Monday, 30 September 2024

اک دیا رات گئے دل میں جلانا تھا ابھی

 اک دیا رات گئے دل میں جلانا تھا ابھی

تجھ کو پانے کے لیے خود کو بھلانا تھا ابھی

درد چمکا ہی نہیں تھا جو، سجایا دل پر

حرف لکھا ہی نہیں تھا جو، مٹانا تھا ابھی

ہاں، کسی خواب کو تعبیر سے رکھنا تھا جدا

ہاں، کسی یاد کو خوش رنگ بنانا تھا ابھی

یار حال دل تباہ میں گم

 یار حال دل تباہ میں گُم

اور میں حیرتوں کی تھاہ میں گم

کیا وسیع و عریض دنیا تھی

ہو گئی جو مِری نگاہ میں گم

زندگی نام سانحوں کا اور

دل ابھی تک ہے پہلی آہ میں گم

تیرا کیا ہے میری آنکھ اگر نم ہے

 تیرا کیا ہے میری آنکھ اگر نم ہے

میرا اپنا باغ ہے، اپنا موسم ہے

پائوں تلے گر آٹھ زمینیں بھی رکھ لوں

سر کے اوپر ایک فلک بھی کیا کم ہے

پہلے سے کچھ سرد ہے یار کا لہجہ بھی

آتشدان میں آگ بھی کچھ کچھ مدھم ہے

ماں بھلا کیسے تِرا پیار بھلا پاؤں گا

 ماں بھلا کیسے تِرا پیار بھُلا پاؤں گا

کیسے ممتا کا وہ اظہار بھلا پاؤں گا

بدلہ چاہت کا تِری کون چُکا سکتا ہے

کون بدبخت تجھے دل سے بھلا سکتا ہے

رات بھر جاگ کے سینے سے لگائے رکھنا

خود نہیں سونا، مگر بچہ سُلائے رکھنا

نیک بختی کی شروعات ہوئی نعت ہوئی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 نیک بختی کی شروعات ہوئی، نعت ہوئی

لفظ و معنی کی ملاقات ہوئی، نعت ہوئی

ذکرِ محبوب و محب لازم و ملزوم ہوئے

رب تعالیٰ کی جہاں بات ہوئی، نعت ہوئی

یاد سرکار مدینہﷺ کی قدم بوسی سے

مُشکبو ارضِ خیالات ہوئی، نعت ہوئی

اٹھ کھڑے ہوں تو پل میں الٹ جائے رن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اُٹھ کھڑے ہوں تو پَل میں اُلٹ جائے رَن

تھرتھرائے زمیں،۔ اور کانپے گگن

پھر ہوں کُشتوں کے پُشتے بچشمِ زدن

شیر شمشیر زنؑ، شاہِ خیبر شکنؑ

پرتوِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

سارے غزوات میں مصطفٰیؐ کے معیں

تو قبلہ گہ عرصہ گہ ہست و عدم ہے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 تُو قبلہ گہِ عرصہ گہِ ہست و عدم ہے

تُو مبدۂ امکان و تجلئ قدم ہے

تُو مکتبِ آگاہئ اسرارِ ہویت

تُو تاجِ مسانیدِ خطیبانِ حِکم ہے

ہے لا یتجزیٰ تِرا ہر جزوِ تکرم

ہر وصف میں تو جوہرِ تفریدِ اتم ہے

بڑا ہی پاک و مطہر ہے آمد سرور

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بڑا ہی پاک و مطہر ہے آمد سرورﷺ

ظہور زیست سے بہتر ہے آمد سرورﷺ

جہان بھر سے ختم ہوگئی ہے تاریکی

ہوا ہے دیکھیے! انور ہے آمد سرورﷺ

گرا ہے کعبہ میں لات و منات کیوں آخر

صدا یہ آئی مچل کر ہے آمد سرورﷺ

زمانہ جب خزاں کی دھوپ میں صدیاں گزار آیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زمانہ جب خزاں کی دھوپ میں صدیاں گزار آیا

پکار اٹھیں فضائیں باغ میں جان بہار آیا

شب تاریک لمبی ختم ہونے میں نہ آتی تھی

وہ جب خورشید نکلا ظلمت شب کو نکھار آیا

ہوائیں بگڑی تہذیبوں کا نوحہ کرتی پھرتی تھیں

وہ اک اُمی تھا، جو تہذیب کا چہرہ سنوار آیا

خصوصی نعت دریچہ حضور! وا ہو جائے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خصوصی نعت دریچہ حضورؐ! وا ہو جائے

حضورﷺ! آج تو واصف ہی خود ثنا ہو جائے

حضورﷺ! آنکھ سے برسے وہ ابرِ لطفِ ثناء

حضورﷺ! باغِ عقیدت ہرا بھرا ہو جائے

ادھر بھی لطف اے چشمِ زوارِ او ادنیٰ

کہ خاکِ دل کا بھی رتبہ فلک نما ہو جائے

Sunday, 29 September 2024

میری نادانی مرے دشمن کی دانائی ہوئی

 وہ بڑھا آگے جب اس جانب سے پسپائی ہوئی

میری نادانی مرے دشمن کی دانائی ہوئی

عمر بھر کی شوخ پروازوں سے تنگ آئی ہوئی

تیتری اک پھول پر آ بیٹھی السائی ہوئی

ہنسنے والوں کی ہنسی پر مسکرا دیتے ہیں ہم

اے زہے نامے کہ میری رہ میں رسوائی ہوئی

باغ ہستی کی پائمالی ہے

 باغِ ہستی کی پائمالی ہے

خون سے تر ہر ایک ڈالی ہے

بُلبلوں کی زباں پہ ہے پہرہ

آہ، زاغوں کی کوتوالی ہے

آگ برسا رہا ہے پھولوں پر

ایسا ظالم، چمن کا مالی ہے

کیا کچھ وہ مقام اپنا بھی پہچان رہے ہیں

 کیا کچھ وہ مقام اپنا بھی پہچان رہے ہیں

جو لوگ کہ دِن رات خلا چھان رہے ہیں

اب ان کی جبیں ظلمت و نفرت کی جبیں ہے

جو کہتے ہیں انسان کہ انسان رہے ہیں

یہ شاخیں کہ دامن میں کوئی پھول نہیں ہے

کیا خاک وہ گلشن کے نگہبان رہے ہیں

عدل رقصاں ہے تو سرکار نشے میں دھت ہے

 عدل رقصاں ہے، تو سرکار نشے میں دھت ہے

لشکرِ حفظ کا سالار نشے میں دھت ہے

لڑکھڑاتا ہوا میں ڈھونڈ رہا ہوں جس کو 

میرا حامی و مدد گار نشے میں دھت ہے

اتنی جذیات سے تخلیق کہاں ممکن تھی

ایسا لگتا ہے کہ فنکار نشے میں دھت ہے

ہماری گائیکی ہے بر سر فریاد طبلے پر

 ہماری گائیکی ہے بر سرِ فریاد طبلے پر

ہمارے حُسن ظن کو مل رہی ہے داد طبلے پر

گویوں کے گھرانے کو عجب شوق ریاضت ہے

کہ سنگت کر رہی ہے باپ کی اولاد طبلے پر

کلاسیکی دُھنوں کے خشمگیں بیباک لہجے میں

سجائی کس نے ہے یہ ظلم کی بنیاد طبلے پر

ہے نظر صرف ان کی رحمت پر

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے نظر صرف ان کی رحمت پر

ان کے فیض و کرم کی وسعت پر

جاں لٹاتے ہیں خسروانِ جہاں

ان کی ناموس ان کی عظمت پر

خاکِ طیبہ کو چومنے والے

ناز کرتے ہیں اپنی قسمت پر

آئی اجل کو ٹالنے والے تمہیں تو ہو

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت 


آئی اجل کو ٹالنے والے تمہیں تو ہو

تنکے میں جان ڈالنے تمہیں تو ہو

پُرساں جہاں میں جن کا نہ کوئی، نہ سرپرست

ان بے کسوں کو پالنے والے تمہیں تو ہو

لے ڈوبنے کو تھی جنہیں دل کی شکستگی

آقاﷺ! انہیں سنبھالنے والے تمہیں تو ہو

آپ کا کہنا ہی کیا آپ ہیں خیرالانام

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آپؐ کا کہنا ہی کیا، آپؐ ہیں خیرالانامﷺ

آپؐ پہ لاکھوں دُرود آپؐ پہ لاکھوں سلام


آپﷺشہِ مشرقین آپﷺ شہِ مغربین

فاتحِ بدر و حنینﷺ جدِ امامِ حسینؑ

آمنہؑ کے نورِ عین، قلبِ غریباں کے چین

تاجِ شہی آپؐ کے قدموں کی ٹھوکر کا نام

ذکر رسول سے اسے پھر نعت خواں کرو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جو جو بھی بات دل میں ہے جا کر عیاں کرو​

آقائے دو جہاںﷺ سے نہیں کچھ نہاں کرو

وہ جانتے ہیں حال، سبھی دل کے راز بھی

مانگو خدا سے ان کے وسیلے دعا کرو

جو ظلمتیں ہیں گھیرے ہوئے چھوڑ جائیں گی

پڑھ کے درود خانۂ دل ضو فشاں کرو

جو بہا تکوین میں ہر ایک دھارا نور کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جو بہا تکوین میں، ہر ایک دھارا نُور کا

مصطفیٰؐ کے نور سے ہے، نور سارا نور کا

نور نے جو نور پر مصحف اتارا نور کا

نقطہ نقطہ نور کا، ہر حرف پارہ نور کا

نور تابِ نور ہے، اور نور یارا نور کا

نور کے اِشکال میں ہے نور چارہ نور کا

سلام شوق نسیم بہار کہہ دینا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سلامِ شوق نسیمِ بہار کہہ دینا

مِرا حضورِ سے سب حالِ زار کہہ دینا

سجودِ شوق کی اک آرزو ہے مدت سے

تڑپ رہا ہے دلِ بے قرار کہہ دینا

دئیے ہیں سوزشِ غم نے وہ داغ سینے پر

تپک رہا ہے دلِ داغدار کہہ دینا

Saturday, 28 September 2024

تپش کو مٹا دے فضائیں سجا دے

شفاعت


تپش کی فضا ہے

ذرا سی بلندی پہ وحشی الاؤ جلایا گیا ہے

پرانی سی مٹی کا ادنٰی سا ڈھیلا

کسی آتشی دھات سے پُر زمیں پر پڑا سوچتا ہے

کہ اس کا دوامی ٹھکانہ کہاں ہے

وہ کیا اب ہمیشہ تپش کے تنوروں کا ایندھن بنے گا

کیسے کہتے ہو مجھے چھوڑ کے گھر جاؤ گے

 کیسے کہتے ہو مجھے چھوڑ کے گھر جاؤ گے

میں نے گر چھوڑا تمہیں تم ابھی مر جاؤ گے

ہے حقیقت بڑی کڑوی مگر سہنا ہو گی

زندگی تلخ ہے دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے

میں بھلا کیسے اسے اپنا مقدر کہہ دوں

بازی جیتی ہوئی اس بات پہ ہر جاؤ گے

ان کے دروازے پہ پا جائے جو پلنے کا شرف

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ان کے دروازے پہ پا جائے جو پلنے کا شرف

خار طیبہ سے وہ پائے دل سجانے کا شرف

بو جہل کے ہاتھ میں پیشِ حبیبِ کبریاﷺ

کنکری کو مل گیا کلمہ سنانے کا شرف

الفت سرکار میں یہ جھوم کر بولے بلال

ظلم سہ سہ کر ملا ہے مسکرانے کا شرف

مژہ پہ میم بناتے ڈھلک کے بہتے ہوئے

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مژہ پہ میم بناتے، ڈھلک کے بہتے ہوئے

