کُھلے گا عقدۂ توحید میری بات کے ساتھ
صفت بھی رہتی ہے ہر وقت اپنی ذات کے ساتھ
کہیں پہ بکھری ہے تنہائی میرے کمرے میں
کہیں پہ بکھری ہیں تصویریں کاغذات کے ساتھ
میں اس سے ہار کے ہر پل دُعائیں مانگتا ہوں
کہ اس کی جیت بھی ہو جائے میری مات کے ساتھ
کُھلے گا عقدۂ توحید میری بات کے ساتھ
صفت بھی رہتی ہے ہر وقت اپنی ذات کے ساتھ
کہیں پہ بکھری ہے تنہائی میرے کمرے میں
کہیں پہ بکھری ہیں تصویریں کاغذات کے ساتھ
میں اس سے ہار کے ہر پل دُعائیں مانگتا ہوں
کہ اس کی جیت بھی ہو جائے میری مات کے ساتھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکرِ شہ ابرارﷺ مدام اچھا لگے ہے
ہر آن درود اور سلام اچھا لگے ہے
رہتی ہے سدا پیشِ نظر پیروی انؐ کی
جو اچھا لگے ان کو وہ کام اچھا لگے ہے
دیوانہ کہے یا کوئی کچھ کہے مجھ کو
قرآن کے بعد انؐ کا کلام اچھا لگے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دلاسہ دیتے ہیں آقاﷺ اداس لوگوں کو
بلا کے دور سے وہ اپنے پاس لوگوں کو
بس ایک اسم نے چہروں کو نور بانٹا ھے
عجب وگرنہ تھا خوف و ہراس لوگوں کو
حضورِ آئے تو پوری ہوئی ہر اک خواہش
کئی یُگوں سے تھی اُمید، آس لوگوں کو
گلی گلی ہے اندھیرا کوئی صدا تو ملے
گُھٹی گُھٹی سی فضا ہے کہیں ہوا تو ملے
میں اپنے چہرے کی ویرانیاں کُھرچ ڈالوں
بس ایک لمحے کو جینے کا ذائقہ تو ملے
اسی لیے تو اُڑائی ہیں دھجیاں اپنی
جنوں کو شعلہ مزاجی کا کچھ مزہ تو ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
علیؑ حُسنِ جہاں بانی، علیؑ تفسیرِ قرآنی
علیؑ کے دم سے قائم ہے دلوں میں نورِ ایمانی
تصوف کے چمن کا باغباں کوئی نہیں ایسا
اسی کے سر پہ سجتا ہے ولا کا تاجِ سلطانی
دہکتی ریت پر لختِ جگر اُن کے ہوئے قرباں
انہی کے خونِ اقدس سے ہے روشن دیں کی پیشانی
کوئی منزل نہ راستا ہے آج
لمحہ لمحہ بھٹک رہا ہے آج
زندگی کی عجب ادا ہے آج
زندگی خود سے بھی خفا ہے آج
فاصلے اب کہاں ہیں دنیا میں
صرف اپنوں میں فاصلا ہے آج
نہ ہو گر نہیں ان سے ملنے کا یارا
خودی ہے سلامت خدا ہے ہمارا
بھڑکتا ہے بجھ بجھ کے اکثر دوبارا
انوکھا ہے کیا زندگی کا شرارہ
اک امید موہوم پر جی رہا ہوں
کہ تنکے کا ہے ڈوبتے کو سہارا
مختصر نظم
کسی کی آخری ہچکی پہ لکھا تھا
دعا
مِرے بچے ابھی اس دیس میں
کچھ اور دن
زندہ رہیں گے
سنبھل گیا ہوں کہ یہ وقت بھی کڑا ہوتا
فراق میں جو مزاجاً میں چڑچڑا ہوتا
خدا کا شکر کہ ہوں مطمئن بچھڑ کر بھی
وگرنہ اب بھی تِری راہ میں کھڑا ہوتا
اگر تمام نہ ہوتا جنونِ عشق، تو میں
تِری گلی میں کہیں خاک پر پڑا ہوتا
غموں کی تشنگی ہے رقص کرنا
بدن کی شاعری ہے رقص کرنا
گھٹن کی خود کشی ہے رقص کرنا
فرارِ بے بسی ہے رقص کرنا
زمانہ کافری ہے رقص کرنا
مِری آوارگی ہے رقص کرنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نظارا کر سکوں میں آ کے صبح و شام یا مصطفیٰؐ
مِرے طیبہ کو جانے کا کریں انتظام یا مصطفیٰؐ
تیرے دیوانوں کی گنتی کوئی کر ہی نہیں سکتا
تیرا لطف و کرم ہو جائے خاص وعام یا مصطفیٰؐ
اجازت مجھ کو مل جائے آپ کے در پہ آنے کی
خدا را! کیجیے میرا یہی اک کام یا مصطفیٰؐ
انجانے جزیروں پر
قدم رکھنے سے پہلے
جان لو کہ
بے آباد جگہ آسیب زدہ بھی ہو سکتی ہے
بستی بسانے سے پہلے جن کی خوشنودی لازم آتی ہے
بسے رہنے کا معاوضہ
لرزا جو میری قبر کو آیا تو یہ کہا
ہے ہے کوئی مزار کسی دلِ بے قرار کا
کتنا ہوں بدنصیب کہ مرنے کے بعد بھی
گُل کر دیا چراغ ہمارے مزار کا
دل سے نہیں اترتا تمہارا خیال ہے
کتنا نشہ چڑھا ہے تمہارے خمار کا
سوال پوچھے ہیں شب نے جواب لے آؤ
نئی سحر کے لیے آفتاب لے آؤ
نہ رات ہے نہ خیالات شب نہ خواب سحر
جو دن کی جوت جگا دیں وہ خواب لے آؤ
برا نہیں ہے جو لکھ جائیں اب بھی چند ورق
جو آج تک ہے ادھوری کتاب لے آؤ
ہر بار ہی میں جان سے جانے میں رہ گیا
میں رسم زندگی جو نبھانے میں رہ گیا
آتا ہے میری سمت غموں کا نیا ہجوم
اللہ میں یہ کیسے زمانے میں رہ گیا
وہ موسم بہار میں آ کر چلے گئے
پھولوں کے میں چراغ جلانے میں رہ گیا
کچھ ایسے کی ہے ادا رسم بندگی میں نے
گزار دی ترے وعدے پہ زندگی میں نے
اڑا کے دھجیاں دامن کی کرتا کیوں رسوا
جنوں میں کی نہ گوارہ درندگی میں نے
ذرا بھی شکوۂ جور و جفا نہیں لب پر
تِری رضا کو جو سمجھا ہے بندگی میں نے
اپنا کوئی کام بھی بر وقت کب کرتا ہوں میں
سب سے کہتا ہوں کہ اب کرتا ہوں اب کرتا ہوں میں
ایک ہی انداز میں لیتا ہوں سب سے انتقام
صبر کرتا ہوں اور ایسا کہ غضب کرتا ہوں میں
اے نجومی! زائچہ میرا بنا اور یہ بتا؟
کیوں نہیں ملتا مجھے جس کی طلب کرتا ہوں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدینہ جاؤں گا حسرت دلِ غریب میں ہے
وہ نیک ساعتِ اول بہت قریب میں ہے
ملی ہے خاکِ درِ مصطفیٰﷺ گدائی میں
متاعِ کون و مکاں کاسۂ غریب میں ہے
لقب خدا نے دیا جن کو شافعِ محشرﷺ
علاجِ اُمتِ عاصی اسی طبیب میں ہے
زمین کا مذہب
نہیں ہے کوئی زمیں کا مذہب
جو جی آئے
بناؤ اس پر
وہ مسجدیں ہوں کہ شوالے
وہ گردوارے کہ ہوں کلیسا
نہیں ہے کوئی زمیں کا مذہب
درد تیرا مرے سینے سے نکالا نہ گیا
اک مہاجر کو مدینے سے نکالا نہ گیا
میں تِرے ساتھ گزارے ہوئے دن جیتا رہا
ایک پل بھی تجھے جینے سے نکالا نہ گیا
ایک موتی بھی نہ ابھرا مِری آنکھوں میں کبھی
تیرے بن کچھ بھی دفینے سے نکالا نہ گیا
اک دن ہوئی تھی ان سے ملاقات دیر تک
دل میں بسے رہے وہی لمحات دیر تک
جس رات روٹھ کر وہ اچانک چلے گئے
ہم کو نہ نیند آئی تھی اس رات دیر تک
مجھ پر نظر پڑی تو وہ مغرور ہو گئے
پیش نظر رہی مِری اوقات دیر تک
ٹوٹ گیا بندھا ہوا رشتہ ہماری آس کا
ہائے نتیجہ یہ ہوا کاوشِ بے قیاس کا
یاد بھی شوقِ رفتہ کی آ نہیں سکتی دیکھیے
دل پہ ہوا ہے اس قدر زور ہجومِ یاس کا
فکر جہان سے ہاں رہے شوق سے گرم رو یہاں
وہ جسے اعتبار ہو ہستئ سست اساس کا
جب ہم کو تغافل میں کبھی یاد کرو گے
ہم خوب سمجھتے ہیں جو بیداد کرو گے
کیا خاک توقع ہو پذیرائیٔ غم کی
تم خاک علاج دل ناشاد کرو گے
وہ ہم کہ گرفتار تغافل ہی رہیں گے
وہ تم ہو کہ بھولے سے کبھی یاد کرو گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نبیؐ کا وصال" سے اقتباس"
ہوا کفر کا دور اندھیرا عرب سے
کہ وحدت کا پھوٹا سویرا عرب سے
نبیؐ جی کہ تکمیلِ دیں کر چکے تھے
خدا کی طرف کوچ کرنے چلے تھے
ضرورت نہ تھی ان کو دنیا کی پیارے
فرائض ادا کر چکے تھے وہ سارے
بوگن ویلیا کی وارفتگی دیکھ کر
تناور پیڑ کھجور سے وارفتگی
یوں کہ جیسے
اس کی توانائی تیری قوت کی ضامن ہو
بے ساختہ بالیں ہوتی
