Sunday, 31 January 2021

ملبہ ہٹا کے آنکھ کی کرچی اٹھائی تھی

 ملبہ ہٹا کے آنکھ کی کرچی اٹھائی تھی

دیوارِ خواب نیند نے تِرچھی اٹھائی تھی

ردِ دعا کا نصف اثاثہ تمہارے نام

تم نے بھی میرے ساتھ ہتھیلی اٹھائی تھی

ہاتھوں کو دل نے خون کی ترسیل روک دی

میں نے تمہاری یاد پہ انگلی اٹھائی تھی

شروع کارِ محبت تو کر کہیں سے بھی

 شروع کارِ محبت تو کر کہیں سے بھی

کہ میرا کام چلے گا تِری نہیں سے بھی

یہاں کسی نے بھی مجھ کو گلے لگایا نہیں

مکان سے بھی گِلہ ہے مجھے مکیں سے بھی

اب ان کو تیسرا رستا کوئی دیا جائے

یہ لوگ تنگ ہیں دنیا سے اور دِیں سے بھی

مری بیاض کو شعروں سے تم سجا دینا

 مِری بیاض کو شعروں سے تم سجا دینا

میں ایک وہم ہوں مجھ کو یقیں بنا دینا

بنا کے کوئی کہانی ہماری ہستی کی

ندی میں کاغذی کشتی کوئی بہا دینا

بہت سنبھال کے رکھا ہے میں نے پھولوں کو

جو ہو سکے انہیں گلدان میں سجا دینا

کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے

 کیا بتائیں غمِ فرقت میں کہاں سے گزرے

موسمِ گل سے جو نکلے تو خزاں سے گزرے

دل سے آنکھوں سے مکینوں سے مکاں سے گزرے

درد پھر درد ہے جب چاہے جہاں سے گزرے

حسن کی شوخ سری کا یہی حاصل نکلا

آتش عشق بڑھی آہ و فغاں سے گزرے

پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہو گی

 پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہو گی 

ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہو گی 

وقت الفاظ کا مفہوم بدل دیتا ہے 

دیکھتے دیکھتے ہر بات پرانی ہو گی 

کر گئی جو مِری پلکوں کے ستارے روشن 

وہ بکھرتے ہوئے سورج کی نشانی ہو گی 

نئی ہوا میں کوئی رنگ کائنات میں گم

 نئی ہوا میں کوئی رنگ کائنات میں گم

ہوا ہے سارا زمانہ تصنعات میں گم

گلے کا ہار کہیں بن نہ جائے محرومی

نہ ہونا بھول کے حسن تکلفات میں گم

کسی بھی شخص پہ اس کو ترس نہیں آتا 

امیر شہر ہوا ہے یہ کن صفات میں گم

کہیں بھی راہ نما اب نظر نہیں آتا 

حسرت دید میں عالم ہے یہ دیوانے کا

 حسرتِ دید میں عالم ہے یہ دیوانے کا

رخ ہے کعبہ کے طرف قصد ہے بُتخانے کا

بھا گیا مجھ کو سماں اس لیے ویرانے کا

ہے یہ خاکہ مِرے اجڑے ہوئے کاشانے کا

ذرہ ذرہ ہے مِرے حال پہ حسرت بکنار

یہ نتیجہ ہے مِرے عشق کے افسانے کا

اڑے تھے ذرے مگر آسمان تک نہ گئے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


اڑے تھے ذرے مگر آسمان تک نہ گئے

مِرے مبالغے بھی ان کی شان تک نہ گئے

سوائے نعتِ شہِ دو سراﷺ زمانے سے

کسی کے شعر بھی اگلے جہان تک نہ گئے

خوشا وہ گرد جو نعلینِ پا کو چھوتی تھی

خوشا وہ سنگ کہ جس سے نشان تک نہ گئے

ظلمت جبر مٹے ظلم کا شیشہ پھوٹے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


