رات کا پھیلنا مختصر ہو گیا
میں تِرے عشق میں بے ہنر ہو گیا
زندگی کٹ گئی دھوپ میں دوستا
میں سرِ دشت ٹھہرا شجر ہو گیا
دل میں نفرت کا جنگل ہرا ہو گیا
لفظ چاہت سے میں بے خبر ہو گیا
رات کا پھیلنا مختصر ہو گیا
میں تِرے عشق میں بے ہنر ہو گیا
زندگی کٹ گئی دھوپ میں دوستا
میں سرِ دشت ٹھہرا شجر ہو گیا
دل میں نفرت کا جنگل ہرا ہو گیا
لفظ چاہت سے میں بے خبر ہو گیا
مشیروں سے جو دھوکہ کھا رہی ہوں
منسٹر اب میں ہوتی جا رہی ہوں
وزارت کا نشہ پورا نہیں ہے
میں کیوں کرسی پہ سوتی جا رہی ہوں
محبت میری کیوں بٹنے لگی ہے
میں خلقت کی کیوں ہوتی جا رہی ہوں
زباں مجبور ہے لب پر فغاں ہے
سراپا درد میری داستاں ہے
نگاہِ یار بھی ہے بد گماں سی
غرورِ حسن بھی دامن کشاں ہے
فراقِ دوست کا کیا ذکر آخر
وصالِ یار بھی دل پر گِراں ہے
جو ہم پہ چھائی شامِ غریباں ہے مستقل
اس کی سحر نہ ہو گی، ہمیں مار دیجیۓ
تینوں ہی ناتواں ہیں، پہاڑوں سی زندگی
ہم سے بسر نہ ہو گی، ہمیں مار دیجیۓ
دو چار دن کا چرچا رہے گا اور اس کے بعد
کوئی خبر نہ ہو گی، ہمیں مار دیجیۓ
ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
ورنہ وہ ہے باندھ کر رختِ سفر رکھا ہوا
مجھ کو میرے سب شہیدوں کے تقدس کی قسم
ایک طعنہ ہے مجھے شانوں پہ سر رکھا ہوا
میرے بوجھل پاؤں گھنگھرو باندھ کر ہلکے ہوئے
سوچنے سے کیا نکلتا دل میں ڈر رکھا ہوا
چلو اب مان جاؤ نا
تمہیں مجھ سے شکایت ہے کہ
تم کو بھول بیٹھی ہوں
مگر یہ سچ نہیں ہے نا
یقیں کیسے دلاؤں میں، تمہیں کیسے بتاؤں میں
غلط فہمی نہ پالو تم، ذرا خود کو سنبھالو تم
مہر و وفا کا جشن تھا شب کو برفانی سیاروں پر
ہم نے تیرا ہجر سنبھالا، پیر دھرے انگاروں پر
کتنا وقت لگایا تم نے اک اُلجھن سُلجھانے میں
میں نے کتنے نِیر بہائے دشمن پر، دلداروں پر
مہندی کا رنگ لال ہے گہرا، بالکل جیسے خون کا رنگ
سرسوں جیسی زردی کیوں ہے دُلہن کے رُخساروں پر
مکاں کو چھوڑ کے جب لامکان میں آئے
ہمارے بھید کے عنصر جہان میں آئے
ہوا کے ساتھ بہاؤ کا یہ نتیجہ ہوا
کئی چراغ اندھیروں کی کان میں آئے
سمندروں کے لبوں پر تھی ایک خشک سی تہہ
جب ایک پیاس کے معنی بیان میں آئے
کس سے کریں گے عرضِ تمنّا کہیں جسے
مِلتا نہیں ہے کوئی بھی اپنا کہیں جسے
گِرتی ہُوئی حیات کی دِیوار تھامیے
لازم ہے دردِ دل کا سہارا کہیں جسے
میخانۂ حیات میں بہتی ہے جُوئے خُون
ساقی! تِرا تغافل بے جا کہیں جسے
پیچ و خم سے ہی نہ نکلا جسے عادل سمجھا
کیسا مُنصف تھا جسے شہر نے قاتل سمجھا
تیری قسمت میں فقط لکھ دی گئی رُسوائی
اس نے پیچھے سے کِیا وار تو کاہل سمجھا
سب کی نظریں انہیں پہچاننے سے قاصر ہیں
اک سوالی کی نگاہوں کو تو سائل سمجھا
جلاوطنی سے خط
ماں! کیا ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے
کیوں ضروری ہے کہ ہم دو بار مریں
ایک بار زندگی میں
اور ایک بار زندگی کے بعد
بید کے جنگلو
مستقل محوِ غمِ عہدِ گزشتہ ہونا
ایسے ہونے سے تو بہتر ہے نہ دل کا ہونا
میں ہوں انساں مجھے انسان ہی رہنے دیجے
مت سکھائیں مجھے ہر گام فرشتہ ہونا
دیکھنی پڑتی ہیں ہر موڑ پہ اُدھڑی لاشیں
کتنا دُشوار ہے اس شہر میں بِینا ہونا
دل تجھے بھول گیا ہو کہیں سچ تو ہے نا
یہ محبت بھی ریا ہو کہیں سچ تو ہے نا
اک قیامت ہے تِرا مجھ سے خفا ہو جانا
اور پھر روزِ جزا ہو کہیں سچ تو ہے نا
اب تِرے بعد تو موسم میں تغیّر بھی نہیں
کتنی بے رنگ ہوا ہو کہیں سچ تو ہے نا
فضا میں ایک رہ بُھولا ہوا سیّار کر دیتی
اگر فطرت مجھے تیرے لیے دُشوار کر دیتی
یہ خوں آلود صدیوں کے سفر خاشاک ہو جاتے
تمہاری بے رُخی اے کاش حس بیدار کر دیتی
بچھڑنا تجھ سے نا ممکن تھا اک پل کے لیے ورنہ
یہ اک موہوم سی دُوری تجھے ہموار کر دیتی
چراغِ شوق جلا کر کہاں سے جانا تھا
ہمیں تو ہو کے صفِ دشمناں سے جانا تھا
یہ دل، یہ شہرِ وفا کب اسے پسند آیا
وہ بے قرار تھا اس کو یہاں سے جانا تھا
نظر میں رکھا نہیں ایک بھی ستارہ تِرا
کہ خاک زاد تھے ہم آسماں سے جانا تھا
ایک بے نام جزیرے کے مکیں ہیں ہم لوگ
ایسے موجود ہیں جیسے کہ نہیں ہیں ہم لوگ
ہم کو تہذیب و تمدن میں کہاں ڈھونڈتے ہو
عہدِ وحشت ہے میاں جس کے قریں ہیں ہم لوگ
پر یہ ترتیب ذرا رد و بدل چاہتی ہے
آسماں تم ہو ابھی اور زمیں ہیں ہم لوگ
محرومی کے دکھ اور تنہائی کے رنج اٹھائے
لیکن ہم کو آج بھی جھوٹا پیار نہ کرنا آئے
سیلِ غم! دنیا نے دل سے کیا کیا نقش مٹائے
ہجر کی راتوں میں اب تیری شکل بھی یاد نہ آئے
تنہائی کا سناٹا، اور آتی جاتی راتیں
تیری یاد نہ اور کوئی غم پھر بھی نیند نہ آئے
صبا و گل کو مہ و نجم کو دِوانہ کیا
مِری سرشت نے ہر رنگ کو نشانہ کیا
وہی بہار، جسے تم بہار کہتے ہو
سلوک ہم سے بہت اس نے باغیانہ کیا
جہاں بھی تیز ہواؤں نے ساتھ چھوڑ دیا
غبارِ راہ نے اپنا وہیں ٹھکانہ کیا
شکست
زمیں کی انتہا تک
اس کا پیچھا کیا گیا
وہ ایک قدم پیچھے ہٹتی
تو نہ ختم ہونے والی
ایک تاریک سرنگ میں گر جاتی
شکوے زباں پہ آ سکیں اس کا سوال ہی نہ ہو
ان سے جفا کا ذکر کیا جن کو خیال ہی نہ ہو
دل ہی تو ہے زباں نہیں شکوہ نہیں کریں گے ہم
لیکن یہ شرط کس لیے جی کو ملال ہی نہ ہو
مژگاں پہ واں نگاہِ لطف ہونٹوں پہ یاں حدیثِ شوق
اپنے حدود سے بڑھیں اس کی مجال ہی نہ ہو
بسائی میں نے جو قلبِ حزِیں میں
وہ دنیا کام آئی کارِ دِیں میں
وہی ہے اصل میں جانِ تمنا
جو حسرت ہے نگاہ واپسِیں میں
تِرے شوقِ سراپا کی کشش سے
سمٹ آیا ہوں میں اپنی جبیں میں
دل کو شائستۂ احساسِ تمنا نہ کریں
آپ اس اندازِ نظر سے مجھے دیکھا نہ کریں
یک بہ یک لطف و عنایت کا ارادہ نہ کریں
آپ یوں اپنی جفاؤں کو تماشا نہ کریں
ان کو یہ فکر ہے اب ترکِ تعلق کر کے
کہ ہم اب پُرسشِ احوال کریں یا نہ کریں
یہ زندگی عذاب اگر ہو تو کیا کریں
اک تلخ سی شراب اگر ہو تو کیا کریں
تم سے ہمارے قلب و نظر کا معاملہ
اک وجہِ اضطراب اگر ہو تو کیا کریں
صِدق و صفا کی آرزو اب کیا کرے کوئی
بند آگہی کا باب اگر ہو تو کیا کریں
اٹھا کر برق و باراں سے نظر منجدھار پر رکھنا
ہمیشہ کے لیے یہ ہاتھ اب پتوار پر رکھنا
وصالی موسموں کی بازیابی چاہنے والو
بجائے شاخِ گل دستِ طلب رخسار پر رکھنا
سرِ تخلیقِ تن کب اختراعی دھن نکل آئے
ذرا یہ ہونٹ تم بربط کے ٹوٹے تار پر رکھنا
بُھولی بِسری خواہشوں کا بوجھ آنکھوں پر نہ رکھ
خوبصورت آئینوں میں غم کا پس منظر نہ رکھ
دیکھ بڑھ کر شوخیاں موجوں کی اور قسمت کا کھیل
کشتیاں دریا کے سنجیدہ کناروں پر نہ رکھ
یا تو اُڑ جا ساتھ لے کر قید کی مجبوریاں
ورنہ اپنی جرأتوں کا نام بال و پر نہ رکھ
تلاش
بھاری اینٹیں سر پہ اٹھائے
محنت کش عورت کے
کُھردرے ہاتھوں میں نہیں
اور نہ ہی
بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے
آہ و فریاد کا اثر دیکھا
خود کو مجبور بیشتر دیکھا
بن گیا ہے نقابِ تنگ دلی
شہرۂ وسعتِ نظر دیکھا
جسم نے ڈال دی سِپر جب سے
روح کو عازمِ سفر دیکھا
وہ سمجھتا ہے اس کنائے کو
پل کی حاجت نہیں ہے سائے کو
میں جو کہتا ہوں کچھ نہیں ہو گا
آگ میں ڈال سب کی رائے کو
لے کے دو چُسکیاں مِرے کپ سے
شہد کر دے گا پھیکی چائے کو
اس لیے اب گِلہ تو ہے ہی نہیں
تم میں خوفِ خدا تو ہے ہی نہیں
رو رہا ہوں میں اپنی میّت پر
