دسمبر جاتے جاتے کہہ گیا ہے
بہت کچھ نا مکمل رہ گیا ہے
بہت سے زخم سینے میں لگے ہیں
بہت سا خونِ نا حق بہہ گیا ہے
وہی قربت کے غم دوری کے صدمے
سلیقے سے یہ دل بھی سہہ گیا ہے
دسمبر جاتے جاتے کہہ گیا ہے
بہت کچھ نا مکمل رہ گیا ہے
بہت سے زخم سینے میں لگے ہیں
بہت سا خونِ نا حق بہہ گیا ہے
وہی قربت کے غم دوری کے صدمے
سلیقے سے یہ دل بھی سہہ گیا ہے
نیا سال
نہ پچھلا سال بدلا تھا
نہ اگلا سال بدلے گا
غلط فہمی ہے یہ اپنی
کہ اپنا حال بدلے گا
فقط تاریخ بدل جاتی ہے
یا سورج چاند ڈھلتے ہیں
سال کے آغاز سے متعلق شاعری
یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
بچائے خدا شر کی زد سے اسے
بے چارہ بہت نیک اعمال ہے
بتانے لگا رات بوڑھا فقیر
یہ دنیا ہمیشہ سے کنگال ہے
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا
لمبے سفر کی اوٹ میں پَل بھر نہیں رکا
میں وقت کے فریب میں آ کر نہیں رکا
پھر آ گیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا
لے کر کسی نے ہاتھ میں کشکول وقت
ایسا سفر کِیا کے کہیں پر نہیں رکا
نظر میں کچھ نہیں ٹھہرا ہے ابتک
گزرتی ریل بھی ہے بند پھاٹک
کوئی آواز دیتا لگ رہا ہے
مسلسل ہو رہی ہے دل پہ دستک
مِرے گھر میں جب آئی فصلِ گِریاں
پڑوسی نے بجائی خوب ڈھولک
دار پر حد سے سوا یاد آئی
اس بشر کو تو وفا یاد آئی
گل کی خوشبو تھی جہاں پر ناپید
اس گلی باد ِ صبا یاد آئی
بجھ گئی شب کو اگر خواہشِ دل
چارہ گر تجھ کو دوا یاد آئی
زمانے کو الفت کا دستور کر دوں
میں تیری کہانی کو مشہور کر دوں
تِرے سامنے رو لوں جی چاہتا ہے
تِرے دل کو بھی غم سے میں چور کر دوں
مسیحا کا احساں نہیں چاہتی ہوں
میں زخموں کو اپنے ہی انگور کر دوں
اب اس کا وصل مہنگا چل رہا ہے
تو بس یادوں پہ خرچا چل رہا ہے
محبت دو قدم پر تھک گئی تھی
مگر یہ ہجر کتنا چل رہا ہے
بہت ہی دھیرے دھیرے چل رہے ہو
تمہارے ذہن میں کیا چل رہا ہے
پھول سے لوگوں کو مٹی میں ملا کر آئے گی
چل رہی ہے جو ہوا سب کچھ فنا کر جائے گی
زندگی گزرے گی مجھ کو روند کر پیروں تلے
موت لیکن مجھ کو سینے سے لگا کر جائے گی
وہ کسی کی یاد میں جلتی ہوئی شمع فراق
خود بھی پگھلے گی مری آنکھوں کو بھی پگھلائے گی
الفت فریب تھی تِری چاہت فریب تھی
اور دل لگی سمیت محبت فریب تھی
اک تُو نہ تھا جسے کہ میسر تھے ہم سدا
یہ بات جھوٹ تھی یہ روایت فریب تھی
تُو نے تو میرے بعد نیا چُن لیا رفیق
قسموں، وفا، جفا و مروّت فریب تھی
زندگی تجھ سے بچھڑ کر میں جیا ایک برس
زہر تنہائی کا ہنس ہنس کے پیا ایک برس
اک اندھیرے کا بھنور تھا مِرا ماحول مگر
کام اشکوں سے چراغوں کا لیا ایک برس
کسی آندھی کسی طوفاں سے بجھائے نہ بجھا
دل میں جلتا ہی رہا غم کا دِیا🪔 ایک برس
آبلہ پائی ہوئی نہ زیست میں حائل کبھی
پاؤں کب میرے تھکے گر ہو گئے گھائل کبھی
پر کشش ہے محفلِ دنیا بہت اپنی جگہ
پر مجھے یہ اپنی جانب کر سکی مائل کبھی
ہر عمل کا اجر ہے محفوظ اپنے رب کے پاس
کوئی بھی اچھا عمل جاتا نہیں زائل کبھی
یہ کیسی کشمکش ہے زندگی میں
کسی کو ڈھونڈتے ہیں ہم کسی میں
جو کھو جاتا ہے مل کر زندگی میں
غزل ہے نام اس کا شاعری میں
نکل آتے ہیں آنسو ہنستے ہنستے
یہ کس غم کی کسک ہے ہر خوشی میں
تمام عمر میں ہر صبح کی اذان کے بعد
اک امتحان سے گزرا، اک امتحان کے بعد
خدا کرے، کہ کہیں اور گردشِ تقدیر
کسی کا گھر نہ اجاڑے، میرے مکان کے بعد
دھرا ہی کیا ہے، میرے پاس نذر کرنے کو
تیرے حضور، میری جان! میری جان کے بعد
اس نے اپنی محبت کا چرچا کیا اور میرے ارادوں کی نس کاٹ دی
میں کہ قیدِ تعلق میں بیدار تھا، سو گیا اور تارِ قفس کاٹ دی
ایک دن عالمِ ہوت و ناسوت میں وہ ڈری اور سینے سے آ کے لگی
توڑ دی مورتی اور ڈر بھی گیا، ایک پَل میں صدائے جرس کاٹ دی
کچھ گزاری گئی کچھ خریدی گئی یعنی دونوں طرح سے ہی نقصان ہے
اب بھلا اس پہ کیا کوئی جھگڑا کرے کاٹنی تھی مجھے یار! بس کاٹ دی
آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو
فرصت ہو تو پھر ہم کو بھی جلنے سے بچا لو
اے قسمتِ فردا کے خوش آئند خیالو
راتیں نہ سہی، دن ہی مِرے آ کے اُجالو
پتھر کے صنم بھی کبھی کچھ بول سکے ہیں
اے بُت شکن اذہان کے خاموش سوالو
وہ زندگی جو تِرے پیار میں بسر نہ ہوئی
تھی ایسی رات کہ جس کی کبھی سحر نہ ہوئی
انہی کی چاہ میں یہ حال ہو گیا میرا
مگر انہی کو مِرے حال کی خبر نہ ہوئی
سلگتی راہوں پہ سایہ تھا کس کی پلکوں کا
یہ کون کہتا ہے اس سمت وہ نظر نہ ہوئی
لوٹ آئے اپنے گھر کی طرف جی کو مار کر
نکلے تھے ہم بھی نقشِ تمنا سنوار کر
منظر اک اک اجاڑ کے آیا ہوں اس طرف
اے جنگلوں کی زرد ہوا، مجھ سے پیار کر
آنکھوں میں لیکے بیٹھے ہیں اب دل کی خاکِ خشک
واپس ہوئے جو ابرِ گریزاں سے ہار کر
خواہشِ جادۂ راحت سے نکلتا کیسے
دل مِرا کوئے ملامت سے نکلتا کیسے
سایۂ وہم و گماں چار طرف پھیلا ہے
میں ابھی کرب و اذیت سے نکلتا کیسے
میری رسوائی اگر ساتھ نہ دیتی میرا
یوں سرِ بزم میں عزت سے نکلتا کیسے
اسے خبر ہی نہیں تھی وہ کس جہان میں تھا
کھلی فضا تھی پرندہ کھلی اڑان میں تھا
اسے میں دیکھ رہا ہوں تمہارے سینے میں
وہ ایک تیر جو اب تک مِری کمان میں تھا
سو اس کی جان بچانا بہت ضروری تھا
بھلے وہ بھاگ کے آیا مِری امان میں تھا
بلوچی زبان کے شاعر اے آر داد کی نظم کا اردو ترجمہ
میں تمہارے باغ میں کیا چنوں
کس پھل کا ذائقہ چکھوں
کون سے موسم میں جاگوں
کس موسم میں سو جاؤں
کس نشیب میں سستانے کو قیام کروں
ہاتھ پھیلاؤ تو سورج بھی سیاہی دے گا
کون اس دور میں سچوں کی گواہی دے گا
سوزِ احساس بہت ہے اسے کم تر مت جان
یہی شعلہ تجھے بالیدہ نگاہی دے گا
یوں تو ہر شخص یہ کہتا ہے کھرا سونا ہوں
کون کس روپ میں ہے وقت بتا ہی دے گا
کسی پہ پورا کھُلے تُو تو پھر سوال بنے
گلاب دودھ میں گوندھے گئے تو گال بنے
تمہاری آنکھوں پہ لکھنے کو جی تو چاہتا ہے
حروف سُوجھیں تو شاید کوئی خیال بنے
تِرے لبوں کو ضرورت ہی کیا بہار کی ہے
تُو مسکرائی تو پھولوں کے کتنے تھال بنے
حق بات کہے، حق کا طرفدار کوئی ہو
جینے کے لیے برسرِ پیکار کوئی ہو
بازار میں یوسف تو چلے آئے ہیں لیکن
اب دیکھنا یہ ہے کہ خریدار کوئی ہو
ہر فرد خمیدہ ہے سرِ راہِ ستمگر
اس شہرِ ریاکار میں خوددار کوئی ہو
جہاں پر زندگی کے فیصلے باہم نہیں ہوتے
وسائل ختم ہوتے ہیں، مسائل کم نہیں ہوتے
سکوں چاہو جو دنیا میں تمہیں پھر میں بتاتا ہوں
وہ ماں کا صرف آنچل ہے جہاں پر غم نہیں ہوتے
کوئی تو ہے جو لکھتا ہے مرِی تقدیر کے قصے
کوئی بھی فیصلے میرے یونہی یکدم نہیں ہوتے
دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت
ترا کرم ہے بہت، پر مِرے عذاب بہت
تُو کتنا دور بھی ہے کس قدر قریب بھی ہے
بڑا ہے ہجر کا صحرائے پُر سراب بہت
حقیقت شبِ ہجراں کے راز کھوئے گئے
طویل دن ہیں بڑے راستے خراب بہت
منظر عجب تھا اشکوں کو روکا نہیں گیا
ہنستا ہوا جو آیا تھا، ہنستا نہیں گیا
اک بار یوں ہی دیکھ لیا تھا اسے کہیں
