حوصلہ
نکل گئی ہوں زمیں کی حد سے
فلک کی جانب رواں ہوئی ہوں
میں مثل شعلہ ہوئی ہوں پھر بھی
زمانہ سمجھا دھواں ہوئی ہوں
چراغِ خانہ،۔ چراغِ محفل
ہر اک جگہ میں عیاں ہوئی ہوں
حوصلہ
نکل گئی ہوں زمیں کی حد سے
فلک کی جانب رواں ہوئی ہوں
میں مثل شعلہ ہوئی ہوں پھر بھی
زمانہ سمجھا دھواں ہوئی ہوں
چراغِ خانہ،۔ چراغِ محفل
ہر اک جگہ میں عیاں ہوئی ہوں
رنگ برنگے پیارے پیارے
پھول زمیں کے چاند ستارے
کھلتے ہیں جب پھول چمن میں
کوئی خوشی ہوتی ہے من میں
خاک سے رب نے ان کو نکالا
اور حسیں رنگوں میں ڈھالا
کتنی ظالم گرمی ہے
چڑیا پاگل پھرتی ہے
بچے لڑتے رہتے ہیں
ماں بھی ہنستی رہتی ہے
ماضی کی تہذیبوں میں
حال کو کیا دلچسپی ہے
جو چاہے آئے جائے خریدار کی طرح
گھر ہو گیا ہے آپ کا بازار کی طرح
تا روزِ حشر آپ نہ سلجھا سکیں اسے
گیسو بڑھے جو میری شبِ تار کی طرح
سینے سے ہم لگائے رہے دل بہل گیا
تصویر یار پاس رہی یار کی طرح
حیرت کا اک جہان تھا کچھ دیر کے لیے
دو گز پہ آسمان تھا کچھ دیر کے لیے
پھر درد کی زبان پہ چھالے سے پڑ گئے
اک شخص مہربان تھا کچھ دیر کے لیے
دل کو عجیب ناز تھا قسمت کے حال پر
وہ مجھ کو پورا دان تھا کچھ دیر کے لیے
ایک اک کر کے سبھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں
دل کے جنگل یوں ہی بستے ہیں اُجڑ جاتے ہیں
کیسے خوشرنگ ہوں خوش ذائقہ پھل ہوں، لیکن
وقت پر چکھے نہیں جائیں تو سڑ جاتے ہیں
اپنے لفظوں کے تأثر کا ذرا دھیان رہے
حاکمِ شہر کبھی لوگ بھی اڑ جاتے ہیں
خواب برگد کے درخت ہیں
غیظ کی تند و تیز آندھی پتے ادھیڑتی ہے
بارش اور اولے ٹہنیوں میں چھید کرتے ہیں
اور میرے سینے میں کائی جمنے لگتی ہے
گھونسلے گرنے سے پرندے یتیم ہو جاتے ہیں
ہُدہُد کی آنکھوں میں سفید موتیا اتر آتا ہے
جب وہ رشک قمر نہیں آتا
چشم کو کچھ نظر نہیں آتا
درِ دلدار جس نے دیکھ لیا
پھر پلٹ کر وہ گھر نہیں آتا
جب سے جاتا ہے کوئے جاناں میں
نامہ بر پھر ادھر نہیں آتا
پھاگن
آنگن میں اک شجر ہے
دالان میں ہوائیں
کمرے میں ایک لڑکی
اجلی اداس لڑکی
واٹر کلر سے دل پہ پتے بنا رہی ہے
وارفتگی
کچھ تِرے ذکر سے کچھ تزکرۂ بادہ سے
جسم یخ بستہ کو تھوڑی سی حرارت تو ملی
کچھ اشارہ تو مِلا چاک گریبانی کا
موسمِ گُل سے نمٹنے کی جسارت تو ملی
موجۂ بادِ صبا کو رگِ جاں کرنے کی
غیب سے کوچہ نوردوں کو بشارت تو ملی
آتشدان
آتشدانوں سے
اپنے دہکتے ہوئے سینے نکالو
ورنہ آخر دن
آگ اور لکڑی کو اشرف المخلوقات
بنا دیا جائے گا
میں بک جاتا مجھے انکار کب تھا
یہاں پر مصر کا بازار کب تھا
ملاقاتیں بھی رسماً ہو رہی تھیں
دلوں میں جذبۂ ایثار کب تھا
میں اس کو موت سے بھی چھین لاتا
وہ جینے کے لیے تیار کب تھا
تمام عمر نہ حائل کبھی غلاف کیا
تمام عمر ہی ننگے قدم طواف کیا
تمام عمر حقیقت پسند تھا پھر بھی
تمام عمر حقیقت کے برخلاف کیا
تمام عمر ملی روشنی اسی در سے
تمام عمر اسی در سے انحراف کیا
زینت ہے گلستاں کی خزاں بھی بہار بھی
شاخوں سے لپٹے رہتے ہیں گل اور خار بھی
کیسے یقیں کا چہرہ نظر صاف آ سکے
دھندلا چکا ہے آئینۂ عتبار بھی
ایسا نہیں کہ صرف گریباں ہوا ہو چاک
دیکھا ہے میں نے دامنِ دل تار تار بھی
میری مُونس ہے تُو حالات سے مایوس ابھی
اِسی محدود فضا میں ہے تُو محبوس ابھی
تُو نے دیکھا تِرے اپنے ہی ستارے کا گہن
جِس کی توسیع دِلِ زار کو آزار رہی
تُو نے دیکھا یہ زمیں کِشتِ جرائم ٹھہری
بنتِ حوّا تو یہاں یُوں بھی گنہگار رہی
ایک ملبوسِ دریدہ ہے مِری وحشتِ ہجر
