وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے
جہاں تلک تِرے قد کی اُٹھان جاتی ہے
یہ عہدِ سنگ زنی ہے سو چپ ہیں آئینہ گر
کہ لب کشا ہوں تو سمجھو دکان جاتی ہے
یہ مہربان مشیّت بھی ایک ماں کی طرح
میں ضد کروں تو مِری بات مان جاتی ہے
وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے
جہاں تلک تِرے قد کی اُٹھان جاتی ہے
یہ عہدِ سنگ زنی ہے سو چپ ہیں آئینہ گر
کہ لب کشا ہوں تو سمجھو دکان جاتی ہے
یہ مہربان مشیّت بھی ایک ماں کی طرح
میں ضد کروں تو مِری بات مان جاتی ہے
آغاز بہار کا پہلا دن
مصائب الجھنیں بے تابیاں بے خوابیاں لکھوں
مگر کھیتوں کی شادابی
گلوں کی رونقیں کلیوں کا دھیما حسن روشن پھول انگارے
فلک پر جگمگاتے ماہ و انجم کا سجیلا پن
صبا کی شوخیاں نرمی ہوا کی گل کا پیراہن
رات بھی ایک بلیک ہول ہے
نہیں ایسی کوئی بھی رات جس کا
کہیں سورج کوئی نہ منتظر ہو
رات بھی ایک بلیک ہول ہے
جس میں دن کی روشنی دفن ہوجاتی ہے
اور اگلے دن
الفت کا جس کو روگ لگا وہ بچا نہیں
یہ درد ہے وہ درد کہ جس کی دوا نہیں
مہر و وفا نہیں ہیں کہ صبر و رضا نہیں
ہم افقروں کے کیسۂ خاکی میں کیا نہیں
بیمار کے نہ زخم پہ ظالم نمک چھڑک
نرگس سے چھیڑ اچھی یہ بادِ صبا نہیں
ہل ٹیڑھا ہے
شیشے کے بدن میں رہتا ہوں
میں آج ہوں میرے آگے پیچھے کل ہیں
پھر بھی تن تنہا ہوں
حاملہ مٹی کے اوپر سینے کے بل لیٹا ہوں
سر اور پیر تصادم میں ہیں
اپنوں نے ہمیں لُوٹا ہے، کس سے گلہ کریں
آ، روشنی کے شہر کا ماتم بپا کریں
باتیں تو کر رہے ہیں، مگر سوچتے ہیں کب
مخلص نہیں ہے کوئی اسے نوچتے ہیں سب
کس نے لگائی آگ، کیا کس نے قتلِ عام
سب دیکھ کر انجاں ہیں اُسے روکتے ہیں کب
آنکھوں میں نہاں رنگ کی تشہیر کے باعث
تشریح ضروری ہوئی تصویر کے باعث
الفاظ ہیں یا شب کو چمکتے ہوئے جگنو
کاغذ بھی دمک اٹھا ہے تحریر کے باعث
خود اپنی گرفتاری پہ خاموش رہی میں
یہ حبس تو ہے عشق کی تحصیر کے باعث
میں بھی اپنے آپ میں گم تھا تم اپنی آواز میں چُپ
اک تارا خاموش تھا صاحب سُر اپنے ہی ساز میں چپ
دونوں کی تنہائی میں بھی ایک عجب پہنائی تھی
میں اپنے انجام پہ ششدر تم اپنے آغاز میں چپ
ایک ہجوم تھا میرے اندر تم طوفانی بارش تھے
میں اپنے انداز میں چپ تھا تم اپنے انداز میں چپ
سو دریا پی چکا ہوں پھر بھی کیوں پیاسا ہوں میں
پتی پتی پرسے شبنم چاٹتا پھرتا ہوں ہوں میں
تیری زلفوں کی مہک تیرے بدن کی خوشبو ملی
اجنبی راہوں سے ہو کر جب گزرا ہوں میں
بن چکا ہوں اب پرانے موسموں کی یادگار
زندگی کی شاخ پر سوکھا ہوا پتا ہوں میں
معذرت
کوئی نظم کیسے کہیں کہ ہم
نہ چراغ ہیں
نہ مثال حرف گلاب ہیں
نہ خیال ہیں
نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہیں
مِرا محافظ ڈرا ہوا ہے
سکرپٹ سارا لکھا ہوا ہے
یہ کام اس پر ہی ہو رہا ہے
میں ایک خیمے سے جھانکتا ہوں
اور اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں
مِرا محافظ ڈرا ہوا ہے
پروان چڑھ رہی تھی جو چاہت عجیب تھی
تھا اشتیاق اور وہ حسرت عجیب تھی
اک کیف تھا کہ کر نہ سکوں میں بیاں جسے
تھا اک جنون جس میں کہ لذت عجیب تھی
رخسار سرخ ہوتے تھے احساسِ قرب سے
تھا سحر اس کے نام میں رغبت عجیب تھی
زخم جو رِسنے لگا، دل کے قریں پہلے سے تھا
آنسوؤں کا آنکھ سے رستہ کہیں پہلے سے تھا
لازمی تھا، آسماں چُھونے کی خواہش ساتھ ہو
نارسائی کا مجھے ورنہ یقیں پہلے سے تھا
عین ممکن ہے نیا پن آج کچھ نظروں میں ہو
دل مگر کہتا ہے وہ اتنا حسیں پہلے سے تھا
غموں کی دھوپ میں اِک سائبان ہے میرا
میں اک زمین ہوں تُو آسمان ہے میرا
یہیں کہیں سے ابھی کوئی تِیر آئے گا
یہیں کہیں پہ کوئی مہربان ہے میرا
اُتر چکا ہے تِرا ہجر میری رگ رگ میں
وصالِ یار! یہ دُکھ جاوِدان ہے میرا
تجھے کبھی بھی محبت میں وہ جنوں نہ مِلے
جہاں سکون کی گولی سے بھی سکوں نہ ملے
بِچھڑتے وقت اسے دیر تک کہا بھی، اگر
تمام عمر کوئی شخص تجھ کو یوں نہ ملے
پھر ایک روز اسے خود سے یہ خیال آیا
میں چاہتا تھا کہ میں اس سے کہہ سکوں، نہ ملے
امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے
میں رک بھی جاؤں تِرا گھر تو سامنے آئے
میں راہِ عشق میں خود کو فنا بھی کر دوں گا
مِرے حبیب! وہ منظر تو سامنے آئے
ہمارے بازو کا دنیا کمال دیکھے گی
عدو کا کوئی بھی لشکر تو سامنے آئے
سنو انجام واضح ہے
نہ لکھو داستانِ دل
مجھے معلوم ہے رانجھا
ہزارہ چھوڑ آیا تھا
پھرا تھا کس لئے مجنوں
حصار عشق میں تنہا
اک نئی دنیا بسائی خاک پر
پھر نئی شمع جلائی خاک پر
ذہن میں کیا کیا خیال آتے رہے
ہم نے اک صورت بنائی خاک پر
سامنا مجھ کو تو ناکامی کا تھا
راہ یہ کس نے دکھائی خاک پر
عاشقی کوہِ گراں سے کم نہیں
ہر کسی میں عاشقی کا دم نہیں
منزلِ مقصود پانے کے لئے
جان گر جائے تو جائے غم نہیں
رو رہا ہے دل کسی کی یاد میں
آنکھ میری بے سبب تو نم نہیں
نہ کوئی جادو نہ سحر ہے مجھ میں
بس ایک عیبوں کا ہنر ہے مجھ میں
بانہیں پھیلائے بکھیرے ہوئے شاخیں
ابھی اک محبت کا شجر ہے مجھ میں
کسی مہرباں نہ دوست پرندے کا گزر
اک تِری یادوں کا کھنڈر ہے مجھ میں
تِرے بغیر ہے اب یہ مری خوشی اے دوست
خوشی ملے نہ مجھے عمر بھر کبھی اے دوست
تِرا خیال تھا مقصودِ زندگی اپنا
تِری طلب تھی اندھیرے میں روشنی اے دوست
اب اس کے بعد کسے آرزو ہے جینے کی
تِری نگاہ کرم تک تھی زندگی اے دوست
ہجر بن کے جو پھر عذاب آیا
خشک آنکھوں میں بن کے آب آیا
خواب ٹوٹے تو بے حسی ٹوٹی
چشمِ تر میں جو سیلِ آب آیا
اب تو دکھ پر بھی غم نہیں ہوتا
دل کی دھڑکن میں انقلاب آیا
مقدر نے کہاں کوئی نیا پیغام لکھا ہے
ازل ہی سے ورق پر دل کے تیرا نام لکھا ہے
قدم میں جانب منزل بڑھاؤں کیا کہ قسمت نے
جہاں آغاز لکھا تھا وہیں انجام لکھا ہے
شکایت کیا کروں ساقی سے میں اس کے تغافل کی
مِرے ہونٹوں کے حصے ہی میں خالی جام لکھا ہے
گمنام بستیوں کا پتہ کس طرح چلے
شہروں کے جسم وقت کی دلدل میں دھنس چکے
دہلیز پر کھڑا ہوا سورج پلٹ نہ جائے
شمعیں بجھا کے بند کواڑوں کو کھولیۓ
ہم عمر بھر بھٹکتے رہے اپنے آپ میں
صحرا میں اپنے گھر کا پتہ کس سے پوچھتے
لوگ جام و سبو میں کھوئے رہے
ہم تِری آرزو میں کھوئے رہے
زندگی کی تھی جستجو ہم کو
عمر بھر جستجو میں کھوئے رہے
محفلِ رنگ و بُو تو مل نہ سکی
خواہشِ رنگ و بُو میں کھوئے رہے
نسلِ نو کے دانشور
مِرے کپڑوں کو کیڑے کھا گئے
تو میں نے یہ سوچا
مِرے ننگے بدن کا بھی یہی انجام ہونا ہے
مگر یہ جان کر میں کتنا خوش ہوں کتنا آسودہ
کہ میری روح میرا ذہن
بدلی تھی گلستاں کی ہوا کوئی نہ بولا
ہر گل نے سنی میری صدا کوئی نہ بولا
کی چرخ نے ہم پہ جفا کوئی نہ بولا
تاروں نے سنی میری نوا کوئی نہ بولا
تقدیر گل و لالہ پہ روتی رہی شبنم
دامان سحر چاک ہوا کوئی نہ بولا
ذرا سا بولو
ذرا سا بولو، زباں تو کھولو
سخن کے در، دیکھو جل رہے ہیں
خموش آہیں بلک رہی ہیں
سسکتے شعلے ابل رہے ہیں
شکستگی کا دھواں نہ دیکھو
Reprisal
اسفنج نما جسم پھولے ہوئے ہوں گے
مُردہ مچھلی گھاس اُگل دے گی
غیر متوازی اور تعفن زدہ خلیوں کو
نامیاتی ذرے چبا جائیں گے
جن سے دھاتی تھکن کشید کی جائے گی
پھول سے زخموں کا انبار سنبھالے ہوئے ہیں
غم کی پونجی مرے اشعار سنبھالے ہوئے ہیں
ہم سے پوچھو نہ شب و روز کا عالم سوچو
کیسے دھڑکن کی یہ رفتار سنبھالے ہوئے ہیں
گھر بھی بازار کی مانند رکھے ہیں اپنے