کوئی میرے سوا تو ہے ہی نہیں
مذہبِ امن و آدمیت کا
اب کوئی پیشوا تو ہے ہی نہیں
میں کنواری ہوں
میں نے تین بچوں کو جنم دیا
اور ایک خواہش کو
میں نے تین عیسیٰ دو صلیبوں پر لٹکے ہوئے پائے
پر مریم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا
کنویں میں آگ لگا دو
مالِ غنیمت
دور کُھردری چوٹیوں کے اوپر
مٹیالے آسماں کے پاس
دو سائے کھڑے تھے
کہ انہوں نے
منحوس قدموں کی چاپ سنی
میری جانِ من
میں تمہارے باقی چاہنے والوں جیسا نہیں ہوں
اگر کوئی دوسرا تمہیں بادل لا کر دیتا ہے
تو میں تمہیں بارش پیش کروں گا
اگر وہ تمہیں لالٹین عطا کرتا ہے
تو میں تمہیں چاند لا کر دوں گا
ہم تب ملیں گے
جب بہاریں آئیں گی
اور سبز شاخوں پر
سرخ گلاب کھلیں گے
ہم تب ملیں گے
جب آنکھوں کے آنسو
عشق تجھ کو کبھی ہُوا ہی نہیں
کیا میری جان یہ تباہی نہیں؟
جس کو مانگا تھا عمر بھر کے لیے
وہ مجھے عمر بھر مِلا ہی نہیں
لاپتہ ہوں میں جس کی چاہت میں
مجھ کو اُس کا پتہ، پتہ ہی نہیں
صبح لکھتی ہے تِرا نام مِری آنکھوں میں
قیدِ تنہائی کی ہے شام مری آنکھوں میں
نیند آتی ہے دعا دے کے چلی جاتی ہے
اشک جب کرتا ہے آرام مری آنکھوں میں
اب تِرے نقشِ کفِ پا کو مٹانے خوشبو
آئی ہے گردشِ ایام مری آنکھوں میں
اس کو چُھو کر سنور گیا ہوں میں
سنگ خُوشبو بکھر گیا ہوں میں
نیک سیرت پری سا چہرہ تھا
کر کے سجدہ گُزر گیا ہوں میں
جسم جاں سے جُدا تو ہونا تھا
کون جانے کدھر گیا ہوں میں
اپنے ہاتھوں سے سجا اور مجھے صندل کر دے
دل کی بستی میں عجب پیار کی ہلچل کر دے
تیری یادوں کا یہ شعلہ بھی عجب ہے جاناں
دل کے شاداب گلستاں کو بھی جنگل کر دے
جذبۂ عشق اگر دل میں ہے اس طرح سے مل
کہ اُڑا ہوش مِرے، اور مجھے پاگل کر دے
اگر ہوں گویا تو پھر بے تکان بولتے ہیں
مگر یہ لوگ لہو کی زبان بولتے ہیں
زمیں جو پاؤں کے نیچے ہے اس کا مالک ہوں
پہ میرے نام پہ کتنے لگان بولتے ہیں
چُھپا نہ قتل مِرا احتیاط کے با وصف
جو اس نے چھوڑے نہیں وہ نشان بولتے ہیں
تپتے صحراؤں کی سوغات لیے بیٹھا ہے
پیاسی آنکھوں میں وہ برسات لیے بیٹھا ہے
چند مَسلے ہوئے صفحات لیے بیٹھا ہے
گھر کا بوڑھا جو روایات لیے بیٹھا ہے
عمر ہی تیری گزر جائیگی انکے حل میں
تیرا بچہ جو سوالات لیے بیٹھا ہے
حواس لوٹ لیے شورشِ تمنا نے
ہری رُتوں کے لیے بن گئے ہیں دیوانے
بدلتے دیر نہیں لگتی اب حقیقت کو
جو کل کی باتیں ہیں وہ آج کے ہیں افسانے
ہے اب تو قطعِ تعلق کی ایک ہی صورت
خدا کرے تُو ہمیں دیکھ کر نہ پہچانے
وہ کہتے ہیں کہ ہم کو اس کے مرنے پر تعجب ہے
میں کہتا ہوں کہ میں زندہ رہا کیوں کر، تعجب ہے
مِری دو چار امیدیں بر آئی تھیں جوانی میں
مِرے اللہ! اتنی بات پر محشر، تعجب ہے
ہمیں ہیں عشق کو جو شغلِ بیکاری سمجھتے ہیں
ہماری ہی سمجھ پر پڑ گئے پتھر، تعجب ہے
میں اس کا مسئلہ تھی جسے حل نہیں کیا
اس نے مجھے کبھی بھی مکمل نہیں کیا
مانا کہ تھل مزاج رُتوں کی امین ہوں
روتی رہی ہوں آنکھ کو تو تھل نہیں کیا
اس کو بُھلانا تھا سو بُھلا بھی دیا اُسے
جو کام آج کا تھا اسے کل نہیں کیا
آئینہ عکس ہوا کا نہیں دیتا کوئی
لمس احساس کو چہرہ نہیں دیتا کوئی
ماں چلی جائے تو لُٹ جاتی ہے دُنیا ساری
باپ مر جائے تو سایا نہیں دیتا کوئی
چلنے والوں کو تو دیوار بھی در ہوتی ہے
رُکنے والوں کو تو رستا نہیں دیتا کوئی
مسرت میں بھی ہے پنہاں الم یوں بھی ہے اور یوں بھی
سرود زندگی میں زیر و بم یوں بھی ہے اور یوں بھی
غموں سے ہے گریباں میں اطاعت کا گِلہ کیوں ہو
دو گونہ بار ہے سر پر وہ خم یوں بھی ہے اور یوں بھی
طریقِ خُسروی بھی ہے کنایہ ہے کہ مہ ہم ہیں
انہیں زیبا ہے ہم کہنا یہ ہم یوں بھی ہے اور یوں بھی
سوچتا بولتا اک نیا آدمی
ہو گیا آخرش لاپتہ آدمی
چھوڑ جاتا ہے ایسا خلا آدمی
بھر ہی سکتا نہیں دوسرا آدمی
پا گیا تھا یقیناً تو سچائی کو
یہ تِرا جرم ہے گمشدہ آدمی
کوئی رستے کا پتھر بن گیا ہے
بچھڑنا ہی مقدر بن گیا ہے💢
جہاں بچھڑے تھے ہم اک بار مل کے
کسی کا اس جگہ گھر بن گیا ہے
اسے کرنا تھی بیٹی کی حفاظت
سپاہی سے وہ لشکر بن گیا ہے
مسجد و مندر کا یوں جھگڑا مٹانا چاہیے
اس پر پیار کا ایک گھر بنانا چاہیے
مذہبوں میں کیا لکھا ہے یہ بتانا چاہیے
اس کو گیتا اور اسے قرآن پڑھانا چاہیے
وہ دیوالی ہو کہ بیساکھی ہو کرسمس ہو کہ عید
ملک کی ہر قوم کو مل کر منانا چاہیے
کٹے سر بول پڑے تو
اس واسطے ڈر رہے ہو تم
کہ معجزے پر تمہارا یقین نہیں ہے
اچانک
ایک معجزہ رونما ہوا تو؟
کٹے سر بول پڑے تو؟
انسان کے بارے میں
انہوں نے اس کے دہن پر زنجیریں لگا دیں
اس کے ہاتھوں کو مُردوں کے پتھر سے باندھ دیا
اور کہا؛ تم قاتل ہو
وہ اس کی غذا، اس کے ملبوسات
اس کے پرچم چھین لے گئے
آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہو گیا
چلتے رہے تو راستا اپنا سا ہو گیا
تھے آئینوں میں ہم تو کوئی دیکھتا نہ تھا
آئینہ کیا ہوئے کہ تماشا سا ہو گیا
گزرا تھا کب ادھر سے امیدوں کا یہ ہجوم
اتنے دِیے جلے کہ اندھیرا سا ہو گیا
الجھن
کروڑوں چہرے
اور ان کے پیچھے
کروڑوں چہرے
یہ راستے ہیں کہ بِھڑ کے چھتے
زمین جسموں سے ڈھک گئی ہے
عادت
مدتوں میں ایک اندھے کنویں میں اسیر
سر پٹکتا رہا گڑگڑاتا رہا
روشنی چاہیۓ، چاندنی چاہیۓ، زندگی چاہیۓ
روشنی پیار کی، چاندنی یار کی، زندگی دار کی
اپنی آواز سنتا رہا رات دن
دھیرے دھیرے یقیں دل کو آتا رہا
اے امام الزماں آپ کب آئیں گے
اے امام الزماں
اے امام الزماں آپ کب آئیں گے
اہلِ کشمیر ہیں منتظر آپ کے
منتظر آپ کی میری آنکھیں بھی ہیں
جل گیا کاشمر، لُٹ گیا کاشمر
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
مِرے آقا مِرے سلطان، بسم اللہ
مِری جاں آپؐ پر قربان بسم اللہ
رسائی رب تلک جن سے ہوئی ممکن
میں ان کی لکھ رہا ہوں شان بسم اللہ
کیا ہے نعت میں بھی حمد کا چرچا
جو رکھا نعت کا عنوان بسم اللہ
ایک منظر میں سیاہی خیمہ زن ہوتی ہوئی
دوسرے منظر میں روشن اک کرن ہوتی ہوئی
وقت نے کیسے گوارا کر لیا یہ سانحہ؟
ساعتِ شہرِ اماں اور بے وطن ہوتی ہوئی
کس طرح دیکھی گئی ہو گی ہوائے عصر سے
ریگِ صحرا پھول جسموں پر کفن ہوتی ہوئی
سرابِ دل سے مسلسل فریب کھا رہا ہوں
میں ایک عمر سے اپنے خلاف جا رہا ہوں
یقین و شک کی عجب کیفیت سے ہوں دو چار
بچھا رہا ہوں مصلیٰ کبھی اٹھا رہا ہوں
مِرا غرور ہے یہ خاک زادگی میری
میں پھر فرشتو تمہیں بات یہ بتا رہا ہوں
مجھ کو آواز دے
ان اندھیروں اجالوں کی پر ہول راہوں سے ہوتے ہوئے
کوئی آسیب خوابوں کو کھا جاتا ہے رات سوتے ہوئے
اے مِری زندگی تیرے ہوتے ہوئے
دیکھ میں تیرگی کے گھنے جنگلوں میں
جدائی کی زہریلی جھاڑی پہ اگتے ہوئے
نقش فریادی
وائے ناداریاں ہائے مجبوریاں
رسم و آداب کے بس میں ہے زندگی
غیر کی ہو کے پردیس جاتی ہو تم
حسرت و یاس و حرماں میں ڈوبی ہوئی
جیسے شاداب سی جھیل میں اک کنول
گزرنے والے تھے آنے سے پہلے ہی موسم
ہمارے تم تھے تمہیں کیوں نہ پیار کرتے ہم
وفورِ ہوش سے بچ بچ کے کیوں نہ چلتے ہم
محبتیں تھیں، رسوم و رواجِ دنیا نہیں
صِلے کا خاتمہ کر لیتے، پھر بچھڑتے ہم
ہمارا ہونا تمہارے لیے تھا، جب سب کچھ
دل کل کا مر گیا ہے کہ بے کل نہیں رہا
وہ غم جو زندگی تھا مسلسل نہیں رہا
سر سبز ہے زمین تِرے بانجھ پن کا بوجھ