ہوئی جاتی ہے حجابوں میں عیاں قامتِ ہجر
اک تحیر سا تحیر ہے طلسم گاہِ طلب
ہے فسوں خیز کہیں اس سے سوا عشرتِ ہجر
دامنِ درد میں سمٹا جو سکوتِ گریہ
چشمِ بے آب میں پوشیدہ رہی عصمتِ ہجر
سمندر اور تشنگی
سمندر کے کنارے
چاندنی راتوں میں بیٹھا
ان حسیں شاموں کو اکثر یاد کرتا ہوں
وہ شامیں جب وہ میرے ساتھ ہوتی تھی
سمندر کی نہایت شوخ لہروں میں
دوریاں ساری سمٹ کر رہ گئیں ایسا لگا
موند لی جب آنکھ تو سینے سے کوئی آ لگا
کس قدر اپنائیت اس اجنبی بستی میں تھی
گو کہ ہر چہرہ تھا بے گانہ مگر اپنا لگا
پاس سے ہو کر جو وہ جاتا تو خوش ہوتے مگر
اس کا کترا کر گزرنا بھی ہمیں اچھا لگا
کبھی ملی جو تِرے درد کی نوا مجھ کو
خموشیوں نے مجھی سے کیا جدا مجھ کو
بدن کے سونے کھنڈر میں کبھی جلا مجھ کو
میں تیری روح کی ضو ہوں نہ یوں بجھا مجھ کو
میں اپنی ذات کی ہمسائیگی سے ڈرتا ہوں
مِرے قریب خدا کے لیے نہ لا مجھ کو
موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھولوں کی بستیاں
مستی ہو یا خُمار ہو، کر مے پرستیاں
بے سود رفعتیں ہیں نہ بیکار پستیاں
اے دوست کچھ تو سوچ کہ دنیا بدل گئی
اب اس قدر نہ ہوش نہ اس درجہ مستیاں
عذاب راتوں، خزاں رُتوں کی کہانی لکھوں
میں تیری فُرقت کی ساعتوں کو زبانی لکھوں
بس ایک پاکیزہ ربط ہے روح و جاں کا تجھ سے
تو پھر میں اس سارے واقعے کو گمانی لکھوں
مجھے میسر ہیں سارے رشتے، وہی نہیں ہے
بھلا میں کس دل سے شوق کی رائیگانی لکھوں
تنہائیوں کے روگ کو پالا نہیں گیا
ہم سے تمہارا ہجر سنبھالا نہیں گیا
قبضہ وہ کر کے بیٹھ گیا ایسا دوستو
اک دکھ کو شہرِ جاں سے نکالا نہیں گیا
حیلے ہزار ہم نے کیے روز و شب مگر
غم کو خوشی کے روپ میں ڈھالا نہیں گیا
درونِ ذات کا منظر زمانے پر نہیں کھولا
بسر اک رات کرنی ہے ابھی بستر نہیں کھولا
مسافر ہوں میں بھوکا ہوں صدائیں دیں بہت لیکن
دریچے کھول کر دیکھے کسی نے گھر نہیں کھولا
میں تجھ سے مانگتا ہوں اس لیے مولا نڈر ہو کر
کہ جب مانگا مِرے اعمال کا دفتر نہیں کھولا
میرا نہیں رہا تو میں تیرا نہیں رہا
ایفائے وعدہ کو کوئی وعدہ نہیں رہا
اشکوں سے کیسے درد کو ظاہر کریں گے ہم
آنکھوں میں اب تو ایک بھی قطرہ نہیں رہا
پہلے تو ہوتا تھا مِرا چرچا گلی گلی
شاید یہ شہرِ غیر ہے چرچا نہیں رہا
کرکٹ میچ
بیزار ہو گئے تھے جو شاعر حیات سے
کرکٹ کا میچ کھیل لیا شاعرات سے
واقف نہ تھے جو دوستو! عورت کی ذات سے
چوکے لگا رہے تھے خیالوں میں رات سے
آئی جو صبح شام کے نقشے بگڑ گئے
سروں سے ہم غریبوں کے اسٹمپ اکھڑ گئے
کسی طور سے بہلتی نہیں ہے
تیری یاد دل سے نکلتی نہیں ہے
کسی طور سے دن کٹتا نہیں
شبِ ہجر ایسی کہ ڈھلتی نہیں ہے
کسی طور سے میری کوئی بات
تیرے دل کو چھو کے گزرتی نہیں ہے
سنانا چاہتے تھے ہم تو پھول کے قصے
کہاں سے آ گئے لب پر ببول کے قصے
وہ سوچتا تھا کہ رک جائیں گے قدم میرے
مگر تھے ذہن میں میرے اصول کے قصے
وہ ایک پیڑ جسے کر کے بے لباس ہوا
سنا رہی ہے کسے اپنی بھول کے قصے
سوائے غم وہاں سرکار تھا کیا
مِرا گھر بھی کوئی گھر بار تھا کیا
یہ دل ٹوٹا نہ روئے یاد کر کے
ہمارا پیار سچ میں پیار تھا کیا
مِری ہر آہ پر اک آہ نکلی
کوئی ہمدم پسِ دیوار تھا کیا
تُو نے کیا وعدہ لیا جس کا مجھے پاس رہے
شکل سے دیدہ منور بھی تیرے خاص رہے
دل مُضطر سے چمٹ بیٹھے ہزاروں نغمے
تیرے گُفتار کے سرگم کی مگر آس رہے
چاند کا گہنا بنا نُور بھی نُورانی بھی
ڈُوبے ندیا میں بنے عکس تیری پیاس رہے