حضور یاب رہے اشک، نعت کہتے ہوئے

حضورﷺ! قرب کا احساس اب تو ہونے لگا

درودﷺ پڑھتے، سلام علیک کہتے ہوئے

شہاﷺ! ہو قرب کا سائل دوامِ قرب طلب

مواجہہ کے قریں، ٹیس کہنہ سہتے ہوئے

خادم محفل سرکار دو عالم ہوتا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خادمِ محفلِ سرکارِ دو عالم ہوتا

خدمتِ پائے رسالت پہ منظّم ہوتا

لمعہِ پائے رسالت پہ میں نعتیں کہتا

زُلف والَّیل تو مازاغ بصارت لکھتا

اُن کے رخسار کو تشبیہ سحر سے دیتا

اُن کی پُر نور صباحت پہ میں نعتیں کہتا

ہنگام سحر مطلع انوار میں گم ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہنگامِ سحر، مطلعِ انوار میں گم ہے

خورشید، ترے جلوۂ رخسار میں گم ہے

انجم ہیں ترے نورِ تبسم پہ نچھاور

مہتاب ترے حسن کے دیدار میں گم ہیں

کیا پنچۂ قدرت نے سنوارے ہیں ترے بال

شب گیسوئے واللیل کے اسرار میں گم ہے

آؤ دنیا میں ہی جنت کا نظارا دیکھو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آؤ دنیا میں ہی جنت کا نظارا دیکھو

فرش پر عرش کے قدسی کا اترنا دیکھو

ذرے ذرے میں بسا نور خدا کا دیکھو

حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو

کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو

بادۂ وصل پیا، کم ہوا دردِ فرقت

Friday, 27 September 2024

جگر میں درد ہو تو آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہیں

جگر میں درد ہو تو آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہیں

لبا لب ہونے والے جام ہی اکثر چھلکتے ہیں

تیری نظروں کے فیض بیکراں نے چھو لیا جن کو

وہ ذرے مہر عالم تاب کے صورت چمکتے ہیں

ہے مطلوبِ حقیقی شاہ رگ سے بھی قریب اپنے

نہ جانے طالبانِ دید کیوں در در بھٹکتے ہیں

کس تردد میں مبتلا ہو گا

 کس تردد میں مبتلا ہو گا

جب وہ آئینہ دیکھتا ہو گا 

وہ نظر مجھ سے اٹھ گئی ہے دوست

اور اب اس سے  کیا برا ہو گا  

حبس کی دھوپ تیز ہو گئی ہے 

وه دریچہ نہیں  کھلا ہو گا

مومنوں کی شان اہل غزہ ہیں

 مومنوں کی شان اہلِ غزہ ہیں

اہلِ دل کا مان اہل غزہ ہیں

کُفر کے مدِ مقابل ہیں کھڑے

صاحبِ ایمان اہل غزہ ہیں

صرف بڑھکوں کے غُبارے حکمراں

جنگ کا میدان اہل غزہ ہیں

ہمیشہ چلتا ہوں دامن بچا کے رستے میں

 ہمیشہ چلتا ہوں دامن بچا کے رستے میں

گلاب ملتے ہیں کانٹے سجا کے رستے میں

دیارِ عشق و وفا میں ہُنر ہے چلنے کا

نگاہ اپنی ہمیشہ جھُکا کے رستے میں

تِرے ہی لُطف و کرم کے سہارے یا مُرشد

چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں

آؤ اک دکھ بھرا قصہ میں سناؤں تم کو

 آؤ اک دکھ بھرا قصہ میں سناؤں تم کو

درد جو مجھ کو ملا بس وہ بتاؤں تم کو

ہوتا کچھ یوں ہے مِرے غم کا یہ قصہ آغاز 

جان لو تم بھی ہے کیا اس کے نشیب اور فراز

بات اک روز کی ہے اس نے جتائی اُلفت

پھر ہُوا مجھ کو اسی ذات سے گہری چاہت 

زیست میں کچھ مزا نہیں ہو گا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زیست میں کچھ مزا نہیں ہو گا

دل جو انؐ پر فدا نہیں ہو گا

اس پہ شاہد ہے آیتِ قرآں

"آپؐ چاہیں تو کیا نہیں ہو گا"

منکرِ عظمتِ نبیﷺ ہر گز

عاشقِ مصطفیٰﷺ نہیں ہو گا

گناہوں کی عادت چھڑا میرے مولا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


گُناہوں کی عادت چھڑا میرے مولا

مجھے نیک انسان بنا میرے مولا

جو تجھ کو، جو تیرے نبیؐ کو پسند ہے

مجھے ایسا بندہ بنا میرے مولا

تُو مسجود میرا، میں ساجد ہوں تیرا

تو مالک، میں بندہ تیرا میرے مولا

محشر کی یہ محفل جو مولیٰ نے سجائی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


محشر کی یہ محفل جو مولیٰ نے سجائی ہے

عظمت شہ خوباںﷺ کی خالق نے بڑھائی ہے

آواز دِوانوں نے مل کر یہ لگائی ہے

"سنتے ہیں کہ محشر میں صرف ان کی رسائی ہے"

"گر ان کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے"


کر شہر نبیﷺ کی تو اب مدح و سرا زاہد

سمجھ لو موت کو معراج زندگی کر دی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سمجھ لو موت کو، معراج زندگی کر دی

نظر نبیﷺ نے اگر وقت جانکنی کر دی

مِرے خیال کی ٹہنی پہ جب خزاں آئی

نبیﷺ کی یاد نے آ کر ہری بھری کر دی

بنائی خلد کی تصویر دست قدرت نے

اٹھا کے پھر اسے سرکارﷺ کی گلی کر دی

دل اپنا ازل سے تو بس اس کا دوانہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل اپنا ازل سے تو بس اس کا دِوانہ ہے

محبوب خداﷺ ہے جو سلطان زمانہ ہے

آقاؐ ہیں وہ داتا ہیں مالک وہ ہمارے ہیں

صدقے پہ انہی کے تو پلتا یہ زمانہ ہے

نہ ان کا کوئی ہم سر نہ کوئی مماثل ہے

مخلوق میں خالق کی وہ سب سے یگانہ ہے

Thursday, 26 September 2024

کتنا برداشت کروں کتنا ہے اس خاک‌ میں دم

 کتنا برداشت کروں، کتنا ہے اس خاک‌ میں دم

کر دیا‌ ہے تیری اُلفت نے میری ناک میں دم

یہ کہو چاند میرا مجھ سے گریزاں ہے جناب

ورنہ کیا مجھ کو چڑھانے کا ہے افلاک‌ میں دم

جان جائے گی مگر دل نہ ہٹے گا پیچھے

اتنا تو رکھتے ہی ہیں، ہم دل بے باک میں دم

ہم عشق کے ماروں کی بس عشق کمائی ہے

 ہم عشق کے ماروں کی بس عشق کمائی ہے

اک عشق ہی اپنا ہے، ہر چیز پرائی ہے

یکتائے زمانہ ہے جو سارے زمانے میں

دل اس کا ہے دیوانہ، جاں اس کی فدائی ہے

وہ بزمِ تصوّر میں دن رات ہی رہتے ہیں

دیوانے نے اس خاطر سب دُنیا بھُلائی ہے

حروف و فن کو یقیناً شعور نعت کا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حروف و فن کو یقیناً شعور نعت کا ہے

مجھے بھی اہلِ بصیرت غرور نعت کا ہے

شعور، فکر، تخیل، سخن، کلام ، زباں

اک ایک شے پہ جو اترا ہے نُور نعت کا ہے

بہت سے معجزے دنیا میں رُونما ہوئے ہیں

ہر ایک چیز سے بڑھ کر ظہور نعت کا ہے

پیاسا ہوں مجھ کو زم زم و کوثر کی آرزو

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دریا کی جستجو نہ سمندر کی آرزو

پیاسا ہوں مجھ کو زم زم و کوثر کی آرزو

جُز اُن کے اور کون شفاعت کو آئے گا؟ 

محشر میں ہو گی شافعِ محشر کی آرزو

دنیا کے تخت و تاج کی ہم کو غرض نہیں

ہم کو ہے خاکِ پائے  پیمبرﷺ کی آرزو

الٰہی تو اگر مجھ سے خفا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


الٰہی تو اگر مجھ سے خفا ہے

یقیناً میری ہی اس میں خطا ہے

تِری بے مہری عینِ مہربانی

جفا میں تیری پوشیدہ وفا ہے

نہیں حقدار میں عفو و کرم کا

اگر تُو بخش دے، تیری عطا ہے

جو وقت ذکر نعت مصطفیٰ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جو وقتِ ذکرِ نعتِ مصطفیٰﷺ ہے

زبانِ خامہ پر صلِّ علیٰﷺ ہے

نہ کیوں کر شور ہو صلِّ علیٰ کا

تصور ہے جنابِ مصطفیٰﷺ کا

سوئے ہستی ہوئے جب رونق افروز

گری ابلیس پر برقِ جگر سوز

عظمتیں تمام ختم صرف اس کے نام پر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عظمتیں تمام ختم صرف اس کے نام پر

رفعتیں تمام ختم صرف اس کے نام پر

ٹھوکریں سے جس کی وا ہوئے ہیں کوہِ سیم و زر

نعمتیں تمام ختم صرف اس کے نام پر

افتراقِ بیش و کم کو جس نے ختم کر دیا

وسعتیں تمام ختم صرف اس کے نام پر

Wednesday, 25 September 2024

درد و کراہ میں ڈوبی ہوئی آواز میں فلسطین ہوں

 میں فلسطین ہوں


درد و کراہ میں ڈوبی ہوئی آواز

میں فلسطین ہوں

اندھیرا، سکوت، سائے

خنجر خون خنجر

میں غور کرتی ہوں

میرے سامنے عالمِ اسلام کا نقشہ ہے

میرے مولا بہتر برس ہو گئے

 میرے مولا

بہتر برس ہو گئے 

ایک تاریک

رستے پہ چلتے ہوئے 

ٹھوکریں کھاتے، گرتے، سنبھلتے ہوئے

اک سحر کے لیے

یروشلم ہے کہ راہ غم ہے

 یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے


میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد

یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے

مقامِ گِریہ، مقامِ مصلوبیت سے بابِ مغاربہ تک

سبھی کے رُوح و بدن شکستہ

سبھی کی پیشانیاں ہیں زخمی

بجائے مرہم، مگر زمانوں کے تن بدن پر

عجیب جنگ ہے یہ کون جانے کب سے جاری ہے

 فلسطین


عجیب جنگ ہے یہ

اور عجیب تر ہے کہ جو

اس ایک جنگ میں

ظالم کی صف میں شامل ہیں

یہ جنگ بچوں کے

ماؤں کے

المستشفى الأہلى العربی اسپتال کے لیے ایک نظم

 المستشفى الأهلى العربی اسپتال  کے لیے ایک نظم


میری نظموں میں ایک ساتھ جگہ پا سکتا ہے

تیز رفتار گاڑی چلاتے ہوئے

نحیف پِلوں، سفید بلیوں اور چتکبرے خرگوشوں کو روند کر 

گزر جانے والا گروہ اور جانوروں کے اسپتال کا عملہ

غزہ کے اسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈ الگ سے لکھا ہوا 

غیر ضروری سا لگنے لگا ہے 

جب محمد کا مرے دل کو سہارا مل گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب محمدﷺ کا مِرے دل کو سہارا مِل گیا

کچھ رہی حاجت نہ اب دل کو اشارا مل گیا

زندگی میری سنور جائے گی ہے مجھ کو یقیں

جب محمدﷺ کے حسین در کا نظارا مل گیا

آپؐ کے در کا بلاوہ مجھ کو جس دن آئے گا

سجدے میں گر کے کہو گی سب خدارا مل گیا

عشق رسول پاک ہی مومن کی جان ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عشق رسول پاکؐ ہی مومن کی جان ہے

