عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عرش تک آج بھی وہ راہگزر روشن ہے
اب بھی تاروں کی طرح گرد سفر روشن ہے
آبِ اخلاقِ منور سے ہوا ہے سیراب
باغِ توحید کا اک ایک شجر روشن ہے
صرف انگشتِ مبارک کا کرم ہے اس پر
ٹکڑے ہو کر بھی سراپائے قمر روشن ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عرش تک آج بھی وہ راہگزر روشن ہے
اب بھی تاروں کی طرح گرد سفر روشن ہے
آبِ اخلاقِ منور سے ہوا ہے سیراب
باغِ توحید کا اک ایک شجر روشن ہے
صرف انگشتِ مبارک کا کرم ہے اس پر
ٹکڑے ہو کر بھی سراپائے قمر روشن ہے
غم کی خُوشرنگ سی لہک بن کر
زندگی رہ گئی سسک بن کر
ادھ جلی رات کے الاؤ سے
کوئی شعلہ اُٹھے لپک بن کر
زندگی کے سیہ سمندر پر
کون اُترا ہے پھر دھنک بن کر
دل و نگاہ میں اک اضطراب سا کیا ہے
اُجاڑ راہوں میں تنہا گلاب سا کیا ہے
پلٹ کے آیا نہ خوشبو کا وہ حسیں جھونکا
مگر یہ دھیان میں روشن حجاب سا کیا ہے
اگر نہیں ہے ملاقات بھی مقدر میں
دھڑکتے دل میں یہ نشہ شراب سا کیا ہے
ملا ہی دے گی کبھی موج التباس کہیں
بھٹک رہا ہوں میں اپنے ہی آس پاس کہیں
بھروں سراب کے دریا میں رنگ آب رواں
اتار لوں رگ جاں میں اگر یہ پیاس کہیں
گریز کر مگر اتنا بھی کیا گریز، بھلا
کہ آ نہ جائے تِرا ہجر ہم کو راس کہیں
تنگ دستی میں پھول آئے اگر
کیا کسی کو حصُول آئے اگر
اس کو لکھ دیں گے ہم بھی حرفِ وفا
اس کی جانب سے پھول آئے اگر
اس کی فِطرت لطیف ہو جائے
مل کے خوشبو سے دُھول آئے اگر
بہت حقیر ہیں ہم یہ گماں بدل ڈالو
اٹھو اور اٹھ کے یہ تفسیر جاں بدل ڈالو
نگاہ رہتی ہو محدود جن کی پھولوں تک
تم ایسے تنگ نظر باغباں بدل ڈالو
فضائے امن اگر زندگی کی قاتل ہو
تو انقلاب سے امن و اماں بدل ڈالو
یہ قدم قدم تأمل یہ تھکے تھکے ارادے
کہو میرِ کارواں سے کہ حدی کی لے بڑھا دے
بخوشی قبول کر لوں مجھے تو اگر سزا دے
تِرے آستاں سے لیکن کوئی غیر کیوں اٹھا دے
سرِ بزم اے مغنّی! مجھے تُو نہ دے سکے گا
وہ سکوت کا ترنّم جو ضمیر کو جگا دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صدا آ رہی ہے یہ اشکِ رواں سے
مٹیں فاصلے یا نبیﷺ، درمیاں سے
نہ ماں باپ اولاد و زر سے، نہ جاں سے
وہ محبوب ہیں مجھ کو سارے جہاں سے
بتاتی ہے یہ آیتِ قاب قوسین
ورا ہے مقام ان کا وہم و گماں سے
سوال کرنے سے پہلے جواب دینے لگا
محبتوں کے مجھے وہ گُلاب دینے لگا
وہ جانتا تھا اسے میں بھُلا نہ پاؤں گی
تو یوں کیا کہ مجھے وہ شراب دینے لگا
میں خود کو سونپ نہ دیتی اسے تو کیا کرتی
وہ جگنوؤں کے عوض ماہتاب دینے لگا
نہ چھیڑ نام و نسب اور نسل و رنگ کی بات
کہ چل نکلتی ہے اکثر یہیں سے جنگ کی بات
تمہارے شہر میں کس کس کو آئینہ دکھلائیں
ہزار طرح کے چہرے ہزار رنگ کی بات
ہر ایک بات پہ طعنہ ہر ایک بات پہ طنز
کبھی تو یار کیا کر کسی سے ڈھنگ کی بات
کسک دل کی مٹانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کسی کا غم بھلانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کسی کو چاہ کر اپنا بنانا ٹھیک ہے لیکن
محبت آزمانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
تمہیں پانے کی خواہش میں ہوا احساس یہ مجھ کو
مقدر آزمانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
ماب لنچنگ
ماب لنچنگ کی یہ خبریں آئے دن جو آتی ہیں
ذہن و دل کو رات دن رنجور کرتی جاتی ہیں
زندگی کے آئینہ کو چُور کرتی رہتی ہیں
چھین لے جاتی ہے خُوشیاں رنج و غم دے جاتی ہیں
آئینۂ قومی یکجہتی پہ پڑ جاتی ہے خاک
نام پر *مریادہ **پرش ***اتم کے یہ ظُلم و ستم
تیر اور کمان
میں دائرے بناتا ہوں
ایک موٹے برش کے ساتھ
بہت سے رنگوں کے
بس دائرے ہی دائرے
الگ الگ
اور ایک دوسرے میں الجھے ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صُبح مکہ میں ہوئی آیا ہے تارا نُور کا
نُور کی سرکار سے ہر سُو اُجالا نور کا
آمنہؑ کے نُور سے یوں نُور پھیلا چار سُو
چاروں جانب سب نے دیکھا ذرہ ذرہ نور کا
حضرت جبریلؑ جھنڈا لے کے کعبے پر کھڑے
معترض جھنڈے پہ جو، دیکھے وہ جھنڈا نور کا
اے دشتِ بے اماں اب پیچھا نہ کر ہمارا
آتا ہے یاد ہم کو دل بے ثمر ہمارا
کوئی نہیں جو پوچھے رخ ہے کدھر ہمارا
آخر کسے بتائیں کیا ہے سفر ہمارا
ہم بھی سفر کے ہاتھوں دو لخت ہو گئے ہیں
راہوں کو سونپ آئے ہم ہمسفر ہمارا
قید آپ اپنے ہی میں رہا ہوں غلط نہیں
میں صورت خیال جیا ہوں غلط نہیں
پانی کا بلبلہ ہے حقیقت میں زندگی
پھر بھی میں واہموں میں پڑا ہوں غلط نہیں
آئینہ دیکھتا ہے مجھے آئینے کو میں
یوں عکس عکس ٹوٹ گیا ہوں غلط نہیں
نام سے منزل کے رہبر گھبرانے والا تھا
مجھ کو پتہ تھا راہوں سے کترانے والا تھا
جان بچا کر طُوفاں بھاگا دریا سے باہر
ورنہ سفینہ خود اس سے ٹکرانے والا تھا
زہرہ جبینوں نے دھرتی پر روک لیا ورنہ
چاند ستاروں سے آگے میں جانے والا تھا
یہ کارواں میں جو روتا ہوا مسافر ہے
کسی کے ہجر میں اُجڑا ہوا مسافر ہے
دکھائی دور سے یوں دے رہا ہے صحرا میں
شجر بھی دھوپ میں بیٹھا ہوا مسافر ہے
خیال رکھنا کہ یہ چین لوٹ لے نہ کہیں
سفر میں ساتھ جو ہنستا ہوا مسافر ہے
رنگِ عیادت
میں ہوا اسپتال میں داخل
تو عیادت کے رنگ عجب آئے
عہدِ نو کے ستم تو اب آئے
وہ عیادت کو میری جب آئے
کچھ نے بُوکے تھمائے مُرجھائے
ایک جانب سے تین ٹب آئے
بہت کٹھن ہے ڈگر تھوڑی دور ساتھ چلو
نئی ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو
حیات بکھری ہوئی ہے سمیٹ لینے دو
میں سی لوں چاک جگر تھوڑی دور ساتھ چلو
ابھی تو دور ہے منزل اداس رستے ہیں
ابھی نہ پھیرو نظر تھوڑی دور ساتھ چلو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شایانِ عطا بارئ درگاہِ خدا مانگ
دیدارِ رخِ سیدِ عالمﷺ کی دعا مانگ
نظارۂ تصویرِ شہِ کون و مکاں میں
ہر لحظہ فنا مانگ فنا مانگ فنا مانگ
کر رُویتِ یزداں کے لیے ان کو وسیلہ
آنکھوں کے لیے روشنئ غارِ حرا مانگ
گزشتہ وقت کی ہر بات آنی جانی ہوئی
یہ بات اگلے سفر کی نئی نشانی ہوئی
لگا کے بیٹھ گئے شرط دست و بازو کی
اگرچہ دل میں ہے پہلے سے ہار مانی ہوئی
جدا کیا ہے اسے آپ ہی تو چپ کیوں ہو
بھلا یہ کون سے جذبے کی ترجمانی ہوئی
مِرا درد شعروں میں ڈھلتا رہا
غم دل کا لاوا پگھلتا رہا
تِری بے وفائی سے بے فکر تھا
گِرا بھی کبھی تو سنبھلتا رہا
رہی تیز تیری جفاؤں کی آگ
میں ہر آن پہلو بدلتا رہا
صُورتوں کے آئینے کجلا گئے
وقت کی کروٹ میں سُورج آ گئے
بُجھ گئے تارے ہزاروں آنکھ میں
چاند کتنے تھے جو اب گہنا گئے
جس تمنا پر تھی جینے کی بساط
اس تمنا سے بھی اب گھبرا گئے
دل کی بات سنانے والے تنہا ہیں
اس محفل میں آنے والے تنہا ہیں
کرب و بلا کی خاک گواہی دیتی ہے
سچ کی کتھا سنانے والے تنہا ہیں
موت کی منزل پر روحوں کا جمگھٹ ہے
ہاں اس راہ پر جانے والے تنہا ہیں
یہ کیسی آگ سینے میں لگی ہے
مجھے کُندن بنانا چاہتی ہے
یقیناً پک رہا ہے کوئی لاوا
اُداسی چار سُو پھیلی ہوئی ہے
ستارے بُجھ رہے ہیں رفتہ رفتہ
سحر کے ساتھ کیسی تیرگی ہے
کتنے خوبصورت تھے، رتجگے جوانی کے
اب تو خواب لگتے ہیں، سلسلے جوانی کے
اس کی آرزو ہر دم، اس کی جستجو ہر دم
اس کے گھر کو جاتے تھے، راستے جوانی کے
آج راکھ چُنتے ہیں رنگ رنگ خوابوں کی
سب کے سب غلط نکلے فیصلے جوانی کے
