فراموشی کی مختصر تاریخ
ہمارے اجداد وہ حروفِ تہجی بھول گئے تھے
جن کی مدد سے وہ چیزوں
لوگوں اور وقت کو یاد کرتے تھے
اب ہمیں چاہیۓ نئے حروفِ تہجی
تاکہ ہم وہ لفظ بنا سکیں
فراموشی کی مختصر تاریخ
ہمارے اجداد وہ حروفِ تہجی بھول گئے تھے
جن کی مدد سے وہ چیزوں
لوگوں اور وقت کو یاد کرتے تھے
اب ہمیں چاہیۓ نئے حروفِ تہجی
تاکہ ہم وہ لفظ بنا سکیں
نہ پوچھ اے مِرے غم خوار کیا تمنا تھی
دلِ حزیں میں بھی آباد ایک دنیا تھی
ہر اک نظر تھی ہمارے ہی چاک داماں پر
ہر ایک ساعت غم جیسے اک تماشا تھی
ہمیں بھی اب در و دیوار گھر کے یاد آئے
جو گھر میں تھے تو ہمیں آرزوئے صحرا تھی
کوئی ہنر تو مِری چشم اشکبار میں ہے
کہ آج بھی وہ کسی خواب کے خمار میں ہے
کسی بہار کا منظر ہے چشمِ ویراں میں
کسی گلاب کی خوشبو دلِ فگار میں ہے
عجب تقاضا ہے مجھ سے جدا نہ ہونے کا
کہ جیسے کون و مکاں میرے اختیار میں ہے
ان کے بغیر دل کی تسلی ملی نہیں
دل کا معاملہ ہے کوئی دل لگی نہیں
وعدے کے ساتھ توڑ دیا جس نے میرا دل
اس بے وفا کی یاد ابھی تک گئی نہیں
وہ چل دئیے یہ کہہ کے کہ آئیں گے خواب میں
بس اس خوشی میں آنکھ بھی میری لگی نہیں
نکھرے تو جگمگا اٹھے بکھرے تو رنگ ہے
سورج تِرے بدن کا بڑا شوخ و شنگ ہے
تاریکیوں کے پار چمکتی ہے کوئی شے
شاید مِرے جنون سفر کی امنگ ہے
کتنے غموں کا بار اٹھائے ہوئے ہے دل
اک زاویہ سے شیشۂ نازک بھی سنگ ہے
کہنے کو ایک شام سہانی ہے زندگی
لیکن ہر ایک غم کی جوانی ہے زندگی
یہ کیا تھی اور تم نے اسے کیا بنا دیا
آ جاؤ اب کہ تم کو دکھانی ہے زندگی
کہتے ہیں لوگ جس کو وفا جانتے ہیں ہم
اس لفظ سے ہی رات کی رانی ہے زندگی
گلشن کو کس بہار کا دیدار ہو گیا
"کیا آشکار حُسنِ رُخِ یار ہو گیا"
شوخی ادا و ناز سبھی کچھ رہے مگر
اس کا حجاب مانعِ اقرار ہو گیا
گرنے لگے ہیں آنکھ سے یادوں کے آبشار
اس دل پہ اس کی یاد کا پھر وار ہو گیا
اس نے دیکھا ہے سرِ بزم ستم گر کی طرح
پھول پھینکا بھی مِری سمت تو پتھر کی طرح
اس کے لب کو مِرے لب رہ گئے چھُوتے چھُوتے
میں بھی ناکام چلا آیا سکندر کی طرح
رنگ سورج کا سرِ شام ہوا جاتا ہے زرد
اس کا بھی گھر نہ ہو ویران مِرے گھر کی طرح
اب کے میدان رہا لشکرِ اغیار کے ہاتھ
گروی اس پار پڑے تھے مِرے سالار کے ہاتھ
ذہن اس خوف سے ہونے لگے بنجر کہ یہاں
اچھی تخلیق پر کٹ جاتے ہیں معمار کے ہاتھ
اب سرِ قریۂ بے دست پڑا ہے کشکول
روز کٹ جاتے تھے اس شہر میں دو چار کے ہاتھ
شہرِ بے مہر میں ملتا کہاں دلدار کوئی
کاش مل جاتا ہمیں مجمعِ اغیار کوئی
چیر دے قلب زمیں توڑ دے زنجیرِ زماں
چھیڑ اب ایسا فسانۂ دلِ نادار کوئی
نالۂ دل سے جگر ہوتا ہے چھلنی یا رب
صبر کرتی ہوں تو چل جاتی ہے تلوار کوئی
خمارِ وصل سے مہکا ہوا تھا
ستارہ رات کا جاگا ہوا تھا
یہاں پر راستہ لکھنا منع ہے
کسی دیوار پر لکھا ہوا تھا
میں نہ کہتا تو گُھٹ کر مر ہی جاتا
گَلے میں ایک سچ اٹکا ہوا تھا
ہر گھڑی رہتا ہے گھبرائے بہت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت
دوستوں کی بھی عنایت کچھ رہی
وقت نے بھی تھے سِتم ڈھائے بہت
جب سنا وہ آ رہے ہیں گھر میرے
راہ میں تھے پھول برسائے بہت
اب نہ آئے گا دلربا پیارے
حرفِ بیکار ہے صدا پیارے
تُو ہے خورشید اک نئے دن کا
میں فقط شب کا ہوں دِیا پیارے
درد پہلے بھی یہ سنائے ہیں
اور لایا ہے کچھ نیا پیارے؟
کسی کے آنے کی آس
ایک دن
میں صبح آنگن میں آن نکلا
گلاب کی کیاریوں کے اندر
اک آشنا پھول کی مہک میں
سبھی رُتوں پر
گہری نیلی شام کا منظر لکھنا ہے
تیری ہی زلفوں کا دفتر لکھنا ہے
کئی دنوں سے بات نہیں کی اپنوں سے
آج ضروری خط اپنے گھر لکھنا ہے
شدت پر ہے ہرے بھرے پتوں کی پیاس
صحرا صحرا خون سمندر لکھنا ہے
پہلے تو مسکرا کے کہا، اور عشق کر
پھر آنکھ کو لڑا کے کہا، اور عشق کر
میں ہٹ گیا تھا چُوم کر اُس نازنین کو
اُس نے دِیا بجھا کے کہا، اور عشق کر
پہلے مجھے ندی کے کنارے پہ لے گیا
اور پھر مجھے بہا کے کہا، اور عشق کر
نظروں میں کہاں اس کی وہ پہلا سا رہا میں
ہنستا ہوں کہ کیا سوچ کے کرتا تھا وفا میں
تُو کون ہے اے ذہن کی دستک یہ بتا دے
ہر بار کی آواز پہ دیتا ہوں صدا میں
یاد آتا ہے بچپن میں بھی استاد نے میرے
جس راہ سے روکا تھا وہی راہ چلا میں
کسی کو زخمِ تمنا دِکھا نہیں سکتا
میں دشت میں ہوں مگر خاک اُڑا نہیں سکتا
تمہیں بھی یار! محبت سے کام لینا ہے
میں بات بات پہ تم کو منا نہیں سکتا
کہ جس میں رنج ہیں آلام اور مصائب ہیں
میں بار بار وہ قصہ سنا نہیں سکتا
یہ ہرے پیڑ جو پانی پہ جھُکے ہوتے ہیں
شام ہوتے ہی گنوا دیتے ہیں بینائی بھی
گو کہ خاموش ہی رہتی ہے عموماً، لیکن
چیخ اُٹھتی ہے کبھی ہجر میں تنہائی بھی
وہ تِرے خواب، تھی آباد جہاں اک دنیا
کیا وہ دنیا مجھے کھو کر تجھے راس آئی بھی
سنو مہ جبیں، پری وش
تمہارا سنہری دھوپ جیسا
اُجلا چہرہ
نظاروں کے دل میں شمار ہوتا ہے
تمہاری آنکھیں
چلتے پھرتے اور چمکتے دمکتے
وقت
رنگ تو
تتلی چُرا کر لے گئی
اور خُوشبو کو
ہوائیں لے اڑیں
رہ گیا گُلدان میں
سُوکھا گُلاب
اپنی خاطر بهی تو آتا نہیں جذبات میں میں
دیکھ لو، کتنا اکیلا ہوں اپنی ذات میں میں
ایک ہی رات کی مہلت مجهے دی ہے اس نے
کیا کوئی معجزہ کر پاؤں گا ایک رات میں میں
کس طرح خود کو سمیٹوں، میری جاں کے دُشمن
تُو بتا، کس طرح آیا تها تِرے ہاتھ میں میں
محبت کے عشرت کدے میں
تمہارے غم کو کسی اور نے چھُوا
اور اپنی موت آپ مر گیا
موت بھی ایسی جس کا ماتم
منانا بھی واجب نہ ہوا
محبت اپنی کوکھ میں ایسے غم چھپائے ہی رکھتی ہے
شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی
جھُکی ہے بلا پر بلا کالی کالی
ڈٹے مل کے رِندِ سیہ مست جس دم
جھُکی مے کدے پر گھٹا کالی کالی
شبِ ماہ میں وہ پھرے بال کھولے
ہوئی چاندنی جا بجا کالی کالی
جھوٹے، کمزور سہاروں سے نکل آتے ہیں
ہم نے سوچا ہے کہ خوابوں سے نکل آتے ہیں
ہم سے سادہ بھی کوئی آس کا جگنو تھامے
اپنے تاریک مکانوں سے نکل آتے ہیں
بات کرتے ہیں محبت کا بھی حل نکلے گا
کتنے پہلو ہیں جو باتوں سے نکل آتے ہیں
زمین بین کرے، آسمان رونے لگے
ہمارے واسطے سارا جہان رونے لگے
ہمارے لہجے نے ہر سمت قتلِ عام کِیا
ہماری باتوں پہ سب بے زبان رونے لگے
وہ رخصتی کے سمے چُپ نہ رہ سکی کہ کہیں
اُسے رُلاتے ہوئے خاندان رونے لگے
پاؤں، زنجیر پرکھنے میں ابھی کچے ہیں
یا تِرا حکم سمجھنے میں ابھی کچے ہیں
پیڑ، بے موسمی باتوں کا بُرا مان گیا
ورنہ کچھ پھل ہیں جو چکھنے میں ابھی کچے ہیں
ہم سے کیا ہو گی تعلق میں بُرائی صاحب
ہم تو بُہتان ہی گھڑنے میں ابھی کچے ہیں
پہلے مجھ پر بہت فدا ہونا
اس کی چاہت کا پھر فنا ہونا
کس سہولت سے زندگی کاٹی
مجھ کو آیا نہ پارسا ہونا
خود کو محرومِ روشنی رکھ کر
کتنا مشکل ہے اک دِیا ہونا
ہمارے دور کو برباد کر گئے افکار
یہ کون آئے کہ گھر گھر سے در گئے افکار
