Friday, 31 July 2020

سویا ہوا نصیب جگانے لگا تھا میں

مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں
مٹی سے "آسمان" بنانے لگا تھا میں
بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے
تصویر سے "غبار" ہٹانے لگا تھا میں
آواز دے کے روک لیا اس نے جس گھڑی
مایوس ہو کے لوٹ کے جانے لگا تھا میں

اے دربدری لوٹ کے گھر آنے لگا ہوں

تھا بامِ فلک، خاک بسر آنے لگا ہوں
جس سمت اشارہ تھا ادھر آنے لگا ہوں
جب تک تری آنکھوں میں نہیں تھا تو نہیں تھا
اب دیکھنے والوں کو نظر آنے لگا ہوں
مت کاٹنا رستہ مِرا بن کر خط امکاں
اے دربدری لوٹ کے گھر آنے لگا ہوں

دے رہا ہے دستکیں در پر کوئی

دے رہا ہے دستکیں در پر کوئی
کہہ رہا ہوں میں نہیں گھر پر کوئی
مطمئن ہوں یوں کہ حافظ ہے خدا
ہے کھڑا خنجر بہ کف سر پر کوئی
خود کشی ہے جرم لیکن انحصار
کیا کرے اب ٭لاؤ لشکر پر کوئی

اک شاعر کامل کہ تخلص میں تھا قاصر

نذرِ قاصر

اک شاعرِ کامل کہ تخلص میں تھا قاصر
چالاکوں کی بستی کا وہ شرمیلا مسافر
جا کر بھی، تسلسل سے رہا بزم میں حاضر
نیل آٹھواں فن میں ہوا جس کے متبادر
دریائے گماں، ہے زبر و زیر ابھی تک
سکتے میں ہیں سب، رہتا ہے اک شعر ابھی تک

مفہوم سو گئے ہیں خاموش ہے لغت بھی

مفہوم سو گئے ہیں خاموش ہے لُغت بھی
سوچو تو ہے اسی میں لفظوں کی خیریت بھی
بیٹھے ہیں زیرِ سایہ کچھ حق پرست، ورنہ
میں تو گِرا رہا تھا دیوارِِ مصلحت بھی
پہلے اُدھر نظر کا ہم نے سفیر بھیجا
پھر اس نے فتح کر لی خوابوں کی سلطنت بھی

سفینۂ چشم جب بھی شفاف پانیوں پر سوار ہو گا

سفینۂ چشم جب بھی شفاف پانیوں پر سوار ہو گا
تو جھاگ کی آبرو رہے گی، نہ ریت کا اعتبار ہو گا
خموش رہنا، بدن پہ ہنس ہنس کے اپنی خوشبو کے وار سہنا
چمن سے نکلا تو گل کا یہ عیب، خوبیوں میں شمار ہو گا
لہو کے غنچے کھلے سرِ شاخسارِ مژگاں، تو بات ہو گی
وہ رات ہو گی کہ جس کے چاروں طرف سحر کا حصار ہو گا

وفا کا مکمل جہاں اور وہ

وفا کا مکمل جہاں اور وہ
بس اک مختصر کارواں اور وہ
ادھر شام سے شب کی سرگوشیاں
ادھر اک سحر کی اذاں اور وہ
رہا درمیاں ایک دریائے صبر
کناروں پہ آبِ رواں اور وہ

ہمارے عکس ہم جیسے نہیں ہیں

ہمارے عکس ہم جیسے نہیں ہیں
کہ آئینے بھی سچ کہتے نہیں ہیں
اڑانیں تازہ رکھتی ہیں بدن کو
پرندے دھوپ میں جلتے نہیں ہیں
ہماری عادتیں ہیں وقت جیسی
بچھڑتے ہیں تو پھر ملتے نہیں ہیں

میں تجھے عکسِ جاں سمجھتا ہوں

اپنی بے چہرگی کا چہرا ہوں
تو نہیں ہے تو میں ادھورا ہوں
ایک تیرے بدن کی خوشبو میں
آسمانوں سے میں اترتا ہوں
تیری بانہوں میں وہ اجالا ہے
میں تجھے عکسِ جاں سمجھتا ہوں

پھر سے وعدہ کرو مکر جاؤ

اس طرف سے ذرا گزر جاؤ
خشک پتوں میں رنگ بھر جاؤ
جی اٹھیں جاں بہ لب یہ دیواریں
آؤ، یہ معجزہ بھی کر جاؤ
روح تک تازگی سی پھیلا دو
بن کے خوشبو ذرا بکھر جاؤ

جہاں ڈبویا وہاں سے ابھر رہا ہوں میں

شمار لمحوں کا صدیوں میں کر رہا ہوں میں
عجیب وقت سے یارو! گزر رہا ہوں میں
یہ سارا فیض، اسی آتشِ دروں کا ہے
ہوا ہے کتنا اندھیرا، نکھر رہا ہوں میں
نظر نظر میں حکایت مِرے جنوں کی ہے 
صحیفہ بن کے دلوں میں اتر رہا ہوں میں 

کیسے جیتے ہیں زمانے والے

کیسے جیتے ہیں زمانے والے
بزمِ ساقی سے یوں جانے والے
دیکھ لے اور کوئی در مدام
ہم نہیں ہیں دام میں آنے والے
ہے طلب تجھ کو شہنائی کی
ہم ہیں غمگین ترانے والے

مکمل کس کی ہستی ہے یہ حیوانوں کی بستی ہے

مکمل کس کی ہستی ہے

مکمل کس کی ہستی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
یہاں وحشت برستی ہے
یہ حیوانوں کی بستی ہے
٭

ہم ایسے لوگ بھی سچائیوں سے ڈرتے ہیں

یہ کیا کہ درد کی پہنائیوں سے ڈرتے ہیں
ہم ایسے لوگ بھی سچائیوں سے ڈرتے ہیں
بتا کے حالِ دلِ زار اک زمانے کو
عجیب لوگ ہیں رسوائیوں سے ڈرتے ہیں
ہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے تِری خوشبو
تِرے خیال کی پُروائیوں سے ڈرتے ہیں

نظر نظر میں سلگتے ہیں اعتبار کے خواب

فریبِ منزلِ یک آرزو، قرار کے خواب
نظر نظر میں سلگتے ہیں اعتبار کے خواب
بریدہ شاخ نے پھر زخم زخم آنکھوں میں
سجا لیے ہیں کسی موجۂ بہار کے خواب
کبھی کبھی میری آنکھوں میں جاگ اٹھتے ہیں
کسی خیال کی خوشبو سے وصلِ یار کے خواب

استعمال شدہ محبت

استعمال شدہ محبت

محرومیاں میرا لحاف رہی ہیں
میں نے ہمیشہ دوسروں کی لعاب زدہ روٹیاں چبائیں
اور پرندوں کے زخمی کئے ہوئے
پھلوں کا خون چکھا
میرے پھیپھڑے صرف گدلی ہوا سہہ سکتے ہیں

مجھے تمہارے میلے کپڑے نہیں پہننے

مجھے تمہارے میلے کپڑے نہیں پہننے

وقت نے میرے دل سے
بھیڑیے کے دانت باندھ دیئے ہیں
میرے خون میں وحشت اگنے لگی ہے
خوشیوں کی پرورش کرتے ہوۓ
دکھ مجھ سے زیادہ قد آور ہو گیا ہے
زندگی نے مجھے بہت بے آرام کیا ہے

کند ذہن رات کی بستی

کند ذہن رات کی بستی

کند ارادوں کی درانتیاں لیے
تم خودپسندی کی نہر کنارے گھاس کھودتے رہے
اور بجوکا ساری فصلیں کاٹ گیا
نمک لگی کھالوں میں جب بے فکری کے کیڑے پڑے
سرما کی سست راتوں میں

اندھیری رات ہوا تیز برشگال کا شور

رتجگا

اندھیری رات، ہوا تیز، برشگال کا شور
کروں تو کیسے کروں شمع کی نگہبانی
ان آندھیوں میں کفِ دست کا سہارا کیا
کہاں چلے گئے تم سونپ کر یہ دولتِ نور
مِری حیات تو جگنو کی روشنی میں کٹی
نہ آفتاب سے نِسبت، نہ ماہتاب رفیق

بڑے خلوص سے دامن پسارتا ہے کوئی

بڑے خلوص سے دامن پسارتا ہے کوئی
خدا کو جیسے زمیں پر اتارتا ہے کوئی
نہ پوچھ کیا تِرے ملنے کی آس ہوتی ہے
کہاں گزرتی ہے، کیسے گزارتا ہے کوئی
بجا ہے شرطِ وفا، شرطِ زندگی بھی تو ہو
بچا سکے تو بچا لے، کہ ہارتا ہے کوئی

انتظامات نئے سرے سے سنبھالے جائیں

انتظامات نئے سرے سے سنبھالے جائیں
جتنے کم ظرف ہیں محفل سے نکالے جائیں
میرا گھر آگ کی لپٹوں میں چھپا ہے لیکن
جب مزا ہے تِرے آنگن میں اجالے جائیں
خالی وقتوں میں کہیں بیٹھ کے رولیں یارو
فرصتیں ہیں تو سمندر ہی کھنگالے جائیں

اسے سامان سفرِ جان، یہ جگنو رکھ لے

اسے سامانِ سفرِ جان، یہ جگنو رکھ لے
راہ میں تیرگی ہو گی میرے آنسو رکھ لے
تُو جو چاہے تو تیرا جھوٹ بھی بک سکتا ہے
شرط اتنی ہے کہ سونے کی ترازو رکھ لے
وہ کوئی جسم نہیں ہے کہ اسے چھو بھی نہ سکیں
ہاں اگر نام ہی رکھنا ہے، تو خوشبو رکھ لے

جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئی

جینے کے حق میں آخری تاویل دی گئی
کٹنے لگی پتنگ تو پھر ڈھیل دی گئی
ساری رگوں نے آپسیں گٹھ جوڑ کر لیا
مشکل سے دل کو خون کی ترسیل دی گئی
بے فیض سا جو زخم تھا وہ بھر دیا گیا
اک محترم سی چوٹ تھی وہ چھیل دی گئی

دعا کی اپنی ضرورت شراپ کی اپنی

دعا کی اپنی ضرورت، ٭شراپ کی اپنی
طلب جدائی کی اپنی، ملاپ کی اپنی
قدم بڑھاتے ہوئے ڈگمگا گئے ہم لوگ
اٹھا کے گٹھڑی چلے پُن و پاپ کی اپنی
میں کس کے چھوڑ کے جانے پہ کم کروں ماتم
کہ ماں کی اپنی محبت ہے، باپ کی اپنی

جانے وہ دن کہاں گئے خوابوں بھرے ہوئے

رستے تھے دھوپ میں بھی سحابوں بھرے ہوئے
جانے وہ دن کہاں گئے خوابوں بھرے ہوئے
وہ لہر اب کہاں رہی،۔ وہ موج اب کہاں
بس نین رہ گئے ہیں چنابوں بھرے ہوئے
خاموش اگر نہیں رہے تو کیا کرے کوئی
سارے سوال جب ہوئے جوابوں بھرے ہوئے

دل جو مل بھی جائیں تو قسمتیں نہیں ملتیں

کب گلی محلے میں رونقیں نہیں ملتیں
لیکن اب وہ پہلی سی صورتیں نہیں ملتیں
جس طرف بھی جاتے ہیں جمگھٹے ہیں لوگوں کے
جمگھٹے ہی ملتے ہیں، محفلیں نہیں ملتیں
کیسے ایک جیسے ہوں تجربے محبت میں
سب کو ایک جیسی تو چاہتیں نہیں ملتیں

یہ ضرور آتش آرزو کا وبال ہے

یہ ضرور آتشِ آرزو کا وبال ہے
جسے تُو رِہائی کہے دِلا! وہ تو جال ہے
مِرا گھاؤ صدقۂ شوق تھا، سو ہرا رہا
یہ کسک نوازشِ یار تھی، سو بحال ہے
تُو ہجومِ رنگ و سخن میں ہے، پہ ملول ہے
مجھے راس راحتِ رنج و لطفِ ملال ہے

