Friday, 31 July 2020
سویا ہوا نصیب جگانے لگا تھا میں
اے دربدری لوٹ کے گھر آنے لگا ہوں
دے رہا ہے دستکیں در پر کوئی
اک شاعر کامل کہ تخلص میں تھا قاصر
مفہوم سو گئے ہیں خاموش ہے لغت بھی
سفینۂ چشم جب بھی شفاف پانیوں پر سوار ہو گا
وفا کا مکمل جہاں اور وہ
ہمارے عکس ہم جیسے نہیں ہیں
میں تجھے عکسِ جاں سمجھتا ہوں
پھر سے وعدہ کرو مکر جاؤ
جہاں ڈبویا وہاں سے ابھر رہا ہوں میں
کیسے جیتے ہیں زمانے والے
مکمل کس کی ہستی ہے یہ حیوانوں کی بستی ہے
ہم ایسے لوگ بھی سچائیوں سے ڈرتے ہیں
نظر نظر میں سلگتے ہیں اعتبار کے خواب
استعمال شدہ محبت
محرومیاں میرا لحاف رہی ہیں
میں نے ہمیشہ دوسروں کی لعاب زدہ روٹیاں چبائیں
اور پرندوں کے زخمی کئے ہوئے
پھلوں کا خون چکھا
میرے پھیپھڑے صرف گدلی ہوا سہہ سکتے ہیں
مجھے تمہارے میلے کپڑے نہیں پہننے
وقت نے میرے دل سے
بھیڑیے کے دانت باندھ دیئے ہیں
میرے خون میں وحشت اگنے لگی ہے
خوشیوں کی پرورش کرتے ہوۓ
دکھ مجھ سے زیادہ قد آور ہو گیا ہے
زندگی نے مجھے بہت بے آرام کیا ہے
کند ذہن رات کی بستی
اندھیری رات ہوا تیز برشگال کا شور
بڑے خلوص سے دامن پسارتا ہے کوئی
انتظامات نئے سرے سے سنبھالے جائیں
اسے سامان سفرِ جان، یہ جگنو رکھ لے
جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئی
دعا کی اپنی ضرورت شراپ کی اپنی
جانے وہ دن کہاں گئے خوابوں بھرے ہوئے
دل جو مل بھی جائیں تو قسمتیں نہیں ملتیں
یہ ضرور آتش آرزو کا وبال ہے
پھر آج دل سے لگا بیٹھے نام برتے ہوئے
راہ میں کوئی چراغوں کی گلی آتی ہے
رات بھر خواب کی گلیوں میں کوئی بولتا ہے
اک شور مرے باہر اک شور مرے اندر
کیوں مجھے چور سمجھتے ہیں نہ جانے سارے
بچھڑوں نے جب ملنا نہیں پھر عید کیا، تہوار کیا
کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
جب تک خلش درد خداداد رہے گی
دل کی ہوس وہی ہے مگر دل نہیں رہا
فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
پہلے چپ چاپ مجھے تکتا رہا دروازہ
وقت عجیب آ گیا منصب و جاہ کے لیے
پھر زمین صبح تک خواب ہو جائے گی آسماں
Thursday, 30 July 2020
احساس زیاں ہم میں سے اکثر میں نہیں تھا
پہلے شہر میں آگ لگائیں نامعلوم افراد
یہ کیف کیف محبت ہے کوئی کیا جانے
موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے
مجھے عشق کرے مجبور پیا
دکھ بچھڑنے کا چپ چاپ گوارا کر کے
موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے
وہ عزم ہو کہ منزل بیدار ہنس پڑے
نہ کشتیوں، نہ کناروں کا احترام کرو
نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے
سہہ رہا ہے عذاب پتھر کے
میں ترے اسم کی امان میں ہوں
لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا
ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے
زخم اپنا سا کام کر نہ جائے
کوئی اس مکان میں دیر تک نہیں رہا
عجب حالات میں رکھا ہوا ہوں
ممکن ہے اب تو آئے تو یہ حادثہ بھی ہو
ہم فقیروں کو تو کافی ہے یہ چائے سگریٹ
خمار درد میں بھیگا یہ ماہتاب تو دیکھ
کسک کی دھن پہ سر دھنتا رہا ہے
اس بار لوٹ آیا ہوں حیران کر کے میں
درد مہکا ہوا کچنار پہ میرے جیسا
وہ چھوڑ گیا اک شام کہیں کیا بات کروں
تیرے جانے کو بھلایا تو نہیں جا سکتا
روح سے عشق کیا اور بدن چھوڑ دیا
