عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خاک مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا
ہوتی رہِ مدینہ میرا غُبار ہوتا
آقاؐ اگر کرم سے طیبہ مجھے بلاتے
روضے پر صدقے ہوتا ان پر نثار ہوتا
مر مٹ کے خوب لگتی مٹی میری ٹھکانے
گر انؐ کی رہگزر پر میرا مزار ہوتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خاک مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا
ہوتی رہِ مدینہ میرا غُبار ہوتا
آقاؐ اگر کرم سے طیبہ مجھے بلاتے
روضے پر صدقے ہوتا ان پر نثار ہوتا
مر مٹ کے خوب لگتی مٹی میری ٹھکانے
گر انؐ کی رہگزر پر میرا مزار ہوتا
یار کا پتا لوگو!! جا بجا نہیں ملتا
جس جگہ پہ کھویا ہو اُس جگہ نہیں ملتا
شعلۂ جوالہ ہے،۔ آگ کا حوالہ ہے
مسجدوں کی ٹھنڈک میں اب خُدا نہیں ملتا
عشق کرنے والے بھی عشق اب نہیں کرتے
جُوئے شِیر لانے کا اب صِلہ نہیں ملتا
روز یہ، بار بار ہوتا نہیں
ہم سے جی انتظار ہوتا نہیں
عشق وہ تیر ہے جو پھنس جائے
تیر، جو دل کے پار ہوتا نہیں
آدمی وہم پال لیتا ہے
آدمی بے قرار ہوتا نہیں
آپ کے التفات کا غم ہو
اتنی چھوٹی سی بات کا غم ہو
آج ان آنکھوں کی بات یاد آئی
آج کس کو حیات کا غم ہو
عشق سے یہ مذاق ٹھیک نہیں
ہم کو اور سانحات کا غم ہو
دُھوئیں کی زد میں سارا جہاں ہے
یہ دُنیا ہے کہ یہ آتش فشاں ہے؟
ہر اک دل میں غموں کا ہے بسیرا
خُوشی کا تو نہیں ملتا نشاں ہے
ہر اک بندے کی آنکھوں میں نمی ہے
ہر اک لب پر بھی آوازِ فُغاں ہے
قہر کی آگ جل رہی ہو گی
عمر اس میں پگھل رہی ہو گی
موت کا قتل ہو رہا ہو گا
زندگی ہاتھ مَل رہی ہو گی
خال و خد خاک ہو رہے ہوں گے
نئی صُورت نکل رہی ہو گی
یوں اہتمام ردِ سحر کر دیا گیا
ہر روشنی کو شہر بدر کر دیا گیا
اپنے گھروں کے سُکھ سے بھی روکش دکھائی دیں
لوگوں کو مُبتلائے سفر کر دیا گیا
جینا ہر ایک کے لیے مُمکن نہیں رہا
جینے کو ایک کار ہُنر کر دیا گیا
نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہم زباں ہے
دل ناشاد پھر بھی نغمہ خواں ہے
مِری قسمت میں ہی دی ہے خدا نے
مصیبت جو بھی زیر آسماں ہے
چمن کے طائرو اب خیر مانگو
بہت برہم مزاجِ باغباں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آئے بلاوہ کب سے مجھے انتظار ہے
دیکھوں مدینہ میں بھی کبھی انتظار ہے
کعبے میں رونقیں ہیں جہاں پر چار سُو
کر لوں قیام میں وہاں دل بے قرار ہے
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہیں پھولوں کی باس ہے
رُت کوئی ہو مگر وہاں رہتی بہار ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آپﷺ پر جاں فدا ہو صلِ علیٰ
حق نہ پھر بھی ادا ہو صلِ علیٰ
آپﷺ کے مقتدی تمام نبیؑ
سرورِ انبیاءﷺ ہو صل علیٰ
آپ کی ذات پر درود و سلام
احمد مجتبیٰﷺ ہو صل علیٰ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ علم و حکمت سکھانے والا
پیام حق کا وہ لانے والا
کلام حق کا سنانے والا
عذاب حق سے ڈرانے والا
وہ رسم بد کا چھڑانے والا
وہ جھل و بدعت مٹانے والا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وقتِ دعا ہے
بھلے دن ہمارے پھرا دے اے مولا
تُو رحمت کے دریا بہا دے اے مولا
ہوس نے اخوت میں ہے پھوٹ ڈالی
دلوں کو ہمارے ملا دے اے مولا
ہیں نا آشنا مقصدِ زندگی سے
جہالت کے پردے ہٹا دے اے مولا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
طیبہ کے مہمان ہو جائیں گے کیا
یہ گدا ذی شان ہو جائیں گے کیا
پاس بیٹھے جو نہیں ہیں دو گھڑی
عمر بھر مہمان ہو جائیں گے کیا
چوم لیں جو دشت طیبہ کی زمیں
بے عمل، عدنان ہو جائیں گے کیا
اس دلِ خوش گُماں سے اُٹھتا ہے
درد ہر پل یہاں سے اٹھتا ہے
آگ گھر کے دِیے سے لگتی ہے
یہ دُھواں ہر زباں سے اٹھتا ہے
لوگ پہروں جگہ وہ تکتے ہیں
میرا ساجن جہاں سے اٹھتا ہے
دیکھنا دل کو کچھ ہُوا تو نہیں
یہ ہے آغاز انتہا تو نہیں
کیوں اسے بے وفا کے نام کروں
زندگی ہے کوئی سزا تو نہیں
زیست کیوں قید بن گئی اپنی
جُرم ایسا کوئی کیا تو نہیں
یہ کہانی، یہ قلمکار نہیں مرنے والا
کُن سے پیدا ہوا شہکار نہیں مرنے والا
اتنا میں خاص ہوں کہ، آئینہ بنایا مجھ کو
چڑھ بھی جاؤں میں اگر دار، نہیں مرنے والا
گردشِ وقت کہاں مجھ کو مِٹا پائے گی
تیری چاہت کا طلبگار نہیں مرنے والا
کُنجِ تاریک سے اٹھایا گیا
پھر کہیں روشنی میں لایا گیا
آگ، پانی، ہوا ہوں، مٹی ہوں
اس سے آگے نہیں بتایا گیا
جنسِ نایاب تو کہا مجھ کو
بھاؤ میرا مگر گھٹایا گیا
ہم وِرد نامِ یار کر کے
دریاؤں کو آئے پار کر کے
اپنے ہی منتظر ہیں اب تو
دیکھا تِرا انتظار کر کے
اچھی تھیں وہ ناشناسیاں ہی
کھویا ہے تجھے بھی پیار کرکے
خُود اپنے آپ سے آگے نکل نہیں سکتا
اب اس قدر بھی کوئی تیز چل نہیں سکتا
کبھی خزاں کا ہے موسم کبھی بہار کی رُت
میں روز روز یہ کپڑے بدل نہیں سکتا
شجر کی شاخ تراشی بہت ضروری ہے
جو زخم زخم نہیں ہے وہ پھل نہیں سکتا
وہی تو رسم و رہِ عاشقی نبھاتے ہیں
جو زخم کھا کے محبت میں مسکراتے ہیں
ہمارے دل میں ہے آلام کا جہاں آباد
اور اس پہ لوگ ہمیں اپنے دُکھ سناتے ہیں
مسافرانِ عدم کارواں پہ کیا گُزری؟
ہم ایک ایسی کہانی تمہیں سناتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سایۂ عشقِ نبیﷺ دل پہ پڑا، اچھا لگا
ہوں محمدﷺ کے غلاموں میں، بڑا اچھا لگا
بے خودی میں بھی مِرے دل کو ہے رحمت کا پتہ
درِ آقاﷺ پہ، یہ مجذوب کھڑا اچھا لگا
شوقِ دیدار میں پلکوں پہ لرزتا ہوا اشک
اُنؐ کی چوکھٹ پہ نگینہ یہ جڑا، اچھا لگا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چٹھی شفاعتوں کی مرے نام آئے گی
پیش حضورﷺ نعت بہت کام آئے گی
گجرے درودِ پاکﷺ کے نذر حضور ہیں
خوشبو سی تا ابد سحر و شام آئے گی
پیش نظر ہوں گنبد خضریٰ کی جالیاں
ہریالی قلب و جان میں پھر عام آئے گی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا رسول اللہ از بہر خُدا امداد کُن
عمر بھر کرتے رہے امراض ملت کا علاج
اک مرض نے انتقاماً دھر لیا ہے ان کو آج
دل کے ہاتھوں گو ہمیشہ یہ رہے ہیں بے قرار
لیکن اب دل ہو گیا ہے اور ہی صورت سوار
محفل احباب میں مثلِ بریشم نرم ہیں
کار زار ملک و ملت میں ہمیشہ گرم ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے
اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے
تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اک عالم
گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے
شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھی
نہیں تو کیا غرض تھی اتنی جانوں کے بنانے سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبتخان نعیمی
ہے جس کی ساری گفتگو وحئ خدا یہی تو ہیں
حق جس کے چہرے سے عیاں وہ حق نما یہی تو ہیں
جن کی چمک سورج میں ہے جن کا اجالا چاند میں
جن کی مہک پھولوں میں ہے وہ مہ لقا یہی تو ہیں
جس مجرم و بد کار کو سارا جہاں دھتکار دے
وہ ان کے دامن میں چھپے مشکل کشا یہی تو ہیں
زعفرانی کلام
جی رہے ہیں کیا ہی لاچاری میں ہم
کار میں یار اور بے کاری میں ہم
اب ہمیں ٹھنڈی سڑک پر کیا خطر
رکھ چلے ہیں دل کو الماری میں ہم