پھر اس کے بعد شہر میں دیکھا نہیں گیا
تھی جس کے دم سے رونقِ محفل، ہما ہمی
دعوت میں اس غریب کو پوچھا نہیں گیا
تمہارے غم سے توبہ کر رہا ہوں
تعجب ہے میں ایسا کر رہا ہوں
ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں
نہ جانے کس سے جھگڑا کر رہا ہوں
بہت سے بند تالے کھل رہے ہیں
تِرے سب خط اکٹھا کر رہا ہوں
بجھا بجھا کے جلاتا ہے دل کا شعلہ کون
دکھا رہا ہے مجھی کو مرا تماشہ کون
سبھی کے چہروں پہ مہر و وفا کا غازہ ہے
کہوں یہ کیسے پرایا ہے کون؟ اپنا کون
خوشی کی بزم میں ہم رقص ہیں سبھی لیکن
کرے گا پار مِرے ساتھ غم کا دریا کون
فصیل صبر میں روزن بنانا چاہتی ہے
سپاہِ طیش مِرے دل کو ڈھانا چاہتی ہے
لپٹ لپٹ کے شجر کو لُبھانا چاہتی ہے
ہر ایک بیل محبت جتانا چاہتی ہے
ریال خواب لُٹاتی ہے دونوں ہاتھوں سے
امیر شوق مجھے آزمانا چاہتی ہے
زمانے میں سروش اپنی یہی پہچان رکھیں گے
ہم امریکہ میں رہ کر دل کو پاکستان رکھیں گے
تجھے دل میں بٹھائیں گے، کبھی لکھیں گے آنکھوں پر
خیال یار! تجھ کو اس طرح مہمان رکھیں گے
تِری آنکھوں کو دے کر روشنی اپنی نگاہوں کی
تِرے بِلور سے پیکر میں اپنی جان رکھیں گے
آنکھوں کے میکدے میں ہُوا بے حساب رقص
تعبیر پا کے کر رہے تھے سارے خواب رقص
بے چینیوں کا نام غریبوں کی ناچ ہے
اب تو امیر لوگوں کا ہے اضطراب رقص
پہلے پہل تھا زندگی کا رقص ایک شوق
آگے چلا تو ہو گیا شوقِ عذاب رقص
کسی کے عشق سے لبریز ہو رہا ہوں ابھی
کسی کے ہجر میں آنکھیں بھگو رہا ہوں ابھی
بہت سے نقص مصور نے دور کرنے ہیں
تجھے پتا ہے میں تخلیق ہو رہا ہوں ابھی
وہی جگہ کہ جہاں نقشِ پائے جاناں تھے
اسی کی خاک سے آنکھوں کو دھو رہا ہوں ابھی
وہ طلب گار ہو گیا تو پھر
مجھ سے انکار ہو گیا تو پھر
کتنے مغرور ہو گئے مرہم
زخم خوددار ہو گیا تو پھر
میرے دشمن میں ایک بات کہوں
میں تِرا یار ہو گیا تو پھر
آنے والی حقیقتیں
کئی دنوں سے دل و ذہن پہ
عجیب سی کیفیت ہے طاری
کئی دنوں سے
تِری جدائی کا خوف آنکھوں میں آ بسا ہے
تِری جدائی جو آج تک تو
محض ذہن کی تخیّلاتی حدودوں کے اندر کا ماجرا ہے
جانتے جانتے ہر فرد کو ہے جان لیا
دوستو! ہم نے بھی اب اپنا کہا مان لیا
میرے یاروں نے ملمّع بھی چڑھایا خود پر
پھر بھی پہچاننے والوں نے ہے پہچان لیا
ساری دنیا کو بڑے غور سے دیکھا ہم نے
ایک بھی تم سا نہیں، سارا جہاں چھان لیا
دل کی دہلیز تلک خود کو رسائی دے گا
مرا لہجہ مرے شعروں میں سنائی دے گا
میرا ہونا ہے ہوا جس کی بدولت ممکن
اب وہ چہرہ مری آنکھوں میں دکھائی دے گا
میں نے آنکھوں سے تجھے دور کیا تھا لیکن
یہ نہ سوچا تھا خدا ایسی جدائی دے گا
اور زرخیز کرے گا یہ مرے لفظوں کو
آخری آندھی نے سب کچھ پہلے جیسا کر دیا
پردے میلے کر دئیے، قالین گندا کر دیا
میرے سارے لوگ رفتہ رفتہ اس کے ہو گئے
مجھ کو اس کی محفلوں نے اور تنہا کر دیا
آسمانوں سے ستارے، اور قبروں سے گلاب
مجھ سے پوچھو میں نے اس کو کیا نہیں لا کر دیا
اشکوں کو آرزوئے رہائی ہے، روئیے
آنکھوں کی اب اسی میں بھلائی ہے روئیے
رونا علاجِ ظلمتِ دنیا نہیں تو کیا
کم از کم احتجاجِ خدائی ہے، روئیے
تسلیم کر لیا ہے جو خود کو چراغِ حق
دنیا قدم قدم پہ صبائی ہے، روئیے
معدوم ہوتی تہذیب سے
ایک ساز
اور کچھ گیت لے کر ہم گھٹنوں کے بَل نکلے
اور دریا کے کناروں سے سفر کر کے یہاں آئے
ہم ساز بجاتے ہیں
گیت گاتے ہیں
اور بیج بوتے ہیں
لبوں تک آئی ہے اک لہر میرے سینے سے
ہنسی میں ڈوب گیا ہوں نکل کے گریے سے
کواڑ کھول کے دیکھا تِری گلی کی طرف
سراب ہی نظر آیا مجھے دریچے سے
یہ مہر و ماہ یہ تارے بھی ماند پڑتے گئے
وہ شاہزادی جو نکلی تھی اپنے حجرے سے
جو رشتے ٹوٹ جائیں وہ
کبھی بھی جڑ نہیں پاتے
جو تلخی گھُل چکی ہو وہ
کبھی بھی کم نہیں ہوتی
کہ سارے ہی جہاں کی
ساری شیرینی
سمندر میں ملا کر بھی
سچ بولنا چاہیں بھی تو بولا نہیں جاتا
جھوٹوں کیلئے شہر بھی چھوڑا نہیں جاتا
تم کتنا ہی عہدوں سے نوازو ہمیں لیکن
نفرت کا شجر ہم سے تو بویا نہیں جاتا
سوچو تو جوانی کبھی واپس نہیں آتی
دیکھو تو کبھی آ کے بڑھاپا نہیں جاتا
نسخ و نسیان بن کے پھیل گئی
خاک انسان بن کے پھیل گئی
حسرتِ دِید شوقِ منزِل پر
چشمِ حیران بن کے پھیل گئی
میری خاموشی بزمِ یاراں میں
ایک اعلان بن کے پھیل گئی
اظہارِ جنوں بر سرِ بازار ہوا ہے
دل دستِ تمنا کا گرفتار ہوا ہے
بے ہوش گنہ جو دلِ بیمار ہوا ہے
اک شوق طلب سا مجھے تلوار ہوا ہے
صحرائے تمنا میں مِرا دل تجھے پا کر
شہرِ ہوس آلود سے بے زار ہوا ہے
دنیا کیا ہے برف کی اک الماری ہے
ایک ٹھٹھرتی نیند سبھی پر طاری ہے
کہرا اوڑھے اونگھ رہے ہیں خستہ مکاں
آج کی شب بیمار دیوں پر بھاری ہے
سب کانوں میں اک جیسی سرگوشی سی
ایک ہی جیسا درد زباں پر جاری ہے
چنچل لڑکی
کب تجھے ایسے چھوڑتی تھی میں
کپ اک روز توڑتی تھی میں
ماں کے کہنے پہ دھو تو لیتی تھی
تپ کے کپڑے نچوڑتی تھی میں
بابا گھر پر ابھی نہیں موجود
کہہ کے لوگوں کو موڑتی تھی میں
اپنی کُٹیا میں محبت کے خزانے بھر کے
پاؤں میں روند دئیے محل زمانے بھر کے
ایک بچہ جو کہانی سے ڈرا کرتا تھا
آج بستے میں لے آیا ہے فسانے بھر کے
یہ نشانی بھی اجازت ہے اٹھا لے جاؤ
طاق پر رکھے ہیں وہ پھول پرانے بھر کے
کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی
اشکوں کے سیلاب نہیں ہوتے بھائی
ہم جیسوں کی نیند تھکاوٹ ہوتی ہے
ہم جیسوں کے خواب نہیں ہوتے بھائی
زندہ لوگ ہی ڈوب سکیں گے آنکھوں میں
مَرے ہوئے غرقاب نہیں ہوتے بھائی
میں جو ترے گھر اس دن پہلی بار آیا تھا
لینا دینا کیا تھا؟، جیون ہار آیا تھا
بھول آیا تھا ہاتھ بھی تیرے دروازے پر
آنکھیں بھی تیرے چہرے پر وار آیا تھا
سانسیں کہاں بھول آیا تھا؟ کچھ یاد نہیں
اتنا یاد ہے، تجھ پر بے حد پیار آیا تھا
وہی بے ربط یارانے، وہی فنکاریاں اس کی
بڑا بے چین کرتی ہیں تعلق داریاں اس کی
محبت کر کے بھی اس شخص نے بدلی نہیں عادت
نہ اچھی رنجشیں اس کی، نہ اچھی یاریاں اس کی
بہت تکلیف دیتی ہیں کہ دونوں کو نہیں بھاتیں
اسے آسانیاں میری، مجھے دشواریاں اس کی
درد جب میرے دل میں پلتے ہیں
لفظ تب شاعری میں ڈھلتے ہیں
تم کو جب دیکھ لیں مِری آنکھیں
خواب سب آنسوؤں میں جلتے ہیں
وہ پریشان ہو کے پھرتا ہے
اس کے دل میں بھی غم مچلتے ہیں
کبھی انکار گونگے ہوں، کبھی اقرار گونگے ہوں
یہ دل پھر کیا کرے جب حضرتِ دلدار گونگے ہوں
محبت پل تو سکتی ہے، محبت بڑھ نہیں سکتی
جہاں پر چاہتیں مبہم، جہاں اظہار گونگے ہوں
گواہی کون دے گا ایسے ملزم کی حمایت میں
سبھی احباب جس کے، سب سہولتکار گونگے ہوں
الجھن
یہ ہیں حالات کی الجھن کے دھاگے
'تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے'
ندی کے دو کناروں کی طرح ہم
ہمارا اب کہیں سنگم نہیں ہے
ہے خوشبو میں بسا پیرس یہ میرا
مگر وہ رونقِ جہلم نہیں ہے
سورج سارا شہر ڈراتا رہتا ہے
پتھریلی سڑکوں پہ دریا پیاسا ہے
نیند ہماری بھیڑ میں ہنستی رہتی ہے