پودوں پہ پھول پیڑوں پہ اک پھل نہیں رہا
خیرات، نذر، صدقہ کسی کا اثر نہیں
رنگِ خزاں بہار میں بھی ٹل نہیں رہا
سوچ بنتی ہوئی کاغذ پہ خیالی آنکھیں
اس کے کمرے سے چرا لیں وہ نرالی آنکھیں
گرتی اٹھتی ہوئیں پلکوں سے توقف کرتیں
کیا کہوں کتنی مدلل ہیں مثالی آنکھیں
یاد کرنا ہو سبق جیسے ضروری کوئی
میں نے چہرے پہ یونہی اس کے گڑا لی آنکھیں
غزل لکھی ہے غزالوں کا دُکھ نہیں سمجھا
کسی نے ماہ جمالوں کا دکھ نہیں سمجھا
لیا ہے لُطف محبت کی داستانوں سے
زمانہ ہیر مثالوں کا دکھ نہیں سمجھا
سبھی ہوئے ہیں نرالی اداؤں پر قربان
مگر کسی نے نرالوں کا دکھ نہیں سمجھا
عشق میں تجربات مت کرنا
اب کسی سے بھی ہاتھ مت کرنا
خضر ہو تم نہ میں سکندر ہوں
تم وہی میرے ساتھ مت کرنا
میں تصور بھی کر نہیں سکتا
اب بچھڑنے کی بات مت کرنا
دوبارہ معجزہ ہو جائے گا کیا؟
وہ پاگل پھر مِرا ہو جائے گا کیا
لہو تازہ زمیں پر تُھوکنے سے
جنُوں کا حق ادا ہو جائے گا کیا
یہ دل بیت الشرف ہے حادثوں کا
یہ دل مسکن تِرا ہو جائے گا کیا
بات اس کی یقیں بڑھاتی ہے
دل کو دل کے قریب لاتی ہے
اک انگوٹھی اور ایک سُرخ کلی
بیچ کے فاصلے مٹاتی ہے
شمع کی لَو ہو رقص میں جیسے
روشنی ایسے گیت گاتی ہے
بتا رہے ہو کہ غیروں کا ڈر اُتارتے تھے
تم ایسے لوگ جو اپنوں کے سر اتارتے تھے
وہاں کے لوگ بتاتے ہیں جنگجو خود کو
سبھی غنیم تھکاوٹ جدھر اتارتے تھے
نجانے کون سی مٹی کی باقیات ہیں ہم
یہاں تو قافلے رختِ سفر اتارتے تھے
زندگی! آج سے تیرا ہوں تمنائی میں
ساتھ تیرا نہیں چھوڑوں گا سمجھ آئی میں
تجھ کو معلوم نہیں گھر میں لگے پیڑ کا دُکھ
خاک سمجھا ہے تُو صدیوں کی شناسائی میں
درد بھی میر کے اشعار سے کر لیں گے جدا
آپ مشہور تو ہو جائیں مسیحائی میں
شہر کا سارا درد بھی لکھنا
چہرہ چہرہ زرد بھی لکھنا
ویراں ویراں ساری آنکھیں
دامن دامن گرد بھی لکھنا
آوازوں کی گرم رُتوں میں
اپنا لہجہ سرد بھی لکھنا
کوئی سپاہی نہیں بچ سکا نشانوں سے
گلی میں تیر برستے رہے مکانوں سے
یہ بُردباری اچانک سے تھوڑی آئی ہے
کلام کرنا پڑا مجھ کو بد زبانوں سے
تمہارے ہاتھ سلامت رہیں تو شہزادے
یہ شال یونہی سرکتی رہے گی شانوں سے
آدمی کا اعتراف
اگرچہ یہ اعتراف کرنا مشکل ہے
کہ میں بہت اکیلا ہو چکا ہوں
لیکن اس بھیڑ میں
یہ خبر کسے ہو سکتی ہے
میں خود کو
ہم کو تِری طرف سے اشارہ نہیں ملا
آنکھیں ملیں مگر وہ نظارہ نہیں ملا
ملنے کی آرزو تو رہی عمر بھر مجھے
لیکن مجھے وہ شخص دوبارہ نہیں ملا
ہم نے سفر تمام سمندر میں طے کیا
افسوس ہے یہی کہ کنارہ نہیں ملا
تو اگر دل نواز ہو جائے
سوز ہم رنگِ ساز ہو جائے
دل جو آگاہِ راز ہو جائے
ہر حقیقت مجاز ہو جائے
لذتِ غم کا یہ تقاضا ہے
مدتِ غم دراز ہو جائے
یہ دنیا دشتِ ویراں، رونقِ پیہم ہی بن جاؤ
میں ہوں تنہا تمہارے بِن مِرے ہمدم ہی بن جاؤ
کمی ہے ہر طرف مخمل سے جذبوں کی زمانے میں
کرو کچھ غور مجھ پر تم سبک ریشم ہی بن جاؤ
یہ سارے گھاؤ دل پر جو سجا رکھے ہیں چاہو تو
کبھی احساس کو چُھو لو ذرا مرہم ہی بن جاؤ
سو چکی جاگتے لمحات کی دنیا بیٹھو
اُٹھ کے تم چل بھی دئیے اور ذرا سا بیٹھو
لوگ گھڑ لیتے ہیں افسانے انہیں باتوں سے
بند کمرے میں سرِ شام نہ تنہا بیٹھو
کس قدر تیز ہوا چلنے لگی ہے باہر
بند کر دو یہ دریچے میرے پاس آ بیٹھو
تیری یاد آتی ہے
مان لیجیۓ
اس پَل اپنا غم چُھپاتا ہوں
جان بُوجھ کر جب جب قہقہہ لگاتا ہوں
خط میں اس کو لکھے ہیں
میں نے صرف دو جملے
ہے ابھی تک اسی وحشت کی عنایت باقی
کوئی بھی چیز نہیں گھر کی سلامت باقی
میں بھلا ہاتھ دُعاؤں کو اُٹھاتا کیسے؟
اس نے چھوڑی ہی نہیں کوئی ضرورت باقی
اس نے ٹُوٹے ہوئے ٹکڑوں سے بھی پہچان لیا
ہے بکھر کر بھی میاں! میری نفاست باقی
کیسری
تیری یادوں کی بارش برستی رہی
ہم نے چاہا تھا منظر نہ بھیگیں مگر
آنکھیں بھر آئی تھیں
بارشوں کا رِدھم دل میں اودھم مچاتا رہا
ہم گلی کی طرف کُھلتی کھڑکی میں بیٹھے رہے
یہ ہجر کیا ہے وصال کیا ہے
یہ حُسن کیا ہے، جمال کیا ہے
میں کب سے بیٹھا ہوں لے کے کاسہ
کبھی تو پوچھو سوال کیا ہے
خدا کے بخشے پہ ناز کیسا
تمہارا اس میں کمال کیا ہے
رِس رہا ہے مدت سے کوئی پہلا غم مجھ میں
راستہ بناتا ہے آنسوؤں کا نم مجھ میں
تجھ سے یوں شہنشاہا ہو تو کیا شکایت ہو
گاہ شور کرتے ہیں تیرے بیش و کم مجھ میں
میں وہ لوح سادہ ہوں جو تجھے عیاں کر دے
روشنی کے خط میں ہے اک نفس رقم مجھ میں
آس
شب کے آوارہ گرد شہزادے
جا چھپے اپنی خوابگاہوں میں
پڑ گئے ہیں گلابی ڈورے سے
رات کی شبنمی نگاہوں میں
سیم تن اپسراؤں کے جھرمٹ
محوِ پرواز ہیں فضاؤں میں
پُرانے زخم دھونا چاہتی ہوں
میں گہری نیند سونا چاہتی ہوں
تمہارے خواب آنکھوں میں بسا کر
تمہی سے دور ہونا چاہتی ہوں
بھنور سے پیار کی خواہش بجا ہے
وجود اپنا ڈبونا چاہتی ہوں
لائی نہ صبا بُوئے چمن اب کے برس بھی
کچھ سوچ کے خاموش ہیں یاران قفس بھی
دستور محبت ہی نہیں جاں سے گزرنا
کر لیتے ہیں یہ کام کبھی اہل ہوس بھی
نازک ہیں مراحل سفر منزل غم کے
اس راہ میں کھو جاتی ہے آواز جرس بھی
چند خوابوں کے عطا کر کے اجالے مجھ کو
کر دیا وقت نے دنیا کے حوالے مجھ کو
جن کو سورج میری چوکھٹ سے ملا کرتا تھا
اب وہ خیرات میں دیتے ہیں اجالے مجھ کو
میں ہوں کمزور،۔ مگر اتنی بھی نہیں
ٹوٹ جائیں نہ کہیں توڑنے والے مجھ کو
کون کہتا ہے محبت نہیں رہتی مجھ میں
بس وہ اظہار کی عادت نہیں رہتی مجھ میں
ایک روٹین سی ہو جاتی ہے کچھ عرصہ بعد
اور پھر خواہشِ خدمت نہیں رہتی مجھ میں
جی تو کرتا ہے شبِ ماہ میں گھوموں لیکن
شام کے بعد اجازت نہیں رہتی مجھ میں
گردشِ وقت پھر اک تازہ سفر مانگے ہے
اور مِری خانہ بدوشی کوئی گھر مانگے ہے
بامِ اُمید سے پلٹی ہوئی ناکام دُعا
باریابی کا کوئی اور ہُنر مانگے ہے
کاسۂ حرف بھی پندار کو گروی رکھ کر
کبھی خلعت تو کبھی لعل و گہر مانگے ہے
اب بھی ہو ان سے ملاقات ضروری تو نہیں
ختم ہو جائیں شکایات ضروری تو نہیں
مختلف ہے میری رائے تو ہیں کیوں حیراں آپ
سب کے یکساں ہوں خیالات ضروری تو نہیں
وقت کے ہاتھ میں ہو سکتے ہیں غم کے پتھر
لائے خوشیوں کی ہی سوغات ضروری تو نہیں
سُوکھا ہوا دریا ہے نہ مانجھی ہے نہ پتوار
جانا ہے بہت دُور مجھے تنہا مِرے یار
اک روز جسے توڑ کے نکلا تھا میں خود سے
ہے میرے تعاقب میں ابھی تک وہی دیوار
کیا روکے گی یہ دنیا، مِرے عشق کا رستہ
کیا کاٹے گی سر کو مِرے یہ کاٹھ کی تلوار
چلو فرارِ خُودی کا کوئی صِلہ تو مِلا
ہمیں ملے نہیں اُس کو، ہمیں خدا تو ملا
نشاطِ قریۂ جاں سے جدا ہوئی خوشبو
سفر کچھ ایسا ہے اب کے، کوئی ملا تو ملا
ہمارے بعد روایت چلی محبت کی
نظامِ عالمِ ہستی کو فلسفہ تو ملا
عشق میں ہو جاں گزاری کس لیے
شامِ غم کی بے قراری کس لیے
وہ سبوں کو دیتا ہے جو چاہیے
رات بھر پھر آہ و زاری کس لیے
ایک ہی ہو قاتل و منصف جدھر
عدل کی پھر پاسداری کس لیے
بازار
اس قدر شوخ نگاہوں سے نہ دیکھو مجھ کو
غیرت حسن پہ الزام نہ آ جائے کہیں
تم نے خود بھی نہیں سمجھا ہے ابھی تک جس کو
لب پہ وہ خواہشِ بے نام نہ آ جائے کہیں
یہ جو معصوم تمنا ہے تمہارے دل میں
کتنی سنگین خطا ہے یہ تمہیں کیا معلوم
مِری دھڑکنوں کو اچھال کر
اے فشارِ خون! دھمال کر
کہ جو دیکھے سنگ اچھال دے