اس کے بغیر زندگی ویراں مکان ہے

پہنچے ہیں چرچے عرش تک حبشی بلال کے

ایسی در حضورﷺ کے منگتوں کی شان ہے

مجھ کو جلائے گرمئی محشر کی کیا مجال

نقش کف رسولﷺ مِرا سائبان ہے

اک مٹھی ستو ہوں روٹی خشک ادھوری ہو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اک مُٹھی ستو ہوں، روٹی خشک ادھوری ہو

مولا! مجھ سے آپ کی سنت کیسے پوری ہو

نعت توہے محتاط رویوں اورجذبوں کا کام

اتنی بات ہے کہنا جتنی بات ضروری ہو

ہجر کے نم کاغذ پر عشق کے سبز قلم کے ساتھ

ہم نے عرض گزاری دیکھیں کب منظوری ہو

اے کاش عرب کے ساحل پر میرا بھی سفینہ آ جائے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے کاش عرب کے ساحل پر میرا بھی سفینہ آ جائے

بے تاب نگاہیں اٹھتے ہی مدنیﷺ کا مدینہ آ جائے

میں بد نصیب و پُر خطا، اک روز محوِ خواب تھا

سُوئے حرم مجھ کو مِرا مرغِ تخیل لے اُڑا

گو سامنے آئے بہت، خُشکی تری کے مرحلے

پر میرے مرغِ ذوق نے لمحوں میں ہی طے کر لیے

لکھ دی ہے جب خدا نے حبیب خدا کی نعت

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


لکھ دی ہے جب خدا نے حبیب خدا کی نعت

اوقات کیا بشر کی لکھے مصطفیٰﷺ کی نعت

فکرِ رسا کی نعت، نہ ذہن، رسا کی نعت

ہے حرزِ جاں، محمد صلِ علیٰﷺ کی نعت

سوکھے شجر پہ موسمِ سر سبز آ گیا

پڑھتی رہیں ہوائیں رسولِ خداﷺ کی نعت

Tuesday, 24 September 2024

بھوکی ہے زمین بھوک اگلتی ہی رہے گی

 بھُوکی ہے زمین بھُوک اگلتی ہی رہے گی

یہ بھُوک میرے پیٹ میں پلتی ہی رہے گی

جیون بھی میرا دشت ہے مسکن بھی میرا دشت

ہونٹوں پہ میرے پیاس مچلتی ہی رہے گی

ہستی کے اُجڑنے کا بھلا دُکھ مجھے کیوں ہو

یہ ٹھوکریں کھا کھا کے سنبھلتی ہی رہے گی

وہ میرے حال دل سے اس قدر بھی بے خبر ہو گا

 وہ میرے حال دل سے اس قدر بھی بے خبر ہو گا

خبر کیا تھی کہ یوں بے حس وہ میرا ہم سفر ہو گا

کہ ہم تو عمر بھر لڑنے کی خواہش لے کے آئے تھے

خبر کیا تھی کہ وقت فیصلہ یوں مختصر ہو گا

چراغ غم جلایا تھا اجالوں کی امیدوں میں

خبر کیا تھی مِری کوشش کا الٹا ہی اثر ہو گا

بہت دشوار تھا لمحہ

 بہت دشوار تھا لمحہ


بہت دشوار تھا لمحہ

مِرے دل کی جو بستی سے

قیمات بن کے گزرا تھا

اسے غیروں کی باہوں میں

جب میں ہنستے دیکھا تھا

جو کل تک تھے مِرے اپنے

سونا چاندی ہی نہ لائے ہو نہ گوہر لائے

 سونا چاندی ہی نہ لائے ہو، نہ گوہر لائے

جا کے تم چاند سے لائے بھی تو پتھر لائے

کون سا کام ہے دُشوار تصور کے لیے؟

یہ اگر چاہے تو چلو میں سمندر لائے

وقت کیا شے ہے خدایا تِری رحمت کیا شے

لوگ کہتے ہیں کہ ہر چیز مقدّر لائے

اپنی ہی ذات کے اثبات سے ڈر لگتا ہے

اپنی ہی ذات کے اثبات سے ڈر لگتا ہے

میں وہ جگنو ہوں جسے رات سے ڈر لگتا ہے

جانے کس حال میں رکھے گا ہمیں آپ کا غم

آپ کے غم کی کرامات سے ڈر لگتا ہے

میرے سائے سے بھی رکھتا ہے بچا کر خود کو

وہ جسے وصل کے لمحات سے ڈر لگتا ہے

لازم ہے لائیں ڈھونڈ کر خود کو کہیں سے ہم

 لازم ہے لائیں ڈھونڈ کر خُود کو کہیں سے ہم

کیا بے نیاز ہو گئے دُنیا و دیں سے ہم

محسوس ہو رہا ہے ہمیں تم سے مل کے آج

جیسے پہنچ گئے ہوں فلک پہ زمیں سے ہم

دُنیائے پُر فریب کے انداز دیکھ کر

دل یوں بُجھا کہ ہو گئے خلوت نشیں سے ہم

دیکھتا ہوں کہ زمیں کالی دھواں تھی

 بچ گیا میں


دیکھتا ہوں کہ زمیں کالی دھواں تھی 

ہر طرف تھیں لہلہاتی کالی فصلیں

جن کے شاخوں کی جگہ بازو تھے نکلے 

اور ہر پتے سے آنکھیں گھورتی تھیں 

گہری کالی گھورتی سفاک آنکھیں 

کچھ پرندے ایک برگد پر تھے بیٹھے 

ہے جو سرگرم شفاعت طلبی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے جو سرگرم شفاعت طلبی

شوق لکھ نعتِ رسولِ عربیﷺ

سایۂ ذاتِ حقِ جلّ و علا

مظہرِ نورِ خدا، صلِّ علیٰ

بادشاہِ عرب و فخرِ عجم

سرورِ دین و شفیعِ عالمﷺ

مولا ذرا سوچو کہ کون ہے وہ

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

مولا


ذرا سوچو کہ کون ہے وہ

جو کُن کہے تو جہان سارے

وجود پائیں، نظام پائیں

وہ ایک خلیے میں زندگی کے

ہزار پہلو سمیٹتا ہے

جو ایک جوہر سے قوتوں کے

دلی سکون کو صدق و صفا ضروری ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دلی سکون کو صدق و صفا ضروری ہے

نگاہِ پاک و دلِ بے ریا ضروری ہے

زمانے بھر کے غموں کا امین ہے شاعر

اسی لیے دلِ درد آشنا ضروری ہے

پیمبری ہے اگر شاعری تو شاعر کی

مشاہدے میں رہے چشم وا، ضروری ہے

جب کسی محفل میں نعت مصطفیٰ ہونے لگی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

حاجت روا ہونے لگی


جب کسی محفل میں نعتِ مصطفیٰؐ ہونے لگی

رحمتِ حق جوش میں آئی، فدا ہونے لگی


گرمئ تکبیر نے محفل کے دل گرما دئیے

یا رسول اللہﷺ کے نعروں نے لب مہکا دئیے

ہر طرف صلِ علیٰ، صلِ علیٰ ہونے لگی

جب کسی محفل میں نعتِ مصطفیٰؐ ہونے لگی

الٰہی دو جہاں میں بیکسوں کا آسرا تو ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


الٰہی دو جہاں میں بیکسوں کا آسرا تُو ہے

حقیقت میں دل بے مدعا کا مدعا تو ہے

تِری رحمت سے پایا فیض کیا فصلِ بہاری نے

گلوں کا رنگ و بُو تو ہے، عنادل کی نوا تو ہے

ادھر ہے دشمن و حاکم سے ظاہر تیری جباری

ادھر احباب کا سرمایۂ مہر و وفا تو ہے

Monday, 23 September 2024

تکلفات میں لمحات مت گنوایا کر

 تکلفات میں لمحات مت گنوایا کر 

بلا ارادہ بھی تھوڑا سا مسکرایا کر

ہمارے سامنے یہ وضع مت بنایا کر 

فراخ دل ہے تو ہر بات بھول جایا کر

ہمارے شعر تِرا ذکر بات ایک ہی ہے

ہمارے شعر ہمیں یاد مت دلایا کر

سرد ہوا ویرانی رات

 سرد ہوا، ویرانی، رات

ہے جانی پہچانی رات

انکھوں سے بہتے آنسو

کر بیٹھے بارانی رات

دن ہے آنکھ کا پاگل پن

دل کی ہے نادانی رات

بھوکی مر گئی خلقت یارا

 روشن خیالوں کی نگری میں

بھوکی مر گئی خلقت یارا

اور کہیں سے کیا پاؤ گے

درد کی ایسی لذت یارا

کیوں کہ ہم کو راس نہ آئی

دو پل کی بھی راحت یارا

مہ‌ و نجوم پہ ڈالی کمند لوگوں نے

 مہ‌ و نجوم پہ ڈالی کمند لوگوں نے

کیا یہ خود کو سر بلند لوگوں نے

نظام حسن چمن کے وقار کی خاطر

بصد خلوص سہے ہیں گزند لوگوں نے

وفا کا نام سبھی کی زباں پہ تھا لیکن

وفا کے نام پہ دی جان چند لوگوں نے

قیس صحرا نشیں سے لے آؤ

 قیس صحرا نشیں سے لے آؤ

عشق مجھ سا کہیں سے لے آؤ

چاند کہتا تھا آسمانوں پر

نُور میرا زمیں سے لے آؤ

ان کے نازک لبوں کو چھُو جائے

ایسا جھونکا کہیں سے لے آؤ

نہیں کچھ مسئلہ ہم کو گھروں کا

 نہیں کچھ مسئلہ ہم کو گھروں کا

بہت دشوار ہے بسنا دلوں کا

اسے کہنا؛ مجھے ایجاد کر لے

مداوا ہوں میں اس کے سب دکھوں کا

تمہارے جال لے کر اڑ رہا ہوں

کرشمہ ہے مِرے ٹوٹے پروں کا

ہوں شرمندہ اگرچہ ہر خطا پر

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہوں شرمندہ اگرچہ ہر خطا پر

بھروسہ ہے مجھے انؐ کی سخا پر

نبیؐ کے در پہ ہوں پھیلائے دامن

نظر میری ہے اُس دستِ عطا پر

ہیں جن کے واسطے افلاک کُھلتے

خدا کی مہر ہے بدرالدجیٰ پر

جینے کی تمنا ہے مدینے کی فضا میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جینے کی تمنا ہے مدینے کی فضا میں

کچھ اور نہیں مانگتا میں اپنی دعا میں

میں آپ کا شیدائی ہوں ٹھکراؤ نہ مجھ کو

شاید ہے کمی میری محبت، میں وفا میں

آقاؐ جی کڑی دھوپ گناہوں کی ہے سر پر

للہ چھپا لو مجھے رحمت کی ردا میں

کرم کر دے مولا عجب بے بسی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


"گناہوں کے دریا میں کشتی پھنسی ہے"

الٰہی نکال اب، کہ جاں تک چلی ہے

خدایا تو لوٹا دے رونق حرم کی

کرم کر دے مولا، عجب بے بسی ہے

کرم کر دے پیارے محمدﷺ کا صدقہ

گناہ گار اُمت پہ مشکل گھڑی ہے

دل میں یاد تیری آنکھوں میں نور تیرا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل میں یاد تیری آنکھوں میں نُور تیرا

جس گھر کو میں نے دیکھا پایا ظہور تیرا

جلوہ تِرا عیاں ہے پستی ہو یا بلندی

پھُولوں میں بُو ہے تیری تاروں میں نور تیرا

یہ سر تِرے قدم پر یوں ہی پڑا رہے گا

جب تک نہ تُو کہے گا بخشا قصور تیرا

خداوند دو عالم خالق کون و مکاں تو ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خداوند دو عالم، خالق کون و مکاں تُو ہے

