
ستم گروں کی نوازش سے دور ہو جاؤ
کہاں پھرو گے غبار سفر کو ساتھ لیے
متاع درد کو دامن میں لے کے سو جاؤ
تنہائیوں میں کیا کہوں کیا یاد آ گیا
افسانہ ایک بُھولا ہُوا یاد آ گیا
آساں سمجھ کے منزل جاناں پہ ہو لیے
وہ مُشکلیں پڑی کہ خُدا یاد آ گیا
سمجھا تھا میں کہ دل میں وہ اب محو ہو چکا
پہلے سے بھی مگر وہ سوا یاد آ گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِرا مالک، مِرا داتا، مِرا غمخوار تُو یا رب
مِرا رہبر، مِرا مونس، مِرا مختار تُو یا رب
تِرا کوئی نہیں ساتھی ہمیشہ سے اکیلا ہے
تُو احد اور صمد ہر پل ہے بس بیدار تُو یا رب
عطا پہچان حق کی ہے تِری نعمت مِرے اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عجز سے، اعجاز سے، اکرام سے
دے من و سلویٰ مجھے ہر نام سے
جس کی تلچھٹ میں ہو رُوحِ سلسبیل
کر مجھے سیراب ایسے جام سے
طُور سینا، ثور، سِدرہ اور حِرا
اکِ دِیا روشن ہے کتنے نام سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مسند نشینِ بزمِ طہارت ہیں فاطمہؑ
دُر یتیم، تاجِ شفاعت ہیں فاطمہؑ
نفس نفیس جسمِ رسالتؐ ہیں فاطمہؑ
اصلِ اصول نخلِ امامت ہیں فاطمہؑ
بچے بھی ان کے فخر خلیلؑ و ذبیحؑ ہیں
جھولے میں دونوں لال کلیم و مسیح ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کہیے کہیے رسن و دار سے آگے نہ بڑھے
حوصلے میثمِ تمار سے آگے نہ بڑھے
منزلِ صبر و رضا میں یہ حقیقت ہے حسینؑ
انبیاء بھی تِرے کردار سے آگے نہ بڑھے
وہ صحابئ پیمبرؐ ہوں کہ اصحابِ علیؑ
یا حسینؑ آپ کے انصار سے آگے نہ بڑھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رخ نیاز سوئے اہلِ زر نہیں کرتے
وہ اس طرف تو ادھر ہم نظر نہیں کرتے
امید بن کے کسی دل میں گھر نہیں کرتے
جھکیں سلام کو یہ دردِ سر نہیں کرتے
فقیر جس درِ دولت کے ہیں پڑے ہیں وہیں
فرشتے جا نہیں سکتے جہاں کھڑے ہیں وہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خطبوں سے علیؑ کے خالق کے فرمان کی خوشبو آتی ہے
جب نہج بلاغہ پڑھتا ہوں، قرآن کی خوشبو آتی ہے
قرآن کا ہر ایک پارہ ہے معمور علیؑ کی مدحت سے
ہر سورے سے ہر آیت سے عرفان کی خوشبو آتی ہے
یہ سچ ہے علیؑ کا چہرہ ہی اللہ کا چہرہ ہے، لیکن
چہرے کے پسینے سے خونِ عمران کی خوشبو آتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بار حیات سر سے چلا ہوں اتارنے
آواز دی ہے کرب و بلا کے غُبار نے
اپنے وطن کو چھوڑ کے اسلام کے لیے
گھر کر لیا دلوں میں غریب الدیار نے
قطرے جدھر بھی گر گئے خونِ شہید کے
دیکھا ادھر نہ گردشِ لیل و نہار نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہیں ہے دین مکمل اگر امام نہیں
وہ اور کچھ ہے مگر نعمت تمام نہیں
حدیث ہے یہ نبیؐ کی کلام عام نہیں
جو ہو مخالف قرآں مِرا کلام نہیں
اداے حق بیاں ہو زباں کا کام نہیں
یہ ذکر آلؑ محمدﷺ ہے ذکر عام نہیں
زندہ رہنے کو بھی لازم ہے سہارا کوئی
🌻کاش مل جائے غمِ ہجر کا مارا کوئی🌻
ہے تیری ذات سے مجھ کو وہی نسبت جیسے
★چاند کے ساتھ چمکتا ہو ستارا کوئی🌕
کیسے جانو گے کہ راتوں کا تڑپنا کیا ہے
تُم سے بچھڑا جو نہیں جان سے پیارا کوئی
عشق اور موت
عشق اور موت کا موازنہ کیا کروں
یہ الگ الگ شاخوں کے پنچھی ہیں
عشق میں انسان کسی پر مرتا ہے
موت انسان کو مارتی ہے
عشق خلوت میں زار زار روتا ہے
موت پر لوگ مل کر ماتم کرتے ہیں
جو عہدِ نو میں خمیرِ بشر بنایا جائے
سناں کو ہاتھ تو نیزے کو سر بنایا جائے
شبِ حیات کو ایسے سحر بنایا جائے
اک آفتاب سرِ چشمِ تر بنایا جائے
مِرے حواس کو یہ کون حکم دیتا ہے
کہ اس کو مرکزِ قلب و نظر بنایا جائے
فئیرویل کہ اب ہم بچھڑ جائیں گے
لاؤڈ میوزک پہ بجتے ہوئے ٹرانس کے بالمقابل اچھلتے ہوئے قہقہے
دستخط شد قمیصوں پہ لکھے ہوئے بے معانی نئے فلسفے، ڈائری
سب کے سب ہاتھوں میں لے کر ہنسی، ڈائری
اپنے لفظوں کو جذبوں میں بُنتے ہوئے
بیتے لمحوں کا سامان ہوتے ہوئے
کرسیوں پر لکھے وقتی جذبوں پہ نادانیوں کے طفیل
میری قوم کے پاس پانی کے لیے بہت سی مشکیں ہیں
جن کے دوال (یعنی تسمے)
میں نے اپنے فرمانبردار اور بوجھ اُٹھانے والے کاندھوں پر اٹھائے ہیں
یعنی دوران سفر اپنے ساتھیوں کی خدمت بھی کرتا رہا ہوں
یعنی مجھے پانی سے بھری ہوئی مشکیں کاندھوں سے لٹکا کر ان کے لیے لاتا تھا
میں نے اپنے سفر کے دوران بہت سی وادیوں کو طے کیا ہے
اگر بینم شبِ ناگاں، مناں سُلطانِ خوباں را
سرم در پائے وے آرم، فِدا سازم دل و جاں را
اگر میں کسی رات شہنشاہِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں
تو میں اپنا سر آپ کے قدموں میں رکھ دوں ااور اپنی جان اپنا دل آپ پہ قربان کر دوں
بگردِ کعبہ کے گردم کہ روئے یارِمن کعبہ
کُنم طوافِ مئے خانہ، ببوسم پائے مستاں را
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مسدس در مدح امیرالمومنین مولیٰ علیؑ
مشکل کشائے خلق خدا ہے وہ آدمی
معجز نمائے حرف داہ ہے وہ آدمی
دست طلب کو باب عطا ہے وہ آدمی
شیر خدائے ہر دو سرا ہے وہ آدمی
آہن کو مثل موم اشارے سے موڑ دے
دو انگلیوں سے جو در خیبر کو توڑ دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
در مدح عباسؑ
حق نے علیؑ کو مالکِ فتح و ظفر کیا
ہر معرکہ کو فرق پیمبرﷺ نے سر کیا
اول خدا کے گھر سے بتوں کو بدر کیا
پھر در اکھاڑ کر دل احمدﷺ میں گھر کیا
یہ وصف ہیں رسولﷺ کے کس خیر خواہ میں