وہ جو بازار کا معیار سنبھالے ہوئے ہیں
بے خبر کیسے ہو رہے ہو تم
جاگتے ہو کہ سو رہے ہو تم
کس لیے میرے ناخدا بن کر
میری کشتی ڈبو رہے ہو تم
میری قسمت کو میٹ کر خود ہی
میری قسمت پہ رو رہے ہو تم
بیاں کیا کیجیے سوز دروں کو داستانوں میں
نکل کے تیر کب آتے ہیں واپس پھر کمانوں میں
ہماری سوچ کے بادل ہیں اڑتے آسمانوں میں
کرے گی یاد یہ دنیا ہمیں آتے زمانوں میں
سبھی مل کر بچھڑ جائیں اگر گمنام ہو جائیں
مکیں پھر کس لئے بستے ہیں ان اونچے مکانوں میں
چیت
کوئل
میرے شبدوں کو تو چھاپے خانے لے جا
وہ اخبار تو پڑھتے ہوں گے
پڑھ کے خبر میرے مرنے کی
دوڑے دوڑے گھر آئیں گے
ہے بپا حشر جو ہنگام سے پہلے پہلے
بس کہ ہشیار ہو انجام سے پہلے پہلے
جسم کی پاکی سے افضل ہے طہارت دل کی
دل کو کر پاک، ہر اک کام سے پہلے پہلے
آ کے دنیا میں گنوا بیٹھا ہے عقبیٰ ناداں
کر لے تیاریاں فرجام سے پہلے پہلے
تجھے اے زاہد بدنام سمجھانا بھی آتا ہے
کہیں باتوں میں تیری رند مےخانہ بھی آتا ہے
متانت آفریں نظریں کرم گستر صف مژگاں
ستم ڈھانے کو اٹھے ہو ستم ڈھانا بھی آتا ہے
انہیں نازک لبوں کو فرصت آتش بیانی بھی
انہیں نازک لبوں کو پھول برسانا بھی آتا ہے
چپ کھڑے ہیں درمیان کعبہ و بتخانہ ہم
کس طرف جائیں بتا اے جلوۂ جانانہ ہم
عظمت رفتہ سے اتنے ہو گئے بیگانہ ہم
بن گئے ہیں اپنی ہی نظروں میں آج افسانہ ہم
ہائے یہ مجموعۂ سر مستی و کیف و خمار
تک رہے ہیں تیری آنکھوں کو لئے پیمانہ ہم
رات ہوئی تو دن کے صدمے اس کی گود میں کانپ رہے ہیں
واعظ ، ملّا، داعی، سارے مکر کی مالا جاپ رہے ہیں
ایک دعا بس بھٹک رہی تھی، اک خواہش جو پھیل چکی ہے
لفظوں کے انبار بھی سمٹے کب سے بیٹھے ہانپ رہے ہیں
مُردہ بیلیں لے کر دلدل آن ملی ہے دریاؤں سے
اُجلےاور رنگین لبادے بھوک کی صورت چھاپ رہے ہیں
جنوں کے ذیل میں تدبیر کی کہانی نئیں
حضور عشق ہے، یہ ہیر کی کہانی نئیں
کہ ہم نے شعر نہیں زندگی کو لکھا ہے
یہ خود گزاری، کوئی میر کی کہانی نئیں
وصال آخری خواہش ہے اور پوری کر
ہمارے ساتھ یہ تصویر کی کہانی نئیں
ان تیز ہواؤں کو تم بادِ صبا لکھنا
کانٹوں کے بچھونے کو پھولوں کی قبا لکھنا
جب فصلِ بہاراں میں گلشن ہی اجڑ جائے
اس حال میں پھولوں کی تقدیر ہی کیا لکھنا
سوچوں میں ذہن سارے الجھے ہوئے رہتے ہیں
تقدیر کی تختی پر کوئی تو دعا لکھنا
اک عریضہ ہے دل مشتاق میں رکھا ہوا
آفتابِ عشق ہے آفاق میں رکھا ہوا
زندگی کا ذائقہ مجھ کو تواتر سے ملا
زہر میں رکھا ہوا تریاق میں رکھا ہوا
نفرتوں کے سب نوشتے اس نے ازبر کر لیے
ہے محبت کا صحیفہ طاق میں رکھا ہوا
پوچھو نہیں کہ کیسے کٹی ہے تمہارے بعد
ہم کو حیات مہنگی پڑی ہے تمہارے بعد
تم ساتھ تھے تو میری نظر ٹھیک ٹھاک تھی
عینک تو دوست مجھ کو لگی ہے تمہارے بعد
اِک میں ہوں جس کا حال مسلسل خراب ہے
اک آئینے پہ دھول جمی ہے تمہارے بعد
آرزوئے دل کا یہ انجام ہونا چاہیۓ
کیا مجھے بھی عشق میں ناکام ہونا چاہیۓ
کیوں بھلا ابلیس کو الزام دیتے ہو فقط
تم کو خیر و شر کا بھی الہام ہونا چاہۓ
باپ کی دستار بیچیں بہن کی کھینچیں ردا
مرد کی غیرت پہ اب نیلام ہونا چاہیۓ
کلرکہار کا جھیل کنارہ
اور کشتی میں بیٹھا چونچ لڑاتا جوڑا
گھر کو واپس جاتے پنچھی
سبز پہاڑوں پر موروں کی خفیہ باتیں
شور شرابہ، سوچ کا دھاگا
کھارے پانی میں اک بگلا
ساحرہ! ٹوٹ جائے گا
حُزن کا دیوتا
نارسائی کے قصوں میں زندہ ہے اب تک
تِری آغوش کی حدت سے آشنا نہیں
تِرے آنگن کے پیڑوں کی مانند
جو تِری دھوپ کی چاہت میں بوڑھے ہوئے
گلدان
ٹھٹھرتی شب کے زینے میں
دسمبر کے مہینے میں
اچانک تھرتھراہٹ فون کی مجھ کو سنائی دی
وہ پہلی بار دھڑکن قلب کی بڑھتی دکھائی دی
مِرے چہرے پہ زردی جسم پر تھی کپکپی طاری
خلوص اپنا لیے ملتے ہیں فنکاری نہیں کرتے
ہم اپنے دوستوں کے ساتھ مکاری نہیں کرتے
لٹا دیتے ہیں جان و دل محبت کرنے والوں پر
کبھی ہم جذب الفت کی خریداری نہیں کرتے
جنہیں عادت ہے گرگٹ کی طرح رنگت بدلنے کی
وہ اپنے دوستوں سے بھی وفاداری نہیں کرتے
اپنی آواز خود بنو
لمبی مسافتوں نے یہ بھید کھولے ہیں
لفظ خود بنے ہیں
آواز بھی خود بننا پڑے گا
کچھ کہنا ہے تو
ہمراز بھی خود بننا پڑے گا
دِیوں سے وعدے وہ کر رہی تھی عجیب رُت تھی
ہوا چراغوں سے ڈر رہی تھی عجیب رت تھی
بڑی حویلی کے گیٹ آگے دریدہ دامن
غریب لڑکی جو مر رہی تھی عجیب رت تھی
ٹھٹھرتی شب میں وداعی سیٹی کی گُونج سن کر
یہ آنکھ پانی سے بھر رہی تھی عجیب رت تھی
الوداع اے حسرتوں کے زرد موسم الوداع
دل کو جینا آ گیا ہے، دردِ پیہم الوداع
اب ہمارا قلب ہے امید کا روشن دیا
تیرگی افسردگی اے چشمِ پُر نم الوداع
وصل، فرقت، غم، خوشی سب عارضی جذبات ہیں
وقتِ رُخصت گُل کو ہے پیغامِ شبنم، الوداع
جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا
ظرف میں کاسۂ درویش سمندر نکلا
کبھی درویش کے تکیہ میں بھی آ کر دیکھو
تنگ دستی میں بھی آرام میسر نکلا
مشکلیں آتی ہیں آنے دو، گزر جائیں گی
لوگ یہ دیکھیں کہ کمزور دلاور نکلا
سیکھ لیا ہے، تمہارے شہر میں رہنا
حبس میں جینا، حصار زہر میں رہنا
ظلم یہ دیکھو، حلال آج ہوا ہے
خون کا پینا، عطائی لہر میں رہنا
حال یہ ہوتا ہے یار وصل کے لمحے
ماہی کا بچنا، پرائی نہر میں رہنا
کرتے ہیں وہ اُلفت کے سماچار کی باتیں
اک بار جو سنتے ہیں مِرے یار کی باتیں
مجھ کو یہ بتاؤ کہ مجھے گھورتے کیوں ہو
جس وقت بھی کرتا ہوں میں اس پیار کی باتیں
اس مطلبی دنیا میں مِرا کون ہے جاناں
کس سے میں کروں اب کہ دلِ خار کی باتیں
اداسی ہر طرف چھائی ہوئی ہے
مِرا دل بھی بہت ٹوٹا ہوا ہے
مجھے معلوم ہے مجبوریاں ہیں
تمہارا ساتھ جو چھوٹا ہوا ہے
وہی اک خواب تھا سب کچھ ہمارا
وہی اک خواب ہی جھوٹا ہوا ہے
جو دو کتابیں پڑھا ہوا ہے
وہ اپنی حد سے بڑھا ہوا ہے
ہمارے دریا کے پانیوں سے
تِرا سمندر بھرا ہوا ہے
الٹ بھی سکتا ہے تخت تیرا
جو ہاتھ باندھے کھڑا ہوا ہے
بچھڑ گئے تم بدل گئے تم
یہ رت جو بدلی بدل گیا سب
وفا کی باتیں ملن کی راتیں
وہی ہوا نا کہ جس کا ڈر تھا
اداسی آنکھوں میں بس گئی ہے
رنگ سارے پڑے ہیں پھیکے
دن بہ دن دریا سوکھے پڑ رہے ہیں
خشک آنکھوں سے خواب جھڑ رہے ہیں
اس ہوا سے بھی ڈر گئے ہو تم
جس ہوا سے چراغ لڑ رہے ہیں
ان کے چہرے یہی تھے پہلے بھی
جن کے چہرے ابھی بگڑ رہے ہیں
کاش
مرے سینے پہ سر رکھ کر
تم نے جو محبت کا احساس دیا ہے
مجھے لگتا ہے جیسے
محبت کے مہکتے ہوئے آنگن کا
کوئی کھلتا گلاب ہوں میں
عجب محبت کے سلسلے ہیں
نہ مر رہے ہیں نہ جی رہے ہیں
اگر یہی زندگی ہے یا رب
تو ایسے جینے سے ہم بھلے ہیں
گزار آئے ہیں ایک دنیا
یہ درد کیا کوئی آج کے ہیں
دیارِ چشمِ نمیدہ میں خشکبو نہ ہوئے
ہزار شکر مِرے رنج بے نمو نہ ہوئے
بدن کی خاک تیمم کے کام آتی رہی
نمازِ وحشتِ شب ہا کو بے وضو نہ ہوئے
بلائے خوف تِری ناخنی گرفت میں ہم
کچھ ایسے طور سے ادھڑے کہ پھر رفو نہ ہوئے
کبھی تو دست ہمہ گیر میں سبو ہو جائے
یہ خاک بھی کبھی آسودۂ نمو ہو جائے
بیاضِ دل💗 پہ تِرا نقش آشکارا ہو
پھر اس کے بعد تِری دید کو بہ کو ہو جائے
نہیں کہ رنگ حِنا میرے ہاتھ پر نہ کھلا
ہتھیلیوں کو یہ ضد تھی کہ دل لہو ہو جائے
جو آ سکو تو بتاؤ کہ انتظار کریں
وگرنہ اپنے مقدر پہ اعتبار کریں
چراغ خانۂ امید ہے ابھی روشن
ابھی نہ ترکِ تعلق کو اختیار کریں
ہمارے طول مسافت کا یہ تقاضا ہے