موت کا ڈر، دل میں دھڑکن، لب پہ آہ
ہیں تِری محفل میں یا لاری میں ہم
زعفرانی کلام
قصابوں کا قومی ترانہ
"چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا"
قصاب ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
چیلیں ہوا میں نگراں، کُتے ہیں گھر کے درباں
"آساں نہیں مٹانا نام و نشان ہمارا"
ہو گوجرے کی منڈی یا آگرے کا چمڑا
چمڑے کا چوکھٹا ہے قومی نشاں ہمارا
یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں
ہم مانگتے ہیں پچھلے پہر کی دعاؤں میں
جنت کو دور دور تو ڈھونڈا گیا, مگر
قدموں تلے نہ ماں کے نہ تیغوں کی چھاؤں میں
خشکی کے رہبروں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
کچھ تو خدا کا نام چلا ناخداؤں میں
وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس
وہ حادثہ تھا مگر ایسا حادثہ تھا کہ بس
وہ پہلے پہلے ملا تھا تو یوں سجا تھا کہ بس
پھر اس کے بعد تو ایسا اجڑ گیا تھا کہ بس
میں اپنے گاؤں کے دیوار و در پہ کیا لکھتا
وہاں تو ایسا اندھیرا چنا ہوا تھا کہ بس
اس بات کو بھولیں نہ مسلمان خُدا کے
کافر بھی حقیقت میں ہیں انسان خدا کے
وہ کون ہے جس کو نہیں کچھ اس سے شکایت
وہ کون ہے جس پر نہیں احسان خدا کے
بڑھتا ہی چلا جاتا ہے دُنیا میں تعصب
بنتے ہی چلے جاتے ہیں ایوان خدا کے
آثار دیکھتا ہوں میں آثار سے الگ
خبریں سنا رہے ہیں جو اخبار سے الگ
یہ انہدام کے کہیں آثار تو نہیں؟
سایہ کھڑا ہے دھوپ میں دیوار سے الگ
یہ انتظار ہے کسی پل کا یا احتیاط
بیمار دار بیٹھے ہیں بیمار سے الگ
محوِ یادِ خُدا رہا کیجے
عِجز سے زندگی جِیا کیجے
مُسکرانا بھی ایک صدقہ ہے
دیکھ کر مُسکرا لیا کیجے
مجھ کو اپنی انا سے لڑنا ہے
میری خاطر دُعا کیا کیجے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدﷺ کے جلوے نظر آ رہے ہیں
حجابِ دو عالم اُٹھے جا رہے ہیں
درِ شہؐ پر ہم یوں مٹے جا رہے ہیں
پئے زندگی، زندگی پا رہے ہیں
صبا کوئی پیغام طیبہ سے لائی
گلستاں کے کانٹے کھلے جا رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ جلوہ نورِ کبریائی
وہ صاحب دعوتِ خدائی
وہ عین تقوی و پارسائی
بنا بُت خانہ اس نے ڈھائی
وہ قرب حق میں جسے رسائی
بہ مجتبائیؐ و مصطفائیﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیوں نہ عظمت ہو ان کی لامحدود
خود خدا بھیجتا ہے جن پہ درود
وہ تو وہ ہیں جن کی خاطر سے
محوِ گردش ہے آسمانِ کبود
ان کی توصیف کا کروں دعویٰ
وسعتِ علم ہے مِری محدود
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے رہنما ہر ایک جو فرمان آپﷺ کا
امت پہ آپ کی ہے یہ احسان آپﷺ کا
باندھے ہوئے تھے پیٹ پہ پتھر تو خود مگر
بھوکا گیا نہ کوئی بھی مہمان آپﷺ کا
ہے آپﷺ کا ہی تذکرہ سب کی زبان پر
کرتا ہے ذکر جا بجا قرآن آپﷺ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے صبا تیرا گزر ہو جو مدینہ میں کبھی
جانا اس گنبدِ خضرا میں کہ ہیں جس میں نبیﷺ
ہاتھ سے اپنے پکڑ کر وہ سنہری جالی
عرض کرنا میری جانب سے بصد شوقِ دلی
ہے تمنّا یہ خدا سے کہ رسولِ عربیﷺ
اپنی آنکھوں کو مَلوں آپ کی چوکھٹ سے نبیﷺ
شبخُون ماریں آپ، اور لاشیں اُٹھاؤں میں
پتھر ہوں جو، نہ خون کے آنسو بہاؤں میں
گُلچیں ہی جب ہو قاتلِ گُل تو بتاؤ پھر
حالِ چمن اے بُلبلو، کس کو سُناؤں میں
ڈھائے جا تُو ستم پہ ستم اے امیرِ شہر
اور اس پہ یہ ستم کہ تِرے گیت گاؤں میں
صبا کس دشت میں تو کھو گئی ہے
کلی رہ تکتے تکتے، سو گئی ہے
مگر اترے فلک سے کوئی تارا
زمیں کی مانگ سونی ہو گئی ہے
مِری آنکھوں سے یوں آج اوس برسی
کہ دامن کی سیاہی دھو گئی ہے
اک نشۂ بیدار کی وسعت کا سفر تھا
کیا جانیے کس عالم حیرت کا سفر تھا
پُر ہول زمانوں میں رواں تھا دل تنہا
تا صبحِ ازل ایک قیامت کا سفر تھا
بس یاد ہے اتنا کہ مِرے سامنے میں تھا
معلوم نہیں کون سی حالت کا سفر تھا
بیگانۂ شعور وفا ہو گیا وہ شخص
یہ کیا ہوا کہ مجھ سے خفا ہو گیا وہ شخص
جس سے ملی تھی میری تمنا کو روشنی
اے تیرگیٔ بخت! خفا ہو گیا وہ شخص
اُترا تھا بُوئے گُل کی طرح میری رُوح میں
ایسا گیا کہ موجِ ہوا ہو گیا وہ شخص
ایسی بگڑی ہے تِرے شہر میں گھر کی صورت
کبھی دیوار کو دیکھیں کبھی در کی صورت
اک تجھے ڈھونڈنے میں عُمر گنوا دی ہم نے
ہم کہ برباد ہوئے گردِ سفر کی صورت
نارسائی میں کٹی عمر مگر کیسے کٹی
اک ہمیں درد ملا عمرِ خضر کی صورت
ہم کھڑے فٹ پاتھ پر زخموں کو سہلاتے رہے
دوستوں کے قافلے آتے رہے، جاتے رہے
کچھ مِری رُوداد غم ہی بزم کو تڑپا گئی
کچھ تِری آنکھوں کے ساغر بھی چھلک جاتے رہے
اُف بدلتے موسموں کی بے پنہ رنگینیاں
یہ شکاری دشت میں بھی دام پھیلاتے رہے
میں ازل کی سمت اُلٹی جست بھر جاؤں اگر
عالموں کو جیب میں ڈالے گُزر جاؤں اگر
دے چکے تم حافظہ بھی، سوچ بھی، احساس بھی
میرے ہاتھوں میں ہے سب کچھ ، میں مُکر جاؤں اگر
میرے اک ذرّے میں گُم ہو جائیں یہ دونوں جہاں
ترک کر دوں مُرتکز رکھنا، بکھر جاؤں اگر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نام ترا کبھی یٰسین کبھی طہٰ لکھوں
لکھوں قرآن، اگر تیرا سراپا لکھوں
بات پھر سورۂ والیل تک جا پہنچے
میں تِری زُلف دوتا کا جو قصیدہ لکھوں
دل میں حسرت ہے نہ لکھا ہو کسی نے ایسا
میں تیری مدح و ثناء میں کبھی ایسا لکھوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم بھی مدینے جائیں گے آج نہیں تو کل سہی
آقاﷺ ہمیں بلائیں گے آج نہیں تو کل سہی
ہم نے تو مان ہی لیا آپﷺ ہیں روح کائنات
لوگ بھی مان جائیں گے آج نہیں تو کل سہی
عرش کہا ہے خود اسے سرور کائناتﷺ نے
دل کو وہ دل بنائیں گے آج نہیں تو کل سہی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کہاں ہو یا رسول اللہﷺ کہاں ہو؟
مِری آنکھوں سے کیوں ایسے نہاں ہو
گدا بن کر میں ڈھونڈوں تم کو در در
مِرے آقاﷺ مجھے چھوڑا ہے کس پر
اگر میں خواب میں دیدار پاؤں
لپٹ قدموں سے بس قربان جاؤں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ اوج پیغمبری کا تارا
ہوا ہے مکہ میں جلوہ آرا
کرے گا جو ماہ کو دو پارا
وہ اُمتوں کے لیے سہارا
وہ جس نے اخلاق کو سنوارا
کرے جو صورت کوئی نظارا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حسن کون و مکاں آپ ہیں یا نبیﷺ
رونق دو جہاں آپ ہیں یا نبیﷺ
چاند سورج نے پائی ہے جن سے ضیا
منبعِ ضوفشاں آپ ہیں یا نبیﷺ
ہے کفِ پائے آقا خدا تک رساں
ہادئ انس و جاں آپ ہیں یا نبیﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جذبۂ پاک
حمد باری کے بعد اے خامہ
مئے وحدت کا بھر کے لا اک جام
دل میں رکھتا ہوں ایک جذبۂ پاک
ہے مجھے احترام پاک کلام
کیا سنیں گے وہ حالِ دل میرا
ہے گزارش بطرزِ استفہام
بَین کرتی ہوئی زندگی
گھر کی بُنیاد ایسے ہِلی، چھت گِری
یوں پلستر اُکھڑ کر زمیں پر گِرا
وہ جو دِیوار تھے
آج اینٹوں کی مانند کوئی کہیں
اور کوئی کہیں
میرا دل، چیختے رہنے والا یہ دل
زعفرانی کلام
دادِ جُرم و گُناہ دی مجھ کو
مُنصفوں نے پناہ دی مجھ کو
اِک بلا تھی مِرے تعاقب میں
دُوسری نے نہ راہ دی مجھ کو
ہٹتی مرتی نہیں ہے لنگر سے
اس نے ایسی سپاہ دی مجھ کو
