Sunday, 28 February 2021

ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے

 ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے

خانۂ دل میں نہاں جیسے خدا رہتا ہے

میرے اندر ہی کوئی جنگ چھڑی ہے شاید

میرے اندر ہی کوئی دشتِ بلا رہتا ہے

جب بھی نزدیک سے محسوس کیا ہے خود کو

میں نے دیکھا ہے کوئی مجھ سے خفا رہتا ہے

فضا بے رنگ اتنی ہو رہی ہے

 فضا بے رنگ اتنی ہو رہی ہے

قیامت سر پکڑ کر رو رہی ہے

ذرا انسانیت کو دو صدائیں

کہاں پہ منہ چھپائے سو رہی ہے

یہ کس نے مَل دی بیدردی سے کالک

زمیں چہرہ لہو سے دھو رہی ہے

کبھی جو اس کی تمنا ذرا بپھر جائے

 کبھی جو اس کی تمنا ذرا بپھر جائے

نشہ پھر اس کی انا کا اتر اتر جائے

چراغِ شب میں تو جلنے کا حوصلہ ہی نہیں

وہ چاہتا ہے کہ تہمت ہوا کے سر جائے

زمیں پہ غلبۂ شیطاں، فلک برائے ملَک

بشر غریب پریشاں کہ وہ کدھر جائے

ایسی پر سوز مرے خواب کی تعبیر ہوئی

 ایسی پر سوز مِرے خواب کی تعبیر ہوئی 

نیند ٹوٹی تو اداسی مجھے تعمیر ہوئی

آخری بار اسے دیکھنے کا اِذن ملا

اور مجھے  آخری لمحے میں بھی تاخیر ہوئی

کیسے سادات نے اس وقت سنبھالا پردہ

راکھ خیموں کی جلی دیکھی تو تفسیر ہوئی

چاندنی افسردہ بھی ہے زرد بھی

 چاندنی افسردہ بھی ہے زرد بھی

چھن رہا ہے ہلکا ہلکا درد بھی

دل کی دھڑکن گویا دل کو چھوڑ کر

منتشر ہے چاندنی کے فرش پر

کچھ پریشانی ہے ایسی ماہ میں

جیسے کھو جائے مسافر راہ میں

خود کو سیراب کیا اور نہ پیاسا رکھا

خود کو سیراب کیا اور نہ پیاسا رکھا

ہم نے دریا سے عجب جبر کا رشتہ رکھا

دل کو رکھا تیری یادوں کی نگہبانی میں 

اور آنکھوں میں تیری دید کا پہرا رکھا

یہ بجا دودھ کی نہریں نہ بہائیں ہم نے

یہ کہو ہاتھ سے کب ہم نے یہ تیشہ رکھا

فلک کے پار اڑانوں کی حد نہیں ہوتی

 فلک کے پار اڑانوں کی حد نہیں ہوتی

وگرنہ دوسری جانب بھی اک زمیں ہوتی 

اگر روایتی مفہوم بھول کر دیکھیں

تو کیا سویر بھی کچھ شام سی نہیں ہوتی

وہ اس طرح مِری ہوتی نہیں اگر اس کی 

سہیلیوں میں کوئی اور بھی حسیں ہوتی

سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا

 سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا 

جب بھی آئینہ دیکھا خود کو دوسرا پایا 

ہونٹ پر دِیا رکھنا دل جلوں کی شوخی ہے 

ورنہ اس اندھیرے میں کون مسکرا پایا

بول تھے دِوانوں کے جن سے ہوش والوں نے

سوچ کے دھندلکوں میں، اپنا راستہ پایا

بلا کی دھوپ تھی میں جل رہا تھا

 بلا کی دھوپ تھی میں جل رہا تھا 

بدن اس کا تھا، اور سایہ مرا تھا 

خرابے میں تھا اک ایسا خرابہ

جہاں میں سب سے چھپ کے بیٹھتا تھا

بہت نزدیک تھے تصویر میں ہم 

مگر وہ فاصلہ جو دِکھ رہا تھا

گزر گئی شب ہجراں اگر تو کیا ہو گا

 گزر گئی شبِ ہجراں اگر تو کیا ہو گا

جو کھُل گیا یہ فریبِ نظر تو کیا ہو گا

درِِ قفس تو کھُلا ہے مگر یہ ڈر ہے مجھے

بکھر گئے کہیں ‌سب بال و پر تو کیا ہو گا

وہ قتل کرتا ہے اور یہ تو سوچتا ہی نہیں

نکل کے آ گئے سب نوحہ گر تو کیا ہو گا

کسی بھی طرح کٹے ہم سبیل کرتے ہیں

 کسی بھی طرح کٹے، ہم سبیل کرتے ہیں

ابھی تو رات ہے قصہ طویل کرتے ہیں

عجیب چیز ہے احباب کا رویہ بھی

مِری نظر میں مجھی کو ذلیل کرتے ہیں

معاملات ہم آپس میں کر لیں طے تو خوب

نہیں تو آئیے، دونوں وکیل کرتے ہیں

آتش غم سے بتائیں کیا کہ کیا کیا جل گیا

آتشِ غم سے بتائیں کیا کہ کیا کیا جل گیا

دل ہمارا جل گیا، پھر جسم سارا جل گیا

اک نظر اس نے بھری محفل میں جو دیکھا مجھے

دیکھ کر ہر اک تماشائی تماشا جل گیا

بے خودی میں بوسہ انگاروں ‌کا ہم نے لے لیا

گرمئ رخسار سے یوں منہ ہمارا جل گیا

جو بچھڑ کے جینا روا ہوا یہ برا ہوا

 جو بچھڑ کے جینا روا ہوا، یہ بُرا ہوا

نہ جنوں کا قرض ادا ہوا، یہ برا ہوا

شبِ ہجر کھا گئی زیست کو چلو ٹھیک ہے

جو شکستِ عہدِ وفا ہوا، یہ برا ہوا

مجھے ہمسفر کی شقاوتوں کا گِلہ نہیں

مِرا خون میرا خدا ہوا، یہ برا ہوا

تم وہ پہلی لڑکی ہو

 تم وہ پہلی لڑکی ہو


 تم وہ پہلی لڑکی ہو

جس کو دیکھ کے

میری آنکھیں خوابوں سے بھر جاتی ہیں

پیار کی نیلی کرنیں

دل کے کمرے میں در آتی ہیں

یک بیک پنجرۂ الفت میں پھڑکنے لگ جائے

 یک بیک پنجرۂ الفت میں پھڑکنے لگ جائے

طائرِ ہجر مِری راہ نہ تکنے لگ جائے

کاش میں دل تِرے سینے میں اتاروں اپنا

اور مِرا غم تِری رگ رگ میں دھڑکنے لگ جائے

عین ممکن ہے کسی روز میں نکلوں گھر کو

اور مسکن کی طلب راہ میں تھکنے لگ جائے

جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقش پا

 جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقشِ پا

سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا

چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی

کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا

ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی

ہر جسم پہ تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا

لمحہ لمحہ ماتمی ہے آج کل

 لمحہ لمحہ ماتمی ہے آج کل

زندگی کیا زندگی ہے آج کل

خواب کی تعبیر کوئی کیا لکھے

دھول کاغذ پر جمی ہے آج کل

شورِ دل ہے نہ صدائے برگ و بار

پھر یہ کیسی بے کلی ہے آج کل

اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو

 اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو

تھم گیا دورِ مئے ناب تو کچھ غم نہ کرو

اور بھی کتنے طریقے ہیں بیانِ غم کے

مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پُر نم نہ کرو

ہاں یہ شمشیر حوادِث ہو تو کچھ بات بھی ہے

گردنیں طوقِ غلامی کے لیے خم نہ کرو

کیا بنایا تھا کیا بنا ہوا ہے

 کیا بنایا تھا، کیا بنا ہوا ہے

جس کو دیکھو خدا بنا ہوا ہے

یعنی کچھ بھی نہیں ہمارے بیچ

یعنی اک راستا بنا ہوا ہے

خود تراشہ ہے تُو نے آدم کو

یہ تِرے ہاتھ کا بنا ہوا ہے

باہم ایک بستر پر دھرا ہے

 باہم ایک بستر پر


دھرا ہے

میرے دائیں ہاتھ پہ ایک سمندر

بائیں ہاتھ پہ موت

تھک جاؤں تو

دائیں ہاتھ پہ موت

شجر کٹے گا جہاں سے وہیں سے نکلے گا

 شجر کٹے گا جہاں سے وہیں سے نکلے گا

پرندگی کا حوالہ کہیں سے نکلے گا

ہمیں تلاش کریں گے تمہارے شہر کے لوگ

جب ایک نور ہماری جبیں سے نکلے گا

مجھے خبر ہے سو مرہم نہیں لگاتا میں

کہ زخم پھر سے نیا ایک یہیں سے نکلے گا

دوست اپنا جنہیں بناتا ہوں

 دوست اپنا جنہیں بناتا ہوں

میں انہیں سے فریب کھاتا ہوں

چھاؤں کے پیڑ میں لگاتا ہوں

دھوپ کے سائباں بناتا ہوں

کھینچ لیتے ہیں لوگ پیچھے سے

میں جو آگے قدم بڑھاتا ہوں

لب پہ میرے جو حق بیانی ہے

 لب پہ میرے جو حق بیانی ہے

بس یہ مولا کی مہربانی ہے

یہ محمدؐ نے ہم سے فرمایا

دیکھو، دنیا سرائے فانی ہے

حرصِ دنیا سراب ہے لوگو

نہ بجھے پیاس یہ وہ پانی ہے

اب کہاں جاؤں گا اٹھ کر میں یہیں رہنے دے

 اب کہاں جاؤں گا اٹھ کر میں یہیں رہنے دے

وحشت خانہ بدوشی تو کہیں رہنے دے

ہو گئی شاہ کو اب مات کہ میں کہتا رہا

ارے رہنے دے پیادے کو وہیں رہنے دے

لے کے جا سکتا ہے تو سر سے مِرا چرخ کہن

پر مِرے پیروں تلے میری زمیں رہنے دے

ولولے سو رہے ہیں سب مجھ میں

 ولولے سو رہے ہیں سب مجھ میں

اب کہاں ہے وہ تاب و تب مجھ میں

مجھ کو دریا مثال کر مولا

کوئی رہتا ہے تشنہ لب مجھ میں

اپنے غم کا سبب بتاؤں کیا

غم تو رہتے ہیں بے سبب مجھ میں

جدائی نوحے لکھتی ہے

جدائی نوحے لکھتی ہے


تمہارے جانے کا نوحہ

ساری کائنات نے

میرے ساتھ لکھا ہے

ہم سب فراق نصیب ہجر کا موسم اوڑھے

ایک دوسرے سے پیٹھ موڑے بیٹھے ہیں

راز دل کا بتا کے پچھتائے

 راز دل کا بتا کے پچھتائے

ان کی باتوں میں آ کے پچھتائے

حال پوچھا نہ زندگی میں کبھی

خاک میں وہ ملا کے پچھتائے

کوئی اپنا نظر نہیں آیا

ان کی محفل میں جا کے پچھتائے

غم سبھی بھول جائیں نیا سال ہے

 غم سبھی بھول جائیں نیا سال ہے

آؤ مل کر منائیں نیا سال ہے

مسکرائیں ہنسائیں نیا سال ہے

گھر کو مل کر سجائیں نیا سال ہے

رنجشیں، غم غصہ نفرتیں ختم ہوں

فاصلوں کو مٹائیں نیا سال ہے

اس مصرعۂ بے جوڑ کا ثانی کہاں سے لاؤں

 اس مصرعۂ بے جوڑ کا ثانی کہاں سے لاؤں

اب تیری طرح دشمنِ جانی کہاں سے لاؤں

کب تک رہے گی بند کھلونوں کی وہ  دُکاں

بچوں کے لیے روز کہانی کہاں سے لاؤں

سب پوچھتے ہیں دل سے ہی اب دھڑکنوں کا راز

اب دھڑکنوں کی کوئی نشانی کہاں سے لاؤں

جب دغا کوئی بار بار کرے

 جب دغا کوئی بار بار کرے

دل بھلا کیسے اعتبار کرے

کیا حفاظت کرے وہاں کوئی

نقب گھر میں جو پہریدار کرے

غیر سے کیوں بھلے کی ہو امید

جب محافظ ہی سخت وار کرے

تم نے بال پھیلائے تھے

 تم نے بال پھیلائے تھے

یا پھر شام کے سائے تھے

گزرے دن کی باتیں ہیں

ہم بھی آپ کو بھائے تھے

اکثر ان کی آنکھوں سے

ہم نے دھوکے کھائے تھے

گہری کالی رنگت والی سیدھی سادھی پیاری لڑکی

 گہری کالی رنگت والی سیدھی سادھی پیاری لڑکی

تُو گوروں کے کالے دل سے اچھی خاصی گوری ہے

جِس کو سُن کر بچے میٹھی نیند کو جائیں

تُو وہ پیاری الڑ بلڑ باوے والی لوری ہے

جس کے دَم پر مالک ہاری دوڑ کو جیتے

تُو وہ بختاں والی کالی گھوڑی ہے

ایسا نہیں کہ بزم میں اچھا کوئی نہ تھا

 ایسا نہیں کہ بزم میں اچھا کوئی نہ تھا

لیکن مجھے یقین ہے تم سا کوئی نہ تھا

کل شام کیوں اداس تھے دل کی گلی میں لوگ