ہر اک شے میں تیرا جلوہ، نہاں تُو ہے عیاں تُو ہے

ہر اک شے کا تیرے ہونے سے ہونا ہے زمانے میں

تُو ہی روحِ رواں ہے زندگی کے کارخانے میں

ہر اک عزت ہر اک عظمت روا تیری بجا تیری

نہ کوئی ابتداء تیری، نہ کوئی انتہا تیری

Sunday, 22 September 2024

بہت سنے ہیں ہم نے پر خواب قصے

 تحریف شُدہ نُسخہ


بہت سُنے ہیں ہم نے پُر خواب قصے

روہی، راوی اور چناب کے قصے

پہاڑوں کے دُکھ اور تھل کے افسانے

رنگین بہشت کے پُر فسُوں فسانے

حقیقت ہم بھی جانتے ہیں

یہ، جسے تم محبت کہتے ہو

ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے

  ہجر کا دن ہے یہ گزرنے دے

اے غمِ یار! شام ڈھلنے دے

عمر تھوڑی ہے پیاس صدیوں کی

شبنمی رُت! سکوں سے مرنے دے 

اس نے مانگا ہے مجھ سے اک تحفہ

 ہو جو ممکن تو ابر برسا دے

زمیں میں بیج جو بوئے گئے ہیں نفرت کے

 زمیں میں بیج جو بوئے گئے ہیں نفرت کے

تو پھول کیسے کھلیں گے بھلا محبت کے

اندھیرے چھائے ہوئے ہیں جہاں جہالت کے

وہاں چراغ تھے روشن کبھی ذہانت کے

یہ اپنے ملک کی تہذیب ہے نہ بھولو اسے

کہ بن کے رشتے نہیں ٹوٹتے محبت کے

ٹوٹی ہے ڈور سانس کی منزل کے آس پاس

 ٹوٹی ہے ڈور سانس کی منزل کے آس پاس

پہنچے جو یار ہم کبھی منزل کے آس پاس

کچھ اور تو نہیں فقط اتنا ہی یاد ہے

بچھڑے تھے ہمسفر سبھی منزل کے آس پاس

دل دشت آرزو میں بھٹکتا رہا سدا

منزل کی جستجو رہی منزل کے آس پاس

ایسے ویسے جانے کیسے آج سیاست والے ہیں

 المیہ


ایسے ویسے جانے کیسے آج سیاست والے ہیں

اندھوں میں کانے راجا کو سر پہ چڑھا کر پھرتے ہیں

ہندو مسلم، مندر مسجد راگ الاپا جاتا ہے

چلتے پھرتے آتے جاتے راگ یہی وہ گاتے ہیں

دہشت گردی کے مجرم سب، آج سیاسی آقا ہیں

میرے بھارت کو ان ہی غدار سے لاحق خطرے ہیں

میں نے کب چاہا تھا کہ طور پہ جلوہ دیکھوں

 میں نے کب چاہا تھا کہ  طور پہ جلوہ دیکھوں

میں تو خواہاں تھا  کہ تجھ کو پس پردہ دیکھوں

تُو خدا ہے میرا، اتنا تو مِرا بھی حق ہے

تیرا ، آیات کی چلمن سے  سراپا دیکھوں

میں موحد ہوں مجھے صرف تمہیں دیکھنا ہے 

کون کافر ہے جو چاہے گا کہ تجھ سا دیکھوں

مجھ گنہگار پہ، سب تیری عطا ہے مالک

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھ گنہگار پہ، سب تیری عطا ہے مالک

میری اوقات سے بڑھ کر ہی دیا ہے مالک

ہے کرم تیرا، مِرے درد کا درماں جو بنا

تیری رحمت سے ہر اک زخم سِلا ہے مالک

تیرے ہی ذکر سے مٹتا ہے ہر اک رنج مِرا

تیرا ہی نام مجھے ردِ بلا ہے مالک

عزتوں کا رکھوالا مولا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


عزتوں کا رکھوالا مولا

سب کی سننے والا مولا

دل کی اندھیری نگری میں

کر دے سحر اجالا مولا

ناؤ بھنور میں ڈوب رہی ہے

پڑ گیا غم سے پالا مولا

یہ تو مانا کہ گنہگار ہوں میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ تو مانا کہ گنہ گار ہوں میں

صورتِ خامہ سیہ کار ہوں میں

ہوں سراپا میں پریشاں احوال

اور اچھے نہیں میرے اعمال

لیکن اس کا مجھ سے کھٹکا کیا ہے

پُرسشِ حشر کی پروا کیا ہے

ڈوبا ڈوبا مرا بھلا کیجے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ڈوبا، ڈوبا مرا بھلا کیجے

نا خدائی، اے  کیجے

خالی جھولی میں کھولے بیٹھا ہوں

صدقہ حسنینؑ کا عطا کیجے

روز درشن کی اس کو بھیک ملے

اتنا مسرور تو یہ گدا کیجے

آپ کا ہوں گدا مصطفیٰ مصطفیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آپؐ کا ہوں گدا مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ

اک نظر ہو عطا مصطفیٰؐ مصطفیٰ

رحمت دو جہاں فخر کون و مکاں 

کون ہے دوسرا مصطفیٰؐ مصطفیٰ 

میں ہوں زندہ تِرا مر کے بھی میں تِرا 

تجھ پہ میں ہوں فدا مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ

Saturday, 21 September 2024

قفس جسم و جاں میں قید رہے

 قفس جسم و جاں میں قید رہے

اپنے ہی آشیاں میں قید رہے

آرزوئے مکان سے چھوٹے

خواہش لا مکاں میں قید رہے

نالۂ عندلیب و نغمۂ گل

کیوں بہار و خزاں میں قید رہے

ہوا ہوں میں حیران تھانے میں آ کر

 زعفرانی کلام


ہُوا ہوں میں حیران تھانے میں آ کر

لو ہاتھی گیا مان تھانے میں آ کر

یہ کرتے ہیں خدمت ذرا ہٹ کے سب سے

کہ بُھولے ہے پہچان تھانے میں آ کر

کرو گے جو تُم مُک مُکا تو ہے بہتر

نکالیں ہیں یہ جان تھانے میں آ کر

بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا

 بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا

کس درجہ ہو گی کارگر اس کو دوا سے کیا

جھلسا کے رکھ دیا جسے باد سموم نے

غنچوں سے کیا غرض اسے باد صبا سے کیا

مذہب کا کیا کرے، اسے ذکر خدا سے کیا

رہنے کو جھونپڑا بھی نہ جس شخص کو ملے

راتوں کو اٹھ کر جاگنا دل کی خوشی کی بات ہے

 راتوں کو اٹھ کر جاگنا دل کی خوشی کی بات ہے

گھر سے نکل کر بھاگنا دل کی خوشی کی بات ہے

یہ تو نہیں کہ ڈھونڈنے سے کوئی منزل نہ ملے

تیری گلی میں بھٹکنا دل کی خوشی کی بات ہے

جس نے سوائے درد کے کچھ اور بخشا ہی نہیں

اس کے لیے ہی سوچنا دل کی خوشی کی بات ہے

وحشت زدہ ہوں بوئے گل تر سے زیادہ

قصیدہ


 وحشت زدہ ہوں بوئے گلِ تر سے زیادہ

مشکل ہے ٹھہرنا کہیں دم بھر سے زیادہ

تقدیر اُڑائے لیے پھرتی ہے شب و روز

ہر تارِ نفس ہے مجھے شہپر سے زیادہ

ہوں اشک چکیدہ نہیں جز خاک مجھے چین

ہے فرشِ زمیں بالش و بستر سے زیادہ

قرینہ زندگی کا سب سکھایا ہے محمد نے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


قرینہ زندگی کا سب سکھایا ہے محمدﷺ نے

بڑی ہے شان مُسلم کی، بتایا ہے محمدﷺ نے

چلو مل کر چلیں اس رستے جو جاتا ہے جنت تک

ہمیں حق سچ کا رستہ بھی دکھایا ہے محمدﷺ نے

اگر جو زندگی میں کامیابی چاہتے ہو تم🌹

لگاؤ رب سے دل، جیسے لگایا ہے محمدﷺ نے

صورت نعت نوا یاب ہے آوازۂ دل

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


صورتِ نعت نوا یاب ہے آوازۂ دل

للّہِ الحمد، کہ بکھرا نہیں شیرازۂ دل

موسمِ مدحِ پیمبرﷺ کی نمو کاری سے

صحنِ احساس میں کِھِلتا ہے گُلِ تازۂ دل

یادِ سرکارؐ چلی آتی ہے ہر سانس کے ساتھ

میں مُقفّل نہیں کرتا کبھی دروازۂ دل

آنکھوں کی ضیا دل کی صدا نام محمد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آنکھوں کی ضیاء دل کی صدا نامِ محمدﷺ

میں پڑھ کے سدا جھُوم اُٹھا نام محمدﷺ

ہے مرکزِ انوار و تجلّی مِری دھڑکن

ہر تارِ رگِ جاں پہ لِکھا نام محمدﷺ

جپتا ہے چمن سُن کے تیرے نام کی مالا

پڑھتی ہوئی آتی ہے صبا نام محمدﷺ

محمد کی نعت و ثنا لکھ رہا ہوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


محمدﷺ کی نعت و ثناء لکھ رہا ہوں

کہ بخشش کی میں اک دُعا لکھ رہا ہوں

ملے گا جو مانگوں گا مجھ کو یقیناً

درِ مصطفیٰﷺ کا گدا لکھ رہا ہوں

زمانہ پکارے امینؐ و صادقﷺ

زمانے کی یہ میں نوا لکھ رہا ہوں

خاک مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خاک مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا

ہوتی رہِ مدینہ میرا غُبار ہوتا

آقاؐ اگر کرم سے طیبہ مجھے بلاتے

روضے پر صدقے ہوتا ان پر نثار ہوتا

مر مٹ کے خوب لگتی مٹی میری ٹھکانے

گر انؐ کی رہگزر پر میرا مزار ہوتا

Friday, 20 September 2024

یار کا پتا لوگو جا بجا نہیں ملتا

 یار کا پتا لوگو!! جا بجا نہیں ملتا

جس جگہ پہ کھویا ہو اُس جگہ نہیں ملتا

شعلۂ جوالہ ہے،۔ آگ کا حوالہ ہے

مسجدوں کی ٹھنڈک میں اب خُدا نہیں ملتا

عشق کرنے والے بھی عشق اب نہیں کرتے

جُوئے شِیر لانے کا اب صِلہ نہیں ملتا

روز یہ بار بار ہوتا نہیں

 روز یہ، بار بار ہوتا نہیں

ہم سے جی انتظار ہوتا نہیں

عشق وہ تیر ہے جو پھنس جائے

تیر، جو دل کے پار ہوتا نہیں

آدمی وہم پال لیتا ہے

آدمی بے قرار ہوتا نہیں

آپ کے التفات کا غم ہو

 آپ کے التفات کا غم ہو

اتنی چھوٹی سی بات کا غم ہو

آج ان آنکھوں کی بات یاد آئی

آج کس کو حیات کا غم ہو

عشق سے یہ مذاق ٹھیک نہیں

ہم کو اور سانحات کا غم ہو

دھوئیں کی زد میں سارا جہاں ہے

 دُھوئیں کی زد میں سارا جہاں ہے

یہ دُنیا ہے کہ یہ آتش فشاں ہے؟

ہر اک دل میں غموں کا ہے بسیرا

خُوشی کا تو نہیں ملتا نشاں ہے

ہر اک بندے کی آنکھوں میں نمی ہے

ہر اک لب پر بھی آوازِ فُغاں ہے

قہر کی آگ جل رہی ہو گی

 قہر کی آگ جل رہی ہو گی

عمر اس میں پگھل رہی ہو گی

موت کا قتل ہو رہا ہو گا

زندگی ہاتھ مَل رہی ہو گی

خال و خد خاک ہو رہے ہوں گے

نئی صُورت نکل رہی ہو گی

یوں اہتمام رد سحر کر دیا گیا

 یوں اہتمام ردِ سحر کر دیا گیا

ہر روشنی کو شہر بدر کر دیا گیا

اپنے گھروں کے سُکھ سے بھی روکش دکھائی دیں

لوگوں کو مُبتلائے سفر کر دیا گیا

جینا ہر ایک کے لیے مُمکن نہیں رہا

جینے کو ایک کار ہُنر کر دیا گیا

نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہمزباں ہے

 نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہم زباں ہے

دل ناشاد پھر بھی نغمہ خواں ہے

مِری قسمت میں ہی دی ہے خدا نے

مصیبت جو بھی زیر آسماں ہے

چمن کے طائرو اب خیر مانگو

بہت برہم مزاجِ باغباں ہے

دیکھوں مدینہ میں بھی کبھی انتظار ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آئے بلاوہ کب سے مجھے انتظار ہے