سو دعا کرتا تھا مر جائے پریشان نہ ہو
گھر کے اشجار تھے سو ظرف کشادہ نہ کیا
ستارہ گھر میں تھا اور روشنی سفر میں تھی
میں نے تو اپنے زخم کا چرچا نہیں کیا
کب دے گی عمر پھر ہمیں مہلت سہیلیو
دلوں میں دوریاں اور فاصلے رکھے ہوئے ہیں
سر قلم کر کے چراغوں کے ہوا لائی ہے
میں بچ گئی ماں
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے
کہاں گئے مرے دلدار و غم گسار سے لوگ
Wednesday, 29 July 2020
تری بے وفائی کے بعد بھی مرے دل کا پیار نہیں گیا
آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی
اپنی تنہائی کی پلکوں کو بھگو لوں پہلے
تری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا
مریض عشق کا کیا ہے جیا جیا نہ جیا
وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
ٹھہر اے درد کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا
کچھ سوچ کر فریب وفا کھا رہا ہوں میں
طور بے طور ہوئے جاتے ہیں
سمجھ نہ لمحۂ حاضر کا واقعہ مجھ کو
ڈس گیا انساں کو انساں زندگی اے زندگی
جان ایسے خوابوں سے کس طرح چھڑاؤں میں
کہ میرے دل میں ترا گھر ہوا تو کیسے ہوا
دن میں بھی حسرت مہتاب لیے پھِرتے ہیں
کہ میری پیاس تھی میری نہ میرا دریا تھا
چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی
کس قدر تجھ کو تری ذات سے ہٹ کر سوچا
نہیں منزل نگاہ راہرو میں
ساقی نے جام دے کے مجھے جم بنا دیا
عشق کے فیض سے موجود ہیں دیوانے چند
یہ تیرا خیال ہے کہ تو ہے
سیاہ رات کی ہر دلکشی کو بھول گئے
تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی
کوئی ہمدم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہمیں شعور جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے
یہ جو رواں دواں ہوں میں اپنے لئے کہاں ہوں میں
صدائیں اتنی اونچی ہیں کہ مدھم سوچتے ہیں
زندگی کس قدر ستاتی ہے
غم کا بوجھ اٹھاؤں کیسے
Tuesday, 28 July 2020
مٹتے ہوئے حروف کو پڑھنے کی خو کیا کریں
سیر بازارِ جہاں کرتے ہوئے ہم کو چلا
اسی مکین میں اب وہ مکان رہتا ہے
ایسے لگتا ہے کہ جیسے کچھ یہاں ہونے کو ہے
میرے ہونے کا مجھے پہلے یقیں ہونے دے
ابھی تھا ساتھ اچانک کدھر گیا اے دوست
نقش پا ڈھونڈیے دل پر کہ سبب یاد آئے
جو تیرے ساتھ گزاری لپیٹ کے رکھ دی
بہت دشوار یہ بھی مرحلہ تھا
صورت یار کی تلاوت کی
مجھے دیوار کا سایہ سمجھ لو
ظرف بھر تیری تمنا میں بھٹک دیکھا ہے
میں خود کو تسخیر کروں تو بنتا ہے
مانا کہ مدتوں سے اجالے نہیں ہوئے
دل بدگماں کے توہمات عجیب ہیں
پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا
پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا
کروٹ بدل رہا تھا برابر پڑا ہوا
باہر سے دیکھیے تو بدن ہیں ہرے بھرے
لیکن لہو کا کال ہے اندر پڑا ہوا
دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی
سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا
دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا
دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا
اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا
غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی
کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا
چپ چاپ گھر کے صحن میں فاقے بچھا دئیے
