دنیا کا غم ہی کیا غمِ الفت کے سامنے
باطل ہے بے وجود حقیقت کے سامنے
حسرت سے چپ ہوں میں تِری صورت کے سامنے
جیسے گناہ گار ہو جنت کے سامنے
رُسوائیاں ہزار ہوں، بربادیاں ہزار
پروا کسے ہے تیری محبت کے سامنے
دنیا کا غم ہی کیا غمِ الفت کے سامنے
باطل ہے بے وجود حقیقت کے سامنے
حسرت سے چپ ہوں میں تِری صورت کے سامنے
جیسے گناہ گار ہو جنت کے سامنے
رُسوائیاں ہزار ہوں، بربادیاں ہزار
پروا کسے ہے تیری محبت کے سامنے
ساز آہستہ، ذرا گردشِ جام آہستہ
جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ
چاند اُترا کہ اُتر آئے ستارے دل میں
خواب میں ہونٹوں پہ آیا تِرا نام آہستہ
کُوئے جاناں میں قدم پڑتے ہیں ہلکے ہلکے
آشیانے کی طرف طائرِ بام آہستہ
کیسے عجیب لوگ تھے جن کے یہ مشغلے رہے
میرے بھی ساتھ ساتھ تھے، غیر سے بھی ملے رہے
تُو بھی نہ مل سکا ہمیں، عُمر بھی رائیگاں گئی
تجھ سے تو خیر عشق تھا، خود سے بڑے گلے رہے
دیکھ لے، دلِ نامُراد! تیرا گواہ بن گیا
ورنہ میرے خلاف تو میرے ہی فیصلے رہے
سادھو کی عظمت
آج کہے کل بھجوں گا، کال کہے پھر کال
آج کال کے کرت ہی، او سر جاسی چال
کبیرا سنگت سادھ کی، بیگ کریجے جائی
دُرمت دور گنوائی کے، دے سی سُمت بتائی
سینہوں کے لہنڈے نہیں، ہنسوں کی نہیں پات
لعلوں کی نہیں بوریاں، سادھ نہ چلے جماعت
وہ ہٹا رہے ہیں پردہ، سر بام چُپکے چُپکے
میں نظارہ کر رہا ہوں، سر شام چپکے چپکے
یہ جھکی جھکی نگاہیں، یہ حسیں حسیں اشارے
مجھے دے رہے ہیں شاید، یہ پیام چپکے چپکے
نہ دکھاؤ چلتے چلتے، یوں قدم قدم پہ شوخی
کوئی قتل ہو رہا ہے، سر عام چپکے چپکے
عجیب وحشت ہے
عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
وہی پرانا سا روگ کوئی
وہی پرانی سی کیفیت ہے
وہی سلونا سا ذائقہ ہے ان آنسوؤں کا
وہی تو رنگت ہے
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے
کوئی تو نکلے کفن کو علم🏴 بنائے ہوئے
تڑپنے لگتے ہو کیوں ذکرِ ابنِ حیدرؑ پر؟
علیؑ کے لال سے کتنا ہو خوف کھائے ہوئے
طلب نہیں ہے کسی قصر کی، نہ شاہی کی
ہمیں قبول ہیں یا رب وہ گھر جلائے ہوئے
یہ ملک و قوم کی جہد و بقاء کو مار دیتے ہیں
یہ وہ رہزن ہیں جو ہر رہنما کو مار دیتے ہیں
یہ ظالم لوگ ہیں بد صورتی سے عشق کرتے ہیں
یہ ہر خوش شکل کو ہر خوش ادا کو مار دیتے ہیں
یہ سب ہی غوغۂ زاغ و زغن کا شوق رکھتے ہیں
یہ ہر اک طائرِ نغمہ سرا کو مار دیتے ہیں
حسن بے پردہ کی گرمی سے کلیجہ پکا
تیغ کی آنچ سے گھر میں مِرے کھانا پکا
جنسِ دل لے کے نہ جاؤں میں کسی اور کے پاس
آپ بیعانہ اگر دیجئے پکا پکا
ہر طرح ہاتھ اٹھانا ہے جہاں سے مشکل
بیٹھ رہنے کو بھی گھر چاہئے کچا پکا
ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے
چادر کو اپنی دیکھ کے ہم خود سمٹ گئے
جب ہاتھ میں قلم تھا تو الفاظ ہی نہ تھے
اب لفظ مل گئے تو مِرے ہاتھ کٹ گئے
صندل کا میں درخت نہیں تھا تو کس لیے
جتنے تھے غم کے ناگ مجھی سے لپٹ گئے
عالم تِری نگہ سے ہے سرشار دیکھنا
میری طرف بھی ٹک تو بھلا یار دیکھنا
ناداں سے ایک عمر رہا مجھ کو ربط عشق
دانا سے اب پڑا ہے سروکار دیکھنا
گردش سے تیری چشم کے مُدت سے ہوں خراب
تس پر کرے ہے مجھ سے یہ اقرار دیکھنا
نالۂ یتیم
آہ جو دل پہلے تھا پہلو میں اب وہ دل نہیں
شمع مردہ رہ گئی جب درخور محفل نہیں
اور حیات جاودانی مرگ کے قابل نہیں
طالبِ حق حُبِ دنیا پر کبھی مائل نہیں
میں تِرا دیوانہ ہوں دنیا میں گو فرزانہ ہوں
ہاں ازل سے میں فدائے طلعت جانانہ ہوں
بڑھنے لگے ہیں وہم و گماں، خوش نہیں ہوں میں
یعنی کے اس کے بعد میاں خوش نہیں ہوں میں
موسیٰ! خدا کو میرا یہ پیغام دیجئے
دن کاٹ تو رہا ہوں یہاں خوش نہیں ہوں میں
کل شب میں اس کو ڈانٹ کے آیا ہوں بے سبب
دانتوں سے چیتھ لوں گا زباں خوش نہیں ہوں میں
تم نے جب گھر میں اندھیروں کو بُلا رکھا ہے
اٹھ کے سو جاؤ کہ دروازے پہ کیا رکھا ہے
ہر کسی شخص کے رونے کی صدا آتی ہے
پھر کسی شخص نے بستی کو جگا رکھا ہے
اپنی خاطر بھی کوئی لفظ تراشیں یارو
ہم نے کس واسطے یوں خود کو بُھلا رکھا ہے
جو برق سی دوڑا دے مِلت کے جوانوں میں
وہ سوز نہیں باقی واعظ کے بیانوں میں
معتوب ہوئے ہیں ہم کچھ ایسے زمانوں میں
جب تیر ہیں پتھر کے شیشے کی کمانوں میں
یا ذہن ہیں یخ بستہ، یا مردہ ضمیری ہے
یا سوز نہیں باقی، مُلا کی اذانوں میں
جو کچھ میں نے تمہیں لکھا تھا
شبد نہیں تھے
میرے ہاتھ کی ہر انگلی سے خون بہا تھا
مجھ کو تم ہی شبدوں کی دیوی کہتے تھے
یوں میرے شبدوں کا تم اپمان کرو گے
میرے دھیان میں کب ایسا تھا
سبھی یہاں ہیں دریدہ دامن،۔ سبھی کا اب حال ایک سا ہے
اب ایسی صورت میں کس سے پوچھیں یہ کیا بنا ہے یہ کیا ہوا ہے
کچھ اس طرح سے کبھی ہوا تھا سکوت دار و رسن کا عالم
نہ کوئی دیوانہ سر بکف ہے، نہ کوئی وحشی ڈٹا ہوا ہے
مرض یہ کیا ہے کہ جس کے ڈر سے تمام دنیا لرز رہی ہے
یہ کیا وبا ہے کہ جس کے آگے ہر ایک کا سر جھکا ہوا ہے
انحصار ذات
روشنی ہوں، روشن ہوں
اپنا آپ ظاہر ہوں
اپنا آپ باطن ہوں
میں ہی جیسے سورج ہوں
مجھ میں لو ہے سورج کی
آہ کب لب پر نہیں ہے، داغ کب دل میں نہیں
کون سی شب ہے کہ گرمی اپنی محفل میں نہیں
بزم کی کثرت سے اندیشہ مِرے دل میں نہیں
دل میں اس کی ہے جگہ میرے جو محفل میں نہیں
پنجۂ مژگانِ تر نے یہ اڑائیں دھجیاں
تار باقی ایک بھی دامانِ ساحل میں نہیں
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
زندگی ہے حسینؑ کے غم سے
میری ہر سانس ہے محرم سے
ؑآ رہی ہے صدا حسینؑ حسین
دل دھڑکنے لگا ہے ماتم سے
ہو گیا چاند کیا محرم کا؟
اشک بہنے لگے ہیں اک دم سے
چاک دل بھی کبھی سِلتے ہوں گے
لوگ بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے
روز و شب کے انہی ویرانوں میں
خواب کے پھول تو کھلتے ہوں گے
ناز پرور وہ تبسّم سے کہیں
سلسلے درد کے ملتے ہوں گے
اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے
اس میری تباہی میں تِرا نام نہ آئے
یہ درد ہے ہمدم! اسی ظالم کی نشانی
دے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے
کاندھے پہ اٹھائے ہیں ستم راہِ وفا کے
شکوہ مجھے تم سے ہے کہ دو گام نہ آئے
چوکھٹے میں بولتی تصویر
خباثت اس کے چہرے سے
کبھی ظاہر نہیں ہوتی
کُھرچ کر پھینک دی کس نے
ہر اک جذبے سے ہے عاری
ہمیشہ مسکراہٹ ایک جیسی
کل مدعی کو آپ پہ کیا کیا گماں رہے
بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے
یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
یا کھینچ لائے دیر سے رندوں کو اہلِ وعظ
یا آپ بھی ملازمِ پیرِ مغاں رہے
نام چلے ہرنام داس کا، کام چلے امریکا کا
مورکھ اس کوشش میں ہے سورج نہ ڈھلے امریکا کا
نردھن کی آنکھوں میں آنسو آج بھی ہیں اور کل بھی تھے
برلا کے گھر دیوالی ہے، تیل جلے امریکا کا
دنیا بھر کے مظلوموں نے بھید یہ سارا جان لیا
آج ہے ڈیرا زرداروں کے سائے تلے امریکا کا
گھونسلہ باقی رہے گا نہ یہاں پر تنکے
چل تجھے عشق کے نقصان بتاؤں گن کے
تجھ کو سب درد اکیلے ہی اٹھانے ہوں گے
دیکھ یہ لوگ تو ساتھی ہیں فقط دو دن کے
یار کب وصل کی صورت ہے کوئی بھی، لیکن
یار بھگتان بھگتنے ہیں اسی لیکن کے
کبھی سوچا نہ تھا
ہم شغل میں جسموں کی آتش جذب کرتے کرتے