پھر آج دل سے لگا بیٹھے نام برتے ہوئے

خرد سے بارِ دِگر انحراف کرتے ہُوئے
پھر آج دل سے لگا بیٹھے نام برتے ہوئے
یہ رائیگانئ دل خلق پر نہ کھُل جائے
سمیٹ لینا مِرے جسم و جاں بکھرتے ہوئے
جو محوِ رقص رہے رنگ و نور کے چو گِرد
بکھر گئے تِری لَو کا طواف کرتے ہوئے

راہ میں کوئی چراغوں کی گلی آتی ہے

راہ میں کوئی "چراغوں" کی گلی آتی ہے
شام آتی ہے تو "حیرت" سے بھری آتی ہے
دیکھ، یوں مجھ سے مِری پہلی  محبت کا نہ پوچھ
اس طرح دوست "تعلق" میں کمی آتی ہے
اور اب کس کس کو دکھاؤں میں بھلا روح کے زخم
جُز تِرے اور کسے "چارہ گری" آتی ہے؟

رات بھر خواب کی گلیوں میں کوئی بولتا ہے

میں تو خاموش ہی رہتا ہوں وہی بولتا ہے
رات بھر خواب کی گلیوں میں کوئی بولتا ہے
دیکھتا ہوں تو مرے ساتھ کوئی اور نہیں
بولتا ہوں تو مِرے ساتھ کوئی بولتا ہے
اک پرندہ میں جسے دیکھ نہیں سکتا ہوں
روز آتا ہے، کوئی بات نئی بولتا ہے

اک شور مرے باہر اک شور مرے اندر

اک شور مِرے باہر، اک شور مِرے اندر
اک عصر مرے آگے، اک دور مرے اندر
اس دیدۂ ظاہر کو حاصل کہاں بینائی؟
میں بھید کی بستی ہوں، کچھ اور مرے اندر
تدفینِ تمنا کی حاجت ہوئی سینے کو
درکار ہے کچھ مٹی فی الفور مرے اندر

کیوں مجھے چور سمجھتے ہیں نہ جانے سارے

کیوں مجھے چور سمجھتے ہیں نہ جانے سارے
میں نے خود گھڑ کے سنائے ہیں فسانے سارے
کتنی مشکل سے ملایا ہے پری کو جِن سے
کتنی محنت سے لڑائے ہیں زمانے سارے
دشت در دشت گھمایا کئی کرداروں کو
کس مہارت سے چھپائے ہیں خزانے سارے

بچھڑوں نے جب ملنا نہیں پھر عید کیا، تہوار کیا

بچھڑوں نے جب ملنا نہیں، پھر عید کیا، تہوار کیا
پھر دیس کیا پردیس کیا، پھر دشت کیا، گھر بار کیا
ساحل پہ میرا منتظر کوئی نہیں ہے جب تو پھر 
پتوار کیا منجدھار کیا، اِس پار کیا، اُس پار کیا 
وہ جس کے دل سے دُھل گئے احساس کے رشتے سبھی
اس شخص کو معلوم کیا، ہیں پھول کیا، انگار کیا

کارگاہ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے

کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے؟ خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیئے تو مہنگی ہے،۔ بیچئے تو سستی ہے

جب تک خلش درد خداداد رہے گی

جب تک خلشِ دردِ خداداد رہے گی
دنیا دلِ ناشاد کی، آباد رہے گی
دنیا کی ہوا راس نہ آئے گی کسی کو
ہر سر میں ہوائے عدم آباد رہے گی
چونکاۓ گی رہ رہ کے تو غفلت کا مزہ کیا
ساتھ اپنے اجل صورتِ ہمزاد رہے گی

دل کی ہوس وہی ہے مگر دل نہیں رہا

دل کی ہوس وہی ہے مگر دل نہیں رہا
محمل نشیں تو رہ گیا، محمل نہیں رہا
پہنچی نہ اڑ کے دامنِ عصمت پہ گَرد تک
اس خاک اڑانے کا کوئی حاصل نہیں رہا
رکھتے نہیں کسی سے تسلی کی چشم داشت
دل تک اب اعتبار کے قابل نہیں رہا

فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا

فکرِ انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا
میں قفس میں بھی کسی روز نہ خاموش رہا
کشمکش میں بھی طبیعت کا وہی جوش رہا
نشۂ الفتِ ساقی کا عجب جوش رہا
ہولِ صحرائے قیامت بھی فراموش رہا

پہلے چپ چاپ مجھے تکتا رہا دروازہ

پہلے چپ چاپ مجھے تکتا رہا دروازہ
جونہی میں جانے لگا بول پڑا دروازہ
آج تک بھول نہیں پایا میں ان تینوں کو
وہ محلہ، وہ گلی،۔ اور تیرا دروازہ
پہلے ہم دونوں بڑی دیر تلک ہنستے رہے
بات فرقت کی چلی، رونے لگا دروازہ

وقت عجیب آ گیا منصب و جاہ کے لیے

وقت عجیب آ گیا، منصب و جاہ کے لیے
صاحبِ دل بھی چل پڑے، تخت و کلاہ کے لیے
اس کا ہدف بھی دیکھنا، میری طرف بھی دیکھنا
قتلِ انا کی شرط ہے، اس سے نِباہ کے لیے
ایک نوائے آتشیں، حلقہ بہ حلقہ جسم میں
پھر سے ہوئی ہے تازہ دم، تازہ گناہ کے لیے

پھر زمین صبح تک خواب ہو جائے گی آسماں

پھر یہاں ہجر کی شب طلسمِ زمان و مکان صبح تک خواب ہو جائے گا
پھر زمین صبح تک خواب ہو جائے گی آسماں صبح تک خواب ہو جائے گا
پھر اچانک تیرے ناز کی لہلہاتی ہری کھیتیاں خشک ہو جائیں گی
وقت تھم جائے گا، اور ہر ایک منظر یہاں تک خواب ہو جائے گا
نرم لمحوں کی آغوش میں زندگی رقص کرتی رہی، اور کہتی رہی
رقص، کر رقص کر، ورنہ خوشبہ کا سیلِ رواں صبح تک خواب ہو جائے گا

Thursday, 30 July 2020

احساس زیاں ہم میں سے اکثر میں نہیں تھا

احساسِ زیاں ہم میں سے اکثر میں نہیں تھا 
اس دکھ کا مداوا، کسی پتھر میں نہیں تھا 
وہ شخص تو شب خون میں مارا گیا، ورنہ 
اس جیسا بہادر کوئی لشکر میں نہیں تھا 
اب خاک ہوا ہوں تو یہ احوال کھلا ہے 
شعلے کے سوا کچھ مِرے پیکر میں نہیں تھا 

پہلے شہر میں آگ لگائیں نامعلوم افراد

پہلے شہر میں آگ لگائیں نامعلوم افراد
اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد
لگتا ہے انسان نہیں ہیں کوئی چھلاوہ ہیں
سب دیکھیں پر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد
ہم سب ایسے شہر ناپرساں کے باسی ہیں
جس کا نظم و نسق چلائیں نامعلوم افراد

یہ کیف کیف محبت ہے کوئی کیا جانے

یہ کیف کیفِ محبت ہے کوئی کیا جانے
چھلک رہے ہیں نگاہوں میں دل کے پیمانے
کہانیوں ہی پہ بنیاد ہے حقیقت کی
حقیقتوں ہی سے پیدا ہوئے ہیں افسانے
نہ اب وہ آتشِ نمرود ہے نہ شعلۂ طور
تِری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے

موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے

موجِ انفاس بھی اک تیغِ رواں ہو جیسے
زندگی کارگہِ شیشہ گراں ہو جیسے
دل پہ یوں عکس فگن ہے کوئی بھولی ہوئی یاد
سرِ کہسار دھندلکے کا سماں ہو جیسے
حاصلِ عمرِ وفا ہے بس اک احساسِ یقیں
وہ بھی پروردۂ‌ آغوشِ گماں ہو جیسے

مجھے عشق کرے مجبور پیا

مجھے عشق کرے مجبور پیا

تُو خواب نگر کا شہزادہ میں حسن نگر کی حُور پیا
تو ارمانوں کی ڈولی لا میں رہ نہ پاؤں دور پیا
نہ پھول کھلے میرے گلشن میں نہ مجھ کو بہار سجھائی دے
میں آئینہ دیکھنے بیٹھوں تو مجھے روپ تیرا ہی دکھائی دے
میں رات کو رووں چھپ چھپ کر

دکھ بچھڑنے کا چپ چاپ گوارا کر کے

دُکھ بچھڑنے کا چپ چاپ گوارا کر کے
وہ بھی خوش ہے چلو ہم سے کنارہ کر کے
یہ ہی الجھن مجھے سونے نہیں دیتی یارو
وقتِ رخصت وہ گیا کیسا اشارہ کر کے
کیا نکلتی ہے کسی اور بُت کی گنجائش؟
ہم بھی دیکھیں گے کبھی عشق دوبارہ کر کے

موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے

موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے
رقصاں ہیں مست مست کناروں کے قافلے
یوں کاروان زیست رواں ہیں کے ساتھ ساتھ
رفتار' میں ہیں 'بادہ' گساروں کے قافلے'
پلکوں پہ جم رہی ہیں غمِ زندگی کی اوس
بانہوں میں سو گئے ہیں سہاروں کے قافلے

وہ عزم ہو کہ منزل بیدار ہنس پڑے

وہ عزم ہو کہ منزلِ بیدار ہنس پڑے
ہر نقشِ پا پہ جرأتِ رہوار ہنس پڑے
اب کے برس بہار کی صورت بدل گئی
زخموں میں آگ لگ گئی گلزار ہنس پڑے
اس داستانِ درد کی تمہید آپ ہیں
جس داستانِ درد پہ غمخوار ہنس پڑے

نہ کشتیوں، نہ کناروں کا احترام کرو

نہ کشتیوں، نہ کناروں کا احترام کرو
فقط بھنور کے اشاروں کا احترام کرو
یہیں سے گزرے گا اک روز کاروانِ بہار
فسردہ" راہگزاروں کا "احترام" کرو"
خزاں کی گود میں پھول مسکرا اٹھیں
کچھ اس طرح سے بہاروں کا احترام کرو

نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے

نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے
پھوٹے ہیں چاندنی سے شگوفے جلے ہوئے
ہے اہتمامِ گریہ و ماتم چمن چمن
رکھے ہیں مقتلوں میں جنازے سجے ہوئے
ہر ایک سنگِ میل ہے اب ننگِ رہگزر
ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے

سہہ رہا ہے عذاب پتھر کے

دیکھتا ہوں نصاب پتھر کے
آنکھ شیشے کی، خواب پتھر کے
میرے آنگن میں پیڑ بیری کا
سہہ رہا ہے عذاب پتھر کے
کون رکھتا ہے روز رستے میں
میری خاطر گلاب پتھر کے

میں ترے اسم کی امان میں ہوں

جب سے اس شہرِ بے مکان میں ہوں
میں تِرے اِسم کی امان میں ہوں
گنبدِ شعر میں جو گونجتی ہے
میں اسی درد کی اذان میں ہوں
میں نے تنہائیوں کو پالنا ہے
اس لیے خواب ہی کے دھیان میں ہوں

لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا

لمحہ لمحہ بیت چکا ہے اب جو تم پچھتاؤ تو کیا 
بھولی بسری یادیں سب کی آگے بھی دہراؤ تو کیا 
کون کسی کا درد سمیٹے کون کسی کا دوست بنے 
اپنا درد ہے اپنا پیارے! لوگوں کو دِکھلاؤ تو کیا 
پہلے تو تم آگ لگا کر سب کچھ جلتا چھوڑ گئے 
دیواریں تاریک ہوئی ہیں اب اس گھر میں آؤ تو کیا 

ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے

ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے 
برسے گا کل لہو بھی تِرے آسمان سے 
یہ کس کے دل کی آگ سے جلتے ہیں بام و در 
شعلے سے اٹھ رہے ہیں بدن کے مکان سے 
سورج کی تیز دھوپ سے شاید اماں ملے 
رکتی ہے غم کی دھوپ کہیں سائبان سے 