تمام لوگ بہت خوش ہیں اپنی مستی میں ہیں
میں کس سے بولوں مِرے لوگ مر گئے افکار
وہ مجھ پہ غور کرے گا تو مجھ سے پوچھے گا
کہ آدھے آدھے ہو، آدھے کدھر گئے افکار
تمہارے دل پہ کسی اختیار کا سوچیں
نہیں مجال کہ ہم تم سے پیار کا سوچیں
ہم ایسی لڑکیوں کا مسئلہ تو عزت ہے
ہمارا حق نہیں بنتا؛ کہ پیار کا سوچیں
کہ پھول پھول سبھی موسموں کو کر ڈالیں
ہمارے بس میں ہے؛ آؤ بہار کا سوچیں
برائے فروخت
یہ سب سے بڑا ہے
یہ سب جانتا ہے
تمہارا مقدر بدل سکتا ہے
اور تو اور تخلیق کار اور مصور بھی ہے
یہ کرشمے بھی کر سکتا ہے
اس سے ہر چیز ڈرتی ہے
قسم خدا کی تجھے بس خدا نہیں سمجھا
وگرنہ اس کے سوا اور کیا نہیں سمجھا؟
عجب ہے تجھ سے بچھڑ کے نکھر گیا ہوں میں
خزاں میں پھول یہ کیسے کِھلا؟ نہیں سمجھا
اسی لیے تو مجھے مشکلوں نے گھیر لیا
جہاں پہ تھا میں وہاں کی ہوا نہیں سمجھا
تمام عمر رہے گا یہ رنج ساتھ مِرے
ہاتھ اب بھی خالی ہے
پچھلی عید پر تم نے
چوڑیاں دلانے کو
ہاتھ کی کلائی کا
ناپ مجھ سے مانگا تھا
ہاتھ اب بھی خالی ہے
عید آنے والی ہے
کب تک در و دیوار کی بندش میں رہا جائے
چل سانوری اُٹھ چل کے کہیں سانس لیا جائے
یہ جسم تِرا ریشمی دھاگوں سے بنا ہے
اک تار بھی کھینچوں تو اُدھڑتا ہی چلا جائے
اک آتشِ نوخیز کہ ہے سخت گریزاں
اِک خواہشِ مہمیز، ہمہ وقت جلا جائے
ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا
وہ اک زخمی پرندے کی طرح تھا
کبھی ہنگامہ زا تھا بے سبب وہ
کبھی گونگے تماشے کی طرح تھا
کھلونوں کی نمائش تھی جہاں وہ
کسی گم گشتہ بچے کی طرح تھا
ایک میں ایک تم
میں کسی دن
تمہیں اپنے سامنے بیٹھا کر
ہمارے چاروں طرف سمندر بچھا دوں گی
کناروں اور سہاروں سے بے نیاز
کسی ساحل کی خواہش کے بغیر
ایش ٹرے میں رکھے ہونٹ
ان خلاؤں سے تنہائی تک کا سفر
ایسا آسیب ہے
جو بدن کے تنے پر امر بیل جیسے لپیٹا گیا
ہر طرف لوگ ہیں
پر اکیلے اکیلے
وہی ہوا کہ خود بھی جس کا خوف تھا مجھے
چراغ کو جلا کے بس دھواں ملا مجھے
کبھی مٹا سکا نہ کوئی دوسرا مجھے
شکست دے گئی مگر مِری انا مجھے
جواب اس سوال کا بھی دے ذرا مجھے
اڑا کے لائی ہے یہاں پہ کیوں ہوا مجھے
کتنی تعبیروں کے منہ اترے پڑے ہیں
خواب اب تک ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں
راہ میں جو میل کے پتھر گڑے ہیں
رہنماؤں کی طرح ششدر کھڑے ہیں
کوئی اپنے آپ تک پہنچے تو کیسے
آگہی کے کوس بھی کتنے کڑے ہیں
حدودِ ضبط پھر اک رات آزمائی گئی
کہ پور پور اذیت کو چپ سکھائی گئی
ہمارا عکس دہکتی تپش میں جھونکا گیا
ہماری آنکھ کسی پانی میں بہائی گئی
وہ ہاتھ چھُوٹ گیا اور ریل چلنے لگی
ہمارے ہاتھ سے عمروں کی اک کمائی گئی
ہم دونوں کتنے بدل گئے ہیں
شادی کے بعد تم نے، میں نے
ایک دوسرے کو اتنے بوسے نہیں دیئے
جتنے شادی سے پہلے فون کے رسیور کو
ایک دوسرے کے ہونٹ جان کر دیتے تھے
اب تمہارے بن ٹھن کر سامنے بیٹھنے سے
معیار وفا
پنجۂ ظلم سے انساں کو چھڑاتی ہے وفا
دل میں سوئے ہوئے جذبوں کو جگاتی ہے وفا
درس احساس کا عمل یاد دلاتی ہے وفا
حوصلہ اور، مصائب میں بڑھاتی ہے وفا
وار سب ظلم و تعدی کے اُچٹ جاتے ہیں
تاج گرے جاتے ہیں اور تخت اُلٹ جاتے ہیں
لفظ خاموش ہیں
ہمہ تن گوش ہیں
ان میں جادو ہے اک
لوگ بے ہوش ہیں
نظم لفظوں میں بھیگا ہوا خواب ہے
قافیوں کا ردیفوں کا گرداب ہے
جس طرح سے پینٹ کی ہے میں نے یہ ویسی نہیں
زندگی دراصل اپنی اصل میں اچھی نہیں
وہ دِیا ہوتے ہوئے بھی روشنی کیسے کرے
جس کے شانے پر تمہارے ہاتھ کی تھپکی نہیں
فون نمبر بھی لیا ہے اس کا، اور تصویر بھی
بات بھی جاری ہے تب سے آنکھ بھی جھپکی نہیں
چراغ جلنے لگے تو ہوا نہیں دیتا
فقیر ہوں میں کبھی بد دعا نہیں دیتا
تو کیا اسی لیے دنیا نہیں توازن میں؟
وہ جرم دیکھ کے فوراً سزا نہیں دیتا
تُو ایک بار تو کہتا کہ؛ کاش ایسا ہو
میں آسمان زمیں سے ملا نہیں دیتا
موت آ کر سوار ہوتی ہے
عشق میں جب بھی ہار ہوتی ہے
جو محبت مٹائے دنیا سے
بات اس کی شرار ہوتی ہے
موت ہے کھیل عشق کا یارو
زندگی تو شکار ہوتی ہے
وہ کہتا تھا
وہ کہتا تھا میں جب بھی دور ہو جاؤں
میں جب بھی الوداع کہہ دوں
تم پیچھے ہی کھڑی رہنا
اسی قاتل نگاہی سے
تیری مُسکان کے صدقے
گھڑا کچا ہے، میں کچا نہیں ہوں
تبھی تو آج تک ڈُوبا نہیں ہوں
گِرا ہوں تو دراڑیں پڑ گئی ہیں
مگر میں ٹُوٹ کے بکھرا نہیں ہوں
کئی دن سے شکم خالی ہے لیکن
نوالے کے لیے جھپٹا نہیں ہوں
ویرانی
اسے کہنا تمہارے بعد دل کی شاہراہوں پر
فقط اندیشۂ صبر و رضا کی دُھول اُڑتی ہے
بلا کی دُھول اُڑتی ہے
عبدالرحمان واصف
جب ملاقات کرنا پڑتی ہے
تب ہمیں رات کرنا پڑتی ہے
آپ جیسوں کے پاس آنکھیں ہیں
ہمیں تو بات، کرنا پڑتی ہے
وہ محبت ہوئی تھی اس کے ساتھ
جو تِرے ساتھ کرنا پڑتی ہے
بابا آپ کے کھیس کی بُکل
بابا! آپ کے کھیس کی بُکل میں رہتی تھی
چھوٹی سی معصوم کہانی
جس میں تھی پریوں کی رانی
ایک سنہرہ محل تھا جس میں
سرخ گلابوں کے بستر پر
درونِ دل کسی کچے مکان کا نقشہ
ہے میرے واسطے سارے جہان کا نقشہ
میں داستان سے دیوی نکال لایا ہوں
لو، اب بناتے رہو داستان کا نقشہ
ہمیں لگا تھا کہ ہم دل بنا رہے ہیں تِرا
مگر بنا تو کٹیلی چٹان کا نقشہ
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
کھیت میں لگے اس گنے کی طرح
جسے تم اپنے سخت ہاتھوں سے توڑ کر
اپنے دانتوں سے چھیل بھی دو
مگر وہ تب بھی تمہارا منہ مٹھاس سے بھر دے گا
اسے یاد کر
ان دنوں
اپنی آنکھوں سے اس طرح خیرات کر
کہ نمی سکہ سکہ گرے
اور خزانوں کا مالک یہ تعداد گن کر بہت زور سے
اپنے دربار میں ہنس پڑے
برسوں بعد ملا تو اس نے ہم سے پوچھا کیسے ہو
شہرِ نگاراں کے مرکز تھے، تنہا تنہا کیسے ہو؟
وہ کچھ میرے درد کو بانٹے میں کچھ اس کے غم لے لوں
ایسا ہو تو کیا اچھا ہو، لیکن ایسا کیسے ہو؟
چہرے پر جو ہریالی تھی وہ شہروں میں زرد ہوئی
گاؤں کا مُکھیا پوچھ رہا ہے؛ میرے بھیا کیسے ہو؟
ہمیں وہ خواب لا دو
جن کو دیکھنے کے لیے ہمیں کوئی رات نہیں دی گئی
اور وہ رات
جس کو طاری ہونے سے بچنے کے لیے
ہمارے اوپر جلتے سورج پہرے دار کئے گئے
ہماری نیند کہاں ہے؟
محبتوں کے تمام گُر اس نئی نسل نے بھلا دیئے ہیں
سبھی تعلق ہوس پرستی کی زد میں آ کر مٹا دیئے ہیں
وہ سارے قصے جو عمر بھر سے دلوں میں رقصاں کیے ہوئے تھے
تِری جدائی کے ایک پل نے وہ سارے قصے مٹا دیئے ہیں
کہاں بُنوں گی میں خواہشوں کو کہاں ہے دل پُر سکون میرا
کبھی جہاں پر تھے خواب رکھے وہ خواب سارے جلا دیئے ہیں
قربانی کے بکرے
پھر آ گیا ہے ملک میں قربانیوں کا مال
کی اختیار قیمتوں نے راکٹوں کی چال
قامت میں بکرا اونٹ کی قیمت کا ہم خیال
دل بیٹھتا ہے اٹھتے ہی قربانی کا سوال
قیمت نے آدمی ہی کو بکرا بنا دیا
بکرے کو مثل ناقۂ لیلیٰ بنا دیا
سمٹے رہے تو درد کی تنہائیاں ملیں
جب کھُل گئے تو دہر کی رُسوائیاں ملیں