جس کی خواہش تھی چلے وقت کی رفتار کے ساتھ
آج وہ شخص زمیں بوس ہے دستار کے ساتھ
گو منافق ہے مگر پھر بھی حسیں لگتا ہے
جب بھی ملتا ہے وہ ملتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
تُو اگر اے مِرے سالار اسی میں خوش ہے
رہن رکھ دیتے ہیں دستار بھی تلوار کے ساتھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے بہارِ زندگی بخشِ مدینہ مرحبا
اے فضائے جانفزائے باغِ طیبہ مرحبا
غُنچۂ پژمردۂ دل کو شگفتہ کردیا
مرحبا اے بادِ صحرائے مدینہ مرحبا
سُرمہ نُور بصر ہو آ کے میری آنکھ میں
مرحبا صد مرحبا اے خاکِ بطحا مرحبا
اس کی چاہت زندگی کا نام ہے
فصل گل اس کی ہنسی کا نام ہے
جب سے اترا ہے وہ میری روح میں
بے خودی اب آگہی کا نام ہے
اس کے در پہ جا کے جو سجدہ کرے
بندگی، اس بندگی کا نام ہے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
دشت ظلمات میں کوئی انساں
راستے سے اگر بھٹک جائے
اپنی قسمت کو کوستا ہے ضرور
اکرم کلیم
آئے گا کہہ کر گیا تھا پھر مگر آیا نہیں
منتظر میں رہ گیا وہ لوٹ کر آیا نہیں
اک نظر آیا نظر وہ پھر نظر سے چھپ گیا
پھر نظر کو اک نظر بھی وہ نظر آیا نہیں
زندگی کے راستے پر طے کیا لمبا سفر
پر سفر میں زندگی کے ہمسفر آیا نہیں
جو شخص زندگی کا سہارا نہ ہو سکا💫
کوشش کے باوجود وہ میرا نہ ہو سکا
اک تو ہے جس کو کوئی بھی پروا نہیں مِری
اور میں جو چاہ کر بھی تجھ ایسا نہ ہو سکا
تھی زندگی ہماری بھی جیتے تھے ہم جسے
اور بعد تیرے اپنا گزارا نہ ہو سکا💫
شمع کیوں آنے لگی میرے سیہ خانے تک
دور مجھ سوختہ ساماں سے ہیں پروانے تک
ہمیں محروم نہ رکھ ساغر مے سے ساقی
مدتوں میں کبھی آ جاتے ہیں میخانے تک
حسن نے باندھا ہے ناقابل تسخیر طلسم
اپنے افسونِ نظر سے مِرے افسانے تک
توانا ہوں دلِ رنجور کی سوگند کیوں کھاؤں
میں جب مختار ہوں مجبور کی سوگند کیوں کھاؤں
مجھے عرشِ بریں کے جلوۂ دائم سے نسبت ہے
کوئی واعظ ہوں میں بھی حُور کی سوگند کیوں کھاؤں
مِرا طُورِ تجلی رات دن ہے میرے پہلو میں
نہیں جب آگ لینا طُور کی سوگند کیوں کھاؤں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دربار رسالت میں عجب جلوہ گری ہے
اک جلوۂ پُر نُور کی چادر سی تنی ہے
وہ ذاتِ گرامی ہے شہنشاہِ اُممﷺ کی
جن کے لیے کونین کی تخلیق ہوئی ہے
پلکیں بھی جھکاؤ تو سلیقے سے جھکاؤ
دربارِ نبیﷺ ہے ارے دربارِ نبیﷺ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اجڑے ہوئے دیار کو عرشِ بریں بنائیں تو
اُن پہ فدا ہے دل مِرا ناز سے دل میں آئیں تو
چہرۂ پاک سے نقاب آپﷺ ذرا اٹھائیں تو
حُسنِ خدا نما کی شان، شانِ خدا دکھائیں تو
کرتے ہیں کس پہ کچھ ستم، کیوں ہو کسی کو رنج و غم
مولدِ مصطفیٰﷺ کی ہم عید اگر منائیں تو
نہ پوچھ کیسے یہ پل پل شمار ہو رہا ہے
تمہارا شام و سحر انتظار ہو رہا ہے
تمہارے لفظوں میں تو پھول رکھ دئیے گئے ہیں
تمہارے بعد بھی جشن بہار ہو رہا ہے
میں اس کو یاد کروں گر بھُلا دیا گیا ہو
یہ رشتہ ہجر میں تو پائدار ہو رہا ہے
لیتا ہے تیرا کیا بھلا بوڑھا شجر نہ کاٹ
اس پر ہیں دیکھ کتنے پرندوں کے گھرنہ کاٹ
اچھا ہے کام، شوق سے پودے نئے لگا
لیکن خدا کا نام تناور شجر نہ کاٹ
کرنے دے انحصار سبھی کو اڑان پر
منصف ہے تو کسی بھی پرندے کے پر نہ کاٹ
یونہی امید دلاتے ہیں زمانے والے
کب پلٹتے ہیں بھلا چھوڑ کے جانے والے
تُو کبھی دیکھ جھُلستے ہوئے صحرا میں درخت
کیسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے
ان سے آتی ہے تِرے لمس کی خوشبو اب بھی
خط نکالے ہوئے بیٹھا ہوں پرانے والے
تیری چاہت میں کمی کیسے گوارا کر لیں
عشق روزی تو نہیں ہے کہ گزارا
منفعت چاہے تو الفت کو تجارت نہ بنا
جانتے بُوجھتے ہم کیسے خسارا
تُو ہواؤں کے جھپٹے میں نہ آیا ہو کہیں
دو گھڑی ٹھہر جا تیرا بھی اتارا کر لیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تاجدار جہاں یا نبیﷺ محترم
تم پہ ہر دم کروڑوں درود و سلام
ہم غلاموں پہ ہو آقاﷺ نظر کرم
تم پہ ہردم کروڑوں درود و سلام
آپﷺ کی ہے زمیں آسماں آپﷺ کا
عرش سے فرش تک کل جہاں آپﷺ کا
موسم چاہتوں کے بدل جاتے ہیں
اس جہاں میں وقت بھی تھم نہ سکا
سمعے خوشیوں کے بھی گزر گئے
بے جا رخساروں پہ آنسو بھی جم نہ سکا
آس کے پھول مرجھا گئے سارے
حسرتوں نے دامن پھیلائے رکھا
دیکھ لینا بھی تسلی کو ہے کافی پیارے
سب تقاضے ہیں محبت میں اضافی پیارے
اپنے محبوب سے ہر بات پہ شکوہ کرنا
بات ہوتی ہے مروت کے منافی پیارے
تُو ستم کر میں بصد شوق سہوں گا لیکن
بے وفائی کی نہیں کوئی معافی پیارے
لاکھ کوشش تو کی مگر نہ ہوئی
زندگی چین سے بسر نہ ہوئی
کس قدر اعتبار ہم نے کیا
زندگی پھر بھی معتبر نہ ہوئی
اس نے منزل کبھی نہیں پائی
جستجو جس کی ہمسفر نہ ہوئی
چپ کا زیور بات کرنے کا سلیقہ بن گیا
راز رکھتا ہی گیا پر خود تماشا بن گیا
شیشہ گر کے ہاتھ لگتے ہی وہ پتھر کا صنم
درد سے گریہ گزاروں کا مسیحا بن گیا
حجرۂ مرحوم کی مٹی بھی تھی خاکِ شفا
حجرۂ مخدوم کی مٹی سے کاسہ بن گیا
جو مزے آج ترے غم کے عذابوں میں ملے
ایسی لذت کہاں ساقی کی شرابوں میں ملے
ساری دنیا سے نہیں ان کو ہے پردہ لیکن
وہ ملے جب بھی ملے مجھ کو نقابوں میں ملے
تیری خوشبو سے معطر ہے زمانہ سارا
کیسے ممکن ہے وہ خوشبو بھی گلابوں میں ملے
جب اپنا درد سنایا تو آنکھ بھر آئی
گلے سے ماں نے لگایا تو آنکھ بھر آئی
ضعیف باپ کے دکھ درد کیا سناؤں میں
بہو نے اس کو ستایا تو آنکھ بھر آئی
غریب باپ کی حالت پہ ترس آنے لگا
وہ دے سکا نہ کرایہ تو آنکھ بھر آئی
کیوں مجھے لوگ سمجھتے کم ہیں
میرے دل میں تو سبھی کے غم ہیں
پیار کی ایک ہی رُت ہوتی ہے
نفرتوں کے تو کئی موسم ہیں
ہم انہیں جھَیل رہے ہیں، لیکن
وہ سمجھتے ہیں کہ بُزدل ہم ہیں
سنگ ہاتھوں میں صنم سینے میں ہے
بت کدہ دل میں، حرم سینے میں ہے
ہائے، ہائے، اپنی نادانی نہ پوچھ
لا زباں پر اور نعم سینے میں ہے
پشت کی جانب جھُکا جاتا ہے دل
صاف دِکھتا ہے کہ خم سینے میں ہے
ٹکنے ہی نہیں دیتی یہ حُسن خیالی
اشرف ہیں زمانے میں تیرے در کے موالی
دل چیز ہی کیا ہے کہ لُٹایا ہی نہ جائے
اے موت! کبھی آ تو سہی بن کے سوالی
بس دید ہی مانگی تو دیا ہم کو صِلہ یہ
ہم نے بھی بتا کوئی تیری بات ہے ٹالی
رُسوا کرے مجھے کہ اسیرِ بلا کرے
جو چاہے وہ میرا دل درد آشنا کرے
راضی ہو میں وہ قتل کرے یا جفا کرے
بس میں کسی کے دل نہ کسی کو خدا کرے
موسیٰ نہ تاب لائے تبسم کی ایک دن
میں چاہتا ہوں روز یہ بجلی گرا کرے
ہو نہ کچھ بات مگر شور مچائے رکھنا
اس طرح اوروں کو ہمدرد بنائے رکھنا
تم اگر چاہتے ہو سب تمہیں ہنس ہنس کے ملیں
اپنا غم اپنے ہی سینے میں چھپائے رکھنا
دور کرنا نہ کبھی جلووں کو میرے دل سے
اس چمن کو انہیں پھولوں سے سجائے رکھنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے تشنۂ تکمیل مدینے کی تمنا
اے موت ابھی اور ہے جینے کی تمنا
بس اکِ تمنا ہے، قرینے کی تمنا
وہ صرف تمنا ہے مدینے کی تمنا
اللہ غنی! رفعتِ ایوانِ محمدﷺ
ہے عرشِ الہیٰ کو بھی زینے کی تمنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے حال دل سے واقف و آگاہ لے خبر
ہر ہر قدم پہ بیٹھے ہیں بدخواہ لے خبر
فریاد کوئی سنتا نہیں آہ لے خبر
