Friday, 30 April 2021

تمہارے غم کے فسانے کہاں پرانے ہوئے

تمہارے غم کے فسانے کہاں پُرانے ہوئے

ہاں بھُولنے کے کئی مرتبہ بہانے ہوئے

لبوں سے مٹ گئی ہے دھوپ تیرے چہرے کی

کہ تیرے ماتھے کو چُومے کئی زمانے ہوئے

تمہارے موسموں سے مانگ لوں نیا آنچل

گئی رُتوں کے سبھی پیرہن پرانے ہوئے

محبت کی منزل ایسے تو نہیں چھیڑو میرے جسم

 محبت کی منزل


ایسے تو نہیں چھیڑو میرے جسم کے طنبورے کو

جیسے کوئی بچہ شرارت کرے

میرا جسم کوئی راز نہیں ہے

جسے دریافت کرنے کے لیے

کسی نقشے کی ضرورت ہو

یہ الجبرا کا سوال نہیں ہے

چلے گئے ہو سکون و قرار جاں لے کر

 چلے گئے ہو سکون و قرار جاں لے کر

ہم اپنے درد کو جائیں کہاں کہاں لے کر

بہت دنوں میں ملا ہے پیامِ موسمِ گل

نسیمِ صبح چلی ہے کشاں کشاں لے کر

اب اپنے اپنے مقدر پہ بات ٹھہری ہے

اٹھا ہے ابرِ گہر بار بجلیاں لے کر

مجھے کسی پہ محبت کا کچھ گماں سا ہے

 مجھے کسی پہ محبت کا کچھ گماں سا ہے

وہ بے سبب ہی سہی مجھ پہ مہرباں سا ہے

یہاں پہ اب کوئی موسم نہیں اداسی کا

کہ میرا دل بھی مِرے شہر بے اماں سا ہے

کہاں اتار لوں تیری نظر کی پاک کرن

کنارۂ دل و جاں تک دھواں دھواں سا ہے

کیمیا گر پرکھ تو سہی اور پرکھ کر ہمیں بتا

 کیمیا گر پرکھ تو سہی

اور پرکھ کر ہمیں بتا

کون سی دھات کے خواب ہیں

جو پگھلتے نہیں اور بکھرتے نہیں خاک پر

کیمیا گر

ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر

تم وه آیت مقدس ہو جو ترتیل سے بیاں ہوئى ہو جاناں

 تم وه آیتِ مقدس ہو جو ترتیل سے بیاں ہوئى ہو جاناں

میرے دل کے صحیفے پہ بڑى تفصیل سے بیاں ہوئى ہو جاناں

تیرا عشق اُترا ہے میرے دل پہ بہت پہلے سے

گئے برسوں میں کہیں انجیل سے بیاں ہوئى ہو جاناں

میں گنگناؤں تو  یاد آتے ہیں مجھے زبور کے مصرعے 

شاعری کی کس کس تمثیل سے بیاں ہوئی ہو جاناں

راستہ دیر تک سوچتا رہ گیا

 راستہ دیر تک سوچتا رہ گیا

جانے والے کا کیوں نقشِ پا رہ گیا

آج پھر دب گئیں درد کی سسکیاں

آج پھر گُونجتا قہقہہ رہ گیا

اب ہوا سے شجر کر رہا ہے گِلہ

ایک گُل شاخ پر کیوں بچا رہ گیا

یہ زخم کہیں اس کی عنایت ہے نہیں تو

 یہ زخم کہیں اس کی عنایت ہے، نہیں تو

خاموش ہو کیا کوئی شکایت ہے، نہیں تو

ہر وقت ذکر اس کا ہی رہتا ہے زباں پر

کیا اس میں تِری کوئی عبادت ہے، نہیں تو

آباد یہ صحرا کو محبت سے کرو گے؟؟

آ جاؤں ترے دل میں اجازت ہے، نہیں تو

دعا ہی وجہ کرامات تھوڑی ہوتی ہے

 دعا ہی وجہِ کرامات تھوڑی ہوتی ہے

غضب کی دھوپ میں برسات تھوڑی ہوتی ہے

رہِ وفا کی روایت ہے سر جھُکا رکھنا

بساطِ عشق پہ یہ مات تھوڑی ہوتی ہے

جو اپنا نام صفِ معتبر میں لکھتے ہیں

خود ان سے اپنی ملاقات تھوڑی ہوتی ہے

وہ بے اثر تھا مسلسل دلیل کرتے ہوئے

 وہ بے اثر تھا مسلسل دلیل کرتے ہوئے

میں مطمئن تھا غزل کو وکیل کرتے ہوئے

وہ میرے زخم کو ناسور کر گئے آخر

میں پُر امید تھا جن سے اپیل کرتے ہوئے

عجیب خواب تھا آنکھوں میں خون چھوڑ گیا

کہ نیند گُزری ہے مجھ کو ذلیل کرتے ہوئے

شب وصال تھی روشن فضا میں بیٹھا تھا

 شب وصال تھی روشن فضا میں بیٹھا تھا

میں تیرے سایۂ لطف و عطا میں بیٹھا تھا

تمام عمر اسے ڈھونڈنے میں صرف ہوئی

جو چھپ کے میرے بدن کی گپھا میں بیٹھا تھا

نئی رتوں کی ہوا لے اڑی لباس اس کا

وہ کل تلک تو حریم حیا میں بیٹھا تھا

شام چھت پر اتر گئی ہو گی

 شام چھت پر اتر گئی ہو گی

درد سینے میں بھر گئی ہو گی

خواب آنکھوں میں اب نئے ہوں گے

زندگی بھی سنور گئی ہو گی

میں تو کب سے اداس بیٹھا ہوں

زندگی کس کے گھر گئی ہو گی

گریباں چاک مجنوں بن سے نکلا

 گریباں چاک مجنوں بن سے نکلا

میں لے کر دھجیاں دامن سے نکلا

کہیں جلوہ بھی پردے میں رہا ہے

وہ دیکھو نور اک چلمن سے نکلا

جنوں نے راہ یہ اچھی نکالی

گریباں پہاڑ کر دامن سے نکلا

لکنت عشق پہ بس صبر و رضا چلتا ہے

لکنتِ عشق پہ بس صبر و رضا چلتا ہے

 یار اتنا بھی نہیں ذہن تِرا چلتا ہے

واقعی اب کے تِرا ہجر مجھے چاٹ گیا

اپنی تصویر پرانی سے پتا چلتا ہے

کتنا رویا تھا میں اس شخص کو رُخصت کرتے

جس نے بہتے ہوئے اشکوں سے کہا؛ چلتا ہے

پیار تو مجھ سے بے شک کرتے ہو

 پیار کی سرحدیں


پیار تو مجھ سے بے شک کرتے ہو

روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا ہے

اس کے بدلے میرا جیون گروی رکھ لیا ہے

گھر کی بہشت میں مجھے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے

بس اسی طرف جانے کی ممانعت ہے

میں چاہتا ہوں کہ پھولوں کی وادی ہو

 میں چاہتا ہوں کہ پھولوں کی وادی ہو

جہاں پھول ہی پھول ہوں

تم کمر خم اُن سے بات کرو

مٙس کرو، ہنس کے اپنی خوشبو اُن میں بانٹ دو

ہاتھ پھیرتے ہوئے دوڑو

دوپٹہ گلے میں پیچھے کی اور لٹکا ہوا ہو، تم گھومو جھومو

سنو لڑکی یہ الجھنوں کی گتھی تم زمانے کے لیے رہنے دو

 سنو لڑکی

یہ اُلجھنوں کی گُتھی

تم زمانے کے لیے رہنے دو

تم ابھی خواب دیکھو

بال سنوارو

نظمیں پڑھا کرو

راستے سے اٹھائی ہوئی خالی ماچس کی ڈبیا

 راستے سے اٹھائی ہوئی

خالی ماچس کی ڈبیا پر

شعر دیکھ کر حیرت ہوئی

نہ جانے دیا سلائی جلانے

والے نے اسے پڑھا تھا کہ نہیں

شاید نہیں ورنہ اسے اٹھا کر

تو پھر یہ طے ہے کہ اب رابطہ نہیں ہو گا

 تو پھر یہ طے ہے کہ اب رابطہ نہیں ہو گا

تو پھر یہ جان لو کہ ہم نہ بھول پائیں گے

نہ بھول پائیں گے ہم سردیوں کی راتوں کو

اور ان میں کی ہوئی سب نرم گرم باتوں کو

کہی اور ان کہی باتیں تھیں اور فسانے تھے

ملن کی رُت میں بھی جو ہجر کے زمانے تھے

بڑھتا ہی جا رہا ہے گمانوں کا قافلہ

 بڑھتا ہی جا رہا ہے گُمانوں کا قافلہ 

ہمراہ تھا کبھی تِری یادوں کا قافلہ

گاڑی یہ وہ کہ جس کی بریکیں کوئی نہیں

کھلنے لگا ہے مجھ پہ خیالوں کا قافلہ

اب یہ فضا بھی ان کے موافق نہیں رہی

گاؤں سے چل پڑا ہے پرندوں کا قافلہ

ہر شام شفق پر میں بھٹکوں ہر رات ستارہ ہو جاؤں

 ہر شام شفق پر میں بھٹکوں، ہر رات ستارہ ہو جاؤں

جو کنکر بن کر چبھتا ہے وہ خواب تمہارا ہو جاؤں

مِرے اشک تمہاری آنکھوں میں اک روز کبھی رستہ پا لیں

تم ڈوب کے مجھ میں یوں ابھرو میں ندی کنارہ ہو جاؤں

پھر قطرہ قطرہ بہہ جائے تِری باتوں سے تِری آنکھوں سے

تِرا دل ایسے پانی کر دوں میں برف انگارہ ہو جاؤں

بے قراری قرار ہے مجھ کو

 بے قراری، قرار ہے مجھ کو

دل کے زخموں سے پیار ہے مجھ کو

موت تو کہہ رہی ہے جیون سے

اک تِرا انتظار ہے مجھ کو

منزلیں آپ کو مبارک ہوں

راستوں کا غبار ہے مجھ کو

زندگی کا پہلا دن

 زندگی کا پہلا دن


صبح کا سنہرا پن

اور تازگی اس کی

سبز سبز پتوں پر

اوس کا ہر اک قطرہ

کہہ رہے ہیں کیا تم سے

سنو پرکھوں کی عزت کو تماشا مت بنا دینا

 سنو پُرکھوں کی عزت کو تماشا مت بنا دینا

محبت ہو بھی جائے تو کہیں دل میں چھپا دینا

ذرا اچھی نہیں لگتیں تِری اشکوں بھری آنکھیں

بچھڑ کر یاد جو آئیں کبھی تو مسکرا دینا

فنا ہو جائے جل جل کر اندھیروں کی تمنا میں

ہوا کی راہ میں اتنے چراغوں کو جلا دینا

آنکھ الجھی سوچ ویراں آئینے کے سامنے

 آنکھ الجھی، سوچ ویراں آئینے کے سامنے

کر گیا وہ مجھ کو حیراں، آئینے کے سامنے

کر رہے تھے جب رفُو سب اپنا اپنا پیرہن

میں کھڑا تھا چاک داماں آئینے کے سامنے

رو برو مشکل ہوا اس کو بتانا حالِ دل

لگ رہا تھا کتنا آساں آئینے کے سامنے

ہے جو بھی درمیاں گرد و غبار چھٹ جائے

 ہے جو بھی درمیاں گرد و غبار، چھٹ جائے

وہ کچھ کہے نہ سنے، مجھ سے بس لپٹ جائے

اسی لیے تو تمہیں اپنے ساتھ لایا ہوں

میں چاہتا ہوں سفر خیریت سے کٹ جائے

میں روند دوں گا محبت کو اپنے پیروں تلے

اسے کہو کہ مِرے راستے سے ہٹ جائے

عذاب رت میں جو اترے وہ کیا صحیفے تھے

 عذاب رُت میں جو اُترے وہ کیا صحیفے تھے

گُلاب شہر کے حا کم ببُول زادے تھے

جو آج سر سے اُٹھا میر ے باپ کا سایہ

نظر پڑا ہے کہ کتنے یتیم بچے تھے

وہ جس کی لاش کو کاندھا دیا ہے غیروں نے

پرائے دیس میں اس کے بھی چار بیٹے تھے

اپنے کھوئے ہوئے لمحات کو پایا تھا کبھی

 اپنے کھوئے ہوئے لمحات کو پایا تھا کبھی

میں نے کچھ وقت تِرے ساتھ گزارا تھا کبھی

آپ کو میرے تعارف کی ضرورت کیا ہے

میں وہی ہوں کہ جسے آپ نے چاہا تھا کبھی

اب اگر اشک اُمنڈتے ہیں تو پی جاتا ہوں

حوصلہ آپ کے دامن نے بڑھایا تھا کبھی

عشق میں ہوتا نہيں نفع خسارا یارا

 عشق میں ہوتا نہيں نفع، خسارا یارا

جھوٹ مت بول مِرے ساتھ، خدارا یارا

خاک چھانی بھی گئی، خاک اُڑائی بھی گئی

خاک سے نکلا نہيں کوئی ستارا، یارا

تجھ سے تشکیلِ خد و خال نہيں ہو سکتی

لے کے آ جا تُو مِرے چاک پہ گارا، یارا

محصور ہوئے لوگ قیامت کی گھڑی ہے

 محصور ہوئے لوگ، قیامت کی گھڑی ہے

ظالم کو، مگر ظلم کمانے کی پڑی ہے

گلزاروں، چناروں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے

اس بار لگی آگ میں شدت ہی بڑی ہے

اُترا نہیں مُنصف کا ابھی تخت زمیں پر

خلقت ہے کہ میدان میں دم سادھے کھڑی ہے

اپنے نخرے سنبھال چلتا بن

 اپنے نخرے سنبھال، چلتا بن

تجھ میں کیا ہے کمال، چلتا بن

رو برو تیرے رکھ دیا میں نے

ہر جواب و سوال، چلتا بن

فون کرتا ہے روز جس کو تُو

رکھ اسی کا خیال، چلتا بن

پاس ہو کر سراب لگتا ہے

 پاس ہو کر سراب لگتا ہے

ساتھ ہے اور خواب لگتا ہے

غیر کی بات جھٹ سے مانے گا

میرا کہنا خراب لگتا ہے

اس کے گھر ہے عجیب سی خوشبو

اور خود بھی گلاب لگتا ہے

مجھ ایسا شخص اگر قہقہوں سے بھر جائے

 مجھ ایسا شخص اگر قہقہوں سے بھر جائے

یہ سانس لیتی اداسی تو گھٹ کے مر جائے

زباں پہ سورۂ یوسف کا ورد جاری ہو

وہ حسن پوش اگر پاس سے گزر جائے

یہ جوئے عشق ہے بھائی نہیں ہے آب رواں

یہ دل ہے دل کوئی دریا نہیں کہ بھر جائے

سنگسار تمنا جو بھی سنتا ہے چونک اٹھتا ہے

 سنگسار تمنا


جو بھی سنتا ہے

چونک اٹھتا ہے

آج ایک لڑکی نے

صدقے کی قربان گاہ پر

سر رکھنے سے انکار کر دیا ہے

اک نئی صبح کا آغاز ہے انجام کے بعد

 اک نئی صبح کا آغاز ہے انجام کے بعد

پھر وہی سلسلۂ عشق ہے الزام کے بعد

جانے کیا ہو گا مِری سعیٔ طلب کا حاصل

ذہن میں کچھ نہیں محفوظ تِرے نام کے بعد

صحنِ گلشن میں بہاروں کا نشاں تک بھی نہیں

خاک اڑتی ہے فقط گردشِ ایام کے بعد

چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ

 چل نہیں سکتے وہاں ذہن رسا کے جوڑ توڑ

ان کی چالیں ہیں قیامت کی بلا کے جوڑ توڑ

ہے نظر انداز کوئی،۔ کوئی منظور نظر

دیکھنا اس بت کی چشم فتنہ زا کے جوڑ توڑ

کج ادائی بات ہے جس کی لگاوٹ کھیل ہے

سیکھ لے اس فتنہ گر سے کوئی آ کے جوڑ توڑ

اب کہاں بندے خدا کے ملتے ہیں

 اب کہاں بندے خدا کے ملتے ہیں

لوگ اب مقصد بنا کے ملتے ہیں

منتظر ہیں آج بھی سب فاصلے

فاصلوں کو چل مٹا کے ملتے ہیں

بس تعارف میں یہی کہہ دو مرے

ہم تعلق کو نبھا کے ملتے ہیں

سر آباد خیالوں سے خوابوں سے نگر آباد

 سر آباد خیالوں سے خوابوں سے نگر آباد

ایک جہاں ہے باہر اپنے، اک اندر آباد

عشق تھا اپنی جگہ اٹل سمجھوتہ اپنی جا

ایک سے دل آباد رہا اور ایک سے گھر آباد

ساگر ساگر رونے والے، رو کر پھر مسکائے

رات رہے جو بستی ویراں، کرے سحر آباد

کاش سمجھدار نہ بنوں

 کاش سمجھدار نہ بنوں


تجربہ کار ذہن تو سب سمجھ جاتا ہے

ذہن میں سوچوں کو بند کر کے

تالا ڈال دوں

چالاک آنکھیں تو سب کچھ تاڑ لیتی ہیں

ان پر لا علمی کے شیشے چڑھا دوں

اپنے حساس دل کو

بڑی سرد رات تھی کل مگر بڑی آنچ تھی بڑا تاؤ تھا

 بڑی سرد رات تھی کل مگر بڑی آنچ تھی بڑا تاؤ تھا

سبھی تاپتے رہے رات بھر، تِرا ذکر کیا تھا الاؤ تھا

وہ زباں پہ تالے پڑے ہوئے وہ سبھی کے دیدے پھٹے ہوئے

بہا لے گیا جو تمام کو، مِری گفتگو کا بہاؤ تھا

کبھی مے کدہ کبھی بت کدہ، کبھی کعبہ تو کبھی خانقاہ

یہ تِری طلب کا جنون تھا مجھے کب کسی سے لگاؤ تھا

صلیب مرگ پہ آؤ بدن اتارتے ہیں

 صلیبِ مرگ پہ آؤ بدن اتارتے ہیں

تمام عمر کی لادی تھکن اتارتے ہیں

وہ میری ذات سے یوں مُنحرف ہوا جیسے

کسی قمیض سے ٹُوٹے بٹن اتارتے ہیں

غزال شخص  تم اِتراؤ، حق بھی بنتا ہے

تمہاری آنکھ کا صدقہ ہرن اتارتے ہیں

شہر بھر میں دو ہی تھے لوگ آشنا مجھ سے

 شہر بھر میں دو ہی تھے لوگ آشنا مجھ سے

ایک سے خفا ہوں میں دوسرا خفا مجھ سے

اک دیے سے کوشش کی دوسرا جلانے کی

اور اس عمل میں پھر وہ بھی بجھ گیا مجھ سے

راہ کا شجر ہوں میں اور اک مسافر تُو

دے کوئی دعا مجھ کو لے کوئی دعا مجھ سے

پیاری بیٹی گھر سے باہر مت نکلا کر

 پیاری بیٹی

گھر سے باہر مت نکلا کر

یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور

تُو عورت ہے

اوہو

میم پہ پیش لگانا بھول گیا ہوں

غزل درد کا موسم بدل جائے کہیں

 غزل درد کا موسم بدل جائے کہیں 

سچ تو یہ ہے تو نظر آئے کہیں 

ڈھونڈتا ہے دل کہ مل جائیں اسے 

اب تیری زلفوں کے وہ سائے کہیں 

جان لے لے گا یہ ظالم ایک دن

کاش تیرا ہجر مر جائے کہیں

میں محبت نہیں کر سکتی

 میں محبت نہیں کر سکتی

اے محبت

میرے پیچھے نہ پڑ

مجھے آواز نہ دے

میرے دل میں

جگہ نہیں تیرے لیے

اپنی فطرت یہ نہیں جو سہہ گئی

 اپنی فطرت یہ نہیں جو سہہ گئی

بات جو کہنی تھی میں وہ کہہ گئی

جسم و جاں سے مٹ گئی ہر آرزو

اک تِری امید تہ بہ تہ گئی

کاش آ سکتی ہوا کے ساتھ میں

آ چکی گھر جب یہاں سے وہ گئی

Thursday, 29 April 2021

سمجھے وہی اس کو جو ہو دیوانہ کسی کا

سمجھے وہی اس کو، جو ہو دیوانہ کسی کا

اکبر! یہ غزل میری ہے، افسانہ کسی کا

دِکھلاتے ہیں بت جلوۂ مستانہ کسی کا 

یاں کعبۂ مقصود ہے بتخانہ کسی کا 

گر شیخ و برہمن سنیں افسانہ کسی کا

معبد نہ رہے کعبہ و بتخانہ کسی کا

دلوں کے رنگ عجب رابطہ ہے کتنی دیر

 دلوں کے رنگ عجب رابطہ ہے کتنی دیر

وہ آشنا ہے مگر آشنا ہے کتنی دیر

نئی ہوا ہے کریں مشعلِ ہوس روشن

کہ شمعِ درد چراغِ وفا ہے کتنی دیر

اب آرزو کو تِری بے صدا بھی ہونا ہے

تِرے فقیر کے لب پر دعا ہے کتنی دیر

وصل میں بات بات مشکل تھی

 وصل میں بات بات مشکل تھی

ہجر کی رات رات مشکل تھی

موت کو رحم آ گیا، ورنہ

زندگی سے نجات مشکل تھی

میرے دونوں طرف فرشتے تھے

لذتِ واردات مشکل تھی

ویسے تو اس گھر کو اس نے چاہے کم خوشحالی دی

 ویسے تو اس گھر کو اس نے چاہے کم خوشحالی دی

بیٹا برخوردار دیا، اور بیٹی حوصلے والی دی

غصے میں دونوں نے اک دوجے کے ہاتھ کو جھٹکا تھا

اور اب سوچ رہے ہیں پہلے کس نے کس کو گالی دی

کچھ میں خود بھی ہر اک شخص کی باتوں میں آ جاتا ہوں

کچھ ویسے بھی اس نے مجھ کو صورت بھولی بھالی دی

ایک ہی دشت ہے یہ بھی نہ کھنگالا میں نے

 ایک ہی دشت ہے یہ بھی نہ کھنگالا میں نے

دل پہ لینا نہیں تھا پاؤں کا چھالا میں نے

گھر کے ڈھ جانے میں غفلت مِری شامل تھی مگر

سارا ملبہ در و دیوار پہ ڈالا میں نے

کاش میں اپنے عزاداروں کو بتلا سکتا

کیسا دکھ تھا وہ جسے موت سے ٹالا میں نے

ہجر قانون کر دیا گیا ہے

 ہجر قانون کر دیا گیا ہے

عشق مضمون کر دیا گیا ہے

چوم کر میری سرد پیشانی

جنوری جون کر دیا گیا ہے

تہمتِ عشق ہو چکی ثابت

ہم کو مطعون کر دیا گیا ہے

روشن آئینوں میں جھوٹے عکس اتار گیا

 روشن آئینوں میں جھوٹے عکس اتار گیا

کیسا خواب تھا میری ساری عمر گزار گیا

وقت کی آنکھوں میں دیکھی کالی گھنگھور گھٹا

لیکن گز بھر چھاؤں نہیں تھی جب میں پار گیا

میں کیوں عرض تمنا لے کر اس در پر جاؤں

موجۂ بادِ صبا کے پیچھے کب گلزار گیا

اگر نہ قتل کرا دیں منافقین مجھے

 اگر نہ قتل کرا دیں منافقین مجھے 

تو چُھو تلک نہیں سکتے مخالفین مجھے

پرائے سانپوں میں ہمت نہیں کہ حملہ کریں

ڈسے گا دیکھنا، اک مارِ آستین مجھے

عجب مٹھاس بھری نیند کے اثر میں ہوں

ہے تیرے ہاتھوں پِیا زہر انگبین مجھے

آج جب تمہارے کمرے میں

 آج جب تمہارے کمرے میں

اتنی کتابیں دیکھتی ہوں

تو یاد آتا ہے

جب میں کہا کرتی تھی

خدا نے مجھے تمہارے لیے لکھا ہے

اور تم کہتے تھے

کیا کریں صبر بھی نہیں ہوتا

 کیا کریں صبر بھی نہیں ہوتا

دل پہ اب جبر بھی نہیں ہوتا

ہم ترستے ہیں بارشوں کیلئے

جن دنوں ابر بھی نہیں ہوتا

آ رہی ہوتی ہیں کبھی غزلیں

اور کبھی نثر بھی نہیں ہوتا

اک شخص کبھی یہ نہ سمجھ پایا کہ میں ہوں

 اک شخص کبھی یہ نہ سمجھ پایا کہ میں ہوں

حالانکہ اسے بار ہا سمجھایا کہ میں ہوں

میں مان کے بھی مان نہ پایا کہ نہیں وہ

وہ جان کے بھی جان نہیں پایا کہ میں ہوں

بے دخل مجھے کر کے بھی بے چین رہا وہ

جب دل میں اٹھی ٹیس، وہ گھبرایا کہ میں ہوں

پیار کیا ہے تو مر جانا تھوڑی ہے

 پیار کیا ہے تو مر جانا تھوڑی ہے

دیوانہ، اتنا دیوانہ تھوڑی ہے

تنہا دل آخر دنیا سے ہار گیا

لیکن وہ دنیا کی مانا تھوڑی ہے

ٹوٹے رشتے پر رونا دھونا کر بند

اس کو اب کی بار منانا تھوڑی ہے

اگر ہے آپ کو شوق اذیت آپ رکھ لیں

 اگر ہے آپ کو شوقِ اذیت،۔ آپ رکھ لیں

مِرے حصے میں جو آئی ہے وحشت آپ رکھ لیں

ہمیں تو وقت نے سارے سبق سِکھلا دیئے ہیں

سو اپنی جیب میں اپنی نصیحت آپ رکھ لیں

سجا رکھے ہیں گھر کے طاق پر روشن ستارے

چراغوں کی نہیں ہم کو ضرورت آپ رکھ لیں

کسی احساس میں پہلی سی اب شدت نہیں ہوتی

 کسی احساس میں پہلی سی اب شدت نہیں ہوتی

کہ اب تو دل کے سناٹے سے بھی وحشت نہیں ہوتی

زمانے بھر کے غم اپنا لیے ہیں خود فریبی میں

خود اپنے غم سے ملنے کی ہمیں فرصت نہیں ہوتی

گزر جاتی ہے ساری زندگی جن کے تعاقب میں

بگولے ہیں کسی بھی خواب کی صورت نہیں ہوتی

اب رہ و رسم نہیں کوئی بھی دلداری کی

 اب رہ و رسم نہیں کوئی بھی دل داری کی

دل نے اک عمر یونہی رنج سہے خواری کی

پوچھنے آیا جہاں ہم سے میاں عشق ہے کیا

قیس کو ہم نے ہی مجنوں کی سند جاری کی

اب جو دیوانہ ہوں میں ایسا نہیں تھا پہلے