میرے سوا تو شہر میں تنہا کوئی نہ تھا

اک شوق تھا کہ خود سے ملاقات ہو کبھی

لیکن مِرے مکان میں مجھ سا کوئی نہ تھا

بات بے بات برہمی صاحب

 بات بے بات برہمی صاحب

ہم سے کوئی خطا ہوئی صاحب

مجھ کو بھائے نہ دشمنی صاحب

میرا مسلک ہے دوستی صاحب

میں نے سچ بولنے کی جراءت کی

بات سب کو لگی بری صاحب

پٹ جائے تو بندی ہے

 پِٹ جائے تو بندی ہے 

ورنہ کہہ دو رنڈی ہے 

اُجلے ہیں اس شہر کے لوگ

ان کی فطرت گندی ہے 

بِکتا ہے انسان جہاں 

دنیا ایسی منڈی ہے

دل دیوانۂ ویرانہ نشیں

 دل دیوانۂ ویرانہ نشیں

عالم غم میں ہے پیمانہ نشیں

جیسے گلشن سے قفس تک پہنچے

یوں ہیں ویرانہ نشیں، خانہ نشیں

دونوں ہی گھر پہ نہیں تھے موجود

نہ خدا تھا نہ صنم خانی نشیں

جدائیوں میں لذت نہ رفاقتوں میں ہے

 جدائیوں میں لذت نہ رفاقتوں میں ہے

بس اک درد کا عالم محبتوں میں ہے

ملی ہمیں جو بے چینیاں تو یہ جانا

مزہ فقط دلِ ناداں کی وحشتوں میں ہے

کروں میں تا بہ سحر چاند سے تیری باتیں

یہی تو مشغلہ میری فراغتوں میں ہے

Saturday, 27 February 2021

مہتاب نہیں نکلا ستارے نہیں نکلے

 مہتاب نہیں نکلا ستارے نہیں نکلے

دیتے جو شب غم میں سہارے نہیں نکلے

کل رات نہتا کوئی دیتا تھا صدائیں

ہم گھر سے مگر خوف کے مارے نہیں نکلے

کیا چھوڑ کے بستی کو گیا تو کہ تِرے بعد

پھر گھر سے تِرے ہجر کے مارے نہیں نکلے

محبت بانجھ ہوتی جا رہی ہے

 محبت بانجھ ہوتی جا رہی ہے 


دبے پاؤں تعلق

گھر سے باہر جا رہا ہے 

خوشی بھی اب 

لحاف اوڑھے خراٹے لے رہی ہے

اور جذبوں کی حدت بھی

پھول خوشبو ان پہ اڑتی تتلیوں کی خیر ہو

 پھول، خوشبو، ان پہ اڑتی تتلیوں کی خیر ہو

سب کے آنگن میں چہکتی بیٹیوں کی خیر ہو

جتنے میٹھے لہجے ہیں سب گیت ہوں گے ایک دن

میٹھے لہجوں سے مہکتی بولیوں کی خیر ہو

چنریوں میں خواب لے کر چل پڑی ہیں بیٹیاں

ان پرائے دیس جاتی ڈولیوں کی خیر ہو

کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں

 کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں

آنکھ کھلی تو اک صحرا کے مقابل تھا میں

حاصل کر کے تجھ کو اب شرمندہ سا ہوں

تھا اک وقت کہ سچ مچ تیرے قابل تھا میں

کس احساس جرم کی سب کرتے ہیں توقع

اک کردار کیا تھا جس میں قاتل تھا میں

کرۂ ارض پر بدحالیوں کا دور دورہ تھا

 اے روحِ ابتسام


کرۂ ارض پر بدحالیوں کا دور دورہ تھا 

خشک سالی اپنے عروج پر تھی 

پھر حیات کے دشت میں تم بارش کے ننھے

قطرے کی مانند نمودار ہو کر خوب برسے

اب ہر سُو آسودگی پھیلی جا چکی ہے

ہر چند بستہ چشم رہا بستہ لب رہا​

 ہر چند بستہ چشم رہا، بستہ لب رہا​

میں مدتوں نشانۂ تیرِ غضب رہا​

غیروں پہ لطف کا بھی بتایا گیا جواز​

مجھ پر تِرا ستم بھی مگر بے سبب رہا​

تُو نے جو کچھ دیا وہ دیا لطفِ خاص سے​

پابندِ آستیں مِرا دستِ طلب رہا​

جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا سب بھلا ہوا

 جو کچھ ہمارے ساتھ ہُوا سب بھلا ہُوا

بس عشق تیرے ساتھ ہوا، یہ برا ہوا

بے چارگی کی شکل بنا چُپ کھڑا رہا

جب بھی کسی نظر سے مِرا سامنا ہوا

عزت بھی دیکھ لو مِری مٹی میں مل گئی

شرمندگی سے سر بھی ہے میرا جھُکا ہوا

پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں

 پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں

پر اس کی آنکھ میں سپنے سجا کے آئی ہوں

میں کوزہ گر تو نہیں تھی مگر حقیقت ہے

میں اس کی مرضی کا اس کو بنا کے آئی ہوں

جسے بھی جانا ہو، جائے چراغ جلتا ہوا

بڑا کٹھن تھا اگرچہ بجھا کے آئی ہوں

بہاروں کو خزاں ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے

 بہاروں کو خزاں ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے

یقیں کو بھی گماں ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے

اگر اس کی عنایت ہو، جو ہو اس کا کرم شامل

تو ذرے کو جہاں ہونے میں‌ کتنی دیر لگتی ہے

ہوائیں رُخ بدل لیں تو بچیں گے آشیانے بھی

کہ منظر کو دھواں ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے

درد ٹھہرے تو ذرا دل سے کوئی بات کریں

 درد ٹھہرے تو ذرا دل سے کوئی بات کریں

منتظر ہیں کہ ہم اپنے سے ملاقات کریں

دن تو آوازوں کے صحرا میں گزارا لیکن

اب ہمیں فکر یہ ہے ختم کہاں رات کریں

میری تصویر ادھوری ہے ابھی کیا معلوم

کیا مِری شکل بگڑتے ہوئے حالات کریں

اس شہر میں بھی کوئی سہارا نہیں رہا

 اس شہر میں بھی کوئی سہارا نہیں رہا

اب کُوچ کے سوا کوئی چارا نہیں رہا

تُو نے بھی آج توڑ دیا دل کا آئینہ

اب تُو بھی غیر کا ہے، ہمارا نہیں رہا

ایسے ہر اک رقیب سے ملنا پڑا مجھے

اک پَل بھی ملنا جس سے گوارا نہیں رہا

تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے

 تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے

دھوپ دہلیز پر پڑی ہوئی ہے

دل پہ ناکامیوں کے ہیں پیوند

آس کی سوئی بھی گڑی ہوئی ہے

میرے جیسی ہے میری پرچھائیں

دھوپ میں پل کے یہ بڑی ہوئی ہے

آبجو دیکھی دھنک دیکھی ستارے دیکھے

 آبجو دیکھی، دھنک دیکھی، ستارے دیکھے

ایک ہی دن میں کئی روپ تمہارے دیکھے

ایک معصوم کے ہونٹوں پہ تبسم دیکھا

اور پُر نُور سی آنکھوں میں شرارے دیکھے

دیکھنا چاہے جو احساس کی شدت کا کمال

دیکھنا چاہے تو پھر زخم ہمارے دیکھے

دل کے اندر جا سکتا ہوں

 دل کے اندر جا سکتا ہوں

میں بھی اُس کو پا سکتا ہوں

اپنی سانسیں مجھ کو دے دو

میں گُلشن مہکا سکتا ہوں

رات کو اپنے ساتھ مِلا کر

تم کو خواب دِکھا سکتا ہوں

مغرب کا وقت ہے سو یہ موقع بھی ہے سعود

 مغرب کا وقت ہے سو یہ موقع بھی ہے سعود

دستِ دعا دراز کر طاری نہ ہو جمود

آیا نہیں وہ دام میں کمبخت، کیا کروں

دنیا میں سبز باغ دکھانے کے باوجود

تخلیقِ آب و گل سے نہیں شاعری سے ہے

جیسی بھی ہے، بھلی ہے، بری ہے مری نمود

نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے

 نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے

اتنی رخصت دیجئے بندہ نوازی کیجئے

چاہئے جو کچھ سو ہو پہلے ہی سجدہ میں حصول

آپ کو گر کعبۂ دل کا نمازی کیجئے

جس نے اک جلوہ کو دیکھا جی دیا پروانہ وار

اس قدر اے شمع رویاں حسن سازی کیجئے

اونے پونے میں زمانہ تھا خریدار میرا

 اونے پونے میں زمانہ تھا خریدار میرا

اس لیے مندا رہا آج بھی بازار میرا

اک خوشی دوڑ رہی ہے میرے آگے آگے

پیچھا کرتا ہے کوئی خوف لگاتار میرا

میں نہ کچھوا ہوں نہ خرگوش حقیقت یہ ہے

اس کہانی میں نہیں کوئی بھی کردار میرا

اندھراتا بارش برستی ہے

 اندھراتا


بارش برستی ہے

میں پردہ گرانے لگا ہوں

پلک کو پلک سے ملانے لگا ہوں

زمانہ مِرے خواب میں آ کے رونے لگا ہے

میں اونٹوں کو لے آؤں

خانہ دل میں تم رہو آمین

 خانۂ دل میں تم رہو آمین

میری یادوں میں آ بسو آمین

پَل اداسی کے سارے چھَٹ جائیں

میں کروں گا دعا، کہو آمین

میری محنت مِرے مقدر پر

جلنے والو سدا جلو آمین

چندا ڈبکی مارے

 گیت


چندا ڈُبکی مارے

پانی کے برفیلے رتھ پر بیٹھا پنکھ پسارے

چندا ڈُبکی مارے

کوہ کی اوٹ میں جھرنا

وادی، کھلتا کرنا

دھند، دھوئیں کے بادل

اب دیکھ کے جی گھبراتا ہے ساون کی سہانی راتوں کو

 اب دیکھ کے جی گھبراتا ہے ساون کی سہانی راتوں کو

پیا چھوڑ گئے، دل توڑ گئے، اب آگ لگے برساتوں کو

اے جانِ محبت! جانِ غزل! آؤ تو تمہاری نظر کریں

آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں ہم پیار بھری سوغاتوں کو

یوں پیار کی قسمیں کھا کھا کر کیوں جھوٹی تسلی دیتے ہو

بس رہنے دو ہم جان گئے، سرکار تمہاری باتوں کو

خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی

 خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی

ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی

قلزم عشق میں ہیں نفع و سلامت دونوں

اس میں ڈوبے بھی تو کیا پار اترنا ہے یہی

قیدِ گیسُو سے بھلا کون رہے گا آزاد

تیری زلفوں کا جو شانوں پہ بکھرنا ہے یہی

دلوں کو ملانے کے دن آ رہے ہیں

 دلوں کو ملانے کے دن آ رہے ہیں

چمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں

کہیں بھول جاؤں نہ خود کو خوشی میں

تیرے پاس آنے کے دن آ  رہے ہیں

کھنکنے لگے ہیں یہ کنگن بھی اب تو

کہ سجنے سجانے کے دن آ رہے ہیں

جس کی خاطر میں نے دنیا کی طرف دیکھا نہ تھا

 جس کی خاطر میں نے دنیا کی طرف دیکھا نہ تھا

وہ مجھے یوں چھوڑ جائے گا کبھی سوچا نہ تھا

اس کے آنسو ہی بتاتے تھے نہ اب لوٹے گا وہ

اس سے پہلے تو بچھڑتے وقت یوں روتا نہ تھا

رہ گیا تنہا میں اپنے دوستوں کی بھیڑ میں

اور ہمدم وہ بنا جس سے کوئی رشتہ نہ تھا

نشاط حسرت بے مول کیوں اٹھائے پھروں

 نشاطِ حسرت بے مول کیوں اُٹھائے پِھروں

کسی کے بولے ہوئے بول کیوں اٹھائے پھروں

بلا سے چشم تہی خواب کہہ دے یہ دنیا

میں اپنی آنکھوں میں کشکول کیوں اٹھائے پھروں

مکانِ دل پہ سنوں دستکیں نئے دن کی

بجھے ستاروں کے یہ جھول کیوں اٹھائے پھروں

کہو اپنے وعدے وفا تم کرو گے

 کہو اپنے وعدے وفا تم کرو گے؟

جو کھائی تھیں قسمیں بھلا تو نہ دو گے

مجھے بھی اسی سمت جانا ہے ہمدم

میں تیار ہو لوں، ذرا سا رکو گے

میری بات چھوڑو، کچھ اپنی سناؤ

مِرے غم کی رُوداد کب تک سنو گے

بس خطروں کی خاطر جانے جاتے ہیں

 بس خطروں کی خاطر جانے جاتے ہیں

جن رَستوں سے ہم دیوانے جاتے ہیں