"اے شافعِ اممﷺ، شہِ ذی جاہ لے خبر"
"للہ لے خبر مِری، للہ لے خبر"
مجھ پر الم کی فوج ہے حاوی بہ شد و مد
زعفرانی کلام
گاندھی کی بکری
یہ بکری بھی دیوی ہے نزدیک ہندو
یہ کرتی ہے میں میں وہ کرتے ہیں تُو تُو
دو سینگ اس کے ہیں غیرت شاخ آہو
بڑا مست ہے اس پہ ہندو کا باپو
بڑھاپے میں اس کا یہی ہے سہارا
مسلماں کو گاندھی کی بکری نے مارا
زعفرانی کلام
پڑھے لکھوں کی ہے محفل میاں انگوٹھا چھاپ
گلے گی دال نہ ہرگز یہاں انگوٹھا چھاپ
نہ دل گرفتہ ہو دولت اگر ہے پاس تو پھر
کہ بِک رہی ہیں سبھی ڈگریاں انگوٹھا چھاپ
لگی ہوئی ہے سبھی ڈگریوں کی سیل یہاں
جو دل پسند ہوں لیں ڈگریاں انگوٹھا چھاپ
زعفرانی کلام
جہاں رمضان رہتا تھا
یہی کُوچہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
وہ اس کُوچے کا نمبردار تھا آزاد رہتا تھا
بہت مسرُور رہتا تھا، بہت دلشاد رہتا تھا
بسان قیسِ عامر صورتِ فرہاد رہتا تھا
جو اس کو یاد رکھتا تھا وہ اس کو یاد رکھتا تھا
اور اس دالان میں اس کا چچا رحمان رہتا تھا
زعفرانی کلام
آنکھیں نکل آئی ہیں مِری سانس رکی ہے
جلد آ کہ تِری یاد گلا گھونٹ رہی ہے
دعوت کی تِری بزم میں کیوں دُھوم مچی ہے
کیا بات ہے کیا کوئی نئی جیب کٹی ہے
واعظ کو جو دیکھو تو گھٹا ٹوپ اندھیرا
ساقی کو جو دیکھو تو کرن پھُوٹ رہی ہے
زعفرانی کلام
بنے ہو جو رہبر وغیرہ وغیرہ
ہے شہرت کا چکر وغیرہ وغیرہ
میرے ساتھ خود بیٹھ کر پی چکے ہیں
خمار اور ساغر وغیرہ وغیرہ
نئی اِک غزل آج چھیڑی ہے میں نے
قوافی ہیں زر، پر وغیرہ وغیرہ
زندگی رشتوں میں سمٹے گی بکھر جائے گی
ہاں! تِرے نام سے جڑ کر یہ سنور جائے گی
تجھ سے ملنے کا نشہ ہے بھلے خوابوں میں سہی
صبح ہوتے ہی خماری یہ اتر جائے گی
بیچ دن رات کے ایک فاصلہ لازم ہے سدا
چاندنی دھوپ سے ٹکرائے گی مر جائے گی
ہجرت
نہ پوچھ مجھ سے
کہ جنگ، لشکر
سسکتے پتھر
فضا کے آنسو
ہوا کے تیور
یہ رائیگانی
کیا کہیں یہ جبر کیسا زندگی کے ساتھ ہے
ہم کسی کے ساتھ ہیں اور دل کسی کے ساتھ ہے
زندہ رکھنے کی روایت آستیں کے سانپ کی
اک نہ اک ہمدرد بھی ہر آدمی کے ساتھ ہے
اپنی اپنی مصلحت ہے اپنا اپنا ہے مفاد
ورنہ اس دنیا میں کب کوئی کسی کے ساتھ ہے
تِرے بغیر عجب بام و در کا عالم ہے
کہاں وہ دشت کا ہو گا جو گھر کا عالم ہے
پڑے گھروں پہ یہ افتاد کیا کہ لوگوں کے
قیام سے بھی نمایاں سفر کا عالم ہے
جو دیکھتے ہیں وہ تحریر کر نہیں سکتے
یہ میرے شہر کے اہلِ ہنر کا عالم ہے
بتاؤ آپ کے دل میں حشر برپا نہیں ہوتا؟
کسی کی جان لے لینا ارے اچھا نہیں ہوتا
جو مانگا اپنا دل تو کہہ دیا; ملنا نہیں واپس
محبت میں میری جاں دیکھ لو ایسا نہیں ہوا
جگر پھر سے کیا چھلنی بتاؤ چاہتے کیا ہو
نظر کا تیر تیرا کیوں بھلا سیدھا نہیں ہوتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حضورﷺ آپ کی میں ایسے کیسے نعت کہوں
حضورﷺ! آپ سُنیں، میں بھی ایسے نعت کہوں
حضورﷺ آپ نے اصلاح بھی تو کی تھی عطا
حضورﷺ آپ کہیں جیسے، ویسے نعت کہوں
حضورﷺ آپ نوازیں دُعا سے، چادر سے
حضورﷺ مست مودّت کی مے سے، نعت کہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں تیری آل کی عظمت پہ قرباں یا رسول اللہﷺ
میں تیرے نام کی نسبت پہ قرباں یا رسول اللہﷺ
وہ جن کو آیۂِ تطہیر کی برکات حاصل ہیں
میں ان کی عفت و حرمت پہ قر باں یارسول اللہﷺ
مِرے ماں باپ ، میری اہلیہ ، اولاد بھی آقاﷺ
کروں سب آپ کی عترت پہ قرباں یا رسول اللہﷺ
بچھڑنے والوں کے نام
کبھی سوچا نہ تھا
اداسیاں یوں بھی
ڈیرہ ڈالیں گی
گماں ہوتا ہے
جیسے کشتیاں
جلا کر آئی ہیں
ہے یہ حسرت جفا کرے کوئی
اب کرے بھی تو کیا کرے کوئی
کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے
درد دل کا سوا کرے کوئی
یار جس میں نظر نہیں آتا
ایسا آئینہ کیا کرے کوئی
دل میرا بے قرار نہیں میرے بس میں ہے
اک چہرہ خوش نما نہ مِری دسترس میں ہے
اِک تو حسیں، نزاکت و معصومیت الگ
اِک لاکھ میں یہ خوبی کوئی پانچ دس میں ہے
اُس سے دعا سلام، نہ ہی آشنائی ہے
اور دوڑ، پِھر رہا مِری ہر ایک نس میں ہے
گھر راکھ ہوئے پھر بھی اندھیرے نہیں نکلے
گاؤں کی سیاست سے وڈیرے نہیں نکلے
یہ زہر بھری دنیا انہیں راس بہت ہے
سانپوں کے تعاقب میں سپیرے نہیں نکلے
پانی میں گُھلے زہر کی ان کو بھی خبر ہے
کندھوں پہ لیے جال مچھیرے نہیں نکلے
کیا میں بدکار ہوں
بھوکے بچے کی فاقہ زدہ آنکھ میں
دوسرے دن کا سُورج بھی ڈھل جائے گا
باپ کی طرح بیٹا بھی مر جائے گا
سوچ کر ڈر گئی
گھر سے باہر گئی، ایک در پہ رُکی
جس کے ماتھے پہ ہی ہذا من فضل ربی کی تحریر تھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آنکھوں میں شہرِ نُور کے منظر لِیے سمیٹ
وجد و سرُور و کیف کے ساگر لیے سمیٹ
دل پر تو نقش گُنبدِ خضرٰی کا عکس ہے
جلوے حرم کے رُوح کے اندر لیے سمیٹ
گُل ہیں دیارِ نُور کے سارے ہی لا جواب
اپنے نصیب میں تھے جو، اکثر لیے سمیٹ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایک چشمِ التفات کی عیدی عطا کریں
اپنی نوازشات کی عیدی عطا کریں
ہم سے ہر ایک کام بگڑتا ہی جائے ہے
حُسنِ معاملات کی عیدی عطا کریں
جن میں حضورؐ آپ کی سیرت کا عکس ہو
مجھ کو بھی ان صفات کی عیدی عطا کریں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سرور عالمؐکا دربار ہے کتنا حسِین
مسجد نبوی کا مینار ہے کتنا حسین
ہے جان سے پیارا وہ راستہ مدینے کا
جو طیبہ کو جاتا بازار ہے کتنا حسین
مدینے کی رونقیں اور نظارے گنبد کے
کملی والے کا گھر بار ہے کتنا حسین
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تیرا ممدوح بھی دنیا میں تِرا مرسلﷺ بھی
حمد کرتا ہے جو کل نبیوں میں ہے افضل بھی
رحمتوں سے تِری کافر بھی اٹھاتے ہیں فیوض
رحمتیں تیری ہیں انساں کے لیے مشعل بھی
دو عدد پاؤں نے جینا مِرا با معنی کیا
دیکھا مکّہ بھی، مدینہ بھی، نجف، کربل بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل کی محبتوں کا خزینہ بنا لیا
اب زندگی کا یہ ہی قرینہ بنا لیا
ہم سے پہنچ نہ پائے جو شہرِ حبیب میں
انہوں نے شہرِ دل کو مدینہ بنا لیا
طوفاں مصیبتوں کا ہوا سر سے جو بلند
نامِ نبیﷺ کو ہم نے سفینہ بنا لیا
نظر سے دور ہے دل سے قریب تر ہے کوئی
تو پھر یہ کیسے کہوں مجھ سے بے خبر ہے کوئی
یہ عہد کیسے کروں تجھ کو بھول جاؤں گا
کہاں یقین دل بے قرار پر ہے کوئی؟
بہت حسین شب انتظار ہے، لیکن
تمہی بتاؤ کہ اس رات کی سحر ہے کوئی
بودا
اگر بزدل کو طاقت مل گئی سمجھو
وہ ہر کمزور کو بے وجہ روندے گا
وہ اپنے خوف کو دائم جبر کی چادر سے ڈھانپے گا
اور سچ کو جھوٹ کی چابک سے ہانکے گا
کبھی دیکھو اگر ریاست
نہتے پُر امن بچوں پہ مظالم ڈھا رہی ہے
سُنا ہے اپنی تو تنہائیوں پہ روتے ہو
سُنا ہے میری تباہی پہ شاد ہوتے ہو
یقین ہی نہیں آتا دِل💔 شکستہ کو
سُنا ہے تم بھی مجھے یاد کر کے روتے ہو
کمال کِس کے تصوّر کا ہے خُدا جانے
سُنا ہے اَشکوں سے ہر روز آنکھ دھوتے ہو
تِرے حرماں نصیبوں کی بھی کیا تقدیر ہے ساقی
بہ ہر صورت وہی زنداں وہی زنجیر ہے ساقی
شرارے زندگی کے دیکھتا ہوں راکھ میں پنہاں
مِرے حق میں یہ خاک آشیاں اکسیر ہے ساقی
بہار آئی ہے گلشن میں مگر محسوس ہوتا ہے
نظارے سہمے سہمے ہیں فضا دلگیر ہے ساقی