خوابوں کے اِشتہار تھے دیوارِ جسم پر
دل کو ہر ایک موڑ پہ بے خوابیاں ملیں
ہونٹوں کو چُومتی تھیں منور خموشیاں
برفاب سی گُپھاؤں میں سرگوشیاں ملیں
رویا کرو کہ رونے سے بڑھتی ہے عمر اور
اندر کے داغ دھونے سے بڑھتی ہے عمر اور
مت دوریاں بڑھا کہ تجھے علم خوب ہے
اک تیرے پاس ہونے سے بڑھتی ہے عمر اور
یہ سوچ کر ہی جاگتا رہتا ہوں رات بھر
میں نے سنا ہے سونے سے بڑھتی ہے عمر اور
موت کا لمس
رات کے بارہ تیس ہوئے ہیں
میں بستر پر لیٹا سونے کی کوشش میں لمبی سانسیں لیتا ہوں
یکدم تیز ہوا نے دروازے پر کاری ضرب لگائی
ایسے جیسے زور سے دروازے کو دھکا مارتی ہو
کھڑکیاں بجنے لگ گئی ہیں
لاک ڈاون میں جنم دن
تمہارے لیے پھول چنتے ہوئے
نظم لکھتے ہوئے یاد آیا
کہ تم دور ہو میری آنکھوں سے
اور میرے ہونٹوں سے اور میری بانہوں سے
لیکن مِرے روز و شب کی بساطِ سفید و سیہ پر
زنجیر تو دنیا کو پریشان کرے گی
دیوانے پہ دیوانگی احسان کرے گی
کچرے سے اٹھا لائے گی اک چاند سا چہرہ
رحمت کے فرشتوں کو پشیمان کرے گی
سر دھرنے کو زانوئے موافق نہ ملے گا
یوں نیند مجھے اور بھی ہلکان کرے گی
تن کا لباس، جیب کے سِکے بدل گئے
سویا رہا میں اور زمانے بدل گئے
شکرِ خدا کہ کوئی تصادم نہیں ہوا
شکرِ خدا کہ ریل کے کانٹے بدل گئے
جس دن سے منتقل ہوا اصلی مکان میں
اس دن سے ہی تمام اثاثے بدل گئے
بہار کے دنوں میں وبا
شہر میں بہار کے دنوں میں وبا ہے
اور محبت کے بوسے
ہمارے ہونٹوں پر اُگنا بند ہو گئے ہیں
شہر کے لوگوں نے آنکھوں کا متبادل
استعمال شروع کر دیا ہے
وبا کے دنوں میں خدا سے مکالمہ
اے میرے مہربان خدا
اے کُن فیکُون کے مالک
میں تیری ادنیٰ زمین زادی
تیرے حرف کُن کی منتظر
تجھ سے دُکھ سُکھ کرنا چاہتی ہوں
ونٹیلیٹر
دل کی بھوک نہ مٹنے کی وجہ سے
زندگی مٹانے کے لیے
چاند پر جانے کے خواب دیکھنے والے نوجوان نے مرکری کا ذائقہ چکھا
مرغی کو کٹتا نہیں دیکھ سکتا تھا
آج خود کو اندر سے کٹتا محسوس کر رہا ہوں
کبھی تو سوچنا تم ان اداس آنکھوں کا
یہ رتجگوں میں گھری محوِ یاس آنکھوں کا
میں گھِر گئی تھی کہیں وحشتوں کے جنگل میں
تھا اک ہجوم مِرے آس پاس آنکھوں کا
برہنگی تِرے اندر کہیں پنپتی ہے
لباس ڈھونڈ کوئی بے لباس آنکھوں کا
خواہشیں دل میں بسا لیں تو اُجڑ سکتا ہوں
خواب بُنتے ہوئے میں خود بھی اُدھڑ سکتا ہوں
مجھے آسانیاں راس آتی نہیں، شکریہ دوست
ان کے حاصل سے میں مشکل میں بھی پڑ سکتا ہوں
میں شجر ہوں تیرے پیچھے تو نہیں چل سکتا
ہاں کسی روز جڑوں سے تو اُکھڑ سکتا ہوں
افق پار
چل دور افق کے پار چلیں
اک بستی ہے، اس بستی میں
احساس کے دیپک جلتے ہیں
چل چلتے ہیں
ذیشان مرتضیٰ
درد کی رات گزرتی ہے، مگر آہستہ
وصل کی دھوپ نکھرتی ہے مگر آہستہ
آسماں دور نہیں، ابر ذرا نیچے ہے
روشنی یوں بھی بکھرتی ہے مگر آہستہ
تم نے مانگی ہے دعا ٹھیک ہے خاموش رہو
بات پتھر میں اترتی ہے، مگر آہستہ
غیر مرئی احساس
اس شام
تمہاری یاد میں لکھی نظم کی
آخری لائن میں
میں، مَرا پڑا تھا
زاہد امروز
درد لا دوا ٹھہرا
درد درد کرتے ہو
جانتے بھی ہو درد کس کو کہتے ہیں؟
آنسوؤں کے درمیاں ہچکیوں کا رک جانا
سوچ کی زمیں پر ان گِنت حوالوں سے
اپنے اپنے چہروں کا بے بسی میں یاد آنا
وقت سے یوں کریں گے کوئی ہاتھ ہم
اک الارم پہ رکھ لیں گے دن رات ہم
اک ہوا تھی جو پورا شجر لے اُڑی
روز کرتے تھے تر، جس کے پھل پات ہم
چھُپ کے بیٹھے ہوئے ہیں عقب میں تِرے
اپنی جانب لگائے ہوئے گھات ہم
رنگ تعبیر کا ٹوٹے ہوئے خوابوں میں نہیں
چھاؤں کا لمس کہیں جیسے سرابوں میں نہیں
کر دیا ساحرِ تہذیب نے پتھر ان کو
چہرے لمحوں کے وہ ریشم کی نقابوں میں نہیں
آ کے ساحل پہ ہوس کے نہ یوں موجوں سے ڈرو
رنگ گہرائی میں پاؤ گے حبابوں میں نہیں
اتنا جھگڑالو فسادی نہیں ہو سکتا ہے
ایسا عادی، مِرا عادی نہیں ہوسکتا ہے
سینکڑوں بار مِری شکل کو تکنے والے
عشق کیا غیر ارادی نہیں ہو سکتا ہے؟
بھینٹ رسموں کی چڑھے گا یہ تِرا میرا ملاپ
چاہے جس نے بھی دعا دی، نہیں ہو سکتا ہے
پینٹنگ
تمہیں خبر ہے؟
تمہاری ہجرت سے کیا ہوا ہے؟
ہمارے گھر کی وہ خوابگاہیں
جو سرخ پھولوں کی بِھینی خوشبو کی اوٹ لے کر
ہماری مرضی کے خواب دن رات جَن رہی تھیں
وہ بانجھ پن کے جسیم سانپوں سے اپنی کوکھوں کو بھر چکی ہیں
آئسولیشن
یہ آئسولیشن ہوئی ہے جب سے
گزرتے لمحوں میں شام ڈھلتے
ذہن دریچے سے، اک خیال کئی بار گزرا
کہ ایسے اپنے نصیب پاؤں
میں پھر سے تم کو قریب پاؤں
پرائے زخموں سے آگہی کے خمار اتریں
ہماری آنکھوں سے تیرے ہجراں کے وار اتریں
گنوائے جانے کا ایک پل بھی نہیں بچا ہے
وہ کہہ رہا ہے کہ پار اتریں، تو پار اتریں
مسیحا اب یہ تھکن تو جاں لیوا ہو چلی ہے
مسیحا روحِ نحیف سے سارے بار اتریں
کماں اٹھاؤ کہ ہیں سامنے نشانے بہت
ابھی تو خالی پڑے ہیں لہو کے خانے بہت
وہ دھوپ تھی کہ ہوئی جا رہی تھی جسم کے پار
اگرچہ ہم نے گھنے سائے سر پہ تانے بہت
ابھی کچھ اور کا احساس پھر بھی زندہ ہے
نواحِ جسم کے اسرار ہم نے جانے بہت
دل کو ہار جاؤ تو باقی کچھ نہیں بچتا
زندگی کے جوئے میں
دل کو ہار بیٹھا ہوں
مجھ کو یہ خبر نہ تھی
کہ زندگی کی بازی میں
دل کو ہار جاؤ تو
باقی کچھ نہیں بچتا
موت اک پرندہ ہے
جو دیوار پہ بیٹھا، بے تاثر آنکھوں سے
ہم سبھی کے کاموں کو دیکھتا ہی رہتا ہے
ان بے ہودہ کاموں سے
اور ہمارے چہروں سے
جب کبھی اُکتائے گا
غبار
بہت وسیع ہے دنیا مگر ہمارے لیے
کسی بھی گوشۂ زنجیر میں پناہ نہیں
سو اپنے آپ میں ہی قید کر لیا خود کو
ہمیں بھی اب کوئی آزادیوں کی چاہ نہیں
کوئی بھی چیز میسر نہیں ہے دنیا میں
کوئی بھی چیز نہیں ہے مگر سکون تو ہو
نفرت کی آگ جلنے لگی تیرے شہر میں
یہ بات آج کھلنے لگی تیرے شہر میں
جو آشنا تھے کل مِرے سب گم کہاں ہوئے
ہجرت کی چاہ پلنے لگی تیرے شہر میں
مرنے کا مارنے کا یہ کیا دور آ گیا
جینے کی آس ٹلنے لگی تیرے شہر میں
آدمی خواب ہے
آدمی خواب ہے
تجھ سے مِل کر میں خوابوں کی دلدل میں ہوں
یہ بدن خواب ہے
اس کی ساری اداؤں کا فن خواب ہے
تیرا دھن خواب ہے
میری دھڑکن ہو زندگی ہو تم
کس لیے مجھ سے اجنبی ہو تم
وقت کی بے شمار گھڑیاں ہیں
اور مِرے دل میں ہر گھڑی ہو تم
جس کو دیکھا ہے خواب میں اکثر
مجھ کو لگتا ہے بس وہی ہو تم
یاد آتا رہے تو اچھا ہے
زخم تازہ رہے تو اچھا ہے
ایک دھوکا ہے دونوں جانب سے
پر، یہ چلتا رہے تو اچھا ہے
ورنہ کچھ اور راستے بھی ہیں
کوئی اچھا رہے تو اچھا ہے
سفید چیز بهی ان کو سیاه لگتی ہے
عجب ہیں جن کو محبت گناہ لگتی ہے
سنو ہر ایک شکستہ بدن سے مت کھیلو
کسی کسی کی بڑی سخت آہ لگتی ہے
کسی کا رونا بھی لگتا ہے قہقہہ تم کو
کسی کی آہ بھی اب تم کو واہ لگتی ہے
جب بھی تم کو سوچا ہے
سارا منظر بدلا ہے
جاتے جاتے یہ کس نے
نام پوَن پر لکھا ہے
انگاروں کے موسم میں
جسموں کا سا میلہ ہے
پل دو پل
اتنے سارے لمحے لے کر