میں نے اک عمر محبت کی اداکاری کی

ایک پرانا خواب بہت قدیم سا وہ گھر

 ایک پرانا خواب


بہت قدیم سا وہ گھر

بہت بہت قدیم سا

وہ پتھروں کا گھر کوئی

اسی کے ایک تنگ سے کواڑ میں کھڑی ہوئی

وہ کون تھی

اس لیے بھی نہيں بنتی مری سالار کے ساتھ

 اس لیے بھی نہيں بنتی مِری سالار کے ساتھ

میں رعایت نہيں کرتا کسی غدار کے ساتھ

میں نے اوروں کی طرح نقل مکانی نہيں کی

دشت آباد کیا بھی تو، درِ یار کے ساتھ

بعض اوقات مجھے عشق  ہوس لگتا ہے

ایسی ان ہونیاں ہوتی ہیں قلمکار کے ساتھ

نہیں ہے یوں کے دما دم ہوا نے رقص کیا

 نہیں ہے یوں کے دما دم ہوا نے رقص کیا

شدید حبس تھا، کم کم ہوا نے رقص کیا

بس ایک میں ہی وہاں پر طواف میں تو نہ تھا

درونِ شہرِ مکرّم ہوا نے رقص کیا

چراغ قتل ہوا تو خوشی سے مقتل میں

لگا کے نعرۂ رقصم ہوا نے رقص کیا

وہ رنگ روپ مسافت کی دھول چاٹ گئی

 وہ رنگ رُوپ مسافت کی دُھول چاٹ گئی

مِرا وجود محبت کا بھول چاٹ گئی

میں ضبط کر نہیں سکتا سر فراتِ وصال

کی تشنگی مِرے سارے اصول چاٹ گئی

نِگل گیا تِرا بازار میری خوشبو کو

تِری ہوس مِرے گلشن کے پھول چاٹ گئی

خیر چھوڑو جانے دو

 نو بجے کی خبروں میں

یہ خبر سنی میں نے

آج شہر میں تیرے

موسموں کی شہزادی

پالکی سے اتری ہے

ابر کھل کے برسا ہے

دل میں جو محبت کی روشنی نہیں ہوتی

 دل میں جو محبت کی روشنی نہیں ہوتی 

اتنی خوب صورت یہ زندگی نہیں ہوتی 

دوست پہ کرم کرنا اور حساب بھی رکھنا 

کاروبار ہوتا ہے،۔ دوستی نہیں ہوتی 

خود چراغ بن کے جل وقت کے اندھیرے میں 

بھیک کے اجالوں سے روشنی نہیں ہوتی

تمہارے ہجر کو کافی نہیں سمجھتا میں

 تمہارے ہجر کو کافی نہیں سمجھتا میں

کسی ملال کو حتمی نہیں سمجھتا میں

یہ اور بات کہ عاری ہے دل محبت سے

یہ دُکھ سوا ہے کہ عاری نہیں سمجھتا میں

چلا ہے رات کے ہمراہ چھوڑ کر مجھ کو

چراغ اس کو تو یاری نہیں سمجھتا میں

اپنے بدن کی جھونپڑی میں دل اکیلا تھا بہت

 اپنے بدن کی جھونپڑی میں، دل اکیلا تھا بہت

باہر تو روشن تھادیا، اندر اندھیرا تھا بہت

بس اک ایموجی بھیج کر، خاموش ہو جاتی تھی وہ

اک لفظ لکھنا تھا مجھے اس بیچ کہنا تھا بہت

کیفے کے رش میں ہی سہی، مجھ سے مخاطب تو ہوئی

میں نے بھی رستہ دے دیا، حالانکہ رستہ تھا بہت

ٹوٹ جاتا ہے ستاروں کا بھرم رات گئے

 ٹوٹ جاتا ہے ستاروں کا بھرم رات گئے

جگمگاتے ہیں تِرے نقش قدم رات گئے

کیا بتائیں جو گزرتی ہے ہمارے دل پر

یاد آتے ہیں جب اپنوں کے ستم رات گئے

غرق ہو جاتی ہے جب نیند میں ساری دنیا

جاگ اُٹھتے ہیں ادیبوں کے قلم رات گئے

یار تو میرے درد کو میری سخن وری نہ جان

 یار تُو میرے درد کو میری سخنوری نہ جان

چیخ کو شعر مت سمجھ، آہ کو شاعری نہ جان

سطح پہ تو سکون ہے، تہہ میں بڑا جنون ہے

جھیل کی خامشی کو تُو جھیل کی خامشی نہ جان

تُو مِرا پہلا عشق تھا، تُو مِرا پہلا عشق ہے

بات تو ٹھیک ہے مگر پہلے کو آخری نہ جان

عشق دریا ہے گرانبار نہ جانے کوئی

 عشق دریا ہے گراں بار نہ جانے کوئی

بہتے پانی کو گنہ گار نہ جانے کوئی

اس میں روحوں کی ملاقات ہوا کرتی ہے

خواب کے پیار کو بےکار نہ جانے کوئی

میں جو حالات کے دھارے میں بہی جاتی ہوں

مجھ کو لہروں کا طرفدار نہ جانے کوئی

اگر تعلق پہ برف ایسی جمی رہے گی

 اگر تعلق پہ برف ایسی جمی رہے گی

ہمیں تمہاری، تمہیں ہماری کمی رہے گی

سمے کا دھارا سفید رُوئی گِرا رہا ہے

میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی

ہمیں مکمل خوشی کبھی کیا نصیب ہو گی

ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی

صرف کاغذ کے پھول ہوتے ہیں

 صرف کاغذ کے پھول ہوتے ہیں

لوگ آنکھوں کی دھول ہوتے ہیں

یہ کوئی موڑ ہے جدائی کا

واپسی کے اصول ہوتے ہیں

ایک پتھر سے بارہا ٹھوکر 

یہ بھروسے بھی بھول ہوتے ہیں

ہائے ہجرت کی روایات کے مارے ہوئے دن

 ہائے ہجرت کی روایات کے مارے ہوئے دن

آپ کے بعد کبھی پھر نہ ہمارے ہوئے دن

دل کی زنبیل میں یادوں کا دھواں رہتا ہے

اور کچھ خطہ غفلت میں اتارے ہوئے دن

اونگھتے ہیں مِرے دروازے کی چوکھٹ سے لگے

ایک امیدِ سبک دست سے ہارے ہوئے دن

ڈھیر ساری خوشی وہ لاتا ہے

 ڈھیر ساری خوشی وہ لاتا ہے

میرے دامن میں بھر کے جاتا ہے

چاند، خوشبو، ہوا، ستارے، گُل

کھِل اٹھے جب وہ گنگناتا ہے

کون سا یار کیوں پریشان ہے

ایک پل میں وہ جان جاتا ہے

موسم گل حیران کھڑا ہے

 موسم گل حیران کھڑا ہے

گھر کا گھر ویران پڑا ہے

دل کی بات بتائیں کیسے

یارو! وہ نادان بڑا ہے

ہم اور اس کو سجدہ کرتے؟

کافر نے بُہتان گھڑا ہے

یہ موسم سرمئی ہے اور میں ہوں

 یہ موسم سرمئی ہے اور میں ہوں

مگر بس خامشی ہے اور میں ہوں

نہ جانے کب وہ بدلے رخ ادھر کو

مسلسل بے رخی ہے اور میں ہوں

تغافل پر تغافل ہو رہے ہیں

کسی کی دل لگی ہے اور میں ہوں

غیر کا سنتے ہی چہرے پہ ندامت آئی

 غیر کا سُنتے ہی چہرے پہ ندامت آئی

صدقے تیرے کہ جسے اتنی تو غیرت آئی

یاد کیا اُن کو مریضوں کی عیادت آئی

شور اٹھنے لگا ،آئی، ارے آفت آئی

یوں تِری یاد سے یکلخت قیامت آئی

چیر کر جیسے شبِ وصل کو فرقت آئی

نقطے تھے انتظار کے جن سے بنا ہے دل

 نقطے تھے انتظار کے، جن سے بنا ہے دل

مرکز ہیں جس کا آپ، وہی دائرہ ہے دل

باقی ہیں راہِ عشق میں گو بے شمار موڑ

سانول مہار موڑ کہ اب تھک گیا ہے دل

کیسے کروں عبور وفا کے چناب کو

یہ تُم بھی جانتے ہو کہ کچا گھڑا ہے دل

نیندوں کو جب خواب میں جوتا جاتا تھا

 نیندوں کو جب خواب میں جوتا جاتا تھا

میں بس اپنے نین بھگوتا جاتا تھا

آنچل کا اک پھول شرارت کرتا تھا

اک شہزادہ پتھر ہوتا جاتا تھا

پھول دُعائے نور سناتے تھے اور میں

اس کی خاطر ہار پروتا جاتا تھا

کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی

 کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی

دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی

ایک اک کر کے ابھرتی ہیں کئی تصویریں

سر جھکائے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے کوئی

غم کی وادی ہے نہ یادوں کا سلگتا جنگل

ہائے ایسے میں کہاں چھوڑ گیا ہے کوئی

عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں

عشق کی کوئی تفسیر تھی ہی نہیں

واسطے میرے تقدیر تھی ہی نہیں

کس لئے ہو کے مجبور تم آۓ ہو

بیچ دونوں کے زنجیر تھی ہی نہیں

عالم رنگ و بُو کو سجایا گیا

اس تماشے میں تقصیر تھی ہی نہیں

کب کہا ولیوں سے نسبت چھوڑ یار

 کب کہا ولیوں سے نسبت چھوڑ یار

ہاں مگر اندھی عقیدت چھوڑ یار

تُو ہوس ہی سے نہیں نکلا ابھی

تُو کرے گا کیا محبت، چھوڑ یار

چار دن کی زندگی ہے بات سن

کر محبت اور نفرت چھوڑ یار

Wednesday, 28 April 2021

کچھ نہیں قیل و قال میں اے دوست

 کچھ نہیں قیل و قال میں اے دوست

مست رہ اپنے حال میں اے دوست

زندگی اس کا ذکر سنتے ہی

آ گئی اشتعال میں اے دوست

سانس لینا محال ہے یوں بھی

اور ایسے وبال میں اے دوست

اس نے مجھے سلام کیا لام کے بغیر

 اس نے مجھے سلام کیا لام کے بغیر

یہ بد دعا تھی مجھ کو مِرے نام کے بغیر

ہر روز ماں کے چہرے کو تکتا ہوں پیار سے‫

ہر روز حج میں کرتا ہوں احرام کے بغیر

میں ہوں کہ میری آنکھ میں آنسو ہیں صبح صبح

دنیا دِیے جلاتی نہیں شام کے بغیر

کیا کچھ ہم سے دور ہوا ہے

گمشدہ زندگی


چلنے سے پہلے رینگتے تھے

اور اس سے پہلے ہاتھ پاؤں مارتے تھے

اور بولنے سے پہلے 

الفاظ ٹُوٹ پُھوٹ جاتے تے 

اور اس سے پہلے محض چِلاتے تھے

بِنا بات بھی ہنستے تھے 

اکیلی چل رہی ہوں جل رہی ہوں تم نہیں آنا

 اکیلی چل رہی ہوں، جل رہی ہوں، تم نہیں آنا

میں غم کی پرورش میں پل رہی ہوں تم نہیں آنا

تمہارے نام کی مہندی لگا کر خوب مہکے تھے

میں ان ہاتھوں کو بیٹھی مل رہی ہوں تم نہیں آنا

مجھے ہی شوق تھا تم کو میری آنکھوں میں رکھنے کا

سو اب میں آئینوں سے ٹل رہی ہوں تم نہیں آنا

اس سے گلے شکایتیں شکوے بھی چھوڑ دو

 اس سے گلے شکایتیں شکوے بھی چھوڑ دو

در اس کا چھٹ گیا تو دریچے بھی چھوڑ دو

کیسا ہے وہ کہاں ہے، بنا کس کا ہمسفر؟

بہتر ہے کچھ سوال ادھورے بھی چھوڑ دو

اک بے وفا کا نام لکھو گے کہاں تلک؟

اوراق اپنے ماضی کے سادے بھی چھوڑ دو

عشق بے چین رکھے گا مجھے معلوم نہ تھا

 عشق بے چین رکھے گا مجھے معلوم نہ تھا

درد رہ رہ کے اٹھے گا مجھے معلوم نہ تھا

نام سنتے ہی نکل آئے گا آنسو بن کر

رازِ الفت نہ چھُپے گا مجھے معلوم نہ تھا

اس کے غم سے کبھی فرصت نہ ملے گی مجھ کو

ہاتھ دل سے نہ ہٹے گا مجھے معلوم نہ تھا

روز کہتا ہے مجھے چل دشت میں

 روز کہتا ہے مجھے چل دشت میں 

لے نہ جائے دل یہ پاگل دشت میں 

درج ہونی ہے نئی آمد کوئی 

ہو رہی ہے خوب ہلچل دشت میں 

ایک میں ہوں ایک ہیں مجنوں میاں 

ہو گئے دو لوگ ٹوٹل دشت میں 

سر دشت دل جو سراب تھا کوئی خواب تھا