اے جنون! میرا وہ حال کر
مجھے کچھ تو میری خبر ملے
مجھے مجھ میں تھوڑا بحال کر
اشارہ ہے
وہ کہتی ہے؛
کہ تم میری وجہ سے
آج تک
ناکام بیٹھے ہو
اگر تم اور
تمہاری محنتوں کے درمیاں سے
میری ایک بری عادت تھی
تُو میری عادت کے ہاتھوں کیسی زچ اور کتنی دق تھی
جب حیرت کی انگلی تھامے تیرے ساتھ چلا کرتا تھا
اک شیریں مسکان کی بیلیں
میرے تن بوٹے کے اوپر استحقاق سے چڑھتی تھیں
اور اک لمس کا گاتا پانی نس نس دیپ جلاتا تھا
بغلِ یاران میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
یار امید سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
ہجر کا زخم دیا تُو نے جو میرے دل کو
زخم ایسا تِرے دل پر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ ضروری تو نہیں آنکھ سے دریا نکلے
دل میں اک غم کا سمندر بھی تو ہو سکتا ہے
کھیل کتنا ہے خطرناک نہیں جانتے تھے
ڈوب سکتے ہیں یہ تیراک نہیں جانتے تھے
عشق کو میلا کیا میلی نظر والوں نے
کتنا پاکیزہ ہے ناپاک نہیں جانتے تھے
رونا روئیں گے وہی لوگ تیری سادگی کا
جو تجھے پہلے سے چالاک نہیں جانتے تھے
اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں
سوزِ دروں کسی پہ نہیں کھولتا ہوں میں
افلاک میری دردِ تہِ جام میں ہیں گم
تسبیحِ مہر و انجم و مہ رولتا ہوں میں
کچھ نہ سمجھ کے اٹھ چلے سب میرے غمگسار
جانے وہی کہ جس کی زباں بولتا ہوں میں
آج پھر میں نے تجھے یاد کیا
آج میں نے تجھے رو رو کے بہت یاد کیا
برف کے پھر بڑے طوفاں اٹھے
پھر بھی آنسو نہ جمے چہرے پر
شدتِ جذبۂ احساسِ محبت تھی کہ سب
تیز چلتی ہوئی ان ٹھنڈی ہواؤں کو ہوئی مایوسی
میں بڑھاتا جا رہا تھا اس لیے دفتر کی بات
بیچ چوراہے میں لائی جا رہی تھی گھر کی بات
اب تو اپنی گفتگو ہوتی ہے اس سے اس طرح
جیسے اک ماتحت سے ہوتی ہے اک افسر کی بات
عالمِ موجود سے باہر نکل کے سوچیۓ
گنبدِ بے در کی باتیں اور پس منظر کی بات
تم تو اپنے نہیں ہو میرے کیا بنو گے؟
تمہیں بس یہی کچھ سمجھنے میں کتنا سمے لگ گیا
کہ محبت کسی اور کے قرب سے مٹ نہیں جائے گی
رائیگانی کسی کی مہک سے بھری سانس میں گھل نہیں جائے گی
چاہے جتنے بھی جسموں کے جھرنوں کا پانی پیو
تشنگی، تشنگی ہی رہے گی سدا
تھا تخت کبھی خاک نشینوں کی امانت
پھر بخت ہوئے شاہ کے زینوں کی امانت
گملوں میں اُگانے کا انہیں سوچ رہے ہو
جو بیج ہیں زرخیز زمینوں کی امانت
اک روز وہ صد ناز سے مہتاب پہ اُترے
جو پاؤں ہوئے علم کے زینوں کی امانت
پیغامِ رہائی دیا ہر چند قضا نے
دیکھا بھی نہ اس سمت اسیرانِ وفا نے
کہہ دوں گا جو کی پُرسشِ اعمال خدا نے
فُرصت ہی نہ دی کشمکشِ بیم و رجا نے
ہے رشکِ ارم وادئ پُر خارِ محبت
شاید اسے سینچا ہے کسی آبلہ پا نے
سنا ہے ساقی تِرا لطف عام ہے شاید
بغیر وقفے کے، گردش میں جام ہے شاید
سمجھ میں آتی نہیں کچھ زباں ترنم کی
یہ آبشار بھی محوِ کلام ہے شاید
تجھے بھلانے کی ہم نے عبث ہے کوشش کی
کتابِ دل پہ لکھا تیرا نام ہے شاید
مجھ پر پڑی نگاہ تو اک شور مچ گیا
یہ کون ہے جو گردشِ دوراں سے بچ گیا
کانٹوں نے اپنی خشک زبانیں نکال دیں
موسم کا سارا خون گلابوں میں رچ گیا
اک میں کہ میرے لب پہ تبسم بھی ناگوار
اک تُو کہ تیری آنکھ میں آنسو بھی جچ گیا
درد سے آشنا نہیں ہوئے ہو
تم مِرے ہمنوا نہیں ہوئے ہو
ہم بھی مرتے نہیں تمہارے بغیر
تم اگر با وفا نہیں ہوئے ہو
مل ہی جائے گا بے رخی کا علاج
اس قدر لا دوا نہیں ہوئے ہو
دئیے ہیں زیست نے مجھ کو بڑے آلام تیرے بعد
مٹا بیٹھا ہوں اپنی ذات اپنا نام تیرے بعد
تِرے نینوں ہی سے پی کر مِرا دل مست ہوتا تھا
مزہ دیتا نہیں ہے مجھ کو یارا جام تیرے بعد
تُو جانا چاہتا تھا، میں نے بھی تجھ کو نہیں روکا نا
مگر دل کی زمیں پر اک مچا کہرام تیرے بعد
رہ ہستی میں کوئی رہنما ہونا ضروری ہے
سفر کشتی کا ہو تو ناخدا ہونا ضروری ہے
تری آنکھوں میں کچھ شرم و حیا ہونا ضروری ہے
دریدہ ہی سہی سر پر ردا ہونا ضروری ہے
جو نفرت ہو تو لازم ہے زباں پر مہر خاموشی
محبت ہے تو پھر شکوہ گلہ ہونا ضروری ہے
پیماں وفا کے باندھ کے جانے کدھر گیا
صحرائے ہجر میرے لیے بن بھنور گیا
میری نگاہ شرمگیں جھکتی چلی گئی
اس کا بھی شوق مہر و وفا پر اثر گیا
اک شوخ سی نگاہ جو رخ پر جمی رہی
عارض پہ اک حسین سا غازہ اتر گیا
ملن کو جو بانہیں بڑھائے ہوئے ہیں
وہی کف میں خنجر چھپائے ہوئے ہیں
ہمارے سہارے، ہمارے پیارے
ہمارا تماشا بنائے ہوئے ہیں
پسِ چشمِ زِنداں مقیّد تھے برسوں
یہ آنسو جو پلکوں پہ آئے ہوئے ہیں
کردار زندگی کی جبینوں میں جڑ گئے
جس عمدگی کے ساتھ وہ افسانے گھڑ گئے
لہروں کی جنگ ریت کا نقصان کر گئی
اور چودھویں کی رات کو ساحل بچھڑ گئے
وہ شخص اٹھ کے چل دیا جب انکی چھاؤں سے
ہائے، تمام پیڑ جڑوں سے اکھڑ گئے
بہت کچھ لکھا ہے بہت کچھ لکھیں گے
یہ طے ہے کہ اہلِ قلم ہی رہیں گے
نہیں ہم نصیبوں سے مایوس بالکل
جو ہم بن نہ پائے وہ بچے بنیں گے
گنوائے ہیں اوقات اپنے جنہوں نے
وہی عمر بھر ہاتھ ملتے رہیں گے
خراشِ دل سے کب آرام پایا
جراحت جب گھٹے ناخن بڑھ آیا
بڑھائیں جس قدر اُتنی گھٹی عمر
بگڑتے ہی گئے، جتنا بنایا
پِسا جب سبزۂ رہ، یہ صدا دی
ہُوا پامال جس نے سر اُٹھایا
ادھوری اک کہانی چل رہی ہے
مسلسل زندگانی چل رہی ہے
لُٹا دی جان ہم نے دوستوں پر
روایت خاندانی چل رہی ہے
کریں گے یار! توبہ بعد میں اب
ابھی تو جوانی چل رہی ہے
پیام لے کے ہوا دُور تک نہیں جاتی
نوائے خلقِ خدا دور تک نہیں جاتی
یہیں کہیں پہ بھٹکتی ہیں زیرِ چرخِ کہن
ہماری کوئی دعا دور تک نہیں جاتی
گلے میں حلقۂ زریں، حلق میں لقمۂ تر
تبھی تو اپنی صدا دور تک نہیں جاتی
تیری تو بات بات سے، ہے مجھ کو اختلاف
ہر بات میں ثبات سے، ہے مجھ کو اختلاف
تیرے کرم سے آتی ہے، بدلے کی بو مجھے
سو! ان معاملات سے، ہے مجھ کو اختلاف
ہوں جس کی بیٹھے گھات میں، سارے گناہگار
ایسی اندھیری رات سے ہے مجھ کو اختلاف
بزمِ جاناں میں اگر اظہارِ حالِ دل نہ ہو
زندگی ہو جائے آساں موت بھی مشکل نہ ہو
کشتی عمر رواں کے ڈوبنے کا خوف کیا
آرزو ہے بحر الفت کا کوئی ساحل نہ ہو
کون امیدوں کو پالے راہِ وصلِ یار میں
قافلہ چلتا رہے کب تک اگر منزل نہ ہو
پیرہن سامنے سے اچھا ہے
زخم اب آبلے سے اچھا ہے
ہم نفس خامشی یہ کہتی ہے
فاصلہ رابطے سے اچھا ہے
شدتِ درد میں بھی لذت ہے
ٹوٹنا واسطے سے اچھا ہے
کیسی آئی ہے بے بسی ہنس کر
کٹ رہی ہے یہ زندگی ہنسں کر
اپنے انداز کا میں شیدا ہوں
کیسے روکوں میں بیخودی ہنس کر
پھر سے دینے لگا ہے غم دستک
گھر سے نکلا تھا وہ ابھی ہنس کر
خواب آنکھوں میں سجانا بھی ضروری ٹھہرا
زندہ رہنے کا بہانہ بھی ضروری ٹھہرا
اس کو احساسِ پذیرائی دلانے کے لیے
در و دیوار سجانا بھی ضروری ٹھہرا
جو ستم اس نے کیۓ اس کو جتانے کے لیے
آئینہ اس کو دکھانا بھی ضروری ٹھہرا
دل پگھل جانے دو، جذبات سُلگ لینے دو
آج خود کو بھی مِرے سات سلگ لینے دو
اور کچھ دیر رہو میری دسترس میں اَبھی
اور کچھ دیر مِرے ہات سلگ لینے دو
جُنبشِ لب سے کہیں ٹوٹ نہ جائے منظر
زیرِ لب پیار کے نغمات سلگ لینے دو
یہ وقت ہجر میں اب پاس بھی نہیں ہوتا
اُسے ہمارا تو احساس بھی نہیں ہوتا
یہ شعر و شاعری ہر آدمی کا شوق نہیں
ہر ایک آدمی حساس بھی نہیں ہوتا
