محبت کی کتھا میں سب وفا کے باب جھوٹے تھے
مِرے حلقے میں جتنے لوگ تھے نایاب جھوٹے تھے
یہ تاریکی حقیقت ہے، بصارت کچھ نہیں ہوتی
سبھی سورج، سبھی تارے، سبھی مہتاب جھوٹے تھے
مقلد کو سرِ محشر اگر دوزخ ملی تو کیا
چلو ثابت ہوا سب صاحبِ محراب جھوٹے تھے
محبت کی کتھا میں سب وفا کے باب جھوٹے تھے
مِرے حلقے میں جتنے لوگ تھے نایاب جھوٹے تھے
یہ تاریکی حقیقت ہے، بصارت کچھ نہیں ہوتی
سبھی سورج، سبھی تارے، سبھی مہتاب جھوٹے تھے
مقلد کو سرِ محشر اگر دوزخ ملی تو کیا
چلو ثابت ہوا سب صاحبِ محراب جھوٹے تھے
سچ چھپاتی رہی ہوا یعنی
دشت کا حال اور تھا یعنی
بندشیں روح و جسم پر خوش ہوں
قید میں بھی ہے اک مزہ یعنی
گر خدا بِن نہیں ہے کچھ بھی یہاں
ہے خدا کا بھی اک خدا یعنی
ظلم و جور کو کب تک مصلحت میں تولیں گے
اس صدی کے دانشور کب زبان کھولیں گے
راس آ گئی جن کو بھیک آب و دانے کی
وہ طیور اب ہرگز بال و پر نہ کھولیں گے
بے حسی کے جذبوں کو خون کی ضرورت ہے
کب ضمیر جاگیں گے، کب عوام بولیں گے
یوں ساتوں سُر سماعت میں سما کے رقص کرتے ہیں
تو پیاس اپنی محبت کی بجھا کے رقص کرتے ہیں
جو لڑکا ہو چکا ہے اب محبت سے بھی انکاری
تو ہم بھی اس کے خط سارے جلا کے رقص کرتے ہیں
جو حالِ دل نہیں جانا تو پایا کیا مزا تم نے
جو تیرے عشق میں خود کو مٹا کے رقص کرتے ہیں
زخموں کو کریدا ہے تو ماضی نکل آیا
سُوکھے ہوئے دریاؤں سے پانی نکل آیا
اس شخص کو پڑھنے میں بڑی چُوک ہوئی تھی
وہ دوست تھا جو دشمنِ جانی نکل آیا
تشنہ تھے بہت دھوپ میں بھیگے ہوئے منظر
کل رات تو سورج سے ہی پانی نکل آیا
رات سے رات نے کل رات کہا؛
کوئی ترکیب تو کرنی ہو گی‘‘
لوگ سورج کو بلا لیں کہیں
لوگ پھر تان کے سینہ نہ کہیں مدِ مقابل آ جائیں
’’ہم سے ڈرنا نہ کہیں چھوڑ دیں سب
رات نے قدرے توقف کر کے
مِلے نہ ٭دُرد بھی ساقی شراب کے بدلے
جلے نہ کیونکہ مِرا دل کباب کے بدلے
پسند ہوں تو لگا لیجے زِینِ توسن میں
ہماری آنکھوں کے حلقے رکاب کے بدلے
سنبھلا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
جسے میں پیار سمجھتی ہوں دل لگی تو نہیں
میں ڈر رہی ہوں کہ جذبہ یہ عارضی تو نہیں
تمہاری بات تمہاری ہو ہر حوالے سے
نئی زمین تراشو،۔ یہ لازمی تو نہیں
ادھورے خواب، شکایت، کسک، تڑپ، الجھن
کسی بھی چیز کی دامن میں کچھ کمی تو نہیں
اس کی آنکھوں میں حیا اور اشارا بھی ہے
بند ہونٹوں سے مجھے اس نے پکارا بھی ہے
اس نے کاندھے پہ ہمارے جو کبھی سر رکھا
یوں لگا زیست میں کوئی تو ہمارا بھی ہے
ریت بھی گرم ہے اور دھوپ بھی ہے تیز مگر
اس کی پُر کیف رفاقت کا سہارا بھی ہے
کشتیاں ڈالتے ہیں پانی میں
آج طبع ہے کچھ روانی میں
جی رہا ہوں میں آج تک خوش خوش
تیری بھیجی ہوئی نشانی میں
صرف ہوتے ہیں رات دن ہم لوگ
لغزشِ رنج رائیگانی میں
ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ہم ہیں ہارے ہوئے
داستانوں میں وہ جو ہیں مارے ہوئے
زندگی کے فریبوں سے کس کو مفر
اس کے ہاتھوں گرفتار سارے ہوئے
وہ جو بجھتے گئے تیرگی بن گئے
وہ جو روشن رہے وہ ستارے ہوئے
وہ اپنی گفت میں انکار بھی نہیں کرتا
عجیب شخص ہے اقرار بھی نہیں کرتا
حقارتوں کا بھی اظہار برملا نہ ہوا
وہ کہہ رہا ہے؛ مجھے پیار بھی نہیں کرتا
غرور و رشک کے نشتر اٹھائے رکھتا ہے
پہ سامنے سے مجھ پہ وار بھی نہیں کرتا
تیرے جوار میں کچھ کم نصیب ایسے تھے
تجھے نظر ہی نہ آئے قریب ایسے تھے
تجھے عزیز تھے دل سے تو پھر شکایت کیا
میرے رفیق تھے، میرے رقیب ایسے تھے
خوشی خوشی سے لٹا دی، الم سمٹ لیے
کرے گی ناز سخاوت غریب ایسے تھے
حوصلہ اتنا ابھی یار نہیں کر پائے
خود کو رُسوا سر بازار نہیں کر پائے
دل میں کرتے رہے دنیا کے سفر کا ساماں
گھر کی دہلیز مگر پار نہیں کر پائے
ہم کسی اور کے ہونے کی نفی کیا کرتے
اپنے ہونے پہ جب اصرار نہیں کر پائے
بس رہے ہیں اس نگر میں جن و انساں ایک ساتھ
یہ رِوایت چل پڑی ہے ظلم و احساں ایک ساتھ
اب توقع ہم سے رکھنا خیر خواہی کی عبث
ہم نے سارے توڑ ڈالے عہد و پیماں ایک ساتھ
چھا گئی ہے زِندگی پر اب تو فصلِ رنج و غم
جھیلتے ہیں زخمِ دوراں، قیدِ زنداں ایک ساتھ
اس نے مجھے
لائبریری سے چوری کیا
میرے ایک ایک لفظ کو
اپنی آنکھوں کے
تاروں میں پروتا رہا
پُتلیوں سے میری ورق گردانی کرتا رہا
نہ گھر سکون کدہ ہے نہ کارخانۂ عشق
مگر یہ ہم ہیں کہ لکھتے رہے ہیں نامۂ عشق
بہت سے نام تھے اب کوئی یاد آتا نہیں
ہمارے دل میں رہا دفن اک خزانۂ عشق
سب اپنے اپنے طریقے سے بھیک مانگتے ہیں
کوئی بنامِ محبت کوئی بہ جامۂ عشق
مایوس نہ ہو خود سے نہ منکر ہو خدا سے
دیتا ہوں شب و روز یہی خود کو دلاسے
منظور نجانے وہ دعا کیوں نہیں ہوتی
نہ دل سے خدا دور ہے نہ دستِ دعا سے
ہے جرم تیری یاد تو تنہائی مقدر
ایسے میرا جینا بھی کوئی کم ہے سزا سے
باغی روحوں کی بازگشت
حضورِ والا برا نہ مانیں
کہ گُنگ صدیوں کا گُنگ وِرثہ
زبان ملتے ہی گستاخ ٹھہرا
بجا، جسارت بری ہے لیکن
یہ باغی روحوں کی بھٹکی سوچوں
شدتیں گاڑنی ہیں سینےمیں، سانس لیکن بحال رکھنا ہے
عشق کرنا ہے کچھ نہیں کہنا، آنکھ کو بے سوال رکھنا ہے
اس کو ملنا نہیں کبھی جا کر، راستے سب گنوانے ہیں خود ہی
حسرتوں کو دلاسے دینے ہیں، خواہشوں کا وبال رکھنا ہے
دیپ رکھنے ہیں شام پلکوں پر، جاگ کر اب گزارنی ہے شب
اس کو آواز بھی نہیں دینی، اور خود کو نڈھال رکھنا ہے
سہانے خواب آنکھوں میں سنجونا چاہتا ہوں
میں اب آرام سے کچھ دیر سونا چاہتا ہوں
شجر کو بار آور دیکھنا مقصد نہیں ہے
کہ میں تو بس زمیں پر خواب بونا چاہتا ہوں
مِرے ہنستے ہوئے بچو! یہ سارا گھر تمہارا
میں رونے کے لیے بس ایک کونا چاہتا ہوں
سورج کا آتش کدہ
سوچتا ہوں
وقت کی گردن پکڑ کر
ریشمی اسکارف کا پھندا لگا کر کھینچ لوں
اور اتنی زور سے چیخوں
زمیں سے آسماں تک
صرف میری چیخ ہی کا شور گونجے
سہتا رہا جہاں کے ستم خوش دلی کے ساتھ
میں تو ہمیشہ خوش رہا تیری خوشی کے ساتھ
دِکھنے میں یوں لگے کہ ہیں یک جان اور دو قلب
وہ ساتھ چل رہے تھے مگر بے رُخی کے ساتھ
میں چُپ رہا تھا،۔ میرا قلم چیختا رہا
پھیلی تِری خبر بھی مِری خامشی کے ساتھ
کچھ دنوں سے ہنسی کی زد میں ہے
دل غمِ بے بسی کی زد میں ہے
زندگی کا تمہیں بتائیں کیا
زندگی زندگی کی زد میں ہے
ہر کسی میں ہے شور اک برپا
ہر کوئی خامشی کی زد میں ہے
اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چُھپائے نہ بنے
ٹُوٹ کر بکھریں یہ موتی تو اُٹھائے نہ بنے
قہر ہے اپنے لیے سوزِ دروں کا عالم
دیکھنا گر کوئی چاہے تو دِکھائے نہ بنے
کس طرح ہاتھ اُٹھاؤں میں دُعا کی خاطر
ہاتھ اک پَل بھی تو سینے سے ہٹائے نہ بنے
سوچ رکھی تھیں بہت باتیں میں اب بُھول گیا
رنگ محفل ہی کچھ ایسا ہے کہ سب بھول گیا
وہ اذیت تھی کہ دن رات گزرتے ہی نہ تھے
پھر ہوا یوں کہ اذیت کا سبب بھول گیا
یہ مرا سر کو جھٹکنا تجھے سمجھاتا نہیں
کب تِرے سحر سے نکلا تجھے کب بھول گیا
یہ زرد پتے، یہ سرد موسم
یہ زرد پتے، یہ سرد موسم
کُہر میں لپٹی اداس شامیں
ہمارے کب اختیار میں ہے
تمہارے ہاتھوں کو اب جو تھامیں
چلو تمہیں یاد کرکے رو لیں