اک دن راکھ ہو جائیں گے
چہرے خاک ہو جائیں گے
دنیا ہم پہ آوازے کَسے گی
کبھی سوچا نہ تھا
اینٹ سے اینٹ بجا دو، میرا دم گُھٹتا ہے
اب کوئی حشر اُٹھا دو، میرا دم گھٹتا ہے
ان کو معلوم ہو اِنسان کی عظمت کیا ہے
ان کو انجیل پڑھا دو، میرا دم گھٹتا ہے
آج تک تم نے مجھے مور و ملخ ہی سمجھا
مجھ کو انسان بنا دو، میرا دم گھٹتا ہے
زخم اُکتا کے کئی بار ہیں رونا بُھولے
دنیا، دنیا ہے یہ نشتر نہ چبھونا بھولے
تیرنا ہم کو نہیں آئے گا جب یہ طے ہے
آؤ منت کریں دریا سے، ڈبونا بھولے
ایسے مصروف ہوئے آج سبھی گھر کے مکیں
جہاں رکھا تھا مجھے گھر کا وہ کونا بھولے
نبضِ بیمار جو اے رشکِ مسیحا دیکھی
آج کیا آپ نے جاتی ہوئی دنیا دیکھی
لے چلے باغِ جناں میں جو فرشتے ہم کو
دیر تک راہ تِری او گلِ رعنا! دیکھی
ہر جگہ وضع نئی، چال نئی، لوگ نئے
ہم تو جس شہر میں پہنچے نئی دنیا دیکھی
یاد ہے پچھلے سال
انہی دنوں
تم نے میرے ماتھے پہ
مہر محبت ثبت کی تھی
دیکھو
آج بھی
لمبا رستا ننگے پاؤں
جانا ہے پر اپنے گاؤں
شہر بڑا ظالم ہے یار
بلا رہی پیپل کی چھانوْ
کیوں اتنے مجبور ہوئے
کس نے کھیلا ایسا داؤں
پہلے تو شہر بھر میں مثال آئینے ہوئے
پھر گرد سے سراپا سوال آئینے ہوئے
چہرہ چُھپائے پھرتا ہے گہرے نقاب میں
اک شخص کو تو لَو کی مثال آئینے ہوئے
ہم کو سزا ملی کہ اُجالے تھے آئینے
سو اپنی جاں پہ سارا وبال آئینے ہوئے
محبت میں سحر اے دل! برائے نام آتی ہے
یہ وہ منزل ہے جس منزل میں اکثر شام آتی ہے
سفینہ جس جگہ ڈوبا تھا میرا بحرِ الفت میں
وہاں ہر موج اب تک لرزہ بر اندام آتی ہے
نہ جانے کیوں دلِ غم آشنا کو دیکھ لیتا ہوں
جہاں کانوں میں آوازِ شکستِ جام آتی ہے
سپنوں کو پورا کرنے کی کوشش تو کیجیے
جیون میں رنگ بھرنے کی کوشش تو کیجیے
کیوں دوسروں کے دل کو عبث توڑتے ہو تم
دل دوسروں کے ہرنے کی کوشش تو کیجیے
دیوار تم نے دھرموں کی تعمیر کر تو دی
تم ان میں پیار بھرنے کی کوشش تو کیجیے
شعلۂ وقت سے آہن بھی پگھل جاتا ہے
وقت کے ساتھ یہ سنسار بدل جاتا ہے
اے سیاست! یہ تِرا رنگ ہے کتنا گہرا
جو بھی آتا ہے اسی رنگ میں ڈھل جاتا ہے
کاش یہ بات عقابوں کی سمجھ میں آتی
جو بھی سورج سے الجھتا ہے وہ جل جاتا ہے
اک ترے قرب کی خواہش میں اجالے ہوئے ہم
اب کہاں جائیں ترے دل کے نکالے ہوئے ہم
چشم حیراں میں کوئی خوابِ گریزاں بھی نہیں
در بدر پھرتے ہیں اشکوں کا سنبھالے ہوئے ہم
ایسے موسم میں تو کلیاں بھی نہیں کھلتی ہیں
ان رُتوں میں کفِ قاتل کے حوالے ہوئے ہم
خدا را! آ کے مِری لو خبر کہاں ہو تم
مِرے حبیب مِرے چارہ گر کہاں ہو تم
نہ راستوں کی خبر اور نہ منزلوں کا پتہ
کہاں میں جاؤں مِرے راہبر کہاں ہو تم
اے باغ دل کے ملنسار باغبان ضعیف
درخت دینے لگے ہیں ثمر کہاں ہو تم
پریت
پریتم ایسی پریت ناں کریو جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ ناہیں، بھوک لگے پھل دُور
پریت ناں کریو پنچھی جیسی جل سُوکھے اُڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی جل سُوکھے مر جائے
پریت کبیرا! ایسی کریو جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانپے مرو تو نہ چھوڑے ساتھ
ہوا کا زور تھا اشجار شور کرنے لگے
میں چل پڑا تو مِرے یار شور کرنے لگے
تُنک مزاج ہوا گرد اُڑانے آئی تھی
چراغ طاق میں بیکار شور کرنے لگے
ہمیں تو کر دیا خاموش حُسنِ یوسف نے
ہماری جیب کے دینار شور کرنے لگے
کسی کے بنتے ہیں معبود بے زباں پتھر
کسی کے ہاتھ پہ ہوتے ہیں کلمہ خواں پتھر
نگاہ شوق بناتی ہے قیمتی، ورنہ
نگاہ عقل میں پتھر ہیں بے گماں پتھر
مجھ ایسا کون پرستار ہو گا وحدت کا
صنم کدے میں ہے دل، دل میں ہے نہاں پتھر
خود کو عورت تصور کرنا
جب نہ چاہتے ہوئے بھی تمہیں
وہ سب کرنا پڑے
جس میں تمہارا دل، تمہاری روح
شامل نہ ہو
تو خود کو عورت تصور کرنا
لاکھ بہکائے یہ دنیا، ہو گیا تو ہو گیا
دل سے جو اک بار میرا ہو گیا تو ہو گیا
کیوں ندامت ہو مجھے لا اختیاری فعل پر
میں تِری نظروں میں رُسوا ہو گیا تو ہو گیا
کم زیادہ ہو تو سکتا ہے، مگر چُھٹتا نہیں
جس کو جو اک بار نشہ ہو گیا تو ہو گیا
ہم نے گھٹتا بڑھتا سایا پگ پگ چل کر دیکھا ہے
ہر راہی اک دھندلا پن ہے ہر جادہ اک دھوکا ہے
ہم بھی کسی لمحے کی انگلی تھام کے اک دن چل دیں گے
تُو نے تو اے جانے والے! جانے کو کیا جانا ہے
ماضی کی بے نام گُپھا میں بیٹھے بیٹھے سوچتے ہیں
نگر نگر ہے شہرت اپنی، گھر گھر اپنا چرچا ہے
بابِ شکستگی سے گُزارا گیا مُجھے
مجبوریوں کے نام پہ ہارا گیا مجھے
پہلے کیا گیا مجھے یکتائے رنگ و بُو
پھر رنج کی تہوں میں اُتارا گیا مجھے
تو اضطراب میں ہی لیا ہو گا مِرا نام
ورنہ کبھی سکوں میں پکارا گیا مجھے؟
توقعات کے اب سلسلے نہیں رکھنے
ملال رکھیں نہ رکھیں، گلے نہیں رکھنے
یہ طے کیا ہے کہ فہرستِ زندگانی میں
جو لوگ باعثِ آزار تھے، نہیں رکھنے
کھلا رہے گا درِ رسم و راہ، لیکن اب
چراغ اس میں کسی نام کے نہیں رکھنے
وسطی عمر کی ڈھارس
کہنے کو تو
نیند بھی اک جگراتا ہے
آنکھوں کے پٹ بند ہیں پھر بھی
ہم خاکی دیواریں توڑ کے
کسی زمیں پر کسی زماں تک
دوسرا چاند فلک پر وہ دکھائے تو سہی
تیرے جیسا ہی کوئی اور بنائے تو سہی
دیکھ لینا میں اسے خود میں کروں گا شامل
اس سے کہنا کہ گلے مجھ کو لگائے تو سہی
فی البدیہہ اس کو غزل لکھ کے نہ دوں تو کہنا
ایک مصرعہ وہ محبت کا سنائے تو سہی
ابدیت تھی
جب میں نے اس کی نگاہوں میں دیکھا
زندگی تھی
جب میں نے اس کی مسکراہٹ کے گھونٹ بھرے
محبت تھی
جب میں نے اعزاز کی طرح اس کی محبت کو قبول کیا
بسمل پڑا تھا مرگ پہ طالب دعا کا تھا
وحشت زدہ تھا پھر بھی حامی وفا کا تھا
بلبل اڑا کے لایا جو فصلِ بہار سے
تیری ہی یاد کا اک جھونکا ہوا کا تھا
غنچے کھلے کھلے تھی بوئے نگار ہر دم
سارا کرم چمن پر یہ بادِ صبا کا تھا
عظیم فنکار
اسے بھوک سے مرتے
مریل بچوں کا
بہت خیال رہتا ہے
طویل سفر کر کے
ان کی تصویریں بناتا ہے
اگرچہ شہر میں کُل سو، پچاس ہوتے ہیں
ذہین لوگ ترقی کی آس ہوتے ہیں
لکیر کے ہیں فقیر اول آنے والے سبھی
ذہین بچے ذرا بدحواس ہوتے ہیں
جو ان کو کچھ کہے، خود آشکار ہوتا ہے
ذہین، پانی کا آدھا گلاس ہوتے ہیں
اپنی دُھن میں بہتے ہوئے دریاؤں کو زخمایا ہے
شام ڈھلی تو ملاحوں نے گیت فراق کا گایا ہے
جب دنیا کے سب سوداگر دنیا داری کر رہے تھے
انشا جی سر پیٹ رہے تھے؛ مایا ہے سب مایا ہے
سورج جاتے جاتے چھوڑ گیا تھا اندھی لڑکی کو
ہم نے شب کا ماتھا چوم کے پہلا دِیپ جلایا ہے
سانپ اور سیڑھی کا کھیل
سانپ اور سیڑھی کے
اس کھیل میں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
سیڑھی پر چڑھ کے اوپر آنے والے کو
سیڑھی ہی کھا جاتی ہے
لوگوں سے واسطہ کہاں ہے
ہم سے کوئی آشنا کہاں ہے
جس کی ہمیں جستجو رہی تھی
گلشن میں وہ گل کھلا کہاں ہے
مجھ پر مختاری کا ہے الزام
سب تیرا ہے، مِرا کہاں ہے
چاند رات
اے آسمان کے چاند
تم کتنے پتھر دل ہو
اس دھرتے کے چاند کو
ایک بادل کی قمیص دے دو
ستاروں سے سجی ہوئی
سانس لیتے ہوئے ڈر جاتے ہو، حد کرتے ہو
سانس رکتی ہے تو مر جاتے ہو حد کرتے ہو
جب بھی آتے ہو تو خوشبو کی طرح آتے ہو
پھر ہواؤں میں بکھر جاتے ہو، حد کرتے ہو
تم تو ویسے ہی ستاروں سے حسیں ہو، لیکن