 ظلمتِ جبر مِٹے، ظلم کا شیشہ پھُوٹے

اُن کی ہر بات سے رحمت کا اجالا پھوٹے

ذکر سے اُن کے معطر ہو مشامِ ایماں

ہر گلِ نعت سے خوشبوئے دل آرا پھوٹے

شجرِ دل پہ لگیں جس سے تجلّی کے ثمر

اتباعِ شہِ خوبیاں سے وہ دھارا پھوٹے

Saturday, 30 January 2021

آ بھی جا رت بدل جائے گی

 آ بھی جا رُت بدل جائے گی

چاندنی رات ڈھل جائے گی

رُخ سے پردہ ہٹا لیجیے

میری حسرت نکل جائے گی

اُن کو لے آؤ چارہ گرو

میری حالت سنبھل جائے گی

تجھ کو اب اور تماشا نہ بنانے دیں گے

 تجھ کو اب اور تماشا نہ بنانے دیں گے 

تو اگر چھوڑ کے جائے گا تو جانے دیں گے 

اب اگر لوٹ کے آیا بھی تو یہ یاد رہے 

پھر نہ ساون نہ دسمبر نہ زمانے دیں گے 

زندگی تجھ کو نیا روپ مبارک، لیکن 

جان تجھ پر تو وہی یار پرانے دیں گے

نجانے کس کی دعا ہے کہ کام چل رہا ہے

 نجانے کس کی دعا ہے کہ کام چل رہا ہے

کوئی نظام نہیں، اور نظام چل رہا ہے

رہِ وفا میں بچھے ہیں جفا کے انگارے

جو چل رہا ہے وہ دو چار گام چل رہا ہے

کئی ادیبوں کے نامَرد ہو چکے ہیں قلم

کئی برس سے فقط ان کا نام چل رہا ہے

میں خواہشوں کے عذاب لے کر چلا گیا ہوں

 میں خواہشوں کے عذاب لے کر چلا گیا ہوں

وہ دل، وہ خانہ خراب لے کر چلا گیا ہوں

میں چھوڑ کر اپنی راہ تکتی اداس آنکھیں

جو بچ گئے تھے وہ خواب لے کر چلا گیا ہوں

جس پہ میں نے محبتوں کی وحی لکھی تھی 

وہ ایک ممنوع کتاب لے کر چلا گیا ہوں

اسے کہو کسی کافر کی آرزو نہ کرے

 ‏راہِ وفا کے مسافر کو روک کر کہہ دو

سفر کمائے مگر کسبِ جستجو نہ کرے

طبیبِ شہر مبارک ہو تجھے چارہ گری

جو زخم اُس نے دئیے ہیں کوئی رفو نہ کرے

صف جنوں میں سُنا ہے نماز اس کی نہیں

جو خونِ رخمِ جگر سے کبھی وضو نہ کرے

وہ دن ابھی تک نگاہ میں ہیں

 بے نشاں


وہ دن ابھی تک نگاہ میں ہیں

کہ ہم نے گھنٹوں قریب بیٹھے

زمانے بھر کے دُکھوں سُکھوں کے حوالے دے کر

زباں بیاں کے جوہر دکھائے تھے

اور سوچا

کہ ہم کبھی جُدا نہ ہوں گے

کھلے دلوں سے ملے فاصلہ بھی رکھتے رہے

 کھلے دلوں سے ملے فاصلہ بھی رکھتے رہے

تمام عمر عجب لوگ مجھ سے الجھے رہے

حنوط تِتلیاں شو کیس میں نظر آئیں

شریر بچے گھروں میں بھی سہمے سہمے رہے

اب آئینہ بھی مزاجوں کی بات کرتا ہے

بکھر گئے ہیں وہ چہرے جو عکس بنتے رہے

اس سے پہلے کہ سر اتر جائیں

 اس سے پہلے کہ سر اتر جائیں

ہم اداسی میں رنگ بھر جائیں

زخم مُرجھا رہے ہیں رشتوں کے

اب اٹھیں دوستوں کے گھر جائیں

غم کا سورج تو ڈوبتا ہی نہیں

دھوپ ہی دھوپ ہے کدھر جائیں

وقت ہی کم تھا فیصلے کے لیے

 وقت ہی کم تھا فیصلے کے لیے

ورنہ میں آتا مشورے کے لیے

تم کو اچھے لگے تو تم رکھ لو

پھول توڑے تھے بیچنے کے لیے

گھنٹوں خاموش رہنا پڑتا ہے

آپ کے ساتھ بولنے کے لیے

مکان دل کا سجانے کی اب ضرورت ہے

 مکان دل کا سجانے کی اب ضرورت ہے

کسی کو اس میں بسانے کی اب ضرورت ہے

بھڑک اٹھیں گے مِری راکھ سے کئی شعلے

ذرا سی آگ دکھانے کی اب ضرورت  ہے

نئی صدی ہے بدل دو پرانی رسموں کو

نیا سماج زمانے کی اب ضرورت ہے

بجھی امید کو پھر سے جگا کر دیکھنا ہو گا

 بجھی امید کو پھر سے جگا کر دیکھنا ہو گا

ستاروں سے جہاں اپنا سجا کر دیکھنا ہو گا

اگر سر کو جھکانے سے نہیں ہوتا ہے کچھ حاصل

تو سجدے میں ہمیں دل کو جھکا کر دیکھنا ہو گا

مسلسل ہجر سہنے کی روش یہ مار ناں ڈالے

کہ دل سے تیری یادوں کو مٹا کر دیکھنا ہو گا

اگر قدم تیرے میکش کا لڑکھڑا جائے

 اگر قدم تیرے میکش کا لڑکھڑا جائے

تو شمعِ مےکدہ کی لو بھی تھرتھرا جائے

اب اس مقام پہ لائی ہے زندگی مجھ کو

کہ چاہتا ہوں تجھے بھی بھُلا دیا جائے

مجھے بھی یوں تو بڑی آرزو ہے جینے کی

مگر سوال یہ ہے کس طرح جیا جائے؟

ویسے تو بے شمار ہیں قامت کشیدہ لوگ

 ویسے تو بے شمار ہیں قامت کشیدہ لوگ

گنتی ہوئی تو رہ گئے بس چیدہ چیدہ لوگ

دستار کے حصول کا کوئی تو ہو جواز

کس زعم میں ہیں مبتلا یہ سر بریدہ لوگ

اے کاش اپنی موت ہی مرتے تو تھا مزا

جاں سے گزر گئے ہیں جو مردم گزیدہ لوگ

ہوتا ہے تری آنکھوں سے اظہار بار بار

 ہوتا ہے تِری آنکھوں سے اظہار بار بار

اس واسطے جدائی ہے دشوار بار بار

برکھا کی مست رُت میں آ کر مجھے بتا

رہتے ہو مجھ سے دُور کیوں دلدار بار بار

اپنی شرارتوں سے جگاؤ ذرا مجھے

کرتی ہوں شب و روز میں دیدار بار بار

درد جب شاعری میں ڈھلتے ہیں

 درد جب شاعری میں ڈھلتے ہیں

دل میں ہر سو چراغ جلتے ہیں

کوئی شے ایک سی نہیں رہتی

عمر ڈھلتی ہے، غم بدلتے ہیں

جو نہیں مانگتا کسی سے کچھ

شہر کے لوگ اس سے جلتے ہیں

یہ لگ رہا ہے رگ جاں پہ لا کے چھوڑی ہے

 یہ لگ رہا ہے رگ جاں پہ لا کے چھوڑی ہے

کسی نے آگ بہت پاس آ کے چھوڑی ہے

گھروں کے آئینے صورت گنوا کے بیٹھ گئے

ہوا نے دھول بھی اوپر اڑا کے چھوڑی ہے

یہ اب کھلا کہ اسی میں مِری نجات بھی تھی

جو چیز میں نے بہت آزما کے چھوڑی ہے

بغیر اپنے کسی مطلب کے الفت کون کرتا ہے

 بغیر اپنے کسی مطلب کے الفت کون کرتا ہے

یہ دنیا ہے یہاں بے لوث چاہت کون کرتا ہے

گوارا لطف فرمانی کی زحمت کون کرتا ہے 

محبت کرنے والے سے محبت کون کرتا ہے 

تمہیں زعم محبت ہے مجھے بھی ہے مگر اے جاں 

تم اپنی دل سے ہی پوچھو محبت کون کرتا ہے 

پھر ہوئی شین الف میم خدا خیر کرے

 پھر ہوئی شین الف میم، خدا خیر کرے

ہاتھ میں آ گیا پھر جیم الف میم، خدا خیر کرے

عشق پہلا ہے، مجھے ڈر ہے، ہو نہ جاؤں کہیں

نون الف کاف الف میم، خدا خیر کرے

عشق کی راہ گزر میں نظر آتے ہیں مجھے

ہر طرف دال الف میم، خدا خیر کرے

Friday, 29 January 2021

حال کوئی نہیں تمہارا بھی

 حال کوئی نہیں تمہارا بھی 

تم نے جیتا بھی اور ہارا بھی 

خوشیاں ساری لٹا دیں اس پر ہی

اور بڑھتا گیا خسارا بھی 

سردیوں کی ٹھٹھرتی شاموں میں 

بار ہا میں نے ہے پکارا بھی 

جس قدر قلب کی تسکین کے ساماں ہوں گے

 جس قدر قلب کی تسکین کے ساماں ہوں گے

کرب افزائے سکون غمِ ہجراں ہوں گے

عرصۂ حشر میں جو عشق کا عنواں ہوں گے

میری ہی خاک کے اجزائے پریشاں ہوں گے

اشک معصوم جو خمیازۂ عصیاں ہوں گے

وہ بھی منجملۂ سرمایۂ ایماں ہوں گے

تم نے بھی ان سے ہی ملنا ہوتا ہے

 تم نے بھی ان سے ہی ملنا ہوتا ہے

جن لوگوں سے میرا جھگڑا ہوتا ہے

اس کے گاؤں کی ایک نشانی یہ بھی ہے

ہر نلکے کا پانی میٹھا ہوتا ہے

میں اس شخص سے تھوڑا آگے چلتا ہوں

جس کا میں نے پیچھا کرنا ہوتا ہے

آ گیا پھر سے وہی آگ لگانے والا

 آ گیا پھر سے وہی آگ🔥 لگانے والا

مِری بستی کے ہر اک گھر کو جلانے والا

نام لے کر میں اسے کس لیے بدنام کروں

یہیں بیٹھا ہے مِرے دل کو دکھانے والا

آج کی رات چراغوں کو جلائے رکھنا

عمر بھر کی میں کہانی ہوں سنانے والا

دشت میں گونجتی مانوس صدا ہے کوئی

 دشت میں گونجتی مانوس صدا ہے کوئی

ایک مدت سے مجھے ڈھونڈ رہا ہے کوئی

ایک یلغار ہے اب شہر میں آوازوں کی

بات کرنے کا چلن بھول گیا ہے کوئی

فاصلہ ایک قدم بھی نہیں طے ہو پاتا

درمیاں دونوں کے دیوارِ انا ہے کوئی

اب تک تم کو دیکھ رہا تھا رنگوں کے پیرائے میں

 اب تک تم کو دیکھ رہا تھا رنگوں کے پیرائے میں

تم تو سچ مچ ایک مجسم نظم ہو میری رائے میں

اپنی جانب کھینچ رہے ہیں مجھ ایسے درویش کو بھی

ایسی پراسرار کشش ہے، عورت اور سرمائے میں

چھونے سے اک بھید کھُلا ہے ایک کھُلا ہے چکھنے سے

دو قدریں تو اک جیسی ہیں، تجھ میں اور اس چائے میں

آج دیوار گرا دی میں نے

 آج دیوار گِرا دی میں نے

وہ رنجش تھی مٹا دی میں نے

ایک چنگاری محبت کی سلگتی تھی

اس کو بھرپور ہوا دی میں نے

جیو تو اپنے لیے نہ جیو لوگو

آج یہ رسم نبھا دی میں نے

جذبۂ عشاق کام آنے کو ہے

جذبۂ عشّاق کام آنے کو ہے

پھر لذیذ و شیریں جام آنے کو ہے

موسم سرما کی آمد مرحبا

کیونکہ اس موسم میں آم آنے کو ہے

ختم ہونے کو ہے وقتِ انتظار

انتخابِ خاص و عام آنے کو ہے

چشم حیرت کو تعلق کی فضا تک لے گیا

 چشمِ حیرت کو تعلق کی فضا تک لے گیا

کوئی خوابوں سے مجھے دشتِ بلا تک لے گیا

ٹوٹتی پرچھائیوں کے شہر میں تنہا ہوں اب

حادثوں کا سلسلہ غم آشنا تک لے گیا

دھوپ دیواروں پہ چڑھ کر دیکھتی ہی رہ گئی

کون سورج کو اندھیروں کی گپھا تک لے گیا

اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی

 اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی

رو کے مسکرانا بھی، مسکرا کے رونا بھی

رونقیں تھی شہروں میں، برکتیں محلوں میں

اب کہاں میسر ہے گھر میں گھر کا ہونا بھی

دل کے کھیل میں ہر دم احتیاط لازم ہے

ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ورنہ یہ کھلونا بھی

Thursday, 28 January 2021

میں کسی اور کی نسبت سے پکارا جاؤں

 میں کسی اور کی نسبت سے پکارا جاؤں

اس سے اچھا ہے تِرے نام پہ مارا جاؤں

طوق ہو تیری غلامی کا مِری گردن میں

پھر بھلے آگ سے سو بار گزارا جاؤں

میرے کاسے میں ضیا ڈال مجھے کر دے امر

شبِ ظلمت! میں بنوں شمس، اُبھارا جاؤں

حائل تھے کوہسار محبت اداس تھی

 حائل تھے کوہسار، محبت اداس تھی

ہنستا تھا ہجرِ یار، محبت اداس تھی

اس بار ہارنے کو وہ آیا تو تھا مگر

خود میں نے مانی ہار، محبت اداس تھی

پھر آشیاں کے سامنے لاشہ پڑا ملا

یہ آخری تھا وار، محبت اداس تھی

اپنی پلکوں کے شبستان میں رکھا ہے تمہیں

 اپنی پلکوں کے شبستان میں رکھا ہے تمہیں

تم صحیفہ ہو سو جُزدان میں رکھا ہے تمہیں

ساتھ ہونے کے یقیں میں بھی مِرے ساتھ ہو تم

اور نہ ہونے کے بھی امکان میں رکھا ہے تمہیں

ایک کم ظرف کے سائے سے بھلی ہے یہ دھوپ

تم سمجھتے ہو کہ نقصان میں رکھا ہے تمہیں

جاگنا اور جگا کے سو جانا

 جاگنا اور جگا کے سو جانا 

رات کو دن بنا کے سو جانا 

دیکھنا کیا وہ آن لائین ہے 

دیکھنا، مسکرا کے سو جانا 

ٹیکسٹ کرنا تمام رات اس کو 

انگلیوں کو دبا کے سو جانا 

حریم جاں سے ایک دن ہمیں بھی پیار ہو گیا

 حریمِ جاں سے ایک دن ہمیں بھی پیار ہو گیا

کہ درد مستقل رہا، تو حصے دار ہو گیا

کوئی بھی نقش آئینے میں ٹھیک سے نہیں بنا

تمہارا عکس جب سے دل کے آر پار ہو گیا

سمے کی ہر لگام ہے تمہارے ہاتھ میں ابھی

کرو گے کیا اگر کبھی میں شہسوار ہو گیا

راز اندر ہی سموتا تو سمندر ہوتا

 راز اندر ہی سموتا تو سمندر ہوتا

دل کوئی روز نہ روتا تو سمندر ہوتا

تیری ضد نے تجھے تالاب بنا رکھا ہے

تو مِرے پاؤں بھگوتا تو سمندر ہوتا

میں وہ دریا ہوں جو آہستہ روی میں سوکھا

میں اگر سُست نہ ہوتا تو سمندر ہوتا

ہم تو بس اک عقدہ تھے حل ہونے تک

 ہم تو بس اک عقدہ تھے حل ہونے تک

زنجیروں میں بند تھے پاگل ہونے تک

عشق اگر ہے دین تو پھر ہو جائیں گے

ہم بھی مُرتد اس کے مکمل ہونے تک

میں پانی تھا سورج گھور رہا تھا مجھے 

کیا کرتا بے بس تھا بادل ہونے تک 

مرے بیٹے مری جاں تم میری تقلید نہ کرنا (مکمل)

سلال حسن کے لیے ایک نظم


مِرے بیٹے، مِری جاں

تم میری تقلید نہ کرنا

اگر اس خطۂ ارضی پہ رہنا ہے

تو سچ کو سچ نہ کہنا

حرف کی حُرمت پہ کٹ مرنے کا سودا

سر میں نہ رکھنا

رنج متروک نگل اور نکل

 رنجِ متروک نِگل، اور نِکل

صبر کر، تُھوک نگل، اور نکل

غور سے دیکھ اسے آخری بار

اے دلا! ہُوک نگل، اور نکل

عشق میں کارِ ہوس؟ استغفار

جسم کی بُھوک نگل، اور نکل

Wednesday, 27 January 2021

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

خبر تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شہِ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی

نہ خِرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا

مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں، سو ہری رہی

ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے

 ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے

ساحل سے سمندر کا نظارا نہیں کرتے

ہر شعبۂ ہستی ہے طلب گار توازن

ریشم سے کبھی ٹاٹ سنوارا نہیں کرتے

دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں

دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے

دعا کے میلے سے حرف ندا خرید کے میں

دعا کے میلے سے حرفِ ندا خرید کے میں

بنا رہا ہوں تِرے کچھ لباس عید کے میں

مدام کوٹتا رہتا ہوں درد کا لوہا

حروف پڑھتے ہوئے سورۂ حدید کے میں

قدم اٹھاتا ہوں اک اس کی آنکھ کی جانب

خیال مُٹھی میں بھر لاتا ہوں بعید کے میں

دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا

 دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا

تا عمر یہ شیشے کا مکاں یوں ہی رہے گا

ہم ٹھہرے رہیں گے کسی تعبیر کو تھامے

آنکھوں میں کوئی خواب رواں یوں ہی رہے گا

بُجھ جائے گا اک روز تِری یاد کا شعلہ 

لیکن مِرے سینے میں دھواں یوں ہی رہے گا

ہمارے شہر ادب میں چلی ہوا کیا ہے

 ہمارے شہرِ ادب میں چلی ہوا کیا ہے

یہ کیسا دور ہے یا رب ہمیں ہُوا کیا ہے

اسی نے آگ لگائی ہے ساری بستی میں

وہی یہ پوچھ رہا ہے کہ ماجرا کیا ہے؟

یہ تیرا ظرف کہ تُو پھر بھی بدگماں نہ ہوا

سوائے درد کے میں نے تجھے دیا کیا ہے

کتنی سزا ملی ہے مجھے عرض حال پر

 کتنی سزا ملی ہے مجھے عرضِ حال پر 

پہرے لگے ہوئے ہیں مِری بول چال پر 

کہتے ہیں لوگ جوششِ فصلِ بہار ہے 

پھولوں کا جب مزاج نہ ہو اعتدال پر 

تو اپنی سسکیوں کو دبا اپنے اشک پونچھ

اے دوست چھوڑ دے تو مجھے میرے حال پر 

کبھی خیال ستم ہائے روزگار کے ہیں

 کبھی خیال ستم ہائے روزگار کے ہیں

کبھی سبو پہ اثر زلفِ تابدار کے ہیں 

کسے نصیب تماشائے جاں بکف ہونا

یہ حوصلے تو فقط تیرے جاں نثار کے ہیں

نظر ہٹا کے گزر جاؤ نکتہ چینوں سے 

کوئے وصال میں یہ سنگ رہگزار کے ہیں

شب کو نالہ جو مرا تا بہ فلک جاتا ہے

 شب کو نالہ جو مِرا تا بہ فلک جاتا ہے

صبح کو مہر کے پردے میں چمک جاتا ہے

اپنا پیمانۂ دل ہے مئے غم سے لبریز

بوند سے بادۂ عشرت کی چھلک جاتا ہے

کمرِ یار کی لکھتا ہوں نزاکت جس دم

خامہ سو مرتبہ کاغذ پہ لچک جاتا ہے

پھول رکھنے کے لیے طشت جبیں لے آؤ

 پھول رکھنے کے لیے طشتِ جبیں لے آؤ

اپنا چہرہ مِرے ہونٹوں کے قریں لے آؤ

کچھ تو احساس اسیری میں کمی آئے گی

دوست تم اپنی چٹائی بھی یہیں لے آؤ

کھڑکیوں کے لیے تجویز کرانی ہے جگہ

جاؤ، تاریک مکانوں کے مکیں لے آؤ

عکس کوئی شوق کی دیوار پر بڑھتا گیا

 عکس کوئی شوق کی دیوار پر بڑھتا گیا

اور پھر اک راہ پر میرا گزر بڑھتا گیا

بعد تیرے منزلوں سے دشمنی کچھ یوں ہوئی

فاصلے مٹتے رہے لیکن سفر بڑھتا گیا

ذہن اور دل کے دروں تیرا جنوں چلتا رہا

ایک پر سے کم ہوا تو ایک پر بڑھتا گیا

میں چاہتا ہوں تراشوں ضعیف ہونے تک

 میں چاہتا ہوں تراشوں ضعیف ہونے تک

جوان قافیے، بوڑھی ردیف ہونے تک

ہم اس کی شرط پہ قائم رہے مگر وہ شخص

بدل چکا تھا ہمارے شریف ہونے تک

جلائے جاتے ہیں ایندھن کے طور پر اک دن

جو سایہ دیتے ہیں سب کو نحیف ہونے تک

اداسیوں کے مداوے میں آ ہی جاتے ہیں

 اداسیوں کے مداوے میں، آ ہی جاتے ہیں

ہم ایسے لوگ دکھاوے میں آ ہی جاتے ہیں

میں ننگے پیر نہیں راہِ عشق میں، پھر بھی

ہزار خار، پتاوے میں آ ہی جاتے ہیں

اب اتنے غم بھی نہیں جن کو پال رکھا ہے

بھروں تو میرے کلاوے میں آ ہی جاتے ہیں

کسے بچاتا ہے آج امتحان ہے اس کا

 کسے بچاتا ہے، آج امتحان ہے اس کا

تمام ڈوبنے والوں کو مان ہے اس کا

زمین چھوڑ کے ٹھیلے لگا رہے ہیں کسان

کہ آمدن سے زیادہ لگان ہے اس کا

تمہیں تو دھوپ بھی اچھی لگے گی، بارش بھی

تمہارے سر پہ ابھی سائبان ہے اس کا

نیند کی ٹہنی پر سارے خواب کہاں پھلتے ہیں

 نیند کی ٹہنی پر


سارے خواب کہاں پھلتے ہیں

اکثر خواب تو

کچی نیند کی ٹہنی پر ہی مر جاتے ہیں

باقی ماندہ

تعبیروں کے پھانسی گھاٹ

اتر جاتے ہیں

راز کتنے بتا گئی دنیا

 راز کتنے بتا گئی دنیا

ہم کو جینا سکھا گئی دنیا

جس نے بھی اس سے دل لگایا ہے

اس کو آخر میں کھا گئی دنیا

اب نکالے نہیں نکلتی ہے 

پاؤں ایسے جما گئی دنیا

خوبیوں خامیوں اچھی بری عادات سمیت

 خوبیوں خامیوں اچھی بری عادات سمیت 

بول منظور ہوں میں سارے تضادات سمیت 

جھانک سکتے ہو اگر نیند کی وادی سے پرے 

دیکھ سکتے ہو مجھے خواب و خیالات سمیت 

بوڑھے برگد کے جھکے شانے بتاتے ہیں مجھے 

اس نے ڈھویا ہے کہانی کو روایات سمیت 

Tuesday, 26 January 2021

غزلیں لکھ لکھ پاگل ہونے والا ہوں

 غزلیں لکھ لکھ پاگل ہونے والا ہوں

جھوٹ نہیں اب سچ میں رونے والا ہوں

باتیں کرنا فون پہ جان اب چھوڑو بھی

خواب میں آؤ میں بھی سونے والا ہوں

ہاتھ پکڑ کر روک لو میری جان مجھے

پھر دنیا کی بھیڑ میں کھونے والا ہوں

سردی میں دن سرد ملا

 سردی میں دن سرد ملا

ہر موسم بے درد ملا

سوچتے ہیں کیوں زندہ ہیں 

اچھا یہ سر درد ملا 

ہم روئے تو بات بھی تھی 

کیوں روتا ہر فرد ملا 

اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

 اب تِری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو

اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں

اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو

ایسا بدلا ہوں تِرے شہر کا پانی پی کر

جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو

وادی نے نئے شہيدوں کی فصل تيار کر رکھی ہے

اقتباس از کشمیر 2020


سُنا ہے وادی نے

آنے والے برس کی خاطر 

نئے شہيدوں کی فصل تيار کر رکھی ہے 

يہ معرکہ اب جنوں کی ساری حدوں سے 

آگے گزر گيا ہے 

تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا

تُو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا

میں زیادہ کو میسّر نہیں آیا کرتا

میں تِرا وقت ہوں اور روٹھ کے جانے لگا ہوں

روک لے یار! میں جا کر نہیں آیا کرتا

اے پلٹ آنے کی خواہش یہ ذرا دھیان میں رکھ

جنگ سے کوئی برابر نہیں آیا کرتا

آگ لگتی ہے کہاں شور کہاں اٹھتا ہے

 آگ لگتی ہے کہاں شور کہاں اٹھتا ہے

خواب جلتے ہیں تو آنکھوں سے دھواں اٹھتا ہے

ایک حسرت ہے جو ہونٹوں پہ دھری رہتی ہے

ایک نوحہ سا کبھی زیرِ زباں اٹھتا ہے

درد کہتے ہو کہ ہوتا ہے جو بائیں جانب

بائیں پسلی کے تغافل سے وہاں اٹھتا ہے

اپنے حالات کے دھاگوں سے بنی ہے میں نے

 اپنے حالات کے دھاگوں سے بُنی ہے میں نے

آج اک تازہ غزل اور کہی ہے میں نے

کِس ضرورت کو دباؤں کِسے پورا کر لوں

اپنی تنخواہ کئی بار گِنی ہے میں نے

میں تو جیسا بھی ہوں سب لوگ مجھے جانتے ہیں

تیرے بارے میں بھی اک بات سنی ہے میں نے

کیا تم بھی شام کی دہلیز پر آس کا دیپ جلاتے ہو

 کیا تم بھی

شام کی دہلیز پر آس کا دیپ جلاتے ہو

اور کسی برگِ آوارہ کی آہٹ پر

دروازے کی جانب جاتے ہو، کیا تم بھی؟

درد چھپانے کی کوشش کرتے کرتے

اکثر تھک سے جاتے ہو

چلو مقتول خوابوں کے دفن کا سلسلہ کر لیں

 چلو مقتول خوابوں کے

دفن کا سلسلہ کر لیں

چلو

آنکھیں قبر کر لیں

بہت ہی رو لیا ہم نے

چلو دامن کو سی لیں اب

چلو بس اب صبر کر لیں

Monday, 25 January 2021

مختلف ایک ہی سپاہ کا دکھ

 مختلف ایک ہی سپاہ کا دُکھ

اک پیادے کا، ایک شاہ کا دکھ

دکھ ہمیں اک ادھورے رشتے کا 

اسی رشتے سے پھر نِبھاہ کا دکھ

منزلوں تک ہمارے ساتھ گئی

مختصر ایک شاہراہ کا دکھ 

یہ خبر شورش نوائے وقت میں تھی پرملال

 یہ خبر شورش نوائے وقت میں تھی پُرملال

ہو گیا لاہور میں شورش کا پرسوں انتقال

مختصر سی خبر کونے میں تھی اخبار کے

حاشیہ دے کر سیاہ لکھا تھا لفظ اِرتحال

بے اثر لفظوں میں تھی مرقوم رُودادِ وفات

جانکنی میں کوئی انسان نہ تھا پُرسانِ حال

جو نظر آر پار ہو جائے

 جو نظر آر پار ہو جائے

وہی دل کا قرار ہو جائے

اپنی زلفوں کا ڈال دو سایہ

تِیرگی خوش گوار ہو جائے

تیری نظروں کو دیکھ پائے اگر 

شیخ بھی مۓ گسار ہو جائے

اس قدر دور نہ دریا کا کنارہ ہوتا

 اس قدر دور نہ دریا کا کنارہ ہوتا

ڈوبنے والے نے گر تجھ کو پکارا ہوتا

ہم کو اپنے ہی غموں سے کبھی فرصت نہ ملی

ورنہ وہ شخص تو ہر حال ہمارا ہوتا

چھین  لیتے تجھے قسمت سے تقاضا کر کے 

عشق کا کھیل گر اب کے دوبارہ ہوتا

میں نے برگر کے ہونٹوں کا بوسہ لیا

 موبائل کی جنتری


میں نے برگر کے ہونٹوں کا بوسہ لیا

اور موبائل کی جنتری میں

نئے موسموں کا ہرا فال نامہ پڑھا

فال نامہ کے جس کے عقب میں کہیں