یوں کہ
محفوظ ہوتی موسموں کی جولانیوں سے
دل دنیا برباد کریں گے
تجھ کو اتنا یاد کریں گے
تنہائی سے پیار ہے جن کو
ویرانے آباد کریں گے
غیروں سے امید لگی ہے
اپنے کیا امداد کریں گے
نصاب الفت کا باب تھی وہ
ورق ورق اک کتاب تھی وہ
بیاضِ ہستی پہ آنسوؤں سے
لکھا ہوا انتساب تھی وہ
عظیم صحرائے تشنگی میں
بسیط موجِ سراب تھی وہ
آنکھوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے
ہنسنے میں بھی گریہ زاری ہوتی ہے
غم کا موسم جب بھی آنے لگتا ہے
سب سے پہلے میری باری ہوتی ہے
اس کی باہوں میں آ کر یہ لگتا ہے
گھر کی جیسے چار دِواری ہوتی ہے
کسی کی یاد پھر خلوت نشیں معلوم ہوتی ہے
طبیعت آج کل اندوہ گیں معلوم ہوتی ہے
محبت کا ہر اک سجدہ بھی معراج محبت ہے
مقام عرش اب میری جبیں معلوم ہوتی ہے
کبھی شبنم کبھی تارے کبھی تم مسکراتے ہو
محبت کی ہر اک ساعت حسیں معلوم ہوتی ہے
سمجھ آ جائیں تمہیں سارے خسارے، پیارے
چھین لے تم سے اگر کوئی تمہارے، پیارے
جا ابھی جشن منا! میرے تبسم کا نہ پوچھ
بھید پا جاؤ گے جب جیت کے ہارے، پیارے
مات بھی خیر سے، خیرات سے تو بہتر ہے
کیا یہی کافی نہیں؟ کھیل کے ہارے، پیارے
پھر تیرا نام لیا غم کو پکارا ہم نے
ایک دن پھر اسی وحشت کا گزارا ہم نے
غیر کے ہاتھ نے اس مانگ میں سیندور بھرا
چاند تاروں سے جسے پہلے سنوارا ہم نے
زندگی نذر کی طوفاں کے تھپیڑوں کو تو کیا
چند موجوں کو دکھایا ہے کنارہ ہم نے
جمہوری جوگی
وہ تو
صدیوں کے تماشبین ہیں
اور تم
وہ جوگی ہو
جو اپنی پٹاری میں ناگ لے کر گھومتا ہے
رشتوں کی گہرائی لِکھ
ہر کاغذ پہ کھائی لکھ
اس پہ ہی الزام نہ دھر
خود کو بھی ہرجائی لکھ
منہ مت پھیر حقیقت سے
شعروں میں سچائی لکھ
اس کے کُوچہ میں گیا میں سو پھر آیا نہ گیا
میں وہاں آپ کو ڈھونڈا تو میں پایا نہ گیا
گُم ہوا دل مِرے پہلو سے کہ پایا نہ گیا
شاید اس کُوچہ میں جا اس سے پھر آیا نہ گیا
دم بخود ہو کے موا اس کی نزاکت کے سبب
آہ و نالہ بھی مجھے اس کو سنایا نہ گیا
بکھرا کے ہم غبار سا وہم و خیال پر
پتوں کی طرح ڈولتے پھرتے ہیں مال پر
اپنے ہی پاؤں بس میں نہیں اور یار لوگ
تنقید کر رہے ہیں ستاروں کی چال پر
یہ مال آنچلوں کا سبک سار آبشار
صد موج رنگ و نور ہے لمحوں کی فال پر
کچھ بچا لے ابھی آنسو مجھے رونے والے
سانحے اور بھی ہیں رونما ہونے والے
وقت کے گھاٹ اتر کر نہیں واپس لوٹے
داغ ملبوس مہ و مہر کے دھونے والے
دائم آباد رہے دار فنا کے باسی
فکر میں روح بقایاب سمونے والے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نطقِ خاموش پہ یوں صوت و صدا بول پڑے
شعر مدحت کا کہوں اور کہا بول پڑے
جب کبھی آیتِ تطہیر لبوں پر آئے
دل میں تقدیس تو آنکھوں میں حیا بول پڑے
عائشہؓ ماں کے قصیدے کا ارادہ باندھوں
غیب سے میرے لیے ماں کی دعا بول پڑے
لوگ اٹھے ہیں تری بزم سے کیا کیا ہو کر
اور اک ہم ہیں کہ نکلے بھی تو رسوا ہو کر
تیر مژگاں کا ہے یہ گھاؤ بھرے تو کیسے
اب تو ناسور بنا زخم یہ گہرا ہو کر
شوق دیدار طلب حد ادب سے جو بڑھا
حسن نے تاب نظر چھین لی جلوہ ہو کر
من
وقت کی
تیز دھار
لہراتی بل کھاتی
آگے جا رہی ہے
اور من
اب تک کنویں پر کھڑا
چہرے سے مرا درد کوئی بھانپ رہا ہے
کھل جائے کہیں راز نہ دل کانپ رہا ہے
احساس جدائی کا یوں ڈستا رہا شب بھر
جیسے مرے سینے میں کوئی سانپ رہا ہے
جب قتل کی سازش میں ملوث وہ نہیں تھا
پھر آنکھ ملاتے ہوئے کیوں کانپ رہا ہے
موت کے دم سے زندگی ہے عزیز
غم کی آغوش میں خوشی ہے عزیز
آپ کو برتری مبارک ہو
مجھ کو احساسِ کمتری ہے عزیز
یہ بھی گویا ہے اک تعلقِ خاص
آپ کی بے تعلقی ہے عزیز
یہ سانحہ تھا ملاقات اور باقی ہے
ٹھہر بھی جاؤ کہ کچھ رات اور باقی ہے
فسانۂ شب ہستی تو کہہ چکے لیکن
یہ رنج ہے کہ کوئی بات اور باقی ہے
اسی امید میں لو دے رہی ہے شمع حیات
سلگ بھی جائے تو برسات اور باقی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نگہ کو پاک و منور کرے ہے ذکر رسولﷺ
حریمِ جاں کو معطر کرے ہے ذکر رسول
نبیﷺ کی شان میں لکھا، سو معتبر لکھا
ہر ایک لفط کو جوہر کرے ہے ذکر رسول
وفورِ درد و الم کا علاج ایک درودﷺ
سکونِ قلب میسر کرے ہے ذکر رسول
حادثہ ایسا بھی زیر آسماں ہونا ہی تھا
برگ گل کو خاک شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا
تلخ جتنی ہو حقیقت کو عیاں ہونا ہی تھا
زندگی کو سات پردوں میں نہاں ہونا ہی تھا
جو نہ سننا تھا وہ افسانہ بیاں ہونا ہی تھا
یعنی اپنی کوششوں کو رائیگاں ہونا ہی تھا
المیہ
اس بار مجھے مر لینے دو
اگر دوبارہ لوٹا تو
ربِّ کائنات سے
تھوڑا حُسن، دولت
اور کسی اچھی جگہ
پیدا ہونے کی دستاویز
دل کو پژمُردہ و بیمار نہیں چاہتے ہم
مختصر کہتے ہیں، بسیار نہیں چاہتے ہم
کتنے دروازے کھُلیں مسکنِ جاں تک آتے
اور اس کو بھی ہوادار نہیں چاہتے ہم
مُوند لیں کس طرح آنکھوں کو، سمندر میں ہیں
اور جانا ابھی اُس پار نہیں چاہتے ہم
جو بھی رند خراب ہوتے ہیں
آدمی لا جواب ہوتے ہیں
کھو کے ہم کو وہ آج کہتے ہیں
لوگ ایسے نایاب ہوتے ہیں
نفرتوں کو سنبھال کے رکھنا
زندگی کے عذاب ہوتے ہیں
متاع ہوش لٹ جانے کے دن ہیں
دل ناداں کو سمجھانے کے دن ہیں
میں ہر موسم میں ان سے پوچھتا ہوں
کدھر جاؤں کدھر جانے کے دن ہیں
نیا پن سرد ہوتا رہا ہے
پرانی آگ سلگانے کے دن ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہی نہیں کہ تُوؐ آیا فقط عرب کے لیے
جہاں میں ذاتِ گرامی ہے تیری سب کے لیے
نگاہِ خالقِ ہستی میں سرخرو ہے وہی
وہ جس کے دل میں جگہ ہے تِرے ادب کے لیے
تیری ہی ذات ہے لیل و نہار کی تابش
تُو دن کے واسطے سورج ہے، چند شب کے لیے
گزر جائیں گے یہ دن بے بسی کے
زمانے لوٹ آئیں گے خوشی کے
اٹھو اور بندگی کر لو خدا کی
گزر جائیں نہ لمحے بندگی کے
خدا کی ذات پر رکھیں بھروسہ
بھرے گا وہ خزانے ہر کسی کے
کیا پوچھ رہے ہو دل بیمار کی باتیں
کمبخت سمجھتا ہی نہیں پیار کی باتیں
صیاد نے سن لی تو بڑھا دے گا ستم اور
چھیڑو نہ قفس میں گل و گلزار کی باتیں
آنکھوں سے رواں ہو گیا اشکوں کا سمندر
یاد آئیں جو بچھڑے ہوئے غمخوار کی باتیں
بروز حشر مِرے ساتھ دل لگی ہی تو ہے
کہ جیسے بات کوئی آپ سے چھپی ہی تو ہے
نہ چھیڑو بادہ کشو! میکدے میں واعظ کو
بہک کے آ گیا بے چارہ آدمی ہی تو ہے
قصور ہو گیا قدموں پہ لوٹ جانے کا
برا نہ مانیے سرکار بے خودی ہی تو ہے
خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں
سخائے ہجر نے اب بھی نمائشیں دی ہیں
یہ اب جو خواب زمانوں نے دستکیں دی ہیں
پس مراد حقائق کی منزلیں دی ہیں
مِرے لباس کے پیوند مفلسی پہ نہ جا
