کوئی سائبان تھا، چھٹ گیا تو خبر ہوئی
مِرے سامنے سے وہ ہٹ گیا تو خبر ہوئی
تو بتا بھلا اسے چارہ گر کیوں کہیں جسے
کوئی اپنے آپ سمٹ گیا تو خبر ہوئی
تِرے بد نصیب کو کیا خبر کہ تو مر گیا
کوئی آ کے مجھ سے لپٹ گیا تو خبر ہوئی
کوئی سائبان تھا، چھٹ گیا تو خبر ہوئی
مِرے سامنے سے وہ ہٹ گیا تو خبر ہوئی
تو بتا بھلا اسے چارہ گر کیوں کہیں جسے
کوئی اپنے آپ سمٹ گیا تو خبر ہوئی
تِرے بد نصیب کو کیا خبر کہ تو مر گیا
کوئی آ کے مجھ سے لپٹ گیا تو خبر ہوئی
دسمبر لوٹ آیا ہے
تمہاری یاد لوٹ آئی
مِرے بچو ذرا جنت سے دنیا میں
نظر اک بار دوڑاؤ
تمہاری یاد میں دیکھو
اداسی ہر طرف پھیلی
تم کہتے ہو سب کچھ ہو گا
میں کہتا ہوں کب کچھ ہو گا
بس اس آس پہ عمر گزاری
اب کچھ ہو گا، اب کچھ ہو گا
کچھ بھی نہ ہونے پر یہ عالم
کیا کچھ ہو گا، جب کچھ ہو گا
یہاں سے ہے کہانی رات والی
کہ وہ اک رات تھی برسات والی
کہا تھا جو وہی کر کے دکھایا
وہ برق بے اماں تھی بات والی
بڑی لمبی پلاننگ کر رہی ہے
ہماری زندگی لمحات والی
در کو دیوار کرنے والی تھی
جب وہ انکار کرنے والی تھی
شاہزادی کو تاج لے بیٹھا
ورنہ اقرار کرنے والی تھی
میں بتاتا ہوں، ہم کہاں پر تھے
تُو مجھے پیار کرنے والی تھی
نت نئے دکھ سے پریشان ہوں میں
تُو کہتا ہے کہ رحمان ہوں میں
خود ہی داروغہ، میں خود ہی قیدی
خود ہی احساس کا زندان ہوں میں
خود ہی ملاح، میں خود ہی کشتی
خود ہی بپھرا ہوا طوفان ہوں میں
ہوا شمالی
کسی نے چمنی کے سرخ کوئلوں سے
ایک ہچکی میں جیسے پوچھا
کہاں ہیں وہ خواب؟
کیسی تعبیر نکلی ان کی؟
حقیقتیں تو پہاڑ کی صورت کھڑی ہیں
دل میں کینہ کہاں سے لاتے ہیں
خار راہوں میں جو بچھاتے ہیں
سب کو ایسے ہی جو ستاتے ہیں
بد قماشی نہ چھوڑ پاتے ہیں
ایسے جھگڑوں کو جو بڑھاتے ہیں
اپنی فطرت سے مات کھاتے ہیں
یہ لگتا ہے مکمل ہو گیا ہوں
سبھی کہتے ہیں؛ پاگل ہو گیا ہوں
نظر آنے لگا ہوں خود کو جب سے
تِری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہوں
تمہارے بعد کوئی آ نہ پائے
میں اندر سے مقفل ہو گیا ہوں
اِس ضبطِ بے مثال پہ شاباش دیجیے
مجھ کو مِرے کمال پہ شاباش دیجیے
میرا خیال تھا کہ نبھائے گا عمر بھر
مجھ کو مِرے خیال پہ شاباش دیجیے
بھر ہی گیا ہے زخمِ جدائی بھی دیکھیے
اب مجھ کو اندمال پہ شاباش دیجیے
میں نہ رانجھا نہ مجھے ہیر کا دُکھ
کس پہ کھلتا مِری تحریر کا دکھ
میرے لفظوں میں نمی ہے اپنی
میرے شعروں میں نہیں میر کا دکھ
سانس لیتی ہوئی گردن کی چمک
زنگ لگتی ہوئی شمشیر کا دکھ
لگی ہے آگ جو دل میں بجھائی بھی نہیں جاتی
محبت ایک عرصہ تک چھپائی بھی نہیں جاتی
کبھی غم عمرِ رفتہ کا، کبھی احساسِ تنہائی
سکون سے زندگی اپنی بِتائی بھی نہیں جاتی
امیدیں تھیں مسرت کی، وصالوں کی بہت ہم کو
غمِ دل بھی نہیں جاتا، جدائی بھی نہیں جاتی
پہلے پہلے نہیں لگتی تھی ابھی لگتی ہے
شام ہوتی ہے تو دیوار بڑی لگتی ہے
دن میں سو بار تو کرتا ہوں مکمل خود کو
پھر بھی دیکھو تو کسی شئے کی کمی لگتی ہے
چاہے کچھ دیر سہی لازمی شئے ہے رونق
گھر میں ہر وقت بھی ویرانی بری لگتی ہے
یہ کیسا عیب مِرے شہر کو لگا ہوا ہے
جسے بھی دیکھیے وہ ہی خدا بنا ہوا ہے
یہ جس کے قرب پہ تُو بار بار اترائے
وہ حسن کل ہی مِرے عشق سے رہا ہوا ہے
اسے تو میں نے سکھایا تھا کیسے چلتے ہیں
وہ شخص جو کہ تِرا حوصلہ بنا ہوا ہے
کہاں کی آہ و زاریاں ملال تک نہیں ہوا
دل خراب پائمال یک بہ یک نہیں ہوا
بکھر گئے تھے ٹوٹ کر مگر ہم اس کے بعد ہی
کچھ اس طرح سنبھل گئے کسی کو شک نہیں ہوا
بڑی ہی کربناک تھی وہ پہلی رات ہجر کی
دوبارہ دل میں ایسا درد آج تک نہیں ہوا
رستہ کسی کو ملے اگر درویشی میں
ہو جائے پھر ختم سفر درویشی میں
چھاؤں دیتا، دھوپ اُٹھاتا رستے میں
میں نے دیکھا ایک شجر درویشی میں
بول تکبر والے، دولت، نام و نمود
او درویشا! کچھ تو ڈر درویشی میں
ہیں لمحے لمحے کو ازبر نصاب یادوں کے
میں بُھولتا ہی کہاں ہوں حساب یادوں کے
جہاں سے گُزرا تھا وہ قافلہ بہاروں کا
وہاں پہ بکھرے ہیں اب بھی گُلاب یادوں کے
ہماری آنکھوں میں رہتا ہے ایک ہی موسم
برستے رہتے ہیں ہر دم سحاب یادوں کے
پروین شاکر
وہ جس کے نام کی بکھری نگر نگر خوشبو
ادب سے روٹھ گئی آج وہ مگر خوشبو
ہر ایک رنگ تھا اس کے سخن اجالے میں
دھنک گلاب شفق تتلیوں کے پر خوشبو
اسے قرینہ تھا ہر ایک بات کہنے کا
سماعتوں کے وہ سب کھولتی تھی در خوشبو
میں جانتا ہوں اگر موت درمیان نہ ہو
خدا کے نام کی کعبے میں بھی اذان نہ ہو
اگر یقیں ہو کہ اب بے نشاں نہیں ہونا
کسی جبیں پہ کسی فرض کا نشان نہ ہو
برائے آدمی قائم ہے دفترِ افلاک
جو وہ نہ ہو تو ستاروں کا خاندان نہ ہو
وہ بظاہر جو میرے ساتھ رہا کرتا تھا
درمیاں فاصلہ کوسوں کا رکھا کرتا تھا
اچھا لگتا تھا اسے مجھ کو بُلانا شاید
وہ بہانے سے میرا نام لِیا کرتا تھا
چکھ لیا اس نے زمانے کی ہوا کو آخر
جو محبت کو عبادت بھی کہا کرتا تھا
سننے والوں کو فقط فرضی بیاں لگتا ہے
ہر تِرا بول مِرے دل پہ، یہاں لگتا ہے
اک تِرے بعد کوئی شخص کہیں پر بھی ہو
ہو بھلے ڈھیر حسیں، دل کو کہاں لگتا ہے
بارہا تجھ کو بتایا ہے تِرے بِن مجھ کو
زندگی بوجھ لگے، درد رواں لگتا ہے
وہ اجنبی سہی لگتا ہے آشنا کی طرح
وہ بے وفا جو بظاہر ہے با وفا کی طرح
الٰہی! یہ میرے ہاتھوں میں کیا کرامت ہے
میرے تراشے ہوئے بت لگیں خدا کی طرح
تبھی تو تلخ تجربات ہیں سبق آموز
یہ زہر رکھتے ہیں، تاثیر بھی، دوا کی طرح
اک تیری آواز کے تعاقب میں
ناجانے میں نے کتنے نمبر بدلے
کہ کسی طرح تم میرا فون اٹھاؤ
اور ادھر سے چنچل سی آواز میرے کانوں میں گونجے
اور میں ہواؤں میں اڑنے لگوں
مگر پھر خوشی دم توڑے
جسم و جاں رکھتا ہوں لیکن یہ حوالہ کچھ نہیں
آپ کی نسبت ہے سب کچھ، میرا اپنا کچھ نہیں
عشق جس کوچہ میں رہتا ہے وہ کوچہ ہے بہشت
عقل جس دنیا میں رہتی ہے، وہ دنیا کچھ نہیں
کتنے سادہ لوح تھے اگلے زمانے کے وہ لوگ
کہہ دیا جو دل میں آیا، دل میں رکھا کچھ نہیں
پیروں کے زخم دیکھ کے زنجیر رو پڑی
وہ درد تھا کہ درد کی تفسیر رو پڑی
کمرے میں لڑ رہے تھے سبھی جائیداد پر
دیوار پر لگی ہوئی تصویر رو پڑی
میں نے فقط بتایا کہ آتی نہیں ہے نیند
زار و قطار ہو کے وہ دلگیر رو پڑی
سب جانتی ہوں کرب ہے جو انتظار میں
گزرے ہیں ماہ و سال ہی لمبی قطار میں
خاموش رہ کے ظلم کی حامی نہ بن سکی
شامل ہوں کم سے کم کسی چیخ و پکار میں
ہم آخری گلاب ہیں دنیا کی شاخ پر
ترسیں گے ہم کو لوگ یہ اگلی بہار میں
سال ہر سال اک گنواتے ہیں
اور پھر جشن بھی مناتے ہیں
ایک امید ہم نئی لے کر
پھر سے بُجھتے دیے جلاتے ہیں
پچھلے زخموں کو بھول بھال کے پھر
زخم خود کو نیا لگاتے ہیں
تیرے بن میرا جیون فسانہ سا ہے
یہ نیا سال کتنا پرانا سا ہے
بے زمیں کو زمیں کھا رہی ہے یہاں
بے نشاں ہی تو اس کا نشانہ سا ہے
غار کے دور میں جی رہے ہیں ابھی
یہ زمانہ تو پہلا زمانہ سا ہے
اے شعاعِ سحرِ تازہ نئے سال کی ضَو
میرے سینے میں بھڑکتی ہے ابھی درد کی لَو
میری آنکھوں میں شکستہ ہیں ابھی رات کے خواب
میرے دل پر ہے ابھی شعلۂ غم کا پرتَو
جا بجا زخم تمنا کے مِری خاک میں ہیں
کیا ابھی اور بھی ناوک کفِ افلاک میں ہیں
چہرے کے خد و خال میں آئینے جڑے ہیں
ہم عمر گریزاں کے مقابل میں کھڑے ہیں
ہر سال نیا سال ہے،۔ ہر سال گیا سال