اس پہ تم اور سنور جاتے ہو، حد کرتے ہو
کبیرا کھڑا بازار میں لیے لوکاٹھی ہات
جو گھر پھونکے اپنا چلے ہمارے سات
کہن سنن کی ہے نہیں، کہی سنی نہیں جات
اپنے جیا سے جانیو، مورے جیا کی بات
پانی کیرا بدبدا، اس مانس کی جات
دیکھت ہی چھپ جائیں گے جوں تارے پربھات
زعفرانی کلام
تھرڈ ڈویژن
جینے کی کشمکش میں نہ بیکار ڈالیے
میں تھرڈ ڈویژنر ہوں مجھے مار ڈالیے
پھر نام اپنا قوم کا معمار ڈالیے
ڈگری کو میری لیجیے اچار ڈالیے
کچھ قوم کا بھلا ہو تو کچھ آپ کا بھلا
میرا بھلا ہو کچھ مِرے ماں باپ کا بھلا
اطمینان
سیاست ہے ایسا حمام جس میں
جان کر خود کو مستور ہر ایک ننگا
مطمئن ہے کہ باقی ہیں سارے برہنہ یہاں
راحیل احمد
ہر دم شگفتہ تر جو ہنسی میں دہن ہوا
غنچہ سے پہلے گل ہوا گل سے چمن ہوا
زاہد ہوا،۔ اسام ہوا،۔ برہمن ہوا
اس رہ میں رہنما جو بنا راہزن ہوا
صورت بدل گئی کوئی پہچانتا نہیں
عاشق تِرا وطن میں غریب الوطن ہوا
اُٹھا نہ رند جو در مے خانہ چھوڑ کر
کیونکر جئے گا وہ لب پیمانہ چھوڑ کر
کیا محتسب نے بزمِ مسرت خراب کی
رِند اُٹھ گئے ہیں ہاتھ سے پیمانہ چھوڑ کر
جاؤں گا تیری بزم سے اے شمع رو کہاں
جاتا نہیں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر
ہر ایک لفظ اس کا دعا کی طرح لگا
اور جو کرم کیا، وہ خدا کی طرح لگا
بے چین دل و دماغ، پریشان آنکھ نم
گزرا جو آج دن وہ سزا کی طرح لگا
ہے کون اور آیا کہاں سے؟ خبر نہیں
وہ دیکھنے میں اہلِ وفا کی طرح لگا
ایسا نہیں کہ بات کا معنی بدل گیا
وہ حرف گر تو ساری کہانی بدل گیا
ہم دونوں ایک شعر کے مصرعے تھے اور پھر
اول کو ٹھیک کرنے میں ثانی بدل گیا
ہم کاغذات لاٸے تھے سب دستخط شدہ
قانون سارے پر وہ زبانی بدل گیا
رنگ و خوشبو یہیں کہیں تھے دوست
خواب ٹوٹا تو ہم نہیں تھے دوست
رات ڈھونڈا تھا چائے خانوں میں
شہر بھر میں کہیں نہیں تھے دوست
ایسے لوگوں میں عمر گزری ہے
جن کے لہجے بھی آتشیں تھے دوست
تم ایک کھوئی ہوئی نسل ہو
گمشدہ لوگ اتنی تعداد میں
اتنی تیزی سے جوان ہوتے ہوئے
شہر کی گلیاں تمہارے قدموں سے بھر گئی ہیں
تم اتنی تیزی سے اِدھر اُدھر جا رہے ہو
تم کہیں نہیں جا رہے ہو
کتنی تاریکی ہے رنگوں سے سجے شہروں میں
کوئی بُھولے سے بھی آ کر نہ بسے شہروں میں
دن کو بھی شکل کوئی آتی نہیں صاف نظر
روشنی میں بھی اندھیرے ہیں چھپے شہروں میں
پیرہن اُجلے دمکتے ہوئے چہرے ہر سُو
دل مگر درد سے بے گانہ ملے شہروں میں
ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے
ہمارا عشق بھی جنت مثال ہو جائے
سنا ہے تم کو سلیقہ ہے زخم بھرنے کا
ہمارے گھاؤ کا بھی اِندمال ہو جائے
ذرا سی اس کے رویے میں گر کمی دیکھیں
طرح طرح کا ہمیں احتمال ہو جائے
انسان اپنے وطن کو بھول جاتا ہے
اور سوچتا رہتا ہے
میں اپنے وطن جانا چاہتا ہوں
لیکن ان لذتوں کی غلامی میری ہڈیوں میں ہے
یہ طے ہو چکا ہے
اس لیے میں کہتا ہوں
سوچتے سوچتے بپھر جانا
اور پھر ٹوٹ کر بکھر جانا
مُدتوں رہنا اچھے لوگوں میں
اور کچھ دیر تک سُدھر جانا
دیر تک سوچنا نہ جانے کا
آخری وقت پر مگر جانا
پھر ہوئی شام، بیابان کو پاگل نکلا
ہاتھ میں لے کے چراغ دل بیکل نکلا
تیری محفل کو سجانے کئی جگنو آئے
چاند لہرا کے شب تار کا آنچل نکلا
عمر بھر کر کے سفر ہم جو وہاں تک پہنچے
ہائے قسمت، کہ وہ دروازہ مقفل نکلا
محبت جیت جاتی ہے
محبت ایسا رستہ ہے
کہ
جس پہ چلنے والے کو
ہزاروں حاسدوں کی نفرتوں کو سہنا پڑتا ہے
رقیبوں کی رقابت حوصلے کو توڑ دیتی ہے
پرشاد بول بانٹ کے چورن گیا کوئی
کوئی سخی تو حضرت فن بن گیا کوئی
بولا کوئی زمیں پہ بنا دوں گا میں بہشت
بربادیوں میں جھونک نشمین گیا کوئی
ہے حوصلے کی بات، بڑی بات ہے جناب
نقاد اپنا آپ ہی گر بن گیا کوئی
یہ گردشیں یہ الم اور یہ خوشی کیا ہے
بغیر ان کے ہماری یہ زندگی کیا ہے
نہ ہو خیال جسے دوستی میں دوستی کا
بلا وہ دوستی کیا اور وہ آدمی کیا ہے
جنوں نہ ہو تِری الفت میں قیس جیسا گر
یہ حسن کیا ہے تِرا، میری عاشقی کیا ہے
دھوپ اور دِیے
صبح میری چائے کی پیالی میں بیدار ہوتی ہے
اور شام
میری انگلیوں سے لپٹ کر
ایش ٹرے میں ہوتی ہے
میں ان دنوں
نگر وہ تیرا کہاں ہے، تِری گلی کیا ہے
جہاں وجود ہو تیرا، وہاں پری کیا ہے
نہ پھول کوئی بشاشت میں تیرے رخ جیسا
گلاب کیا ہے، کنول کیا ہے اور کلی کیا ہے
تِرے ہی رخ سے روشن ہے تابشِ مہ بھی
ہو نور جو تِرے چہرے کا چاندنی کیا ہے
ضو بار اسی سمت ہوئے شمس و قمر بھی
اس شوخ نے پھیرا رخِ پُر نور جدھر بھی
مٹتی ہے کہیں دل سے شب غم کی سیاہی
ہوتی ہے کہیں ہجر کے ماروں کی سحر بھی
ہیں دونوں جہاں ایک ہی تنویر کے پرتو
ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی
یہ چاند اور یہ ابرِ رواں گزرتا رہے
جمالِ شام تہہ آسماں گزرتا رہے
بھرا رہے تِری خوشبو سے تیرا صحنِ چمن
بس ایک موسمِ عنبر فشاں گزرتا رہے
سماعتیں تِرے لہجے سے پھول چنتی رہیں
دلوں کے ساز پہ تو نغمہ خواں گزرتا رہے
فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں
الفاظ سو گئے ہیں کاغذ کے پیرہن میں
ہر آن ڈس رہی ہیں ماضی کی تلخ یادیں
محسوس کر رہا ہوں بے چارگی وطن میں
ٹکڑا کوئی عطا ہو احرامِ بندگی کا
سوراخ پڑ گئے ہیں اخلاص کے کفن میں
جو بات تجھ میں ہے، تیری تصویر میں نہیں
رنگوں میں تیرا عکس ڈھلا، تُو نہ ڈھل سکی
سانسوں کی آنچ، جسم کی خوشبُو نہ ڈھل سکی
تجھ میں جو لوچ ہے، میری تحریر میں نہیں
جو بات تجھ میں ہے، تیری تصویر میں نہیں
بے جان حُسن میں کہاں رفتار کی ادا
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ؟
دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے
کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے
خرابی کچھ نہ پوچھو ملکتِ دل کی عمارت کی
غموں نے آج کل سُنیو وہ آبادی ہی غارت کی
نگاہِ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد مےخانے کی غارت کی
سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حالِ زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی
میں اک عورت
میں کرچی کرچی
میں ریزہ ریزہ
میں مٹی میں دھول
میں خاک ببول
کیوں مانگتی رہتی ہوں
مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا
مِرے اندر بھی اک پہرا لگا تھا
ابھی آثار سے باقی ہیں دل میں
کبھی اس شہر میں میلہ لگا تھا
جدا ہو گی کسک دل سے نہ اس کی
جدا ہوتے ہوئے اچھا لگا تھا
ملگجا
آپ روٹھے تو رنگوں کی دہلیز پر
ہو گیا ہے اضافہ نئے رنگ کا
ملگجے رنگ کا
عبدالرحمان واصف
حاسدوں کی بڑی تعداد بھی آ جاتی ہے
اس کے آتے ہی یہ اُفتاد بھی آ جاتی ہے
خود بھی کچھ کم نہیں میں اپنی تباہی کے لیے
دوستوں سے مجھے امداد بھی آ جاتی ہے
ہر رکاوٹ کو گرایا بھی نہیں جا سکتا
راستے میں کبھی اولاد بھی آ جاتی ہے
کبیر یہ گھر پریم کا خالہ کا گھر ناہیں
سیس اتارے ہاتھ کر، سو جاوے گھر ماہیں
کستوری کنڈل بسے، مرگ ڈھونڈے بن ماہیں
ایسے گھٹ گھٹ رام ہے، دنیا دیکھے ناہیں
جب میں تھا تب ہری ناہیں، اب ہری ہے میں ناہیں
سب اندھیارا مٹ گیا، جب دیپک دیکھیا ماہیں
میں سوچتی ہوں
میں سوچتی ہوں کہ ہاتھ تیرا
جو میرے ہاتھوں میں رہ گیا تو
میں زندگانی کی ڈائری سے