شاخ سے ٹُوٹ کے جب پھُول بکھر جاتے ہیں
کتنے احساس مِرے دل میں اتر جاتے ہیں
میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں بڑی حسرت سے
وہ مِرے پاس سے چُپ چاپ گُزر جاتے ہیں
چاند تاروں پہ تعجب کی نظر پڑتی ہے
جانے کس سمت سے آتے ہیں، کدھر جاتے ہیں
حسرت بھری نگاہوں کو آرام تک نہیں
پلٹا وہ زندگانی کی پھر شام تک نہیں
جس کی طلب میں زندگی اپنی گُزار دی
اس بے وفا کے لب پہ مِرا نام تک نہیں
جو کہہ گئے تھے شام کو بیٹھیں گے آج پھر
کچھ سال ہو گئے کوئی پیغام تک نہیں
تند موجوں کا جنوں دیکھو کہاں تک آ گیا
سیل بے ہنگام خطرے کے نشاں تک آ گیا
اب نہ میری بے گناہی کی صفائی دیجیے
اب جو میرا مسئلہ ہے داستاں تک آ گیا
اس پری پیکر کا ہر اک وصف کر دوں گا بیاں
جب کبھی میرا قلم حُسنِ بُتاں تک آ گیا
باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے
زندگی کے سب رستے تیری رہگزر نکلے
سوچتے ہیں کیوں آخر ذوق سجدہ ریزی میں
ہم جہاں جبیں رکھیں وہ تِرا ہی در نکلے
جو تھے ناپنے والے زخم دل کی گہرائی
اپنی شوخ نظروں سے کتنے بے خبر نکلے
سُونا گگن ہے، تن میں اگن ہے، دل کیوں جلا ہے
جگ بے وفا ہے سب تھا پتا پھر، من کیوں بھرا ہے
اشکوں کے تارے، بکھرے بکھرے ہیں دیکھوں، امبر پہ کس کے
لگتا ہے چندا، رویا بہت ہے، شب پُورنما ہے
آہوں سے گرمی اُٹھتی ہے ایسے، جیسے جلا من
کس سمت جائیں، ہر سُو گُھٹن ہے، کیوں یہ خلا ہے
بُتوں سے ڈرتا رہا ہوں خُدا کے ہوتے ہوئے
سو مُشکلوں میں ہوں مُشکل کُشا کے ہوتے ہوئے
کہاں کہاں نہیں سجدے مِری جبیں نے کیے
میں در بدر پھرا حاجت روا کے ہوتے ہوئے
مِرا یزید کی بیعت بغیر چارہ نہ تھا
در حسینؑ کے اور کربلا کے ہوتے ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کہے افضل ہوئے ہیں آپﷺ کی آمد کے بعد
کہوں سب در کھلے ہیں آپ کی آمد کے بعد
کہے پتھر نے پہنے پھول کے چہرے یہاں
کہوں یہ راستے ہیں آپ کی آمد کے بعد
کہے ہر پل لگے ہیں پر مِری امید کو
کہوں سب حوصلے ہیں آپ کی آمد کے بعد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وادئ بطحا کو جنت کے نظارے ہو گئے
آپﷺ آئے تو سبھی ذرے ستارے ہو گئے
بے کلی کو آپﷺ نے بخشا سکوں کا ذائقہ
دل کی بے تابی کے سب ٹھنڈے شرارے ہو گئے
دور تک پھیلی ہوئی تاریکیاں بھی چھٹ گئیں
پھر منور ارض خاکی کے کنارے ہو گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے بھی انتساب ہے اسی مہِ مبین سے
بلند جس کی شان ہے جہاں کے ہر حسین سے
جب ان کا عشق دل میں ہو تو دل عزیز کیوں نہ ہو
کہ ہے سدا شرف ملا، مکان کو مکین سے
وہ خوش ہوئے تو انبساط چھا گئی جہان پر
لرز اٹھی زمین ان کی چشمِ خشمگین سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جہان بھر کی کتابوں میں جو بھی اچھا ہے
مِرے لیے تو یقیناً وہ ذکر تیراﷺ ہے
شدید دھوپ ہے، اور سائے جھُوٹے سائے ہیں
اُس ایک زُلف کے نیچے ہی اصل سایہ ہے
عجیب نرم ہے غیروں سے گُفتگو کے وقت
وہ غیر ہوتے ہوئے بھی لگے کہ اپنا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے ثنائے مصطفیٰؐ سے روشنی گفتار میں
مدحتِ صل علیٰﷺ سے چاشنی اشعار میں
اک قصیدۂ نبیﷺ لکھوں تمنا ہے میری
گونج جس کی حشر تک باقی رہے سنسار میں
روضۂ آقاﷺ پہ جیسے اک سکونِ قلب ہے
کس قدر ہو گا سکوں پھر دامنِ سرکار میں
دیکھتا ہوں میں شب کنارے خواب
ہار کے مارے ہوئے سارے خواب
وہ حقیقت میں کیوں نہیں ملتے
آتے رہتے ہیں جن کے بارے خواب
مجھ سے اپنے سنبھالے نہ جائیں
اس نے بھی لا کے منہ پہ مارے خواب
ماہیا٭/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
اشکوں میں روانی ہے
آنسو پی پی کر
مدہوش جوانی ہے
ہمت رائے شرما
عجب نہیں ہے کہ از راہِ جاہ کرتا رہے
عدُو کا کام بھی میرِ سِپاہ کرتا رہے
تو کیا خموش رہیں، اس کے ڈر سے بُت بن جائیں
تو جی میں آئے بھلے جو بھی شاہ کرتا رہے
ہے کس خُدا کی طرف سے نوشتۂ دیوار
کہ شاہ شاہ ہے جب تک نِباہ کرتا رہے
زندگی یوں تو اک عذاب لگے
تیرا ملنا مگر ثواب لگے
نیم شب اس کے خواب کا عالم
مجھ کو آنگن میں ماہتاب لگے
وہ تِرا قرب تھا، مِری تقریب
وہ حقیقت بھی اب تو خواب لگے
اسی یقین پہ کاٹی سزا اداسی کی
کبھی تو سر سے ٹلے گی بلا اداسی کی
یہ نخل دل ہے مسرت میں کھل سکے گا نہیں
اسے تو راس ہے آب و ہوا اداسی کی
جہاں کی جتنی بھی کیفیتیں ہیں دیکھ چکے
مگر ہے شان سبھی سے جدا اداسی کی
کچلا ہوا جذبہ شدت میں نوخیز قیامت ہوتا ہے
طوفان سے پہلے سناٹا خطرے کی علامت ہوتا ہے
جیسا بھی کہا، جتنا بھی کہا، کھل کر ہی کہا، ڈٹ کر ہی کہا
سوچا ہی نہیں کہ لوگوں میں کیوں ذوق ملامت ہوتا ہے
منزل کی لگن‘ عظمت کی کرن،ہمت کا چلن، غیرت کی پھبن
ہر مرد قوی کا دنیا میں ایمان سلامت ہوتا ہے
دن بھی ہوا طلوع سیہ رات کی طرح
اب کے بہار آئی ہے برسات کی طرح
حد نگاہ تک ہے عجب خاک سی اڑی
گزرا ہے کون بھاگتے لمحات کی طرح
قائم رہے سدا یہ مِری گردش حیات
غم بھی عطا کیے مجھے سوغات کی طرح
وفا کی بات ہے اہل وفا سے پوچھیں گے
یہ دل کی بات کسی دلرُبا سے پوچھیں گے
وہ کیسے ہجر کی راتیں گزارتا ہو گا
سحر کے وقت یہ بادِ صبا سے پوچھیں گے
یوں کتنی دیر ابھی اور ہم کو چلنا ہے
ہم عہد نو کے کسی رہنما سے پوچھیں گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوئی مشکل نہیں جس کا نہ حل پایا مدینے میں
خدا کی رحمتوں کا ہر طرف جلوا مدینے میں
مدینے میں جلائی شمع وحدت کی محمدﷺ نے
اُجالا نُور کا پہلے پہل پھیلا مدینے میں
تمنا ہے اگر کوئی تو بس اک یہ تمنا ہے
محمدﷺ مصطفیٰ کا دیکھ لوں روضہ مدینے میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تُو کریم ہے تو قدیم ہے
تُو غفور ہے تو رحیم ہے
تِرے در پہ آ کے گرا ہوں میں
تِرے سامنے ہی جھُکا ہوں میں
مِری ہر خطا کو معاف کر
مِری لوح قلب کو صاف کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر ایک روگ کی لے لو دوا مدینے سے
ملے گی مانگ کے دیکھو شفا مدینے سے
خدا کا گھر تو ہے کعبہ، اگر وہاں نہ ملے
تو پھر ضرور ملے گا خدا مدینے سے
لپٹ لپٹ کے میں رویا ہوں اس کے قدموں سے
جو آ گیا ہے کوئی آشنا مدینے سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں نے تو ظلم جان پہ کیا کیا نہیں کیا
لیکن مِرے حضورﷺ نے رُسوا نہیں کیا
مجھ کو یقیں ہے لاج رکھیں گے وہ روزِ حشر
یا پھر کہو حضورﷺ نے وعدہ نہیں کیا
اب تک کوئی بھی ڈھونڈ کے لایا نہ وہ سوال
جس کو مِرے حضورﷺ نے پورا نہیں کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یارب! مجھے توصیف پیمبرﷺ کی زباں دے
سرشار کرے رُوح کو جو ایسا بیاں دے
دُنیا ہو کہ دیں آپﷺ کے کہنے پہ سجاؤں
حق دونوں کا ہو خوب ادا، دونوں جہاں دے
اُمت کے لیے آپﷺ نے کیا کچھ نہ کیا تھا
غم خوارئ ملت کی مجھے آہ و فغاں دے
جہانِ دل فگاراں اب یہی ہے
جمالستان یاراں اب یہی ہے
میں بند آنکھوں سے منظر دیکھتا ہوں
مِرا جشن بہاراں اب یہی ہے
سجاتا ہوں تیری یادوں کے گلشن
قرار بے قراراں اب یہی ہے
کوئی عفریت میرے گھر میں ہے
ہر در و دیوار یکساں ڈر میں ہے
دور تک پھیلی ہوئی ہے بے دلی