مہرباں یاد کے گندمی نقش پر

ماں کے ہاتھوں کی روٹی کی مہکار ہے

جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ

 جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ 

جام مے ہاتھ سے لو میرے پیو بسم اللہ 

منتظر آپ کے آنے کا کئی دن سے ہوں 

کیا ہے تاخیر قدم رنجہ کرو بسم اللہ 

لے چکے دل تو پھر اب کیا ہے سبب رنجش کا 

جی بھی حاضر ہے جو لیتے ہو تو لو بسم اللہ 

کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے

 کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے

وہی فسانۂ آشفتہ تر کہا اس نے

شراکت خس و شعلہ ہے کاروبار جنوں

زیاں کدے میں کس انجام پر کہا اس نے

اسے بھی ناز غلط کردۂ تغافل تھا

کہ خواب و خیمہ فروشی کو گھر کہا اس نے

بالکل نئی کہانی لکھ کر بیٹھا ہوں

 بالکل نئی کہانی لکھ کر بیٹھا ہوں

میں پانی پر پانی لکھ کر بیٹھا ہوں

کاغذ قلم دوات سنبھال کے بستے میں

پوری بات زبانی لکھ کر بیٹھا ہوں

مجنوں کی اس مجنونانہ حرکت کو

صحرا میں قربانی لکھ کر بیٹھا ہوں

ہزارہا سوال ہیں جواب صرف احتیاط

کرونائی غزل


 ہزار ہا سوال ہیں، جواب صرف احتیاط

ہےعالمی وبا کا سدِباب، صرف احتیاط

دہان، قم، دبئی، ریاض، روم، کیلی فورنیا

بھرے جہاں کا حال ہے خراب، صرف احتیاط

اگر مجالس اور محفلوں کا دور چاہیے

کرو مصافحوں سے اجتناب، صرف احتیاط

میں تو سمجھا تھا کہ ہموار ہوا جاتا ہے

 میں تو سمجھا تھا کہ ہموار ہوا جاتا ہے

راستہ اور بھی دشوار ہوا جاتا ہے

تیرے ہونے سے فقط میں ہی نہیں روشن ہوں

یہ اندھیرا بھی چمکدار ہوا جاتا ہے

اشک بھی آنکھ میں ہے قید کسی جِن کی طرح

دل کو رگڑیں تو نمودار ہوا جاتا ہے

رہتے ہیں میرے پاس ہمیشہ یہ تین دوست

 رہتے ہیں میرے پاس ہمیشہ یہ تین دوست

یادیں تِری، یہ آسماں اور یہ زمین دوست

کارِ معاش نے مجھے مصروف کر دیا

اتنا کہ کھو رہا ہوں میں تجھ سی حسین دوست

یا ذکر چھوڑ دے تُو محبت کا شعر میں

یا پھر چڑھانا چھوڑ دے تو آستین دوست

دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لیے

 دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لیے

آج تو حسن بھی ہے عشق کے آداب لیے

چشم مخمور لیے کاکلِ شب تاب لیے

رشک ایماں بھی ہیں وہ کفر کے اسباب لیے

ان کے ابرو پہ ہیں بَل اور تبسم لب پر

میرے افسانۂ ہستی کا نیا باب لیے

یہ جو پر درد زندگانی ہے ایک ظالم کی مہربانی ہے

 یہ جو پُر درد زندگانی ہے

ایک ظالم کی مہربانی ہے

یہ جو میں شاعری میں لکھتی ہوں

یہ مِرے درد کی کہانی ہے

اور تو کیا بچا ہے دل میں مرے

آپ کی یاد کی روانی ہے

کرب کی بین بجاتے ہوئے حالات کے دکھ

 کرب کی بین بجاتے ہوئے حالات کے دُکھ

مجھ سے جھیلے نہیں جاتے یہ دن و رات کے دکھ

تیری خوشیوں سے جڑی ہیں مِری خوشیاں یارا

منسلک ذات سے تیری ہیں مِری ذات کے دکھ

ہم زمیں زاد تو ہیں، پر ہیں خداؤں والے

ہم فقیروں کو ہُوا کرتے سماوات کے دکھ

جانے والے پہ کوئی اشک بہانے کا نہیں

 جانے والے پہ کوئی اشک بہانے کا نہیں

دوستا! ضبط کی جاگیر لٹانے کا نہیں

کوئی بھٹکا ہوا لوٹ آئے تو چُپ رہنے کا

دل دُکھانے کا نہیں، بات بڑھانے کا نہیں

دشت زادہ ہوں مِرے پاؤں میں چھالے ہیں مگر

اے زمانے! میں تِرے ہاتھ میں آنے کا نہیں

دھوپ رکھ دی تھی مقدر نے سرہانے میرے

 دھوپ رکھ دی تھی مقدر نے سرہانے میرے

عمر بھر آگ میں جلتے رہے شانے میرے

میں تِرے نام کا عامل ہوں، وہ اب جان گئے

حادثے اب نہیں ڈھونڈھیں گے ٹھکانے میرے

چاند سی ان کی وہ خوشرنگ قبا، وہ دستار

ان کی درویشی پہ قربان خزانے میرے

بلائیں پردۂ سیمی پہ جلوہ گر ہوں گی

 بلائیں پردۂ سیمی پہ جلوہ گر ہوں گی

نئی کہانی کی بنیادیں خوف پر ہوں گی

ہم ان میں بیٹھ کے گھومیں گے کائناتوں میں

نئی سواریاں کرنوں سے تیز تر ہوں گی

نظامِ دہر مشینوں کے ہاتھ میں ہو گا

جدید دور کی تہذیبیں بے بشر ہوں گی

حضور ایسے نہ مجھ سے مباحثہ کیجے

 حضور ایسے نہ مجھ سے مباحثہ کیجے

دلیل دیجیے اور پھر مکالمہ کیجے

سوال یہ ہے کہ کیسے محبتیں سیکھیں ؟

جواب یہ ہے کہ بچوں سے رابطہ کیجے

گلے لگا کے کڑی دھوپ کو ہی گریہ ہو

کٹے شجر کا کسی سے تو تعزیہ کیجے

Sunday, 24 January 2021

پریت نگر سے پھیری والا میری گلی میں آیا

پریت نگر سے پھیری والا میری گلی میں آیا

چُوڑی، لونگ، انگوٹھی، چَھلّے رنگ برنگے لایا

میں نے پوچھا "اور بھی کچھ ہے؟" بولا "میٹھا سپنا

"جس کو لے کر جیون بھر اُس نام کی مالا جپنا

میں نے کہا، کیا مول ہے اِس کا؟ بولا "اک مُسکان

"تن کی لاج بچاؤ اس سے، رکھو من کی آن

بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے

 بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے

کوئی سایہ پکارتا ہے مجھے

جیسے یہ شہر کل نہیں ہو گا

جانے کیا وہم ہو گیا ہے مجھے

میں ستاروں کا ایک نغمہ ہوں

بیکراں رات نے سنا ہے مجھے

یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے ناتمام رکھنا

 یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے نا تمام رکھنا

کبھی یارِ دل شکن سے کبھی دل سے کام رکھنا

یونہی دور دور رہنا، وہ ملے تو کچھ نہ کہنا

پسِ حرفِ بے تکلم اسے ہمکلام رکھنا

کسی شامِ دِلدہی سے کسی صبح جانکنی سے

جو چراغ بجھ رہا ہو اسے میرے نام رکھنا

سفر کو نکلے تھے ہم جس کی رہنمائی پر

 سفر کو نکلے تھے ہم جس کی رہنمائی پر

وہ اک ستارہ کسی اور آسماں کا تھا

جسے ہم اپنی رگِ جاں بنائے بیٹھے تھے

وہ دوست تھا، مگر اک اور مہربان کا تھا

عجیب دن تھے کہ با وصفِ دُورئ ساغر

گمان نشے کا تھا، اور نشہ گمان کا تھا

میتوں سے ڈرتے ہو

 میّتوں سے ڈرتے ہو؟

میّتیں تو تم بھی ہو

چلتی پھرتی وہ لاشیں

جن کی سانس چلتی ہو

اور ضمیر مُردہ ہے

جن کے جسمِ مُردہ پر

زندگی فسردہ ہے

ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے

 ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے 

ادھُورا شخص پورا جی رہا ہے 

ہے بارش کی مسلسل مہربانی 

مِرے صحرا میں دریا جی رہا ہے 

در و دیوار سانسیں لے رہے ہیں 

تبھی کمرے کا پردہ جی رہا ہے 

جب صبر امتحان سے آگے نکل گیا

 جب صبر امتحان سے آگے نکل گیا

ہر تیر خود کمان سے آگے نکل گیا

کچھ اس طرح سے اس نے دلاسے دیئے مجھے

میرا یقیں گمان سے آگے نکل گیا

راہوں کی رہنمائی کی یوں بھی سزا ملی

ہر راستہ مکان سے آگے نکل گیا

ہمسفر سائے کو سمجھتا ہوں

 ہمسفر سائے کو سمجھتا ہوں

اس لیے دھوپ میں نکلتا ہوں

تیری گلیوں میں شور ہے میرا

کیا یہاں سے بھی میں گزرتا ہوں

ایک مزدور کا اثاثہ ہوں

میں جو ڈگری اٹھائے پھرتا ہوں

شہر فصل گل سے چل کر پتھروں کے درمیاں

 شہرِ فصل گل سے چل کر پتھروں کے درمیاں

زندگی! آ جا کبھی ہم بے گھروں کے درمیاں

میں ہوں وہ تصویر جس میں حادثے بھرتے ہیں رنگ

خال و خط کھلتے ہیں میرے خنجروں کے درمیاں

پہلے ہم نے گھر بنا کر فاصلے پیدا کیے

پھر اٹھا دیں اور دیواریں گھروں کے درمیاں

Saturday, 23 January 2021

ایک رنگیں پہیلی چاروں طرف

 ایک رنگیں پہیلی چاروں طرف

رات کی اک سہیلی چاروں طرف

اس نے مجھ کو بنایا ہے اپنا

آ گئی وہ نویلی چاروں طرف

ایک چہرہ اجال کر اس نے

گاڑ دی ہے سجیلی چاروں طرف

کاسہ ہے مرے ہاتھ میں شمشیر نہیں ہے

 کاسہ ہے مرے ہاتھ میں شمشیر نہیں ہے

لیکن یہ مِری آخری تصویر نہیں ہے

اس اسم کو پڑھنے سے ملی ہے یہ رعایت

زنداں میں مِرے پاؤں ہیں، زنجیر نہیں ہے

ہم دونوں، کنارے پہ کھڑے ڈوب رہے ہیں

اے کاتبِ تقدیر! کیا تدبیر نہیں ہے؟

پڑتا تھا اس خیال کا سایہ یہیں کہیں

 پڑتا تھا اس خیال کا سایا یہیں کہیں

بہتا تھا میرے خواب کا دریا یہیں کہیں

جانے کہاں ہے آج مگر پچھلی دھوپ میں

دیکھا تھا ایک ابر کا ٹکڑا یہیں کہیں

دیکھو یہیں پہ ہوں گی تمنا کی کرچیاں

ٹوٹا تھا اعتبار کا شیشہ یہیں کہیں

کس نے کہا کہ چپ ہوں میاں بولتا نہیں

 کس نے کہا کہ چپ ہوں میاں بولتا نہیں

جب آگ🔥 بولتی ہو دھواں بولتا نہیں

رستے کی بات غور سے سنتا ہوں اس لیے

رہ میں کسی سے ہم سفراں بولتا نہیں

یوں تو ہر ایک شخص کا اپنا ہی شور ہے

لیکن کسی سے کوئی یہاں بولتا نہیں

تو کیا کہیں اسے کچھ خبر بھی ہو کہ نہ ہو

 تو کیا کہیں اسے کچھ خبر بھی ہو کہ نہ ہو

ہمارے حال پہ اس کی نظر بھی ہو کہ نہ ہو

میں اب جو لوٹ کے جاؤں گا مدتوں کے بعد

تو کیا خبر کہ وہاں میرا گھر بھی ہو کہ نہ ہو

کسے یقین کہ تیرا نشاں ملے نہ ملے

کہیں زمین پہ تیرا نگر بھی ہو کہ نہ ہو

آنے والی حقیقتیں

 آنے والی حقیقتیں


کئی دنوں سے دل و ذہن پہ

عجیب سی کیفیت ہے طاری

کئی دنوں سے

تِری جدائی کا خوف آنکھوں میں آ بسا ہے

تِری جدائی جو آج تک تو