شریک حال تجھے اے خیال یار کریں
جس سے ہر پل ہر سو میری بات رہی
اس کی خوشبو ہر دم میرے ساتھ رہی
دل کا موسم جیٹھ مہینے جیسا تھا
آنکھوں میں کیوں ساون سی برسات رہی
دن بھر ایک مشقت میں نے کاٹی تھی
پھر بھی جانے کیوں بے چین سی رات رہی
زمیں آسماں مسترد کر رہا ہوں
یہ تیرا جہاں مسترد کر رہا ہوں
مجھے زورِ بازو پہ ہے جنگ لڑنی
میں تیر و کماں مسترد کر رہا ہوں
میں صحرا میں کرنے لگا ہوں رہائش
یہ آبِ رواں مسترد کر رہا ہوں
کیمیا کرتا ہے یا راکھ بنا دیتا ہے
دیکھنا ہے کہ تِرا غم ہمیں کیا دیتا ہے
کچھ وسیلے بھی ضروری ہیں رواداری کو
ورنہ یہ سب کو پتا ہے کہ خدا دیتا ہے
جانتا ہوں کہ محبت نے رلایا ہے اسے
پھر بھی وہ شخص محبت کو دعا دیتا ہے
آنگن آنگن، تنہا تنہا، الجھے الجھے لوگ
بھوک، غریبی، بیماری سے پل پل لڑتے لوگ
سب کی اپنی ایک کہانی، اپنے اپنے خواب
بنگلے، چھپر، سڑکوں، گلیوں، جیتے مرتے لوگ
دنیا ساری جنگل بستی، حیواں سے انسان
ریوڑ ریوڑ، جھنڈوں جھنڈوں، سمٹے سمٹے لوگ
نگاہِ شوق سے ہر دل کا کاروبار چلے
مزہ تو جب ہے کہ نقشِ قدم پہ یار چلے
ہے جس کو اپنی محبت کی سرحدیں معلوم
نہ کوئے یار میں آئے نہ سوئے دار چلے
دیارِ دوست سے اٹھے تو پھر کدھر جائے
یہ ضد ہے ان کی یہاں سے ہر اک غبار چلے
دیکھو تمہیں جھگڑے کی شروعات کرو ہو
پھر مجھ سے وہی ٹیڑھے سوالات کرو ہو
کرنے کو تو جینے کی مِرے بات کرو ہو
سچ یہ ہے کہ تم موت کو بھی مات کرو ہو
معلوم نہیں کیسے بسر رات کرو ہو
آنکھوں سے یہ لگتا ہے کہ برسات کرو ہو
مستقل ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں نئے دوست بناتے ہوئے تھک جاتا ہوں
ابر آوارہ ہوں میں کوئی سمندر تو نہیں
پیاس صحرا کی بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
مالک کون و مکاں اب تو رہائی دے دے
جسم کا بوجھ اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
تقسیم ہو گیا ہوں میں اپنی ہی ذات میں
جیسے کوئی تضاد ہو دو شخصیات میں
وہ نکتہ چیں ہے بات نکالے گا بات سے
اس واسطے میں بات ملاتا ہوں بات میں
اک لطفِ آگہی کی تمنا لیے ہوئے
چپ چاپ میں کھڑا ہوں تِری کائنات میں
میرے آسمان کے چاند کو خبر دو
عجیب الجھن سی رہا کرتی ہے ان دنوں مجھ کو
میرے آسمان کے چاند کو خبر دو
یوں ہی دیر تک رات رات بھر جاگتی ہوں
تارے گنتی ہوں یادیں جمع کرتی ہوں
اور صبح ہونے تک سب بھول جاتی ہوں
تمہارے گھر پہ میں آ تو نہیں رہا، مِرے دوست
گھما پھرا کے بتاؤ نہ راستہ، مرے دوست
ہوا ہو گرم کہ ٹھنڈی، پسینہ سوکھتا ہے
وہ میرا دوست ہے، اچھا ہے یا برا، مرے دوست
بچھڑتے وقت ضرورت نہیں ہوئی محسوس
اور اب نہ رابطہ نمبر نہ رابطہ، مرے دوست
یوں خشت و گل و سنگ کے انبار لگا کر
کب شہر بنا کرتے ہیں معمار لگا کر
اک وہ تھے کہ جو میر بنے عشق کے صدقے
اک ہم، کہ خجل، عشق کا آزار لگا کر
ہم جیسے کئی اہلِ ہنر جی لیے اے دوست
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا یہ بازار لگا کر
یہ مانتے ہیں فلک، بے ردا نہیں ہوئے ہیں
زمیں کے لوگ ابھی ماجرا نہیں ہوئے ہیں
بدن کا ذائقہ کیسا ہے ہم کو کیا معلوم
کسی کے لمس سے ہم آشنا نہیں ہوئے ہیں
ہم ایسے لوگ سدا انتہا پہ کام آئے
ہم ایسے لوگ کبھی ابتداء نہیں ہوئے ہیں
تیرے آنے کا نشہ تیرے نہ آنے سے ہوا
گھر مکمل مِرا دیوار گِرانے سے ہوا
خون کے چھینٹے اڑے وقت کے پھیلاؤ میں
میرا ٹکراؤ کچھ اس طرح زمانے سے ہوا
ورنہ تو عشق میں آوارہ کئی اور بھی تھے
قیس کا نام فقط دشت بسانے سے ہوا
حروف چند مری شاعری کے چاروں طرف
کہ جیسے پانی ہو تشنہ لبی کے چاروں طرف
ہزار بار بجھی آنکھ 👁👁 پھر ہوئی روشن
کچھ آئینے بھی تھے بے چہرگی کے چاروں طرف
بہت سے خواب تھے رنگین اس کے تھیلے میں
سو لوگ بیٹھ گئے اجنبی کے چاروں طرف
دوسری سرگوشی
دیکھ
مجھے لمبے وعدوں سے خوف آتا ہے
لمبے وعدے دور افتادہ خوابوں کو
کُمہلا دیتے ہیں
بھید بھرے سنسار میں دھوپ کی پور
معذور ہے غزل کا جو پیکر ہے، ہائے ہائے
مطلعے کے واسطے کوئی منتر ہے ہائے ہائے
دریا کے اضطراب کو میں مانتا ہوں دوست
لیکن جو میری روح کے اندر ہے، ہائے ہائے
مجھ سے تو کم سے کم یہ حماقت بعید تھی
اس پر گمانِ موم جو پتھر ہے، ہائے ہائے
اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہیۓ
سرخیٔ لب بھی گال کا وہ تل بھی چاہیۓ
یہ کاروبار شوق ہے، بے گار تو نہیں
اس کاروبارِ شوق کا حاصل بھی چاہیۓ
پانی اور آگ ایک جگہ چاہئیں ہمیں
جو شاخ گل بدست ہو قاتل بھی چاہیۓ
ایک ہی لمس پہ جب پہلا بٹن کُھلتا ہے
دوسرا، تیسرا پھر سارا بدن کھلتا ہے
سرخ پھولوں پہ نہ رک، دودھیا چشموں سے گزر
ناف وادی میں اتر، بابِ عدن کھلتا ہے
انگیا ڈور نہ کس، نیل نہ پڑ جائیں تِرے
پیاس بجھنے دے کٹوروں کا ڈھکن کھلتا ہے
دعوتِ ولیمہ
اک روز ہم بھی دعوت اڑانے چلے گئے
وعدہ جو کر لیا تھا نبھانے چلے گئے
بیگم کی بات ہم نہیں مانے چلے گئے
اور فیملی کے ساتھ میں کھا نے چلے گئے
ٹائم کے ہیر پھیر نے سب کو سکھا دیا
کھانے کے انتظار نے ہم کو پکا دیا
نمکین غزل
گالیاں دے کر گئی مجھ کو جٹھانی آپ کی
ساتھ بیگم بھی کھڑی تھی درمیانی آپ کی
کوئی افسر ہے تو کوئی حکمراں ہیں دیکھئے
ہم بھی گنجے ہیں، خدارا مہربانی آپ کی
مجھ کو رکھ لو گھر میں اپنے چین سے تو پھر جیو
میں حفاظت میں رکھوں گا یہ جوانی آپ کی
نمکین غزل
بیوی صلواتیں سنائے تو غزل ہوتی ہے
کوئی جب جان کو آئے تو غزل ہوتی ہے
ہم پہ تنقید جو کرتے ہیں ذرا ان کو بھی
کوئی دو ہاتھ لگائے تو غزل ہوتی ہے
دال روٹی سے پریشان ہیں حجرے کے مکین
مولوی مرغ چرائے تو غزل ہوتی ہے
نمکین غزل
محبتوں میں کوئی تمہارا یہ حال کر دے تو کیا کرو گے
بلا کے گھر میں وہ نائن ون ون کو کال کر دے تو کیا کرو گے
گرین کارڈ اس سے لے رہے ہو مگر نتیجہ بھی یاد رکھنا
یہاں کی کالی تمہارے چہرے کو لال کر دے تو کیا کرو گے
یہ میں نے مانا تمہارے ہاتھوں میں سنگ مرمر کی انگلیاں ہیں
کوئی حسینہ جو کانچ کا دل اچھال کر دے تو کیا کرو گے
تضمین بر کلام احمد فراز
”اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں“
اپنے شوہر کو نہ کر اتنا پریشاں جاناں
ساری خوبانیاں کھا لیں مجھے گھٹلی بھی نہ دی
اتنے کنجوس تو ہوتے نہیں خوباں جاناں
تیسرے شعر پہ جاناں نے یہ جھلا کے کہا
کیا یہ بکواس لگا رکھی ہے جاناں، جاناں
(نمکین کلام) عورتوں کی اسمبلی
وہ شانوں پہ زرکار آنچل اچھالے
ادھر سے ادھر مست زلفوں کو ڈالے
میاں اور بچے خدا کے حوالے
حسیں ہاتھ میں نرم فائل سنبھالے
کس انداز سے ناز فرما رہی ہے
کہ جیسے چمن میں بہار آ رہی ہے
تمہاری باتوں کو یاد رکھوں یا دل کی باتیں سنا کروں میں
یہ فیصلہ بھی بہت کٹھن ہے، تم ہی بتاؤ کہ کیا کروں میں
تمہاری عادت ہے کڑھتے رہنا تو میری عادت ہے مسکرانا
تمہیں خوشی تو کبھی نہ ہو گی، جفا کروں یا وفا کروں میں
میں جان کر بھی کوئی بتائے کسی سے کیسے سوال کرتی
جو دینے والامیرا خدا ہے، تو بس اسی سے دعا کروں میں
کارنس پر پڑا ہوا برتن
دھوپ کیا ہے
یہ کس رنگ کی
اور کیسی ہوا کرتی ہے
میں نہیں جانتا
کیوں کہ میں تو، زمانے ہوئے
احترامِ صبا کیا جائے
سب دریچوں کو وا کیا جائے
کوئی شہرِ صبا سے آئے گا
فرش کو آئینہ کیا جائے
ساری نادانیاں تو اپنی ہیں
کیا کسی کا گِلہ کیا جائے
دھوپ نے کر دئیے منظر پس منظر آتش
ہو گیا سارا سمندر کا سمندر آتش
ہاتھ آتش نظر آتش ہے زباں پر آتش