وہ بستیاں وہ بام وہ در کتنی دُور ہیں
مہتاؔب تیرے چاند نگر کتنی دور ہیں
وہ خواب جو غبارِ گُماں میں نظر نہ آئے
وہ خواب تجھ سے دیدۂ تر کتنی دور ہیں
بامِ خیالِ یار سے اُترے تو یہ کُھلا
ہم سے ہمارے شام و سحر کتنی دور ہیں
جبیں پہ شہر کی لکھ کر فضا اداسی کی
بہت ہے خوش کوئی دے کر دعا اداسی کی
حیات پا نہ سکے گی حسین سی خواہش
سماعتوں میں ہے جب تک صدا اداسی کی
فلک کے چاند ستاروں میں روشنی کم ہے
مجھے تو لگتی ہے اس میں خطا اداسی کی
امید و بیم کے عالم میں دل دہلتا ہے
وہ آتے آتے کئی راستے بدلتا ہے
ابھی تو شام ہے تنقید کر نہ رِندوں پر
سنا ہے رات گئے مے کدہ سنبھلتا ہے
نہ کوئی خوف نہ اندیشہ اور نہ رختِ سفر
یہ کون ہے جو مِرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
شرارتی چاند
بڑا شرارتی ہے یہ چاند بھی
جلانا، ستانا، ترسانا
شوق ہیں اس کے
اور لُکا چُھپی اس کی فطرت
اس پر حماقت یہ
کہ نِگل جاتا ہے
چٹک کے غنچے سناتے ہیں کس کا افسانہ
یہ کون آ گیا گلشن میں بے حجابانہ
ہمارا حوصلۂ دل اگر سلامت ہے
بدل ہی دیں گے کسی دن نظام میخانہ
نہ ہوش آئے گا اس کو تِرے کرم کے بغیر
تِری تلاش میں جو ہو گیا ہے دیوانہ
خوابوں کا گزر دیدۂ بیدار سے ہو گا
خوشبو کا سفر ہر در و دیوار سے ہو گا
پھر کاسۂ سر کوچۂ قاتل میں سجیں گے
یہ کھیل تو جاری رسن و دار سے ہو گا
ہر حرف سے پھوٹے گی کرن صبحِ جنوں کی
ہر باب رقم جرأتِ اظہار سے ہو گا
چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے
جل پری پاس کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے
دل نشیں کوئی نظارہ کوئی دلکش منظر
بات دلچسپ کوئی ہو تو غزل ہوتی ہے
یا کسی درد میں ڈوبی ہوئی آوازِ نحیف
یا کوئی چیخ سنی ہو تو غزل ہوتی ہے
خواب کی دھول پھانکتے رہیں گے
صبح تک لوگ جاگتے رہیں گے
کیا خبر وہ کہاں سے آ جائے
دھیان میں سارے راستے رہیں گے
دھڑکنیں ہو چکیں گی بے ترتیب
ذہن میں حرف ناچتے رہیں گے
فقط ہم کو یہ درد و غم نہیں ہیں
گلی کوچے بھی بے ماتم نہیں ہیں
یہی تو انتظامی حادثہ ہے
ہمارا شہر ہے، اور ہم نہیں ہیں
میرے ہاتھوں ہی میرا قتل کر دو
تمہارے معجزے بھی کم نہیں ہیں
یاد پچھلے موسم کی دل کے ساتھ رہ جائے
جیسے آ کے ہونٹوں پر کوئی بات رہ جائے
ایک سا مقدر ہے اب تو ہر تمنا کا
دن نکلنے سے پہلے جیسے رات رہ جائے
ایک دن اتر جائے دل سے بوجھ دنیا کا
صرف میرے کاندھے پر تیرا ہاتھ رہ جائے
دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
چارہ گر سے درد نالاں، درد سے دل، دل سے ہم
ہائے کیا بے خود کیا ہے غفلتِ امید نے
حالِ دل کہتے ہیں اپنا پھر اسی قاتل سے ہم
رشکِ اعدا نے کیے روشن بدن میں استخواں
شمعِ محفل ہو کے اٹھے آپ کی محفل سے ہم
یاد ایک بے رنگ بے مہک
مرجھایا ہوا گلاب
جس کے کانٹوں کی چبھن
باقی رہتی ہے صدا
یاد ماضی کی بنائی ہوئی
ایک دھندلی تصویر
نظر میں جلوے ہی جلوے سمیٹ لائے ہیں
ہم آج زہرہ جبینوں سے مل کے آئے ہیں
انہیں نمودِ سحر کا پیام بر کہیۓ
شبِ ستم میں بھی جو لوگ مسکرائے ہیں
زہے نصیب کہ لالہ رخوں کی محفل سے
ہم اپنے سینے میں کچھ پھول چن کے لائے ہیں
میری بات سنو ری پگلی
روتی کیوں ہو؟
آنسو پونچھو، چپ ہو جاؤ
لازم کب ہے جو دل اک دوجے کو چاہیں
مل بھی جائیں
کب کہتا ہوں نسبت بدلو؟
ایک اور آدمی
ہم
ایک جہنم میں رہتے ہیں
نہ جانے کہاں سے
آگ
لہراتی ہوئی آتی ہے
حِدت سے
اذیت سے بہت یہ ذہن و دل اپنا گزرتا ہے
انا کو چند سکوں کے لیے جب جھکنا پڑتا ہے
یہ نوکر پیشہ لوگوں کا بھی عالم کربلا کا ہے
سُلجھتا ہے اگر اک مسئلہ تو اک اُلجھتا ہے
تمنائیں بھی یکساں خون بھی قسمت جدا کیوں ہے
یہ کس نے آدمی کو کمتر و برتر میں بانٹا ہے
تیرہ بختی جو مقدر ہو جائے
پھول سا جسم بھی پتھر ہو جائے
اشک رک جائے تو آنکھیں بے نور
اور ڈھل جائے تو گوہر ہو جائے
روح صحرا کی طرح پیاسی ہے
چشمِ بے آب سمندر ہو جائے
تنکا تنکا آس بہرِ آشیاں چُنتا رہا
زندگی کی راکھ سے چنگاریاں چنتا رہا
یہ میری مثبت روی تھی یا میری مجبوریاں
خامیوں کے ڈھیر سے کچھ خوبیاں چنتا رہا
کس قدر مشروب تُو نے کر دیا عہدِ وفا
سرخیوں کو بھول کر باریکیاں چنتا رہا
میں تم کو سوچ رہا ہوں مگر اداس نہیں
تُو آبشارِ سکوں ہے، بدن کی پیاس نہیں
بِنا چُھوئے ہی مِرے خواب چُوم لیتا ہو
بہت قریب ہو حالانکہ میرے پاس نہیں
خزاں کی رُت میں بھی خوشبو سنبھال رکھی ہے
میں تم سے دور ہوا ہوں، مگر اداس نہیں
دن گزرتا ہے نوکری کر کے
رات کٹتی ہے شاعری کر کے
اب تراشیں گے ناخنوں کو بھی
زخمِ دل کی رفو گری کر کے
عشق خیرات ہی میں مل جائے
اس کے در پر گداگری کر کے
ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا
حسن کا آغوش پھر بھی حسن کا آغوش تھا
ہم تو جس محفل میں بیٹھے شغل ناؤ نوش تھا
زندگی میں موت بھی آئے گی کس کو ہوش تھا
ضبط کرتے کرتے آخر پھوٹ نکلی دل کی بات
ہنس پڑا گلشن میں جو بھی غنچۂ خاموش تھا
فریبِ رنگ نہ دے جلوۂ بہار مجھے
عزیز تر ہیں چمن میں گلوں سے خار مجھے
مِری خطاؤں پہ یہ بازپرس مالکِ حشر
عطا ہوا تھا کبھی دل پہ اختیار مجھے
یہ ان کی یاد یہ طوفان رنگ و بو توبہ
ملی تو درد میں ڈوبی ہوئی بہار مجھے
اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم
کیا حال ہو گا اس کا جس دل میں خار ہیں ہم
ہر چند دل میں تیرے ظالم غبار ہیں ہم
کتنے دبے ہوئے ہیں کیا خاکسار ہیں ہم
کیا جانے کیا دکھائے کم بخت راز دشمن
بے اختیار ہو تم اور بے قرار ہیں ہم
مجھ پہ الزام دھر گیا دیکھو
آنکھ اشکوں سے بھر گیا دیکھو
کوئی روشن ضمیر تھا شاید
اور اندھیروں میں مر گیا دیکھو
جس نے رکھا تھا سر ہتھیلی پر
وہ بھی دنیا سے ڈر گیا دیکھو
اچانک نیند سے جاگے ہوئے ہیں
ہم اپنے خواب سے بھاگے ہوئے ہیں
ہم اپنے تھے تو اپنے میں نہیں تھے
کسی کے ہیں تو یوں آگے ہوئے ہیں
چھپے بیٹھے تھے پیچھے کی صفوں میں
سو اب دیوار سے لاگے ہوئے ہیں
اگر ہم بھولنا چاہیں
اگر ہم بھولنا چاہیں
تو تم کو بھول سکتے ہیں
ہاں یکسر بھول سکتے ہیں
سراسر بھول سکتے ہیں
مگر یہ بات تو تب ہے
اب کہاں مجھ سے کوئی بات بھلا بنتی ہے
دن تو مشکل ہی سہی رات بھلا بنتی ہے
دلنشیں تیری محبت سے تو بھر لوں دامن
ہجر زادے کی یہ اوقات بھلا بنتی ہے
لائے جو میرے لیے اہلِ جنوں کا زیور
تم بتاؤ کہ یہ سوغات بھلا بنتی ہے؟
کیفیت اضطراب کی سی ہے
تیرے خط کے جواب کی سی ہے
صبح پڑھتا ہوں شام پڑھتا ہوں
تُو مکمل کتاب کی سی ہے
سورۂ شمس ہے نظر تیری
شعلگی آفتاب کی سی ہے
فسانۂ امن
میں جنگ مخالف نظم کہوں؟
میں کیسے امن کا گیت لکھوں؟
میں پہلی جنگ سے آج تلک
واقف تاریخ کی رات سے ہوں
جنگوں میں بقا پنہاں جن کی
میں وارد ان طبقات پہ ہوں
جس کا ڈر تھا وہی حادثہ ہو گیا
اس کا مجھ سے الگ راستہ الگ ہو گیا
وہ چلا تھام کر ہاتھ میرا مگر
بیچ رستے میں مجھ سے جدا ہو گیا
کوئی سایہ نہیں تھا کڑی دھوپ میں
دل پگھلتے پگھلتے فنا ہو گیا
ناکردہ گناہ
مکمل عورت وہ ہوتی ہے
جس کا رابطہ و واسطہ فقط اپنے ساتھ ہوتا ہے
تمہاری آنکھوں میں خود کو پورا دیکھنے والی
ادھوری عورت ہوں میں