جنگل اپنی خاموشی میں الجھا ہے
دھرتی اور آکاش کی دنیا میں جیون
دو طوفانوں میں قیدی کشتی سا ہے
ریزہ ریزہ سا بھلا مجھ میں بکھرتا کیا ہے
اب ترا غم بھی نہیں ہے تو یہ قصہ کیا ہے
کیوں سجا لیتا ہے پلکوں پہ یہ اشکوں کے چراغ
اے ہوا! کچھ تو بتا پھول سے رشتہ کیا ہے
اس نے مانگا ہے دعاؤں میں خدا سے مجھ کو
اور میں چپ ہوں بھلا اس نے بھی مانگا کیا ہے
زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا
تم بھی بے وجہ جی رہی ہو کیا
میں تو مرجھا گیا ہوں اب کے برس
تم کہیں اب بھی کھل رہی ہو کیا
تم کو چھوکر چمکنے لگتا ہوں
تم کوئی نور کی بنی ہو کیا
تم بزدل ہو
اب ہاتھ کو ملنا کیا معنی
اب پچھتاوے کا مطلب کیا
اب آنکھ میں آنسو کیسے ہیں
جب وقت تمہارے ہاتھ میں تھا
جب وقت تمہاری مٹھی میں
نظم
سر پہ گھٹری لدی ہے نفرت کی
بوجھ کاندھوں پہ ہے تعصب کا
بغض و کینہ کے ڈھیر ہیں دل میں
اور اک پوٹلی حسد کی ہے
سب سے وزنی منافقت کی عبا
اور چہرے پہ دوسرا چہرہ
مری دنیا اکیلی ہو رہی ہے
تمنا گھر میں تنہا سو رہی ہے
صدائیں گھٹ گئیں سینے کے اندر
خموشی اپنی پتھر ہو رہی ہے
تمناؤں کے سینے پر رکھے سر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
جینے کی تمنا خاص نہیں
مرنے کا تردد کچھ بھی نہیں
کچھ کام ادھورے باقی ہیں
وہ کام مکمل ہو جائیں
پھر موت سے جا کر ہم یہ کہیں
ہاں، بول، بتا کب چلنا ہے؟
کس وقت کہاں پر مرنا ہے؟
کچھ ایسی اب مصیبت پڑ گئی ہے
ہمیں تیری ضرورت پڑ گئی ہے
میں سب سے دور ہونا چاہتا ہوں
مجھے اپنی ضرورت پڑ گئی ہے
چراغ ایسے جلائے اب کے ہم نے
ہواؤں کو مصیبت پڑ گئی ہے
دشت و صحرا میں سمندر میں سفر ہے میرا
رنگ پھیلا ہوا تا حدِ نظر ہے میرا
نہیں معلوم اسے اس کی خبر ہے کہ نہیں
وہ کسی اور کا چہرہ ہے، مگر ہے میرا
تُو نے اس بار تو بس مار ہی ڈالا تھا مجھے
میں ہوں زندہ تو مِری جان! ہنر ہے میرا
وہ خود اپنا دامن بڑھانے لگے
چلو آج آنسو ٹھکانے لگے
ہمارا برا وقت جب ٹل گیا
پھر احباب ملنے ملانے لگے
تری برہمی میں بھی جان وفا
نوازش کے انداز آنے لگے
دوست اک شام اکٹھے تو ہوئے رونے کو
پھر بھی آنسو تو بہت کم ہیں تجھے رونے کو
ایک حد تک میرا بیمار ابھی زندہ تھا
اور تیار تھے سب چھوٹے بڑے رونے کو
ہم تو جیسے کہ کنارے پہ کھڑے ہوتے ہیں
وہ اداسی ہے کہ بس بات ملے رونے کو
Dilemma
شام سے نظم کہنے کی کوشش میں ہوں
نظم کیسے کہوں میں نہیں جانتا
سوچتا ہوں کہ اپنی نئی نظم کی اولیں لائینیں تو ایفکٹیو کہوں تاکہ قاری اسے اینڈ تک پڑھ سکے
میں نہیں جانتا نظم کہتے ہوئے جیب میں کم سے کم کتنے پیسے رکھوں
میں نہیں جانتا نظم کہتے ہوئے میرے ماتحت افسر کی کال آئے تو اس سے کیسے ملوں
میں نہیں جانتا نظم کہتے ہوئے روم کے ٹمپریچر کی حد کیا رکھوں
مختصر نظم
مِری آنکھوں کے پیچھے کون ہے
جو مشکیں بھر بھر کے
تِری جانب گِراتا ہے
احمد حماد
خوف زدہ لمحوں کو جینا پڑتا ہے
تنہا ڈر کی آگ میں جلنا پڑتا ہے
جی جاتے ہیں تجھ کو بھول کے لیکن پھر
ہم کو تیری یاد میں مرنا پڑتا ہے
زخمی پوریں چیخیں تو احساس ہوا
اُدھڑا جیون کیسے سینا پڑتا ہے
شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں
پھر لوگ میرے اندر سنسان ہو گئے ہیں
ان دوریوں کی مشکل آنکھوں میں بجھ گئی ہے
ہم آنسوؤں میں بہہ کر آسان ہو گئے ہیں
ایسی خموشیاں ہیں سب راستے جدا ہیں
الفاظ میں جزیرے ویران ہو گئے ہیں
طے نہ کر پائی منزلیں تتلی
پھنس گئی میرے جال میں تتلی
رات کے وقت جیب میں جگنو
صبح تا شام ہاتھ میں تتلی
اک نیا رنگ دیکھتی ہے آنکھ
جب بھی لیتی ہے کروٹیں تتلی
حیرت
ایک بستی تماش بینوں کی
اِک ہجوم
اژدھام لوگوں کا
دیکھ میرے تنِ برہنہ کو
ہنستا ہے
قہقہے لگاتا ہے
مِرے قاتل شہر کے مقتولو
اپنی بوسیدہ قبروں سے نکلو
آؤ، اس کھنڈر میں
صدیوں سے جمی خاک اڑائیں اور
اپنے ہونے سے نہ ہونے تک کے سفر کا سوگ منائیں
عرفان بشیر
ہم تجھے آفرین کہتے ہیں
ماہ رو، مہ جبین کہتے ہیں
ہر قدم پر ترا تصور ہے
تیرے جلوے، ترا تخیل ہے
تیری یادوں میں ہم جو کھوتے ہیں
اک کو دو، دو کو تین، کہتے ہیں
ہم تجھے آفرین کہتے ہیں
محبت کی مختصر نظم
تیرے چہرے کے بعد دنیا میں
کوئی چہرہ نظر نہیں آتا
آنکھ نابینا ہو گئی جیسے
طبیب تم ہو
ہماری نبضیں
تمہارے دم سے
جواز ڈھونڈیں گی زندگی کا
کہ لکھنے والے نے
لکھ دیا ہے
مریض میں ہوں
طبیب تم ہو
خدا خفا ہے
زمیں تھک گئی تھی
ہمارے گناہوں کے سب بوجھ ڈھوتے ہوئے
سو اُبلنے لگی
اور ہم بس یہی سوچتے رہ گئے
کہ خدا ہم سے ناراض ہے
معجزہ
یہ دنیا
پہلے انساں کی
خطائے اولیں کا معجزہ ہے
تم اب بھی خوبصورت ہو
آئینے تو جھوٹے ہیں
آئینوں کو جھٹلا دو
عمر ڈھل گئی تو کیا؟
میری آنکھوں میں دیکھو
تم اب بھی خوبصورت ہو
اب کوچ کرے ہے بنجارا
دانا پانی جتنا تھا
دکھ سکھ جتنا اپنا تھا
جس کو مجھ سے ملنا تھا
مجھ کو جس سے جلنا تھا
دانا پانی کھا پی کر
دکھ سکھ اپنے سہہ جی کر
خموشی کا کوئی لہجہ نہیں ہے
ہمیں لگتا ہے پر ایسا نہیں ہے
محبت سب سے اچھی شے ہے لیکن
محبت میں بھی سب اچھا نہیں ہے
یہ میری زندگی اک مسئلہ ہے
مگر یہ مسئلہ میرا نہیں ہے
دریچے سو گئے، شب جاگتی ہے
میرے کمرے میں کیسی خامشی ہے
جدھر دیکھو فسردہ زندگی ہے
مجھے لگتا ہے یہ غم کی صدی ہے
جو رستوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے
اسے پہچان فکر زندگی ہے
ہمارے چہرے پہ رنج و ملال ایسا تھا
مسرتوں کا زمانے میں کال ایسا تھا
فضائے شہر میں بارود کی تھی بو شامل
کہ سانس لینا بھی ہم کو محال ایسا تھا
امیرِ شہر کے ہونٹوں پہ پڑ گئے تالے
غریبِ شہر کا چبھتا سوال ایسا تھا
یا تو زنداں، یا سرِ دار، یہی ہوتا ہے
ظلم کے عہد میں سرکار، یہی ہوتا ہے
حاکمِ شہر ہے، سوداگرِ ایمان و ضمیر
کچھ بھی ہو جائے، خریدار یہی ہوتا ہے
سر کٹا دینا، مگر سر کو جھکانا نہ کبھی
جس کو کہتے ہیں نا انکار، یہی ہوتا ہے
شکایت
یہ تم نے کیا لکھا
میں نے تمہیں دل سے بھلا ڈالا
تمہیں تو یاد ہو گا
بچھڑتے وقت تم نے ہی کہا تھا
اگر تم چاہتے ہو یہ
مانا کہ یہاں اپنی شناسائی بھی کم ہے
پر تیرے یہاں رسمِ پذیرائی بھی کم ہے
ہاں تازہ گناہوں کے لیے دل بھی ہے بیتاب
اور پچھلے گناہوں کی سزا پائی بھی کم ہے
کچھ کارِ جہاں جاں کو زیادہ بھی لگے ہیں
کچھ اب کے برس یاد تری آئی بھی کم ہے
اسٹیچو
اب رعایت بھی کیجیے للہ
مجھ سےغلطی ہوئی ہے مان لیا
آپ ساکت پڑے تھے بستر پر
میں نے سمجھا کوئی سٹیچو ہے
ورنہ بوسہ مری بلا جانے
ان کے نقش قدم پہ چلنا ہے
وہ جو منزل پہ سر کے بل پہنچے
طلب ایسی نہ کوئی چیز ضرورت جیسی
کوئی تو بات تھی ہم تم میں محبت جیسی
گر خدا میرا، مِرے دل کی دعا سن لیتا
صورتیں ساری بناتا تِری صورت جیسی
دیکھنا، اس کو فقط ٹوٹ کے دیکھا کرنا
میری حالت بھی تھی دیوانوں کی حالت جیسی
یہ دکھ نہیں کہ شہر میں میرا کوئی نہیں
یہ دکھ کی بات ہے کہ کسی کا کوئی نہیں
اس کا بچھڑنا لے گیا حسِ مزاح تک
ہنسنے کی بات کرتا ہوں ہنستا کوئی نہیں
