تہِ گرداب تو بچنا مِرا دُشوار ہے پھر بھی
کنارے دُور ہیں ٹُوٹی ہوئی پتوار ہے پھر بھی
تھکن سے چُور ہوں، سر رکھ دیا ہے اس کے سینے پر
مجھے معلوم ہے یہ ریت کی دیوار ہے پھر بھی
متاعِ رشتۂ جاں کاروبار منفعت کب تھی
خریدروں کے حلقے میں سرِ بازار ہے پھر بھی
تہِ گرداب تو بچنا مِرا دُشوار ہے پھر بھی
کنارے دُور ہیں ٹُوٹی ہوئی پتوار ہے پھر بھی
تھکن سے چُور ہوں، سر رکھ دیا ہے اس کے سینے پر
مجھے معلوم ہے یہ ریت کی دیوار ہے پھر بھی
متاعِ رشتۂ جاں کاروبار منفعت کب تھی
خریدروں کے حلقے میں سرِ بازار ہے پھر بھی
اب یوں بھی نہیں آنکھ پہ الہام ہوا ہے
اک عمر میں وہ شخص مِرے نام ہوا ہے
یہ دولتِ رُسوائی کہاں مفت ملی ہے
سو زخم اٹھائے ہیں تو پھر نام ہوا ہے
اس ترکِ تعلق کا بہت خوف تھا دل کو
جس کام سے ڈرتا تھا وہی کام ہوا ہے
خود کو جینے کی تسلی میں بہانے نہیں دیتا
اب تیری یاد بھی آئے تو میں آنے نہیں دیتا
غم سے کہتا ہوں کہ آؤ تمہیں جانے نہیں دوں گا
اور وہ آ جائے تو پھر اس کو جانے نہیں دیتا
یہ تیرا ظرف ہے تو لوٹ کے آیا ہی نہیں
یہ میرا ظرف ہے پھر بھی تُجھے طعنے نہیں دیتا
دھڑ زمیں سے مل گیا، پر آسماں سے مل گئے
کچھ سبق تو ہم کو تیری داستاں سے مل گئے
یہ شرافت ہے ہماری،۔ یا ہمارا المیہ
جو جہاں پر رکھ گیا اس کو وہاں سے مل گئے
ہم بتائیں، کیا ملا ہے دوستی کی آڑ میں
دھوپ کے سب ذائقے اک سائباں سے مل گئے
کیسے کیسے تھے جزیرے خواب میں
بہہ گئے سب نیند کے سیلاب میں
لڑکیاں بیٹھی تھیں پاؤں ڈال کر
روشنی سی ہو گئی تالاب میں
جکڑے جانے کی تمنا تیز تھی
آ گئے پھر حلقۂ گرداب میں
زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے
تیر لہجے کا کلیجے میں اتر جاتا ہے
موج کی موت ہے ساحل کا نظر آجانا
شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے
شعبدہ کیسا دکھایا ہے مسیحائی نے
سانس چلتی ہے، بھلے آدمی مر جاتا ہے
گرفتِ خاک سے باہر مجھے نکلنے دے
اے دشتِ خواب مجھے دو قدم تو چلنے دے
جو ہو سکے مِرے اشکوں کو منجمد مت کر
ہوائے شہرِ خرابی مجھے پگھلنے دے
اے دشتِ شام کی پاگل ہوا بجھا نہ مجھے
نواحِ شب میں کوئی تو چراغ جلنے دے
شام کا منظر، الجھا رستہ، ایک کہانی تُو اور میں
ڈھلتا سورج، بڑھتا سایہ، کشتی رانی تُو اور میں
بند اِک کمرہ، چُپ کا منظر، بھولی بسری دیپک یاد
تنہائی، دُکھ، خوف کی لذت، دلبر جانی تُو اور میں
تتلی، خوشبو، رنگ کی باتیں، شبنم سے شرمیلے خواب
آس کا پنچھی، گم سم خواہش، رات کی رانی تُو اور میں
تُو نہ سمجھے گا یہ بات بھی ہو سکتی ہے
قتل پل پل میں مِری ذات بھی ہو سکتی ہے
داغِ حسرت میرے دامن سے مٹانے کے لیے
میری ان آنکھوں سے برسات بھی ہو سکتی ہے
اب میں پوشاک میں فقیری میں بھی آ سکتا ہوں
میرے کاسے میں تِری ذات بھی ہو سکتی ہے
وہ مزہ اس کی چھوون میں ہے، نہیں لطف ایسا بہار میں
چلے جب صبا مِرا تن جلے، نہیں چین دل کو قرار میں
تِری مست مست نگاہ نے مجھے جام ایسا پلا دیا
مِرے ہمسفر! تجھے کیا خبر مجھے ہوش بھی ہے خمار میں
جنہیں زندگی کے تضاد بھی لگیں بوجھ بھاری پہاڑ سے
ملی مشکلوں ہی میں مشکلیں انہیں ہر سُو راہِ فرار میں
کتنے بھولے ہوئے نغمات سنانے آئے
پھر تِرے خواب مجھے مجھ سے چرانے آئے
پھر دھنک رنگ تمناؤں نے گھیرا مجھ کو
پھر تِرے خط مجھے دیوانہ بنانے آئے
پھر تِری یاد میں آنکھیں ہوئیں شبنم شبنم
پھر وہی نیند نہ آنے کے زمانے آئے
نم دیدہ دعاؤں میں اثر کیوں نہیں آتا
تُو عرشِ تغافل سے اتر کیوں نہیں آتا
میں آپ کے پیروں میں پڑا سوچ رہا ہوں
میں آپ کی آنکھوں کو نظر کیوں نہیں آتا
اب شام ہوئی جاتی ہے اور شام بھی گہری
اے صبح کے بُھولے ہوئے گھر کیوں نہیں آتا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
میرے آقاﷺ بہار لے آئے
رنگ اُجلے ہزار لے آئے
رشکِ جنت بنا دیا صحرا
کیا فضا خوشگوار لے آئے
جاں کے دشمن کو بھی اماں دے دی
کتنا اچھا شِعار لے آئے
تمہاری یاد کی لو تن سے جب اترتی ہے
بڑی خموشی سے آنگن میں شب اترتی ہے
تیرے خیال کی لو تن سے جب اترتی ہے
بڑی خموشی سے آنگن میں شب اترتی ہے
تمہارا ساتھ تسلسل سے چاہیۓ مجھ کو
تھکن زمانوں کی لمحوں میں کب اترتی ہے
میں نظمیں خریدنا چاہتی ہوں
لیکن ایسی نظمیں
جن میں میرا دکھ سمویا ہوا ہو
جن میں میری ہنسی چھپی ہوئی ہو
جن میں میرے آنسو
موتیوں کی طرح لگیں مجھے
خونِ دل ہوتا رہا تلخیٔ اظہار کے ساتھ
آدمی قتل کہاں ہوتا ہے تلوار کے ساتھ
پا بہ زنجیر اندھیرے میں مقید رکھنا
یہ کسی طور مناسب نہیں بیمار کے ساتھ
جان جانے کا کوئی خوف نہیں ہے مجھ کو
حق بہ جانب، میں کھڑا ہوں تِرے انکار کے ساتھ
ڈھونڈتا سکوں میں تھا پایا رنج و غم اُلٹا
منزلوں کی خواہش میں رکھ دیا قدم الٹا
جاتے جاتے قاصد نے کہہ دیا پتا ان کا
ہائے میرے ہاتھوں میں آ گیا قلم الٹا
آج گر گلے شکوہ کر رہا تھا وہ لیکن
بوجھ میرے سینے کا ہو رہا تھا کم الٹا
مجھے بار بار صدا نہ دے، مری حسرتوں کو ہوا نہ دے
مِرے دل میں آتش عشق ہے، میری آگ تجھ کو جلا نہ دے
مِرا عشق ہے میری زندگی، مِرا عشق ہے میری بندگی
مجھے عاشقوں میں شمار کر، مجھے عاشقی کا صِلہ نہ دے
مجھے درد و سوز و گداز دے، مجھے اپنے غم سے نواز دے
تیرا درد بھی میرے دل میں ہو، مجھے درد دل کی دوا نہ دے
فرازِ دار کو ذوقِ جنوں تلاش کرے
یہ دل کہ تیری نظر کا فسوں تلاش کرے
سکون کے لیے پہلے نظر نظر سے ملے
نظر ملا کے یہ دل پھر سکوں تلاش کرے
کسی نے زہد کیا اور تو کوئی مست ہوا
جسے تو یوں نہیں ملتا وہ یوں تلاش کرے
ویرانی
مگر اے دل
مگر اے شہرِ دل
تُو کیوں فصیلِ درد سے
باہر نہیں آتا
بتا مجھ کو
جوٹھا بوسہ
زندگی کی اترن
باسی محبت
ناخالص بھوک
نابالغ پیاس
استعمال شدہ خواہش
دشت و صحرا اگر بسائے ہیں
ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں
آپ نغموں کے منتظر ہوں گے
ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں
ایک اپنا دِیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دِیے بجھائے ہیں
میں صحرا تھا جزیرہ ہو گیا ہوں
سمندر دیکھ تیرا ہو گیا ہوں
بجز اک نام کہتا ہوں نہ سنتا
میں ایسا گونگا بہرا ہو گیا ہوں
تری آنکھوں نے دھویا ہے مجھے یوں
میں بالکل صاف ستھرا ہو گیا ہوں
اس لیے قریۂ دل میں مِری عزت کم ہے
میرے کاسے میں ابھی عجز کی دولت کم ہے
میں ہر اک کام تسلی سے کیا کرتا ہوں
عشق مت سونپئے صاحب مجھے فرصت کم ہے
بانٹ سکتی ہے مِرا ہجر اداسی میری
آج کل مجھ پہ مگر اس کی عنایت کم ہے
تمہاری بزم میں جس بات کا بھی چرچا تھا
مجھے یقین ہے اس میں نہ ذکر میرا تھا
نہ سرد آہیں، نہ شکوے، نہ ذکرِ دردِ فراق
ہمارے عشق کا انداز ہی نرالا تھا
کل آ گیا تھا سوا نیزے پر مِرا سورج
میں جل رہا تھا مگر ہر طرف اندھیرا تھا
کسی کی سننی نہیں ہے اگر مگر میں نے
جواب دینا ہے ڈنکے کی چوٹ پر میں نے
ابھی سے سائے میں جا کے نگوڑا بیٹھ گیا
ابھی تو دل کو لگایا تھا کام پر میں نے
تِری نظر میں تو یہ سرسری سی کوشش ہے
مجھے پتا ہے بنایا ہے کیسے گھر میں نے
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے میری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
میرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
کارِ بے کار سے آگے کا قدم لیتا ہوں
جو بناتا ہوں اسے توڑ کے دم لیتا ہوں
خاک میں ملتا ہوا دادِ فنا دیتا ہوا
بعض اوقات تو میں راہِ عدم لیتا ہوں
اس محبت کو بہت دیر سہا ہے میں نے
اب اِسے دے کے کوئی دوسرا غم لیتا ہوں
پھول مہتاب ستاروں کی ضرورت کیا ہے
تم اگر ہو تو بہاروں کی ضرورت کیا ہے
چھوڑ کے جاتے ہوئے ہاتھ ہلانے والے