میری اور تنہائی کی خوب بنتی ہے
شجرِ ممنوعہ
صدائے خداوند قدوس ہے
خدائے زمان و مکاں کی صدا
زمیں آسماں سے ابھرتی صدا
وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ
وہ کہتا ہے؛ دیکھو پہ چُھونا نہیں
تمام شہر کے لوگوں کو مت اکٹھا کر
میں ہوں فقیر، ملاقات مجھ سے تنہا کر
مِرے بزرگوں نے دنیا کی کلفتوں کو چُنا
نشاط و عشرتِ بزمِ جہاں کو ٹُھکرا کر
انہیں سمٹتی ہوئی زندگی کا علم نہیں
بڑے گھروں میں جو سوتے ہیں پاؤں پھیلا کر
ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگائیے گا
سمجھے یہ رنگ ہم بھی کچھ رنگ لائیے گا
یہ شوخیاں تمہاری لکھی ہوئی ہیں دل پر
آخر کبھی تو میرے قابو میں آئیے گا
پھر میں بھی کچھ کہوں گا دیکھو زبان روکو
پھر منہ چھپا کے مجھ سے آنسو بہائیے گا
خواب کے اندر خواب کا منظر
پھر سے تم کو خواب میں دیکھا
سوتے سوتے جاگ گئی میں
میں یہ سمجھی، تم آئے ہو
آہٹ پا کر بھاگ گئی میں
دروازہ ویران پڑا تھا
بے تمنا ہوں خستہ جان ہوں میں
ایک اجڑا ہوا مکان ہوں میں
جنگ تو ہو رہی ہے سرحد پر
اپنے گھر میں لہولہان ہوں میں
غم و آلام بھی ہیں مجھ کو عزیز
قدر دانوں کا قدردان ہوں میں
ہوا کے رخ پہ کھلا بادباں اندھیرے کا
یہاں پہ نام نہیں اب کسی سویرے کا
اٹھا کے لے گیا ثروت کبھی کا ہے جوگی
کوئی سراغ نہیں اب اسی کے پھیرے کا
ہوائے گرم کے تپتے لباس میں پہروں
وہ سایہ ٹانکتا ہے ہر شجر گھنیرے کا
ہر طرف نالہ و فریاد کے منظر دیکھیں
تجھ کو دیکھیں کہ تِرا شہر ستمگر دیکھیں
دور سے وہ نظر آئے گا بس اک سائے سا
اس کو دیکھیں تو ذرا پاس بلا کر دیکھیں
چاند سورج نہ ستارے ہیں ہمارے بس میں
ایک مٹی کا دِیا ہے، سو جلا کر دیکھیں
ہوا سکوں بھی میسر تو اضطراب رہا
دلِ خراب، ہمیشہ دلِ خراب رہا
سبھی کے سامنے محفل میں باحجاب رہا
ہمارے ساتھ مگر چاند بے نقاب رہا
گہن کا سایا بھی آنے نہیں دیا اس پر
ہماری آنکھ میں جب تک وہ ماہتاب رہا
دُکھ اور سُکھ
ہمارا مکان
اُس جگہ پر ہے
جہاں دُکھ اور سُکھ کی سرحد ہے
آدھا مکان
سُکھ میں ہے
آنکھوں کے انتخاب کا صدقہ اتاریئے
گر ہو سکے تو خواب کا صدقہ اتاریئے
کربِ فراقِ یار سے مرنے کو ہے یہ دل
اس خانماں خراب کا صدقہ اتاریئے
جی بھر کے دیکھیۓ اسے پھر رات رات بھر
پہلے تو ماہتاب کا صدقہ اتاریئے
ہیں گھر کی محافظ مری دہکی ہوئی آنکھیں
میں طاق میں رکھ آیا ہوں جلتی ہوئی آنکھیں
اک پل بھی کسی موڑ پہ رکنے نہیں دیتیں
کانٹوں کی طرح جسم میں چبھتی ہوئی آنکھیں
رستے میں قدم پھونک کے رکھنا میرے پیارو
ہیں چاروں طرف شہر میں بکھری ہوئی آنکھیں
کہاں مجھ کو تِرے انکار سے ڈر لگتا ہے
اپنے ٹوٹے ہوئے پندار سے ڈر لگتا ہے
اے دلِ مائلِ خوئے رہِ آشوبِ جنوں
اس جہاں کو تِری رفتار سے ڈر لگتا ہے
موجِ آوازۂ تقدیرِ ستم کوش جواں
اپنے ہی ہاتھ کی پتوار سے ڈر لگتا ہے
غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے
پھوٹے حباب موجِ نسیمِ بہار کے
رضواں جو ٹوکے گا درِ فردوس پر ہمیں
کہہ دیں گے رہنے والے ہیں ہم کوئے یار کے
آنکھیں ترس رہی ہیں مِری تیری زلف کو
تارے چمک رہے ہیں شبِ انتظار کے
اے محبت! مجھے ایسے ہی گورا کر لے
تیرے لائق نہ سہی پھر بھی گزارا کر لے
عشق بس کا نہیں لگتا تو تماشا نہ بنا
کام مشکل ہے تو چپ چاپ کنارا کر لے
تیرے آنسو مِری دولت، مِری ساری دنیا
اس شراکت میں منافع ہے خدارا کر لے
مماثلت
پت جھڑ میں
ڈھلتی ہوئی شام میں جھڑنے والے
زرد پتے
میرے زرد چہرے سے
مماثلت رکھتے ہیں
لفظوں کے اُلٹ پھیر میں کچھ تازہ نہیں ہے
ادراکِ جبلّت کا تو خمیازہ نہیں ہے؟
اے ذرّہ نوازی کا صِلہ مانگنے والے
تجھ کو مِری تکلیف کا اندازہ نہیں ہے
میں کیوں پلٹ آوں بھلا تکمیل کی جانب؟
میں نے تو کسی ہجر کو آغازہ نہیں ہے
جنونِ دل کے ہرائے کو کون چھوڑتا ہے
محبتوں کے ستائے کو کون چھوڑتا ہے
میں تیری سمت جو لپکا، لپکنا بنتا تھا
کہ تپتی دھوپ میں سائے کو کون چھوڑتا ہے
میں ایک آنکھ سے نکلا ہوں کس طرح، مت پوچھ
خوشی سے اپنی سرائے کو کون چھوڑتا ہے
یہ بات ذہن میں رکھ روشنی میں آتے ہوئے
ہزار راتیں لگیں ہم کو دن بناتے ہوئے
پہنچ رہا تھا مِرے وہم سے بھی آگے کوئی
سو شرم آنے لگی اس کو آزماتے ہوئے
اسے خبر تھی کہ منزل بہت قریب ہے اب
وہ رو پڑا تھا مجھے نیند سے جگاتے ہوئے
کیوں لکھا احوالِ، شب آدھا اِدھر آدھا اُدھر
بے رُخی کا ہے سبب، آدھا ادھر آدھا ادھر
دیکھ غُربت کی نشانی، دو گھروں میں اک دِیا
روز جلتا ہے غضب، آدھا ادھر آدھا ادھر
پھنس گئی ہے زندگی، دو نفس کے بیچ میں
ہے رہاٸی کا سبب، آدھا ادھر آدھا ادھر
منبروں پر بھی گنہ گار نظر آتے ہیں
سب قیامت کے ہی آثار نظر آتے ہیں
ان مسیحاؤں سے اللہ بچائے ہم کو
شکل و صورت سے جو بیمار نظر آتے ہیں
جانے کیا ٹوٹ گیا ہے کہ ہر اک رات مجھے
خواب میں گنبد و مینار نظر آتے ہیں
بازار سے لے کر زرِ احساس نہ اۤئے
ہم زود ہوس تھے سو تِرے پاس نہ اۤئے
جانے یہ دعا تھی کہ بچھڑنے کی سزا تھی
ماں کہتی تھی؛ پردیس تجھے راس نہ اۤئے
کر جائیں اگر اتنا ہنر بھی تو بہت ہے
کوشش سے بھی اۤنسو سرِ قرطاس نہ اۤئے
ترکِ محبت کا عنواں بھی کچھ ایسا رُومانی ہو
ہم پر بھی دُشوار نہ گزرے، تم کو بھی آسانی ہو
ان آنکھوں سے تم نے اک دن دل دریا میں جھانکا تھا
عکس ابھی تک سوچ رہا ہے نقش رہے یا پانی ہو
بیچ بھنور بھی پریم ندی میں خواب کنارہ لگتا ہے
ساحل سے آواز نہ دینا جب موسم طوفانی ہو
سائباں کیا ابر کا ٹکڑا ہے کیا
دھوپ تو معلوم ہے سایا ہے کیا
اپنے دامن میں چھپا لے موج غم
قطرہ قطرہ زندگی جینا ہے کیا
خواب آنسو احتجاجی زندگی
پوچھیۓ مت شہر کلکتہ ہے کیا
بڑھا کے ہاتھ زمیں سے اٹھا لیا جائے
جو بچ گیا ہے اسی کو بچا لیا جائے
انا کی جنگ نے برباد کر دئیے رشتے
اگرچہ عشق ہے تو سر جھکا لیا جائے
ہمارے دل پہ کبھی آپ کی حکومت تھی
تو کیوں نہ آپ سے ہی مشورہ لیا جائے
خواہشوں کا غلام تھا ہی نہیں
دل، کبھی تشنہ کام تھا ہی نہیں
میں کوئی اور کام کیا کرتا
عشق میں اور کام تھا ہی نہیں
اس کی عادات جانتا ہوں میں
وہ اشارہ سلام تھا ہی نہیں
کہاں فسانۂ شب گیر کے ستارے گئے
اسی تلاش میں آئے تھے، آ کے مارے گئے
بس اتفاق تھا اس در پہ دو گھڑی کا قیام
پھر اس کے بعد اسی نام سے پکارے گئے
اب اس کے بعد جو گزرے گی، خوب گزرے گی
اسی امید پہ یہ زندگی گزارے گئے
کسی کو راج دلارے فریب دیتے رہے
کسی کو جان سے پیارے فریب دیتے رہے
یقین ملتا رہا تھرتھراتے ہونٹوں سے
مگر نظر کے اشارے فریب دیتے رہے
تمام رات میں چلتا رہا ہوں کانٹوں پر
تمام رات ستارے فریب دیتے رہے
امیرِ شہر نے تانی ہیں اپنی شمشیریں
کہ اہلِ فن کے لیے بن رہی ہیں زنجیریں
ہمارے پاس نہ سرمایہ، اور نہ جاگیریں
ہمارے پاس ہیں خوابوں کی صرف تعبیریں
ہوا کے رُخ پہ جو دوڑیں وہ راج کرتے ہیں
کبھی بدلتی نہیں اہلِ حق کی تقدیریں
عشق سب کچھ ہے، دل ہی سب کچھ ہے
میں نے رومی کی مثنوی بھی پڑھی
میں بھی خسرو کے شعر پڑھتا رہا
اور حافظ کو جب پڑھا میں نے
میں یہ پڑھ کے بلک کےرویا تھا
"عشق سب کچھ ہے، دل ہی سب کچھ ہے"
اللہ نگہبان تِرا، اے دلِ بے تاب
ٹوٹی ہوئی کشتی ہے، بپھرتے ہوئے گرداب