اذیتوں کے تمام صفحوں کو نوچ لوں گی
ہے میرا وعدہ کہ ہاتھ تیرا
شب جو دل بیقرار تھا، کیا تھا
اس کا پھر انتظار تھا، کیا تھا
چشم، در پر تھی صبح تک شاید
کچھ کسی سے قرار تھا، کیا تھا
مدتِ عمر، جس کا نام ہے آہ
برق تھی یا شرار تھا، کیا تھا
اب تم بھی پلٹنے کا سوچو
ہیں سردیاں پلٹنے کو
اب تم بھی پلٹنے کا سوچو
تنہا گزرے کتنے موسم
تم لوٹے نہ میرے ہمدم
جن پر ہم سنگ سنگ چلتے تھے
اس میں موجود خزینے سے محبت ہے میاں
مجھ کو انکار سے کینے سے محبت ہے میاں
پہلے ہم اس کے بدن کا ہی فقط سوچتے تھے
اب تو کُرتے سے پسینے سے محبت ہے میاں
اِس لیے شوق سے روتے ہیں یہاں کے باسی
اُس کو ساون کے مہینے سے محبت ہے میاں
لفظوں سے کھیلنے کا ہنر رائیگاں گیا
کیا پوچھتے ہو یار! سفر رائیگاں گیا
ویسے بھی اس سماج میں کچھ حیثیت نہ تھی
کیا رنج، کیا ملال، اگر رائیگاں گیا
سستے میں ایک سیٹھ نے محنت خرید لی
مفلس رہے کسان، ثمر رائیگاں گیا
تلاشِ ذات
یونہی بیٹھی سوچ رہی تھی
ذات سمندر کھوج رہی تھی
سوچ کی ندیا بہتے بہتے
ان کہے دُکھ کہتے کہتے
فطرت درپن کھول رہی تھی
کانوں میں رس گھول رہی تھی
ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا
جو دسترس میں ہماری ہنر نہیں ہوتا
میں روز اس سے یہیں ہمکلام ہوتا ہوں
درون روح کسی کا گزر نہیں ہوتا
جلا دئیے ہیں کسی نے پرانے خط ورنہ
فضا میں ایسا تو رقصِ شرر نہیں ہوتا
دن تو سب ہی گزر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
جان سے پیارے مر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
ان کا ملنا، ان سے بچھڑنا، یاروں کے اغیار کے طعنے
زخم تو سارے بھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
ماضی کی ہر بزم سے ہم نے، مستقبل کے خواب سمیٹے
لیکن خواب بکھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
دام پھیلائے ہوئے حرص و ہوا ہیں کتنے
ایک بندہ ہے، مگر اس کے خدا ہیں کتنے
ایک اک ذرے میں پوشیدہ ہیں کتنے خورشید
ایک اک قطرے میں طوفان بپا ہیں کتنے
چند ہنستے ہوئے پھولوں کا چمن نام نہیں
غور سے دیکھ کہ پامال صبا ہیں کتنے
مسرور کر گیا مجھے نغمہ وفا کا تھا
"انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا"
بیٹھے ہیں شرمسار وہ سر کو جھکائے اب
ان کا غرور لے اڑا جھونکا ہوا کا تھا
معراجِ لیل میں سبھی قُدسی تھے میزباں
ہر انجمن میں چرچا رسولِ خداﷺ کا تھا
بے نیازیاں
میں نے دستور کا توڑ کر ہر نِیَّم٭
اکڑی گردن میں آنے دیا یوں نہ خم
داستانیں میں ہر دم سناتا ہوا
گیت میں میں کا ہر آن گاتا ہوا
نیشنل ٹی وی کا میں جُگت باز تھا
آسمانی جنون
شاعری
ایک آسمانی جنون ہے
جُڑواں گھروں کے درمیان
ایک پُرانا مکالمہ دُہرایا گیا
ہمارے خواب
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
رکھتے ہیں تر زبان کو حمد و ثنا سے ہم
ہوتے ہیں مستفید یوں فضلِ خدا سے ہم
اک بار حاضری کا شرف ہو ہمیں عطا
ہوں گے کبھی نہ دور درِ مصطفیٰؐ سے ہم
اعمال کے سبب کیے جاتے فنا ضرور
نسبت اگر نہ رکھتے شہِ دو سراؐ سے ہم
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
نبیؐ کی یاد سے سینے کا سینہ ہو گیا ہے
گلے ملو کہ مِرا دل مدینہ ہو گیا ہے
اور ایک کام کہ جس میں گنوائی ہیں آنکھیں
اور ایک نام کہ دل جس سے بِینا ہو گیا ہے
کوئی وظیفہ کہ جس سے نبیؐ کا خواب آئے
خدا سے مانگے ہوئے تو مہینہ ہو گیا ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
حشر کے روز بھی ایسا تو نہیں ہو سکتا
امتی آپﷺ کا تنہا تو نہیں ہو سکتا
چاند روشن ہے، ستاروں سے سوا روشن ہے
ہاں مگر آپﷺ کا چہرہ تو نہیں ہو سکتا
باغِ جنت بھی اگرچہ ہے بلا کا جاذب
خیر کچھ بھی ہو، مدینہ تو نہیں ہو سکتا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
قلزمِ نعت سے مرجانِ مؤدت نکلے
خیمۂ جود سے جوں دستِ سخاوت نکلے
میم سے منظرِ عالم میں چراغاں کا سماں
حائے حطی سے حکیمانہ فراست نکلے
میم اس عالمِ امکان میں ممکن کے لیے
دال سے دین دہش اور دیانت نکلے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے
ایک لمحے کو مجھے اپنا زمانہ دے دے
چھاپ دے اپنے خد و خال مِری آنکھوں پر
پھر رہائش کے لیے آئینہ خانہ دے دے
اور کچھ تجھ سے نہیں مانگتا میرے آقاؐ
نا رسائی کو زیارت کا بہانہ دے دے
عارفانہ کلام حمدیہ کلام
تو کجا من کجا
تُو امیر حرم، میں فقیرعجم
تیرے گُن اور یہ لب، میں طلب ہی طلب
تُو عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا
تُو کُجا من کُجا، تُو کُجا من کُجا
تُو ابد آفریں، میں ہوں دو چار پل
جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب بیگانے ہیں
اور وہی ہیں دور نظر سے جو جانے پہچانے ہیں
زنجیروں کا بوجھ لیے ہیں بے دیوار کے زنداں میں
پھر بھی کچھ آواز نہیں ہے، کیسے یہ دیوانے ہیں
بچ بچ کر چلتے ہیں ہر دم شیشے کی دیواروں سے
کون کہے دیوانہ ان کو؟ یہ تو سب فرزانے ہیں
اشک کو خون میں تحلیل کیا جا سکتا
ہجر کا ذائقہ تبدیل کیا جا سکتا
آہ مجھ سے نہیں ڈھل پاتی کسی سانچے میں
درد مجھ سے نہیں تفصیل کیا جا سکتا
اب بھی موجود ہیں اِس در میں ہزاروں منظر
اور اگر آنکھ کو زنبیل کیا جا سکتا
ہمیشہ تشنگی کو زیبِ تن رکھا
تمہیں ہم نے بتایا تھا
تمنا کے سُبک قدموں سے رستے طے نہیں ہوتے
مگر تم کو ہماری بات پر ایمان ہی کب تھا
ہمی تھے
جو تمہاری انکہی باتوں کا بھی ادراک رکھتے تھے
جس گھڑی یہ آدمی خود میں خدا ہو جائے گا
کہنے والے نے کہا تھا؛ سب فنا ہو جائے گا
کیا یہ کوئی شرط ہے؟ جو ہارنے کا خوف ہو
عشق اگر تم سے نہ ہو پایا تو کیا ہو جائے گا
یہ محبت ہے، یہ مر جانے سے بھی جاتی نہیں
تُو کوئی قیدی نہیں ہے جو رہا ہو جائے گا
مِرے خدا! تو مِری قوم پر کرم کر دے
کہ اپنے غیب سے دشمن کا سر قلم کر دے
اُتر گئی ہے یہاں کی عوام سڑکوں پر
کہیں نہ قصرِ حکومت کو منہدم کر دے
معاف تجھ کو اسی شرط پر کریں گے ہم
تُو آ کے پیروں میں گِر جا سر اپنا خم کر دے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
اے کاش کہ سرکارؐ میر ے خواب میں آئیں
آ کر میری سوئی ہوئی قسمت کو جگائیں
ہے عشق محمدﷺ میں گرفتار میرا دل
ہے آس کہ آقاؐ مجھے روضے پہ بلائیں
در پہ مجھے ایک بار بُلا لیجئے آقاﷺ
برسوں ہوئیں یادیں مجھے روضے کی رُلائیں
عارفانہ کلام حمدیہ و نعتیہ کلام
خدایا تِرے در پہ آیا گدا ہے
ندامت کے اشکوں سے دامن بھرا ہے
میں تیرے نبیﷺ کا ہی تو اُمتی ہوں
اُسیﷺ کے لیے سارا عالم بنا ہے
ہے بکھری ہوئی پھر سے اُمت نبیؐ کی
جسے دیکھو حالات پر رو رہا یے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
میں نے جب نعت کے اشعار سے باتیں کی ہیں
یوں لگا احمدِﷺ مختار سے باتیں کی ہیں
اے مِرے پیارے تخیل تِرے صدقے جاؤں
تُو نے اکثر مِرے سرکارؐ سے باتیں کی ہیں
اس کی تعریف میں الفاط بھی کم پڑ جائیں
جس کے اک سجدے نے تلوار سے باتیں کی ہیں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
کبھی جو طشتِ زر لا کر بھی رکھ دیں میری خدمت میں
چھڑا سکتے نہیں مجھ سے، مدینہ ایسی قیمت میں
نبیﷺ کے عشق میں ہر پل دہکتا میرا سینہ ہو
بسر ہو زندگی ساری مؐری عشقِ رسالتﷺ میں
کروں روضے کو میں سجدہ، یہ دل میں بات آتی ہے