نفرت کے بعد عشق کا دعویٰ کئے بغیر

 نفرت کے بعد عشق کا دعویٰ کئے بغیر

اک شخص مر گیا ہے ازالہ کئے بغیر

لب پر ہنسی نہیں ہے سو لازم ہے بھوک یار

جوکر کو کون پوچھے؟ تماشہ کئے بغیر

عزت کی بات تھی سو وہ چپ چاپ مر گئی

گاؤں کے ٹھاکروں کا خلاصہ کئے بغیر

یہاں تو ہر کوئی تعبیر کا بھکاری ہے

 یہاں تو ہر کوئی تعبیر کا بھکاری ہے

اور اپنی جیب میں خوابوں کی ریزگاری ہے 

کسی کی آنکھ نے چاہت کے پھول بھیجے ہیں 

کسی کے سر پہ غریبی کا بوجھ طاری ہے 

تِری منڈیر سے بچھڑے ہوئے زمانہ ہُوا

مِرے سفید کبوتر🕊 پہ وقت بھاری ہے

میں جتنی دیر تری یاد میں اداس رہا

 میں جتنی دیر تِری یاد میں اداس رہا

بس اتنی دیر مِرا دل بھی میرے پاس رہا

عجب سی آگ تھی جلتا رہا بدن سارا

تمام عمر وہ ہونٹوں پہ بن کے پیاس رہا

مجھے یہ خوف تھا وہ کچھ سوال کر دے گا

میں دیکھ کر بھی اسے اس سے ناشناس رہا

ترس کسی کو تو آیا اسے بجھاتے ہوئے

 ترس کسی کو تو آیا اسے بجھاتے ہوئے

دِیا جو تھکنے لگا روشنی لٹاتے ہوئے

اس ایک آنکھ پہ کتنے حسین مرتے تھے

جو آنکھ ٹوٹی تِرے خواب کو بچاتے ہوئے

تمہارے جانے کا صدمہ پڑا ہے اس دل کو

دھڑکنا چھوڑ بھی دیتا ہے غم مناتے ہوئے

کچھ نہ ہونے کی سہولت کا مزا لیتے ہیں

 کچھ نہ ہونے کی سہولت کا مزہ لیتے ہیں

لوگ بازار میں غربت کا مزہ لیتے ہیں

بِکنے والوں کی ہنسی صاف بتاتی ہے مجھے

یہ خریدار کی وقعت کا مزہ لیتے ہیں

ہجر نے راکھ نہیں پھول بنایا ہے مجھے

لوگ خوشبو سے محبت کا مزہ لیتے ہیں

کیسے بھولیں گی بھلا گزری ہوئی رات کا دکھ

 کیسے بھولیں گی بھلا گزری ہوئی رات کا دکھ

فاحشاؤں کو ہے جسموں پہ نشانات کا دکھ

مطمئن ہوں تِرے جانے سے بظاہر، لیکن

کھا رہا ہے مجھے اندر سے اسی بات کا دکھ

ہم ہیں دنیا میں نہ فردوس میں ہوں گے اک ساتھ

اِس طرف طبقے ہیں اُس سمت ہے درجات کا دکھ

کوبکو چل رہی ہے پروائی

 کُوبکُو چل رہی ہے پروائی

دل ہُوا قُرب کا تمنائی

شب کے پچھلے پہر میں آخرِکار

ٹوٹ کر مجھ کو تیری یاد آئی

کس نے دیکھا ہجوم بڑھتا ہوا

کس نے دیکھی ہے صرف تنہائی

سدا رنگ مینا چمکتا رہا

 سدا رنگِ مِینا چمکتا رہا

ہمیشہ یہ سبزہ لہکتارہا

وہ کوچہ ہے الفت کا جس میں سدا

خضر، راہ بھُولا بھٹکتا رہا

کھُلا یہ جہاں پردۂ در ہلا

جہاں جو رہا سر پٹکتا رہا

جب کوئی بھی کمی نہیں ہوتی

 جب کوئی بھی کمی نہیں ہوتی

زندگی، زندگی نہیں ہوتی

آپ سے دوستی نہیں نہ سہی

آپ سے دشمنی نہیں ہوتی

آپ بچھڑے تو پھر یقین آیا

کوئی شے آخری نہیں ہوتی

یقیں کی کوکھ میں کچا گمان رکھتے ہوئے

 یقیں کی کوکھ میں کچا گمان رکھتے ہوئے

تڑپ اٹھے تھے محبت کا مان رکھتے ہوئے

ہمارا حال نہ پوچھو تو یار بہتر ہے

کہ مر گئے ہیں کسی کی زبان رکھتے ہوئے

خدا سوائے سبھی فانی ہیں سمجھ آیا

لحد کی نوک پہ شہرت کی جان رکھتے ہوئے

Friday, 22 January 2021

پریوں کی جگہ رات کی رانی میں تہجد

 پریوں کی جگہ رات کی رانی میں تہجد

سی سکتے تھے کل عمر پرانی میں تہجد

انکار میں وہ حسن کہ دیوان نچھاور

انگ انگ میں اور جان فشانی میں تہجد

اک اڑتا ہوا جائے نماز اور نوافل

اک ساحرہ اور زائچہ دانی میں تہجد

وہ ایک یاد جو شب ہجر میں سسکتی دیکھی

 وہ ایک یاد جو شبٍ ہجر میں سسکتی دیکھی

وہ نیند جو میں نے خوابوں میں بھٹکتی دیکھی

وہ ایک غزل جو میں نے ابھی لکھی ہی نہیں

حرف بہ حرف تیری آنکھوں میں اترتی دیکھی

وہ ساعت جو میرے وجدان کی گرفت میں تھی

آئینہ خانے میں ہر روز سنورتی دیکھی

ہر موسم میں خالی پن کی مجبوری ہو جاؤ گے

 ہر موسم میں خالی پن کی مجبوری ہو جاؤ گے

اتنا اس کو یاد کیا تو پتھر بھی ہو جاؤ گے

ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو آج تلک تو ایسا ہے

جب یہ موسم ساتھ نہ دیں گے تصویری ہو جاؤ گے

ہر آنے جانے والے سے گھر کا رستہ پوچھتے ہو

خود کو دھوکا دیتے دیتے بے گھر بھی ہو جاؤ گے

اپنے وعدوں سے اسی وقت مکرنے والی

 اپنے وعدوں سے اسی وقت مکرنے والی

شکل دیکھی ہے کبھی حد سے گزرنے والی

وہ مِری قوم سے ہے اور میں یہ جانتا ہوں

وہ کبھی پیار کی ہامی نہیں بھرنے والی

میری خاطر تو زمانے سے بھی ٹکرا جائے

ایک لڑکی ہے جو حشرات سے ڈرنے والی

چشم الفت عجیب ہوتی ہے

 چشمِ الفت عجیب ہوتی ہے

مجھ سے ہر شے قریب ہوتی ہے

بات جب بڑھ گئی محبت میں

اپنی ہستی رقیب ہوتی ہے

جس کو چاہے نہ کوئی دنیا میں

اس کی دنیا عجیب ہوتی ہے

جب ترے خواب سے بیدار ہوا کرتے تھے

 جب تِرے خواب سے بیدار ہوا کرتے تھے

ہم کسی رنج سے دو چار ہوا کرتے تھے

آئینے چشم تحیر سے ہمیں دیکھتے تھے

ہم کہ جب تیرے گرفتار ہوا کرتے تھے

آج معلوم ہوا تیری ضرورت ہی نہ تھی

ہم یونہی تیرے طلب گار ہوا کرتے تھے

اداس شام کا منظر دکھائی دیتا ہے

 اداس شام کا منظر دکھائی دیتا ہے

ہر ایک تار بدن کا دُہائی دیتا ہے 

خزاں کی جب بھی کوئی تازہ فصل اٹھتی ہے

مزارعہ مجھے آدھی بٹائی دیتا ہے

عجیب بات ہے نقدِ متاعِ جاں کے عوض 

وہ شخص مجھ کو عقیدت پرائی دیتا ہے

اپنے انداز ميں کچھ رد و بدل کرتے ہوئے

 اپنے انداز ميں کچھ رد و بدل کرتے ہوئے

میں نے تصویر بنا دی ہے غزل کرتے ہوئے

یہ محبت تو ریاضی سے بھی پیچیدہ تھی

مسئلے بڑھتے گئے مسئلہ حل کرتے ہوئے

مجھ کو خدشہ ہے اسی کو ہی گنوا بیٹھوں گا

میں اسی شخص کی باتوں پہ عمل کرتے ہوئے

وہ جو فرقت سے ڈر گئے ہوں گے

 وہ جو فرقت سے ڈر گئے ہوں گے

جیتے جی وہ تو مر گئے ہوں گے

یاد تیری ہی جن کا زیور تھی

گہنے اُن کے اُتر گئے ہوں گے

روبرو بات جب ہوئی ہو گی

لفظ کتنے مُکر گئے ہوں گے

بغض و نفرت ہی عام ہے حضرت پیار کرنا حرام ہے حضرت

 بغض و نفرت ہی عام ہے حضرت

پیار کرنا حرام ہے حضرت

آپ کیوں آگ آگ کر اٹھے

میرے ہاتھوں میں جام ہے حضرت

ساری دنیا مرید ہے جس کی

آپ کا وہ غلام ہے حضرت

میرا تو نام ریت کے ساگر پہ نقش ہے

 میرا تو نام ریت کے ساگر پہ نقش ہے

پھر کس کا نام ہے جو تِرے در پہ نقش ہے

پھینکا تھا ہم پہ جو کبھی اس کو اٹھا کے دیکھ

جو کچھ لہو میں تھا، اسی پتھر پہ نقش ہے

شاید ادھر سے گزرا ہے اک بار تو کبھی

تیری نظر کا لمس جو منظر پہ نقش ہے

مسند عقیدت سے اتار دئیے جاؤ گے

 مسندِ عقیدت سے اُتار دئیے جاؤ گے

چُپ رہو! وگرنہ مار دئیے جاؤ گے

یہ بستی گُونگوں کی بستی ہے

شور جو مچاؤ گے گاڑ دئیے جاؤ گے 

یہ کہنا ہے اس دور کے پیمبروں کا

گُزرو گے نہیں تو گُزار دئیے جاؤ گے 

تمہارے بعد کے حالات ادھر کے دیکھ تو لو

 تمہارے بعد کے حالات اِدھر کے دیکھ تو لو

ذرا گہرائیوں میں تم اتر کے دیکھ تو لو

تمہیں دل کو سجانے کا ہنر آتا تو ہو گا

یہ کچھ بِکھرے ہُوئے اسباب گھر کے دیکھ تو لو

نہیں کہ تم سے دولت کا تقاضہ کر لیا ہے

یہی کہ معجزے شعر و ہنر کے دیکھ تو لو

Thursday, 21 January 2021

میں پلکوں پہ ستارے گن رہا ہوں

 میں پلکوں پہ ستارے گِن رہا ہوں

تِرے پندار سارے گن رہا ہوں

ابھی تو پار بھی اُترا نہیں ہوں

ابھی تو بس کنارے گن رہا ہوں

اب اپنے منظروں سے ہوں گریزاں

سبھی منظر تمہارے گن رہا ہوں

کھڑے ہیں مجھ کو خریدار دیکھنے کے لیے

 کھڑے ہیں مجھ کو خریدار دیکھنے کے لیے

میں گھر سے نکلا تھا بازار دیکھنے کے لیے

قطار میں کئی نابینا لوگ شامل ہیں

امیرِ شہر کا دربار دیکھنے کے لیے

ہزاروں بار ہزاروں کی سمت دیکھتے ہیں

ترس گئے تجھے ایک بار دیکھنے کے لیے

باخدا اب تو مجھے کوئی تمنا ہی نہیں

 باخدا اب تو مجھے کوئی تمنا ہی نہیں

پھر یہ کیا بات ہے یہ دل کہیں لگتا ہی نہیں

صرف چہرہ کی اداسی سے بھر آئے آنسو

دل کا عالم تو ابھی آپ نے دیکھا ہی نہیں

وہ کرم کرتے ہیں یا ہم پہ ستم کرتے ہیں

اس نظر سے انہیں ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں

مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے

کورونا کے موضوع پر ایک غزل


 مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے

اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو ہے

اک طبیبِ بے ہنر ہے اور اک مُوذی مرض

قریۂ بیمار جانے کیا سے کیا ہونے کو ہے

ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں، ٹوٹتی جاتی ہے سانس

اس کا کہنا ہے؛ نہ گھبراؤ شفا ہونے کو ہے

یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے

 نوحہ


یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے

میں تیری یادوں کی شمعیں بجھا کے خوابوں میں چل رہا ہوں

تِری محبت مجھے ندامت سے دیکھتی ہے

وہ آبگینہ ہوں خواہشوں کا کہ دھیرے دھیرے پگھل رہا ہوں

یہ میری آنکھوں میں کیسا صحرا اُبھر رہا ہے

عزیز خاص بھی ہے اور رحمت رب بھی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