کتنے آنسو مِری آنکھوں سے پلٹ کر آئے
تم نہ آئے تو کئی درد کے لشکر آئے
ورنہ تو پیاس سلگتی یونہی صحرا صحرا
ہم جو روئے ہیں تو رستے میں سمندر آئے
قریۂ دل کی فصیلیں نہ کسی سے ٹوٹیں
کاش، اے کاش، یہاں کوئی سکندر آئے
مبارک باد پھولوں کے لیے اور خار پر لعنت
ارے مالی اصولوں پر تِرے کردار پر لعنت
جو حاصل ہے وہی کافی ہے بس میرے گزارے کو
کروں میں شکریہ اس پار کا اس پار پر لعنت
وہ جس کی دید سے آنکھوں کی بینائی چلی جائے
تو اس حُسن سراپا کے ہے پھر دیدار پر لعنت
دل ہے ہجومِ یاس کا منظر لیے ہوئے
زانو پہ آج کس کا ہیں وہ سر لیے ہوئے
ایک ایک کر کے اٹھ گئے یارانِ بادہ نوش
ساقی کھڑا ہے بزم میں ساغر لیے ہوئے
دل ہے وہ دل کہ جس میں محبت کی چوٹ ہو
اور وہ جگر جو ہو کوئی نشتر لیے ہوئے
گرد جم جائے تو شیشہ نہیں دیکھا جاتا
یعنی تصویر کو دھندلا نہیں دیکھا جاتا
تشنگی آ تجھے دریا کے حوالے کر دوں
تجھ کو اس حال میں پیاسا نہیں دیکھا جاتا
تم مِرا نام و نسب پوچھ رہے ہو سب سے
عشق ہو جائے تو شجرہ نہیں دیکھا جاتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بادۂ عشقِ شہﷺ کی خماری رہے، نعت جاری رہے
کیف ان کی محبت کا طاری رہے، نعت جاری رہے
قلب دنیا کی رغبت سے عاری رہے، نعت جاری رہے
رو برو روئے محبوبِﷺ باری رہے، نعت جاری رہے
چھوڑ کر ان کا در، کیوں پھرے در بدر، کیوں ہو بے مستقر
ان کی چوکھٹ پہ ان کا بھکاری رہے، نعت جاری رہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قلب و جگر جھکاؤں در مصطفٰیؐ کے پاس
نعتِیں تیری سناؤں میں اہل وفا کے پاس
ہر درد کی دوا ہے، میرے دلربا کے پاس
رہنے دے مجھ کو ساقیا زلفِ دو تا کے پاس
بدلہ مِرے عمل کا جو ہو بعد میں ملے
لے چل تو پہلے شافعِ روزِ جزا کے پاس
سنائیں ہم کوئی قصہ ہماری داستاں کا
مجھے قصہ نہیں بننا تمہاری داستاں کا
محض دو نام ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو
محبت نام رکھیں ہم ہماری داستاں کا
زمانے کو لگا کہ ختم قصہ ہو گیا ہے
مگر اک مرحلہ تھا وہ بھی اپنی داستاں کا
زعفرانی کلام
شکاری
مرے یاروں میں ہوا کرتے ہیں چرچے مرے
میرا فن وہ ہے کہ قائل ہے زمانہ میرا
اپنے بچے سے یہ کہتا تھا شکاری اکثر
کبھی خالی نہیں جاتا ہے نشانہ میرا
بچے کے ساتھ وہ اک روز چلے بہر شکار
اپنا فن بچۂ کمسن کو دکھانے کے لیے
عشق میں برباد ہونے پر پشیمانی تو ہے
پھر بھی میری قدر و قیمت اس نے پہچانی تو ہے
سانس لینا بھی جہاں مشکل ہے اس ماحول میں
مجھ کو زندہ دیکھ کر لوگوں کو حیرانی تو ہے
غمگساری میری عادت بن گئی ہے کیا کروں
دوسروں کا غم اٹھانے میں پریشانی تو ہے
تیرے دشمن بھی پشیمان ہوں ایسا کرنا
اپنے کردار سے معیار کو اونچا کرنا
یہ زمانہ تجھے مرعوب نہیں کر سکتا
ہو غلط کام تو ہر گز نہ گوارا کرنا
بعد مرنے کے بھی دنیا نہ تجھے بھولے گی
مثل سورج ہے تو ہر گھر میں اجالا کرنا
ارے توبہ عذر جفا کروں کبھی ظرف ایسا میرا نہیں
وہ مٹا دیں چاہے ابھی مجھے کوئی شکوہ کوئی گِلا نہیں
میں سمجھ گیا ہوں کلیم کو ذرا کام عقل سے لیجیے
وہ تمیز جلوہ کرے گا کیا جسے ہوش اپنا رہا نہیں
میرا دست آز اٹھا سہی، میں سزا کا واقعی مستحق
تُو کرم نواز ازل سے تھا مجھے صبر پھر بھی دیا نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آپ ہیں خیر الوریٰ یا سیدی یا مصطفیٰؐ
آپ ہیں رب کی عطا یا سیدی یا مصطفیٰؐ
جس نے تم سے کی دغا یا سیدی یا مصطفیٰؐ
اس کو رب نے دی سزا یا سیدی یا مصطفیٰؐ
ہم کو آلام و مصائب سے ملی فورا نجات
جب زباں پہ آ گیا یا سیدی یا مصطفیٰؐ
بچھڑ کے تجھ سے ہمارا گُزارا مُمکن ہے
تمہارا ہجر ہو ہم کو گوارا ممکن ہے
نہیں ہے چاند مقدّر میں غم نہیں ہم کو
گِرے گا ٹُوٹ کے کوئی ستارہ ممکن ہے
بھلا دیا مِری آنکھوں نے گر تِرا چہرہ
بھلا نہ پاؤں کبھی یہ خسارہ ممکن ہے
جذبۂ کوہ کن و قیس ابھی باقی ہے
اے محبت تیری شوریدہ سری باقی ہے
تجھ کو بچھڑے ہوئے اے دوست زمانہ گزرا
مگر اب تک مِری آنکھوں میں نمی باقی ہے
روح کی یہ پیاس کیسی ہے کہ جلتا ہے بدن
ساقیا! اور پلا🍷 تشنہ لبی باقی ہے
اب کیا گلہ کریں تجھے احساس ہی نہیں
جب جذبۂ خلوص تِرے پاس ہی نہیں
نیلم، گہر، زمرد و الماس ہی نہیں
مفلس کو ایسی کوئی بھی شے راس ہی نہیں
مُلّا غریب خانے پہ مے لے کے آ گیا
اور رِند نے کہا کہ مجھے پیاس ہی نہیں
میں کہ نا موجود ہوں، حاضر بھی ہر منظر میں ہوں
بھاگتے پانی میں ساکت ہوں، رواں پتھر میں ہوں
سن رہا ہوں شور میں چھوڑے ہوئے ساحل کی چُپ
میں خود اپنے پار کے اک ساحلی منظر میں ہوں
جی رہا ہوں ان گِنت شکلوں میں، دو شکلیں ہیں یہ
فاختہ کی چونچ میں ہوں، دیدۂ اژدر میں ہوں
غم کا ابلاغ بہ احساس طرب چاہتی ہے
بات وہ ہے کہ ادا ہونے کو ڈھب چاہتی ہے
ایک تو پاس مِرے درہم و دِیں کچھ بھی نہیں
دوسرا شومئ قسمت کہ وہ سب چاہتی ہے
میں کہ ہوں موسم گل حجت زنجیر بہ پا
وہ تو خوشبو ہے چلی آتی ہے جب چاہتی ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
آج کی رات ضیاؤں کی ہے بارات کی رات
فضلِ نو شاہِ دو عالمﷺ کے بیانات کی رات
شبِ معراج وہ اَوحیٰ کے اشارات کی رات
کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی رات
چھائی رہتی ہیں خیالوں میں تمہاری زُلفیں
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات
یوں تو دنیا بھی مجھے راس کہاں آئی ہے
بزم میں آتے ہی لگتا ہے کہ تنہائی ہے
سچ تو یہ ہے کہ مجھے راس نہیں آتا کچھ
میری عادت سے مِری زندگی اکتائی ہے
ذہن میں نام نہیں چہرہ نہیں ہے کوئی
آج اک رُوح کو اک رُوح کی یاد آئی ہے
میری زندگی کے ہیں چار دن انہیں کیوں نہ ہنس کر گزار لوں
جو الجھ الجھ کے بگڑ گئی، اسے اب سلجھ کے سنوار لوں
کبھی اس طرح، کبھی اس طرح پھنسے، پھنس کے پھڑ پھڑکا کیے
پھرا لے کے پاپ کی گٹھڑیاں، انہیں کیوں نہ سر سے اتار لوں
مجھے آزمائش میں ڈال کے اسے اب تسلی تو ہو چکی
دی فلک نے اب تک جو بے کلی اسے اب سکون و قرار لوں
کہاں رہتا ہوں مت پوچھو مگر کچھ دیر رہنے دو
مِری خانہ بدوشی کو ہی گھر کچھ دیر رہنے دو
اسے مل کر نجانے کیوں لگا رہتا ہے دھڑکا سا
جدائی میں محبت کا اثر کچھ دیر رہنے دو
کہیں بھی اڑ نہیں سکتے یہ بے چارے نہ گھبراؤ
قفس کے باسیوں کے بال و پر کچھ دیر رہنے دو
خون کا یہ لوتھڑا میرا باپ تھا
جو مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا
خون کا یہ لوتھڑا میری ماں ہے
جو برستی گولیوں میں
مجھے سینے سے لگاتی تھی
یہ چھوٹی ڈھیری میری بہن ہے
چین مل جاتا ہے میرے دل کو اتنا تو اثر ہوتا ہے
جب تیری یادوں کا میرے خیالوں سے گذر ہوتا ہے
رات کٹ جاتی ہے اپنی تیرے حسین خوابوں کے سہارے
رات کب آئےگی ہر دن اسی انتظار میں بسر ہوتا ہے
خدا کرے کہ پتہ چلے یہ کیفیت ایک طرفہ کہ دو طرفہ
کوئی بتائے جو حال ادھر ہوتا ہے کیا ادھر ہوتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کشتیٔ دل کے ناخدا صل علیٰ محمدﷺ
نوح نبی کے پیشوا صل علیٰ محمدﷺ
ماہ وشوں کے مہ لقا اہل دلوں کے دلربا
روحی فداکِ مرحبا صل علیٰ محمدﷺ
احمد احد کے راز کا میم ہی پردہ دار تھا
آپ میں آپ تھا چھپا صل علیٰ محمدﷺ
شہر دل اجڑا تو برباد ہوا کیا کیا کچھ
نقش بر آب کی مانند مٹا کیا کیا کچھ
درد دل، کاہش جاں، سوزِ دروں، داغِ جگر