پیار کی چھاگل بھر کے پوری
سارے رنگ گلابی لکھ کر
تیری آنکھ شرابی لکھ کر
پیار میں جذبے طاری لکھ کر
ساری عشق خماری لکھ کر
میں یہاں نہیں ہوں
میں نہیں جانتا
میں کون ہوں
صرف اندازے سے کہہ سکتا ہوں
ایک گالی ہوں
جسے لوگ دوسروں کے چہروں پر مل دیتے ہیں
سمجھوتہ
کریں گے عشق کی باتیں تو خود
کو کھونے کا ڈر ہے
کریں گے دل کی باتیں تو محبت ہونے کا ڈر ہے
چلو موسم، کتابوں، شاعری پہ بات کرتے ہیں
یونہی، بس کچھ سمے تک ہاتھ تھامے ساتھ چلتے ہیں
دستِ طلب دراز زیادہ نہ کر سکے
ہم زندگی سے کوئی تقاضا نہ کر سکے
چوں کہ کرم پہ ہم تِرے شبہ نہ کر سکے
بس اے خدا! گناہ سے توبہ نہ کر سکے
جب اعتبار ذوقِ نظر بھی نہ مل سکا
نظروں کو اپنی وقفِ نظارہ نہ کر سکے
تنہائی منایا کرتے ہیں
جب تم بات نہیں کرتے
ہم اپنی چپ کے جنگل میں
یادوں کے بوڑھے پیڑ تلے
چوپال سجایا کرتے ہیں
تنہائی منایا کرتے ہیں
جب سے قسطوں میں بٹ گیا ہوں میں
اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں میں
جب شناسا نہ مل سکا کوئی
اپنی جانب پلٹ گیا ہوں میں
میرا سایہ بھی بڑھ گیا مجھ سے
اس سلیقہ سے گھٹ گیا ہوں میں
زندگی
زندگی جیسے جوان بیوہ
جس کا سہاگ پہلی رات ہی
اُجڑ جائے
جیسے اُڑتی چڑیا
جو اُڑان کی خواہش لیے بجلی کے تاروں سے ٹکرائے
جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب در آنے لگے
راستے میری طرف لے کر سفر آنے لگے
دور تک اڑتی ابابیلوں کی ڈاریں دیکھ کر
اونگھتے پنچھی کے بھی جنبش میں پر آنے لگے
کائناتِ شب میں چشمِ جستجو بھٹکی پھری
روشنی کے منطقے آخر نظر آنے لگے
دِیے جلتے رہو
میرے کمرے کی دیوار
میں اک پرانے سے
وحشت زدہ طاق میں
میری سانسوں کی آندھی سے بچتے ہوئے
دِیے جلتے رہو
میں تمہارے بارے میں کچھ نہیں جانتا
تم نے کتنی بار محبت کی
یہ بات میں تم سے نہیں پوچھ سکا
ویسے بھی یہ سوال دوستی کے کسی مرحلے کے لیے
مناسب نہیں ہو سکتا ہے
تم اتوار کا دن کیسے گزارتی ہو؟
گھٹن اداسی کا آئینہ ہے اور آئینے میں پڑی دراڑیں
ہمارا چہرہ اُبھارنے کی سعی میں خود کو تھکا رہی ہیں
خزاں کی زد میں
طویل ہجرت کا بار کاندھے جھُکا چکا ہے
وہ گیسُو جن میں تمہاری نظمیں تھی
ان میں چاندی کے تار حسرت سے جلوہ گر ہیں
حل
ہم ایسے سوچتے ذہنوں
اور ایسی جاگتی آنکھوں کا حل یہ ہے
کہ ساری اُلجھنیں اور خواب لے کر
وقت سے پہلے، بہت پہلے
سپُردِ خاک ہو جائیں
کھنڈر
مِرے چہرے پہ مت کھوجو ہجومِ رنگ و رعنائی
جنہیں اپنوں نے چھوڑا ہو، وہ در ویران ہوتے ہیں
کھنڈر ویران ہوتے ہیں
عبدالرحمان واصف
ہم قیدی ہیں
اور ہمارے چاروں طرف دیواریں ہیں
قیدی، قیدی
ان دیواروں سے باہر بھی اک پنجرہ ہے
پنجرے میں دیواریں ہیں
اور قیدی ہیں
موازنہ
دور افق سے ساون رُت کا پہلا پہلا بھیگا بادل
اپنی جانب آتا دیکھ کے دل ہی دل میں سوچ رہا ہوں
پگلے بادل
تُو کیا جانے میرے اندر کتنے ساون بیت چکے ہیں
نثار محمود تاثیر
گھما پھرا کے ہماری نظر وہیں آتی
ہر آسمان گزرنے پہ پھر زمیں آتی
نماز نیند سے بہتر ہے پر مِرے مالک
تِرے وہ لوگ جنہیں نیند ہی نہیں آتی؟
ہماری پُشت پہ لادے ہوئے گُناہوں سے
عجب تناؤ میں تیری طرف جبیں آتی
تاریکیوں کا ہم تھے ہدف، دیکھتے رہے
سیّارے سب ہماری طرف دیکھتے رہے
ٹکڑے ہمارے دل کے پڑے تھے یہاں وہاں
تھا پتھروں سے جن کو شغف، دیکھتے رہے
برسی تھی ایک غم کی گھٹا اس دیار میں
چہروں کا دُھل رہا تھا کلف، دیکھتے رہے
شریکِ غم کوئی کب معتبر نکلتا ہے
سوائے دل کے سو وہ بے خبر نکلتا ہے
یہ کیسا شہر ہے کیسی ہے سر زمیں اس کی
جہاں کی خاک پلٹتا ہوں سر نکلتا ہے
جدھر ہیں پیاسے ادھر بارشیں ہیں تیروں کی
جدھر غنیم ہے، دریا ادھر نکلتا ہے
لاؤڈ میوزک
بلیٹن کا آغاز کریں گے چھوٹی خبر سے
اک لڑکی کی لاش ملی ہے کھیتوں میں سے
جس کا دوپٹہ اس کے منہ میں گُھسا ہوا ہے
اگلی خبر میں اک بچہ ہے
جس کو بعد از بد فعلی کے مار دیا ہے
حالتِ ہجر میں جو پھول بھی کمھلائے ہیں
زخم بن کر میری آنکھوں میں چلے آئے ہیں
قتل ہوتے ہوئے خوابوں کے جنازے ہم نے
اشک برساتی ہوئی آنکھ میں دفنائے ہیں
کل وہاں خاک اڑائے گی زمانے کی ہوا
آج ہم نے جہاں کچھ مقبرے بنوائے ہیں
خال و خد تو کھنچ بھی جاتے ناز و زیبائی نہیں
"اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
کیا تِری نفرت کے پنجرے سے بھی میں رخصت ہوا
کیا وجہ ہے، کچھ دنوں سے یاد بھی آئی نہیں
وہ کسی کا ہو کے اب یادیں بھی مجھ سے لے گیا
بے وفا کہہ لو، مگر وہ شخص ہرجائی نہیں
سمجھے ہیں مثل کاہ مجھے مارتے ہیں لوگ
کتنے ہیں کم نگاہ مجھے مارتے ہیں لوگ
اتنا بھی احتجاج گوارا نہیں انہیں
بھرتا ہوں جب بھی آہ مجھے مارتے ہیں لوگ
مانا کہ تیرے عدل کا ڈنکا ہے چار سو
لیکن اے کج کلاہ مجھے مارتے ہیں لوگ
مکتب عشق
تمہاری محبت نے سکھایا
غم کیسے سہا جاتا ہے
صدیوں سے اک ایسی عورت کی تلاش تھی مجھے
جو لذت غم سے
آشنا کرتی
مکمل آگہی کی ہم کہانی پیش کرتے ہیں
زمانہ محوِ حیرت ہے زبانی پیش کرتے ہیں
سلام ان ماؤں کو جن کے جواں بیٹے دلیری سے
وطن پر جان دیتے ہیں، جوانی پیش کرتے ہیں
علی مگسی شہید ایسے مثالی شیر دل ہیرو
دلوں میں زندہ رہنے کی نشانی پیش کرتے ہیں
محبت ایسی ہوتی ہے
محبت صرف قبانی کا خیال نہیں
نہ ہی اسے کسی لونگ ڈرائیو میں محسوس کیا جا سکتا ہے
یہ کسی صوفی کا کوئی روحانی ادراک بھی نہیں
جسے اکیلے بیٹھ کر تنہائی کے حوالے کر دیا جائے
یہ صرف وارث شاہ کا کوئی قصہ بھی نہیں ہوتی
غم سے فرصت نہیں کہ تجھ سے کہیں
تجھ کو رغبت نہیں کہ تجھ سے کہیں
ہجر پتھر گڑا ہے سینے میں
پر وہ شدت نہیں کہ تجھ سے کہیں
آرزو کسمسائے پھرتی ہے
کوئی صورت نہیں کہ تجھ سے کہیں
التجا
آج تو کچھ پیار کے بیمار کا بھی ذکر ہو
کب تلک بیٹھیں گے یوں ہی پھول مُرجھائے ہوئے
کب تلک بادِ صبا زندانِ شب میں قید ہو
کب تلک دہکیں گے شعلے ہجر کے گلزار میں
کب تلک عریاں رہیں گے یہ شجر گل سب صف بہ صف
وہ کون سے خطرے ہیں جو گلشن میں نہیں ہیں
ہم موت کے منہ میں ہیں نشیمن میں نہیں ہیں
یہ جشن طرب اور یہ بے رنگیٔ محفل
دو پھول بھی کیا وقت کے دامن میں نہیں ہیں
چھپ چھپ کے کسے برق ہوس ڈھونڈھ رہی ہے
گنتی کے وہ خوشے بھی تو خرمن میں نہیں ہیں
وہ کھل کر مجھ سے ملتا بھی نہیں ہے
مگر نفرت کا جذبہ بھی نہیں ہے
یہاں کیوں بجلیاں منڈلا رہی ہیں
یہاں تو ایک تنکا بھی نہیں ہے
برہنہ سر میں صحرا میں کھڑا ہوں
کوئی بادل کا ٹکڑا بھی نہیں ہے
تجھ سے وابستہ زندگی مجھ میں
ایک ہاری ہوئی خودی مجھ میں
تیری آواز سن کے جاگ اٹھی
ایک روٹھی ہوئی خوشی مجھ میں
شوخ چنچل ہے شب کی تنہائی
تُو نے بھر دی ہے روشنی مجھ میں
سب پھول تِرے زخم ہمارے ہیں کم و بیش
افلاک پہ جتنے بھی ستارے ہیں کم و بیش
اک تیرے تغافل کو خدا رکھے، وگرنہ
دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش
وه جس جگہ مارے گئے اجداد ہمارے