مِرے جنوں نے محبت کو خلعتیں دی ہیں
دل کیوں نہ چاک کر دوں چاکِ جگر کے بدلے
وہ پھول پھینکتے ہیں تیرِ نظر کے بدلے
اللہ! آج کیا ہے جو آنسوؤں کے قطرے
لائے ہیں لختِ دل کو لختِ جگر کے بدلے
کم ظرفئ نظر کا دیکھا فریب دیکھا
آئینہ پوجتا ہوں، آئینہ گر کے بدلے
تعارف
آگہی نے
مجھے دکھ کے دائرے میں
کھڑا کر دیا ہے
میں تو انجان ہی بھلی تھی
کیوں کسی نے آ کر
مجھ سے میرا تعارف کروا دیا
شیریں احمد
سروں پہ دھوپ کا اک سائبان رہنے دے
زمیں رہے نہ رہے آسمان رہنے دے
میں آگہی کی فصیلوں کو چوم آیا ہوں
مِرے خدا تو مجھے بے زبان رہنے دے
امیرِ شہر کا ایوان کانپ اٹھے گا
غریبِ شہر ہوں میرا بیان رہنے دے
کہتا ہوں میں کہ غیر نے ہرگز کہا نہیں
تجھ کو نہ ہو قبول جو میری دعا نہیں
ان پانیوں کسی کو ڈبوئے نہ شرم شوق
میں آب آب اس کی طرف دیکھتا نہیں
سو رخ سے چومتا ہے تِرا پیرہن خیال
سب میں ہوں میری جان یہ موج ہوا نہیں
آغازِ جفا یاد نہ انجامِ وفا یاد
جب سامنے تم آئے تو کچھ بھی نہ رہا یاد
اب یادِ نشیمن ہے نہ بجلی کی جفا یاد
نکلے تھے کچھ ایسے کہ چمن تک نہ رہا یاد
جس نے مِری سوئی ہوئی دنیا کو جگایا
آ جاتی ہے اب بھی وہ محبت کی صدا یاد
چاہت کے پرندے دل ویراں میں آئے
صیاد کسی صید کے ارماں میں آئے
وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہو نا
اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آئے
سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج
پگھلائے مجھے برف کی دُکاں میں آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مرے سرور دو عالمﷺ اے شہنشہ مدینہ
تِرےﷺ در کا سنگریزہ مجھے بر تر از نگینہ
اے عرب کے ماہِ تاباں مِرے کالی کملی والے
تِرے آستاں سے بڑھ کر نہیں مجھ کو طُورِ سینا
تھے گدا جو تیرے در کے ہوئے آشنائے منزل
کہ جہاں کی سروری کا انہیں آ گیا قرینہ
کسی کی سرد مہری کا سمندر پار کرنا ہے
کٹھن ہے راستہ لیکن اسے ہموار کرنا ہے
خطا اک ایک ان کی درگزر کرتے رہیں گے ہم
ہر اک قیمت پہ ہم نے ان کو زیر بار کرنا ہے
ہم اپنے جی پہ جتنا ہو سکے گا جبر کر لیں گے
کسی کی زندگی کو کس لیے دشوار کرنا ہے
سوچتا ہوں کدھر گئے ہم لوگ
جی رہے ہیں کہ مر گئے ہم لوگ
رات بھر ایک ایک جمع ہوئے
پو پھٹے ہی بکھر گئے ہم لوگ
اپنا گھر ڈھونڈنے کو کیا نکلے
جانے کس کس کے گھر گئے ہم لوگ
بے گانہ بنا دیتا ہے اندازِ بیاں اور
ہو سامنا ان کا تو بہکتی ہے زباں اور
تیز آگ ہوئی جاتی ہے اے سوزِ نہاں اور
آنسو جو ٹپکتے ہیں تو اُٹھتا ہے دُھواں اور
اے رُوح! نہ ہو جائے کہیں جسم گِراں اور
گھبرائے مسافر تو بدلتا ہے مکاں اور
تم وفادار نہیں راہ نما ہو کر بھی
ہم پہ الزام ہے پابندِ وفا ہو کر بھی
ان کے ہنستے ہوئے چہرے کا عجب عالم ہے
وہ خفا بھی نہیں لگتے ہیں، خفا ہو کر بھی
کھا گئے جب سے اجالوں کو اندھیرے یارو
ہم اجالوں کو ترستے ہیں، دِیا ہو کر بھی
جنوں نے خلعت شب گرد کو قبول کیا
شعر و جام نے تب جام میں حلول کیا
تمام شب کا فسونِ نظارگی بھی تو تھا
تبھی تو مہ نے میری آنکھ میں نزول کیا
کریہہ تر تھے نظارے فراز کے اس پار
بلندیوں کے سفر نے بڑا ملول کیا
ممکن ہے پھر تلافئ مافات ہو نہ ہو
آ جا کہ اس کے بعد کوئی بات ہو نہ ہو
شاید کہ زیست سانس بھی لینے نہ دے ہمیں
شاید کہ اس کے بعد ملاقات ہو نہ ہو
اب تک تو آنسوؤں کی جھڑی ہے لگی ہوئی
پھر کون جانتا ہے کہ برسات ہو نہ ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے طوفانِ بلا میں کشئ دل یا رسول اللہﷺ
نہیں معلوم کس جانب ہے ساحل یا رسول اللہ
مدد کیجیے کہ ہے درپیش مشکل یا رسول اللہ
بڑی الجھن میں ہے الجھا ہوا دل یا رسول اللہ
ہر اک دربار میں ہر در پہ جا کر جبہ سائی کی
کوئی سنتا نہیں آوازِ سائل یا رسول اللہﷺ
عجب تھی چاہت عجب سی الفت
نور سی رنگت بلا کی شفقت
دھلا دھلایا سا پاک چہرہ
بے داغ سا وہ نمناک چہرہ
غم اس کے چہرے پر کچھ نہیں تھا
دوست بھی وہ میرا نہیں تھا
کون کس کو یہاں دغا دے گا
وقت سب کچھ ہمیں بتا دے گا
باپ بیٹا جدا ہوئے جس دن
گھر تباہی کا پھر پتا دے گا
یاد اپنوں کی آئے گی اس پل
جب کوئی بے سبب قضا دے گا
خاموش دھڑکنوں کی صدا کی کسے خبر
وعدے بہت کیے تھے وفا کی کسے خبر
خواہش گناہ ہے تو گنہ گار میں بھی ہوں
ہیں جرم بے حساب سزا کی کسے خبر
کہتے ہیں آدمی میں خدائی کا عکس ہے
بندے ہیں بے نیاز خدا کی کسے خبر
میرے وطن کے غریب لوگو
کبھی تو پوچھو یہ رہبروں سے
اگر تمہارے تمام نعرے
تمام وعدے تمام دعوے
درست ہیں تو
وطن میں برپا یہ ایک دوجے سے
اقرار کی طرف ہو کہ انکار کی طرف
سمتِ موجود ہے مگر اظہار کی طرف
اک لفظ کا سفر تھا بیاباں کی رات میں
خاموشیوں کے گُونجتے اسرار کی طرف
میٹھے سُروں کی جیبھ نے کاٹا تھا جب مجھے
اس دن سے میں ہوں سانپ کی پھنکار کی طرف
پھر میری داستانِ اذیت دراز ہے
پھر میرے آگے درد کی راہِ فراز ہے
کب کوئی نخل، کب کوئی سایہ مِرے لیے
صحرا کی تیز دھوپ ہی زلفِ دراز ہے
زخموں کی تاب بھی نہ رہی اب تو جان میں
اور عیشِ جاں کا سلسلہ اب بھی دراز ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آفتابِ مبیں محمدﷺ ہیں
ماہتابِ حسیں محمدﷺ ہیں
وہ کسی اور کے نہیں طالب
دل میں جن کے مکیں محمدﷺ ہیں
اسوہ جن کا نجات کا باعث
وہ کوئی اور نہیں محمدﷺ ہیں
طوفان میں نکل پڑے شوریدہ سر سبھی
کار جنوں میں پھرتے ہیں بن کے شرر سبھی
اک صبح مرے شہر کا منظر عجیب تھا
پتھر کے سب مکان تھے، مٹی کے گھر سبھی
اب کون کسے حرفِ تسلی ادھار دے
تیری گلی میں بیٹھے ہیں تشنہ جگر سبھی
سفر اندر سفر کرتے اگر تم
کہانی مختصر کرتے اگر تم
ہمیں منظور تھے سارے تماشے
کسی عنوان پر کرتے اگر تم
سیاست مسئلہ کوئی نہیں تھا
کسی کے نام پر کرتے اگر تم
نئے ثبوت پرانی دلیل پر رکھ دو
بُجھے چراغ بھی ٹُوٹی فصیل پر رکھ دو
تم اپنی اپنی خبر گیریاں کرو لوگو
وحی کا بوجھ پرِ جبرئیل پر رکھ دو
وطن کی یاد، جُدائی، صعوبتِ منزل
تمام بوجھ کو ابنِ السبیل پر رکھ دو
جو اپنے آپ کو سب کچھ سمجھ لے
نہ جانے آپ کو کب کچھ سمجھ لے
مکرر اس لیے سمجھا رہا ہوں
بہت ممکن ہے وہ اب کچھ سمجھ لے
نصیحت کا تجھے تب حق ملے گا
تو اپنے آپ کو جب کچھ سمجھ لے
کمان سونپ کے دشمن کو اپنے لشکر کی
کہا کہ فتح و ظفر بات ہے مقدر کی
بلاوا لائی ہوائے بہشت پھر اک بار
طیور جانچ کرو اپنے اپنے شہ پر کی
چلو رکھ آئیں وہاں ہم بھی اپنے سر کا گلاب
سنا ہے بہتوں نے اس کی گلی معطر کی
دل میں پیغام محبت سا اتارا جاؤں
اس سے پہلے کہ کسی بھیڑ میں مارا جاؤں
وصل کی چاہ میں یہ ہجر کمایا میں نے