دیر سے اک بے بسی منظر میں ہے
ایک ہلچل ہے کہ دل میں ہے جواں
ایک محشر ہے کہ میرے سر میں ہے
پریشاں کر رہا ہے غم کسی کا
کسی کو کیا جو نکلے دم کسی کا
تمہاری آنکھ کے تیور نہ بدلے
ہے سارے شہر میں ماتم کسی کا
بیانِ غم نہ کر پائی زُباں گر
کہے گا دیدۂ پُر نم کسی کا
زیست کو خوگر بیداد کیے جاتا ہوں
بھولنے والے تجھے یاد کیے جاتا ہوں
دل کو دیتا ہوں شب و روز فریب باطل
میں بہر طور اسے شاد کیے جاتا ہوں
دل تو فرمان کی تعمیل کیے جاتا ہے
میرا یہ حال کہ فریاد کیے جاتا ہوں
گُل سے بھی اہل چمن خوشبو جدا کر دیکھو
جی میں آئے جو تمہارے وہ جفا کر دیکھو
ہم ہیں انسان، تمہی جیسے ہیں آدم زادے
ہم سے افلاس کے پتھر جو ہٹا کر دیکھو
اتنی بگڑی تو نہ تھی پہلے سحر کی صورت
گزری کیا عالم خورشید پہ جا کر دیکھو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
راہ دکھلائے گا، خدا میرا
بس وہی تو ہے رہنما میرا
سب کی مشکل جو ٹال دیتا ہے
ہے مصیبت میں آسرا میرا
اس قدر جس نے نعمتیں بخشیں
اس کے آگے ہے سر جھکا میرا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دُھول سے جو اَٹ گیا تھا، گُم ہُوا تھا راستا
آپﷺ کے دم سے ہوا ہر دم رواں صبح و مسا
زرد موسم نے بھی پہنا سبز موسم کا لباس
رُوح پرور ہو گئی مکّے مدینے کی ہوا
بے اماں افراد کو بھی مل گئی ان کی اماں
ہو گئے رشک ثریا، وہ جو تھے تحت الثریٰ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر مسلمان پہ لازم ہے اطاعت تیریﷺ
نصِ قرآن سے ثابت ہے محبت تیریﷺ
حق کی بخشش سے نہ پھر کوئی بھی محروم رہا
آڑے آئی جو گنہگاروں کے رحمت تیریﷺ
وہ جنہیں تجھ کو ستانے میں مزہ آتا تھا
ان کے حق میں تھی دعا مانگنا عادت تیریﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نفرتوں کی تیرگی تھی، روشنی دی آپﷺ نے
زندگی کو زندگی کی تازگی دی آپﷺ نے
ظالموں کے سامنے جرأت کی خندق کھود کر
سارے مظلوموں کو ہمت دائمی دی آپﷺ نے
حضرت سلمانؓ ہوں یا سعدؓ ہوں یا ہوں بلالؓ
بے کسوں، بے آسروں کو زندگی دی آپﷺ نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
جو یاد سرورِ عالمﷺ کا نام کرتا ہوں
تو دل سے سبط نبیؐ کو سلام کرتا ہوں
خیال و فکر کی دنیا حسینؑ سے آباد
میں کربلا میں مسلسل قیام کرتا ہوں
میں ذکر کرتا ہوں جب کربلا کے پیاسوں کا
تو یوں بھی جذب شہادت کو عام کرتا ہوں
کہاں ہو تم گوتم؟
خون کے سیلاب میں ہر شہر ہے ڈُوبا ہوا
موت ہنستی جا رہی ہے زندگی کا لاش پر
کون ہے جو؟
ان درندوں کے بڑھتے تیز ناخن کاٹ ڈالے
کون ہے جو؟
خون کی اس پیاس کو
عشق کے دھاگوں میں پرو کے مجھے
ہنسنے کا کہہ گیا ہے وہ رو کے مجھے
بے چین صورت اس کی آ جاتی ہے
آتا نہیں چین اب سو کے مجھے
آنسوؤں کے پانی سے کر کے وضو
دیکھتا ہے وہ آنکھیں بھگو کے مجھے
یہ الگ بات کہ دونوں سے نبھایا نہ گیا
پیار خُوشبو تھا کسی طور چُھپایا نہ گیا
تیری فُرقت میں تو یوں گیت ہزاروں لکھے
تیری قُربت میں تو اک حرف اُٹھایا نہ گیا
یومِ اِطفال پہ ہر شخص بہت کچھ بولا
ایک بِن باپ مگر گھر میں بسایا نہ گیا
پتے سے گِر کے درس فنا دے گیا مجھے
بارش کا قطرہ سرِ قضا دے گیا مجھے
جب تک یقیں نہیں تھا کوئی خوف بھی نہ تھا
خوفِ خدا، یقینِ خدا دے گیا مجھے
اس دشتِ روزگار میں جلتی لوؤں کے ساتھ
ٹھنڈا سا اک خیال ہوا دے گیا مجھے
دل میں اخلاص و محبت کو تو زندہ رکھو
پیار کی رِیت، روایت کو تو زندہ رکھو
وہ کسی خواب جزیرے کا مکیں ہے لیکن
حسرتِ دل، دل حسرت کو تو زندہ رکھو
ایک پل بھی نہیں جینا تِری چاہت کے بغیر
یہ حقیقت ہے، حقیقت کو تو زندہ رکھو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خالقِ کُل ہے تِری ذات کرم کر مولا
ہے صدا بس یہی دِن رات کرم کر مولا
تیرے دربار سے جاتا نہیں کوئی خالی
ٹھیک کر دے مِرے حالات کرم کر مولا
دستِ قُدرت مِیں تِرے رِزق ہے سب کا رازق
اب عطاؤں کی ہو برسات کرم کر مولا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ دین دین ہی کیا جس کو انتہا نہ ملے
نبیؑ ہوں لاکھ مگر فخر انبیاﷺ نہ ملے
نجات پاؤ گے کیسے تم اہلِ اسرائیل
ملے گا رب نہ اسے جس کو مصطفیٰؐ نہ ملے
کرو تصور عیسیٰؑ بہ شکل ابن خدا
خدا کے ساتھ ملاؤ بھلے خدا نہ ملے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بنا ہے تصور میں کعبے کا کعبہ
تمہیں گر دِکھا دوں تو کیسا رہے گا
نامِ محمدﷺ پہ ہو کے فِدا میں
جو خود کو مِٹا دوں تو کیسا رہے گا
نبیﷺ کی محبت میں دیوانہ بن کے
خودی کو جھُکا لوں تو کیسا رہے گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بارشِ رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے
اے خدا، نعت فقط حرف و بیاں تک نہ رہے
اے مِرے آتشِ فارس کے بجھانے والے
اس طرح ہجر بجھا دیں کہ دھواں تک نہ رہے
شہرِ طیبہ کی سکونت جو ہمیں مل جائے
عشرتِ زیست ہے کیا خواہش جاں تک نہ رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرا ایماں ہو سلامت، زہے قسمت میری
تا اَبَد زندہ رہے آپﷺ سے نسبت میری
دل و جاں جھوم اٹھیں آپ کا رستہ دیکھیں
پر جبریلؑ کی پرواز ہو رفعت میری
بگڑی بن جائے اگر آپ کے قدموں میں رہوں
فلک آسا مجھے رکھے گی اطاعت میری
انتباہ
گاڑی کھینچنا
اور چلاتے رکھنا
دو مختلف رو میں
باہم ربط و راہ کے نشیب و فراز
رفتار کو متأثر کرتے ہیں
مزاحمت کی صورت میں
میں یہ گاؤں واسی ہوں سو شہر جانے سے رہے
شہر کی اس آنکھ میں اب اشک آنے سے رہے
تین بیٹوں کو اکیلا ہی وہ پالا کرتا تھا
تین بیٹے بوجھ ابا کا اٹھانے سے رہے
کربلا میں آج تو خود ہی کوئی رستہ نکال
آج ہم اے تشنگی تجھ کو بجھانے سے رہے
وہی رات بھر تجھے سوچنا وہی چاہتوں کے نصاب ہیں
یہ بڑے طویل ہیں سلسلے یہ بڑے طویل عذاب ہیں
ہمیں روز ملتی ہیں سازشیں یہاں دوستی کے لباس میں
یہاں ہر قدم پہ فریب ہیں یہاں ہر طرف ہی سراب ہیں
یہ کرم ہے ربِ کریم کا مجھے اتنے رنگ عطا کیے
جو مٹا رہے تھے نشاں مِرا نہ سوال ہیں نہ جواب ہیں
اُجاڑ لمحوں کی داستانیں جو تم کہو تو سُنائیں تم کو
بہت سا ہم جاگتے رہے ہیں چلو ذرا سا جگائیں تم کو
تمہی ہو جو روشنی سی بن کر ہماری آنکھوں میں آ بسے ہو
جب اپنی آنکھیں ہی کہہ دیا ہے تو پھر بھلا کیوں رُلائیں تم کو
تم آج کیوں مُضطرب ہو جاناں، تمہارے لہجے میں ٹُوٹ کیسی
کہا نہیں تھا کہ وقت دے گا کدُورتوں کی سزائیں تم کو
کبھی پردہ در ہوں میں راز کا کبھی ہوں میں پردۂ راز میں
کہ حقیقت اک مِری مشترک ہے حقیقت اور مجاز میں
یہ کہاں کے جلوے سما گئے یہ کہاں کی حیرتیں چھا گئیں
کہ ہزاروں آئینہ لگ گئے ہیں نگاہ آئینہ ساز میں
کبھی تو بھی طالب رحم ہو کبھی تو بھی غیر پہ جان دے
کبھی جلوہ گر ہو خدا کرے تِرا ناز میرے نیاز میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے راہ حق یہی یہی رستہ رسولﷺ کا
منشا ہے جو خدا کا، ہے منشا رسولؐ کا
اللہ نے بلند کیا ذکر آپﷺ کا
رتبہ تمام نبیوں میں اعلیٰ رسولؐ کا
لازم ہے ہم پہ مِدحتِ آقائے نامدارؐ
یہ ساری کائنات ہے صدقہ رسولؐ کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خودی کو اپنا امام کر لو
مروتوں کو غلام کر لو