ہم اڑتے ہوئے لمحوں کی چوکھٹ پہ پڑے ہیں
دیکھا ہے یہ پرچھائیں کی دنیا میں کہ اکثر
اپنے قد و قامت سے بھی کچھ لوگ بڑے ہیں
جو میں نے سنی تھی سنی شور نے بھی
کہانی سنائی کسی اور نے بھی
وہ جاتے سمے دے گیا کچھ دلاسے
مِرے دکھ کو سمجھا کسی چور نے بھی
ہے انسانیت بھی برابر کی شامل
تماشا لگایا ہےکچھ غور نے بھی
تیری وفا کا ہم کو گماں اس قدر ہوا
آیا نظر نہ کچھ بھی دھواں اس قدر ہوا
مل کر بھی ہم تو مل نہیں پائے کسی طرح
دنیا کا ظلم ہم پہ جواں اس قدر ہوا
گھبرا کے دشمنوں کو گلے سے لگا لیا
اپنے ہی دوستوں سے زیاں اس قدر ہوا
نسلِ انساں میں محبت کی کمی آج بھی ہے
اور ازل سے جو ملی کم نظرِی آج بھی ہے
جھکتی ہے اس کی طرف اب بھی عیارِ انصاف
وہ کہ ہر جرم سے پہلے تھا بری آج بھی ہے
یوں تو پہلے سے نہیں اس سے مراسم پھر بھی
وہ جو ہم رشتگی پہلے تھی کبھی، آج بھی ہے
اور کچھ اس کے سوا اہل نظر جانتے ہیں
پگڑیاں اپنی بچانے کا ہنر جانتے ہیں
اک ستارے کو ضیا بار دکھانے کے لیے
وہ بجھائیں گے سبھی شمس و قمر جانتے ہیں
خواب میں دیکھتے ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی کھلی
دور ہو جائے گا اب شہر سے ڈر جانتے ہیں
ہمیں میں تھا کہیں کچھ رائیگاں ہونے پہ آمادہ
سُلگ کر اندر اندر ہی دھواں ہونے پہ آمادہ
اِدھر سینے میں صحرا نے ٹھہر جانے کی ٹھانی ہے
اُدھر آنکھوں میں اک دریا رواں ہونے پہ آمادہ
جسے بھی دیکھیے اک خوف کے عالم میں لگتا ہے
زباں ہوتے ہوئے بھی بے زباں ہونے پہ آمادہ
زندگی کے سینے پر پڑا پتھر ہٹ جائے گا
وقت کٹ جائے گا
طاق نسیاں پر تیرے نام کے حرف مٹ جائیں گے
حرف مٹ جانے سے
یاد ہٹ جائے گی
کال کٹ جائے گی
کب تم سے ملنا ہے
کب تم سے بچھڑنا ہے
کب ہجر میں جلنا ہے
کب وصل اترنا ہے
کب راہ پہ چلنے کا
کوئی اذن اترنا ہے
یہ میرا پاکستان
یہ آپ کا پاکستان
یہ ہم سب کے
قائد کا پاکستان
ہمیشہ رہنے کے لیے بنا تھا
اسے زندہ رہنا تھا
تشکیک کی چھلنی میں مجھے چھان رہا ہے
اک شخص بڑی دیر سے پہچان رہا ہے
کیا جانیے کس شے نے اسے کر دیا محتاط
دل عقل پہ اس بار نگہبان رہا ہے
کیا جانیے، ہے عشق میں کون سی منزل
اس بار بچھڑنا بہت آسان رہا ہے
سازِ حیات، قید و سلاسل کہیں کسے
جب دل ہی بجھ گیا ہو تو پھر دل کہیں کسے
رُودادِ غم طویل تو اتنی نہیں، مگر
کوئی کہاں ہے مدِ مقابل، کہیں کسے
بچتے بچاتے موجِ حوادث سے آ کے ہم
ساحل پہ ڈوب جائیں تو ساحل کہیں کسے
پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے
میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے
یہ کیوں کہا کے تجھے مجھ سے پیار ہو جائے
تڑپ اُٹھا ہوں تیرے حق میں بد دعا کر کے
میں جُوتیوں میں بھی بیٹھا ہوں پورے مان کے ساتھ
کسی نے مجھ کو بُلایا ہے، التجا کر کے
بہت دنوں سے تجھ سے بات نہیں ہوئی
بہت دنوں سے خاموشی ہے
کسی آواز کی دمک
نہ اب فون کی دوسری جانب سے
سماعت کی گھپ اندھیر وادی میں اترتی ہے
نہ ہونٹوں کے مقابل کوئی پھول آتا ہے
مجھے شعور بھی خواہش کا داغ لگنے لگا
جہاں بھی دل کو لگایا، دماغ لگنے لگا
تلاش اتنا کیا روشنی کو جنگل میں
تھکن کے بعد اندھیرا چراغ لگنے لگا
کمال درجہ کی شفافیت تھی آنکھوں میں
خود اپنا عکس مجھے ان میں داغ لگنے لگا
ہماری آنکھوں نے خواب دیکھے کسے بتائیں
وہ حسرتوں کے سراب دیکھے کسے بتائیں
خزاں نے اب کے وہ کھیل کھیلا کہ باغ اُجڑا
شجر شجر نے عذاب دیکھے کسے بتائیں
وہ سارا گلشن جلا کے خوشیاں منا رہے تھے
کچھ ایسے خانہ خراب دیکھے کسے بتائیں
شدت بہار کی بھی گوارا نہیں مجھے
پھولوں کے توڑنے کا بھی یارا نہیں مجھے
موجوں سے کھیلتا ہوں ارادوں کا دور ہے
موجوں میں آرزوئے کنارہ نہیں مجھے
میں گر پڑا تھا راہ میں چلتے ہوئے مگر
پھر بھی تو دوستوں نے پکارا نہیں مجھے
اپنے چہرے پہ ہی چہرہ نیا بنواؤں گا
جیسا تُو چاہے گا ویسا ہی نظر آؤں گا
میں شجر ہوں تیرے ہونے سے ہی سرسبز ہوں میں
تجھ سے بچھڑوں گا تو اک دن میں اُجڑ جاؤں گا
روزِ محشر مجھے خالق نے اگر مہلت دی
اِک غزل تجھ پہ تقی میر سے لکھواؤں گا
بہت ہی خاص ہو کر وہ
سمجھتا ہے
بہت ہی عام سا خود کو
اک زمانے کی پہنچ سے دور ہو کر بھی
میسر ہے زمانے کو
مگر شاید
برسوں ساتھ چلتے رہے ہیں میں اور میری تنہائی
ایک ہی آگ میں جلتے رہے، میں اور میری تنہائی
میں اور میری تنہائی جیسے یک جان دو قالب
ساتھ جیتے مرتے رہے ہیں، میں اور میری تنہائی
ساری عمر مشقت کاٹی پھل نہ کوئی پایا پھر بھی
خالی ہاتھ ملتے رہے ہیں، میں اور میری تنہائی
سو گئے تھک کے غمِ زِیست کے مارے ہوئے لوگ
لوگ کہتے ہیں کہ؛ اللہ کو پیارے ہوئے لوگ
کیوں نہ وحشت زدہ ہوں صبح کی تارِیکی سے
رات بھر محفلِ جاناں گزارے ہوئے لوگ
نوعِ انساں پہ مسلط ہیں جدھر بھی دیکھو
جانے کِن جُھوٹے خداؤں کے اتارے ہوئے لوگ
بنے ہوؤں کو بنا کر دوبارہ اس نے دیا
خدا نے چاک گھمایا تو گارا اس نے دیا
بلندیوں سے بھی کافی بلند ہے وہ مگر
گِرے پڑوں کو ہمیشہ سہارا اس نے دیا
زمیں ڈراتی رہی اور لوگ ڈرتے رہے
پھر ایک غار سے اک دن اشارہ اس نے دیا
آبِ رواں ہوں راستہ کیوں نہ ڈھونڈ لوں
میں تیرے انتظار میں کب تک رکا رہوں
تاریکیاں محیط ہیں ہر انجمن پہ آج
لازم نہیں کہ میں تِری محفل میں ہی جلوں
گھبرا رہا ہے جی مِرا تن کے مکان میں
مجبوریوں کے سائے میں کب تک پڑا رہوں
Something missing
میں اس کی زندگی کا
درمیان والا صفحہ ہوں
جس کے بغیر ادھوری ہو
کہانی اس کی
جس کی کمی محسوس کر کے
یار کب ہے ثبات دنیا کو
چھوڑ سب مار لات دنیا کو
پھر کوئی منچلا روانی میں
کہہ گیا کائنات دنیا کو
اتنی رسوائیوں کے بعد بھلا
کون پکڑائے ہات دنیا کو
لگا کر عمر جو پایا گیا ہے
میرا وہ خوابی سرمایہ گیا ہے
ہمارے گھر کی بربادی میں ویسی
تمہارا ہاتھ بھی پایا گیا ہے
میں اس لشکر کا فوجی ہی نہیں تھا
زبردستی مجھے لایا گیا ہے
اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے
تاریخ لکھے گی نئے باب اور طرح کے
اب اٹھیں گے ذہنوں میں سوال اور قسم کے
اور آئیں گے ہونٹوں پہ جواب اور طرح کے
آئے گی بہاروں کی ہوا خوں کی بُو لیے
مہکیں گے گلستاں میں گلاب اور طرح کے
جانے کیوں فقر کے رستے مرے گھر تک آئے
ان کو جانا تو وہ میزان گہر تک آئے
کوئے دمساز سے نکلے تو نگوں سر نہ ہوئے
واں سے لوٹے تھے جو پتھر، مرے گھر تک آئے
کتنے پتوں نے ہواؤں سے لڑی جنگِ ہنر
کتنی مشکل سے ثمر ان کے شجر تک آئے
آج خوشبو کی شاعرہ کا یوم وفات ہے
گیلے بالوں سے چھنتا سورج
شوخ کرن نے
گیلے ریشم بالوں کو جس لمحہ چُھوا
بے ساختہ ہنس دی
پلکوں تک آتے آتے
سورج کی ہنسی بھی
ہر شے سے بیگانہ اچھا
لوگو! میں دیوانہ اچھا
ہم سب پر جو بیت چکی ہے
اس کا بھول ہی جانا اچھا
جس ماحول میں ہم زندہ ہیں
اس سے تو مر جانا اچھا
دل میں کم کم ملال تو رکھیے
نسبتِ ماہ و سال تو رکھیے
آپ کو اپنی تمکنت کی قسم
کچھ لحاظِ جمال تو رکھیے
صبر تو آنے دیجیے دل کو
اپنا پانا محال تو رکھیے
آج منیر نیازی جی کا یوم وفات ہے
اپنی ہی تیغِ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
وہ ہوا تھی شام ہی سے رستے خالی ہو گئے
وہ گھٹا برسی کے سارا شہر جل تھل ہو گیا
میں اکیلا اور سفر کی شام رنگوں میں ڈھلی
پھر یہ منظر میری آنکھوں سے بھی اوجھل ہو گیا
رات بھر جینے سے کیا شمع شبستاں کی طرح