ہجر کو خرچ کروں زیست سے ہارا جاؤں
روٹھی تقدیر ہوں تو مجھ کو منایا جائے
اور گر بگڑا مقدر ہوں سنوارا جاؤں
نظم "بے نیازی کی رُت" سے اقتباس
تم ایک لمبی کہانی ہو
جو اکثر بوڑھے سفر سے لوٹنے کے بعد
سنایا کرتے ہیں
اس کہانی کے آخری پنے پہ پہنچنے سے پہلے
جو کردار مر جاتا ہے
میں وہی کردار ہوں
افسانۂ جنون محبت سُنائے کون؟
آنسو بہائے کون کسی کو رُلائے کون
مانگیں پناہ جس کی نگاہوں سے بجلیاں
اس کی نظر سے اپنی نظر کو ملائے کون
ہے چاک چاک پیرہنِ گُل بہار میں
کانٹوں سے دامن اپنا چمن میں بچائے کون
بستیوں پر جھوٹ کی کالی گھٹا منڈلا گئی
سچ ہوا رزقِ ہوا، جذبوں کی رُت مُرجھا گئی
شہر میں کوئی نہیں اب سچّے لفظوں کا امیں
مصلحت کی بیل سب سرسبزیوں پر چھا گئی
جُرم اتنا تھا کہ نخلِ نو میں تھا عزمِ نمو
بے طلب رُت کی تمازت قہر سا برسا گئی
ملنا وہ سرسری تھا، سر رہگزار تھا
اس اولیں نظر کا ہدف، دل کے پار تھا
اس کی گلی میں جا کے چلا آیا بن ملے
جانے یہ کیا جنوں مِرے سر پر سوار تھا
مجنوں کو دیکھ کر سگِ لیلیٰ کا بھونکنا
یہ سلسلہ بھی باعث تشہیر یار تھا
وہ آئینہ ہے کبھی جھوٹ بولتا ہی نہیں
تعلقات ترازو میں تولتا ہی نہیں
نہ خوش مزاجی ہے اس میں نہ تلخیاں لیکن
جو راز دل میں ہے مخفی وہ کھولتا ہی نہیں
تمام لوگوں کے منہ میں زباں ہے، ہے کہ نہیں
مگر یہاں کوئی حق بات بولتا ہی نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہوئی ہے اس کو ہر اک شے عطا مدینے سے
رہا ہے جس کو کوئی واسطا مدینے سے
تمام دشت و بیاباں کو کر گئی سیراب
اٹھی ہے جھوم کے جب بھی گھٹا مدینے سے
پہنچ کے کوچۂ طیبہ میں شادکام ہوئی
کہ خالی ہاتھ نہ لوٹی دعا مدینے سے
چلو کہ زخم کریدیں، خیال کیسا ہے؟
پھر اپنے آپ سے پوچھیں کہ حال کیسا ہے
ستائیں اتنا کہ اک دن پلٹ کے وار کریں
پھر اس کے بعد سزا دیں یہ جال کیسا ہے
تمہارے طرزِ عدل کا کوئی جواب نہیں
مگر جو پیدا ہوا ہے سوال کیسا ہے؟
جب کسی یاد کے مندر میں گجر بول پڑا
اک مؤذن بھی سر وقت سحر بول پڑا
دیکھ کر میرے خد و خال کو اک آئینہ
کتنا خاموش طبیعت تھا مگر بول پڑا
روز چپ چاپ وہ رستے سے گزر جاتا ہے
اور میں سوچتا رہتا ہوں اگر بول پڑا
خون کے دریا میں دہشت کے بھنور ڈالے گئے
دل میں انسانوں کے نفرت کے شرر ڈالے گئے
عیش کے لمحات ہیں اہلِ سیاست کے لیے
سختیوں میں عمر بھر اہلِ ہنر ڈالے گئے
مسکرانے کا عمل بھی یاد ہم کو اب نہیں
درد و غم کے بوجھ ہم پر اس قدر ڈالے گئے
کبھی تنہائیٔ منزل سے جو گھبراتا ہوں
ان کی آواز یہ آتی ہے کہ میں آتا ہوں
بے خودی کی یہی تکمیل ہے شاید اے دوست
تو جو آتا ہے تو میں ہوش میں آ جاتا ہوں
یہ ترا در بھی ہے کعبہ بھی ہے بت خانہ بھی
سجدے کرتا ہوا میں سب کو یہیں پاتا ہوں
شکستہ ناؤ ہے دھارے ہیں کیا کیا جائے
کہ دور ہم سے کنارے ہیں کیا کیا جائے
کہیں بھی جائیے، اہلِ نظر نہیں ملتے
ہمارے پاس نظارے ہیں کیا کیا جائے
یہی ہیں وہ کہ جنہیں آستیں میں پالا تھا
یہ ہی تو لوگ ہمارے ہیں کیا کیا جائے
ایقان ہے رہبر پہ نہ ایماں ہے خضر میں
ایسا بھی مقام آیا تِری رہ گُزر میں
مجنوں کی طرح طِفل لیے سنگ ہیں پیچھے
رُسوا ہوئے ہم ایسے زمانے کی نظر میں
بیمارِ محبت کی دوا کیا کریں تجویز
تریاق بھی بن جائے زہر اپنے اثر میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سزائیں مل چکیں عہد وفا کے بھول جانے کی
عطا کر اب ہمیں توفیق یا رب در پہ آنے کی
ہوا ایسی چلے پھر سے عمر کا دور آ جائے
رسول اللہﷺ کا صدقہ پلٹ دے رُت زمانے کی
علیؑ کی قوت بازو عطا کر دے ہر مسلماں کو
مٹا دے اس کو جو کوشش کرے اس کو مٹانے کی
زندگی درد بنی درد کا افسانہ بنا
یوں ہی دنیا میں ہر اک فرد کا افسانہ بنا
سرخ چہروں سے سجائی گئی جو محفل ناز
اسی محفل میں رخِ زرد کا افسانہ بنا
مٹ گئیں ذہن سے جب کوہکنی کی باتیں
عشق کے ولولۂ سرد کا افسانہ بنا
کس طرح، کس مکاں پہ گزرے گی
شامِ غم، سب جہاں پہ گزرے گی
جاؤ، ان آندھیوں سے تم پوچھو
کیا مِرے آشیاں پہ گزرے گی
مجھ کو گھر سے نکالنے والو
کیا مِرے جسم و جاں پہ گزرے گی
مدعا دل کا کبھی لب آشنا ہوتا نہیں
عشق کا مفہوم لفظوں میں ادا ہوتا نہیں
حُسن والوں کا کرم دل پر روا ہوتا نہیں
یہ خبر ہوتی تو ان پر مُبتلا ہوتا نہیں
موت سے بد تر ہے تیرے آسرے پر زندگی
کاش کوئی زندگی کا آسرا ہوتا نہیں
غم میں ڈوبی صبح پھیکی شام دیکھ
التفات گردش ایام دیکھ
ظرف خودداری شرافت خامشی
ان کتابوں میں ہمارا نام دیکھ
میکدے میں ہے فضائے اشک غم
لے رہا ہے سسکیاں ہر جام دیکھ
دل مضمحل ہے تیری نوازش کے باوجود
یہ سرزمیں اداس ہے بارش کے باوجود
خیرہ نہ کر سکے نگہ امتیاز کو
جھوٹے نگیں نمود و نمائش کے باوجود
ایک پھول بھی چمن میں نہ دل کھول کر ہنسا
شبنم کے آنسوؤں کی گزارش کے باوجود
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لفظ و معنی میں سماوات سے خوشبو آئی
یعنی قرآن کی آیات سے خوشبو آئی
بیعت حق سے کھلے پھول مہکنے والے
دستِ اطہر کی عنایات سے خوشبو آئی
حرف نے سیکھ لیا لب سے معطر ہونا
آپؐ کی طرز مناجات سے خوشبو آئی
سارے جہاں کو ان کا خریدار دیکھ کر
ڈر لگ رہا ہے مصر کا بازار دیکھ کر
میں اڑ رہی ہوں چاند ستاروں کے باغ میں
ہونٹوں پہ تیرے پیار کا اظہار دیکھ کر
آنکھوں میں آج اس کے سمندر ہے موجزن
پتھر پگھل رہا ہے میرا پیار دیکھ کر
ہم نے اس شہر میں آنا ہے چلے جانا ہے
آپ کے دل کو چرانا ہے چلے جانا ہے
ہم بھی بیٹھے ہیں تِری راہ میں جانے والے
آپ کو اتنا بتانا ہے چلے جانا ہے
آنے والے تجھے معلوم نہیں ہے شاید
ایک وعدہ ہے نبھانا ہے چلے جانا ہے
برہنہ لفظ ہیں عریاں قلم ہونے لگا ہے
نمایاں شعر میں پہلوئے ذم ہونے لگا ہے
کوئی ڈالر کا شیدائی، تو کوئی پونڈ کا ہے
ادب معیارِ دینار و درہم ہونے لگا ہے
پڑھے لکھے بھی کرتے ہیں بینائی کا شکوہ
کُتب بینی کا جب سے شوق کم ہونے لگا ہے
گھپ اندھیرے میں بھی اک جادہ نظر آتا ہے
بند آنکھوں سے مجھے زیادہ نظر آتا ہے
رقص کرتا ہے میرے ساتھ زمانہ میرا
شربتی آنکھ میں جب بادہ نظر آتا ہے
تیری سُلجھی ہوئی گُفتار جگر کھینچتی ہے
تُو بظاہر تو بہت سادہ نظر آتا ہے
حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر
پڑھ لیا قسمت کا لکھا لوح تربت دیکھ کر
اس قدر بے خود ہوا آثار وحشت دیکھ کر
آئینہ سے نام پوچھا اپنی صورت دیکھ کر
جام کوثر دست ساقی میں نظر آیا مجھے
اٹھ گیا آنکھوں کا پردہ ابر رحمت دیکھ کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ جن کے گھر میں دِیا تک نہ تھا جلانے کو
انہیں سے روشنی ملتی ہے ہر زمانے کو