میرے پدر جنوں سے لڑے حق کی چاہ میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لبِ امروز پر ہے نعت ان کی
جو ماضی میں ہے فردا بولتا ہے
انہی کے ہاتھ ہے اب لاج میری
رُخِ ہستی کا پردہ بولتا ہے
انہیں پر ناز کرتا ہے زمانہ
وہی ہیں سب کے نیتا بولتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
غربت کی انتہا ہے نہ سایہ نہ ردا ہے زہرہؑ تیری لحد پر
چند پتھروں نے مل کر محرومہ لکھ دیا ہے زہرہؑ تیری لحد پر
تیروں بھری قبا تھی،۔ زخمی کوئی رِدا تھی
جو شام سے بچا تھا زینبؑ نے رکھ دیا ہے زہرہؑ تیری لحد پر
زندان کی گھٹن سے،۔ ہر لاش بے کفن ہے
عابدؑ نے جو سنبھالا وہ آنسو گر پڑا ہے زہرہؑ تیری لحد پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خون کے آنسو ہے صغریٰؑ کو رلاتی چاندنی
دیکھ کر چاند آ گئی یاد اپنے گھر کی چاندنی
اب نہیں لگتی کسی پہلو بھی اچھی چاندنی
شہ سفر میں ہیں کہاں کا چاند کیسی چاندنی
دل منور ہو گیا، حُرؑ کی چھٹیں تاریکیاں
دیکھنے میں تھی گھٹا کالی، پہ برسی چاندنی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صحنِ حرم سے دیکھ رہا ہوں حدِ نظر سے آگے بھی
دستِ دعا سے بابِ اثر تک بابِ اثر سے آگے بھی
دیکھ نظر تو دیکھ سکے جو دیدۂ تر سے آگے بھی
شہرِ نبی میں اک منظر ہے ہر منظر سے آگے بھی
فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک چُھوٹ ہے گنبدِ خضرا کی
خلدِ نظر ہی خلدِ نظر ہے خلدِ نظر سے آگے بھی
ہو زمیں اک یہ غم سمونے کو
میں ہوں تیار بیج بونے کو
آنکھ باقی تو میری بنجر تھی
چُھو گیا نم جو ایک کونے کو
وقت اک آ گیا تھا ایسا بھی
بس تُو ہی بچ گیا تھا کھونے کو
وہ کبھی در بدر نہیں ہوتے
جن کے ذہنوں میں ڈر نہیں ہوتے
بات درویش نے یہ سمجھائی
عشق والوں کے گھر نہیں ہوتے
دل میں آنے کا رستہ ہے لیکن
دل سے جانے کے در نہیں ہوتے
مِری غزل، مِرے لفظوں، مِرے معانی میں
وہ خود بخود ہی چلا آتا ہے کہانی میں
عجب خمار ہے دریا کی اس روانی میں
یہ کس نے پاؤں اُتارے ہیں آج پانی میں؟
ہر ایک رنگ میں لگتا ہے وہ بلا کا حسیں
سیہ میں، سبز میں، نیلے میں، ارغوانی میں
نام اپنا غلط بتاتی ہے
ایک آواز جو بلاتی ہے
پھول ہیں کانٹوں کی حفاظت میں
ورنہ تتلی تو ورغلاتی ہے
پھول چننے کو بھیجتا ہوں میں
زندگی دکھ سمیٹ لاتی ہے
دلِ بے تاب مٹی ہو رہے ہیں
ہمارے خواب مٹی ہو رہے ہیں
تم اپنے جگنوؤں کو رو رہے ہو
یہاں مہتاب مٹی ہو رہے ہیں
اُداسی ناگ بن کر ڈس رہی ہے
جو تھے شاداب مٹی ہو رہے ہیں
یقین کر کہ مِرا ضبط آزماتی ہے
تِری طرف سے ادھوری خبر جو آتی ہے
خیال میں بھی کبھی اس کو چُھو نہیں پاتے
ہماری ناؤ تو صحرا میں ڈُوب جاتی ہے
سنور چکی تھی جو دُنیا تمہارے ہوتے ہوئے
تمہارے بعد مُسلسل بکھرتی جاتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مقیم کوئی نہ تھا پر مقام تھا پہلے
علیؑ کے آنے کا یوں اہتمام تھا پہلے
خوشی سے پھولے سماتا نہیں ہے اب کعبہ
نہ اس طرح یہ کبھی شاد کام تھا پہلے
علیؑ نے آ کے اسے محترم کیا ورنہ
خدا کے گھر کا نہ یوں احترام تھا پہلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تسکین دل و جاں کا وظیفہ تو کریں گے
ہم دشمن حیدرؑ پہ تبرا تو کریں گے
جلتا ہے منافق تو جلے اپنی بلا سے
منبر سے بیاں ہم بھی عقیدہ تو کریں گے
جل کر ابوطالب کی ثنا خوانی سے کچھ لوگ
دیواروں پہ کافر ہمیں لکھا تو کریں گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عطائے بابِ حرم سے مزاج ملتا ہے
علیؑ کا شاہِ اممﷺ سے مزاج ملتا ہے
بہت کریم ہے ہر فرد اس گھرانے کا
کرم خدا کا، کرم سے مزاج ملتا ہے
علیؑ نے بیعتِ صدیقؓ کر کے بتلایا
علیؑ کا حق کے عَلَم سے مزاج ملتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زمیں بنائی گئی، آسماں بنائے گئے
اُنہی کے واسطے دونوں جہاں بنائے گئے
نبی کی شان کو کچھ اس طرح سے پیش کیا
جہاں پہ کچھ نہیں بنتا، وہاں بنائے گئے
خدا کی کاری گری ہے عظیم پیکر میں
امیں بنائے گئے، مہرباں بنائے گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب واسطے میں نام ہی پہلا بتولؑ ہو
پھر کیا کسی کو اس سے کہ رد ہو قبول ہو
اس کو خدا نے شاہِ ملائک بنا دیا
جو چاہتا تھا آپ کے قدموں کی دھول ہو
اے شاہ دو جہاںؐ اٹھیں تعظیم کو اٹھیں
رب کی طرف سے تحفۂ کوثر قبول ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اگر نصیب قریبِ درِ نبیﷺ ہو جائے
میری حیات مِری عمر سے بڑی ہو جائے
اندھیرے پاؤں نہ پھیلا سکیں زمانے میں
درود پڑھیے کہ ہر سمت روشنی ہو جائے
گزرتا کیسے ہے ایک ایک پل مدینے میں
اگر سنانے پہ آؤں تو اِک صدی ہو جائے
ہم شرح کمال تو نگنجد بہ گمانہا
ہم وصف جمال تو نیاید بہ بیانہا
تیرے کمال کی تشریح گمانوں میں نہیں آتی
تیرے جمال کےوصف بیانوں میں نہیں سماتے
یک واقف اسرار تو نبود کہ بگوید
از ہیبت راز تو فرد بستہ زبانہا
نظم "فریم سے جھانکتی اداسی" سے اقتباس
فطرت ہمیں خبردار کرتی ہے
ہمارے سامنے ایسی روحیں لاتی ہے
جو عذاب میں مبتلا ہوں
جو وحشت کے مارے رقص کریں
اور پاؤں میں باندھ لیں بیڑیاں
محبت کی
بڑا ہے اس کا دل دیکھو
پہلے فون کا بل دیکھو
جیسے تارے روشن ہوں
رخساروں کے تِل دیکھو
دیکھو مرجھا جاؤ گے
پیارے تھوڑا کھل دیکھو
تاریخ ہے حجاب
تعریف ہے حجاب
دختر مسلم کی ہے پہچان
شناخت ہے حجاب
حجاب میں حیات