اتنی شہرت کافی ہے جینے کے لیے

ان کی نظروں میں پہچانے جاتے ہیں

ہمت والے ہجر میں کہتے ہیں غزلیں

جو بزدل ہیں وہ مے خانے جاتے ہیں

قریب دل کے ہمیں وہ رباب لگتا ہے

 قریب دل کے ہمیں وہ رباب لگتا ہے

اگرچہ دور سے مثلِ سراب لگتا ہے

میں اس کی ہمتوں کی داد ہی دئیے جاؤں

جو بند ہو کے بھی کھلتی کتاب لگتا ہے

خدا سے روز ہی مانگوں اسے دعاؤں میں

خیالِ وصل بھی جس سے ثواب لگتا ہے

کیا بات تھی کس واسطے روٹھا تھا مرا عکس

 کیا بات تھی کس واسطے روٹھا تھا مِرا عکس

اپنا تھا مگر غیر سا لگتا تھا مرا عکس

وہ دھوپ تھی سائے کے لیے ترس رہا تھا

پاؤں میں‌ پڑا میرے تڑپتا تھا مرا عکس

میں جل بھی چکا بجھ بھی چکا مٹ بھی چکا تھا

آنکھوں میں ‌مگر اُس کی چمکتا تھا مرا عکس

نہ سر پر آسماں کوئی

 نہ سر پر آسماں کوئی


کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

اندھیرے شام سے پہلے نگاہوں میں اترتے ہیں

چمکتی دھوپ کا منظر بہت تاریک لگتا ہے

گھنے پیڑوں کے سائے بھی

زمیں سے روٹھ جاتے ہیں

کہ صبحِ نو بہاراں بھی خزاں معلوم ہوتی ہے

عذاب آئے کچھ ایسے کہ ہم بکھر سے گئے

 عذاب آئے کچھ ایسے کہ ہم بکھر سے گئے

وہی اداس در و بام ہم جدھر سے گئے

نشاطِ محفلِ یاراں میں اس قدر الجھے

فرازِ علم و ہنر اپنی رہگزر سے گئے

خدا کو بھول گئے مشرکوں کی صحبت میں

نتیجہ دیکھا دعاؤں کے بھی ثمر سے گئے

وقت کو خاص گزر گاہ سمجھنے والے

 وقت کو خاص گزر گاہ سمجھنے والے

آج موجود نہیں آہ، سمجھنے والے

دل میں تعبیر کی خواہش ہی نہیں رکھتے ہیں

ہم تِرے خواب کو درگاہ سمجھنے والے

ان زمینوں کو سمجھنے سے ابھی قاصر ہیں

آسمانوں کو گزر گاہ سمجھنے والے

کسی کے اجڑے ہوئے گلستاں میں گل وفا کے کھلا رہی ہے

 کسی کے اجڑے ہوئے گلستاں میں گل وفا کے کھلا رہی ہے

وہ ایک عورت بہت سے رشتے نبھا رہی تھی نبھا رہی ہے

کوئی تو پوچھو کہ مسئلہ کیا کیوں آنکھیں پُرنم ہوئی ہیں آخر

اگر تشدد بھی ہو تو لوگو جہاں سے سب کچھ چھپا رہی ہے

بیوی عورت ہے ماں بھی عورت ہے بہن عورت بیٹی عورت

کسی کو بھائی، کسی کو بیٹا، کسی کو شوہر بلا رہی ہے

چار سو انتشار ہے کیا ہے

 چار سُو انتشار ہے کیا ہے

یہ خزاں ہے بہار ہے کیا ہے

سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو

خود پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے

سوا نیزے پہ چاہیے سورج

جسم میں برف زار ہے کیا ہے

ہر ایک خواب سو گیا خیال جاگتے رہے

 ہر ایک خواب سو گیا خیال جاگتے رہے 

جواب پی لیے مگر سوال جاگتے رہے 

ہماری پتلیوں پہ خواب اپنا بوجھ رکھ گئے 

ہم ایک شب نہیں کہ ماہ و سال جاگتے رہے 

گزار کے وہ ہجرتیں عجیب زخم دے گئیں

ملے بھی اس کے بعد پر ملال جاگتے رہے

Friday, 26 February 2021

ماں تجھ سے بچھڑ کے اب تک سویا نہیں ہوں

 ماں کی یاد میں کہی گئی ایک نظم


ماں

تجھ سے بچھڑ کے اب تک سویا نہیں ہوں

میں اب تک رویا نہیں ہوں

مجھے اپنی بانہوں میں لے لو

میرے ماتھے پر محبت ثبت کر دو

چاہت لوری کا رس کانوں میں گھول دو

حد پرواز جمال آپ کی انگڑائی ہے

 حدِ پروازِ جمال آپ کی انگڑائی ہے

اس سے آگے مِرے احساس کی رعنائی ہے

اب سفر اور بھی دشوار ہُوا ہم سفرو

تیرگی راہ کی ذہنوں میں سمٹ آئی ہے

تھے جو محبوس تو آفاق نگاہی تھی نصیب

ہُوئے آزاد تو ہر چیز علاقائی ہے

آرزوؤں کے دھڑکتے شہر جل کر رہ گئے

 آرزوؤں کے دھڑکتے شہر جل کر رہ گئے

کیسے کیسے حشر خاموشی میں ڈھل کر رہ گئے

خاطرِ خستہ کا اب کوئی نہیں پُرسان حال

کتنے دلداری کے عنوان تھے بدل کر رہ گئے

اب کہاں عہدِ وفا کی پاسداری اب کہاں

جو حقائق تھے وہ افسانوں میں ڈھل کر رہ گئے

تو اگر بے نقاب ہو جائے

 تُو اگر بے نقاب ہو جائے

زندگانی شراب ہو جائے

تُو پِلائے جو مست نظروں سے

مے کشی لا جواب ہو جائے

دیکھ لے شیخ گر تِری آنکھیں

پارسائی خراب ہو جائے

کچا گاؤں کچی گلیاں کچے آنگن نیم کے سائے

 نیم کے سائے


کچا گاؤں، کچی گلیاں، کچے آنگن، نیم کے سائے

ٹھنڈی مٹی، بہتی ندیاں، کالے ساون، نیم کے سائے

اُڑتے پنچھی، ڈوبتا سورج، شام کی سرخی، پھول گلابی

چَرتی بھیڑیں، پھیلے سبزے، پھولی سرسوں، نیم کے سائے

باغ آموں کے، پیڑ شرینہ کے، کھٹے پیلو، میٹھے پانی

دور تلک کھلیان کا منظر، توت کی خوشبو، نیم کے سائے

آسماں زاد زمینوں پہ کہیں ناچتے ہیں

 آسماں زاد زمینوں پہ کہیں ناچتے ہیں

ہم وہ پیکر ہیں سرِ عرشِ برِیں ناچتے ہیں

اپنا یہ جسم تھِرکتا ہے بس اپنی دُھن پر

ہم کبھی اور کسی دُھن پہ نہیں ناچتے ہیں

اپنے رنگوں کو تماشے کا کوئی شوق نہیں

مور جنگل میں ہی رہتے ہیں وہیں ناچتے ہیں

پہلے ہم عشق کیا کرتے تھے

 پہلے ہم عشق کیا کرتے تھے

ہاں کبھی ہم بھی جیا کرتے تھے

اپنے دامن کی کبھی فکر نہ کی

چاک اوروں کے سِیا کرتے تھے

پہلے ہر حال میں خوش رہتے تھے

جانے کیا کام کیا کرتے تھے

ضبط کی حد سے ہو کے گزرنا سو جانا

 ضبط کی حد سے ہو کے گزرنا سو جانا

رات گئے تک باتیں کرنا سو جانا

روزانہ کی دیواروں سے ٹکرا کر

ریزہ ریزہ ہو کے بکھرنا سو جانا

دن بھر ہجر کے زخموں کی مرہم کاری

رات کو تیرے وصل میں مرنا سو جانا

پہلے سے بار بار کی دیکھی ہوئی زمین

 پہلے سے بار بار کی دیکھی ہوئی زمین

تم آئے، اور لگنے لگی یہ نئی زمین

تم چھوڑ دو تو میں بھی چلا جاؤں گا کہیں

پھیلی ہے میرے سامنے اتنی بڑی زمین

حیران ہوں کہ اتنی بڑی کائنات میں

ہے صرف ایک وہ بھی یہی تنگ سی زمین

مرے دل سے ترا ارمان رخصت ہو چکا ہے

 مِرے دل سے تِرا ارمان رخصت ہو چکا ہے

مسافر رہ گیا، سامان رخصت ہو چکا ہے

میں پتھر کی طرح خود پر قناعت کر چکا ہوں

نمودِ جان کا امکان رخصت ہو چکا ہے

میں جب دفتر سے چھٹی کر کے آیا خود سے ملنے

اداسی نے کہا مہمان رخصت ہو چکا ہے

سنو تم لوٹ آؤ نا

 سنو تم لوٹ آؤ نا

میری بے ترتیب سانسیں

میرے دل کی دھڑکنیں

تمہارا نام سن کر

اور بڑھ جاتی ہیں

ویرانے میں کوئی آواز

اتفاقاً جو کہیں اب وہ نظر آتے ہیں

 اتفاقاً جو کہیں اب وہ نظر آتے ہیں

کتنی یادوں کے حسیں نقش ابھر آتے ہیں

کیسے گزری شبِ آشفتہ سراں کس کو خبر

لوگ تو بام پہ ہنگامِ سحر آتے ہیں

سوچ لیں آپ مِرا ساتھ کہاں تک دیں گے

مرحلے سینکڑوں دورانِ سفر آتے ہیں

چپ رہے دیکھ کے ان آنکھوں کے تیور عاشق

 چُپ رہے دیکھ کے ان آنکھوں کے تیور عاشق 

ورنہ کیا کچھ نہ اُٹھا سکتے تھے محشر عاشق 

دیکھیں اب کون سے رستے پہ زمانہ جائے 

کُوچہ کُوچہ ہیں پری زاد تو گھر گھر عاشق 

دم بخود زہرہ جبینوں کو تکا کرتا ہے 

ہے ہماری ہی طرح راہ کا پتھر عاشق 

دشت امید میں خوابوں کا سفر کرنا تھا

 دشتِ امید میں خوابوں کا سفر کرنا تھا

تُو کہ اک لمحۂ ناپید بسر کرنا تھا

ہم نے کیوں آپسی اضداد کے نکتے ڈھونڈے

ہم نے تو خود کو بہم شیر و شکر کرنا تھا

نقش بنتا ہی نہیں سنگ سماعت پہ کوئی

کُند الفاظ کو پھر تیر و تبر کرنا تھا

میں ترے لطف کا حقدار نہیں ہو سکتا

 میں تِرے لطف کا حقدار نہیں ہو سکتا

پھر بھی خواہش سے تو انکار نہیں ہو سکتا

میاں دریائے محبت ہے میسر اس میں

گھڑا ہو سکتا ہے، پتوار نہیں ہو سکتا

تجھے قرطاس پہ لاؤں گا سحر کی صورت

صورتِ شب تو نمودار نہیں ہو سکتا

کب تک ہو وفادار یہ وعدہ نہیں لینا

 کب تک ہو وفادار، یہ وعدہ نہیں لینا

اک سانس مجھے تم سے زیادہ نہیں لینا

یہ جسم مکمل ہو تِری عشرہ گری سے

اوروں کی طرح میں نے یہ آدھا نہیں لینا

یلغار سے بڑھ کر ہے یہ زلفوں کی حراست

اس بات کو اب اتنا بھی سادہ نہیں لینا

تمام عمر گزاری ہے خیر میں نے بھی

 تمام عمر گزاری ہے خیر میں نے بھی

کبھی نہ لگنے دئیے اپنے پیر میں نے بھی

تمہارے غیر سمجھنے کی دیر تھی، پھر کیا

خود اپنے آپ کو سمجھا ہے غیر میں نے بھی

بس اپنے حلقۂ احباب کی حمایت میں

پھر اپنے ساتھ کمایا ہے بَیر میں نے بھی

شہر وہی اچھے ہیں جو لڑکیوں کے نام پر بسائے

شہر وہی اچھے ہیں

جو لڑکیوں کے نام پر بسائے اور دیوتاؤں کے نام پر جلائے جائیں

لڑکیاں وہی خوبصورت ہیں

جو اُدھڑی ہوئی قبروں میں سے نکلے ہوئے ہاتھوں پر

فصل میں پہلی بار توڑے ہوئے پھَل رکھتی چلی جائیں

اگر شاعری محبت کی کفایت کرتی

بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں

 بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں 

کہ در ریزی تو کرتا ہے سخن میں 

بہار آرا وہی ہے ہر چمن میں 

اسی کی بُو ہے نسرین و سمن میں 

نہ پھر ایدھر اودھر ناحق بھٹکتا 

کہ ہے وہ جلوہ گر تیرے ہی من میں 

خوش بچھڑ کر رہ سکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

 خوش بچھڑ کر رہ سکا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

ہاں مگر یہ مانتا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

عمر اک دوجے کے پاؤں کاٹنے میں کاٹ کر

آج پیروں پر کھڑا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

ایک دُوجے کو رُلانے کا یہی انجام تھا

عمر ساری پھر ہنسا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں

کسی کے ساتھ سفر اختیار کرتے ہوئے

 کسی کے ساتھ سفر اختیار کرتے ہوئے

میں سوچتا ہی نہیں اعتبار کرتے ہوئے

مِرے خدا کہیں کوئی جزیرہ میرے لئے

میں تھک گیا ہوں سمندر کو پار کرتے ہوئے

انہیں بتاؤ کہ لہریں جُدا نہیں ہوتیں

یہ کون لوگ ہیں پانی پہ وار کرتے ہوئے