یہ میرے دوست سمندر نہیں ہیں آنکھوں میں
یہ اشک ریزۂ الماس بھی نہیں ہوتا
بزدلی تو وہ کر نہیں سکتا
جو ہے سچا وہ ڈر نہیں سکتا
جسم دنیا بھلے ہی دفنا دے
پیار زندہ ہے مر نہیں سکتا
بھوک میں صرف چاہیۓ روٹی
پیٹ باتوں سے بھر نہیں سکتا
ایک وعدے پہ یار کر بیٹھے
ہم تِرا اعتبار کر بیٹھے
جب سے دیکھا ہے آپ کو ہم نے
عشق سر پر سوار کر بیٹھے
اور تو کچھ نہیں کِیا ہم نے
زندگی سوگوار کر بیٹھے
خمار و خواہشِ دنیا میں ڈال رکھا ہے
خدا نے عشق کی آفت کو ٹال رکھا ہے
جو تُو نے جلوۂ سینا پہ ڈال رکھا ہے
اسی نقاب نے عالم سنبھال رکھا ہے
پرندے روز نئے رزق کو نکلتے ہیں
شکاریوں نے مگر چھت پہ جال رکھا ہے
ہوائے تیز کو جیسے دِیا قبول کرے
وہ خوش مزاج مجھے غمزدہ قبول کرے
اُسے بتانا کہ آنکھوں کا نُور جانے لگا
خُدارا اب تو مِرا دیکھنا قبول کرے
کریں گے بحث مسافت پہ بعد میں، پہلے
دُعا کرو کہ ہمیں راستہ قبول کرے
تیری خوشبو سے مہک جاتی ہیں سوچیں اس کی
جو تِری موج میں آ جائے ہے، موجیں اس کی
اس کی آنکھوں میں چمکتا ہُوا دیکھو مِرا دل
میرے سینے میں دھڑکتی ہوئی آنکھیں اس کی
کڑو ے لمحوں کا اثر دل سے مٹا دیتی ہیں
یہ فضاؤں میں شہد گھولتی باتیں اس کی
وفاؤں کا جو دعویٰ ہو رہا ہے
بتاؤ، کیا تماشا ہو رہا ہے
مجھے سچی محبت کا گماں تھا
یہاں پر بس دِکھاوا ہو رہا ہے
ہمیں سکھلا رہے ہیں گُر سبھی کو
ہمیں سے پھر چھلاوا ہو رہا ہے
اک جنم اور عنایت ہو کسک باقی ہے
یہ زمیں زاد ہی دیکھے ہیں فلک باقی ہے
تُو نے اس طور عطا کی ہے تسلی دل کو
ہار بیٹھے ہیں تو جانا کے کمک باقی ہے
راہ کے خار جو دیوار ہوئے جاتے ہیں
خار کے پار بھی سرکار سڑک باقی ہے
یہ جو آباد ہونے جا رہے ہیں
بہت ناشاد ہونے جا رہے ہیں
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
ہم اس کی یاد ہونے جا رہے ہیں
تِری چشم تماشا کی ہوس میں
فقط برباد ہونے جا رہے ہیں
خاموشی کا سفر
اگر کبھی کوئی تم سے یہ کہے
کہ وہ تمہاری خاموشی کو سن سکتا ہے
تو کیا یہ سراسر جھوٹ نہیں ہو گا
تمہاری خاموشی خلا کی وسعتوں جیسی ہے
اسے سمجھنے سے پہلے دریافت کرنا پڑتا ہے
جیتے ہو نہ ڈھب سے مرتے ہو
کیا کرتے ہو؟
جاتے ہوئے سالوں کو مُڑ کے یوں تکتے ہو
جیسے ان پر تم حق اپنا سب رکھتے ہو
کیا کرتے ہو؟
مُٹھی میں ریت پھسلنے سے
دل آنگن میں اگتے پھول
میری ہجرِ مسلسل کے صحرا میں
تپتی جھلستی ہوئی زندگانی کی
اس رائیگاں دوپہر کو
محبت کی بارش میں بھیگی ہوئی
کوئی اک شام دے
ستم ہر دور میں کچھ اس طرح منظر بدلتا ہے
فرازِ دار کی خاطر فقط ہر اک سر بدلتا ہے
بساطِ زیست پر اُس کو ہمیشہ مات ہوتی ہے
پیادے کی جگہ جو بادشاہ کا گھر بدلتا ہے
کسی بھی حال میں تم آئینے کو دوش مت دینا
کہ یہ تو صرف منظر کا پسِ منظر بدلتا ہے
اے مِرے شہر کے افسانہ گرو! یہ بھی لکھو
کیسے افلاس زدہ ماں کی امیدوں کے چراغ
لمحہ لمحہ کبھی جلتے ہیں کبھی بجھتے ہیں
کیسے اک باپ شب و روز بچوں کی خاطر
محنت و کرب و مشقت میں بسر کرتے ہیں
اے مِرے شہر کے افسانہ گرو! یہ بھی لکھو
کہیں عیسیٰ کہیں دجال کے آنے کی خبر
یعنی دیتا ہی نہیں کوئی ٹھکانے کی خبر
میں ہری شاخ میں آدم کی بقا دیکھتا ہوں
تم سناتے ہو فقط حشر اٹھانے کی خبر
کاسۂ گوش میں اب ڈال، تِری عمر دراز
دل کے آنگن میں کوئی پھول کھلانے کی خبر
دیر سویر تو ہو جاتی ہے
دروازے پہ جو آنکھیں ہیں
آنکھوں میں جو سپنے ہیں
ان سپنوں میں جو مورت ہے
وہ میری ہے
دروازے کے باہر کیا ہے
اک رستہ ہے
زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے
تجلی گاہِ ایمن ہے دلِ دیوانہ برسوں سے
کچھ ایسا ہے فریبِ نرگسِ مستانہ برسوں سے
کہ سب بھولے ہوئے ہیں کعبہ و بتخانہ برسوں سے
وہ چشمِ فتنہ گر ہے ساقئ مے خانہ برسوں سے
کہ باہم لڑ رہے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
دیکھ نفرت کے حوالوں سے کہاں سمجھیں گے
گاؤں کے لوگ ہیں چالوں سے کہاں سمجھیں گے
ٹھوکریں کھا کر ہی سمجھیں گے نئی نسل کے لوگ
چھوڑ ناں یار یہ لوگ مثالوں سے کہاں سمجھیں گے
بول ناں، ان کو بتا، عشق نے کھینچا ہے سکوں
لوگ بکھرے ہوئے بالوں سے کہاں سمجھیں گے
وہ مِرے دھیان سے نکل آیا
پھول گلدان سے نکل آیا
اس نے سوچا تھا فائدہ اپنا
اور میں نقصان سے نکل آیا
اک سفر پاؤں میں پڑا ہوا تھا
ایک سامان سے نکل آیا
ہوا میں دِیپ جلانے کا یقیں کرتے ہیں
یعنی اک وہم کو اس دل میں مکیں کرتے ہیں
ہم پہنتے ہیں تجھے روز ہی زیور کی طرح
اور تمنا کو تِری اس میں نگیں کرتے ہیں
اپنی کم شکلی کا ہے زعم کہ ہم دیکھتے ہیں
ہائے، جو کام یہاں روز حسیں کرتے ہیں
اس بے کفن ضمیر پہ شرمندہ کون ہے
میں سوچتا ہوں شہر میں اب زندہ کون ہے
اس بزمِ کم سواد میں منظر نگارِ زیست
اس وقت تک تو میں رہا، آئندہ کون ہے
کس کی صدا نے آگ کا جادو جگا دیا
نغمہ نواز کون، یہ سازندہ کون ہے
اپنے حصے میں ہی آنے تھے خسارے سارے
دوست ہی دوست تھے بستی میں ہمارے سارے
زیر لب آہ، نمی آنکھ میں، چپ چپ تنہا
ایسے ہی ہوتے ہیں یہ درد کے مارے سارے
خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے
کروں گا عشق وراثت کا کچھ بتاؤں گا نئیں
میں اک غریب کی بیٹی کو آزماؤں گا نئیں
انہیں کہو کہ بہت ڈھیر شور و شر نہ کریں
میں ڈر گیا تو کئی روز مسکراؤں گا نئیں
تسلی دوں گا تو مر جائے گی، وہ لڑکی ہے
میں جانے دوں گا گلے سے اسے لگاؤں گا نئیں
نیند تو میں کما کے لاتا ہوں
خواب لیکن چُرا کے لاتا ہوں
تم شجر کو ذرا دلاسہ دو
میں پرندے بُلا کے لاتا ہوں
مجھ کو مجھ بن کہیں نہیں ہے قرار
شہر سارا گُھما کے لاتا ہوں
عشق کہانی، پیار کا قصہ چھوڑ دیا
ہم نے کوئے یار کا رستہ چھوڑ دیا
وصل کی روشن راتوں کا اک ساتھی تھا
جس نے مجھ کو تنہا تنہا چھوڑ دیا
اب جا کر اک دیس کہیں آزاد ہوا
تیری یاد نے دل سے قبضہ چھوڑ دیا
جمالِ یار دکھاؤ بہت اندھیرا ہے
نہیں تو حشر اُٹھاؤ بہت اندھیرا ہے
یہ خوف ہے کہ نہ گمراہ کر دے منزل سے
جنوں کا سُورج اُگاؤ بہت اندھیرا ہے
بُجھا بُجھا ہے چراغِ تبسم ان کا جب
پھر اپنا زخم جلاؤ بہت اندھیرا ہے
کیا عجب غم سے اگر تیرے عزادار گِرے
ہم تو مانیں گے اگر یارِ طرحدار گرے
پھر بھی آتا نہیں بھولے سے خریدار کوئی
مدتیں بیت گئیں قیمتِ بازار گرے
آپ کا گرنا نئی بات نہیں مدح نویس
آپ سے پہلے بھی یاں سینکڑوں فنکار گرے
اُداسی ہے اسے مُسکان میں تبدیل کرتے ہیں
تم آؤ تو ادھورے خواب کی تکمیل کرتے ہیں
اب اس سے بڑھ کے کیا ثابت کریں گے ہم وفاداری
کہ تم جو حکم کرتے ہو تو ہم تعمیل کرتے ہیں
ہمارے زندہ رہنے کا یہی واحد طریقہ ہے
ہم اپنی سانس اس کی سانس میں تحلیل کرتے ہیں
بھائی سے پیار بھی مصیبت ہے
گھر میں دیوار بھی مصیبت ہے
وقت کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے
تیز رفتار بھی مصیبت ہے
خوشگماں جان سے نہ جائے کہیں
اب تو انکار بھی مصیبت ہے
ذکرِ امیرِ شہر ہو افیون کے بغیر
گویا کسی کو نیک کہیں نون کے بغیر
میں اپنا اک جہان بنانے کی دُھن میں ہوں
لیکن یہ حرفِ کُن ہے فیکُون کے بغیر
ہائے وہ خوش نصیب زمانہ کہ جب یہاں
جمہوریت کا ذکر ہو شبخون کے بغیر
ہمیں پُل سے گزر جانا چاہیے
نجانے کیوں؟
ہم حاصل کر کے بھی لاحاصلی کا شکار رہتے ہیں
ہمارے اندر کون سا ایسا محرّک ہے
جو جان بوجھ کر