زن کو کیا عیاں
یہ دل میں کون ہے اور کس لیے بسا ہوا ہے
جو مل رہا ہے نہ مجھ سے کبھی جدا ہوا ہے
ہزار ہوں گے حسیں مجھ کو اس سے کیا مطلب
وہ ایک چہرہ مِرے خواب سے جُڑا ہوا ہے
تمہارے جانے کا دُکھ اک فقط مجھے ہی نہیں
شجر اُداس ہیں، اور راستہ خفا ہوا ہے
پہم شریکِ پرورشِ گُلستاں رہے
ہر چند ہم مثالِ صبا بے نشاں رہے
ہم فلسفوں کی گود کے پروردہ آدمی
اِس مصلحت کدے میں بہت سرگراں رہے
ٹُوٹے قدم قدم پہ خیالات کے صنم
حائل کچھ ایسے راہ میں سنگِ گراں رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے التجا کہ اپنا کرم کیجیے حضورﷺ
اب پاس اپنے مجھ کو بلا لیجیے حضورﷺ
پھر اس کے بعد ہیچ ہے دنیا کا تخت و تاج
خیرات اپنے در کی مجھے دیجیے حضورﷺ
جکڑا ہر ایک سمت سے مجھ کو غموں نے ہے
رنج و الم سے مجھ کو چھڑا لیجیے حضورﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درِ حسینؑ کا یہ فیض عام ہے کہ نہیں
کبھی جو حُر تھا علیہ السلام ہے کہ نہیں
فضیلتیں کفنِ کربلا کی سُن سُن کر
یزیدِ وقت کا جینا حرام ہے کہ نہیں
چراغِ ماتمِ شبیرؑ میرے سینے پر
اندھیری قبر کا ماہِ تمام ہے کہ نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سارا عالم ہی پڑھتا ہے، صلی اللہ علیہ و سلم
دل بھی ذکر یہی کرتا ہے، صلی اللہ علیہ و سلم
دل کٹیا میں روشن رت نے آن کے ڈیرے ڈال دئیے ہیں
ایک دِیا جلتا رہتا ہے، صلی اللہ علیہ و سلم
صبحدم جب سارے پنچھی گیت محبت کے گاتے ہیں
میرے ہونٹوں پر آتا ہے، صلی اللہ علیہ و سلم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اخلاقِ اُنسیت بھی ہے سادہ حضورؐ کا
دم دم ہے لَم یَزَل کوئی وعدہ حضورؐ کا
معیارِ خال و خد کا نیا زاویہ ہے یہ
روشن جبین، سینہ کشادہ حضورؐ کا
سوچوں نے سر پہ باندھ لی دستارِ چاکری
پہنا ہوا ہے دل نے لبادہ حضورؐ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پیشانئ ترابؑ ہے یا کوئی ستارا
روشن ہے اسی نور سے یہ چاند ہمارا
اس وقت کی ایجاد ہے یہ حیدری نعرہ
جب ضربِ یداللہ سے مرحب ہوا پارا
یوں دستِ نبی رحل کی مانند کھلے ہیں
حیدرؑ کو اٹھایا ہے کہ قرآن کا پارا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دین کے دشمن پہ تیرا دبدبہ ہے آج بھی
کفر تیرا نام سن کر کانپتا ہے آج بھی
آج بھی ہے غرق، مسلم چاہتِ فاروقؓ میں
اہلِ ایماں کے لبوں پر تذکره ہے آج بھی
ناز کرتا ہے زمانہ اب بھی تیرے نام پر
تُو دعائے مصطفیٰؐ ہے مانتا ہے آج بھی
نظم "بسمل" سے اقتباس
لحنِ داؤد
تمہارے ہونٹوں سے نکلے لفظ
کسی ساحر کے سحر
اور نصرت کی آواز سے کہیں زیادہ مسحور کن ہیں
تم نظام شمسی کا سب سے چمکدار ستارہ ہو
میرے ہمزاد
مختصر نظم
خواب کو خواب ہی
رہنے دو
جو انہیں حقیقت سے جوڑے گا
وہ زندگی کو توڑے گا
خواب اک سہانا سفر
زندگی کے طوفان میں
زرینہ
قسم ہے تمہاری
قسم ہے تمہاری تمہیں کچھ نہ کہتا
اگر تم مجھے بے اماں چھوڑ جاتیں
یا دُشمن قبیلے سے مل کر
مِرے بھائیوں، یار لوگوں کے لاشے گراتیں
جہاں دار جتنی بھی سازش کرے گا
خدا ہم پہ رحمت کی بارش کرے گا
یہ شیشے کی آنکھیں یہ پتھر کے چہرے
مِرا درد کس سے گُزارش کرے گا
کسی کا جو ہمدرد ہو گا زمیں پر
بہت گر کرے تو سفارش کرے گا
ہجر سینے سے لگاؤں گا، چلا جاؤں گا
وصل سے جان چھڑاؤں گا، چلا جاؤں گا
دشت جاگیر ہے مجنوں کی مبارک ہو اسے
میں تو بس خاک اڑاؤں گا، چلا جاؤں گا
اپنے خوابوں کی میں تدفین کروں گا پہلے
اور پھر اشک بہاؤں گا، چلا جاؤں گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آسماں ایک طرف اور زمیں ایک طرف
اس نے یوں رکھے ہیں دونوں کے مکیں ایک طرف
ایک دربار ملا ہے مجھے ایسا بھی جہاں
سجدۂ قلب کہیں، اور جبیں ایک طرف
میرے سرکارؐ کا سوچو بھی تو یوں لگتا ہے
زلف وہ ایک طرف سارے حسین ایک طرف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اک طلب ہے کہ مجھے حسبِ طلب مِل جائے
جو نہ ہو بخت میں مِدحت کے سبب مل جائے
اک عجم زاد کو طیبہ کی زیارت کا شرف
از رہِ نعتِ شہنشاہِ عربﷺ مل جائے
اس نے پھر اُٹھ کے مدینے سے کہاں جانا ہے
مانگنے والے کو ہر چیز ہی جب مل جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضور آلِؑ محمدﷺ پہ وارا جاؤں گا
مجھے یقیں ہے حُسینی شمارا جاؤں گا
مجھے بتاؤ کیا ہے تمہارے گاؤں میں
کہ جو بھی جائے وہ کہہ دے دوبارہ جاؤں گا
یہ پٹڑی مارے گی مجھ کو مگر یہی سچ ہے
میں موت گھاٹ میں جبراً اتارا جاؤں گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے اِس عقیدے کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا
جہاں دل میں مدینہ ہو وہاں غم آ نہیں سکتا
مِرے گُل پوش آقاؐ کی محبت نے بتایا ہے
عقیدت پُھول ہے ایسا کہ جو مُرجھا نہیں سکتا
مرا ایمان کہتا ہے یہ اُنؐ کے در کی عظمت ہے
سوالی کوئی بھی چوکھٹ سے خالی جا نہیں سکتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کفن لپیٹ کے نکلے ہیں صاحبانِ حسینؑ
چلا ہے دِین بچانے کو کاروانِ حسینؑ
ہے جشن کیسا؟ محرّم میں عاشقانِ حسینؑ
اسی مہینے میں لٹتا ہے خاندان حسین
حضور دیکھیے لاکھوں یزید کے آگے
ہے چھ برس کی سکینہؑ سکون جانِ حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ اتنا حق ہے کہ جیسے حق کی صدا علیؑ ہے
علیؑ یداللہ ہے یعنی کارِ خدا، علیؑ ہے
اسی لیے تو یقیں ہے مُشکل کشا علیؑ ہے