ہم بھی اسی دریا کے کنارے ہیں کم و بیش
جو تِری نظر میں پنہاں نہ یہ اعتبار ہوتا
مِری جاں غبار ہوتی مِرا دل مزار ہوتا
کہیں ہم بھی ڈھونڈ لیتے کوئی عافیت کا عنواں
یہ جو بے قرار دل ہے، اسے گر قرار ہوتا
کوئی رمز دید ہوتا کہ بہانۂ سکوں ہو
مِری آرزو بہلتی، اگر انتظار ہوتا
اضافی ضرورتوں کے لیے ایک نظم
ہر آدمی کی قسمت میں
ایک نہ ایک سزا ہوتی ہے
میرے لیے ہر بار
تم سے دور رہنے کی سزا منتخب کی جائے گی
انور سن رائے
وجود اپنا ہی کاندھوں پر جنازہ لگنے لگتا ہے
کسی اپنی ہی غلطی کا خمیازہ لگنے لگتا ہے
بڑی اپنائیت سے جب نیا چَرکا لگے دل پر
پرانے سے پرانا زخم تازہ لگنے لگتا ہے
غمِ ہجراں بیاں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی
مجھے بکھرا ہوا میرا شیرازہ لگنے لگتا ہے
تیرا ہی ذکر ہر سُو تِرا ہی بیاں ملے
کھولوں کوئی کتاب تیری داستاں ملے
دنیا کے شور و شر سے بہت تنگ آ گئے
ممکن ہے اب تِری ہی گلی اماں ملے
پیدا تو کر بلندیاں اپنے خیال میں
شاید اسی زمیں پہ تجھے آسماں ملے
گھر کی تعمیر کو بنیاد سے پہچانتے ہیں
لوگ مجھ کو دلِ برباد سے پہچانتے ہیں
نام تبدیل کرو، شکل بدل لاؤ بھلے
ہم تو ہر زہر کو اجداد سے پہچانتے ہیں
کتنا یکتا ہے فقیری میں تعارف میرا
لوگ مجھ کو مِری فریاد سے پہچانتے ہیں
نجات
ذہن اک آتش فشاں ہے
جس میں منظر اور نغمے کا
باتوں کا، یادوں کا
ایسا لاوا ہے
جس کی کوئی شکل نہیں
شب آ گئی ہے جلنے دے اے ہمنشیں مجھے
شمع ہوں، انتظار کی عادت نہیں مجھے
بزمِ خیالِ یار میں پنہاں تھے کتنے رنگ
تجھ کو گمان دے گئے سونپا یقیں مجھے
اے طائرِ خیال، متاعِ حیاتِ نَو
کھوئی ہے جس دیار میں، لے چل وہیں مجھے
لمحہ لمحہ ساتھ رہیں گے میں اور تم
بن کر تازہ پھول کھلیں گے میں اور تم
جس جنگل میں قرب تماشے کرتا ہے
اس جنگل میں ساتھ چلیں گے میں اور تم
ہم دونوں کی آنکھیں چھم چھم برسیں گی
اپنے اپنے جام بھریں گے میں اور تم
فلمی گیت
تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد
تیرے ملنے کو نہ آئیں گے صنم آج کے بعد
تیری گلیوں میں۔۔۔۔۔
تُو میرا ملنا سمجھ لینا اک سپنا تھا
تجھ کو اب مل ہی گیا جو تیرا اپنا تھا
ہم کو دنیا میں سمجھنا نہ صنم آج کے بعد
فلمی گیت
دل نے پھر یاد کیا برف سی لہرائی ہے
پھر کوئی چوٹ محبت کی ابھر آئی ہے
دل نے پھر یاد کیا
وہ بھی کیا دن تھے ہمیں دل میں بٹھایا تھا کبھی
اور ہنس ہنس کے گلے تم نے لگایا تھا کبھی
محبت کی موت
تم نے محبت کو مرتے دیکھا ہے؟
چمکتی ہنستی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں
دل کے دالانوں میں پریشان گرم لو کے جھکڑ چلتے ہیں
گلابی احساس کے بہتے ہوئے خشک
اور لگتا ہے جیسے
گھر نہیں بستی نہیں شور فغاں چاروں طرف ہے
ایک چوتھائی زمیں پر آسماں چاروں طرف ہے
دوڑتے ہیں رات دن تین آنکھ بارہ ہاتھ والے
سرد سناٹے میں آوازِ سگاں چاروں طرف ہے
لانچر، راکٹ، کلاشنکوف، بارودی سرنگیں
خون کا دریا پہاڑوں میں رواں چاروں طرف ہے
دامن سے اپنے جھاڑ کے صحرائے غم کی دُھول
آؤ چلو نہ ہم بھی چنیں سر خوشی کے پھول
آخر کو مل سکی نہ بشر کو رہ نجات
یوں تو ہر ایک دور میں آتے رہے رسول
دامن بچا کے آئیو میرے مزار تک
اے جانِ نو بہار اُگے ہیں ادھر ببول
اب دل ہے ان کے حلقۂ دامِ جمال میں
دیکھا نہ تھا جنہیں کبھی خواب و خیال میں
اے تلخئ فراق بجُز نالۂ الم
پایا نہ کچھ بھی میں نے امیدِ وصال میں
فطرت نے دے کے عشق کو احساسِ ضبطِ شوق
اُلجھا دیا ہے کشمکشِ لا زوال میں
یہ دنیا اک گلشن
یہ دنیا اک گلشن، گلشن کی جس گل میں جان ہے
وہ پاکستان ہے، ہاں پاکستان ہے، میری پہچان ہے
یہ پاکستان ہے
اس میں ہی عبداللہ شاہ غازی، شہباز قلندر ہے
کائنات کا واحد خالق ہر دل کے ہی اندر ہے
بری امام یہیں تو مہرعلی، باہو سلطان ہے
ہوا کی دستک ایک سے دس تک
ایک سے دس تک
میں دس تک گنوں گی
وہ ہنستا رہے گا
یا چپ ہو کے
بیٹھا رہے گا چھپے گا نہیں
میرا جنوں ہی اصل میں صحرا پرست تھا
ورنہ بہار کا بھی یہاں بندوبست تھا
آیا شعورِ زیست تو افشا ہوا یہ راز
تیرے کمالِ فن کی میں پہلی شکست تھا
اوروں نے کر لیے تھے اندھیروں سے فیصلے
اک میں ہی سارے شہر میں سورج بدست تھا
ہمارا نام پکارے،۔ ہمارے گھر آئے
یہ دل تلاش میں جس کی ہے وہ نظر آئے
نہ جانے شہرِ نگاراں پہ کیا گزرتی ہے
فضائے دشتِ الم! کوئی تو خبر آئے
نشان بھول گئی ہوں میں راہِ منزل کا
خدا کرے کہ مجھے یاد رہگزر آئے
فصیلِ جسم پہ شب خوں شرارتیں تیری
ذرا سی بھی نہیں بدلی ہیں عادتیں تیری
یہ زخم زخم بدن، اور لہو لہو یہ خواب
کتاب جسم پہ اتری ہیں آیتیں تیری
یہ موج موج لہو میں تِرے بدن کا نشہ
تلاش کرتا ہے ہر لمحہ قربتیں تیری
محاصرے کے دوران
محمود! میرے دوست
دُکھ ایک ایسا سفید پرندہ ہے
جو میدان جنگ کے قریب بھی نہیں پھٹکتا
فوجی کے لیے دُکھ گناہ ہے
وہاں تو میں صرف ایک مشین ہوتا ہوں
تم سے صدیوں کا پیار کروں
میرے سرہانے جو کتبہ ہے
اس پر تم نے اتنا پیارا شعر لکھوایا ہے
جو بھی پڑھے اس قبر میں سونا چاہے
جب تم آ کر پھول چڑھاتے ہو
(خود کی پوجا کرواتے ہو)
اس درجہ انہماک سے محو دعا ہوں میں
اپنی لحد کے پاس ہی گویا کھڑا ہوں میں
اس جرم کی سزا مجھے دینے سے پیشتر
یہ بھی تو دیکھ مجرم قتلِ انا ہوں میں
ہمزاد سے میں بھاگتا پھرتا ہوں اس لیے
اپنا عدو ہے کون، کہاں جانتا ہوں میں
تماشا دیکھنے والو تماشا دیکھتے رہنا
تمہیں بھی لے کے ڈوبے گا کنارا دیکھتے رہنا
جدائی کا وہ اک منظر ہر اک لمحے نظر میں ہے
بہت مایوس آنکھوں سے کسی کا دیکھتے رہنا
قفس کو توڑ کر اُڑنے کی کوشش کر مِرے طائر
بہت کمزور کرتا ہے سہارہ دیکھتے رہنا
اٹھا کے دیکھا اسے تو وہ تھی تیری خوشبو
مجھے ملی تھی یونہی راہ میں پڑی خوشبو
گلاب تھے سبھی کاغذ پہ میرے لفظ نہ تھے
کہ جب بھی میں نے تِرے نام کی لکھی خوشبو
پھر اس کے بعد مِرے گھر کا حال کیا ہو گا؟
جو میرے گھر سے کسی دن چلی گئی خوشبو
کشتِ ویراں کی طرح تشنہ رہی رات مِری
لوٹ آئی تِرے در سے بھی مناجات مری
تُو لہو بن کے رگوں میں مِری دوڑا لیکن
تشنۂ دید رہی تجھ سے ملاقات مری
دل پہ کھلتے نہیں اسرارِ وجود اور عدم
یہی حیران نگاہی ہے مکافات مری
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ايک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہيں
ڈال سے کوئل اڑ جاتی ہے
پتلے پتلے ہونٹوں پر ہیں
آنکھوں جیسی موٹی باتیں
ایسی باتیں کیوں کرتے ہو
زُلفیں، سپنے
پُھول اور جذبے
تتلی سے دوستی، نہ گلابوں کا شوق ہے
میری طرح اسے بھی کتابوں کا شوق ہے
ورنہ تو نیند سے بھی نہیں کوئی خاص ربط
آنکھوں کو صرف آپ کے خوابوں کا شوق ہے
ہم عاشقِ غزل ہیں تو مغرور کیوں نہ ہوں
آخر یہ شوق بھی تو نوابوں کا شوق ہے
سودائے خام سر سے کافُور کر دیا ہے
دل ان کی یاد نے کیا مسرُور کر دیا ہے
ہر سانس اک لہُو کا دریا بنی ہوئی ہے
دل میں کسی نے ایسا ناسُور کر دیا ہے