دیکھوں مدینہ میں بھی کبھی انتظار ہے

کعبے میں رونقیں ہیں جہاں پر چار سُو

کر لوں قیام میں وہاں دل بے قرار ہے

ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہیں پھولوں کی باس ہے

رُت کوئی ہو مگر وہاں رہتی بہار ہے

آپ پر جاں فدا ہو صل علیٰ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


آپﷺ پر جاں فدا ہو صلِ علیٰ

حق نہ پھر بھی ادا ہو صلِ علیٰ

آپﷺ کے مقتدی تمام نبیؑ

سرورِ انبیاءﷺ ہو صل علیٰ

آپ کی ذات پر درود و سلام

احمد مجتبیٰﷺ ہو صل علیٰ

وہ علم و حکمت سکھانے والا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ علم و حکمت سکھانے والا

پیام حق کا وہ لانے والا

کلام حق کا سنانے والا

عذاب حق سے ڈرانے والا

وہ رسم بد کا چھڑانے والا

وہ جھل و بدعت مٹانے والا

بھلے دن ہمارے پھرا دے اے مولا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

وقتِ دعا ہے


بھلے دن ہمارے پھرا دے اے مولا

تُو رحمت کے دریا بہا دے اے مولا

ہوس نے اخوت میں ہے پھوٹ ڈالی

دلوں کو ہمارے ملا دے اے مولا

ہیں نا آشنا مقصدِ زندگی سے

جہالت کے پردے ہٹا دے اے مولا

طیبہ کے مہمان ہو جائیں گے کیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


طیبہ کے مہمان ہو جائیں گے کیا

یہ گدا ذی شان ہو جائیں گے کیا

پاس بیٹھے جو نہیں ہیں دو گھڑی

عمر بھر مہمان ہو جائیں گے کیا

چوم لیں جو دشت طیبہ کی زمیں

بے عمل، عدنان ہو جائیں گے کیا

Thursday, 19 September 2024

اس دل خوش گماں سے اٹھتا ہے

 اس دلِ خوش گُماں سے اُٹھتا ہے 

درد ہر پل یہاں سے اٹھتا ہے 

آگ گھر کے دِیے سے لگتی ہے

یہ دُھواں ہر زباں سے اٹھتا ہے 

لوگ پہروں جگہ وہ تکتے ہیں

میرا ساجن جہاں سے اٹھتا ہے

دیکھنا دل کو کچھ ہوا تو نہیں

 دیکھنا دل کو کچھ ہُوا تو نہیں

یہ ہے آغاز انتہا تو نہیں

کیوں اسے بے وفا کے نام کروں

زندگی ہے کوئی سزا تو نہیں

زیست کیوں قید بن گئی اپنی

جُرم ایسا کوئی کیا تو نہیں

یہ کہانی یہ قلمکار نہیں مرنے والا

 یہ کہانی، یہ قلمکار نہیں مرنے والا

کُن سے پیدا ہوا شہکار نہیں مرنے والا

اتنا میں خاص ہوں کہ، آئینہ بنایا مجھ کو

چڑھ بھی جاؤں میں اگر دار، نہیں مرنے والا

گردشِ وقت کہاں مجھ کو مِٹا پائے گی

تیری چاہت کا طلبگار نہیں مرنے والا

کنج تاریک سے اٹھایا گیا

 کُنجِ تاریک سے اٹھایا گیا

پھر کہیں روشنی میں لایا گیا

آگ، پانی، ہوا ہوں، مٹی ہوں

اس سے آگے نہیں بتایا گیا

جنسِ نایاب تو کہا مجھ کو

بھاؤ میرا مگر گھٹایا گیا

ہم ورد نام یار کر کے

 ہم وِرد نامِ یار کر کے

دریاؤں کو آئے پار کر کے

اپنے ہی منتظر ہیں اب تو

دیکھا تِرا انتظار کر کے

اچھی تھیں وہ ناشناسیاں ہی

کھویا ہے تجھے بھی پیار کرکے

خود اپنے آپ سے آگے نکل نہیں سکتا

 خُود اپنے آپ سے آگے نکل نہیں سکتا

اب اس قدر بھی کوئی تیز چل نہیں سکتا

کبھی خزاں کا ہے موسم کبھی بہار کی رُت

میں روز روز یہ کپڑے بدل نہیں سکتا

شجر کی شاخ تراشی بہت ضروری ہے

جو زخم زخم نہیں ہے وہ پھل نہیں سکتا

وہی تو رسم و رہ عاشقی نبھاتے ہیں

 وہی تو رسم و رہِ عاشقی نبھاتے ہیں

جو زخم کھا کے محبت میں مسکراتے ہیں

ہمارے دل میں ہے آلام کا جہاں آباد

اور اس پہ لوگ ہمیں اپنے دُکھ سناتے ہیں

مسافرانِ عدم کارواں پہ کیا گُزری؟

ہم ایک ایسی کہانی تمہیں سناتے ہیں

سایۂ عشق نبی دل پہ پڑا اچھا لگا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سایۂ عشقِ نبیﷺ دل پہ پڑا، اچھا لگا

ہوں محمدﷺ کے غلاموں میں، بڑا اچھا لگا

بے خودی میں بھی مِرے دل کو ہے رحمت کا پتہ

درِ آقاﷺ پہ، یہ مجذوب کھڑا اچھا لگا

شوقِ دیدار میں پلکوں پہ لرزتا ہوا اشک

اُنؐ کی چوکھٹ پہ نگینہ یہ جڑا، اچھا لگا

چٹھی شفاعتوں کی مرے نام آئے گی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چٹھی شفاعتوں کی مرے نام آئے گی

پیش حضورﷺ نعت بہت کام آئے گی

گجرے درودِ پاکﷺ کے نذر حضور ہیں

خوشبو سی تا ابد سحر و شام آئے گی

پیش نظر ہوں گنبد خضریٰ کی جالیاں

ہریالی قلب و جان میں پھر عام آئے گی

یا رسول اللہ از بہر خدا امداد کن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

یا رسول اللہ از بہر خُدا امداد کُن


عمر بھر کرتے رہے امراض ملت کا علاج

اک مرض نے انتقاماً دھر لیا ہے ان کو آج

دل کے ہاتھوں گو ہمیشہ یہ رہے ہیں بے قرار

لیکن اب دل ہو گیا ہے اور ہی صورت سوار

محفل احباب میں مثلِ بریشم نرم ہیں

کار زار ملک و ملت میں ہمیشہ گرم ہیں

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے

تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اک عالم

گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے

شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھی

نہیں تو کیا غرض تھی اتنی جانوں کے بنانے سے

ہے جس کی ساری گفتگو وحئ خدا یہی تو ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبتخان نعیمی


ہے جس کی ساری گفتگو وحئ خدا یہی تو ہیں

حق جس کے چہرے سے عیاں وہ حق نما یہی تو ہیں

جن کی چمک سورج میں ہے جن کا اجالا چاند میں

جن کی مہک پھولوں میں ہے وہ مہ لقا یہی تو ہیں

جس مجرم و بد کار کو سارا جہاں دھتکار دے

وہ ان کے دامن میں چھپے مشکل کشا یہی تو ہیں

Wednesday, 18 September 2024

جی رہے ہیں کیا ہی لاچاری میں ہم

 زعفرانی کلام


جی رہے ہیں کیا ہی لاچاری میں ہم

کار میں یار اور بے کاری میں ہم

اب ہمیں ٹھنڈی سڑک پر کیا خطر

رکھ چلے ہیں دل کو الماری میں ہم

موت کا ڈر، دل میں دھڑکن، لب پہ آہ

ہیں تِری محفل میں یا لاری میں ہم

قصاب ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

 زعفرانی کلام

قصابوں کا قومی ترانہ


"چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا"

قصاب ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

چیلیں ہوا میں نگراں، کُتے ہیں گھر کے درباں

"آساں نہیں مٹانا نام و نشان ہمارا"

ہو گوجرے کی منڈی یا آگرے کا چمڑا

چمڑے کا چوکھٹا ہے قومی نشاں ہمارا

یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں

 یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں

ہم مانگتے ہیں پچھلے پہر کی دعاؤں میں

جنت کو دور دور تو ڈھونڈا گیا, مگر

قدموں تلے نہ ماں کے نہ تیغوں کی چھاؤں میں

خشکی کے رہبروں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

کچھ تو خدا کا نام چلا ناخداؤں میں

وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس

 وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس

وہ حادثہ تھا مگر ایسا حادثہ تھا کہ بس

وہ پہلے پہلے ملا تھا تو یوں سجا تھا کہ بس

پھر اس کے بعد تو ایسا اجڑ گیا تھا کہ بس

میں اپنے گاؤں کے دیوار و در پہ کیا لکھتا

وہاں تو ایسا اندھیرا چنا ہوا تھا کہ بس

اس بات کو بھولیں نہ مسلمان خدا کے

 اس بات کو بھولیں نہ مسلمان خُدا کے

کافر بھی حقیقت میں ہیں انسان خدا کے

وہ کون ہے جس کو نہیں کچھ اس سے شکایت

وہ کون ہے جس پر نہیں احسان خدا کے

بڑھتا ہی چلا جاتا ہے دُنیا میں تعصب

بنتے ہی چلے جاتے ہیں ایوان خدا کے

آثار دیکھتا ہوں میں آثار سے الگ

 آثار دیکھتا ہوں میں آثار سے الگ

خبریں سنا رہے ہیں جو اخبار سے الگ

یہ انہدام کے کہیں آثار تو نہیں؟

سایہ کھڑا ہے دھوپ میں دیوار سے الگ

یہ انتظار ہے کسی پل کا یا احتیاط

بیمار دار بیٹھے ہیں بیمار سے الگ

محو یاد خدا رہا کیجے

 محوِ یادِ خُدا رہا کیجے

عِجز سے زندگی جِیا کیجے 

مُسکرانا بھی ایک صدقہ ہے

دیکھ کر مُسکرا لیا کیجے

مجھ کو اپنی انا سے لڑنا ہے

میری خاطر دُعا کیا کیجے

محمد کے جلوے نظر آ رہے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


محمدﷺ کے جلوے نظر آ رہے ہیں

حجابِ دو عالم اُٹھے جا رہے ہیں

درِ شہؐ پر ہم یوں مٹے جا رہے ہیں

پئے زندگی، زندگی پا رہے ہیں

صبا کوئی پیغام طیبہ سے لائی

گلستاں کے کانٹے کھلے جا رہے ہیں

وہ جلوہ نور کبریائی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ جلوہ نورِ کبریائی

وہ صاحب دعوتِ خدائی

وہ عین تقوی و پارسائی

بنا بُت خانہ اس نے ڈھائی

وہ قرب حق میں جسے رسائی

بہ مجتبائیؐ و مصطفائیﷺ

کیوں نہ عظمت ہو ان کی لامحدود

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کیوں نہ عظمت ہو ان کی لامحدود