تیرے اندھوں کو اشاروں کی ضرورت کیا ہے
جن کی آنکھوں میں تِری آنکھیں رہا کرتی ہوں
ان کو پھر اور نظاروں کی ضرورت کیا ہے
ہوس کا رنگ چڑھا اس پہ اور اتر بھی گیا
وہ خود ہی جمع ہوا اور خود بکھر بھی گیا
تھی زندگی مِری راہوں کے پیچ و خم کی اسیر
مگر میں رات کے ہمراہ اپنے گھر بھی گیا
میں دشمنوں میں بھی گھر کر نڈر رہا لیکن
خود اپنے جذبۂ حیوانیت سے ڈر بھی گیا
کر گیا سوچ کے کیا میرے حوالے مجھ کو
میرے اندر کا درندہ ہی نہ کھا لے مجھ کو
صبحِ پُر نور کو آلودہ کیا ہے کس نے
شب گزیدہ نظر آتے ہیں اجالے مجھ کو
سنگ سے جس نے بنایا ہے مجھے آئینہ
اب یہ ڈر ہے وہ کہیں توڑ نہ ڈالے مجھ کو
وہ برہنہ سر دوبارہ بے ردا ہو جائے گی
اور خبر اس بار بھی اک حاشیہ ہو جائے گی
اپنے گہنے بیچ کر جو ماں نے سونپی تھی مجھے
کیا خبر تھی اب وہ چھت بھی بے وفا ہو جائے گی
ان چراغ آنکھوں کے آگے ایک دن تم دیکھنا
میری ہستی ایک بجھتا سا دیا ہو جائے گی
مجھے غرض ہے ستارے نہ ماہتاب کے ساتھ
چمک رہا ہے یہ دل پوری آب و تاب کے ساتھ
نپی تلی سی محبت لگا بندھا سا کرم
نبھا رہے ہو تعلق بڑے حساب کے ساتھ
میں اس لیے نہیں تھکتا تِرے تعاقب سے
مجھے یقیں ہے کہ پانی بھی ہے سراب کے ساتھ
چمکتے ہیں جو داغِ دل وہ مِٹ جایا نہیں کرتے
امنگوں کے دئیے الفت میں کجلایا نہیں کرتے
اسی دلکش ادا سے سامنے آیا نہیں کرتے
تم اب کیوں مسکرا کر پھول برسایا نہیں کرتے
وہ اک ہم ہیں جہنیں عرضِ وفا پر بھی حیا آئے
وہ اک تم ہو جفاؤں سے بھی شرمایا نہیں کرتے
دل میں چبھے نہ جن کو کبھی خار زیست کے
کیا ان پہ آشکار ہوں اسرار زیست کے
سیکھا نہیں جنہوں نے سلیقہ کلام کا
تعلیم کرنے آئے ہیں اطوار زیست کے
زیبا تھی جن کو زیست جہاں سے گزر گئے
ہم مفت میں ہوئے ہیں سزاوار زیست کے
برسوں کا فاصلہ رہا پل کے وصال میں
کون آ کے پوچھتا مجھے پھر ایسے حال میں
ہم بھی کسی سے کہتے کہ ہم کو بھی عشق ہے
دیدار ایک ہوتا اگر ایک سال میں
دیکھا جسے بھی اپنی طرف کھینچ ہی لیا
یہ بھی تو اک کمال ہے تیرے جمال میں
بچھڑنا ہے تو خوشی سے بچھڑو سوال کیسے، جواب چھوڑو
ملی ہیں کس کوجہاں کی خوشیاں ملے ہیں کس کو عذاب چھوڑو
نئے سفر پہ جو چل پڑے ہو مجھے خبر ہے کہ خوش بڑے ہو
ہے کون اجڑا تمہارے پیچھے یا کس کے ٹوٹے ہیں خواب چھوڑو
محبتوں کے تمام وعدے نبھائے کس نے بھلائے کس نے
تمہیں پشیمانی ہو گی جاناں جو میری مانو حساب چھوڑو
سوال
ہاتھ دیکھتے ہو تم
اور مجھ سے کہتے ہو
واہ کیا مقدر ہے
اور عمر بھی لمبی
بس ذرا خسارہ ہے
ظاہر مقام داد ہے سر کو جھکائیے
ہر داد با مراد ہے سر کو جھکائیے
مقبولِ عام ہوں گے سبھی سانحات پر
یہ کربلا کی یاد ہے سر کو جھکائیے
چودہ سو سال بعد بھی زندہ ہے ان کا نام
اک نعرہ زندہ باد ہے سر کو جھکائیے
چمن کاغذ پہ جو دل کا بناؤں تو خریدو گے
نہ خوشبو پھول تتلی جو دکھاؤں تو خریدو گے
یہاں تو دشت میں یادیں بہت پنہاں پرندوں کی
فقظ اک پیڑ منظر سے ہٹاؤں تو خریدو گے
رواں ہے زندگی میری سمجھتے ہیں سبھی لیکن
پڑی ہے عمر الماری میں لاؤں تو خریدو گے
وہ جنگ میں نے محاذ انا پہ ہاری ہے
لہو میں آج قیامت کی برف باری ہے
مچا ہوا ہے بدن میں لہو کا واویلا
کہیں سے کوئی کمک لاؤ زہر کاری ہے
یہ دل ہے یا کسی آفت رسیدہ شہر کی رات
کہ جتنا شور تھا اتنا سکوت طاری ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
تیرؐی آمد اس جہاں میں رحمتیں پھیلا گئی
ضابطہ دنیا میں جینے کا ہمیں سکھلا گئی
ذکر سرکارﷺ دو عالم میں ہے اتنی روشنی
نام تیراﷺ جب پکارا،۔ تیرگی گبھرا گئی
تھک چکا ہوں اس جہاں میں ظلمتیں سہہ سہہ کے میں
اب بُلا لو میرے مولاﷺ زندگی گھبرا گئی
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
رکھا ہے کائنات میں کیا آپﷺ کے سوا
ہے کون اس جہاں میں مِرا آپﷺ کے سوا
واپس پلٹ کے آ گئی بابِ قبول سے
جائے گا لے کے کون دعا آپﷺ کے سوا
ہنگامِ فتحِ مکہ کِیا سب کو ہی معاف
بخشی ہے یوں کسی نے خطا آپﷺ کے سوا
میں خرد مند رہوں،۔ یا تِرا وحشی ہو جاؤں
جو بھی ہونا ہے مجھے عشق میں جلدی ہو جاؤں
زندگی چاک کی گردش کے سوا کچھ بھی نہیں
میں اگر کوزہ گری چھوڑ دوں، مٹی ہو جاؤں
پھر سے لے جائے مِری ذات سے تُو عشق ادھار
اور میں پھر سے تِرے حسن پہ باقی ہو جاؤں
یہ کارِ زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے
خود کو سمیٹنے میں بکھرنا پڑا مجھے
پھر خواہشوں کو کوئی سرائے نہ مل سکی
اک اور رات خود میں ٹھہرنا پڑا مجھے
محفوظ خامشی کی پناہوں میں تھا، مگر
گونجی اک ایسی چیخ کہ ڈرنا پڑا مجھے
تُو مخاطب تھا، کوئی بات وہ کرتا کیسے
تیری آنکھوں میں جو ڈوبا تھا ابھرتا کیسے
میں جسے عمرِ گریزاں سے چُرا لایا تھا
وہ تِرے وصل کا لمحہ تھا، گزرتا کیسے
میری مٹی میں فرشتوں نے اسے گوندھا تھا
میرے پیکر سے تِرا رنگ اُترتا کیسے
اس نے کیوں بنایا تھا خاندان شیشے کا
اب تلاش کرتا ہے اک مکان شیشے کا
زندگی کی رعنائی کیا اسے ثمر دے گی
اوڑھ کر جو پھرتا ہے سائبان شیشے ک
بات ہو نا پائے گی صرف چیخ ابھرے گی
ٹوٹ جائے گا دل جب بے زبان شیشے کا
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
خود شناسائی کے عذابوں میں
زخم جب بھی گنے محبت کے
سانس لینا بھی ہو گیا مشکل
غزالہ انجم
زمزمِ شوق کو عرفان دئیے جاتے ہیں
زندگی زہر ہے اور زہر پیے جاتے ہیں
کتنے مجبور ہیں ہم پیار میں اب تک ان کے
درد خوشیوں کے عوض یار لیے جاتے ہیں
ابرِ رحمت ہے کہ سائے ہیں شبِ فرقت کے
تیری چاہت کو جنوں خیز کیے جاتے ہیں
وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے
کہتے ہیں کسی نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے
پہلی سی وہ خوشبوئے تمنا بھی نہیں ہے
اس بار کوئی خوف ہوا کا بھی نہیں ہے
اس چاند کی انگڑائی سے روشن ہیں در و بام
جو پردہ شب رنگ پہ ابھرا بھی نہیں ہے
آئسولیشن ڈیز
میری آنکھوں کی جبیں پر آخرش وہ کون سا گمنام آنسو
ایک لمحے کی سزا پانے کے بعد
مسکرانے کی تمنا کر رہا ہے
ایک آنسو
مر رہا
اس کی دنیا وصل کے پُر نُور لمحوں کی محبت میں ہے گزری
میرے ذہن میں ہیں بہت سے دکھ تیرے بعد بھی
کہیں کسی بھی دکھ کی دوا نہیں تیرے بعد بھی
میری دسترس میں تھے سارے جہان کے راستے
سو سفر کا یونہی چلا گیا وہی سلسلہ تیرے بعد بھی
جو سفر تھا جانب منزلِ مقصود وہ تو نہیں رہا
مگر ایسا لگتا تھا جیسے ہے نیا مرحلہ تیرے بعد بھی
نام سحر ہے سب کچھ کالا
سچا ہو کوئی چاہنے والا
امرت کی میں آس لگائے
پیتی رہی ہوں زہر کا پیالہ
کتنی دور ابھی منزل ہے
پوچھ رہا ہے پاؤں کا چھالا
زندگی ریگزار ہے کتنی
میرے غم پر بہار ہے کتنی
مخملی لفظ ہے محبت کا
یہ مگر دھار دار ہے کتنی
اور کتنی بچیں ہیں اب سانسیں
یہ شبِ انتظار ہے کتنی
یارم
نفرتوں کے جہان میں یارم
ہم جو زندہ ہیں سانس لیتے ہیں
سب تِرے عشق کی بدولت ہے
عین ممکن جہانِ فانی میں
ہم رواجوں کی بھینٹ چڑھ جائیں
لمحہ در لمحہ خوبصورت ہے
ہجر تو پورا خوبصورت ہے
وہ حسیں چہرے کے علاوہ بھی
سر تا پا سارا خوبصورت ہے
کیا کوئی تیرا مستحق ہوگا
کیا کوئی اتنا خوبصورت ہے
دوستوں بھائیوں کے ہوتے ہوئے
گر گئے ہم جڑوں کے ہوتے ہوئے
خشک سالی سمجھ سے باہر ہے
اس قدر بارشوں کے ہوتے ہوئے
پانی گلیوں میں بہہ گیا سارا
اتنے خالی گھڑوں کے ہوتے ہوئے
شام ہوتی ہے تو یاد آتی ہے ساری باتیں
وہ دوپہروں کی خموشی وہ ہماری باتیں
آنکھیں کھولوں تو دکھائی نہیں دیتا کوئی
بند کرتا ہوں تو ہو جاتی ہیں جاری باتیں
کبھی اک حرف نکلتا نہیں منہ سے میرے
کبھی اک سانس میں کر جاتا ہوں ساری باتیں
شمع بجھنے لگی خیالوں کی
زندگی ختم ہے اجالوں کی