عمل اس پر صحابہؓ کا نہ رخصت ہے شریعت میں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے
حامئ بے کساں! کیا کہے گا جہاں آپؐ کے در سے خالی اگر جائیں گے
خوفِ طوفان ہے آندھیوں کا ہے غم، سخت مشکل ہے آقاؐ کدھر جائیں ہم
آپؐ بھی گر نہ لیں گے ہماری خبر، ہم مصیبت کے مارے کدھر جائیں گے
مے کشو!! آؤ، آؤ، مدینے چلیں،۔ دستِ ساقئ کوثر سے پینے چلیں
یاد رکھو اگر اٹھ گئی اک نظر، جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے
إمرأة
میں جنس نہیں
اشرف المخلوق ہوں
وہی جسے خالق نے بنایا
تو اپنی تخلیق پہ نازاں ہوا
انجیر کی، زیتون کی
یہ واقعہ تو لگے ہے سنا ہوا سا کچھ
ہر ایک شخص کہے ہے کہا ہوا سا کچھ
وہ گہرے گہرے سبھی زخم بھر گئے جب سے
نیا سا درد لگے ہے سہا ہوا سا کچھ
یہ تیز و تند ہوائیں اڑا ہی لے جائیں
اگر بچا کے نہ رکھوں بچا ہوا سا کچھ
محبت کوئی نمایاں نشان نہیں
جس سے لاش کی شناخت میں آسانی ہو
جب تک تم محبت کو دریافت کر سکو
وہ وین روانہ ہو چکی ہو گی
جو ان لاشوں کو لے جاتی ہے
جن پر کسی کا دعویٰ نہیں
پوچھتے ہیں بزم میں سن کر وہ افسانہ مِرا
آپ ہیں کہتی ہے دنیا جس کو دیوانہ مرا
بس یہی ہے مختصر تشریح حسن و عشق کی
وہ تمہاری داستاں ہے یہ ہے افسانہ مرا
ہیں تصور میں تِرے جلوے تری رعنائیاں
رونقِ صد انجمن ہے آج ویرانہ مرا
وہ بے وفا ہمیشہ سے عادی دغا کا تھا
لیکن مِرے خمیر میں عنصر وفا کا تھا
اک ہم نہیں تھے اس کے طلبگار شہر میں
عاشق امیرِ شہر بھی قاتل ادا کا تھا
دنیا کے حادثات میرا کیا بگاڑتے
ہر پل میرے وجود پہ سایہ خدا کا تھا
اپنے در سے اگر اٹھا جاؤ
تو مجھے خاک میں ملا جاؤ
ہر گھڑی رہتی ہے دعا لب پہ
اپنے دشمن پہ آپ چھا جاؤ
ویسے مشکل ہے ربط ہو تم سے
کوئی اُمید ہی دِلا جاؤ
مِرے مکان سے پہرہ کبھی اٹھا ہی نہیں
میں بھاگ جاتا مجھے راستہ ملا ہی نہیں
ستم شعاروں کی موجودگی سے لگتا ہے
ابھی زمیِں پہ کوئی معرکہ ہوا ہی نہیں
ہوائیں کرتی ہیں کس منزِل مراد کا شور
گجر بجا ہی نہیں کارواں چلا ہی نہیں
بیوہ اور برسات
چھائی ہوئی ہے تیرگی اس پہ یہ منہ کی ہے جھڑی
رات کٹے گی کس طرح، حشر نما ہے ہر گھڑی
دیکھتی ہے سُوئے فلک ہائے ترس ترس کے آنکھ
اور مجھے ڈبوئے گی آج برس برس کے آنکھ
گریہ بے اثر مِرا، اپنا اثر دکھائے کیا؟
دل کی لگی بُجھائے کیا دل کی لگی بُجھائے کیا
گل و مہتاب لکھنا چاہتا ہوں
میں اپنے خواب لکھنا چاہتا ہوں
محبت سے بھرا ہے دل کا دریا
مگر، پایاب لکھنا چاہتا ہوں
لکھوں کیسے کہ سارے شعر تم پر
بہت نایاب لکھنا چاہتا ہوں
جسم تمام اشتہا، عشق میں اشتہا نہ کر
جسم کے ساتھ چل مگر، جسم پہ اکتفا نہ کر
خواہش و خواب و اہتمام، یار پہ چھوڑ دے تمام
یار کا دھیان کر فقط، یار سے التجا نہ کر
واعظِ دل گریز! سن، میرا معاملہ ہے اور
اپنی ہی عاقبت سنوار، میرے لیے دعا نہ کر
گیت
میں یوں ملوں تجھے تیرا لباس ہو جاؤں
بنا کے تجھ کو سمندر میں پیاس ہو جاؤں
میں یوں ملوں تجھے تیرا لباس ہو جاؤں
جو دے دے مجھ کو اجازت تو میری جان مجھے
بنا کے چاند محبت کے آسماں کا تجھے
کرن کرن میں تِرے آس پاس ہو جاؤں
دریافت
بادل چپ تھے، جھرنے چپ تھے
شجر و حجر خاموش کھڑے تھے
پتوں کی آغوش میں بیٹھی
ننھی سی اک کونپل بولی
فطرت کی آواز ہو تم بھی
کھیل کا آغاز ہو تم ہی
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
خاموشیوں میں شور تو آہ و بکا کا تھا
لیکن سکون چہرے سے ظاہر بلا کا تھا
اٹھتا تھا اس کے دل میں بھی اندوہناک غم
پابند پھر بھی رہتا وہ تیری رضا کا تھا
یوسف کنویں میں رہ کے ہی مشہور ہوتے ہیں
خود کو مٹانا گویا کہ سودا بقا کا تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تُو شاہِ خوباں، تُو جانِ جاناں، ہے چہرہ اُم الکتاب تیراﷺ
نہ بن سکی ہے، نہ بن سکے گا، مثال تیری جواب تیراﷺ
تُو سب سے اول، تو سب سے آخر، ملا ہے حسنِ دوام تجھ کو
ہے عمر لاکھوں برس کی تیری، مگر ہے تازہ شباب تیراﷺ
خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھﷺ پہ ستر ہزار پردے
جہاں میں بن جاتے طُور لاکھوں جو اک بھی اٹھتا حجاب تیراﷺ
زنگ سار
کئی دن سے دھواں اڑتا ہے سوئے رہگزار دل
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا لمسِ گریزاں
اعتبارِ سوختہ ساماں
ہماری آنکھ کے دالان سے
جس وقت ہجرت کر رہا تھا نا
مدت سے مِری آنکھ میں پانی بھی نہیں یے
رونے کے لیے کوئی کہانی بھی نہیں ہے
میں پانی کا برتن لیے کیوں بھاگ رہا ہوں
جب میں نے کوئی آگ بجھانی بھی نہیں ہے
دروازے پہ دستک لیے، بیٹھا ہے بڑھاپا
اور کمرے میں بچپن بھی جوانی بھی نہیں ہے
شفق زادی
وہ لڑکی جس کی قربت کی تمنا میں
کئی اوجھل مناظر خود کو
اس کی بارگہ میں پیش کرتے تھے
سنا ہے آج کل
نزدیک کا چشمہ لگاتی ہے
آئیں بھی جو دکھ لاکھ، انہیں سہنا، کہا تھا
اتنا نہ ہوا تم سے، تمہیں جتنا کہا تھا
بولو گے تو پھر لفظ کبھی ساتھ نہ دیں گے
ہم نے تمہیں اس شہر میں چپ رہنا، کہا تھا
لوگوں کو بتاتے ہو کہ؛ تھا رسمی تعلق؟
تم نے تو مِری جان! مجھے اپنا کہا تھا
جینے کے ان کے ساتھ بہانے چلے گئے
اٹھ کر گئے وہ یوں کہ زمانے چلے گئے
احساس جن کے ہونے سے ہونے کا تھا کبھی
ان بے گھروں کے سارے ٹھکانے چلے گئے
کرنا یہاں پہ کیا تھا، مگر کر رہے ہیں کیا
ہم کیا کریں کہ اپنے سیانے چلے گئے
خلا رہ جاتے ہیں
جب رات نیند میں بسر ہو جائے
اور دن کاموں کی تکمیل کے پیچھے دوڑتے ہوئے
شام کی چائے کسی انتظار میں ٹھنڈی ہو جائے
جنم دن مانوس آوازوں کو سنے بغیر گزر جائیں
جب سفر خاموشی میں کٹنے لگیں
پہنچ گیا وہ جب ہوس کے آخری مقام پر
جھپٹ پڑا حلال زادہ خوبرو حرام پر
یہ کس کے پاس مے کدوں کا انتظام آ گیا
شراب رِند مانگنے لگے خدا کے نام پر
ادھر طوائفوں میں کھو گیا ہے شاہ سلطنت
ادھر مری پڑی ہیں شاہزادیاں غلام پر
سوچا ہے کیا معاوضہ سائے کا آپ نے
کہہ تو دیا ہے شجر کو کرائے کا آپ نے
لگتا ہے واپسی کا ارادہ نہیں رہا
نقشہ بدل دیا ہے سرائے کا آپ نے
اپنی جگہ بجا ہے کہانی کا اختتام
مطلب غلط لیا ہے کہانی کا آپ نے
پنکھڑی پھول جام سب کے سب
استعارے ہیں ان کے لب کے سب
ہے خسارہ پلک جھپکنے میں
اس کے نقش ایسے ہیں غضب کے سب
میری اردو زبان کے جیسے
اس کے انداز ہیں ادب کے سب
تم کو لگتا ہے محبت سے نکل آئے تھے
ہم تو یک طرفہ اذیت سے نکل آئے تھے
کتنا پُر سوز تھا منظر وہ جدائی والا
اشک آنکھوں کی حراست سے نکل آئے تھے
میں نکل آیا تھا کچھ خوابوں کے پیچھے پیچھے
اور پھر خواب حقیقت سے نکل آئے تھے
نہیں
ابھی اس خواب کو چھونا نہیں تم
یہ گہری رات کے اک لمس سے
کَجلا چکا ہے
تمہارے ہاتھ کالے ہو نہ جائیں
ابھی آنکھوں میں پچھلی نیند کی پرچھائیں باقی ہے
اس نے دیکھا جو مجھے عالمِ حیرانی میں
گر پڑا ہاتھ سے آئینہ پریشانی میں
آ گئے ہو تو برابر ہی میں خیمہ کر لو
میں تو رہتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں
اس قدر غور سے مت دیکھ بھنور کی جانب
تُو بھی چکرا کے نہ گر جائے کہیں پانی میں
جب کبھی چہرے سے وہ پردہ اُٹھا دیتے ہیں
پھول بھی اپنی نگاہوں کو جھکا دیتے ہیں
اُجڑے گلشن میں ہم پھول کھلا دیتے ہیں
دشت و صحرا کو بھی گلزار بنا دیتے ہیں
ہم اگر سوئے ہیں تو خیر منا اپنی تُو