سب ظلم ہوتا دیکھنے والوں کی صف میں ہیں
افسوس، اس ہجوم میں اندھا کوئی نہیں
کتنے جنگل تھے جہاں آگ لگا دی تم نے
کر کے ہموار زمیں باڑھ بنا دی تم نے
آؤ اب تم بھی مرے عشق کی قیمت دیکھو
شہر بھر میں تو کرا دی ہے منادی تم نے
کس کا دشمن تھا کہ جس نے یہ سنائی تھی خبر
پھاڑ کر خط📧 مرا تصویر جلا دی تم نے
یادوں کا سنسار
زباں کا منہ میں اک ٹکڑا سا جو بےکار رکھا ہے
یہ میرا ظرف ہے لب پر نہ کچھ اظہار رکھا ہے
مِرے اپنوں نے ہی مجھ کو حقارت سے ہے ٹھکرایا
کہوں کیا دل میں شکووں کا بس اک انبار رکھا ہے
یہ سوچا تھا محل سپنوں کا ہی تعمِیر کر لیں گے
مگر تم نے ہمیشہ کو روا انکار رکھا ہے
شہر دوست
وہ شہر دوست بھی
رخصت ہوا کہ جس نے سدا
ہمارے دل میں کھِلائے تھے چاہتوں کے گلاب
خمار باقی ہے اب تک ہماری آنکھوں میں
حسین لمحوں کا جو اس کے دم سے روشن تھے
عجب لڑکی ہے وہ لڑکی
ہمیشہ روٹھ جاتی ہے
کہا کرتی ہے یہ مجھ سے
سنو جانوں محبت خوب کرتے ہو
مگر یہ کیسی ضد ہے
زباں سے کچھ نہیں کہتے
کیا عجیب رشتہ ہے
خواب اور حقیقت میں
جس قدر بھی اچھے ہوں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
اور یہ حقیقت ہے
عاطف سعید
بِیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا
مُرجھائے ہوئے پھول بھی گُلدان میں رکھنا
کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے
تم گھر کا پتہ بھی مِرے سامان میں رکھنا
کیا دن تھے مجھے شوق سے مہمان بلانا
اور خود کو مگر خدمتِ مہمان میں رکھنا
ہنس مکھ لڑکی
جانتی ہو
تم سے محبت کی اک وجہ
تمہاری یہ مسکراہٹ بھی ہے
تمہاری اس ایک سنت پہ
محبت فرض ہوتی ہے
دستِ نازنیں
میرے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دو تا کہ
مجھے یہ جاننے میں آسانی ہو سکے کہ سکون کا
مؤجب تمہارا لمس ہے
زین اشعر
ہر ایک پل مجھے دکھ درد بے شمار ملے
خدا کبھی تو میرے دل کو بھی قرار ملے
زمانہ دشمنِ جاں ہو گیا یہ غم ہے مگر
میرا نصیب کے خنجر بدست یار ملے
کیا ہو گی اس سے بھی بڑھ کر کسی کی محرومی
جسے نصیب میں تا مرگ انتظار ملے
زندگی ہے اجل تو تُو بھی نہیں
سوچتا ہوں اٹل تو تُو بھی نہیں
تیرے ہوتے بھی سب خراب ہی تھا
اور، پھر آج کل تو تُو بھی نہیں
اے شگوفوں میں رنگ بھرتے شخص
اس اداسی کا حل تو تُو بھی نہیں
ایک انجانے ڈر میں رہتا ہوں
زندگی کے سفر میں رہتا ہوں
آنکھوں سے تم نے کیا پلاٸی ہے
میں تمہارے اثر میں رہتا ہوں
جھوٹ سچ کی جہاں علامت ہے
ایسے ہی اک نگر میں رہتا ہوں
خوش نما پیڑوں کے بیچوں بیچ گھر جاتا ہوا
ایک رستہ سانپ کی صورت میں بل کھاتا ہوا
ایک لڑکی مال کے اوصاف گنواتی ہوئی
ایک لڑکا آگہی کی رمز سمجھاتا ہوا
سب کساں پانی کو لے کر لڑ رہے ہیں اور خدا
سب کسانوں کی زمیں پر ابر برساتا ہوا
تھکن سے چور ہوئے اور سفر کی نذر ہوئے
ہم ایک قافلۂ بے خبر کی نذر ہوئے
کوئی نہیں تھا مگر مانتے رہے کوئی ہے
یہ لوگ ڈرتے رہے اور ڈر کی نذر ہوئے
عجیب قافلہ تھا، رک نہیں رہا تھا کہیں
مسافروں کے مسافر سفر کی نذر ہوئے
یاد آ جاتا ہے عاشور کی اس رات کا دُکھ
مجھ سے دیکھا نہیں جاتا کسی سادات کا دکھ
آپ کی بیٹی نہیں، آپ نہیں سمجھیں گے
خالی جاتی ہوئی واپس کسی بارات کا دکھ
جب کوئی دکھ نہیں موجود تو کیسی خوشیاں
یعنی ہم سے کہیں بڑھ کے ہے سماوات کا دکھ
اس طرح عہدِ تمنا کو گزارے جائیے
ان کو خاموشی کے لہجے میں پکارے جائیے
عشق کا منصب نہیں آوازۂ لفظ و بیاں
آنکھوں ہی آنکھوں میں ہر اک شکوہ گزارے جائیے
دیکھیے رسوا نہ ہو جائے کہیں رسم جنوں
اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے
چاک پر رکھی خاموشی
دشتِ احساس سے
خیمۂ ذات تک
دور تک، رات تک
اک سرابِ سفر
اور، فراتِ ہنر؟
میں بھی خدا پرست ہوں تو بھی خدا پرست ہے
لیکن ہمارے درمیاں پھر بھی بلند و پست ہے
ایسی گھنیری تیرگی کہ اک دِیا 🪔 بھی معتبر
ایسی کٹھن مسافتیں کہ اک قدم بھی جست ہے
زِنداں میں آنکھ بند کی، یادوں کا در سا وا ہوا
یعنی بلا کے حبس میں سانسوں کا بندوبست ہے
کس پری فام کا بیمار ہوا ہے صحرا
کس کی الفت میں گرفتارِ وفا ہے صحرا
کیا کہا ہوگا ہواؤں سے تری خوشبو نے
کیوں سرِ شام اسے ڈھونڈ رہا ہے صحرا
کس کی آنکھوں میں برستا ہے بدن بادل کا
کس کی بارش میں ابھی بھیگ گیا ہے صحرا
جو دل پہ نقش ہوں منظر سہانے لگتے ہیں
کسی کے بھولنے میں بھی زمانے لگتے ہیں
بہت سے اور بھی کھلتے ہیں درد اس لمحے
جب ایک غم کو ہنسی میں چھپانے لگتے ہیں
قلم کو چوم لیا ہم نے لکھتے وقت کبھی
کبھی خود اپنا لکھا بھی مٹانے لگتے ہیں
مہینہ دسمبر کا
لگی ہے دل کو ویرانی، دسمبر کے مہینے میں
نہ تھی ایسی پشیمانی، دسمبر کے مہینے میں
نہ توڑو گے نومبر میں، کیا تھا جون میں وعدہ
کریں گے ہم نگہبانی، دسمبر کے مہینے میں
نجانے کتنی صدیوں سے تمہارا ہجر اوڑھے ہیں
اگر کر دو مہربانی دسمبر کے مہینے میں
کرسمس
برف کی زمینوں سے
بادِ سرد آئی ہے
پِچھلی رُت کے پیڑوں سے
برگِ زرد گرتے ہیں
آنگنوں میں، گلیوں میں
راستوں میں، باغوں میں
شوخ رنگ اڑتے ہیں
میں باغی ہوں
اس دور کے رسم رواجوں سے
ان تختوں سے ان تاجوں سے
جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں
انسانی خون سے پلتے ہیں
جو نفرت کی بنیادیں ہیں
اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں
تمہارے بعد
بہت خوش رہتا ہوں
لوگ پوچھتے ہیں؛ خیریت ہے؟
انہیں کیسے بتلاؤں؟
میرے پاس کھونے کو
اب کچھ بھی نہیں
تمہارے بعد
کچھ نہیں میرا درمیاں مجھ میں
دل کرے اپنی مرضیاں مجھ میں
جائزہ دور سے نہ لے میرا
پاس آ، دیکھ خامیاں مجھ میں
مل نہیں پاتا میں کبھی خود سے
خود سے خود کی ہیں دوریاں مجھ میں
ہے بھی اور پھر نظر نہیں آتی
دھیان میں وہ کمر نہیں آتی
تیرے کشتوں کا روز حشر حساب
غیرت او فتنہ گر نہیں آتی
مختصر حال درد دل یہ ہے
موت اے چارہ گر نہیں آتی
عکسِ شکستِ خواب بہر سُو بکھیریے
چہرے پہ خاک، زخم پہ خوشبو بکھیریے
کوئی گزرتی رات کے پچھلے پہر کہے
لمحوں کو قید کیجئے، گیسو بکھیریے
دھیمے سُروں میں کوئی مدھُر گیت چھیڑیے
ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جادو بکھیریے
سناٹا فضا میں بہہ رہا ہے
دُکھ اپنے ہوا سے کہہ رہا ہے
برفیلی ہوا میں تن شجر کا
ہونے کا عذاب سہہ رہا ہے
باہر سے نئی سفیدیاں ہیں
اندر سے مکان ڈھہ رہا ہے
فنا اور بقا
ابھی ان گنت دلربا صورتیں ہیں
جو مٹی کے ذروں، ہوا کے جھکوروں، فلک کے ستاروں، گُلوں کے تعطر میں پوشیدہ و نادمیدہ پڑی ہیں
کبھی شام آئے گی
جب ہر جگہ ان کی باتوں کی بجتی ہوئی گھنٹیوں کے مدھُر شور کی لَے سے بھر جائے گی
ہر گلی ان کے نازک دبے پاؤں چلنے کی آہٹ کے جادو میں کھو جائے گی
ہر بجھی صبح ان کے تنفس کی جلتی ہوئی خوشبوؤں سے مہک جائے گی
ایک اور خواہش
خواہشیں ہیں دل میں اتنی جتنے اس دنیا میں غم
شوق سے جلتی جبینیں اور جادو کے صنم
مہرباں سرگوشیاں، نا مہربانی کے ستم
آنکھ کے پُر پیچ رستے، ریشمی زلفوں کے خم
اصل میں کیا ہے یہ سب، کچھ بھی پتہ چلتا نہیں