عزیزِ خاص بھی ہے اور رحمتِ رب بھی

ملا غلامئ احمدﷺ کا خوب منصب بھی

مہک رہا ہے گلستانِ مصطفیٰﷺ دل میں

درودِ پاکﷺ سے تر ہیں زباں بھی لب بھی

شمار کل بھی تھا سرکارﷺ کے فقیروں میں

گدائی انﷺ کے ہی در کی عزیز تر اب بھی

ان کے ملنے پہ کیا غزل کہتے

 ان کے ملنے پہ کیا غزل کہتے

لب نہ ہلنے پہ کیا غزل کہتے

صدمے سب سہہ لیے جدائی کے

دل نہ چلنے پہ کیا غزل  کہتے

سوختہ وہ جگر کا ہونا تھا

آگ جلنے پہ کیا غزل کہتے

راستے زیست کے دشوار نظر آتے ہیں

 راستے زیست کے دشوار نظر آتے ہیں

لوگ الفت سے بھی بیزار نظر آتے ہیں

جس کو دیکھو وہ خریدار ہوا ہے ان کا

ہر طرف مصر کے بازار نظر آتے ہیں

بل ہے ابرو پہ، نظر تیز خدا خیر کرے

آج کچھ حشر کے آثار نظر آتے ہیں

دنیا وہ راستے کی رکاوٹ ہے دوستو

 دنیا وہ راستے کی رکاوٹ ہے دوستو

جس سے ہمیں شدید لگاوٹ ہے دوستو

چھت پر کھڑے ہیں پھر بھی نظر آسماں پہ ہے 

پانی میں تشنگی کی ملاوٹ ہے دوستو 

اک تو یہ راستے ہیں کہ جیسے ہوں دائرے

اس پر مسافتوں کی تھکاوٹ ہے دوستو

عروج کیسا زوال کیسا

 عروج کیسا، زوال کیسا

بچھڑنا ہے تو ملال کیسا

یہاں سبھی کو ہیں روگ اپنے

کسے سنائیں ہے حال کیسا

ہے دل میں نفرت ملیں گے ہنس کے

منافقوں کا ہے جال کیسا

یہ رات آخری لوری سنانے والی ہے

 یہ رات آخری لوری سنانے والی ہے

میں تھک چکا ہوں مجھے نیند آنے والی ہے

ہنسی مذاق کی باتیں یہیں پہ ختم ہوئیں

اب اس کے بعد کہانی رلانے والی ہے

اکیلا میں ہی نہیں جا رہا ہوں بستی سے

یہ روشنی بھی مِرے ساتھ جانے والی ہے

من کی ممتا سے لپٹ روئیں گے جذبات کے دکھ

 من کی ممتا سے لپٹ روئیں گے جذبات کے دُکھ

ہم نے بچوں کی طرح پالے ہیں سادات کے دکھ

میں تِرے ہجر کی حِدت پہ غزل کہتا رہا

اور مِری چھت سے ٹپکتے رہے برسات کے دکھ

ہر نئے سال کے بس دن ہی گِنے جاتے ہیں

اہلِ مکتب کی ریاضی میں کہاں رات کے دکھ

سوال خواہش دل کو بھی زیر لب نہ کروں

 سوالِ خواہشِ دل کو بھی زیرِ لب نہ کروں

تِری رضا جو نہ ہو تجھ سے کچھ طلب نہ کروں

مِرے خیال کے مالک! تُو ہی بتا مجھ کو

تجھے میں یاد کروں کب میں یاد کب نہ کروں

یقین کر مجھے تیری اشد ضرورت ہے

تجھے تلاش تو میں یونہی بے سبب نہ کروں

اس قدر بے مثال بولتا ہے

 اس قدر بے مثال، بولتا ہے

کہتے سب ہیں، کمال بولتا ہے

میرا ہر شعر تجھ سے معنی لے

لفظ تیرا خیال،. بولتا ہے

اس کی آنکھوں کی گفتگو پڑھنا

جب خوشی سے نہال، بولتا ہے

ژالہ باری ہو رہی ہے موسمِ سرما کے بیچ

 ژالہ باری ہو رہی ہے موسمِ سرما کے بیچ

اور اس کی یاد آئی ہے شبِ یلدا کے بیچ

منجمد کرتے ہوئے لہجوں سے لڑنے کے لیے 

مجھ کو اک جگنو ملا ہے سوچ کے صحرا کے بیچ

پڑ گئی اشنان کرتی اک کنیّا پر نظر 

ہاتھ دل سے دھو لیے بہتی ہوئی گنگا کے بیچ 

سیدھے سادھے لوگ تھے پہلے گھر بھی سادہ ہوتا تھا

 سیدھے سادھے لوگ تھے پہلے گھر بھی سادہ ہوتا تھا

کمرے کم ہوتے تھے، اور دالان کشادہ ہوتا تھا 

دیکھ کے وہ گھر گاؤں والے سوگ منایا کرتے تھے 

صحن میں جو دیوار اٹھا کر آدھا آدھا ہوتا تھا 

مستقبل اور حال کے آزاروں کے ساتھ نمٹنے کو 

چوپالوں میں ماضی کی یادوں کا اعادہ ہوتا تھا 

اداس گلیوں میں ناحق بکھر بکھر جاؤں

 اداس گلیوں میں ناحق بکھر بکھر جاؤں

میں اپنے آپ کو لے کر کبھی تو گھر جاؤں

کبھی تو ڈوبتے دن کا ملال ہو مجھ کو

کبھی تو شام کی تنہائیوں سے ڈر جاؤں

کوئی ستارہ کبھی میرے گھر میں بھی اترے

ہر ایک بام پہ کیا صورتِ نظر جاؤں

نہ کر تو اے دل مجبور آہ زیر لبی

 نہ کر تو اے دلِ مجبور آہِ زیر لبی

نہ ٹوٹ جائے کہیں یہ سکوتِ نِیم شبی

یہ کاوشِ غمِ پنہاں ہے عشق کا حاصل

روا نہیں تِری فرقت میں آرزو طلبی

خدا کرے یہیں رک جائے گردشِ دوراں

ہے رازدارِ محبت سکوتِ نِیم شبی

اسی بکھرے ہوئے لہجے پہ گزارے جاؤ

 اسی بکھرے ہوئے لہجے پہ گزارے جاؤ

ورنہ ممکن ہے کہ چپ رہنے سے مارے جاؤ

ڈوبنا ہے تو چھلکتی ہوئی آنکھیں ڈھونڈھو

یا کسی ڈوبتے دریا کے کنارے جاؤ

وہ یہ کہتے ہیں صدا ہو تو تمہارے جیسی

اس کا مطلب تو یہی ہے کہ پکارے جاؤ

حاجت رہی نہ مجھ میں قیام و قعود کی

 حاجت رہی نہ مجھ میں قیام و قعُود کی 

تعمیر ہو رہی تھی بدن میں سجُود کی

آنکھیں ہیں یادِ یار کی آمد کا معجزہ

سر سبز ہو رہی ہیں یہ شاخیں وجُود کی

جب مجھ میں ارتقائی عمل ماند پڑ گیا

توڑی گئی کسی سے نہ حالت جمُود کی

کوئی دیوار نہ در باقی ہے

 کوئی دیوار نہ در باقی ہے

دشتِ خوں حد نظر باقی ہے

سب مراحل سے گزر آیا ہوں

اک تِری راہ گزر باقی ہے

خواہشیں قتل ہوئی جاتی ہیں

اک مِرا دیدۂ تر باقی ہے

Wednesday, 20 January 2021

خود فریبی کا نام ٹھہری ہے

 خود فریبی کا نام ٹھہری ہے

زیست مقتل کی شام ٹھہری ہے

شاعری بھی عجیب شے نکلی

حسرتوں کا کلام ٹھہری ہے

اک انا تھی جو شام تھی میری

اب کسی کی غلام ٹھہری ہے

تیرے غموں کے سامنے انکار بانٹ دوں

 تیرے غموں کے سامنے انکار بانٹ دوں

میں سوچتا ہوں دشت میں گلزار بانٹ دوں

رشکِ زمیں بنیں گی محبت کی وادیاں

گر بستیوں میں عشق کے افکار بانٹ دوں

جن منزلوں کے حق میں نہیں راستے سو اب

غم کی میں ان میں ایک سی مقدار بانٹ دوں

میں تو لمحات کی سازش کا نشانہ ٹھہرا

 میں تو لمحات کی سازش کا نشانہ ٹھہرا

تُو جو ٹھہرا تو تیرے ساتھ زمانہ ٹھہرا

آنے والے کسی موسم سے ہمیں کیا لینا

دل ہی جب درد کی خوشبو کا خزانہ ٹھہرا

یاد ہے راکھ تلے، ایک شرارے کی طرح

یہ جو بجھ جائے ہواؤں کا بہانہ ٹھہرا

وہ جو نظروں سے اٹھائے تو اٹھا سکتا ہے

 وہ جو نظروں سے اٹھائے تو اٹھا سکتا ہے

ہار کو فتح دِلائے تو دِلا سکتا ہے

یہ محبت ہے یہاں قید نہیں کوئی بھی

تُو اگر ہاتھ چھڑائے تو چھڑا سکتا ہے

اتنا بے دِید نہیں ہے کہ مجھے دید نہ دے

وہ اگر آنکھ لڑائے تو لڑا سکتا ہے

میں قلم سے شباب اگاتا ہوں

 میں قلم سے شباب اگاتا ہوں

کس طرح؟ ٹھہرئیے بتاتا ہوں

فارمولا ہوں ارشمیدس کا

دیر سے ہی سمجھ میں آتا ہوں

اس کا سینہ گلاب اُگلتا ہے

خواب پتھر کو جب دکھاتا ہوں

ہیں باتیں مجھ سے اور دیکھے کواکب

 ہیں باتیں مجھ سے اور دیکھے کواکب

ہوئے کس طرز سے دیکھو مخاطب

یہ اپنا گھر، وہ خوش اندام حیراں

عجوبہ ہے، مخاطب ہے وہ صاحب

جنہیں منظور ہے بس خاک رہنا

ملے ہیں ان کو سب اونچے مراتب

تحریر بدلتی ہے تقدیر بدلتی ہے

 تحریر بدلتی ہے تقدیر بدلتی ہے

ماحول بدلنے سے تدبیر بدلتی ہے

جب رنگ بدلتا ہے اس چشمِ فسوں گر کا

ہر جرعۂ صہبا کی تاثیر بدلتی ہے

یہ کیا تِری نسبت سے ہر شے میں تلوّن ہے

ہر لمحہ تِرے غم کی تصویر بدلتی ہے

زندگی کیسے لگی دیوار سے

 زندگی کیسے لگی دیوار سے

پوچھنا بھی کیا کسی دیوار سے 

بس مجھے سر پھوڑنے کا شوق تھا

بات تھی دیوار کی دیوار سے 

جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی

راستہ نکلا اسی دیوار سے

پردیس میں ہوں گھر کا پتہ یاد نہیں ہے

 پردیس میں ہوں گھر کا پتہ یاد نہیں ہے

ہاں اک یہی اچھی میری افتاد نہیں ہے

حیراں ہیں کہ ہم آپ کو کیا پیش کریں گے

اب آپ کے قابل دلِ برباد نہیں ہے

سارے ہیں تیری زلفِ گِرہ گِیر کے قیدی

اس بزم میں تو کوٸی بھی آزاد نہیں ہے

مرے خیال میں مہتاب جاگے رہتے ہیں

 مِرے خیال میں مہتاب جاگے رہتے ہیں 

میں سو بھی جاؤں تو کچھ خواب جاگے رہتے ہیں

بس ایک خواب نے نیندیں سبھی چرا لی ہیں

اس ایک خواب سے بے خواب جاگے رہتے ہیں

کہاں پہ دفن کروں اپنے خوف کو جا کر

کہ نیند میں بھی تو اعصاب جاگے رہتے ہیں

پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے

 پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے

سامنے بہتا ہے دریا سوچ لے

دیکھ کر اس کو نہتّا خوش نہ ہو

تجربہ پہلا ہے تیرا، سوچ لے

رشتۂ آب و سراب اک خواب ہے

تُو بھی سایہ میں بھی سایہ سوچ لے

آنکھیں جھوٹ نظارہ جھوٹ

 آنکھیں جھوٹ نظارا جھوٹ

جو بھی ہے وہ سارا جھوٹ

ساگر جهوٹ کنارا جهوٹ

دریا کا ہر دهارا جهوٹ

ہم کو آج کہو پھر اپنا

بولو آج دوبارا جھوٹ

یہ ان دنوں کی بات ہے

یہ ان دنوں کی بات ہے


 جب میں اپنی

جھونپڑی کے باہر

چھوٹی چھوٹی

کیاریوں میں گندم، جو اور

سبزیاں اُگایا کرتا تھا

ہرا ہے آج بھی زخم گلاب تنہائی

 ہرا ہے آج بھی، زخمِ گلابِ تنہائی

نحیف روح کو لاحق، شبابِ تنہائی

اتر گئے ہیں کئی آسمان سے سورج

فصیلِ درد پہ ہے، آفتابِ تنہائی

نظر کے سامنے دلکش مناظروں کے ہجوم

نہاں ہیں چشمِ تصور میں خوابِ تنہائی

مشک و عنبر کی ہو برسات ضروری تو نہیں

 مشک و عنبر کی ہو برسات ضروری تو نہیں

چاندنی رات کی سوغات ضروری تو نہیں

اس کے سانسوں کی مہک دل میں ہر اک پَل اترے

اس کے ہاتھوں میں رہیں ہاتھ ضروری تو نہیں

کیا یہ کم ہے کہ وہ ہمراز سمجھتا ہے مجھے

اب بتائے مجھے ہر بات ضروری تو نہیں

Tuesday, 19 January 2021

درد ہوتے ہیں یادیں ہوتی ہیں

 درد ہوتے ہیں، یادیں ہوتی ہیں

کامیابیوں کے پیچھے، ماتیں ہوتی ہیں

جھُوٹے ہوتے ہیں وصل کے دن

سچی ہِجر کی راتیں ہوتی ہیں

بہت خوبصورت لہجوں کی تہہ میں

کچھ بہت کڑوی باتیں ہوتی ہیں

قدم قدم نشان ڈھونڈھتا رہا

قدم قدم نشان ڈھونڈھتا رہا

میں اک نیا جہان ڈھونڈھتا رہا

بہت سے قافلے ملے تھے راہ میں

میں اپنا کاروان ڈھونڈھتا رہا

نکل گیا جو میں حدودِ وقت سے

تو مجھ کو آسمان ڈھونڈھتا رہا

محبت کا جو وعدہ کر لیا ہے

 محبت کا جو وعدہ کر لیا ہے

یہ وعدہ بے ارادہ کر لیا ہے 

مجھے اپنوں کے دکھ بھی جھیلنا ہیں 

دماغ و دل کشادہ کر لیا ہے 

غموں نے زندگی کو چال دی ہے 

اسی سے استفادہ کر لیا ہے 

ہم اس نگر میں گئے کار دلبری کے لیے

 ہم اس نگر میں گئے کارِ دلبری کے لیے

جہاں گدا بھی تھے بیتاب زرگری کے لیے

زمانہ کب مِرے قامت تلک پہنچتا تھا

مجھی کو جھکنا پڑا اس کی ہمرہی کے لیے

عذابِ شام سہولت، سیرابِ صبح مفاد

مُصر ہیں چشمِ قناعت کی بے گھری کے لیے

نا تو ساقی ہے نہ پیمانہ غزل کون کہے

 نا تو ساقی ہے نہ پیمانہ غزل کون کہے 

خالی خالی ہے یہ میخانہ غزل کون کہے

آؤ کچھ روز یہ حالات کا نوحہ لکھیں

بھوک سے مرتا ہے دیوانہ غزل کون کہے

فکر کے پنچھی اندھیروں میں نہیں اڑ سکتے 

کوئی شمع ہے نہ پروانہ غزل کون کہے

محبت اس طرح بھیجو کہ جیسے خواب آتا ہے