کردیا کس نے میرے شہر کا ہر گھر آتش
کس کی یادوں نے یہ تبدیل کیا ہے موسم
برف کی رُت میں دہکنے لگی اندر آتش
اک خطا سرزد ہوئی تھی پر خدا خاموش ہے
اس کی رحمت مجھ پہ ہے سو ہر سزا خاموش ہے
عشق کی حالت میں تجھ کو اب خدا بھی کہہ دیا
یہ سبھی کچھ دیکھ کر بھی نا خدا خاموش ہے
تُو اگر ہو سامنے کوئی صدا آتی نہیں
میرے تو الفاظ بہرے التجا خاموش ہے
ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں سے بھرے لاہور میں
کچھ پرانے یار مل جائیں نئے لاہور میں
میں نے منت مان لی ہے آج داتا کے حضور
دیکھنا تم جلد واپس آؤ گے لاہور میں
دانہ پانی ڈھونڈنے سب جا بسے ہیں دور دیس
کیا زمانہ تھا کہ سارے دوست تھے لاہور میں
وہی رستے تھے وہی موسم تھا وہی سارے مکان پرانے تھے
لیکن اس کہنہ بستی میں، جو لوگ ملے انجانے تھے
مِرا رونق شہر میں جی نہ لگا، مجھے محفلیں راس نہیں آئیں
مِری آنکھوں میں تھی ریگ تپاں، مرے دل میں بسے ویرانے تھے
اک اجڑی ہوئی محفل میں گیا میں ڈھونڈنے اپنے پیاروں کو
کچھ بجھی ہوئی شمعیں تھیں وہاں، کچھ ٹوٹے ہوئے پیمانے تھے
جشن تھا عیش و طرب کی انتہا تھی میں نہ تھا
یار کے پہلو میں خالی میری جا تھی میں نہ تھا
اس نے کب برخاست اے دل محفل معراج کی
کس سے پوچھوں رات کم تھی یا سوا تھی میں نہ تھا
میں تڑپ کر مر گیا دیکھا نہ اس نے جھانک کر
اس ستم گر کو عزیز اپنی حیا تھی میں نہ تھا
کیا کہا وہ مری تلاش میں ہے
وہ کسی اور کی تلاش میں ہے
کوئی دل جو کہ اس کے لائق ہو
درد کی تازگی تلاش میں ہے
ہو نہ جائے مِری سماعت گم
تیری آواز کی تلاش میں ہے
سرد موسم میں اک ردا ہے تُو
میں ہوں بادل مِری گھٹا ہے تو
دیکھتا ہے مجھے ہر اک صورت
میرے کمرے کا آئینہ ہے تو
میرے اندر تپش مئی کی ہے
اور دسمبر کی سی ہوا ہے تو
یہاں منصفی کی روایت نہیں
ہماری یہ پہلی شکایت نہیں
نمک والی لذت الگ چیز ہے
یہ شیرینی کرتی کفایت نہیں
مداوا بھی کچھ داد کے ساتھ ساتھ
کہ احوالِ دل تھا، حکایت نہیں
تُو مجھے آن ملے گا یہ یقیں تھا مجھ کو
تیری آمد کا سفر کتنا حسیں تھا مجھ کو
خیر ہو تیری لبوں پر یہ دعا تھی ہر دم
راہ میں آ ئے کبھی تجھ کو نہ کوئی بھی غم
تیری خوشیوں کو مقدم ہی رکھا ہے میں نے
تیری خاطر یہ کڑا وقت سہا ہے میں نے
دستِ نادیدہ گلو گیر تو ہے
صورتِ حال یہ گمبھیر تو ہے
شور حالات کی تصویر تو ہے
ہُو کا عالم بھی ہمہ گیر تو ہے
جانے کب اترے کمر میں خنجر
مجھ سے اک شخص بغلگیر تو ہے
مریض اٹھنے لگے ہیں کسی سہارے بغیر
پکارتا ہے کوئی اس طرح پکارے بغیر
تِری رضا کے بنا ذائقہ بھی دیتا نہیں
یہ پیڑ پھل نہیں دیتا تِرے اشارے بغیر
اداسی ہم سے ملے تو اداسی بنتی ہے
بنے گا جانے اداسی کا کیا ہمارے بغیر
نا دریافتہ کُل
قرن ہا قرن بیت گئے
تمہاری تلاش کے ہاتھوں میں
گوہرِ مقصود نہیں آیا
اچھا بتاؤ
کیا تم نے
دور نظروں سے حسین ان کے نظارے ہو گئے
وہ دوبارہ سے بے چارے پھر کنوارے ہو گئے
حسن والوں سے کبھی پنگا نہیں لینا میاں
جنہوں نے پنگا لیا؛ اللہ کو پیارے ہو گئے
پہلے شادی سے ہماری زندگی تھی پر سکوں
ساڑھیاں شلوار اب گھر میں شرارے ہو گئے
لا مکاں نام ہے اجڑے ہوئے ویرانے کا
ہو کے عالم میں ہے مسکن تِرے دیوانے کا
شوق رسوا کوئی دیکھے تِرے دیوانے کا
خود وہ آغاز بنا ہے کسی افسانے کا
جام دل بادۂ الفت سے بھرا رہتا ہے
واہ کیا ظرف ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا
ریشم ریشم تتلی دیکھوں خواب نگر کی وادی میں
کس کی خوشبو پھیل رہی ہے دل کی ویراں بستی میں
ست رنگی سپنوں میں چہرہ ست رنگی ہو جائے ہے
اِندر دھنش کا رنگ ملا ہے تمرے نام کی ہلدی میں
یوں تو بابلی کے پنگھٹ پر سکھیوں کے سنگ بیٹھی ہوں
لیکن من کی گوری چپکے چپکے اترے پانی میں
کیا بتائیں آپ سے کیا ہستیٔ انسان ہے
آدمی جذبات و احساسات کا طوفان ہے
اشتراکیت مِرا دین، اور مِرا ایمان ہے
کاش موٹر لے سکوں میں یہ مِرا ارمان ہے
آہ اس دانشکدے میں کس قدر ہے قحط حسن
جب سے آیا ہوں یہاں بزم نظر ویران ہے
حرف کو پھول بناتے ہوئے اِتراتی ہوں
میں تجھے اپنا بتاتے ہوئے اتراتی ہوں
ساحل وقت پہ چلتے ہوئے دیکھا تم نے
نقشِ پا اپنے بناتے ہوئے اتراتی ہوں
ہے کوئی خوابچہ کب سے مِری انگلی تھامے
میں اسے چلنا سکھاتے ہوئے اتراتی ہوں
کیا عجب لوگ ہیں اور کیسی دعا مانگتے ہیں
رب سے سب کچھ ہی مگر رب کے سوا مانگتے ہیں
نیکیاں کرتے ہیں بس وہ جو موافق آئیں
اور پھر ان پہ جزا حسبِ رضا مانگتے ہیں
دیکھ کر حضرتِ انسان کی یہ بے قدری
مانگنے والے بھی بس بہرِ خدا مانگتے ہیں
زندگی باقی ہے اب دو چار دن
گن رہا ہے یہ تِرا بیمار دن
شوخیوں سے کیجئے پامال دل
ہیں تمہارے ناز کے سرکار دن
وہ جو تھے عہد جوانی کے مِری
کیسے گزرے برق کی رفتار دن
کانچ کے شہر میں پتھر نہ اٹھاؤ یارو
مے کدہ ہے، اسے مقتل نہ بناؤ یارو
صحن مقتل میں بھی مے خانہ سجاؤ یارو
شب کے سناٹے میں ہنگامہ مچاؤ یارو
زندگی بکنے چلی آئی ہے بازاروں میں
اس جنازے کے بھی کچھ دام لگاؤ یارو
اجڑے ہوئے آتے ہیں سدا دل کو راس لوگ
دل کو بھلے کیوں لگتے ہیں اتنے اداس لوگ
اندر سے تار تار کوئی دیکھتا انہیں
محفل میں چند آئے تھے جو خوش لباس لوگ
جانے ہوا تھا کس گھڑی باب قبول وا
کہنے کو رات بھر تھے کف التماس لوگ
چاہا ہے عجب ڈھنگ سے چاہت بھی عجب ہے
محبوب عجب ہے یہ محبت بھی عجب ہے
پلو مِرا تھاما ہے کئی بار خِرد نے
پر ان دنوں جذبوں کی بغاوت بھی عجب ہے
جکڑا ہے تِری یاد نے افکار کو میرے
ہمدم تِرے جذبات میں شدت بھی عجب ہے
ساز دل تشنۂ مضراب تمنا نہ رہا
دیدۂ شوق تماشا ہے تماشا نہ رہا
دل رہا دل میں مگر جوش تمنا نہ رہا
انجمن رہ گئی اور انجمن آرا نہ رہا
ہے وہی طور وہی برق وہی شان جمال
ہاں کوئی آگ سے اب کھیلنے والا نہ رہا
دامن کی ہوا یاد نہ زلفوں کی گھٹا یاد
اب کچھ بھی نہیں سوز غم دل کے سوا یاد
سرگرم سفر تھا نہ رہا کچھ بھی مجھے یاد
نقشِ کفِ پا یاد نہ منزل کا پتا یاد
تم آ گئے جب یاد تو کچھ بھی نہ رہا یاد
کب تم نے بھلایا مجھے کب تم نے کیا یاد
نوجوانی میں عجب دل کی لگی ہوتی ہے
غم کے سہنے میں بھی انساں کو خوشی ہوتی ہے
پیار جب پیار کی منزل پہ پہنچ جاتا ہے
ہنستے چہروں کے بھی آنکھوں میں نمی ہوتی ہے
پاس رہتے ہیں تو دل محو طرب رہتا ہے
دور ہوتے ہیں تو محسوس کمی ہوتی ہے
اب اپنی جفا یاد نہ عاشق کی وفا یاد
او بھولنے والے تجھے کچھ بھی نہ رہا یاد
جب دل سے اٹھائے نہ گئے ظلم بتوں کے
آیا اسے فریاد کے پردے میں خدا یاد
آگے تِرے دم بھول گئے چارہ گر ایسا
جینے کی دوا یاد نہ مرنے کی دعا یار
درد بھی کتنا اچھا تخلیق کار ہے نا
لوگ مجھ سے میرے دکھوں کا سبب پوچھتے ہیں
وہ کہتے ہیں؛ کبھی تم جو مسکاتی ہو تو کسے سوچتی ہو؟
چہرے پر اداسی کے سائے، یہ کس خوف کی رمق ہے؟
ہنسی کا گَلا خود ہی گھونٹ دیتی ہو
تمنا مچل جائے تو چپ کا لبادہ اوڑھتی ہو
میں اس درخت کا بس آخری ہی پتہ تھا
جسے ہمیشہ ہوا کے خلاف لڑنا تھا
میں زندگی میں کبھی اس قدر نہ بھٹکا تھا
کہ جب ضمیر مجھے رستہ دکھاتا تھا
مشین بن تو چکا ہوں مگر نہیں بھولا
کہ میرے جسم میں دل بھی کبھی دھڑکتا تھا
قضا سے قرض کس مشکل سے لی عمر بقا ہم نے
متاع زندگی دے کر کیا یہ قرض ادا ہم نے
ہمیں کس خواب سے للچائے گی یہ پر فسوں دنیا
کھرچ ڈالا ہے لوحِ دل سے حرفِ مدعا ہم نے
کریں لب کو نہ آلودہ کبھی حرف شکایت سے
شعار اپنا بنایا شیوۂ صبر و رضا ہم نے