جو موجِ حوادث کے تھپیڑوں میں پلا ہو
موتی وہی ہوتا ہے جہاں میں دُرِ نایاب
پھر آج دعاؤں میں گھٹا مانگ رہا ہے
سُوکھے ہوئے تالاب میں بیٹھا ہوا سُرخاب
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
وہ لفظ محمدﷺ ہے
قرطاس کے چہرے پر
اک لفظ لکھا میں نے
اس لفظ کی خوشبو سے
قرطاس معطر ہے
اس نام کی کرنوں سے
ابھی تو محوِ تجلی ہیں سب دکانوں پر
پلٹ کے دیکھیۓ آتے ہیں کب مکانوں پر
خیال خام میں گزری ہے زندگی ساری
حقیقتوں کا گماں ہے ابھی فسانوں پر
قدم قدم پہ تضادوں سے سابقہ ہے جہاں
یقین کیسے کرے کوئی ان گمانوں پر
احساسِ محرومی (پردیس میں رہتے ہوئے)
کتنے دن ہو گئے
گھر سے آئے ہوئے
آ کے پردیس میں جاں لگائے ہوئے
دل وہیں رہ گیا
اپنے بچوں کے پاس
اک بے ہنر کو داد میں ہر بار تالیاں
مجھ کو لگی ہیں اب کہ سزاوار تالیاں
ایسے سراہتا ہے یہ شہرِ منافقت
جیسے کسی کے فن کا ہوں انکار تالیاں
اس سمت تھا غریب کا لاشہ پڑا ہوا
بجنے لگیں کنارے کے اس پار تالیاں
آکاش کی حسین فضاؤں میں کھو گیا
میں اس قدر اڑا کہ خلاؤں میں کھو گیا
کترا رہے ہیں آج کے سقراط زہر سے
انسان مصلحت کی اداؤں میں کھو گیا
شاید مِرا ضمیر کسی روز جاگ اٹھے
یہ سوچ کے میں اپنی صداؤں میں کھو گیا
وفا کے بدلے تمہارا عتاب کیسا ہے
محبتوں کا مِری یہ جواب کیسا ہے
تھا آج سنگ مقدر مِرے لیے لیکن
تمہارے ہاتھ میں تازہ گلاب کیسا ہے
وہ قتل کرتے ہیں ہم آہ بھی نہیں کرتے
ستمگروں کو ہمارا جواب کیسا ہے
جو خود پہ بیٹھے بٹھائے زوال لے آئے
کہاں سے ہم بھی لکھا کر کمال لے آئے
کواڑ کھولیں تو اڑ جائیں گی ابابیلیں
نہ جانے ذہن میں کیسا خیال لے آئے
ہر ایک شخص سمجھ کر بھی ہو گیا خاموش
ازل سے چہرے پہ ہم وہ سوال لے آئے
عمر بھر لمحۂ تسخیر میں رہنے دیا جائے
عشق شامل مِری تقدیر میں رہنے دیا جائے
زندہ رہنے کا ہُنر غم نے سکھایا ہے مجھے
میرا دشمن مِری جاگیر میں رہنے دیا جائے
ابھی موزوں نہیں ماحول محبت کے لیے
ذکر میرا ابھی تاخیر میں رہنے دیا جائے
آئندہ پھر نہ آئے کبھی ہجرِ یار میں
جی چاہتا ہے آگ لگا دُوں بہار میں
آنے لگا وہ کیوں مِرے اُجڑے دیار میں
دن رات جس کی چين سے گُزرے بہار میں
وہ آئیں یا نہ آئیں یہ اُن کے کرم پہ ہے
ہم تو اُٹھا رہے ہیں مزے انتظار میں
قتلِ عشاق کِیا کرتے ہیں
بت کہاں خوفِ خدا کرتے ہیں
سر مِرا تن سے جدا کرتے ہیں
درد کی آپ دوا کرتے ہیں
خم ابروئے صنم کو دیکھیں
ہم یہ کعبے میں دعا کرتے ہیں
نامرادی ہی لکھی تھی سو وہ پوری ہو گئی
زندگی جل کر بجھی اور راکھ جیسی ہو گئی
لوگ کیا سمجھیں کہ غم سے شکل کیسی ہو گئی
آئینہ ٹوٹا تو قیمت اور دونی ہو گئی
رفتہ رفتہ دوریوں سے آنچ دھیمی ہو گئی
لیکن اک تصویر تھی دل میں جو گہری ہو گئی
خطِ تقسيم جو انسان نے زمين پہ کھينچی
ميری تذليل کا آغاز اسی دن سے ہوا
کتنی چہروں سے تقدس کی نقابيں نوچوں
ميری بربادی کا سامان بہم جن سے ہوا
رسمِ قربانی کا آغاز ہوا ہے مجھ سے
کتنے خونخوار حکايات کی سولی پہ چڑھی
جب بھی لکھنا تو یہی رنج و مسرت لکھنا
پڑ گئی ہم کو تیری یاد کی عادت لکھنا
یہ تری ہم سے شب و روز تغافل کی روش
عین ممکن ہے کوئی ڈھائے قیامت لکھنا
تیری محفل میں چلے آنے کی اے جانِ غزل
صرف اک بار ہی مل جائے اجازت لکھنا
غزلوں میں اب وہ رنگ نہ رعنائی رہ گئی
کچھ رہ گئی، تو قافیہ پیمائی رہ گئی
لفظوں کا یہ حصار بلندی نہ چُھو سکا
یوں بھی مِرے خیال کی گہرائی رہ گئی
کیا سوچیۓ کہ رشتۂ دیوار کیا ہُوا
دھوپوں سے اب جو معرکہ آرائی رہ گئی
یار خائف ہیں مِرا درد بڑھا دینے سے
آگ اتنی ہے کہ بجھ جائے ہوا دینے سے
جیسے ہم دونوں کے ملنے پہ سفر ختم ہوا
منزلیں بنتی ہیں رستوں کو ملا دینے سے
وسعتِ ذاتِ مکیں سے ہے مکاں کی وسعت
دل بڑا ہو گا تجھے اس میں جگہ دینے سے
جو بڑا جتنا ہے ڈاکو اس بڑے منصب پہ ہے
آہ و زاری پر ہے دنیا اور شکوہ لب پہ ہے
حکم جاری کر دیا ہے دیس کے حاکم نے یہ
ضابطہ جو میں نے رکھا ہے وہ لازِم سب پہ ہے
بھوک سے مجبور ہو کر لوگ خود سوزی کریں
اور حاکم ہے کہ ہر دن نِت نئے کرتب پہ ہے
ہر گلی لے کے نکلتے ہیں علم غازی کا
مشکلو تیر جفاؤں کے چلاؤ آؤ
اسمِ عباس کی سینے پہ سپر رکھتے ہیں
گھیر لیتی ہے کبھی گردشِ دوراں جو ہمیں
درعباس پہ خاموشی سے سر رکھتے ہیں
ہر گلی لے کے نکلتے ہیں علم غازی کا
دل بھی دھڑکا نہیں ہے مدت سے
یاد بھی آ رہے ہو شِدت سے
ہجر میں وصل کا تو زہر نہ گھول
میں ہوں بے زار ایسی بدعت سے
لب دہکتے ہوئے عقیق تِرے
جل نہ جائیں گلاب حِدت سے
کچھ تو کم تشنگئ آتشِ صحرائی کر
آبلہ پا ہی سہی، بادیہ پیمائی کر
لالہ و گل کو رخِ یار کا شیدائی کر
قیس چل دشت میں پھر انجمن آرائی کر
عقل کو خوف کہیں آبِ انا ٹوٹ نہ جائے
مستئ حسن یہ کہتی ہے؛ پذیرائی کر
اب مسیحا! تِرے آنے کے بہانے نکلے
دل کے گوشے میں کئی زخم پرانے نکلے
سوکھ جانے کے ہیں دریاؤں کے امکان بہت
برف کے پھول کھلے دھوپ کے دانے نکلے
دیکھنا کتنے ہی سیلاب امنڈ آئیں گے
آنکھ میں اشک لیے ٹوٹے گھرانے نکلے
رنگ کالا ہے نہ ہے پیکر سیاہ
آدمی دراصل ہے اندر سیاہ
اب کہاں قوسِ قزح کے دائرے
اب ہے تا حدِ نظر منظر سیاہ
کتنا کالا ہو گیا تھا اس کا دل
جسم سے نکلا تو تھا خنجر سیاہ
عشق اب چھوڑ دے ہوس کی پوچھ
اس کے ہونٹوں کی، ان کے رس کی پوچھ
مجھ سے تُو پوچھ وہ بہکنا مِرا
بات کتنی ہے کس کے بس کی پوچھ
مجھ سے تُو پوچھ وہ برہنہ بدن
اس کی گردن پہ دِکھتی نس کی پوچھ
جب بھی تم سے بات ہوتی ہے
اندیشوں کے تانے بانے
مایوسی کے سارے چہرے
سرشاری کی چادر لے کر
چُھپ جاتے ہیں
اور اس سرخوشی کی گُن میں
یہ دنیا دائمی گھر ہے؟ نہیں ہے
پھر اس کے بعد محشر ہے نہیں ہے
نہیں سایہ سراپا نور، یعنی
تذبذب ہے وہ پیکر ہے نہیں ہے
بصارت سے ضروری ہے بصیرت
نگاہوں میں جو منظر ہے نہیں ہے
دہلیز پر مِری کوئی آیا ہے برسوں بعد
ہلچل سی دل میں کوئی تو لایا ہے برسوں بعد
ارمان دل میں میرے نئے جاگنے لگے
آنگن کو چاندنی نے سجایا ہے برسوں بعد
آنکھوں میں میری خواب ہیں تازہ سجے ہوئے
تعبیر خواب لے کے وہ آیا ہے برسوں بعد
اب تو اِک غم ہے مِرا اپنا بھی بیگانہ بھی
ہاں، کبھی پہلے مسرّت سے تھا یارانہ بھی
پاسِ مسجد بھی اسے پاسِ صنم خانہ بھی
دل ہے ناداں بھی بہت اور بہت دانا بھی
شیخ جی! گھرسے نکلتا ہوں میں مسجد کیلئے
کیا کروں راہ میں آ جاتا ہے مے خانہ بھی
زندگی درد ہے
واقعی درد ہے
کیا کہا عشق میں
سرسری درد ہے
جھانک دل میں مِرے
درد ہی درد ہے
یہ اذیت ہے
جب ایک طوائف کے جسم دروازے پر بڑھاپا دستک دے
اور تماش بین توبہ تائب ہونا شروع ہو جائیں
یہ اذیت ہے
جب "بس پانچ منٹ میں کال کرتی ہوں" کا بول کر
مسیج سینڈ کر کے بھی جواب نہ دیا جائے
ورثہ
حاکمِ قہر و غضب
شہر دل کے دروازے پر
دوزانو بیٹھا ہے
سِسکتی
بِلکتی
بین کرتی التجائیں
اپنا گھر بھی کوئی آسیب کا گھر لگتا ہے
بند دروازہ جو کُھل جائے تو ڈر لگتا ہے
بعد مُدت کے مُلاقات ہوئی ہے اس سے
فرق اتنا ہے کہ اب اہلِ نظر لگتا ہے
اس زمانے میں بھی کچھ لوگ ہیں فن کے استاد
کام کوئی بھی کریں دستِ ہُنر لگتا ہے