من کی تنہائیاں سسکتی ہیں
دور شہنائیاں ہچکتی ہیں
چند الجھے ہوئے سوالوں کو
یاد کر دور جانے والوں کو
بیاد جون ایلیا
تجھ سا سوچیں یا تجھ سا نم لکھیں
گر یہ سوچیں کبھی نہ ہم لکھیں
تیرے غم کو اگر سمجھ پائیں
اپنے غم کو کبھی نہ غم لکھیں
جس گھڑی ہم نے تم کو دیکھا تھا
اس گھڑی کو مِرا جنم لکھیں
حسن وہ با کمال ہو جیسے
آنکھیں مثلِ غزال ہوجیسے
کہتے کہتے وہ رک گئے فوراً
لب پہ کوئی سوال ہو جیسے
وہ مجھے دیکھتے رہے اس طرح
دل میں شوقِ وصال ہو جیسے
دن چھپ گیا سورج کا کہیں نام نہیں ہے
او وعدہ شکن! اب بھی تیری شام نہیں ہے
یہ جلوہ بہت خاص ہے کچھ عام نہیں ہے
کمزور نگاہوں کا یہاں کام نہیں ہے
اپنا ہی لہو دے کے گلستاں کو نکھارا
اپنا ہی گلستاں میں کہیں نام نہیں ہے
بھلے وہ بے اصول ہے، قبول ہے
کوئی بھی اس کی بھول ہے قبول ہے
گلاب پاؤں ہیں تِرے، نہ پیار کر
یہ راستہ ببول ہے، قبول ہے؟
وہ جھونکتا ہے میری آنکھ میں تو کیا
ذرا سی ہی تو دھول ہے، قبول ہے
ہر شے تجھی کو سامنے لائے تو کیا کروں
ہر شے میں تو ہی تو نظر آئے تو کیا کروں
تھم تھم کے آنکھ اشک بہائے تو کیا کروں
رہ رہ کے تیری یاد ستائے تو کیا کروں
یہ تو بتاتے جاؤ اگر جا رہے ہو تم
مجھ کو تمہاری یاد ستائے تو کیا کروں
اجازت
قصد کر لے جو جانے کا اسے جانا ہی ہوتا ہے
جدائی بھی تو موسم ہے اسے آنا
ہی ہوتا ہے
محبت بوجھ بن جائے، تعلق روگ
ہو جائے، تو اس کو توڑ دیتے ہیں
اپنی چمک دمک سے لبھایا تو تھا مجھے
دنیا نے اپنا رنگ دکھایا تو تھا مجھے
میں نے یقیں کیا نہ تھا دنیا کی بات پر
تُو بے وفا ہے اس نے بتایا تو تھا مجھے
میرے عدو سے اس نے مراسم بڑھائے تھے
اپنی طرف سے اس نے جلایا تو تھا مجھے
تمہیں اب اس سے زیادہ سزا نہیں دوں گا
دعائیں دوں گا مگر بد دعا نہیں دوں گا
تری طرف سے لڑوں گا میں تیری ہر اک جنگ
رہوں گا ساتھ مگر حوصلہ نہیں دوں گا
تِری زبان پہ موقوف میرے ہاتھ کا لمس
نوالہ دوں گا، مگر ذائقہ نہیں دوں گا
جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ہے کیا؟
اگر نہیں ہے تو سب کچھ خیالِ خام ہے کیا
اداسیاں چلی آتی ہیں شام ڈھلتے ہی
ہمارا دل کوئی تفریح کا مقام ہے کیا؟
وہی ہو تم جو بلانے پہ بھی نہ آتے تھے
بِنا بلائے چلے آئے، کوئی کام ہے کیا
اسی سہارے پہ دن ہجر کا گزارا ہے
خیالِ یار، ہمیں یار سے بھی پیارا ہے
صبا کا، ابر کا، شبنم کا ہاتھ اپنی جگہ
کلی کو پھول نے جھک جھک کے ہی نکھارا ہے
کسی کے ہاتھ پہ مہندی سے دل بنا دیکھا
میں یہ بھی کہہ نہ سکا؛ یہ تو دل ہمارا ہے
چل دیا وہ اس طرح مجھ کو پریشاں چھوڑ کر
موسمِ گل جیسے جائے ہے گلستاں چھوڑ کر
گو بھروسہ ہے مجھے اپنے خلوصِ شوق پر
کون آئے گا یہاں جشنِ بہاراں چھوڑ کر
وہ جو اپنے ساتھ لایا تھا گلستاں کی بہار
جا رہا ہے اب کہاں وہ گھر کو ویراں چھوڑ کر
رہنا تھا مجھ کو تیری نظر کے کمال میں
لیکن میں دن گزار رہی ہوں زوال میں
گھیرا ہے اس طرح مجھے وحشت کے جال نے
سب خواب میرے ڈوب گئے اس ملال میں
مجھ سے نظر چُرا کے گزرنے لگی ہوا
آنے لگی جو ہجر کی خوشبو وصال میں
ظلمتِ شب ہے پاس کوئی نہیں
پھر سحر کی اساس کوئی نہیں
تُو کنارہ عطا کرے تو کرے
ناخدا سے تو آس کوئی نہیں
تشنگی تجھ میں ہے زمانے کی
میرے دریا میں پیاس کوئی نہیں
یہ بے بسی تو عموماً ہی ساتھ ہوتی ہے
ہمارے سامنے جب اس کی ذات ہوتی ہے
ہر ایک بات کہ جس میں تمہارا ذکر نہیں
وہ جیسے دوسرے مسلک کی بات ہوتی ہے
ہمارے گاؤں میں سورج غروب ہو کہ نہ ہو
کسی کے آنکھ لگانے سے رات ہوتی ہے
اس کو دیکھیں گے تو یہ طے ہے کہ مر جائیں گے
اس کی تصویر میں کچھ رنگ تو بھر جائیں گے
وقت کی نبض ٹھہرتی ہے، ٹھہر جانے دو
ہم اسے دیکھنے ہر بار مگر جائیں گے
عزم سینے میں ہے روشن تو کوئی خوف نہیں
ہم دہکتی ہوئی راہوں سے گزر جائیں گے
میرے ہمسفر، تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اسے دیکھتے، اسے جھیلتے
میری آنکھ گرد سے اٹ گئی
میرے خواب ریت میں کھو گئے
میرے ہاتھ برف سے ہو گئے
زہر تو لا جواب تھا اس کا
دن ہی شاید خراب تھا اس کا
جبکہ میرا سوال سیدھا تھا
پھر بھی الٹا جواب تھا اس کا
وہ محض دھوپ کا مسافر تھا
ہمسفر آفتاب تھا اس کا
تمہیں عادت ہے بچپن سے ہر اک شے چھین لینے کی
میرے دو کے برابر لڑ جھگڑ کے تین لینے کی
چلو ایسا کرو کہ آج سے یہ گھر تمہیں رکھ لو
یہ گھر جس میں مرے بچپن کی یادوں کے خزانے ہیں
وہ کمرہ، جہاں پیدا ہوئے تھے
وہ، چولہا، جس میں اکثر بیٹھ کے ہم کھانا کھاتے تھے
لرزتی رات باقی ہے ابھی تم ساتھ مت چھوڑو
ابھی تو بات باقی ہے ابھی تم ساتھ مت چھوڑو
یہ مانا صبح سے پہلے بکھرنا ہے تصور کو
اجل کی مات باقی ہے ابھی تم ساتھ مت چھوڑو
ابھی تو میں نے خنجر کا کیا اک راز ہے افشا
لہو کی ذات باقی ہے ابھی تم ساتھ مت چھوڑو
اتنا رنگیں جو ہُوا زخم نمائی سے ہُوا
دشت مشہور مِری آبلہ پائی سے ہوا
منصفِ وقت پہ اب حرف نہیں آ سکتا
فیصلہ میرے خلاف اتنی صفائی سے ہوا
قوس در قوس کُھلی مجھ پہ حیا کی سرخی
جسم گلنار ہوا، رنگِ حنائی سے ہوا
ہمارا تعلق دنیا جیسا ہے
جو چاہے اپنی کتنی ہی ہولناک صورتیں
کیوں نہ دِکھا دے
ہر شخص قریب المرگ
فقط ایک ہی خواہش رکھتا ہے
زندگی کی بالکل ایسے ہی
تلاش
ایک آنکھ تھی آدھے لب تھے
اور اک چوٹی لمبی سی
ایک کان میں چمک رہی تھی
چاند سی بالی پڑی ہوئی
ایک حنائی ہاتھ تھا جس میں
زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے
میرے خدا کہیں تو مری داستاں کھلے
کھلتا نہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں
ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے
مدت ہوئی ہے دونوں کو بچھڑے ہوئے مگر
اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ اب تک وہاں کھلے
نہیں کہ اپنا زمانہ بھی تو نہیں آیا
ہمیں کسی سے نبھانا بھی تو نہیں آیا
جلا کے رکھ لیا ہاتھوں کے ساتھ دامن تک
تمہیں چراغ بجھانا بھی تو نہیں آیا
نئے مکان بنائے تو فاصلوں کی طرح
ہمیں یہ شہر بسانا بھی تو نہیں آیا
محبت کے سوا حرف و بیاں سے کچھ نہیں ہوتا
ہوا ساکن رہے تو بادباں سے کچھ نہیں ہوتا
چلوں تو مصلحت یہ کہہ کے پاؤں تھام لیتی ہے
وہاں جانا بھی کیا حاصل جہاں سے کچھ نہیں ہوتا
ضرورت مند ہے صید افگنی مشاق ہاتھوں کی
فقط یکجائی تیر و کماں سے کچھ نہیں ہوتا
چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چُھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا
زمیں چھٹی تو بھٹک جاؤ گے خلاؤں میں
تم اڑتے اڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا
نہیں تو برف سا پانی تمہیں جلا دے گا
گلاس لیتے ہوئے انگلیاں نہ چھو لینا
دکھوں میں رنگِ طرب سلامت تو سب سلامت
چراغِ امکانِ شب سلامت تو سب سلامت
خوشی نکلنے لگی ہے ہاتھوں سے، غم نہیں ہے
اگر خوشی کا سبب سلامت، تو سب سلامت
میں کیوں کہوں میرا سخت نقصان ہو گیا ہے
تمہاری یادیں ہیں جب سلامت تو سب سلامت
ہم اپنی شام کو جب نذرِ جام کرتے ہیں
ادب سے ہم کو ستارے سلام کرتے ہیں
گلے لگاتے ہیں دشمن کو بھی سرور میں ہم
بہت برے ہیں، مگر نیک کام کرتے ہیں
سجائیں کیوں نہ اسے یہ سرائے ہے دل کی
یہاں حسین مسافر قیام کرتے ہیں
حسین لوگ سراسر بھلا دئیے جائیں
یہ روگ اور کسی کو لگا دئیے جائیں
میں آدھے سچ پہ کہاں زندگی گزارتا ہوں
سو مِرے خواب کِسی اور کو دِکھا دئیے جائیں
یہ عشق ہارنے والوں کی خیمہ بستی ہے
یہاں چراغ نہیں،۔ دِل جلا دئیے جائیں
دو قدم چاند مِرے ساتھ جو چل پڑتا ہے
شہر کا شہر تعاقب میں نکل پڑتا ہے
میں سرِ آب جلاتا ہوں فقط ایک چراغ
دوسرا آپ ہی تالاب میں جل پڑتا ہے