آواز شہید
(عالم ارواح سے ایک فلسطینی مجاہد کا خطاب)
گڑگڑاہٹ ٹینکوں کی
گھن گرج توپوں کی
طیاروں کا شور الاماں
تڑتڑاتی گولیوں سے ریزہ ریزہ ہڈیاں
یہ قلب تجھے یاد بھی کرنے نہیں دیتا
اشکوں کے سمندر میں اترنے نہیں دیتا
رہ رہ کے کسک دل کی بھی جینے نہیں دیتی
جینا بھی مجھے چین سے مرنے نہیں دیتا
پھولوں کو کتابوں میں صنم کر کے مقید
خوشبو بھی ہواؤں میں بکھرنے نہیں دیتا
اپنی طغیانی کا دھارا میری جانب موڑ کر
درد دل میں آ گیا ساری فصیلیں توڑ کر
رات تیری یاد میری نیند کھانے آٸی تھی
رات میں سویا رہا خود پر اداسی اوڑھ کر
ریل کی سیٹی سناٸی دے رہی تھی بارہا
جانے والا جا چکا تھا مجھ کو تنہا چھوڑ کر
نہ دیوانوں کو سزا اور سُنائی جائے
ان پہ تعزیر محبت کی لگائی جائے
بات کرتا ہے کوئی، پل میں مُکر جاتا ہے
میرے دُشمن کی مجھے نسل بتائی جائے
ٹھیک کرنا جو نہیں، زہر ہی دے ڈالو
کچھ تو بیمار کے اندر بھی دوائی جائے
ہماری ذات پر اس شخص کا اجارا ہے
یہ دعویٰ کس نے کیا ہے کہ وہ ہمارا ہے
ہم ایسے ویسے فقیروں کو پوچھتا ہے کون
ہم ایسے ویسوں کا یہ عشق ہی سہارا ہے
ضرور کام کوئی پیش آ گیا ہو گا
بڑے ہی مان سے اس نے ہمیں پکارا ہے
ہمارے ہاتھ میں اب زہر کا پیالہ ہے
اسی لیے تو ہمیں شہر سے نکالا ہے
حروف ہیں یا کوئی روشنی کا ہالہ ہے
تِرا خیال،۔ میری فکر کا اجالا ہے
اتر گیا ہے رگِ جاں میں جو لہو بن کر
وہ ایک حرفِ محبت مِرا حوالہ ہے
دلبری آتی ہے، دلداری نہیں آتی ہمیں
فن سمجھتے ہیں پہ فنکاری نہیں آتی ہمیں
زندگی ہنس کہ گزاری ہے تیرے بِن ساجن
پھر نہ کہنا کہ اداکاری نہیں آتی ہمیں
آپ کے سامنے ہم شعر سنا سکتے ہیں
داد لینے کی اداکاری نہیں آتی ہمیں
مِری صدا کو کر کے ان سُنی کہیں چلی گئی
وہ آئیں، اور ان کی یاد اٹھی، کہیں چلی گئی
عجب چمک تھی اس کے رخ کو دیکھتے ہی یہ ہوا
ان آنکھوں کی تمام روشنی کہیں چلی گئی
فلک پہ میری دلربا گئی، تو اس کو دیکھ کر
وہاں جو سب سے خوب تھی پری کہیں چلی گئی
اک شور سمیٹو جیون بھر اور چپ دریا میں اتر جاؤ
دنیا نے تم کو تنہا کیا،۔۔ تم اس کو تنہا کر جاؤ
اس ہجر و وصال کے بیچ کہیں اک لمحے کو جی چاہتا ہے
بس ابر و ہوا کے ساتھ پھرو اور جسم و جاں سے گزر جاؤ
تم ریزہ ریزہ ہو کر بھی جو خود کو سمیٹے پھرتے ہو
سو اب کے ہوا پژمُردہ ہے، اس بار ذرا سا بکھر جاؤ
جو غم کے سائے تھے دل میں، انہیں نکال دیا
تِرے خیال نے مجھ کو بہت اُجال دیا
میں جس کے دَم سے ہوئی معتبر زمانے میں
تِری تلاش نے مجھ کو وہ اک خیال دیا
لپٹ گئی میرے قدموں سے خاک دھرتی کی
فلک کی سمت کبھی خود کو گر اُچھال دیا
شوقِ بقاء کا آپ نے کتنا حسیں صلہ دیا
خاک ہی سے بنا تھا میں خاک میں پھر ملا دیا
چشم کرشمہ ساز کی یہ بھی ہے اک خصوصیت
چاہا جسے بنا دیا،۔۔۔ چاہا جسے مٹا دیا
مجھ سے اگر ہوئی تھی بھول آپ نے کیوں کیا قصور
کیوں میرا حال دیکھ کر بزم میں مسکرا دیا
ہو جاتے ہیں جب آپ بھی حیران دیکھ کر
ہنستا ہوں اپنا چاک گریبان دیکھ کر
پھولوں کا رنگ و روپ نکھرتا چلا گیا
نازک لبوں پہ آپ کے مسکان دیکھ کر
اک بے وفا کا پیار مجھے یاد آ گیا
دورِ خزاں میں باغ کو ویران دیکھ کر
یہ فسانہ نہیں حقیقت ہے
عشق ہر دور کی ضرورت ہے
جھوٹ، دھوکہ، فریب، عیاری
ہر قدم پر نئی سیاست ہے
آ ج بے حد نڈھال ہوں غم سے
مجھ کو تیری اشد ضرورت ہے
کچھ کام تو آیا دل ناکام ہمارا
ٹوٹا ہے تو ٹوٹا ہی سہی جام ہمارا
جتنا اسے سمجھا کئے بےگانۂ تاثیر
اتنا تو نہ تھا جذبۂ دل خام ہمارا
یہ کون مقام آیا قدم اٹھتے نہیں ہیں
منزل پہ ٹھہرنا تو نہ تھا کام ہمارا
جسم کے ساتھ مِری روح بھی تپتی ہے مگر
کون ہو گا جو مِری روح کے اندر جھانکے
اک تحیر ہے مِری آنکھ میں جم کر بیٹھا
آنکھ کھولوں تو کناروں پہ سمندر جھانکے
میری آواز پہ پہرہ ہے مِری سوچ پڑھو
جس کو پڑھنا ہو پڑھے لفظ کے اندر جھانکے
تھکن سے چُور ہوں،۔ آرام کرنا چاہتا ہوں
میں سب سے چھپ کے کہیں شام کرنا چاہتا ہوں
تجھے قبول اگر ہو تو میری وحشتِ جاں
میں ساری عمر تِرے نام کرنا چاہتا ہوں
مِرا سکوت زمانے کے بعد ٹوٹا ہے
میں سارے شہر میں کہرام کرنا چاہتا ہوں
بستی بستی گھور اندھیرا،۔ سونا سونا جادہ تھا
شب کے پچھلے پہر کا سناٹا کچھ اور زیادہ تھا
صحنِ چمن میں روش روش پر آس کے پھول اگائے تھے
لیکن یہ محسوس ہوا ہر منظر پیش افتادہ تھا
لفظ کوئی آسیب نہ تھے لوگ اس کی صدا سے کیوں ڈرتے
وقت کے اندھے کنوئیں کا یہ آشوب تو سیدھا سادہ تھا
مِری وفا، مِرا ایثار چھین لے مجھ سے
ہے کون جو مِرا کردار چھین لے مجھ سے
یہ زندگی کوئی سو بار چھین لے مجھ سے
مگر نہیں کہ تِرا پیار چھین لے مجھ سے
یہ وقت وہ ہے کہ قدموں میں بیٹھنے والا
یہ چاہتا ہے کہ دستار چھین لے مجھ سے
اس رخ پہ پھر گلاب سے کھلنے لگے تو ہیں
اے چشمِ اشتیاق! تِرے دن پھرے تو ہیں
کچھ اہتمامِ رونقِ مے خانہ ہے ضرور
ٹھنڈی ہوا چلی تو ہے بادل گھرے تو ہیں
لو اب تو آئی منزل جاناں سے بوئے خوش
کچھ ٹھوکریں لگی تو ہیں کانٹے چبھے تو ہیں
بسی آنکھوں میں شبنم ہے محبت ہو گئی ہو گی
ہنسی ہونٹوں پہ مدھم ہے محبت ہو گئی ہو گی
مجھے جاتے ہوئے سورج نے سونپے رتجگے اتنے
یہی غم بھی تو کیا کم ہے محبت ہو گئی ہو گی
جہاں پر خاک اُڑتی تھی ابھی تک تیری چاہت کی
زمیں وہ پیار کی نم ہے محبت ہو گئی ہو گی
کہتی ہے خود شفق کی زباں سے یہ شام سرخ
برپا زمیں پہ ہو کے رہے گا نظامِ سرخ
لائے گی رنگ گردشِ آفاق بھی ضرور
ہم تک کبھی تو بزم میں پہنچے گا جام سرخ
پرچم ہمارا سرخ اسی واسطے سے ہے
لینا ہے اہلِ زر سے ہمیں انتقام سرخ
تیری چاہت کی صلیبوں سے اُتارے ہوئے لوگ
در بدر پھرتے ہیں تنہائی کے مارے ہوئے لوگ
اب بھی شاداب ہیں ہم، تیری محبت کے طفیل
ایسے ہوتے تو نہیں ہجر گزارے ہوئے لوگ
ورنہ تو گردِ زمانہ میں دبے رہتے ہیں
زیست کے آئینہ خانوں میں سنوارے ہوئے لوگ
جھمکتے جھومتے موسم کا دھوکا کھا رہا ہوں میں
بہت لہرائے ہیں بادل،۔ مگر پیاسا رہا ہوں میں
تنی جب دھوپ کی چادر مِرے سر پر تو کیا ہوگا
درختوں کے گھنے سائے میں بھی سنولا رہا ہوں میں
وہی کچھ کر رہا ہوں جو کیا میرے بزرگوں نے
نئے ذہنوں پہ اپنے تجربے برسا رہا ہوں میں
جو پری زاد ملنسار ہوا کرتے ہیں
کیسی چلتی ہوئی تلوار ہوا کرتے ہیں
ظلم کرنا ہی فقط آپ نے سیکھا ہے یا
مہربان بھی کبھی سرکار ہوا کرتے ہیں
مشق کرنے سے ہی ہوتی ہے مہارت پیدا
سچے عاشق بھی اداکار ہوا کرتے ہیں
چین آتا نہیں ان سے ملاقات کیۓ بِن
بولیں نہ وہ میں رہتی نہیں بات کیۓ بن
کمبخت ہواؤں نے یہ کیا کہہ دیا ان سے
کیوں ابر اڑے جاتے ہیں برسات کیۓ بن
مے آ گئی گھر میں یہ خبر شیخ نہ سن لیں
لوٹ آئیں گے مسجد سے مناجات کیۓ بن
آئے تِری محفل میں تو بے تاب بہت تھے
جو اہلِ وفا، واقفِ آداب بہت تھے
اس شہرِ محبت میں عجب کال پڑا ہے
ہم جیسے سبک لوگ بھی نایاب بہت تھے
کچھ دل ہی نہ مانا کہ سبک سر ہوں وگرنہ
آسودگئ جاں کے تو اسباب بہت تھے
اصلِ زندگی
مِری مٹی پہ دو موسم اترتے ہیں
محبت کا ہرا پن اور عداوت کی خزاں کا زرد سُونا پن
محبت کا ہرا پن دوستی کی نرم خوشبو سے مزیّن ہے
عداوت کی خزاں کا زرد سُونا پن
کسی دریا میں چکراتے بھنور کا شاخسانہ ہے
اے مشفقِ من اس حال میں تم کس طرح بسر فرماؤ گے
انجان بنے چپ بیٹھو گے اور جان کے دھوکے کھاؤ گے
تم اپنے گھر کے اندھیرے میں کیا دیکھتے ہو دیواروں کو
یہ شمع کی صورت جلنا کیا؟ آئے گی ہوا بجھ جاؤ گے