 سرِ دشتِ دل جو سراب تھا کوئی خواب تھا

مِری خواہشوں کا عذاب تھا کوئی خواب تھا

تِری خوشبوؤں کی تلاش میں مِرا راز داں

وہی ایک کنجِ گُلاب تھا کوئی خواب تھا

وہ جو چاند تھا سرِ آسماں کوئی یاد تھی

جو گلوں پہ عہدِ شباب تھا کوئی خواب تھا

عشق کی راہ میں یوں حد سے گزر مت جانا

عشق کی راہ میں یوں حد سے گزر مت جانا

ہوں گھڑے کچے تو دریا میں اتر مت جانا

پانچویں سمت نجومی نے اشارہ کر کے

شاہزادے سے کہا تھا کہ ادھر مت جانا

ہم انہی تپتی ہوئی راہوں میں مل جائیں گے

کوئی سایہ تمہیں روکے تو ٹھہر مت جانا

اس کے طرز گفتگو پہ دل فدا ہو جائے گا

 اس کے طرزِ گفتگو پہ دل فدا ہو جائے گا

ہاں مگر یہ دل کبھی صحرا نما ہو جائے گا

ہو اگر ممکن صدف کی راہ دِکھلا دے اسے

ورنہ ہر قطرہ ہواؤں میں ہوا ہو جائے گا

آدمی نے آج تک کھویا نہیں اپنا وجود

آئینہ ٹوٹا اگر تو حادثہ ہو جائے گا

اک اخگر جمال فروزاں بہ شکل دل

 اک اخگرِ جمال فروزاں بہ شکل دل

پھینکا ادھر بھی حُسنِ تجلی نثار نے

افسُردگی بھی حُسن ہے تابندگی بھی حُسن

ہم کو خزاں نے، تم کو سنوارا بہار نے

اس دل کو شوقِ دید میں تڑپا کے کر دیا

کیا استوار وعدۂ نا استوار نے

کچھ نہ کچھ عہد محبت کا نشاں رہ جائے

 کچھ نہ کچھ عہدِ محبت کا نشاں رہ جائے

آگ بُجھتی ہے تو بُجھ جائے دھواں رہ جائے

دشت در دشت اُڑے میرا غبارِ ہستی

آب بر آب مِرا نام و نشاں رہ جائے

منتظر کون ہے کس کا یہ اسے کیا معلوم

اس کی منزل ہے وہی جو بھی جہاں رہ جائے

اے سنگ راہ آبلہ پائی نہ دے مجھے

 اے سنگِ راہ آبلہ پائی نہ دے مجھے

ایسا نہ ہو کہ راہ سُجھائی نہ دے مجھے

سطحِ شعور پر ہے مِرے شور اس قدر

اب نغمۂ ضمیر سنائی نہ دے مجھے

انسانیت کا جامِ جہاں پاش پاش ہو

اللہ میرے ایسی خدائی نہ دے مجھے

ملتا نہیں جہان سے میرا مزاج اور ہے

 ملتا نہیں جہان سے میرا مزاج اور ہے

تیرا اجالا اور ہے، میرا سراج اور ہے

مانا تِرے دیار میں ملتی ہے ہر دوا مگر

میرے طبیب مان جا، میرا علاج اور ہے

مجھ کو خبر ہے چارہ گر میرا سفر ہے مختصر

یعنی مِرے نصیب میں، تھوڑا اناج اور ہے

گلہ نہیں کہ کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا

 گِلا نہیں کہ کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا

مِرے سفینے کا دھاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

رہِ حیات میں منزل کا آسرا کیسا

قدم قدم پہ غباروں نے ساتھ چھوڑ دیا

ہر ایک رخ سے سجا ہوتا زندگی کو مگر

میں کیا کروں کہ بہاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

کون کہتا ہے کہ میں تجھ کو جدائی دوں گی

 کون کہتا ہے کہ میں تجھ کو جدائی دوں گی

تُو جو مانگے تو تجھے ساری خدائی دوں گی

تھوڑا روئی ہوں تو دل ہو گیا ہلکا میرا

خود میں گونجی ہوں، ابھی تجھ کو سنائی دوں گی

دل تلک آ ہی گیا ہے تو اسے اپنا سمجھ

اب تو میں روح تلک تجھ کو رسائی دوں گی

جئے جانے کے خواب میں زندہ

 جئے جانے کے خواب میں زندہ

اک مسلسل سراب میں زندہ

زندگی کے لیے ترستے لوگ

زندگی کے عذاب میں زندہ

ہاتھ آئی نہیں کوئی منزل

ہیں سفر کے سراب میں زندہ

بھٹکا کروں گا کب تک راہوں میں تیری آ کر

 بھٹکا کروں گا کب تک راہوں میں تیری آ کر

تجھ کو بھلا سکوں میں میرے لیے دعا کر

کب تک یہ تیری حسرت کب تک یہ میری وحشت

ان ساری بندشوں سے مجھ کو کبھی رہا کر

ایک عمر سے تجھے میں بے عذر پی رہا ہوں

تُو بھی تو پیاس میری اے جام پی لیا کر

کسی کی جیت کا صدمہ کسی کی مات کا بوجھ

 کسی کی جیت کا صدمہ کسی کی مات کا بوجھ

کہاں تک اور اٹھائیں تعلقات کا بوجھ

انا کا بوجھ بھی آیا اسی کے حصے میں

بہت ہے جس کے اٹھانے کو اپنی ذات کا بوجھ

جھٹک دیا ہے کبھی سر سے بارِ ہستی بھی

اٹھا لیا ہے کبھی سر پہ کائنات کا بوجھ

کوئی بڑھ کر ستم مجھ پر ستم ایجاد کیا کرتا

 کوئی بڑھ کر ستم مجھ پر ستم ایجاد کیا کرتا

بسایا ہی نہیں جس کو اسے برباد کیا کرتا

سکھایا بولنا اس کو زبان بے زبانی سے

اگر لب کھول لیتی میں وہ پھر ارشاد کیا کرتا

کہاں قد ناپتا میرا، بھلا یہ شعر کم قامت

سو میرا شعر بھی پا کر سیاسی داد کیا کرتا

Tuesday, 27 April 2021

میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے

 میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے

ساغر سے گریزاں ہے خود تشنہ لبی کب سے

اے سایۂ گیسو کے دیوانو!! بتاؤ تو

معیار جنوں ٹھہری راحت طلبی کب سے

چوسا ہے لہو جس نے برسوں مہ و انجم کا

انساں کا مقدر ہے وہ تیرہ شبی کب سے

مرا گمان ہے شاید یہ واقعہ ہو جائے

 مِرا گمان ہے شاید یہ واقعہ ہو جائے

کہ شام مجھ میں ڈھلے اور سب فنا ہو جائے

ہو بات اس سے کچھ ایسے کہ وقت ساکت ہو

کلام اپنا تکلم سے ماورا ہو جائے

بچا کے آنکھ میں خود اپنی کھوج میں نکلوں

مِرے وجود میں ایک چور راستہ ہو جائے

وہ شعر سن کے مرا ہو گیا دوانہ کیا

 وہ شعر سن کے مِرا ہو گیا دِوانہ کیا

میں سچ کہوں گا تو مانے گا یہ زمانہ کیا

کبھی تو آنا ہے دنیا کے سامنے اس کو

اب اس کو ڈھونڈھنے دَیر و حرم میں جانا کیا

سنا ہے کام چلاتے ہو تم بہانوں سے

اُدھار دو گے مجھے بھی کوئی بہانہ کیا

یہ آرزو تھی اسے آئینہ بناتے ہم

 یہ آرزو تھی اسے آئینہ بناتے ہم

اور آئینے کی حفاظت میں ٹوٹ جاتے ہم

تمام عمر بھٹکتے رہے یہ کہتے ہوئے

کہ گھر بناتے سجاتے اسے بلاتے ہم

ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا

یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم

کمال شب تھا کہ مجھ سے جدا ہوا نہ کبھی

 کمالِ شب تھا کہ مجھ سے جُدا ہوا نہ کبھی

میرا رفیقِ سفر جو مجھے ملا نہ کبھی

بچھڑ کے مجھ سے تجھے زخم لگ گئے کیا کیا

یہ ایک زخمِ ندامت کہ جو بھرا نہ کبھی

سُبک ہے، تر ہے، تہی ہے، خبر نہ تھی ورنہ

میں ایک پَل تیرے دامن کو چھوڑتا نہ کبھی

کانٹوں میں جو پھول کھلا ہے

 کانٹوں میں جو پھُول کھِلا ہے

جب دیکھو ہنستا رہتا ہے

ڈالی پر اک پیلا پتہ

جانے کیا گِنتا رہتا ہے

سنتے ہیں اک ہوا کا جھونکا

اک خُوشبو کو لے بھاگا ہے

یہ کیسی بات مرا مہربان بھول گیا

 یہ کیسی بات مِرا مہربان بھول گیا

کُمک میں تِیر تو بھیجے کمان بھول گیا

جنوں نے مجھ سے تعارف کے مرحلے میں کہا

میں وہ ہنر ہوں جسے یہ جہان بھول گیا

کچھ اس تپاک سے راہیں لپٹ پڑیں مجھ سے

کہ میں تو سمت سفر کا نشان بھول گیا

شرط دیوار و در و بام اٹھا دی ہے تو کیا

 شرط دیوار و در و بام اٹھا دی ہے تو کیا

قید پھر قید ہے زنجیر بڑھا دی ہے تو کیا

اب بھی تن تیغ سے لڑ جائے تو چھن بولتا ہے

وقت نے اس پہ اگر دھول جما دی ہے تو کیا

میرے خسرو نے مجھے غم بھی زیادہ بخشا

دولت عشق اگر مجھ کو سوا دی ہے تو کیا

کہنے آئے تھے کچھ کہا ہی نہیں

 کہنے آئے تھے کچھ کہا ہی نہیں

چل دئیے جیسے کچھ سنا ہی نہیں

اس قدر ظلم ابنِ آدم پر

جیسے اس کا کوئی خدا ہی نہیں

ہم جما کر نگاہ بیٹھے ہیں

اپنی قسمت کا در کھُلا ہی نہیں

شام کے ڈھلتے ہوئے

 پیام


شام کے ڈھلتے ہوئے

سورج کی مدہم زرد کرنوں نے

سمندر کی سیہ ہوتی ہوئی چادر کے ہر اک تار پر

اپنی سنہری انگلیوں سے اک نئے سورج کی آب و تاب کا

پیغام لکھا 

وہ چہرہ وہ دلنشیں چہرہ

 وہ ایک چہرہ

وہ چہرہ وہ دل نشیں چہرہ

فلک کے چاند ستاروں سے بھی حسیں چہرہ

میں جس کے بارے ہر اک زاویے سے سوچتا ہوں

مِرے خیال اسے چھُو کے لوٹ آتے ہیں

وہ جس کے ساتھ بتائے تھے میں نے چند لمحے

بھلے نہ جلد ہو تاخیر سے محبت ہو

 بھلے نہ جلد ہو، تاخیر سے محبت ہو

مگر جو ہو تو کسی ہِیر سے محبت ہو

پھر اس کے پاؤں کو بھاتے نہیں ہیں گھنگھرو بھی

وہ جس کے پاؤں کو زنجیر سے محبت ہو

کسی کمان کی نظریں ہوں میرے سینے پر

مِرے بھی دل کو کسی تیر سے محبت ہو

اتنی آساں نہ یہ رہائی تھی

 اتنی آساں نہ یہ رہائی تھی

جو تِرے ہجر میں کمائی تھی

غم سے نا آشنا وہ شہزادی

بے سبب تُو نے جو رُلائی تھی

اس کو عادت تھی چھوڑ جانے کی

میری قسمت میں بھی جدائی تھی

ایسے حالات میں ہلچل نہیں کی جا سکتی

 ایسے حالات میں ہلچل نہیں کی جا سکتی

زندگی پھر سے مکمل نہیں کی جا سکتی

تیری الفت کو زمانے سے چھپا رکھا ہے

یہ محبت ابھی گُوگل نہیں کی جا سکتی

ایک ہی ٹیک میں کرنا ہے جو کرنا ہے میاں

موت کے ساتھ ریہرسل نہیں کی جا سکتی

لائی بہار شوق کے ساماں نئے نئے

لائی بہار شوق کے ساماں نئے نئے 

دنیا نئی نئی سی دل و جاں نئے نئے 

ساقی کی اک نگاہ نے بخشی حیاتِ نو 

دل میں مچل گئے مِرے ارماں نئے نئے 

بربادیوں کا اپنے نشیمن کی غم نہیں 

تعمیر ہو رہے ہیں گلستاں نئے نئے 

سبھی خیال معطل حواس دنگ تمام

 سبھی خیال معطل، حواس دنگ تمام

یہ کون انگ سے جاری ہوئے ہیں انگ تمام

تِرے سراغ سے باہر نکالتی ہی نہیں

تِرے سراغ میں ہوتی ہوئی سُرنگ تمام

یہ کِس مقام کی جانِب اُڑان بھرتے ہیں