خود خدا بھیجتا ہے جن پہ درود

وہ تو وہ ہیں جن کی خاطر سے

محوِ گردش ہے آسمانِ کبود

ان کی توصیف کا کروں دعویٰ

وسعتِ علم ہے مِری محدود

ہے رہنما ہر ایک جو فرمان آپ کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے رہنما ہر ایک جو فرمان آپﷺ کا

امت پہ آپ کی ہے یہ احسان آپﷺ کا

باندھے ہوئے تھے پیٹ پہ پتھر تو خود مگر

بھوکا گیا نہ کوئی بھی مہمان آپﷺ کا

ہے آپﷺ کا ہی تذکرہ سب کی زبان پر

کرتا ہے ذکر جا بجا قرآن آپﷺ کا

اے صبا تیرا گزر ہو جو مدینہ میں کبھی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے صبا تیرا گزر ہو جو مدینہ میں کبھی

جانا اس گنبدِ خضرا میں کہ ہیں جس میں نبیﷺ

ہاتھ سے اپنے پکڑ کر وہ سنہری جالی

عرض کرنا میری جانب سے بصد شوقِ دلی


ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ

اپنی آنکھوں کو مَلوں آپ کی چوکھٹ سے نبیﷺ

Tuesday, 17 September 2024

شبخون ماریں آپ اور لاشیں اٹھاؤں میں

 شبخُون ماریں آپ، اور لاشیں اُٹھاؤں میں

پتھر ہوں جو، نہ خون کے آنسو بہاؤں میں

گُلچیں ہی جب ہو قاتلِ گُل تو بتاؤ پھر

حالِ چمن اے بُلبلو، کس کو سُناؤں میں

ڈھائے جا تُو ستم پہ ستم اے امیرِ شہر

اور اس پہ یہ ستم کہ تِرے گیت گاؤں میں

صبا کس دشت میں تو کھو گئی ہے

صبا کس دشت میں تو کھو گئی ہے

کلی رہ تکتے تکتے، سو گئی ہے

مگر اترے فلک سے کوئی تارا

زمیں کی مانگ سونی ہو گئی ہے

مِری آنکھوں سے یوں آج اوس برسی

کہ دامن کی سیاہی دھو گئی ہے

اک نشۂ بیدار کی وسعت کا سفر تھا

 اک نشۂ بیدار کی وسعت کا سفر تھا

کیا جانیے کس عالم حیرت کا سفر تھا

پُر ہول زمانوں میں رواں تھا دل تنہا

تا صبحِ ازل ایک قیامت کا سفر تھا

بس یاد ہے اتنا کہ مِرے سامنے میں تھا

معلوم نہیں کون سی حالت کا سفر تھا

بیگانۂ شعور وفا ہو گیا وہ شخص

 بیگانۂ شعور وفا ہو گیا وہ شخص

یہ کیا ہوا کہ مجھ سے خفا ہو گیا وہ شخص

جس سے ملی تھی میری تمنا کو روشنی

اے تیرگیٔ بخت! خفا ہو گیا وہ شخص

اُترا تھا بُوئے گُل کی طرح میری رُوح میں

ایسا گیا کہ موجِ ہوا ہو گیا وہ شخص

ایسی بگڑی ہے ترے شہر میں گھر کی صورت

 ایسی بگڑی ہے تِرے شہر میں گھر کی صورت

کبھی دیوار کو دیکھیں کبھی در کی صورت

اک تجھے ڈھونڈنے میں عُمر گنوا دی ہم نے

ہم کہ برباد ہوئے گردِ سفر کی صورت

نارسائی میں کٹی عمر مگر کیسے کٹی

اک ہمیں درد ملا عمرِ خضر کی صورت

ہم کھڑے فٹ پاتھ پر زخموں کو سہلاتے رہے

 ہم کھڑے فٹ پاتھ پر زخموں کو سہلاتے رہے

دوستوں کے قافلے آتے رہے، جاتے رہے

کچھ مِری رُوداد غم ہی بزم کو تڑپا گئی

کچھ تِری آنکھوں کے ساغر بھی چھلک جاتے رہے

اُف بدلتے موسموں کی بے پنہ رنگینیاں

یہ شکاری دشت میں بھی دام پھیلاتے رہے

میں ازل کی سمت الٹی جست بھر جاؤں اگر

 میں ازل کی سمت اُلٹی جست بھر جاؤں اگر

عالموں کو جیب میں ڈالے گُزر جاؤں اگر

دے چکے تم حافظہ بھی، سوچ بھی، احساس بھی

میرے ہاتھوں میں ہے سب کچھ ، میں مُکر جاؤں اگر

میرے اک ذرّے میں گُم ہو جائیں یہ دونوں جہاں

ترک کر دوں مُرتکز رکھنا، بکھر جاؤں اگر

نام ترا کبھی یٰسین کبھی طہٰ لکھوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نام ترا کبھی یٰسین کبھی طہٰ لکھوں

لکھوں قرآن، اگر تیرا سراپا لکھوں

بات پھر سورۂ والیل تک جا پہنچے

میں تِری زُلف دوتا کا جو قصیدہ لکھوں

دل میں حسرت ہے نہ لکھا ہو کسی نے ایسا

میں تیری مدح و ثناء میں کبھی ایسا لکھوں

ہم بھی مدینے جائیں گے آج نہیں تو کل سہی

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہم بھی مدینے جائیں گے آج نہیں تو کل سہی

آقاﷺ ہمیں بلائیں گے آج نہیں تو کل سہی

ہم نے تو مان ہی لیا آپﷺ ہیں روح کائنات

لوگ بھی مان جائیں گے آج نہیں تو کل سہی

عرش کہا ہے خود اسے سرور کائناتﷺ نے

دل کو وہ دل بنائیں گے آج نہیں تو کل سہی

کہاں ہو یا رسول اللہ کہاں ہو

  عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کہاں ہو یا رسول اللہﷺ کہاں ہو؟

مِری آنکھوں سے کیوں ایسے نہاں ہو

گدا بن کر میں ڈھونڈوں تم کو در در

مِرے آقاﷺ مجھے چھوڑا ہے کس پر

اگر میں خواب میں دیدار پاؤں

لپٹ قدموں سے بس قربان جاؤں

وہ اوج پیغمبری کا تارا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ اوج پیغمبری کا تارا

ہوا ہے مکہ میں جلوہ آرا

کرے گا جو ماہ کو دو پارا

وہ اُمتوں کے لیے سہارا

وہ جس نے اخلاق کو سنوارا

کرے جو صورت کوئی نظارا

حسن کون و مکاں آپ ہیں یا نبی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حسن کون و مکاں آپ ہیں یا نبیﷺ

رونق دو جہاں آپ ہیں یا نبیﷺ

چاند سورج نے پائی ہے جن سے ضیا

منبعِ ضوفشاں آپ ہیں یا نبیﷺ

ہے کفِ پائے آقا خدا تک رساں

ہادئ انس و جاں آپ ہیں یا نبیﷺ

جذبۂ پاک حمد باری کے بعد اے خامہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

جذبۂ پاک


حمد باری کے بعد اے خامہ

مئے وحدت کا بھر کے لا اک جام

دل میں رکھتا ہوں ایک جذبۂ پاک

ہے مجھے احترام پاک کلام

کیا سنیں گے وہ حالِ دل میرا

ہے گزارش بطرزِ استفہام

Monday, 16 September 2024

گھر کی بنیاد ایسے ہلی چھت گری

  بَین کرتی ہوئی زندگی


گھر کی بُنیاد ایسے ہِلی، چھت گِری

یوں پلستر اُکھڑ کر زمیں پر گِرا

وہ جو دِیوار تھے

آج اینٹوں کی مانند کوئی کہیں

اور کوئی کہیں

میرا دل، چیختے رہنے والا یہ دل

داد جرم و گناہ دی مجھ کو

 زعفرانی کلام


دادِ جُرم و گُناہ دی مجھ کو

مُنصفوں نے پناہ دی مجھ کو

اِک بلا تھی مِرے تعاقب میں

دُوسری نے نہ راہ دی مجھ کو

ہٹتی مرتی نہیں ہے لنگر سے

اس نے ایسی سپاہ دی مجھ کو

شاخ سے ٹوٹ کے جب پھول بکھر جاتے ہیں

 شاخ سے ٹُوٹ کے جب پھُول بکھر جاتے ہیں

کتنے احساس مِرے دل میں اتر جاتے ہیں

میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں بڑی حسرت سے

وہ مِرے پاس سے چُپ چاپ گُزر جاتے ہیں

چاند تاروں پہ تعجب کی نظر پڑتی ہے

جانے کس سمت سے آتے ہیں، کدھر جاتے ہیں

حسرت بھری نگاہوں کو آرام تک نہیں

 حسرت بھری نگاہوں کو آرام تک نہیں

پلٹا وہ زندگانی کی پھر شام تک نہیں

جس کی طلب میں زندگی اپنی گُزار دی

اس بے وفا کے لب پہ مِرا نام تک نہیں

جو کہہ گئے تھے شام کو بیٹھیں گے آج پھر

کچھ سال ہو گئے کوئی پیغام تک نہیں

تند موجوں کا جنوں دیکھو کہاں تک آ گیا

 تند موجوں کا جنوں دیکھو کہاں تک آ گیا

سیل بے ہنگام خطرے کے نشاں تک آ گیا

اب نہ میری بے گناہی کی صفائی دیجیے

اب جو میرا مسئلہ ہے داستاں تک آ گیا

اس پری پیکر کا ہر اک وصف کر دوں گا بیاں

جب کبھی میرا قلم حُسنِ بُتاں تک آ گیا

باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے

 باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے

زندگی کے سب رستے تیری رہگزر نکلے

سوچتے ہیں کیوں آخر ذوق سجدہ ریزی میں

ہم جہاں جبیں رکھیں وہ تِرا ہی در نکلے

جو تھے ناپنے والے زخم دل کی گہرائی

 اپنی شوخ نظروں سے کتنے بے خبر نکلے

سونا گگن ہے تن میں اگن ہے دل کیوں جلا ہے

 سُونا گگن ہے، تن میں اگن ہے، دل کیوں جلا ہے

جگ بے وفا ہے سب تھا پتا پھر، من کیوں بھرا ہے

اشکوں کے تارے، بکھرے بکھرے ہیں دیکھوں، امبر پہ کس کے

لگتا ہے چندا، رویا بہت ہے، شب پُورنما ہے

آہوں سے گرمی اُٹھتی ہے ایسے، جیسے جلا من

کس سمت جائیں، ہر سُو گُھٹن ہے، کیوں یہ خلا ہے

بتوں سے ڈرتا رہا ہوں خدا کے ہوتے ہوئے

 بُتوں سے ڈرتا رہا ہوں خُدا کے ہوتے ہوئے

سو مُشکلوں میں ہوں مُشکل کُشا کے ہوتے ہوئے

کہاں کہاں نہیں سجدے مِری جبیں نے کیے

میں در بدر پھرا حاجت روا کے ہوتے ہوئے

مِرا یزید کی بیعت بغیر چارہ نہ تھا

در حسینؑ کے اور کربلا کے ہوتے ہوئے

کہے افضل ہوئے ہیں آپ کی آمد کے بعد

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کہے افضل ہوئے ہیں آپﷺ کی آمد کے بعد

کہوں سب در کھلے ہیں آپ کی آمد کے بعد

کہے پتھر نے پہنے پھول کے چہرے یہاں

کہوں یہ راستے ہیں آپ کی آمد کے بعد

کہے ہر پل لگے ہیں پر مِری امید کو

کہوں سب حوصلے ہیں آپ کی آمد کے بعد

وادئ بطحا کو جنت کے نظارے ہو گئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وادئ بطحا کو جنت کے نظارے ہو گئے