چاند جیسے آسماں کا جو کبھی ڈھلتا نہیں
محبت، چاہ تک تو ٹھیک تھا سب
یہ رسم و راہ تک تو ٹھیک تھا سب
تری دوری ادھورا کر گئی ہے
تری پرواہ تک تو ٹھیک تھا سب
ارے تنقید پر ناراض کیوں ہو؟
ارے واہ واہ تک تو ٹھیک تھا سب
دریا کی طرف دیکھ لو اک بار مرے یار
اک موج کہ کہتی ہے مرے یار مرے یار
ویرانئ گلشن پہ ہی معمور ہے موسم
مٹی سے نکلتے نہیں اشجار مرے یار
کیا خاک کسی غیر پہ دل کو ہو بھروسا
اپنے بھی ہوئے جاتے ہیں اغیار مرے یار
آخری نظم کہوں، مر جاؤں؟
زندگی تجھ سے بھی گزر جاؤں
خالی رستوں سے نہیں پوچھ سکی
آج آوارہ پھروں، گھر جاؤں؟
طول دینا بھی کیا فسانے کو
کر کے میں قصہ مختصر جاؤں
تُو مطمئن نہیں ہے پر ایسا ہوا تو ہے
اِک پودا ان زمینوں میں آخر اُگا تو ہے
فائل کے بوجھ سے ہی سہی مل رہے تو ہیں
دفتر کے کام سے ہی سہی، رابطہ تو ہے
گاؤں میں ہسپتال نہیں ہے، تو کیا ہوا
گاؤں میں سانس لینے کو تازہ ہوا تو ہے
اپنے پیکر میں شعاعوں کو سمو لے کوئی
زیست آنچل نہیں رنگوں میں بھگو لے کوئی
جاگتی آنکھیں شبِ ہجر میں تھک جائیں گی
اوڑھ کر یاد گئے وقت کی سو لے کوئی
کہہ رہی ہے یہ گھنی گھاس پہ گرتی شبنم
غم نکھر آئیں گے کچھ دیر تو رو لے کوئی
وہ اگر چاہیں تو بات کر سکتے ہیں
ساتھ جی سکتے ہیں، ساتھ مر سکتے ہیں
اپنے مرشد کی ہم چاہ میں ڈوب کر
زندگی تیری حد سے گزر سکتے ہیں
مجھ کو تو میری تنہائیاں کھا گئیں
تم اگر چاہو تو ہم سنور سکتے ہیں
مسنگ یو سو مچ
Missing You So Much
تمہاری باتیں
تمہاری ہنسی
اف، پاگل کر دینے والی
تم کیا فیض کے عشق سے کم ہو
سنو محبت فضول شے ہے
وہ آخری بار جب ملی تھی
تو کہہ رہی تھی
سنو! مرا رشتہ ہو رہا ہے
وہ ہنس رہی تھی
بتا رہی تھی کہ اب ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں ہے
سو، لوٹ جاؤ
غم کے سائے بڑھے آتے ہیں کسی قاتل کی طرح
درد میں ڈوبا ہوں میں کسی ساحل کی طرح
کوئی بھی ایسا نہیں جس کہہ سکیں حال دل ہم
آج اپنے ہی دور دیکھتے ہیں کسی منزل کی طرح
میرے مقدر میں بے بسی کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاتھ کی لکیریں پڑھتا ہوں کسی زائل کی طرح
حالِ مریضِ عشق ہے بیکار دیکھنا
جائے گا جان لے کے یہ آزار دیکھنا
تابِ نگاہِ طالبِ دیدار دیکھنا
پردہ اٹھا تو ہو گیا دشوار دیکھنا
بن کر غبارِ سایۂ دیوار اٹھ گیا
یا گر گئی وہ ریت کی دیوار دیکھنا
جب خیالوں میں تمہیں پاس بٹھاؤں اکثر
میر کے شعر ہوں لب پر، انہیں گاؤں اکثر
دفن کر کے سبھی وعدوں کو جہاں بچھڑے تھے
وہ شجر دیکھنے جاتی ہوں میں گاؤں اکثر
میں گِلہ کیسے کروں تم نے مجھے روندا ہے
اپنے سائے پہ آ جاتا ہے پاؤں اکثر
انجیر کے سفید رس سے لکھی گئی نظم
مجھے عورت کی کتنی ضرورت ہے
میں موت کو کہیں بہتر سمجھ اور دیکھ سکتا ہوں
میں جانتا ہوں کہ عورت کی لذت کیا ہے اور کتنے عرصے پر محیط ہے
مجھے معلوم ہے عورت جسم نہیں
مجھے عورت کے پہلو میں نہیں رہنا
مجھے دل کی دکاں کا مسئلہ ہے
تجھے سُود و زیاں کا مسئلہ ہے
تجھے تو مسئلہ ہے صرف میرا
مجھے سارے جہاں کا مسئلہ ہے
زمیں پر حل نہیں ہو گا کبھی بھی
محبت آسماں کا مسئلہ ہے💕
ٹھکانے لگنے کی میری لگن بھی آخری ہے
سفر بھی آخری ہے اور تھکن بھی آخری ہے
وہ شخص پہلے خدا کے نہ ہاتھ لگ جائے
زمیں پہ میں ہوں اور اس کا بدن بھی آخری ہے
میں ایسی بستی سے آیا ہوں خواب اٹھائے ہوئے
جہاں امید کی پہلی کرن بھی آخری ہے
خدا کا شوق، کسی کو بتوں کا شوق رہا
ہم آئینے تھے ہمیں پتھروں کا شوق رہا
گزرتی دیکھی تھیں خود پر قیامتیں کیا کیا
وہ دن بھی کیا تھے کہ اچھے دنوں کا شوق رہا
ہماری ہار کا تھا اک یہی تو المیہ
کہ جیت کر بھی ہمیں معرکوں کا شوق رہا
💢 اچھا ہوا کہ تُو مِری تقدیر میں نہیں
جو خواب میں کشش ہے وہ تعبیر میں نہیں
جنت ہے، میں ہوں، پیار ہے، تو دلبرا بتا
آخر وہ کیا ہے جو مِرے کشمیر میں نہیں
شاہوں کے چونچلے ہیں، دکھاوے کی بات ہے
ورنہ ہے عدل عدل میں، ⛓زنجیر میں نہیں
مضطرب دل کی کہانی اور ہے
کوئی لیکن اس کا ثانی اور ہے
اس کی آنکھیں دیکھ کر ہم پر کھلا
یہ شعورِ حکمرانی اور ہے
یہ جو قاتل ہیں انہیں کچھ مت کہو
اس ستم کا کوئی بانی اور ہے
اپاہج دنوں کی ندامت
کھڑکیاں کھول دو
ضبط کی کھڑکیاں کھول دو
میں کھِلوں جون کی دوپہر میں
دسمبر کی شب میں
سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھِلوں
گیت
مست ہوا، برباد ہوا، عشق کا کلمہ یاد ہوا
مست ہوا، برباد ہوا، عشق کا کلمہ یاد ہوا
عشق کا کلمہ یاد ہوا
سوٹ پہ لگ گیا ٹاٹ کا ٹکڑا، بوٹ کا تسمہ ٹوٹا
عشق نے ہی فنکار بنایا، عشق نے ہی مجھے لوٹا
دل کا ارمان سب نکل جائے
تیرے آنے سے دل بہل جائے
کہہ رہی ہے ہماری خاموشی
عشق کا اک چراغ جل جائے
اس سے پہلے کہ میں ہی مر جاؤں
یہ نہ دیکھوں کہ تو بدل جائے
حسین رُو سے نقاب کھینچوں،۔ غزل ہے کہنی
تمہاری آنکھوں کے خواب کھینچوں، غزل ہے کہنی
سوال تیرا مِری سمجھ سے ہے بالا تر، تو
ذرا سا ہنس میں جواب کھینچوں، غزل ہے کہنی
وہ لب کہ جس کے مرید سارے گلاب ٹھہرے
کہو تو اس لب سے آب کھینچوں، غزل ہے کہنی
میں سوچتی ہوں
میں سوچتی ہوں کہ ہاتھ تیرا
جو میرے ہاتھوں میں رہ گیا تو
میں زندگانی کی ڈائری سے
اذیتوں کے تمام صفحوں کو نوچ لوں گی
ہے میرا وعدہ کہ ہاتھ تیرا
جرم پہلے پسِ دیوار کیا جائے گا
بعد میں جرم کا اقرار کیا جائے گا
روزمرہ کے مسائل میں اضافہ کر کے
شہر کا شہر ہی بیمار کیا جائے گا
کس نے سوچا ہے کہاں جائیں گے بستی والے
جب درد و بام کو مسمار کیا جائے گا
جلتی شمعیں، روشن چہرے
برتھ ڈے شاعری
جلتی شمعیں، روشن چہرے
کامنی لڑیاں، نازک سہرے
نرگس، بیلہ، موتیا، لالہ
جُوہی، چمپا اور بنفشہ
ہر کوئی شاد ہے ناں
سورج کی گمشدگی کا اکیسواں دن ہے
تارا تارا ڈوبتی رات کی شریانوں میں
چند سسکتی آوازوں کا غول بھٹکتا پھرتا ہے
لمحہ لمحہ مرتے دن کے سرد بدن میں
نیلے ہاتھوں کے الجھاوے گونج رہے ہیں
بڑی سڑک پر
چوراہے میں
اکیلے رہنے کے اوقات بھی خراب ہوئے
الگ بھی ٹھیک نہ تھے ساتھ بھی خراب ہوئے
ستارے توڑ کے لایا تھا اس کو دینے کو★☆
اسے دئیے بھی نہیں ہاتھ بھی خراب ہوئے
محبت اوروں کی قسمت سنوار دیتی ہے💖
یہ کیا کہ میرے تو دن رات بھی خراب ہوئے
آدمی کے فرزندو
عورتوں سے خطرہ ہے؟
زندگی بھی عورت ہے
آگہی بھی عورت ہے
روشنی بھی عورت ہے
چاشنی بھی عورت ہے
یادوں کا شہرِ دل میں چراغاں نہیں رہا
کیا کوئی غم ہی شعلہ بداماں نہیں رہا
اب اعترافِ عہدِ وفور کر رہے ہیں وہ
جب اعتبارِ عمرِ گریزاں نہیں رہا
نکلے کچھ اور آبلہ پائی کی اب سبیل
صحرا میں کوئی خارِ مغیلاں نہیں رہا
روشنی تیری تھی جس نے رنگ سے چھانا مجھے
ورنہ کب قوسِ قزح کے بس میں تھا پانا مجھے
میں تلاوت کر رہا ہوں رحلِ نسیاں پر تمہیں
تم بھی تسبیحِ فراموشی پہ دہرانا مجھے
عہدِ رفتہ کے شکستہ عکس کی تکرار ہوں
تم سمجھ بیٹھے ہو کوئی آئینہ خانہ مجھے
خاک تھا، جزوِ خاکدان ہوا
وہ تخیل تھا، آسمان ہوا
پیدا ہوتے ہی ہو گیا بوڑھا