کسی کی ڈور سے کٹتے ہوئے پتنگ تمام

یہ تیری یاد ہے

 یہ تیری یاد ہے


دور ویرانوں میں فصل بہار آئی ہے

اس کے ساتھ جو پھُوار آئی ہے

یہ تیری یاد ہے

یا میری فریاد ہے

کوہسار کی جھیل کنارے پھُول کھل رہے ہیں

کسی نے رکھا ہے بازار میں سجا کے مجھے

 کسی نے رکھا ہے بازار میں سجا کے مجھے

کوئی خرید لے قیمت مِری چکا کے مجھے

اسی کی یاد کے برتن بنائے جاتا ہوں

وہی جو چھوڑ گیا چاک پر گھما کے مجھے

ہے میرے لفظوں کو مجھ سے مناسبت کتنی

میں کیسا نغمہ ہوں پہچان گنگنا کے مجھے

اک مہکتے گلاب جیسا ہے

 اک مہکتے گلاب جیسا ہے

خوبصورت سے خواب جیسا ہے

میں اسے پڑھتی ہوں محبت سے

اس کا چہرہ کتاب جیسا ہے

بے یقینی ہی بے یقینی ہے

ہر سمندر سراب جیسا ہے

یوں بظاہر دیکھے تو یار سب

 یوں بظاہر دیکھے تو یار سب

وقت پڑنے پر یہی بے کار سب

مصلحت ہے حق نظر انداز کر

حق کہا جس نے چڑھے وہ دار سب

ہم انا کی پوٹلی تھامے رہے

ہاتھ خالی تھے ہوئے وہ پار سب

وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے تم بے حد شور مچاتی ہو

 وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے

تم بے حد شور مچاتی ہو


جب پیار سے مجھے بلاوٴ گے

تب دوڑ کہ میں تو آوٴں گی

تب پائل میری چھنکے گی

پائل کا شور تو ہو گا ہی

اے موج صبا آ تو ہی بتا

 اے موجِ صبا


اے موجِ صبا

آ تُو ہی بتا

اب کیسے ہیں

وہ گلیاں کوچے بام و در

وہ مہکے رستے، خوشبو گھر

کبھی تم بھیگنے آنا مری آنکھوں کے موسم میں

 کبھی تم بھیگنے آنا مِری آنکھوں کے موسم میں

بنانا مجھ کو دیوانہ مری آنکھوں کے موسم میں

برستا بھیگتا ہو جب کوئی لمحہ نگاہوں میں

وہیں تم بھی ٹھہر جانا مری آنکھوں کے موسم میں

کئی موسم گزارے ہیں انہوں نے دھوپ چھاؤں کے

نیا موسم کوئی لانا مری آنکھوں کے موسم میں

اپنوں کے درمیان سلامت نہیں رہے

 اپنوں کے درمیان سلامت نہیں رہے

دیوار و در مکان سلامت نہیں رہے

نفرت کی گرد جمع نگاہوں میں رہ گئی

الفت کے قدر دان سلامت نہیں رہے

روشن ہیں آرزو کے بہت زخم آج بھی

زخموں کے کچھ نشان سلامت نہیں رہے

تیری منشا ہے خاموشی میری ہے مرضی آواز

 تیری منشا ہے خاموشی میری ہے مرضی آواز

آؤ، مل کر آج بنائیں ہم کوئی فرضی آواز

چھاگل بھی لبریز ہے اب تو لیکن میری گونگی پیاس

تیری اوک سے پینا چاہے ٹھنڈے چشمے کی آواز 

کس کی ہو زرخیز سماعت، کس کی بنجر، کیا معلوم 

بھٹکے ہر اک سمت، ٹٹولے ہر رستہ، اندھی آواز

کروڑوں سال کا دیکھا ہوا تماشا ہے

 کروڑوں سال کا دیکھا ہوا تماشا ہے 

یہ رقصِ زیست کہ بے قصد و بے ارادہ ہے 

عجیب موجِ سبک سیر تھی ہوائے جہاں 

گزر گئی تو کوئی نقش ہے، نہ جادہ ہے 

نشاطِ لمحہ کی وہ قیمتیں چکائی ہیں 

کہ اب ذرا سی مسرت پہ دل لرزتا ہے 

اب ظاہر و باطن کو بہم کرنے لگے ہیں

 اب ظاہر و باطن کو بہم کرنے لگے ہیں

ہم حرف و معانی کو یوں ضم کرنے لگے ہیں

میں جان چکی اگلا سفر تنہا کٹے گا

الفاظ تِرے آنکھوں کو، نم کرنے لگے ہیں

مجھ ایسے مناظر پہ بھلا کس کی نظر ہو

احسان کہ وہ  نظرِ کرم کرنے لگے ہیں

مجھے تسلیم بے چون و چرا تو حق بجانب تھا

 مجھے تسلیم بے چون و چرا تو حق بجانب تھا

مِرے انفاس پر لیکن عجب پندار غالب تھا

وگرنہ جو ہوا اس سے سوائے رنج کیا حاصل

مگر ہاں مصلحت کی رو سے دیکھیں تو مناسب تھا 

میں تیرے بعد جس سے بھی ملا، تیکھا رکھا لہجہ 

اس بے لوث چاہت کے عوض اتنا تو واجب تھا 

پہلے جیسی میں اب اداس نہیں

 پہلے جیسی میں اب اداس نہیں

اب تِری دید کی بھی پیاس نہیں

تیری خوشبو بسی ہے سانسوں میں

غم نہیں، تو جو آس پاس نہیں

خوش مزاجوں میں نام رکھتی ہوں

اوڑھتی درد کا لباس نہیں

روح گھائل ہو گئی اور جسم بھی شل ہو گیا

 روح گھائل ہو گئی اور جسم بھی شل ہو گیا

دائرہ⭕ میری مسافت کا مکمل ہو گیا

کون جانے عقل کی اس تک رسائی ہی نہیں

لوگ دیوانے کو سمجھے ہیں کہ پاگل ہو گیا

وہ وداعِ وصل کا لمحہ بھی کیا لمحہ تھا جو

پھیل کر جگ میں ڈھلا، سمٹا تو اک پل ہو گیا

کیا تم وہ اداسی دور کر سکتے ہو

 کیا تم وہ اداسی دُور کر سکتے ہو

جو سارے آئینے توڑ دینے کے بعد 

دیواروں میں گُھس جاتی ہے

کیا تم وہ دُھواں باہر نکال سکتے ہو

جو ساری تصاویر جلانے کے بعد

حلق میں بھر جاتا ہے

اسیر شام ہیں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں

 اسیرِ شام ہیں ڈھلتے دِکھائی دیتے ہیں

یہ لوگ نیند میں چلتے دکھائی دیتے ہیں

وہ اک مکان کہ اس میں کوئی نہیں رہتا

مگر چراغ سے جلتے دکھائی دیتے ہیں

یہ کیسا رنگ نظر آیا اس کی آنکھوں میں

کہ سارے رنگ بدلتے دکھائی دیتے ہیں

عجیب پانے سے مسئلے ہیں قریب آنے سے مسئلے ہیں

 عجیب پانے سے مسئلے ہیں قریب آنے سے مسئلے ہیں

تجھے فقط ہم سے مسئلہ ہے ہمیں زمانے سے مسئلے ہیں

حلال کھا کر جو پیٹ بھرتا رہا ہے اپنا مشقتوں سے

امیر میرے تُجھے بھلا کیوں غریب خانے سے مسئلے ہیں

نیا زمانہ ہے نوجوانوں کے لب پہ اپنے نئے ترانے

قدیم لوگوں کو اب جوانوں کے اس ترانے سے مسئلے ہیں

درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے

 درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے

اس مکاں میں کچھ نہیں ہے عشق ہے

دیکھ، دشتِ یاد کا اعجاز دیکھ

میں کہیں ہوں تو کہیں ہے عشق ہے

تھک کے بیٹھا ہوں جو کُنجِ ذات میں

مہرباں کوئی نہیں ہے، عشق ہے

وہ تھل کی ریت اڑاتا ہے

 لمس جھُوٹا نہیں


وہ تھل کی ریت اُڑاتا ہے

تو ذرے ہونٹوں پر چپک جاتے ہیں

زبان ذائقے کی کرکراہٹ

تھوکتی رہ جاتی ہے

اور وہ

ہے مستقل یہی احساس کچھ کمی سی ہے

 ہے مستقل یہی احساس، کچھ کمی سی ہے

تلاش میں ہے نظر دل میں بےکلی سی ہے

کسی بھی کام میں لگتا نہیں ہے دل میرا

بڑے دنوں سے طبیعت بجھی بجھی سی ہے

بڑی عجیب اداسی ہے مسکراتا ہوں

جو آج کل مِری حالت ہے شاعری سی ہے

بندگی کا صلہ نہیں ملتا

 بندگی کا صلہ نہیں ملتا

تم نہ ملتے خدا نہیں ملتا

چاٹ لیتی ہے استخواں آتش

راکھ کو ذائقہ نہیں ملتا

پوچھ تو اپنے خالی ہاتھوں سے

کیا جہاں میں بھلا نہیں ملتا

فقیر لوگ ہیں کیسا جبیں کو بل دینا

 فقیر لوگ ہیں، کیسا جبیں کو بل دینا

کسی سے کچھ نہیں کہنا، بس اٹھ کے چل دینا

وفا سرشت میں لکھی نہیں درختوں کی

کسی کے ہاتھ سے پھلنا، کسی کو پھل دینا

کچھ ایسا بدلا زمانہ کہ اب نہیں ملتے

وہ لوگ، جن کا وطیرہ تھا دل بدل دینا

ہمیں تعبیر پہلے دی گئی پھر خواب اترے

 ہمیں تعبیر پہلے دی گئی پھر خواب اُترے

کتابِ زندگی کے اس طرح کچھ باب اترے

مِری آنکھوں سے لے لے روشنی اور نور کر دے

کسی قیمت پہ مالک منظر شب تاب اترے

کھُلے برتن اٹھا کر رکھ دئیے جو بارشوں میں

یہاں وہ رہ گئے خالی، وہاں سیلاب اترے

کبھی تو میرے بدن پر ترا لباس رہے

 کبھی تو میرے بدن پر، تِرا لباس رہے

تُو خوشبووں کی طرح میرے،آس پاس رہے

میں اپنے سارے گناہوں سے معزرت کر لوں

اگر تمہارے لبوں پر، ذرا سی پیاس رہے

تمہارے بعد ہمارا، کچھ ایسا حال ہوا

خوشی کی بات چلی اور، ہم اداس رہے

دیر و حرم بھی آئے کئی اس سفر کے بیچ

 دیر و حرم بھی آئے کئی اس سفر کے بیچ

میری جبین شوق تِرے سنگ در کے بیچ

کچھ لذتِ گناہ بھی ہے کچھ خدا کا خوف

انسان جی رہا ہے اسی خیر و شر کے بیچ

یہ خواہش وصال ہے یا ہجر کا سلوک

چٹکی سی لی ہے درد نے آ کر جگر کے بیچ

ٹک کے بیٹھے کہاں بیزار طبیعت ہم سے

 ٹک کے بیٹھے کہاں بیزار طبیعت ہم سے

چھین ہی لے نہ کوئی آ کے یہ نعمت ہم سے

بر سر عام یہ کہتے ہیں کہ ہم جھوٹے ہیں

اس بھرے شہر میں زندہ ہے صداقت ہم سے

ہم جو مظلوم ہیں اک طرح سے ظالم ہیں ہم

ہر ستمگار کے بازو میں ہے طاقت ہم سے

اب تو آہٹ سے مری نیند اڑی جاتی ہے

 اب تو آہٹ سے مِری نیند اڑی جاتی ہے

اتنی وحشت ہے کہ ہر سانس رکی جاتی ہے

دور بیٹھے ہوئے بچوں کا خیال آتا ہے

جاگتی آنکھوں ہی میں رات کٹی جاتی ہے

خوف و دہشت ہے خموشی کا ہے عالم ہر سو

دل کی دنیا تو مِری آج لٹی جاتی ہے

بجھ گیا دل تو خبر کچھ بھی نہیں

 بجھ گیا دل تو خبر کچھ بھی نہیں

عکس آئینے نظر کچھ بھی نہیں

شب کی دیوار گری تو دیکھا

نوک نشتر ہے سحر کچھ بھی نہیں

جب بھی احساس کا سورج ڈوبے

خاک کا ڈھیر بشر کچھ بھی نہیں

میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے

 میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے 

کیا برا ہے جو حقیقت کو چھپا رکھا ہے 

دور حاضر میں کوئی کاش زمیں سے پوچھے 

آج انسان کہاں تُو نے چھپا رکھا ہے 

وہ تو خود غرضی ہے لالچ ہے ہوس ہے جن کا 

نام اس دور کے انساں نے وفا رکھا ہے

پیارے قدیم گاؤں پرانا رواج ہے

 پیارے، قدیم گاؤں، پرانا رواج ہے

سکے اٹھا، کپاس کے بدلے اناج ہے

گستاخ! دیکھ، شاہ کے آثار کا جلوس

پاپوش ہے، عصا ہے، پیالہ ہے، تاج ہے

پیشہ مِرا چراغ بنانا تھا اے حضور

پر اب کے سال تیز ہواؤں کا راج ہے

میسج؛ اے غزالی آنکھوں والی