بے طلب تیری عنایت سے ملا کیا کیا کچھ
اف یہ بے گانگی و ترکِ تعلق کا عذاب
پا گئے ہم بھی وفاؤں کا صلہ کیا کیا کچھ
یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
ملاقات کے دن قریب آ رہے ہیں
وہ گلشن میں یوں سیر فرما رہے ہیں
اِدھر آ رہے ہیں، اُدھر جا رہے ہیں
سروں پر مصائب بھی منڈلا رہیں ہیں
مگر گیت خوشیوں کے ہم گا رہے ہیں
بنگال کی رقاصہ
ناچیے ناچیے پائل کے بغیر
جسم عریاں ہی رہے
شعلہ افشاں ہی رہے
ناچیے ناچیے
بھوک اور موت کا رقص
میرے بنگال کا رقص
غزل میں فکر کے تازہ گلاب رکھ دینا
نئی سحر میں نیا آفتاب رکھ دینا
سوال کر کے پڑھوں گا تمہاری آنکھوں کو
تم اپنی آنکھوں میں اپنا جواب رکھ دینا
مِری نمو کے کرشمے جو دیکھنا چاہو
مِرے وجود میں اک اضطراب رکھ دینا
مانوس ہو چکے ہیں تِرے آستاں سے ہم
اب زندگی بدل کے اٹھیں گے یہاں سے ہم
تنہائیاں دلوں کی بھلا کس طرح مٹیں
کچھ اجنبی سے آپ ہیں کچھ بدگماں سے ہم
اب عالمِ سکوت ہی رودادِ عشق ہے
کچھ عرض حال کر نہیں سکتے زباں سے ہم
تِری تلاش میں پھرتا ہوں کو بہ کو اے دوست
تُو ہی ٹھکانے لگا میری جستجو اے دوست
ہر ایک پھول کا گو رنگ مختلف ہے، مگر
ہر ایک پھول میں پاتا ہوں تیری بولے دوست
پسند تو ہے، مگر یہ مجھے پسند نہیں
کہ ہر زبان پہ ہو تیری گفتگو اے دوست
چل رہا ہے جو یہاں تُو بڑے پندار کے ساتھ
سر نہ آ جائے زمیں پر کہیں دستار کے ساتھ
جنگ کا فیصلہ دُشمن کو مِرے کرنا ہے
پھُول رکھتا ہوں میں اک ہاتھ میں تلوار کے ساتھ
گھر کی تقسیم سے حل کوئی نہیں نکلے گا
مسئلے اور کھڑے ہوتے ہیں دیوار کے ساتھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قصیدہ پڑھتے ہوں پہلی قطار میں کھڑے ہوں
حضُورﷺ آئیں تو ہم انتظار میں کھڑے ہوں
قدم قدم پہ جمی ہوں نگاہیں رستے پر
خمارِ دیدہ لیے ہم خمار میں کھڑے ہوں
حضورﷺ قصویٰ پہ ہو کر سوار آئیں اور
ہم ایسے دشتِ عرب کے غُبار میں کھڑے ہوں
ممتاز فلسطینی/اردنی شاعرہ کے عربی کلام کا اردو ترجمہ
میری بہن، میری سرزمین
کا دل پھڑکتا ہے
یہ دھڑکنا بند نہیں کرتا
مگر یہ برداشت کرتی ہے
نا قابل برداشت چیزوں کو بھی
یہ سینے میں راز رکھتی ہے
دیکھ خُوش فہمیاں نہ پالا کر
گود میں تِتلیاں نہ پالا کر
اپنے دامن میں دوسروں کے لیے
یار چنگاریاں نہ پالا کر
فکر کو ذہن سے رہا کر دے
بے سبب آندھیاں نہ پالا کر
زندہ رہتے ہوئے اکثر
متزلزل ہوا ہوں
حرکت قلب رُک گئی ہے
اور میں ڈھیر ہو گیا ہوں
مگر ہر دفعہ
میرے اندر اُٹھ کھڑا ہُوا ہے
گناہ اپنے اپنے، ثواب اپنا اپنا
کتاب اپنی اپنی، عذاب اپنا اپنا
مقدر کا رونا ہے کیسا کہ سب نے
کِیا تھا اگر انتخاب اپنا اپنا
بھرم بھی ہیں درکار جینے کو شاید
کہ خواب اپنے اپنے، سراب اپنا اپنا
آساں رستوں میں ایسے بھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں
چلتے چلتے اپنے جوتوں سے بھی چھالے پڑ جاتے ہیں
اس کی آس میں جگتی آنکھیں آخر کالی کیوں نہ پڑیں گی
جلتے جلتے رات کی رات چراغ بھی کالے پڑ جاتے ہیں
غم کی دہشت گردی میں بھی دل کو کھولے رکھا ہم نے
ورنہ اس ماحول میں شہروں شہروں تالے پڑ جاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے کملی والےﷺ کی شان ہی نرالی ہے
دو جہاں کے داتا ہیں، سارا جگ سوالی ہے
خُلد جس کو کہتے ہیں میری دیکھی بھالی ہے
سبز سبز گنبد ہے،۔ اور سنہری جالی ہے
چاند کی طرح ان کو ہم کہیں تو مجرم ہیں
کیونکہ ان کی چوکھٹ پر چاند خود سوالی ہے
ربط سانسوں کا کہے گی رات باقی
اب تو رُک رُک کر چلے گی رات باقی
کٹ گئی اک رات کرتے بات تجھ سے
کیا پتہ کیسے کٹے گی رات باقی
اک مکمل زندگی کیسے لکھوں میں
دن مکمل، پر رہے گی رات باقی
چُپ رہ کر بھی دیکھ لیا
یہ نِشتر بھی دیکھ لیا
اب کس سے اُمید رکھوں
تیرا در بھی دیکھ لیا
کیوں یہ پیاس نہیں بُجھتی
وِش پی کر بھی دیکھ لیا
اشکوں کے دِیے یاد جلا دیتی ہے
رات آتی ہے اور آس بُجھا دیتی ہے
خوشیوں کے خداوند! مِری تر آنکھیں
تقدیر مجھ دُکھ کا گِلا دیتی ہے
جب تُو تھا مِرے پاس، مِرے پہلو میں
اس شب کو جُدائی بھی دُعا دیتی ہے
ہر لمحہ زندگی کے پسینہ سے تنگ ہوں
میں بھی کسی قمیض کے کالر کا رنگ ہوں
مہرہ سیاستوں کا،۔ مِرا نام آدمی
میرا وجود کیا ہے خلاؤں کی جنگ ہوں
رشتے گزر رہے ہیں لیے دن میں بتیاں
میں آدھونک صدی کی اندھیری سُرنگ ہوں
لامتناہی وقت
وقت آپ کے ہاتھ میں لامتناہی ہے، میرے مالک
آپ کے منٹوں کو گننے والا کوئی نہیں ہے
دن اور راتیں گزرتی ہیں
اور عمریں پھولوں کی طرح کھلتی اور مرجھا جاتی ہیں
تم انتظار کرنا جانتے ہو
تیری صدیاں ایک دوسرے کے پیچھے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صد شکر کہ توفیق ملی رب کی طرف سے
صد فخر مشرّف ہوا مدحت کے شرف سے
لمسِ قدمِ شاہﷺ کے اعجاز سے، ذرے
آتے ہیں نظر پارۂ خورشید بکف سے
اک دُرِّ یگانہ کا تفرد ہے مسلم
گو نکلے بہت گوہرِ نایاب صدف سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میری کمیوں کا تماشہ نہیں ہونے دیتا
میرا مولا مجھے رُسوا نہیں ہونے دیتا
دل میں ایک نُور جگا دیتا ہے عشق احمدﷺ
شِرک و باطل کا اندھیرا نہیں ہونے دیتا
دُشمن آلؑ نبیﷺ بخت کا مارا ٹھہرا
اپنی فکروں میں اُجالا نہیں ہونے دیتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جیتے جی کاش مولا یوں اک بار ہو
خواب میں ہی سہی ان کا دیدار ہو
میرے آقاؐ ہوں مسند پہ بیٹھے ہوئے
اور قدموں سے لِپٹا گُنہ گار ہو
ان کی مُہر نبوّت کے بوسے جو لوں
پھر شفا یاب کیسے نہ بیمار ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سر میرا نہیں ہرگز دستار کا دیوانہ
کیونکہ یہ ہے آقاﷺ کی پیزار کا دیوانہ
کشکول نگہ بھر دے دیدار کی دولت سے
آمین کہے، ہے جو دیدار کا دیوانہ
درباری نہیں اس کو سردار کہا جا
جو ہے مِرے آقاﷺ کے دربار کا دیوانہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ فرش و عرش کیا ہے، اللہ جانتا ہے
پردوں میں کیا چھُپا ہے، اللہ جانتا ہے
جو بھی بُرا بھلا ہے، اللہ جانتا ہے
بندوں کے دل میں کیا ہے، اللہ جانتا ہے
لاکھ اپنے دل کا سِکہ دنیا سے تو چھُپائے
کھوٹا ہے یا کھرا ہے، اللہ جانتا ہے
میں قلوپطرہ نہیں
میں قلوپطرہ نہیں
پھر کس لیے زہریلے سانپوں
نے مجھے گھیرا ہُوا ہے
لمحہ لمحہ ڈس رہے ہیں
ظُلم و نا انصافیوں کے ناگ
میرے جسم کو
زخم گہرا کہاں نہیں ہوتا
حال دل کا بیاں نہیں ہوتا
پیار دھوکا وفا جفا کیا کیا
اس جہاں میں کہاں نہیں ہوتا
پھر کہیں بھی سکوں نہیں ملتا
وقت جب مہرباں نہیں ہوتا
دوسروں سے مرا کیا تقابل؟
دوسروں سے مرا کیا تقابل؟
کہ ان نے کئی دوسری کہکشاؤں کے سورج بھی ہتھیا لیے
مجھ سے اپنی ہی مشعل نہیں جل سکی
میں نے سوچا نہیں تھا کہ میں ایک شام
اس طرح آپ کی یاد کو دور اُفتادہ صحرا میں گاڑ آؤں گا
پھر اکیلے میں گھبراؤں گا
ہم شکوہ ہائے چرخ ستمگار کیا کریں
فطرت ہو جس کی کج اسے ہموار کیا کریں
دل میں خیالِ عارضِ جاناں ہے جاگزیں
پھر ہم تصورِ گل و گلزار کیا کریں
دیتے ہیں جان جب وہ رقیبوں پہ رات دن
ہم جان دیں نہ اپنی تو ناچار کیا کریں
وہ ہم خیال نہیں پھر بھی ساتھ چلتا ہے
یہی تضاد تو جیون میں رنگ بھرتا ہے
میں اس کی رائے سے کچھ اتنا مطمئن بھی نہیں
مُہر بہ لب ہوں کہ سِکہ اسی کا چلتا ہے