اے چشمِ مست جاناں تیری ہی مستیوں نے
نرگس کو یوں چمن میں مخمُور کر دیا ہے
شوق سے آئے بُرا وقت اگر آتا ہے
ہم کو ہر حال میں جینے کا ہُنر آتا ہے
غیب سے کوئی نہ دیوار نہ در آتا ہے
جب کئی در سے گزرتے ہیں تو گھر آتا ہے
آج کے دور میں کس شے کی تمنا کیجے
ہوتا کچھ اور ہے، کچھ اور نظر آتا ہے
گلی گلی تِری شہرت نہیں کروں گا میں
اب ایسی ہجر میں حالت نہیں کروں گا میں
ہمیشہ کام بگاڑا ہے بے قراری نے
وہ اب ملے گا تو عجلت نہیں کروں گا میں
تُو پاس بیٹھ مِرے مجھ سے بات کر کوئی
قسم خدا کی، شرارت نہیں کروں گا میں
ایسے بھی کچھ غم ہوتے ہیں
جو امید سے کم ہوتے ہیں
آگے آگے چلتا ہے رستہ
پیچھے پیچھے ہم ہوتے ہیں
راگ کا وقت نکل جاتا ہے
جب تک سُر قائم ہوتے ہیں
رات ہوئی پھر ہم سے اک نادانی تھوڑی سی
دل سرکش تھا کر بیٹھا من مانی تھوڑی سی
تھوڑی سی سرشاری نے دی گہری دھند میں راہ
بہم ہوئی آنکھوں کو تب آسانی تھوڑی سی
بچھڑا وہ تو لوٹ آنے کی راہ نہ کھوٹی کی
کنج میں دل کے چھوڑ گیا ویرانی تھوڑی سی
لاعلم
میری خانقاہ میں
لوگوں کا ہجوم
میری مسافت سے
لوٹنے کا منتظر تھا ملکیت کا نشہ
سرور کی موسیقی بکھیر رہا تھا
عشق میں ایسا کر جاتے ہیں
چھوڑو آؤ، مر جاتے ہیں
رات ڈرانا چاہتی ہے تو
ٹھیک ہے ہم بھی ڈر جاتے ہیں
پہلے شوق سے کھِل اٹھتے ہیں
اور، پھر پھول بِکھر جاتے ہیں
ہوا کی چال چل جائے گا تُو بھی
خبر کیا تھی بدل جائے گا تو بھی
کہاں ٹھہری ہے خواہش کوئی دل میں
مِرے دل سے نکل جائے گا تو بھی
مخاطب ہوں جمال یار تجھ سے
مثال ماہ ڈھل جائے گا تو بھی
یادِ جاناں پھر ہوئی ہے ہمسفر
الاماں، اے دردِ ہجراں! الحذر
سرخ طوفاں، زرد صحرا، بے شجر
دیکھ، اے چشمِ فلک! یہ رہگزر
اک طرف سوزِ دروں مثلِ جحیم
اک طرف دریائے غم ہے چشمِ تر
باندھ دستار رقص کرتے ہیں
لے کے تلوار رقص کرتے ہیں
توڑتے ہیں ہر ایک پابندی
آ مِرے یار رقص کرتے ہیں
رقص کرتے ہیں اس طرح جیسے
آخری بار رقص کرتے ہیں
زندگیوں کی
سب افواہیں
جھوٹ فریب
موت کی
ساری خبریں
سچی ہوتی ہے
نیرُو
واجبی سی
بانسری
بجانے کے سوا
جو کچھ اور
نہیں بجانا
جانتا
دل کے لٹنے پہ کیا کرے کوئی
کس سے جا کر پتہ کرے کوئی
سوچتا ہوں کہ کس بھروسے پر
جان تم پر فدا کرے کوئی
یعنی عمر خضر تو حاصل ہو
چند سانسوں کا کیا کرے کوئی
مشین
آخری بار اپنی دعوت کب کی تھی؟
خود کو تحفتاً جو پرفیوم دیا تھا
اُس کی خوشبو یاد ہے؟
چائے کو اشرف المشروبات سمجھے
کتنے سال ہوئے ہیں؟
تہہ در تہہ
الجبرا کے ماہر لڑکے
تمہارے نزدیک ایکس فقط ایک متغیّر ہے
ہائے، تُم “ایکس” کی قیمت نہیں جانتے
خواہشوں کو مجبوریوں پر
تقسیم کرنے والے لڑکے کا دُکھ جانتے ہو؟
”عبدالسمیرا شہید“
ہیجڑی، سوچ ہوتی ہے
میں سمیرا ہوں
پانی پہ بنی تصویر
مجبوری میں سستے داموں بیچا گوہر
شیشے میں سنورتے ہوئے شرماتی ہوں
اسے یقین نہ آیا مِری کہانی پر
وہ نقش ڈھونڈ رہا تھا گزرتے پانی پر
سفینے تھک کے تہِ آب ہو گئے سارے
ہُنر کھُلا نہ ہواؤں کا بادبانی پر
میں سخت جان تھا ایسا کہ چیخ بھی نہ سکا
فغاں فغاں تھی جہاں مرگ ناگہانی پر
میں جس دن مر گیا اس دن
اس دن
بسیں چلتی رہیں گی اپنے روٹوں پر
ٹریلر یوں ہی بندر گاہ سے سامان لائیں گے
جہازوں اور ٹرینوں کے
شیڈیول اور ٹائم ٹیبل میں
نہ کوئی فرق آئے گا
اک سبز رنگ باغ دِکھایا گیا مجھے
پھر خُشک راستوں پہ چلایا گیا مجھے
طے ہو چکے تھے آخری سانسوں کے مرحلے
جب مژدۂ حیات سنایا گیا مجھے
پہلے تو چھین لی مِری آنکھوں کی روشنی
پھر آئینے کے سامنے لایا گیا مجھے
ستارہ آنکھ میں دل میں گلاب کیا رکھنا
کہ ڈھلتی عمر میں رنگِ شباب کیا رکھنا
جو ریگزارِ بدن میں غبار اڑتا ہو
تو چشمِ خاک رسیدہ میں خواب کیا رکھنا
سفر نصیب ہی ٹھہرا جو دشتِ غربت کا
تو پھر گماں میں فریبِ سحاب کیا رکھنا
واپسی
سپیرا روزانہ
مجھے سانپ سے ڈسواتا ہے
اور تماشائی
دلچسپی سے کھیل کے
دوسرے حصے کا
انتظار کرتے ہیں
سنو، اب ہم محبت میں بہت آگے نکل آئے
کہ اک رستے پہ چلتے چلتے سو رستے نکل آئے
اگرچہ کم نہ تھی، چارہ گرانِ شہر کی پُرسش
مگر کچھ زخم نا دیدہ بہت گہرے نکل آئے
محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے
آنکھوں میں لے کے یاس مجھے دیکھنے تو دے
کون آ رہا ہے پاس مجھے دیکھنے تو دے
دیکھے گا کون خاک میں جوہر چھپے ہوئے
اے شہرِ ناشناس مجھے دیکھنے تو دے
میں ڈوب تو رہی ہوں مگر جانبِ کنار
جب تک بندھی ہے آس مجھے دیکھنے تو دے
تم خاص پلاتے تھے جو عام نہیں ملتا
ہاں جام تو ملتا ہے، وہ جام نہیں ملتا
گلیوں میں بھٹکتا ہے، بد راہ ہے دل ایسا
اس صبح کے بُھولے کو، گھر شام نہیں ملتا
کچھ عشق کرو صاحب، کچھ نام دھرو صاحب
گھر بیٹھنے والوں کو الزام نہیں ملتا
وہ جو لفظوں کے درمیاں گزرے
معدوم ہوتے لفظوں کے درمیان سے گزرنے والو
تمہاری اور سے تلوار، ہماری طرف سے خون
تمہاری اور سے فولاد
ہماری طرف سے گوشت
تمہاری طرف سے ایک اور ٹینک
ہتھیلی پر ستارہ رکھ دیا تھا
محبت کا اشارہ رکھ دیا تھا
میں دریا کی روانی میں مگن تھا
مگر اس نے کنارہ رکھ دیا تھا
تمہارا نام آنکھوں پر اٹھا کر
نجانے کیوں دوبارہ رکھ دیا تھا
آؤ چلو جنوں کا تقاضا نبھائیں گے
صحرا کی ریت بالوں میں اپنے سجائیں گے
اس بے وفا کا نام لکھیں گے مٹائیں گے
کُھل کر وفا کی موت کا ماتم منائیں گے
دنیا کو یہ عجیب تماشا دکھائیں گے
اشکوں سے سارے دشت کو دریا بنائیں گے
رنج میں ڈوبے خیالات کا دُکھ جانتے ہیں
زہر میں ڈوبی ہوئی بات کا دکھ جانتے ہیں
سانس چلتا ہے کہ آری ہمیں ادراک ہے سب
عشق اور عشق کی بہتات کا دکھ جانتے ہیں
زود گو بھی ہو مگر کہہ نہ سکے بات کبھی
شعر کہتے ہوئے محتاط کا دکھ جانتے ہیں
خواب تو دیکھ چکے یار! سہانے کتنے
اب یہ بتلا کہ تِرے غم ہیں اٹھانے کتنے
پھول کِھلنے بھی نہ پائے تھے کہ چپکے چپکے
گشت کرنے لگے خوشبو کے دِوانے کتنے
تجھ کو معلوم نہیں ایک تِرے دل کے سوا
تیرے جوگی ہوئے دنیا میں ٹھکانے کتنے
یہ نہ سوچا پُرکھوں نے کہ مقصد تو سیرابی تھا
اب کی بار بھی آیا ہے جو ریلا وہ سیلابی تھا
فصلیں، ڈنگر، گھر کی چھت تک بہہ جانے کی خبر ملی ہے
گاؤں سے اک خط آیا تو سارا منظر آبی تھا
سرسوں چُننے والی کو دوا ملی، نہ غذا ملی
پِیلیا اس کو نِگل گیا ہے جس کا رنگ گلابی تھا
جنوں کی ہر زنجیر کی کنجی تمہارے پاس ہے
سن اے نازک اندام
یہ ہوا کی سرسراہٹ ہے
یا تمہارے کومل قدموں کی چاپ
میرے پیروں میں پڑی بیڑیوں کی
یا تمہارے پازیب کی جھنکار
محبت کس کو کہتے ہیں عداوت کس کو کہتے ہیں
بچھڑ کے تم سے جانا ہے قیامت کس کو کہتے ہیں
اسی ضد میں ہی اُتری ہوں قیامت خیز لہروں میں
کہ دیکھوں گی محبت میں قیامت کس کو کہتے ہیں
زمانہ پوچھتا کچھ ہے، بتاؤں اور ہی کچھ میں
تمہیں سے میں نے سیکھا ہے وضاحت کس کو کہتے ہیں
دل کے موسم
اب کے خوشبو
شاخوں پر مصلوب ہوئی
اس کا چہرہ
ایک دریچہ
نئے جہانوں