جن جھوٹے سچے خوابوں کی تعبیر غمِ تنہائی ہے
ان جھوٹے سچے خوابوں سے تم کب تک دل بہلاؤ گے
زلف کی اوٹ سے چمکے وہ جبیں تھوڑی سی
دیکھ لوں کاش جھلک میں بھی کہیں تھوڑی سی
مے کدہ دور ہے، مسجد کے قریں، تھوڑی سی
میرے ساقی ہو عطا مجھ کو یہیں تھوڑی سی
نا خوشی کم ہو تو ہوتا ہے خوشی کا دھوکا
جھلکیاں ہاں کی دکھاتی ہے نہیں تھوڑی سی
میں نے بھی اس سے ہاتھ ملایا تھا اور بس
وہ شخص میرے خواب میں آیا تھا اور بس
وہ پیکرِ جمال بھی اک شاہکار تھا
فرصت میں جس کو رب نے بنایا تھا اور بس
دل کی تمام دھڑکنیں بہکی ہوئی سی تھیں
سارا خمار اس نے چڑھایا تھا اور بس
سنو میں یہ نہیں کہتا میں اچھا ہو نہیں سکتا
میری جاں تم مسیحا ہو تو پھر کیا ہو نہیں سکتا
ہمارے سوچ لینے سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
رواں اب قطرے قطرے تو دریا ہو نہیں سکتا
سجا رہتا ہو جس کے گرد تیری یاد کا میلہ
جہاں میں ایک پل کو بھی وہ تنہا ہو نہیں سکتا
خود بلائیں گے بھول جائیں گے
دل جلائیں گے بھول جائیں گے
جا کے پردیس کس کو ہے معلوم
جب وہ جائیں گے بھول جائیں گے
حافظہ ان کا کیا ہی کہنے ہیں
دل لگائیں گے بھول جائیں گے
چہرہ ہے وقت وقت کا چہرہ نما ہوں میں
اپنے سوا سبھی کے لیے آئینہ ہوں میں
اب اس کا کیا علاج، کہ تم ہی نہ سن سکو
اے اہلِ دل! سنو کہ تمہاری صدا ہوں میں
اس حُسنِ اتفاق کے قربان جائیے
آج آئینہ میں خود کو نظر آ گیا ہوں میں
چار موسم تروینیاں
چاہتوں کے موسم میں
دل کی سرزمینوں ہر
بارشیں برستی ہیں
وصل کے زمانوں میں
ہجر پاؤں رکھتا ہے
اسے کہنا
تمہاری دلربا یادیں
بہت دل کو ستاتی ہیں
بچھڑنے کا نہیں ہے غم
تمہاری یاد آنے سے
بس آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بہت مجبور تھے مجبور ہیں مجبور رہتے ہیں
کہ ہم مزدور تھے مزدور ہیں مزدور رہتے ہیں
کسے سُولی چڑھانا ہو،۔ ہمارا نام آتا ہے
کہ ہم منصور تھے منصور ہیں منصور رہتے ہیں
پرندوں کی ہجرت پر، ہماری یاد آتی ہے
کہ ہم مہجور تھے مہجور ہیں مہجور رہتے ہیں
آواز کوئی دے گا تو گھر جائیں گے ہم لوگ
اک دن اسی امید مِیں مر جائیں گے ہم لوگ
ہم کو بھی نگل جائے گا شہرت کا سمندر
گمنام جزیروں پہ اتر جائیں گے ہم لوگ
تھم جائے گا ہر ذات کے اثبات کا ہنگام
اک روز خموشی سے بکھر جائیں گے ہم لوگ
شبِ تاریکِ زنداں میں کہیں سے روشنی آئے
کبھی تو گنبدِ دل سے صدائے زندگی آئے
ابھی ہے زندگی اوہام کی تاریکیوں میں گم
چراغِ عقل روشن ہو شعاعِ آگہی آئے
رِہیں گر صوفی و ملا کی فتنہ بازیاں باقی
تو کیسے بندگی میں سوز و سازِ بندگی آئے
وصالِ یار کا موسم اِدھر آیا، اُدھر نکلا
جسے ہم داستاں سمجھے وہ قصہ مختصر نکلا
گنے جو وصل کے لمحے تو مشکل سے وہ اتنے تھے
کہ تارے جاگ کر سوئے، کہ سورج ڈوب کر نکلا
ہمیشہ ایک ہی غلطی، ہر اِک سے دوستی جلدی
وہ جس کے زہر تھا دل میں، تِرا نورِ نظر نکلا
ہر گھڑی مجھ پہ رواں ایسا ستم رکھا ہے
شہر والوں نے مِری آنکھ کو نم رکھا ہے
میں نے اک عمر سرِ راہ بچھائی پلکیں
اس نے پھر جا کے مِرے گھر میں قدم رکھا ہے
ضبط ٹوٹا ہے مگر اشک نہیں بہنے دئیے
ہم نے بس یار! محبت کا بھرم رکھا ہے
تمہارے خواب کی تعبیر ہونا چاہتا ہوں
مجھے دیکھو کہ میں تسخیر ہونا چاہتا ہوں
جہاں گردی مجھے چوکھٹ سے باہر کھینچتی ہے
میں اپنے پاؤں کی زنجیر ہونا چاہتا ہوں
مجھے جھوٹی ہنسی نے کھوکھلا سا کر دیا ہے
کوئی دن کے لیے دلگیر ہونا چاہتا ہوں
تیرے لہجے میں یہ جو شدت ہے
یہ کوئی ان کہی شکایت ہے
ہجر کے دُکھ پہ یار حیرت کیا
مستقل وصل بھی اذیت ہے
تجھ کو اب بُھولنے لگا ہوں میں
یہ شکایت نہیں ہے، تہمت ہے
اداس آنکھیں غزال آنکھیں
جواب آنکھیں سوال آنکھیں
وہ صبح کا وقت نیند کچی
خمار سے بے مثال آنکھیں
ہیں شوخیوں سے چھلکنے والی
محبتوں سے نہال آنکھیں
اسیر محبت
جب تم بوڑھے ہو جاؤ گے
اور اپنے کانپتے ہوئے سر کو تکیہ پر رکھو گے
تمہیں تب میری باتیں یاد آئیں گی
تم اپنے لیے نہیں تھے
تم سب کے لیے بھی نہیں تھے
قمر گزیدہ نظر سے ہالہ کہاں سے آیا
چراغ بجھنے کے بعد اجالا کہاں سے آیا
ندی میں وہ اور چاند ہیں ایک ساتھ روشن
زمیں پر آسمان والا کہاں سے آیا
یہ غنچہ غنچہ سیاہ بھونرے کی بوسہ خواہی
سوادِ گلشن میں ہم نوالا کہاں سے آیا
میں نے کہا کہ؛ دل میں تو ارمان ہیں بہت
اس نے کہا کہ؛ آپ تو نادان ہیں بہت
میں نے کہا کہ؛ مجھ کو ہے جنت کی آرزو
اس نے کہا کہ؛ واقف ایمان ہیں بہت
میں نے کہا کہ؛ مہکا ہوا اک گلاب ہوں
اس نے کہا؛ زمیں پہ گلستان ہیں بہت
کارنامہ اے غم دل! کچھ تِرا یہ کم نہیں
بہہ گئے آنکھوں سے دریا اور آنکھیں نم نہیں
صاف تھا ہر لفظ اس کی بے بدل تقریر کا
پھر لہو نے نقش جو چھوڑے ہیں وہ مبہم نہیں
ہر زمانہ میں نہیں پہچاننا مشکل انہیں
سر قلم ہوتے رہیں گے ان کے لیکن غم نہیں
کون کہتا ہے کہ میں خاک کی اک پتلی ہوں
میں نفقت من روحی کو بھی لے نگلی ہوں
ارتقائی کو سجائی ہے میری بزم حیات
میں بھی تسخیر دو عالم کے لیے نکلی ہوں
قصۂ عشق سے مجھ کو نہ ڈرانا جاناں
میں تو معراج کے منظر کی حسین بجلی ہوں
اداسی ہم پہ طاری تو تمہارے نام نے کی
مگر اس پر طبیعت پر اذیت شام نے کی
دیے جرأت کریں کیسے اجالے تھامنے کی
ہوا کا سامنا بھی، اور ہوا بھی سامنے کی
اگر میں جنگ کرتا، سلطنت ہی جیتتا بس
دلوں کی جیت ممکن صلح کے پیغام نے کی
جگر کو دیکھ کے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
مِرے عزیز، مِرے چارہ گر کو دیکھتے ہیں
پڑی ہے سامنے جیسے کسی عزیز کی لاش
ہم اس نظر سے دلِ بے خبر کو دیکھتے ہیں
کٹیں گی موت کے ہاتھوں یہ بیڑیاں اک دن
اس ایک آس کو اور عمر بھر کو دیکھتے ہیں
بیتے ہوئے لمحوں کو سوچا تو بہت رویا
جب میں تِری بستی سے گزرا تو بہت رویا
پتھر جسے کہتے تھے سب لوگ زمانے میں
کل رات نہ جانے کیوں رویا تو بہت رویا
بچپن کا زمانہ بھی کیا خوب زمانہ تھا
مٹی کا کھلونا بھی کھویا تو بہت رویا
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غمِ ہستی! ہمیں دنیا پسند آئی بہت
ہو نہ ہو دشت و چمن میں اک تعلق ہے ضرور
باد صحرائی بھی خوشبو میں اٹھا لائی بہت
مصلحت کا جبر ایسا تھا کہ چپ رہنا پڑا
ورنہ اسلوبِ زمانہ پر ہنسی آئی بہت
آنکھیں تو
بے اختیار ہوتی ہیں
یہ کب جانتی ہیں
انہیں کہاں برسنا ہے
کہاں جذب کئے رکھنا
کھارے پانی کو
بے دلی سے دیوانے ایسے مسکرائے ہیں
عقل چیخ اٹھی ہے،۔ ہوش لڑکھڑائے ہیں
مُدعا کے جو ریزے رہ گئے تھے سینے میں
کچھ دلوں میں اٹکے ہیں کچھ لبوں تک آئے ہیں
آرزو کی پگڈنڈی اَٹ رہی ہے پھولوں سے
مےکدے کی راہوں میں آنچلوں کے سائے ہیں
کیسی طلب اور کیا اندازے، مشکل ہے تقدیر بنے
دل پر جس کا ہاتھ بھی رکھیو، آخر وہ شمشیر بنے
غم کے رشتے بھی نازک تھے تم آئے اور ٹوٹ گئے
دل کا وحشی اب کیا سنبھلے، اب کیا شے زنجیر بنے
اپنا لہو، تیری رعنائی، تاریکی اس دنیا کی
میں نے کیا کیا رنگ چنے ہیں دیکھوں کیا تصویر بنے
زندگی پروفائی کی ٹھیری
پھر ہمیشہ جدائی کی ٹھیری
نسبتِ جان و دل ہوئی برباد
پھر فقط آشنائی کی ٹھیری
جان و دل کا تھا ایک رمز جو تھا
آخرش جگ ہنسائی کی ٹھیری
یہ کھیل کیا ہے
میرے مخالف نے چال چل دی ہے
اور اب میری چال کے انتظار میں ہے
مگر میں کب سے
سفید خانوں سیاہ خانوں میں رکھے
کالے سفید مہروں کو دیکھتا ہوں
اس کی نظروں میں اب دھواں ہوں میں
اب زمیں ہوں نہ آسماں ہوں میں