آپﷺ آئے تو سبھی ذرے ستارے ہو گئے

بے کلی کو آپﷺ نے بخشا سکوں کا ذائقہ

دل کی بے تابی کے سب ٹھنڈے شرارے ہو گئے

دور تک پھیلی ہوئی تاریکیاں بھی چھٹ گئیں

پھر منور ارض خاکی کے کنارے ہو گئے

مجھے بھی انتساب ہے اسی مہ مبین سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھے بھی انتساب ہے اسی مہِ مبین سے

بلند جس کی شان ہے جہاں کے ہر حسین سے

جب ان کا عشق دل میں ہو تو دل عزیز کیوں نہ ہو

کہ ہے سدا شرف ملا، مکان کو مکین سے

وہ خوش ہوئے تو انبساط چھا گئی جہان پر

لرز اٹھی زمین ان کی چشمِ خشمگین سے

جہان بھر کی کتابوں میں جو بھی اچھا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جہان بھر کی کتابوں میں جو بھی اچھا ہے

مِرے لیے تو یقیناً وہ ذکر تیراﷺ ہے

شدید دھوپ ہے، اور سائے جھُوٹے سائے ہیں

اُس ایک زُلف کے نیچے ہی اصل سایہ ہے

عجیب نرم ہے غیروں سے گُفتگو کے وقت

وہ غیر ہوتے ہوئے بھی لگے کہ اپنا ہے

ہے ثنائے مصطفیٰ سے روشنی گفتار میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے ثنائے مصطفیٰؐ سے روشنی گفتار میں

مدحتِ صل علیٰﷺ سے چاشنی اشعار میں

اک قصیدۂ نبیﷺ لکھوں تمنا ہے میری

گونج جس کی حشر تک باقی رہے سنسار میں

روضۂ آقاﷺ پہ جیسے اک سکونِ قلب ہے

کس قدر ہو گا سکوں پھر دامنِ سرکار میں

دیکھتا ہوں میں شب کنارے خواب

 دیکھتا ہوں میں شب کنارے خواب

ہار کے مارے ہوئے سارے خواب

وہ حقیقت میں کیوں نہیں ملتے

آتے رہتے ہیں جن کے بارے خواب

مجھ سے اپنے سنبھالے نہ جائیں

اس نے بھی لا کے منہ پہ مارے خواب

Sunday, 15 September 2024

اشکوں میں روانی ہے اردو ماہیہ

ماہیا٭/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے


اشکوں میں روانی ہے

آنسو پی پی کر

مدہوش جوانی ہے


ہمت رائے شرما 

عجب نہیں ہے کہ از راہ جاہ کرتا رہے

 عجب نہیں ہے کہ از راہِ جاہ کرتا رہے

عدُو کا کام بھی میرِ سِپاہ کرتا رہے

تو کیا خموش رہیں، اس کے ڈر سے بُت بن جائیں

تو جی میں آئے بھلے جو بھی شاہ کرتا رہے

ہے کس خُدا کی طرف سے نوشتۂ دیوار

کہ شاہ شاہ ہے جب تک نِباہ کرتا رہے

زندگی یوں تو اک عذاب لگے

 زندگی یوں تو اک عذاب لگے

تیرا ملنا مگر ثواب لگے

نیم شب اس کے خواب کا عالم

مجھ کو آنگن میں ماہتاب لگے

وہ تِرا قرب تھا، مِری تقریب

وہ حقیقت بھی اب تو خواب لگے

اسی یقین پہ کاٹی سزا اداسی کی

 اسی یقین پہ کاٹی سزا اداسی کی

کبھی تو سر سے ٹلے گی بلا اداسی کی

یہ نخل دل ہے مسرت میں کھل سکے گا نہیں

اسے تو راس ہے آب و ہوا اداسی کی

جہاں کی جتنی بھی کیفیتیں ہیں دیکھ چکے

مگر ہے شان سبھی سے جدا اداسی کی

کچلا ہوا جذبہ شدت میں نوخیز قیامت ہوتا ہے

 کچلا ہوا جذبہ شدت میں نوخیز قیامت ہوتا ہے

طوفان سے پہلے سناٹا خطرے کی علامت ہوتا ہے

جیسا بھی کہا، جتنا بھی کہا، کھل کر ہی کہا، ڈٹ کر ہی کہا

سوچا ہی نہیں کہ لوگوں میں کیوں ذوق ملامت ہوتا ہے

منزل کی لگن‘ عظمت کی کرن،ہمت کا چلن، غیرت کی پھبن

ہر مرد قوی کا دنیا میں ایمان سلامت ہوتا ہے

دن بھی ہوا طلوع سیہ رات کی طرح

 دن بھی ہوا طلوع سیہ رات کی طرح

اب کے بہار آئی ہے برسات کی طرح

حد نگاہ تک ہے عجب خاک سی اڑی

گزرا ہے کون بھاگتے لمحات کی طرح

قائم رہے سدا یہ مِری گردش حیات

غم بھی عطا کیے مجھے سوغات کی طرح

وفا کی بات ہے اہل وفا سے پوچھیں گے

 وفا کی بات ہے اہل وفا سے پوچھیں گے

یہ دل کی بات کسی دلرُبا سے پوچھیں گے

وہ کیسے ہجر کی راتیں گزارتا ہو گا

سحر کے وقت یہ بادِ صبا سے پوچھیں گے

یوں کتنی دیر ابھی اور ہم کو چلنا ہے

ہم عہد نو کے کسی رہنما سے پوچھیں گے

کوئی مشکل نہیں جس کا نہ حل پایا مدینے میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کوئی مشکل نہیں جس کا نہ حل پایا مدینے میں

خدا کی رحمتوں کا ہر طرف جلوا مدینے میں

مدینے میں جلائی شمع وحدت کی محمدﷺ نے

اُجالا نُور کا پہلے پہل پھیلا مدینے میں

تمنا ہے اگر کوئی تو بس اک یہ تمنا ہے

محمدﷺ مصطفیٰ کا دیکھ لوں روضہ مدینے میں

تو غفور ہے تو رحیم ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تُو کریم ہے تو قدیم ہے

تُو غفور ہے تو رحیم ہے

تِرے در پہ آ کے گرا ہوں میں

تِرے سامنے ہی جھُکا ہوں میں

مِری ہر خطا کو معاف کر

مِری لوح قلب کو صاف کر

ہر ایک روگ کی لے لو دوا مدینے سے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر ایک روگ کی لے لو دوا مدینے سے

ملے گی مانگ کے دیکھو شفا مدینے سے

خدا کا گھر تو ہے کعبہ، اگر وہاں نہ ملے

تو پھر ضرور ملے گا خدا مدینے سے

لپٹ لپٹ کے میں رویا ہوں اس کے قدموں سے

جو آ گیا ہے کوئی آشنا مدینے سے

میں نے تو ظلم جان پہ کیا کیا نہیں کیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میں نے تو ظلم جان پہ کیا کیا نہیں کیا

لیکن مِرے حضورﷺ نے رُسوا نہیں کیا

مجھ کو یقیں ہے لاج رکھیں گے وہ روزِ حشر

یا پھر کہو حضورﷺ نے وعدہ نہیں کیا

اب تک کوئی بھی ڈھونڈ کے لایا نہ وہ سوال

جس کو مِرے حضورﷺ نے پورا نہیں کیا

یا رب مجھے توصیف پیمبر کی زباں دے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یارب! مجھے توصیف پیمبرﷺ کی زباں دے

سرشار کرے رُوح کو جو ایسا بیاں دے

دُنیا ہو کہ دیں آپﷺ کے کہنے پہ سجاؤں

حق دونوں کا ہو خوب ادا، دونوں جہاں دے

اُمت کے لیے آپﷺ نے کیا کچھ نہ کیا تھا

غم خوارئ ملت کی مجھے آہ و فغاں دے

Saturday, 14 September 2024

جہان دل فگاراں اب یہی ہے

 جہانِ دل فگاراں اب یہی ہے

جمالستان یاراں اب یہی ہے

میں بند آنکھوں سے منظر دیکھتا ہوں

مِرا جشن بہاراں اب یہی ہے

سجاتا ہوں تیری یادوں کے گلشن

قرار بے قراراں اب یہی ہے

کوئی عفریت میرے گھر میں ہے

 کوئی عفریت میرے گھر میں ہے

ہر در و دیوار یکساں ڈر میں ہے

دور تک پھیلی ہوئی ہے بے دلی

دیر سے اک بے بسی منظر میں ہے

ایک ہلچل ہے کہ دل میں ہے جواں

ایک محشر ہے کہ میرے سر میں ہے

پریشاں کر رہا ہے غم کسی کا

 پریشاں کر رہا ہے غم کسی کا

کسی کو کیا جو نکلے دم کسی کا

تمہاری آنکھ کے تیور نہ بدلے

ہے سارے شہر میں ماتم کسی کا

بیانِ غم نہ کر پائی زُباں گر

کہے گا دیدۂ پُر نم کسی کا

زیست کو خوگر بیداد کیے جاتا ہوں

 زیست کو خوگر بیداد کیے جاتا ہوں

بھولنے والے تجھے یاد کیے جاتا ہوں

دل کو دیتا ہوں شب و روز فریب باطل

میں بہر طور اسے شاد کیے جاتا ہوں

دل تو فرمان کی تعمیل کیے جاتا ہے

میرا یہ حال کہ فریاد کیے جاتا ہوں

گل سے بھی اہل چمن خوشبو جدا کر دیکھو

 گُل سے بھی اہل چمن خوشبو جدا کر دیکھو

جی میں آئے جو تمہارے وہ جفا کر دیکھو

ہم ہیں انسان، تمہی جیسے ہیں آدم زادے

ہم سے افلاس کے پتھر جو ہٹا کر دیکھو

اتنی بگڑی تو نہ تھی پہلے سحر کی صورت

گزری کیا عالم خورشید پہ جا کر دیکھو

راہ دکھلائے گا خدا میرا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


راہ دکھلائے گا، خدا میرا

بس وہی تو ہے رہنما میرا

سب کی مشکل جو ٹال دیتا ہے

ہے مصیبت میں آسرا میرا

اس قدر جس نے نعمتیں بخشیں

اس کے آگے ہے سر جھکا میرا

دھول سے جو اٹ گیا تھا گم ہوا تھا راستا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دُھول سے جو اَٹ گیا تھا، گُم ہُوا تھا راستا

آپﷺ کے دم سے ہوا ہر دم رواں صبح و مسا

زرد موسم نے بھی پہنا سبز موسم کا لباس

رُوح پرور ہو گئی مکّے مدینے کی ہوا

بے اماں افراد کو بھی مل گئی ان کی اماں

ہو گئے رشک ثریا، وہ جو تھے تحت الثریٰ

ہر مسلمان پہ لازم ہے اطاعت تیری

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہر مسلمان پہ لازم ہے اطاعت تیریﷺ

نصِ قرآن سے ثابت ہے محبت تیریﷺ

حق کی بخشش سے نہ پھر کوئی بھی محروم رہا

آڑے آئی جو گنہگاروں کے رحمت تیریﷺ

وہ جنہیں تجھ کو ستانے میں مزہ آتا تھا

ان کے حق میں تھی دعا مانگنا عادت تیریﷺ

نفرتوں کی تیرگی تھی روشنی دی آپ نے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نفرتوں کی تیرگی تھی، روشنی دی آپﷺ نے

زندگی کو زندگی کی تازگی دی آپﷺ نے

ظالموں کے سامنے جرأت کی خندق کھود کر

سارے مظلوموں کو ہمت دائمی دی آپﷺ نے

حضرت سلمانؓ ہوں یا سعدؓ ہوں یا ہوں بلالؓ

بے کسوں، بے آسروں کو زندگی دی آپﷺ نے

جو یاد سرور عالم کا نام کرتا ہوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