 محبت اس طرح بھیجو

کہ جیسے پھول پر تتلی اترتی ہے

ہوا میں ڈولتی پر تولتی تتلی

لرزتی کپکپاتی پنکھڑیوں کو پیار کرتی ہے

تو ہر پتی نکھرتی ہے

محبت اس طرح بھیجو

دل محلہ غلام ہو جائے

 دل محلہ غلام ہو جائے

کوئی اس کا امام ہو جائے

دفترِ عشق کاش تم آؤ

میرے جیسوں کا کام ہو جائے

یوں تو رکھا ہے پیاس کا روزہ

آ گئے ہو، تو جام ہو جائے

تجھ سا پستہ قد نہیں ہو سکتا میں

 تجھ سا پستہ قد نہیں ہو سکتا میں

کافری، مرتد نہیں ہو سکتا میں

تجھ کو حق تنقید کا تو ہے، مگر

بے دلیلی، رَد نہیں ہو سکتا میں

مجھ کو دینا ہے حسابِ عمر بھی

اس لیے بے حد نہیں ہو سکتا میں

جنگلوں میں جستجوئے قیس صحرائی کروں

 جنگلوں میں جستجوئے قیسِ صحرائی کروں

کب تلک ڈھونڈوں، کہاں تک جادہ پیمائی کروں

گر کوئی مانع نہ ہو واں سجدہ کرنے کا مجھے

آستانِ یار پر برسوں جبیں سائی کروں

بزمِ ہستی میں نہیں جُز بے کسی اپنا رفیق

کس کی خاطر دوستو! میں محفل آرائی کروں

سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا

 سحر کو دُھند کا خیمہ جلا تھا

ہیولیٰ کُہر کے اندر چھپا تھا

مکاں جسموں کی خوشبو سے تھا خالی

مگر سایوں سے آنگن بھر گیا تھا 

اڑا تھا میں ہواؤں کے سہارے 

رکی آندھی تو نیچے گر پڑا تھا 

چاند کی اپنی کہانی رات کا قصہ الگ

 چاند کی اپنی کہانی رات کا قصہ الگ

داستانِ عشق میں ہے تجربہ سب کا الگ

اجنبی ہم آج سے ہیں پر سفر تو ہے وہی

صرف کہہ دینے سے ہوتا ہے کہیں رستہ الگ

ایک لمحہ بس وہی ہے اور باقی کچھ نہیں

زندگی ساری الگ اور وصل کا لمحہ الگ

لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے

 لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے

اس نے مٹھی میں چھپا رکھے ہیں گوہر سارے 

زخمِ دل جاگ اٹھے پھر وہی دن یار آئے 

پھر تصور پہ ابھر آئے وہ منظر سارے 

تشنگی میری عجب ریت کا منظر نکلی 

میرے ہونٹوں پہ ہوئے خشک سمندر سارے 

جس جا کروں نظر ترے جلوے ہی پاؤں میں

 جس جا کروں نظر تِرے جلوے ہی پاؤں میں

پھر کس طرح سے غیب پہ ایمان لاؤں میں

کچھ اس ادا سے راز سے پردہ اٹھاؤں میں

شمشیر🗡 تم اٹھاؤ، سِپر کو گراؤں میں

کیا پوچھتے ہو جانے دو، عادت ہے یہ مِری

اب اشکِ بے سبب کا سبب کیا بتاؤں میں

ہر ایک گام پہ حد ہر قدم در و دیوار

 ہر ایک گام پہ حد ہر قدم در و دیوار

فضائے شہر بنی بیش و کم در و دیوار

یہی تھے صحن فضا اور یہی گھر آنگن تھا 

تم آئے ہو تو ہوئے محتشم در و دیوار 

ہم اپنے درد ہواؤں سے بھی نہیں کہتے 

اٹھائے پھرتے ہیں خود اپنے غم در و دیوار 

لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا

 لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا

وہ میرا دشمن ہو کر بھی میرے گھر میں بستا تھا

باپ مَرا تو بچے روٹی کے ٹکڑے کو ترس گئے

ایک تنے سے کتنی شاخوں کا جیون وابستہ تھا

افواہوں کے دھوئیں نے کوشش کی ہے کالک ملنے کی

وہ بِکنے کی شے ہوتا تو ہر قیمت پر سستا تھا

داستان فطرت ہے ظرف کی کہانی ہے

 داستانِ فطرت ہے ظرف کی کہانی ہے

جتنا اُتھلا دریا ہے، اتنا تیز پانی ہے

جن لبوں نے سینچا ہے تشنگی کے خاروں کو

اب انہیں کے حصے میں جامِ کامرانی ہے

پھر سے کھِلنے والا ہے کوئی تازہ گُل شاید

باغباں کی پھر ہم پر خاصی مہربانی ہے

یہ بہاروں میں چمن کی داستاں ہو جائے گا

 یہ بہاروں میں چمن کی داستاں ہو جائے گا

غنچہ معصوم کانٹوں میں جواں ہو جائے گا

خار میری حسرتوں کے آپ کے جلووں کے پھول

یہ بہم ہو جائیں تو، اک گلستاں ہو جائے گا

آپ بھی روشن رکھیں اپنی محبت کے چراغ

یہ دِیے گل ہو گئے تو پھر دھواں ہو جائے گا

جو بھی کچھ اچھا برا ہونا ہے جلدی ہو جائے

 جو بھی کچھ اچھا برا ہونا ہے جلدی ہو جائے

شہر جاگے یا مِری نیند ہی گہری ہو جائے

یار اکتائے ہوئے رہتے ہیں، ایسا کر لو

آج کی شام کوئی جھوٹی کہانی ہو جائے

یوں بھی ہو جائے کہ برتا ہوا رستہ نہ ملے

کوئی شب لوٹ کے گھر جانا ضروری ہو جائے

شعورِ ذات میں جو شر تلاش کرتے ہیں

 شعورِ ذات میں جو شر تلاش کرتے ہیں

وہ موتیوں میں بھی پتھر تلاش کرتے ہیں

کمال ہوش میں ہیں چند سر بریدہ لوگ

یہ اپنے دھڑ کے لیے سر تلاش کرتے ہیں

ہیں اک قبیل کے روشن خیال مینڈک ہم

کنوئیں میں رہ کے سمندر تلاش کرتے ہیں 

نہیں موجود پر مثل ہوا ہے چار سو ہے

 نہیں موجود پر مثل ہوا ہے، چار سو ہے

اکیلے میں کہ جس کی یاد محو گفتگو ہے

ادائیں، سادگی، شوخی، تغافل، ایک جا ہیں

کوئی تصویر تیرے رنگ میں ہے یا کہ تو ہے

بلا کی تشنگی کا ہو مداوا کس طرح سے

ہر اک منظر پہ ویرانی ہے اور خالی سبو ہے

مجھ سے روٹھی مری تقدیر تھی وہ آج بھی ہے

 مجھ سے روٹھی مِری تقدیر تھی وہ آج بھی ہے

آہ بیگانۂ تاثیر تھی وہ آج بھی ہے

آپ کی چشمِ عنایت کے تصرف کی قسم

بزم کی بزم جو دلگیر تھی وہ آج بھی ہے

انقلابات کی یورش ہے الٰہی توبہ

دل میں اک حسرتِ تعمیر تھی وہ آج بھی ہے

مسکرانا بہت آساں تھا کسی کے ہوتے

 مسکرانا بہت آساں تھا کسی کے ہوتے

اب یہ عالم ہے کہ روتے ہیں سبھی کے ہوتے

آسمانوں سے اترنے میں اسے دیر لگی

ہم بھی تاخیر سے آتے تو اسی کے ہوتے

مانگ کر پینے کی عادت نہیں ڈالی اب تک

ہاتھ پھیلائے نہیں تشنہ لبی کے ہوتے

تھکن محسوس کرتی ہے کہ بستر چوم لیتے ہیں

 تھکن محسوس کرتی ہے کہ بستر چوم لیتے ہیں

سفر میں جب کبھی منزل کا پتھر چوم لیتے ہیں

نہ کوئی پیر نہ مرشد میں ٹھہرا حضرتِ عاشق

تیری بستی کے کیوں پتھر میرا سر چوم لیتے ہیں

ہماری پیاس کا سمجھوتا قطروں سے نہیں ہو گا

چلو اے تشنگی! بڑھ کر سمندر چوم لیتے ہیں

Monday, 18 January 2021

چالیسواں دن ہے کرفیو کا

 چالیسواں دن ہے کرفیو کا

اب وادی ہی میں نافذ نہیں

کرفیو تیرتا ہے

لہو میں میرے

چاند کے ساتھ ساتھ

بن جاتا ہے باطن کی آنکھ

دل لٹے گا جہاں خفا ہو گا

 دل لٹے گا جہاں خفا ہو گا 

عشق میں جو بھی ہو بھلا ہو گا 

شہر کا شہر ہے اداس اداس 

میرے بارے میں کچھ سنا ہو گا 

اپنی بربادیوں کا رنج نہیں 

تیری تنہائیوں کا کیا ہو گا 

اک ضرورت ہے جو تحویل تک آ پہنچی ہے

 اک ضرورت ہے جو تحویل تک آ پہنچی ہے

ہر حقیقت یہاں تمثیل تک آ پہنچی ہے

اب اخوت پہ بھروسہ نہیں کرتی دنیا

آگہی نیتِ قابیل تک آ پہنچی ہے

اے مِرے مونس و غمخوار مجھے مرنے دے

بات اب حکم کی تعمیل تک آ پہنچی ہے

وسعت افلاک میں پھیلا ہے دھارا شام کا

 وسعت افلاک میں پھیلا ہے دھارا شام کا

شام ہجراں سے بھی آگے ہے کنارا شام کا

شب نوردوں پہ گراں گزرے گا جنگل کا سفر

آج ڈوبا شام سے پہلے ستارا شام کا

روز آنکھوں میں سپرد خواب ہوتا آفتاب

روز پلکوں پہ اترتا ہے نظارا شام کا

جب وہ تنہا کبھی ہوا ہو گا

 جب وہ تنہا کبھی ہوا ہو گا

یاد شاید مجھے کیا ہو گا

سوچتا ہوں مِری طرح وہ بھی

میرے بارے میں سوچتا ہو گا

آہ بھر کے ہوں مطمئن ایسے

جیسے اس نے بھی سن لیا ہو گا

تم بھی اس سوکھتے تالاب کا چہرہ دیکھو

 تم بھی اس سُوکھتے تالاب کا چہرہ دیکھو

اور پھر میری طرح خواب میں دریا دیکھو

اب یہ پتھرائی ہوئی آنکھیں لیے پھرتے رہو

میں کب تم سے کہا تھا مجھے اتنا دیکھو

روشنی اپنی طرف آتی ہوئی لگتی ہے

تم کسی روز مِرے شہر کا چہرہ دیکھو

اتنی تو بہار اک دن ویرانے تک آ جائے

 اتنی تو بہار اک دن، ویرانے تک آ جائے

نکہت ہی گلستاں کی دیوانے تک آ جائے

اے بادہ کشی! اتنا اعجاز تو پیدا کر

خود عکسِ رُخِ رنگیں پیمانے تک آ جائے

رہ رہ کے جلاتا ہوں میں دل کے چراغوں کو

معلوم نہیں کب وہ غم خانے تک آ جائے

کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا

 کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا

مِرا بصرہ، مِرا بغداد مولا

بہت دکھ سہہ لیا اہلِ حرم نے

بہت دن رہ لیا ناشاد مولا

بہت سے شاد و فرحاں پھر رہے ہیں

ہمارے ساتھ کے برباد مولا

کرشمے تھے مسلسل چار دن فاقہ گزاری کے

 کرشمے تھے مسلسل چار دن فاقہ گزاری کے

کبوتر بار ہا رومال سے نکلا مداری کے🕊

ہمیں تو خون کے رشتے بھی کچے ہی نظر آئے

بزرگوں سے بڑے دعوے سنے تھے پائیداری کے

غنیمت ہے قلمکاری میں اک حرفِ ستائش بھی

مقدر سے ہی کچھ معیار پر آتا ہے قاری کے

پاس ہم نے ہمیشہ پائے ہیں

 پاس ہم نے ہمیشہ پائے ہیں

جو کبھی لوٹ کر نہ آئے ہیں

ان کو بے دخل کر دیا جائے

خواب دیدار بِن بلائے ہیں

آزماتے ہیں لوگ قسمت کو

ہم مقدر کے آزمائے ہیں

کیا کمال کرتے ہو

 کیا کمال کرتے ہو

روز کال کرتے ہو 

عشق کی امامت میں

قیل و قال کرتے ہو

کہہ کے ایک ہی دن کا

ماہ و سال کرتے ہو

ہم کو تو ربط خاص ہے دار و رسن کے ساتھ

 ہم کو تو ربط خاص ہے دار و رسن کے ساتھ

جینے کی آرزو ہے مگر بانکپن کے ساتھ

دل میں ہمارے شوق ہے، غم ہے، امید ہے

صحرا نوردیاں ہیں، مگر انجمن کے ساتھ

حیرت سے برہمی کی ادا دیکھتے رہے

کتنی کہانیاں تھی جبیں پر شکن کے ساتھ

دل مطمئن ہے حرف وفا کے بغیر بھی

 دل مطمئن ہے حرفِ وفا کے بغیر بھی

روشن ہے راہِ نور صدا کے بغیر بھی

اک خوف سا درختوں پہ طاری تھا رات بھر

پتے لرز رہے تھے ہوا کے بغیر بھی

گھر گھر وبائے حرص و ہوس ہے تو کیا ہوا

مرتے ہیں لوگ روز وبا کے بغیر بھی

کبھی شہ کی طرفداری نہیں کی

 کبھی شہ کی طرفداری نہیں کی

مگر مٹی سے غداری نہیں کی

ہماری کتنی نسلیں کٹ چکی ہیں

سَروں کی اب شجر کاری نہیں کی

بہت کڑوا دھواں اس آنکھ میں تھا

کبھی آواز تک بھاری نہیں کی

باغباں بھی ہے سوگواروں میں

باغباں بھی ہے سوگواروں میں

پھول مرجھا گئے بہاروں میں

خیر کے ساتھ شر بھی ہے لازم 

پھول جچتا ہے خوب خاروں میں

بے زباں بھی زبان رکھتے ہیں 

بات بھی کرتے ہیں اشاروں میں

کب سے مانگ رہے ہیں تم سے

 کب سے مانگ رہے ہیں تم سے

ساغر سے، مِینا سے، خُم سے

ہم بھی کچھ کچھ کھوئے ہوئے ہیں

آپ بھی لگتے ہیں گُم سُم سے

جاگیں گے بے جان سے جذبے

تیرے دہن کے حرفِ قُم سے

دھند ہے یا دھواں سمجھتا ہوں

 دھند ہے یا دھواں سمجھتا ہوں

وسعتِ آسماں سمجھتا ہوں

عشق کی لذتوں سے ہوں واقف

درد و آہ و فغاں سمجھتا ہوں

غرق ہوتے جہاز دیکھے ہیں

سیلِ وقتِ رواں سمجھتا ہوں

کر کے ساگر نے کنارے مسترد

 کر کے ساگر نے کنارے مسترد

کر دیئے اپنے سہارے مسترد

شرمگِیں نظروں نے اس کی کر دئیے 