روزی رساں سے ہم نے گِلہ کچھ نہیں کیا
اپنی راتوں کا سکوں مانگ رہا تھا مجھ سے
بس اداسی ہے اور کچھ بھی نہیں
عشق وحشت نشاں مکمل ہے
وہی موسم ہے
لڑکی یہ لمحے بادل ہیں
بارش میں کیا تنہا بھیگنا لڑکی
جو شخص جا چکا ہے بھلایا نہیں گیا
زندگی تھی ہی نہیں زخم کسی یاد کے تھے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے
آج کشمیر میں کیا مشق ستم جاری ہے
سکوت شب میں اندھیروں کو مسکرانے دے
پھیلا کے سر پہ درد کی چادر چلا گیا
Monday, 27 July 2020
جو گہرے دوست ہیں میرے مجھے سمجھتے ہیں
جب آنکھیں دکھنے لگیں دیکھ کر دعا کی طرف
اے لڑکی اے اور طرح کی باتوں والی
کبھی یوں بھی مجھے اس کی محبت گھیر لیتی ہے
کچھڑی؛ زمانہ تیز دھار ہے
کیا بچاؤں تجھے کیا لٹاؤں تجھے مختصر زندگی
شاعری نہیں کرنی
کچے گھر اور پکے رشتے ہوتے تھے
سمجھے بغیر بھی کبھی سوچے بغیر بھی
زخم سہلاتے ہیں اور کار ہنر کرتے ہیں
اے باد خوش خرام تمہاری وجہ سے ہے
پلٹنے والوں نے دشنام جب تمہارا دیا
وادی جھنگ سے اٹھے گا دھواں تیرے بعد
رات سولی پہ بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
نشے کی آگ میں دیکھا گلاب یعنی تو
تیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں
تیرا انداز بدل دوں تِرا لہجہ ہو جاؤں
تو مِرے لمس کی تاثیر سے واقف ہی نہیں
تجھ کو چھو لوں تو تِرے جسم کا حصہ ہو جاؤں
تیرے ہونٹوں کے لیے ہونٹ میرے آبِ حیات
اور کوئی جو چھوئے زہر کا پیالہ ہو جاؤں
مجھ کو جو میسر تھا سنگ لے گیا ہے تو
مرا ساتھ ابھی مت چھوڑ پیا
جھیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھینچتی ہے
اس کی ردا آنکھوں پر پہرا کر دیتی ہے
تو جسے چھو کے گزر جائے امر ہو جائے
سوچ کے بعد
سوچ کے بعد
ہر شام دلاتی ہے اسے یاد ہماری
دروازے کو دستک زندہ رکھتی ہے
خیر و شر میں کشمکش جو باہمی ہے میرے اندر
ہم کبھی آگ تھے جو بجھ کے ہوئے راکھ کی مانند
جنگ جو خود سے ہاری گئی
مسلسل چپ بہت کچھ راکھ کرتی جا رہی ہے
میں آنکھیں بند کر لوں اور سب نابود ہو جائے
ریت آنکھوں میں بھر گیا دریا
برف کے جسم لیے آگ جلاتے ہوئے لوگ
رو پڑی ہوں کہ زخم گہرا تھا
کوئی جگنو کوئی دیپک کرن ہو یا ستارہ ہو
خود میں تحلیل کر لیا خود کو
کیسے دل کو روشن کرتی آوازیں
Sunday, 26 July 2020
جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا
جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا
مگر دیکھو تو پھر کچھ آدمی سے ہو نہیں سکتا
محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
مِرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
الگ کرنا رقیبوں کا الٰہی تجھ کو آساں ہے
مجھے مشکل کہ میری بیکسی سے ہو نہیں سکتا
سینے میں حسرتوں کی جلن چاہتا نہیں
سینے میں حسرتوں کی جلن چاہتا نہیں
غم اب کوئی نیا مِرا من چاہتا نہیں
وہ میرے شہر دل میں اگر آ بسا تو کیا
وہ کون ہے جو اپنا وطن چاہتا نہیں
انسان تھا وہ غموں نے فرشتہ بنا دیا
اب وہ تعلقاتِ بدن چاہتا نہیں
شبنم نہِیں کہتا اسے شعلہ نہِیں کہتا
شبنم نہِیں کہتا، اسے شعلہ نہِیں کہتا
وہ کوئی بھی ہو میں اسے تجھ سا نہِیں کہتا
اس ڈر سے کہ تُو مجھ کو شفایاب نہ کر دے
قاتل تجھے کہتا ہوں، مسیحا نہِیں کہتا
دریا تو ہے وہ جس سے کنارے چھلک اٹھیں
بہتے ہوئے پانی کو میں دریا نہِیں کہتا