ہوش میں آتے ہیں تو حشر اُٹھا دیتے ہیں
کبھی جو آنکھوں کے آ گیا آفتاب آگے
تِرے تصور میں ہم نے کر لی کتاب آگے
وہ بعد مدت ملا تو رونے کی آرزو میں
نکل کے آنکھوں سے گر پڑے چند خواب آگے
دل و نظر میں ہی اپنے خیمے لگا لیے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ راستہ ہے خراب آگے
بڑے خلوص سے اپنا بنا لیا تھا مجھے
تمہارے ہجر نے زندہ بچا لیا تھا مجھے
یقین جان بہت ڈر گیا تھا اُس دن جب
گلے سے تُو نے اچانک لگا لیا تھا مجھے
بچھڑ گئے ہیں تو سارا قصور ہے تیرا
کہ تُو نے سر پہ جو اتنا چڑھا لیا تھا مجھے
تعمیرِ ذات
میں نے سوچا ٹھیک ہی بولی
فطرت کی ہمدم، ہمجولی
قدرت کے مُہرے ہیں سارے
شجر و حجر، یہ چاند سِتارے
میرے دن ہیں تاباں ان سے
میری راتیں روشن ان سے
خواب
اس نے نازک کلائی پہ باندھی گھڑی
اور گھڑی کی رواں سوئیوں کی طرف
جب نگاہوں کو پھیرا تو ایسا لگا
جیسے یکدم فضاؤں کو چُپ لگ گئی
وقت ساکن ہُوا
جھونکا سکونِ جاں ہوا بادِ صبا کا تھا
اور چلنا اس کا تیری ہی آوازِ پا کا تھا
شبنم نے موتی راہ میں تیری لٹا دئیے
ہر غنچہ محوِ حیرتِ حسنِ ادا کا تھا
بادِ نسیم! آ کے زرا تُو بھی دیکھ یاں
ہر پتا ایسے بن گیا جیسے حنا کا تھا
لگی آگ گُلشن بجھاتے چلیں ہم
چمن کی حفاظت بھِی کرتے چلیں ہم
محبت کا جذبہ یہ دولت بڑی ہے
یہ باتیں سبھی کو بتاتے چلیں ہم
نکالیں انہیں ہم جو نفرت تلے ہوں
دلوں کو دلوں سے ملاتے چلیں ہم
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
شیخ شعدی کا نعتیہ قطعہ بمع اردو، فارسی اور انگریزی ترجمہ
بلغ العلیٰ بکمالہ
وه پہنچے بلندیوں پر اپنے کمال کے ساتھ
بہ سبب کمالش بہ بلندی رسید
His perfection procured exaltation
كشف الدجیٰ بجمالہ
آپ کے جمال سے تمام اندھیرے دور ہو گئے
چاند جیسے ہو، تمہارا تذکرہ رہ جائے گا
میں تو ہوں اک داغ میرا مسئلہ رہ جائے گا
اشک بہتے جائیں گے کثرت سے غم کے دور میں
خواہشوں کا دل میں ٹھہرا قافلہ رہ جائے گا
تیرا پردہ فاش میں کر دوں گی اک دن آخرش
اور تیرا یہ بھرم یہ سب دھرا رہ جائے گا
لاگ آؤٹ
تمہارے مسلسل آف لائن ہونے پر
میرا لاگ ان رہنا بے کار ہے
میری فیس بک کی دنیا تمہیں سے وابستہ ہے
تم وہ پوسٹ ہو جو کبھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی
میں تھک گیا اے جہاں نورد
وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا
لباس پہنے رہا، اور بدن اتار گیا
حسب نسب بھی کرائے پہ لوگ لانے لگے
ہمارے ہاتھ سے اب یہ بھی کاروبار گیا
اسے قریب سے دیکھا تو کچھ شفا پائی
کئی برس میں مِرے جسم سے بخار گیا
ظلم ہوتے ہیں یوں ہی ہم پہ برابر ہوں گے
آئینے ہوں گے جہاں پر وہیں پتھر ہوں گے
فتح کر لیں گے تِرا دل تِرے اندر ہوں گے
ورنہ ہم نے بھی قسم کھائی بے گھر ہوں گے
ایک ٹیبل پہ ہو اک چائے🍵 اکیلے ہم تم
سوچئے کتنے حسیں صبح کے منظر ہوں گے
وہ روٹھی روٹھی یہ کہہ رہی تھی قریب آؤ، مجھے مناؤ
ہو مرد تو آگے بڑھ کے مجھ کو گلے لگاؤ، مجھے مناؤ
میں کل سے ناراض ہوں قسم سے، اور ایک کونے میں جا پڑی ہوں
ہاں میں غلط ہوں، دِکھاؤ پھر بھی تمہی جھکاؤ، مجھے مناؤ
تمہارے نخروں سے اپنی ان بن تو بڑھتی جائے گی، سن رہے ہو
تم ایک سوری سے ختم کر سکتے ہو تناؤ، مجھے مناؤ
بتا نا دوست کیا ہوں میں؟
کئی زبانوں کے رنگوں پر مشتمل نظم
تمہارا ترجماں ہوں کیا؟ تمہارا رازداں ہوں کیا؟
نشانِ بے نشاں ہوں کیا؟ تمہاری داستاں ہوں کیا؟
جہاں تو ہے وہاں ہوں کیا؟ مکینِ لا مکاں ہوں کیا؟
ترے گھر کا پتا ہوں میں
زلزلہ کے بعد کی شام کا منظر
پرندے گھروں کو لوٹتے دیکھ کر
یاد کے بادل گہرے ہوتے جاتے ہیں
رات ہونے کو ہے
ہم بھی گھر کو چلیں
پر، گھر کہاں ہے
وہی پلکوں کا جھپکنا، وہی جادو تیرے
سارے انداز چرا لائی ہے خوشبو تیرے
تجھ سے میں جسم چراتا تھا، مگر علم نہ تھا
میرے سائے سے لپٹ جائیں گے بازو تیرے
تیری آنکھوں میں پگھلتی رہی صورت میری
میری تصور پہ گرتے رہے آنسو تیرے
کہانی اک سُنانی ہے
جو بیتی ہے بتانی ہے
صحیفہ دردِ پیہم کا
نہیں لِکھا، زبانی ہے
ضروری بات کرنی تھی
اگرچہ کچھ پُرانی ہے
ایک دو پل تو ذرا اور رکو
ایسی جلدی بھی بھلا کیا ہے چلے جانا تم
شام مہکی ہے ابھی اور نہ پلکوں پہ ستارے جاگے
ہم سرِ راہ اچانک ہی سہی
مدتوں بعد ملے ہیں تو نہ ملنے کی شکایت کیسی
فرصتیں کس کو میسر ہیں یہاں
ناقابل اشاعت
میری یہ نظم شائع نہیں ہو سکتی
یہ اشاعت کے قابل نہیں
اس میں شامل ہے گہرا دکھ
ہم سب کا مشترکہ دکھ
جسے محسوس کیا جا سکتا ہے
وہ ہم سے خفا رہتے ہیں اور ان سے خفا ہم
لیکن کبھی رہتے نہیں ہیں دل سے جدا ہم
وہ ہم کو ستاتے ہیں، کبھی ہم بھی ستاتے
اک دوسرے پر دل سے مگر سچ میں فدا ہم
جیسے کوئی بجلی گرے اس دل پہ ہمارے
چھپ چھپ کے اسے دیکھتے ہیں جب بخدا ہم
سب کہ رہے ہیں دوش تو سارا ہوا کا تھا
اس بار مستحق دیا خود سزا کا تھا
اب چل بسا تو روتا ہے تو نامراد کیوں
تُو نے کہا تھا شخص وہ راہِ فنا کا تھا
جس نے ہے بہتے پانی پہ راستہ بنا دیا
موسٰی تھا اس کا نام وہ بندہ خدا کا تھا
نہ تم ہمارے رہے نہ ہم تمہارے رہے
نہ دید تیری رہی، نہ وہ نظارے رہے
نہ آسِ وصل رہی، نہ پیاسِ عشق رہی
رہے تو بس تِری یاد کے سہارے رہے
وہ خوبرو تِرے جیسا دنیا میں نہ ہو گا
وہ سامنے تِرے چھپ کے چاند تارے رہے
مصور کا ہاتھ
مشینوں سے اسے نفرت تھی
لیکن کارخانے میں
مشینوں کے سوا
ان کا کوئی ہمدم نہ ساتھی تھا
وہ خوابوں کا مصور جس کے خوابوں میں عموماً
بُرا جو دیکھن میں چلا، بُرا نہ ملیا کوئے
جو من کھوجا اپنا تو مجھ سے برا نہ کوئے
چلتی چکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے
دوئی پاٹن کے بیج میں ثابت بچا نہ کوئے
کبیرا جب ہم پیدا ہوئے جگ ہنسے ہم روئے
ایسی کرنی کر چلو، ہم ہنسے جگ روئے
جل رہا ہے دشت تنہا، بلبلا پانی میں ہے
میری مٹی آگ میں ہے اور ہوا پانی میں ہے
کر رہے ہیں روشنی دونوں برابر ساتھ میں
چاند تنہا ہی کھڑا ہے، اور دیا پانی میں ہے
یہ جہاں اپنی زمین و آسماں کے بیچ میں
بیٹھنا بھی چاہتا ہے، اور کھڑا پانی میں ہے
یہ کیا کیا ہے
میں پوچھتا ہوں یہ کیا کیا ہے
میں کیا کھلونا لگا تھا تم کو
جو مجھ سے کھیلے اور اپنا دل بھر گیا تو
مجھ کو گلی کی نکڑ پہ توڑ ڈالا
میں پوچھتا ہوں یہ کیا کیا ہے
سانسیں اکھڑ رہی ہیں مِری مر رہا ہوں میں
دیکھو مجھے، مذاق نہیں کر رہا ہوں میں
تم نے تو کوئی رنگ دیا ہی نہیں مجھے
اب جو سمجھ میں آ رہے ہیں بھر رہا ہوں میں
خوش بھی ہوں آخرش میں ثمر بار تو ہوا
اور پتھروں کی چوٹ سے بھی ڈر رہا ہوں میں
تیرے میرے درمیاں
تیرے میرے درمیاں اک نیند کی دیوار ہے
نیند جس کے اک طرف
موندی ہوئی آنکھوں کے کونوں پر لرزتے اشک ہیں
دوسری جانب
سنہرے بادلوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا مہتاب ہے
پیام بھیجا وہیں آج شام زندہ باد
تِری کنیز کی جے ہو، غلام زندہ باد
وہ آئے گھر مِرے اردو ادب سمجھنے کو
پڑا ہے حسن کو شاعر سے کام زندہ باد
خدا بھلا کرے غالب کے خشک شعروں کا
حسین کرتے ہیں مجھ کو سلام زندہ باد
آ گئے تِرے در پہ ایک التجا لے کر
درد کی عطا لے کر درد لا دوا لے کر
زندگی مروّت ہے، حادثوں کا رونا کیا
خاک میں ملا دے گی بے خودی انا لے کر