ہمیں غیر مطمئن ہونے کی
تسلی
اپنی اپنی راہوں پر مُدت تک چلتے چلتے
آج اچانک اک چوراہے پر جو تم سے میل ہوا
تو میں نے تیری گہری آنکھوں میں جھانکا
اور چونک اُٹھی
ان میں تپتے صحراؤں کا بسیرا تھا
منافقین سے، ظلام سے مقابلہ ہے
مدینے والے ہیں اور شام سے مقابلہ ہے
خدا کے آخری پیغام سے مقابلہ ہے
جنابِ شیخ کا اسلام سے مقابلہ ہے
ہمارے شعر کا آورد سے تقابل چھوڑ
ہمارے شعر کا الہام سے مقابلہ ہے
رقصِ جنوں کی گرمئ تاثیر دیکھنا
کُھلتا ہے کیسے حلقۂ زنجیر دیکھنا
گِھس گِھس کے پتھروں کو بنایا ہے آئینہ
دیکھیں وہ خواب، ہم کو ہے تعبیر دیکھنا
حربے سب ان کے ان کو ہی لوٹا دئیے گئے
حیرت سے بن گئے ہیں وہ تصویر دیکھنا
حرام زادی
میں وہ حاملۂ خیال ہوں
جسے دردِ زہ میں پتہ چلے
کہ جو اس کے پیٹ میں تھی غزل
شکمِ جہنم ضبط میں
وہ جنم سے پہلے ہی مر گئی
سنگدل یوں بھی محبت کا صلہ دیتے ہیں
بھول کر عہد وفا رنج وفا دیتے ہیں
اپنے دیوانے کو کیا خوب سزا دیتے ہیں
دل کے ہر گوشے میں طوفان اٹھا دیتے ہیں
مدتیں گزریں ادھر سے کوئی گزرا ہی نہیں
روز ہم شمع جلاتے ہیں بجھا دیتے ہیں
کون کہتا ہے کہ ظُلمت میں ضیا تقسیم کر
عرض یہ ہے؛ تیرگی کو تیرگی تسلیم کر
لاشۂ خورشید پر نوحہ گری کس کام کی
شب کے ہاتھوں جو نہ ہارے وہ سحر تجسیم کر
اپنے حصے کا اُجالا بانٹتا ہے کو بہ کو
کرمکِ شب تاب کی مہتاب سی تکریم کر
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
فکر و فن کی ضیا، نقشِ پا آپﷺ کا
رہبر و رہنما، نقشِ پا آپﷺ کا
رہبرانِ زماں، بے حِس و بے وفا
اب فقط آسرا، نقشِ پا آپﷺ کا
کوئی پوچھے اگر مجھ سے مسلک مِرا
میں کہوں بر ملا، نقشِ پا آپﷺ کا
آپ ہر بات پہ کرتے ہو لڑائی صاحب
اس طرح بات نہیں بنتی ہے بھائی صاحب
ہاں بِنا مانگے بھی ملتا ہے، بہت ملتا ہے
پھینک کر دیکھو یہ کشکولِ گدائی صاحب
ہم محبت کے سہارے پہ گزارا کرتے
پر محبت بھی ہمیں راس نہ آئی صاحب
دن گزر جائیں گے
عمر ڈھل جائے گی
وقت کٹ جائے گا
یہ محبت کی زرخیر رُت بھی
کسی روز اُجڑی خزاں میں بدل جائے گی
وقت بوسیدگی کے رسن سے
لوگ کہتے ہیں کہ بے کار محبت کی ہے
میں نے اک شخص سے دو بار محبت کی ہے
یوں سرِ شام یہ رونے کا تماشا کیسا؟
آپ ہی سوچیۓ سرکار محبت کی ہے
جانبِ دشت کہیں قیس بلاتا ہو گا
چھوڑیۓ آپ یہ گھر بار محبت کی ہے
جھٹک زنجیرِ زر، سونے کے زندانوں سے آ جا
تجھے اُلفت کی چھت دوں گا، تُو ایوانوں سے آ جا
مِری شیریں! تُو مجھ سے مل، میں ہُوں تکمیل تیری
نکل کر تُو وفا کے خام افسانوں سے آ جا
یقیں آنے کا ہو اور آئے تُو تو لُطف کیسا
تُو آ جانے کے ان موہوم اِمکانوں سے آ جا
غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر
زمیں پہ رہتے ہیں کچھ لوگ آسماں بن کر
اڑے ہیں جو تِرے قدموں سے خاک کے ذرے
چمک رہے ہیں فلک پر وہ کہکشاں بن کر
جنہیں نصیب ہوئی ہے تِرے بدن کی نسیم
مہک رہے ہیں زمیں پر وہ گلستاں بن کر
جدائی آن پہنچی تھی
مجھے اس نے کہا؛ جاناں تمہیں میرے بنا بھی ہنستے رہنا ہے
اسے میں نے کہا؛ میری ہنسی میری خوشی تم ہو
چلو تم کہہ رہے تو
بچھڑ کر خوش رہوں گی میں
مگر میں مر بھی سکتی ہوں
ضروری کب ہے کہ ہر کام اختیاری کریں
اب اپنے آپ کو اتنا نہ خود پہ طاری کریں
یہ انجماد بھی ٹوٹے گا دیکھنا اک دن
ہم اعتماد سے پہلے تو خود کو جاری کریں
کوئی بھی کھیل ہو حیران اب نہیں کرتا
نہ جانے کون سے کرتب نئے مداری کریں
ستم پسند بھی کوئی کسی ستم میں مَرا؟
یا کوئی ڈھیٹ بھلا ایسے ایک دم میں مرا؟
یہ کُڑھتے رہنا کچھ آسان تو نہیں صاحب
مجھے بھی دیکھ کہ میں دوسروں کے غم میں مرا
وجود اپنی ہی مرضی کا جب نہیں پایا
عدم میں جیتا رہا اور پھر عدم میں مرا
حریمِ دل میں وہ حسنِ مطلق جو برسرِ جلوہ افگنی ہے
تو محرمانِ وصال کے لب پہ ہٰذہِ ما وعدتنی ہے
نہ کیوں ہو آنکھوں کا جائے ابرو کہ اوجِ فیضِ فروتنی ہے
ہوا تواضع سے جب خمیدہ بڑھی مہِ نو کی روشنی ہے
دو روزہ رفعت پہ ناز مت کر کہ بحرِ ہستی کے جزر و مد میں
یہ گنبدِ چرخ بھی کسی دن حباب آسا شکستنی ہے
دل کے آنگن میں جو دیوار اُٹھا لی جائے
ایک کھڑکی بھی محبت کی بنا لی جائے
پاک سیرت ہیں بہت نُور کا پیکر ہیں وہ
ذہن میں حُسن کی تصویر بنا لی جائے
زیر کرنے کے لئے لاکھ طریقے ڈھونڈو
کیا ضروری ہے کہ دستار اُچھالی جائے
گرفتِ سایۂ دیوار سے نکل آیا
میں ایک عمر کے آزار سے نکل آیا
نہ جاننا بھی تو اک جاننے کی صورت ہے
عجیب رُخ مِرے انکار سے نکل آیا
میں اپنی قیمتِ احساس کے جواز میں تھا
سو یہ ہوا کہ میں بازار سے نکل آیا
رہنا لازم تھا سو، رہے ہیں ہم
ایک پیکر میں دو رہے ہیں ہم
دوستا! تجھ کو رو چکے کب کا
اب یتیمی کو رو رہے ہیں ہم
سیب اُگتے نہیں ببولوں پر
کاٹ لیں گے جو بو رہے ہیں ہم
ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہو گا
زباں کھلی ہے تو پھر کچھ تو فیصلہ ہو گا
کبھی کبھی تو یہ دل میں سوال اٹھتا ہے
کہ اس جدائی میں کیا اس نے پا لیا ہو گا
وہ گرم گرم نفس کیسے ٹھہرتے ہوں گے
اب ان شبوں کو وہ کیسے گزارتا ہو گا
کون کیسا ہے، کیوں ہے، تیرا کیا لگتا ہے؟
پوچھتا رہتا ہے تُو، میرا خدا لگتا ہے؟
اس لیے تجھ سے میں تنہائی میں ملتا ہی نہیں
کیا سے کیا سمجھیں گے، لوگوں کا پتا لگتا ہے
عیب مجھ کو میرے بتلائے نہیں آج تلک
دوست ہو کر بھی تُو دشمن سے ملا لگتا ہے
صدا فریاد کی آئے کہیں سے
وہ ظالم بد گماں ہو گا ہمیں سے
خدا سمجھے بتِ سحر آفریں سے
گریباں کو لڑایا آستیں سے
چمن ہے شعلۂ گل سے چراغاں
بہار آئی نوائے آتشیں سے
نایاب اس قدر مجھے تحفہ نہ دیجیۓ
صحرا کو منہ دکھائی میں دریا نہ دیجیۓ
تعبیر میرے خواب کی ہو جائے گی اُلٹ
سو دشمنی نبھائیے،۔ بوسہ نہ دیجیۓ
چوسا ہے خون آپ نے ہر دم غریب کا
رُکیۓ، حرام مال سے صدقہ نہ دیجیۓ
جگنو مِرے نصیب کے لا کر اُجال دے
غم کی سیاہ رات کو اب تو زوال دے
رو رو کے بھر گئی ہے غموں سے یہ زندگی
دکھ سے بچا لے اور مِری خوشیاں اُچھال دے
گرد و غبار آندھی و طوفاں میں ہیں گھرے
کنکر گرے ہیں آنکھ میں ان کو نکال دے
اس کی تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
جذبے قرطاس پہ لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اس کے آنے کی خبر ہی نہیں ملتی کوئی
اپنی دہلیز سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم تو اس شہر میں رہتے ہیں جہاں پر بچے
ننگ و افلاس چھپاتے ہوئے مر جاتے ہیں
میاں یہ عشق ہے مت دیکھ اس کو حیرت سے
کہ جا کہ ملتا ہے اس کا نصب حقیقت سے
چراغ باندھ کے گٹھڑی میں بیچنے چلا ہوں
جو جگمگایا نہیں روشنی کی نسبت سے
وہ بیٹھا روتا رہا دیر تک اکیلا ہی
اْتار کر مِرے چہرے کو اپنی صورت سے
حسن در حسن وہی ذات نظر آتی ہے
ایک تتلی مجھے دن رات نظر آتی ہے
چارہ سازو! مِرے اعصاب کی تدبیر کرو
مجھ کو خوابوں میں ملاقات نظر آتی ہے
خودغرض شخص ذرا اپنے گریبان میں جھانک
لوگ کہتے ہیں کہ اوقات نظر آتی ہے
تِرا وجود تِری شخصیت کہانی کیا
کسی کے کام نہ آئے تو زندگانی کیا
ہوس ہے جسم کی آنکھوں سے پیار غائب ہے
بدل گئے ہیں سبھی عشق کے معانی کیا
ازل سے جاری ہے تا حشر ہی چلے گا سفر
سمے کے سامنے دریاؤں کی روانی کیا
کچھ غم خرید کر لیے خوشیوں کو بیچ کر
صدیوں کا بوجھ لے لیا لمحوں کو بیچ کر