میرا بچپن کہاں جوان ہوا
درد، غم، خواب، آرزو، حسرت
سارا میرا ہی خاندان ہوا
عجب سی اک مصیبت ہو گئی ہے
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
قدم رکھا ہے جب سے عشق نگری
ہمیں رونے کی عادت ہو گئی ہے
نہیں سنتا ہے یہ دل اب ہماری
اسے اب تیری عادت ہو گئی ہے
لفظ یوں خامشی سے لڑتے ہیں
جس طرح غم ہنسی سے لڑتے ہیں
جانور جانور سے لڑتا ہے
آدمی آدمی سے لڑتے ہیں
موت کی آرزو میں دیوانے
عمر بھر زندگی سے لڑتے ہیں
ہر فرد کہانی میں فسانے کے لیے ہے
ہر چیز زمانے میں سکھانے کے لیے ہے
ممکن تھا کہاں رہتا ادھورا سا یہ جذبہ
یہ درد مرا درد بڑھانے کے لیے ہے
اے دل! ترے آئینے میں رہتی ہے ہنسی جو
وہ صرف زمانے کو دِکھانے کے لیے ہے
احساس محبت کا میری ذات پہ رکھ دو
تم ایسا کرو ہاتھ میرے ہاتھ پہ رکھ دو
معلوم ہے، دھڑکن کا تقاضا بهی ہے لیکن
یہ بات کسی خاص ملاقات پہ رکھ دو
یوں پیار سے ملنا بهی مناسب نہیں لگتا
یہ خواب کا قصہ ہے اسے رات پہ رکھ دو
کتنے دریا بہائے آنکھوں نے
غم تو پھر بھی چھپائے آنکھوں نے
مر گئے تھے جو خواب پلکوں پر
ہیں جنازے اٹھائے آنکھوں نے
تیری نفرت بجھا نہیں سکتی
جو دیے تھے جلائے آنکھوں نے
میرے پہلو کا فسوں ڈھونڈ رہا ہے صحرا
آنکھ میں سوزِ جنوں ہونے لگا ہے گہرا
شعر کی وجہ بنا جاتا ہے چہرہ اس کا
اس کے ابرو پہ لغت کرتی ہے محشر برپا
میرے آنچل پہ رکی رہتی ہے خوشبو اس کی
کون کہتا ہے کہ میں رہتی ہوں اکثر تنہا
اک پیڑ پینٹ کر کے مصور جو تھک گیا
پنچھی تخیلات کی نس میں اٹک گیا
پیتا تھا گھول گھول کے الفاظِ شاعری
جب چڑھ گئی تو صاحبِ دیواں بہک گیا
مدت کے بعد نیند کی ٹہنی ہوئی نصیب
اتنے میں تیری یاد کا پنچھی چہک گیا
دن آغاز ہوا
دن آغاز ہُوا
اک آوارہ دن آغاز ہوا
اک آوارہ پت جھڑ جیسا دن آغاز ہوا
لان میں دبکے، میپل کے بوسیدہ پتے اپنی مُٹھی کھولتے ہیں
جانے، کون زبان میں یہ کیا بولتے ہیں؟
بجھے ہیں سب جلا کوئی نہیں ہے
اندھیرے میں دِیا کوئی نہیں ہے
یہ کیسے زخمِ دل ہیں ہجرتوں کے
ادھڑتے ہیں، سِلا کوئی نہیں ہے
بہت جی چاہتا ہے لَوٹنے کو
مگر اب راستہ کوئی نہیں ہے
قلم پھر سے اٹھا کر رکھ دیا ہے
کسی غم نے رُلا کر رکھ دیا ہے
یہ میری زیست میں کیا موڑ آیا
کہ اندر تک ہلا کر رکھ دیا ہے
کوئی خاکہ تری تصویر جیسا
بنایا تھا، بنا کر رکھ دیا ہے
ہے محبت تو میاں ذات کو مت دیکھا کر
ہم تباہ حالوں کی اوقات کو مت دیکھا کر
تُو اگر خوش ہے، تو دل توڑ دیا کر میرا
تُو مرے درد کو، صدمات کو مت دیکھا کر
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی یہ تری دلگیری
اے نجومی! تُو مرے ہاتھ کو مت دیکھا کر
ابھی جو زخم تازہ ہیں وہ بھر جائیں تو سوچیں گے
دوبارہ کب اجڑنا ہے، سنور جائیں تو سوچیں گے
یہ پربت، آسماں، صحرا، سمندر عشق کروانے
ہمیں لے کر محبت کے نگر جائیں تو سوچیں گے
غمِ دنیا! ذرا سا صبر، تیرے واسطے بھی کچھ
غمِ جاناں سے پہلے ہم ابھر جائیں تو سوچیں گے
معصوم تھا نہ وقفِ سجود و دعا تھا میں
خوبی مری یہی تھی کہ اہلِ خطا تھا میں
اب تک میں اپنی ذات کے پنجرے میں بند ہوں
پل بھر کو تیری یاد سے غافل ہوا تھا میں
ابلیس ہے مِرے لیے اک امتحاں تو کیا
ابلیس کے لیے بھی تو ایک ابتلا تھا میں
عجیب حال ہے، سو سو کے دن بِتاتا ہوں
اندھیری رات میں سورج سے ملنے جاتا ہوں
مرا وجود کسی دوسرے کا مسکن ہے
میں تیسرے کے تصور سے کانپ جاتا ہوں
تلاشنے کیلئے تجھ میں اپنی ذات کا عکس
انا پرست تجھے آئینہ ⌗ بناتا ہوں
ڈھل جاتی ہے الفاظ میں تاثیر ہوا کی
فنکار بنا لیتا ہے تصویر ہوا کی
ہم ریت پہ کرتے رہے تعمیر گھروندے
بن بن کے بگڑتی رہی تعمیر ہوا کی
پڑھنے کا سلیقہ ہو تو پڑھ لیتے ہیں کچھ لوگ
پانی پہ بھی لکھی ہوئی تحریر ہوا کی
ہر طرف برپا ہے اک شور قیامت دیکھئے
حاکم دوراں کا یہ طرز حکومت دیکھئے
موم ہوں پر کر رہا ہوں چڑھتے سورج سے میں جنگ
میری ہمت دیکھئے، میری شجاعت دیکھئے
روز کرتے ہیں نمک پاشی مرے زخموں پہ وہ
مہربانوں کا یہ اندازِ عنایت دیکھئے
جو رخ سے پردہ ہٹاؤ تو کوئی بات بنے
ہمیں بھی جلوہ دکھاؤ تو کوئی بات بنے
ہمارے سامنے آؤ تو کوئی بات بنے
ہمارے ہوش اڑاؤ تو کوئی بات بنے
سنا ہے طور پر موسٰی گرے تھے سجدے میں
ہمیں بھی سجدہ کراؤ تو کوئی بات بنے
اپنی ہی ذات سے نکل آئے
جو تری بات سے نکل آئے
ایک سورج سے دوستی کیلئے
ہم سیہ رات سے نکل آئے
ہم نے خوشیوں کا ماتھا کیا چوما
دل کے صدمات سے نکل آئے
دیوار نے جو آپ کو رستہ نہیں دیا
کیا آپ نے ہمارا حوالہ نہیں دیا؟
یہ ہجر میں نے اپنے ہی ہاتھوں کمایا ہے
میں نے تمہارے وصل کا صدقہ نہیں دیا
یادوں کی دھوپ زندگی کی شام تک رہی
اس ہجر نامی پیڑ نے سایہ نہیں دیا
مالِ دنیا تلاش کرنا ہے
یعنی رتبہ تلاش کرنا ہے
آج انساں کو تپتے صحرا میں
بہتا دریا تلاش کرنا ہے
تُو کنواری ہے کب سے اے دنیا
تیرا رشتہ تلاش کرنا ہے
دل کا موسم زرد ہو تو، کچھ بھلا لگتا نہیں
کوئی منظر، کوئی چہرہ، خوش نما لگتا نہیں
دھندلے دھندلے، اجنبی سے لوگ آتے ہیں نظر
مدتوں کا آشنا بھی، آشنا لگتا نہیں
سخت مشکل ہو گیا ہے امتیازِ خوب و زشت
پھول سی پوشاک میں بد خُو برا لگتا نہیں
ہزل
پڑے ہیں تھپڑ کے ساتھ جوتے بہت زیادہ بِلا ارادہ
کیا ہے رانجھے نے عقدِ ثانی کا جب ارادہ بلا ارادہ
طلب کیا دے کے دھمکیاں آج اس کی بیگم نے سوٹ چونکہ
تبھی ملاتا ہے لال مرچوں میں وہ بُرادہ بلا ارادہ
نہ پوچھ تعداد بالکوں کی، نواسیاں جس کی ہیں نواسی
پچاس پوتوں کا بن گیا ہے وہ آج دادا بلا ارادہ
زندگی فقط دو بوسے
زندگی
فقط محبت بھرے دو بوسے
ایک آتے ہوئے
ایک جاتے ہوئے
نگہت نسیم
نیند پلکوں پہ یوں رکھی سی ہے
آنکھ جیسے ابھی لگی سی ہے
اپنے لوگوں کا ایک میلہ ہے
اپنے پن کی یہاں کمی سی ہے
خوب صورت ہے صرف باہر سے
یہ عمارت بھی آدمی سی ہے
جواب ایسا مری باتوں پہ کامل بھیج دیتا ہے
وہ منہ سے کچھ نہیں کہتا مگر دل بھیج دیتا ہے
چھپا لیتا ہے دریا کو مہارت سے وہ دامن میں
مجھے وہ خشک آنکھوں ہی کا ساحل بھیج دیتا ہے
لڑوں گا اب محبت میں اسے بس مات دینے تک
کمک دشمن کو میداں میں وہ بزدل بھیج دیتا ہے
سخن میں جو روانی ہو گئی ہے
خدا کی مہربانی ہو گئی ہے
جو تیرے واسطے لکھی گئی تھی
وہی میری کہانی ہو گئی ہے
نیا الزام رکھ دو آدمی پر
“یہ دنیا اب پرانی ہو گئی ہے”
تصورِِ کہکشاں ہوتا نہیں ہے
تُو اب مجھ سے بیاں ہوتا نہیں ہے
تڑپ میری جبیں کی بڑھ گئی ہے
مگر، تُو آستاں ہوتا نہیں ہے
مِری قسمت میں ہے جلتا ستارہ
بکھر کے جو دھواں ہوتا نہیں ہے
اپنی آنکھوں میں حسیں خواب سجائے کچھ دن
خود فریبی میں سہی، ہم نے بِتائے کچھ دن
اس کی قربت سے مہکنے لگیں سانسیں میری
خواب جینے کے مجھے اس نے دکھائے کچھ دن
زندگی ساتھ گزر جاتی تو اچھا ہوتا
شکریہ، جتنے مرے ناز اٹھائے کچھ دن
ایسا نہیں کہ شہر میں چرچے نہیں رہے
اکثر ہمارے جاننے والے نہیں رہے
اک میں ہی اپنے آپ میں تنہا نہیں ہوئی
کتنے ہی گھر ہیں ساتھ جو بستے نہیں رہے