ایک لمحہ ہے بہت شعلۂ رقصاں کی طرح
دل کے زخموں پہ بھی پھولوں کا گماں ہوتا ہے
یاد آئی ہے تِری موجِ بہاراں کی طرح
کیوں ہو خاموش رفیقانِ چمن کچھ تو کہو
صبحِ گلشن بھی نہ گزرے شبِ زنداں کی طرح
شب یلدا
جو تم کہو تو
گزشتہ شب
سال بھر میں طویل تر تھی
گر میں کہوں تو
ہر شب ہی طویل تر ہے
منقبت امام حسین
دل کو خوں رلاتی ہے آج بھی یاد حسینؑ کی
اک پیام لاتی ہے آج بھی یاد حسین کی
ولولوں کا نام ہے،۔ درد کی نوید ہے
روشنی دکھاتی ہے آج بھی یاد حسین کی
آنسوؤں کی بارش ہو، رتجگے کی خواہش ہو
بزم کو سجاتی ہے آج بھی یاد حسین کی
نوکِ سِناں پہ عشق ادا کر رہا تھا میں
دشتِ بُتاں میں حمد و ثنا کر رہا تھا میں
نازل ہوئی ہے مجھ پہ قیامت ابھی ابھی
اک شخص تھا کہ جس کو خدا کر رہا تھا میں
نادم ہوں، اے عظیم خدا! مجھ کو بخش دے
اب تک تِری نماز قضا کر رہا تھا میں
انصاف
گر ظلم ہے کوئی وہ مٹا کیوں نہیں دیتے
ظالم کی یوں تم نیند اڑا کیوں نہیں دیتے
تجھ میں ہے اگر جوش دکھا کیوں نہیں دیتے
یہ طوق غلامی کا جلا کیوں نہیں دیتے
قاتل کو جو تم اس کی سزا کیوں نہیں دیتے
مقتول کو انصاف دلا کیوں نہیں دیتے
بھر گئی فرقہ پرستوں سے یہ دنیا کیسے
رام رحمان میں ہونے لگا جھگڑا کیسے
ہیر پر کچھ نہیں تیشے پہ سوال اٹھے گا
عشق میں مر گیا رانجھا کوئی پیاسا کیسے
میرے بھائی نے جلا ڈالا ہے اب کے مجھ کو
چاہِ کنعاں سے مِرا نکلے گا کپڑا کیسے
میں حاضر ہوں
اے ارضِ وطن
میں حاضر ہوں
دل حاضر ہے
سر حاضر ہے
میرا کل اثاثہ
پانچویں دیوار
ہر کمرے کی
ہوتی ہیں دیواریں چار
لیکن اس کمرے کی
دیواریں تھیں پانچ
چار پتھر کی، پانچویں
فقیہہِ شہر سے احوالِ عاشقاں پوچھیں
صلیبِ شاخ پہ لرزاں کوئی گلو ہی نہیں
کسی کا چاک گریباں، کوئی دریدہ بدن
مگر کسی کو ہے اب حاجتِ رفو ہی نہیں
نہ غمگسار، نہ ناصح، نہ آشنا کوئی
کلام کس سے کریں کوئی روبرو ہی نہیں
ہم کسی اور کے جنگل سے نہیں آئے ہیں
اسی مٹی کے ہیں، بادل سے نہیں آئے ہیں
ہیں صدی بعد صدی اپنے لہو میں قائم
کسی ہیجان زدہ پل سے نہیں آئے ہیں
ریت میں، نہر میں، میدان میں، جنگل میں شریک
ہم کسی موسمی ہلچل سے نہیں آئے ہیں
دھندلکے غنیمت ہیں
مشہد دل میں، ضبط کے سینے پر دھری
صبر کی دبیز سِل ٹوٹ چکی ہے
ہجر کی قافیہ پیمائی
مجھ سے عاجز ہوتی جا رہی ہے
کہ میں؛ حجلۂ جاں سے اٹھتی ہُوک کو
کلی کی خندہ لبی گل کی مشقِ سینہ دری
تمام حُسنِ فسوں کار کی کرشمہ گری
قبائے سبز ملی ہے حنا کی سُرخی کو
بیاضِ لالہ کو بخشی گئی حنا جگری
ہے گُل کے عارضِ رنگیں پہ قطرۂ شبنم
جبینِ صبح پہ جیسے ستارۂ سحری
الفاظ کے بدن کو لباس خیال دے
حرفِ نوا کو پیکر معنی میں ڈھال دے
دشواریٔ حیات کو دشوار تر بنا
جس کا جواب بن نہ پڑے وہ سوال دے
سرمستیوں کی موج میں لہرا کے جھوم جا
اٹھ اور ایک جام فضا میں اچھال دے
بہ ہر طریق اسے مسمار کرتے رہنا ہے
کبھی سخن تو کبھی وار کرتے رہنا ہے
دروں کے واسطے دیوار چاہیے جاناں
سو فرش خواب کو دیوار کرتے رہنا ہے
سحر کے معرکۂ نیک و بد سے کیا مطلب
ہمارا کام تو بیدار کرتے رہنا ہے
یہ روحانی ہے چاہے جینیاتی مسئلہ ہے
مِرے دشمن کا غم بھی میرا ذاتی مسئلہ ہے
یہ روحانی نہیں ہے، جینیاتی مسئلہ ہے
مِرے دشمن کا غم بھی میرا ذاتی مسئلہ ہے
اگر زندہ ہوں پھر جینے کا حق بھی چاہتا ہوں
مِرا اے زندگی بس یک نکاتی مسئلہ ہے
زندگی کو نہ اب سزا دو تم
ایک بار کھُل کے مسکرا دو تم
گاہے گاہے مِری محبت میں
اپنی ہستی کو بھی بھُلا دو تم
اس جہاں میں تو اب نہیں بنتی
ایک دنیا نئی بسا دو تم
وہ یہ کہہ رہے ہیں ہم سے، نئی محفلیں سجاؤ
انہیں کیا خبر؟ ہیں تازہ مرے درد کے الاؤ
مِرا دل اٹھا سکے گا نہ امید کی کِرن بھی
مِری شامِ غم میں لوگو! نہ چراغ تم جلاؤ
مِرے حال پر رفیقو! نہ دوا کی فکر کیجو
مجھے وحشتِ جنوں ہے، کوئی سنگ آزماؤ
دکھ سے بھر گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں
خود سے ڈر گیا ہو میں، میں بہت عجیب ہوں
تیرا نام بار ہا لب پہ آ رہا ہے کیوں
کیوں سنور گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں
کیا مہیب ہو گئی شوق کی تمام راہ
لو اتر گیا ہوں میں، میں بہت عجیب ہوں
یہ میں جو خود سے باہر بہہ رہا ہوں
نئے رستے بنا کر بہہ رہا ہے
کسی نے پاؤں کیا مجھ میں بھگوئے
خوشی میں پُل سے اوپر بہہ رہا ہوں
شکایت تھی تجھے اے دیدۂ تر
لے اب تیرے برابر بہہ رہا ہوں
نگر حادثہ ہے ڈگر حادثہ ہے
یہاں زندگی کا سفر حادثہ ہے
سمجھ لو وبا کے دنوں کی کہانی
اِدھر حادثہ ہے، اُدھر حادثہ ہے
رہو گھر میں اپنے حفاظت سے اب تم
کہ ہر اک یہاں رہ گزر حادثہ ہے
اٹھا لیں پگڑیاں سب شاہ اپنی
وہ اپنی رہ چلیں ہمراہ اپنی
فلک کے پار پہنچی آہ اپنی
تم اپنے پاس رکھو واہ اپنی
نتیجہ دیکھنے سے پیشتر ہی
زبانیں کاٹ لیں بد خواہ اپنی
پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
حُسن نے خود کہا مصور سے
پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا
پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی
لاکھ دجلے بنا، فرات بنا
چھاؤں پیتی ہے، دھوپ کھاتی ہے
شب سدا کی چڑیل جاتی ہے
اک ستارے پہ آن بیٹھے ہیں
ہاتھ میں چاند کی چپاتی ہے
اور کچھ ہو نہ ہو زمانے میں
ایک دائم سی بے ثباتی ہے
قصۂ زیست مختصر کرتے
کچھ تو اپنی سی چارہ گر کرتے
موت کی نیند سو گئے بیمار
روز کس شام کو سحر کرتے
سچ ہے ہر نالہ کیوں رسا ہوتا
میرے نالے تھے کیوں اثر کرتے
مرحلہ رات کا جب آئے گا
جسم سائے کو ترس جائے گا
چل پڑی رسم جو کج فہمی کی
بات کیا پھر کوئی کر پائے گا
سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں
لفظ مفہوم سے کترائے گا
لفظوں کے ہیر پھیر کے پیچھے نہیں گئے
دل بُجھ گیا تو شعر کے پیچھے نہیں گئے
عجلت پسند لوگ تھے عجلت میں سب کیا
جلدی میں تھے سو دیر کے پیچھے نہیں گئے
پیچھا نہیں کیا کسی صحرا سرشت کا
ہم زندگی کو گھیر کے، پیچھے نہیں گئے
کیا غم جو فلک سے کوئی اترا نہ سر خاک
جز خاک نہیں کوئی یہاں چارہ گر خاک
ملتی ہے شرابوں کی جگہ گرد بیاباں
میخانے کو جاتے ہیں تو کھلتا ہے در خاک
صحرا کو گلستان بڑے شوق سے کہہ لو
یعنی شجر خاک سے توڑو ثمر خاک
میں آئینہ ہوں وہ میرا خیال رکھتی تھی
میں ٹوٹتا تھا تو چُن کر سنبھال رکھتی تھی
ہر ایک مسئلے کا حل نکال رکھتی تھی
ذہین تھی مجھے حیرت میں ڈال رکھتی تھی
میں جب بھی ترکِ تعلق کی بات کرتا تھا
وہ روکتی تھی مجھے کل پہ ٹال رکھتی تھی
عین منزل پہ آ کے کہوں کیا کہ یہ راستا اور ہے
ہم غلط آ گئے ہیں یہاں یا خدا کا پتا اور ہے؟
اب ہوس ہی نہیں عاشقی کی بھی معیاد کم ہے ذرا
دیکھ لو دعویداروں کی فہرستِ خوش کن میں کیا اور ہے
ہم سے یہ کوہِ وحشت ہو سر تو غمِ خیر و شر بھی کریں
یوں بھی اپنے لیے اب حسابِ سزا و جزا اور ہے
پہلے پہلے شوہر کو ہر موسم بھیگا لگتا ہے
یوں سمجھو بلی کے بھاگوں ٹوٹا چھیکا لگتا ہے
پھیکا لنچ اور ڈنر بھی عمدہ اور تیکھا لگتا ہے
نقلی تیل میں تلا سموسہ اصلی گھی کا لگتا ہے
شادی ایک چیونگم ہے جو پہلے میٹھا لگتا ہے
پھر منہ میں جتنا گھولو گے اتنا پھیکا لگتا ہے
خواب دے کے، آنکھوں سے نیند ہی چرا لی ہے
دل میں بسنے والوں کی یہ ادا نرالی ہے
کھنکھنا کے کرتے ہیں اس کا وہ سواگت یوں
ہاتھ کے جو کنگن ہیں، کان میں جو بالی ہے