کبھی جو رب کو منانا چاہو
اٹھا کے ہاتھوں کو جام کر لو
انا پرستی سے اب نکل کر
سبھی کے دل میں قیام کر لو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زندگی در در پھری، ہر سمت اور ہر جا گئی
آخرش رازِ سعادت ایک در سے پا گئی
کس قدر عالی مراتب ہستیاں آئِیں مگر
ایک ہستی اوّلیں اور آخریں پر چھا گئی
ایک ایسی روشنی نکلی تھی کوہِ نور سے
جو اندھیروں کو ہمیشہ کے لیے دفنا گئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تِرے جمال سے ہر سو چمن میں رونق ہے
تِرے وجود سے کوہ و دمن میں رونق ہے
جو راز جان گئے سرخرو ہوئے مالک
کہ لا الٰہ سے ہر انجمن میں رونق ہے
تصورات کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں
بہشت میں ہے جو محفل، عدن میں رونق ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بلایا عرش پر خالق نے جب خُلق مجسّم کو
وہاں راز و نیاز شوق کی باہم تھی آسانی
کرن ایسی لیے جاتی تھی کھینچے بام سِدریٰ پر
اگر انگشتری میں ہو تو مل جائے سلیمانی
پڑی تھی روبرو کچھ اس طرح قوسین کی چلمن
کہ دیکھے اوٹ سے محبوبؐ کو محبوب سلیمانی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
در نبی پہ پڑا رہوں گا، پڑے ہی رہنے سے کام ہو گا
کبھی تو قسمت کھلے گی میری کبھی تو میر سلام ہو گا
خلاف معشوق کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہو گا
خدا بھی ہو گا ادھر اے دل! جدھر وہ عالی مقامﷺ ہو گا
کیے ہی جاؤں گا عرضِ مطلب ملے گا جب تک نہ دل کا مطلب
نہ شام مطلب کی صبح ہو گی،۔ نہ یہ فسانہ تمام ہو گا
شہید جمہوریت بینظیر بھٹو کے نام
وہ جو شام تھی
تیرے نام تھی
تھی نظر نظر تیری منتظر، میری راہبر
میرے خواب کی تُو اساس تھی
تُو ہی تو مِری غم شناس تھی
میری آس تھی
اپنے ہونے لگے ہیں بے گانے
کون جانے کسی کو سمجھانے
وہ خداوندِ عصر ہیں کیا خوب
آپ اپنے سے جو ہیں بیگانے
کس کو فرصت ہے دلنوازی کی
کون سنتا ہے غم کے افسانے
تبدیلی
صدیوں پرانے گنبد اور محراب کے نیچے
آدم کی گدی پہ آدم آبیٹھا تھا
پہلے یہ گھٹنا کڑوا سچ تھی
یا پھر ایک لطیفہ تھی
لیکن آج فقط سچ ہے
ایک ایسا سچ جس کو سن کر
اور بھی اک فریب کھانے دے
مسکراتا ہوں مسکرانے دے
آشنا زندگی سے کر مجھ کو
اپنی آنکھوں میں ڈوب جانے دے
تیرگی اس سے مٹ سکے شاید
شمع محفل کو جگمگانے دے
خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے
رہگزر تھے یہ راہگیر نہ تھے
رہنما تھے کبھی وہ سچ ہے مگر
یہ بھی سچ ہے کہ میرے پیر نہ تھے
ہم نے زنداں کی باغبانی کی
موسم گل کے ہم اسیر نہ تھے
مِری آنکھوں کے پیرائے بدل جاتے تو اچھا تھا
یہ گندے پیرہن اپنے اُجل جاتے تو اچھا تھا
تجاوز کر کے بیٹھے ہیں یہ کب سے میرے سینے میں
یہ چند ارمان بھی دل سے نکل جاتے تو اچھا تھا
بڑا ہی مرتبہ ہوتا ہے اس میں گرنے والوں کا
کبھی تم بھی محبت میں پھسل جاتے تو اچھا تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ مالک ہے وہی سب کا خدا ہے
سو اُس کے نام ہی سے ابتداء ہے
نگہبانی جہاں کی، اُس کو زیبا
جو سوتا ہے کبھی، نہ اُونگھتا ہے
دلوں کی سختیوں کو نرم کر کے
وہی مہر و محبت ڈالتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ظُلمت کدے میں حاملِ نورِ مبین تھے
میرے رسولﷺ خوب وسیم و قسیم تھے
مہتاب رُو تھے اور کُشادہ جبین تھے
میرے رسولﷺ باعثِ تخلیقِ حُسن تھے
اب اور کیا کہوں کہ وہ کتنے حسین تھے
میرے رسولﷺ کے کسی دُشمن سے پوچھ لو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کلیوں نے بصد شوق پڑھا اللہ ہو اللہ
پھولوں کی زباں پر ہے سدا اللہ ہو اللہ
ہر بار ہواؤں نے بڑے پیار سے چُوما
جب ریت پہ لہروں نے لکھا اللہ ہو اللہ
بُلبل کی چہک میں ہے تِرے حمد کی خوشبو
پیڑوں پہ پرندوں کی صدا، اللہ ہو اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کس نے پھر چھیڑ دیا قصہ لیلائے حجاز
دل کے پردوں میں مچلتی ہے تمنائے حجاز
بھر کے دامن میں غریبوں کی دعائیں لے جا
اے نسیم سحر!، اے بادیہ پیمائے حجاز
بزمِ ہستی میں ہے ہنگامہ محشر برپا
اب تو ہو خواب سے بیدار مسیحائے حجاز
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر اک ڈوبتے کا سہارا محمد
ہے طوفاں زدوں کا کنارا محمدﷺ
فرشتوں سے اونچا ہمارا محمدﷺ
خدائے دو عالم کا پیارا محمدﷺ
ہے عاشق کا خلدِ نظارا محمدﷺ
ہمارا محمدﷺ ہمارا محمدﷺ
سچ
سچ کی مالا توڑنے والے
سچ کا جھنڈا لے بیٹھے ہیں
جھوٹ کو منظر منظر لے کر
کہتے ہیں وہ سچ کہتے ہیں
لیکن ہر اک بکھرا دانہ
ہر کونے سے بول رہا ہے
محبت بیچ ڈالو تم
چُرا کے آنکھ ملنے سے یہ بہتر ہے
کبھی ملنے نہیں آؤ نہ پچھلی بات دہراؤ
نئی دُنیا بسا لو تم
کہ دُنیا یونہی چلتی ہے
یہاں ہر چیز بکتی ہے
محبت بیچ ڈالو تم
جانے کیا تعزیر لگی ہے
ہونٹوں پر زنجیر لگی ہے
مہکی ہے دیوار کہ اس پر
ساجن کی تصویر لگی ہے
ہر پل ہنسنے والی لڑکی
آج مجھے دلگیر لگی ہے
تنہائیوں کے گھر میں رہا ہوں تمام عمر
میں کس لیے دنیا میں جیا ہوں تمام عمر
تیرے بغیر آج مجھے لگ رہا ہے یوں
اک اجنبی نگر میں بسا ہوں تمام عمر
آئینہ دیکھتا ہے مجھے، آئینے کو میں
یوں عکس عکس ٹُوٹ گیا ہوں تمام عمر
کنارے، سانس کی، سب کشتیاں لگی ہوئی ہیں
چلے بھی آؤ! کہ اب ہچکیاں لگی ہوئی ہیں
کِیا گیا نہیں پیدا اگر غلام ہمیں؟
تو پھر یہ پاؤں میں کیوں بیڑیاں لگی ہوئی ہیں
کبھی کبھی تو تکبّر اّگلنے لگتی ہیں
گھروں پہ ناموں کی جو تختیاں لگی ہوئی ہیں
قابلِ رشک بھی ہوں قابلِ تردید بھی ہوں
میں بیک وقت اندھیرا بھی ہوں خورشید بھی ہوں
میں ہی ہوں سیٹھ کی مغرور ہنسی میں پنہاں
میں ہی مزدور کی حسرت سے بھری دید بھی ہوں
ایک لمحے کو تو اندوہ بھری شب ہوں میں
دوسرے لمحے مسرّت سے سجی عید بھی ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مشکلوں میں ہوں میں جینے کا ہنر مانگتی ہوں
میرے مولیٰ! تری رحمت کے گہر مانگتی ہوں
مجھ کو رہنے کے لیے یہ زمیں درکار نہیں
جس میں روضے کا تصور ہو وہ گھر مانگتی ہوں
دولتِ دیں تو مکمل نہیں ہو گی آقاﷺ
تیری یادوں میں بسا رختِ سفر گھر مانگتی ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ثانی تِرا کونین کے کشور میں نہیں ہے
بس حد ہے کہ سایہ بھی برابر میں نہیں ہے
ہو جلوہ محبوبﷺ کے کیا ماہِ مقابل
اس چاند کے دھبہ رُخ انورؐ میں نہیں ہے
کُل خوبیاں اللہ نے حضرت کو عطا کیں
یہ بات کسی اور پمیبرؑ میں نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں ادھورا ہوں خُدایا، مجھے کامل کر دے
بال و پر دے مجھے پرواز کے قابل کر دے
ہوش اُڑ جائیں فقط ایک تجلّی سے مِرے
دے مجھے اِذنِ سفر تُو مجھے راحِل کر دے
اپنے محبوبﷺ کا دیدارعطا کر، ورنہ
میرے مولا مِری بینائی کو زائل کر دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ابد آثار ہے تیری خدائی
ابد آثار ہیں مالک
تِری قدرتِ کامل کے کرشموں سے
جلوہ آرائی کرتے مناظر
یہ ایٹم سا اک نا چیز ذرہ
اور اس ذرے میں کائنات کے پہلو بہ پہلو ایک مرکز
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کارسازِ ما بہ فکرِ کارِ ما
خالقِ کونین وہ ربِ قدیر