زخم اپنا سا کام کر نہ جائے

زخم اپنا سا کام کر نہ جائے 
پھر درد کی لے بکھر نہ جائے 
جب اس کی نگاہ اس طرف ہے 
کیوں میری نظر ادھر نہ جائے 
ہے فصلِ جنوں کی آمد آمد 
پیڑوں کا لباس اتر نہ جائے 

کوئی اس مکان میں دیر تک نہیں رہا

پھر وہ میرے دھیان میں دیر تک نہیں رہا
پھول پھولدان میں دیر تک نہیں رہا
وہ بھی موج موج کا سامنا نہ کر سکا
میں بھی درمیان میں دیر تک نہیں رہا
جانے کس خیال سے رابطہ ہوا نہیں
جانے کس جہان میں دیر تک نہیں رہا

عجب حالات میں رکھا ہوا ہوں

عجب حالات میں رکھا ہوا ہوں
نہ دن نے رات میں رکھا ہوا ہوں
تعلق ہی نہیں ہے جن سے میرا
میں ان صدمات میں رکھا ہوا ہوں
کبھی آتا نہیں تھا ہاتھ اپنے
اب اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہوں

ممکن ہے اب تو آئے تو یہ حادثہ بھی ہو

ممکن ہے اب تُو آئے تو یہ حادثہ بھی ہو
ممکن ہے تیری راہ میں اک مورچہ بھی ہو
ممکن ہے میں بھی تجھ سے مِلوں غیر کی طرح
ممکن ہے میرے ساتھ کوئی 'دُوسرا' بھی ہو
ممکن ہے تیری 'پیٹھ' پہ بھی وار ہو کوئی
ممکن ہے تُم سا اور کوئی 'دوغلا' بھی ہو

ہم فقیروں کو تو کافی ہے یہ چائے سگریٹ

کِس نے مانگا ہے بھلا آپ سے شاہانہ خراج
ہم فقیروں کو تو کافی ہے یہ چائے سگریٹ
نہ دعا دے نہ عیادت کو بھلے آئے کبھی
یار ہو ایسا کہ سگریٹ سے جلائے سگریٹ
درد والوں کا گزر ہوتا ہے ان راہوں پر
با ادب! یار کہ پاؤں میں نہ آئے سگریٹ

خمار درد میں بھیگا یہ ماہتاب تو دیکھ

خمارِ درد میں بھیگا یہ ماہتاب تو دیکھ 
نگار خانۂ ہستی کی آب و تاب تو دیکھ
ملالِ فرق سے دہکی ہوئی زمین پہ آ
عذابِ شوق سے سلگے ہوئے سحاب تو دیکھ
نظر تو ڈال، تِرے غم نے کیسا روپ دیا
یہ زرد رنگ 'پہنتا' ہوا شباب تو دیکھ

کسک کی دھن پہ سر دھنتا رہا ہے

کسک کی دھن پہ سر دھنتا رہا ہے
الم کی لے پہ، دل گاتا رہا ہے
مبارک ساعتوں کی راہ تکتے
ہمارا وقت گزرا جا رہا ہے
یہ کیسا پھول بھجوایا ہے تم نے
جو پہلے بھی کہیں مہکا رہا ہے

اس بار لوٹ آیا ہوں حیران کر کے میں

حجرے میں، اس کے چاند کو مہمان کر کے میں
خوش ہو رہا ہوں رات کا نقصان کر کے میں
شب بھر مِرے چراغ بجھاتی رہی ہوا
پچھتا رہا ہوں کمرے کو دالان کر کے میں
اب عمر بھر رہوں گا دعا کے حصار میں
اک بوڑھی ماں کی خوشیوں کا سامان کر کے میں

درد مہکا ہوا کچنار پہ میرے جیسا

درد مہکا ہوا کچنار پہ میرے جیسا
اک پرندہ نہیں اشجار پہ میرے جیسا
ایک تصویر لگانی ہی پڑی صحرا کی
رنگ آیا تبھی دیوار پہ میرے جیسا
اک تغیر کے سبب اترا ہے یہ گہرا جمود
ورنہ طاری تھا جو گھر بار پہ میرے جیسا

وہ چھوڑ گیا اک شام کہیں کیا بات کروں

آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں، کیا بات کروں؟
ہے دور بہت وہ خواب نشیں کیا بات کروں؟
کیا بات کروں؟ جو عکس تھا میری آنکھوں میں
وہ چھوڑ گیا اک شام کہیں، کیا بات کروں؟
کیا بات کروں؟ جو گھڑیاں میری ہمدم تھیں
وہ گھڑیاں ہی آزار بنیں، کیا بات کروں؟

تیرے جانے کو بھلایا تو نہیں جا سکتا

طاقِ رفتہ پہ، سجایا تو نہیں جا سکتا
تیرے جانے کو بھلایا تو نہیں جا سکتا
یاد کر لیتا ہوں ہر روز تیرے ملنے کو
دوسرے شہر سے آیا تو نہیں جا سکتا
جو ملے، تیری شباہت سے الگ ہوتا ہے
اب کوئی تجھ سا، بنایا تو نہیں جا سکتا

روح سے عشق کیا اور بدن چھوڑ دیا

روح سے عشق کیا، اور بدن چھوڑ دیا
میں نے انسان کا 'آبائی' وطن چھوڑ دیا
وہ مِرے ہاتھ میں تھا، کچھ بھی میں کر سکتا تھا
میری خواہش پہ ہوئی حاوی تھکن، چھوڑ دیا
اس نے یوں چھوڑ دی پائل کہ بہت بھاری ہے
اور پائل نے بھی اس دکھ میں چھنن چھوڑ دیا

سو دعا کرتا تھا مر جائے پریشان نہ ہو

تجربہ تھا، سو دعا کی تا کہ نقصان نہ ہو
عشق مزدور کو مزدوری کے دوران نہ ہو
میں اسے دیکھ نہ پاتا تھا "پریشانی" میں
سو دعا کرتا تھا، مر جائے، پریشان نہ ہو
گاؤں میں دور کی سِسکی بھی سنی جاتی ہے
سب پہنچتے ہیں، بھلے آنے کا اعلان نہ ہو

گھر کے اشجار تھے سو ظرف کشادہ نہ کیا

گھر کے اشجار تھے سو ظرف کشادہ نہ کیا
پاؤں کٹوا لیے، ہجرت کا ارادہ نہ کیا
یہ ہے منظر میں اترنے کا سلیقہ، اس نے
عکسِ "رنگیں" سرِ "آئینۂ" سادہ نہ کیا
وہ ندی تھی سو ذرا پیر بھگو کر نکلے
استفادہ مگر اک حد سے زیادہ نہ کیا

ستارہ گھر میں تھا اور روشنی سفر میں تھی

ستارہ گھر میں تھا اور روشنی سفر میں تھی
اک انتظار کی لَو چشمِ کم نظر میں تھی
الگ ہیں رابطہ اور ربط، تُو نے سمجھی نہیں
وہ اک کمی، جو ملاقاتِ مختصر میں تھی
خرام 'ٹھہرا' ہوا 'زینۂ چمن' پر تھا
نگاہ 'الجھی' ہوئی 'شاخِ نیلوفر' میں تھی

میں نے تو اپنے زخم کا چرچا نہیں کیا

تم سامنے تھے اس لیے سودا نہیں کیا
ورنہ متاعِ دل کو تو سستا نہیں کیا
میں ہی تمہارے بخت کی روشن لکیر تھی
تم نے گنوا دیا مجھے، اچھا نہیں کیا
تجھ سے محبتوں کی خطائیں ضرور کیں
لیکن یقین کر، کبھی دعویٰ نہیں کیا

کب دے گی عمر پھر ہمیں مہلت سہیلیو

کب دے گی عمر پھر ہمیں مہلت سہیلیو
ہے وصلِ عارضی بھی غنیمت سہیلیو
یہ رنگ روپ حسن جوانی ہے چار دن
لوٹا دو "وقت" کو یہ "امانت" سہیلیو
تم کو یقیں نہیں مگر اک شاعرہ کے خواب
اک دن ضرور ہوں گے حقیقت سہیلیو

دلوں میں دوریاں اور فاصلے رکھے ہوئے ہیں

دلوں میں دوریاں اور فاصلے رکھے ہوئے ہیں
بظاہر ہر کسی سے رابطے رکھے ہوئے ہیں
بنام زندگی کچھ قاعدے رکھے ہوئے ہیں
نظر نے اپنے اپنے زاویے رکھے ہوئے ہیں
بڑی تنظیم اور تدریج سے گھائل ہوا ہوں
ستمگر نے ستم کے ضابطے رکھے ہوئے ہیں 

سر قلم کر کے چراغوں کے ہوا لائی ہے

رقص کرتی ہوئی لَو سر پہ اٹھا لائی ہے
سر قلم کر کے چراغوں کے ہوا لائی ہے
ٹیڑھی میڑھی سی لکیروں کو سجا لائی ہے
یہ ہتھیلی بھی مِرے واسطے کیا لائی ہے
میری اوقات ہی کیا تھی؟ کہ سراہا جاتا
مجھ کو مسند پہ بزرگوں کی دعا لائی ہے

میں بچ گئی ماں

میں بچ گئی ماں

(اس بچی کے نام جسے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا)

میں بچ گئی ماں
تِرے کچے لہو کی مہندی
مِرے پور پور میں رچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں

اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں

اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں
ہم نے جس رستے پر اس کو چھوڑا ہے
پھول ابھی تک اس پر کھلتے جاتے ہیں
دن میں کرنیں آنکھ مچولی کھیلتی ہیں
رات گئے کچھ جگنو ملنے جاتے ہیں

بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے

بیٹھے بیٹھے کیسا دل "گھبرا" جاتا ہے
جانے والوں کا "جانا" یاد آ جاتا ہے
بات چیت میں جس کی روانی مِثل ہوئی
ایک نام لیتے میں کچھ رٗک سا جاتا ہے
ہنستی بستی راہوں کا خوش باش مسافر
روزی کی بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے

کہاں گئے مرے دلدار و غم گسار سے لوگ

کہاں گئے مِرے دلدار و غمگسار سے لوگ
وہ دلبرانِ زمیں، وہ فلک شعار سے لوگ
وہ موسموں کی صفت سب کو باعثِ تسکیں
وہ مہر و مہ کی طرح سب پہ آشکار سے لوگ
ہر آفتاب سے کرنیں سمیٹ لیتے ہیں
ہمارے شہر پہ چھائے ہوئے غبار سے لوگ

Wednesday, 29 July 2020

تری بے وفائی کے بعد بھی مرے دل کا پیار نہیں گیا

تِری بیوفائی کے بعد بھی مِرے دل کا پیار نہیں گیا
شب انتظار گزر گئی،۔ غم انتظار نہیں گیا
میں سمندروں کا نصیب تھا مِرا ڈوبنا بھی عجیب تھا
مِرے دل نے مجھ سے بہت کہا میں اتر کے پار نہیں گیا
تو مِرا شریک سفر نہیں مِرے دل سے دور مگر نہیں
تِری مملکت نہ رہی مگر تِرا اختیار نہیں گیا

آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی

آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی
آپ منہ پھیر کے بیٹھے ہیں، یہ کیا بات ہوئی؟
اڑ گئی خاکِ دل و جاں تو وہ رونے بیٹھے
بستیاں جل گئیں جب، ٹوٹ کے برسات ہوئی
تم مِرے ساتھ تھے جب تک تو سفر روشن تھا
شمع جس موڑ پہ چھُوٹی ہے وہیں رات ہوئی

اپنی تنہائی کی پلکوں کو بھگو لوں پہلے

اپنی تنہائی کی پلکوں کو بھگو لوں پہلے
پھر غزل تجھ پہ لکھوں، بیٹھ کے رو لوں پہلے
خواب کے ساتھ کہیں کھو نہ گئی ہوں آنکھیں
جب اٹھوں سو کے تو چہرے کو ٹٹولوں پہلے
میرے خوابوں کو ہے موسم پہ بھروسہ کتنا
بعد میں پھول کھلیں، ہار پِرو لوں پہلے