پیاس جب توڑتی ہے سر پہ مصیبت کے پہاڑ
کوئی چشمہ میری آنکھوں سے ابل پڑتا ہے
اب کے سن بدلا تو، یہ بھی معجزہ ہو جائے گا
اس کا میں ہو جاؤں گا، یا وہ مِرا ہو جائے گا
بخش جائے گا مجھے اپنی رفاقت کا عذاب
اپنا عادی کر کے وہ مجھ سے جدا ہو جائے گا
شک بھری حیرت سے میں بھی آئینے بدلاؤں گا
وقت کی گردش میں وہ بھی کیا سے کیا ہو جائے گا
ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے
ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے
جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے
جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے
خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح
ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے
اگر تم کو محبت تھی
تو تم نے راستوں سے
جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں
ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا
درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا
وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گلاب اور میں
اقرار تجھ کو سونپ دوں انکار کس کو دوں
تجھ کو سکوت بخش دوں گفتار کس کو دوں
لہریں ہیں آسمان پر طوفاں ہے پُر شباب
ملاح راہزن ہوئے،۔ پتوار کس کو دوں
ملتے ہیں کربلاؤں میں ماتم زدہ نفوس
مشکل یہ ہے حسینؑ کا کردار کس کو دوں
سنی سنائی ہوئی بات نہ سنا مجھ کو
کوئی ثبوت اگر ہے تو لا دکھا مجھ کو
سفید جھوٹ کوئی بات تھی کہ جس کے بعد
خدا کو دیکھ رہا تھا میں، اور خدا مجھ کو
ہے تف تمام محبت کے دعوے داروں پر
اس ایک شخص کو پھر سوچنا پڑا مجھ کو
چھوڑ کے دشتِ جنوں میرے نگر میں آیا
قیس صدقے تِرے استاد کے گھر میں آیا
کیا تِرا ہجر مِری راہگزر میں آیا
درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے جگر میں آیا
اپنے غم کو نہ مِرے دل سے کہیں جانے دے
بڑی مدت سے یہ مہمان ہے گھر میں آیا
کہانی ختم ہو گی یا تماشا ہونے والا ہے
کسے معلوم ہے فارس یہاں کیا ہونے والا ہے
پرندے، چیونٹیاں اور لوگ ہجرت کرتے جاتے ہیں
ہمارے شہر میں کیا حشر برپا ہونے والا ہے
ذخیرہ کر لو آنسو اپنی آنکھوں کے کٹوروں میں
یہاں اب پانی مہنگا، خون سستا ہونے والا ہے
دریا کبھی اک حال میں بہتا نہ رہے گا
رہ جاؤں گا میں اور کوئی مجھ سا نہ رہے گا
اچھا ہے، نہ دیکھیں گے نہ محسوس کریں گے
آنکھیں نہ رہیں گی تو تماشا نہ رہے گا
وہ خاک اُڑے گی کہ نہ دیکھی نہ سُنی ہو
دیوانہ تو کیا چیز ہے صحرا نہ رہے گا
کوئی وظیفہ مجھے بھی بتا، مِرے درویش
تجھے ہوئی ہے فقیری عطا، مرے درویش
میں دل سے کہہ رہی تھی؛ باز آ محبت سے
وہ ہاتھ جوڑے ہوئے رو پڑا، مرے درویش
مِری خطا تو بس اتنی ہے اس تعلق میں
یہی کہ ہونی کو ہونے دیا، مرے درویش
ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے
امکان بھی حالات سنورنے کے نہیں تھے
بھر ڈالا انہیں بھی مِری بیدار نظر نے
جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے
اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تِری خاطر
وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے
عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے
نگاہ دیکھ رہی تھی کہ گھر کچھ اور سے تھے
وہ آشیانے نہیں تھے جہاں پہ چڑیاں تھیں
شجر کچھ اور سے ان پر ثمر کچھ اور سے تھے
تمام کشتیاں منجدھار میں گھری ہوئی تھیں
ہر ایک لہر میں بنتے بھنور کچھ اور سے تھے
اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے
وہ دل جو باز نہ آئے فریب کھانے سے
وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں اک زمانے سے
رکی رکی سی نظر آ رہی ہے نبضِ حیات
یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے
ابر لکھتی ہے کہیں اور گھٹا لکھتی ہے
روز اک زخم مِرے نام ہوا لکھتی ہے
زرد پتوں کی چمکتی ہوئی پیشانی پر
ہے کوئی نام جسے باد صبا لکھتی ہے
جو مِرے نام سے منسوب نہیں ہے لیکن
وہ فسانہ بھی مِرا خلقِ خدا لکھتی ہے
چوٹ لگ جائے بھی تو درد نہیں ہوتا مجھے
دل اگر ٹوٹ بھی جائے تو کوئی بات نہیں
ہے بڑا کفر جو سوچوں میں کوئی اس کے سوا
وہ بھٹک جائے، بہک جائے کوئی بات نہیں
ذاتِ نسواں کو ہی بس صبر کا دم بھرنا ہے
بے وجہ ظلم وہ ڈھائے تو کوئی بات نہیں
غمِ ہجراں کی تمازت تجھے معلوم کہاں
تجھ پہ گزرا ہی نہیں موسمِ ظلمات ابھی
تجھ سے بچھڑا نہیں ہے کوئی وجہِ جاں تیرا
تجھ پہ چھائی ہی نہیں دن میں صنم رات ابھی
تجھ سے ملتے ہوئے یوں تو ہوئے برسوں لیکن
تجھ سے باقی ہے مِری تھوڑی ملاقات ابھی
تم سے بچھڑتے وقت بہت ہی اداس ہے
دل کو کہاں جدائی کا منظر یہ راس ہے
اب کیا کہوں کہ چار سو وحشت کا راج ہے
یہ زندگی جو آج ہے غم کا لباس ہے
گزرے گی اب اسی کے سہارے تمام عمر
یادوں کا اک گھروندہ جو اس دل کے پاس ہے
غریب شخص بھی یوں تو کمانا جانتا ہے
پہ معتبر ہے وہی، جو لگانا جانتا ہے
یہاں پہ لوگ اسی کو زیادہ جانتے ہیں
جو اپنے عیب کسی سے چھپانا جانتا ہے
غلام مہنگا ہے پر اس میں ایک خوبی ہے
یہ قرضدار سے پیسے دلانا جانتا ہے
ہم جو اس عہدِ ستمگر میں کبھی ہنستے ہیں
دیکھ کر خندۂ گریاں کو سبھی ہنستے ہیں
کرتی رہتی ہیں یہ آنکھیں تو بغاوت اکثر
تیرتی رہتی ہے آنکھوں میں نمی ہنستے ہیں
تیری محفل کا تقاضا ہے کہ ہنستے جائیں
دل بھی ہنستا ہے کہ یہ کیسی ہنسی ہنستے ہیں
کل چمن ہو، گلاب تھوڑی ہو
میرا آنگن ہو، باب تھوڑی ہو
خواب ہوتے تو بھول بھی جاتے
تم حقیقت ہو خواب تھوڑی ہو
میں تِری جستجو کا مرکز ہوں
تم مِرا انتخاب تھوڑی ہو
یہ پختہ عزم کے سانچے میں ڈھل نہیں سکتا
کبھی وہ شخص مِرے ساتھ چل نہیں سکتا
یہ بات گردشِ ایام کان کھول کے سن
کسی طور بھی میں رستہ بدل نہیں سکتا
کرے تو کیسے کرے فیصلہ وہ پل بھر میں
جو گہری سوچ سے باہر نکل نہیں سکتا
لمس بیتے لمحوں کا گدگدا رہا ہو گا
غنچہ بے خیالی میں مسکرا دیا ہو گا
میرا تذکرہ جب بھی غیر سے سنا ہو گا
خود تمہارے چہرے کا رنگ اڑ گیا ہو گا
جس کو کہہ کے دیوانہ مارتے تھے پتھر سے
اس کے ہاتھ میں شاید آئینہ رہا ہو گا
خود اپنے دل میں خراشیں اتارنا ہوں گی
ابھی تو جاگ کے راتیں گزارنا ہوں گی
تِرے لیے مجھے ہنس ہنس کے بولنا ہو گا
مِرے لیے تجھے زلفیں سنوارنا ہوں گی
تِری صدا سے تجھی کو تراشنا ہو گا
ہوا کی چاپ سے شکلیں ابھارنا ہوں گی
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں
یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
وہ اب چل چکے ہیں، وہ اب آ رہے ہیں
وہ از خود ہی نادم ہوئے جا رہے ہیں
خدا جانے کیا کیا خیال آ رہے ہیں
تھکا گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا
اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا
وہ کون کیمیا گر تھا کہ جو بکھیر گیا
تیرے گلاب سے چہرے پہ زر اداسی کا
میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی نہ تھا
جو رکھ گیا ہے دِیا طاق پر اداسی کا
کانٹا سا جو چُبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
گُھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا
پلکوں کے بیچ سارے اُجالے سمٹ گئے
سایہ نہ ساتھ دے یہ وہی مرحلہ ہے کیا
میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو؛ مِرا حوصلہ ہے کیا
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزارِ محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت
امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد
مر جائے تبھی چھوٹے گرفتار محبت
تقصیر نہ خُوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم
تھا دشمن جانی مِرا اقرار محبت