کیا پوچھتے ہو زندگی کی واردات کا
میں دن گزار لیتا ہوں ہفتوں کو بیچ کر
اے ربِ ذوالجلال! تِری کائنات میں
ہم نے کِیا ہے عشق بھی جذبوں کو بیچ کر
زعفرانی کلام
آج تک ہوتا رہا ہے میرے ارمانوں کا خون
دس برس کے بعد آخر مل گیا ہے ٹیلی فون
لے کے میں ڈیمانڈ نوٹس ہکا بکا رہ گیا
اور مِری آنکھوں سے خوشیوں کا سمندر بہہ گیا
ڈاکیے نے دی مبارک کچھ عجب انداز سے
بحث کیا کرتا میں اس سرکاری حیلہ باز سے
میرے دن کے نصیبوں میں گرہن زدہ دھوپ ہے
میری شب کی ہتھیلی پہ روشن ستارہ نہیں
اُن نگاہوں کا پیغام تھا؛ بس جدائی ہوئی
اِن لرزتے لبوں نے کہا تھا؛ خدا را نہیں
زندگی کھا گیا ہے اسی رائیگانی کا دُکھ
ہم بھی تیرے نہیں ہو سکے تُو ہمارا نہیں
آ جا، دکھا، کہ تجھ میں ہے کس بات کا گھمنڈ
زلفیں بکھیر، توڑ دے اب رات کا گھمنڈ
تحفے میں جب سے دی ہے مجھے اس نے اک گھڑی
اس دن سے بڑھ گیا ہے مِرے ہاتھ کا گھمنڈ
کومل ہتھیلیوں سے اُچھالا ہے اس نے آب
اس واسطے ہی ٹُوٹا ہے برسات کا گھمنڈ
غرور ٹوٹ گیا، اپنی حد میں آ گئے ہیں
انا پرست محبت کی زد میں آ گئے ہیں
تمہارے ساتھ تعلق کا فائدہ یہ ہوا
ہم جیسے لوگ وفا کی سند میں آ گئے ہیں
میں کُل مِلاؤں تو اتنے نہیں ملے مجھ کو
جو غم تمہاری محبت کی مد میں آ گئے ہیں
ہوتا ہی نہیں دل کا یہ آزار مکمل
میں ہو گئی ہوں آپ سے بیزار مکمل
یہ عشق کسی سے بھی رعایت نہیں کرتا
کر دیتا ہے انسان کو مسمار مکمل
پہلے تو بہانے سے مجھے ٹالتا تھا وہ
اور آج کیا میں نے بھی انکار مکمل
ایسا نہ ہو کے بات نکل جائے ہاتھ سے
اک دن تمہارا ہاتھ نکل جائے ہاتھ سے
آؤ، ستارے گنتے ہیں دریا پہ بیٹھ کر
اک بار پھر نہ رات نکل جائے ہاتھ سے
ڈرتا ہوں چاندنی، دلِ آشفتہ اور تُو
یہ سب نہ ایک ساتھ نکل جائے ہاتھ سے
کیا سمجھ پائیں گے مجھ پیڑ کا آزار میاں
مُشت بھر خاک کے گملوں میں پڑے یار میاں
اپنے ہونےکی سزا کاٹتے پھرتے ہیں سبھی
کوئی اندر کوئی باہر سے گرفتار میاں
ڈھل گئی عمر میری شعبدہ بازی والی
اب میرے پاؤں پکڑ لیتے ہیں انگار میاں
کسی دن
سنو
میں کسی دن سناؤں گا تم کو
یہاں مجھ پہ دن رات کیا بیتتی ہے
سو اس دن ذرا اپنا دل تھام رکھنا
دِیوں کو جلا کر
سرِ بام رکھنا
سفارشوں کے بجائے ہنر سے جانا گیا
پرندہ پیڑ نہیں بال و پر سے جانا گیا
کسی کا ہونا کسی کی نظر سے جانا گیا
مِرا مکان تِری رہ گزر سے جانا گیا
مجھے ملایا تھا اک روز تم نے مٹی میں
نتیجہ یہ ہوا میں پھر شجر سے جانا گیا
کیسے مکیں، کہاں پہ بسائے گئے ہیں یار
ہم لوگ دُور دُور سے لائے گئے ہیں یار
اب تم سے قسمتوں کی لکیروں کا کیا کہوں
کچھ لوگ ان میں لکھ کے مٹائے گئے ہیں یار
ہم عُجلتوں کی نذر ہوئے لوگ کیا کریں؟
دُکھ جن کے فُرصتوں میں بنائے گئے ہیں یار
ہے وِرد جابجا میں کبوتر ہوں یار کا
دیتا رہوں صدا میں کبوتر ہوں یار کا
میرے قریب آ، میں کبوتر ہوں یار کا
آ میرے سنگ گا میں کبوتر ہوں یار کا
پروازِ عشق میری ہے خطرے سے بے نیاز
مجھ کو ہوا سے کیا، میں کبوتر ہوں یار کا
اب دل کو ہم نے بندۂ جاناں بنا دیا
اک کافرِ ازل کو مسلماں بنا دیا
دشواریوں کو عشق نے آساں بنا دیا
غم کو سرور، درد کو درماں بنا دیا
اس جاں فزا عتاب کے قربان جائیے
ابرو کی ہر شکن کو رگِ جاں بنا دیا
جلتی دوپہروں میں اک سایہ سا زیر غور ہے
بجھتی آنکھوں میں کوئی چہرہ سا زیر غور ہے
اب کے میں زندہ یا پھر سے مر جاؤں سہیل
فیصلہ سب ہو چکا تھوڑا سا زیر غور ہے
اتنی ویرانی میں روشن ہو تِری تصویر کب
اس سلگتے جسم میں شعلہ سا زیر غور ہے
قدم قدم پہ جو شامل رفاقتوں میں رہا
مِرے خلاف ہی مصروف سازشوں میں رہا
گماں سے ربط جو ٹوٹا تو وحشتوں میں رہا
عجیب دل ہے ہمیشہ مسافتوں میں رہا
ہوا نے کل مِرے زخموں کو پھر جِلا بخشی
مِرا دھیان مسلسل ہی دستکوں میں رہا
کچھ اس طرح سے مِرا ضبط آزماتا رہا
لگا کے اوروں سے دل وہ مجھے جلاتا رہا
تمام دن کی مشقّت سے تھک گئی ہو گی
وہ ایسے دے کے تسلی مجھے سُلاتا رہا
وہ میرے نام سے پہچانا جائے اس کے بعد
ہنسی ہنسی میں وہ دامن سدا چُھڑاتا رہا
پیار کا کاروبار کرتا ہوں
سب کو دنیا میں پیار کرتا ہوں
خود پہ میں اعتبار کرتا ہوں
پیار کرتا تھا، پیار کرتا ہوں
آہ بے اختیار کرتا ہوں
یاد جب اس کا پیار کرتا ہوں
رہِ خلوص میں بہتر ہے سر جھکا رکھنا
وہ سر کشیدہ اگر ہے تو سر سوا رکھنا
یہی وہ سوچ ہے جس کی تلاش تھی مجھ کو
یہ بات اپنے خیالوں سے اب جدا رکھنا
نہ قربِ ذات ہی حاصل نہ زخمِ رسوائی
عجیب لگتا ہے اب خود سے رابطہ رکھنا
دیہاتی لڑکی
سچی بات پہ جھوٹی قسمیں کھاتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
ہنستی ہے تو گال بھنور دکھلاتے ہیں
دائیں ہونٹ پہ تِل ہے، اور شرماتی لڑکی
میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی
ہار کر بازی پھر اک تدبیر ہو جاؤں گا میں
تم سمجھتے ہو یوں ہی تسخیر ہو جاؤں گا میں
عشق میں اس کے سوا میں کچھ نہیں کر پاؤں گا
ہُو بہ ہُو جاناں تِری تصویر ہو جاؤں گا میں
ساتھ چھوٹے گا نہیں اپنا سفر میں عمر کے
رہگزر تُو، اور تِرا رہگیر ہو جاؤں گا میں
آیتیں منسوب ہیں تجھ سے رموزِ عشق کی
اور انہی آیات کی تفسیر ہو جاؤں گا میں
غم اٹھاتا ہوں، غزل کہتا ہوں، جیتا رہتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ اک دن میر ہو جاؤں گا میں
حسنین عاقب
کیا کوئی یاد تِرے دل کو دکھاتی ہے ہوا
سرد سناٹے میں کیوں شور مچاتی ہے ہوا
یہ خبر دی ہے پرندوں نے چلو سنتے ہیں
جھیل کے پاس کوئی گیت سناتی ہے ہوا
باغ مُرجھائے چمن رویا ہوئے دشت اداس
سب کو مایوس کہاں چھوڑ کے جاتی ہے ہوا
انا کے موڑ پہ بچھڑے تو ہمسفر نہ ملے
ہم ایک شہر میں رہ کر بھی عمر بھر نہ ملے
میں ڈھونڈتا ہی پِھرا لے کے چاندنی اپنی
وہ دشتِ شب کے ستارے جو تا سحر نہ ملے
نگاہ اٹھائی تو پتوں کا رقص جاری تھا
بڑھایا ہاتھ تو وہ پھول شاخ پر نہ ملے
زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کِیا
بھول کر ہر بات سمجھوتہ کیا
لاؤ٭ لشکر تو اسی کے ساتھ تھے
میں نے خالی ہاتھ سمجھوتہ کیا
عمر کی پونجی غموں میں بانٹ دی
جھیل کر صدمات سمجھوتہ کیا
گوگل پہ اس کے گاؤں کا نقشہ تو ہے نہیں
رستہ بھی میں نے ٹھیک سے پوچھا تو ہے نہیں
تم کہہ رہے ہو؛ لوٹ کے آیا ہُوا ہے وہ
کھڑکی سے ایک بار بھی جھانکا تو ہے نہیں
گردان آؤ، آؤ، کی کرتا رہا ہوں میں
پنچھی مِری منڈیر پہ اُترا تو ہے نہیں
یہ میرے رخ پہ کھنچی ہے جو خامشی کی لکیر
دہن نہیں ہے، یہ ہے ضبط و بے بسی کی لکیر
تبھی تو ہاتھ کسی کے بھی کچھ نہیں آتا
کہ ہاتھ بھر ہی تو ہوتی ہے زندگی کی لکیر
تمہاری یاد کا پَل ہے ستارۂ دُم دار
ابھی بھی دل کے فلک پر ہے روشنی کی لکیر
دل کی دنیا میں کئی لوگ بسا کرتے ہیں
ہاں مگر کم ہیں جو ہمدرد ہوا کرتے ہیں
جھلملاتے ہوئے جگنو کبھی تارے بن کر
اپنی پلکوں پہ حسیں خواب رہا کرتے ہیں
عشق بھی ہجر بھی یکطرفہ تماشا ہی سہی
شب چراغوں کی طرح ہم تو جلا کرتے ہیں
مخلص نہیں ہیں آپ شکایت نہ کیجیۓ
ایسے تو آپ اپنی فضیحت نہ کیجیۓ
کہتے ہیں آپ ہم سے محبت نہ کیجیۓ
ظاہر یہ ظلم کر کے قیامت نہ کیجیۓ
میں جانتی ہوں آپ کی ہر چال کو، مگر
خاموش ہوں تو مجھ سے سیاست نہ کیجیۓ
کیسے بھلا وجود میں پھر تشنگی رہے