اس نے لکھا تھا حرف جدائی مِرے لیے
پھر مٹ گئی تھی ساری خدائی مرے لیے
گجرے تمام شہر میں بانٹ آیا تو کھُلا
گھر میں بھی منتظر تھی کلائی مرے لیے
سندر گلاب خواب تو خوابوں کی بات ہے
یہ رات نیند بھی تو نہ لائی مرے لیے
وہ کوئی حسن ہے جس حسن کا چرچا نہ ہوا
اس کا کیا عشق ہے جو عشق میں رُسوا نہ ہوا
تیرا آنا جو مِرے پاس مسیحا نہ ہوا
تھا جو بیمار کسی سے مگر اچھا نہ ہوا
یوں تو مشتاق رہے کتنا ہی اس کوچے کے
پر گزر میرے سوا اور کسی کا نہ ہوا
سنو
لفظوں کو ادھورا نہ
چھوڑا کرو
انسان ادھورے
ہو جاتے ہیں
کچھ بنا بتائے
اداسی ایک لڑکی ہے
دسمبر کی گھنی راتوں میں
جب بادل برستا ہے
لرزتی خامشی
جب بال کھولے
کاریڈوروں میں سسکتی ہے
ہوائے مرگ! مِرا اک دِیا سلامت رکھ
میں حبس زاد ہوں میری ہوا سلامت رکھ
میں آنسوؤں کے مصلّے پہ سر جھکائے رہوں
مِرے خدا! مِرا حرفِ دعا سلامت رکھ
میں اپنا چہرہ فراموش کر نہ جاؤں کہیں
اے شہرِ سنگ! مِرا آئینہ سلامت رکھ
کبھی دیوار کو ترسے، کبھی در کو ترسے
ہم ہوئے خانہ بدوش ایسے کہ گھر کو ترسے
جھوٹ بولوں تو چپک جائے زباں تالُو سے
جھُوٹ لکھوں تو مِرا ہاتھ ہُنر کو ترسے
قریۂ نامہ براں اب کے کہاں جائیں کہ جب
تِرے پہلو میں بھی ہم اس کی خبر کو ترسے
ویسے کہنے کو تو بےکار نہیں کوئی بھی
اس بھرے شہر میں فنکار نہیں کوئی بھی
ہم نے ہر حال محبت کا بھرم رکھنا ہے
کیوں کہیں ہم کہ وفا دار نہیں کوئی بھی
بے گناہی پہ بھلے روئے زمانہ، لیکن
سرِ مقتل تو طرفدار نہیں کوئی بھی
مِری مجبوریاں سمجھو
چلو منظور ہے مجھ کو
مجھے کچھ بھی سزا دے دو
سنو! گر مل نہیں پائے
تو اک دُوجے سے کہتے ہیں
کہ قسمت ہی کچھ ایسی تھی
ہمارا دوش ہی کب تھا
پھر سے دید و شنید ہو جائے
دل سراپا اُمید ہو جائے
دُور ہوتا گیا ہے وہ ہم سے
جیسے ماضی بعید ہو جائے
اس کی قسمت پہ رشک جو اپنی
جستجو میں شہید ہو جائے
چین پڑتا ہے گھڑی بھر کو نہ آرام مجھے
لے کے پھرتی ہے کہاں گردشِ ایام مجھے
مجھ کو تحویل میں اپنی ہی پڑا رہنے دے
وقت پڑ جائے تو کر لینا تُو نیلام مجھے
وسوسے گھیرے ہوئے ہیں مجھے ہر جانب سے
رات بھر سونے نہیں دیتے ہیں اوہام مجھے
پاس اب کوئی ہم نشیں بھی نہیں
کوئی بھی تو نہیں، کہیں بھی نہیں
آپ سا کوئی نازنیں بھی نہیں
اور جھکانے کو وہ جبیں بھی نہیں
کس سے اب گھر کا راستا پوچھیں
اب تیرے نقشِ پا کہیں بھی نہیں
زمین سر پہ رکھے، آسماں ہتھیلی پر
اُٹھائے پھرتے ہیں ہم تو جہاں ہتھیلی پر
میں روز دیکھتا رہتا ہوں اپنے ہاتھوں کو
کہ تیرا نام لکھا ہے کہاں ہتھیلی پر؟
ہر ایک چیز کو لکھا ہے لکھنے والے نے
ہمارا سُود، ہمارا زیاں ہتھیلی پر
دِکھا نہ دست شناسوں کو ہاتھ، فال نہ پوچھ
وہ بات جس سے ہو سن کر تجھے ملال نہ پوچھ
برہنہ تیغ تنی ہے سروں پہ انساں کے
ہلالِ عید نہیں ہے یہ میرے لال! نہ پوچھ
ہم اپنے کتنے عزیزوں کے نام گنوائیں
کہ اپنے ایسے ہزاروں ہیں خستہ حال نہ پوچھ
صدائے عہدِ وفا کو زوال کیوں آیا
لبِ سکوت پہ حرفِ سوال کیوں آیا
کسے خبر کہ چمن میں خزاں کی آمد پر
غرور شعلۂ گل کو جلال کیوں آیا
بجھا رہا تھا میں اپنے وجود کا خورشید
تِری نگاہ میں رنگِ ملال کیوں آیا
زہرِ غم دل میں سمونے بھی نہیں دیتا ہے
کرب احساس کو کھونے بھی نہیں دیتا ہے
دل کی زخموں کو کیا کرتا ہے تازہ ہر دم
پھر ستم یہ ہے کہ رونے بھی نہیں دیتا ہے
اشکِ خوں دل سے اُمنڈ آتے ہیں دریا کی طرح
دامنِ چشم بھگونے بھی نہیں دیتا ہے
تُو جا چکی ہے
تِرے تصور میں کھو کے اکثر
میں سوچتا ہوں اے جانِ جاناں
کہ جانے والا تو اس قدر کیوں
قریب آیا تھا جبکہ میرے
نصیب میں تُو نہیں لکھا تھا
داغِ دل اپنا کسی طرح دِکھائے نہ بنے
اور چاہوں جو چھُپانا تو چھُپائے نہ بنے
دامنِ دل میں وہ جب چاہیں لگا دیں اک آگ
ہم اگر چاہیں بُجھانا تو بُجھائے نہ بنے
تم کو منظور نہیں اپنے تغافل سے گریز
ہم پہ بن آئی ہے ایسی کہ بنائے نہ بنے
پاگلوں کی مدح میں
پاگلوں سے نہیں
بہت ڈر لگتا ہے، مجھے
نارمل اور ذہین لوگوں سے
کچھ بھی کر سکتے ہیں
وہ
کیا ایسا ہو سکتا ہے
وہ پھر سے مل جائے مجھ کو
کیا ایسا ہو سکتا ہے
روز و شب، ہر ساعت، ہر دم
اس کو سوچتی رہتی ہوں
میرے بہتے اشکوں کو
خاک سے خواب تلک ایک سی ویرانی ہے
میرے اندر مِرے باہر کی بیابانی ہے
کوئی منظر کہیں موجود ہے پس منظر میں
ورنہ کیا چیز ہے جو باعثِ حیرانی ہے
کہہ کے دیکھیں گے بہر طور مگر پہلے بھی
دلِ خود سر نے کوئی بات کہاں مانی ہے
اب امن و آشتی کا پیمبر نہیں رہا
یعنی وہ بھولا بھالا کبوتر نہیں رہا
یہ کہہ رہے ہیں ساکت و جامد مزاج لوگ
تدبیر کی حدوں میں مقدر نہیں رہا
حاوی تھے اس طرح سے زمانے کے مسئلے
مجھ کو تیرا خیال بھی اکثر نہیں رہا
اب اس سادہ کہانی کو نیا اک موڑ دینا تھا
ذرا سی بات پر عہدِ وفا ہی توڑ دینا تھا
مہکتا تھا بدن ہر وقت جس کے لمس خوشبو سے
وہی گلدستہ دہلیزِ خزاں پر چھوڑ دینا تھا
شکستِ سازِ دل کا عمر بھر ماتم بھی کیا کرتے
کہ اک دن ہنستے ہنستے سازِ جاں ہی توڑ دینا تھا
زندگی کے رستوں میں دھوپ جب بکھر جائے
ابر جب ٹھہر جائے
آنکھ جب سفر میں ہو
رنگ جب نظر میں ہوں
دل کسی کی یادوں میں ڈوب کر ابھرتا ہو
سانس جب معطر ہوں
مِرے سوا جسے سب کچھ دکھائی دیتا ہے
سنا ہے آج وہ مجھ کو دُہائی دیتا ہے
وہ بات تک نہ کرے مجھ سے غم نہیں مجھ کو
وہ دُشمنوں کو مگر کیوں رسائی دیتا ہے
میں روز کھڑکی سے سنتا ہوں اس کی آوازیں
نجانے روز وہ کس کو صفائی دیتا ہے
بہت ہو یا ذرا سا مانگنے دو
مجھے بھی اپنا حصہ مانگنے دو
اندھیروں سے اگر لڑنا ہے لازم
تو جگنو بھر اجالا مانگنے دو
بھرم کھل جائے گا اس کے بھرم کا
خوشی کا ایک لمحہ مانگنے دو
ندی یہ جیسے موج میں دریا سے جا ملے
تم سے کہیں ملوں میں اگر راستا ملے
ملتی ہے ایک سانس کی مہلت کبھی کبھی
شاید یہ رات بھی تِری صبحوں سے جا ملے
جو بھی ملا وہ اپنی انا کا اسیر تھا
انساں کو ڈھونڈنے میں گئی تو خدا ملے
خواب آنکھوں میں نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
عشق مایوس ہوا ہو مگر ایسا بھی نہیں
ان کی الفت میں اٹھائے ہیں ہزاروں الزام
آج تک آنکھ اٹھا کر جنہیں دیکھا بھی نہیں
راہ ہستی میں نگاہیں تو بھٹک سکتی ہیں
دل بھٹک جائے مگر اتنا اندھیرا بھی نہیں
سسکتی روح کو منظر پہ لاتے موت آئی
مجھے یہ جسم کا ملبہ ہٹاتے موت آئی
ہم ایک ساتھ کہانی میں اتنا جچ رہے تھے
کہ قصہ گو کو جدائی بناتے موت آئی
ہمارے گاؤں کی ساری زمینیں بنجر تھیں
ہر اک کسان کو آنسو بہاتے موت آئی
مصائب شہر کے ہوں گے فراواں ہم نہ کہتے تھے
پریشاں اور بھی ہوں گے پریشاں ہم نہ کہتے تھے
اُجاڑے جائیں گے گُلشن، سجائے جائیں گے مقتل
کئے جائیں گے پھر آباد زنداں ہم نہ کہتے تھے
منایا جائے گا جشنِ بہاراں روند کر ہم کو
ہمارے خون سے ہو گا چراغاں ہم نہ کہتے تھے
سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے
خیر اب چُپ بھی کہاں مجھ کو بھلی لگتی ہے