تری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا

تِری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا
پھر اس کے بعد نہ آنا ہوا نہ جانا ہوا
کچھ اتنا ٹوٹ کے چاہا تھا میرے دل نے اسے
وہ شخص میری مروت میں بے وفا نہ ہوا
ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی
ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا

مریض عشق کا کیا ہے جیا جیا نہ جیا

مریضِ عشق کا کیا ہے جیا، جیا، نہ جیا
ہے ایک سانس کا جھگڑا لیا، لیا، نہ لیا
بدن" ہی آج، اگر "تار تار" ہے میرا"
تو ایک چاکِ گریباں سیا، سیا، نہ سیا
یہ اور بات کہ، تُو ہر راہِ خیال میں ہے
کہ تیرا نام زباں سے لیا، لیا، نہ لیا

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
شبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دَم نکلتا ہے
الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دَم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے
قیامت ہی نہ ہو جاۓ جو پردے سے نکل آؤ
تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے

ٹھہر اے درد کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا

دل کے ہاتھوں کہیں دنیا میں گزارا نہ رہا
"ہم کسی کے نہ رہے، کوئی ہمارا نہ رہا"
صبر اے دل کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
ٹھہر اے درد! کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا
یوں تو اب بھی ہے وہی رنج، وہی محرومی
وہ جو اک تیری طرف سے تھا اشارا، نہ رہا

کچھ سوچ کر فریب وفا کھا رہا ہوں میں

پہلو میں اک نئی سی خلش پا رہا ہوں میں
اس وقت غالباً انہیں "یاد" آ رہا ہوں میں
کیا چشمِ "التفات" کا مطلب سمجھ گیا
کیوں ترکِ آرزو کی قسم کھا رہا ہوں میں
کیا کچھ نہ تھی شکایتِ "کوتاہئ" نظر
اب وسعتِ نگاہ سے گھبرا رہا ہوں میں

طور بے طور ہوئے جاتے ہیں

طور بے طور ہوئے جاتے ہیں
اب وہ کچھ اور ہوئے جاتے ہیں
چھلکی" پڑتی ہے نگاہِ ساقی"
دَور پر دَور ہوئے جاتے ہیں
تُو نہ گھبرا کہ تِرے دیوانے
خُوگرِ جور ہوئے جاتے ہیں

سمجھ نہ لمحۂ حاضر کا واقعہ مجھ کو

سمجھ نہ لمحۂ حاضر کا واقعہ مجھ کو
گئے دنوں کا میں قصہ ہوں، بھول جا مجھ کو
وہ کون شخص تھا کچھ دم بخود سا، حیراں سا
جو آئینے میں کھڑا دیکھتا رہا مجھ کو
بکھرتی خاک ہوں میں منظرِ بلندی پر
زمیں سے دور اڑا لائی ہے ہوا مجھ کو

ڈس گیا انساں کو انساں زندگی اے زندگی

ہم تری دھن میں پریشاں زندگی اے زندگی
اور تُو ہم سے گریزاں زندگی اے زندگی
محوِ حیرت ہیں کہ تجھ کو ڈھونڈنے جائیں کہاں
منزلیں ہیں خاک ساماں زندگی اے زندگی
انجمن آرا ہے تو غیروں میں کب سے اور ہم
پھر رہے ہیں چاک داماں زندگی اے زندگی

جان ایسے خوابوں سے کس طرح چھڑاؤں میں

جان ایسے خوابوں سے کس طرح چھڑاؤں میں
شہر سو گیا سارا، اب کسے جگاؤں میں؟؟
پائمال سبزے پر دیکھ کر گرے پتے
اب زمین سے خود کو کس طرح اٹھاؤں میں
ان اکیلی راتوں میں ان اکیلے رستوں پر
کس کے ساتھ آؤں میں کس کے ساتھ جاؤں میں

کہ میرے دل میں ترا گھر ہوا تو کیسے ہوا

میں ایک بوند سمندر ہوا تو کیسے ہوا
یہ معجزہ مِرے اندر ہوا تو کیسے ہوا
یہ بھید سب پہ اجاگر ہوا تو کیسے ہوا
کہ میرے دل میں تِرا گھر ہوا تو کیسے ہوا
نہ چاند نے کِیا روشن مجھے نہ سورج نے
تو میں جہاں میں منور ہوا تو کیسے ہوا

دن میں بھی حسرت مہتاب لیے پھِرتے ہیں

دن میں بھی حسرتِ مہتاب لیے پھِرتے ہیں
ہاۓ کیا لوگ ہیں کیا خواب لیے پھرتے ہیں
ہم کہاں منظر شاداب لیے پھرتے ہیں
در بہ در دیدۂ خوں ناب لیے پھرتے ہیں
وہ قیامت سے تو پہلے نہیں ملنے والا
کس لیے پھر دلِ بے تاب لیے پھرتے ہیں

کہ میری پیاس تھی میری نہ میرا دریا تھا

شکستہ عکس تھا وہ، یا غبارِ صحرا تھا؟
وہ میں نہیں تھا جو خود اپنے گھر میں رہتا تھا
عجیب شرطِ سفر تھی مِرے لیے، کہ مجھے
سیاہ دھوپ میں روشن چراغ رکھنا تھا
نہ جانے کون سے موسم میں جی رہا تھا میں
کہ میری پیاس تھی میری، نہ میرا دریا تھا

چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی

چراغوں کے بجھانے کو ہوا بے اختیار آئی
گلابوں کی مہک بکھری تو آوازِ شرار آئی
بگولوں نے سفر میں آندھیوں کا آسماں دیکھا
مگر اک فاختہ اپنے شجر تک بے غبار آئی
جسے تُو نے اجالا جان کر چہرے پہ لکھا تھا
وہی شہرت تِری رسوائیوں کے ہمکنار آئی

کس قدر تجھ کو تری ذات سے ہٹ کر سوچا

کس قدر تجھ کو تِری ذات سے ہٹ کر سوچا
حد تو یہ تجھے اوروں سے لپٹ کر سوچا
محو ہو کر تِری خوشبو کے گماں میں اکثر
ہم نے صدیوں کو بھی لمحوں میں سمٹ کر سوچا
عشق بنیاد میں شامل تھا سدا سے اپنی
دل کے محور سے نہ ہم نے کبھی ہٹ کر سوچا

نہیں منزل نگاہ راہرو میں

تماشا ہے کہ سب آزاد قومیں
بہی جاتی ہیں آزادی کی رو میں
وہ گردِ کارواں بن کے چلے ہیں
ستارے تھے رواں جن کے جلَو میں
سفر" کیسا؟ فقط "آوارگی" ہے"
نہیں "منزل" نگاہِ "راہرو" میں

ساقی نے جام دے کے مجھے جم بنا دیا

اسرارِ "کائنات" کا "محرم" بنا دیا
ساقی نے جام دے کے مجھے جم بنا دیا
میں اسکی جستجو میں ہوں جسکے خیال نے
دل کو مِرے "محیطِ" دو "عالم" بنا دیا
افسانۂ حیات سنایا جو شمع نے
بزمِ طرب کو حلقۂ ماتم بنا دیا

عشق کے فیض سے موجود ہیں دیوانے چند

عشق کے فیض سے موجود ہیں دیوانے چند
دیکھ لو، آج بھی "آباد" ہیں "ویرانے" چند
یہ نہ "سمجھو" کہ کوئی بندۂ "محرم" نہ رہا
نظر آتے ہیں اگر بزم میں بے گانے چند
دامِ الفت میں خرد مند بھی پھنس جاتے ہیں
مرغِ دانا کے لۓ بھی ہیں یہاں دانے چند

یہ تیرا خیال ہے کہ تو ہے

یہ تیرا خیال ہے، کہ تُو ہے
جو کچھ بھی ہے میری آرزو ہے
دل پہلو میں جل رہا ہے جیسے
یہ کیسی بہار رنگ و بو ہے
تقدیر میں شب لکھی گئی تھی
کہنے کو یہ زلفِ مشک بو ہے

سیاہ رات کی ہر دلکشی کو بھول گئے

سیاہ رات کی ہر دل کشی کو بھول گئے
دئے جلا کے ہمیں روشنی کو بھول گئے
کسی کلی کے تبسم نے بے کلی دی ہے
کلی ہنسی تو ہم اپنی ہنسی کو بھول گئے
جہاں میں اور رہ و رسمِ عاشقی کیا ہے
فریب خوردہ تِری بے رخی کو بھول گئے

تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی

تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی
میری سیرت میں اے قیصر خوبی بھی ہے خامی بھی
کتنے عاشق سنبھل گئے ہیں میرا فسانہ سن سن کر
میرے حق میں جیسی بھی ہو کام کی ہے ناکامی بھی
محفل محفل ذکر ہمارا سوچ سمجھ کے کر واعظ
اپنے مخالف بھی ہیں کتنے اور ہیں کتنے حامی بھی

کوئی ہمدم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا

فلمی گیت

کوئی ہمدم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
کوئی ہمدم نہ رہا، کوئی سہارا۔۔۔۔

شام تنہائی کی ہے آئے گی منزل کیسے
جو مجھے راہ دکھائے وہی تارا نہ رہا
کوئی ہمدم نہ رہا، کوئی سہارا۔۔۔۔

ہمیں شعور جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے

ہمیں شعور جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے
نگاہ بن کے حسینوں کی انجمن میں رہے
تو اے بہار گریزاں! کسی چمن میں رہے
مِرے جنوں کی مہک تیرے پیرہن میں رہے
مجھے نہیں کسی اسلوبِ شاعری کی تلاش
تِری نگاہ کا جادو مِرے سخن میں رہے

یہ جو رواں دواں ہوں میں اپنے لئے کہاں ہوں میں

یہ جو رواں دواں ہوں میں اپنے لیے کہاں ہوں میں
جیسا ہوں میں جہاں ہوں میں اپنے لیے کہاں ہوں میں
جل کے بھی  ہوں بجھا ہوا، بجھ کے بھی ہوں جلا ہوا
آگ ہوں یا دھواں ہوں میں؟ اپنے لیے کہاں ہوں میں
جو بھی مِرے "قرِیں" رہا، میرے لیے نہیں رہا
سب کے جو درمیاں ہوں میں اپنے لیے کہاں ہوں میں

صدائیں اتنی اونچی ہیں کہ مدھم سوچتے ہیں

صدائیں اتنی اونچی ہیں کہ مدھم سوچتے ہیں
سو اب ہم سوچنے والے بھی کم کم سوچتے ہیں
کسی سے بات کیا کرنی، ٹھہرنا کس لیے پھر
جہاں پر زخم سے پہلے ہی مرہم سوچتے ہیں
بنائیں نقش تو اس کو مٹا دیتے ہیں خود ہی
اگر ہم سوچتے بھی ہیں تو برہم سوچتے ہیں

زندگی کس قدر ستاتی ہے

زندگی کس قدر ستاتی ہے
شاعری کھول کر بتاتی ہے
جب دِیے ظلمتوں کے ساتھی ہوں
روشنی صرف گھر جلاتی ہے
اک جہاں رقص کرنے لگتا ہے
عاشقی اس طرح نچاتی ہے

غم کا بوجھ اٹھاؤں کیسے

غم کا بوجھ اٹھاؤں کیسے؟
سوکھی شاخ ہِلاؤں کیسے؟
نم آنکھوں سے غافل ہے وہ
دل کے راز بتاؤں کیسے؟
پانی آگ پہ مر جاتا ہے
اس سے ہاتھ ملاؤں کیسے؟

Tuesday, 28 July 2020

مٹتے ہوئے حروف کو پڑھنے کی خو کیا کریں

مٹتے ہوئے حروف کو پڑھنے کی خو کیا کریں
سطریں کریدتے ہوئے پوریں لہو کیا کریں
نو واردانِ عشق سے، کہہ دیجیۓ کہ دشت میں
وحشت سے قبل ریت سے جا کر وضو کیا کریں
انجیلِ دل میں درج ہوں آیاتِ نقرئی تو پھر
ہم بھی سخن کے باب میں، کچھ ہاؤ ہو کیا کریں