نا مکمل سی داستاں ہوں میں
دل ناکام کی زباں ہوں میں
لوگ ارمان جن کو کہتے ہیں
ان چراغوں کا ہی دھواں ہوں میں
جہاں میں جس پہ کرم اعتبار کرتے ہیں
وہ تیر دل کے مِرے آر پار کرتے ہیں
یہ جان جس پہ بھی ہنس کے نثار کرتے ہیں
وہ دشمنوں میں ہمیں ہی شمار کرتے ہیں
ستم زمانے کے سہتے ہیں آہ بھرتے ہوئے
ہم آنکھ ہی کو سدا اشک بار کرتے ہیں
میں نہ محبُوسِ مکاں ہو کے رہوں گا ہرگز
دل میں اب شوق سمایا ہے جہاں بینی کا
دیکھنا ہے یہ مجھے کس طرح ہوتا ہے اسِیر
آدمی گردشِ دوراں کا، غمِ گیتی کا
مُلکوں مُلکوں یہ چمکتا ہوا تارا دیکھوں
کس طرح کرتا ہے پرواز ستارہ دیکھوں
کرنا ہے جو تلاش مقدر تلاش کر
صحرا نوردی چھوڑ سمندر تلاش کر
پہلے تو آستین کے خنجر تلاش کر
پھراس کے بعد رہزن و رہبر تلاش کر
ساحل پہ مل سکے گا نہ نادان کچھ تجھے
موتی تلاشنے ہوں تو اندر تلاش کر
توبہ کی مہلت
کڑکتی بجلیاں ہیں آسماں پر
شور ہے اندھی ہواؤں کا
کہیں اولے برستے ہیں
کہیں بے وقت کی بارش
جہاں دیکھو وہاں تیار ہیں فصلیں
کیسی عجیب بات میں الجھی ہوئی ہوں میں
میں کیا ہوں اپنی ذات میں الجھی ہوئی ہوں میں
تم نے تو تھک کے دشت ٹھکانہ ہی کر لیا
اور شہر خواہشات میں الجھی ہوئی ہوں میں
💔دیوانہ وار پیار کا اظہار اب کہاں
سنگین حیات میں الجھی ہوئی ہوں میں
تشنگی ہے اور سبو ہے، ایک تُو ہے ایک میں
اور کیا اس چار سُو ہے، ایک تُو ہے ایک میں
تیسرا کوئی نہیں تھا،۔ فیصلہ آسان ہے
کس کے دامن پر لہو ہے، ایک تُو ہے ایک میں
کرب کی صدیاں ہیں، لمحہ قُرب کا کوئی نہیں
اک شکستہ آرزو ہے، ایک تُو ہے ایک میں
دیکھا نہ مِری آنکھ نے اس خواب سے آگے
ہم تم تھے رواں کوچۂ مہتاب سے آگے
سنتا ہوں کہ اس سمت ہیں پریوں کے ٹھکانے
آؤ تمہیں لے جاؤں میں خنجراب سے آگے
ایسی ہے مِرے جِسم کی مٹی کی عقیدت
جانے ہی نہیں دیتی ہے پنجاب سے آگے
بکھر گیا چاہتوں کا وہ سلسلہ تِرے بعد
کہ تیرے جیسا ملا نہیں دوسرا ترے بعد
کسی سے ملتے ہوئے بھی اب میں جھجھک رہا ہوں
رفاقتوں کا رہا نہ کوئی مزا ترے بعد
کچھ اس لیے بھی مصیبتوں میں گھرا ہوا ہوں
نہ دی کسی نے سفر سے پہلے دعا ترے بعد
میدانِ محبت میں سیاست نہیں کرتا
میں نذر ریا اپنی عبادت نہیں کرتا
ہو حسب و نسب جس کا حقیقت میں معزز
وہ شخص کسی سے بھی خیانت نہیں کرتا
ہم اس کو کبھی مردِ مجاہد نہیں کہتے
اربابِ ستم سے جو بغاوت نہیں کرتا
لمحوں کی دھوپ نے وہ دکھائی ہیں جھلکیاں
منظر پہ آ گئیں سبھی جیون کی تلخیاں
کیا حال پوچھتے ہو، کبھی جا کے دیکھ لو
صحرا کی خامشی میں کسی کی اداسیاں
اس سال بارشوں کا سفر ہے بہت طویل
کب تک یونہی بناؤں گی کاغذ کی کشتیاں
شب کے ٹوٹے ہوئے تارو یہ بتاؤ مجھ کو
نیند کس راہ پہ ہے آج کی شب میرے سوا
دھڑکنیں مات ہوئیں،۔ دل مِرا سُونا سُونا
روح بے روح بہت، کون یہاں تیرے سوا
شب کے رستوں پہ کدھرجاؤں، مِرا کوئی نہیں
ہر طرف گھور اندھیرا ہے، یہاں میرے سوا
وہ جب سے مسکرانے لگے ہیں
رنج سارے ہی ٹھکانے لگے ہیں
اس کا بدن جب سے چُھوا ہے
یہ بادل آگ برسانے لگے ہیں
ہاتھ جن سے دیپ تھے جلتے
وہ اب روٹیاں جلانے لگے ہیں
چاند تارے اداس رہتے ہیں
تیرے پیارے اداس رہتے ہیں
ماہِ کامل کو دیکھنے کے بعد
سب نظارے اداس رہتے ہیں
دریا بہتا ہے موج میں اپنی
اور کنارے اداس رہتے ہیں
تم بلیک میلر ہو
تم بلیک میلر ہو
اس بلا کی سردی میں
اپنے اپنے پیاروں کی میتوں کو
سڑکوں پر رکھ کے
بین کرتے ہو
غبارِ راہ کی صورت بکھر گیا کوئی
ابھی تو پاس تھا جانے کدھر گیا کوئی
رفاقتوں کے سبھی واسطوں کو ٹھکرا کے
جفا کی آخری حد سے گزر گیا کوئی
نہ پوچھ مجھ سے مِری ذاتِ گمشدہ کا پتہ
مِرے وجود میں زندہ تھا، مر گیا کوئی
ضد پہ ہے دنیا تو ضد پہ تیرا دیوانہ بھی ہے
پاؤں میں زنجیر بھی تیری طرف جانا بھی ہے
ٹوٹ کر دل نے ہمارے کل تجھے چاہا بھی تھا
ٹوٹ کر دل نے ہمارے آج یہ جانا بھی ہے
میر صاحب دیکھیۓ آ کر ہمارے دور میں
اب غزل ہے آئینہ اور آئینہ خانہ بھی ہے
ہر ایک شے سے محبت کی رشتہ داری رکھ
اب اس کو جنگ سمجھ اور جنگ جاری رکھ
نہ جانے کس کو وہ اپنا سمجھ کے اپنا لیں
نظر کو دل کو تمنا کو باری باری رکھ
اگر تمہاری ہے تنہا تو اس کو لے جاؤ
اگر ہے ساجھی یہ دنیا تو ساجھےداری رکھ
کچھ تو کہیے کہ کیا ارادہ ہے
بوجھ ہمت سے کچھ زیادہ ہے
جس کو آنا ہے شوق سے آئے
صحنِ دل تو بہت کشادہ ہے
کوئی ملتی نہیں سواری کیا
جس کو دیکھو وہی پیادہ ہے
رہتی ہے صبا جیسے خوشبو کے تعاقب میں
کچھ یوں ہی زمانہ ہے اردو کے تعاقب میں
لوٹے نہیں اب تک وہ برسوں ہوئے نکلے تھے
پازیب کی چاہت میں گھنگھرو کے تعاقب میں
اک جادو کی ڈبیا ہے جو ان کا کھلونا ہے
بچے نہیں رہتے اب جگنو کے تعاقب میں
یہ آگ محبت کی بجھائے نہ بجھے ہے
بجھ جائے جو اک بار جلائے نہ جلے ہے
ٹوٹا جو بھرم رشتوں میں احساس و وفا کا
سو طرح نبھاؤ تو نبھائے نہ نبھے ہے
کوشش تو بہت کی ہے کہ دھل جائے ہر اک عکس
اک شکل ہے ایسی کہ بہائے نہ بہے ہے
مقامِ عاشقی پائے ہوئے ہیں
جو ٹھوکر در بدر کھائے ہوئے ہیں
میں مثال آئینہ جب سے ہوا ہوں
ستمگر سنگ برسائے ہوئے ہیں
تیرے ہی سنگِ در پہ رکھ کر سر کو
مقدر ہم بھی چمکائے ہوئے ہیں
مت مسافت کا تم اثر لینا
نیند رستے میں تھوڑی کر لینا
زیست کٹ جائے گی سہولت سے
اپنی آنکھوں میں خواب بھر لینا
چوری ہونے کا احتمال نہیں
میری یادیں کہیں بھی دھر لینا
کن زمانوں کا ہے نم کاغذ پر
کیا لکھے رہ گئے غم کاغذ پر
بات آتی ہے ادھوری لب تک
اور پھر اس سے بھی کم کاغذ پر
شعر لکھتا ہوں کہ مصرع مصرع
ہے غزالوں کا یہ رم کاغذ پر
وہ میرے حصے کا گر ہوا تو مجھے ملے گا
مِری دعا میں اثر ہوا تو مجھے ملے گا
جو منزلوں کے فریب میں آ کے چل رہا ہوں
مِرے مقدر میں گھر ہوا تو مجھے ملے گا
وہ جانتا ہے کہ میری بانہوں میں جوسکوں ہے
اسے کسی کا جو ڈر ہوا تو مجھے ملے گا
جائزہ
بات دل جلانے کی
بے وجہ ستانے کی
زخمِ دل لگانے کی
اور مجھے گرانے کی
اپنا یا پرایا ہو
دعا ہتھیلیوں کے درمیاں بناؤں گا
زمیں کے مشورے سے آسماں بناؤں گا
یہ سب پیڑ، مِرے سر بلند پرچم لوگ
یہ جھنڈے گاڑیں گے، میں جھنڈیاں بناؤں گا
شفق سے شال بنا لوں زمیں ماں کے لیے
فلک سے بھائیوں کی پگڑیاں بناؤں گا
چاند تارے مِرے آنگن میں سجانے والے
کھو گیا تو کہاں اے خواب دکھانے والے
کیا یقین آ گیا ان کو بھی وفاؤں پہ مِری
آج خاموش ہیں الزام لگانے والے
چاند چہرے سے نقاب ایسے اتارا نہ کرو
کیا کہیں گے مِرے محبوب زمانے والے
کہ جیسے ایک چنگاری جلائے راکھ ہونے تک
نہیں جھکتی یوں ہی گردن ہماری خاک ہونے تک
ابھی ہوں اس قدر سادہ محبت کر نہیں سکتا
تُو میری سادگی پہ مر مِرے چالاک ہونے تک
نہ جانے رو پڑا وہ کیوں لہو میرا جو ٹپکا تو
ستم جس نے کیے مجھ پر جگر کے چاک ہونے تک
ملحوظ رہے اتنا اے محوِ خود آرائی
شرمندہ نہ ہو جائے اعجازِ مسیحائی
بازی گہِ عالم میں لاکھوں کی شناسائی
کچھ میں بھی ہوں ہرجائی، کچھ تُو بھی ہے ہرجائی
اے دوست! تِرے قرباں، وہ غم مجھے بخشا ہے
غیروں سے نہ تھی ممکن جس غم کی پذیرائی
ہاتھوں کی لکیروں سے تو سارے نہیں ملتے
ہر شخص سے قسمت کے ستارے نہیں ملتے
رب نام سے تر جاتی ہے ڈوبی ہوئی کشتی
نہ چاہے خدا پھر تو کنارے نہیں ملتے
جو وقت کے دھارے میں گئے بہہ وہ کبھی پھر
دل جان سے پیارے کیوں ہمارے نہیں ملتے
تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ
ہم نے ہر اک رنگ کو جانا تِرے آنچل کا رنگ