دلِ حزِیں تو بہت چاہتا ہے ہے آنے کو
حضورؐ کچھ بھی نہیں پاس منہ دِکھانے کو
نبیؐ کے ذکر کی تسبیح چھوڑنے والے
بروزِ حشر ترستے ہیں دانے دانے کو
شباب آیا تو آیا اک بلائے ناگہانی ہو کر
مِری ہستی فقط اب رہ گئی ہے داستاں ہو کر
چھُپاتا میں کہاں تک راز آخر کھُل گیا دل کا
نظر نے کہہ دیا سب کچھ خموشی کی زباں ہو کر
زمیں کانپی،۔ فلک چکرا گیا،۔ تقدیر گھبرائی
مِری جانب جو تُو نے آج دیکھا مہرباں ہو کر
مِرا احوال چشمِ یار سُوں پوچھ
حقیقت درد کی بیمار سوں پوچھ
مِرے حال پریشاں کی حکایت
صنم کے زُلف کے ہر تار سوں پوچھ
دلِ پُر پیچ کا میرے ہر ایک پیچ
سجن کے چیرۂ بلدار سوں پوچھ
تم سے ملنا بھی نہیں تم سے بچھڑنا بھی نہیں
وقت کے جیسے مگر ہم کو بدلنا بھی نہیں
عشق نے پھر ہمیں اک بار ہے بخشا صحرا
دریا ملنا بھی نہیں، ابر برسنا بھی نہیں
بڑی مشکل سے چھپاتے ہیں زمانے سے تمہیں
زخم رسنا بھی ہے اور آنکھ کو گلنا بھی نہیں
فروخت کرتے تھے ایمان، وہی ہیں ہم بھی جو
نقاب چہروں پہ رکھے، گماں میں گم بھی جو
کبھی تھے تیشۂ فرہاد، بے خطر جن کے
وہی ہیں خواب کی تعبیر سے بہم بھی جو
زمانے سجدہ گزار، علم و ہنر کی تاب
وہی ہیں مصلحتوں میں رواں قدم بھی جو
یہ سب کیا تماشا ہے؟
نہ میں سمجھا کسی کو
نہ کوئی مجھ کو سمجھ پایا
حیات اور موت کے مابین
نہ رشتہ سمجھ آیا
بہت بھٹکے ہیں ہیں بچپن سے
سوال، آوارگی اور میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے آقاؐ مِرے غمخوار ذرا ایک نظر
ہوں مصیبت میں گرفتار ذرا ایک نظر
حال پہ میرے بھی فرمائیں کرم بہرِ خدا
آپﷺ ہیں مالک و مختار ذرا ایک نظر
ٹھوکریں کھاتی ہوئی آپؐ کے در تک آئی
ایک مجبور گُنہ گار ذرا ایک نظر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکر رسول پاکﷺ سے راحت ملی مجھے
کیسی سکونِ قلب کی دولت ملی مجھے
جانا ہے جن کو جائیں وہ جنت میں خلد میں
قُربِ رسول پاکﷺ میں جنت ملی مجھے
دیوانگئ حُبِ نبیﷺ کا ہے معجزہ
ہر دو جہاں میں اتنی جو عزت ملی مجھے
میں زندہ رہنے کا پھر اہتمام کیا کرتا
ہے دو دن کا سفر تو قیام کیا کرتا
مِرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا نہیں
پھر اس کے نام کے ہمراہ نام کیا کرتا
تمام دن تو بڑی بے کلی میں بیت گیا
پھر ان کی زلف کے سائے میں شام کیا کرتا
خوف
مجھے اپنے جیسے کچھ لوگ
سوچنے والے، کچھ جیتے جاگتے لوگ
سمجھنے والے، تمنا و آرزو کرنے والے
اور خوشیاں ڈھونڈنے والے
میسر ہیں
بہت خوش نصیب ہو کہ
آج ان پر رازِ دل افشا کریں
حُسن کو مغرور و خود آرا کریں
چند دن ان کو نہ اب دیکھا کریں
یعنی کچھ ان کو بھی تڑپایا کریں
اس طرح ہو یوں کریں ایسا کریں
ان سے ملنے کا کوئی چارا کریں
غم انساں کی سجائی ہوئی دنیا ہوں میں
انجمن میرے تصور میں ہے تنہا ہوں میں
تپش و درد کے اسرار سے واقف ہوں مگر
مجھ کو یہ زعم نہیں ہے کہ مسیحا ہوں میں
جانے کیا شے مرے سینے میں بھری ہے ایسی
شمع سوزاں کی طرح جلتا پگھلتا ہوں میں
رنگ بدلے ہیں کیسے دنیا نے
آج اپنے ہوئے ہیں بے گانے
دوست کہنے میں کیا برائی تھی
آپ کیوں، کس لیے، بُرا مانے
نا خدا میں خدا بھی شامل ہے
بات سمجھی نہیں یہ دنیا نے
لے گئی دور مجھے گھر سے جُدائی تیری
پھر بھی اُتری نہ مِرے سر سے جدائی تیری
میں جہاں ڈُوب گیا، ڈُوب گیا اُبھرا نہیں
یعنی گہری ہے سمندر سے جدائی تیری
جانے والے میں تُجھے یاد کیے جاتا ہوں
چُنتا رہتا ہوں میں بستر سے جدائی تیری
قیس نے کر دیا ہے خالی دشت
ہو گیا ہے مِرا سوالی دشت
آپ نے سیر گاہ سمجھا ہے
دشت ہے یہ جناب عالی دشت
قیس کو سوچتا رہا برسوں
ذہن میں ہیں کئی خیالی دشت
حیراں ہیں لوگ آپ کی اُونچی اُڑان پر
اک پاؤں ہے زمین پہ،۔ اک آسمان پر
مجبوریوں سے اس کی اُٹھاتے ہو فائدہ
تہمت لگا رہے ہو کسی بے زبان پر
غیروں کی محفلوں کو بنایا ہے گُلستاں
تم بھُول کر نہ آئے ہمارے مکان پر
کسی کے چھوڑ جانے سے یہاں کچھ کم نہیں ہوتا
سبھی مصروف رہتے ہیں کسی کو غم نہیں ہوتا
جہاں بھر کے جریدوں میں معیشت کے ڈراموں میں
بقائے آدمیت پر کوئی کالم نہیں ہوتا
مجھے پھر سے محبت پر کیا تھا جس نے آمادہ
ملے ایسے اب وہ جیسے کوئی سنگم نہیں ہوتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بزم میں جب مِرے سرکارؐ نظر آتے ہیں
ہر طرف عرش کے انوار نظر آتے ہیں
جب تصور میں ابھرتا ہے مدینے کا جمال
آپؐ کے روضے کے مینار نظر آتے ہیں
میں نے دیکھا ہے عجب حال یہ دیوانوں کا
عشق میں آپﷺ کے سرشار نظر آتے ہیں
سوال رستہ بدلنے کا
چار قدم وہ
چلا پیار سے
ساتھ مرے
چلتے چلتے
اس نے اپنا
رستہ بدل لیا ہے
وہ اک تاجر ہے تاجر کیا کرے گا
کسی بھی چیز کا سودا کرے گا
وہ جس نے دل نہیں توڑا کسی کا
خدا اس کے لیے اچھا کرے گا
اسے تم آستیں کا سانپ سمجھو
یقیناً ایک دن دھوکا کرے گا
دل ہے کہ جستجو کے سرابوں میں قید ہے
ورنہ ہر ایک چہرہ نقابوں میں قید ہے
فرصت کہاں کہ ڈھونڈے غم دہر کا علاج
ہر شخص اپنے غم کے حسابوں میں قید ہے
کیا خاک ہوں نصیب یہاں سر بلندیاں
جوش عمل تو آج کتابوں میں قید ہے
نفرت ہے فضا میں تو محبت بھی بہت ہے
جینے کے لیے درد کی دولت بھی بہت ہے
ہے دست ستم گر کو اگر فرصت آزار
دکھیاروں میں دکھ سہنے کی ہمت بھی بہت ہے
کچھ شمع کہ ہے حسن جہاں سوز کا جادو
پروانوں میں کچھ شوقِ شہادت بھی بہت ہے
شب کی مسرتیں نہیں صبح کی دلکشی نہیں
دور ہو تم تو زندگی وہم ہے زندگی نہیں
پھول کبھی کھلے تو کیا، غنچے کبھی ہنسے تو کیا
جس سے چمن چمن بنے اب وہ بہار ہی نہیں
ساقئ مے کدہ کے ساتھ رونقِ مے کدہ گئی
دردِ شراب اک طرف، ذکرِ شراب بھی نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکر احمدؐ کی گویا کہ محفل ہے یہ
کیا سعادت بھری دیکھ منزل ہے یہ
تذکرہ ہے یہاں سیرتِ پاکﷺ کا
زیست کا مدعا اور حاصل ہے یہ
ہر مسلمان ہے خاکِ پائے رسولﷺ
نا خدا بھی یہی اور ساحل ہے یہ
لطف پیمان بار بار کہاں
لذت سوز انتظار کہاں
کیا ہوئیں بیقراریاں دل کی
وہ تمنائے وصل یار کہاں
وہ تقاضائے شوق دید کجا
روح کو اب وہ اضطرار کہاں
کبھی تو ہو گا مرے حق میں بھی زمانہ کوئی
مِرا خیال بھی رکھے گا غائبانہ کوئی
مجھے تُو پیار کی جُھوٹی کہانیاں نہ سنا
کہ اب نگاہ میں جچتا نہیں فسانہ کوئی
یہ دن تو ڈُوب گیا شام کے دُھندلکوں میں
وہ کل تلاش کرے گا نیا بہانہ کوئی
راہ کی گرد سے منزل کا پتہ لگ جائے
جب تعاقب میں کوئی حرفِ دعا لگ جائے
جسم کی قید میں ہوتی ہے گھٹن سی اس کو
روح کو تھوڑی سے باہر کی ہوا لگ جائے
خون سے ہاتھ بھرے ہیں تو چھپانا کیسا
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ رنگِ حنا لگ جائے
دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے
اپنے خوابوں سے ملاقات کا امکان تو ہے
کچھ نہ کچھ نذر تو کرنا ہے ترے جلوے کو
اور دولت نہ سہی کوئی دل و جان تو ہے
کیا ملے گا ہمیں اب اس کی پشیمانی سے
بے وفائی پہ کوئی اپنی پشیمان تو ہے
نظریں گم صم دیوار و در بول رہے ہیں
سناٹے ہر گھر کے اندر بول رہے ہیں
آوازوں کا شور سنائی کیسے دے
خاموشی کے کتنے پیکر بول رہے ہیں
شاید پھر یادوں کا موسم آنا ہے
زخم پرانے دل کے اندر بول رہے ہیں
حاصل کو تشنگی کا مقدر لکھوں گا میں
اب ریگزارِ جاں کو سمندر لکھوں گا میں
لوں گا جمالیات میں اپنے ضمیر سے
سنگِ سیاہ کو بھی گُلِ تر لکھوں گا میں
مجھ کو جو ڈھونڈ لائے میں اس کا غلام ہوں
اک دن یہ اشتہار سڑک پر لکھوں گا میں
شام آنے سے پہلے ہی دم پر مرے بن آئی
اب کیسے گزاروں گا یا رب! شبِ تنہائی
یوں آیا کوئی جیسے تصویر نظر آئی
احساس نے کروٹ لی، جذبات نے انگڑائی
میری ہی نگاہوں نے بخشی تجھے رعنائی
میری ہی نگاہوں سے کیوں تجھ کو حیا آئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تِری ذات یا محمدﷺ مِرا ہر قدم سہارا
تِرا نام اصل میں ہے مجھے جان و دل سے پیارا
وہ ہیں رحمتِ دو عالم تو میں ان کا اُمتی ہوں
ہے انہیں کا لطف بے حد مِرے بخت کا سہارا
یہ عطائے خُسروانہ کوئی میرے دل سے پوچھے
تِری ذات ہے اے قادر! کیا مجھ کو آشکارا
پھول بنتی ہے نکل کر لب اظہار سے بات
ہم نے چھیڑی ہے بھری بزم میں کس پیار سے بات
دل جلانے سے ملا کرتا ہے کس طرح سکوں
آؤ کر لیں نا ذرا آتشِ رُخسار سے بات
وہ نہ آئے بھی اگر دل تو بہل جائے گا
اور کچھ دیر کریں سایۂ دیوار سے بات
ان سے اظہار خواہشات نہ کر
اور تازہ غمِ حیات نہ کر
جس سے اے دوست دل کو ٹھیس لگے
مجھ سے للہ ایسی بات نہ کر
رخ پہ اس طرح کاکلیں نہ بکھیر
صبح روشن کو کالی رات نہ کر
دوست کوئی جو معتبر نہ رہا
اعتبار اپنے آپ پر نہ رہا
راہبر سے جو بے خبر نہ رہا
راہزن کا اسی کو ڈر نہ رہا
فصل آئی ہے جب سے پت جھڑ کی
سایہ والا کوئی شجر نہ رہا
خاک اطراف میں اڑتی ہے بہت پانی دے
اس مسافت کو بھی ایک خطۂ بارانی دے
کچھ دنوں دشت بھی آباد ہوا چاہتا ہے
کچھ دنوں کے لیے اب شہر کو ویرانی دے
یا مجھے مملکت عشق کی شاہی سے نواز
یا مجھے پھر سے وہی بے سر و سامانی دے
مستحق کون ہے ہم لوگ یہ کب دیکھتے ہیں
بھیک بھی دیتے ہیں تو نام و نسب دیکھتے ہیں
شہرِ مجبور کا ہم حال عجب دیکھتے ہیں
ہر کہیں پھیلا ہوا دستِ طلب دیکھتے ہیں
سوچتا ہوں کہ بصیرت کی کسوٹی کیا ہے
دیکھنے والے تو اعزاز و لقب دیکھتے ہیں
تمہاری جو چشمِ کرم ڈھونڈتے ہیں
وہی دل میں داغِ الم ڈھونڈتے ہیں
محبت کی بازی کبھی وہ نہ ہارے
خوشی کے بجائے جو غم ڈھونڈتے ہیں
ہوئے جن کی خاطر زمانے میں رُسوا
انہی کو خدا کی قسم ڈھونڈتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کرم اتنا تو مجھ پر احمد مختارﷺ ہو جائے
یہ عاصی بھی کسی دن حاضرِ دربار ہو جائے
وہ دل آئینہ کی مانند حیرت زار ہو جائے
رسولِ پاکؐ کی صورت سے جس کو پیار ہو جائے
عطا ہوں مجھ کو ایسا جامِ عرفاں ساقئ کوثر
کہ جس کے پیتے ہی دل مرکزِ انوار ہو جائے
روٹھا ہوا ہے آج ترا اعتبار بھی
دامن بچا رہا ہے غمِ انتظار بھی
دل مجھ سے کہہ رہا ہے کہ تم آ گئے قریب
سعئ نظر ہے آج مِری شرمسار بھی
مانا تِری طلب نے دیا ہے نمو مجھے
لیکن مِرا وجود ہے تیرا وقار بھی
سارے گلشن میں مِرا کوئی بھی دم ساز نہیں
چلتے پھرتے ہیں یہ سائے مگر آواز نہیں
یہ حقیقت ہے کھلی اس میں کوئی راز نہیں
تُو وہی ہے مگر اسلاف کے انداز نہیں
بے نیاز آج بھی چشم کرم انداز نہیں
غم نہ کر تو در مے خانہ اگر باز نہیں
ہیں مقدر میں ابھی کرب کے منظر کتنے
اور اتریں گے ابھی سینے میں خنجر کتنے
کیا خبر دور ابھی اور ہے کتنی منزل؟
کیا بتائیں، ہیں ابھی پاؤں میں چکر کتنے
شیش محلوں سے شب و روز گزرنے والو
ان پہ مارو گے ابھی تان کے پتھر کتنے
منظر اک اور بھی پس منظر لگا مجھے
دیکھا جو آئینہ تو بہت ڈر لگا مجھے
اے یارِ خوش خرام! تکلف نہ کر کہ میں
پتھر ہوں تیری راہ کا، ٹھوکر لگا مجھے
کیا لوچ، کیا سبھاؤ ہے، دے اور گالیاں
لہجہ تِرا تو اور بھی سُندر لگا مجھے
تمہارے چہرے پہ دھیان ایسے ٹکا ہوا ہے
تمام سمتوں کو ایک جانب رکھا ہوا ہے
ہرے درختوں سے بیلیں کیسے لپٹ رہی ہیں
زمین پر آسمان کیسے جھکا ہوا ہے
وہ ایک لڑکی جو مر رہی ہے حیا کے مارے
وہ ایک لڑکا جو دیکھنے پر تلا ہوا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر دل کو گدگداتی ہے الفت رسولﷺ کی
شاید نصیب ہو گی زیارت رسولﷺ کی
جس طرح پھیلے چاندنی دنیا میں ہر طرف
پھیلی تھی یوں زمانے میں شہرت رسول کی
راضی خدا ہوا ہے صحابہ سے اس لیے
حاصل نہیں ہوئی تھی رفاقت رسول کی
ڈھونڈو گے مگر پیار کی ڈالی نہ ملے گی
اب تم کو کوئی چاہنے والی نہ ملے گی
کھڑکی نہ کھلے گی، کوئی جالی نہ ملے گی
یہ رات کبھی درد سے خالی نہ ملے گی
چھپ جائے گا احساس کا جاگا ہوا سورج
آنکھوں میں کسی صبح کی لالی نہ ملے گی
غم نصیبوں کو بھی عنوان حکایات کریں
آؤ کچھ تذکرۂ اہلِ خرابات کریں
ایک مدت سے ہمیں اپنا پتہ ہے درکار
غم سے پائیں جو مفر خود سے ملاقات کریں
ذکر تیرا سحر آثار نظاروں سے رہے
شام آئے تو ستاروں سے تِری بات کریں
ہر دل کے آس پاس ہے اک غم چھپا ہوا
ہر پھُول کے قریب ہے کانٹا اُگا ہوا ہوا
اب دوستی کریں بھی تو کیا زندگی کے ساتھ
ہر دم اسے ہے موت کا کھٹکا لگا ہوا
یوں دل میں رہ گئی ہے کسی بے وفا کی یاد
رہ جائے جیسے گھر میں کوئی در کُھلا ہوا
اس خبر کی شہر میں کرتا پھرے تشہیر کون
زندگی کی لکھ رہا ہے بے وضو تفسیر کون
اے اسیرِ زلف جاناں! شب کے سناٹوں سے پوچھ
کھٹکھٹانے آتا ہے پچھلے پہر زنجیر کون؟
ساری بستی کی زباں پر بس یہی ہے اک سوال
بیچتا ہے شہر میں بے پیرہن تصویر کون
ہر سمت یہ ہم شور و شرر دیکھ رہے ہیں
مظلوم کی آہوں کا اثر دیکھ رہے ہیں
مٹتے ہوئے اسلاف کی عظمت کے نشانات
دیکھے نہیں جاتے ہیں مگر دیکھ رہے ہیں
کل تک جو اخوت کے لیے پھرتے تھے پرچم
بدلی ہوئی آج ان کی نظر دیکھ رہے ہیں
دورِ آزادی
لب پہ بھولے سے مسرت کا نہ لے نام ابھی
دل کو گھیرے ہے ہجومِ غم و آلام ابھی
ہے وہی کشمکشِ گردشِ ایام ابھی
وہی دن رات وہی ہیں سحر و شام ابھی
وہی صیاد ہے بدلا ہوا ہے نام تو کیا
ہر تر و خشک میں پھیلا ہوا ہے دام ابھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پڑ گیا سایۂ گنبد بھی اگر کانٹوں پر
جگمگا اٹھیں گے پھر شمس و قمر کانٹوں پر
رشکِ مہتاب تھا صحرائے مدینہ شب بھر