شرحِ غمِ حیات کہاں سے کریں شروع؟
الجھن میں ہیں کہ بات کہاں سے کریں شروع
ہے داستاں طویل بہت،۔ وقت مختصر
اے عمرِ بے ثبات! کہاں سے کریں شروع
پھر بے رُخی سے آ کے وہ پہلو نشیں ہوئے
ہم بے خودی میں بات کہاں سے کریں شروع
خودی کی فطرت زریں کے رازہائے دروں
ادا شناس حقیقت ملے کوئی تو کہوں
خودی اگر ہے تو ہیں سرخرو حیات و ممات
خودی نہیں تو حیات و ممات خوار و زبوں
خودی وہ چیز ہے ناداں کہ جس کے بدلے میں
ملے جو دولتِ کونین بھی مجھے تو نہ لوں
انٹرویو
کیسے ہو؟
یہاں کیمپ میں اپنا گھر یاد آتا ہے؟
ہاں؛ مگر اس کی چھت گر گئی تھی
اپنے ساتھ کھیلنے والے یاد آتے ہوں گے؟
ہاں؛ مگر وہ سب مر چکے ہیں
کیا دل چاہتا ہے اپنے اسکول واپس جانے کو؟
خلوت
جلی ہوئی ہیں جو پوریں گلاب ہاتھوں کی
سلگ رہا ہے یقینا بدن کا ہر گوشہ
یہ میرے حرف تری روح کے طواف میں ہیں
مجھے بتاتا ہے میرے سخن کا ہر گوشہ
تو میری ذات کو صحرا کا نام دے گا اور
دہکتی ہوئی یاد
دہکتی ہوئی یاد
میرے بدن سے ٹکراتی ہے
اس کا لمس
مجھے پاگل سا بنا دیتا ہے
میں چیخ پڑتا ہوں
یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
نظر جس طرف کیجیے تُو ہی تُو ہے
یہ کس مست کے آنے کی آرزو ہے
کہ دستِ دعا آج دستِ سبو ہے
نہ ہو گا کوئی مجھ سا محو تصور
جسے دیکھتا ہوں سمجھتا ہوں تُو ہے
گزرتے دنوں نے
ہمیں زندگی موت کا فرق
جیسے بھلا سا دیا ہے
اگر اب جیے بھی
تو بس وقت کے وائلن پر
کسی گمشدہ رائیگانی کی دھیمی دھنیں
چشمِ ظاہر بیں کو ہر اک پیش منظر آشنا
مل نہیں سکتا تجھے اب مجھ سے بہتر آشنا
ظرف تیرا مجھ پہ روشن ہو گیا ہے اس طرح
جس طرح قطرے سے ہوتا ہے سمندر آشنا
ٹوٹنا تقدیر اس کی توڑنا اس کا خمیر
غیر ممکن ہے نہ ہو شیشے سے پتھر آشنا
درد میں جب کمی سی ہوتی ہے
دل تڑپتا ہے آنکھ روتی ہے
وصل کی رات رات ہوتی ہے
قلب بیدار آنکھ سوتی ہے
سامنے ان کے لب نہیں کھلتے
بند گویا زبان ہوتی ہے
کتنا اندر سے جل گیا ہوں میں
جل کے ہی تو پگھل گیا ہوں میں
کم نہ تھی ساقی! تیری عطا لیکن
اپنے قدموں پہ چل گیا ہوں میں
تُو نے تھاما تو یوں لگا جیسے
گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں میں
جب بہہ چلا تو قطرہ سمندر کا ہو گیا
آنکھوں میں ٹھہرا اشک تو پتھر کا ہو گیا
پوجا اسے تو اس کو لگا دیوتا ہوں میں
پھر رنگ دوسرا ہی ستمگر کا ہو گیا
اس نے ہر ایک بات کہی یوں تراش کر
جیسے اثر زبان میں خنجر کا ہو گیا
کسی بھی حال میں جاناں تمہیں ہم کھو نہیں سکتے
تمہیں گر کھو دیا ہم نے تو پھر ہم سو نہیں سکتے
زمانہ کہہ رہا ہے بے وفا ان کو، تو کہنے دو
قسم کھا کر یہ کہتا ہوں وہ ایسے ہو نہیں سکتے
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں عرش سے اُترے ہوئے یارو
دلوں میں بیج نفرت کے کبھی جو بو نہیں سکتے
اداس رہ کے ہنسی اختیار کرتے ہیں
ہم ایسے لوگ خزاں کو بہار کرتے ہیں
میں نفرتوں سے نمٹنا تو خوب جانتا ہوں
مگر یہ لوگ محبت سے وار کرتے ہیں
ہماری عمر وہی تھی جو تیرے ساتھ کٹی
کہ تیرے بعد فقط دن شمار کرتے ہیں
ہمیں آبِ رواں کی نذر کر دینا
ہمارے ہاں روایت ہے
کہ جب کوئی مقدس چیز کارآمد نہیں رہتی
تو پھر بھی
احتراماً اس کو بے حُرمت نہیں کرتے
اُسے آبِ رواں کی نذر کرتے ہیں
رنگ و رعنائی چھین لیتا ہے
عشق زیبائی چھین لیتا ہے
چشمِ یعقوب کر چکی ثابت
ہجر بینائی چھین لیتا ہے
گاؤں میں جھوٹ کےنہیں پاؤں
شہر سچائی چھین لیتا ہے
نِیم بسمل کی کیا ادا ہے یہ
عاشقو! لوٹنے کی جا ہے یہ
دُودِ دل کیوں نہ رشکِ سُنبل ہو
آتشِ حُسن سے جلا ہے یہ
زُلف میں کیوں نہ دل رہے بیدار
لیلۃ القدر سے سوا ہے یہ
اتنا بے زار ہوا وصل کی آسانی میں
گھر پلٹ آیا اسے چھوڑ کے عریانی میں
دل الجھتا ہی رہا حاضر و موجود کے ساتھ
جسم گھُلتا رہا یادوں کی فراوانی میں
خشک ہونٹوں نے گلِ زرد کو نعمت جانا
میرے یرقان زدہ خوابوں کی ویرانی میں
دی یاد نے دستک جو کبھی خواب میں آ کر
تصویر تِری چوم لی آنکھوں سے لگا کر
رہتی ہیں تعاقب میں ہوس کار نگاہیں
اے حسن! سرِ بزم تُو پردے میں رہا کر
تُو مجھ کو کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے جہاں میں
رہتا ہوں تِرے دل میں کبھی دیکھ لیا کر
جل اور اگنی
نیلی جھیل کی چُپ میں
کس نے شبد کا کنکر پھینکا
لہریں جنم دئیے جاتی ہیں لہروں کو
اور دائرہ پھیلتا جائے
جھیل کی نیلی خاموشی کو
راز ہونٹوں پہ تھرتھراتے ہیں
بات ہاتھوں سے نکلی جاتی ہے
دن کے قصے عجیب ہوتے ہیں
رات کہانیاں سناتی ہے
اک دھواں سا اٹھتا ہے کہیں
شہرِ ویراں سے گزرتا ہے کہیں
اداس ہونے کے دن ہیں اور کچھ اداسیاں بھی اداس سی ہیں
ہواؤں میں ہے تمہاری خوشبو کہ سانسیں سانسوں نے ہار دی ہیں
گُلوں کے موسم کی بات کرنا، وہ پھول لینا، وہ پھول دینا
وہ لمحے لمحوں سے کٹ چکے ہیں وہ گھڑیاں ہم نے گزار لی ہیں
تمہاری صحبت ہماری باتیں، کبھی نہ کٹتی وہ لمبی راتیں
وہ دن کے چہرے پہ لکھے نغمے ہر آتے لمحے کی تازگی ہیں
زندہ کب ہے، شاملِ مرحومین ہے بھائی
عشق نہ ہو تو آدمی ایک مشین ہے بھائی
ملنا نہیں ہے اس نے، مجھے یقین ہے بھائی
کیونکہ وصال محبت کی توہین ہے بھائی
فیشن میں ہم پیروکار نہیں مجنوں کے
عشق ہمارا شغل نہیں ہے، دین ہے بھائی
میں کیوں اسے صدائیں دوں مجھ سے کہیں ملے
اک آسمانِ عشق سے کیسے زمیں ملے؟
میں پیڑ ہوں مجھے کہاں ہجرت کا حکم ہے
موسم کا فرض ہے مجھے آ کر یہیں ملے
حیراں ہوں میں کہ کیسی یہ جادوئی صفت ہے
دل میں رکھے جو لوگ، پسِ آستیں ملے
دل میں گھر کرتی ہوئی نیند اڑا دیتی ہے
خاموشی آمد طوفاں کا پتہ دیتی ہے
کتنے برسوں کی ریاضت سے قرار آتا ہے
پھر تِری ایک جھلک آگ لگا دیتی ہے
کون سی دھن میں مگن ہوں نہیں معلوم مگر
آج کل اپنی ہی آواز مزا دیتی ہے
شہزادی
یہ کوئی پہلا ہجر نہیں جو جھیلنا ہو گا
تم سے پہلے بھی اِک لڑکی
خوابوں کی مسماری کر کے
دُکھ سینے میں جاری کر کے
ہجر بدن پر طاری کر کے
تمہارے سینے میں دل کے جیسا جو ایک پتھر دھڑک رہا ہے
وہ ایک پتھر، نہ جانے کتنے دلوں کا مرکز بنا ہوا ہے
یہ چاند سے بھی حسین تر ہے جو چاند جیسا چمک رہا ہے
فراق کی شب میں آسماں پر تمہارا چہرا ٹنگا ہوا ہے
دلِ شکستہ کے حوصلوں نے ہر ایک منزل کو سر کیا ہے
تمہارے در تک بھی آن پہنچے پر اس سے آگے بھی راستہ ہے
الوداع
مجھے تم الوداع نہیں کہنا
مجھے اب خوف آتا ہے
کہ جیسے الوداع کہنے سے
ہم پھر مِل نہیں سکتے
کہ جیسے اس کے کہنے سے
سبھی رشتے سبھی ناطے
یہ کس نے دور سے آواز دی ہے
فضاؤں میں ابھی تک نغمگی ہے
ستارے ڈھونڈتے ہیں ان کا آنچل
شمیمِ صبح دامن چومتی ہے
تعلق ہے نہ اب ترکِ تعلق
خدا جانے یہ کیسی دشمنی ہے
کیا کوئی مِرے غم میں رات بھر تڑپتا ہے
کیوں مِرا دلِ محزوں شام سے دھڑکتا ہے
عاشقی کی بستی میں شاعری کی دنیا میں
درد جتنا بڑھتا ہے،۔ آدمی نکھرتا ہے
چاند سو گیا، شاید رات ڈھلنے والی ہے
کس امید میں اے دل پھر بھی تُو مچلتا ہے
آپ ہی اپنا میں دُشمن ہو گیا
تپ گیا سونا تو کُندن ہو گیا
اور نِکھرا صبحِ کاذب کا سُہاگ
ختم جب تاروں کا ایندھن ہو گیا
کس سے پوچھوں کھو گئی سیتا کہاں
بَن کا ہر سایہ ہی راون ہو گیا
الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی
دل سے بھی کہیں نہ اپنی جی کی
جانے وہ کیا کسی کی جی کی
جس کو الفت نہ ہو کسی کی
خواہش نہ بر آئی اپنی جی کی
ہم نے کس کس کی دوستی کی
اے دوست کوئی اچھا مہورت نکال کر
اک روز مجھ کو چوم کے روشن خیال کر
یہ خواب ہے یہاں تو ذرا کھل کے مل مجھے
ٹھہرے ہوئے جنون کا رستا بحال کر
تُو مطمئن ہے چھوڑ کے اور تجھ پہ عشق کا
میں آخری پڑاؤ تھا، میرا ملال کر
وہ چھپکے چھپکے تکتی ہے
وہ تکنے پہ نہ تھکتی ہے
جھلکتی ہے دمکتی ہے
ہر وقت تو وہ چمکتی ہے
مستی میں وہ بستی ہے
وہ ساری مستی مستی ہے
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
وہ شام بھی جیسے سسک رہی تھی
کہ زرد پتوں کو آندھیوں نے
عجیب قصہ سنا دیا تھا
کہ جس کو سن کر تمام پتے
سسک رہے تھے
دو آویزاں جسم
میں نے اس خون کو دیکھا
جو میرے جسم میں رواں
اور آپ کے سارے بدن پر بکھرا تھا
میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا
جو مجھے مضبوطی سے
تھام لیا کرتے تھے
پرچمِ آسماں لپیٹ کے وہ
چل دیا کہکشاں سمیٹ کے وہ
مشعلِ مہر و ماہ راکھ ہوئی
گر گئے سب دِیے پلیٹ کے وہ
مِٹ گئے صورتِ حروفِ غلط
زائچے رات کی سلیٹ کے وہ
بیان
میں نے
کبھی نہیں ناپا
بات کی بلندی کو
دانش نے
مجھے جہالت سے روشناس کرا دیا
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ نذرِ بارگاہِ شبیہِ رسول پاکﷺ
تکبیرِ ذوالجلال ہے لیلٰیؑ کی گود میں
کتنا حسِین لال ہے لیلٰی کی گود میں
یٰسینؐ، وَ المزملؐ، و طہٰؐ، و اِنّمَاﷺ
ہر نقش کی دھمال ہے لیلٰی کی گود میں
آغوشِ عالیہؑ میں پلے گا یہ ماہتاب
فی الحال جو ہِلال ہے لیلٰی کی گود میں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
کوئی انﷺ کے بعد نبی ہوا؟ نہیں ان کے بعد کوئی نہیں
کہ خدا نے خود بھی تو کہہ دیا، نہیں ان کے بعد کوئی نہیں
کوئی ایسی ذاتِ ہمہ صفت، کوئی ایسا نورِ ہمہ جہت؟
کوئی مصطفےٰؐ، کوئی مجتبےٰؐ، نہیں ان کے بعد کوئی نہیں
بجز ان کے رحمتِ ہر زماں، کوئی اور ہو تو بتائیے
نہیں ان سے پہلے کوئی نہ تھا، نہیں ان کے بعد کوئی نہیں
عزم فانی بھی لا زوال بھی ہے
آدمی ہے تو یہ کمال بھی ہے
آرزو میں حلاوتیں بھی ہیں
آرزو مرکزِ خیال بھی ہے
وارداتِ جنوں کا ذکر نہ چھیڑ
کچھ خوشی بھی ہے کچھ ملال بھی ہے
سلجھے نہ کبھی آج تک اسرار من و تو
الجھے ہی رہے فطرت ادراک کے گیسو
واقف ابھی اس رمز حقیقت سے نہیں تو
اللہ کا بندہ نہ مسلماں ہے، نہ ہندو
معراجِ خودی ہے تِری پرواز پہ موقوف
تو چاہے تو خود عرش بنے تکیہ زانو
روتی ہوں زار زار میں اکثر دعا کے بعد
کیا یاد آئے پھر کوئی یاد خدا کے بعد
اے کاش جان سکتے یہ منصب پرست لوگ
رہتا نہیں ہے کچھ بھی کسی کا فنا کے بعد
مرنے سے پہلے عاقبت اپنی سنوار لے
توبہ قبول ہوتی نہیں ہے قضا کے بعد
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
وہ گھڑی بھی حسیں گھڑی ہو گی
جب مدینے میں حاضری ہو گی
دیر کرتے نہیں کرم میں وہ
میری چاہت میں کچھ کمی ہو گی
ان کے غم میں تڑپ کے دیکھو تو
تم پہ قربان ہر خوشی ہو گی
جو لوگ وفاؤں کی ردا ڈھونڈ رہے ہیں
پاگل ہیں خلاؤں میں ہوا ڈھونڈ رہے ہیں
اس کام سے لوگوں کو تو فرصت ہی نہیں ہے
ہے کون یہاں کتنا برا ڈھونڈ رہے ہیں
اب تک جنہیں انسان کی پہچان نہیں ہے
حیراں ہوں وہی لوگ خدا ڈھونڈ رہے ہیں
کیا حقیقت تھی خرافات پہ غالب آئی
مِری اک بات جو ہر بات پہ غالب آئی
اپنے رُتبے کو جو دیکھا تو یہ معلوم ہوا
اُس کی بخشش مِری اوقات پہ غالب آئی
ضبط ٹوٹا تو چھلکتے ہوئے اشکوں کی لڑی
موسمِ ہجر میں برسات پہ غالب آئی
کبھی اقرار کی صورت، کبھی انکار کی صورت
پیامِ دل سناتی ہے نظر اظہار کی صورت
کبھی خوشیوں کی ہیں صبحیں، کبھی غم کی سیہ راتیں
زمانہ روپ بدلے ہے، کسی فنکار کی صورت
اداسی میں چلی آتی ہیں جو گُل رنگ سی یادیں
مِری تنہائی مہکے موتیوں کے ہار کی صورت
جو سارے ہمسفر اک بار حرزِ جاں کر لیں
تو جس زمیں پہ قدم رکھیں آسماں کر لیں
اشارہ کرتی ہیں موجیں؛ کہ آئے گا طوفاں
چلو، ہم اپنے ارادوں کو بادباں کر لیں
پروں کو جوڑ کے اڑنے کا شوق ہے جن کو
انہیں بتاؤ؛ کہ محفوظ آشیاں کر لیں
زخم کچھ ایسے دے کے گیا دارائی کا کرب
بھوگ رہا ہوں مدت سے تنہائی کا کرب
یہ تو سرخ سلگتا سورج ہی جانے ہے
کتنا بھیانک ہوتا ہے تنہائی کا کرب
ذہن کا میرے روز بدل دیتا ہے موسم
شام ڈھلے سوندھا سوندھا انگنائی کا کرب
کالے گلابوں کے تحفے نہ دو
ہم وطن ساتھیو! زاہدو! رہبرو
آج کی رات کا یہ سیاہی میں ڈوبا ہوا زرد چاند
راکھ ملتا ہوا، خامشی سے یہ بادل میں چُھپتا ہوا
اور سلگتا ہوا
کہہ رہا ہے
کوئی بھی سچا نہیں ہے، سب اداکاری کریں
آؤ، مِل کر دوست بچپن کے، عزا داری کریں
ان کو اپنے آپ سے بڑھ کر نہِیں کوئی عزِیز
پیار جُھوٹا جو جتائیں، اور مکاری کریں
بھیڑ بکری کی طرح یہ بس میں ٹھونسیں آدمی
اور بولیں اور تھوڑی آپ بیداری کریں
سخن کو سادہ مِری جان! کیوں نہیں کرتا
تُو کوئی بات بھی آسان کیوں نہیں کرتا
یہ میری آنکھ کی بینائی رہ چکا ہے اگر
یہ چہرہ اب مجھے حیران کیوں نہیں کرتا
میں زندہ ہوں مجھے چھُونے سے ڈر رہا ہے کیوں
بکھر رہا ہوں تو یکجان کیوں نہیں کرتا
اب یہی رواج ہے
وہ رسمِ پاسِ حُرمت النساء نجانے کیا ہوئی
مخالفت کی رِیتِ خوشنما نجانے کیا ہوئی
کہ شہرِ دوستاں میں اب
اگر کوئی رواج ہے تو بس یہی رواج ہے
کہ جس گلی بھی جائیے، کہ جس نگر بھی جائیے
گمشدہ دستک
یہ جو دستکیں ہوتی ہیں نا
ان کے بھی نام ہوتے ہیں
یہ بھی باتیں کرتی ہیں
لیکن بے چاری راستہ بھول جاتی ہیں
کون سی دستک کس در کے لیے
اک اک کر کے ہو گئے رخصت اب کوئی ارمان نہیں
دل میں گہرا سناٹا ہے،۔ اب کوئی مہمان نہیں
تم نے بھی سن رکھا ہو گا، ہم بھی سنتے آئے ہیں
جس کے دل میں درد نہ ہو وہ پتھر ہے انسان نہیں
درد کڑا ہو تو بھی اکثر پتھر بن جاتے ہیں لوگ
مرنے کی امید نہیں ہے، جینے کا سامان نہیں
میں بچپنے میں حلاوت بھری ترنگ میں تھا
مزا حیات کا آب و ہوائے جھنگ میں تھا
جنوں زدہ تھا یہ غصے بھرا مزاج مِرا
مگر میں خوش تھا، تِری چاہتوں کے رنگ میں تھا
یہ گرتے گرتے بھی رخ پر تِرے ہی جا کے گری
شعور کتنا نظر کی کٹی پتنگ میں تھا
در سے مایوس تِرے طالبِ اکرام چلے
کیسی امید لیے آئے تھے، ناکام چلے
او مِری بزمِ تمنا کے سجانے والے
لطف کر لطف کہ دنیا میں تِرا نام چلے
چھین لے چرخِ ستمگار سے اندازِ خرام
کچھ اگر زور تِرا گردشِ ایام چلے
ننگے بازو ننگی رانیں، حسن کا یہ معیار نہیں
عریانی سے لطف اٹھاؤں، روح میری بیمار نہیں
آنکھ شمع سے کب ہٹتی ہے، جب تک وہ فانوس میں ہو
بے پردہ ہو جائے تو کوئی تکنے کو تیار نہیں
تیرا بدن ہے راز خدا کا، انسانوں پہ فاش نہ کر
یا کوئی گھر مجھے دکھا دے، جس میں کوئی دیوار نہیں
فیصلہ سنانے میں دیر کتنی لگتی ہے
میں جو پوچھ بیٹھی تھی
تم میرے
یا میں تیری
حق کی بات کر دینا
اس نے سوچ رکھا تھا
فیصلہ سنانا ہے
خدا نے دے دیا سب کچھ تو بے وفا نہ بنے
اسے کہو کہ خدا کا بنے، خدا نہ بنے
ہماری خاک بڑی کارگر ہے چارہ گرا
ہمارے سمت چلے آنا جب دِیا نہ بنے