پھول رنگ اور خوشبو راستے میں بکھرے ہیں
منتظر چراغوں کی در پہ ایک تھالی ہے
بچھڑ چکے ہیں
سو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں
فقط دکھاوا ہیں سرد آہیں
جو آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی
وہ بجھ چکی ہے
اکھڑ چکا ہے وہ سانس جس سے
جب زندگی سکون سے محروم ہو گئی
ان کی نگاہ اور بھی معصوم ہو گئی
حالات نے کسی سے جدا کر دیا مجھے
اب زندگی سے زندگی محروم ہو گئی
قلب و ضمیر بے حس و بے جان ہو گئے
دنیا خلوص و درد سے محروم ہو گئی
گزرا شباب دل کو لگانے کے دن گئے
جشنِ نیاز و ناز منانے کے دن گئے
خوف خدا نے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
کوئے بتاں میں ٹھوکریں کھانے کے دن گئے
نظروں کو تاک جھانک کی عادت نہیں رہی
بے اختیار جلوے چرانے کے دن گئے
ہم نے پھولوں کو جو دیکھا لب و رخسار کے بعد
پھول دیکھے نہ گئے حسنِ رخِ یار کے بعد
کام نظروں سے لیا ابروئے خمدار کے بعد
تیر مارے مجھے اس شوخ نے تلوار کے بعد
جس پہ ہو جائیں فدا کوئی بھی ایسا نہ ملا
سیکڑوں دیکھے حسیں آپ کے دیدار کے بعد
تمہارے لوٹ جانے کے بعد
میرے پاس بہت سی چیزیں جمع ہونے لگی ہیں
بے وجہ دوڑتے بھاگتے دن
بے سُود رینگتی راتیں
اور رائیگاں جاتی سُرمئی شامیں
میرے ہاتھ سے کھوئی گئی مسکراہٹ
پڑھ کے دو چار کیا کتاب آئے
اُن کے حصے میں دس خطاب آئے
میرے لب پر سوال کیا آیا
جو جواب آئے، لا جواب آئے
اک تصوّر میں کٹ گئیں راتیں
نیند آئی، نہ کوئی خواب آئے
ایسے عالم میں گزاری کہ گزاری نہ گئی
زندگی ہم سے کسی طور سنواری نہ گئی
جب کسی بزمِ طربناک میں جانا چاہا
خلعت رنج و الم تن سے اتاری نہ گئی
تم مجھے چھوڑ گئے ہو تو تمہاری مرضی
ہاں مگر دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی
رہی جبیں نہ رہا سنگِ آستاں باقی
جنوں کی آگ بُجھی رہ گیا دُھواں باقی
میں کس کو حالِ پریشاں سناؤں کون سنے
کہاں ہے شہر میں اب کوئی ہمزباں باقی
یہ ساعتیں ہیں غنیمت گزار لیں ہمراہ
نہ پھر زمین نہ ہو گا یہ آسماں باقی
غور سے قافلہ سالار کو دیکھا میں نے
اس کے چہرے پہ لکھی ہار کو دیکھا میں نے
ریت پڑنے لگی اڑ اڑ کے مِری آنکھوں میں
جب تِرے بھیگتے رخسار کو دیکھا میں نے
پہلے دیکھا کسی ناراض مسیحا کی طرف
بارہا پھر دلِ بیمار کو دیکھا میں نے
تِری یادوں کی چادر اوڑھ لیتی ہوں
میں تنہا تو نہیں جاناں
مگر جب بھی پرندوں کو کبھی اُڑتے ہوئے دیکھوں
کبھی تتلی کو پُھولوں کے لبوں کو چُومتے دیکھوں
ہواؤں پر کبھی بادل کے گورے سے ہیولوں کو
اچانک جُھولتے دیکھوں
اے شجرِ غنودگی، نیند مجھے بھی آ نہ جائے
میرے غیاب میں کہیں دھوپ وہ جگمگا نہ جائے
سب یہ ستارہ و سبُو، سلسلہ ہائے کاخ و کُو
بارِ تجلیات سے خاک میں ہی سما نہ جائے
اے نگہِ نشانہ جُو، آج ہوں اپنے رُوبرُو
وار کوئی غلط نہ ہو، تِیر کوئی خطا نہ جائے
دعائیں دو کہ جب بچے بڑے ہوں
تو ان کی سوچ اور سپنے بڑے ہوں
کسی دن کم پڑے جو دن کی وحشت
تو دشتِ شب کے اندیشے بڑے ہوں
ضروری تو نہیں اس کی نظر میں
جو مہنگے ہوں وہی تحفے بڑے ہوں
چیت کی راتیں یاد کرو
نکھرا تھا جب چاند کا چہرہ
بِکھرا تھا کرنوں کا صحرا
گائے تھے جب گیت ہوا نے
آئے تھے تم نیند چرانے
بُھولی باتیں یاد کرو
اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو
مجھ سے بکھرے ہوئے گیسو نہیں دیکھے جاتے
سرخ آنکھوں کی قسم کانپتی پلکوں کی قسم
تھرتھراتے ہوئے آنسو نہیں دیکھے جاتے
اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو
چھوٹ جانے دو جو دامان وفا چھوٹ گیا
اجنبیت
عجیب شکل سے ٹوٹے ہیں سلسلے دل کے
کہ اپنا گھر بھی مجھے اجنبی سا لگتا ہے
نہ کوئی خواب یہاں مشترک
نہ تعبیریں
خیالِ خام کی تاویل خوب ہوتی ہے
لہو میں ہر گھڑی پھیلی یہ وحشت مار ڈالے گی
مجھے حساس ہونے کی اذیت مار ڈالے گی
کسی کی جان لے لے گا فقط اپنے لیے جینا
کسی کو جاں نثاری کی یہ روایت مار ڈالے گی
اگر خاموش رہتا ہوں،۔ خدا ناراض ہوتا ہے
اگر اظہار کرتا ہوں تو خلقت مار ڈالے گی
وہ نہ پہچانے یہ خدشہ سا لگتا رہتا ہے
رخ پہ اس کے نیا چہرہ سا لگا رہتا ہے
اپنے گھر میں بھی تو ہے چین سے سونا مشکل
چھت نہ گر جائے یہ کھٹکا سا لگا رہتا ہے
وہ زمیں خاک اُگائے گی عداوت کے سوا
پیار پر جس جگہ پہرہ سا لگا رہتا ہے
کبھی ہنس کر کبھی رو کر، تماشا دیکھتے جاؤ
مکمل طور پر کھو کر، تماشا دیکھتے جاؤ
کبھی تحسیں، کبھی تنقیص و تنقید اداکاراں
کبھی تم نیوٹرل ہو کر، تماشا دیکھتے جاؤ
کبھی ہیرو بنا ویلن،۔ کبھی ویلن بنا ہیرو
کبھی کردار خود ہو کر تماشا دیکھتے جاؤ
دکھ درد مِرے پاس بھی جوہر کی طرح ہیں
ظلمت میں وہ قندیل منور کی طرح ہیں
فٹ پاتھ پہ راتوں کو مزہ ملتا ہے گھر کا
ہم دن کے اجالے میں تو بے گھر کی طرح ہیں
ٹھہرے ہیں مگر آگے ہے چلنے کا ارادہ
ہم لوگ یہاں میل کے پتھر کی طرح ہیں
خواب سے ہوتا ہے پھر پار مِری زلف کا خم
اس کو یوں رکھتا ہے بیدار مری زلف کا خم
مضطرب کرنے کو پر تول رہی ہے مری آنکھ
دل میں کُھبنے کو ہے تیار مری زلف کا خم
ایک بادل ہے مِرے سر پہ ضیا باری کا
اور اک نشے سے سرشار مری زلف کا خم
دور کرنے کو تِری زلف کا خم اتریں گے
آسمانوں کے ستارے کوئی دم اتریں گے
حوصلہ اور ذرا حوصلہ اے سنگ بدست
وقت آئے گا تو خود شاخ سے ہم اتریں گے
ایک امید پہ تعمیر کیا ہے گھر کو
اس کے آنگن میں کبھی تیرے قدم اتریں گے
ستم ستم ہی رہیں گے، کرم نہیں ہوں گے
غزل میں ہم سے قصیدے رقم نہیں ہوں گے
تھے اپنے ساتھ خرد نام کے بزرگ کوئی
خدا کا شکر کہ اب محترم نہیں ہوں گے
تمہارے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی قسم
بچھڑ گئے تو کسی کے بھی ہم نہیں ہوں گے
کھلی ہے راہِ ملاقات اب بھی آ جاؤ
کوئی نہیں ہے مِرے ساتھ اب بھی آ جاؤ
یہ اور بات کہ ساحل سے ناؤ چھوٹ چکی
بڑھا ہوا ہے مِرا ہاتھ، اب بھی آ جاؤ
بہت جواں ہے ابھی شہرِ انتظار کا چاند
بہت حسیں ہے ابھی رات اب بھی آ جاؤ
مل جل کے برہنہ جسے دنیا نے کیا ہے
اس درد نے اب میرا بدن اوڑھ لیا ہے
میں ریت کے دریا پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
اس شہر میں پانی تو یزیدوں نے پیا ہے
اے گورکنو! قبر کا دے کر مجھے دھوکا
تم نے تو خلاؤں میں مجھے گاڑ دیا ہے
ہم تم کو بتاتے ہیں پوچھو نہ زمانے سے
کچھ لفظ نہیں مٹتے سو بار مٹانے سے
مُدت سے اُداسی تھی مایوس تھے گُل بُوٹے
گُلشن میں بہار آئی بس آپ کے آنے سے
ہوتی ہے ہنسی کیسی ہم بُھول چکے لیکن
لیتے ہیں مزہ اب بھی وہ دل کو دُکھانے سے
بدلے گی کائنات مِری بات مان لو
مجھ سے ملاؤ ہات مری بات مان لو
ہم سے قدم ملا کے چلو گے تو دیکھنا
سر ہوں گے شش جہات مری بات مان لو
بگڑی ہوئی جو بات بڑی مدتوں سے ہے
بن جائے گی وہ بات مری بات مان لو
شعورِ زیست سہی اعتبار کرنا بھی
عجب تماشا ہے لیل و نہار کرنا بھی
حدیثِ غم کی طوالت گراں سہی لیکن
کسی کے بس میں نہیں اختصار کرنا بھی
بنا کے کاغذی گل لوگ یہ سمجھتے ہیں
کہ اک ہنر ہے خزاں کو بہار کرنا بھی
تری آنکھوں سے تیرے درد کو ہم جان لیتے ہیں
چھپانا لاکھ تُو چاہے مگر پہچان لیتے ہیں
محبت کا صلہ ہم تو محبت سے ہی دیتے ہیں
ہم اپنے سر کسی کا بھی نہیں احسان لیتے ہیں
مِرے حالات نے رُخ ایسا بدلا ہے کہ مت پوچھو
جو پہلے جان دیتے تھے وہی اب جان لیتے ہیں
خدا خفا ہے