جو یاد سرورِ عالمﷺ کا نام کرتا ہوں

تو دل سے سبط نبیؐ کو سلام کرتا ہوں

خیال و فکر کی دنیا حسینؑ سے آباد

میں کربلا میں مسلسل قیام کرتا ہوں

میں ذکر کرتا ہوں جب کربلا کے پیاسوں کا

تو یوں بھی جذب شہادت کو عام کرتا ہوں

Friday, 13 September 2024

کیا یہاں گوتم نہ آئے گا کبھی

 کہاں ہو تم گوتم؟


خون کے سیلاب میں ہر شہر ہے ڈُوبا ہوا

موت ہنستی جا رہی ہے زندگی کا لاش پر

کون ہے جو؟

ان درندوں کے بڑھتے تیز ناخن کاٹ ڈالے

کون ہے جو؟

خون کی اس پیاس کو

عشق کے دھاگوں میں پرو کے مجھے

 عشق کے دھاگوں میں پرو کے مجھے

ہنسنے کا کہہ گیا ہے وہ رو کے مجھے

بے چین صورت اس کی آ جاتی ہے

آتا نہیں چین اب سو کے مجھے

آنسوؤں کے پانی سے کر کے وضو

دیکھتا ہے وہ آنکھیں بھگو کے مجھے

یہ الگ بات کہ دونوں سے نبھایا نہ گیا

 یہ الگ بات کہ دونوں سے نبھایا نہ گیا

پیار خُوشبو تھا کسی طور چُھپایا نہ گیا

تیری فُرقت میں تو یوں گیت ہزاروں لکھے

تیری قُربت میں تو اک حرف اُٹھایا نہ گیا

یومِ اِطفال پہ ہر شخص بہت کچھ بولا

ایک بِن باپ مگر گھر میں بسایا نہ گیا

پتے سے گر کے درس فنا دے گیا مجھے

 پتے سے گِر کے درس فنا دے گیا مجھے

بارش کا قطرہ سرِ قضا دے گیا مجھے

جب تک یقیں نہیں تھا کوئی خوف بھی نہ تھا

خوفِ خدا، یقینِ خدا دے گیا مجھے

اس دشتِ روزگار میں جلتی لوؤں کے ساتھ

ٹھنڈا سا اک خیال ہوا دے گیا مجھے

دل میں اخلاص و محبت کو تو زندہ رکھو

 دل میں اخلاص و محبت کو تو زندہ رکھو

پیار کی رِیت، روایت کو تو زندہ رکھو

وہ کسی خواب جزیرے کا مکیں ہے لیکن

حسرتِ دل، دل حسرت کو تو زندہ رکھو

ایک پل بھی نہیں جینا تِری چاہت کے بغیر

یہ حقیقت ہے، حقیقت کو تو زندہ رکھو

خالق کل ہے تری ذات کرم کر مولا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خالقِ کُل ہے تِری ذات کرم کر مولا

ہے صدا بس یہی دِن رات کرم کر مولا

تیرے دربار سے جاتا نہیں کوئی خالی

ٹھیک کر دے مِرے حالات کرم کر مولا

دستِ قُدرت مِیں تِرے رِزق ہے سب کا رازق

اب عطاؤں کی ہو برسات کرم کر مولا

وہ دین دین ہی کیا جس کو انتہا نہ ملے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ دین دین ہی کیا جس کو انتہا نہ ملے

نبیؑ ہوں لاکھ مگر فخر انبیاﷺ نہ ملے

نجات پاؤ گے کیسے تم اہلِ اسرائیل

ملے گا رب نہ اسے جس کو مصطفیٰؐ نہ ملے

کرو تصور عیسیٰؑ بہ شکل ابن خدا

خدا کے ساتھ ملاؤ بھلے  خدا نہ ملے

بنا ہے تصور میں کعبے کا کعبہ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بنا ہے تصور میں کعبے کا کعبہ

تمہیں گر دِکھا دوں تو کیسا رہے گا

نامِ محمدﷺ پہ ہو کے فِدا میں

جو خود کو مِٹا دوں تو کیسا رہے گا

نبیﷺ کی محبت میں دیوانہ بن کے

خودی کو جھُکا لوں تو کیسا رہے گا

بارش رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بارشِ رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے

اے خدا، نعت فقط حرف و بیاں تک نہ رہے

اے مِرے آتشِ فارس کے بجھانے والے

اس طرح ہجر بجھا دیں کہ دھواں تک نہ رہے

شہرِ طیبہ کی سکونت جو ہمیں مل جائے

عشرتِ زیست ہے کیا خواہش جاں تک نہ رہے

میرا ایماں ہو سلامت زہے قسمت میری

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میرا ایماں ہو سلامت، زہے قسمت میری

تا اَبَد زندہ رہے آپﷺ سے نسبت میری

دل و جاں جھوم اٹھیں آپ کا رستہ دیکھیں

پر جبریلؑ کی پرواز ہو رفعت میری

بگڑی بن جائے اگر آپ کے قدموں میں رہوں

فلک آسا مجھے رکھے گی اطاعت میری

Thursday, 12 September 2024

رفتار پر کنٹرول کا رویہ زندگی کو سہل اور آسان بناتا ہے

 انتباہ


گاڑی کھینچنا

اور چلاتے رکھنا

دو مختلف رو میں

باہم ربط و راہ کے نشیب و فراز

رفتار کو متأثر کرتے ہیں

مزاحمت کی صورت میں

میں یہ گاؤں واسی ہوں سو شہر جانے سے رہے

 میں یہ گاؤں واسی ہوں سو شہر جانے سے رہے

شہر کی اس آنکھ میں اب اشک آنے سے رہے

تین بیٹوں کو اکیلا ہی وہ پالا کرتا تھا

تین بیٹے بوجھ ابا کا اٹھانے سے رہے

کربلا میں آج تو خود ہی کوئی رستہ نکال

آج ہم اے تشنگی تجھ کو بجھانے سے رہے

وہی رات بھر تجھے سوچنا وہی چاہتوں کے نصاب ہیں

 وہی رات بھر تجھے سوچنا وہی چاہتوں کے نصاب ہیں

یہ بڑے طویل ہیں سلسلے یہ بڑے طویل عذاب ہیں

ہمیں روز ملتی ہیں سازشیں یہاں دوستی کے لباس میں

یہاں ہر قدم پہ فریب ہیں یہاں ہر طرف ہی سراب ہیں

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مجھے اتنے رنگ عطا کیے

جو مٹا رہے تھے نشاں مِرا نہ سوال ہیں نہ جواب ہیں

اجاڑ لمحوں کی داستانیں جو تم کہو تو سنائیں تم کو

 اُجاڑ لمحوں کی داستانیں جو تم کہو تو سُنائیں تم کو

بہت سا ہم جاگتے رہے ہیں چلو ذرا سا جگائیں تم کو

تمہی ہو جو روشنی سی بن کر ہماری آنکھوں میں آ بسے ہو

جب اپنی آنکھیں ہی کہہ دیا ہے تو پھر بھلا کیوں رُلائیں تم کو

تم آج کیوں مُضطرب ہو جاناں، تمہارے لہجے میں ٹُوٹ کیسی

کہا نہیں تھا کہ وقت دے گا کدُورتوں کی سزائیں تم کو

کبھی پردہ در ہوں میں راز کا کبھی ہوں میں پردۂ راز میں

 کبھی پردہ در ہوں میں راز کا کبھی ہوں میں پردۂ راز میں

کہ حقیقت اک مِری مشترک ہے حقیقت اور مجاز میں

یہ کہاں کے جلوے سما گئے یہ کہاں کی حیرتیں چھا گئیں

کہ ہزاروں آئینہ لگ گئے ہیں نگاہ آئینہ ساز میں

کبھی تو بھی طالب رحم ہو کبھی تو بھی غیر پہ جان دے

کبھی جلوہ گر ہو خدا کرے تِرا ناز میرے نیاز میں

ہے راہ حق یہی یہی رستہ رسول کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ہے راہ حق یہی یہی رستہ رسولﷺ کا

منشا ہے جو خدا کا، ہے منشا رسولؐ کا

اللہ نے بلند کیا ذکر آپﷺ کا

رتبہ تمام نبیوں میں اعلیٰ رسولؐ کا

لازم ہے ہم پہ مِدحتِ آقائے نامدارؐ

یہ ساری کائنات ہے صدقہ رسولؐ کا

خودی کو اپنا امام کر لو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


خودی کو اپنا امام کر لو 

مروتوں کو غلام کر لو 

کبھی جو رب کو منانا چاہو 

اٹھا کے ہاتھوں کو جام کر لو 

انا پرستی سے اب نکل کر 

سبھی کے دل میں قیام کر لو 

زندگی در در پھری ہر سمت اور ہر جا گئی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زندگی در در پھری، ہر سمت اور ہر جا گئی

آخرش رازِ سعادت ایک در سے پا گئی

کس قدر عالی مراتب ہستیاں آئِیں مگر

ایک ہستی اوّلیں اور آخریں پر چھا گئی

ایک ایسی روشنی نکلی تھی کوہِ نور سے

جو اندھیروں کو ہمیشہ کے لیے دفنا گئی

ترے جمال سے ہر سو چمن میں رونق ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تِرے جمال سے ہر سو چمن میں رونق ہے

تِرے وجود سے کوہ و دمن میں رونق ہے

جو راز جان گئے سرخرو ہوئے مالک

کہ لا الٰہ سے ہر انجمن میں رونق ہے

تصورات کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں

بہشت میں ہے جو محفل، عدن میں رونق ہے

بلایا عرش پر خالق نے جب خلق مجسم کو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بلایا عرش پر خالق نے جب خُلق مجسّم کو

وہاں راز و نیاز شوق کی باہم تھی آسانی

کرن ایسی لیے جاتی تھی کھینچے بام سِدریٰ پر

اگر انگشتری میں ہو تو مل جائے سلیمانی

پڑی تھی روبرو کچھ اس طرح قوسین کی چلمن

کہ دیکھے اوٹ سے محبوبؐ کو محبوب سلیمانی

در نبی پہ پڑا رہوں گا پڑے ہی رہنے سے کام ہو گا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


در نبی پہ پڑا رہوں گا، پڑے ہی رہنے سے کام ہو گا

کبھی تو قسمت کھلے گی میری کبھی تو میر سلام ہو گا

خلاف معشوق کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہو گا

خدا بھی ہو گا ادھر اے دل! جدھر وہ عالی مقامﷺ ہو گا

کیے ہی جاؤں گا عرضِ مطلب ملے گا جب تک نہ دل کا مطلب

نہ شام مطلب کی صبح ہو گی،۔ نہ یہ فسانہ تمام ہو گا

Wednesday, 11 September 2024

وہ جو شام تھی تیرے نام تھی

 شہید جمہوریت بینظیر بھٹو کے نام


وہ جو شام تھی

تیرے نام تھی

تھی نظر نظر تیری منتظر، میری راہبر

میرے خواب کی تُو اساس تھی

تُو ہی تو مِری غم شناس تھی

میری آس تھی

اپنے ہونے لگے ہیں بیگانے

 اپنے ہونے لگے ہیں بے گانے

کون جانے کسی کو سمجھانے

وہ خداوندِ عصر ہیں کیا خوب

آپ اپنے سے جو ہیں بیگانے

کس کو فرصت ہے دلنوازی کی

کون سنتا ہے غم کے افسانے

تبدیلی آدم کی گدی پہ بندر آ بیٹھا ہے

 تبدیلی


صدیوں پرانے گنبد اور محراب کے نیچے

آدم کی گدی پہ آدم آبیٹھا تھا

پہلے یہ گھٹنا کڑوا سچ تھی

یا پھر ایک لطیفہ تھی

لیکن آج فقط سچ ہے

ایک ایسا سچ جس کو سن کر

اور بھی اک فریب کھانے دے

 اور بھی اک فریب کھانے دے

مسکراتا ہوں مسکرانے دے

آشنا زندگی سے کر مجھ کو

اپنی آنکھوں میں ڈوب جانے دے

تیرگی اس سے مٹ سکے شاید

شمع محفل کو جگمگانے دے