چلو ہم جھوٹ بولیں
چلو ہم جھوٹ بولیں
بدن میں جو یہ لذت سرسراتی ہے
اسے انکار کی بھٹی میں جھونکیں
اسے انکار کی حدت سے اس حد تک جلا ڈالیں
کہ جل کر خاک ہو جائے
رخ سحر تِرے رخ کی ضیاؤں جیسا ہے
جمالِ شب تِری پلکوں کی چھاؤں جیسا ہے
جو اس کی راہ میں آئے وہی بکھر جائے
وہ کوہسار کی سرکش ہواؤں جیسا ہے
لہکتا پھول، مہکتا چمن، نکھرتی بہار
جسے بھی دیکھیے تیری اداؤں جیسا ہے
آہیں دیوار بے اثر خالی
اک شخص کے بعد ہے گھر خالی
شہر کی رونقوں سے کیا لینا
یار سے جب ملا شہر خالی
اس کے ہاتھوں میں ہاتھ میرا ہو
اب نہ ہو کوئی بھی پہر خالی
اک طرب ہی نہیں خزینے میں
خیمہ رنج ہے دفینے میں
عمر بھر طے نہ ہو سکا مجھ سے
رنج مرنے میں ہے یا جینے میں
حیف مجھ پر کہ تم سے پوچھتا ہوں
پھول کھلتے ہیں کس مہینے میں
سجدہ تِرے قدموں پہ روا مان چکے ہیں
ہم تجھ کو محبت میں خدا مان چکے ہیں
آنکھوں سے ہے تخصیص نہ ہونٹوں سے کہ ہم لوگ
سر تا بہ قدم تجھ کو نشہ مان چکے ہیں
چپ چاپ سے بیٹھے ہیں ہر اک نقش مٹا کر
تھک ہار کے دنیا کا کہا مان چکے ہیں
مجھ میں شعلہ سا یہ تُو نے جو بھڑکتا دیکھا
اس نے اے حُسن تِری چاہ میں کیا کیا دیکھا
تُو بنا سوہنی مہِیوال یہی تھا برسوں
تُو جو تھا ہیر رہا یہ تِرا رانجھا برسوں
تُو زلیخا ہے اگر یوسفِ کنعاں یہ ہے
تُو خریدار ہے جِس کا وہی انساں یہ ہے
کچھ پتوں کا ایک ہی موسم ہوتا ہے
گر سورج کی تمازت انہیں رنگوں کے نور میں نہلا دے
کوئی منہ زور ہوا زندگی کے جھولے میں جھولا دے
کبھی آوارہ بارش کے مہکتے، گاتے، چمکتے
قطرے بوسہ دے کر سیراب کر دیں
کوئی بھٹکی ہوئی چاندنی صحرا کی خاموشی لیے
یا رب وہ تھک نہ جائیں آنسو بہا بہا کر
روتے ہیں جو گلے سے مجھ کو لگا لگا کر
میری ہی داستاں ہے یہ بھی نہ کہہ سکوں میں
مجھ کو سنا رہے ہیں اتنی بڑھا بڑھا کر
اک رات میں لٹائی ساری وفا کی دولت
جوڑی تھی یہ رقم بھی کتنی بچا بچا کر
شہر میں اب سانس لینے کے نہیں قابل ہوا
چل رہی ہے زہر میں ڈوبی ہوئی قاتل ہوا
کر نہیں سکتا جسارت اس قدر تنہا چراغ
پُھونکنے کو گھر مِرا شاید ہوئی شامل ہوا
دیکھ کر سُرخی لہو کی پتے پتے پر یہاں
ڈوب کر حیرت میں اکثر تھم گئی جھلمل ہوا
ریال
باد شب کی گدگدی سے جسم چنچل بھی نہیں
چاندنی کی موج سے جذبوں میں ہلچل بھی نہیں
روح رجنی گندھ کی خوشبو سےجل تھل بھی نہیں
ایک وہ کومل کنواری،۔ کامنی کچی کلی
اور کس انداز سے الٹا ہے گھونگھٹ یار نے
ایک وہ سپنوں کے ہلکوروں سے ابتک اجنبی
مجھے یوں جگائے رکھتا کہ کبھی نہ سونے دیتا
سر شام ہوتے ہوتے کوئی آ کے یہ بتاتا
کہ خزاں برس رہی ہے مِری نیند کے چمن میں
مِری رات کھو گئی ہے کسی جاگتے بدن میں
مِری رات رات عالی وہ حسب نسب پیاری
وہ گلاب چہرے والی وہ رحیم زلفوں والی
عمر باقی راہِ جاناں میں بسر ہونے کو ہے
آج اپنی سخت جانی سنگِ در ہونے کو ہے
عالمِ پِیری میں ہے داغِ جوانی کا فروغ
یہ چراغِ شام خورشیدِ سحر ہونے کو ہے
آمدِ پِیری میں غفلت ہے جوانی کی وہی
نیند سے آنکھیں نہیں کُھلتیں سحر ہونے کو ہے
اپنی بنیاد اٹھاتے رہے تعمیر کے ساتھ
اس لیے خواب بھی آئے مجھے تعبیر کے ساتھ
جانے والوں نے کبھی حال نہ پوچھا آ کر
چٹھیاں روز ملیں خون کی تحریر کے ساتھ
کھول کرکون گیا پاؤں کی زنجیروں کو
اور میں دوڑ پڑا تھا اسی زنجیر کے ساتھ
جتنے الزام ہوس مجھ پہ ہیں رد کرتا ہوں
عشق کرتا ہوں، مگر ایک عدد کرتا ہوں
یہ درختوں کی سی خصلت ہے مِری فطرت میں
جتنا کاٹے ہے کوئی اتنا ہی قد کرتا ہوں