گُھٹن نہیں ہے، ہے خوف کوئی
جو سانس لینے سے روکتا ہے
جو روکتا ہے سماعتوں کو کسی بھی آہٹ پہ جاگنے سے
سُروں کو سُننے سے روکتا ہے
بصارتوں کو کسی بھی منظر کے دیکھنے سے
کسی نظارے کو ڈھونڈنے سے جو روکتا ہے
مجھے میری ناف سے نیچے دیکھنے والے
میری ناف کے پہلو میں میری کوکھ بھی موجود ہے
جہاں تمہارے جیسی کئی کائناتوں کی
تجسیم کی گنجائش رکھ دی گئی ہے
اور اس سے ذرا اوپر مِرا دل ہے
جہاں عمر بھر کی محبتوں کا اتنا زیادہ بہی کھاتا لکھا جاتا ہے
صحن چمن میں جانا میرا اور فضا میں بکھر جانا
شاخ گل کے ساتھ لچکنا صبا کے ساتھ گزر جانا
زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا
اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا
سورج کی ان آخری مدھم کرنوں کو گن سکتے ہیں
دن کا وہ موتی سا چمکنا پھر پانی میں اتر جانا
بہت زمین بہت آسماں ملیں گے تمہیں
پہ ہم سے خاک کے پتلے کہاں ملیں گے تمہیں
خرید لو ابھی بازار میں نئے ہیں ہم
کہ بعد میں تو بہت ہی گراں ملیں گے تمہیں
اب ابتدائے سفر ہے تو جو ہے کہہ سن لو
ہم اس کے بعد نہ جانے کہاں ملیں گے تمہیں
زیب اس کو یہ آشوب گدائی نہیں دیتا
دل مشورۂ ناصیہ سائی نہیں دیتا
کس دھند کی چادر میں ہے لپٹی کوئی آواز
دستک کے سوا کچھ بھی سنائی نہیں دیتا
ہے تا حد امکاں کوئی بستی نہ بیاباں
آنکھوں میں کوئی خواب دکھائی نہیں دیتا
دور کہیں آکاش میں رہتے چاند سے کھیلا کرتے
کرنوں کی بگھی پہ بیٹھ کے سب جگ گھوما کرتے
دور دراز کے غار میں کوئی چھپا خزانہ ہوتا
ہم دونوں سر جوڑ کے اس کے نقشے سوچا کرتے
باہو کے دربار پہ جاتے "ہُو" کا نعرہ لگاتے
بُلھے کی کوئی کافی گاتے تھیا تھیا کرتے
یاد رکھنے کا بھی وعدہ ہو ضروری تو نہیں
بھول جانے کا ارادہ ہو، ضروری تو نہیں
نام اچھا سا کوئی ہم نے رکھا ہے لکھ کر
دل کا کاغذ ابھی سادہ ہو ضروری تو نہیں
اس تبسم کو مِرے دکھ کی علامت نہ سمجھ
یہ کسی غم کا لبادہ ہو، ضروری تو نہیں
ڈوبتے دل کا یہ منظر دیکھو
کتنے بکھراؤ ہیں اندر دیکھو
آئینہ دیکھ کے جینے والو
دور حاضر کے بھی تیور دیکھو
بجھ گئی ماتھے کی ایک ایک شکن
خالی ہاتھوں کا مقدر دیکھو
ہر ایک راہ سے آگے ہے خواب کی منزل
تِرے حضور سے بڑھ کر غیاب کی منزل
نہیں ہے آپ ہی مقصود اپنا جوہر ذات
کہ آفتاب نہیں آفتاب کی منزل
کچھ ایسا رنج دیا بچپنے کی الفت نے
پھر اس کے بعد نہ آئی شباب کی منزل
آدم ہے نہ حوا ہے زماں ہے نہ زمیں ہے
وہ کون ہے جو کُن میں مگر پردہ نشیں ہے
مانا کہ نہیں ہوں تِرے الطاف کے قابل
تُو پھر بھی مِرے حال سے غافل تو نہیں ہے
بندہ ہوں تِرا غیب پہ ایمان ہے میرا
اوروں کو نہ ہو مجھ کو مگر تیرا یقیں ہے
مجھے تم پر نظم لکھنی چاہیے تھی
جب تمہارے ہاتھ میں کباڑیے سے خریدی گئی
پرانی بائیسکل ہوا کرتی تھی
اور تم میلے میں اپنے پسندیدہ کھلونے خرید نہیں سکے تھے
تمہاری سردی گرمی اس قمیص میں کٹی جس کی جیب نہیں تھی
تم نے اپنے ادھ بھرے پیٹ کو خدا کی جانب سے نعمت سمجھا
کبھی کوزہ، کبھی کاسہ، کبھی ساغر بناتے ہیں
یہ کیسی پیاس کی تسکین کوزہ گر بناتے ہیں
بناتے ہیں سفینے جو سمندر پار کرنے کو
وہی پتوار کے ہمراہ کیوں لنگر بناتے ہیں؟
چلو مانا کے محنت سے مکاں تم ہی بناتے ہو
محبت سے مگر اپنی ہمیں تو گھر بناتے ہیں
اک سانولی کی دید زیارت تھی طور کی
انجیل کی طرح تھی وہ آیتِ زبور کی
تصویر ہو رہی تھی ہر اک رنگ سے تہی
لبریز گوش کرتی صدا ایک دور کی
آنکھوں میں ایک تیز اجالے کا خوف تھا
امڈی ہوئی تھی دل میں گھڑی اک سرور کی
ہجراں پہ گزر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
وحشت کو بسر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
دیوار کو در کہنا تو آسان ہے صاحب
دیوار کو در کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
ہر آنکھ ہے مسحور یہ منظر کا اثر ہے
منظر پہ اثر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
رات سے جاگا شخص
رات ایک عورت کے ساتھ سونا
سو نہ پانا
اس کے ہونٹوں کو چومنا
چوم نہ سکنا
اسے اسی برہنہ حالت میں چھوڑ کے
صرف دن پر ہی یہ الزام نہیں ہے مِرے دوست
مہلتِ شب میں بھی آرام نہیں ہے مرے دوست
عشق کی راہ پہ رہبر کے قدم مل جانا
ایک آغاز ہے، انجام نہیں ہے مرے دوست
چھوڑ کر مجھ کو کسی اور کا ہو جا، لیکن
اتنا آسان بھی یہ کام نہیں ہے مرے دوست
حراس و خوف ملے ثانوی سا ڈر نہ ملے
حریف وہ ہے جس کی آنکھ سے نظر نہ ملے
غزل جو تیرہ زمینوں کا ہے سفر نہ ملے
ہماری جانشیں نسلوں کو یہ حضر نہ ملے
وہ جن کے ایک اشارے پہ اپنے رب سے گئے
سرِ صلیب ہمیں وہ پیامبر نہ ملے
چپ رہوں تو یہ مِرے یار کی حق تلفی ہے
بات کرتا ہوں تو پندار کی حق تلفی ہے
رو تو لوں تیرے گلے لگ کے مِرے دوست مگر
میں سمجھتا ہوں یہ دیوار کی حق تلفی ہے
سہہ تو سکتا ہوں مگر چیختا اس واسطے ہوں
ہنس کے سہنا تِرے آزار کی حق تلفی ہے
درد کی دھوپ بھرے دل کی تمازت لے کر
کیسے جائے کوئی احساس کی ہجرت لے کر
پھر کہاں جائیے؟ اب بیٹھیے ماتم کیجے
دل کے ہاتھوں میں یہ انمول شرافت لے کر
کیا کہیں اب تو نکلنا بھی بہت مشکل ہے
اپنے کاندھے پہ خود اپنی ہی ضمانت لے کر
جہاں جہاں ہیں زمیں پر قدم نشاں اس کے
ہر اس جگہ کو ستارے اتر کے دیکھتے ہیں
ہوا ہے تیز سنبھالے گا ان میں کتنوں کو
شجر کا حوصلہ پتے شجر کے دیکھتے ہیں
اسے بھی شوق ہے کچھ دھجیاں اڑانے کا
کچھ اپنی وسعتیں ہم بھی بکھر کے دیکھتے ہیں
کسی کی ڈھل گئی کیسی جوانی دیکھتے جاؤ
جو تھیں بیگم وہ ہیں بچوں کی نانی دیکھتے جاؤ
ٹنگی ہے جو مِرے ہینگر نما کندھوں پہ میلی سی
مِری شادی کی ہے یہ شیروانی، دیکھتے جاؤ
دکھا کے دسویں نومولود کو مجھ سے وہ یہ بولیں
محبت کی ہے یہ تازہ نشانی دیکھتے جاؤ
بگڑی بات بنانا مشکل بگڑی بات بنائے کون
کنج تمنا ویرانہ ہے آ کر پھول کھلائے کون
تن کی دولت من کی دولت سب خوابوں کی باتیں ہیں
نو من تیل نہ ہو تو گھر میں رادھا کو نچوائے کون
اپنا غم اب خود ہی اٹھا لے ورنہ رسوائی ہو گی
تیرا بھید چھپا کر دل میں ناحق بوجھ اٹھائے کون
اک جوئے شیر سے مفتوح کدھر ہوتی ہے
زلفِ شیریں بڑے خلجان سے سر ہوتی ہے
کب سے بیٹھے ہیں سرِ راہ اثاثہ لے کر
دیکھیے کب کسی رہزن کی نظر ہوتی ہے
مل گئے ہو مجھے رستے میں تو ہنس کر بولو
یہ ملاقات کہاں بارِِ دگر ہوتی ہے
وہ ابر جو مے خوار کی تربت پہ نہ برسے
کہہ دو کہ خدارا کبھی گزرے نہ ادھر سے
اتنا تو ہوا آہِ شبِ غم کے اثر سے
فطرت کا جگر پھوٹ بہا چشمِ سحر سے
امید نے بھی یاس کے مردوں کو پکارا
آئی کوئی آواز نہ دل سے نہ جگر سے
یہ شہر شہر بلا بھی ہے کینہ ساز کے ساتھ
نکل چلو کسی محبوب دل نواز کے ساتھ
یہی نوائے عدم ہے یہی نوازش کن
خوشا حکایت نے حرف نے نواز کے ساتھ
سوئے نگار و سوئے شہر زر نگار چلیں
قلندرانِ ہوسناک و پاک باز کے ساتھ
نغمۂ شوق رنگ میں، تجھ سے جدائی کی گئی
ایک لکیر خون کی، بیچ میں کھینچ دی گئی
تھی جو کبھی سر سخن، میری وہ خامشی گئی
ہائے! کہن سنن کی بات، ہائے وہ بات ہی گئی
شوق کی ایک عمر میں، کیسے بدل سکے گا دل
نبض جنون ہی تو تھی، شہر میں ڈوبتی گئی
بس ایک ہی تو یار تھا، نہیں رہا
وہی سکوں قرار تھا، نہیں رہا
نہیں رہا وہ شخص میرا ہم نشیں
وہ میرا غم گسار تھا، نہیں رہا
جو ڈس گیا ہے گُھس کے آستین میں
اُسی پہ اعتبار تھا، نہیں رہا