ظلمتیں ہیں نفرت کی بھیڑ ہے قیامت کی
اور پھر رہی ہوں میں عشق کی ضیا لے کر
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسین
پسر کی لاش کو خیمے میں کیسے لائے حسینؑ
یہ سوچتا ہوں تو کہتا ہوں؛ ہائے ہائے حسین
میرے حسین نے جب سے مدینہ چھوڑا ہے
کسی نے دیکھا نہیں ہے کہ مسکرائے حسین
چراغ بُجھ کے جلا ہے تو یہ ہوا ثابت
وہ چھوڑ کر نہیں جاتا جسے بلائے حسین
عارفانہ کلام حمدیہ کلام
الٰہی! روشنائی کبریائی
الٰہی! سب پہ رحمت بے پناہی
الٰہی! عشق اور بس عشق ہر دم
الٰہی! رنگ دے سادہ نوائی
الٰہی! عشق راہِ مستقیم است
الٰہی! میں اسی رستے کا راہی
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیریﷺ محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیراؐ دہلیز نشین
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تیریؐ قربت میں کٹے
جیسے اک عمر گزار آیا ہوں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
جس کی دربارِ محمدﷺ میں رسائی ہو گی
اس کی قسمت پہ فدا ساری خدائی ہو گی
سانس لیتا ہوں تو آتی ہے مہک طیبہ کی
یہ ہوا کوچۂ سرکارﷺ سے آئی ہو گی
روزِ محشر نہ کوئی اور سہارا ہو گا
سب کے ہونٹوں پہ محمدؐ کی دُہائی ہو گی
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
میرے خیال کو نسبت ہُوئی مدینے سے
مہک گلاب کی آنے لگی پسینے سے
نبیﷺ کا نام اگر لو تو اس قرینے سے
دعا یہاں سے چلے اور اثر مدینے سے
نبیؐ کے در سے ہی خیراتِ علم ملتی ہے
یہ رزق ملتا ہے سرکارﷺ کے خزینے سے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
آپؐ ہی کے جلووں سے ہر طرف اجالا ہے
ظلمتوں سے انساں کو آپﷺ نے نکالا ہے
ربط جسم و جاں میں ہے آپ ہی کے صدقے میں
اسمِ پاکﷺ سے چلتی ہر نفس کی مالا ہے
جالیوں سے روضے کی چاندنی سی چھنتی ہے
اس کا نور کیا ہو گا؟ نور جس کا ہالہ ہے
کنکریٹ کے جنگل
کنکریٹ کے جنگل میں
روئیدگی کا نام نہیں
درخت سارے کٹ گئے
پرندے اداس ہیں
بجلی کے تاروں پہ گھونسلے بناتے ہیں
صبر کی تلوار سے صدمات پر حملہ کیا
اس طرح میں نے بُرے حالات پر حملہ کیا
کھول کر زُلفیں، کِیا سُورج کی تابانی کو زیر
رُخ سے کچھ پردہ ہٹا کر رات پر حملہ کیا
کیوں خیالوں میں بھی شہنائی نہیں بجتی کہیں
کس نے یادوں کی حسیں بارات پر حملہ کیا
چمکے ہیں سب کے بخت تِری جلوہ گاہ میں
واں کچھ نہیں تمیز سفید و سیاہ میں
رحمت جھلک رہی ہے غضب کی نگاہ میں
دل پا رہا ہے لذت طاعتِ گناہ میں
ہیں جب تجھی پہ شیخ و برہمن مٹے ہوئے
پھر فرق کیا ہے بت کدہ و خانقاہ میں
دل کو دلدار دو محبت میں
سر کو دستار دو محبت میں
زِندگی جو سنوار دے سب کی
ایسا کردار دو محبت میں
تیغِ ابرو تو ہے تمہارے پاس
زخم ہی چار دو محبت میں
شوق باقی نہیں باقی نہیں اب جوش و خروش
دن وہ پر کیف تھے جب ہم تھے سراسر مدہوش
مصلحت جوش بغاوت کو دبا دیتی ہے
دل دھڑکتا ہے مگر دل کی صدائیں خاموش
اب کوئی صورت گفتار نظر آتی نہیں
وہ بھی خاموش مِرا رد عمل بھی خاموش
تجھے جیتنے کی تھی آرزو
مجھے ہارنے کی جستجو
یہ نصیب ہی بازی لے گیا
کہاں تم گرے
کہاں ہم رہے
فوزیہ بھٹی
عکس حیران ہے، آئینہ کون ہے
وہ ہے خوشبو تو پھر پھول سا کون ہے
دل سے نکلے ہو پلکوں پہ دم لو ذرا
ہو مسافر، تمہیں روکتا کون ہے
اک سمندر نے خود کو جزیرہ کیا
کیا ہُوا کیوں ہُوا پوچھتا کون ہے
ہم جہاں آ گئے
خواب میں ڈوبتے
اس کنارے پر اک
اور ہی خواب ہے
پيرزادہ سلمان
شہر کی رسم ہے پرانی وہی
سازشیں تازہ ہیں کہانی وہی
درد کے موسموں سے کیا امید
سب بلائیں ہیں آسمانی وہی
پھر سے کھینچو حفاظتوں کے حصار
پھر ہے دریاؤں کی روانی وہی
جب دل نے آبیاری کو مانگا ذرا خراج
آنکھوں نے بڑھ کے آب رواں کا دیا خراج
حسن و مہک چمن میں سجانے کے واسطے
گل سے مگس نے خونِ جگر کا لیا خراج
حصے میں فصل کچھ ہی ملی ہے کسان کو
پہلے زمیندار کے گھر کا کٹا خراج
صحرا میں اک سراب چلاتا رہا مجھے
محبت فرض تھوڑی ہے
تُو نے کبھی
یخ بستہ فرش پر
ایڑیاں رگڑتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا ہے
کبھی کسی سرد شیشے سے لگ کر
آٸی۔ سی۔ یو میں پڑی زرد محبت کو سہا ہو
جو جل اٹھی ہے شبستاں میں یاد سی کیا ہے
یہ جھلملاہٹیں کیا ہیں، یہ روشنی کیا ہے
کسی سے ترکِ تعلق کے بعد بھی ملنا
برا ضرور ہے لیکن کبھی کبھی کیا ہے
اب اپنے حال پہ ہم دھیان ہی نہیں دیتے
نہ جانے بے خبری ہے کہ آگہی کیا ہے
کیا وقت پڑا ہے ترے آشفتہ سروں پر
اب دشت میں ملتے نہیں ملتے ہیں گھروں پر
پہچان لو اس خاک رہ حرص و ہوا کو
قدموں سے یہ اٹھتی ہے تو گرتی ہے سروں پر
خود اپنے ہی اندر سے ابھرتا ہے وہ موسم
جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر
تسخیر کا وظیفہ کوئی حسبِ حال سوچ
وہ خود تِرا طواف کرے، وہ کمال سوچ
چہرہ جو اس کا پڑھنا پڑے قسط وار پڑھ
گر سوچنا پڑے تو اسے خال خال سوچ
تحت الثرٰی کو لے کے لگا آسماں پہ جست
جس کو زوال آ نہ سکے، وہ کمال سوچ
آئے گا کوئی چل کے خزاں سے بہار میں
صدیاں گزر گئی ہیں اسی انتظار میں
چھڑتے ہی ساز بزم میں کوئی نہ تھا کہیں
وہ کون تھا جو بول رہا تھا ستار میں
یہ اور بات ہے کوئی مہکے کوئی چبھے
گلشن تو جتنا گل میں ہے اتنا ہے خار میں
اپنی نظریں کٹار کرتی ہوں
عاشقوں کا شکار کرتی ہوں
اس محبت میں بس خسارہ ہے
پھر بھی یہ کاروبار کرتی ہوں
اک نہ اک دن ضرور آئے گی
موت کا انتظار کرتی ہوں
فلمی گیت
یہ گلیاں یہ چوبارہ
یہاں آنا نہ دوبارہ
اب ہم تو بھئے پردیسی
کہ تیرا یہاں کوئی نہیں
لے جا رنگ برنگی یادیں
ہنسنے رونے کی بنیادیں
اگرچہ وصل بہت شادماں گزرتا ہے
اک ایک ہجر کا لمحہ گراں گزرتا ہے
گزر ہی جاتا ہے دنیا سے کٹ کے وقت مِرا
مگر بغیر تمہارے کہاں گزرتا ہے
سرائے وقت ہے ہر آن اک ہجوم ہے بس
یہاں سے روز نیا ہی جہاں گزرتا ہے
رات بھر درد کی برسات میں دھوئی ہوئی صبح
سب کی آنکھوں میں ہے جیسے کوئی روئی ہوئی صبح
پاک جذبوں کے سمندر سے نتھارا ہوا نور
نیک سوچوں کی بلونی سے بلوئی ہوئی صبح
پھول بے رنگ، فضا زرد، پرندے خاموش
شام کی گود میں تھک ہار کے سوئی ہوئی صبح
کھینچا ہوا ہے گردش افلاک نے مجھے
خود سے نہیں اترنے دیا چاک نے مجھے
موج ہوا میں تیرتا پھرتا تھا میں کہیں
پھر یوں ہوا کہ کھینچ لیا خاک نے مجھے
میں روشنی میں آ کے پشیماں بہت ہوا
عریاں کیا ہے عشق کی پوشاک نے مجھے
کرم کر
تم مجھ سے رامائن کا کیوں پوچھ رہے ہو؟
رامائن کی کتھا کا کل یگ میں کیا ارتھ؟
تم مجھ سے گیتا کے بارے میں پوچھو
وہ گیتا جس کا گیان مدفون ہے مندروں میں
تم مندر جاتے ہو، گھنٹی بجاتے ہو
شعلۂ دل بجھا کے دیکھ لیا
آرزو کو مٹا کے دیکھ لیا
اپنے ہاتھوں جسے سنوارا تھا
وہ چمن بھی لٹا کے دیکھ لیا
دل کا جو زخم تھا چراغ بنا
آنسوؤں کو چھپا کے دیکھ لیا
بڑی سی عمر ہوئی دودھیا سے بال ہوئے
وہ اتنا پیارا ہوا, جتنے ماہ و سال ہوئے
کئی جواب دئیے اور کئی سوال ہوئے
نہیں ہوئے وہ نہیں آشنائے حال ہوئے
اسے بھی وقت کی مٹی نے گرد پوش کیا
لباس جس کے زمانے میں بے مثال ہوئے
چل دیا وہ دیکھ کر پہلو مِری تقصیر کا
دوسرا رخ اس نے دیکھا ہی نہیں تصویر کا
باقی سارے خط پہ دھبے آنسوؤں کے رہ گئے
ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تِری تحریر کا