سیر بازارِ جہاں کرتے ہوئے ہم کو چلا

سیرِ بازارِ جہاں کرتے ہوئے ہم کو چلا
دل کی قیمت کا پتہ، پھول کی ارزانی سے
کن ستاروں نے جڑیں پکڑیں سفالِ نم میں
شب گزیدوں کی سماوات میں گل بانی سے
قافلے مثلِ صبا دل سے گزر جاتے ہیں
کون ملتا ہے بھری بھیڑ میں آسانی سے

اسی مکین میں اب وہ مکان رہتا ہے

یقین خالق کون و مکان رہتا ہے
مگر کہیں کہیں وہم و گمان رہتا ہے
وہ جس مکان میں پہلے مکین رہتا تھا
اسی مکین میں اب وہ مکان رہتا ہے
جناب منصفِ اعلیٰ! ابھی ذرا رُکیے
ابھی "قتیل" کا اپنا "بیان" رہتا ہے

ایسے لگتا ہے کہ جیسے کچھ یہاں ہونے کو ہے

ایسے لگتا ہے کہ جیسے کچھ یہاں ہونے کو ہے
سر اٹھاتی یہ زمیں اب آسماں ہونے کو ہے
آگ تو اڑ ہی رہی تھی آندھیوں کے دوش پر
اب سروں پر بھی دھویں کا سائباں ہونے کو ہے
یہ زمیں کچھ بولتی ہے کان دَھر کر تو سنو
اس کے اندر جو نہاں ہے وہ عیاں ہونے کو ہے

میرے ہونے کا مجھے پہلے یقیں ہونے دے

میرے ہونے کا مجھے پہلے یقیں ہونے دے
پھر عدم کا تُو مجھے تخت نشیں ہونے دے
ورنہ، یہ بات عبادت کی رہے گی تشنہ
پہلے تسلیم کے قابل یہ جبیں ہونے دے
تُو مجھے جلوہ دکھا اپنا، مِرے سامنے آ
حشر موسیٰ کی طرح بعد ازیں ہونے دے

ابھی تھا ساتھ اچانک کدھر گیا اے دوست

ابھی تھا ساتھ، اچانک کدھر گیا، اے دوست
سو تُو بھی اپنی زباں سے مُکر گیا، اے دوست
پرائے گھاؤ پہ کل اپنی نظم رکھتے ہوئے
نجانے کیوں مِرا لہجہ بکھر گیا، اے دوست
جو میرے بام کا روشن تریں ستارہ رہا
تِری گلی کی سیاہی سے ڈر گیا، اے دوست

نقش پا ڈھونڈیے دل پر کہ سبب یاد آئے

نقشِ پا ڈھونڈئیے دل پر، کہ سبب یاد آئے
کون یوں بھٹکا ہوا پھرتا ہے، اب یاد آئے
تِری سہمی ہوئی یادوں کے گلے لگتے ہوئے
کسی بے باک تمنا کے غضب یاد آئے
کیسی خوشبو سے دل و جاں میں شفق پھوٹ پڑی
کون چہرے مجھے اک خواب کی شب یاد آئے

جو تیرے ساتھ گزاری لپیٹ کے رکھ دی

جو تیرے ساتھ گزاری، لپیٹ کے رکھ دی
وہ رات ہجر نے ساری، لپیٹ کے رکھ دی
بہت لگن سے کیا تھا چراغوں کو روشن
ہوا نے کار گزاری، لپیٹ کے رکھ دی
میں بھیگی رات کو کل دھوپ میں سُکھاؤں گا
ابھی تو اشکوں کی ماری، لپیٹ کے رکھ دی

بہت دشوار یہ بھی مرحلہ تھا

بہت دشوار یہ بھی مرحلہ تھا
ترا آنا بھی جیسے معجزہ تھا
بدن کی کھیتیاں پکنے پہ آئیں
خریداروں کا کتنا جھمگٹا تھا
درختوں کے اجڑ جانے کا قصہ
پرندوں کو سنایا جا رہا تھا

صورت یار کی تلاوت کی

صورتِ یار کی تلاوت کی 
زندگی بھر یہی عبادت کی
گھر میں جو پیڑ تھا مِرے اس پر
شاخ مرجھا گئی محبت کی
گاؤں میں لگ نہیں رہا تھا دل
شام بھی آ گئی تھی ہجرت کی

مجھے دیوار کا سایہ سمجھ لو

نہیں کچھ تو چلو اتنا سمجھ لو
مجھے دیوار کا سایا سمجھ لو
جہاں تم پهول کی صورت کهلے ہو
مجهے اس شاخ کا پتہ سمجھ لو
اکیلے باغ میں کب تک رہو گے
کسی کو پاس ہی بیٹها سمجھ لو

ظرف بھر تیری تمنا میں بھٹک دیکھا ہے

خاک دیکھی ہے شفق زار فلک دیکھا ہے
ظرف بھر تیری تمنا میں بھٹک دیکھا ہے
ایسا لگتا ہے کوئی دیکھ رہا ہے مجھ کو
لاکھ اس وہم کو سوچوں سے جھٹک دیکھا ہے
قدرت ضبط بھی لوگوں کو دکھائی ہم نے
صورت اشک بھی آنکھوں سے چھلک دیکھا ہے

میں خود کو تسخیر کروں تو بنتا ہے

میں خود کو تسخیر کروں، تُو بنتا ہے
خواب اپنا تعبیر کروں، تو بنتا ہے
خوشبو کو زنجیر کیا کس نے اب تک
خوشبو کو زنجیر کروں، تو بنتا ہے
منظر میں مہتاب دکهائی دے مجھ کو
جب اس کو تصویر کروں، تو بنتا ہے

مانا کہ مدتوں سے اجالے نہیں ہوئے

مانا کہ مدتوں سے اجالے نہیں ہوئے
ہم پھر بھی ظلمتوں کے حوالے نہیں ہوئے
برتے ہیں ذرہ ذرہ، جیے ہیں ذرا ذرا 
ہم نے تمہارے درد سنبھالے نہیں ہوئے 
قسمت کا پھیر ہے جو پھراتا ہے دربدر
ہم بد نصیب گھر سے نکالے نہیں ہوئے

دل بدگماں کے توہمات عجیب ہیں

دلِ بد گماں کے توہمات عجیب ہیں
مِرے نام کے یہ حروف سات عجیب ہیں
نہ تخیلات گرفتِ حرف میں آ سکے
یہ نزولِ شعر کی مشکلات عجیب ہیں
تُو تلاش کر کوئی اور علاجِ دلِ حزیں
کہ دوائے عشق کے مضمرات عجیب ہیں

پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

 پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

کروٹ بدل رہا تھا برابر پڑا ہوا

باہر سے دیکھیے تو بدن ہیں ہرے بھرے

لیکن لہو کا کال ہے اندر پڑا ہوا

دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی

سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا

دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا

 دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا

اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا

غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی

کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا

چپ چاپ گھر کے صحن میں فاقے بچھا دئیے

روزی رساں سے ہم نے گِلہ کچھ نہیں کیا

اپنی راتوں کا سکوں مانگ رہا تھا مجھ سے

پاسِ احساسِ جنوں مانگ رہا تھا مجھ سے
وہ تخیل کا فسوں مانگ رہا تھا مجھ سے
میری نس نس میں اذیت کو سمونے والا
اپنی راتوں کا سکوں مانگ رہا تھا مجھ سے
کل کوئی خواب مری آنکھ کے ساحل پہ کھڑا
شورشِ جذبِ دروں مانگ رہا تھا مجھ سے

بس اداسی ہے اور کچھ بھی نہیں

بس اداسی ہے اور کچھ بھی نہیں
اچھی خاصی ہے اور کچھ بھی نہیں
میں بلوچن ہوں، تیری دولہن ہوں
وہ تو داسی ہے اور کچھ بھی نہیں
اس سے کہنا کہ یہ محبت تو
بدحواسی ہے اور کچھ بھی نہیں

عشق وحشت نشاں مکمل ہے

عشق وحشت نشاں مکمل ہے 
ورنہ کچھ بھی کہاں مکمل ہے؟
چاۓ ہے، شاعری ہے اور تم ہو
میرا سارا جہاں مکمل ہے
تُو ہے گر سامنے تو لگتا ہے 
چاند آدھا کہاں؟ مکمل ہے

وہی موسم ہے

ایک پیغام

وہی موسم ہے
بارش کی ہنسی
پیڑوں میں چھن چھن گونجتی ہے
ہری شاخیں
سنہری پھول کے زیور پہن کر
تصور میں کسی کے مسکراتی ہیں

لڑکی یہ لمحے بادل ہیں

ایک دوست کے نام

لڑکی
یہ لمحے بادل ہیں
گزر گئے تو ہاتھ کبھی نہیں آئیں گے
ان کے لمس کو پیتی جا
قطرہ قطرہ بھیگتی جا

بارش میں کیا تنہا بھیگنا لڑکی

بارش میں کیا تنہا بھیگنا لڑکی
اسے بُلا، جس کی چاہت میں
تیرا تن من بھیگا ہے
پیار کی بارش سے بڑھ کر کیا بارش ہو گی؟
اور جب اس بارش کے بعد
ہجر کی پہلی دھوپ کھلے گی
تجھ پر رنگ کے اسم کھلیں گے

پروین شاکر

جو شخص جا چکا ہے بھلایا نہیں گیا

جو شخص جا چکا ہے، بھلایا نہیں گیا
دن ڈھل چکا، منڈیر سے سایا نہیں گیا
ازبر تھا سارا عشق، سبق سارا یاد تھا
اس نے کہا، "سناؤ"! سنایا "نہیں" گیا
ایسا تھا حسن اس کا جسے آج تک کبھی
احساسِ" خود "نمائی" دِلایا نہیں گیا"

زندگی تھی ہی نہیں زخم کسی یاد کے تھے

زندگی تھی ہی نہیں، زخم کسی یاد کے تھے
ہم نے وہ دن بھی گزارے جو تِرے بعد کے تھے
ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی
جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے
اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں
ہم وہی لوگ ہیں جو قریۂ آباد کے تھے

اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے

آم نامہ

نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے
ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ ہوں اگر بیس تو دس خام بھیجیے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الہ آباد مِرے نام بھیجیے

آج کشمیر میں کیا مشق ستم جاری ہے

آج کشمیر میں

کیا کشمکشیں جاری ہیں
کیا مشق ستم
آئیں دیکھیں تو ذرا، آئیں سوچیں تو سہی
اک طرف ہندوکش کوہ گراں
اک طرف یو ایس اے
اک طرف شہ رگِ جاں

سکوت شب میں اندھیروں کو مسکرانے دے

سکوتِ شب میں اندھیروں کو مسکرانے دے
بجھے چراغ تو پھر جسم و جاں جلانے دے
دکھوں کے خواب نما نیم وا دریچوں میں
وفورِ کرب سے تاروں کو جھلملانے دے
جلانا چاہے اگر چاہتوں کا سورج بھی
بدن کے شہر کو اس دھوپ میں جلانے دے

پھیلا کے سر پہ درد کی چادر چلا گیا

پھیلا کے سر پہ درد کی چادر چلا گیا
اک شخص میری روح پہ نشتر چلا گیا
مجھ سے خطا ہوئی تھی کہ ایسی مِرا خدا
ناراض ہو کے شہر سے باہر چلا گیا
شیشے لہولہان پڑے ہیں جو فرش پر
کھڑکی پہ کوئی مار کے پتھر چلا گیا

Monday, 27 July 2020

جو گہرے دوست ہیں میرے مجھے سمجھتے ہیں

کمینہ پن بھی دکھاؤں تو ہنسنے لگتے ہیں
جو گہرے دوست ہیں میرے مجھے سمجھتے ہیں
اسے معاف کِیا کہ وہ اُس کو چاہتا تھا
وگرنہ ہم جو حریفوں کا حال کرتے ہیں
بس ایک بار مجھے ماضی بھول جانے دے
وہ خود پہ آہیں بھریں گے جو کان بھرتے ہیں