شہر میں رہنا لیکن خود کو دشت نورد بھی رکھنا
اپنے اندر زندہ ایک آوارہ گرد بھی رکھنا
جس کے کاندھے پر سر رکھ کر سارا دُکھ بہ جائے
اپنی زیست میں شامل کوئی ایسا فرد بھی رکھنا
جبر، محبت، نفرت، وحشت حصہ ہیں جیون کا
آنکھ کی سرخی قائم رکھنا، لہجہ سرد بھی رکھنا
یہ تیرے ہجر کا موسم سراب جیسا ہے
ہر ایک لمحہ مسلسل عذاب جیسا ہے
لبوں پہ اس کے تبسم کے پھول کھلتے ہیں
وہ ایک چہرہ معطر گلاب جیسا ہے
کسی نے جام اٹھایا, کسی کی زلف کھلی
ہوا کے دوش پہ موسم سحاب جیسا ہے
سستا خرید لو, کبھی مہنگا خرید لو
میلہ لگا ہے، مرضی کا سودا خرید لو
رستہ تمہیں نہ دے گی یہ تنہائیوں کی بھیڑ
اک ہمسفر خرید لو،. سایا خرید لو
اک پھول، اک ڈھلکتے ہوئے اشک کے عوض
چاہو تو میرے پیار کی دنیا خرید لو
تم اور میں کسی دن ساتھ چلیں
جب شام آسمان کی جانب بڑھتی جا رہی ہو
جب گلیاں آدھی ویران ہوں
جب راتیں بے چین ہوں اور سڑکیں ہمارا
بے ہنگم سوالوں کی طرح پیچھا کر رہی ہوں
اور میں تمہیں کہوں؛ مت پوچھو یہ کیا ہے
یہ موسم تو
کبھی تیرے سنگ نہیں گزرا
مگر
آج کہر فضا میں نہیں
آنکھوں میں اتر آئی ہے
دسمبر کی دھند
جتنا بھی واجب لگے، اتنا الگ رکھ دیجیۓ
آپ مجھ میں سے مِرا حصہ الگ رکھ دیجیۓ
جس بھی گُل کو چُومنا ہو شوق سے چُومیں مگر
میرے ارمانوں کا وہ بوسہ الگ رکھ دیجیۓ
ساتھ چلتی ہے مِری رُسوائی سائے کی طرح
مجھ سے ملیۓ اور مِرا سایہ الگ رکھ دیجیۓ
وہ لوگ
جنہیں کبھی کسی نے پھول نہیں دیا
جو ویک اینڈ پر کہیں نہیں جاتے
جن کے آنسوؤں سے
کبھی کوئی گلاب نہیں کِھلا
جنہیں بارش کے ہونے
ایک سے پڑتے ہیں دونوں مقبروں پر پھول بھی
جنت الفردوس میں قاتل بھی ہے مقتول بھی
دیکھ اے دنیا! ہمیں ترتیب دینا چھوڑ دے
تُو بگاڑے گی ہمارا روز کا معمول بھی
ان حسیں ہاتھوں نے لکھ کر جب مٹایا میرا نام
میں یکا یک ہو گیا گمنام بھی مقبول بھی
بیٹھ کر اک روز اپنے دل کو سمجھاؤں گا میں
اس طرح چلتا رہا تو رائیگاں جاؤں گا میں
ایک دن ایسا بھی آئے گا بچھڑ جائے گا تو
ایک شب ایسی بھی آئے گی کہ سو جاؤں گا میں
اس محبت کا بھرم قائم رہا تو پھر تجھے
ڈھونڈنے نکلوں گا اور رستے سے لوٹ آؤں گا میں
وہ بھیجتا تھا دلاسے تو اعتماد بھرے
مگر یہ زخم بڑی مدتوں کے بعد بھرے
قسم خدا کی بغاوت کی سمت کھینچتے ہیں
یہ سب رویے تعصب بھرے، عناد بھرے
کہیں پہ عکس مکمل، کہیں ادھورے تھے
جو آئینے بھی میسر تھے سب تضاد بھرے
بہت نحیف ہے طرزِ فغاں بدل ڈالو
نظامِ دہر کو نغمہ گراں بدل ڈالو
دل گرفتہ تنوع ہے زندگی کا اصول
مکاں کا ذکر تو کیا لا مکاں بدل ڈالو
نہ کوئی چیز دوامی نہ کوئی شے محفوظ
یقیں سنبھال کے رکھو گماں بدل ڈالو
چڑھتی کہیں کہیں سے اترتی ہیں سیڑھیاں
جانے کہاں کہاں سے گزرتی ہیں سیڑھیاں
یادوں کے جھلملاتے ستارے لیے ہوئے
ماضی کی کہکشاں سے اترتی ہیں سیڑھیاں
لیتی ہیں یوں سفر میں مسافر کا امتحاں
ہموار راستوں پہ ابھرتی ہیں سیڑھیاں
صرف باتوں سے بہل جانے کا قائل تو نہیں
دل مِرا سادہ ہے احساس سے غافل تو نہیں
وار کرتا ہے نظر سے یہی قاتل تو نہیں
چوٹ کھا کر جو تڑپتا ہے مِرا دل تو نہیں
شور و غل بڑھتا ہی جاتا ہے مِرے کانوں میں
دل میں جو ہے وہی طوفاں لب ساحل تو نہیں
تنہائی
شہر کتنے جھلس گئے
خون انساں سے کتنے دریا سرخ ہوئے
کتنے دنوں بعد جب امن بپا ہوا
ندیوں میں پانی بہا
لوگ زندگی کی طرف لوٹے
محبتوں کے تعلق میں اعتبار نہ ہو
کبھی کسی کو کسی سے بھی ایسا پیار نہ ہو
خیال کیجیۓ صاحب غزل کے نشتر سے
"بساطِ عشق کا مفہوم تار تار نہ ہو"
وفا بھی جرم بنی، بے وفا زمانے میں
یہ جرم ہے تو خدارا! یہ بار بار نہ ہو
نہ راستے میں مِلا ہوں نہ گھر گیا ہوں میں
تمہیں پتہ ہے، بتاؤ کدھر گیا ہوں میں؟
اسی کو میری محبت کا معجزہ سمجھو
کہ تم نے مر ہی کہا اور مر گیا ہوں میں
میں ایک وقت تھا مجھ کو پُکار مت پگلی
کہ لوٹ سکتا نہیں، اب گزر گیا ہوں میں
اداس رستوں کو حیران چھوڑ دیتے ہیں
تمہارے کہنے پہ ملتان چھوڑ دیتے ہیں
تُو جانتی ہی نہیں آسماں سے آئی ہوئی
کہ جنتوں کو بھی انسان چھوڑ دیتے ہیں
یہ شہری لوگ تو لمبے سفر کے دوست نہیں
ذرا سا دیکھ کے نقصان چھوڑ دیتے ہیں
پرندے گھونسلوں سے کہہ کے یہ باہر نکل آئے
ہمیں اڑنے دیا جائے،۔ ہمارے پر نکل آئے
سفر میں زندگی کے میں ذرا سا لڑکھڑایا تھا
مجھے ٹھوکر لگانے پھر کئی پتھر نکل آئے
محبت سے کسی نے جب سفر کی مشکلیں پوچھیں
کئی کانٹے ہمارے پاؤں سے باہر نکل آئے
ہر ایک چوک محلہ ہر اک گلی ہے مِری
کسے بتاؤں کہ اس شہر میں کوئی ہے مری
میں پہلے ہجر کے ہاتھوں ہی ہو گیا ہوں نڈھال
سو اولین محبت ہی آخری ہے مری
وجود سبزگی کی سمت آئے کیسے مِرا
کہ خاک بانجھ ہے بنجر ہے بھربھری ہے مری
مردم بیزار آدمی سے گفتگو
تنویر حسین تم نے برگد کے پیڑ کو تو دیکھا ہو گا
ایک جگہ پر منجمد، اپنے پاؤں پر اپنے جسم کے ناخن بڑھاتا
اپنے سائے سے تنگ، اپنی وحشت میں یکتا برگد کا درخت
میں وہی برگد کا درخت ہوں
میں نے پچھلے سات سالوں سے شب برات پر
گُلوں کو چھو کے شمیمِ دعا نہیں آئی
کُھلا ہوا تھا دریچہ،۔ صبا نہیں آئی
ہوائے دشت ابھی تو جنوں کا موسم تھا
کہاں تھے ہم؟ تِری آوازِ پا نہیں آئی
ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہو گا
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی
گزرتا ہوا سال جیسا بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن
نہایت کٹھن ہیں
میرے ملنے والو
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح
گر ہاتھ آئے تو ملنا
آ جائے کسی دن، تو ایسا بھی نہیں لگتا
لیکن وہ تیرا وعدہ، جھوٹا بھی نہیں لگتا
ملتا ہے سکوں دل کو، اس یار کے کوچے میں
ہر روز مگر جانا بھی، اچھا نہیں لگتا
دیکھا ہے تجھے جب سے، بے چین بہت ہے دل
کہنے کو کوئی تجھ سے، رشتہ بھی نہیں لگتا
دوسری ملاقات
ہجر کی پہلی شام سے اب تک
جتنی شامیں گزری تھیں
ان کی پتھر چُپ میں، میں نے
(اس کے سامنے کرنے والی)
کیا کیا باتیں سوچی تھیں
آج شاعروں کے شاعر جون ایلیا کا یوم پیدائش ہے
ہم نے بھیجا تو اسے کیا بھیجا
مُژدۂ ترکِ مُدعا بھیجا
کس کا آشوبِ رمز ہے جس نے
خامشی کو صدا صدا بھیجا
یہ بھی ہے عرضِ شوق کا اک رنگ
ہم نے نامہ بر، رقیب کا بھیجا
تمہارے ہجر کے رونے سے ہٹ کے روئیں گے
ہم اپنے ذاتی دُکھوں سے نمٹ کے روئیں گے
جہاں میں کوئی بھی کاندھا نہیں ملا، سو ہم
بروزِ حشر خدا سے لپٹ کے روئیں گے
سبھی کو گریۂ یعقوبؑ یاد آئے گا
تمہاری یاد میں ہم ایسے ڈٹ کے روئیں گے
ہم کو بے شک تو بُرا جانتا ہے
شہر کی آب و ہوا جانتا ہے
میں تو چُپ ہوں کہ زمانہ نہ سُنے
اور وہ منظر سے ہٹا جانتا ہے
اس کی آنکھوں کا مجھے پوچھتا ہے
اچھی نظموں کی فضا جانتا ہے
تیرے پیروں تلے جو آ رہے ہیں
پُھول پھولے نہیں سما رہے ہیں
حرف با حرف یاد کر کے تجھے
لفظ با لفظ گُنگنا رہے ہیں
وہ بُلاتے ہیں اور جانب سے
ہم کسی اور سمت جا رہے ہیں
دل میں اک دشت ہے اور آبلہ پائی یوں ہے
وہ میرے سامنے بیٹھا ہے، جدائی یوں ہے
ایک تلوار بھی ہے کاسۂ اُمید کے ساتھ
اب کے اس شہر میں اندازِ گدائی یوں ہے
دل، جگر، آنکھ سبھی ایک ہوئے جاتے ہوئے
میرے احوال میں وہ دستِ حنائی یوں ہے
راہ کے خوف کو یوں دل سے نکالے ہوئے ہیں
خُود کلامی ہی ہم خُود کو سنبھالے ہوئے ہیں
وقت اچھا تھا تو احباب نے گھیرا ہُوا تھا
