تم وجہِ بے خودی نہیں یہ ایک ہی ہوئی
دل ہے وہ طاقِ غمکدۂ عمر دوش کا
رکھی ہے جس پہ شمعِ تمنا بجھی ہوئی
میں منزلِ فنا کا نشانِ شکستہ ہوں
تصویرِ گربادِ وفا ہوں مِٹی ہوئی
ہے کون ایسا شہر میں فتنوں کو جو دبا سکے
انسانیت کو ظلم سے اس دور میں بچا سکے
اب شہرِ شعلہ پوش میں، ہے آبجو کی جستجو
بھڑکی ہے جو قلوب میں، اس آگ کو بجھا سکے
گو کہ فلک شگاف تھے، ہم بے کسوں کے قہقہے
چہرہ تھا دل کا آئینہ، غم کو نہ ہم چھپا سکے
اپنے خاموش سمندر میں بھنور پیدا کر
سِیپیاں خالی نہ رہ جائیں، گُہر پیدا کر
التجائیں تِری جا کر کہاں رک جاتی ہیں
اب کے گردُوں میں کوئی راہگزر پیدا کر
خواب لگتی ہیں دعاؤں میں اثر کی باتیں
ہو سکے تجھ سے تو شکوؤں میں اثر پیدا کر
لفظ کی دنیا میں شائستہ ہنر میرا بھی ہے
اس خرابے میں تماشا سربسر میرا بھی ہے
میں بھی لٹ جاؤں گا شاید، آپ جیسے لٹ گئے
راہ میں اک راہبر شوریدہ سر میرا بھی ہے
مجھ کو معیارِ وفا کی اس لیے ہے جستجو
قافلہ شہر وفا سے دربدر میرا بھی ہے
ہر شب یہ فکر چاند کے ہالے کہاں گئے
ہر صبح یہ خیال اجالے کہاں گئے
یا ہے شراب پر یا دواؤں پہ انحصار
جو نیند بخش دیں وہ نوالے کہاں گئے
وہ التجائیں میری تہجد کی کیا ہوئیں
تھی عرش تک رسائی وہ نالے کہاں گئے
فلمی گیت
ہے اسی میں پیار کی آبرو وہ جفا کریں میں وفا کروں
جو وفا بھی کام نہ آ سکے تو وہی کہیں کہ میں کیا کروں
مجھے غم بھی ان کا عزیز ہے کہ انہی کی دی ہوئی چیز ہے
یہی غم ہے اب میری زندگی اسے کیسے دل سے جدا کروں
ہے اسی میں پیار کی آبرو
فلمی گیت
لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو
شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو
لگ جا گلے
ہم کو ملی ہیں آج یہ گھڑیاں نصیب سے
جی بھر کے دیکھ لیجیے ہم کو قریب سے
فلمی گیت
اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو
ان آنکھوں کا ہر اک آنسو مجھے میری قسم دے دو
اگر مجھ سے محبت ہے
تمہارے غم کو اپنا غم بنا لوں تو قرار آئے
تمہارا درد سینے میں چھپا لوں تو قرار آئے