جس نے بچپن میں بہائی جُوئے شِیر
چھوڑ دے کیوں حاجتِ برنا و پیر
کیا نہیں وہ حال کا میرے خبیر
کار سازِ ما بہ فکرِ کارِ ما
فکرِ ما در کارِ ما آزارِ ما
زندگی اتنا سبق کافی ہے
اب تو دل کی بے بسی پر اکثر
بے کراں آسماں کو تکتے ہیں
دوست ہو چاہے یا کوئی دشمن
مسکرا کر سبھی سے ملتے ہیں
بے وفائی پہ کسی کی دل کو
برف رت کا جو گھاؤ ہوتا ہے
اس کا مرہم الاؤ ہوتا ہے
تیری موجودگی سے پھولوں پر
نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے
اس جزیرے تلک رسائی میں
کشتیوں کا چناؤ ہوتا ہے
وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے
سخن شناس ہے کوئی تو روبرو آئے
ہم اپنا دل لیے بیٹھے ہیں بام پر بے بس
وہ جن کے پاس تھے پیسے وہ چاند چھو آئے
دیے بجھائے ہواؤں نے توڑ دی مینا
برس چکی جو گھٹائیں تو ہم سبو آئے
افسانۂ حیات کو دُہرا رہا ہوں میں
یوں اپنی عمر رفتہ کو لوٹا رہا ہوں میں
اک اک قدم پہ درسِ وفا دے رہا ہوں میں
یہ کس کی جُستجو ہے کدھر جا رہا ہوں میں
یا رب! کسی کا دام حسیں منتظر نہ ہو
پر شوق کے لگے ہیں اُڑا جا رہا ہوں میں
اک ملاقات تھی
منجمد جھیل میں
عکسِ آبِ رواں
میں نے دیکھا تو قدرت کا دستِ ہنر
آنکھ کے کیمرے پر ہوا منعکس
زندگی رنگ بنتی ہوئی کہکشاں
زندگی گلفشاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تری ہی ذات پہ سب کا یقیں ہے
یہی سچ ہے تُو رب العالمیں ہے
یقیناً اس کا دوزخ ہے ٹھکانا
تِری رحمت کا جو قائل نہیں ہے
یہ دشت و در سمندر بھی ہیں تیرے
تِرے افلاک ہیں تیری زمیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رسول اللہ میری حالت پہ رحمت کی نظر کیجے
غریب و بے نوا ہوں، خاکساری پر نظر کیجے
میرے سینے کا مسکن آپ کا زخم جدائی ہے
میرا دل سینکڑوں آہوں کا گلشن ہے نظر کیجے
میرے دل کے مکیں، آرام جاں، صبر و سکوں آقا
رُخ پُر نُور سے اس جانِ بسمل پر نظر کیجے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حاجت روا محمدﷺ، مشکل کشا محمدﷺ
اے کیف بے کسوں کے ہیں پیشوا محمدﷺ
ظاہر میں شکل انسان باطن میں نور یزداں
ہیں سب میں اور سب سے پھر ہیں جدا محمدﷺ
کیا خوف مہر محشر اے اُمتیانِ سرورﷺ
ہیں اپنے سر پہ مثلِ ظلِ خدا محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر درد کی دوا ہے صلِ علیٰ محمدﷺ
تعویذ ہر بلا ہے صلِ علیٰ محمدﷺ
محبوبِ کِبریا ہے صلِ علیٰ محمدﷺ
کیا نقشِ خوشنما ہے صلِ علیٰ محمدﷺ
قربِ خدا ہو حاصل جنت میں ہو وہ داخل
جس نے لکھا پڑھا ہے صلِ علیٰ محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ رنگ و نور کا سارا نِکھار آپﷺ سے ہے
حضورؐ سارے جہاں میں بہار آپﷺ سے ہے
وجود آپﷺ کا، کامل دلیل ہے رب کی
حضورؐ کون و مکاں کا وقار آپ ﷺسے ہے
یہ صبح و شام کے پھیرے، یہ رات و دن کا سفر
طواف و رقص کا یہ کاروبار آپﷺسے ہے
سفر کو نکلے تو کوئی راہبر نہ ملا
تلاش کرتے رہے عمر بھر مگر نہ ملا
ہر ایک شخص نے چہرہ تو پڑھ لیا، لیکن
جو دل کی بات سمجھتا وہ دیدہ ور نہ ملا
ہزاروں لوگ تھے اونچی عمارتوں والے
ہمیں تو سر کے چھپانے کو ایک گھر نہ ملا
پیڑ پالے ہیں دوستوں کی جگہ
ہوش بویا ہے مخمصوں کی جگہ
اب ہماری فگار آنکھوں سے
خون بہتا ہے آنسوؤں کی جگہ
ان پہاڑوں کی تر فضاؤں میں
روگ پھیلا ہے خوشبوؤں کی جگہ
زخم کیوں دل پہ لگاتے ہو جو بھرنے کے نہیں
مٹ گئے نقش وفا کے تو ابھرنے کے نہیں
ہم کو اس اوج شرف تک ہے رسائی مشکل
آپ اس مسند نخوت سے اترنے کے نہیں
ایسا گلشن کی سیاست نے کیا ہے پابند
ہم اسیران قفس آہ بھی کرنے کے نہیں
واہمہ
میں اپنا سر بریدہ جسم لے کر چل پڑا ہوں
مِرے اک ہاتھ میں سر ہے
میں اپنے سر میں ہوں یا جسم میں ہوں
کبھی میں سر میں بیٹھا سوچتا ہوں
کہ میں بے جسم رہ کر
کس طرح پہچان قائم رکھ سکوں گا
حقائق پر کبھی باطل کا پردہ آ ہی جاتا ہے
حقیقت آشنا لیکن حقیقت پا ہی جاتا ہے
ہجومِ یاس و حرماں سے حصولِ کامرانی ہے
کہ پیہم لغزشوں سے عزمِ راسخ آ ہی جاتا ہے
نہ جانے کون سی منزل ہے یہ عشق و محبت کی
جبیں جھکتی ہی جاتی ہے، گلا کٹتا ہی جاتا ہے
شاہوں کو خدا رکھنا محلوں میں سلامت تُو
اور ٹال دیا کرنا، ان پر سے قیامت تُو
ان کی ہی بدولت تو ہم لوگ تڑپتے ہیں
ہم سے نہ چُھڑا دینا رونے کی یہ عادت تُو
شاہوں کو خدا رکھنا محلوں میں سلامت تُو
اور ٹال دیا کرنا، ان پر سے قیامت تُو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بیاں کو نعت کہنے پر غرور، اے سیدِ بطحاؐ
زباں نے ہاتھ جوڑے ہیں حضور اے سیدِ بطحاؐ
کلامِ رب مجسّم آپ کی صورت میں دیکھا ہے
صفاتِ رب بھی ہیں بین السطور اے سیدِ بطحاؐ
شبِ معراج جو باتیں ہوئیں وہ کس زباں میں تھیں
وہ تھا قرآں کہ انجیل و زبور اے سیدِ بطحاﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہﷺ میرا ماہ اگر بے نقاب ہو جائے
تو رشک مہر سے زیر سحاب ہو جائے
جو چشمِ رحمت، رحمت مآب ہو جائے
عذابِ سخت بھی تو پھر ثواب ہو جائے
خدا کے پیاروں میں اس کا شمار ہو جس پر
نگاہِ لطفِ رسالت مآبﷺ ہو جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مقام رحمت حق ہے تِرے در کی زمیں وارث
ادا ہو جائے میرا بھی کوئی سجدہ یہیں وارث
لیے بیٹھا ہوں سب ہوش و خرد قربان کرنے کو
ذرا جنبش میں آئے تیری چشم نازنیں وارث
مقامات تعین سے جدا ہے عشق کی منزل
جہاں کوئی نہیں میری نظر میں ہے وہیں وارث
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
باعث خلقت کون محمد صلی اللہ علیہ و سلم
آئینۂ رحمت کون محمد صلی اللہ علیہ و سلم
کون سراپا نورِ خدا ہے، کون شفیعِ روزِ جزا ہے
شافع امت کون محمد صلی اللہ علیہ و سلم
کون نبیؐ محبوب خدا ہے، کس کے لیے کونین بنا ہے
مالکِ جنت کون محمد صلی اللہ علیہ و سلم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گفتگو کا راز کیا تخیل کی آواز کیا
بامِ عرفانِ نبیﷺ پر عقل کی پرواز کیا
وہ رسولِ دو سراﷺ، وہ تاجدارِ بحر و بر
جس کی قدموں پر جھکا تھا قیصر و کسریٰ کا سر
لوٹتے ہیں جس کے قدموں میں شہنشاہوں کے تاج
لیتی ہے جس کی فقیری تاجداری سے خراج
عادت
ہم اِک عمر سے ہیں
مسلسل سفر میں
مسلسل بھنور میں
ہمیں اب نئے ساحلوں کی ضرورت نہیں ہے
نسیم سحر
ہے اتنا ہی اب واسطہ زندگی سے
کی میں جی رہا ہوں تمہاری خوشی سے
غریبی امیری ہے قسمت کا سودا
ملو آدمی کی طرح آدمی سے
بدل جائے گر بے قراروں کی دنیا
تو میں اپنی دنیا لٹا دوں خوشی سے
جب سے مِری نگاہ میں آ کے سما گیا کوئی
ہوش اُڑا گیا کوئی،۔ مست بنا گیا کوئی
زیست کی منزلیں نئی مجھ کو دِکھا گیا کوئی
عشق کی ایک آگ سی دل میں لگا گیا کوئی
آپ پسِ نقاب برقِ طور پہ آ گیا کوئی
ہوش اُڑا گیا کوئی آگ لگا گیا کوئی
دل میں جمالِ یار کی تنویر دیکھیے
اس آئینے میں صُورت تصویر دیکھیے
رُسوا تمام خلق میں ہوں یا ذلیل ہوں
کیا دن دکھائے نالۂ شبگیر دیکھیے
بندہ کہاں، جناب کہاں، یہ مکاں کہاں
مقسوم دیکھیے مِری تقدیر دیکھیے
اس چھت پہ ستاروں بھری ہر رات سے پہلے
میں خوب سنورتا تھا ملاقات سے پہلے
دشمن کو بھی وہ شخص دعا دیتا ہے اکثر
جو عشق سمجھتا ہے مکافات سے پہلے
اے مانگنے والو!! اُسی ہی راستے پر ہے