اے نشاط خیز تم ہنستی ہو تو معلوم پڑتا ہے

 یارِ من


اے نشاط خیز! تم ہنستی ہو

تو معلوم پڑتا ہے؛ ہنسی کس قدر خوبصورت شے ہے 

تم آنسو بہاؤ تو جی جلتا ہے

میرا بس نہیں چلتا ان آنسوؤں کا گَلہ گھونٹ دوں


زین اشعر

اچانک بھیڑ کے خاموش ہو جانے کا مطلب ہے

 اچانک بھیڑ کا خاموش ہو جانا


اچانک بھیڑ کے خاموش ہو جانے کا مطلب ہے

اجازت مل گئی مجھ کو

کہ میں اب بول سکتا ہوں

کسی ہلڑ مچاتی بھیڑ کو خاموش کرنا

میرا پہلا امتحاں تھا

سچ ہے ہو گا دنیا میں کوئی ہم سا کم تنہا

 سچ ہے ہو گا دنیا میں کوئی ہم سا کم تنہا

ہم نفس نفس تنہا،۔ ہم قدم قدم تنہا

دہر آئینہ خانہ اور اس میں ہم تنہا

دیکھیے تو اک محفل ویسے ایک دم تنہا

آرزو رفاقت کی آدمی کی فطرت ہے

زندگی نہیں کٹتی، آپ ہوں کہ ہم تنہا

مست پیالہ حجاب میں دیکھا

 مست پیالہ حجاب میں دیکھا

یہ تماشا شراب میں دیکھا

خوفِ تعزیزِ، حسرتِ فردا

یادِ ماضی عذاب میں دیکھا

اس کی آغوشِ حسن کا دربار

اپنی قسمت کہ خواب میں دیکھا

جس دم خیال یار کی بے چہرگی گئی

 جس دم خیالِ یار کی بے چہرگی گئی

آئینۂ فراق سے بے رونقی گئی

بیٹھا غبارِ حسرتِ تعمیر اب کی بار

شوقِ سفر کی راہ میں آوارگی گئی

وحشت ہمارے ضبط کا اجڑا مزار ہے

لاکھوں جتن کیے نہ سراسیمگی گئی

ایسے کئی سوال ہیں جن کا جواب کچھ نہیں

 ایسے کئی سوال ہیں جن کا جواب کچھ نہیں

حرف و صدا فضول سب لوح و کتاب کچھ نہیں

ان سے کہو کہ اس طرح آنکھوں سے بدگماں نہ ہوں

کیسے عجیب لوگ ہیں کہتے ہیں خواب کچھ نہیں

بیٹھے بٹھائے دل یونہی خود سے اچاٹ ہو گیا

انجمن حواس میں ویسے خراب کچھ نہیں

یہ انتظار

 یہ انتظار

ہمارے ملبوس نے

ہوا کی سرخیوں سے چکھ لیا ہے

میرے خدایا

ہمیں ہمارے انتظار کے خوف سے

اب نجات دے دے

آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں

 آسودگانِ ہجر سے ملنے کی چاہ میں

کوئی فقیر بیٹھا ہے صحرا کی راہ میں

پھر یوں ہوا کہ شوق سے کھولی نہ میں نے آنکھ

اک خواب آ گیا تھا مِری خواب گاہ میں

اس بار کتنی دیر یہاں ہوں خبر نہیں

آ تو گیا ہوں پھر سے تِری بارگاہ میں

Thursday, 25 February 2021

تجھ پہ ہر حال میں مرنا چاہوں

 تجھ پہ ہر حال میں مرنا چاہوں

میں تو یہ کام ہی کرنا چاہوں

حاصل زیست ہے جرم الفت

مر کے بھی میں نہ مکرنا چاہوں

اپنے اسلوب میں چاہوں جینا

اپنے انداز میں مرنا چاہوں

فتح تو سلطنتیں کر لو گے تلوار کے ساتھ

 فتح تو سلطنتیں کر لو گے تلوار کے ساتھ

دل اگر جیتنا مقصود ہو تو پیار کے ساتھ

فرق دونوں میں ہے یارو! زمیں و آسماں کا

مت کرو مہ کو برابر مِرے دلدار کے ساتھ

وائے دنیا کی خبر تھی نہ مجھے اپنا پتہ

ہائے وہ دن جو گزارے تھے میں نے یار کے ساتھ

ہجر کو تم مری اس طرح سے قسمت کر دو

 ہجر کو تم مِری اس طرح سے قسمت کر دو

رنجِ فرقت کو ہی تم اب مِری عادت کر دو

اپنے ناخن سے کریدو مِرے زخموں کو سدا

اک مسلسل سی شب و روز اذیت کر دو

مجھ کو دیکھو نہ محبت کی نظر سے اک پل

مجھ پہ احسان کی صورت کبھی غفلت کر دو

تخیل کو بری کرنے لگا ہوں

 تخیل کو بری کرنے لگا ہوں

میں ذہنی خود کشی کرنے لگا ہوں

مجھے زندہ جلایا جا رہا ہے

تو کیا میں روشنی کرنے لگا ہوں

میں آئینوں کو دیکھے جا رہا تھا

اب ان سے بات بھی کرنے لگا ہوں

صاحب دلوں سے راہ میں آنکھیں ملا کے دیکھ

 صاحب دلوں سے راہ میں آنکھیں ملا کے دیکھ

رکھتا ہے تو بھی دل تو اسے آزما کے دیکھ

پہچاننے کی پیار کو کوشش کبھی تو کر

خود کو کبھی تو اپنے بدن سے ہٹا کے دیکھ

یا لذتوں کو زہر سمجھ، اور دور رہ

یا شعلۂ گناہ میں دامن جلا کے دیکھ

وقت بھی اب مرا مرہم نہیں ہونے پاتا

 وقت بھی اب مِرا مرہم نہیں ہونے پاتا

درد کیسا ہے جو مدھم نہیں ہونے پاتا

کیفیت کوئی ملے ہم نے سنبھالی ایسے

غم کبھی غم سے بھی مدغم نہیں ہونے پاتا

میرے الفاظ کے یہ ہاتھ بھی شل ہوں جیسے

ہو رہا ہے جو وہ ماتم نہیں ہونے پاتا

جنون عشق میں صد چاک ہونا پڑتا ہے

 جنونِ عشق میں صد چاک ہونا پڑتا ہے

اس انتہا کے لیے خاک ہونا پڑتا ہے

کسی سے جب کبھی ہم زندگی بدلتے ہیں

تو پھر بدن کی بھی پوشاک ہونا پڑتا ہے

زمیں پہ خاک نشینی کا وصف رکھتے ہوئے

کبھی کبھی ہمیں افلاک ہونا پڑتا ہے

ہاتھوں میں کشکول زباں پر تالا ہے

 ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے

اپنے جینے کا انداز نرالا ہے

آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو

شاید کوئی آنسو آنے والا ہے

چاند کو جب سے اُلجھایا ہے شاخوں نے

پیڑ کے نیچے بے ترتیب اُجالا ہے

ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں

 ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں

لوگ تو پھر ہمیں محفل سے اٹھانے لگ جائیں

یاد بھی آج نہیں ٹھیک طرح سے جو شخص

ہم اسے بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں

شام ہوتے ہی کوئی خوشبو دریچہ کھولے

اور پھر بیتے ہوئے لمحے ستانے لگ جائیں

اٹھے جس بزم سے تم غم کا سماں چھوڑ آئے

 اٹھے جس بزم سے تم غم کا سماں چھوڑ آئے

دِیے محفل سے اٹھا لائے دھواں چھوڑ آئے

ایک ٹوٹا ہوا بے کار سفینہ ہم ہیں

ہمیں اب سیلِ بلا چاہے جہاں چھوڑ آئے

آج سر پھوٹے گا روئے گی نہ دیوار تیری

شہر سے دور ہمیں اہلِ جہاں چھوڑ آئے

اس نظر کی شراب پیتا ہوں

 اس نظر کی شراب پیتا ہوں

بادۂ 🍷 کامیاب پیتا ہوں

پردہ داریٔ نظمِ کُن کی خیر

آج میں بے حجاب پیتا ہوں

جھوم جاتے ہیں عرش و کوثر و خلد

جھوم کر جب شراب پیتا ہوں

راستے جس طرف بلاتے ہیں

 راستے جس طرف بلاتے ہیں

ہم اسی سمت چلتے جاتے ہیں

روز جاتے ہیں اپنے خوابوں تک

روز چپ چاپ لوٹ آتے ہیں

اڑتے پھرتے ہیں جو خس و خاشاک

یہ کوئی داستاں سناتے ہیں

اب تو اکثر یہ سوچتی ہوں میں

 اب تو اکثر یہ سوچتی ہوں میں

کیا تِرے دل میں واقعی ہوں میں

شہرِ مفتوحہ! دیکھ حسرت سے

تجھ کو سرحد سے دیکھتی ہوں میں

مفلسی! دیکھتی ہے کیا ایسے؟

تیری تصویر بھی رہی ہوں میں

شدت یاد کی

 شدت


یاد کی

یہ بھی تو مجبوری ہے

کھڑکیاں بند ملیں دل کی

تو بے چینی سے

سر پٹختے ہوئے دہلیز پہ مر جاتی ہے


فرحت عباس شاہ

نماز کیسی کہاں کا روزہ ابھی میں شغل شراب میں ہوں

نماز کیسی کہاں کا روزہ؟؟ ابھی میں شغلِ شراب میں ہوں

خدا کی یاد آئے کس طرح سے بتوں کے قہر و عتاب میں ہوں

شراب کا شغل ہو رہا ہے،۔ بغل میں پاتا ہوں میں کسی کو

میں جاگتا ہوں کہ سو رہا ہوں خیال میں ہوں کہ خواب میں ہوں

نہ چھیڑ اس وقت مجھ کو زاہد! نہیں یہ موقع ہے گفتگو کا

سوار جاتا ہے وہ شرابی میں حاضر اس کی رکاب میں ہوں

تو پاس مرے ہو تو

 تُو پاس مِرے ہو تو 

لمحوں کے گزرنے کا 

اور وقت کے ڈھلنے کا 

احساس نہیں ہوتا 

لمحوں کے گزرنے کا 

اور وقت کے ڈھلنے کا

جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی

 جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی

خواب تو دے دئیے اس نے ہمیں مہلت نہیں دی

بکتا رہتا سر بازار کئی قسطوں میں

شکر ہے میرے خدا نے مجھے شہرت نہیں دی

اس کی خاموشی مِری راہ میں آ بیٹھی ہے

میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی

یہ مانا ہے فلک ہے تو

 یہ مانا ہے فلک ہے تُو

یہ مانا ہے زمیں ہوں میں

مگر یہ تو بتا مجھ کو

کبھی کیا تُو نے سوچا ہے

فلک ہو کے زمیں پر یُوں

جھُکا رہتا ہے آخر کیوں؟


سمن شاہ

جو ندیا کے کنارے پر لگے اک پیڑ پہ

 جو ندیا کے کنارے پر لگے

اک پیڑ پہ لٹکا ہوا

اک گھونسلہ تھا

وہ اب گرنے کی حد پہ آ چکا ہے

اور جنگل میں گھنی سی گھاس کی چادر بھی

اب کے سوکھتی ہے

قرار من حیرت ہے کہ

قرارِ من

حیرت ہے کہ

تیرے ہوتے ہوئے بھی 

ہم لاچار دید کے واسطے مارے گئے

حبیب من

حیرت زدہ ہوں کہ

میں بجھتی آنکھوں میں بہرے کانوں میں رہ گیا تھا

 میں بجھتی آنکھوں میں بہرے کانوں میں رہ گیا تھا

میں شور تھا جو بدن مکانوں میں رہ گیا تھا

ہماری تالی دھنک کے رنگوں میں کھو گئی تھی

ہمارا قصہ وہ قہوہ خانوں میں رہ گیا تھا

تمام سمتوں میں تُو ہی تُو تھا کہاں میں جاتا؟

میں ساری سمتوں کے درمیانوں میں رہ گیا تھا

افسوس کہ وہ سرو گل اندام نہ آیا

 افسوس کہ وہ سروِ گل اندام نہ آیا

میت کو میری دیکھنے دو گام نہ آیا

نکلے ہیں مِری لحد سے اب نرگس و شہلا

شاید کہ تہِ خاک بھی آرام نہ آیا

شب بھر نہیں چمکا مِری قسمت کا ستارہ

وہ رشکِ قمر ہائے لبِ بام نہ آیا

یہ اشک آنکھ میں کس جستجو کے ساتھ آئے

 یہ اشک آنکھ میں کس جستجو کے ساتھ آئے

کہ تیرے ذکر تِری گفتگو کے ساتھ آئے

میں ایک نخل تھا یک رنگئ خزاں کا اسیر

یہ سارے رنگ تِری آرزو کے ساتھ آئے

جو کھو گئے تھے کہیں عمر کے دھندلکوں میں

وہ عکس پھر کسی آئینہ رو کے ساتھ آئے

گھر کے برآمدوں میں پڑے بدحواس ہو

 گھر کے برآمدوں میں پڑے بدحواس ہو

اے فروری کے لمحو کہو کیوں اداس ہو

ہم تم کنارِِ آب ہوں جنگل میں خیمہ زن

آگے پلیٹ میں بُھنے تِیتر کا ماس ہو

آؤ نا پھر بسائیں پہاڑوں پر بستیاں

ان زلزلوں کے ساتھ کڑا ٭اتہاس ہو

کیوں چلتی زمیں رکی ہوئی ہے

 کیوں چلتی زمیں رُکی ہوئی ہے

کیا میرے تئیں رکی ہوئی ہے

خوابوں سے اُداس ہو کے تعبیر

پلکوں کے قریں رکی ہوئی ہے

سائے کو روانہ کر دیا ہے

دیوار کہیں رکی ہوئی ہے

منصف وقت سے بےگانہ گزرنا ہو گا

 منصف وقت سے بیگانہ گزرنا ہو گا

فیصلہ اپنا ہمیں آپ ہی کرنا ہو گا