دل دھڑکتا ہے تو آتی ہیں صدائیں تیری
میری سانسوں میں مہکنے لگیں سانسیں تیری
چاند خود محوِ تماشا تھا فلک پر اس دم
جب ستاروں نے اتاریں تھیں بلائیں تیری
شعر تو روز ہی کہتے ہیں غزل کے، لیکن
آ کبھی بیٹھ کے تجھ سے کریں باتیں تیری
غیر کے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے پھرنا
تِری عادت ہے یونہی بوجھ اٹھائے پھرنا
کیسی وحشت ہے کہ جو شخص تِرا تھا ہی نہیں
یاد کر کر کے اسے ہوش گنوائے پھرنا
کیا ہوا، بول، بتا، کون بھلا پوچھے گا
وہی آنسو ہے اگر روز بہائے پھرنا
سفر سے واسطہ تو عمر بھر رہا مجھ سے
وہ میرا یار چلا پر جدا جدا مجھ سے
سویرا ہونے سے پہلے ہی خواب ٹوٹ گیا
وہ رات کس لیے پہلو بجا گیا مجھ سے
وفا کے شہر محبت کی شاہراہوں پر
وہ دلنواز بشر خود ہی آ ملا مجھ سے
نیند سے مجھ کو جگاتا ہے چلا جاتا ہے
وہ مِرے خواب میں آتا ہے چلا جاتا ہے
اور میں ٹیک ہٹاتا نہیں دروازے سے
عشق آواز لگاتا ہے، چلا جاتا ہے
چھیڑ وہ راگ لہو آنکھ سے نکلے دل کا
تُو بھی کیا گیت سناتا ہے، چلا جاتا ہے
آکاش سے گواہی تو لانے سے میں رہی
شجرہ اٹھا کے سر پہ سجانے سے میں رہی
جتنا کسی میں ظرف تھا ویسا ہی کہہ دیا
قسموں سے آبرو تو بچانے سے میں رہی
آنکھوں سے جس کو درد یہ پڑھنا نہ آ سکا
دل چیر کے تو اس کو دِکھانے سے میں رہی
آیتِ جاں سے درِ دل کو اُجالے رکھوں
مثلِ تعویذ گلے میں اسے ڈالے رکھوں
اس کے آنچل کی مہک چُھونے لگی میرا بدن
اپنی بانہوں میں ہواؤں کو سنبھالے رکھوں
آ مِرے چاند! نہ کھا جائے ستاروں کی نظر
میں تِرے گِرد مناجات کے ہالے رکھوں
جہاں در تھا وہاں دیوار کیوں ہے
الگ نقشے سے یہ معمار کیوں ہے
خدا آزاد تھا حاکم کی حد سے
خدا کے شہر میں سرکار کیوں ہے
بہت آسان ہے مل جل کے بہنا
ندی اور دھار میں پیکار کیوں ہے
نظر میں آتا ہوں پھر دل کے پار ہوتا ہوں
میں ایک عمر کے بعد آشکار ہوتا ہوں
زیادہ ہوتے نہیں میرے ماننے والے
میں سچ کی طرح یہاں اختیار ہوتا ہوں
مِرے لیے تِرے کون و مکان کیا شے ہیں
میں ایک جست میں ان سب کے پار ہوتا ہوں
وہ ذمہ داری کتنی خوشی سے نبھائی تھی
اس شخص کو سرائیکی میں نے سکھائی تھی
میں نے جہانِ پیاس کو سیراب کر دیا
دریا کی ایک لہر مِرے ہاتھ آئی تھی
جنگِ عرب میں چھوڑ گئے جب حمایتی
کوفہ کے اک جواں نے مِری جاں بچائی تھی
تمہارے جسم کی خوشبو گلوں سے آتی ہے
خبر تمہاری بھی اب دوسروں سے آتی ہے
ہمِیں اکیلے نہیں جاگتے ہیں راتوں میں
اسے بھی نیند بڑی مشکلوں سے آتی ہے
ہماری آنکھوں کو میلا تو کر دیا ہے مگر
محبتوں میں چمک آنسوؤں سے آتی ہے
زندگی بھی عجب کہانی ہے
حادثہ ہے کہ یہ جوانی ہے
وقت کا کون اعتبار کرے
وقت نے کب کسی کی مانی ہے
اور پھر اور ہو گیا ہے تُو
خیر یہ بات بھی پرانی ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
گلِ معنی کھِلا جب رحمۃ اللعالمیں آئے
مشیّت تھی کہ آخر میں بہارِ اولیں آئے
بڑھایا اور بھی سوزِ محبت شانِ ہجرت نے
جہاں روشن ہوئی یہ شمع، پروانے وہیں آئے
رسول اللہﷺ کا عرفاں ہے عرفانِ خدا رعنا
اگر ایماں نہ ہو ان پر خدا کا کیا یقیں آئے
وہ اک آوارہ و مجنوں
وہ اک شاعر
جسے اپنی شرافت کے تحفظ میں
کیا تھا قتل اک مدت ہوئی میں نے
وہی آوارہ و مجنوں
وہی شاعر
کسی درویش جیسا ہو رہا ہوں
ابھی خود میں ذخیرہ ہو رہا ہوں
یہ ریگِ جسم کچھ پہلے رواں تھی
کئی دن سے میں یکجا ہو رہا ہوں
مشیت کا سمندر خوش نہیں ہے
سمٹ کر میں جزیرہ ہو رہا ہوں
اٹھا کے راکھ سے ذرہ، ستارہ کر کے دیکھیں گے
فلک، دریائے حیرت کا کنارہ کر کے دیکھیں گے
کسی دن، آگ کے شعلے سے بادل کو بنائیں گے
کسی دن، برف گالے کو شرارہ کر کے دیکھیں گے
کوئی پل، خواب جگنو روک لیں گے اپنی مُٹھی میں
کوئی پل، روشنی کو استعارہ کر کے دیکھیں گے
لوگ جو بے بسی سے کاٹتے ہیں
ہم وہی دکھ خوشی سے کاٹتے ہیں
ساعتِ عشق معذرت، تجھ کو
آج کل بے دلی سے کاٹتے ہیں
تُو ہمیں زندگی سے کاٹ چکا
ہم تجھے شاعری سے کاٹتے ہیں
صبا دیکھ اک دن ادھر آن کر کے
یہ دل بھی پڑا ہے گلستان کر کے
یہی دل جو اک بوند ہے بحر غم کی
ڈبو دے گا سب شہر طوفان کر کے
میاں دل کو اس آئینہ رو کے آگے
جو رکھنا تو یک لخت حیران کر کے
شاید کوئی کمی میرے اندر کہیں پہ ہے
میں آسماں پہ ہوں مِرا سایہ زمیں پہ ہے
افسانۂ حیات کا ہر ایک سانحہ
تحریر حرف حرف ہماری جبیں پہ ہے
دریا میں جس طرح سے ہو ماہی اسی طرح
میں ہوں جہاں پہ میرا خدا بھی وہیں پہ ہے
میں بھی روشن ہوں جمال رخ جاناں میں کہیں
خاک پروانہ بھی ہے شعلۂ عریاں میں کہیں
کسی پیکر میں بھی پہچان نہیں ہے اس کی
کیا سراغ اس کا ملے دشت و گلستاں میں کہیں
ہجر کے داغ میں تبدیل ہوا لمحۂ وصل
تھی کمی کوئی مِرے شوق فراواں میں کہیں
تمہاری بستی میں کارخانہ لگا ہوا ہے
ہمارے جیسوں کا آب و دانہ لگا ہوا ہے
یہاں کوئی چیز بھی نہیں ہو رہی ہے تعمیر
یہ سب عبث توڑنا بنانا لگا ہوا ہے
مِری روش تو زمانے سے تھوڑی مختلف ہے
مِرے تعاقب میں کیوں زمانہ لگا ہوا ہے
زمیں کو خوف نہیں آگ سے نہ پانی سے
یہی سلوک ہے اپنا بھی زندگانی سے
میں اس کے دل سے نکالی ہوئی ہوں، مجھ سے پوچھ
بڑا نہیں ہے کوئی دکھ بھی لا مکانی سے
میں جانتی تھی پرندے ہیں اڑ ہی جائیں گے
کبھی ڈری نہیں خوابوں کی رائیگانی سے
کسی مجبور کی آنکھوں کے اندر دیکھ لیتا ہوں
میں آنکھیں بند کر کے بھی سمندر دیکھ لیتا ہوں
مجھے جب شاہ کے دربار میں جانے کی خواہش ہو
پھٹی پوشاک میں پھرتا قلندر دیکھ لیتا ہوں
مِرے دشمن نے دونوں ہاتھ جو پیچھے چُھپائے ہیں
مگر میں پھر بھی اُس کے پاس خنجر دیکھ لیتا ہوں
مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
سلامِ حسرت قبول کر لو
مِری محبت قبول کر لو
اداس نظریں تڑپ تڑپ کر تمہارے جلووں کو ڈھونڈتی ہیں
جو خواب کی طرح کھو گئے، ان حسین لمحوں کو ڈھونڈتی ہیں
اگر نہ ہو ناگوار تم کو، تو یہ شکایت قبول کر لو
مِری محبت قبول کر لو
آنکھ میں خواب نہیں خواب کا ثانی بھی نہیں
کنجِ لب میں کوئی پہلی سی کہانی بھی نہیں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اک شہر تخیّل میں تجھے
اور میرے پاس تیرے گھر کی نشانی بھی نہیں
بات جو دل میں دھڑکتی ہے محبت کی طرح
اس سے کہنی بھی نہیں اس سے چھپانی بھی نہیں
جی چاہتا ہے تجھ کو بہاروں سے مانگ لوں
دلکش حسین چاند ستاروں سے مانگ لوں
اچھا کیا کہ پیار سے اپنا کہا مجھے
دل کہہ رہا ہے تجھ کو اشاروں سے مانگ لوں
لازم ہے زندگی کا سفر تیرے ساتھ ساتھ
تیرا ہی ساتھ کیوں نہ بہاروں سے مانگ لوں
پیار اک پھول ہے اس پھول کی خوشبو تم ہو
میرا چہرہ، میری آنکھیں، میرے گیسو تم ہو
دور ہو مجھ سے مگر پاس نظر آتے ہو
میرا جذبہ، مِرا احساس نظر آتے ہو
زندگی بن کے جو چھایا ہے وہ جادو تم ہو
میرا چہرہ، میری آنکھیں، میرے گیسو تم ہو
تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم
آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت
درد کی لو کی طرح پیار کی خوشبو کی طرح
بے وفا وعدوں کی دلداری کا انداز لیے
تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے
رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح
بے سبب تجھ سے ہر اک بات پہ نالاں ہونا
اپنا پیشہ ہی جو ٹھہرا ہے پریشاں ہونا
اتنی رسوائیاں سہہ لی ہیں تو اک یہ بھی سہی
ہم کو منظور ہے منت کش درباں ہونا
تجھ میں کیا بات ہے جو مجھ میں نہیں ہے ظالم
ہاں مگر تیرے لیے میرا پریشاں ہونا
نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی
جب ہے فرعون نہ چنگیز کا لشکر باقی
اپنے چہروں کو سیاہی میں چھپانے والو
نوکِ نیزہ پہ ہے سورج سا کوئی سر باقی