میں چاہتا ہوں ذرا فاصلہ رکھیں دونوں
میں چاہتا ہوں کہ کوئی بھی مسئلہ نہ بنے
کھنکنے والی مٹی سے بنا ہوتا نہیں ہے
دلِ نغمہ نما نغمہ سرا ہوتا نہیں ہے
ہم اپنی اپنی مرضی کے دنوں میں جی رہے ہیں
خیالوں کا کوئی پَل نا رسا ہوتا نہیں ہے
یہ تم جو گیان کے پَل کے لیے کم دسترس ہو
یہ سونا پانو کے آگے پڑا ہوتا نہیں ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے
حضور آپ نہ ہوتے تو ہم کہیں کے نہ تھے
زمین، خاک مدینہ پہ ناز کرتی ہے
نصیب ایسے کسی اور سرزمیں کے نہ تھے
کوئی نبی نہیں میرے نبی کا ہم پایہ
تمام عہد کسی عہد آفریں کے نہ تھے
دیارِ خواب میں کوشش ہے پھر سجانے کی
بنا رہا ہوں میں تصویر آشیانے کی
ابھی تو صرف بگولے اٹھے خیالوں میں
ابھی سے رکنے لگی نبض کیوں زمانے کی
شعاعیں دینے لگے ایسا کے اندھیرے بھی
نئی ادا ہے چراغوں میں جھلملانے کی
کبھی کبھی
وہ مجھے
اجنبی سا لگتا ہے
لبوں سے لفظ
سنائی دیں
جھوٹ آنکھوں سے
اداسی
گم سم لہجہ، بہکی باتیں
قلم، کتابیں، تنہا راتیں
تم سے بچھڑ کر میرا اثاثہ
خوشبو، سپنے اور ملاقاتیں
بکھری زلفیں، سُونی بانہیں
دُکھتی دھڑکن، گُھٹتی سانسیں
اپنے بارے میں سوچ لیتے ہیں
یعنی اب ہم بہت اکیلے ہیں
خوف آتا ہے بھیڑ سے جب بھی
گھر کی ویرانیوں سے ڈرتے ہیں
میرے ماضی کی بند مٹھی میں
تیری یادوں کے چند سکے ہیں
کچھ بھی کہہ لیں، سزا نہیں کہتے
دردِ دل کو برا، نہیں کہتے
آپ سنتے ہیں کیوں کسی کی بات
چھوڑئیے، لوگ کیا نہیں کہتے
کچھ ہمارا بھی دوش تھا شاید
آپ ہی کی خطا نہیں کہتے
دہکتی آگ میں جل کر طواف کرتے ہیں
پتنگے شمع کا شب بھر طواف کرتے ہیں
فراقِ یار،۔ شبِ غم،۔ وداغ،۔ تنہائی
یہ چند غم ہی مِرے گھر طواف کرتے ہیں
وہ شانِ فقر سے بے گانے ہو گئے یا رب
گلی گلی جو گداگر طواف کرتے ہیں
مٹی کے ہیں رنگ نرالے
مٹی کے اوتار
کالی مٹی، چکنی مٹی
بھرا پڑا سنسار
اندر مٹی، باہر مٹی
اول مٹی، آخر مٹی
جیسے ہی بندھی سونے کی زنجیر گدھوں سے
ہونے لگا ہر شخص بغل گیر گدھوں سے
مت پوچھیۓ کیا کیف کا عالم ہوا طاری
وابستہ ہوئی اپنی جو تقدیر گدھوں سے
یہ حسنِ عقیدت بھی تو ہے دید کے قابل
ہم لیتے ہیں ہر خواب کی تعبیر گدھوں سے
ترانۂ یوم تکبیر
کرنلوں کی بیویاں
ڈیلروں کی بیٹیاں
لیڈروں کی داشتائیں اور وڈیرے کی بہو
میں فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
ٹڈی دل ڈینگی کرونا اور دہشت گردیاں
ہر اک کتاب نجومی غلط بتاتا ہے
مِری حیات کا جب زائچہ بناتا ہے
کسی حویلی میں جب وحشتیں پنپتی ہیں
بدن پہ سبزۂ نو رستہ لہلہاتا ہے
ہماری نیند میں گرداب بننے لگتے ہیں
اداس کمرہ عجب قہقہے لگاتا ہے
حوا کی بیٹی
سنو ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کیا
کہ چھ راتوں پہ ایک کھڑکی سے
تین موسم اترے ہوں
اور ساتویں دن کی بھاری رات میں
آسمانی بلائیں
عشق تجدید کر کے دیکھتے ہیں
پھر سے امید کر کے دیکھتے ہیں
قتل کرتے ہیں اپنی ہستی کا
اور پھر عید کر کے دیکھتے ہیں
اس کی تنقید کرنے سے پہلے
اپنی تنقید کر کے دیکھتے ہیں
لفظ کوئی زبان سے نکلا
تیر جیسے کمان سے نکلا
ڈھلتے سورج کو دیکھ کر سایہ
میرے ٹوٹے مکان سے نکلا
جب بھی منزل مجھے نظر آئی
میں سفر کی تکان سے نکلا
وفا کے خُوگر وفا کریں گے، یہ طے ہُوا تھا
وطن کی خاطر جیے مریں گے، یہ طے ہوا تھا
بوقتِ ہجرت قدم اٹھیں گے جو سُوئے منزل
تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا
چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی، لیکن
بہار کو اعتبار دیں گے،۔ یہ طے ہوا تھا
اے رسمِ بغاوت کے گرفتار سپاہی
لکھی تھی تِرے بخت میں یہ ہار سپاہی
اس تاج کے اور تخت کے دشمن ہیں ہزاروں
معمور حفاظت پہ ہیں دو چار سپاہی
اک طشت میں رکھی ہوئی فرمانروائی
اک طشت میں ہیں درہم و دینار سپاہی
اک عمر ہوئی جس کو دل و جان میں رکھے
حسرت ہی رہی وہ بھی مجھے دھیان میں رکھے
چھوڑ آئے تِری دید کی خاطر جو چمن کو
وہ پھول بھی مُرجھا گئے گلدان میں رکھے
آیا نہ کوئی دیکھنے والا سرِ بازار
کیا کیا نا گُہر رہ گئے دوکان میں رکھے
پختہ یقیں نے دشت کی اجڑی زمین سے
کتنے اگائے پھول گلِ یاسمین سے
ملاں تجھے ہزارہا سجدوں میں نہ ملا
میں نے خدا کو پا لیا حقِ الیقین سے
کٹتا ہے کس طرح سے جگر کچھ نہ پوچھیۓ
ہیں تیز دھار لہجے بڑے دلنشین سے
عمومی سوچ سے بڑھ کر بھی کچھ فنکار رکھتا ہے
وسیلہ کوئی بھی ہو، قوتِ اظہار رکھتا ہے
مِرا یہ دل بظاہر مصلحت اندیش ہے، لیکن
انا حاوی اگر ہو، جرأتِ انکار رکھتا ہے
رعایا خود کو کتنی بے اماں محسوس کرتی ہے
عداوت شاہ سے جب بھی سپہ سالار رکھتا ہے
بھول بھلیاں
بھول بھلیوں کے اندر اک
دوڑ مچی ہے
پیچیدہ رستوں کے لاکھوں
جال بچھے ہیں
نئی نئی گلیاں، اونچی اونچی دیواریں
آنکھ سے تارے ٹُوٹ رہے ہیں
خواب ہمارے ٹوٹ رہے ہیں
ثابت ہیں آئینے ⌗ لیکن
عکس ہمارے ٹوٹ رہے ہیں
سارے یار بچھڑ جائیں گے
روز ستارے ٹوٹ رہے ہیں
اپنے بارے میں جب بھی سوچا ہے
اس کا چہرہ نظر میں ابھرا ہے
تجربوں نے یہی بتایا ہے
آدمی شہرتوں کا بھوکا ہے
دیکھیۓ تو ہے کارواں ورنہ
ہر مسافر سفر میں تنہا ہے
مصیبت کی گھڑی ہے اور میں ہوں
عذابِ دوستی ہے اور میں ہوں
مجھے تڑپا رہی ہے وحشتِ جاں
کسی کی دل لگی ہے اور میں ہوں
غضب کی دھوپ میں صحرا نشینی
لبوں پر تشنگی ہے اور میں ہوں
غموں کے بوجھ سے بکھرا پڑا سا لگتا ہے
اے زندگی! تِرا چہرہ بجھا سا لگتا ہے
بکھیرتی ہوں تبسم تو لوگ کہتے ہیں
تمہاری آنکھوں میں آنسو رُکا سا لگتا ہے
جگر پے چوٹ لگے مدتیں ہوئی ہوں گی
مگر یہ زخم ابھی تک ہرا سا لگتا ہے
دکھی تو سب ہی ہیں پر ان میں عزادار کوئی
شجر تو سب ہیں مگر ان میں ثمربار کوئی
میرا بازار تلک جانا کہاں تھا ممکن
تھی یہ آواز؛ کہ آیا سرِ بازار کوئی
میں جو کہتا تھا کہ میں اب نہ سنوں گا کچھ بھی
کرتا کیا، سامنے مانوس تھی گُفتار کوئی
اک شام کی اُداسی کا غم، آسماں کا دُکھ
پھر نیند لے اُڑا ہے وہ پچھلی خزاں کا دکھ
مُدت سے کھوج میں ہوں کبھی تو پتا چلے
مجھ کو کہاں ملا تھا یہ سارے جہاں کا دکھ
سالار کھو گیا ہے مِری فوج کا کہیں
تم کو خبر کہاں ہے مِرے کارواں کا دکھ
یہ ہوا پوچھتی ہے اے مِرے سالار چراغ
کتنے باقی ہیں شہادت کے طلبگار چراغ
دل سے اب عشق کا تابوت برآمد کیا جائے
آ گئے ہیں مِری پلکوں پہ عزادار چراغ
جنگ اب وحشی ہواؤں سے مجھے لڑنی ہے
اس لیے رکھا ہے لشکر کا علمدار چراغ
مسافروں کا یہی اک نشان ملتا ہے
لہو میں بھیگا ہوا اک بادبان ملتا ہے
زمیں گھٹنوں پہ سر رکھے خون روتی ہے
قریب بیٹھا ہوا آسمان ملتا ہے
طلب ہے جس کی وہ اک عمر سے نہیں ملتا
نہیں ہے جس کی طلب، روز آن ملتا ہے
ٹوٹ جائے گی تیغ نفرت کی
آسماں نے اگر حمایت کی
سر ابھارا خزاں کے پہلو سے
شاخ پر کونپلوں نے ہمت کی
نیند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
خواب نے ذہن پر حکومت کی
یونہی فریبِ نظر کی طناب ٹوٹتی ہے
قدم بڑھائیے موجِ سراب ٹوٹتی ہے
جہاں چٹکتا ہے غنچہ زمینِ عالم پر
وہیں پہ تشنگئ آفتاب ٹوٹتی ہے
نقاب اٹھاؤ تو ہر شے کو پاؤ گے سالم
یہ کائنات بطورِ حجاب ٹوٹتی ہے