میں سہارے کا کسی طور نہیں ہوں قائل
میں تو ہر حال میں خود اپنی مدد کرتا ہوں
کسی کے زخم پر اشکوں کا پھاہا رکھ دیا جائے
چلو سورج کے سر پر تھوڑا سایہ رکھ دیا جائے
مِرے مالک سر شاخ شجر اک پھول کی مانند
مِری بے داغ پیشانی پہ سجدہ رکھ دیا جائے
گنہ گاروں نے سوچا ہے مسلسل نیکیاں کر کے
شبِ ظلمت کے سینے پر اجالا رکھ دیا جائے
حالتِ بیمارِ غم پر جس کو حیرانی نہیں
اصل میں اس آدمی میں خُوئے انسانی نہیں
ایسی بے دردی سے اس کو مت بہاؤ خاک پر
خون انساں، خون انساں ہے کوئی پانی نہیں
جس کی خوشبو سے معطر رات بھر رہتا تھا میں
میرے گھر کے پاس اب وہ رات کی رانی نہیں
کیا کرو گے
ادھورے خوابوں کی
تشنہ کامی پہ، رونے والو
کبھی یہ سوچو، کہ یہ وسیلہ بھی
رہ نہ پایا، تو کیا کرو گے
مراد، منزل، طلب، تمہاری میں
کیا ستم گر نے آج کام کیا
کام آخر مِرا تمام کیا
اللہ اللہ اون کا یہ غصہ
ترک نامہ کیا پیام کیا
ذکر بوسہ پہ ہو گئے ہو خفا
میں نے کیا کچھ برا کلام کیا
نام اس کا لے کر کہتی ہے
اب وہ اس کو بھول چکی ہے
ایک کہانی اس نے سنائی
ایک غزل میں نے لکھی ہے
وقت کی سانسیں تھم جاتی ہیں
ساتھ مِرے جب وہ چلتی ہے
ناز اس کے اٹھاتا ہوں رلاتا بھی مجھے ہے
زلفوں میں سلاتا بھی، جگاتا بھی مجھے ہے
آتا ہے بہت اس پہ مجھے غصہ بھی، لیکن
پیار اس پہ کبھی ٹوٹ کے آتا بھی مجھے ہے
در پے ہے مِری جان کے، جو پِیچھے پڑا ہے
وہ دشمنِ جاں دوستو! بھاتا بھی مجھے ہے
تمہارے عشق کی سینے میں چاہ ہوتے ہوئے
میں خود کو دیکھ رہا ہوں تباہ ہوتے ہوئے
تمہارے دل پہ مروت کے تیشے رکھ رکھ کر
میں دیکھتا ہوں چٹانوں میں راہ ہوتے ہوئے
حسین چیزوں پہ لازم ہے احتیاط بہت
گلاب دیکھے ہیں ہم نے سیاہ ہوتے ہوئے
میرے بے خبر
کبھی لے خبر
کہ اس جہاں کے سراب نے
کبھی گردشوں کے عذاب نے
میرے اپنے حالِ خراب نے
مجھے کیسے کیسے تھکا دیا
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
کون لیکن خوشی سے ملتا ہے
آدمی وہ ہیں سلسلہ جن کا
علم کی روشنی سے ملتا ہے
حسنِ یوسف ہو یا ماہ نو
وجہ انوار کسی سے ملتا ہے
غم جاناں جہاں لکھا گیا ہے
وہیں پر رائیگاں لکھا گیا ہے
جہاں آباد ہے یادوں کی بستی
اسی کو دشت جاں لکھا گیا ہے
ستم اپنوں کے ظاہر ہو گئے ہیں
مِرا درد نہاں لکھا گیا ہے
ایسے لگتا ہے بد شکلی ہو گئی ہے
جگہ جگہ سے دنیا گدلی ہو گئی ہے
ہوتی تھی شفاف سیاست ہوتی تھی
اب تو کوجھی اور بے نسلی ہو گئی ہے
ہر شے الٹے پاؤں چلنے لگ گئی ہے
نقلی اصلی، اصلی، نقلی ہو گئی ہے
تصادم
صرف اپنا زہر جس کو خامشی کہتی ہو تم
صرف اپنی آگ جس کو گفتگو کہتے ہیں ہم
صرف اپنا درد جس کو روشنی کہتی ہو تم
صرف اپنا زخم جس کو جستجو کہتے ہیں ہم
اور پھر ماتھے کے پتھر پر ابھرتی ہیں رگیں
یہ کوئی حساس جذبہ ہے، شکن سے ماورا
عورت
میں کہ اک شادی شدہ عورت ہوں
میں کہ اک عورت ہوں
ایک ایرانی عورت
رات کے آٹھ بجے ہیں
یہاں خیابان سہروردی شمالی پر
باہر جا رہی ہوں
کس روز ہم نے آہ و فغاں میں بسر نہ کی
تھی رات کون سی جو تڑپ کر سحر نہ کی
اس دور خود غرض میں یہ خودداریٔ نگاہ
دم پر بھی بن گئی سُوئے ساقی نظر نہ کی
بزم جہاں سے جاتے ہوئے کیوں کسی نے بھی
مُڑ کر نگاہ جانبِ دیوار و در نہ کی
وہ سنور سکتا ہے معقول بھی ہو سکتا ہے
❤میرا اندازہ، مِری بھول بھی ہو سکتا ہے
دور سے دیکھا ہے، نزدیک سے بھی دیکھوں گا
پھول سا لگتا ہے وہ، پھول بھی ہو سکتا ہے
آج کی شب جو ستاروں نے مرا ساتھ دیا
دل جو بے کار ہے، مشغول بھی ہو سکتا ہے