کاٹے شبِ فراق میں ایسے بھی رتجگے
پھر اس کے بعد آنکھ میں سپنے نہیں رہے
نئی راہ پر چلنے گھبرا رہے ہیں
ہے نادان پر عشق فرما رہے ہیں
حیا رفتہ رفتہ نکلنے لگی ہے
وہ بیباک ہوکر ملے جا رہے ہیں
محبت بری ہے یہ سمجھانے والے
ہمیں کر کے تاکید کیا پا رہے ہیں
خالی دن ڈھونڈتا ہوں
جس پر کوئی حاشیہ نہ ہو
تا کہ اس دن میں جی سکوں
پر اب دھیرے دھیرے
کلینڈر کے سارے دن
سیاہ حاشیوں کی زد میں ہیں
خیالِ یار میں جو دربدر نہیں ہوئے ہیں
یقین مانئیے وہ با ہنر نہیں ہوئے ہیں
ہمیں دعاؤں کے کاسے میں جان ڈالنی ہے
ہمارے درد ابھی معتبر نہیں ہوئے ہیں
پرائے لفظ کو ماتھے پہ لکھ دیا گیا ہے
کہ بیٹیوں کے یہاں کوئی گھر نہیں ہوئے ہیں
تری باتوں میں چکنائی بہت ہے
کہ کم ہے دودھ بالائی بہت ہے
پولس کیوں آپ منگوانے لگے ہیں
مجھے تو آپ کا بھائی بہت ہے
محبت کیوں محلے بھر سے کر لیں
ہمیں تو ایک ہمسائی بہت ہے
جو ترے شہر میں آیا ہے اُسے راضی کر
جس نے کشکول اٹھایا ہے اسے راضی کر
جو تری بزم سے جاتا ہے اسے جانے دے
جو تری بزم میں آیا ہے اسے راضی کر
تجھ پہ جادو ہے، نہ آسیب، نہ سایہ کوئی
جس گداگر کو رلایا ہے اسے راضی کر
گھر کی، آنگن کی ہیں دلکشی بیٹیاں
میری آنکھوں کی ہیں روشنی بیٹیاں
شام کو جب تھکا ماندہ آتا ہوں گھر
بن کے ملتی ہیں آسودگی بیٹیاں
جب مصیبت کی آتی ہے کوئی گھڑی
پیار سے کرتی ہیں دل دہی بیٹیاں
پیغام موت کا کہیں جانے میں جا بجا
خوف و ہراس پهیلا زمانے میں جا بجا
میزان کر کے دیکها تو معلوم یہ ہوا
نقصان ہى رہا جى لگانے میں جا بجا
تُو دیکھ پڑھ کے اپنا فسانہ حیات کا
موجود ہوں میں تیرے فسانے میں جا بجا
سلنڈر
نہیں یہ میں نہیں ہوں
میں بہت ہی خوبصورت تھی
مرے بابا مجھے گڑیا بلاتے تھے
مری امی مجھے جب ڈانٹ بھی دیتیں
تو سینے سے لگا کر گال میرے چوم لیتی تھیں
سوچ کے دائروں میں رہتا ہے
وہ میرے حافظوں میں رہتا ہے
یہ جو تارہ ہے میری چاہت کا
ہر گھڑی گردشوں میں رہتا ہے
لفظ میرا بنا کے چاند اسے
اس کے ہی زاویوں میں رہتا ہے
عشق کے پنپنے کو فاصلہ ضروری ہے
ساز کے دھڑکنے کو واقعہ ضروری ہے
ہر جدائی کے پیچھے کوئی راز ہوتا ہے
خواب کے بکھرنے کو وسوسہ ضروری ہے
بات ٹوٹ جاتی ہے بات کو بنانے میں
بات کو بنانے میں حوصلہ ضروری ہے
دل سا یہ آبگینہ چھپاتے کہاں کہاں
آئینہ پتھروں سے بچاتے کہاں کہاں
پہلے ہی دلگرفتہ تھے کچھ اور ہو گئے
ہم تھے شکستہ دل سو نبھاتے کہاں کہاں
اپنی ہر اک خوشی تو فراموش کر چکے
قسمت کی یہ لکیر مٹاتے کہاں کہاں؟
میری تنہائی مرے ساتھ سفر کرتی ہے
کتنے ٹکڑوں میں مری ذات سفر کرتی ہے
آنکھ میں آئے ہوئے اشک کہاں رکتے ہیں
رات بھر درد کی بارات سفر کرتی ہے
اڑنے لگتے ہیں اندھیرے میں کئی جگنو بھی
میرے ہمراہ جو برسات سفر کرتی ہے
جاگتی آنکھوں میں سپنا چاہیئے
زندگی میں ایک اپنا چاہیئے
تشنگی اپنے بجھا سکتا نہیں
اے سمندر تجھ کو دریا چاہیئے
چاند تارے کچھ نہیں میرے لیے
بس تمہارا ساتھ ہونا چاہیئے
اک بحث چل رہی تھی فقیروں کے درمیاں
ہم رہ گئے الجھ کے لکیروں کے درمیاں
کہتا تھا جو تمہارے میں سر کا ہوں سائباں
اس نے بھی گھر بسایا جزیروں کے درمیاں
کوئی ہے پیٹھ پر، کوئی سر پر سوار ہے
میں پھس کے رہ گیا ہوں شریروں کے درمیاں
ہماری آنکھوں سے تیرے غم جب بہا کریں گے
ہمارے حق میں یہ چاند تارے دعا کریں گے
چلے گئے ہو تو یہ نہ سمجھو کہ بھولنا ہے
تمہی کو چاہیں گے، اور رستہ تکا کریں گے
تمہاری خواہش پہ چھوڑ دیں گے طلب تمہاری
کہا یہ کس نے؟ تمہیں ہم ایسے خفا کریں گے
ماہ رو، ماہ تاب شہزادی
تیرے لب ہیں گلاب شہزادی
میری ہر بات پر ادب سے جھکے
اور کہے، جی جناب! شہزادی
سنگ ہو جائیں لوگ حیرت سے
ہو اگر بے حجاب شہزادی
زیست عنوان تیرے ہونے کا
دل کو ایمان تیرے ہونے کا
مجھ کو ہر سمت لے کے جاتا ہے
ایک امکان تیرے ہونے کا
آنکھ منظر بناتی رہتی ہے
یعنی سامان تیرے ہونے کا
محبت
ابھی تو
عمر شروع ہوئی ہے
جو گزر گئی
وہ
ہم دونوں کی نہیں تھی
دشمنی لے لوں گا، غدار نہیں ہو سکتا
یار! شاعر ہوں، اداکار نہیں ہو سکتا
تجھ سے سینے پہ اگر وار نہیں ہو سکتا
تُو میری فوج کا سالار نہیں ہو سکتا
ہر کوئی دل کا طلبگار تو ہو سکتا ہے
ہاں، مگر ہر کوئی حقدار نہیں ہو سکتا
تم نے عشق میں دھوکہ کھایا؟
ہم نے بھی کچھ ایسا کھایا
مزدوروں نے مٹی چاٹی
مہنگائی نے آٹا کھایا
دودھ نہیں رکھا تھا میں نے
سانپ نے اپنا انڈا کھایا
دشتِ دل میں سراب کی صورت
وہ ہے آنکھوں میں خواب کی صورت
کچھ نے رحمت خدا کی سمجھا ہے
کچھ نے جانا عذاب کی صورت
میری چاہت کے آسماں پر وہ
چمکا اک ماہتاب کی صورت
مجھے معاف کریں حاضرین اب نہیں ہے
کسی کی بات پہ مجھ کو یقین اب نہیں ہے
تری حسین تصاویر تھیں کبھی جس میں
وہ میرے دل پہ چھپا میگزین اب نہیں ہے
وہ نرم لہجہ، نزاکت، وہ بانکپن، وہ خیال
غزل کو چاہیے جیسی زمین اب نہیں ہے
کچھ سال اپنے آپ میں کھونے کا غم کیا
باقی تمام عمر نہ ہونے کا غم کیا
چاروں طرف سے ہو گیا گھیرا جو تنگ پھر
لگ کر بدن سے روح نے سونے کا غم کیا
میں ہنس پڑا جو وقت سے پہلے ہی ایک لاش
دفنائی، اور ہم نے یوں کھونے کا غم کیا
یہی تو بار ہا میں نے کہا ہے
اسی پر کر قناعت جو ملا ہے
کرو امداد اس کی اب تو لوگو
مسافر راستہ میں جو پھنسا ہے
مسافر ہوشیاری سے چلیں اب
ابھی اک قافلہ میرا لُٹا ہے
درد، تنہائی، تڑپ، آہ و بکا دے کر گیا
زندگی بھر کیلئے اک مسئلہ دے کرگیا
اشتہارِ خفتگی لٹکا ہوا ہے بام پر
کیا امیرِ شہر تھا کیا حوصلہ دے کر گیا
اور جب آیا تو دستک کے بِنا داخل ہوا
روح اور خاکی بدن کو فاصلہ دے کر گیا
محبت کے لیے تو سلسلہ ہونا ضروری ہے
مُکرنے کے لیے بس حوصلہ ہونا ضروری ہے
ہوائیں زہر آلودہ ہوئی ہیں شہر کی اتنی
کہ ملتے وقت بھی کچھ فاصلہ ہونا ضروری ہے
یقیناً زندگی مشکل سفر ہے، آج جانا ہے
یہاں ہر موڑ پر اک حادثہ ہونا ضروری ہے
محبتوں میں گرفتار کر کے چھوڑے گا
مجھے وہ اپنا پرستار کر کے چھوڑے گا
گلے لگائے گا ہنس کر یہ اس کی فطرت ہے
پھر اپنے ہجر میں بیمار کر کے چھوڑے گا
سجا کے پھرتا ہے کاجل حسین آنکھوں میں
جگر سے تیر نیا پار کر کےچھوڑے گا
ضبطِ غم آج یوں کِیا جائے
آؤ، تھوڑا سا ہنس لیا جائے
وقت نے فیصلہ سنایا ہے
ایک دُوجے کے بِن جیا جائے
دل کے زخموں کی بات ہے ہی نہیں
روح زخمی ہے کیا کیا جائے؟
تمہاری دِید کا موسم نہیں ہے
یہ صدمہ بھی تو کوئی کم نہیں ہے
ہوا سے اڑ رہے ہیں میرے گیسُو
مِری زلفوں میں کوئی خم نہیں ہے
نہیں مِل پائے گا تجھ جیسا ہم کو
ہجومِ خلق گرچہ کم نہیں ہے
جہانِ فانی میں لے کے خوشیاں ادھار بیٹھے تو کیا کرو گے
جو دل لگا کر یہاں پہ کھیلو گے، ہار بیٹھے تو کیا کرو گے
تمہیں یہ جیون گزارنے کا حساب دینا ضرور ہو گا
جو ایسے ویسے ہی زندگی تم گزار بیٹھے تو کیا کرو گے
نہیں ہے کچھ بھی سوائے اس کے انہیں فقط یاد کر رہے ہیں
یہ یاد کرنے کی گر وہ عادت سُدھار بیٹھے تو کیا کرو گے
طے ہوا تھا کہ ہجر جھیلوں میں
اس کھلونے سے کھیلوں شیلوں میں