نبیؐ کو کعبہ سے جو معاون ملا، علیؑ ہے
ربیع الاول ہو یا رجب ہو یا بارہ تیرہ
جو پشت در پشت ساتھ چلتا رہا، علیؑ ہے
پوری ہو گئی خواب کی تعبیر کیا
پھر ہلاؤں عدل کی زنجیر کیا
جو ستم گر کو ستم گر نہ لکھے
اس قلم کی عزت و توقیر کیا
جو کسی فرعون کا کاٹے نہ سر
وہ سپہ گر اور وہ شمشیر کیا
کسی کو سوچ رہا ہوں، بہت اُداس ہوں میں
یہ اور بات ہے مجمعے میں خُوش لباس ہوں میں
زمانہ اپنی طرف کرنے کا ہُنر ہے مجھے
اُسے نہ پا سکا، بد ذائقہ مِٹھاس ہوں میں
کئی چراغ🪔 بُجھا کر جلایا ہے خُود کو
کسے خبر تھی اندھیرے کا انعکاس ہوں میں
دیے تیری یادوں کے دل میں جلا کر
کئی بار دیکھا ہے آنسو بہا کر
میں اوروں کو بھی یہ نصیحت کروں گا
چلیں حُسن والوں سے دامن بچا کر
وہ جس کے بِنا پل گزرتا نہیں تھا
اُسے بھی تو دیکھا ہے ہم گنوا کر
کوئی پگلا پوچھ رہا تھا پانی سے
خلقت کا آغاز ہوا تھا پانی سے؟
میری یوں ہر بات ہوا کی نذر ہوئی
جیسے ہر اِک شعر لکھا تھا پانی سے
یاد آیا تھا مجھ کو ایک مدھر لہجہ
جب بھی کوئی گیت سنا تھا پانی سے
الگ ہی قسم کا اک تجربہ ہم کرنے والے ہیں
ترے ہوتے ہوئے بھی تیرا ماتم کرنے والے ہیں
تِرے چہرے کی تابانی میں بینائی گنوا بیٹھے
تجھے شدت سے اتنی دیکھنا کم کرنے والے ہیں
اے دل، شہر نگاراں، اب تجھے مسمار کرنا ہے
تِرے ملبے سے ہم خود کو فراہم کرنے والے ہیں
اب یہ نہیں کہ عرش کا رب دیکھتا نہیں
جب دیکھتا ہوں میں اسے، تب دیکھتا نہیں
ویسے تو خود کشی پہ سبھی لوگ ہیں خفا
لیکن کوئی بھی اس کا سبب دیکھتا نہیں
پہلے تو کائنات تھا میں تیرے واسطے
حیران ہوں کہ تو مجھے اب دیکھتا نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
روح رہتی ہے سرائے نعت میں
اور بدن تسکین پائے نعت میں
خوشبوئیں مہکیں قبائے ذات میں
"سانس لیتا ہوں فضائے نعت میں"
بادشاہی سے بڑا منصب ملے
نام گر آئے گدائے نعت میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ ڈال ڈال کو پھولوں کی شال دیتا ہے
وہ بیج بیج سے کونپل نکال دیتا ہے
کبھی زمین کو دیتا ہے شبنمی چادر
کبھی زمین سے لاوا اُبال دیتا ہے
اُسی کے دم سے ہیں محلوں میں قمقمے روشن
وہی غریب کی کُٹیا اُجال دیتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بڑھ رہی ہے نور کی میزان میں مقدارِ میم
مشک بارِ ضوفشاں ہے حیطۂ انوارِ میمﷺ
منصبِ محمود کی نسبت سے ہی واضح ہوا
بر سرِ افلاک زعمِ عظمتِ اظہارِ میمﷺ
ہر طرح سے ممتنع ہوں مشکلاتِ آدمی
اس لیے تو راہ میں ہے سایۂ دیوارِ میم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل حمد، جبیں عجز، جڑے ہات، دعا نعت
ہاں ایسا کچھ عالم ہو تو ہوتی ہے عطا نعت
چہکار ہو، مہکار ہو، کُن ہو کہ سخن ہو
منظر ہو کہ پیکر ہو کہ ہو صوت و صدا، نعت
مضرابِ عقیدت سے جگا جوت بنا دھن
پھر مصرعِ الطافِ محبت سے اٹھا نعت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فطرت انساں کے ظاہر ان پہ راز
خدمتِ انسانیت ان کی نماز
کرتے ہیں بندوں میں وہ رب کی تلاش
فکر میں ان کے نہیں ہے ارتعاش
ان کی ہستی رہبرِ اہلِ خرد
ان کے دم سے امتیازِ نیک و بد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
منزلِ دو کماں سے بھی آگے فراز اور ہے
رفعتِ سید البشرﷺ تا حدِ راز اور ہے
رازِ بنائے این و آں، منبع رمزِ کن فکاں
تُو ہے حقیقتِ جہاں، تیرا مجاز اور ہے
بندگی عام چیز ہے، شان اُلُوہیت بھی عام
احمدؐ و حق کے درمیاں راز و نیاز اور ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے حصہ سوم
نماز
فرض ہے
پڑھنا بہت ضروری ہے
قضا کا قرض ہے
ہر حال میں چکانا ہے
یہ فضلِ ربّی ہے، تحفہ بھی آخرت کا ہے
کمبخت دل نے عشق کو وحشت بنا دیا
وحشت کو ہم نے باعث رحمت بنا دیا
کیا کیا مغالطے دئیے دورِ جدید نے
نفرت کو پیار پیار کو نفرت بنا دیا
ہم نے ہزار فاصلے جی کر تمام شب
اک مختصر سی رات کو مُدت بنا دیا
قصۂ غم سنا کے دیکھ لیا
مجھ کو ظالم رُلا کے دیکھ لیا
نہ ہوئی دُور تیرگی غم کی
ہم نے دل کو جلا کے دیکھ لیا
شورِ ماتم ہُوا جو میّت پر
اس نے آنچل اُٹھا کے دیکھ لیا
جنوں کیا شوق کیا اظہار کیا ہے؟
ہوئے منصور تو پھر دار کیا ہے؟
سرہانے بیٹھ کر تم وقتِ آخر
نہ پوچھو خواہشِ بیمار کیا ہے؟
مسلسل آہٹیں سی ہو رہی ہیں
ذرا دیکھو پسِ دیوار کیا ہے؟
ثابت وجودِ اہلِ ستم کر گیا کوئی
اونچا لہُو میں ڈُوبا علَم کر گیا کوئی
میں نے لکھا تھا رات سے لڑنا ثواب ہے
شانوں سے میرے ہاتھ قلم کر گیا کوئی
کچّی کلی پسند ہے عزت مآب کو
دیواروں پہ یہ بات رقم کر گیا کوئی
قطعات ارشاد جالندھری
وہ بھی اب پچھتا رہے ہیں مجھ کو ٹھکرانے کے بعد
میں کچھ سنبھلا ہوا ہوں ٹھوکریں کھانے کے بعد
خاک تیری درد مندی،۔ خاک تیرا یہ خلوص
تو نے گر مجھے سراہا میرے مرجانے کے بعد
*
چلو مانا مکیں اکثر مکاں اپنے بدلتے ہیں
مگر جو دل میں بس جائیں وہ کب دل سے نکلتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بے کسوں نے میرے آقا دی دھائی آپﷺ کی
جب پڑی مشکل تو نسبت کام آئی آپﷺ کی
ٹوٹ کر برسی ہیں مجھ پہ رحمتوں کی بدلیاں
جب بھی میں کرنے لگی مدح سرائی آپﷺ کی
چھوڑ آئی ہوں میں اب سارے خرافاتِ جہاں
مجھ کو حاصل ہو گئی ہے رہنمائی آپﷺ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ربِ کعبہ کی ہے عطا زم زم
سب وباؤں کی ہے دوا زم زم
آل اپنی نثار کرنے پر
ایک تحفہ عطا ہوا زم زم
