عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسے ہے عشق ختم المرسلیں سے
وہ فارغ ہے غمِ دنیا و دیں سے
محمدﷺ جب نہ تھے دنیا تھی تاریک
ضیاء پھیلی اسی مہرِ مبیں سے
مخاطب کون ہے جُز ذاتِ احمدﷺ
خطابِ رحمۃ اللعالمیںﷺ سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسے ہے عشق ختم المرسلیں سے
وہ فارغ ہے غمِ دنیا و دیں سے
محمدﷺ جب نہ تھے دنیا تھی تاریک
ضیاء پھیلی اسی مہرِ مبیں سے
مخاطب کون ہے جُز ذاتِ احمدﷺ
خطابِ رحمۃ اللعالمیںﷺ سے
زندگی کے اس سفر میں ہمسفر کوئی نہیں
لوگ ہیں لاکھوں نظر میں ہم نظر کوئی نہیں
آپ کی یہ رہنمائی راہ کی بھٹکن بنی
منزلوں تک جانے والی رہگزر کوئی نہیں
اب تو میں تنہا ہوں اور یادوں کا اک ٹھنڈا لاؤ
میرے حصے میں اندھیرے ہیں، سحر کوئی نہیں
ارادے نیک ہیں نیت کھری ہے
تمہاری جیب پھر کیسے بھری ہے
تمہیں پڑ جائے گی اس کی بھی عادت
ابھی اک بار ہی غیرت بھری ہے
ادا لیلیٰ کی ٹونا ٹوٹکا ہے
محبت قیس کی جادوگری ہے
محفل عشق کا دستور نرالا دیکھا
غم سے معمور ہر اک چاہنے والا دیکھا
محل امید کا برسوں میں ہوا تھا تعمیر
اس کو پل بھر میں ہی ہم نے تہ و بالا دیکھا
دشمنوں نے میری جانب سے زباں کھولی تھی
اپنے احباب کے ہونٹوں ہی پہ تالا دیکھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عکسِ جمالِ شمعِ رسالت کہو اسے
سرتاجِ دین و شاہِ شہادت کہو اسے
دیکھو تو ایک نُورِ حقیقت کا آئینہ
سمجھو اگر تو رازِ مشیّت کہو اسے
عجز و رضا و صبر کی معراجِ آخریں
صِدق و صفا و عشق و محبت کہو اسے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تڑپ رہا ہوں میں دیدار کو زمانے سے
مجھے بلائیے آقاﷺ کسی بہانے سے
جھکا ہے سارا زمانہ ہمارے قدموں پر
حضور آپؐ کے قدموں پہ سر جھکانے سے
خدا کرے کہ کوئی رابطہ سا پیدا ہو
اس آستانے کا میرے غریب خانے سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمارے نبی پیارے پیارے نبیﷺ
ہیں امت کی آنکھوں کے تارے نبی
ہدایت کا رستہ دکھایا ہمیں
عبادت ہے کیا؟ یہ بتایا ہمیں
انہوں نے ہی تعلیمِ قُرآن دی
بھلائی، بُرائی کی پہچان دی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شاہ عرب و عجم
اے جلوہ فروز شمعِ حرم
اے راہنمائے باغِ ارم
اے محرم رازِ سیف و قلم
ہے تجھ سے وجودِ لطف و کرم
اے شاہ عرب اے شاہِ عجم
حدود ذات سے غافل نہ عمر بھر رہنا
حصارِ ذات سے باہر بھی ہو اگر رہنا
ہر اک خار ہر اک گُل سے با خبر رہنا
چمن میں رہنا اگر ہو تو سوچ کر رہنا
کسی رئیس کی محفل ہو یا غریب کا گھر
جہاں بھی رہنا ضروری ہو مختصر رہنا
سرخی شب سیہ پہ لگا کر بھی دیکھیے
جُوڑے میں اس کے پھُول سجا کر بھی دیکھیے
شعلہ کسی کے قُرب کا لپکے ہے بار بار
اس آگ میں بدن کو جلا کر بھی دیکھیے
آتش کدے کے پاس سے اُٹھیے گا بھی ذرا
ٹھنڈی ہوا کا لطف اُٹھا کر بھی دیکھیے
بن مِرا ہمسفر سوچ کر دیکھ کر
ساتھ دے پر مِری رہگزر دیکھ کر