زخم احساس کبھی چین نہ لینے دے گا

سرِ میدانِ تمنّا ہمیں مرنا ہو گا

تجھے چھُو کر بھی تجھے پا نہ سکیں گے تو ہمیں

صورتِ درد تِرے دل میں اترنا ہو گا

بڑھاؤ ہاتھ بڑھاؤ فقیر موج میں ہے

 بڑھاؤ ہاتھ بڑھاؤ، فقیر موج میں ہے

تونگرو ادھر آؤ، فقیر موج میں ہے

جسے بھی چاہیے خیراتِ نور لے جائے

بھڑک رہا ہے الاؤ، فقیر موج میں ہے

خرید لے نہ تمہاری یہ کائنات تمام

اسے بتانا نہ بھاؤ، فقیر موج میں ہے

سنو مسافر سفر ابھی بہت بچا ہے

سنو مسافر


راہ میں سفر کے ٹیک لگائے

لب پر اک پھول کو سجائے

مسکرا رہا ہوں

مسکرانا کیا ہے

بلبلانا کیا ہے

روتے رہنا

رات کے آنچل پہ موتی ٹانکتی ہی رہ گئی

 رات کے آنچل پہ موتی ٹانکتی ہی رہ گئی

چاندنی سے چاند کو میں مانگتی ہی رہ گئی

قافلے یادوں کے کب کے جا چکے سب چھوڑ کر

خواب چنتی آنکھ ساماں باندھتی ہی رہ گئی

سر پٹختی پھر رہی تھی میں، ہوا اور تیری یاد

صحرا صحرا گھومتی اور ہانکتی ہی رہ گئی

کسے خبر تھی کہ خود کو وہ یوں چھپائے گا

 کسے خبر تھی کہ خود کو وہ یوں چھپائے گا

اور اپنے نقش کو لہروں پہ چھوڑ جائے گا

خموش رہنے کی عادت بھی مار دیتی ہے

تمہیں یہ زہر تو اندر سے چاٹ جائے گا

کچھ اور دیر ٹھہر جاؤ خواب زاروں میں

وہ عکس ہی سہی لیکن نظر تو آئے گا

وہ ترک تعلق ترک آشنائی چاہتا تھا

 وہ ترکِ تعلق ترکِ آشنائی چاہتا تھا

ایسے ہی نہیں وہ جدائی چاہتا تھا

باادب ہو کر بھی نا بدلی فطرتِ دل

کُوئے یار سے پھر رُسوائی چاہتا تھا

ہر شخص فنکار تھا اس کی بزم میں

ہر شخص ہی مدح سرائی چاہتا تھا

شان عطا کو تیری عطا کی خبر نہ ہو

شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو

یوں بھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو

چُپ ہوں کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا 

مانگوں دُعا جو میرے خدا کو خبر نہ ہو

کر شوق سے شکایتِ محرومئ وفا 

لیکن مِرے غرورِ وفا کو خبر نہ ہو

وہ نظر مہرباں اگر ہوتی

 وہ نظر مہرباں اگر ہوتی

زندگی اپنی معتبر ہوتی

نفرتوں کے طویل صحرا میں

ان کی چاہت تو ہم سفر ہوتی

اے شب غم! مِرے مقدر کی

تیرے دامن میں اک سحر ہوتی

دنیا کی ہر چیز اچانک رک جاتی ہے

 دنیا کی ہر چیز

اچانک

رک جاتی ہے

باتیں کرتے کرتے اک دم

جب کہتے ہو

اچها، اب میں چلتا ہوں

وہ گنگناتی مہکتی ہوئی حسیں شامیں

 وہ گنگناتی، مہکتی ہوئی حسیں شامیں

مِری حیات پہ پھیلی ہیں دل نشیں شامیں

غزل نے چھیڑ دیا سازِ روح کو میرے

سُروں میں ڈھلنے لگیں پھر سے نغمگیں شامیں

مصوری کی ہیں شہکار، شاعری کی دھنک

ہزاروں نقش کھِلاتی ہیں مرمریں شامیں

بجھتی ہوئی آنکھوں کا اکیلا وہ دیا تھا

 بُجھتی ہوئی آنکھوں کا اکیلا وہ دِیا🪔 تھا

ہجراں کی کڑی شب میں اذیت سے لڑا تھا

رُکتا ہی نہیں تجھ پہ نگاہوں کا تسلسل

کل شام تِرے ہاتھ میں کنگن بھی نیا تھا

اک چشمِ توجہ سے اُدھڑتا ہی گیا تھا

وہ زخم کہ جس کو بڑی محنت سے سِیا تھا

جذبۂ عشق کا اظہار نہ ہونے پائے

 جذبۂ عشق کا اظہار نہ ہونے پائے

حُسن رُسوا سرِ بازار نہ ہونے پائے

مُدتوں محفلِ ساقی میں رہے ہیں لیکن

جام چھُونے کے گُنہ گار نہ ہونے پائے

بزمِ احباب میں آیا ہوں مگر ڈر یہ ہے

کوئی فتنہ پسِ دیوار نہ ہونے پائے

نہیں یہ سب مری دیوانگی ہے

 نہیں یہ سب مِری دیوانگی ہے

کوئی تصویر بھی کیا بولتی ہے

اسے اب قہقہوں میں دفن کر دو

یہ خاموشی بہت کچھ جانتی ہے

سحر کے رنگ گہرے ہو گئے ہیں

کہ میری نیند پوری ہو گئی ہے

مصیبت میں بھی غیرت آشنا خاموش رہتی ہے

 مصیبت میں بھی غیرت آشنا خاموش رہتی ہے

کہ درویشوں کی حاجت تو سدا خاموش رہتی ہے

خوشی کا جشن ہو یا ماتمِ مرگِ تمنا ہو

یہاں ہر حال میں خلقِ خدا خاموش رہتی ہے

شجر کو وجد آتا ہے نہ تو شاخیں لچکتی ہیں

بہاروں میں بھی اب بادِ صبا خاموش رہتی ہے

اس عشق کا انجام میں کچھ سوچ رہا ہوں

 اس عشق کا انجام میں کچھ سوچ رہا ہوں

ہاں اے ہوسِ خام! میں کچھ سوچ رہا ہوں

خالی ہوئے سب جام نہیں کوئی بھی مے کش

اے درد تہِ جام! میں کچھ سوچ رہا ہوں

جی بھر کے تجھے آج میں دیکھوں کہ نہ دیکھوں

اے حسنِ لبِ بام! میں کچھ سوچ رہا ہوں

مر ہی جاؤں جو ملے موت قرینے والی

 مر ہی جاؤں جو مِلے موت قرینے والی

زندگی تو مجھے لگتی نہیں جینے والی

حضرتِ شیخ نے پابند کیا ہے، ورنہ

ایک ہی چیز مجھے لگتی ہے پینے والی

یہ مِرے سارے گھرانے کے لیے کافی ہے

یہ کمائی ہے مِرے خون پسینے والی

فوجیوں کے سر تو دشمن کے سپاہی لے گئے

 فوجیوں کے سر تو دشمن کے سپاہی لے گئے

ہاتھ جو قیمت لگی ظل الٰہی لے گئے

جرم میرا صرف اتنا تھا کہ میں مجرم نہ تھا

قید تک مجھ کو ثبوت بے گناہی لے گئے

اب وہی دنیا میں ٹھہرے امن عالم کے امیں

جو اماں کی جا تک اسباب تباہی لے گئے

حالات کیا یہ تیرے بچھڑنے سے ہو گئے

 حالات کیا یہ تیرے بچھڑنے سے ہو گئے

لگتا ہے جیسے ہم کسی میلے میں کھو گئے

آنکھیں برس گئیں تو سکوں دل کو مل گیا

بادل تو صرف سُوکھی زمینیں بھگو گئے

کتنی کہانیوں سے ملا زندگی کو حسن

کتنے فسانے وقت کی چادر میں سو گئے

ان کا آنے کو دل نہیں کرتا

 ان کا آنے کو دل نہیں کرتا

اپنا جانے کو دل نہیں کرتا

ہم نے کھایا ہے یار سے دھوکہ

کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کرتا

ایسا اس خاکداں میں کیا ہے کہ

یاں سے جانے کو دل نہیں کرتا

اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی

 اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی

کچھ کسی کی نہ سنو گے تم بھی

وقت سے بچ نہ سکو گے تم بھی

جو کرو گے وہ بھرو گے تم بھی

ایک آواز سنی ہے ہم نے

ایک آواز سنو گے تم بھی

ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہو گا

 ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہو گا

یہ وہ ہجوم ہے جو مشتعل نہیں ہو گا

زمیں پر آنے سے پہلے ہی علم تھا مجھ کو

مِرا قیام یہاں مستقل نہیں ہو گا

اندھیرا پوجنے والوں نے فیصلہ دیا ہے

چراغ اب کسی شب میں مخل نہیں ہو گا

اچھے نہیں ہیں وقت کے تیور مرے عزیز

 اچھے نہیں ہیں وقت کے تیور مِرے عزیز

رہنا ہے اپنی کھال کے اندر مرے عزیز

تیری منافقت پہ مجھے کوئی شک نہیں

میرے رفیق میرے برادر مرے عزیز

آ تیری تشنگی کا مداوا ہے میرے پاس

میرا لہو حلال ہے تجھ پر مرے عزیز

منزل یار ہی نہ تھی کوئی

 منزلِ یار ہی نہ تھی کوئی

راہ دشوار ہی نہ تھی کوئی

غش سے پہلے تو میں سنبھل جاتا

پاس دیوار ہی نہ تھی کوئی

میں ابھرتا رہا چٹاں بن کر

چوٹ بیکار ہی نہ تھی کوئی

Wednesday, 24 February 2021

زہے کوشش کامیاب محبت

 زہے کوششِ کامیابِ محبت

ہمیشہ رہے ہم خرابِ محبت

سکون محبت جو ممکن نہیں ہے

بڑھا دیجئے اضطرابِ محبت

جھکی جا رہی ہیں وہ معصوم نظریں

دیا جا رہا ہے جوابِ محبت

لہو لہان تھا شاخ گلاب کاٹ کے وہ

 لہو لہان تھا شاخِ گلاب کاٹ کے وہ

ہِوا ہلاک چٹانوں کے خواب کاٹ کے وہ

میں گزرے وقت کے کس آسماں میں جیتا ہوں

گیا کبھی کا ہوا کی طناب کاٹ کے وہ

اسی امید پہ جلتی ہیں دشت دشت آنکھیں

کبھی تو آئے گا عمرِ خراب کاٹ کے وہ

اترے تو کئی بار صحیفے مرے گھر میں

 اترے تو کئی بار صحیفے مِرے گھر میں

ملتے ہیں مگر صرف جریدے مرے گھر میں

آواز میں لذت کا نیا شہد جو گھولیں

اترے نہ کبھی ایسے پرندے مرے گھر میں

نیزے تو شعاعوں کے رہے خون کے پیاسے

نم دیدہ تھے دیوار کے سائے مرے گھر میں

کجرا محبت والا اکھیوں میں ایسا ڈالا

 فلمی گیت


کجرا محبت والا اکھیوں میں ایسا ڈالا

کجرے نے لے لی میری جان

ہائے رے میں تیرے قربان

دنیا ہے میرے پیچھے 

لیکن میں تیرے پیچھے

اپنا بنا لے میری جان

خاک حاوی کمال لکھتے ہیں

 خاک حاوی کمال لکھتے ہیں

ہم تو بس دل کا حال لکھتے ہیں

صنفِ نازک کی خوبیوں پر بھی

لکھتے ہیں خال خال لکھتے ہیں

ہم تو لکھتے ہیں دل لگی کے لیے

لوگ لیتے ہیں مال لکھتے ہیں

دشت میں اس کا آب و دانہ ہے

 دشت میں اس کا آب و دانہ ہے

عشق ہوتا ہی صوفیانہ ہے

میں غلط وقت پر ہوا بیدار

یہ کسی اور کا زمانہ ہے

ریت پیغام لے کے آئی ہے

دشت میری طرف روانہ ہے

وحشت شب بیڑیاں میں اور خاموشی

 وحشت شب، بیڑیاں، میں اور خاموشی

گریہ، نم، ہچکیاں میں اور خاموشی 

دیواریں اور دیواروں کے اندر 

سیلن، چھت، کھڑکیاں، میں اور خاموشی

بالترتیب آئے ہیں اب ہم دونوں

اپنے ہی درمیاں، میں اور خاموشی

جس گھر کی فضا ایک قبیلے کی طرح ہے

 جس گھر کی فضا ایک قبیلے کی طرح ہے

وہ امن کے سر سبز جزیرے کی طرح ہے

شبنم کی طرح ہے کبھی شعلے کی طرح ہے

تُو بھی کسی فنکار کے لہجے کی طرح ہے

میں آج یہ آئینے⌗ میں کیا دیکھ رہا ہوں

یہ عکس تو بالکل تِرے چہرے کی طرح ہے

ہر طرف شور فغاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

 ہر طرف شورِ فغاں ہے کوئی سُنتا ہی نہیں

قافلہ ہے کہ رواں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

اک صدا پوچھتی رہتی ہے؛ کوئی زندہ ہے

میں کہے جاتا ہوں؛ ہاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

میں جو چپ تھا، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری

اب مِرے منہ میں زباں ہے، کوئی سنتا ہی نہیں

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

 اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اب تو اس کی آنکھوں کے مے کدے میسر ہیں

پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں، جاموں میں

دوستی کا دعویٰ کیا،۔ عاشقی سے کیا مطلب

میں تِرے فقیروں میں، میں تِرے غلاموں میں

تیرے شیدائی ازل ہی سے ہیں مرنے والے

 تیرے شیدائی ازل ہی سے ہیں مرنے والے

مر مٹیں گے نہیں ہم موت سے ڈرنے والے

کم نکلتے ہیں وفا عشق میں کرنے والے

نام کر جاتے ہیں دنیا میں وہ مرنے والے

ہم سے پردہ کی ستم گار ضرورت کیا ہے

جیتے ہیں دیکھ کے صورت تیری مرنے والے

گلہ ہے بے وفائی کا نہ شکوا کج ادائی کا

 گِلا ہے بے وفائی کا نہ شکوا کج ادائی کا

عجب لذت فزا ہے درد زخمِ آشنائی کا

تِری راہِ طلب میں ناتوانی میری حائل ہے

نتیجا دیکھئے ہوتا ہے کیا بے دست و پائی کا

ہوائے موسمِ گل ہے تِرے میکش نہ سنبھلیں گے

کریں گے ٹکڑے ٹکڑے آج دامن پارسائی کا

غیب سے فتح کی برفباری رہے

 غیب سے فتح کی برفباری رہے

رزمیہ ترانہ


غیب سے فتح کی برفباری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے

میرے بیٹے یہ ماں تجھ پہ واری رہے

جنگ جاری رہے، جنگ جاری رہے

صحرا لگے کبھی کبھی دریا دکھائی دے

صحرا لگے کبھی کبھی دریا دکھائی دے 

حیران ہوں میں کیا ہے جہاں کیا دکھائی دے 

آواز کوئی ہو میں اسی کی صدا سنوں 

ہر سمت مجھ کو ایک ہی چہرہ دکھائی دے 

نادانیوں کا دل کی بھی کوئی علاج ہو 

بن کے وہ غیر بھی مجھے اپنا دکھائی دے

رشتۂ دل بھی کسی دن خواب سا ہو جائے گا

 رشتۂ دل بھی کسی دن خواب سا ہو جائے گا

تیرے میرے درمیاں وہ فاصلہ ہو جائے گا

پیلی پیلی رُت جدائی کی اچانک آئے گی

قربتوں کا سبز موسم بے وفا ہو جائے گا

آئینے رنگوں کے خالی چھوڑ جائے گی دھنک

حیرتیں رہ جائیں گی منظر جدا ہو جائے گا

مرے ہمسفر جس جگہ تو نے چھوڑا

 مِرے ہمسفر

جس جگہ تُو نے چھوڑا

یہاں سے کئی کوس تک کچھ نہیں ہے

نہ لفظوں کا جھرنا

نہ آنکھوں کی بستی

نہ ہی دائرہ ہے کوئی بازوؤں کا

دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے

 دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے

اس بتکدے کو کعبۂ ایماں بنائیے

طوفان بن کے اٹھیے جہانِ خراب میں

ہستی کو اک شرارۂ رقصاں بنائیے

دوڑائیے وہ روح کہ ہر ذرہ جاگ اٹھے

اجڑے ہوئے وطن کو گلستاں بنائیے

پڑی رہے گی اگر غم کی دھول شاخوں پر

 پڑی رہے گی اگر غم کی دھول شاخوں پر

اداس پھول کھِلیں گے ملول شاخوں پر

ابھی نہ گلشنِ اردو کو بے چراغ کہو

کھِلے ہوئے ہیں ابھی چند پھول شاخوں پر

نکل پڑے ہیں حفاظت کو چند کانٹے بھی

ہوا ہے جب بھی گلوں کا نزول شاخوں پر

جو اپنے سر پہ سر شاخ آشیاں گزری

 جو اپنے سر پہ سرِ شاخ آشیاں گزری

کسی کے سر پہ قفس میں بھی وہ کہاں گزری

اسی کی یاد ہے مہتاب شام ہائے فراق

وہ ایک شب کہ سرِ کُوئے مہ وشاں گزری

جہاں میں شوق کبھی رائیگاں نہیں جاتا

میں کیوں کہوں کہ مِری عمر رائیگاں گزری

ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے

 ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے

زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارا کر کے

اپنے اس کام پہ وہ راتوں کو روتا ہو گا

بیچ دیتا ہے جو ذرے کو ستارہ کر کے

غم کے مارے ہوئے ہم لوگ مگر کالج میں

دل بہل جاتا ہے پریوں کا نظارہ کر کے

گیت؛ بارات آئی

 گیت


بارات آئی

سولہ سنگھار کئے اس کو سکھیوں نے سہانی رات آئی

بارات آئی

سبھی نے اس کو ینس ینس چھیڑا، نا سمجھی نادانی میں

جسم ابٹن سے مل مل دھویا، چاندی بھگو کر پانی میں

جوڑے میں گوندھے گلاب کے گجرے، ہاتھوں میں بدھیاں بیلے کی

ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے

 ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے

دنیا میں محبت کا پرچار بھی کرنا ہے

بے خوابیٔ پیہم سے بیزار بھی کرنا ہے

بستی کو کسی صورت بیدار بھی کرنا ہے

دُشمن کے نشانے پر کب تک یونہی بیٹھیں گے

خود کو بھی بچانا ہے اور وار بھی کرنا ہے

میں اپنی آرزو کہہ دوں

 میں اپنی آرزو کہہ دوں

میں اپنی جستجو کہہ دوں

محبت کیسا جذبہ ہے

میں تجھ سے روبرو کہہ دوں

تو سن لو اے مِرے ہمدم

محبت پاک جذبوں کی

زندگی ہنستی ہے صبح و شام تیرے شہر میں

 زندگی ہنستی ہے صبح و شام تیرے شہر میں

عام ہے دورِ مئے گلفام تیرے شہر میں

کس قدر مشہور ہیں وہ لوگ جو ہیں بُوالہوس

اور اک ہم ہیں کہ ہیں بدنام تیرے شہر میں

کوئی سودائی کوئی کہتا ہے دیوانہ مجھے

روز ملتا ہے نیا اک نام تیرے شہر میں

وہ تو دکھ دے کے ہمیں بھول گیا ہوتا ہے

 وہ تو دُکھ دے کے ہمیں بھُول گیا ہوتا ہے

ہم نے پر سارا حساب اس کا رکھا ہوتا ہے

وصل کے لمحوں میں بھی ذہن سے جاتا نہیں پھر

اس نے جو کچھ ہمیں رنجش میں کہا ہوتا ہے

کچھ نہیں اس کا بگڑتا ہے جدائی سے اگر

ہم کو بھی کون سا کچھ فرق پڑا ہوتا ہے

ترے پہلو میں لے آئی بچھڑ جانے کی خواہش

 تِرے پہلو میں لے آئی بچھڑ جانے کی خواہش​

کہ گل کو شاخ تک لاتی ہے جھڑ جانے کی خواہش​

تمہیں بسنے نہیں دیتا ہے بربادی کا دھڑکا​

ہمیں آباد رکھتی ہے اجڑ جانے کی خواہش​

​خلا میں جو ستاروں کے غبارے اڑ رہے ہیں​

انہیں پھیلائے رکھتی ہے سُکڑ جانے کی خواہش​

ظلم کو تیرے یہ طاقت نہیں ملنے والی

 ظلم کو تیرے یہ طاقت نہیں ملنے والی

دیکھ تجھ کو مِری بیعت نہیں ملنے والی

لوگ کردار کی جانب بھی نظر رکھتے ہیں

صرف دستار سے عزت نہیں ملنے والی

شہر تلوار سے تم جیت گئے ہو، لیکن

یوں دلوں کی تو حکومت نہیں ملنے والی

میرے گھر میں امن سکوں کی باتیں کرتا ہے

 میرے گھر میں امن، سکوں کی باتیں کرتا ہے

جانے کیا دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے

گلیاں چپ ہیں قاتل بھی خاموش ہوٸے تو کیا

سُن رکھا ہے خون بھی اپنی باتیں کرتا ہے

چیخ رہا ہے جھوٹ عدالت میں یہ دیکھو تو

جرم ہے کہ یہ شخص تو سچی باتیں کرتا ہے

یہ دن اس طرح کٹ گیا ہے کہ جیسے نسیں کٹ گئی ہوں

 یہ دن اِس طرح کٹ گیا ہے کہ جیسے نسیں کٹ گئی ہوں

رگیں اینٹھتی ہیں

کشیدیں تو کیسے لہو کو کشیدیں

کہاں سے کشیدیں

بھلا کیسے قاشوں کٹے اس اذیت بھرے دن کو واپس بلائیں

تجھے یہ بتائیں

جب اس نے مجھ کو چھوڑنے کا فیصلہ لیا

 جب اس نے مجھ کو چھوڑنے کا فیصلہ لیا

آنکھوں سے اشکوں کا بھی سمندر بہا لیا

سارے غموں کو اپنے گلے سے لگا لیا

جب ہاتھ اس نے ہاتھ سے یکدم چھڑا لیا

سب کچھ لُٹا دیا محبت کی راہ میں

دیپک کی مثل دل کو ہی میں نے جلا لیا

یہ کار خیر ہے اس کو نہ کار بد سمجھو

 یہ کارِ خیر ہے، اس کو نہ کارِ بد سمجھو

مجھے تباہ کرو، اور اسے مدد سمجھو

میں اِس کہانی میں ترمِیم کر کے لایا ہُوں

جو تم کو پہلے سُنائی تھی، مُسترد سمجھو

مجھے خدا سے نہیں ہے کوئی گِلہ، لیکن

تم آدمی ہو تو پھر آدمی کی حد سمجھو

غم کوئی بھی نہ ملا ہم کو ترے غم کی طرح

غم کوئی بھی نہ ملا ہم کو ترے غم کی طرح

زندگی ہم نے گزاری ہے محرم کی طرح

اپنی خوشیوں میں بھی شامل ہے تری یاد حسینؑ

اپنے ہونٹوں پہ تبسم بھی ہے ماتم کی طرح

میں جو رویا تو کچھ ایسا مجھے محسوس ہوا

روئی ہر چیز مرے دیدۂ پُرنم کی طرح

یہ نرم ہاتھ مرے ہاتھ میں تھما دیجے

 یہ نرم ہاتھ مِرے ہاتھ میں تھما دیجے

تھکا ہوا ہوں ذرا دل کو حوصلہ دیجے

بس اب ملے ہیں تو کیجے نہ آس پاس کا خوف

جو سنگِ راہ ملے پاؤں سے ہٹا دیجے

یہ اور دور ہے اور سب یہاں مجھی سے ہیں

وہ کوہ کن کی حکایات اب بھُلا دیجے

رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ

 رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ

مجھی کو مجھ سے رخصت کر گیا وہ

نہ ٹھہرا کوئی موسم وصلِ جاں کا

متعین راہِ فرقت کر گیا وہ

من و تو کی گری دیوار سر پر

بیاں کیسی حقیقت کر گیا وہ

کیا عجیب رشتہ ہے درد اور محبت میں

 مختصر نظم


کیا عجیب رشتہ ہے