رب نے اپنے ذبیح کی خاطر
پتھروں سے بہا دیا زم زم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زندگانی دوام ہو جائے
جب مدینے قیام ہو جائے
رات گزرے نبی کے روضے پر
دن بھی یونہی تمام ہو جائے
چوم لوں جا کے روضے کی جالی
عاجزانہ سلام ہو جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے حصہ دوم
اذان اللہ اکبر کی دل نشیں آواز
اذان اشہد اللہ لا الہ الا اللہ
اذان اشہد ان محمد الرّسول اللہ
اذان نامۂ شوقِ وصال دیتی ہے
خطوطِ نُور کی لہریں اچھال دیتی ہے
اسی صدا سے مقدّر بھی جاگ جاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں تِرے کُن کا نتیجہ ہوں تجھے معلوم ہے
سرکشی مجھ میں مزاجاً ورثۂ مرحوم ہے
نہ ملا مجھ کو وہ ممنوعہ شجر میرے خدا
کیا تِری آیت کا مالک، کچھ الگ مفہوم ہے؟
مجھ کو واعظ بولنے دیتا نہیں کچھ بھی یہاں
کیا ستم ہے لب کشائی سے بھی لب محروم ہے
خوشیوں کے ہر اک پل سے رہی دور رعایا
شاہا! یہ تِرے ملک کی مجبور رعایا
صدیوں سے غلامی کی سزا کاٹ رہی ہے
یہ جبر کے زندان میں محصور رعایا
کیسا یہ تِرا عدل ہے کیسا ہے ترازو
روشن ہے محل تیرا تو بے نور رعایا
لامکان و مکاں سے ڈھلتے ہیں
آ، کہیں اور جا نکلتے ہیں
وہ بہاتی ہے میرے نام کا دِیپ
پانیوں پر چراغ جلتے ہیں
تیرگی جب بھی گھیرتی ہے مجھے
سُر اٹھاتا ہوں، داغ جلتے ہیں
*ووکیشنلزم*
ہم خواب نہیں
سانس کی ڈوری بُنتے ہیں
ڈوری، جس میں دانہ دانہ
لاکھوں خواب پِروئے جا سکتے ہیں
نجم الحسنین حیدر
*vocationalism
نہ جانے کون سی دعائیں دینے آتی ہے
ماں خواب میں جو روز روز آتی ہے
خواب میں پا کر رخِ روشن ماں کا
اٹھ جاتا ہوں، پھر نیند نہیں آتی ہے
میری وسعتوں کا اندازہ کرو کہ ماں
مداوائے درد، اُس جہاں سے بتاتی ہے
یہ شہر ہے انجان کہاں رات گُزاروں
ہے جان نہ پہچان کہاں رات گزاروں
دامن میں لیے پھرتا ہوں میں دولت غم کو
غافل ہے نگہبان کہاں رات گزاروں
کُٹیا تو الگ سایۂ دیوار نہیں ہے
ہر راہ ہے ویران کہاں رات گزاروں
ہم سراپا محنت کش مال کیا چُرائیں گے
خُوشیاں بانٹتے ہیں ہم، درد کیا لُٹائیں گے
کر کے روز مزدوری پیٹ اپنا بھرتے ہیں
کیوں امیر زادوں سے دوستی بڑھائیں گے
یاد کر کے سوتے ہیں ہم خُدا کی رحمت کو
چین اور سکوں کے دن کیوں نہ اپنے آئیں گے
اپنے دل کو جلانے سے کیا فائدہ
یوں ہی آنسو بہانے سے کیا فائدہ
وقت رخصت نہ جانے کہاں کھو گئے
اب بہانے بنانے سے کیا فائدہ
یہ تو عادت ہے ان کی جو چھٹتی نہیں
روٹھنے سے منانے سے کیا فائدہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بڑے شان والے ہیں پیارے محمدﷺ
ہیں ٹوٹے دلوں کے سہارے محمدﷺ
محمدﷺ محمدﷺ ہیں پیارے محمدﷺ
نگاہِ کرم ان کو ہو جائے جس پر
وہ دل کی زباں سے پکارے محمدﷺ
محمدﷺ محمدﷺ ہیں پیارے محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ ہے مالک اجل کا بولتا ہے
وہ ہے مالک اجل کا بولتا ہے
تِرے ہم کُن سے پیدا ہے زمانہ
ہر اک جا تیرا جلوہ بولتا ہے
نہیں خالی کوئی تیرے کرم سے
جو ہے وہ شکر تیرا بولتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خود کو درِ رسولؐ کے جب رو بہ رو کریں
خاکِ درِ رسولؐ سے پہلے وضو کریں
مزدور ہیں غریب ہیں نادار ہیں، مگر
ہر پل درِ رسولؐ کی ہم آرزو کریں
دے کر دعائیں سنّتِ سرورؐ نبھائیں گے
ہم پر ستم ہزار ہمارے عدو کریں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے حصہ اول
دعائے نیم شبی ہو یا التجائے دو پہری
ہمارے گاؤں کی مسجد ہمیں بلاتی ہے
خدا کا خوف ہے، رقّت ہے، درد لہجے میں
وہی رحیم ہے، رحمان بھی کریم بھی ہے
وہی عزیز ہے، جبّار ہے، قوّی بھی ہے
وہ درد مندوں کا ستّار ہے، علیم بھی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فقر کی شان بھی کس درجہ حسیں ہوتی ہے
مالکِ "کُلؐ" کی غذا "نانِ جویں" ہوتی ہے
زندگی اس کی حقیقت میں حسیں ہوتی ہے
جس پہ پرچمِ کرمِ سرورِ دِیںﷺ ہوتی ہے
چشمِ میگوں کی قسم، جُنبشِ مِژگاں کی قسم
ہر خلش دردِ محبت کی حسیں ہوتی ہے
یہ ہے سُورج کا مقدر یہ کہاں ٹلتا ہے
جب بھی آتا ہے بُلندی پہ تبھی ڈھلتا ہے
اشک تو ختم ہوئے سُوکھ چکی ہیں آنکھیں
اب چراغوں میں مِرے دل کا لہو جلتا ہے
کوئی آغوش میں بھر لیتا ہے طوفانوں کو
کوئی ساحل پہ سدا ہاتھ ہی بس ملتا ہے
میں خُوش ہوں اور یہ دُنیا دُکھی ہے
مجھے اس بات پر شرمندگی ہے
تمہارے سامنے رستے کُھلے ہیں
ہمارے سامنے اندھی گلی ہے
مِرا بستر بھی آخر پُوچھ بیٹھا
تمہاری نیند سے کیا دُشمنی ہے؟
قوم اب آتشِ پُر شرر سی بے تاب ہے
حاکمو!، تم سمجھے کہ یہ سراب ہے؟
تم ہر ہر بچے میں موسیٰ مسلتے رہے
اب وہی کلی تیرے آنگن کا گلاب ہے
گردن سے پکڑ کر اتاریں گے یہی لوگ
جسے موج سمجھے، اب وہ سیلاب ہے
آج پختہ یقیں ہوا ہے مجھے
ہر گھڑی کوئی دیکھتا ہے مجھے
ہے حقیقت میں جستجو جس کی
وہ کہانی میں مل رہا ہے مجھے
سب جسے عشق کہہ رہے ہیں یہاں
کیا وہی روگ آ لگا ہے مجھے؟
دُھوپ کی شِدّت بنی کالی گھٹا میرے لیے
ہاتھ اُٹھا کر اس نے جب مانگی دُعا میرے لیے
یادوں کی پرچھائیوں کے ساتھ لے کر آئے گی
اس کی زُلفوں کی مہک موجِ صبا میرے لیے
میں کہ مہرِ نِیم شب، مجھ کو بُجھانا ہے محال
سازشیں کر یا کہ دیواریں اُٹھا میرے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیا شکر ادا اس کا کرے بندۂ خاکی
خالق نے اسے نعت کی نعمت جو عطا کی
تا حشر منور کیے رکھے گی دلوں کو