 میسج


اے غزالی آنکھوں والی 

سنا ہے تمہارے شہر میں چائے اچھی ملتی ہے 

سو میں چائے پینے آ جاؤں 

تم بھی کسی کیفے میں آ جانا 

اور سنو 

چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے

 چلتے ہوئے مجھ میں کہیں ٹھہرا ہوا تو ہے 

رستہ نہیں منزل نہیں اچھا ہوا تو ہے 

تعبیر تک آتے ہی تجھے چھُونا پڑے گا 

لگتا ہے کہ ہر خواب میں دیکھا ہوا تو ہے 

مجھ جسم کی مٹی پہ تِرے نقشِ کفِ پا 

اور میں بھی بڑا خوش کہ ارے کیا ہوا تو ہے 

ہم کہ دلدادۂ الفت ہیں وفا کے قائل

پابندِ وفا


ہم کہ دلدادۂ الفت ہیں

وفا کے قائل

ہم نے ہر حال میں رشتوں کا بھرم رکھا ہے

ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے لیے

اک نظر پیار کی کافی ہے

طوفاں بہ دوش اپنی نظر دیکھ رہا ہوں

طوفاں بہ دوش اپنی نظر دیکھ رہا ہوں

دونوں جہاں کو زیر و زبر دیکھ رہا ہوں

اے کاش، تِرا شیشۂ دل ٹُوٹ نہ جائے

میں آہ آتشیں کا اثر دیکھ رہا ہوں

مانا شگفت لالہ و گُل ہے روش روش

سو طرح پھر بھی چاک جگر دیکھ رہا ہوں

عالم ترے کوچہ کا کچھ اور رہا ہوتا

 عالم تِرے کوچہ کا کچھ اور رہا ہوتا

در پر نہ تِرے پہرہ ایسا جو لگا ہوتا

یہ دردِ محبت ہی اب کاش سوا ہوتا

جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا

گر قیس نہ یوں مجنوں لیلی' کا ہوا ہوتا

یہ قصۂ الفت پھر کچھ اور جدا ہوتا

وه کتنی خوبصورت لگ رہی تھی

 وه کتنی خوبصورت لگ رہی تھی

مِری خاطر مگر وه کب سجی تھی

وه جس پل میرے پہلو میں کھڑی تھی

طبعیت میں مِری کچھ بہتری تھی

وه مجھ سے ساری باتیں کر چکی تھی

فقط اک بات تھی جو ان کہی تھی

یہ محبت کا عالمی دن ہے

 یہ محبت کا عالمی دن ہے

دیکھ سکتے ہو آج کی تاریخ

آج چودہ ہے وہ بھی چودہ ہیں

جن کی چاہت میں سب بنایا گیا

فرش اور عرش کو سجایا گیا

لوگ کہتے ہیں

وفا اخلاص ممتا بھائی چارہ چھوڑ دیتا ہے

 وفا، اخلاص، ممتا، بھائی چارہ چھوڑ دیتا ہے

ترقی کے لیے انسان کیا کیا چھوڑ دیتا ہے

تڑپنے کے لیے دن بھر کو پیاسا چھوڑ دیتا ہے

اذاں ہوتے ہی وہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتا ہے

سفر میں زندگی کے لوگ ملتے ہیں بچھڑتے ہیں

کسی کے واسطے کیا کوئی جینا چھوڑ دیتا ہے

سنو اس کینوس کا ایک گوشہ اب بھی خالی ہے

 کینوس


سنو

اس کینوس کا ایک گوشہ

اب بھی خالی ہے

یہ جو میں نے اتارا ہے

حسیں پیکر، فقط پیکر نہیں ہے یہ

Monday, 26 April 2021

جو بھی تیری آنکھ کو بھا جائے گا

 جو بھی تیری آنکھ کو بھا جائے گا

جان جاں محبوب سمجھا جائے گا

نام زلفوں کا نہ لینا بھول کر

دل کا پنچھی دام میں آ جائے گا

وقت کے مقتل میں ہم ہیں دوستو

وقت اک دن ہم کو بھی کھا جائے گا

سبھی چہروں میں اک چہرے کو اکثر ڈھونڈتے رہنا

 سبھی چہروں میں اک چہرے کو اکثر ڈھونڈتے رہنا

ستاروں سے کبھی بچھڑے ہوؤں کا پوچھتے رہنا

نجانے کیا ہوا جاناں جو دل نے شغل اپنایا

بہت سنسان گلیوں میں یوں شب بھر گھومتے رہنا

کبھی تتلی پکڑ لینا، کبھی خوشبو سے چِڑ جانا

کبھی بچوں کی طرح جگنوؤں سے کھیلتے رہنا

زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا

 زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا

یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا

ہم ان کے وعدۂ فردا کو لے کے بیٹھے ہیں

کہ جن سے آج کا وعدہ وفا کیا نہ گیا

امانتاً مِرے سینے میں وہ فسانہ ہے

جو دل کی آنکھ سے دیکھا گیا سنا نہ گیا

بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی

 بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی

نہیں ہے تیر سے خالی یہاں کمان کوئی

تھیں آزمائشیں جتنی تمام مجھ پہ ہوئیں

نہ بچ کے جائے گا اب مجھ سے امتحان کوئی

یہ طوطا مینا کے قصے بہت پرانے ہیں

ہمارے عہد کی اب چھیڑو داستان کوئی

کچھ نہیں جانتی جیتی ہوں کہ ہاری ہوئی ہوں

 کچھ نہیں جانتی جیتی ہوں کہ ہاری ہُوئی ہُوں

میں بہت سوچ سمجھ کر ہی تمہاری ہوئی ہوں

چل، تجھے چاند نگر آج گھما کر لاؤں

تیری خاطر مہ و انجم کی سواری ہوئی ہوں

اس کو چاہا بھی بہت، اس سے گریزاں بھی رہی

کیا پتا کون سے احساس کی ماری ہوئی ہوں

دلوں پہ زخم لگا کے ہزار گزری بہار

 دلوں پہ زخم لگا کے ہزار گزری بہار

گئی ہے چھوڑ کے اک یادگار گزری بہار

مِرے قریب جو کوئی گل بدن مہکا

تو آئی یاد کوئی خوشگوار گزری بہار

کسی طرح مجھے پاگل نہ کر سکی ورنہ

تِرے بغیر بھی آئی بہار گزری بہار

ہو گئی عشق میں بدنام جوانی اپنی

 ہو گئی عشق میں بدنام جوانی اپنی

بن گئی مرکز آلام جوانی اپنی

ماضی و حال ہیں محروم شراب و نغمہ

ہائے افسردہ و ناکام جوانی اپنی

آہ وہ صبح جو تھی صبح بہار ہستی

ہے اسی صبح کی اب شام جوانی اپنی

کنار آب کہیں میرے انتظار میں ہے

 کنارِ آب کہیں میرے انتظار میں ہے

وہ ماہتاب کہیں میرے انتظار میں ہے

بتا رہی ہے یہ ترتیبِ حادثات مجھے

نیا عذاب کہیں میرے انتظار میں ہے

ابھی تو پاؤں تلے جلتی ریت ہے لیکن

کوئی سحاب کہیں میرے انتظار میں ہے

تم سے مل کر یہ لگا خود سے ملاقات ہوئی

 تم سے مل کر یہ لگا خود سے ملاقات ہوئی

آج یہ بابِ محبت میں نئی بات ہوئی

اب نہ پہلی سی توجہ نہ وہ پہلا سا سلوک

ختم اب جیسے ہر اک رسمِ مراعات ہوئی

چَھٹ گئے سر سے مِرے رنج و الم کے بادل

رات بھر آنکھوں سے اشکوں کی وہ برسات ہوئی

یادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے

 یادوں کی قندیل جلانا کتنا اچھا لگتا ہے 

خوابوں کو پلکوں پہ سجانا کتنا اچھا لگتا ہے 

تیری طلب میں پتھر کھانا کتنا اچھا لگتا ہے 

خود بھی رونا سب کو رُلانا کتنا اچھا لگتا ہے 

ہم کو خبر ہے شہر میں اس کے سنگِ ملامت ملتے ہیں 

پھر بھی اس کے شہر میں جانا کتنا اچھا لگتا ہے 

حقیقتوں کو فسانہ نہیں بناتی میں

 حقیقتوں کو فسانہ نہیں بناتی میں

تمہارے خواب سے خود کو نہیں جگاتی میں

وہ فاختہ کی علامت اگر سمجھ جاتا

تو اس کے سامنے تلوار کیوں اٹھاتی میں

جناب، واقعی میں نے کہیں نہیں جانا

وگرنہ آپ کی گاڑی میں بیٹھ جاتی میں

خلا اندر خلا ہے

 خلا


خلا اندر خلا ہے

بظاہر جو نظر آتی نہیں ہے

وہیں گمنام سیاک شاہراہ ہے

جہاں بھٹکتے ہوئے چند خواب ہیں اور

بے اعتباری کا اک گھنا جنگل بھی ہے

دیکھ کر اس کی دلبرانہ چپ

 دیکھ کر اس کی دلبرانہ چُپ

اوڑھ لی ہم نے عاجزانہ چپ

رات دن لفظ تھُوکنے والا

کیوں مِری بار تھا زمانہ چپ

گفتگو چیختی تھی آنکھوں میں 

اور مابین ظالمانہ چپ

اپنے دیس کے پکھنو اکثر اڑ جاتے ہیں

 فوڈ فیسٹیول


اپنے دیس کے پکھنو اکثر اُڑ جاتے ہیں

سات سمندر پار

سندیسے کب آتے ہیں؟

آنکھیں دیواروں میں چُن کر

سانس کی رتھ کو کتنا کھینچیں

جیون کس پاتال میں ڈھونڈیں

جانتی ہوں کہ تجارت نہیں ہونے والی

 جانتی ہوں کہ تجارت نہیں ہونے والی

اس لیے دل پہ حکومت نہیں ہونے والی

تیری تصویر کئی بار اُتر سکتی ہے

اب کئی بار ندامت نہیں ہونے والی

تیرے کوچے میں چلے آئے ہیں صرصر کی طرح

اب تِرے سامنے اُلفت نہیں ہونے والی

مرگ مسلسل کی راتوں میں

 مرگِ مسلسل کی راتوں میں


دُھن چھِڑتی ہے

سنسان دریچوں کے باہر

جہاں کوئی چراغ نہیں جلتا

جہاں کوئی امید نہیں جگتی

ان راتوں میں

رسم وفا نبھانا تو غیرت کی بات ہے

 رسمِ وفا نبھانا تو غیرت کی بات ہے

وہ مجھ کو بھول جائیں یہ حیرت کی بات ہے

سب مجھ کو چاہتے ہیں یہ شہرت کی بات ہے

میں اُس کو چاہتی ہوں یہ قسمت کی بات ہے

اظہارِ عشق کر ہی دیا مجھ سے آپ نے

یہ بھی جناب آپ کی ہمت کی بات ہے

نظر سمیٹیں بٹور کر انتظار رکھ دیں

 نظر سمیٹیں، بٹور کر انتظار رکھ دیں

جو اس پہ تھا اب تلک ہمیں اعتبار رکھ دیں

بس ایک خواہش مدار تھی اپنی زندگی کا

کسی کے ہاتھوں میں اپنا دار و مدار رکھ دیں

تجھے جکڑ لے کبھی سلیقہ یہی نہیں ہے

ہے جی میں سب نوچ کر نگاہوں کے تار رکھ دیں

وحشتوں کو بھی اب کمال کہاں

 وحشتوں کو بھی اب کمال کہاں

اب جنوں کار بے مثال کہاں

خود سے بھی مانگتی نہیں خود کو

تجھ سے پھر خواہش سوال کہاں

میرے ہم رنگ پیرہن پہنے

شام ایسی شکستہ حال کہاں

وہ زرد چہرہ معطر نگاہ جیسا تھا

 وہ زرد چہرہ معطر نگاہ جیسا تھا

ہوا کا روپ تھا بولو تو آہ جیسا تھا

علیل وقت کی پوشاک تھا بخار اس کا

وہ ایک جسم تھا لیکن کراہ جیسا تھا

بھٹک رہا تھا اندھیرے میں درد کا دریا

وہ ایک رات کا جگنو تھا راہ جیسا تھا

چبھتی ہو جو سینے میں محبت نہیں کرتے

 چبھتی ہو جو سینے میں محبت، نہیں کرتے

ہم دل پہ کوئی ایسی عنایت نہیں کرتے

یہ جنس ہمیں ملتی ہے اس وقت کہ جب ہم

محسوس محبت کی ضرورت نہیں کرتے

مقتل سے صدا دے، یا کوئی دل کے نگر سے

ہم وعدہ وفا کرتے ہیں، غفلت نہیں کرتے

دیکھ سونا نہیں آج کی رات کا آخری خواب ہے

 دیکھ سونا نہیں

آج کی رات کا آخری خواب ہے

دیکھ لیں، جاگ لیں

اس نے پھر دوسری بار ہونا نہیں