لگتا ہے جہاں موت کا بازار دن بدن
مرتا وہیں ہے حق کا پرستار دن بدن
افسوس میری قوم کا کردار دن بدن
ہو جائے نہ انا میں گرفتار دن بدن
لکھتا رہوں گا قوم کی تمہید کے لیے
اپنے جگر کے خون سے اشعاردن بدن
ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور
اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور
منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور
شہر گم ہو گیا
اک چھناکا ہوا
دل کے خانے میں رکھا ہوا ایک نازک سا گلدان ٹوٹا
خموشی نے فوراً لگائی صدا
کیا گرا؟ کیا ہوا؟
چائے کی ٹھنڈی پیالی لیے، اونگھتے اونگھتے
کر دیتے ہیں جو پیار میں غرقاب تِرے خواب
ہیں میرے لیے عشق کی محراب ترے خواب
یادوں کی حسیں رات میں مہتاب ترے خواب
ترسیلِ محبت کے سبھی باب ترے خواب
اب تجھ سے ملاقات کی صورت نہیں کوئی
ہیں میرے لیے جینے کے اسباب ترے خواب
دل لگایا یہاں جس نے روتا رہا
پل ہی پل بھر میں کیا کچھ نہ ہوتا رہا
بے وفا تھا کنارے لب بحر کے
خود بھی ڈوبا مجھے بھی ڈبوتا رہا
اس کے ہاتھوں کی محنت کا تھا سبب
کاٹا اس نے وہی جو وہ بوتا رہا
سب نے مجھ کو چپ رکھنے کی کوشش کی
جب بھی میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی
ٹھیک ہے، میں اس کوشش میں ناکام رہا
لیکن میں نے خوش رہنے کی کوشش کی
میں یہ سمجھا، اس نے مجھ کو چاہا ہے
اس نے میرا دل رکھنے کی کوشش کی
حصارِ دعا
یہ رگ و ریشہ و انفاس میں بستی ہوئی رات
اس کو اک دورِ دل آزار کی قیمت سمجھو
یہ بھٹکتے ہوئے رہگیر کو ڈستی ہوئی رات
منطقی طور سے اس کو مشیت سمجھو
کی، چلو قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ایسے حالات میں، اس کو ہی غنیمت سمجھو
یقیں کی راہگزر سے گزر نہ جاؤں کہیں
کسی فریب کی حد میں بکھر نہ جاؤں کہیں
میں طفلِ عشق ہوں مِرا مزاج سادہ دلی
مہیب وادئ غم میں اتر نہ جاؤں کہیں
اک آگ سے میں گزر کر یہاں تک آئی ہوں
یہ ڈر ہے راکھ کی صورت بکھر نہ جاؤں کہیں
کرچیاں چُنتا ہوں تو حیرانی بہت ہوتی ہے
دُکھ نہیں ہوتا،۔ پیشمانی بہت ہوتی ہے
فیصلہ سخت سہی اس سے بچھڑ جانے کا
بعد ازاں، ہجر میں آسانی بہت ہوتی ہے
اکثر اوقات میں خالی ہی پڑا رہتا ہوں
بعض اوقات فراوانی بہت ہوتی ہے
من بھی شاعر کی طرح تن بھی غزل جیسا ہے
یہ تِرے روپ کا درپن بھی غزل جیسا ہے
ریشمی چوڑیاں ایسی کہ غزل کے مصرعے
یہ کھنکتا ہوا کنگن بھی غزل جیسا ہے
ان لچکتی ہوئی زلفوں میں ہے گوکل کا سماں
یہ مہکتا ہوا ساون بھی غزل جیسا ہے
کسی کو صورتِ ساقی نہ جب نظر آئی
شراب خانے میں ہر آنکھ غم سے بھر آئی
ہمیں نہ پوچھا دئیے بھر کے جام غیروں کو
سلوک دیکھ کے ساقی کی آنکھ بھر آئی
ہمیں کسی کے تغافل نے نامراد رکھا
ہماری دید کی حسرت کبھی نہ بر آئی
ہم کو بے کار لیے پھرتے ہو بازاروں میں
ہم نہ یوسف ہیں نہ یوسف کے خریداروں میں
ملک تقسیم ہوئے، دل تو سلامت ہیں ابھی
کھڑکیاں ہم نے کھلی رکھی ہیں دیواروں میں
اک زباں جس کو غزل کہیے مجرم ٹھہری
شاہزادی کو چنا جائے گا دیواروں میں
بادباں ہوا کا یوں توڑ کر نکل گیا
چھوڑ کر بھنور میں وہ رستہ بدل گیا
بستیاں بھی ڈر گئیں ساحلوں کے ساتھ ہی
آنکھ میں پڑا ہوا اشک جو اچھل گیا
نقش اب کیا ابھرتے مِرے کوزہ گرو
چاک پر دھرا ہوا ڈھیر جو بدل گیا
میری منزل بھی آسمان میں ہے
اور دم بھی مِری اڑان میں ہے
کوئی لیتا نہیں کرائے پر
جیسے آسیب اس مکان میں ہے
کوئی جلتا نہیں چراغ وہاں
روشنی پھر بھی اس مکان میں ہے
کسی بشر میں ہزار خامى