کیا روشنی تھی روشنی وہ غارِ حرا کی
رستے ملے انسان کو افلاک کی جانب
سب دین ہے سرکارؐ کے نقشِ کفِ پا کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدﷺ کا جو آنا بولتا ہے
بہاروں کا وہ مژدہ بولتا ہے
یہاں جو مصطفیٰؐ کا بولتا ہے
خدا سے اس کا ناطہ بولتا ہے
محمدؐ رحمۃُ للعالمیںﷺ ہیں
یہ فرماں رب تعالیٰ بولتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِری سوچ کا یہ محور، مِرے شوق کا قرینہ
جہاں سر جُھکے وہ کعبہ، جہاں دل جُھکے وہ مدینہ
مِری اولین تمنّا،۔ مِرا آخری تقاضا
مِری جاں میں جاں ہے جب تک، رہے رُوبرو مدینہ
درِ شاہِ دو سراﷺ پر، کھڑے ہو کر دست بستہ
مِرا ذکر بھی کیا ناں! مِری بات بھی کہی نا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سارے جہاں میں دیکھو عظمت حسینؑ کی ہے
یہ روشنی جہاں میں طلعت حسینؑ کی ہے
نامِ یزید کب کا ہے مٹ گیا جہاں سے
جاری ہے جو لبوں پہ مدحت حسینؑ کی ہے
عطار اس لہو سے کیو نکر نہ خوشبو آئے
جس کے لہو کو بخشش الفت حسینؑ کی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب کھلا مجھ پر کتابِ عشق کا بابِ وفا
نقش تھا عنوان عباسِؑ علمدارِ وفا
کس قدر ذیشان ہے تیرا پسر امّ البنینؑ
آج بھی عظمت کے گن گاتی ہے موجِ علقمہ
تُو علیؑ کا چین زہراؑ کی دعا زینُ الحسنؑ
اور ہے شبیرؑ کا ناصر، غرورِ مصطفیٰؐ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سلامی جاں گزا ہے رنج و غم خاصانِ داور کا
قلق سبطینؑ کا زہراؑ کا حیدرؑ کا پیمبرﷺ کا
سدا شہرہ رہے گا جود و خلق و زورِ حیدرؑ کا
قطار و شیر و انگشتر کا دَر کا روح کے پر کا
علیؑ کی تیغ کے دم سے ہوا ہر معرکہ فیصل
احد کا بدر کا صفین کا خندق کا خیبر کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی میں
عدم کو جس نے وجود بخشا
وجود کو پھر نمود بخشا
نمود کو تازگی عطا کی
عطا کی حد حشر سے ملا دی
کاش
کاش کے تم کو بتائیں ہم
تجھ پہ اس طرح سے حق جتائیں ہم
بے چارگی کو اپنی
تجھ میں کھو کر تجھے دکھائیں ہم
تُو جو بول دے تو فلک کے سمت
یہ رُکی ہوئی ہوا کی سمت
خط مرے سارے تم جلا دینا
راکھ دریا میں پھر بہا دینا
دل کا جلنا اگر لگے اچھا
بجھتے شعلوں کو تم ہوا دینا
نقش میرا مٹا سکو دل سے
ہے اجازت اسے مٹا دینا
کچھ کرشمے بھی بام در میں تھے
سو مناظر مِری نظر میں تھے
دو جہاں حیطۂ نظر میں تھے
ہم بظاہر تو اپنے گھر میں تھے
وہ کسی اور انجمن میں تھا
ہم کسی اور رہگزر میں تھے
اثر دیکھا دعا جب رات بھر کی
ضیا کچھ کچھ ہے تاروں میں سحر کی
ہوئے رخصت جہاں سے صبح ہوتے
کہانی ہجر میں یوں مختصر کی
تڑپ اٹھے لحد میں سونے والے
زمیں کی سمت یوں تم نے نظر کی
حشر کا نام پھر سے بھول گیا
اپنا انجام پھر سے بھول گیا
داد دیں میرے حافظے کو آپ
آپ کا نام پھر سے بھول گیا
دوسری بار پھر محبت کی
پہلا انجام پھر سے بھول گیا
بہت کچھ کھو کے کچھ پایا نہیں کیا
سمجھ کر بھی، سمجھ آیا نہیں کیا
تُو جو سمجھا تھا کیا وہ سب غلط تھا
جو سوچا تھا وہ بن پایا نہیں کیا
تمہیں کتنا یقیں تھا سچ پر اپنے
تمہیں دُنیا نے جُھٹلایا نہیں کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اگر عنایتِ شاہِ امام ہو جائے
تو میرا ان کی کنیزوں میں نام ہو جائے
میں صبح طیبہ پھر ایک بار دیکھ لوں یا رب
پھر اس کے بعد نگاہوں کی شام ہو جائے
تمہارے شہرِ مقدس میں اے رسولِ کریم
قبول میرا درد و سلامﷺ ہو جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے حسینؑ کو جس جس نے اذیّت دی ہے
اس نے اپنی نسل کو کُفر کی کُنیّت دی ہے
معاویہ کا کوئی قصور تو نہیں، لیکن
یزیدیت نے کُفر کو تقویّت دی ہے
شمعِ گُل استعارہ ہے یا تفریقِ دشمناں
حسینؑ نے اک خاموش برئیّت دی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اونچا رہے اپنا علم
جب تک ہے دورِ آسماں
سُن لیں گے ہر پیر و جواں
آواز پر شبیر کی بڑھتا رہے یہ کارواں
رُکنے نہ پائے ایک قدم
اونچا رہے اپنا علم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ عقیدہ نہیں حقیقت ہے
کربلا پھر تیری ضرورت ہے
کربلا پھر تیری ضرورت ہے
دین کے نام پر سیاست ہے
غضب حق کا ہے سلسلہ جاری
غور کیجیے وہی علامت ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حسینؑ کیا ہے حسینؑ ابنِ علیؑ ہے تسکینِ فاطمہؑ ہے
حسینؑ من منی رسولؐ بولے، حسینؑ تحسینِ مجتبیٰؐ ہے
حسینؑ اہل حرم کو لےکر، حرم سے نکلے تھے کربلا کو
بقائے ملت بغرضِ دینِ مبین نکلا یہ قافلہ ہے
چراغ گرچہ بُجھا دیا تھا مگر بہتّر یہ جانتے تھے
چراغِ آلِؑ رسولؐ ہیں وہ، حسینؑ مظلومِ کربلا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تاریخ ظلم لکھ کہ رہے یہ بھی یادگار
اشکِ غمِ حسینؑ سے دل کا دھلے غبار
سینہ زنی سے چاک گریباں ہو تار تار
جان نبیﷺ کے غم میں نہ دل کو رہے قرار
اس داستانِ غم کے بیاں میں وہ زور ہو
آہ و فغاں کا گنجِ شہیداں میں شور ہو
اس طرح طُوفان مغرب نے ہلا کر رکھ دیا
نقشِ آباء کہہ کے فرسُودہ جلا کر رکھ دیا
چاہ کر بھی کوئی اب گردن چُھڑا سکتا نہیں
اس قدر مغرب نے گرویدہ بنا کر رکھ دیا
کس طرح روشن خیالی کا لبادہ اوڑھ کر
دِین و مذہب کی اساسوں کو ہلا کر رکھ دیا
زندہ لاشیں
یہ کیسے لوگ ہیں
جن کو خوشی محسوس ہوتی ہے نہ کوئی غم ستاتا ہے
شکست و نارسائی کا کوئی ردِّ عمل ان میں کبھی دیکھا نہیں جاتا