دوسرے رنگ نظر ہی نہیں آتے مجھ کو
زرد ایسا ہوں کہ ہر چیز ہری لگتی ہے
ایک ہی عمر ہے دونوں کی مگر دیکھنے میں
میری تنہائی ذرا مجھ سے بڑی لگتی ہے
مجھے انتظار تھا شام سے، میں بھرا ہوا تھا کلام سے
مِری اپنے آپ سے گفتگو، کوئی دیکھتا در و بام سے
کوئی نہر تھی نہ درخت تھا، یہ کئی زمانوں سے دشت تھا
یہاں شہر بستے چلے گئے، مِرے دل میں تیرے قیام سے
مِری بزم سے جو چلا گیا، تو پتا چلا اسے رنج تھا
اسے رنج تھا کہ میں دیکھتا، میں پکارتا اسے نام سے
ليلۃ القدر کی تلاش
مرچ میں اٹھاؤں تو
اینٹ کا بُرادہ ہے
دُودھ پانی پانی تو
شہد لیس چینی کی
وردیوں میں ڈاکو ہیں
کبھی کبھی تو نہ ہو گی، کبھی ہُوا کرے گی
ضرور تجھ کو کسی کی کمی ہوا کرے گی
رہے گی ایسے ہی رونق تیرے محلے کی
گزرنے والے نہ ہوں گے گلی ہوا کرے گی
جو ہم نہ ہوں گے تو پھر کون تم سے مانگے گا
تمہیں ہماری ضرورت سخی! ہوا کرے گی
ایسے منظر کھلے تھے کہ بینائی سے خوف آنے لگا
رات پہلی دفعہ مجھ کو تنہائی سے خوف آنے لگا
داستاں گو نے یوسف کا قصہ سنایا پڑاؤ کی شب
پھر نہ سویا کوئی، بھائی کو بھائی سے خوف آنے لگا
ایک دن یوں ہوا اس کے چہرے پہ تازہ گلاب آ گئے
اس کے بعد اس کو اپنی پذیرائی سے خوف آنے لگا
بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں
نکل سکا نہ کبھی میکدے کی شام سے میں
وہ بات بات میں دنیا کی بات کرتا ہے
کلام کیسے کروں ایسے بد کلام سے میں
خدا کرے مجھے مرنے کا ڈھنگ آ جائے
گَلا رکھوں تِرے خنجر پہ احترام سے میں
اجڑی ہوئی آنکھوں میں ستارے نہیں ملتے
دریائے محبت کے کنارے نہیں ملتے
اس دور میں اطفال کو بہلانے کی خاطر
بارود تو ملتا ہے، غبارے نہیں ملتے
مطلب ہو تو ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ہمدرد
مشکل میں کبھی یار پیارے نہیں ملتے
یاد کرنے کا تمہیں کوئی ارادہ بھی نہ تھا
اور تمہیں دل سے بھُلا دیں یہ گوارا بھی نہ تھا
ہر طرف تپتی ہوئی دُھوپ تھی اے عمر رواں
دور تک دشت الم میں کوئی سایا بھی نہ تھا
مشعل جاں بھی جلائی نہ گئی تھی ہم سے
اور پلکوں پہ شب غم کوئی تارا بھی نہ تھا
شاعری خدا حافظ
زندگی خدا حافظ
جا رہا ہوں گاؤں سے
سانولی خدا حافظ
بھائے ہم اندھیروں کو
روشنی خدا حافظ
اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی
اس کے پاؤں کی خوشبو بھی اس باس میں تھی
تجھ بارش نے تن پھولوں سے بھر ڈالا
خالی شاخ تھی اور اس رُت کی آس میں تھی
تُو نے آس دلائی مجھ کو جینے کی
میں تو سانسیں لیتی مٹی یاس میں تھی
میرے پاس
ایک سیاہ تِل ہے
جسے میں نے سمرقند کی رہنے والی
ایک دل فروش عورت سے خریدا تھا
میں یہ تِل کسی گداز شانے کو
ہدیہ کرنا چاہتا ہوں
شورشِ غم سے مِری آنکھیں پریشاں ہو گئیں
ایڑیاں تھیں رقص میں، زلفیں ہراساں ہو گئیں
کان میں چیخیں مِرے، کچھ اس طرح تنہائیاں
سر اٹھاتیں حسرتیں نذرِ چراغاں ہو گئیں
بعد مدت کے جو میرے فون کی گھنٹی بجی
بعد مدت بارشیں آنکھوں کی مہماں ہو گئیں
بات مطلب کی ڈھب محبت کا
تُو نہ تب تھا نہ اب محبت کا
تجھ کو آتی نہیں ہنسی خود پر
نام لیتا ہے جب محبت کا
تجھ پہ یہ مہربان ہو جاتی
تُو جو کرتا ادب محبت کا
وصالِ یار اب تو خواب ہوتا جا رہا ہے
یہ دل اس کے لیے بے تاب ہوتا جا رہا ہے
یہ کیسا دشتِ حیرت ہے جہاں ہم آ گئے ہیں
کہ پیاسا دُھوپ میں سیراب ہوتا جا رہا ہے
بہت سے لوگ جائیں گے اسے اب ڈھونڈنے کو
وفا کا نام بھی نایاب ہوتا جا رہا ہے
ہائے تصویریں مجھے کیوں اس قدر دکھلائیاں
دل پر اوس نقاش قدرت نے بلائیں لائیاں
دیکھتے ہی مہوشوں کے، عقل زائل ہو گئی
ناز و عشوے سے ہی جب مے دے مجھے بہلائیاں
کیا ہٹیلا بن گیا طفل دل بہزاد رے
دیکھیے تصویر کے کرتا ہے کیا مچلائیاں
تمہارا جسم
جیسے
یاسمیں کی ادھ کھِلی نازک کلی
یا پھر
دِیے کی ٹمٹماتی لو
کسی کو تم جو چھُو لو تو مہک جائے
بازگشت
نغمہ زارِ درد کی جانب چلے ہم
ایک بھی ذرّہ نہ کُچلا جائے اس رفتار سے
نغمہ زارِ درد کی جانب چلے ہم
کُنج میں پیڑوں کے سُورج جھانکتا تھا
کوہساروں سبزہ زاروں میں جھمکتی روشنی کا جشن تھا
جشن جاری ہی رہے گا تا ابد جاری رہے
تسکین دے سکیں گے نہ جام و سبو مجھے
بے چین کر رہی ہے تِری آرزو مجھے
مجھ سے تلاشِ راہ کی دشواریاں نہ پوچھ
بھٹکا رہا ہے ذوقِ سفر چار سُو مجھے
بزمِ اثر فریب کی تبدیلیاں تو دیکھ
مغموم آ رہے ہیں نظر خوبرو مجھے
بھری محفل میں رُسوا ہو گئے تھے
ہمی گھر گھر کا چرچا ہو گئے تھے
یہ کس نے پیٹھ پر خنجر چلایا
سبھی دُشمن تو پسپا ہو گئے تھے
کسی موجِ صبا کے منتظر تھے
چمن کے پھول تنہا ہو گئے تھے
جی لرزتا ہے اُمڈتی ہوئی تنہائی سے
اب نکالو مجھے اس رات کی پہنائی سے
آئی یادوں کی ہوا گھُلنے لگا کان میں زہر
بُجھ گئی شام بھی بجتی ہوئی شہنائی سے
پوچھتا پھرتا ہوں گلیوں کے اُجڑنے کا سبب
ہر طرف جمع ہیں کیا لوگ تماشائی سے
تمام وقت تمہیں سے کلام کرتے ہیں
شبِ فراق کا یوں احتمام کرتے ہیں
سجائے رکھتے ہیں ہم ہر وقت نئے دن رات
تمہارے واستے یہ التزام کرتے ہیں
خیالِ یار سے کرتے ہیں صبح کا آغاز
امیدِ یار کے سائے میں شام کرتے ہیں
خود کو بھی اپنی راہ میں آنے نہ دوں گا میں
کھیڑوں کو اب کے ہیر لے جانے نہ دوں گا میں
شرطیں قبول کر لوں گا ساری سُنے بغیر
ترکِ وفا کے تجھ کو بہانے نہ دوں گا میں
تُو جنگ پر بضد ہے تو میری بھی سُنتا جا
لاشیں بھی اب کی بار اُٹھانے نہ دوں گا میں
ہم اپاہج نہیں ہیں
محبت قرارداد نہیں جسے توڑا نہ جا سکے
بوسے زبان کے نیچے پڑے پڑے
زہر بننے لگیں
تو انہیں تھُوکا بھی جا سکتا ہے
انگلیوں کی پوروں میں ٹھہرا ہوا لمس
یادوں کا زہر
بِیتے ہوئے دنوں کی ہیں یادیں بھی اک عذاب
رہتا ہے ذہن و قلب پہ ان کا سدا عتاب
ادراک و فہم کو بھی یہ ڈستی ہیں دم بدم
جذبات کے لیے بھی نہیں ناگنوں سے کم
چاہا تھا شاعری تو نہ مسموم ہو مگر
کس قدر بے قدر ہوتی ہے
زندگی بس دربدر ہوتی ہے
ہمیں جن کے حال میں دلچسپی
ان کو کب خبر ہوتی ہے
تُو نہ پریشاں ہو میرے لیے
مجھ کو تیری فکر ہوتی ہے
آج یوں درد تِرا دل کے اُفق پر چمکا
جیسے دو پَل کے لیے صبح کا اختر چمکا
یوں ضیا بار رہی ہجر کی شب یاد تِری
غم کا شعلہ تِرے رُخسار سے بڑھ کر چمکا
خاکِ گلشن سے نہ کوئی بھی شرارہ پھوٹا
فصلِ گُل آئی نہ کوئی بھی گُلِ تر چمکا
خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے
گو ترے شہر میں جا کر کے بھی پیاسے آئے
اس جوانی میں بھی الزام سے ڈرنا حیرت
کون چہرے پہ نہیں کیل مہاسے آئے
اس نے اک خاص تناسب سے محبت بانٹی
میرے حصے میں ہمیشہ ہی دِلاسے آئے
اس کا مزاج بھی عجب ہے
سرد ہوا میں گیندے کے پھولوں کی اداس خوشبو بھی اسے پاگل کر دیتی ہے
اور میرے سر پر زرد دوپٹہ بھی
ذکیہ غزل
ہر دکھ کو میں جھیلی ہوں
درد بساط پہ کھیلی ہوں
خود سے ہی دل کی بات کروں
اپنی آپ سہیلی ہوں
کیا کوئی مجھ کو جانے گا
ایسی ایک پہیلی ہوں