اوس بن بن کے اترتی تھی سحر کانٹوں پر
خواب میں آپﷺ جو ایک بار اگر آ جائیں
مجھ کو آ جائے گا جینے کا ہنر کانٹوں پر
میری راہوں کو آسان کس نے کیا
زندگی کو گُلستان کس نے کیا
ہر مُصیبت سے کس نے بچایا مجھے
مجھ پہ آخر یہ احسان کس نے کیا
اپنی چھایا میں محفوط رکھ کر مجھے
مجھ کو ہر غم سے انجان کس نے کیا
جہان خود غرض میں کون کس کے کام آتا ہے
جو کام آتا ہے تو تنہا دلِ💔 ناکام آتا ہے
ہوا ہے اور نہ ایسا ہو گا اب خونریز عالم میں
لہو دیتی ہے دل کی رگ جب ان کا نام آتا ہے
لُنڈھائیں خُم کے خُم سیراب اور پیاسوں کے حصے میں
صُراحی ہے نہ مِینا ہے، نہ کوئی جام🍷 آتا ہے
زمانہ اس کے آ جانے کا آ جاتا تو اچھا تھا
کبھی اس سے زمانہ ہم کو ملواتا تو اچھا تھا
کی کی بد نظر سے چاند سا چہرہ بچا رہتا
تمہاری آنکھ کا کاجل جو بہہ جاتا تو اچھا تھا
تمہارے بے وفائی یاد آ جائے تو کہتا ہوں
مِرے دل کو نہ تیرا دل اگر بھاتا تو اچھا تھا
ہم سے رُودادِ محبت میں خیانت نہ ہوئی
اس سے بچھڑے تو کسی اور سے اُلفت نہ ہوئی
دل میں بستے تھا میرے وہ کبھی دھڑکن کی طرح
بعد اس کے تو مِرے دل کو محبت نہ ہوئی
کس طرح سب کو بتاؤں میں بچھڑنے کا سبب
ضرب ایسی ملی مجھ کو کبھی ہمت نہ ہوئی
اثر کیا لبِ خاموش نے زباں کی طرح
بکھر گیا مِرا ہر اشک داستاں کی طرح
کیے ہیں تُو نے ستم جورِ آسماں کی طرح
جو امتحان لیے مجھ سے امتحاں کی طرح
کہاں ٹھکانہ بناؤں گا اپنا اے صیاد؟
قفس بھی راس نہ آیا جو آشیاں کی طرح
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آؤ کر لیں پھر کچھ باتیں حسینؑ کی
کتنی کربناک تھیں وہ شہادتیں حسین کی
صدیوں سے جو ہو رہے ہیں سجدے جا بجا
مگر عبادتیں تو ہیں صرف عبادتیں حسین کی
اجالا نگل گئی، جہالت کی سیاہ رات
روشن ہیں آج تک وہ راتیں حسین کی
میری رُسوائی ہے کہ شہرت ہے
جو بھی ہے آپ کی بدولت ہے
آئینہ سامنے ہے، وہ بھی ہیں
کیا کہوں کون خوبصورت ہے
خواہشوں کا اگر غلام نہ ہو
آدمی فخرِ آمدمیت ہے
گر مجھ سے خفا ہو تو سزا کیوں نہیں دیتے
مجھ کو بھری محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہوتا ہے فقط جن سے اندھیروں میں اضافہ
تم ایسے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
بیمار تمہارے لبِ دم ہیں ذرا دیکھو
تم کیسے مسیحا ہو، دوا کیوں نہیں دیتے
چمن میں آتے ہی دشت بلا کو بھُول گئے
شِکم جو سیر ہوا، تم گدا کو بھول گئے
نجات ہم کو مرض سے ملے تو کیسے ملے
کہ چارہ ساز ہماری دوا کو بھول گئے
گِلہ کرے نہ تہی دستئ فقیر کہیں
تم اپنے در کے پرانے گدا کو بھول گئے
دیر و حرم میں دیکھو لڑایا گیا ہمیں
کچھ اس طرح جمورا بنایا گیا ہمیں
دیکھا کلام خواب مگر بیس بیس تک
لیکن یہ کیسی سمت میں لایا گیا ہمیں
اک دن جناب شیخ کو سُوجھا کہ کچھ کریں
اس شام در قطار سجایا گیا ہمیں
پیاس صدیوں کی لیے اپنے لبوں پر آیا
ملنے صحراؤں سے آج ایک سمندر آیا
اور پتھر تو مِرے گھر سے ذرا دور کرے
ایک اخلاص کا پتھر تھا جو سر پر آیا
شہر کی بات فصیلوں سے پرے جا پہنچی
اور اس بات کا الزام مِرے سر آیا
آئینہ ساز ہاتھوں کا آئینہ صاف کر
میں ہوں پسِ غبار مِرا انکشاف کر
کیا کچھ نہیں اُداس گھروں میں تِرے لیے
جنگل کو جانے والے! کبھی اعتکاف کر
جس کا ہُوا ہے قتل، وہ اک آفتاب تھا
سرزد ہوئی ہے تجھ سے خطا اعتراف کر
کہاں جاتے ہو یوں پہلو بدل کے
ابھی کچھ شعر باقی ہیں غزل کے
جہاں لکھا تھا میں نے لفظ الفت
وہیں پر آ گرے آنسو پھسل کے
یہ میرا جسم جو مہکا ہوا ہے
تِری محفل سے آیا ہوں نکل کے
تیرا بیمار تِرے در سے بھی خالی جائے
کس سے پھر دردِ محبت کی دوا لی جائے
دل کے ایزل سے ہے لِپٹا ہوا کاغذ کورا
کیوں نہ پھر آپ کی تصوہر بنا لی جائے
توپ بھی، تیر بھی، تلوار بھی رکھ دیں آؤ
دل کی گِرتی ہوئی دیوار اُٹھا لی جائے
کوئی حبیب کوئی مہرباں تو ہے ہی نہیں
ہمارے سر پہ کوئی آسماں تو ہے ہی نہیں
جو ایک عکس حقیقت ہے ٹوٹ جائے اگر
پتہ چلے کہ جہاں میں جہاں تو ہے ہی نہیں
میں ایک عمر سے رب کی تلاش کرتا ہوں
جہاں پہ اس کا نشاں تھا وہاں تو ہے ہی نہیں
دُنیا اُلٹی ادا سمجھتی ہے
بے وفا کو وفا سمجھتی ہے
کرب و چیخ اور پُکار کو دُنیا
اب خُوشی کی صدا سمجھتی ہے
ایسی ہستی ہے آج بھی موجود
جو بھلوں کو بھلا سمجھتی ہے
اس نے مجھ سے غلط بیانی کی
یہ علامت بھی ہے جوانی کی
صرف آنکھیں ہی نم نہیں کرتا
خُوبیاں اور بھی ہیں پانی کی
آپ کو نیند آ رہی ہے کیا
ابتداء ہے ابھی کہانی کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مُدت سے مِرے دل میں بس ایک تمنا ہے
میں جا کے مدینے میں مر جاؤں تو اچھا ہے
کعبہ مِرا دل ہے، اور جاں ہے مدینے میں
عاصی پہ بڑا یا رب! احسان یہ تیرا ہے
اس کے درِ اقدس کی تو مجھ کو گدائی دے
جو رحمتِ عالم ہے، محبوب بھی تیرا ہے
جہاں نفاق کے شعلے ملیں بُجھا کے چلو
چراغ امن و محبت کا تم جلا کے چلو
تمہارے بعد بھی آئیں گے قافلے یارو
ملیں جو راہ میں کانٹے انہیں ہٹا کے چلو
ابھی تو کام انہیں بھی بہت سے کرنے ہیں
نمود صبح ہے سوتوں کو بھی جگا کے چلو
عہدِ وفا
تمہارے واسطے بھی
ساری دنیا سے اگر میں لڑ نہ پایا
تو تم ہرگز نہ سمجھو
کہ دنیا تم سے زیادہ معتبر ہے
تم سے، مجھ سے، منحرف دنیا
یہ دنیا، روز عالمگیر سطحوں پر
بہ فیض عشق ہم نے جب خرد کا راستہ بدلا
مذاقِ زندگی کے ساتھ دل کا مُدعا بدلا
سکونِ دل کی خاطر آج اندازِ وفا بدلا
مِری صورت بدل جانے سے دل کا مُدعا بدلا
محبت ہی محبت ہے جدھر دیکھو زمانے میں
مِری قسمت کہ ان ہاتھوں میں پھر رنگِ حِنا بدلا
ہجر ہو یا وصال کچھ تو ہو
یا خدا! اب کے سال کچھ تو ہو
مشتہر تُو بھی ہو زمانہ میں
میرے غم کی مثال کچھ تو ہو
یہ جو دِکھتا ہے کیا حقیقت ہے
آئینے سے سوال کچھ تو ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ خدا کا نہیں بندگی کا نہیں
جو نبیؐ کا نہیں وہ کسی کا نہیں
جس نے سمجھی نہیں عظمتِ مصطفیٰؐ
وہ علی کا نہیں، وہ ولی کا نہیں
فرش تا عرش ہیں حکمراں آپؐ ہی
یہ زمانے میں رُتبہ کسی کا نہیں
اگر ہے مانگنا مانگو وہاں سے
زمانے بھر کو ملتا ہے جہاں سے
کوئی پوچھے تو اتنا باغباں سے
کہ رونق اڑ گئی کیوں گلستاں سے
تعلق ہے اب ان کا گلستاں سے
جو نا واقف ہیں پھولوں کی زباں سے
جبرِ مشیّت
قلم حیراں، سیاہی خشک، دل پہ جبر کا پہرہ
نگاہوں سے نگاہوں تک، سکوتِ مرگ کا پہرہ
کہاں بادِ نسیمِ صبح گاہی، کس جگہ گلشن
وہاں صیاد کا پہرہ، یہاں صیاد کا پہرہ
رفیقانِ چمن، بے امتیازِ شوق ا رُسوائی
کیے جاتے ہیں اب تو بارگاہِ صبر کا پہرہ
موت تھی زندگی تھی یاد نہیں
کون مجھ سے ملی تھی یاد نہیں