میں اک چراغ تھا طوفاں سے دوستی کر لی
خِرد نہ سمجھے اسے پر جنوں سمجھتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گُفتگو رب کے نور کی کر لیں
مل کے ہم کار اُخروی کر لیں
کیوں پڑے ہو غزل کے چکر میں
نعت کی آؤ شاعری کر لیں
جان جاناں کا تذکرہ کر کے
آؤ محفل میں روشنی کر لیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کتنا حسین ہے شہ کون و مکاں کا رخ
تکتے ہیں مہر و ماہ شہ دو جہاں کا رخ
سلطان کائنات سے خیرات کے لیے
سُوئے مدینہ ہونے لگا ناتواں کا رخ
پڑھتے رہو درود ہمیشہ رسولﷺ پر
تیری طرف نہ آئے گا باد خزاں کا رخ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ظلمتوں کا یوں ازالہ ہو گیا
آپﷺ آئے تو اجالا ہو گیا
تیرگی سارے جہاں کی مٹ گئی
روشنی کا بول بالا ہو گیا
مجھ کو عزت بھی ملی شہرت کے ساتھ
ذکرِ احمدﷺ جب حوالہ ہو گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
والفجر کہ یوں آمدِ محبوب خدا ہے
بس صلِ علا، صلِ علا، صلِ علا ہے
اک سلسلۂ نور سرِ عرشِ علا ہے
سرکار دو عالمﷺ کا وہ نقشِ کفِ پا ہے
اس شخص کی ٹھوکر میں ہے کونین کی شاہی
جو ان کے غلاموں سے بھی وابستہ ہوا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں گنہگار ہوں خطا کار شفاعت یا رسول اللہ
پریشاں پریشاں حال زار شفاعت یا رسول اللہ
آپؐ کا ثانی نہ پیدا ہوا دنیا میں نہ آخرت میں
میں ناکس ہوں میں نادار شفاعت یا رسول اللہ
میں مجرم ہوں سیاکار میں ذلت سے بھرا ہوا
ہو رضائے حق بیڑا پار شفاعت یا رسول اللہ
مِرے دشمن کو حیرانی بہت ہے
مجھے آخر کیوں آسانی بہت ہے
سمجھ لیتا ہے اپنا ہر کسی کو
مِرے دل میں یہ نادانی بہت ہے
چلو اب چاند پر دنیا بسائیں
زمیں والوں پہ نگرانی بہت ہے
یہ تجربہ بھی کروں، یہ بھی غم اٹھاؤں میں
کہ خود کو یاد رکھوں اس کو بھُول جاؤں میں
اسی سے پوچھ کے دیکھوں وہ میرا ہے کہ نہیں
کہ جان بوجھ کے کب تک فریب کھاؤں میں
کبھی تو ہو اسے میری محبتوں کا خیال
کبھی تو ہو کہ اسے کھُل کے یاد آؤں میں
کہہ رہا تھا کل ایک دیوانہ
ہر حقیقت بنے گی افسانہ
میری توبہ کی سرگزشت نہ پوچھ
ٹُوٹ کر بن گئی ہے پیمانہ
ہے حقیقت کہاں خدا جانے
ہم بھی افسانہ تم بھی افسانہ
رُسوائی کے خیال سے ڈر تو نہیں گئے
وہ راستہ بدل کے گُزر تو نہیں گئے
ترکِ تعلقات سے تم کو بھی کیا مِلا
ہم بھی غمِ فراق سے مر تو نہیں گئے
ہم پہ ترس نہ کھا ہمیں لاچار دیکھ کر
ہم ٹُوٹ بھر گئے ہیں بکھر تو نہیں گئے
اس کو جتنا بھُلا رہا ہوں میں
اتنا نزدیک پا رہا ہوں میں
سنگ تو آج ہوں میں اس کے لیے
مُدتوں آئینہ رہا ہوں میں
جو اُٹھاتے نہیں ہے فون تلک
ان کے نخرے اُٹھا رہا ہوں میں
شامِ الم کو اپنی تُو صُبحِ یقیں بنا
شک دُور کر وثوق کو دل کا مکیں بنا
صبحِ طرب ہے خندۂ رُوئے بہار زیست
شامِ الم سے دل کو نہ اندوہگیں بنا
ہر نیشِ غم کو اپنے لیے نوشِ جاں سمجھ
زہراب بھی ملے تو اسے انگبیں بنا
سکونت پذیر
ان کو اکثر ستاتی ہے خوش قسمتی
سکونت پذیر ہونے کی
وہ اسکیمیں بناتے ہیں نقل مکانی کی، سفر کی
بدلتے ہیں روز مرہ کے مے خانے کو
تبدیل کرتے ہیں ملازمت کو
نکتہ نظر کو، بیوی کو
ہم میں گر تُو رہے چاہے رہ کے نہاں
اپنا وعدہ ہے ہم بھی رہیں گے جواں
تم ملاتے ہو نظریں جھُکا کے جو یوں
کرتی ہے پھر وہاں خاموشی گُفتگو
دل کی حالت بتا کر تمہیں جانے جاں
کیا بتائیں جو ملتا ہے کر کے بیاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا مصطفیٰ یا مصطفیٰ، صلی علیٰ، صلی علیٰ
افضل یہی ذکر ثناء، صلی علیٰ، صلی علی
سرکار دو عالم کی مجھ پر ہو گئی اتنی عطا
دل بن گیا حرفِ دعا، صلی علیٰ، صلی علی
بے چینیوں کو چین ملتا ہے نبی کے ذکر سے
سب کے دکھوں کی ہے دعا صلی علیٰ صلی علی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر کرم ہو گیا میں مدینے چلا
میں مدینے چلا میں مدینے چلا
کیف و مستی عطا مجھ کو کر دے خدا
مانگتا یہ دعا میں مدینے چلا
اے شجر اے ہجر تم بھی شمس و قمر
دیکھو دیکھو ذرا میں مدینے چلا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دائمی کامل شریعت ہے شہہِ ابرار کی
آخری یعنی نبوت ہے شہہِ ابرار کی
ان کے احسانات کی انسانیت مقروض ہے
نعمتِ کبریٰ ولادت ہے شہہِ ابرار کی
سیرتِ سرکارﷺ ہے تفسیرِ قرآں مستند
اور قرآں پاک، سیرت ہے شہہِ ابرار کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فردا کے خوف سے رہوں اب خانہ خراب کیوں
ساتھ ہے مصطفیﷺ کا پھر یہ اضطراب کیوں
خطاکار عاصی ہوں میں قابل تعزیر ہوں
نبیﷺ کا ہوں غلام میں مجھ پر عتاب کیوں
آفتاب میں ہے نور جلوے چاند تاروں میں
باطن و ظاہر میں تو اس پر نقاب کیوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ شام حرم صبح مدینہ کی فضا ہو
اور لب پہ مِرے صلِ علا صلِ علا ہو
اے کاش نہ کچھ خواہشِ دل اس کے سوا ہو
ہاتھوں میں مرے دامنِ محبوبِﷺ خدا ہو
اللہ رے حق آپﷺ کی توصیف و ثنا کا
ہم ایسے گنہ گاروں سے کس طرح ادا ہو
تمہارے ظلم پر تحقیق ہو گی
کوئی پیدا نئی تحریک ہو گی
خدا نے جس جگہ تم کو بنایا
بہت ہی وہ جگہ تاریک ہو گی
کسی محفل میں جانا ایک دن تم
مِری باتوں کی بھی تصدیق ہو گی
ریگزار حیات سے گزرے
ہر قدم حادثات سے گزرے
خار و خاشاک کا غبار لیے
گلشن کائنات سے گزرے
تجھ کو پانے کی جستجو یا رب
ہم حد کائنات سے گزرے
شامِ غم تھی، غم تھے، تنہائی تھی
تیری یاد تھی، ہم تھے، تنہائی تھی
درد میں کھونے کے لیے رونے کےلیے
آنسو بہت ہی کم تھے، تنہائی تھی
دو بول تسلی کے نصیب نہیں ہو
گھیرے درد کے موسم تھے تنہائی تھی
مسافر راستے میں ہے ابھی تک
نہیں پہنچا اجالا تیرگی تک
گلوں میں چاند کھلنے کے یہ دن ہیں
مگر کھلتی نہیں ہے اک کلی تک
ذرا سا درد اور اتنی دوائیں
پسند آئی نہیں چارہ گری تک
یا رب ہمیں اب ایسا کوئی ہمسفر تو دے
ذوقِ سفر ہو، منزلِ نو کی خبر تو دے
گُل کا بسیرا ہو گیا کانٹوں کی سیج پر
منزل کٹھن سہی مگر شوقِ سفر تو دے
چرخِ کُہن سے ہم کو اُمیدِ وفا نہیں
خُوشیاں نہ دے سکا ہے نہ دے غمِ دہر تو دے
بنی ہوں حکمِ خدا سے، یہ داسیاں میری
نبھا رہی ہیں یوں مجھ سے اُداسیاں میری
مِرا کمال تو کچھ بھی نہیں، تجھے اے دوست
لے آئیں کھینچ کے نزدیک خُوبیاں میری
ہجُوم چاروں طرف ہے تماش بینوں کا
کھڑی ہیں جا کے بہت دُور، پستیاں میری
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مناجاتوں سے بھیگے دن
یا نبیﷺ روشنی کے سفر میں
اندھیرے پڑاؤ بہت ہو گئے
پھر سے غارِ حرا سے بشارت کوئی
اور دعوت کھلے عام پھر دیجیے
آپ کوہِ صفا پر تو موجود ہیں
رونق افروز ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو انہیں مانتے ہیں ان کی ڈگر جانتے ہیں
بس وہی لوگ تو جینے کا ہنر جانتے ہیں
ان کی انگشت کی عظمت کو قمر جانتا ہے
پیر کی عظمتیں جبریلؑ کے پر جانتے ہیں
مُسکراتے ہوئے کہتے ہیں فقط لا تحزن
خُوب دُشوار ہے ہجرت کا سفر جانتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میری تقدیر کا حصہ بھی عطا کر اللہ
اپنے محبوبؐ کا صدقہ بھی عطا کر اللہ
مجھ کو فاقوں میں توکل کی عطا کر نعمت
استقامت کا سلیقہ بھی عطا کر اللہ
منجمد ہوتے ہوئے زیست کے ہونٹوں کو اب