تُو نے کیسے لفظ ہونٹوں کی کماں میں کس لیے
اتنا گہرا گھاؤ تو ہوتا نہیں ہے تیر کا
نہ تمہارا حسن جواں رہا، نہ ہمارا عشق تپاں رہا
نہ وہ تم رہے نہ وہ ہم رہے، جو رہا تو غم کا سماں رہا
نہ وہ باغ ہیں نہ گھٹائیں ہیں، نہ وہ پھول ہیں نہ فضائیں ہیں
نہ وہ نکہتیں نہ ہوائیں ہیں، نہ وہ بیخودی کا سماں رہا
نہ وہ دل ہے اب نہ جوانیاں، نہ وہ عاشقی کی کہانیاں
نہ وہ غم نہ اشک فشانیاں، نہ وہ دردِ دل کا نشاں رہا
تُو اگر سیر کو نکلے تو اُجالا ہو جائے
سُرمئ شال کا ڈالے ہوئے ماتھے پہ سِرا
بال کھولے ہوئے، صندل کا لگائے ٹیکا
یوں جو ہنستی ہوئی تُو صبح کو آ جائے ذرا
باغِ کشمیر کے پھولوں کو اچنبھا ہو جائے
تُو اگر سیر کو نکلے تو اُجالا ہو جائے
لے کے انگڑائی جو تُو گھاٹ پہ بدلے پہلو
اس تیرے سر کی قسم فرق سرِ مو بھی نہیں
جس قدر ہم ہیں پریشاں، تِرے گیسو بھی نہیں
موت نے کتنا کج اخلاق بنایا ہے مجھے
لوگ روتے ہیں مِری آنکھ میں آنسو بھی نہیں
رات بھر جلنا ہے، آ جا ادھر اے پروانے
قابلِ رحم یہاں میں بھی نہیں، تُو بھی نہیں
پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے
کیا ہے ہمارے دل میں بھلا جان جائیے
گھر غیر کے مزے سے مِری جان جائیے
شوخی و شرم دو ہیں نگہبان جائیے
مانی ہیں میں نے سینکڑوں باتیں تمام عمر
آج آپ میری بات مان جائیے
بے اعتدالیوں سے سُبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے، اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دامِ سخت، قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری، اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مِٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے
کیوں چاٹ نہ لوں خاکِ درِ یار ذرا سی
اکسیر ہے، اکسیر کی مقدار ذرا سی
اندیشہ ہے اک صاحبِ تقویٰ کی نظر کا
مے چھوڑ دیا کرتے ہیں میخوار ذرا سی
اے شوخ! غضب ہے تِرے ابرو کا اشارہ
کیا دیکھئے کرتی ہے یہ تلوار ذرا سی
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا
مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا
دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی
آہ نہ جانا روتے روتے، یہ چشمہ دریا ہو گا
کیا جانیں آشفتہ دِلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں
وہ جانے گا حال ہمارا، جس کا دل بیجا ہو گا
تم مجھ سے محبت مت کرو
میں شاید جلد مر جاؤں گی
بالفرض
اگر میں مر گئی تو
سب سے زیادہ تمہیں یاد آؤں گی
وہ تمہارا لیپ ٹاپ، ڈائری، موبائل یا کوئی صفحہ
وحشت کے سدِباب کا کچھ حل نکال دوست
رسی کو صرف دیکھ لے اور بَل نکال دوست
کردار ٹِک نہیں رہے منزل کے خوف سے
ناٹک کے اختتام سے مقتل نکال دوست
چابی کا کام اس جگہ کرتی ہیں چُٹکیاں
میں ہو گیا ہوں تجھ میں مقفل، نکال دوست
جاگتے رہنا
گلی میں لالٹینیں لے کے پھرتے رتجگے
لاٹھی بجاتے ہیں
تو اس لاٹھی کی ٹھک ٹھک سے
مِرے سپنے بھی چکنا چُور ہوتے ہیں
میں ان کی کرچیاں پلکوں سے چُنتا ہوں
تِری کمی سے خوشی کا بحران بڑھ گیا ہے
سو شہر میں خودکشی کا رجحان بڑھ گیا ہے
ہمارا ایک اور دوست آج اس کو دیکھ آیا
ہمارے حلقے میں ایک حیران بڑھ گیا ہے
بھروں گا میں شاہراہِ غم پر اضافی محصول
مقررہ حد سے میرا سامان بڑھ گیا ہے
ہماری زباں پر جو تالے پڑے ہیں
ہیں شِکوے کسی کے، جو ٹالے پڑے ہیں
نہیں کھول پائے تِرے آخری خط
ابھی تک لفافے، سنبھالے پڑے ہیں
کسی چشمِ تر کا نمک چکھ لیا تھا
یونہی تو نہیں لب پہ چھالے پڑے ہیں
بھوک کی قاتلانہ سازش
کوڑا چُننے والا لڑکا
روٹی کے ٹکڑے کی تلاش میں
کتنی دیر سے کھڑکی کے سامنے پڑے
کوڑے کے ڈھیر کو
اُلٹ پلٹ رہا ہے
کوئی مر جائے تو کیوں کہتے ہو یوں ہے، یوں ہے
درد کے آخری درجے پہ سکوں ہے، یوں ہے
جسم سینے کے جو ماہر ہیں، انہیں کیا معلوم
زخم کی نوک فقط دل سے بروں ہے، یوں ہے
آئینہ نقل کرے تیری، کہاں ممکن ہے؟
ذائقہ، خوشبو، صدا، لمس، فزوں ہے، یوں ہے
سیلف نالج (خود شناسی)
کسی نے سوال کیا، خود شناسی کیا ہے؟
اس نے جواب دیا
تمہارے دل اپنی خاموشی میں
دنوں اور راتوں میں چھپے رازوں سے بخوبی آگاہ ہیں
پھر بھی تمہیں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
حضورﷺ نعت کا مطلع سجا دیا جائے
حضورﷺ عرض ہے چہرہ دکھا دیا جائے
حضورﷺ سائیں حسنؑ اور حسینؑ کا ہوں مرید
حضورﷺ مولا علیؑ سے ملا دیا جائے
حضورﷺ مجھ کو محبت ہے سائیں حمزہؑ سے
حضورﷺ آپ کا نوکر بنا دیا جائے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
ہے ایک سیلِ ندامت اس آبگینے میں
عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں
اسی زمیں اسی مٹی سے نور پُھوٹا تھا
اسی دیار، اسی رُت، اسی مہینے میں
ہے بند آنکھ میں بھی عکسِ مسجدِ نبوی
جَڑا ہوا ہے یہی خواب اس نگینے میں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
ہادئ کُل، احمدِﷺ مختار کی باتیں کریں
ہم غزل میں بھی شہِ ابراؐر کی باتیں کریں
تذکرہ تفسیرِ قرآں، لا نبی بعدی کا ہو
ذکر حُسنِ خُلق کا، گفتار کی باتیں کریں
جس کے آگے جھک گئی ہر رفعتِ ارض و سماں
اس عظیم المرتبت سردارﷺ کی باتیں کریں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
تم فخرِ رسولاں ہو شہِ کون و مکاں ہو
تم حاصلِ کل باعث تخلیق جہاں ہو
تم بحر کرم،۔ ابر سخا،۔ منبعِ احساں
تم مظہر اوصاف خدائے دو جہاں ہو
تم سارے زمانے کے لیے آیۂ رحمت
تم درس اخوت ہو،۔ محبت کا بیاں ہو
عارفانہ کلام حمدیہ کلام
آنکھوں سے کفر و جہل کی عینک اُتار دیکھ
ہر شے میں کارسازئ پروردگار دیکھ
کس کے اشارے پر یہ دھڑکتا ہے تیرا دل
کس کا ہے جسم و جاں پہ تِرے اختیار دیکھ
کس نے بچھائی فرشِ زمیں دیکھ اے نگاہ
کس نے اُگائے اتنے حسیں کوہسار دیکھ
محبت لفظ تھا میرا
میں اس شہر خرابی میں
فقیروں کی طرح در در پھرا برسوں
اسے گلیوں میں سڑکوں پر
گھروں کی سرد دیواروں کے پیچھے ڈھونڈھتا تنہا
کہ وہ مل جائے تو تحفہ اسے دوں اپنی چاہت کا
یاد
دکھ میں سمرن سب کریں، سکھ میں کرے نہ کوئے
جو سکھ میں سمرن کریں، تو دکھ کاہے ہوئے
سکھ میں سمرن نہ کیا، دکھ میں کیا یاد
کہہ کبیر تا داس کی، کون سنے فریاد
سمرن سوں من لائیے، جیسے ناد کرنگ
کہہ کبیر بسرے نہیں، پران تجے تیہی سنگ
دوسری عورت
میں آسمان تھی
مگر جب بادلوں کے برسنے کی باری آئی
تو میں دوسرا قطرہ بنی
مجھ سے پہلے کوئی
اس کی ہتھیلی بِھگا چکا تھا
چرچ کی سیڑھیاں، وائلن پر کوئی دُھن بجاتا ہوا
دیکھتا ہے مجھے،۔ اِک ستارہ کہیں ٹمٹماتا ہوا
ڈوب جاتا ہوں، پھِر اُڑنے لگتا ہوں، پِھر ڈوب جاتا ہوں میں
اِک پری کو کسی جل پری کی کہانی سناتا ہوا
میں خدا سے تو کہہ سکتا ہوں؛ دیکھ، سُن، پر خلا سے نہیں
اپنے اندر ہی پھر لوٹ جاتا ہوں میں، باہر آتا ہوا
مجھ پہ تیری تمنّا کا الزام ثابت نہ ہوتا
تو سب ٹھیک تھا
زمانہ تِری روشنی کے تسلسل کی قسمیں اٹھاتا ہے
اور میں تِرے ساتھ رہ کے بھی
تاریکیوں کے تناظر میں مارا گیا
مجھ پہ نظرِ کرم کر مخاطب ہو مجھ سے
جاگ کر خواب سے بستر کی طرف دیکھا تھا
اور پھر چرخِ ستمگر کی طرف دیکھا تھا
تُو نے دیکھا تھا وہ پل، چشمِ خزاں نے جس وقت
آخری بار گلِ تر کی طرف دیکھا تھا
پھر کنارے پہ پہنچنے میں مجھے عمر لگی
میں نے اک بار سمندر کی طرف دیکھا تھا