بھوک تو ختم ہونے والی نہیں
روٹیاں اور کتنی بیلوں میں
اور تو کوئی کام شام نہیں
چھت پہ کوّوں کو ہی غلیلوں میں
زندگی درد بھی ہے سوز بھی ہے ساز بھی ہے
دلربا ہے یہ کبھی نازشِ انداز بھی ہے
شور ماتم ہے کہیں شورشِ وحشت ہے کہیں
خاموشی میں یہ سسکتی ہوئی آواز بھی ہے
بال و پر ہو کے بھی رہتی ہے کہیں پر مجبور
اور کہیں جستجوئے قوتِ پرواز بھی ہے
جب چشم اشتیاق سے پردا کرے کوئی
اے شوقِ دید تُو ہی بتا کیا کرے کوئی
اک ایک موئے تن ہے زبانِ کرم طلب
کیا بندوبستِ جوشِ تمنا کرے کوئی
میں سر سے پاؤں تک ہوں سراپائے آرزو
وہ شکل ہو گئی ہے کہ دیکھا کرے کوئی
بدلنے والی ہے فضا اے دل کچھ اور دیر رُک
ہے شب کا آخری پہر اندھیرے ہوں گے زیر رک
جہانِ دل پہ روشنی بکھیرنے کے واسطے
وہ ماہتاب آئے گا ابھی نظر نہ پھیر رک
ابھی ابھی ہوا ہے عشق ابھی سے کیوں ہے مضطرب
لگے گا تیری زندگی میں بھی غموں کا ڈھیر رک
داغ چہرے کا یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے
آئینہ ضد میں مگر توڑ دیا جاتا ہے
تیری شہرت کے پسِ پردہ میرا نام بھی ہے
تیری لغزش سے مجھے جوڑ بھی دیا جاتا ہے
کوئی کردار ادا کرتا ہے قیمت اس کی
جب کہانی کو نیا ↯ موڑ دیا جاتا ہے
چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے
تجھ کو دیکھا ہے تو تجھ سا نہیں دیکھا میں نے
حادثہ جو بھی ہو چپ چاپ گزر جاتا ہے
دل سے اچھا کوئی رستہ نہیں دیکھا میں نے
پھر دریچے سے وہ خوشبو نہیں پہنچی مجھ تک
پھر وہ موسم کبھی دل کا نہیں دیکھا میں نے
سخنوری کے کسی بھنور میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
حقیقتوں کے مہاں سفر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
وہ ریل گاڑی، وہ پٹڑیوں کی صدائیں مجھ کو بتا رہی ہیں
کہ اب بچھرنے کے بعد گھر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
لگے گی آواز تو محبت کے سب دریچے کھلے ملیں گے
مگر یہ غم ہے کہ اب نظر میں نہ تُو رہے گی نہ میں رہوں گا
جانا چاہو تو کس نے روکا ہے
بِن مرے جی سکو گے، اچھا ہے
جب سے اس نے کہا خدا حافظ
تب سے سب کچھ دھواں دھواں سا ہے
آپ سے دھڑکنوں کی رونق ہے
دل مجھے آپ جیسا لگتا ہے
جب ترے ہجر کے آثار نظر آتے ہیں
مجھ کو پھولوں میں بھی پھر خار نظر آتے ہیں
موند لیں اس لیے بربادی پہ آنکھیں میں نے
میرے اپنے ہی ذمے دار نظر آتے ہیں
یا وہی بغض وہی کینہ وہی نفرت ہے
یا محبت کے بھی آثار نظر آتے ہیں
میرے ساحر کیا مجھے یاد کیا تھا
جی چاہتا ہے کہ
سرد موسم کی
سبز بارشوں میں
مورنی بن کے ناچوں
اور
طیور گائیں غزل موسمِ بہار آئے
دیارِ خانہ بدوشاں جو شہریار آئے
تمہارا ثانی و ہمسر کوئی نہیں یارم
ہمارے جیسے قلندر کئی ہزار آئے
تمہارے سوختہ جانوں کے تن بدن پر تھے
دماغ بار، سو آشفتگاں اتار آئے
سر کٹا کر صفتِ شمع جو مر جاتے ہیں
نام روشن وہی آفاق میں کر جاتے ہیں
لاکھوں کا خون بہائیں گے وہ جب ہونگے جواں
جو لڑکپن میں لہو دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
جنبشِ تیغِ نِگہ کی نہیں حاجت اصلاً
کام میرا وہ اشاروں ہی میں کر جاتے ہیں
سنو
اب لوٹ آؤ تم
وہ دیکھو تاروں کے جھرمٹ میں
چاند کتنا تنہا ہے
میں بھی تو تنہا ہوں
بہت لوگوں کے جھرمٹ میں
میری نظریں تمہیں ہی ڈھونڈتی ہیں
تعاقب
پھر مرے تعاقب میں
اک اداس سا چہرہ
زخم زخم یادوں کے جبر کی ردا اوڑھے
ہجر کی تمازت میں
وصل کی مسافت میں
اک شہر و حسن ناز معطر نفس اداس
ساعت اگر ہوئے تو رہوں میں برس اداس
اے باعثِ نشاط! خبر ہے کہ تیرے بعد
ہر بام و در اداس ہے، ہر خاص و خس اداس
کس خوش سلیقگی سے چھپا کر غمِ عظیم
بولی وہ، میں اداس ہوں کچھ، یونہی بس اداس
گھُپ خاموشی جیسے قبرستان میں ہوں
کیا میں زندہ لاشوں کے استھان میں ہوں
رات ڈھلے ویرانی ملنے آتی ہے
جانتی ہے میں اس کے عقدِ امان میں ہوں
سرد ہوائیں، یاد اس کی، بپھرا موسم
وحشتِ زیست بتا میں کس کے دھیان میں ہوں
انتظار
مجھے یقین ہے
مرنے کے بعد
میں
ایسے جہاں کی طرف
عازم سفر ہو جاؤں گی
دشت در دشت سرابوں میں تری صورت ہے
باغ در باغ گلابوں🎕 میں تری صورت ہے
زیست کے باب سبھی پڑھ کے بھلا دیتے مگر
حرف در حرف کتابوں میں تری صورت ہے
ہے سوالوں میں الجھنا بھی بہت لطفِ کرم
نکتہ در نکتہ جوابوں میں تری صورت ہے
بکھرے پڑے ہوئے ہیں جو لمحے اِدھر اُدھر
تسبیحِ وقت کے ہیں یہ دانے ادھر ادھر
شاید ہمارا عکس نہیں ہے وجود میں
ہیں اس لیے وجود کے حصے ادھر ادھر
واللہ! تیری آنکھ میں حیرت کو دیکھ کر
پھیلے ہوئے ہیں چار سُو شیشے ادھر ادھر
ہر اذیت سے گزارے ہوئے لوگ
ہم ترے ہجر کے مارے ہوئے لوگ
کتنی جلدی ہمہیں دل سے اتارا
کتنی جلدی تمہیں پیارے ہوئے لوگ
راس آتی نہیں کوئی بھی شے
ہم ترے عشق پہ وارے ہوئے لوگ
زمانہ اس گھڑی نظروں پہ آشکار ہوا
جو کھیل گھر کا تھا پبلک میں اشتہار ہوا
چلی تھی اسکی نمائش بھی دھوم دھام کے ساتھ
جو تیرے ہاتھ کا مقبول شاہکار ہوا
میں گفتگو کے مراحل سے تو نکل آئی
الجھ کے دل تری باتوں میں تار تار ہوا
رہ جنوں میں کبھی کامیاب ہم بھی تھے
کبھی حوالۂ دشت و سراب ہم بھی تھے
تِری نگاہ نے گوہر بنا دیا، ورنہ
حصار موج میں مثل حباب ہم بھی تھے
جنوں نے ہم کو بھی بخشی تھی شان دربدری
جہان فکر میں خانہ خراب ہم بھی تھے
سم قاتل
حنا آلود ہاتھوں سے
بلا فکر و تردد
میرے ساغر میں بھرا کیجے
کہ میں اک زندگی بیزار انسان
ساقن اعلیٰ
مرگ محبت
اب کیا
دعوئ محبت ہو
کل رات اچانک
ترا نام
تری تصویر
سامنے آ گئی
اگر تم نظم ہوتے تو
اگر تم نظم ہوتے تو
تمہیں کتنی حسینائیں
محبت کے قلم سے اپنے دل پہ نقش کر لیتیں
تمہارا ترجمہ
کتنی زبانوں میں ہوا ہوتا
قلب وحشت سے بھر گیا شاید
خواب آنکھوں میں مر گیا شاید
تیری نظروں سے کیا اترنا تھا
سب کے دل سے اتر گیا شاید
آئینے نے نظر جھکا لی ہے
میری حالت سے ڈر گیا شاید
ہر ظلم ترا یاد ہے، بھُولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کےہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
مریخ و ماہتاب نہیں چاہیئے مجھے
تم آسماں طلب ہو زمیں چاہیئے مجھے
پھرتا ہوں کب سے گھر کا اثاثہ لیے ہوئے
ملتا نہیں ہے جیسا امیں چاہیئے مجھے
قصرِ بسیط دل کی طلب ہے ہوا کرے
میں جانتا ہوں کتی زمیں چاہیئے مجھے
آئیے تو روایتاً ہی سہی
بات کیجے شکایتاً ہی سہی
فطرتاً آپ خوش مزاج بجا
مسکرائیں کفایتاً ہی سہی
عادَتاً آپ مسکرائے، مگر
چلیے ہم سے عنایتاً ہی سہی
دیکھیے حسن عادتاً ہی سہی
آئینے میں رِوایتاً ہی سہی
آنکھ کے آبشار میں کب تک
میں رہوں دوست نفرتاً ہی سہی
دوش سارا ہے تیری آنکھوں کا
قتل کرتی ہے جدتاً ہی سہی
بوریت
(امید علی کی اطالوی شاعری کا اردو ترجمہ)
میں اپنی زندگی بیچ رہا ہوں
ایک اداس معاشرے میں
جہاں سورج کا کوئی رنگ نہیں
پھولوں میں خوشبو نہیں
اور لوگوں کا دل نہیں
صاف کپڑے
(امید علی کی اطالوی شاعری کا اردو ترجمہ)
میں ہمیشہ صاف کپڑے پہنتا ہوں
چاہے وہ پیوند زدہ کیوں نہ ہوں
میری خواہشوں کی طرح
امید علی