جب آنکھیں دکھنے لگیں دیکھ کر دعا کی طرف

جب آنکھیں دُکھنے لگیں دیکھ کر دعا کی طرف
رجوع کرنے لگے لوگ پھر دوا کی طرف
ہمارا کام فقط دیکھنا ہے،۔ دیکھ رہے
خدا ہماری طرف، اور ہم خدا کی طرف
ذرا سے ہوش میں آتے ہی عشق سے بھاگے
کہ ہم نشے میں ہی آئے تھے اِس بلا کی طرف

اے لڑکی اے اور طرح کی باتوں والی

اے لڑکی

اے اور طرح کی باتوں والی
جھوٹ اور کھوٹ سے خالی
لڑکی
تُو نے
کیسی سرشاری، دلداری سے
ایک انوکھی من موہنی
فرمائش کی ہے

کبھی یوں بھی مجھے اس کی محبت گھیر لیتی ہے

کبھی یوں بھی مجھے اس کی محبت گھیر لیتی ہے
اچانک جیسے بچوں کو شرارت گھیر لیتی ہے
بہت سرشار رکھتا ہے اسے بھی گیت بارش کا
مجھے بھی ایک البیلی مسرّت گھیر لیتی ہے
فسانہ ساز گلیوں کی بہت ہم سیر کرتے ہیں
مگر اِک وقت آتا ہے، حقیقت گھیر لیتی ہے

کچھڑی؛ زمانہ تیز دھار ہے

کچھڑی

زمانہ تیز دھار ہے
جو چل گیا سو پار ہے
اسی سے کوئی سیکھ لے
اور اپنا کُند تِیکھ لے
نہیں تو کٹ

کیا بچاؤں تجھے کیا لٹاؤں تجھے مختصر زندگی

کیا بچاؤں تجھے کیا لٹاؤں تجھے، مختصر زندگی
خود پہ اوڑھوں کہ نیچے بچھاؤں تجھے مختصر زندگی
ذرہ ذرہ بکھر کر بھی آخر تجھے ختم ہونا تو ہے
کیوں نہ یکدم ہوا میں اڑاؤں تجھے مختصر زندگی
تیری کھیتی پہ اپنا گزارا نہیں، بھوک مِٹتی نہیں
جی میں آتا ہے اب بیچ کھاؤں تجھے مختصر زندگی

شاعری نہیں کرنی

شاعری نہیں کرنی

جب تلک سلامت ہوں، شاعری نہیں کرنی
ناخنوں کے نیزوں سے زخم تازہ رکھنے ہیں
شاعری نہیں کرنی
رہبروں کی منڈی میں کوڑیوں کے بھاؤ پر
کون کتنا بِکتا ہے؟ بس حساب رکھنا ہے
شاعری نہیں کرنی

کچے گھر اور پکے رشتے ہوتے تھے

کچے گھر اور پکے رِشتے ہوتے تھے
گاؤں والے کتنے میٹھے ہوتے تھے
سنا ہے ہر دروازے میں اب تالا ہے
پہلے تو ہر صحن سے رستے ہوتے تھے
کون اذانیں دیتا ہے اب مسجد میں؟
پہلے تو کچھ بوڑھے بابے ہوتے تھے

سمجھے بغیر بھی کبھی سوچے بغیر بھی

سمجھے بغیر بھی، کبھی سوچے بغیر بھی
رہتا ہے "کوئی" رابطہ "رکھے" بغیر بھی
اِمشب فراق میں ہے چراغوں کا اہتمام
لگنے لگا ہے دل "مِرا" تیرے بغیر بھی
نیندیں نہیں نصیب میں لیکن وہ میرا خواب
مجھ کو دکھائی دیتا ہے "دیکھے" بغیر بھی

زخم سہلاتے ہیں اور کار ہنر کرتے ہیں

زخم سہلاتے ہیں اور کارِ ہنر کرتے ہیں
ہم، جو بیتی ہوئی عمروں کو بسر کرتے ہیں
ان زمینوں سے بہت دور کسی رَستے میں
بیٹھ جاتے ہیں کہیں، اور سفر کرتے ہیں
نیند اتنی بھی ضروری نہیں خوابوں کیلئے
آؤ سوئے ہوئے لوگوں کو خبر کرتے ہیں

اے باد خوش خرام تمہاری وجہ سے ہے

اے بادِ خوش خرام، تمہاری وجہ سے ہے
پھولوں کا احترام، تمہاری وجہ سے ہے
پھرتے ہیں اپنے کام سے بستی میں بادہ خوار
ہم کو بھی ایک کام، تمہاری وجہ سے ہے
ہر طاق میں چراغ ہے، ہر شاخ پر گلاب
کس درجہ اہتمام، تمہاری وجہ سے ہے

پلٹنے والوں نے دشنام جب تمہارا دیا

پلٹنے والوں نے دُشنام جب تمہارا دیا
اجل  کے ہاتھ نے خود بام سے اتارا دیا
جوابی کاپی میں لکھی ہوئی غزل پہ مجھے
کسی نے ہنستے ہوئے سرخ سا ستارا دیا
چمن کی اوٹ سے رخ پھیر کر پری وش نے
ہوائے شام کو "تھم" جانے کا اشارہ دیا

وادی جھنگ سے اٹھے گا دھواں تیرے بعد

ٹہنیاں پھولوں کو ترسیں گی یہاں تیرے بعد
وادیٔ جھنگ سے اٹھے گا دھواں تیرے بعد
لاڈلے شیشموں کی بھاگ بھری شاخوں سے
کونپلیں پھوٹیں گی بن بن کے فغاں تیرے بعد
دھندلی دھندلی نظر آئیں گی سہانی راتیں
ہچکیاں لے گا "ترمّوں" کا سماں تیرے بعد

رات سولی پہ بسر ہو تو غزل ہوتی ہے

نطق پلکوں پہ شرر ہو تو غزل ہوتی ہے
آستیں آگ سے تر ہو تو غزل ہوتی ہے
ہجر میں جھوم کے وجدان پہ آتا ہے نکھار
رات "سولی" پہ بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
کوئی دریا میں اگر کچے گھڑے پر تیرے
ساتھ ساتھ اس کے بھنور ہو تو غزل ہوتی ہے

نشے کی آگ میں دیکھا گلاب یعنی تو

نشے کی آگ میں دیکھا گلاب، یعنی تُو
بدن کے جام میں دیسی شراب، یعنی تو
ہمارے لمس نے سب تار کس دئیے اس کے
وہ جھنجھنانے کو بے کل رباب، یعنی تو
ہر ایک چہرہ نظر سے چکھا ہوا دیکھا
ہر اک نظر سے اچھوتا شباب، یعنی تو

تیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں

تیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں
تیرا انداز بدل دوں تِرا لہجہ ہو جاؤں
تو مِرے لمس کی تاثیر سے واقف ہی نہیں
تجھ کو چھو لوں تو تِرے جسم کا حصہ ہو جاؤں
تیرے ہونٹوں کے لیے ہونٹ میرے آبِ حیات
اور کوئی جو چھوئے زہر کا پیالہ ہو جاؤں

مجھ کو جو میسر تھا سنگ لے گیا ہے تو

مجھ کو جو میسر تھا سنگ لے گیا ہے تُو
یعنی میرے جیون سے، رنگ لے گیا ہے تو
کیسے گنگنائے گی، گیت کیسے گائے گی
چہچہاتی چڑیا کا "چنگ" لے گیا ہے تو
کس کے نام کی مہندی، کیسی کانچ کی چوڑی
میرے سج سنورنے کا، ڈھنگ لے گیا ہے تو

مرا ساتھ ابھی مت چھوڑ پیا

مجھے سانسوں کی ہے تھوڑ پیا
مِرا ساتھ ابھی مت چھوڑ پیا
کَری منت، زاری، ترلے سب
میں نے ہاتھ دئیے ہیں جوڑ پیا
مِری مانگ سندور سےخالی کر
ہَری چُوڑی آ کر توڑ پیا

جھیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھینچتی ہے

جھیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھینچتی ہے
یہ تیرے خواب تلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
گر تُو دِکھ جاۓ تو مُڑ مُڑ کے تجھے دیکھتا ہوں
تیری اک اور جھلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
دوڑ پڑتا ہوں میں ہر بار سرابوں کی طرف
یہ تمنا کی دھنک کیسے مجھے کھینچتی ہے

اس کی ردا آنکھوں پر پہرا کر دیتی ہے

جب وہ ہاتھ ہوا میں لہرا کر دیتی ہے
اس کی رِدا آنکھوں پر پہرا کر دیتی ہے
میں جب ایک سراب میں جل تھل ہو جاتا ہوں
مجھ کو اگلی خواہش صحرا کر دیتی ہے
بارش جب رچ بس جاتی ہے میرے اندر
دھوپ مِرا ہر کھیت سنہرا کر دیتی ہے

تو جسے چھو کے گزر جائے امر ہو جائے

تُو جسے چھو کے گزر جائے امر ہو جائے
قریۂ دل کے مسافر کو "خبر" ہو جائے
یوں سرِ بام ہی ٹوٹے گا ستاروں کا فسوں
میری پلکوں کا جو تارا ہے قمر ہو جائے
اک سفر ہے کہ جو درپیش رہا ہے دل کو
ایک منظر ہے جو آنکھوں میں امر ہو جائے

سوچ کے بعد

سوچ کے بعد

‏Afterthought 

جو عہدِ رفتہ بھلا رہی ہوں
وہ میں نہیں ہوں
جو خواب رُت کو سجا رہے ہو
وہ تم نہیں ہو
چلی ہے جو مخالفت میں اپنی
یہ وہ ہوا ہے

ہر شام دلاتی ہے اسے یاد ہماری

ہر شام دلاتی ہے اسے یاد ہماری
اتنی تو ہوا کرتی ہے امداد ہماری
یہ شہر نظر آتا ہے "ہمزاد" ہمارا
اور گرد نظر آتی ہے فریاد ہماری
یہ راہ بتا سکتی ہے، ہم کون ہیں، کیا ہیں
یہ دھول سنا سکتی ہے "روداد" ہماری

دروازے کو دستک زندہ رکھتی ہے

دروازے" کو "دستک" زندہ رکھتی ہے"
جیسے دل کو دھک دھک زندہ رکھتی ہے
آ جاتے ہیں شام ڈھلے کچھ دوست یہاں
ہم ایسوں کو "بیٹھک" زندہ رکھتی ہے
"منظر" کو زندہ رکھتی ہے "بینائی"
بینائی" کو "عینک" زندہ رکھتی ہے"

خیر و شر میں کشمکش جو باہمی ہے میرے اندر

خیر و شر میں کشمکش جو باہمی ہے میرے اندر
ایسے لگتا ہے کہ جیسے آدمی ہے میرے اندر
کون ہے جو وسوسوں کی آگ دہکاتا ہے دل میں
ہاں "یقیناً" وہ پرانا "دوزخی" ہے میرے اندر
جب بھی چمکا تیرا چہرہ میری یادوں کے افق پر
میں نے دیکھا روشنی ہی روشنی ہے میرے اندر

ہم کبھی آگ تھے جو بجھ کے ہوئے راکھ کی مانند

ہم کبھی آگ تھے جو بجھ کے ہوۓ راکھ کی مانند
وقت کے آگے پڑے ہیں خس و خاشاک کی مانند
خلعتِ فقر کا طالب ہوں،۔ مگر خواہشِ دنیا
چِپکی رہتی ہے بدن سے مِری پوشاک کی مانند
اب بھلا کون تراشے گا مِرے بگڑے ہوۓ نقش؟
اب کوئی "چاک" گھماتا ہی نہیں چاک کی مانند

جنگ جو خود سے ہاری گئی

جنگ جو خود سے ہاری گئی

نجانے اپنی خوئے باوفا کا زعم تھا مجھے
یا ناز تھا؟
کہ سخت موسموں میں بھی تِرے ہی دھیان کی کلی کھلا رکھی
وہ اشکِ خوں جو میری آنکھ سے بہا
وہ خاک جو مِرے دمکتے روپ نے رِدا بنا کے اوڑھ لی