میری آنکھوں کے اشارے مسترد 

آپ کے آنچل میں سج کر جی اٹھے 

تھے فلک پر جو ستارے مسترد 

تیرے درشن سدا نہیں ہوتے

تیرے درشن سدا نہیں ہوتے

معجزے بارہا نہیں ہوتے

آؤ تو آہٹیں نہیں ہوتیں

جاؤ تو نقشِ پا نہیں ہوتے

تم سے ملنے ضرور آؤں گا

فرض مجھ سے قضا نہیں ہوتے

خدا بناتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

 خدا بناتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

بشر مٹاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں  سے

یہ کس نے کھینچ دیں نفرت کی ہم میں دیواریں 

لہو بہاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

عجیب خبط ہے اس شہرِ بے سماعت میں

صدا لگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

بہار رت بھی ہے اداس زندگی لیکن

 بہار رُت بھی ہے اداس زندگی لیکن

مِرا وہ اپنا ہے محفل میں اجنبی لیکن

میں اس سے ترکِ تعلق کا حق تو رکھتا ہوں

مِری ہے راہ میں حائل وہ دل لگی لیکن

نزع میں دیکھ کے مجھ کو وہ خوش نظر آیا

مِری بھی دید کے قابل تھی بے بسی لیکن

کہہ رہی ہے یہ کیا صبا کچھ سوچ

 کہہ رہی ہے یہ کیا صبا کچھ سوچ

اے حسیں پیکرِ جفا! کچھ سوچ

چند روزہ بہار پر مت جا 

گُل کا انجام کیا ہوا؟ کچھ سوچ 

یہ حسیں رُت، یہ چاندنی، یہ بہار 

ایسے عالم میں تُو نہ جا کچھ سوچ 

لب تک آیا گلہ ہمیشہ سے

 لب تک آیا گِلہ ہمیشہ سے

اور میں چپ رہا ہمیشہ سے

سب ہواؤں سے جنگ کرتا رہا

ایک ننھا دِیا🪔 ہمیشہ سے

سوچ پر لگ سکی نہ پابندی

یوں ہی آئی ہوا ہمیشہ سے

Sunday, 17 January 2021

سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا

 سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا

وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا


عالم بڑے بڑے ہیں، تو لیڈر گلی گلی

بارش ہے افسروں کی، تو دفتر گلی گلی

شاعر، ادیب، اور سخنور گلی گلی

سقراط دربدر ہیں، سکندر گلی گلی

یہ حسیں جواں نظارے یہ بہار یاد رکھنا

 گیت/غزل


یہ حسیں جواں نظارے یہ بہار یاد رکھنا

او دور جانے والے میرا پیار یاد رکھنا


تجھے راہ چلتے چلتے کوئی اجنبی ملے جب

تیری سُونی زندگی میں کوئی پھول سا کھلے جب

میری زندگی کی پہلی یہ بہار یاد رکھنا

یہ حسیں جواں نظارے یہ بہار یاد رکھنا

یہ حسیں جواں نظارے 

جانے والوں میں اگر نام نکل آئے مرا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


جانے والوں میں اگر نام نکل آئے مِرا

گاڑی طیبہ کی ہو، انعام نکل آئے مرا

حکم آ جائے کہ روضے پہ لگے ہو نوکر

اس وسیلے سہی کچھ دام نکل آئے مرا

مجھ کو مہلت ہو، رکوں، کام ہو چاہے کوئی

شہرِ طیبہ میں بہت کام نکل آئے مرا

انبار لگے ہیں اذیتوں کی روئی کے

 انبار لگے ہیں

اذیتوں کی روئی کے

کتنی اذیتوں کا سُوت کاتوں

من کی تکلی نڈھال ہے

روئی کے سینے میں چھپی

کوئی چنگاری آگ لگا دے

ہاں مرا حال ہے برباد مگر میں تو نہیں

 ہاں مِرا حال ہے برباد مگر میں تو نہیں

تجھ کو کرتا ہے کوئی یاد مگر میں تو نہیں

بار ہا خالقِ کونین تِری خدمت میں

پہنچی ہو گی مِری فریاد مگر میں تو نہیں

عہدِ حاضر میں لگے مصر کے بازاروں میں

بک گئی ہے مِری روداد مگر میں تو نہیں

بہتر تو ہے یہی کہ پر و بال کاٹ دے

 بہتر تو ہے یہی کہ پر و بال کاٹ دے

یا پھر کوئی فضا کے سبھی جال کاٹ دے

فنکار سنگ و چوب تراشے تو احتساب

موسم جو پیڑ پیڑ پہ اشکال کاٹ دے

اک عمر کاٹ دی ہے جہاں ہم نے کوئی اور

اک روز، ایک ماہ، یا اک سال کاٹ دے

ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا

 ستم کی تیغ پہ یہ دستِ بے نیام رکھا

گلِ شکست سرِ شاخِ انتقام رکھا

میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا

اور اپنے خانۂ وحشت میں زیرِ دام آیا

نگار خانۂ تسلیم کیا بیاباں تھا

جہاں پہ سیلِ خرابی کو میں نے تھام رکھا

گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا

 گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا 

نہ گیا ہم سے آنکھ بھر دیکھا 

نالہ ہر چند ہم نے گر دیکھا 

آہ اب تک نہ کچھ اثر دیکھا 

آج کیا جی میں آ گیا تیرے 

متبسم ہو جو ادھر دیکھا 

تم جو آ جاؤ غم دھواں ہو جائے

 تم جو آ جاؤ غم دھواں ہو جائے

بزمِ جاں رشکِ آسماں ہو جائے

ٹوٹ جاتا ہے دم محبت کا

بدگمانی اگر جواں ہو جائے

حال و ماضی کی سرحدیں ایسی

زندگی پَل میں رفتگاں ہو جائے

ابتدا و انتہا کے درمیاں

 ابتدا و انتہا کے درمیاں

منزلیں کتنی ہیں کتنے کارواں

دامنِ امید خالی ہو گیا

صبحیں شامیں ہو گئیں کتنی گراں

بھیگی پلکوں پر ٹھہر جاتے ہی یہ

یاد کے موسم گزرتے ہیں کہاں

آئی تھی اس طرف جو ہوا کون لے گیا

 آئی تھی اس طرف جو ہوا کون لے گیا؟

خالی پڑا ہے طاق، دِیا🪔 کون لے گیا

دشمن عقب میں آ بھی گیا اور ابھی تلک

تم کو پتہ نہیں  ہے عصا کون لے گیا?

اس شہر میں تو کوئی سلیمان بھی نہیں

میں کیا بتاؤں؟ تختِ سبا کون لے گیا

جب آمد نیند کی مژگان کو بھاری کرے ہے

 جب آمد نیند کی مِژگان کو بھاری کرے ہے

وہ کر کے نیم وا آنکھیں اداکاری کرے ہے

تِرے بارے میں خاص و عام کی رائے یہی ہے 

پرانی چھوڑ دیوے ہے، نئی یاری کرے ہے

دلِ عشّاق پر اس کی ذرا سی دل رُبائی 

کرے ہے کام جو ایندھن پہ چنگاری کرے ہے

زندگی کو تباہ کیا کرتے

 زندگی کو تباہ کیا کرتے

ہم بھلا اور نِباہ کیا کرتے

ایسے مصروف تھے وہ اپنوں میں

غیروں پہ اک نگاہ کیا کرتے

شِرک سے باقی سارے چھوٹے ہیں

ہم بڑا اور گناہ کیا کرتے

اشک کی ایسی فراوانی پہ رشک آتا ہے

 اشک کی ایسی فراوانی پہ رشک آتا ہے

چشمِ نم تیری پریشانی پہ رشک آتا ہے

جب کسی عالمِ حیرت کی خبر لگتی ہے

رشک آتا ہے جہانبانی پہ رشک آتا ہے

تابشِ ماہ بھی کچھ کم تو نہیں ہے لیکن

یار کے چہرۂ نورانی پہ رشک آتا ہے

جلتی بجھتی سی رہگزر جیسے

 جلتی بجھتی سی رہگزر جیسے

زندگی دُور کا سفر جیسے

اس قدر پُر خلوص لہجہ ہے

اس سے ملنا ہے عمر بھر جیسے

اس محلہ میں اک جواں لڑکی

بیچ اخبار میں خبر جیسے

درج ذیل سطور اس کے نام

 اس کے نام


درج ذیل سطور

سوچ نہ سکتی تھی مجھ سی سر پھری

گھومتا لٹو بھی آخر ٹھہر کر

سر زمینِ لذت مہرو و وفا چھو سکتا ہے

اک تحیر کا سماں تھا جب مجھے

پیکر آزاد نے تجسیم کا منظر دیا

میں کرپشن کی فضیلت کو کہاں سمجھا تھا

کبھی کبھار ہنس بھی لیا کریں


 میں کرپشن کی فضیلت کو کہاں سمجھا تھا

بحر ظلمات کو چھوٹا سا کنواں سمجھا تھا

پھر بجٹ اس نے گِرایا ہے ہتھوڑے کی طرح

وہ حکومت کو بھی لوہے کی دکاں سمجھا تھا

تاج محلوں کی جگہ تم نے بنائیں قبریں

لیڈرو! ہم نے تمہیں شاہ جہاں سمجھا تھا

Saturday, 16 January 2021

اس توقع پہ کھلا رکھنا گریباں اپنا

 اس توقع پہ کُھلا رکھنا گریباں اپنا

جانے کب آن ملے جانِ بہاراں اپنا

لمحے لمحے کی رفاقت تھی کبھی وجہِ نشاط

موسمِ ہجر ہوا اب سر و ساماں اپنا

نِت نئے خواب دِکھاتا ہے اجالوں کے لیے

وہ کہ ہے دشمنِ جاں، دشمنِ ایماں اپنا

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

 دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

ہمیں یوسف کا سفر یاد آیا

میں نے تلوار پہ سر رکھا تھا

یعنی تلوار سے سر یاد آیا

وہ تِری کم سخنی تھی کہ مجھے

بات کرنے کا ہنر یاد آیا

ایک ذرہ بھی نہ مل پائے گا میرا مجھ کو

 ایک ذرہ بھی نہ مل پائے گا میرا مجھ کو

زندگی تُو نے کہاں لا کے بکھیرا مجھ کو

سفرِ شب میں تو پھر چاند کی ہمراہی ہے

کیا عجب ہو کسی جنگل میں سویرا مجھ کو

میں کہاں نکلوں گا ماضی کو صدائیں دینے

میں کہ اب یاد نہیں نام بھی میرا مجھ کو

خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا

 خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا

ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا

یہ جدائی ہے کہ نسیاں کا جہنم کوئی

راکھ ہوجائے نہ یادوں کا ذخیرہ اپنا

ان ہوائوں میں یہ سسکی کی صدا کیسی ہے

بین کرتا ہے کوئی درد پرانا اپنا

ہر چند ہم نے اپنی زباں سے کہا نہیں

 ہر چند ہم نے اپنی زباں سے کہا نہیں

وہ حال کون سا ہے جو تُو نے سنا نہیں

ایسا بھی اب نہیں ہے کہ نازِ صبا اٹھائیں

محفل میں دیکھتا ہے تو پہچانتا نہیں

یوں بھی ہزار روگ ہیں دل کو لگے ہوئے

پھر اس پہ یہ ملال کہ وہ پوچھتا نہیں

وقت بنجارا صفت لمحہ بہ لمحہ اپنا

 وقت بنجارا صفت لمحہ بہ لمحہ اپنا

کس کو معلوم یہاں کون ہے کتنا اپنا

جو بھی چاہے وہ بنا لے اسے اپنے جیسا

کسی آئینے کا ہوتا نہیں چہرہ اپنا

خود سے ملنے کا چلن عام نہیں ہے ورنہ

اپنے اندر ہی چھپا ہوتا ہے رستہ اپنا

دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا

 دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا

اب کے برس بھی رات کا منتظر وہی رہا

نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے

وہ صیدِ انتقام تھا، در پر وہی رہا

سارا ہجوم پا پیادہ چوں کہ درمیاں

صرف ایک ہی سوار تھا رہبر وہی رہا

آ تیری گلی میں مر گئے ہم

 آ تیری گلی میں مر گئے ہم

منظور جو تھا سو کر گئے ہم

تجھ بِن گلشن میں گر گئے ہم

جوں شبنم چشم تر گئے ہم

پاتے نہیں آپ کو کہیں یاں

حیران ہیں کس کے گھر گئے ہم

اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے

 اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے

شاید کہ مجھے شعلۂ در پیش جلا دے

اس دل کو کسی دستِ ادا سنج میں رکھنا

ممکن ہے یہ میزانِ کم و بیش جلا دے

کس قحط خور و خواب میں میں مول کے لایا

وہ نان کہ جو کاسۂ درویش جلا دے

زندگی کٹتی ہے کچھ اہلِ کرامات کے ساتھ

 زندگی کٹتی ہے کچھ اہلِ کرامات کے ساتھ

زہر کا جام جو دیتے ہیں مدارات کے ساتھ

ہم مسافر ہیں شبِ تار کے، پر جانتے ہیں

ان اندھیروں کا تسلط ہے فقط رات کے ساتھ

رات کے ساتھ مہ و نجم کا رشتہ ہے، مگر

جیسے ظالم کا تعلق ہو مراعات کے ساتھ

اس طرح سوئی ہیں آنکھیں جاگتے سپنوں کے ساتھ

 اس طرح سوئی ہیں آنکھیں جاگتے سپنوں کے ساتھ

خواہشیں لپٹی ہوں جیسے بند دروازوں کے ساتھ

رات بھر ہوتا رہا ہے اس کے آنے کا گماں

ایسے ٹکراتی رہی ٹھنڈی ہوا پردوں کے ساتھ

ایک لمحے کا تعلق، عمر بھر کا روگ ہے

دوڑتے پھرتے رہو گے بھاگتے لمحوں کے ساتھ