کچھ دیر پاس آدمی کے آدمی رہے
جگمگ کرے خیال تِرا میرے آس پاس
ہر وقتِ میرے دل میں تِری روشنی رہے
کچھ اور مانگتا ہوں کہاں میں حضور سے
چادر تِرے کرم کی یونہی اب تنی رہے
نئے انداز سے تعمیر مجھے ہونا ہے
اب تِرے اشک میں تصویر مجھے ہونا ہے
کسی پاتال میں رکھا ہوا مہ تاب ہوں میں
جانے کس آنکھ سے تسخیر مجھے ہونا ہے
میں کہانی ہوں اجالوں کی میرا دکھ یہ ہے
رات کے ہاتھ سے تحریر مجھے ہونا ہے
انا راستے سے، ہٹانی پڑے گی
وہ لڑکی مجھے اب منانی پڑے گی
محبت کی قیمت محبت سے باہر
کسی کو تو آخر چُکانی پڑے گی
ذرا میں بھی نقشہ، بدلنے لگا ہوں
تمہیں بھی کہانی سُنانی پڑے گی
اس جبیں پر جو بل پڑے شاید
یہ کلیجہ نکل پڑے شاید
سانس رکنے لگی ہے سینے میں
تم کہو تو یہ چل پڑے شاید
ضبط سے لال ہو گئیں آنکھیں
ایک چشمہ اُبل پڑے شاید
میرا افسانہ جدا تیری کہانی اور ہے
غم کا راجہ اور ہے خوشیوں کی رانی اور ہے
فرق لہجوں کا ہوا کرتا ہے لفظوں کا نہیں
ہے الگ شعلہ فشانی خوش بیانی اور ہے
میں تو اس کے بس میں ہوں مدت سے ہوں اس کا اسیر
جیت ہے تازہ کوئی یہ کامرانی اور ہے
اتنی حیرت سے دیکھتا کیا ہے
میری صورت پہ کچھ لکھا کیا ہے
آئینہ سوچ میں تو ہے، لیکن
سوچتا ہوں یہ سوچتا کیا ہے
شور کیسا ہے چوک سے آگے
آؤ، دیکھیں معاملہ کیا ہے
خود اپنے اجالے سے اوجھل رہا ہے دِیا جل رہا ہے
نہیں جانتے کس طرح جل رہا ہے، دیا جل رہا ہے
سمندر کی موجوں کو چُھو کر ہوائیں پلٹنے لگی ہیں
ستارہ فلک پر کہیں چل رہا ہے، دیا جل رہا ہے
کوئی فیصلہ تو کرو، راستے سے گزرتی ہواؤ
یہ قصہ بڑی دیر سے ٹل رہا ہے دیا جل رہا ہے
کام ہے ان کا جفا وہ با وفا کہنے کو ہیں
دیتے ہیں جو دردِ دل اہلِ شفا کہنے کو ہیں
ہم تو سمجھے تھے وہ ساحل پر اتاریں گے ہمیں
ڈال دی ناؤ بھنور میں، نا خدا کہنے کو ہیں
فاصلوں سے کم نہ ہوں گے روح کے رشتے کبھی
وہ ہمیشہ دل میں ہیں، دل سے جدا کہنے کو ہیں
جاگنے پر خواب کے کھونے کا دُکھ
رو پڑوں میں ہے نا یہ رونے کا دکھ
سونیا اور شاہ زادے کی خوشی
کون سمجھے ساتویں بونے کا دکھ
رت جگے کا اضطراب اپنی جگہ
اور اُس کے رات بھر سونے کا دکھ
شوخ شالوں سے ڈر رہا ہوں میں
یوں اجالوں ڈر رہا ہوں میں
آنے والے رقیب ہیں میرے
آنے والوں سے ڈر رہا ہوں میں
مجھ سے جو نیند چھین لیتے ہیں
ان خیالوں سے ڈر رہا ہوں میں
کھینچ ہی لے گا دوستی کی طرف
اس کے دشمن بھی ہیں اسی کی طرف
ایک پتوار ناؤ کی خاطر
اک نظر میری زندگی کی طرف
اک جھلک اس حسین چہرے کی
اک قدم اور شاعری کی طرف
عشق کی مسافتیں
گھڑی بھر کی نگاہ تھی
بس اُسی اِک نگاہ میں
ملیں عشق کی عنایتیں
رہیں کم ہی کچھ سخاوتیں
دبے پاؤں چلتے ہوئے
دیکھ پگلی نہ دل لگا مِرے ساتھ
اتنی اچھی نہیں وفا مِرے ساتھ
یار جو مجھ پہ جان وارتے تھے
کیا کوئی واقعی مَرا مِرے ساتھ ؟
میں تو کمزور تھا میں کیا لڑتا
وہ مگر پھر بھی لڑ پڑا مِرے ساتھ
ملی نغمہ/ملی ترانہ
کبھی بھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب
بڑی پاک سر زمیں ہے یہاں سنتری کھڑے ہیں
کوئی دُشمنوں سے کہہ دے یہاں غزنوی کھڑے ہیں
یہاں بدر کا ہے عالم، یہاں حیدریؑ کھڑے ہیں
کبھی بُھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب
میری سرحدوں کی جانب کبھی بُھول کر نہ آنا
فقط اک خدا کو سجدہ ہے نشانِ سرفرازی
تجربہ جو بھی ہے میرا میں وہی لکھتا ہوں
میں تصور کے بھروسے پہ نہیں بیٹھا ہوں
جب میں باہر سے بڑا سخت نظر آؤں گا
تم سمجھنا کہ میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوں
جس کی خوشبو مجھے مسمار کیا کرتی ہے
میں اسی قبر پہ پھولوں کی طرح کھلتا ہوں
لفظ و معنی کے سمندر کا سفر ہیں کچھ لوگ
یار اس دور میں بھی اہلِ نظر ہیں کچھ لوگ
یہ حقیقت ہے کہ بچوں کی ضرورت کے لیے
صورتِ سلسلۂ گردِ سفر ہیں کچھ لوگ
ہم نے تو ان سے کبھی حق کے سوا کچھ نہ سنا
جرم کیا ان کا ہے کیوں شہر بدر ہیں کچھ لوگ
دہشت گرد بناتے ہو
بینائی بھی اپنی میری
خواب بھی میرے اپنے ہیں
بینائی بھی سچی میری
خواب بھی میرے سچے ہیں
ان دونوں کی لذت سچی
اور اذیت بھی سچی
وہ اور لوگ تھے جو راستے بدلتے رہے
سفر ہے شرط سو ہم نیند میں بھی چلتے رہے
پگھل رہا تھا یگوں سے وجود کا لاوا
خیال و خواب مِرے پتھروں میں ڈھلتے رہے
انہیں قبول مِری رہبری نہ تھی، لیکن
مخالفین مِرے ساتھ ساتھ چلتے رہے
حال کچھ اب کے جدا ہے تِرے دیوانوں کا
شہر میں ڈھیر نہ لگ جائے گریبانوں کا
یہ مِرا ضبط ہے یا تیری ادا کی تہذیب
رنگ آنکھوں میں جھلکتا نہیں ارمانوں کا
مے کدے کے یہی آداب ہیں رِندو! سن لو
غم نہیں کرتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
موت دہليز پر پڑی ہوئی ہے
زندگی سامنے کھڑی ہوئی ہے
درد بانٹے کسی کا کیا کوئی
سب کو اپنی یہاں پڑی ہوئی ہے
آ تو جاتے شمار میں اُس کے
یار چھانٹی بہت کڑی ہوئی ہے
خواہش
اگر ملنے کی خواہش زور پکڑے تو
مجھے آواز مت دینا
بس اک پل کو محبت یاد کرتے ہی
وفا کی خوشبوؤں سے آنکھ میں پھیلے اندھیرے قید کر دینا
مجھے آواز مت دینا
آہ یہ دور کہ جس میں لب و رخسار بِکے
دستِ فطرت کے بنائے ہوئے شہکار بکے
دل کے جذبات بکے ذہن کے افکار بکے
سچ تو یہ ہے کہ ہر اک عہد میں فنکار بکے
عصرِ حاضر میں کوئی چیز بھی انمول نہیں
عشق کی آن بکے،۔ حسن کا پندار بکے
مِرے وجود کی جاگیر اس نے مانگی ہے
عجیب خواب سی تعبیر اس نے مانگی ہے
وہ چاہتا ہے نشانی مِری محبت کی
کہ مجھ سے خون کی تحریر اس نے مانگی ہے
اسی کی قید میں رہتا ہوں میں تو پہلے بھی
نجانے کس لیے زنجیر اس بے مانگی ہے
سب کو اپنی مثال دیتا ہے
میرا حصہ نکال دیتا ہے
کیسا دیکھو عجیب دریا ہے
میری نیکی اچھال دیتا ہے
ہم پرندوں کا پاسباں دشمن
خود شکاری کو جال دیتا ہے
ہم زخم کریدیں جو پرانے تو قیامت
گر سامنے آ جائیں فسانے تو قیامت
تم دل کی سنی ان سنی کرتے رہے لیکن
اس دل کا کہاہم نہیں مانے تو قیامت
ہم درد کے ماروں کی کہانی بھی جدا ہے
جانے تو نہ جانے کوئی جانے تو قیامت
آسماں سے ستارہ نہیں آئے گا
اب کوئی بھی اشارہ نہیں آئے گا
ہاتھ آئے گا وہ میرے تھوڑا بہت
وہ کسی طور سارا نہیں آئے گا
کیوں اِدھر مستقل دھوپ ہی دھوپ ہے
کیا اِدھر اَبر پارہ نہیں آئے گا؟
ڈوبتے تاروں سے پوچھو نہ قمر سے پوچھو
قصۂ رخصتِ شب شمعِ سحر سے پوچھو
کس نے بہلایا خزاں کو گلِ تر سے پوچھو
گل پہ کیا گزری بہاروں کے جگر سے پوچھو
کون رویا پسِ دیوارِ چمن آخرِ شب؟
کیوں صبا لوٹ گئی راہگزر سے پوچھو
دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
دنیا کے خداؤں سے، خدا مانگ رہا ہوں
اس شخص سے چاہت کا صِلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں
الفاظ بھی سادہ ہیں، مِری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں
دل میں جو بات کھٹکتی ہے دہن تک پہنچے
خامشی مرحلۂ عرضِ سخن تک پہنچے
محرمِ حسنِ بہاراں تو نہیں ہو سکتی
وہ نظر صرف جو گلہائے چمن تک پہنچے
زندگی نام اسی موجِ مئے ناب کا ہے
میکدے سے جو اٹھے دار و رسن تک پہنچے
یہ کس کہانی کا کردار ہو گیا ہوں میں
جسے نبھاتے اداکار ہو گیا ہوں میں
وفا کی راہ میں منزل نہیں نصیب مجھے
کہ انتظار میں بے کار ہو گیا ہوں میں
نگاہ بھر کے بھلا کون دیکھتا ہے مجھے
خود اپنے آپ سے بے زار ہو گیا ہوں میں