تیری توحید کا نغمہ بھی عطا کر اللہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہی ہے روشنی جس سے ہے جہاں منور
مدینۂ نبیﷺ کے ہیں ہر مکاں منور
وہ جس نے راہِ محمدﷺ کو دل سے اپنایا
اُسی کے دل میں سدا ہے یہ داستاں منور
جو خاکِ طیبہ سے لپٹے، وہ بن گیا روشن
کروں جو طیبہ کا ذکر، ہو میری جاں منور
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
روداد سنانے کی ضرورت نہیں پڑتی
حالات بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی
طیبہ ہے یہاں آہ سے پہلے ہے مداوا
زخموں کو دکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی
یاں عدل کا معیار زمانے سے جدا ہے
زنجیر ہلانے کی ضرورت نہیں پڑتی
تیرے خلوص کو چاہت کا نام کیسے دوں؟
خموشیوں کو محبت کا نام کیسے دوں؟
تڑپ رہی ہوں میں ملنے کی آس میں تم سے
میں بے بسی کو جبلّت کا نام کیسے دوں؟
گُزر رہی ہے عجب طرح زندگی اپنی
میں مُفلسی کو لطافت کا نام کیسے دوں؟
آبرو اس کی روز گھٹتی ہے
جس پہ مرضی انا کی چلتی ہے
ہاتھ آئے کو کھو دیا اُس نے
اِس لیے اب وہ ہاتھ ملتی ہے
یہ کوئی بات ہے، اجی چھوڑیں
بے سبب کائنات جلتی ہے؟
کبھی تو کوئی لکھے گا اُن پہ
جو تیرِ نا حق چلا رہے ہیں
ضرور ہو گا عیاں وہ اِک دن
وہ سچ جو ہم سے چُھپا رہے ہیں
ہے جن کے ہاتھوں میں رمزِ طاقت
نا جانے کیوں ہیں وہ عقلِ ساکت
دل سے لالچ بغض اٹھا کر پھینکا ہے
واپس آ جاتا ہے اکثر پھینکا ہے
لہروں کا اندازہ لوگ لگا لیں گے
ہم نے بس تالاب میں پتھر پھینکا ہے
اس نے واپس میرے منہ پر مار دیا
میں نے جو شیطان پہ کنکر پھینکا ہے
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردم
نہ میں بے سود پھرتا ہوں، نہ کوچہ گردِ شب ہوں میں
دلِ بے تاب میں چھپی طلب، دیدار کی طلب ہوں میں
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
خدا ناراض ہے شاید
ابھی تو جھُوٹ بکتا ہے بازاروں میں اداروں میں
سفارش اور رشوت ہے تو ہو گا کام اشاروں میں
ابھی تو سو روپے کی چیز بکتی ہے ہزاروں میں
جہاں پر لونڈے بازی ہے مدرسوں اور مزاروں میں
کبھی ہیجڑوں کو ہم جلتی ہوئی سگرٹ لگاتے ہیں
کبھی عورت کو راہ چلتے ہوئے رنڈی بُلاتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گُلِ نعت چُن رہا ہوں چمنِ خیال سے
یہ سعادتِ مُسلسل مِلی نیک فال سے
غمِ ہجر کی اذیت بھی سکون بخش ہے
یہ نتیجہ مُتصل ہے طلبِ وصال سے
مجھے سیرتِ صحابہؓ پہ عمل نصیب ہو
کہیں میں بھٹک نہ جاؤں رہِ اعتدال سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
چین مدنی قرار مدنیﷺ ہے
باغِ جاں کی بہار مدنی ہے
کیا عجب سلطنت ہے دل میرا
کیا عجب شہریار مدنی ہے
تابِ انکار منکروں کو نہیں
اس قدر آشکار مدنیﷺ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نورِ حق سے جوڑ رشتہ زندگی اے زندگی
خود چمک اور مجھ کو چمکا زندگی اے زندگی
الفتِ احمدﷺ میں مٹ جا زندگی اے زندگی
اپنے مرکز کی طرف آ زندگی اے زندگی
آستانِ مصطفیٰﷺ ہم پاکے سب کچھ پا گئے
بس اسی منزل پہ کھو جا زندگی اے زندگی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آتشِ فرقت حضرت کو بجھاتے جائیں
دھجیاں جیب و گریباں کی اڑاتے جائیں
گاہ بہلاتے ہوئے جائیں دلِ مضطر کو
بے قراری میں کبھی آگ لگاتے جائیں
اپنی قسمت کی رسائی پہ کبھی ناز کریں
اپنی حالت پہ کبھی اشک بہاتے جائیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے شہِ لولاک، شاہِ دو سرا
آپ ہی ہیں مالکِ مِلکِ خدا
آپ کی شانِ سخا سب سے جُدا
آپ بن مانگے ہی کرتے ہیں عطا
آپ اِس روئے زمیں پر، آئے جب
چار سُو بجنے لگی سازِ طرب
چائے اور موسم
سرد موسم
دھند کا عالم
جمتے جھرنے
دور سب غم
خیال ماضی
سوچ میں تم
ماہیا٭/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے
کچھ کھو کر پاتے ہیں
یاد میں ساجن کی
یوں جی کو بہلاتے ہیں
ہمت رائے شرما
بڑے سلیقے سے اب ہم کو جھوٹ بولنا ہے
مرے نہ کوئی فقط اتنا زہر گھولنا ہے
رکھی ہوئی ہے تِری یاد دل کے پلڑے میں
اب اس ترازو میں اک عشق اور تولنا ہے
میں اس لیے بھی زمانے میں سب کو پیارا ہوں
مجھے پتا ہے کہاں کتنا جھوٹ بولنا ہے
نظم کہیں بھی آخری سانس لے لیتی ہے
افسانہ اچانک راستہ بدل لیتا ہے
کوئی بھری چوپال میں
شکریہ زندگی
کہہ کے چل دیتا ہے اور بستی خالی ہو جاتی ہے
کہیں دور اک دل میں مٹی کی اک ڈھیری گلابوں سے ڈھک جاتی ہے
مُردے
مُردے میرا راستہ روک لیتے ہیں
میرے گرد گھیرا ڈال دیتے ہیں
مجھے گُھورتے ہیں تاروں جیسے دیدوں سے
جن میں میرے قصور کا
عکس پڑ رہا ہوتا ہے
مگر وہ میرے خلاف کچھ نہیں کرتے
وحشت نے اضطراب کو آنا سکھا دیا
شائستگی کو مار گرانا سکھا دیا
اس غم زدہ نے ہجر کی تکنیک چھوڑ کر
ہم باغیوں کو عشق کمانا سکھا دیا
جب تھک گئے درخت کے سائے میں بیٹھ کر
سب ٹہنیوں کو آگ لگانا سکھا دیا
جھولڑی
بچپن میں باپا نے مجھ کو
دلائی دی تھی ایک جھولڑی
سکڑ گئی تھی وہ
جھیل نہ سکی تھی پہلی دُھلائی
اپنا رنگ کھو دیا، کھسک گئی تھی سِلائی
مجھے نفرت ہے اس سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ میری سکونت کا کیا خوب بہانہ ہے
دل میں تِری چاہت کا بھرپور خزانہ ہے
لہجے میں مِرے تو ہے جھلکے ہے نگاہوں میں
تن کا یہ مِرے پنجرہ تیرا ہی تو خانہ ہے
تُو میرا زمانہ ہے تُو ہی مِری دنیا ہے
تُو ہی مِری دنیا ہے، تُو میرا زمانہ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درودﷺ پڑھ کے مقدر جگانے آئے ہیں
نبیﷺ کے عشق میں نعتیں سنانے آئے ہیں
مِرے نبیﷺ کا دو عالم میں کوئی ثانی نہیں
یہ بات سب کو بتانے دِوانے آئے ہیں
سجا کے محفل سرکارﷺ ان کے شیدائی
زمیں کو آج فلک سے ملانے آئے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خدا یکتا ہے، خلقت میں کوئی پرور نہیں ملتا
رضا رب کی نہ ہو تو پھر، کبھی رہبر نہیں ملتا
زمیں تا عرش بھی دیکھا، رسالت کی صفوں میں بھی
خدا کی کُل خدائی میں، نبی سرور ﷺنہیں ملتا
وہ محور کُن فَکاں کی ہے، کہ ذاتِ فاطمہؑ ہے جو
حیا جس میں نہ ہو اُن کا، اُسے حیدرؑ نہیں ملتا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نوائے ابتداء لکھ دے، دُعائے انتہا لکھ دے
مِرے دل کی ہر اک دھڑکن بنام مصطفیٰؐ لکھ دے
تُو لکھ دے دوسروں کے نام ساری مملکت، لیکن
مِرے حصے میں بس عشقِ حبیبِﷺ کبریا لکھ دے
نبیؐ کو خواب میں دیکھا ہے تیرے نیک بندوں نے
تُو میرے حق میں بھی یہ رتبۂ مُعجز نما لکھ دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مقام اونچا مِرے نبیﷺ کا مثالی اُسوہ مِرے نبیﷺ کا
ہوئے ہیں جتنے نبیؑ سبھی نے پڑھا قصیدہ مِرے نبیﷺ کا
پھر اس کے بعد ایک سلسلہ ہے جہاں سے ظلمت کے خاتمے کا
ہوا تھا غارِ حرا میں روشن چراغ پہلا مِرے نبی ﷺکا
کبھی صفا پر کھڑے ہوئے تھے کبھی تھے مکہ کے راستوں پر
بچاؤں دوزخ سے ہر بشر کو، تھا بس یہ جذبہ مِرے نبیﷺ کا
کاٹے ہیں دن حیات کے لاچار کی طرح
کہنے کو زندگی ہے یہ گُلزار کی طرح
معلوم ہی نہ تھیں انہیں کچھ اپنی قیمتیں
اہلِ قلم بِکے یہاں اخبار کی طرح
تقریر اس نے کی تھی ہمارے خلاف جو
ہر لفظ چُبھ رہا ہے ہمیں خار کی طرح
راہی کوئی منزل کی طرف لوٹ رہا ہے
عشق اور مراحل کی طرف لوٹ رہا ہے
خوش ہو تِرا غم دل کی طرف لوٹ رہا ہے
دل اپنی ہی منزل کی طرف لوٹ رہا ہے