اگر جو دیکهو تو چپ ہى رہنا
کسی بشر کا جو راز پاؤ
يا عيب دیکھو، تو چپ ہى رہنا
اگر منادى كو لوگ آئيں
تمہیں كُريديں، تمہیں منائيں
خون بے بس کا بہائیں تو غضب ہوتا ہے
بستیاں ان کی جلائیں تو غضب ہوتا ہے
حد سے بڑھ جائیں خطائیں تو غضب ہوتا ہے
نہ ملیں اس پہ سزائیں تو غضب ہوتا ہے
آگ گلشن میں لگاتے ہیں جو تقریروں سے
گیت الفت کے وہ گائیں تو غضب ہوتا ہے
ایسی تنہائی، پتہ اپنا کہاں پاتے ہیں ہم
ایسا سناٹا خود اپنے سے بھی گھبراتے ہیں ہم
آرزوؤں کو ہمالہ سے سوا پاتے ہیں ہم
اپنا یہ عالم، ہواؤں پر اڑے جاتے ہیں ہم
اجنبی کی اجنبی سے بڑھ رہی ہیں قربتیں
آشنا کو آشنا سے بدگماں پاتے ہیں ہم
کچھ اور پوچھیے، یہ حقیقت نہ پوچھیے
کیوں مجھ کو آپ سے ہے محبت نہ پوچھیے
سجدوں سے طے مقامِ محبت نہ ہو سکا
کیا کیا ہوئی ہے سر کو ندامت نہ پوچھیے
کعبے میں، بت کدہ میں، حریمِ جمال میں
دل کی کہاں کہاں ہے ضرورت نہ پوچھیے
اٹھو اٹھو اٹھو اٹھو
کمر کسو کمر کسو
سحر سے پہلے چل پڑو
کڑی ہے راہ دوستو
تھکن کا نام بھی نہ لو
بڑھے چلو بڑھے چلو
جسم سے پیپ اور خون بہتا ہوا
آبلوں کے سلیپر ہیں ہر پاؤں میں
دھوپ اوڑھے ہوئے
برف پہنے ہوئے
پھاگ آنکھوں کے چشموں سے بہتا ہوا
پیٹ فاقوں کی وجہ سے پچکا ہوا
عجب تضاد ہے سچائیوں سے آگے بھی
مِرا وجود ہے پرچھائیوں سے آگے بھی
کسی کا حسن فریبِ نشاط دیتا ہے
نگارِ وقت کی انگڑائیوں سے آگے بھی
چلا ہے تلخ حقائق کا کارواں جیسے
مِرے یقین کی بینائیوں سے آگے بھی
اس جہاں میں کئی دوغلے لوگ ہیں
ہے کہاں پر کمی دوغلے لوگ ہیں
عشق کب روگ ہے، زندگی بول تو
ان سے ہی مل گئی، دوغلے لوگ ہیں
جان لیتا ہوں میں، دوغلی بات کو
جس نے جیسے کہی، دوغلے لوگ ہیں
گیت
ہمسفر خواب ہوتے ہیں
وہ تو رنگیں خیال ہوتے ہیں
آج اس راہ پر کل ہے اس راہ پر
موسموں کی طرح بادلوں کی طرح
پاس رہ کر بھی دورر ہوتے ہیں
ہمسفر خواب ہوتے ہیں
بے اعتباری کا موسم
تا حد نگاہ پھیلے
یاس کے صحرا میں
ایک نیم مردہ آس بھٹکتی پھرتی ہے
اس ایک دل کے کھوج میں
جس میں اس نے جنم لیا تھا
کوئی بھی میرے زیادہ قریں رہے گا نہیں
رہا بھی تو اسے میرا یقیں رہے گا نہیں
عشق کرتے ہیں ہم، عشق بھی بلا کا عشق
ہمارے ساتھ کوئی مہ جبیں رہے گا نہیں
وہ ایک مجھے رستے پہ دیکھ کر بولے
ادھر ادھر ہی پھرے گا کہیں رہے گا نہیں
جسم میں رسمِ تنفس کا عمل جاری ہو
تم جو چُھو لو تو نئے خواب کی تیاری ہو
رات میں صبح اُمڈتی ہو کہ تم آن مِلو
نیند کی نیند ہو بیداری کی بیداری ہو
تم جو سوئے رہو، سورج بھی نمودار نہ ہو
عکس کے شوق میں آئینے کی تیاری ہو
کچھ شرمسار چہرے ہیں پیشانیاں ہیں اب
لوگو! تمہارے بخت میں آسانیاں ہیں اب
اس حرص، اقتدار، سیاست کے کھیل میں
درکار میرے دیس کو قربانیاں ہیں اب
کتنے ستم اٹھاؤ گے مسند کے واسطے
مانا کہ اختیار میں من مانیاں ہیں اب
سازشوں کے درمیاں سادگی ماری گئی
دشمنی کا کھیل تھا اور دوستی ماری گئی
خواہشوں کی دوڑ میں ابلیس کا تھا غلغلہ
امن کی ان وادیوں میں آشتی ماری گئی
آستیں کا سانپ تھے جو گلبدن کے بھیس میں
باغ کے ہر پھول کی پھر نازکی ماری گئی
گلوں کا رنگ کلی کا شباب مانگے ہے
نگاہِ شوق بھی کیا انتخاب مانگے ہے
جو تجھ سے مجھ سے خفا ہو گئے ہیں صدیوں سے
نگاہ پھر انہیں لمحوں کا خواب مانگے ہے
کسی کو کچھ بھی نہیں مل سکا زمانے میں
جسے ملا ہے وہ کیوں بے حساب مانگے ہے
ہر طرف اجلی دھنک موسم ہوا ہے برف برف
ندی نالے ہی نہیں صحرا بنا ہے برف برف
اڑ رہے ہیں روئی کے گالے فضاؤں میں اسیر