تیرے ورثے پہ ہیں غاصب کی عقابی نظریں
غفلتوں سے نہیں رہتے یہ جواہر باقی
زندگی الجھی ہے بکھرے ہوئے گیسو کی طرح
غم پیۓ جاتے ہیں امڈے ہوئے آنسو کی طرح
آج وحشت کا یہ عالم ہے کہ ہر انساں ہے
دشت< تجرید کے بھاگے ہوئے آہو کی طرح
ظلم کا آگ اُگلتا ہوا ســورج سر پر
تپش درد سے ہر سانس ہے اب لو کی طرح
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزارِ محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمارِ محبت
امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد
مر جائے تبھی چھوٹے گرفتارِ محبت
تقصیر نہ خوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم
تھا دشمن جانی مِرا اقرارِ محبت
تیرے خوشبو میں بسے خط
پیار کی آخری پونجی بھی لٹا آیا ہوں
اپنی ہستی کو بھی لگتا ہے مٹا آیا ہوں
عمر بھر کی جو کمائی تھی گنوا آیا ہوں
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں
دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی
بدل گئے مِرے موسم،۔ تِرے بدلتے ہی
سمٹتے پھیلتے سائے کلام کرنے لگے
لہو میں خوف کا پہلا چراغ جلتے ہی
کوئی ملول سی خوشبو فضا میں تیر گئی
کسی خیال کے حرف و صدا میں ڈھلتے ہی
کبھی تو یاد کے گل دان میں سجاؤں اسے
کبھی وہ سامنے بھی ہو تو بھول جاؤں اسے
کھلے جو ہیں مِری شاخ خیال پر کچھ گل
اسی کا کھیل ہے یہ کس طرح بتاؤں اسے
وہ خوشبوؤں کی طرح آئے اور اڑ جائے
میں کیسے پیرہن ذہن میں بساؤں اسے
جانے کس سمت سے آتے ہیں کدھر جاتے ہیں
سوکھے پتوں کی طرح خواب بکھر جاتے ہیں
آپ آتے ہیں تو پھر آپ کے آ جانے سے
زخم کچھ اور مہکتے ہیں نکھر جاتے ہیں
مانا عجلت ہے ہمیں وقت بھی کم ہے لیکن
آپ کہتے ہیں تو کچھ دیر ٹھہر جاتے ہیں
رات بھر فرقت کے سائے دل کو دہلاتے رہے
ذہن میں کیا کیا خیال آتے رہے، جاتے رہے
سینکڑوں دلکش بہاریں تھیں ہماری منتظر
ہم تِری خواہش میں لیکن ٹھوکریں کھاتے رہے
عمر بھر دیکھا نہ اپنے چاک دامن کی طرف
بس تِری الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتے رہے
(بچوں کا اردو ادب) دریا
بچو تم نے دریا دیکھا
کیسا پانی بہتا دیکھا
ایک جگہ پر اتنا پانی
کون بتائے کتنا پانی
ٹھنڈا میٹھا صاف اور ستھرا
تُو بھی حیران و پریشاں ہے تھکا ہوں میں بھی
تیرے ہمراہ بہت دور چلا ہوں میں بھی
تُو بھی اس بت کی زیارت کا شرف حاصل کر
اس کے قدموں پہ کئی بار جھکا ہوں میں بھی
تُو بھی مصروف کھلونوں میں ہے یادوں سے پرے
جی کے بہلانے کو کچھ ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
اب کہاں چین سے سونے بھی دیا جاتا ہے
خواب میں آ کے میرا خون کیا جاتا ہے
اس لیے عدل کی امید نہیں ہے مجھ کو
جھوٹ کو سچ کے مقابل میں لیا جاتا ہے
وہ تو خوش ہوں گے مگر حال یہاں ہے ایسا
غم بھلانے کے لیے جام پیا جاتا ہے
محفل میں غیر ہی کو نہ ہر بار دیکھنا
میری طرف بھی بھول کے سرکار دیکھنا
آغاز سبزہ سے ہے جو رخسار پر غبار
اگلے برس اسے خط گلزار دیکھنا
جب صرف گفتگو ہوں تو دیکھے انہیں کوئی
منظور ہو جو ابر گہربار دیکھنا
نذرِ آلام ہوئے جاتے ہیں
ہم کہ ناکام ہوئے جاتے ہیں
ہو کے برباد محبت میں ہم
خوب بدنام ہوئے جاتے ہیں
ہجر تہوار سمجھتے ہیں ہم
اور دُشنام ہوئے جاتے ہیں
تجھ سے قریب تر تِری تنہائیوں میں ہوں
دھڑکن ہوں تیرے قلب کی گہرائیوں میں ہوں
دُکھ ہے کہ تیری ذات میں شامل تھا میں کبھی
اور آج تیرے جسم کی پرچھائیوں میں ہوں
خودبیں نہ بن، بغور ذرا آئینہ تو دیکھ
میں بھی تو تیرے حسن کی رعنائیوں میں ہوں
بھڑکتی کیوں نہ مِری آتشِ انا پِھر سے
بنا ہے رونقِ محفل وہ بے وفا پھر سے
یہ آج گردشِ دوراں کہاں پہ لے آئی
میں ڈھونڈتا ہوں نیا کوئی آسرا پھر سے
نکل پڑے ہیں اچانک ہی اشکِ خون آلود
لو، آج پُھوٹ پڑا دل کا آبلہ پھر سے
نگاہِ شوق میں آ، پردۂ گماں سے نکل
میں اپنی ذات سے نکلوں تُو لامکاں سے نکل
بہت پکار چکا تجھ کو ہوش میں، اب تُو
مقامِ وجد و فنا میں مِری زُباں سے نکل
تُو جانتا ہے مِری پستیوں کو پھر بھی کبھی
مِری زمیں پہ اُتر، اپنے آسماں سے نکل
شام کا وقت زندگی سا ہے
یہ مگر رنگ عارضی سا ہے
یہ جو کانٹے ہیں آپ کے ہوتے
ان کا احساس مخملی سا ہے
تم پہ غصہ بہت ہی آتا ہے
پر یہ غصہ بھی عاجزی سا ہے
خود فریبی کا جال میں اور تُو
عشق ہجر و وصال میں اور تو
شازشیں ان کی ہو گئی ناکام
بچ گئے بال بال میں اور تو
تیسرا شہر میں کوئی بھی نہیں
ہیں فقط ہم خیال میں اور تو
رات کروٹ بدل رہی ہے دیکھ
تیری زلفوں میں ڈھل رہی ہے دیکھ
اور اک ساغرِ خمار آگیں
زندگانی سنبھل رہی ہے دیکھ
یہ صراحئ بادۂ ہی اکثر
تیرا نعم البدل رہی ہے دیکھ
آگ ہوتے ہیں کبھی لوگ دھواں ہوتے ہیں
ایک جیسے تو میاں ہم بھی کہاں ہوتے ہیں
میں گواہی میں تمہیں خواب سناؤں اپنا
بھید مجھ پر تو خدا کے بھی عیاں ہوتے ہیں
کوئی تحلیل بھی کر دے گا نہیں سوچا تھا
سوچ آتی ہی نہیں تھی کہ زیاں ہوتے ہیں
شمع سر دھنتی رہی محفل میں پروانوں کے ساتھ
آپ یاد آتے رہے کچھ تلخ عنوانوں کے ساتھ
شام غم، شام جدائی،۔ درد دل، درد جگر
سارے قصے ختم ہو جائیں گے دیوانوں کے ساتھ
شیشہ و پیمانہ ہی زیبائش مے خانہ ہیں
چھیڑ شیشے کی نہیں اچھی ہے پیمانوں کے ساتھ
چشم یقیں سے دیکھیے جلوہ گہِ صفات میں
حسن ہی حسن ہے تمام عشق کی کائنات میں
ایسے بھی وقت آئے ہیں عشق کی واردات میں
مستیاں جھوم جھوم اٹھیں دیدۂ کائنات میں
تُو مِری سرگزشت غم سن کے کرے گا کیا ندیم
وقفِ خلش ہے ہر نفس درد ہے بات بات میں
تو پھر اداسیاں لوگوں کی کم زیادہ نہ ہوں
یہ حادثات اگر ایک دم زیادہ نہ ہوں
ہر ایک چیز کی کثرت خراب کرتی ہے
تو خود میں جھانک کبھی، دیکھ ہم زیادہ نہ ہوں
کسی کا ہجر منانا تمہاری مرضی ہے
بس اتنا دھیان رہے آنکھیں نم زیادہ نہ ہوں
مقام درد ہے جب درد کا مزہ جانے
ستم نے کھینچ لیا ہاتھ کیوں خدا جانے
کراہ اٹھتا ہے جو ایک چوٹ پر دل کی
وہ اس کے درد کی آسودگی کو کیا جانے
کسی بھی زہر کا ہوتا ہے زہر ہی تریاق
یہ بات چارہ گر زخم دل کجا جانے
من کی مے ہو تو پیالے نہیں دیکھے جاتے
عشق ہو جائے تو چہرے نہیں دیکھے جاتے
میں بگڑتے ہوئے بچوں کو بھی کب ڈانٹتا ہوں
مجھ سے روتے ہوئے بچے نہیں دیکھے جاتے
حملہ آور کو میں اب خود ہی ریاست دے دوں
اپنے لوگوں پہ یہ حملے نہیں دیکھے جاتے
پتھریلی سی شام میں تم نے ایسے یاد کیا جانم
ساری رات تمہاری خاطر میں نے زہر پیا جانم
سورج کی مانند بنا ہوں ریزہ ریزہ بکھرا ہوں
اب جیون کا سر چشمہ ہوں ویسے خوب جلا جانم
تم نے مجھ میں جو کچھ کھویا اس کی قیمت تم جانو
میں نے تم سے جو کچھ پایا ہے وہ بیش بہا جانم
بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے
جدا کر کے ہمیں دیکھا مقدر پانی پانی تھے
تراشیدہ صنم کچھ دل کے مندر میں چھپائے ہیں
کہِیں پر کابلی تھے بُت کہِیں پر اصفہانی تھے
ہوا بدلا نہِیں کرتی کہ جیسے تم نے رُخ بدلا
پرائے ہو گئے کل تک تمہاری زندگانی تھے
سکون دل ہو مگر تم بچا سکے نہ مجھے
دلیل درد جگر تم بچا سکے نہ مجھے
تمہی سفینہ، تمہی نا خدا، تمہی ساحل
میں ڈوبتا ہوں مگر تم بچا سکے نہ مجھے
کسی کے دست شفا کیسے میرے کام آئیں
مِرے طبیب! اگر تم بچا سکے نہ مجھے
درد کی نیلی رگیں یادوں میں جلنے کے سبب
ساری چیخیں روک لیتی ہیں سنبھلنےکے سبب
درد کی نیلی رگیں تو شور کرتی ہیں بہت
پیکرِ نازک میں اس دل کے مچلنے کے سبب
درد کی نیلی رگیں برفاب بستر میں پڑی
ٹوٹ جاتی ہیں تِرے خوابوں میں چلنے کے سبب
پڑے جو کام تو دل سے کسی کا ساتھ نہ دے
وہ آدمی نہیں جو آدمی کا ساتھ نہ دے
چراغ وہ ہے اندھیروں کو جو کرے روشن
وہ کیا چراغ ہے جو روشنی کا ساتھ نہ دے