مسلسل چپ بہت کچھ راکھ کرتی جا رہی ہے

مسلسل چپ
بہت کچھ راکھ کرتی جا رہی ہے
کچھ سمجھ آتا نہیں اس خامشی کا بھید
میری رات تجھ کو لفظ اوڑھے دیکھتی ہے
اور مجھے ناقابلِ تفہیم سناٹے کے ہالے میں
کچھ ایسی ہی خموشی سے بھری شب تھی

میں آنکھیں بند کر لوں اور سب نابود ہو جائے

دیوانی کا گیت

میں آنکھیں بند کر لوں، اور سب نابود ہو جائے
اگر پلکیں اٹھا لوں، سارے منظر جی اٹھیں
بارِ دگر
میں سوچتی ہوں)
تم اگر ہو بھی
(تو بس میرا گماں، شاید

ریت آنکھوں میں بھر گیا دریا

ریت آنکھوں میں بھر گیا دریا
کیسے آیا؟ کدھر گیا دریا؟
راستہ مل سکا نہ آنکھوں سے
میرے اندر ہی مر گیا دریا
میں تو پیاسا تھا خشک صحرا سا
مجھ میں کیسے اتر گیا دریا

برف کے جسم لیے آگ جلاتے ہوئے لوگ

دھند میں لپٹے ہوئے، دور سے آتے ہوئے لوگ
برف کے جسم لیے آگ جلاتے ہوئے لوگ
نقص تھا میری سماعت میں یا تنہائی کا خوف؟
کتنے خاموش لگے شور مچاتے ہوئے لوگ
ڈوبنے والے کی آنکھوں سے عیاں تھا منظر
تھے کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے ہوئے لوگ

رو پڑی ہوں کہ زخم گہرا تھا

رو پڑی ہوں کہ زخم گہرا تھا
ورنہ آنکھوں پہ سخت پہرا تھا
میں تو سمجھی قبیلہ پیچھے ہے
مڑ کے دیکھا تو صرف صحرا تھا
تیرے تحفے کی جو گھڑی تھی نا
اس پہ فرقت کا وقت ٹھہرا تھا

کوئی جگنو کوئی دیپک کرن ہو یا ستارہ ہو

کوئی جگنو کوئی دیپک کرن ہو یا ستارا ہو
سفر میں رات آ پہنچی کوئی تو اب ہمارا ہو
کسی کے عشق کا نغمہ ہمارے لب پہ بھی گونجے
کوئی تو "نام" لے کر اب "ہمارا" بھی پکارا ہو
کسی کے ہاتھ ایسے ہوں جو مجھ کو تھام سکتے ہوں
مجھے ہر ایک لغزش پر سدا جس کا سہارا ہو

خود میں تحلیل کر لیا خود کو

خود میں تحلیل کر لِیا خود کو
یعنی، تبدیل کر لیا خود کو
میں سمندر بنا سکی نہ تجهے
آخرش جهیل کر لیا خود کو
یوں بهی جلنا نصیب تها اس کا
دل نے قندیل کر لیا خود کو

کیسے دل کو روشن کرتی آوازیں

کیسے دل کو روشن کرتی آوازیں
اجلے لفظ تھے لیکن میلی آوازیں
پتھر جیسی کور سماعت پر گرتی
چھن چھن کرتے گھنگرو جیسی آوازیں
ایک طرف ساکت ہے نیلی خاموشی
اک جانب رقصاں زہریلی آوازیں

Sunday, 26 July 2020

اندھے خوابوں کو اصولوں کا ترازو دے دے

اندھے خوابوں کو اصولوں کا ترازو دے دے
میرے مالک! مجھے جذبات پہ قابو دے دے
میں سمندر بھی کسی غیر کے ہاتھوں سے نہ لوں
ایک قطرہ بھی سمندر ہے، اگر تُو دے دے
سب کے دکھ درد سمٹ جائیں میرے سینے میں
بانٹ دے سب کو ہنسی، لاؤ مجھے آنسو دے دے

ہم ان سے بچھڑ کر جینے پر مجبور ہوئے تو کیا ہو گا

جو اتنے قریب ہیں اس دل سے، وہ دور ہوئے تو کیا ہو گا
ہم ان سے بچھڑ کر جینے پر مجبور ہوئے تو کیا ہو گا
ہم ان کی محبت پانے کو ہر بات گوارا تو کر لیں
ان باتوں سے وہ اور اگر مغرور ہوئے تو کیا ہو گا
شیشے سے بھی نازک خواب ہیں جو راتوں نے سجائے ہیں لیکن
یہ دن کی چٹانوں پر گِر کے جب چُور ہوئے تو کیا ہو گا

میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے

میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے
جس کا جواب چاہیے، وہ کیا سوال ہے؟
گھر سے چلا تو دل کے سوا پاس کچھ نہ تھا
کیا مجھ سے کھو گیا ہے مجھے کیا ملال ہے
آسودگی سے دل کے سبھی داغ دُھل گئے
لیکن وہ کیسے جائے جو شیشے میں بال ہے

مصیبتیں سر برہنہ ہوں گی عقیدتیں بے لباس ہوں گی

مصیبتیں سر برہنہ ہوں گی، عقیدتیں بے لباس ہوں گی
تھکے ہوؤں کو کہاں پتہ تھا کہ صبحیں یوں بدحواس ہوں گی
تُو دیکھ لینا ہمارے بچوں کے بال جلدی سفید ہوں گے
ہماری چھوڑی ہوئی اداسی سے سات نسلیں اداس ہوں گی
کہیں ملیں تم کو بھوری رنگت کی گہری آنکھیں، مجھے بتانا
میں جانتا ہوں کہ ایسی آنکھیں بہت اذیت شناس ہوں گی

راہ میں پڑتی تھی دیوار نہیں دیکھ سکا

راہ میں پڑتی تھی دیوار نہیں دیکھ سکا
میں کہ اس پار تھا اس پار نہیں دیکھ سکا
دیکھتا تھا جسے روزانہ کی بنیاد پہ میں
ایک دو سال سے اک بار نہیں دیکھ سکا
یار تو کیسے کسی شخص کی جاں لیتا ہے
میں تو اک چڑیا کو بیمار نہیں دیکھ سکا

دیکھ ناکام محبت کا اشارہ نہ بنا

دیکھ، "ناکام" محبت کا "اشارہ" نہ بنا
مجھ کو "سوکھے" ہوئے دریا کا کنارا نہ بنا
آگہی دکھ ہے، جسے سہنا مرے بس میں نہیں
میری "مٹی" کو تو "انسان" خدارا! نہ بنا
میں تو رستے میں کسی وقت بھی گر سکتا ہوں
مجھ سے "اندھے" کو مِری جان سہارا نہ بنا

ہمارے سامنے رسوا کیا محبت کو

نہ پوچھ اس نے ہے کیا کچھ کہا محبت کو
ہمارے سامنے رسوا کیا محبت کو
ہمارے پاس دعا مانگنے کا وقت نہیں
اب آپ آسرا دے گا خدا محبت کو
تو مجھ کو چھوڑ تو پھر اس طرح سے چھوڑ کہ میں
گلی گلی میں پھروں کوستا محبت کو

تم ترانے کہو

تم ترانے کہو
میرے بچوں کے سینوں پہ تڑ تڑ ہوئی، بچے چیرے گئے
اسلحہ دشمنوں نے اٹھایا ہوا ہے
تم ایسا کرو موم بتی اٹھاؤ
کوئی گیت گاتے ہوئے ڈھولکی کی ڈھنگا ڈھنگ پہ چلتے رہو
اور خوشیاں مناؤ کہ یوں کر کے دشمن سے بدلہ لیا جا چکا ہے

بوجھ؛ میری نیندوں میں جاگی ہوئی حسرتیں

بوجھ

میری نیندوں میں جاگی ہوئی حسرتیں
میرے خوابوں میں ہیں
صبحِ مدہوش بھی
شامِ خاموش بھی
دوسری کہکشاؤں میں بستے ہوئے

لب ساحل سمندر کی فراوانی سے مر جاؤں

لب ساحل سمندر کی فراوانی سے مر جاؤں
مجھے وہ پیاس ہے شاید کہ میں پانی سے مر جاؤں
تم اس کو دیکھ کر چھو کر بھی زندہ لوٹ آئے ہو
میں اس کو خواب میں دیکھوں تو حیرانی سے مر جاؤں
میں اتنا سخت جاں ہوں دم بڑی مشکل سے نکلے گا
ذرا تکلیف بڑھ جائے تو آسانی سے مر جاؤں

پہلے تو فقط اس کا طلب گار ہوا میں

پہلے تو فقط اس کا طلب گار ہوا میں
پھر عشق میں خود اپنے گرفتار ہوا میں
آنکھوں میں بسا جب بھی کوئی اجنبی چہرہ
اک لذتِ بے نام سے دو چار ہوا میں
میں یوسف ثانی، نہ زلیخا، نہ وہ دربار
کیا سوچ کے رُسوا سرِ بازار ہوا میں؟

دن ہو کہ ہو وہ رات ابھی کل کی بات ہے

دن ہو کہ ہو وہ رات ابھی کل کی بات ہے
ہوتی تھی ان سے بات ابھی کل کی بات ہے
جھپکی ادھر پلک وہ ادھر ہو گئے ہوا
جو تھے ہمارے ساتھ ابھی کل کی بات ہے
تھے اقتدار میں تو زمانہ تھا اپنے گرد
لوگوں کی تھی برات ابھی کل کی بات ہے

ڈھولے گاتے ہوئے اونٹوں پہ سوار آتے ہیں

ڈھولے گاتے ہوئے اونٹوں پہ سوار آتے ہیں
چاندنی رات کے "رومان" پہ چھا جاتے ہیں
ان کے ذہنوں سے چھلکتی ہوئی تعبیروں کو
چوم لینے کے لیے مصر سے خواب آتے ہیں
ان کے ہونٹوں پہ مچلتی ہے فصاحت کی پُھوار
بات کرتے ہیں تو یہ پھول سے برساتے ہیں

زندگی رین بسیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

 زندگی رین بسیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
 یہ نفس عمر کے پھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
جسے نادان کی بولی میں "صدی" کہتے ہیں 
وہ گھڑی شام سویرے کے سوا کچھ بھی نہیں
دل" کبھی "شہر" سدا "رنگ" ہوا کرتا تھا" 
 اب تو اجڑے ہوئے ڈیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

غم سے نڈھال کیوں مرے سرکار ہو گئے

غم سے نڈھال کیوں مِرے سرکار ہو گئے
ذکرِِ "وفا" نہ چھیڑ کہ "بیمار" ہو گئے
منزل سے جا لگے تو "سفر" یاد آ گیا
ساحل ہمارے واسطے منجھدار ہو گئے
دل کی لگی نہ جانیۓ ہم ہیں وفا شناس
تھی مصلحت جو آپ سے بیزار ہو گئے

کیمرے کی آنکھ تم کو دیکھتی ہے

نظم

مری آنکھیں
تمہاری دید کی خواہش لیے
جب بھی تمہاری جھیل آنکھوں تک پہنچتی ہیں
وہاں پہلے سے ہی اک آنکھ (یعنی تیسری)
موجود ہوتی ہے

اے مرے دل کے مکیں کون ہو تم

مجھ کو معلوم نہیں کون ہو تم؟
اے مِرے دل کے مکیں کون ہو تم؟
سب سے پیارے ہیں مجھے اپنے سراب
اور سرابوں سے حسیں کون ہو تم؟
میں نے ڈھانپا ہے پروں میں خود کو
اب کہو، پردہ نشیں! کون ہو تم؟

پوری طرح سے اب کے تیار ہو کے نکلے

پوری طرح سے اب کے تیار ہو کے نکلے
ہم چارہ گر سے ملنے "بیمار" ہو کے نکلے
جادو بھری جگہ ہے "بازار" تم نہ جانا
اک بار "ہم" گئے تھے بازار ہو کے نکلے
مٹی کے راستوں پہ اترے عمارتوں سے
واپس عمارتوں کے "آثار" ہو کے نکلے

اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا

اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا
پھر اس میں عجیب کیا کہ ہمارا نہیں ہوتا
کچھ پیڑ بھی بے فیض ہیں اس راہگزر کے
کچھ دھوپ بھی ایسی ہے کہ سایا نہیں ہوتا
خوابوں میں جو اک شہر بنا دیتا ہے مجھ کو
جب آنکھ "کھلی" ہو تو وہ چہرا نہیں ہوتا

کوئی بلا ہو در یار تک نہیں آتی

کوئی "بلا" ہو درِ "یار" تک نہیں آتی
کہ دھوپ سایۂ دیوار تک نہیں آتی
نکل پڑا ہے کوئی سر خریدنے کے لیے
کہ جتنے پیسوں میں دستار تک نہیں آتی
تِرے بھی دل میں محبت کی آگ روشن ہے
تو آنچ کیوں لب و رخسار تک نہیں آتی

بچھڑنے والوں کا کیسے نہ غم کیا جائے

بچھڑنے والوں کا کیسے نہ غم کِیا جائے
یہ بوجھ ایسا نہیں ہے؟ کہ کم کِیا جائے
میں ایک بار نہیں، بار بار ہنستا ہوں
کسی طرح تو "اداسی" کو کم کیا جائے
کوئی سبیل نہیں "پیاس" کو بجھانے کی
سوائے اسکے کہ آنکھوں کو نم کیا جائے

اک دوسرے میں ڈوب کے ہم پار ہو گئے

اک دوسرے میں ڈوب کے ہم پار ہو گئے
اس بار یوں ملے ہیں کہ سرشار ہو گئے
ویسے شروع میں ہمیں دشواریاں ہوئیں
پھر اس کے بعد ہم بھی اداکار ہو گئے
اس جسم کو "توجہ" کا فقدان لے گیا
تم نے چھوا نہیں ہے تو مسمار ہو گئے

آنکھوں سے اتر کر مرے دل تک کوئی آئے

آنکھوں سے اتر کر مِرے دل تک کوئی آئے
اس در پہ بھی دینے کبھی دستک کوئی آئے
پہلے تو بڑے "دام" بتاتا تھا وہ "دل" کے
اب آس میں بیٹھا ہے کہ گاہک کوئی آئے
اب "ایک" سا "موسم" تو ہمیشہ نہیں رہتا 
ممکن ہے کسی روز "اچانک" کوئی آئے 

پھر سے اسی فریب میں آئے ہوئے ہیں ہم

پھر سے اسی فریب میں آئے ہوئے ہیں ہم
ایمان جس پہ پہلے بھی لائے ہوئے ہیں ہم
جس کی خدا کے ساتھ بھی دو پل نہیں بنی
اس بد مزاج شخص کو بھائے ہوئے ہیں ہم
شاخیں ہیں بے ثمر تو ہے سائے میں بھی تپش
احساں مگر شجر کا اٹھائے ہوئے ہیں ہم

مجھ کو صدا نہ دیں نہ ستائیں محبتیں

مجھ کو صدا نہ دیں نہ ستائیں، محبتیں
میری بلا سے بھاڑ میں جائیں محبتیں
جچتی نہیں ہے ہم پہ یہ مانگی ہوئی قبا
جائیں یہاں سے اپنی اٹھائیں، محبتیں
بیٹھے رہیں غرور میں اپنی انا کے ساتھ
رکھیں سنبھال کر یہ وفائیں، محبتیں

زمزم محبتوں کا جو جاری ہے جسم میں

کیسا طلسم آج یہ طاری ہے جسم میں
تیرا ورود شوق سے جاری ہے جسم میں
تم بھی نہ جان پائے مرے دل کا اضطراب
تم نے تو ایک عمر گزاری ہے جسم میں
يہ ميرا عشق ہے كہ جو زنده ہے مجھ میں تو
ورنہ تو ایک سانس بھی بھاری ہے جسم میں

بھول کر تو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر

بھول کر تُو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر
جاگ اے درویش جاں میرے بدن میں رقص کر
ڈال' کر 'چادر' وفا کی تُو 'مزارِ' عشق پر'
دارِ منصوری پہ آ، اس پیرہن میں رقص کر
تُو گریباں چاک جو نکلا ہے غم کی بھیڑ میں
جا چلا جا چھوڑ سب تُو اسکے من میں رقص کر

یہ عجیب لذت درد تھی کہ جو آ کے دل میں سما گئی

یہ عجیب لذتِ درد تھی کہ جو آ کے دل میں سما گئی
ترے آنسوؤں کو سمیٹ کر میں تو جگنوؤں میں نہا گئی
مِری پور پور میں بھر گئیں یہ عجیب نرم سی بجلیاں
تِرے اشک درد کی کہکشاں مِرے ہاتھ پھر سے جلا گئی
مجھے آج تک نہیں بھولتے، تری چاہتوں کے وہ ذائقے
کہ جو تُو ملا تو لگا مجھے سرِ عرش میری دعا گئی

رائیگاں دشت میں بارش کا ہنر جائے گا

پھول بکھریں گے، پرندوں سے شجر جائے گا
رائیگاں دشت میں بارش کا ہنر جائے گا
اور کیا ہو گا بھلا روٹھ کے جانے والے
بس یہ کاجل مِرے تکیے پہ بکھر جائے گا
رائیگانی میری آنکھوں میں لکھے گی نوحے
تُو ا گر عہدِ وفا کر کے مکر جائے گا

یوں تو تھی یہ سعادت نہ تقدیر میں

یوں تو تھی یہ سعادت نہ تقدیر میں
چوم لی تیری پیشانی تصویر میں
مختلف تر لگے بات کرتے ہوئے
آپ تھے مختلف اپنی تسطیر میں
شعر ہو جائے تو اس سے آزاد ہوں
ہم ہیں الجھے خیالِ "گرہ گیر" میں

وہی تھے جو اپنی جستجو میں کھرے نہیں تھے

وہی تھے جو اپنی جستجو میں کھرے نہیں تھے
وگرنہ ہم ان کی دسترس سے پرے نہیں تھے
تبھی وہ سمجھے کہ ہم کھلونے نہیں ہیں جب ہم
وہاں سے ان کو ملے جہاں پر دھرے نہیں تھے
درخت پھر سے ہرا، پھلوں سے بھرا ہوا ہے
مگر وہ پتے بہار میں جو "ہرے" نہیں تھے

والعصر زمانہ مرے مطلب کا نہیں ہے

والعصر زمانہ مِرے مطلب کا نہیں ہے
یہ آئینہ خانہ مِرے مطلب کا نہیں ہے
کہتی ہیں، نہ لا پائیں گی یہ تابِ نطارہ
آنکهوں کا بہانہ، مِرے مطلب کا نہیں ہے
آئی ہوں تِرے واسطےجنت سے زمیں پر
ورنہ، یہ ٹهکانا مِرے مطلب کا نہیں ہے

کب تک باتیں کرتے جائیں در اور میں

کب تک باتیں کرتے جائیں در اور میں
ہر آہٹ پر چونک اٹھتے ہیں گھر اور میں
دن بھر اک دوجے سے لڑتے رہتے ہیں
رات کو تھک کر سو جاتے ہیں ڈر اور میں
گھر سے "باہر" بھی میری اک دنیا ہے
اور اس دنیا سے باہر ہیں "گھر" اور میں

یہ بام و در بھی مرے ساتھ خواب دیکھیں گے

یہ بام و در بھی مِرے ساتھ خواب دیکھیں گے
تمام "رات" مِرا "اضطراب" دیکھیں گے
جہانِ حرف و معانی میں جس نے الجھایا
ہم اس کے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھیں گے
وہ میرے شہر میں آئے گا اور ملے گا نہیں
وہ کر سکے گا بھلا اِجتناب؟ دیکھیں گے؟

سنا ہے ڈھونڈ دیتے ہو

گوگل کے نام

سنا ہے ڈھونڈ دیتے ہو؟
وہ ہر شے جو تمہاری دسترس میں ہے
فقط لکھنا ہی کافی ہے
اگرمیں اشک لکھوں تو
مجھے تم میرے اس انمول آنسو کا پتا دو گے؟

وہ تنہا ہو کے بھی تنہا نہیں‌ ہے

بچھڑتے وقت بھی رویا نہیں ہے
یہ دل اب ناسمجھ بچہ نہیں ہے
میں ایسے راستے پہ چل رہی ہوں
جو منزل کی طرف جاتا نہیں ہے
محبت کی عدیم الفرصتی میں
اسے چاہا، مگر سوچا نہیں ‌ہے

نہ اس کو بھولنا ہے اور نہ اس کو یاد کرنا ہے

تعلق کی نئی اک "رسم" اب "ایجاد" کرنا ہے
نہ اس کو بھولنا ہے اور نہ اس کو یاد کرنا ہے
زبانیں کٹ گئیں تو کیا سلامت انگلیاں تو ہیں
در و دیوار پہ لکھ دو "تمہیں فریاد" کرنا ہے
ستارہ "خوش گمانی" کا سجایا ہے "ہتھیلی" پر
کسی صورت ہمیں تو اپنے دل کو شاد کرنا ہے

کسی بھی رائیگانی سے بڑا ہے

کسی بھی رائیگانی سے بڑا ہے
یہ دکھ تو زندگانی سے بڑا ہے
ہماری "آنکھ" کا یہ ایک آنسو
تمہاری راجدھانی سے بڑا ہے
نہ ہم سے عشق کا مفہوم پوچھو
یہ لفظ اپنے معانی سے بڑا ہے

پی کر اک گھونٹ بھی مجھ سےنہ چلا جائے گا

پی کر اک گھونٹ بھی مجھ سےنہ چلا جائے گا
لڑ کھڑا کر میں گروں گا تو مزه آئے گا
میں نے سوچا ہی نہیں تھا کبھی چاہت میں صنم
دھوکا الفت میں، میرا دل بھی کبھی کھائے گا
میرا گھر بار لٹا ہے، تیری چاہت میں حسیں
تو مٹا کر مجھے، دنیا سے نہ کچھ پائے گا

لڑکھڑا کے سنبھل رہے ہیں ہم

لڑکھڑا کے سنبھل رہے ہیں ہم
یعنی رستہ بدل رہے ہیں ہم
لاد کر دن کا بوجھ کاندھوں پر
چاندنی میں ٹہل رہے ہیں ہم
مثلِ گرد و غبارِ راہ سہی
دیکھیۓ، ساتھ چل رہے ہیں ہم

غم کا سامان تھا ہمارے بیچ

غم کا سامان تھا ہمارے بیچ
ڈھیر نقصان تھا ہمارے بیچ
زندگی منہ بسورے پھرتی تھی
خواب ہلکان تھا ہمارے بیچ
ہم نے اس پر کبھی نہ دھیان دیا
ایک امکان تھا ہمارے بیچ

وقت رخصت وہ بڑے پیار سے مل کر رویا

وقتِ رخصت وہ بڑے پیار سے مِل کر رویا
چارہ گر اپنے ہی "بیمار" سے مل کر رویا
اس نے پُرکھوں کا مکاں بیچ تو ڈالا، لیکن
دیر تک پھر در و دیوار سے مل کر رویا
جب کسی شخص نے مڑ کر اسے دیکھا بھی نہیں
حادثہ، سرخئ اخبار سے "مل" کر رویا

عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا

عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا
زندگی میں تو ترے ناز اٹھانے سے رہا
جب بھی دیکھا تو کناروں پہ تڑپتا دیکھا
یہ سمندر تو مِری پیاس بجھانے سے رہا
بس یہی سوچ کے سر اپنا 'قلم' کر ڈالا
اب وہ الزام مِرے سر تو لگانے سے رہا

Saturday, 25 July 2020

انتظار کے آنگن میں ایک تابوت

انتظار کے آنگن میں ایک تابوت

مِرے بابا
تمہیں معلوم ہی ہو گا
گھروں سے دور جو شامیں گزرتی ہیں
وہ کتنی زرد ہوتی ہیں
کہ تم نے ایسی شاموں کے کئی چہرے