مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں
مٹی سے "آسمان" بنانے لگا تھا میں
بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے
تصویر سے "غبار" ہٹانے لگا تھا میں
آواز دے کے روک لیا اس نے جس گھڑی
مایوس ہو کے لوٹ کے جانے لگا تھا میں
پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا
کروٹ بدل رہا تھا برابر پڑا ہوا
باہر سے دیکھیے تو بدن ہیں ہرے بھرے
لیکن لہو کا کال ہے اندر پڑا ہوا
دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی
سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا
دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا
اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا
غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی
کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا
چپ چاپ گھر کے صحن میں فاقے بچھا دئیے
روزی رساں سے ہم نے گِلہ کچھ نہیں کیا