خواب، خدشے، ستم، بکھرے بکھرے ہیں ہم
کیسے کیسے ہوئے چاہتوں کے کرم
اب تو اپنا بھی ملتا نہیں ہے سراغ
ہجر کی تیرگی میں ہوئے گُم صنم
ہر قدم پر ہیں لاشے تمناؤں کے
کیسے رکھیں یہاں زندگی کا بھرم
جب پھیل کے ویرانوں سے ویرانے ملیں گے
دل کھول کے دیوانوں سے دیوانے ملیں گے
اے کوئے خموشی کی طرف بھاگنے والو
ہر گام پہ افسانے ہی افسانے ملیں گے
زنجیر لیے ہاتھوں میں کچھ سوچ رہے ہیں
زنداں میں بہت ایسے بھی دیوانے ملیں گے
اس کے دل میں تو نہاں جذبۂ ایماں نکلا
جس کو سمجھا تھا میں کافر وہ مسلماں نکلا
اشک کیا چیز ہے، اک آہ نہ منہ سے نکلی
درد بھی دل سے مِرے ہو کے پشیماں نکلا
آرزو، حسرت و ارمان، تمنا تیری
خانۂ دل میں مِرے یہ سر و ساماں نکلا
شوقِ وارفتگی میں دیکھا ہے
آدمی کرچیوں پہ چلتا ہے
اکثر اوقات گر بھی جاتا ہے
چوٹ لگتی ہے، درد ہوتا ہے
دھول اڑتی ہے اردگرد یہاں
حبس رہتا ہے سارے موسم اور
گرد آلود سارے منظر ہیں
زندگی طاقچے پہ رکھی ہے
اک دیا سا یہ جلتا، بجھتا ہے
”اور فضا سوگوار ہوتی ہے“
جب پتنگے کسی تعاقب میں
آگ کے گرد رقص کرتے ہیں
ہیں بظاہر یہ طاقچے روشن
ان چراغوں تلے اداسی ہے
”ایک صحرا ہے سامنے اپنے“
دھول سانسوں میں اڑتی پھرتی ہے
شام کن جنگلوں میں اتری ہے
روشنی تیرگی میں ڈھلتے ہی
روز خوابوں کو ہم جلاتے ہیں
اپنی ہستی مزار لگتی ہے
راکھ بکھری پڑی ہے آنکھوں میں
شوقِ وارفتگی میں چلتے ہیں
ٹھیک سے سانس بھی نہیں ملتی
اور مسلسل سفر میں رہتے ہیں
زندگی تیرا بوجھ ڈھوتے ہیں
ہم کو اجرت میں کچھ نہیں ملتا
ڈور کا اک سِرا ہے ہاتھوں میں
دوسرا ہے کہاں ؟ نہیں کُھلتا
کچھ گھروندے ہیں ریت پر سہمے
باقی مِسمار ہو گئے ہوں گے
نقش سب دھو دیئے ہیں لہروں نے
ہم بھی حصہ رہے تماشے کا
ہم بھی کردار تھے کہانی میں
پھر یہ ساحل پہ کیوں کر آ نکلے
جانے کیا ڈھونڈنا تھا پانی میں
”پانیوں پہ نشاں نہیں رہتے“
سلیم شہزاد
ہمیں اب کوچ کرنا ہے
شفق پھوٹی چھلکتے سات رنگوں سے
کٹورا بھر گیا دن کا
زمیں مٹیالے ہاتھوں کی حرارت تاپنے جاگی
مرے بچے! ہمیں اب لوٹنا ہو گا
گھنے پیڑوں کے سائے میں
وہ بیدار آنکھیں
جنہیں میں جدائی کے رستے
دھڑکتی ہوئی زندگی کا حوالہ بنا کر
خرابی سے لبریزراتوں کو چلتا
تو اجرامِ فلکی مرے واسطے
روشنی کی طرف بھاگتی شاہراہوں کو چنتے
درد تھمتا ہی نہیں سینے میں آرام کے بعد
ہم تو جلتے ہیں چراغوں کی طرح شام کے بعد
بس یہی سوچ کے اکثر میں لرز جاتا ہوں
جانے کیا ہو گا مِرا حشر کے ہنگام کے بعد
عشق کر بیٹھے مگر ہم نے یہ سوچا ہی نہیں
خاک ہو جائیں گے ہم عشق کے انجام کے بعد
سامنے اک کتاب ادھ کھلی اور میں
بے سبب شمع جلتی ہوئی اور میں
بے صدا ایک نغمے کے ہیں منتظر
دف بجاتی ہوئی خامشی، اور میں
وقت کی کوکھ کا بر محل سانحہ
یہ جہاں مضطرب، زندگی اور میں
زباں بندی سے پہلے کچھ انوکھے حادثے بھی ہیں
وفائیں سرنگوں ٹھہریں، جفا میں ولولے بھی ہیں
عجب سی دشمنی اور دوستی کا اک قصیدہ ہے
دلوں میں کچھ قصیدے ہیں، زباں پر رزمیے بھی ہیں
ابھی الجھی ہوئی دانش ہے اپنی خود فریبی میں
ادھورے راستے تو ہیں، سفر میں دائرے بھی ہیں
جس کو دیکھو خواب میں الجھا بیٹھا ہے
اپنے ہی پایاب میں الجھا بیٹھا ہے
آنسو آنسو جس نے دریا پار کیۓ
قطرہ قطرہ آب میں الجھا بیٹھا ہے
بھول کے جوہری اپنے لعل و جواہر کو
شوقِ دُرِ نایاب میں الجھا بیٹھا ہے
زندگی روشنی ہے اور خلا کاٹتی ہے
دونوں ہاتھوں سے لگاتی ہے وہ قوسین کی حد
طیش میں آتے ہی پھر اپنا لکھا کاٹتی ہے
تُو نے اس دشت کا زنداں ابھی دیکھا ہی نہیں
دن کو جلتا ہے بدن، شب کو ہوا کاٹتی ہے
اک دعا کی برکتوں سے
بچ گیا ہوں مشکلوں سے
خواہشِ خود آشنائی
عکس مانگے پتھروں سے
ایک سجدے نے بچایا
در بہ در کی ٹھوکروں سے
اب کے یادوں سے کوئی رات نہ خالی جائے
کیوں نہ صورت کوئی آنکھوں میں بسا لی جائے
کوئی پوچھے جو کبھی حال ہمارا آ کر
اپنی حالت پھر کہاں ہم سے سنبھالی جائے
آنکھ تھکتی ہی نہیں ہے بیدارئ شب سے
نیند کے بعد بھی آنکھوں سے نہ لالی جائے
وہ مِری دنیا کا مالک تھا، مگر میرا نہ تھا
میں نے اس انداز پر پہلے کبھی سوچا نہ تھا
ایک مُدت تک رہا خوش فہمیوں میں مُبتلا
آئینے کے روبرو جب تک مِرا چہرا نہ تھا
تہمتوں کو ایک ایسے اجنبی کی تھی تلاش
جو کبھی گھر سے نکل کر راہ میں ٹھہرا نہ تھا
سوکھ جاتا ہے ہر شجر مجھ میں
کچھ دعائیں ہیں بے اثر مجھ میں
جانتا ہی نہیں ہوں میں اس کو
وہ جو آنے لگا نظر مجھ میں
دھوپ میں دیکھ کر پرندوں کو
اگنے لگتا ہے اک شجر مجھ میں
چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی
وہ ساتھ ساتھ ہے اور بے کلی نہیں جاتی
شبابِ رفتہ پھر آتا نہیں جوانی پر
یہ وہ مکاں ہے کہ جس کو گلی نہیں جاتی
عجیب در بدری میں گزر رہی ہے حیات
کہ اپنے گھر میں بھی اب بے گھری نہیں جاتی
دلوں کو وحشت کی باس تھوڑی نہ ہونے دیں گے
اذیتوں کو لباس تھوڑی نہ ہونے دیں گے
یہ اہلِ دل ہیں یہ دل کی دنیا ہی دیکھتے ہیں
یہ آنکهيں چہرہ شناس تھوڑی نہ ہونے دیں گے
جہاں تو جائے گا تیرے پیچھے ہی آئیں گے ہم
جدا یوں ناخن سے ماس تھوڑی نہ ہونے دیں گے
درمیاں پھر فصیل ہو گئی نا
ہجر کی یہ دلیل ہو گئی نا
تجھ کو آوارگی تھا سمجھایا
ساتھ میرے ذلیل ہو گئی نا
بات تھی مختصر؛ محبت ہے
ہو گئی پھر طویل ہو گئی نا
مرد کہتے ہیں تمام برائیوں کی جڑ ہم ہیں
عورتیں جنگ، جھگڑے، قتل و غارت کا باعث ہیں
ہم جھگڑالو ہیں، ہم تکلیف دہ ہیں
زمیں پر سب بُرائیاں ہم سے ہیں
تو پھر مرد ہمیں حاصل کرنے کے لیے
اتنے بے تاب کیوں ہیں؟
بتاؤں کیسے ہوا ہے نصاب سارا غلط
بس ایک نقطہ غلط تھا حساب سارا غلط
تماشہ گر کی حقیقت نمائیوں پہ نہ جا
سوال سارا صحیح ہے جواب سارا غلط
یہ حکم چیخ رہا ہے کہ مجھے ہوش نہیں
شراب ٹھیک ہے لیکن کباب سارا غلط
فقط یہ کر دو
مرے لیے تم
جو کر سکو تو
فقط یہ کر دو
کہ جو بھی امید ہے وابستہ
وہ توڑ دو تم
سڑک
سڑک مسافت کی عجلتوں میں
گھرے ہوئے سب مسافروں کو
بغور فرصت سے دیکھتی ہے
کسی کے چہرے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے
کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہے
اب تو بِن سانس بھی جینے کی سزا ملتی ہے
کیا یہ کچھ کم ہے کہ کھانے کو ہوا ملتی ہے
دوزخی جس کو قیامت میں بھی کم دیکھیں گے
شہرِ بے داد میں وہ حد بھی روا ملتی ہے
تن یہ زخمی کہ نگاہوں کو بھی تِل دھرنے کو
رونق آباد میں مشکل ہی سے جا ملتی ہے
میں تنگ ہوں نہ میرا خریدار تنگ ہے
دل کے معاملات میں بازار تنگ ہے
اس کی ہنسی سماتی نہیں ہے فریم میں
تصویر کے حساب سے دیوار تنگ ہے
یہ دل کسی کی ماننے والا نہیں میاں
اس بدلحاظ شخص سے ہر یار تنگ ہے
زیست میں غم ہیں ہمسفر پھر بھی
تا اجل کرنا ہے بسر پھر بھی
ٹُوٹی پُھوٹی ہوں چاہے دیواریں
اپنا گھر تو ہے اپنا گھر پھر بھی
چاہے انکار ہم کریں سچ کا
ہووے ہے ذہن پر اثر پھر بھی
ہم اپنے واسطے نیا جہان دیکھتے رہے
زمین چھوڑ کر ہم آسمان دیکھتے رہے
ہمارے ساتھ اجنبی تھا اک سفر میں دوستا
کہ جب چلا گیا وہ ہم نشان دیکھتے رہے
یہ علم تھا کہ جھوٹ ہے مگر وہ شخص کیا کہیں
یوں بولتا رہا کہ ہم رسان دیکھتے رہے