چھوٹی سی وہ مسجد بھی مزارات سے پہلے
یونس شہید پر
فضا میں بھڑکا وہ ایک شعلہ
فلک پہ کوندی وہ ایک بجلی
فضا میں گونجا وہ ایک نعرہ
شہید یونس کا نام دنیا میں آج پائندہ ہو گیا ہے
حریف پر قہر بن کے ٹوٹا
سپاہ ملک جب چلی لگا کے نعرۂ علی
لگا کے نعرۂ علی
سپاہ ملک جب چلی
عدو کے ہوش اڑ گئے
وطن کی ہر بلا ٹلی
کہاں تک بزدلوں میں دم
ادھر بڑھے تھے جو قدم
ہنستے پھُولو ہنستے رہنا
ہنستے پھُولو ہنستے رہنا
تم ہو پاک وطن کا گہنا
دُھوم ہے گھر گھر آج تمہاری
خُوشبو کی نہریں ہیں جاری
شاخوں نے پھر گہنا پہنا
ہنستے پھُولو ہنستے رہنا
ملی نغمہ
جان دے دیں گے مگر آن نہ جانے دیں گے
ملک و ملت یہ کبھی حرف نہ آنے دیں گے
زمزمہ گائیں گے ہم شعلہ بیانوں کی طرح
ثبت ہو جائیں گے خنجر کے نشانوں کی طرح
جم کے رہ جائیں گے میداں میں چٹانوں کی طرح
ملک و ملت یہ کبھی حرف نہ آنے دیں گے
جان دے دیں گے مگر آن نہ جانے دیں گے
سلام کرو
مرے وطن کا ہواباز اذن یزداں ہے
مرے وطن کا ہواباز حرفِ امکاں ہے
مرے وطن کا ہواباز عہدِ رخشاں ہے
مرے وطن کا ہواباز روحِ دوراں ہے
مرے وطن کے ہواباز کو سلام کرو
مرے وطن کا ہواباز پاسبانِ وطن
سپاہی کا خط
جان من میرا انتظار مت کرنا
زندگی ہے تو لوٹ آؤں گا
میں نے سن لی ہے وقت کی فریاد
تیری آواز سن نہیں سکتا
میرے گلشن میں خار ہیں جب تک
پھول الفت کے چن نہیں سکتا
انسانیت کی جاں
میرے وطن کے لوگ ہیں انسانیت کی جاں
میرا وطن ہے عظمت انساں کا پاسباں
میرے وطن کے لوگ مروت لیے ہوئے
انساں کا درد اس کی محبت لیے ہوئے
ہر ظلم کے خلاف بغاوت لیے ہوئے
رکھ دیں اڑا کے جور و ستم کی یہ دھجیاں
میرا وطن ہے عظمت انساں کا پاسباں
شہید
چاند تک پھیلتی روشنی کس لیے ہے
مِرے ہونٹ پر خُون کی تازگی کس لیے ہے
اندھیرے کے صحرا میں کتنے ہی داغوں کی لو جگمگاتی ہے
اور دُور اُفق پر
ہواؤں کے خاکوں میں
اس رنگ کی لہر سی لہلہاتی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مری بے قراری کی شام اللہ اللہ
زباں پر محمدﷺ کا نام اللہ اللہ
متاعِ دو عالم کو ٹھکرا رہا ہے
غلاموں کا ان کے غلام اللہ اللہ
درِ پاکﷺ پر وہ ہجومِ خلائق
فرشتوں کا وہ اژدہام اللہ اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خلیلِؑ حق کی تھی جو اشارت
اور ابنِ مریمؑ کی جو بشارت
ظہورِ احمدﷺ سے تھی عبارت
سمجھ گئے صاحب بصارت
کہ اب گری کفر کی عمارت
گھٹے گی فارس کی اب حرارت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سلام اس پر
سلام اسؐ پر
جو ظُلمتوں میں منارۂ روشنی ہوا ہے
وہ ایسا سورج ہے جس کی کرنیں
ازل، ابد کے تمام گوشوں
میں نُور بن کر سما چکی ہیں
ہر ایک ذرے کا ماہ تاباں بنا چکی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہونٹوں پہ کیا دعا ہے سرکارﷺ جانتے ہیں
کس کس کے دل میں کیا ہے سرکارؐ جانتے ہیں
اللہ کی حقیقت، سرکارﷺ کی فضیلت
اللہ جانتا ہے، سرکارﷺ جانتے ہیں
جبرئیل رہنے دیجیے اب شوقِ رہنمائی
سدرہ سے آگے کیا ہے، سرکارﷺ جانتے ہیں
کس نے خدا پرستی کو مذہب بنا دیا
کس دین نے خدا کا یہ بندہ بھُلا دیا
آنکھوں کے سامنے تھا کوئی شخص گِر رہا
آنکھیں پکڑ کے اس نے مجھے ہی گِرا دیا
ہم ساحلوں کی سمت پلٹتے ہی رہ گئے
اس نا خدا نے خود ہی سفینہ ڈوبا دیا
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی
میرے سر بکف مجاہد میرے صف شکن سپاہی
یہ تیرا یقینِ محکم، تیری ہمتوں کی جاں ہے
تیرے بازوؤں کی قوت تِرے عزم کا نشاں ہے
تُو ہی راہ تُو ہی منزل تُو ہی میرِ کارواں ہے
یہ زمیں تِری زمیں ہے، یہ جہاں تِرا جہاں ہے
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
تم مردِ میداں، تم جانِ لشکر اللہ اکبر
تم مردِ میداں، تم جانِ لشکر اللہ اکبر
تم مردِ میداں، تم جانِ لشکر
آئین دیں ہیں سب تم کو ازبر
احکامِ باری، قولِ پیمبرﷺ
اللہ اکبر، اللہ اکبر
روحِ شجاعت، فخر وغا ہو
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
مجاہدین صف شکن بڑھے چل
قدم اٹھاؤ اس طرح زمیں کا دل دہل اٹھے
وہ فقرۂ ہائے گرم ہو کہ رنگِ چرخ جل اٹھے
بہ نازشِ کمالِ فن، بڑھے چلو، بڑھے چلو
جبل جبل دمن دمن، بڑھے چلو، بڑھے چلو
جو راہ میں پہاڑ ہوں تو بے دریغ اکھاڑ دو
اٹھاؤ اس طرح نشاں، فلک کے دل میں گاڑ دو
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
خوش بیاں شاعرو خوش نوا مطربو
تم بھی شامل ہماری دعا میں رہو
حق و انصاف کی ہر لڑائی میں ہم
بحر و بر اور فضا کے سپاہی بہم
ملت پاک کی سرزمیں کے لیے
دینِ فطرت کی فتح مبیں کے لیے
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے
میں تو کیا میرا سارا مال و منال
میرا گھر بار میرے اہل و اعیال
میرے ان ولولوں کا جاہ و جلال
میری عمرِ رواں کے ماہ و سال
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
کج کلاہوں کو زمیں بوس کیا ہے ہم نے
شہریاروں سے سدا باج لیا ہے ہم نے
ظلم کو موت کا پیغام دیا ہے ہم نے
جب کبھی اُٹھے ہیں ہم جذبۂ بیدار کے ساتھ
آج کا کھیل رہے برش تلوار کے ساتھ
ہم نے اغیار کے شمشیر و سناں دیکھے ہیں
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
تمہارے عزم پر ہزارہا سلام غازیو
پیامِ سیدالبشرﷺ کے دہر میں امین ہو
وقار قوم، ناز ملک، افتخار دین ہو
ابوعبیدہؓ، خالدؓ و عمرؓ کے جانشین ہو
علم بدست، حق پرست، نیک نام غازیو
تمہارے عزم پر ہزارہا سلام غازیو
خدائے ذوالجلال کا کرم تمہارے ساتھ ہے
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
لگا کے نعرہ علیؑ کا دم دم
بڑھیں جو فوجیں ہماری باہم
کُچل کے رکھ دیں گی زورِ دُشمن
مہک اُٹھے گا یہ سارا گُلشن
ستم شعاروں کی سب پناہیں
بنیں گی اپنی ہی رزم گاہیں
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
دیکھنا اہلِ وطن! ساعتِ جہد آ پہنچی
دیکھنا اہلِ وطن! ساعت جہد آ پہنچی
اب کوئی نقش بہ دیوار نہ ہونے پائے
اب کے کھُل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے
اب کے محرومئ اظہار نہ ہونے پائے
جو بھی غدّار نظر آئے صفوں میں اپنی
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
لہو
ہم اس لہو کا علَم بنا لیں، سنان و سیف و قلم بنا لیں
وطن کو دے کے مقامِ کعبہ اسی کو احرام ہم بنا لیں
یہ خاک ماتھے پہ مل کے نکلیں اسے نشانِ حشم بنا لیں
جو نقش اس نے بنا دیا ہے اسی کو نقشِ قدم بنا لیں
برس پڑیں دشمنوں کے سر پر، وطن کو تیغِ دو دم بنا لیں
ہم اس لہو کا علم بنا لیں
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
جہادِ حق کا سماں لا الہ الا اللہ
جہادِ حق کا سماں، لا الہ الا اللہ
شہید کی وہ اذاں، لا الہ الا اللہ
قریب صبح وہ حملہ ہماری سرحد پر
وہ توپ خانۂ دشمن کا آتشیں منظر
وہ ٹینک اور وہ حملے وہ بجلیاں وہ شور
امام مسجد واہگہ کی وہ وہ نماز سحر
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
سپاہی
تم اس وقت کیا تھے
تمہارے محلکوں، تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا
آسائشیں بھی، وسیلے بھی
اس کبریائی کی ہر تمکنت بھی
سبھی کچھ تمہارے تصرّف میں تھا
زندگی کا ہر اک آسرا بھی