تیری آنکھوں کی چمک ہے ستاروں کی ضیاء
رات کا ہے گھُپ اندھیرا یا تِرے کاجل کا رنگ
دھڑکنوں کے تال پر وہ حال اپنے دل کا ہے
جیسے گوری کے تھرکتے پاؤں میں پائل کا رنگ
جانِ نگاہ و روحِ تمنا چلی گئی
اے نجدِ آرزو میری لیلیٰ چلی گئی
رخصت ہوئی دیار سے اک نازشِ دیار
صحرا سے اک غزالۂ صحرا چلی گئی
برباد ہو گئی مِری دنیائے جستجو
دنیائے جستجو، مِری دنیا چلی گئی
اس عشق جنوں خیز میں کیا کیا نہیں ہوتا
دیوانہ ہے جو قیس سے لیلیٰ نہیں ہوتا
کچھ حشر لحد پر ابھی برپا نہیں ہوتا
آئے ہو تو ٹھہرو کوئی زندہ نہیں ہوتا
کیوں کر یہ کہوں حسن کا نشہ نہیں ہوتا
ہوتا تو بہت ہے، مگر اتنا نہیں ہوتا
ہم سا بھی ہو گا جہاں میں کوئی ناداں جاناں
بے رخی کو بھی جو سمجھے تِرا احساں جاناں
جب بھی کرتی ہے مِرے دل کو پریشاں دُنیا
یاد آتی ہے تِری زُلفِ پریشاں جاناں
میں تِری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک
آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں
نیند آنکھوں میں اُتر آئے گی دھیرے دھیرے
خواب کیا کیا مجھے دکھلائے گی دھیرے دھیرے
لاکھ بھولوں مجھے یاد آئے گی دھیرے دھیرے
خود کو ہر داستاں دھرائے گی دھیرے دھیرے
کتنے دکھ درد و الم اور ابھی سہنا ہیں
زندگی خود مجھے بتلائے گی دھیرے دھیرے
بے فیض ریاکار محبت پہ بھی لعنت
اخلاص سے عاری ہو تو چاہت پہ بھی لعنت
اب لوٹ کے آنے کا تکلف نہیں کرنا
اب تُو تو کُجا تیری شباہت پہ بھی لعنت
جو اپنی رعایا کا تحفظ نہیں کرتی
واجب ہے کریں ایسی ریاست پہ بھی لعنت
میں کہتا ہوں جوانی میں عبادت کر
محبت کر، محبت کر، محبت کر
دلیلیں دے نہ اس کی تُو وکالت کر
جو ظالم ہے وہ ظالم ہے مذمت کر
چلا ہے مجھ پہ تیری آنکھ کا جادو
میں جب تک ہوں مِرے دل پر حکومت کر
نظر جو آیا کسی کا شباب شیشے میں
لگا کچھ ایسے کہ ہے ماہتاب شیشے میں
مہِ منیر کی رونق بھی ماند پڑنے لگی
جو رخ سے الٹا کسی نے نقاب شیشے میں
حیا کی سرخی ہے چھائی سنہری عارض پر
کہ رکھ دیا ہے کسی نے گلاب شیشے میں
🪔چلو امیدِ پیہم کے نئے دیپک جلائیں ہم
بھلا کر نفرتِ رفتہ، دلوں سے دل ملائیں ہم
بڑھے جو دھوپ آنگن میں تو سائبان ہو آنچل
چھلکتی آنکھ کے آنسو کو پلکوں سے اٹھائیں ہم
جو لفظوں کی صداقت سے کسی کا غم غلط کر دیں
وہ ہمدردی بھرے لہجے کہیں سے ڈھونڈ لائیں ہم
دل میں درد اتر جاتے ہیں
آنکھ میں آنسو بھر جاتے ہیں
آنکھ سے اوجھل ہونے والے
آنکھیں بنجر کر جاتے ہیں
کس سے دل کی بات کریں ہم
جب بھی سوچیں ڈر جاتے ہیں
تمہارے حکم پہ ہم پیار کے احکام لکھ آئے
صفِ اول پہ لیکن قیس کا انجام لکھ آئے
خدا کے بعد میرے دوست کتنے اور کیسے ہیں
کسی نے آج پھر پوچھا تو تیرا نام لکھ آئے
ہمارے کام کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا دوست
سفیرِ امن پیشہ،۔ اور محبت کام لکھ آئے
دکھ سہنے کا گر اور ستمگر کا ستم اور
ہم جور پرستوں کے ہیں غم اور ستم اور
کچھ ایسے بھرے بیٹھے ہیں وہ ہم سے ستمگر
تیور ہیں اگر اور،۔ تو انداز ستم اور
ڈھونڈو گے اگر آپ تو ملنے کے نہیں ہم
محفل کے ستم اور، شبِ غم کے ستم اور
جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اپنے ہی مفادات سے ڈر لگتا ہے
اس کی ضد ہے؛ مجھے آ کے ملو شام ڈھلے
اور مجھے ایسی ہی ملاقات سے ڈر لگتا ہے
کیوں اشک بہاتے ہو میری قبر پہ آ کے
مجھے بے وقت کی برسات سے ڈر لگتا ہے
میں سچ تو کہہ دوں پر اس کو کہیں برا نہ لگے
مِرے خیال کی یا رب اسے ہوا نہ لگے
عجیب طرز سے اب کے نبھایا الفت کو
وفا جو کی ہے تو اس طرح کہ وفا نہ لگے
درونِ ذات بسا ہے جہان یادوں کا
وہ دور رہ کے بھی مجھ کو کبھی جدا نہ لگے
کرونائی کلام
خوف میں ڈوبے ہوئے سایوں سے ڈرنے والے
دل بڑا رکھ! کہ یہ دن بھی ہیں گزرنے والے
آزمائش کے شب و روز رہیں گے کب تک
کچھ زیادہ نہیں موسم یہ ٹھہرنے والے
فاصلے ہو ہی نہیں سکتے دلوں میں حائل
دوریوں سے نہیں ہم لوگ بکھرنے والے
دیکھ کر مجھ کو مِری شوخ بڑی ہنستی ہے
مجھ سے اک شعر کی دوری پہ کھڑی ہنستی ہے
خود کو آواز جو دیتا ہوں تِرے لہجے میں
میرے کمرے میں ہر اک چیز پڑی ہنستی ہے
تیرا مہجور تو بس تیری خوشی میں خوش ہے
سرِ مژگان سو اشکوں کی لڑی ہنستی ہے
جمال گاہِ تغزل کی تاب و تب تِری یاد
پہ تنگنائے غزل میں سمائے کب تری یاد
کسی کھنڈر سے گُزرتی ہوا کا نم! ترا غم
شجر پہ گرتی ہوئی برف کا طرب تری یاد
تُو مجھ سے میرے زمانوں کا پوچھتی ہے تو سُن
تِرا جنوں، تِرا سودا،۔ تِری طلب، تِری یاد
دل سے جو یاد بھی اس شخص کی رخصت ہو جائے
ہجر یوں انت مچائے؛ کہ قیامت ہو جائے
دشت در دشت سرابوں میں نہائے ہوئے حسن
تُو مِرے ہاتھ میں آئے تو حقیقت ہو جائے
مانگتی پھرتی ہے گلیوں کی اداسی یہ دعا
شہر پر کاش بیاباں کی حکومت ہو جائے
محرومی
جس جس چیز پہ ہاتھ رکھو گے
جھٹ سے لا کے قدموں میں
رکھ دی جائے گی
شہزادے ہو
تم کیا جانو
آج بھی دن اندھیرا ہے
اشتہار سے باہر
وہی قیمت ہے عورت کی
ازل سے جو مقرر ہے
زمینی منڈیوں میں
آسمانی مارکیٹوں میں
مِرا حق مان کر بن تو مِرا حاجت روا ہونا
کہ میں مانے ہوئے ہوں اے خدا تیرا خدا ہونا
تجھے سمجھے ہوئے میں ہمیشہ سے ہمیشہ تک
نہ جانوں ابتداء ہونا،۔ نہ مانوں انتہا ہونا
خرد کو عجز زیبا ہے ادب سے دم بخود ہو کر
کہ تیری معرفت تک غیر ممکن ہے رسا ہونا
اک موت بھری خاموشی میں
دل گھڑی گھڑی گھبراتا ہے
ویرانی کے گھر کرنے سے
بے کار کے جینے مرنے سے
کوئی لہر نہ ہو جس مٹی میں
اور لالی ہو جس پانی میں
مِرے عزیز، مِرے دل، سنبھل، نہیں ہوتا
کوئی بھی شخص یہاں بےبدل نہیں ہوتا
یہ دل جو تیرے تغافل سے تھکتا جاتا ہے
غمِ حیات اٹھانے سے شل نہیں ہوتا
ہمیں بڑوں کے سکھائے سبق نے مارا ہے
ہمارے صبر کے بدلے میں پھل نہیں ہوتا
یہی نہیں ہے کہ شانوں سے خون بہتا ہے
ابھی تو اپنی میانوں سے خون بہتا ہے
وہ گال سرخ ہوئے ہوں تو یوں لگیں جیسے
سفید ریشمی تھانوں سے خون بہتا ہے
یہ خامشی وہ بلا ہے کہ چیخ اٹھے اگر
تو سننے والوں کے کانوں سے خون بہتا ہے
فُرصتِ ہجر میں کچھ کارِ تماشہ ہی سہی
تُو نہیں مجھ کو میسر تو یہ دنیا ہی سہی
میں کسی رحم و کرم پر تو نہیں تیری طرح
زیست کی راہ پہ اب چاہے میں تنہا ہی سہی
قریہِ غیر میں الفاظ کا دم گُھٹتا ہے
فرطِ اظہار کے پل اپنا علاقہ ہی سہی
جھلملاتی ہوئی نیند سُن
اے چراغوں کی لو کی طرح
جھلملاتی ہوئی نیند، سُن
میرا ادھڑا ہوا جسم بُن
خواب سے جوڑ
لہروں میں ڈھال
چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
چلمن تو بیچ میں ہے اشارے ہوئے تو کیا
بوسہ دہی کا لطف ملا، حُسن بڑھ گیا
رُخسار لال لال تمہارے ہوئے تو کیا
بے پردہ منہ دکھا کے مِرے ہوش اڑاؤ تم
پردے کی آڑ سے جو نظارے ہوئے تو کیا
ناموسِ وفا کا پاس رہا،۔ شکوہ بھی زباں تک لا نہ سکے
اندر سے تو روئے ٹوٹ کے ہم پر ایک بھی اشک بہا نہ سکے
ساحل تو نظر آیا لیکن طوفاں میں بلا کی شدت تھی
موجوں کو منایا لاکھ مگر ہم جانبِ ساحل آ نہ سکے
ہم کہتے کہتے ہار گئے اور دنیا نے کچھ بھی نہ سنا
جب دنیا نے اصرار کیا،۔ ہم اپنا درد سنا نہ سکے
حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا دیکھ رہا ہوں
ٹوٹے ہوئے ہر دل میں خدا دیکھ رہا ہوں
نظروں میں تِری رنگ نیا دیکھ رہا ہوں
ہاتھوں میں بھی کچھ رنگ حنا دیکھ رہا ہوں
رخ ان کا کہیں اور نظر اور طرف ہے
کس سمت سے آتی ہے قضا دیکھ رہا ہوں