درد اور محبت میں 

جس قدر محبت میں، شدتیں مہکتی ہیں 

درد بڑھتا جاتا ہے


عاطف سعید

دراڑیں پڑ چکی ہیں

 کہانی کا آج


دراڑیں پڑ چکی ہیں

ادھر ٹیلے کے پچھواڑے، جہاں کچھ

سفیدے، سیب، آلوچے کھڑے ہیں

شکستہ سا ہے اک معبد وہاں پر

زمانوں سے دکھائی دے یہاں پر

دنیا شاید بھول رہی ہے

 دنیا شاید بھول رہی ہے

چاہت کچھ اونچا سنتی ہے

جب چادر سر سے اوڑھی ہے

موت سرہانے پر دیکھی ہے

اتنا سچا لگتا ہے وہ

دیکھو تو حیرت ہوتی ہے

ایسے لمحے پر ہمیں قربان ہو جانا پڑا

 ایسے لمحے پر ہمیں قربان ہو جانا پڑا 

ایک ہی لغزش میں جب انسان ہو جانا پڑا 

بے نیازانہ گزرنے پر اٹھیں جب انگلیاں 

مجھ کو اپنے عہد کی پہچان ہو جانا پڑا 

زندگی جب نا شناسی کی سزا بنتی گئی 

رابطوں کی خود مجھے میزان ہو جانا پڑا 

کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں

 کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں

تو پھر مہینوں مسلسل عذاب جاگتے ہیں

کسی کے لمس کی تاثیر ہے کہ برسوں بعد

مِری کتابوں میں اب بھی گلاب جاگتے ہیں

برائی کچھ تو یقیناً ہے بے حجابی میں

مگر وہ فتنے جو زیر نقاب جاگتے ہیں

چلیں گے تھوڑا دم لے کر ذرا سورج نکلنے دو

چلیں گے تھوڑا دم لے کر ذرا سورج نکلنے دو

بدلنے دو ذرا منظر، ذرا سورج نکلنے دو

صف ماتم بچھی ہے قتل شب پر بزم انجم میں

بپا ہے عرصۂ محشر ذراسورج نکلنے دو

اندھیرے چند لمحوں میں بساط اپنی اٹھا لیں گے

بہے گا نور سڑکوں پر ذرا سورج نکلنے دو

تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں

 تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں

اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں

ہر آن تسلی ہے،۔ ہر لحظہ تشفی ہے

ہر وقت ہے دلجوئی، ہر دَم ہیں مداراتیں

کوثر کے تقاضے ہیں، تسنیم کے وعدے ہیں

ہر روز یہی چرچے،۔ ہر رات یہی باتیں

شام بے مہر میں اک یاد کا جگنو چمکا

 شام بے مہر میں اک یاد کا جگنو چمکا

اور پھر ایک ہی چہرہ تھا کہ ہر سو چمکا

اے چراغِ نگہِ یار میں جاں سے گزرا

اب مجھے کیا جو پئے دِلزدگاں تو چمکا

روز ملتے تھے تو بے رنگ تھا تیرا ملنا

دور رہنے سے تِرے قرب کا جادو چمکا

پس غبار طلب خوف جستجو ہے بہت

 پسِ غبارِ طلب خوفِ جستجو ہے بہت

رفیقِ راہ مگر ان کی آرزو ہے بہت

لرز کے ٹوٹ ہی جائے نہ آج برگِ بدن

لہو میں قُرب کی گرمی رگوں میں لَو ہے بہت

اُلجھ گیا ہے وہ خواہش کے جال میں یعنی

فریبِ رنگِ ہوس اب کے دُو بہ دُو ہے بہت

گلشن میں یہ کمال تجھے دیکھ کر ہوا

 گلشن میں یہ کمال تجھے دیکھ کر ہُوا

پھولوں کا رنگ لال تجھے دیکھ کر ہوا

مدت کے بعد آج ملے ہیں تو جان من

دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہوا

آؤ ہم آج چاند کا قرضہ اتار دیں

تاروں کو یہ خیال تجھے دیکھ کر ہوا

یہ برفانی حسیں موسم

 مختصر نظم


یہ برفانی حسیں موسم

لگے جیسے

فرشتوں نے پروں سے

گرد جھاڑی ہو


سمن شاہ

خواب نچڑے پڑے ہیں مقتل میں

 خواب، نچڑے پڑے ہیں مقتل میں 

اشک سہمے پڑے ہیں مقتل میں 

نبض کاٹی گئی ہے جذبوں کی 

سانس اکھڑے پڑے ہیں مقتل میں 

جیسے سورج ڈھلا ہو میدان میں 

رنگ بکھرے پڑے ہیں مقتل میں 

کنائے کچھ ملے جب مصحفی سے

 کنائے کچھ ملے جب مصحفی سے

اٹھائے لفظ دکن کے ولی سے

ملے کیسے، بتانا ہی کسے ہے؟

گُہر درویش کی دریا دلی سے

نہیں بھایا فلک کے رہ نوردو

تمہاری راہ چلنا کج روی سے

پرندہ قید میں کل آسمان بھول گیا

 پرندہ قید میں کل آسمان بھُول گیا

رہا تو ہو گیا لیکن اڑان بھول گیا

مِرے شکار کو ترکش میں تیر لایا مگر

وہ میری جان کا دشمن کمان بھول گیا

اسے تو یاد ہے سارا جہان میرے سوا

میں اس یاد میں سارا جہان بھول گیا

بٹھلا کے اسے جس میں یہ دل ہو گیا روگی

 بٹھلا کے اسے جس میں یہ دل ہو گیا روگی

پھرتی ہے نِگہ میں ابھی گاڑی کی وہ بوگی

کیا اب بھی بچھڑ جاؤں گا میں تجھ سے مِلے بِن

کیا اب بھی سَپھل تیری مِری پرِیت نہ ہو گی

دل تُو نے دیا تھا کسے؟ پہچان لے جا کر

جنگل سے پلٹ آئے ہیں پھر گاؤں میں جوگی

Tuesday, 23 February 2021

بسترِ کرب پہ جب نیند جلائی میں نے

 بسترِ کرب پہ جب نیند جلائی میں نے

تب کسی خواب کی بنیاد اٹھائی میں نے

زخم ایسے تھے کہ ہر شخص کے آگے رکھے

بات ایسی تھی کہ خود سے بھی چھپائی میں نے

حرمتِ غم کے لیے خود کو اذیت بخشی

پھر اسی درد سے تسکین بھی پائی میں نے

بجھنے لگی ہے شام ستارہ اداس ہے

 بجھنے لگی ہے شام ستارہ اداس ہے

اک دوست ہے جہاں میں ہمارا، اداس ہے

افسردگی میں ارض و سماں ڈھل گئے تمام

خاموش ہے نگاہ، نظارہ اداس ہے

دو نیم ہو چکا ہے کوئی آئینہ کہیں

عکسِ چراغِ ذات کا پارہ اداس ہے

حبس کی بے سر و سامانی پر

 حبس کی بے سر و سامانی پر

جل گئے غم کے اصفہانی پر

ہے وہ درگاہ کا ریشمی دھاگہ

گانٹھ اس کو نہیں لگانی پر

سب گئے، ہم نہیں گئے لیکن

ایک محفل تھی جاوِدانی پر

بجھے چراغ جلانا اسی کو آتا ہے

 بجھے چراغ جلانا اسی کو آتا ہے

خزاں میں پھول کِھلانا اسی کو آتا ہے

وہ سامنے ہو تو، پھر کچھ نظر نہیں آتا

دل و نگاہ پہ چھانا اسی کو آتا ہے

متاعِ حسن کو شرم و حیا کے آنچل میں

چھپا چھپا کے دِکھانا اسی کو آتا ہے

طویل تر ہے سفر مختصر نہیں ہوتا

 طویل تر ہے سفر مختصر نہیں ہوتا

محبتوں کا شجر بے ثمر نہیں ہوتا

پھر اس کےبعد کئی لوگ مل کے بچھڑےہیں

کسی جدائی کا دل پر اثر نہیں ہوتا

ہر ایک شخص کی اپنی ہی ایک منزل ہے

کوئی کسی کا یہاں ہم سفر نہیں ہوتا

ساری دنیا میں بے وفائی ہے

 ساری دنیا میں بے وفائی ہے

”اس جہاں میں یہی برائی ہے“

شمع جب پیار کی جلائی ہے

اک خوشی روح میں سمائی ہے

چھوڑ کر وسوسوں میں اپنے مجھے

ایک امید پھر جگائی ہے

جس جگہ آگہی مقید ہے

 جس جگہ آگہی مقیّد ہے

اس جگہ زندگی مقید ہے

بجھ رہے ہیں گلاب سے چہرے

کیا یہاں تازگی مقید ہے

چاند جس کا طواف کرتا تھا

اب وہاں خاک سی مقید ہے

کسی کی سننی نہیں ہے اگر مگر میں نے

 کسی کی سننی نہیں ہے اگر مگر میں نے

جواب دینا ہے ڈنکے کی چوٹ پر میں نے

ابھی سے سائے میں جا کے نگوڑا بیٹھ گیا

ابھی تو دل کو لگایا تھا کام پر میں نے

تِری نظر میں تو یہ سرسری سی کوشش ہے

مجھے پتا ہے بنایا ہے کیسے گھر میں نے

مانگ کر روز ہی لہو مجھ سے

 مانگ کر روز ہی لہو مجھ سے

شام ہوتی ہے سرخرو مجھ سے

کوئی منزل نہیں مِری منزل

تنگ ہے میری جستجو مجھ سے

ریت پر نقشِ رائیگانی تھا

اور ملتا تھا ہو بہو مجھ سے

لوہار جانتا نہیں

 لوہار جانتا نہیں


ہمارے گاؤں کا لُہار اب درانتیاں بنا کے بیچتا نہیں

وہ جانتا ہے فصل کاٹنے کا وقت کٹ گیا سروں کو کاٹنے کے شغل میں

وہ جانتا ہے بانجھ ہو گئی زمین جب سے لے گئے نقاب پوش گاؤں کے مویشیوں کو شہر میں

جو برملا صدائیں دے کے خشک خون بیچتے ہیں بے یقین بستیوں کے درمیاں

اُداس دل، خموش اور بے زباں کباڑ کے حصار میں سیاہ کوئلوں سے گفتگو

میں ہوں مجبور پر الله تو مجبور نہیں

 میں ہوں مجبور پر الله تو مجبور نہیں

تجھ سے میں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں

امتحاں سخت سہی پر دل مومن ہی وہ كيا

جو ہر ایک حال میں امید سے معمور نہیں

ہم کو تقدیر الٰہی سے نہ شکوہ نہ گِلہ

اہلِ تسلیم وہ رضا کا تو یہ دستور نہیں

دل آباد کا برباد بھی ہونا ضروری ہے

دلِ آباد کا برباد بھی ہونا ضروری ہے

جسے پانا ضروری ہے اسے کھونا ضروری ہے

مکمل کس طرح ہو گا تماشہ برق و باراں کا

تِرا ہنسنا ضروری ہے مِرا رونا ضروری ہے

بہت سی سرخ آنکھیں شہر میں اچھی نہیں لگتیں

تِرے جاگے ہوؤں کا دیر تک سونا ضروری ہے

ترے خیال کی لو میں جدھر جدھر جائیں

 تِرے خیال کی لو میں جدھر جدھر جائیں

چراغ جل اٹھیں منظر نکھر نکھر جائیں