چمن میں اب تو یہ حالت ہے ہم نشینوں کی
کہ جیسے کوئی قفس میں کسی کا ساتھ نہ دے
میں سامنے بھی اگر ہوں تو ہچکچا نہیں تُو
کہ سیدھی بات کو ایسے گھما پھرا نہیں تو
انہیں بتا کہ محبت میں جی نہیں لگتا
انہیں بتا کہ مجھے ڈھونڈتا رہا نہیں تو
گرا کے بیگ تِری سمت دوڑ کر آیا
ذرا بھی اپنی جگہ سے مگر ہِلا نہیں تو
مجھے محسن کے مصرعے کھا گئے ہیں
زمانے کو زمانے کھا گئے ہیں
محبت کے علاوہ کچھ عطا کر
یہ زہر ہم لوگ پہلے کھا گئے ہیں
تِری آنکھوں پہ پلکیں جھک گئی ہیں
سمندر کو کنارے کھا گئے ہیں
برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے
ہمارے سر پہ بھی ہونے کو آسمان تو ہے
تِری فراخ دلی کو دعائیں دیتا ہوں
مِرے لبوں پہ تِرے لمس کا نشان تو ہے
یہ اور بات کہ وہ اب یہاں نہیں رہتا
مگر یہ اس کا بسایا ہوا مکان تو ہے
وہ مسیحا نہ بنا، ہم نے بھی خواہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیئے ،اس سے گزارش نہیں کی
جانے کیوں بجھنے لگے اول شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کہ ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے، آنکھ نے بارش نہیں کی
بتوں کے کوچے سے ہم دلفگار ہو کے چلے
شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے
تِری نگاہ بہت مست ہے سنبھل کے ذرا
سمند ناز و ادا پر سوار ہو کے چلے
ٹھہر گئے وہ جہاں سرد باغ تھے گویا
اگر چلے تو نسیم و بہار ہو کے چلے
گھر نے اپنا ہوش سنبھالا، دن نکلا
کھڑکی میں بھر گیا اجالا، دن نکلا
لال گلابی ہُوا اُفق کا دروازہ
ٹُوٹ گیا سُورج کا تالا، دن نکلا
پیڑوں پہ چُپ رہنے والی راگ گئی
شاخ شاخ پہ بولنے والا، دن نکلا
نظم کہنے کے لیے نیلی آنکھیں ضروری نہیں
آنکھیں بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے تر و تازہ ہونٹ ضروری نہیں
ہونٹ بھی ضروری نہیں
نظم کہنے کے لیے نہفتہ بدن ضروری نہیں
بدن بھی ضروری نہیں
بڑا آزار جاں ہے وہ اگرچہ مہرباں ہے وہ
اگرچہ مہرباں ہے وہ بڑا آزار جاں ہے وہ
مثال آسماں ہے وہ مجھے زرخیز کرتا ہے
مجھے زرخیز کرتا ہے مثال آسماں ہے وہ
کریم و سائباں ہے وہ مجھے محفوظ رکھتا ہے
مجھے محفوظ رکھتا ہے کریم و سائباں ہے وہ
مسافر اب اجازت چاہتا ہے
نئے سفروں کی راحت چاہتا ہے
سوا تیرے تمنا تو نہیں کچھ
مگر تجھ سے دعاوت چاہتا ہے
تعلق کا کوئی ردِ عمل ہو
محبت یا عداوت چاہتا ہے
دل دھڑکنے کا سبب کیا ہو گا
پھر تجھے خواب میں دیکھا ہو گا
پھول کے چہرے یہ شبنم کیسی
آسماں رات میں رویا ہو گا
جس نے خوابوں میں سمندر دیکھے
اس کی تقدیر میں صحرا ہو گا
بے مثل و بے حساب اجالوں کے بعد بھی
کچھ اور مانگ جان سے پیاروں کے بعد بھی
کیا سوچ روشنی سے زیادہ ہے تیز رو
ہم بند رہ سکے نہ فصیلوں کے بعد بھی
تصویر سے زیادہ تصور کی عمر ہے
کچھ خواب زندہ رہتے ہیں آنکھوں کے بعد بھی
گر یہ کاغذ قلم نہیں ہوتا
حال دل کا رقم نہیں ہوتا
ہم کہاں تجھ کو ڈھونڈتے اے دل
گر یہ دیر و حرم نہیں ہوتا
ایک میں ہی نہیں ہوں رنجیدہ
کون ہے جس کو غم نہیں ہوتا
دل کے چرخے پہ سُوت سانسوں کا
کاتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
ہو گئی غیر وہ گلی، پھر بھی
آتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
اہلِ دل بول اک محبت کا
گاتے جاتے ہیں اور زندہ ہیں
زندگی خوگر صدمات کہاں تھی پہلے
اتنی مجبورئ حالات کہاں تھی پہلے
میری مشتاق نگاہی کا کرشمہ ہے یہ
آپ کے حسن میں یہ بات کہاں تھی پہلے
یہ تو نیرنگ طرازی مِرے احساس کی ہے
فصل گل بادل و برسات کہاں تھی پہلے
مال و متاع کُوچہ و بازار بِک گئے
عہدِ ہوس میں سب در و دیوار بک گئے
قصر شہی میں جُبہ و دستار بک گئے
نیلام گھر میں قافلہ سالار بک گئے
جنسِ وفا کے چاؤ میں آئے تھے صبح دم
بولی لگی تو خود بھی خریدار بک گئے
جب بھی اس نے لی انگڑائی
بادل گرجا، بارش آئی
ساجن اب تو میرا ہو جا
تیرے نام کی دیگ چڑھائی
پہلے اس کا نام لیا تھا
بعد میں اپنی غزل سنائی
ہوش میں آ گیا زمانۂ دل
جب پڑا دل پہ تازیانۂ دل
کیسے نظروں کے تیر کو روکوں
جب لگائے کوئی نشانۂ دل
بول صندوق جسم سے تُو نے
کیوں چرایا مِرا خزانۂ دل
دائرہ
میں اک لامکانی نوا کے تعاقب میں
کتنے مکانوں سے ہوتا ہوا
پھر وہیں آ گیا ہوں
جہاں سے چلا تھا
کہ جیسے سمندر کا نمکین پانی
پی کے رنگت ہی بدل جاتی ہے
رند کی رند سے چل جاتی ہے
ایک پل کو وہ الٹتا ہے نقاب
جسم میں برق مچل جاتی ہے
دن مشقّت میں گزرتا ہے اور
رات آرام میں ڈھل جاتی ہے
پِیت نہ کرنا
پِیت کے رنگ میں تن من رنگ کر
اپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھے گی
ریکھاؤں کو روبیٹھے گی
دیکھ سہیلی یوں نہ کرنا
پِیت کی اگنی سے تُو ڈرنا
تیری دنیا سے دور ہو جاتا ہوں
حکم تو کیجیے بےنور ہو جاتا ہوں
تجھ دیکھ کر بہکنا نہیں چاہتا لیکن
دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہوں
آپ کی ہی تو حکومت ہے ہم پہ سو
جیسے کہو ویسے حضور ہو جاتا ہوں
بس ایک مسافر کو ستاروں کا گماں ہے
اس کو ہے خبر کیا یہ پتنگوں کا جہاں ہے
ہے چاک گریبان مِرا یہ تو بتاؤ
اس شہرِ خراباں میں رفوگر کی دُکاں ہے
آ دیکھ مِری آنکھ سے آئے گا نظر سب
دنیا کی حقیقت تو محض ایک دھواں ہے
حسین ہونٹ اگر ہیں تو گال اپنی جگہ
ہیں تم پہ نصب سبھی خد و خال اپنی جگہ
میرے غرور نے آتے ہی گھٹنے ٹیک دئیے
تھا حسنِ یار کا جاہ و جلال اپنی جگہ
نظریہ ایک تھا پر ہم تھے مختلف جیسے
جنوب اپنی جگہ ہو شمال اپنی جگہ
سوچوں سے دماغ جل رہا ہے
صہبا سے ایاغ جل رہا ہے
سینے میں یہ داغ جل رہا ہے
یا کوئی چراغ جل رہا ہے
سینچا تھا جو باغباں نے خوں سے
آج آہ! وہ باغ جل رہا ہے
مجھے
اس نے لکھا ہے؛
صبح
میں نے لان میں کچھ خوبصورت پھول دیکھے
مجھے بے ساختہ یاد آ گئیں تم
مجھے معلوم ہے
مجھ ایسا شخص اگر قہقہوں سے بھر جائے
یہ سانس لیتی اداسی تو گھٹ کے مر جائے
زباں پہ سورۂ یوسف کا ورد جاری ہو
وہ حسن پوش اگر پاس سے گزر جائے
یہ جوئے عشق ہے بھائی نہیں ہے آب رواں
یہ دل ہے دل کوئی دریا نہیں کہ بھر جائے
ایک اشارے میں بدل جاتا ہے میخانے کا نام
چشم ساقی تیری گردش سے ہے پیمانے کا نام
پہلے تھا موج بہاراں دل کے لہرانے کا نام
مسکن برق تپاں ہے اب تو کاشانے کا نام
آس جس کی ابتدا تھی یاس جس کی انتہا
اے دلِ ناکام! کیا ہو ایسے افسانے کا نام
تلوار ہے، علم ہے، ارادہ ہے میرے پاس
جو کچھ بھی ہے امام کا صدقہ ہے میرے پاس
یہ رات آخری ہے مِری زندگی کی اور
وہ بھی ہمیشہ کے لیے آیا ہے میرے پاس
وہ شخص صرف شخص نہیں غارِ ثور ہے
مکہ کے ساتھ ساتھ مدینہ ہے میرے پاس
ہجر کی سیج پہ دن رات گزارے کم تھے
کیسے کہہ دوں کہ محبت میں شرارے کم تھے
ڈوبنے والے محبت میں بہت تھے تِری
اک سمندر تھا مگر اس کے کنارے کم تھے
زخم ہی زخم تھے پوشاکِ وفا پر صاحب
دامنِ عشق پہ نکلے ہوئے تارے کم تھے
اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے
خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے
گنوا چکا ہوں میں چالیس سال جس کے لیے
وہ ایک پل مِری پہچان ہونے والا ہے
اسی لیے تو جلاتا ہوں آندھیوں میں چراغ
یقین ہے کہ نگہبان ہونے والا ہے
لوگ زندہ رہتے ہیں ہستیاں مر جاتی ہیں
گھر ہی باقی رہ جائیں تو بستیاں مر جاتی ہیں
ملاح عیش کوش ہوں جب لہروں کو گنیں
تو پانیوں پر ٹھہری ہوئی کشتیاں مر جاتی ہیں
خراج ہنر نہ ملے عزت نہ دعاؤں کا صلہ
پھر اچانک اچھی لڑکیاں مر جاتی ہیں
یکایک مجھے یوں تِرا دھیان اپنی طرف کھینچتا ہے
کہ جیسے پجاری کو بھگوان اپنی طرف کھینچتا ہے
میں جتنی بھی تدبیریں کرلوں مِرے ہاتھ رہتے ہیں خالی
مجھے میرے حصے کا نقصان اپنی طرف کھینچتا ہے