ہے لہو بھی منجمد چہرہ ہوا ہے برف برف
مسکرانا ایسے موسم میں کہاں آسان ہے
ہونٹ نیلے پڑ گئے ہیں اس پر ہوا ہے برف برف
پوچھا میرا نام جہاں تنہائی نے
چھایا لکھ دی چہرے پہ گہرائی نے
اس دن سے کپڑوں کا احساں ہے تن پر
مجھے چُھوا تھا جس دن بوڑھی دائی نے
مٹی چُھو کر ہرا بھرا پودا نکلا
پربت کو بھی آنکھ دکھائی رائی نے
لگا دیا مری وحشت نے سب ٹھکانے سے
ہوا تو ڈرتی ہے اب خاک تک اڑانے سے
مِری نظر سے ہوا، اک غلط شکار ہے وہ
یہ تیر چوک گیا تھا کبھی نشانے سے
یہ رقص اس کی بدولت ہے وحشتوں کا یہاں
وگرنہ، کون ہے واقف مِرے ٹھکانے سے
دل ہے بڑی خوشی سے اسے پائمال کر
لفظوں کو میں ردیف و قوافی میں ڈھال کر
اشعار کر سکی ہوں مِرا دل نکال کر
زخمِ جگر کا میرے ذرا اندمال کر
اے یارِ من! کبھی کوئی ایسا کمال کر
خوشیوں سے یوں بھری ہوئی یہ اپنی زندگی
فکروں کا ناگ ذہن کے آنگن میں آ گیا
خوابوں کی انجمن کو تماشہ بنا گیا
بے کیف زندگی کو وہ ایسے سجا گیا
تصویر میرے کمرے میں اپنی لگا گیا
بادل گزشتہ یادوں کا جب دل پہ چھا گیا
دشتِ غمِ حیات میں سیلاب آ گیا
کیسی افتاد ہے کہ ہوش میں آنے لگا ہے
یہ مِرا شہر مجھے آنکھیں دکھانے لگا ہے
یوں بھی تنہائی یہ باہر سے نہیں آ سکتی
کوئی مجھ سے ہی مِرے بھید چھپانے لگا ہے
کچھ بھی ہو جائے یہ جنگل ہے یہ جنگل رہے گا
تُو یہاں پھر سے کوئی شہر بسانے لگا ہے
مست کبیرا کس کی دُھن پر گاتا ہے
اس دنیا کا چرخا کون چلاتا ہے
ہر صبح سورج کو کون جگاتا ہے
شام ڈھلے چادر میں کون سُلاتا ہے
کون مُرلیا کانہا سے بجواتا ہے
اس دُھن پر پھر رادھا کو نچواتا ہے
آج ملت ہے پریشاں
ملتِ احمدﷺ پریشاں ہے کرے تو کیا کرے
حالِ دل کس کو سنائے کس سے اب شکوہ کرے
اپنے حالِ زار پر کیا رات دن رویا کرے
ناخنِ تدبیر سے مشکل کا حل پیدا کرے
ذہن میں ہلچل ہے اک آخر مسلماں کیا کرے
حصار یار چاہیے
تمہارے بدن کی حدت
مِری روح کی یخ بستگی کا علاج
مِری روح پھر سے ٹھٹھرنے لگی ہے
مِری ہی رگوں میں یہ جمنے لگی ہے
غزالہ تبسم خاکوانی
رکھتا یہ عشق ہے ہمیں سو غم سے بے نیاز
دل میں کھلے جو پھول ہیں شبنم سے بے نیاز
کرتا ترس تو کیا کوئی اس حالِ زار پر
رہتی جو اپنی آنکھ بھی ہے نم سے بے نیاز
ہم لوگ ہیں اگرچہ بڑے خانماں خراب
ہو جائیں کیسے گیسوئے پُر خم سے بے نیاز
اس امتحان سے ہر ایک گزارا جائے گا
بدن لباس ہے، جس کو اتارا جائے گا
کسی کا کچھ نہیں جائے گا جانے والے سن
تمہارے جانے سے سب کچھ ہمارا جائے گا
فضائے کوفۂ نا مہرباں بلاتی ہے
مجھے بھی دشتِ مصیبت میں مارا جائے گا
وہ ستم گر تو گیا، دل سے مگر کیوں نہ گیا
جیسے جاتے ہیں سبھی، حیف ہے وہ یوں نہ گیا
اپنا ظاہر تو بدل ڈالا ہے دیکھا دیکھی
ہے یہ افسوس، ستم کیش کا اندروں نہ گیا
کیا تماشا ہے کہ سوچے نہ تونگر کوئی
ایک حبہ بھی لیے ساتھ میں قاروں نہ گیا
آپ جب آئے تو جینے کی ادا بھی آئی
یک بیک دل کے دھڑکنے کی صدا بھی آئی
اٹھ گئی آنکھ تو کلیوں نے بھی آنکھیں کھولیں
کھل گئی زلف تو لہرا کے گھٹا بھی آئی
تیری زلفوں کی مہک ہی ابھی لائی تھی صبا
کہ لہک کر تِرے دامن کی ہوا بھی آئی
تنہا کھڑے ہیں ہم سرِ بازار کیا کریں
کوئی نہیں ہے غم کا خریدار کیا کریں
اے کم نصیب دل تُو مگر چاہتا ہے کیا
سنیاس لے لیں، چھوڑ دیں گھر بار کیا کریں
الجھا کے خود ہی زیست کے اک ایک تار کو
خود سے سوال کرتے ہیں ہر بار، کیا کریں
جھٹلا رہا ہوں عظمتِ نام و نسب کو میں
آواز دے رہا ہوں یہ کس کے غضب کو میں