خطِ غُربت سے نیچے زندگی کو جھیلنے والے
یہ خود کو بے حِسی کے آئینے میں دیکھنے والے
کوئی شکوہ نہیں کرتے
یہ خوف و رنج و غُربت پر کوئی جُنبش ہی کرتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
خدا کا عبد ہوں اصنام کا غلام نہیں
بجز ثنائے محمدﷺ زباں کو کام نہیں
مئے ولائے علیؑ پی کے مست رہتا ہوں
یہ مے وہ ہے کہ شریعت میں جو حرام نہیں
علیؑ کا زور کجا،۔ اور کجا درِ خیبر
سوائے دستِ خدا یہ بشر کا کام نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سروشِ غیب ہے گویا زبانِ حمدِ خدا
ہے جبرئیلؑ تکلم بیانِ حمدِ خدا
ہر ایک بول سے بالا ہے شانِ حمدِ خدا
خدا کی شان ہے شانِ نشانِ حمدِ خدا
ہے فرضِ نطق زبانِ آفریں کی حمد و ثنا
سخن کی جان ہے جانِ آفریں کی حمد و ثنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دولت مدح نبیﷺ دین کا سرمایا ہے
اسی نایاب رقم سے یہ شرف پایا ہے
کلمہ پڑھتی ہے فصاحت وہ مِرا پایا ہے
بیت ہر اک مِری قرآن کا اک آیا ہے
عرش منبر پہ مکیں ہوں یہ قرینہ دیکھیں
کلمہ گو مِری معراج کا زینہ دیکھیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدح جناب امیرالمومنین مولیٰ علیؑ
کنندہ در خیبر بھی کون، شیر خدا
علی و عالی و معصوم و بت شکن، مولا
وصی احمدؐ مرسلﷺ، معین شاہ و گدا
قسیم نار و جناں، زوج حضرت زہراؑ
امام خلق بھی، پیش خدا جلیل بھی ہیں
نبیؐ کے خویش بھی، استاد جبریلؑ بھی ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الفتِ شبیرؑ کی جس دل میں پھیلی چاندنی
اُس کی قسمت میں یہاں بھی ہے وہاں بھی چاندنی
عزمِ شبیریؑ کو دھمکاتا ہے تخت و تاج سے
اے امیرِ شام! ہے یہ چار دن کی چاندنی
کربلا سے خلد تک اک خط کھنچا ہے نور کا
چاند زیرِ خاک ہے تا عرش اُس کی چاندنی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عزت غم سرور ہے دل میں بھی زباں پر بھی
میرے لیے جنت بھی، میرے لیے کوثر بھی
سرور کی عبادت ہے دیدِ رُخِ اکبرؑ بھی
پھر جاتی ہے نظروں میں تصویر پیمبرؐ بھی
تاریخ نے دیکھے ہیں زینبؑ کے وہ تیور بھی
لب کھولے بدل ڈالی تحریر مقدر بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ساقی نامہ
وہ مئے پلا جو نازشِ آبِ زُلال ہے
کعبہ میں جس کا بیٹھ کے پینا حلال ہے
جو رنگ و بُو میں آپ ہی اپنی مثال ہے
وابستہ جس سے اہلِ سخن کا کمال ہے
قطروں میں جس کے جوشِ ولائے امیر ہے
قربان جس پر ساقیٔ بزمِ غدیر ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ضرور آمد ہے یہ اک صاحبِ قرآں کے ہمسر کی
کہ دیوار حرم بھی چھوڑ کر اپنی جگہ سرکی
علیؑ بعد محمدﷺ ہے وہ صنعت آئینہ گر کی
کہ جس کی ہر ضیا نے اس کی یکتائی اجاگر کی
زہے تشکیل ہم نام خدا نفسِ پیمبرﷺ کی
کہ قرآں نے ہر اک صورت علیؑ کی حفظ ازبر کی
رات آنکھوں میں بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
تیری یادوں میں سحر ہو تو غزل ہوتی ہے
جذبِ دل، ذوقِ نظر ہو تو غزل ہوتی ہے
ہر قدم محوِ سفر ہو تو غزل ہوتی ہے
کچھ نہیں ہے تو یہی خونِ تمنا ہی سہی
جب قلم خون میں تر ہو تو غزل ہوتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مسدس در مدح شہدائے کربلا سے
تاجِ نبیﷺ کا سُرخ نگینہ ہے کربلا
ضو بار و زر نگار خزینہ ہے کربلا
نایاب موتیوں کا دفینہ ہے کربلا
مکہ ہے کربلائی، مدینہ ہے کربلا
ہے اس زمیں کا ذکر نہ اس آسمان کا
یہ دوسرا پتہ ہے نبیﷺ کے مکان کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اب بھی تاریخ کے سینے پہ ہیں وہ نقش و نگار
تھا عزاداری کا بس، مرثیہ خوانی پہ مدار
قابلِ دید تھا، ہر ذاکرِ شہؑ کا کردار
نہ تصنع، نہ بناوٹ، نہ تجارت درکار
مجلسِ غم میں وہ ذکرِ شہدا کرتے تھے
پُرسا شبیرؑ کا زہراؑ کو دیا کرتے تھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت مولیٰ علی
(لفظوں کی کی تکرار)
امامت کا تو مصدر ہے، نبوت کا برادر ہے
تُو حیدرؑ ہے، تُو صفدر ہے، تُو کنجی ہے مقدر کی
(در؛ زبر زیر اور پیش کے ساتھ)
نبیﷺ کے عِلم کا دَر اور نادِر ہے دُرِ یکتا
بہادُر ہے، تُو قادِر ہے، اجل کفار و اژدَر کی
(ملک؛ زبر زیر اور پیش کے ساتھ)
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بعد احمدؐ کے کچھ اس طرح سے بگڑا تھا نظام
بِدعتیں عام تھیں، احکام شریعت تھے حرام
چند ہاتھوں میں کھلونے کی طرح تھا اسلام
شہؑ سے دیکھا نہ گیا مٹتے ہوئے حق کا پیام
حق کی تبلیغ کو ہاتھوں پہ لیے سر نکلے
لے کے شبیرؑ مدینے سے بھرا گھر، نکلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رواں ہیں رزم کے میداں میں اب سنانِ قلم
ہے معرکے میں شجاعت کے امتحانِ قلم
بلند دوشِ مضامیں پہ ہے نشانِ قلم
ہے کہکشاں سے فزوں تر شکوہ و شانِ قلم
سپاہِ کُفر و ضلالت لہُو اُگلتی ہے
احد میں تیغِ جنابِ امیرؑ چلتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گود میں آمنہؑ کی آج نُور خدا ہے جلوہ گر
خانۂ عبد مُطلب رشک جناں ہے سر بسر
قلعۂ کفر و شرک کا نام جہاں سے مٹ گیا
ظلمت شب فنا ہوئی پھیلی تجلئی سحر
جس کی ہوئی ہے پرورش بنت اسد کی گود میں
کھیلنے کے لیے ملا وارث مُطلب کا گھر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ماں اور کربلا کی مائیں
ہر دھوپ سے بچائے جو وہ سائباں ہے ماں
بچہ اگر ہے شاد تو پھر شادماں ہے ماں
بچہ ہے گر اداس تو پھر نیم جاں ہے ماں