تو کیا طے شدہ ہے دوبارہ کسی سے مجھے پیار ہو گا
سنا ہے کہ مجرم کو زندان اپنی طرف کھینچتا ہے
زمانے کے رویوں سے کنارہ کیسے کر لیں ہم
کوئی ترکیب بتلاؤ خدارا، کیسے کر لیں ہم
کدورت سے بھرا ہے دل، زباں پہ بول میٹھے ہیں
اب ایسے شخص کو آنکھوں کا تارا کیسے کر لیں ہم
ہمارے ڈوبنے کو جو دعا کرتا رہا شب بھر
مدد کے واسطے اس کو اشارہ کیسے کر لیں ہم
پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں
ہمیں فنا ہے، مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں
ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بیچ بھن٘ور
بچا کے لائے کوئی بادباں تو وہ بھی نہِیں
جو سچ کہیں تو خزاں اوڑھ کے بھی خوش ہیں بہت
نہِیں اُجاڑ، مگر گُلستاں تو وہ بھی نہِیں
بولنا جرم نہیں،۔ سوچنا غداری نہیں
اے ریاست تِرے احکام سے انکاری نہیں
کوئلے ڈھونڈتا ہوں رات کی تاریکی میں
اسے پانے کی طلب سے کوئی بیزاری نہیں
تُو نہ سمجھے گا مِرا ہوش میں رہنا ساقی
کیفیت اور ہے جو تجھ پہ ابھی طاری نہیں
ایک آنسو ہی بہا سکتا میں
شہر کو جس میں بہا سکتا میں
کوئی رکتا کہ نہ رکتا، لیکن
ایک آواز لگا سکتا میں
دیکھتا رہتا ہوں پتھر کی طرف
کاش رستے سے ہٹا سکتا میں
بن آئی نہیں ہم سے کوئی صورتِ انکار
کرنا ہی پڑا ان سے ہمیں وصل کا اقرار
افسوس تو یہ ہے کہ نہیں صاحبِ کردار
جس شخص کے افکار کی دنیا میں ہے مہکار
دارو بھی ضروری ہے معالج بھی ہو، لیکن
جذبہ نہ ہو بیماری سے اُٹھتا نہیں بیمار
مخملی خواب کا آنکھوں میں نہ منظر پھیلا
زہر ہی زہر مِرے جسم کے اندر پھیلا
سبز موسم میں بھی ہو جس کی شباہت پیلی
اس چمن میں کہیں شعلے کہیں پتھر پھیلا
خوفناکی اثر انداز ہوا کرتی ہے
اس کو اخبار کی مانند نہ گھر گھر پھیلا
انوکھا روپ دھارا ہے نرالا قد نکالا ہے
ذرا سی شاخ نے کیسا بڑا برگد نکالا ہے
خوشامد کرنے والے کے حکومت ہاتھ آئی ہے
جو اپنی جان پر کھیلا اسے سرحد نکالا ہے
ہزاروں میں کسی اک آدھ کو دنیا عطا کی ہے
ہمارے واسطے اس نے یہی فیصد نکالا ہے
یہ ستم بھی خوب ٹھہرا لطف فرمانے کے بعد
جلد جانے کا تقاضا دیر سے آنے کے بعد
اک قلندر سو گیا ہم کو یہ سمجھانے کے بعد
عمر کا شکوہ نہ کرنا عمر ڈھل جانے کے بعد
آج بھی اس گل بدن کو ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں
ہو گیا رخصت جو میرے دل کو مہکانے کے بعد
نوید
سماعتوں کو نوید ہو کہ
ہوائیں خوشبو کے گیت لے کر
دریچۂ گل سے آ رہی ہیں
پروین شاکر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
رات ٹوٹ کر برسا
دل کے سونے آنگن میں
تیری یاد کا بادل
نصیر احمد ناصر
عشق میں خود سری نہیں ہوتی
حسن میں بندگی نہیں ہوتی
ناوک افگن بتا تو دے آخر
درد میں کیوں کمی نہیں ہوتی
راز الفت کہاں چھپائیں ہم
دل سے بھی دشمنی نہیں ہوتی
اب اسے چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتے ہم
اور، گھر اتنا پرانا بھی نہیں چاہتے ہم
سر بھی محفوظ اسی میں ہے ہمارا لیکن
کیا کریں سر کو جھکانا بھی نہیں چاہتے ہم
اپنی غیرت کے لیے فاقہ کشی بھی منظور
تیری شرطوں پہ خزانہ بھی نہیں چاہتے ہم
حکم ان کا ہے میرے یار زرا صبر کرو
دن گزر جانے دو چار، زرا صبر کرو
اس بلا میں تو فقط تم ہی گرفتار نہیں
عشق میں میں بھی ہوں بیمار زرا صبر کرو
دیکھنا تم پہ ہی آنکر یہ گرے گی اک دن
حسن کی یہ حسیں دیوار زرا صبر کرو
اپنی نا کردہ گناہی کی سزا ہو جیسے
ہم سے اس شہر میں ہر ایک خفا ہو جیسے
سوچتے چہروں پہ جلتے ہوئے آثار حیات
یک بہ یک وقت کا عرفان ہوا ہو جیسے
یہ دھندلکے یہ در و بام کا گمبھیر سکوت
چاندنی رات میں مہتاب لٹا ہو جیسے
اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے
تو پھر شبیہِ ستم گر کدھر سے آئی ہے
مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں
شبِ فراق! بتا کس کے گھر سے آئی ہے
گلوں میں رنگ تو خونِ جگر سے آیا ہے
مگر یہ تازگی اس چشمِ تر سے آئی ہے
یہ طبیعت نہ کبھی ٹھور ٹھکانے سے رہی
منحرف اس سے زمانہ یہ زمانے سے رہی
آگ بھی آب سے ہوتی ہے اچانک پیدا
برق بے ابر نشیمن تو جلانے سے رہی
اس کی چاہت ہے تو جا جاکے منا لا اس کو
خود ندی آکے تری پیاس بجھانے سے رہی
چاک چاک اپنا گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
وحشت دل کا جو ساماں نہ ہوا تھا سو ہوا
یا خدا دیر میں ساماں نہ ہوا تھا سو ہوا
کافر عشق مسلماں نہ ہوا تھا سو ہوا
رخ انور سے میں حیراں نہ ہوا تھا سو ہوا
کبھی اے زلف پریشاں نہ ہوا تھا سو ہوا
اے بے خبری جی کا یہ کیا حال ہے کل سے
رونے میں مزا ہے نہ بہلتا ہے غزل سے
اس شہر کی دیواروں میں ہے قید مِرا غم
یہ دشت کی پہنائی میں ہیں یادوں کے جلسے
باتوں سے سوا ہوتی ہے کچھ وحشت دل اور
احباب پریشاں ہیں مِرے طرز عمل سے
تمہاری یاد کو یکسر بھلانے والا تھا
میں اپنے آپ کو سُولی چڑھانے والا تھا
میں سانس سانس میں محسوس کر رہا تھا جسے
وہ شخص مجھ سے کہاں دور جانے والا تھا
میں مانتا ہوں کہ بخشی ہیں دھڑکنیں اس نے
مگر دلوں پہ ستم کون ڈھانے والا تھا؟
جہاں علم کی کوئی قدر اور حوالہ نہیں
میں اس زمین پہ پاؤں بھی رکھنے والا نہیں
میں اس درخت کے اندر تھا جس کو کاٹا گیا
کسی نے بھی تو وہاں سے مجھے نکالا نہیں
وہ اپنے عہد سے آگے کی باتیں کرنے لگا
بہکتے شخص کو دنیا نے پھر سنبھالا نہیں
زندہ رہنے کے لیے خود دار ہونا چاہئے
عشق میں عاشق کا دامن تار ہونا چاہئے
ناؤ ملت کی بھنور میں آ گئی ہے صاحبو
معتبر ہاتھوں میں اب پتوار ہونا چاہئے
تو سیاست میں ذرا آنے سے پہلے سوچ لے
تجھ کو پبلک میں بھی خوش گفتار ہونا چاہئے
اپنے گرد و پیش کا بھی کچھ پتا رکھ
دل کی دنیا تو مگر سب سے جدا رکھ
لکھ بیاض مرگ میں ہر جا انا الحق
اور کتاب زیست میں باب خدا رکھ
اس کی رنگت اور نکھرے گی خزاں میں
یہ غموں کی شاخ ہے اس کو ہرا رکھ
پہلے تو شہر بھر میں اندھیرا کیا گیا
پھر ہم سے روشنی کا تقاضا کیا گیا
پہلے تو سازشوں سے ہمیں دی گئی شکست
پھر خوب اس شکست کا چرچا کیا گیا
اک شخص کے لیے مری بستی کا راستہ
کچے مکاں گرا کے کشادہ کیا گیا
جی کا جنجال ہے عشق میاں قصہ یہ تمام کرو والی
بڑی رات گئی اب سو جاؤ کچھ دیر آرام کرو والی
سب جاگنے والے راتوں کے شب زندہ دار نہیں ہوتے
تم اپنے ساتھ میں اوروں کی کیوں نیند حرام کرو والی
سب بچھڑے ساتھی مل جائیں مرجھائیں چہرے کھل جائیں
سب چاک دلوں کے سل جائیں کوئی ایسا کام کرو والی
تصویر بنی ہے پانی کی، یا آگ بھری ہے مٹی میں
یہ دشت ہے مجنوں صاحب کا، شوریدہ سری ہے مٹی میں
کُرلاتی ہوا کا غلبہ ہے،۔ کاٹھی ہے کہ بکھرا ملبہ ہے
چرکوں سے بھڑک ہے اگنی میں، خونناب تِری ہے مٹی میں
سب ہستی بستی بھول گیا، چل چل کے سانس بھی پھول گیا
کوئی افسوں ہے ویرانے میں، کوئی جادوگری ہے مٹی میں
زہراب پینے والے امر ہو کے رہ گئے
نیساں کے چند قطرے گہر ہو کے رہ گئے
اہل جنوں وہ کیا ہوئے جن کے بغیر ہم
اہل خرد کے دست نگر ہو کے رہ گئے
صحرا گئے تو شہر میں اک شور مچ گیا
جب لوٹ آئے شہر بدر ہو کے رہ گئے
اُگتے ہوئے نہ روند، لگے مت خراب کر
تُو زرد ہے تو سب کے ہرے مت خراب کر
اپنی کڑی سے کاٹ خرابی کا سلسلہ
پہلے ہوئے نبیڑ،۔ نئے مت خراب کر
جو جس مقام پر ہے اسے بے سبب نہ چھیڑ
بکھرے ہوئے سمیٹ، پڑے مت خراب کر
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
خدا ہی جانے ہمیں کیا خبر کہ کب سے ہے
جو ان کے ذکر کا رشتہ ہمارے لب سے ہے
نہ ان سے پہلے کوئی تھا نہ ان کے بعد کوئی
جدا جہاں میں نبیﷺ کا مقام سب سے ہے
ہو دل کا نور، نگاہوں کا نور، علم کا نور
ہر ایک نور کو نسبت مہِ عربﷺ سے ہے