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
اے ارضِ وطن زندہ رہنا ہے قیامت تک
دوستو پھر وہی ساعت وہی رُت آئی ہے
ہم نے جب اپنے ارادوں کا علَم کھولا تھا
دل نے جب اپنے ارادوں کی قسم کھائی تھی
شوق نے جب رگِ دوراں میں لہُو گھولا تھا
پھر وہی ساعتِ صد رنگ وہی صُبحِ جُنوں
اپنے ہاتھوں میں نئے دور کی سوغات لیے
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
شہید جیت گئے شہسوار جیت گئے
شہید جیت گئے شہسوار جیت گئے
دیار پاک! تِرے جاں نثار جیت گئے
وفائیں تیرے لیے اے مراد جانْبازاں
تِرے جمال کے آئینہ دار جیت گئے
خزاں کی باد مخالف نے جن کو چھیڑا تھا
وہ تیرے سبز نشاں، اے بہار جیت گئے
شہداء و غازیانِ پاکستان کو خراجِ تحسین
وہ موسم گرما وہ شب ماہ ستمبر
وہ موسمِ گرما، وہ شبِ ماہِ ستمبر
دشمن کے خطرناک عزائم کا وہ منظر
جب سرحدِ لاہور میں در آئے تھے چھپ کر
مکار و جفا کار و سیہ کار و ستمگر
سب بسترِ راحت سے ہم آغوش پڑے تھے
دن بھر کے تھکے خواب میں مدہوش پڑے تھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایمان کیا ہے اس کے مسائل پہ بات کر
آ بیٹھ میرے ساتھ دلائل پہ بات کر
جھوٹے بزرگواروں کی جھوٹی کہانیاں
سب چھوڑ، حق رسیدہ رسائل پہ بات کر
طالبؑ، عقیلؑ جعفرؑ و حیدرؑ سے ہیں پسر
نگران مصطفٰیﷺ کے شمائل پہ بات کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تصوّرِ درِ کعبہ میں وہ مزا ہے کہ بس
وہ لطفِ سجدہ مدینے میں آ گیا ہے کہ بس
نظر میں ہے کوئی عالم نہ کوئی منظر اور
مدینہ آنکھوں میں ایسا بسا ہوا ہے کہ بس
نبیؐ کے در پہ مسرّت کے آنسوؤں کے سوا
وہ سیلِ اشکِ ندامت کا سلسلہ ہے کہ بس
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمیں ہے پیار جو بے انتہا مدینے سے
ہمیں ملا ہے خدا با خدا مدینے سے
بس ایک بار رسولِ خداﷺ بلائیں فقط
پھر اُس کے بعد نہ لائے خدا مدینے سے
میں اُٹھ رہوں گا بصد شوق اے خدائے جلال
اگر اُٹھا ہی رہا ہے اُٹھا مدینے سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نقطہ ہیں نہ قوسین نہ پرکار ہیں سرکارﷺ
باتیں ہیں یہ سب کہنے کی، سرکار ہیں سرکارﷺ
آوازِ دُعا بھی نہ بڑھے، حدِ ادب ہے
اے سائلِ در دیکھ کہ بیدار ہیں سرکارﷺ
کروا دے وضو پہلے ذرا لوح و قلم کو
اے حُسنِ ازل، مائلِ گُفتار ہیں سرکارﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں حرم کا مسافر ہوں میرا سفر کیوں نہ ہو وجہ تسکین قلب و نظر
میرے آقا ادھر، میرے مولا اُدھر، میرے مطلوب و مقصود کا گھر اُدھر
ورد سجنک ہر نفس،، ہر قدم،، لا شریک لک اور طواف حرم
پھر صفا اور مروہ کا گشت بہم سعی کے نام سے رحمتوں کا سفر
بہر سجدہ جبیں مضطرب اس طرف، بہر نظارہ مضطر نگہہ اس طرف
سنگ اسود ادھر، سبز گنبد اُدھر، اب میں ایسے میں جاؤں تو جاؤں کدھر
قلمکار
لفظ رُکتے ہی نہیں کاغذ پر
کبھی جُگنو، کبھی تِتلی سے اُڑے جاتے ہیں
سادہ قِرطاس کا رہتا ہے اگرچہ سِینہ
زخم جیسے میرے سِینے میں ہُوئے جاتے ہیں
دامنِ صبر تار تار ہُوا
اور ہم ہیں کہ سِیے جاتے ہیں
لہو لہان فلسطین
آج پھر بربریت کا طوفان اٹھا
آج پھر رقصِ ابلیس جاری ہے
ارضِ فلسطین پر
آج پھر درد و غم ہیں سُلگتے ہوئے
آج پھر ہے لہو پوش ہر ایک بدن
مشتاق جاوید
رُوح اذیّت خُوردہ
زخموں کے انبار، در و دیوار بھی
سُونے لگتے ہیں
خُوشیوں کے دریا میں اتنی چوٹ لگی
کہ اب اس میں چلتے رہنا دُشوار ہوا
سڑکوں پر چلتے پھرتے شاداب سے چہرے سُوکھ گئے
وہ موسم جس کو آنا تھا، وہ آ بھی گیا
خُدا کو دل سے بھُلا دوں بُتوں سے پیار کروں
بضد ہیں لوگ کہ یہ رنگ اختیار کروں
ہیں فاش مجھ پہ غیاب و حضور کے اسرار
یہ راز، آؤ کہ تم پر بھی آشکار کروں
قدم قدم پہ تو اک جلوہ گاہ ہے اے دوست
کہاں کہاں تِرے مستوں کو ہوشیار کروں
اے خدا! شمعِ محبت کو فروزاں کر دے
داغِ دل کو مِرے صد رشکِ گُلستاں کر دے
جن کی راحت کو ہے خاموشئ ساحل کی تلاش
ان کی ہمت کو پھر آوارۂ طوفاں کر دے
جن کا دل ڈھونڈتا ہے گوشۂ خلوت کا سکوں
صُورت نکہتِ گُل ان کو پریشاں کر دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زوجۂ ختم الرُسلﷺ تیری عقیدت کو سلام
اے خدیجہؑ طاہرہ! تیری بصیرت کو سلام
خُشک پتے کھا کے زردی آ گئی رُخ پر تِرے
سیدہؑ کی والدہ تیری محبت کو سلام
حق نے تیری نسل میں رکھا امامت کا چراغ
تجھ کو خالق نے چُنا تیری فضیلت کو سلام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہر زمانے میں برابر یہ سوال اٹھتا رہا
کربلا کے واقعہ میں ہاتھ کس کس کا رہا
مصلحت گاہوں میں کچھ زربفت کے پردے رہے
وقت بھی کچھ سازشوں کے جال پھیلاتا رہا
پھر اچانک ایک دن خطرے کی گھنٹی بج گئی
فلسفہ صُلح حسنؑ کا وقت سمجھاتا رہا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اولیں صفتِ صنّاع، رسولِ قرشیﷺ
ہے جو مکی، مدنی، ہاشمی و مُطلبی
جس کا دین پیکرِ ہستی کی حیاتِ نو ہے
جس کے آئیں میں برابر عربی و حبشی
جس پر نازل کیا قرآنِ مبیں خالق نے
اس سے انکار جو کرتا ہے، وہ ہے بولہبی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فاران کی چوٹی پر چمکا خورشیدِ رسالتﷺ کیا کہنا
ایمان کی کرنوں سے پھیلی ہر سمت حرارت کیا کہنا
وہ عین جمالِ حُسنِ ازل نکھرا ہے بہ شکلِ ختمِ رُسلﷺ
روشن ہیں عرب کے دشت و جبل یہ نُور کی کثرت کیا کہنا
وہ عالمِ ہُو، جلووں میں عُلو، غُنچوں میں سبُو، ہر شے میں نمُو
شبنم سے کیا جاتا ہے وضُو، یہ بارشِ رحمت کیا کہنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نورِ جبینِ کائنات
جس پہ نازاں ہے خدائے ناز ایسا شاہکار
ریگزارِ زندگی میں جلوۂ صُبحِ بہار
جس نے روشن کر دئیے آیاتِ قُرآں کے چراغ
رُوح جاگی، قلب مہکے، جگمگا اُٹھے دماغ
ماہ و انجم کا صحیفہ، لالہ و گُل کی کتاب
جس کے اک اک حرف میں غلطاں ہزاراں آفتاب
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قائم ہو جب بھی بزم حساب و کتاب کی
دیکھوں وہاں میں شان رسالت مآبﷺ کی
ہاں! میں بھی سر جھکائے کھڑا تھا حضورِ شاہ
لگتا ہے یوں، کہ جیسے یہ باتیں ہوں خواب کی
خوں رنگ ہوگئی ہے حضوری کی آرزو
شاید اِسے نصیب ہو صورت گلاب کی
تنہائی کے لمحات کا احساس ہوا ہے
جب تاروں بھری رات کا احساس ہوا ہے
کچھ خود بھی ہوں میں عشق میں افسردہ و غمگیں
کچھ تلخئ حالات کا احساس ہوا ہے
کیا دیکھیے ان تیرہ نصیبوں کا ہو انجام
دن میں بھی جنہیں رات کا احساس ہوا ہے
عجیب شان سے کچھ تیرے درد مند چلے
ہجومِ سنگ ستم میں بھی سر بلند چلے
قدم قدم پہ صلیبوں کے راستے مہکے
کچھ اس جتن سے عزیزانِ ارجمند چلے
فرازِ دار سے اُلجھے تو کہکشاں پہ اُڑے
زمیں کی گود کے پالے بھی فتح مند چلے
کب سوا نیزے پہ سورج آئے گا
کیا تِرا وعدہ دھرا رہ جائے گا
گاؤں کو چٹ کر گئی نفرت کی آگ
کیوں نہ اب سیلاب دھوکا کھائے گا
وہ گھروندے کو سمجھ بیٹھا ہے گھر
مجھ سے مل کر بے مکاں ہو جائے گا
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
کچھ ہوتا رہے گا یوں ہی ہر سال ندارد
تبت کبھی غائب،۔ کبھی نیپال ندارد
رومال جو ملتے تھے تو تھی رال ندارد
اب رال ٹپکتی ہے تو رومال ندارد