ماں کا شرف یہ سب سے بڑا ہے کہ ماں ہے ماں
ہر ہر عمل میں اس کے صفت چارہ گر کی ہے
جنت اسی کے پاؤں کے نیچے بشر کی ہے
عجب حال ہے میرے دل کی خوشی کا
ہوا ہے کرم مجھ پہ جب سے کسی کا
محبت مِری یہ دُعا مانگتی ہے
تِرے ساتھ طے ہو سفر زندگی کا
نہ دو مجھ کو پیغامِ ترکِ تعلق
کچھ احساس کر لو مِری بے بسی کا
ڈرتا رہتا ہوں ہم نشینوں میں
ایک پتھر ہوں آبگینوں میں
بات کرنا جنہیں نہیں آتی
آج وہ بھی ہیں نکتہ چینوں میں
جو بھنور کو سمجھتے ہیں ساحل
ایسے بھی لوگ ہیں سفینوں میں
کچھ بھی کر سکتا نہیں تدبیر سے
آدمی مجبور ہے تقدیر سے
ٹکڑے کیوں کرتے ہو دلِ شمشیر سے
توڑو یہ شیشہ نگہ کے تیر سے
جم سکی رنگت نہ بزم غیر میں
اکھڑی اکھڑی آپ کی تقریر سے
منزلِ جاں کے اجالوں کا اشارا کھو گیا
راستوں کی بھیڑ میں راہی بچارا کھو گیا
بہتے دریا کے بدن کی بے لباسی دیکھنا
ناؤ طوفانوں سے الجھی اور کنارا کھو گیا
روشنی میں آ گئے جب رات کے کالے پہاڑ
صُبح کی گُل رنگ وادی کا نظارا کھو گیا
جن کا دعویٰ ہے وہ کرتے ہیں امامت قوم کی
کیسے قبضاتے ہیں وہ رہزن وراثت قوم کی
کس قدر حیران کُن مُرشد کی شب کے خواب ہیں
وہ اجارہ دار بننے کے لیے بے تاب ہیں
فاتحِ ندوہ کے قصے خوب رنگ آمیز ہیں
بہر صورت سیرت و کردار معنی خیز ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لفظ الہام کے دیوان میں آ جاتے ہیں
شعر سارے میرے اوزان میں آ جاتے ہیں
کرتی ہوں جب بھی میں مدح سرائی اُنؐ کی
سب پرندے یونہی وجدان میں آ جاتے ہیں
رحمتِ باری پلٹ جاتی ہے در سے ہو کر
جب بھی قران یہ جُزدان میں آ جاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بس کے زہراؑ و نبیؑ کے پھولوں سے
کربلا گلزارِ جنت ہو گئی
شہؑ نے رخصت دی جو نُورِ چشم کو
آنکھوں سے بینائی رُخصت ہو گئی
سر جو نیزے پہ چڑھا شہؑ کا تو اور
رُونما شانِ امامت ہو گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت در مدح امام حسنؑ
صلح فرمائی حسنؑ نے اک نئے انداز کی
توڑ دی قوّت سیاست کے پرے پرواز کی
ہو گئی واضح حقیقت سلطنت کے راز کی
دھجّیاں کیا کیا اُڑیں دامانِ بدعت ساز کی
فکر خاطی شاملِ اسلام ہو سکتی نہیں
ایک ہے صلح حدیبۂ ہو یا صلح حسنؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ ہنر ہو عطا میں بھی نعتیں لکھوں
شانِ صلِ علیٰ میں بھی نعتیں لکھوں
لفظوں کے اُتریں لولاک سے قافلے
ہو معطر فضا میں بھی نعتیں لکھوں
رو برو ہو نبیﷺ کا مدینہ سدا
ہو خدا کی رضا میں بھی نعتیں لکھوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے سب کو یہاں پر ملا تیرےؐ صدقے
کہ زندہ ہے ہر اک گدا تیرےؐ صدقے
ہمیں کب خبر تھی کہ مالک ہے کوئی
عیاں ہو گیا ہے خدا تیرےؐ صدقے
علؓی ہیں حسؓن ہیں حسینی ہے عالَم
ہے پنجتن گھرانہ سجا تیرےؐ صدقے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بستی حسین کی ہے بسائے گئے ہیں ہم
کرنے کو ذکر اس کا بنائے گئے ہیں ہم
زہرہؑ کے لاڈلے کا یہ رُتبہ عظیم ہے
سجدوں میں ان کے در پہ جُھکائے گئے ہیں ہم
افضل عبادتوں سے یہ میرا حسینؑ ہے
سجدوں کو روک کر یہ بتائے گئے ہیں ہم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں بہک سکوں یہ مجال کیا، مِرا رہنما کوئی اور ہے
مجھے خوب جان لیں منزلیں، یہ شکشتہ پا کوئی اورہے
مِری التجا ہے یہ دوستو! کبھی تم جو سُوئے حرم چلو
تو بنا کے سر کو قدم چلو، کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
وہ حبیبِؐ ربِ کریم ہیں، وہ رؤف ہیں وہ رحیم ہیں
انہیں فکر ہے مِری آپ کی، انہیں چاہتا کوئی اور ہے
بن گئے دل کے فسانے کیا کیا
کھل گئے راز نہ جانے کیا کیا
کون تھا میرے علاوہ اس کا
اس نے ڈھونڈے تھے ٹھکانے کیا کیا
رحمتِ عشق نے بخشے مجھ کو
اس کی یادوں کے خزانے کیا کیا
ساتھ گزرے ہیں تیرے جو یار دن
یاد کے قابل ہیں وہ شہکار دن
آئے دن کی چھوڑ یہ ناراضگی
زندگی کے ہیں یہی بس چار دن
مہکتا ہے پھولوں سے سارا چمن
جب تمہارا کرتا ہے دیدار دن
ہمیں تُو ہی مِلا ہے بس ہمارا
تجھی سے سلسلہ ہے بس ہمارا
ہمارا مسئلہ ہے بس محبت
محبت مسئلہ ہے بس ہمارا
یہ راہِ عشق کی لمبی مسافت
یہی تو راستہ ہے بس ہمارا
خواب آنکھوں پہ بار ہو گئے ہیں
جاگیے! دن کے چار ہو گئے ہیں
اک گلی کی مُسافتوں میں ہم
ہر گلی کا غُبار ہو گئے ہیں
لو! بچھڑنے کا وقت آن پڑا
سارے قول و قرار ہو گئے ہیں
دن ایسے آ گئے اُلٹے ہمارے
بدل کر رہ گئے نقشے ہمارے
اسے دیکھا تو ساعت رُک گئی تھی
نہ ٹُوٹے اب تلک سکتے ہمارے
وہ گھر کے صحن میں کیا آ کے بیٹھی
مہکنے لگ گئے کمرے ہمارے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تا قیامت ہے رسالت آپﷺ کی
سب پہ واجب ہے اطاعت آپﷺ کی
شمع ہر سُو نعمتوں کی جل گئی
جب بھی مانگا ہے وساطت آپﷺ کی
ٹل ہی جائے گا یہ عذابِ حشر بھی
ساتھ ہو گی جب شفاعت آپﷺ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مہکی ہوئی ہیں نوری قبائیں درودﷺ میں
شامل ہیں قدسیوں کی صدائیں درودﷺ میں
آتا ہے ذکرِ آل بھی ذکرِ نبیﷺ کے بعد
دیکھی ہیں انّما کی ادائیں درودﷺ میں
مقصود ذکر ہے شۂ عصمت مآبﷺ کا
پہلے تمام لفظ نہائیں درودﷺ میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رحمت دو جہاں ہیں محمدﷺ
راحت قلب و جاں ہیں محمدﷺ
سر کون و مکاں ہیں محمدﷺ
معنی کن فکاں ہیں محمدﷺ
محسن انس و جاں ہیں محمدﷺ
مامن ایں و آں ہیں محمدﷺ