بڑھتی ہے مِرے دل کی طرف خود تری محفل
یا دل تِری محفل کی طرف لوٹ رہا ہے
کسے خبر تھی ہوا راہ صاف کرتے ہوئے
میرا طواف کرے گی طواف کرتے ہوئے
میں ایسا ہنس رہا تھا اعتراف کرتے ہوئے
کہ وہ تو رو پڑا مجھ کو معاف کرتے ہوئے
اب اس سے بڑھ کے محبت کا کیا صِلہ مِلتا
وہ میرا ہو گیا سب کو خلاف کرتے ہوئے
ظلمت میں گھری اپنی تقدیر مبیں ہو گی
امید ہے خوابوں کی تعبیر حسیں ہو گی
جب جب بھی ستم ہو گا مظلوم پہ ظالم کا
افسردہ فلک ہو گا، دلگیر زمیں ہو گی
کردار لیے رن میں بے خوف میں جاؤں گا
ہاتھوں میں مِرے کوئی شمشیر نہیں ہو گی
زندگی تجھ کو ترے جینے کی عادت کھا گئی
دھوپ اس بستی کی یہ اونچی عمارت کھا گئی
وضع داری اور روا داری کے وہ جلوے کہاں
ذہن و دل کی کج روی حسن شرافت کھا گئی
آپ کے الفاظ یا بھڑکے ہوئے شعلے ہیں یہ
رشتۂ اخلاص کو ان کی تمازت کھا گئی
خوشی سے کھیل گئے ہم قضا کے دامن پر
کہ حرف آنے نہ پائے وفا کے دامن پر
ہمارے خون کے قطرے گرا کے دامن پر
اک اور داغ لگایا وفا کے دامن پر
الٰہی ایسی گھٹا مے کدے میں چھا جائے
کہ توبہ ٹوٹے مِری پارسا کے دامن پر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تیرے کرم سے مقدر یہاں سنورتے ہیں
تیری نگاہ سے گرتے ہوئے سنبھلتے ہیں
مہک وہاں سے گلابوں کی پھر نہیں جاتی
کسی جگہ سے جو آقاﷺ کبھی گزرتے ہیں
تمہاری مدحت و توصیف ہو گئی واجب
اسی سے قلب و نظر بے شبہ نکھرتے ہیں
پڑھو، مدام درودﷺ و سلام کے نغمے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ آ رہی ہے مسلسل صدا مدینے سے
"ہر ایک دکھ کی ملے گی دوا مدینے سے"
کبھی کسی کی جفاؤں سے غمزدہ نہ ہوا
ہمارے دل کا تعلق رہا مدینے سے
بفیضِ فاطمہؑ زہرأ ہر ایک بانو کو
ملی ہے شرم و حیا کی ردا مدینے سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدینے سے آئی ہوا چپکے چپکے
کِھلے جیسے سبدِ حِنا چپکے چپکے
محمدﷺ کا اسم گرامی سنا جب
کہا میں نے صلِ علیٰ چپکے چپکے
نہ ہو جس کا ایماں تو قرآن پڑھ لے
ثناء گو ہے رب العلا چپکے چپکے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
فقط میں نہیں آپ پر یا محمد صلی اللہ و علیہ و سلم
ہے قرباں میرا گھر کا گھر یا محمد صلی اللہ و علیہ و سلم
بلا لیجیے اپنے در یا محمد صلی اللہ و علیہ و سلم
ہو در آپ کا میرا سر یا محمد صلی اللہ و علیہ و سلم
بلاتے اگر سر کے بل چل کے آتا
میں اڑ آتا ہوتے جو پر یا محمد صلی اللہ و علیہ و سلم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ایقان تقاضہ کرتا ہے، ایمان ہو ختمِ نبوّتؐ پر
قُرآن تقاضہ کرتا ہے، ایمان ہو ختمِ نبوّت پر
مَا کَانَ مُحَمّد کی آیت، اس بات کو ثابت کرتی ہے
رحمٰن تقاضا کرتا ہے، ایمان ہو ختمِ نبوّت پر
لَا بَعدِی حَدیثِ نبوی سے، اِنکار نہیں کہ نبیوں کا
سُلطان تقاضہ کرتا ہے، ایمان ہو ختمِ نبوّت پر
ہے لہو شہیدوں کا نقش جاوداں یارو
مقتلوں میں ہوتی ہے آج بھی اذاں یارو
سیلِ وقت ہوں مجھ کو کون روک سکتا ہے
چھین لو قلم چاہے کاٹ لو زباں یارو
بال و پر کی محرومی اور خوں رلاتی ہے
جب بھی دیکھ لیتا ہوں سوئے آسماں یارو
خزاں نصیب چمن کی بہار ہے کہ نہیں
قبائے غنچہ و گل تار تار ہے کہ نہیں
غمِ حیات،۔ غمِ عشق،۔ اور غمِ دوراں
کسی کو دنیا میں ان سے فرار ہے کہ نہیں
رہ حیات میں اکثر گماں یہ گزرا ہے
مِری وفا کا انہیں اعتبار ہے کہ نہیں
عیب اوروں میں گُن رہا ہے وہ
اس کو لگتا ہے یُوں خُدا ہے وہ
میری تدبیر کو کنارے رکھ
میری تقدیر لکھ رہا ہے وہ
میں نے مانگا تھا اس سے حق اپنا
بس اسی بات پر خفا ہے وہ
کہاں دریا کی طغیانی سے نِکلا
تعلق ریت کا پانی سے نکلا
کسی کی یاد کا کانٹا تھا دل میں
بہت مُشکل تھا آسانی سے نکلا
گریباں چاک ،۔ آوارہ پریشاں
جنُوں صحرا کی ویرانی سے نکلا
محبت ہے سانپوں کی جب بے وقوفی
تو لوگوں سے اُلفت کا ڈھب بے وقوفی
حسد، بُغض، کینہ، جلن کی وبائیں
یہاں چاہتوں کا مطب بے وقوفی
محبت میں دوں تو محبت ملے گی
میرے نظریے کا سبب بے وقوفی
قید میں رکھتے تب بھی اس کے دل کی چھتری رو جاتی
بھاگ کے ہم جو باغ میں جاتے تِتلی تب بھی کھو جاتی
اس دُنیا نے خواب کے بُت میں دھڑکن ہونا تھا لیکن
ساحل کے پر لگ جانے سے کشتی کاغذ ہو جاتی
اقتدار کے ٹکڑے کر کے جرگے کے سرپنجوں نے
نیک اعمال کیے ہوتے تو جنت واجب ہو جاتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ مدح پیمبرﷺ میں لکھی نعت حسیں ہے
مہکی ہوئی خوشبو سے تخیل کی زمیں ہے
تحفے میں لیے صلِ علیٰ عرش کھڑا ہے
آقاﷺ کے لیے عرشِ بریں زیر نگیں ہے
نظروں کو ملا نور محمدﷺ کی طرف سے
ان کے ہی تصور سے تو روشن یہ جبیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اور تو کوئی نہیں مِرا مالک
میری قسمت کا ہے خدا مالک
تیرا ہمسر نہ کوئی ثانی ہے
تِری عظمت پہ ہوں فدا مالک
دونوں عالم کا بادشاہ تُو ہے
ہے کہاں تیرے ماسوا مالک
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دکھیوں کے غمخوار نبی جی
کر دو بیڑا پار نبیﷺ جی
دل کی بات زباں پر آئی
سن لو نا ایک بار نبی جی
گھر گھر میں اب ناچ رہی ہیں
پائل کی جھنکار نبیﷺ جی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خِرد نے پائی یکتائی، مِرے سرکارؐ کے صدقے
ملی رب کی شناسائی، مِرے سرکارؐ کے صدقے
وجودِ مصطفٰیﷺ سے ہی، بہاریں، شادمانی ہے
زمیں تا عرش رعنائی، مِرے سرکارؐ کے صدقے
وسیلہ دو جہانوں کا، وہ آئے لاج رکھنے کو
میسّر ہے مسیحائی، مِرے سرکارؐ کے صدقے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شکر ہے تیرا خدایا کملی والےﷺ ہیں میرے
میرے ملجا، میرے ماویٰ، کملی والے ہیں میرے
ہے شرف مجھ کو غلامی کا شہِ ابرارﷺ کی
میرے مولیٰ، میرے آقا، کملی والے ہیں میرے
حشر کے دن فکر کیا ہے دھوپ کی اور پیاس کی
کملی والے کا سہارا، کملی والے ہیں میرے
ایک طرف سے اندھے ہوتے ہیں
کیسے یہ آئینے🎑 ہوتے ہیں
کسی کو جو کوئی رنج نہیں دیتے
لوگ وہ کتنے اچھے ہوتے ہیں
تنہائی کا خوف تھکاتا ہے
یا پھر بوجھل رستے ہوتے ہیں
شہر میں اولے پڑے ہیں سر سلامت ہے کہاں
اِس قدر ہے تیز آندھی، گھر سلامت ہے کہاں
رات نے ایسی سیاہی اب بکھیری چار سُو
آنکھ والوں کے لیے منظر سلامت ہے کہاں
آپ کہتے ہیں چھُپا لوں اپنی عُریانی، مگر
جسم سے لِپٹی ہوئی چادر سلامت ہے کہاں
علم
علم ہے انساں کی تہذیب و تمدن کے لیے
یہ نہیں انسانی قدروں کے تلون کے لیے
علم ہے آپس میں اخلاص و اخوت کے لیے
یہ نہیں اوروں کے نقصان و ہلاکت کے لیے
علم ہے انسان کی بہبود و بقاء کے واسطے
یہ نہیں انسانیت کی ابتلاء کے واسطے
نہ ساتھی بات کرتے ہیں نہ رہبر بات کرتے ہیں
مُسافر سے فقط رستے کے تیور بات کرتے ہیں
تِری یادوں سے ہم بھی ایسے اکثر بات کرتے ہیں
محبت کرنے والے جیسے چھُپ کر بات کرتے ہیں
تمہارے سامنے کچھ بول دیں ممکن نہیں ہم سے
تصور میں مگر ہم تم سے کھُل کر بات کرتے ہیں
دبے ہوئے ہیں جو وحشتوں میں، ارادے ہر بُت شکن کے دیکھو
طوفانِ اقصٰی کی ہیبتوں میں، شرارے موجِ اُڑن کے دیکھو
یہی کرشمۂ دِینِ حق ہے، یاں حوصلوں کی ہے سر بلندی
نحِیف پنچھی ہیں آفتوں میں، مگر وہ تیور چلن کے دیکھو
ہیں قبلہ اول کے ہر ستوں پر، بشارتوں کے چراغ روشن
رہا ہے مسکن جو انبیاء کا، نظارے ہائے وطن کے دیکھو