دیکھ سونا نہیں

دیکھ رونا نہیں

تجھے اے زندگی ہم پھر سے جی پائیں نہیں ممکن

 تجھے اے زندگی ہم پھر سے جی پائیں نہیں ممکن

مگر تھک کر کہیں رستے میں گر جائیں نہیں ممکن

ہمیں رُسوائیوں کا خوف تو محسوس ہوتا ہے

مگر ہم عشق سے تیرے مُکر جائیں نہیں ممکن

اندھیرا وحشتوں کا کب نگل جائے پتہ کیا ہے

پرائے جگنوؤں کا چاند گھر لائیں نہیں ممکن

تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں

 تجھ کو اس طرح کہاں چھوڑ کے جانا تھا ہمیں

وہ تو اک عہد تھا اور عہد نبھانا تھا ہمیں

تم تو اس پار کھڑے تھے تمہیں معلوم کہاں

کیسے دریا کے بھنور کاٹ کے آنا تھا ہمیں

ان کو لے آیا تھا منزل پہ زمانہ لیکن

ہم چلے ہی تھے کہ در پیش زمانہ تھا ہمیں

دشت وحشت میں کوئی پھول کھلانا ہو گا

 دشتِ وحشت میں کوئی پھُول کھِلانا ہو گا

بامِ امید کو اب پھر سے سجانا ہو گا

اب تِرا وصل یہاں میرے مقدر میں نہیں

تجھ کو پانے کے لیے جان سے جانا ہو گا

اس نے اب کے میرا کردار بنایا ہے ہدف

مال و زر بیچ کے عصمت کو بچانا ہو گا

آندھی کو گلی میں جگ بیتا

 آندھی کو گلی میں جگ بیتا

وہ دیپک آج بھی جلتا ہے

نکلے تھے گھر سے شام ڈھلے

ہم پل سے گُگ کی اور چلے

جو پھول کھلے تھے رستوں میں

لگتے ہیں بھلے گلدستوں میں

دل کی آغوش میں پل کر جو جواں ہوتا ہے

 دل کی آغوش میں پل کر جو جواں ہوتا ہے

کب بھلا درد وہ لفظوں میں بیاں ہوتا ہے

چلمنوں میں اسے پلکوں کی چھپا کر رکھنا

جو نہاں دل میں ہو آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے

رائیگاں ہے جو تِرے بعد گزاری میں نے

کیا تجھے بھی یہی احساس زیاں ہوتا ہے؟

یا تو مرا خمیر کسی شان سے اٹھا

 یا تو مِرا خمیر کسی شان سے اُٹھا

یا پِھر یہ اپنا بوجھ مِری جان سے اٹھا

یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مجھے

اُڑنے کا شوق تو فقط امکان سے اٹھا

ورنہ اُٹھا کے پھینک نہ دوں میں اسے کہیں

سُن، دیکھ اپنا آئینہ ایمان سے، اٹھا

مسلسل دستکیں دیتی ہیں بارش میں ہوائیں

 مسلسل دستکیں دیتی ہیں بارش میں ہوائیں

تجھے اے ہجر کے حاصل کہاں سے ڈھونڈ لائیں

تو کیا ان کاغذی پھولوں کو بالوں میں سجائیں

وہ وعدے یاد رکھیں یا انہیں ہم بھول جائیں

کوئی آواز دیتا ہے، کنارے چیختے ہیں

کہیں پر ڈوبتی کشتی کی سنتی ہوں صدائیں

دل سے کیا پوچھتا ہے زلف گرہ گیر سے پوچھ

 دل سے کیا پوچھتا ہے زلفِ گرہ گیر سے پوچھ

اپنے دیوانے کا احوال تو زنجیر سے پوچھ

میری جاں بازی کے جوہر نہیں روشن تجھ پر

کچھ کھلے ہیں تِری شمشیر پہ شمشیر سے پوچھ

پُرسشِ حال کو جاتی ہے کہاں اے لیلیٰ

قیس کی شکل ہے کیا قیس کی تصویر سے پوچھ

یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے

 یہ سیلِ اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے

جو یہ کہوں کہ وفا کا مِری حساب تو دے

بھری بہار رُتوں میں بھی خار لے آئی

یہ انتظار کی ٹہنی کبھی گُلاب تو دے

نہیں نہیں میں وفا سے کنارہ کش تو نہیں

وہ دے رہا ہے مجھے ہجر کا عذاب تو دے

ذکر اس کا اگر پیکر اشعار میں آوے

 ذکر اُس کا اگر پیکرِ اشعار میں آوے

کیا کیا نہ مزہ لذتِ گُفتار میں آوے

مطلوبِ نظر چشمِ طلبگار میں آوے

سورج کی طرح روزن دیوار میں آوے

رکھا ہے قدم حضرتِ غالب کی زمیں پر

کچھ اور بلندی مِرے افکار میں آوے

بہت سے زخم جن کو مستقل مہمان رکھا ہے

 بہت سے زخم جن کو مستقل مہمان رکھا ہے

بدن کی قید میں کچھ درد کا سامان رکھا ہے

کبھی لگتا ہے کہ میں آسماں کو چھُو کے آئی ہوں

کبھی لگتا ہے رستے میں کوئی طوفان رکھا ہے

ہر اک لمحہ گماں کی دسترس میں کیا بتائیں ہم

کہاں امید رکھی ہے،۔ کہاں ایمان رکھا ہے

دل کا سارا درد بھرا تصویروں میں

 دل کا سارا درد بھرا تصویروں میں 

ایک مصور نقش ہوا تصویروں میں 

چند لکیریں تو اس درجہ گہری تھیں 

دیکھنے والا ڈوب گیا تصویروں میں 

ایک عجب سا جادو بکھرا رنگوں کا 

سب کو اپنا عکس دکھا تصویروں میں 

کتنی دور سے چلتے چلتے خواب نگر تک آئی ہوں

 کتنی دور سے چلتے چلتے خواب نگر تک آئی ہوں

پاؤں میں میں چھالے سہہ کر اپنے گھر تک آئی ہوں

کالی رات کے سناٹے کو میں نے پیچھے چھوڑ دیا

شب بھر تارے گنتے گنتے دیکھ سحر تک آئی ہوں

لکھتے لکھتے لفظوں سے میری بھی کچھ پہچان ہوئی

ساری عمر کی پونجی لے کر آج ہنر تک آئی ہوں

رات اس محفل کا عالم کیا کہوں

 رات اس محفل کا عالم کیا کہوں

بات افسانہ تھی، خاموشی فسوں

تجھ سے اپنی زندگی کے ماجرے

ٹھیر، ہمدم! سانس لے لوں تو کہوں

ہم نے لالے کی طرح اس دور میں

آنکھ کھولی تھی کہ دیکھا دل کا خوں

چلتے چلتے یہ حالت ہوئی راہ میں بن پئے مے کشی کا مزا آ گیا

 چلتے چلتے یہ حالت ہوئی راہ میں، بِن پئے مے کشی کا مزا آ گیا

پاس کوئی نہیں تھا مگر یوں لگا، کوئی دل سے میرے آ کے ٹکرا گیا

آج پہلے پہل تجربہ یہ ہوا، عید ہوتی ہے ایسی خبر ہی نہ تھی

چاند کو دیکھنے گھر سے جب میں چلی، دوسرا چاند میرے قریب آ گیا

اے ہوائے چمن مجھ پہ احساں نہ کر، نکہتِ گُل کی مجھ کو ضرورت نہیں

عشق کی راہ میں پیار کے عطر سے، میرے سارے بدن کو وہ مہکا گیا

تیرا میرا جھگڑا کیا جب اک آنگن کی مٹی ہے

 تیرا میرا جھگڑا کیا جب اک آنگن کی مٹی ہے

اپنے بدن کو دیکھ لے چھُو کر میرے بدن کی مٹی ہے

غیروں نے کچھ خواب دکھا کر نیند چُرا لی آنکھوں سے

لوری دے دے ہار گئی جو گھر آنگن کی مٹی ہے

سوچ سمجھ کر تم نے جس کے سبھی گھروندے توڑ دئیے

اپنے ساتھ جو کھیل رہا تھا اس بچپن کی مٹی ہے

تمہاری رہگزر پہ اک ستارہ چھوڑ آئی ہوں

 تمہاری رہگزر پہ اک ستارہ چھوڑ آئی ہوں

سمجھ لینا تمہاری ہوں اشارہ چھوڑ آئی ہوں

تمہارے بعد گیلی ریت کا میں کیا بناتی گھر

ہمیشہ کو سمندر کا کنارہ چھوڑ آئی ہوِں

بھُلا ڈالا ہے یکسر میں نے اپنے تلخ ماضی کو

حسیں یادوں کو بھی میں بے سہارا چھوڑ آئی ہوں

وہ بہت دور بھی ہیں پاس بھی ہیں

 وہ بہت دور بھی ہیں پاس بھی ہیں

ہم شگفتہ بھی ہیں، اداس بھی ہیں

اصلِ جلوہ نظر فریبی ہے

ان کے جلوے نظر شناس بھی ہیں

وہی حالات جن سے عاجز تھے

وہی حالات آج راس بھی ہیں

شام اترتی رہی چپ کھڑی سامنے والی دیوار پر

 شام اترتی رہی


چپ کھڑی سامنے والی دیوار پر

سانولے سرد ہاتھوں سے

رخنوں میں دبکی حرارت کھرچتی

سبک، سرمئی پیرہن کو لیے

کیاریوں کے شفق رنگ منظر نگلتی

ہو گئے خواب بھی آنکھوں کے پرائے ہائے

ہو گئے خواب بھی آنکھوں کے پرائے، ہائے

کوئی ایسے بھی نگاہوں کو نہ بھائے، ہائے

ساتھ ہوتے ہیں اُجالوں کے سفر میں دن بھر

چھوڑ جاتے ہیں اندھیروں میں یہ سائے، ہائے

زندگی آج یہ کس موڑ پہ لے آئی ہے

کوئی رستہ ہے، نہ منزل، نہ سرائے، ہائے

طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دئیے

 طاقِ جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دئیے

اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دئیے

کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو

کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دئیے

وہی مقابل بھی تھا میرا سنگِ راہ بھی تھا

جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دئیے

خرابہ اور ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ

 خرابہ اور ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ

دیار دل پہ آتے ہیں عذاب آہستہ آہستہ

سوال وحشت جاں کے جواب آہستہ آہستہ

بت کافر اٹھاتے ہیں نقاب آہستہ آہستہ

کوئی دستِ حنائی مؤقلم سے بھرتا جاتا ہے

نگارِ شام میں رنگ شراب، آہستہ آہستہ

ایک نظم کھو گئی کون تلاش کرے گا

 ایک نظم کھو گئی

کون تلاش کرے گا

میری نظم

کہاں ڈھونڈوں اس کو

کیسے آتی ہے ایک نظم

اس بے فرصتی میں

راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو

 راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو

کیسے ممکن ہے کہ آتش ہو دھواں کوئی نہ ہو

اس کی مرضی ہے وہ مل جائے کسی کو بھیڑ میں

اور کبھی ایسے ملے کہ درمیاں کوئی نہ ہو

جگمگاتا ہے ستارہ بن کے تب امید کا

بجھ گئے ہوں سب دیے اور کہکشاں کوئی نہ ہو

بوڑھا مداری؛ ڈگڈگی کی تھاپ پر

 بوڑھا مداری


ڈُگڈگی کی تھاپ پر 

راستوں کی خاک پر

کبھی اس نگر

کبھی در بدر

پھرتا تھا وہ ڈگر ڈگر

تمہیں نہ پھر سے ستائیں گے ہم خدا حافظ

 تمہیں نہ پھر سے ستائیں گے ہم، خدا حافظ

کہ اب نہ لوٹ کے آئیں گے ہم، خدا حافظ

رکھیں گے تم کو بہت دور اپنی نظروں سے

مگر نہ دل سے بھلائیں گے ہم، خدا حافظ

ہماری ذات سے تکلیف ہو رہی ہے تمہیں

اک اور شہر بسائیں گے ہم، خدا حافظ

تیری یاد کا ہر پل وجہ شادمانی ہے

 تیری یاد کا ہر پل، وجہِ شادمانی ہے

صبح بھی سہانی تھی شام بھی سہانی ہے

دوسروں سے برہم ہوں، خود سے بد گمانی ہے

کیا یہی محبت کا عالمِ جوانی ہے

یہ خلوص کے دعوے، مصلحت ہیں دھوکا ہیں