ہم نے روشن تو کی تھی شمعِ وفا
وہ جلی تھی بجھی تھی یاد نہیں
خاک تو ہو گیا تھا پروانہ
شمع کیوں رو پڑی تھی یاد نہیں
کسی برگد🌳 کا سر راہ نہ احسان لیا
اپنا سایہ تھا کڑی دھوپ میں خود تان لیا
بھیس بدلے تو بہت ہم نے ہوا کے ڈر سے
سنگ و دیوار نے ہر شہر میں پہچان لیا
لوگ خوابوں کے دریچوں میں چھپے بیٹھے ہیں
حاکم شہر نے ہر شخص کا ایمان لیا
ڈس رہی ہیں رات دن اب تنہائیاں ہماری
بوجھ لگ رہی ہیں ہمیں پرچھائیاں ہماری
کانوں پہ ہاتھ رکھ کے دور بھاگ رہے ہیں
ہنسی اڑا رہی ہیں بج بی کے شہنائیاں ہماری
کسی کا قصور کیا ہے ہم خود ہی سبب ہیں
برباد کرگئی ہیں ہمیں یہ لاہرواہیاں ہماری
ہر چند کہ ہم موردِ ہر قہر و غضب ہیں
باطل کے پرستار نہ پہلے تھے نہ اب ہیں
وہ لوگ کہاں اب جنہیں کہتے تھے مجاہد
اس دور ترقی میں سب آرام طلب ہیں
فرصت جو ملے غم سے تو مسمار ہی کر دوں
جتنے بھی سر راہ یہ ایوان طرب ہیں
کیا جانیے کس نشۂ غفلت میں ہیں سرشار
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسے ہے عشق ختم المرسلیں سے
وہ فارغ ہے غمِ دنیا و دیں سے
محمدﷺ جب نہ تھے دنیا تھی تاریک
ضیاء پھیلی اسی مہرِ مبیں سے
مخاطب کون ہے جُز ذاتِ احمدﷺ
خطابِ رحمۃ اللعالمیںﷺ سے
زندگی کے اس سفر میں ہمسفر کوئی نہیں
لوگ ہیں لاکھوں نظر میں ہم نظر کوئی نہیں
آپ کی یہ رہنمائی راہ کی بھٹکن بنی
منزلوں تک جانے والی رہگزر کوئی نہیں
اب تو میں تنہا ہوں اور یادوں کا اک ٹھنڈا لاؤ
میرے حصے میں اندھیرے ہیں، سحر کوئی نہیں
ارادے نیک ہیں نیت کھری ہے
تمہاری جیب پھر کیسے بھری ہے
تمہیں پڑ جائے گی اس کی بھی عادت
ابھی اک بار ہی غیرت بھری ہے
ادا لیلیٰ کی ٹونا ٹوٹکا ہے
محبت قیس کی جادوگری ہے
محفل عشق کا دستور نرالا دیکھا
غم سے معمور ہر اک چاہنے والا دیکھا
محل امید کا برسوں میں ہوا تھا تعمیر
اس کو پل بھر میں ہی ہم نے تہ و بالا دیکھا
دشمنوں نے میری جانب سے زباں کھولی تھی
اپنے احباب کے ہونٹوں ہی پہ تالا دیکھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عکسِ جمالِ شمعِ رسالت کہو اسے
سرتاجِ دین و شاہِ شہادت کہو اسے
دیکھو تو ایک نُورِ حقیقت کا آئینہ
سمجھو اگر تو رازِ مشیّت کہو اسے
عجز و رضا و صبر کی معراجِ آخریں
صِدق و صفا و عشق و محبت کہو اسے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تڑپ رہا ہوں میں دیدار کو زمانے سے
مجھے بلائیے آقاﷺ کسی بہانے سے
جھکا ہے سارا زمانہ ہمارے قدموں پر
حضور آپؐ کے قدموں پہ سر جھکانے سے
خدا کرے کہ کوئی رابطہ سا پیدا ہو
اس آستانے کا میرے غریب خانے سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے نبی پیارے پیارے نبیﷺ
ہیں امت کی آنکھوں کے تارے نبی
ہدایت کا رستہ دکھایا ہمیں
عبادت ہے کیا؟ یہ بتایا ہمیں
انہوں نے ہی تعلیمِ قُرآن دی
بھلائی، بُرائی کی پہچان دی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شاہ عرب و عجم
اے جلوہ فروز شمعِ حرم
اے راہنمائے باغِ ارم
اے محرم رازِ سیف و قلم
ہے تجھ سے وجودِ لطف و کرم
اے شاہ عرب اے شاہِ عجم
حدود ذات سے غافل نہ عمر بھر رہنا
حصارِ ذات سے باہر بھی ہو اگر رہنا
ہر اک خار ہر اک گُل سے با خبر رہنا
چمن میں رہنا اگر ہو تو سوچ کر رہنا
کسی رئیس کی محفل ہو یا غریب کا گھر
جہاں بھی رہنا ضروری ہو مختصر رہنا
سرخی شب سیہ پہ لگا کر بھی دیکھیے
جُوڑے میں اس کے پھُول سجا کر بھی دیکھیے
شعلہ کسی کے قُرب کا لپکے ہے بار بار
اس آگ میں بدن کو جلا کر بھی دیکھیے
آتش کدے کے پاس سے اُٹھیے گا بھی ذرا
ٹھنڈی ہوا کا لطف اُٹھا کر بھی دیکھیے
بن مِرا ہمسفر سوچ کر دیکھ کر
ساتھ دے پر مِری رہگزر دیکھ کر
اپنا ماضی بہت یاد آیا مجھے
سبز پتہ کوئی شاخ پر دیکھ کر
میں نے بھی چار دن زندگی کی تو تھی
یاد آیا مجھے ایک گھر دیکھ کر
تماشائے الم ہے اور میں ہوں
خوشی کے ساتھ غم ہے اور میں ہوں
زمانے کا ستم ہے اور میں ہوں
یہ سب ان کا کرم ہے اور میں ہوں
رہ حق پر قدم ہے اور میں ہوں
سرِ اخلاق خم ہے اور میں ہوں
طلسم توڑتے ہیں خواب سے نکالتے ہیں
رقیب کو تِرے گرداب سے نکالتے ہیں
پرندے صرف یہاں مستفید ہوتے نہیں
ہم اپنا رزق بھی تالاب سے نکالتے ہیں
ہمیں بُجھانے کی سازش میں تُو بھی شامل تھا
تجھے بھی حلقۂ احباب سے نکالتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الٰہی مجھ پر ہو چشم عنایت کملی والےﷺ کی
زمانے کو عطا کی تُو نے دولت کملی والے کی
نہ مجھ کو خواہش دولت، نہ مجھ کو خواہشِ دنیا
ازل سے ہے مِرے دل میں محبت کملی والے کی
وہاں پر کُفر کی آندھی نے اپنا سر کچل ڈالا
جہاں روشن ہوئی شمعِ صداقت کملی والے کی
میں تخیل میں تجھ کو لاؤں گا
ان گنت زاویوں سے پرکھوں گا
دکھ سمجھتا ہوں بے گھری کا میں
چھت سے جالے نہیں اتاروں گا
داغ چھپتا نہیں سفیدی سے
آپ سے جھوٹ کیسے بولوں گا
سائیں، میرے پیارے سائیں
تیرا نام عشق، کس نے رکھا؟
داسیاں مندروں میں رقص کرتی ہیں
مسجدوں میں اذانیں گونجتی ہیں
کئی دھڑکنیں گنگا کنارے
تیرے نام کی تسبیح کرتے ہوئے
بات جھوٹی اثر خیالی ہے
سرفروشی کا سر خیالی ہے
کٹ گئی خواب ٹوٹنے میں عمر
یعنی سارا سفر خیالی ہے
بھائی چارہ خلوص آشتی امن
ہے سبھی کچھ مگر خیالی ہے
جب بھی پھیلے رات کے سائے
درد کے بادل دل پر چھائے
ہو سُو اپنے لوگ کھڑے تھے
پتھر کس جانب سے آئے
دنیا پتھر دل ہے، لیکن
دل نے پھر بھی خواب سجائے
کسی کے صُبح کی مُسکان ہونا
اندھیرے گھر میں روشندان ہونا
کہوں میں کیا تمہیں اس سے زیادہ
مِرے بچو! مِری پہچان ہونا
سفر آسان میرا کر گیا ہے
تمہارا ساتھ اس دوران ہونا
بے آواز دکھ
دکھ
ندی ہے
گہری
سمرتیوں کی
بہتی رہی بے آواز
تھکی، ٹوٹی اکیلے پن سے
اب کوئی بات بڑھانے کی ضرورت نہ رہی
حال دل ان کو سنانے کی ضرورت نہ رہی
مسئلے ہو گئے بے رخ ہی سیاست کے شکار
کوئی آواز اٹھانے کی ضرورت نہ رہی
قافلے درد کے خود دل سے گزر جاتے ہیں
راستے ان کو دکھانے کی ضرورت نہ رہی
رکنا پڑے گا اور بھی چلنے کے نام پر
گرتی رہے گی خلق سنبھلنے کے نام پر
پھنستا گیا ہوں اور نکلنے کی سعی میں
آفت مزید آئی ہے ٹلنے کے نام پر
یہ کیا طلسم ہے کہ ابھرنے کے شوق میں
آواز دب گئی ہے نکلنے کے نام پر
ممکن نہ تھی جو بات وہی بات ہو گئی
دریا مجھے ملا تو مِری پیاس کھو گئی
جب تک تمہارا ذِکر رہا جاگتی رہی
پھر وہ حسین رات بھی محفل میں سو گئی
سایا تمہاری یاد کا اب میرے ساتھ ہے
دنیا تو اک ندی تھی سمندر میں کھو گئی
کوئی دشمن کوئی پرایا ہے
صرف اپنا بس ایک سایہ ہے
دوستی میں دروغ گوئی نے
رنگ ہر طرح کا جمایا ہے
کب نبھائی ہے یار نے یاری
دوستوں نے ہی دل دُکھایا ہے