حال بگڑا ہے تو ہم اپنے حوالے ہوئے ہیں
کیسے دیکھیں گے بھلا آپ کو بدلا ہوا ہم
سو، ملاقات کو آئندہ پہ ٹالے ہوئے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے شعور و آگہی کے قبلۂ اول کرم
دین و دنیا کا توازن مسئلہ ہے، حل کرم
میری بینائی، سماعت، نطق اس کی زد میں ہیں
مجھ کو نِگلے جا رہی ہے کُفر کی دلدل، کرم
مجھ میں اک تپتے ہوئے صحرا نے مسکن کر لیا
کملی والےﷺ بھیج دے کوئی گھنا بادل، کرم
جو بیتی ہے وہ دہرانے میں کچھ وقت لگے گا
اس غم کو اک یاد بنانے میں کچھ وقت لگے گا
نیند تو آنے کو تھی پر دل پچھلے قصے لے بیٹھا
اب خود کو بے وقت سُلانے میں کچھ وقت لگے گا
اس کا ساتھ اب تنہائی کو کرتا ہے اور زیادہ
پر یہ بات اسے سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا
زندگی کے آخری لمحے خوشی سے بھر گیا
ایک دن اتنا ہنسا وہ، ہنستے ہنستے مر گیا
بجھ گیا احساس طاری ہے سکوت بے حسی
درد کا دفتر گیا،۔ سامانِ شور و شر گیا
شخص معمولی مَرا جو مال وافر چھوڑ کر
مرتے مرتے تہمتیں چند اپنے ذمے دھر گیا
ہم روکنے کو پاؤں پڑے جا رہے ہیں، یار
لیکن ہمارے یار، لڑے جا رہے ہیں، یار
تم ان کو رو رہے ہو جو پت جھڑ میں جھڑ گئے
اور ہم جو سبز رُت میں جھڑے جا رہے ہیں یار
وہ مسکرا کے دیکھ رہا ہے فلک سے، اور
ہم شرم سے زمیں میں گڑے جا رہے ہیں یار
بیٹیوں جیسی ہے تُو، سو جب بڑی ہو جائے گی
اے اُداسی! کیا تِری بھی رُخصتی ہو جائے گی
ایک ہی تو شخص مانگا ہے خُدایا! دے بھی دے
کون سا تیرے خزانوں میں کمی ہو جائے گی
میری بستی میں تو تِتلی پر بھی مَر مِٹتے ہیں لوگ
تیرے آنے سے تو خلقت باؤلی ہو جائے گی
نظر کے بھید سب اہلِ نظر سمجھتے ہیں
جو بے خبر ہیں انہیں بے خبر سمجھتے ہیں
نہ ان کی چھاؤں میں برکت نہ برگ و بار میں فیض
وہ خود نمود جو خود کو شجر سمجھتے ہیں
انھوں نے جھکتے ہوئے پیڑ ہی نہیں دیکھے
جو اپنے کاغذی پھل کو ثمر سمجھتے ہیں
غم کی نمائش
اک آئینۂ کرب دل میں مسلسل
کسی سانپ کی طرح پھن کو نکالے
مجھے ڈس رہا ہے، مجھی میں سما کر
بضد ہے کہ بہہ جاؤں سیلاب بن کر
چھپا کر جو صدیوں سے رکھا ہے میں نے
نکالوں وہ طوفان جو موجزن ہے
میٹھی بانی بول کبیرا
کانوں میں رس گھول کبیرا
چُھپے ہوئے ہیں اصلی چہرے
چڑھے ہیں سب پر خول کبیرا
آج کی باتیں آج کے وعدے
ڈھول کے اندر پول کبیرا
اپنے پس منظر میں منظر بولتے
چیختے دیوار و در گھر بولتے
کچھ تو کھلتا ماجرائے قتل و خوں
چڑھ کے اوجِ دار پہ سر بولتے
مصلحت تھی کوئی وہ چپ تھے اگر
بولنے والے تو کھل کر بولتے
ہمیں کوئی مطلب نہیں لا مکاں سے
غرض ہے ہمیں صرف اپنے مکاں سے
غموں کا یہ عالم ہے جانے کہاں سے
چلے آ رہے ہیں یہاں سے وہاں سے
نکالے گئے ہیں جو ہم آشیاں سے
شکایت نہیں ہے ہمیں باغباں سے
ناؤ دریا میں چلے سامنے منجدھار بھی ہو
ڈوب جانے کے لیے ہر کوئی تیار بھی ہو
کیسے روکے گا سفر میں کوئی رستہ جب کہ
دل میں اک جوش بھی ہو پاؤں میں رفتار بھی ہو
ساری امیدیں اسی ایک سہارے کی طرف
ناامیدی کے سفر میں وہی دیوار بھی ہو
فراق یار میں ایسی بھی ایک شب آئی
چراغ جل گیا آنکھوں میں نیند جب آئی
امید و بیم کے عالم میں تھی نگاہ شوق
کسی کی یاد مِرے دل میں نیم شب آئی
سحر کے بعد بھی تھا تیرا انتظار مجھے
نگاہ در سے ہر اک بار تشنہ لب آئی
یوں لگتا ہے اٹھتا ہوا طوفان وہی ہے
کشتی کو سنبھالو کہ پھر امکان وہی ہے
مائل وہ ہوئے بھی ہیں تو کس طرح میں جانوں
یارو! درِ دولت پہ تو دربان وہی ہے
اس دور کے انساں پہ نئی رائے نہ تھوپو
اچھا یا برا جیسا ہے انسان وہی ہے
سید تمہارے غم کی کسی کو خبر نہیں
ہو بھی خبر کسی کو تو سمجھو خبر نہیں
موجود ہو تو کس لیے مفقود ہو گئے
کن جنگلوں میں جا کے بسے ہو خبر نہیں
اتنی خبر ہے پھول سے خوشبو جدا ہوئی
اس کو کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ خبر نہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گل از رخت آموختہ نازك بدنی را
بلبل ز تو آموختہ شيرين سخنی را
گلاب نے تیرے چہرے سے نزاکت کا درس لیا ہے
بلبل نے تیرے تکلم سے شیریں کلای سیکھی ہے
ہر كس كہ لب لعل ترا ديدہ بہ خود گفت
حقا كہ چہ خوش كنده عقيق يمنی را
سرِ حشر بھی جو نہ ختم ہوں
یہ رگوں میں بہتی اداسیاں
جو کبھی کبھی کی ہوں راحتیں
وہ بھی رنج بن کے تمام ہوں
ابھی سلسلہ ہے نیا نیا
ابھی روشنی سی مٹھاس ہے
سنو جاناں
اک آخری ملاقات
کسی میوزیم میں رکھیں گے
جانتی ہو کیوں
تا کہ وہاں پرانی چیزوں کو دیکھ کر
ہم ساتھ بیتے ہوئے پل دوہرائیں گے
بسر جو ہونا تھے قصوں میں داستانوں میں
گزر گئے وہی لمحات کارخانوں میں
پڑھا رہا ہے کوئی مجھ کو ہیر وارث شاہ
سو مجھ کو ڈھونڈ کہیں بانسری کی تانوں میں
قدیم روح مِرے جسم میں رکھی گئی ہے
میں جی رہا ہوں بہ یک وقت دو زمانوں میں
میں کہ غم کی آگ میں ڈُوب کر سنور گیا
❤اور ہر گریز پا اپنی موت مر گیا❤
آپ مُضمحل نہ ہوں دل کی واردات پر
پھُول تھا جھُلس گیا رنگ تھا بکھر گیا
مجھ سے کیا زوال کی مناسبت کہ دوستو
دن ڈھلے تو اور بھی غم مِرا نکھر گیا
وہ ایک لمحہ
یہ ایک لمحہ کہ جس میں اربوں برس کی وسعت
چھپی ہوئی ہے
ازل سے پہلے، ابد سے آگے کے سارے ادوار
جس کی آغوش میں پڑے ہیں
یہ ایک لمحہ کے جس کے چاروں طرف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا رحمۃ للعالمیںﷺ
جب ظلمتیں بڑھنے لگیں، دمکے تھے انوارِ جبیں
اُبھرا تھا مہرِ ضوفشاں، نکھرے تھے افلاک و زمیں
رحمت تمہاری عام تھی، اے سبز گنبد کے مکیں
اے مہمانِ لا مکاں، یا رحمۃ للعالمیںﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں
اُنؐ کی دہلیز کے قابل میں اگر ہو جاؤں
اُنؐ کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یا رب
کہ سفر کرتے ہوئے گردِ سفر ہو جاؤں
زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا
اپنی مُٹھی میں وہؐ لے لیں تو گوہر ہو جاؤں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب نکل کر میں مکاں سے لامکاں میں آ گیا
ذکر میرا بھی حدیثِ دیگراں میں آ گیا
کہہ نہیں سکتا کہ کتنی دور چل پاؤں گا میں
آبلہ قدموں سے چل کر اب زباں میں آ گیا
موت بھی آئی اچانک، اور وہ بھی آ گئے
اک انوکھا لطف مرگِ ناگہاں میں آ گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزوئے نبیﷺ رہی
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی، کبھی درد بن کے دبی رہی
شہ دیںﷺ کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے فلسفے
نہ رہا تفاخرِ منصبی،۔۔ نہ رعونتِ نسبی رہی
سرِ دشتِ زیست برس گیا، جو سحابِ رحمتِ مصطفٰیﷺ
نہ خرد کی بے ثمری رہی، نہ جنوں کی جامہ دری رہی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تنم فرسودہ جاں پارہ، ز ہجراں، یا رسول اللہ
دِلم پژمردہ آوارہ، زِ عصیاں، یا رسول اللہ
یا رسول اللہ آپ کی جدائی میں میرا جسم بے کار اور جاں پارہ پارہ ہو گئی ہے
گناہوں کی وجہ سے دل نیم مردہ اور آوارہ ہو گیا ہے
چوں سوئے من گذر آری، منِ مسکیں زِ ناداری
فدائے نقشِ نعلینت، کنم جاں، یا رسول اللہ
ہجر دل کا کینسر ہے
جیسے شدید پیاس کے عالم میں سمندر کے عادی شخص کو
بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے
اور اس کی آنکھیں نکال کر اپنے پاؤں تلے روند کر جانے والا