صرف جام بدلے ہیں، مئے وہی پرانی ہے

درد کو وجہ خرابی نہیں ہونے دیتے

 درد کو وجہِ خرابی نہیں ہونے دیتے

اپنے اشعار کتابی نہیں ہونے دیتے

یوں تو اس شخص کی ہر بات کو ہم مانتے ہیں

ہاں مگر اس کو حجابی نہیں ہونے دیتے

بھینچ کر کرتے ہیں اظہارِ محبت اس سے

اپنے بوسوں کو نصابی نہیں ہونے دیتے

سڑک صاف سیدھی اور دھوپ ہے دوپہر کا سفر

 بھرم


سڑک صاف سیدھی اور دھوپ ہے

دوپہر کا سفر

اک اکیلی سڑک پیر تسمہ بپا یوں چلی جا رہی ہے

کہ جیسے چلی ہی نہیں 

ایستادہ ہے بس

زندہ در گور؛ میں خدا کی قبر ہوں

 زندہ در گور


میں خدا کی قبر ہوں

خدا میرے اندر دفن ہے

بھئی، میں نے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ہے اسے

فرق یہ ہے کہ دفن ہونے کے باوجود زندہ ہے وہ

زندہ در گور

بظاہر تو کوئی بھی غم نہیں ہے

 بظاہر تو کوئی بھی غم نہیں ہے

مگر  دل کی اُداسی کم نہیں ہے

تُو دھڑکن کی طرح دل میں بسا ہے

کہا کس نے کہ تُو محرم نہیں ہے

جسے دیکھو ہے اپنے آپ میں گم

محبت کا کوئی موسم نہیں ہے

نہیں ہے پر کوئی امکان ہو بھی سکتا ہے

 نہیں ہے پر کوئی امکان ہو بھی سکتا ہے

وہ ایک شب مِرا مہمان ہو بھی سکتا ہے

عجب نہیں کہ بچھڑنے کا فیصلہ کر لے

اگر یہ دل ہے تو نادان ہو بھی سکتا ہے

محبتوں میں تو سود و زیاں کو مت سوچو

محبتوں میں تو نقصان ہو بھی سکتا ہے

ایک آنسو عزیز ہے مجھ کو

 ایک آنسو عزیز ہے مجھ کو

اس لیے تو عزیز ہے مجھ کو

ایک مسکان وہ بھی دھیمی سی

جس کا جادو عزیز ہے مجھ کو

آپ تکیے کی بات کر تے ہیں

ایک بازو عزیز ہے مجھ کو

آنکھیں اداس ہو گئیں منظر اداس ہو گیا

 آنکھیں اداس ہو گئیں منظر اداس ہو گیا

تُو کیا گیا کہ شہر میں ہر گھر اداس ہو گیا

پائے شکستگی ذرا ہمت تو کر کہ یار کی

دہلیز پر پڑ اتھا جو پتھر اداس ہو گیا

لشکر میں چھیڑ تو دیا ہم نے فسانۂ وفا

رستے اداس ہو گئے، رہبر اداس ہو گیا

تجھے چھو کر جب آتی ہیں ہوائیں

 تجھے چھو کر جب آتی ہیں ہوائیں

نیا پیغام لاتی ہیں ہوائیں

کسی صورت نہیں بجھتے دِیے وہ

جنہیں جلنا سکھاتی ہیں ہوائیں

جنہیں چن چن کے لاتے ہیں پرندے

وہ تنکے کیوں اڑاتی ہیں ہوائیں

مجھے وہ خوف تھا کہ جس سے کوئی بھی بچا نہیں

 خواہش


مجھے وہ خوف تھا

کہ جس سے کوئی بھی بچا نہیں

وہی تو اک سوال تھا

کہ جس سوال کا جواب

آج تک

ہوتی تھیں بارشیں مگر بہتات یوں نہ تھ

 ہوتی تھیں بارشیں مگر بہتات یوں نہ تھی

ہم پر نوازشات کی برسات یوں نہ تھی

لہجے کے اختلاف سے معنی بدل گئے

واللہ بات اس طرح تھی بات یوں نہ تھی

اب ہے کہاں وہ چاندنی تاروں کی کہکشاں

تنہا، اداس، سہمی ہوئی، رات یوں نہ تھی

کھڑکی میں ایک نار جو محو خیال ہے

 کھڑکی میں ایک نار جو محوِ خیال ہے

شاید کسی کے پیار کو پانے کی چال ہے

کمرے کی چیز چیز پہ ہے حسرتوں کی گرد

آنگن میں اجلی دھوپ کا پھیلا جمال ہے

الفاظ کے گہر تِری خاطر پرو لیے

یہ بھی تو تیرے حسنِ طلب کا کمال ہے

میرے وجود میں پیاس کی بانسری بجتی ہے

 بانسری


میرے وجود میں

پیاس کی بانسری بجتی ہے

اور سارے رنگ ناچتے ہیں

اعمال

ایمان سے جُدا نہیں ہوتے

رکا ہوں کس کے وہم میں مرے گمان میں نہیں

 رکا ہوں کس کے وہم میں مِرے گمان میں نہیں

چراغ جل رہا ہے اور کوئی مکان میں نہیں

وہ طائرِ نگاہ بھی سفر میں ساتھ ہے مِرے

کہ جس کا ذکر تک ابھی کسی اُڑان میں نہیں

مِری طلب مِرے لیے ملال چھوڑ کر گئی

جو شے مجھے پسند ہے وہی دُکان میں نہیں

ناز و نعم ملے ہیں تو بگڑے ہوئے ہو ہاں

 ناز و نعم ملے ہیں تو بگڑے ہوئے ہو ہاں

شوخی پہ خوب آج کل اُترے ہوئے ہو ہاں

ذوقِ جنون دل ہی میں میرے محیط تھے

صحرا میں آ گئے ہو تو پهیلے ہوئے ہو ہاں

سو، آئینے کو راس ہے عکسِ جمالِ یار

دیکها ہے اس نے آج تو نکهرے ہوئے ہو ہاں

‏دل ناداں یقیں کر لے محبت اب نہیں ہو گی

 ‏دلِ ناداں یقیں کر لے محبت اب نہیں ہو گی

قیامت آ چکی ہم پر، قیامت اب نہیں ہو گی

جسے اپنا بنایا تھا جو رگ رگ میں سمایا تھا

بہت بے درد نکلا وہ، سو چاہت اب نہیں ہو گی

مِرا بے سُود ہے جینا جہانِ درد میں تنہا

مجھے سانسوں کی اے ہمدم ضرورت اب نہیں ہو گی

اسی کا ذکر کہانی سے اقتباس رہے

 اسی کا ذکر کہانی سے اقتباس رہے

وہ ہر گھڑی جو مِرے واسطے اداس رہے

یہ اس کا قُرب مجھے عشق کی عطا سے ملا

وہ دور جائے، مگر میرے آس پاس رہے

طرح طرح سے مجھے تو بچھڑ بچھڑ کے ملا

طرح طرح کے مِرے ذہن میں قیاس رہے

آگ لگا کر گھر کو جب خود گھر والا انجان بنے

 آگ لگا کر گھر کو جب خود گھر والا انجان بنے

اے لوگو پھر تم ہی بتاؤ کیوں نہ وہ گھر شمشان بنے

آج امیدوں کے مرگھٹ پر اڑتے ہیں آہوں کے گِدھ

جانے اسی مرگھٹ میں کل کن نغموں کا ایوان بنے

اس کے چہرے کی ریکھائیں میں بھی تو اک بار پڑھوں

کاش کبھی تو خوابوں ہی میں وہ میرا مہمان بنے

دل آشنا رفیق پیارا کوئی نہ تھا

 دل آشنا، رفیق، پیارا، کوئی نہ تھا

ہم ہر کسی کے اور ہمارا کوئی نہ تھا

تا عمر دوسروں کا سہارا بنی رہی

میں ٹوٹ کر گِری تو سہارا کوئی نہ تھا

کاٹی ہے میں نے یونہی اندھیروں میں زندگی

قسمت کے آسماں پہ ستارا کوئی نہ تھا

دیے کی آخری خواہش کا احترام کرو

 دِیے کی آخری خواہش کا احترام کرو

تمام شہر جلانے کا اہتمام کرو

وجود چُپ کی طرف گامزن ہے اور مجھے

یہ لوگ بول رہے ہیں؛ کوئی کلام کرو

کوئی تو لفظ تراشو ہماری حُرمت پر

کوئی تو سنگ ہمارے سروں کے نام کرو

سچ کہاں ہے

 سچ


سچ کہاں ہے

تاریخ کے اوراق میں

تاریخ سے بڑا دھوکہ تو کچھ نہیں

تاریخ تو اپنے اپنے دلالوں کے ماتحت رہی

کوئی جھوٹ کس طرح سچ میں تبدیل ہو جاتا ہے

اسے سمجھا بجھا کے ہم تو ہارے

 اسے سمجھا بجھا کے ہم تو ہارے

نہ آیا دل یہ قابو میں ہمارے

سن اے غافل جرس کیا کہہ رہا ہے

پڑا رہ تُو، ہم اپنی رہ سدھارے

کوئی آتا نہیں ہو جب مدد کو

سوا اس کے کوئی کس کو پکارے

خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی

 خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی

خاموشیوں نے ہم کو پکارا کبھی کبھی

لے دے کے ایک سایۂ دیوارِ آرزو

دیتا ہے رہروؤں کو سہارا کبھی کبھی

کس درجہ دلفریب ہیں جھونکے اُمید کے

یہ زندگی ہوئی ہے گوارا کبھی کبھی

Sunday, 25 April 2021

گھر میں ہو کر بھی پس دیوار و در ملتے نہیں

 گھر میں ہو کر بھی پس دیوار و در ملتے نہیں

ہم جہاں ہوتے ہیں خود کو ہی ادھر ملتے نہیں

ہیں مقدر میں اندهیرے محو رقصاں دوستو

راستے روشن ہوں کتنے چارہ گر ملتے نہیں

لے گیا طوفان اب کے سب یہاں کی رونقیں

بستیاں موجود ہیں لیکن بشر ملتے نہیں

میں ستاروں اور درختوں کی خاموشی کو سمجھ سکتا ہوں

 میں ستاروں اور درختوں کی خاموشی کو سمجھ سکتا ہوں 

میں انسانوں کی باتیں سمجھنے سے قاصر ہوں 

میں انسانوں سے نفرت نہیں کرتا 

میں ایک عورت سے محبت کرتا ہوں 

میں دنیا کے راستوں پر چلنے سے معذور ہوں 

میں اکیلا ہوں 

چلی ہے یہ کیسی ہوا خوب صورت

 چلی ہے یہ کیسی ہوا خوبصورت

کہ دل کا یہ موسم ہوا خوبصورت

یہ دنیا بنائی ہے کیا خوبصورت

کہ خود ہو گا کتنا خدا خوبصورت

گھڑی دو گھڑی ہی جلا ہے دِیا

ہاں لیکن جلا ہے دِیا خوبصورت

جب کبھی صورت حالات نے کروٹ بدلی

 جب کبھی صورت حالات نے کروٹ بدلی

یوں لگا جیسے مِری ذات نے کروٹ بدلی

زندگی اتنی بھی ویران نہیں ہے لوگو

اس کو دیکھا تو خیالات نے کروٹ بدلی

اس کے آ جانے کا جب کوئی بھی امکاں نہ رہا

دن نے آغاز کیا، رات نے کروٹ بدلی

تم سمجھتے نہیں تو کیا شکوہ

 تم سمجھتے نہیں تو کیا شکوہ

بے سبب ہے مِرا گِلہ شکوہ

شکر ان کے لبوں پہ کب آیا

جن کا شیوہ رہا سدا شکوہ

بے وفائی کا دے دیا طعنہ

اور کیا مجھ سے کر سکا شکوہ

غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ

 غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ

نشہ ہے جس میں سخن کا وہی شراب ہے وہ

اسے نہ دیکھ مہکتا ہوا گُلاب ہے وہ

نہ جانے کتنی نگاہوں کا انتخاب ہے وہ

مثال مل نہ سکی کائنات میں اس کی

جواب اس کا نہیں کوئی لا جواب ہے وہ

گرجتے بادلوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

 گرجتے بادلوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

برستی بارشوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

مجھے بس ذات میں تیری سبھی موسم ملے جاناں

بدلتے موسموں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

سبھی داغوں کو دل کے آنسوؤں نے دھویا دیا ایسے

بکھرتے آنسوؤں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

یاد آئے گا بہت دھوپ میں سایا ان کا

 یاد آئے گا بہت دھوپ میں سایا ان کا 

اپنے آنگن میں ہی یہ بوڑھا شجر رہنے دو

غیر کے ہاتھوں میں کیوں دیتے ہو اپنی پگڑی 

بات گھر کی ہے تو پھر بات کو گھر رہنے دو

آنے جانے سے ہی قائم ہیں جہاں کے رشتے 

آنا جانا ہے تو دیوار میں در رہنے دو