جو چاہتے ہیں سرِِ منزلِ سحر جائیں

سکوتِ شام کی گہرائی میں اتر جائیں

وہ خاک زمزمۂ آگہی خریدیں گے

شکستِ ساز کی جھنکار سے جو ڈر جائیں

اب کسی شاخ پہ ہلتا نہیں پتہ کوئی

 اب کسی شاخ پہ ہِلتا نہیں پتہ کوئی

دشت سے عمر ہوئی گزرا نہ جھونکا کوئی

لب پہ فریاد نہ ہے آنکھ میں قطرہ کوئی

وادئ شب میں نہیں ہم سفر اپنا کوئی

خندۂ موج مِری تشنہ لبی نے جانا

ریت کا تپتا ہوا دیکھ کے ذرہ کوئی

جب دیپ جلے آنا جب شام ڈھلے آنا

 فلمی گیت


جب دِیپ جلے آنا، جب شام ڈھلے آنا

سنکیت ملن کا بھول نہ جانا

میرا پیار نہ بِسرانا

جب دیپ 🪔 جلے آنا


میں پلکن ڈگر بہاروں گا، تیری راہ نہاروں گا

نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے

 فلمی گیت


نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے

مگر ہم ہمیشہ تمہارے رہیں گے

نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے ۔۔۔


بچھڑ کر چلے جائیں تم سے کہیں

تو یہ نہ سمجھنا محبت نہیں

سوز الم سے دور ہوا جا رہا ہوں میں

 سوزِ الم سے دور ہُوا جا رہا ہوں میں

وہ تو جلا رہے ہیں بُجھا جا رہا ہوں میں

مانوسِ التفات ہوا جا رہا ہوں میں

دیکھ اے نگاہِ ناز مٹا جا رہا ہوں میں

جلووں کی تابشیں ہیں کہ اللہ کی پناہ

رنگیں تجلیوں میں گھِرا جا رہا ہوں میں

موسم گل بھی مرے گھر آیا

 موسمِ گل بھی مِرے گھر آیا

جانے والا نہ پلٹ کر آیا

آج یوں دل نے بہائے آنسو

آنکھ سے اشک نہ باہر آیا

لُٹ گئی ضبط کی بستی آخر

تیری یادوں کا جو لشکر آیا

وہ جان انتظار آئے نہ آئے

 وہ جانِ انتظار آئے نہ آئے

مِرے دل کو قرار آئے نہ آئے

یقیں ہے آئے گا دور مسرت

کسی کو اعتبار آئے نہ آئے

خزاں کا دور تو ہو جائے رخصت

گلستاں میں بہار آئے نہ آئے

اے چندر کانت تمہارے انتظار میں

 اے چندر کانت


تمہارے انتظار میں 

دل بے قرار اور 

روح اندھیروں کی لپیٹ میں ہے

آؤ خدارا کہ 

آنکھوں کی دہلیز پر پلکیں کپکپا رہی ہیں

ترے خیال تری آرزو سے دور رہے

 تِرے خیال تِری آرزو سے دور رہے

نواب ہو کے بھی ہم لکھنؤ سے دور رہے

بدن کے زخم تو چارہ گروں نے سی ڈالے

مگر یہ روح کے چھالے رفُو سے دور رہے

زمیں پہ ٹپکا تو یہ انقلاب لائے گا

اسے بتا دو، وہ میرے لہو سے دور رہے

آئینے کا ساتھ پیارا تھا کبھی

 آئینے کا ساتھ پیارا تھا کبھی

ایک چہرے پر گزارا تھا کبھی

آج سب کہتے ہیں جس کو ناخدا

ہم نے اس کو پار اُتارا تھا کبھی

یہ مِرے گھر کی فضا کو کیا ہوا

کب یہاں میرا تمہارا تھا کبھی؟

جس کو قریب پایا اسی سے لپٹ گئے

 جس کو قریب پایا اسی سے لِپٹ گئے

سورج ڈھلا تو لوگ قبیلوں میں بٹ گئے

وہ گل پرست جن پہ بہاروں کو ناز تھا

آئی خزاں تو پائے خزاں سے لپٹ گئے

کس کس کی میں ہجوم میں آنکھیں نکالتا

اچھا ہوا کہ آپ دریچے سے ہٹ گئے

اونگھتے دن چیختی راتوں سے بچنا چاہیے

 اونگھتے دن، چیختی راتوں سے بچنا چاہیے

وقت کی بے کیف سوغاتوں سے بچنا چاہیے

ہر تکلف، دل نشیں باتوں سے بچنا چاہیے

مخلصو اخلاص کی گھاتوں سے بچنا چاہیے

اپنی بے لوثی کا جو اظہار کرتے ہیں سدا

ایسے لوگوں کی ملاقاتوں سے بچنا چاہیے

آنکھیں جہاں ہوں بند اندھیرا وہیں سے ہے

 آنکھیں جہاں ہوں بند اندھیرا وہیں سے ہے

جاگے ہیں ہم جہاں سے سویرا وہیں سے ہے

جس جا سے ہے شروع مِرا کنجِ آرزو

سایہ بھی نخلِ غم کا گھنیرا وہیں سے ہے

اجڑا ہوا وہ باغ جہاں ہم جدا ہوئے

آسیبِ غم کا دل پہ بسیرا وہیں سے ہے

جستجو نے تری ہر چند تھکا رکھا ہے

 جستجو نے تِری ہر چند تھکا رکھا ہے

پھر بھی کیا غم کہ اسی میں تو مزا رکھا ہے

کچھ تو اپنی بھی طبیعت ہے گریزاں ان سے

کچھ مزاج ان کا بھی بر دوش ہوا رکھا ہے

کیا تجھے علم نہیں تیری رضا کی خاطر

میں نے کس کس کو زمانے میں خفا رکھا ہے

آئنے میں خود اپنا چہرا ہے

 آئینے میں خود اپنا چہرا ہے

پھر بھی کیوں اجنبی سا لگتا ہے

جس پہ انسانیت کو ناز تھا کل

اب وہ سب سے بڑا درندہ ہے

فکر بھی ہے عجیب سا جنگل

جس کا موسم بدلتا رہتا ہے

دنیا سمجھ رہی ہے کہ پتھر اچھال آئے

 دنیا سمجھ رہی ہے کہ پتھر اچھال آئے

ہم اپنی پیاس جا کے سمندر میں ڈال آئے

جو پھانس چبھ رہی ہے دلوں میں وہ تو نکال

جو پاؤں میں چبھی تھی اسے ہم نکال آئے

کچھ اس طرح سے ذکر تباہی سنائیے

آنکھوں میں خون آئے نہ شیشے میں بال آئے

ہم ترے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں

 ہم تِرے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں

ریگ زاروں میں پھریں خاک اڑانے لگ جائیں

ڈھونڈتا رہتا ہوں ہاتھوں کی لکیروں میں تجھے

چاہتا ہوں مِرے ہاتھوں میں خزانے لگ جائیں

یہ الگ بات کہ تجدیدِ تعلق نہ ہوا

پر اسے بھولنا چاہوں تو زمانے لگ جائیں

بے وفاؤں کو وفاؤں کا خدا ہم نے کہا

 بے وفاؤں کو وفاؤں کا خدا ہم نے کہا

کیا ہمیں کہنا تھا اے دل اور کیا ہم نے کہا

لب کو غنچہ زلف کو کالی گھٹا ہم نے کہا

دل نے ہم کو جو بھی کہنے کو کہا ہم نے کہا

کس قدر مجبور ہوں گے اس گھڑی ہم اے خدا

جب تِرے بے فیض بندوں کو خدا ہم نے کہا

ہمارا کیا جو مٹی ہیں

 ہمارا کیا، جو مٹی ہیں 

مزاجِ یار کے اک چاک پہ رکھی ہوئی مٹی

ہمیں تو مرمریں ہاتھوں سے 

کچھ بننے کی خواہش ہے

مزاجِ یار کی مرضی ہے

جو چاہے شکل دے دے


تنویر سلیمی

ٹھہر گئے تھے سرِ رہگزار بس یونہی

 ٹھہر گئے تھے سرِ رہگزار بس یونہی

تمہارا کرتے رہے انتظار بس یونہی

یہ جان کر بھی کہ تُو اپنی دسترس میں نہیں

وفا کا کھینچ دیا اک حصار بس یونہی

وہ میرا تھا ہی نہیں میں کسی سے کیوں کہتی

یہ راز ہو گیا ہے آشکار بس یونہی

پھڑپھڑاتا ہوا پرندہ ہے مان لو کہ دعا پرندہ ہے

 پھڑپھڑاتا ہوا پرندہ ہے

مان لو کہ دعا پرندہ ہے

اس کڑی دھوپ میں مِرے ہمراہ

ریت، آنسو، ہوا پرندہ ہے

خواہشوں کا سفر نہیں رکتا

یہ عجب بھاگتا پرندہ ہے

بہت بگڑا ہے میرا دل بنا دے

 نعت رسول مقبولﷺ


بہت بگڑا ہے میرا دل بنا دے

میرے دل کو کسی قابل بنا دے

اسے دنیا نے گھیرا ہے خدایا

تُو اپنے ذکر کا شاغل بنا دے

پھنسا ہے دلدلِ عصیاں کے اندر

تُو اس طوفان کو ساحل بنا دے

جوش وحشت میں مسلم ہو گیا اسلام عشق

 جوش وحشت میں مسلم ہو گیا اسلام عشق

کوچہ گردی سے مِری پورا ہوا احرام عشق 

میرے مرنے سے کھُلا حالِ محبت خلق پر 

سنگِ مرقد بن گیا آئینہ⌗ انجام عشق 

یہ صلہ پایا وفا کا حسن کی سرکار سے 

چہرۂ عاشق کی زردی ہے زر انعام عشق 

ہمیں تم چاہتے تو ہو

 ہے بس تم سے کہنا ہے


ہمیں تم چاہتے تو ہو

مگر کچھ اس طرح چاہو

کہ ہر لمحہ محبت کا

ہو جیسے آخری لمحہ

ہے بس تم سے کہنا ہے


سمن شاہ

لبوں پہ شکوۂ ایام بھی نہیں ہوتا

 لبوں پہ شکوۂ ایام بھی نہیں ہوتا

زباں پہ اب تو تِرا نام بھی نہیں ہوتا

کبھی کبھی اسے سوچوں تو سوچ لیتا ہوں

کبھی کبھار یہ اک کام بھی نہیں ہوتا

یہ میکدہ ہے نہیں مے کشو یہ دھوکا ہے

یہاں تو نشہ تہہِ جام بھی نہیں ہوتا

میں مسرور ہوں اس سے مہجور ہو کر

 میں مسرور ہوں اس سے مہجور ہو کر

کہ مجھ سے ملا وہ بہت دور ہو کر

تِری شانِ جدت پسندی کے قرباں

کہ مختار ٹھہرا میں مجبور ہو کر

وہ شکلیں جو دل میں کبھی جلوہ گر تھیں

نظر  آئیں برق سرِ طور ہو کر

گھومتا ہے ادھر ادھر تنہا

 گھومتا ہے ادھر ادھر تنہا

اک مسافر نگر نگر تنہا

ایسا لگتا ہے مر گئے جذبے

اس نگر میں ہے ہر بشر تنہا

جی میں آتا ہے ہم بنا ڈالیں

شہر سے دور ایک گھر تنہا

کبھی مکاریوں پر اپنی حیراں بھی نہیں ہوتے

 کبھی مکاریوں پر اپنی حیراں بھی نہیں ہوتے

خطائیں کرتے رہتے ہیں پشیماں بھی نہیں ہوتے

زمانے سے ہیں سجدہ ریز ہم، لیکن مِرے بھائی

فرشتے ہوں گے کیا ہم سب جب انساں بھی نہیں ہوتے

کسی کے دل میں کیا ہے؟ کیسے اندازہ کرے کوئی

بہت سے لوگ چہرے سے نمایاں بھی نہیں ہوتے