جاتے جاتے اسے اپنی آواز تک بھی نہ سنائے
وہ آواز جس کو سنتے ہی
قطرے میں بھی چھپے ہیں بھنور رقص کیجیے
قیدِ صدف میں مثلِ گہر رقص کیجیے
کیجے فسردگیٔ طبیعت کا کچھ علاج
اس خاکداں میں مثلِ شرر رقص کیجیے
اک نوجواں نے آج بزرگوں سے کہہ دیا
ہوتی نہیں جو عمر بسر، رقص کیجیے
سماعتوں کی زبانی سمجھ میں آ جائے
کلام کر کہ کہانی سمجھ میں آ جائے
ہوا اڑائے تجھے خاکِ رہگز کی طرح
تو میری نقل مکانی سمجھ میں آ جائے
تجھے تو پیاس کا مطلب ابھی نہیں آتا
تو کس طرح تجھے پانی سمجھ میں آ جائے
عصر کے وقت رُلا کر مجھے لے جاتا ہے
دشت! مسجد سے اٹھا کر مجھے لے جاتا ہے
اک محلّے کا بھکاری ہے مقدر میرا
ہاتھ میں کاسہ تھما کر مجھے لے جاتا ہے
اپنی خواہش سے نہیں جاتا خرابے کی طرف
عشق باتوں میں لگا کر مجھے لے جاتا ہے
ہم تو اب جاتی رتیں ہیں ہم سے یہ اغماض کیوں
جرم کیا ہم نے کیا ہے آپ ہیں ناراض کیوں
مال و زر سے بہرہ وافر نہ دینا تھا اگر
اے خدا تُو نے دیا مجھ کو دل فیاض کیوں
رشتہ زر رشتہ خوں سے ہے بڑھ کر معتبر
ورنہ چاہت کے لیے قرضہ بنے مقراض کیوں
دسمبر
دسمبر تم سے کہنا تھا
اکیلے کیوں چلے آئے؟
انہیں بھی ساتھ لاتے ناں
جو پچھلے دسمبر میں
محبت کی اذان بن کر
اپنی روداد کہوں یا غمِ دنیا لکھوں
کون سی بات کہوں کون سا قصہ لکھوں
باب تحریر میں ہے لوح و قلم پر تعزیر
برگِ سادہ ہی پہ اب حرفِ تمنا لکھوں
شام تو شام تھی اب صبح کا منظر دیکھو
کس کی میں ہجو کہوں کس کا قصیدہ لکھوں
ہزار غم ہوں تو پھر انتخاب کیسے کروں
دریدہ دل کو میں نذرِ عذاب کیسے کروں
میں اس کو بھول چکا تھا کئی برس کے بعد
ملی ہے وصل کی ساعتِ حساب کیسے کروں
وہی ہے عشق کی منزل وہی وفا کا سفر
کھلی جو آنکھ ذرا ذکر خواب کیسے کروں
اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی
ڈوبنے والے کو مر جانے کی آسانی ملی
حاشیہ بردار سے پوچھا سمندر نے میاں
آج تک اک موج بھی تم کو نہ دیوانی ملی
سر پھری پاگل ہوا کو روکنا دشوار تھا
ایک ہی دن کے لیے تھی اس کو سلطانی ملی
دو ہم نفس وہ اور میں، میں اور وہ، بچپن کے دن
آدھی صدی کی دوستی کا عہدِ زریں
روز کا ملنا بچھڑنا، ساتھ پڑھنا، ساتھ لکھنا
اور اب کچھ بھی نہیں یادوں کی خوشبو کے سوا
آج اس کے زیر پا دنیا کا نقشہ اور میرے سر پہ ان رستوں کی دھول
جن پر بنا کرتے تھے میرے اور اس کے نقشِ پا شانہ بہ شانہ
مثالِ ریگ مُٹھی سے پھسلتا جا رہا ہوں
ظفر لوگوں کے جیون سے نکلتا جا رہا ہوں
بہت آساں، بہت جلدی سفر ڈھلوان کا ہے
سو پتھر کی طرح پگ پگ اُچھلتا جا رہا ہوں
کھنچا جاتا ہوں یوں اگلے پڑاؤ کی کشش میں
تھکن سے چُور ہوں میں پھر بھی چلتا جا رہا ہوں
میں ترنجن میں بیٹھی رہ گئی
بیچ ترنجن بیٹھے بیٹھے
ایک پرانا گیت سکھی نے
درد بھری اک لے پر چھیڑا
جآنے کون دِشا میں لایا
گھور سمے کا گیڑا
تو بہتر ہے یہی
یہ تِری آنکھوں کی بے زاری یہ لہجے کی تھکن
کتنے اندیشوں کی حامل ہیں یہ دل کی دھڑکنیں
پیشتر اس کے کہ ہم پھر سے مخالف سمت کو
بے خدا حافظ کہے چل دیں، جھکا کر گردنیں
آؤ اس دُکھ کو پکاریں جس کی شدت نے ہمیں
اس قدر اک دوسرے کے غم سے وابستہ کیا
ایک درخواست
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں
دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے
جاں ہوا یوں ہوئی اس خال کا بوسہ لے کر
جیسے اڑ جائے دہن میں کوئی گٹکا لے کر
تیرا بیمار نہ سنبھلا جو سنبھالا لے کر
چپکے ہی بیٹھ رہے دم کو مسیحا لے کر
شرط ہمت نہیں مجرم ہو گرفتارِ عذاب
تُو نے کیا چھوڑا اگر چھوڑے گا بدلہ لے کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنیﷺ ہے
کیا چاند کی تنویر ستاروں میں چھنی ہے
کہہ دے مِرے عیسیٰ سے مدینے میں یہ کوئی
اب جان پہ بیمار محبت کے بنی ہے
محبوب کو بے دیکھے ہوئے لوٹ رہے ہیں
عشاق میں کیا رنگ اویسِ قرنی ہے
یہاں ہر شخص رونے لگ گیا ہے
وفا کا ذکر ہونے لگ گیا ہے
یہ ساون تو یقیناً کم پڑے گا
دلوں کے داغ دھونے لگ گیا ہے
کوئی دیوار،۔ نہ دنیا،۔ نہ دشمن
مجھے وہ خود ہی کھونے لگ گیا ہے
یوں اچانک تِری جدائی سے
کٹ گیا ہوں بھری خدائی سے
میری بیٹی کے ہاتھ پیلے ہوں
اتنی گندم ملے کٹائی سے
سب عبادات خلد کی خاطر
ہم رہے ایسی پارسائی سے
تشنہ لب کوئی جو سرگشتہ سرابوں میں رہا
بستۂ وہم و گماں بھاگتا خوابوں میں رہا
دل کی آوارہ مزاجی کا گِلہ کیا کیجے
خانہ برباد رہا، خانہ خرابوں میں رہا
ایک وہ حرف جنوں نقش گر لوح و قلم
ایک وہ باب خرد بند کتابوں میں رہا
کس منہ سے زندگی کو وہ رخشندہ کہہ سکیں
جو مہر و ماہ کو بھی نہ تابندہ کہہ سکیں
وہ دن بھی ہوں غبار چھٹیں، آندھیاں ہٹیں
اور گل کو رنگ و بُو کا نمائندہ کہہ سکیں
تازہ رکھیں سدا خلشِ زخم کو، کہ ہم
جو اب نہ کہہ سکے کبھی آئندہ کہہ سکیں
لمحہ لمحہ دستک دے کر تڑپاتا ہے جانے کون
رات گئے من دروازے پر آ جاتا ہے جانے کون
اپنی سانسوں کی خوشبو کو گھول کے میری سانسوں میں
میرا سُونا جیون آنگن مہکاتا ہے جانے کون
اک انجانے ہاتھ کو اکثر شانے پر محسوس کروں
مجھ سے دور ہی رہ کر مجھ کو اپناتا ہے جانے کون
تعلق کا کیا کروں میں
تمہارے جانے کے بعد قسمیں
اٹھا کے کھڑکی سے پھینک دی ہیں
جو تم نہیں ہو
تو تم سے باندھے گئے
تعلق کا کیا کروں میں
بھلے ہی آنکھ مری ساری رات جاگے گی
سجا سجا کے سلیقے سے خواب دیکھے گی
اجالا اپنے گھروندے میں رہ گیا تو رات
کہاں قیام کرے گی کہاں سے گزرے گی
ہماری آنکھ سمندر کھنگالنے والی
یقین ہے کہ کبھی موتیوں سے کھیلے گی
اب میرے لیے آنکھ تیری نم ہے مجھے کیا
اب ترکِ مراسم کا تجھے غم ہے مجھے کیا
اس شہرِ نگاراں میں سرِ شام ابھی تک
پھولوں سے مہکتا ہوا موسم ہے مجھے کیا
روشن تھا جو برسوں سے دیا میری وفا کا
اب تیرے شبستاں میں وہ مدھم ہے مجھے کیا
تیزاب گردی پہ کہی گئی ایک نظم
دیکھتی ہے آئینہ کس دیدۂ پُر آب سے
وہ جو اک حوّا کی بیٹی جل گئی تیزاب سے
جل گئی ہے وہ کلی جس کو مہکنا تھا ابھی
چاند وہ گہنا گیا، جس کو دمکنا تھا ابھی
سِل گئے وہ غنچہ لب جن کو چٹکنا تھا ابھی
بے نوا بلبل ہوئی جس کو چہکنا تھا ابھی
کب کسی کردار کی مرضی سے افسانہ بنا
میں تو عاشق بن گیا ہوں تُو بنا یا نہ بنا
کس طرح کوئی کرے ہجرت خود اپنے آپ سے
میں جو دیواروں میں آیا گھر ہی ویرانہ بنا
دو جہاں کا درد سہنے کو قیامت چاہیے
کتنا سمجھایا فرشتوں نے کہ دنیا نہ بنا
اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
دیکھتی ہوں کہیں درازوں میں
چند کاغذ شکستہ بوسیدہ
اپنی سانسیں بحال کرتے ہوئے
منتظر سے اداس و افسردہ
مجھ کو ساحل کی کہانی نہ سنائیں جائیں
پہلے طوفان سے کشتی کو بچائیں جائیں
میں دیا ہوں تو فقط کام مِرا جلنا ہے
آندھیاں کام کریں اپنا بجھائیں جائیں
پوچھیے مت رات میں نے کب کہاں کی سیر کی
فکر نے میرے مکاں کی لا مکاں کی سیر کی
زہے نصیب اگر پانچ سات کرتے ہیں
ہمارے ساتھ تو سب لوگ ہاتھ کرتے ہیں
تھکن کا بھوت رہے گا سوار ذہنوں پر
کہیں پہ بیٹھ سہولت سے بات کرتے ہیں
سو حکم دیتے ہیں خیمے کلوز کرنے کا
نئی سپاہ پہ کچھ تجربات کرتے ہیں
ہم ملیں گے کہیں
اجنبی شہر کی خواب ہوتی ہوئی شاہراؤں پہ
اور شاہراؤں پہ پھیلی ہوئی دھوپ میں
ایک دن ہم کہیں ساتھ ہوں گے
وقت کی آندھیوں سے اٹی ساعتوں پر سے مٹی ہٹاتے ہوئے
ایک ہی جیسے آنسو بہاتے ہوئے