اپنا ماضی بہت یاد آیا مجھے
سبز پتہ کوئی شاخ پر دیکھ کر
میں نے بھی چار دن زندگی کی تو تھی
یاد آیا مجھے ایک گھر دیکھ کر
تماشائے الم ہے اور میں ہوں
خوشی کے ساتھ غم ہے اور میں ہوں
زمانے کا ستم ہے اور میں ہوں
یہ سب ان کا کرم ہے اور میں ہوں
رہ حق پر قدم ہے اور میں ہوں
سرِ اخلاق خم ہے اور میں ہوں
طلسم توڑتے ہیں خواب سے نکالتے ہیں
رقیب کو تِرے گرداب سے نکالتے ہیں
پرندے صرف یہاں مستفید ہوتے نہیں
ہم اپنا رزق بھی تالاب سے نکالتے ہیں
ہمیں بُجھانے کی سازش میں تُو بھی شامل تھا
تجھے بھی حلقۂ احباب سے نکالتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الٰہی مجھ پر ہو چشم عنایت کملی والےﷺ کی
زمانے کو عطا کی تُو نے دولت کملی والے کی
نہ مجھ کو خواہش دولت، نہ مجھ کو خواہشِ دنیا
ازل سے ہے مِرے دل میں محبت کملی والے کی
وہاں پر کُفر کی آندھی نے اپنا سر کچل ڈالا
جہاں روشن ہوئی شمعِ صداقت کملی والے کی
میں تخیل میں تجھ کو لاؤں گا
ان گنت زاویوں سے پرکھوں گا
دکھ سمجھتا ہوں بے گھری کا میں
چھت سے جالے نہیں اتاروں گا
داغ چھپتا نہیں سفیدی سے
آپ سے جھوٹ کیسے بولوں گا
سائیں، میرے پیارے سائیں
تیرا نام عشق، کس نے رکھا؟
داسیاں مندروں میں رقص کرتی ہیں
مسجدوں میں اذانیں گونجتی ہیں
کئی دھڑکنیں گنگا کنارے
تیرے نام کی تسبیح کرتے ہوئے
بات جھوٹی اثر خیالی ہے
سرفروشی کا سر خیالی ہے
کٹ گئی خواب ٹوٹنے میں عمر
یعنی سارا سفر خیالی ہے
بھائی چارہ خلوص آشتی امن
ہے سبھی کچھ مگر خیالی ہے
جب بھی پھیلے رات کے سائے
درد کے بادل دل پر چھائے
ہو سُو اپنے لوگ کھڑے تھے
پتھر کس جانب سے آئے
دنیا پتھر دل ہے، لیکن
دل نے پھر بھی خواب سجائے
کسی کے صُبح کی مُسکان ہونا
اندھیرے گھر میں روشندان ہونا
کہوں میں کیا تمہیں اس سے زیادہ
مِرے بچو! مِری پہچان ہونا
سفر آسان میرا کر گیا ہے
تمہارا ساتھ اس دوران ہونا
بے آواز دکھ
دکھ
ندی ہے
گہری
سمرتیوں کی
بہتی رہی بے آواز
تھکی، ٹوٹی اکیلے پن سے
اب کوئی بات بڑھانے کی ضرورت نہ رہی
حال دل ان کو سنانے کی ضرورت نہ رہی
مسئلے ہو گئے بے رخ ہی سیاست کے شکار
کوئی آواز اٹھانے کی ضرورت نہ رہی
قافلے درد کے خود دل سے گزر جاتے ہیں
راستے ان کو دکھانے کی ضرورت نہ رہی
رکنا پڑے گا اور بھی چلنے کے نام پر
گرتی رہے گی خلق سنبھلنے کے نام پر
پھنستا گیا ہوں اور نکلنے کی سعی میں
آفت مزید آئی ہے ٹلنے کے نام پر
یہ کیا طلسم ہے کہ ابھرنے کے شوق میں
آواز دب گئی ہے نکلنے کے نام پر
ممکن نہ تھی جو بات وہی بات ہو گئی
دریا مجھے ملا تو مِری پیاس کھو گئی
جب تک تمہارا ذِکر رہا جاگتی رہی
پھر وہ حسین رات بھی محفل میں سو گئی
سایا تمہاری یاد کا اب میرے ساتھ ہے
دنیا تو اک ندی تھی سمندر میں کھو گئی
کوئی دشمن کوئی پرایا ہے
صرف اپنا بس ایک سایہ ہے
دوستی میں دروغ گوئی نے
رنگ ہر طرح کا جمایا ہے
کب نبھائی ہے یار نے یاری
دوستوں نے ہی دل دُکھایا ہے