میرے بدن میں درد کا لشکر ہے، دیکھنا
گزرا تو روند ڈالوں گا شہرِ طرب کو میں
وہ چاہتوں کے خواب، وہ خوابوں کے سلسلے
اک ایک کر کے توڑتا جاتا ہوں سب کو میں
بدنصیبی
باوردی محافظ نے
بادشاہ کو آ کر بتایا
کہ شہر بھر میں زہریلا دھواں پھیل رہا ہے
وجہ معلوم نہیں ہو سکی
اور نہ ہی اس کا سدِ باب ممکن نظر آتا ہے
آنکھوں سے پی کے بہکے ہوئے ہیں شدید مست
کس کس کو ہونا ہے ابھی تھوڑا مزید مست
اے حافظ و اے رازی و رومی سنو ذرا
آؤ کہ مل کے کرتے ہیں گفت و شنید مست
منصور ہوں میں بات سے اور کام سے حسینؑ
سر مست میری بات ہے میں سر برید مست
چہک رہا تھا کوئی طائرِ دعا مجھ پر
وہ چپ ہوا تو کڑا وقت آ گیا مجھ پر
ہوئی ہے سنگِ گراں کے تلے نمو میری
تمام عمر مِرا بس نہیں چلا مجھ پر
جو آئے گا مِرے جی میں وہی کروں گا میں
کسی کا حق نہیں کوئی، مِرے سوا، مجھ پر
اڑانوں کا ہر اک موقع ستم گر چھین لیتا ہے
وہ مجھ کو حوصلہ دے کے مِرے پر چھین لیتا ہے
مجھے خیرات میں دے کے وہ اپنے پیار کے لمحے
مِری نیندیں مِرے خوابوں کے منظر چھین لیتا ہے
کسی نے جاتے جاتے چھین لی ایسی مِری سانسیں
کہ جاری سال کو جیسے دسمبر چھین لیتا ہے
وہ سب ہماری خوشی تھے ضرورتیں تو نہیں
خوشی رکی ہے ہماری، مسافتیں تو نہیں
سب اپنی اپنی پہیلی سنا کے چلتے بنے
یہ علم رکھتا ہوں لیکن شکایتیں تو نہیں
تمہیں جو دیکھا تو لہجہ بدل گیا میرا
کہیں یہ دل میں محبت کی آیتیں تو نہیں
شامِ الم جب دردِ جدائی ضبط کی حد سے گزرا ہو گا
تب کہیں آنکھیں چھلکی ہوں گی تب کوئی تارا ٹوٹا ہو گا
میرے آنسو میلے میلے،۔ آپ کا دامن اُجلا اُجلا
میرے آنسو آپ نہ پونچھیں آپ کا دامن میلا ہو گا
جب تک ہیں صیاد کے بس میں رسمِ گُل کیا دورِ خزاں کیا
جشنِ بہاراں ہم بھی کریں گے، جس دن گلشن اپنا ہو گا
تیرے دھیان کے ہجرے میں
فضا
تمہاری یادوں سے با وضو ہے
ہواؤں میں تمہارے پیار کا نور
اذان کی طرح تحلیل ہو چکا ہے
رات کے مصلے پر
کھلتا نہیں سبب مجھے ایسے حجاب کا
پردہ اوٹھاؤ چہرے سے اپنے نقاب کا
ہے صبح شام ہاتھ میں ساغر شراب کا
مج کو مزے دکھاتا ہے عالم شباب کا
میرا سوال سن کے ہو خاموش کس لیے
میں منتظر کھڑا ہوں تمہارے جواب کا
کشمیری کلام سے اردو ترجمہ
زیب تن جو کیا ہے غم کا لباس
اب پہناوے فضول لگتے ہیں
روح کے زخم اتنے گہرے ہیں
تیرے پتھر تو پھول لگتے ہیں
للہ عارفہ/لل ایشوری/لل دید/لل ما جی
کشمیر
دیو مالائی جھرنوں
پرستانی جھیلوں
محبت کے گیتوں کی
مسحور کُن سرزمیں پر
تمناؤں کا خون ہوتا رہا
اور دنیا خموشی سے تکتی رہی
معجزوں کے منتظر
ہمارے ریوڑوں کو بھیڑیے چیر پھاڑتے رہے
ہمارے کمسنوں کو وحشیوں نے نوچنا شروع کیا
ہماری بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لٹی بھرے بازار میں
اور ہم
ہم ایک معجزے کے منتظر خلا کو گھورتے رہے
وہ اس زمین کی جنت جمال کی تصویر
مِری ریاستِ آزاد جموں و کشمیر
وہ میلوں میل چوراسی ہزار کی جاگیر
اب ایسا خواب ہے جس کی نہیں کوئی تعبیر
میں پوچھتا ہوں کہاں میرے عرض و طول گئے
مِرے وکیل مِرا کیس لڑنا بھول گئے
جبر پہ مبنی اٹوٹ انگ کی تکرار پہ تُھو
میرا انکار سلامت، تِرے اصرار پہ تھو
تُو مِرے قتل پہ، اس جبر پہ تا حال خموش
سنگ دل دنیا! تِرے دوہرے معیار پہ تھو
وہ جو کشمیر سے کشمیر جدا کرتی ہے
اس تِری سوچ پہ، اس باڑ پہ، دیوار پہ تھو
دیکھ ذرا اقوامِ عالم
بہتا تو کشمیر میں خون
دیکھ تو جلتے، بجھتے منظر
پاؤں کی زنجیر میں خون
جنت جیسی اس وادی کو
ظلم نے یوں برباد کیا
مرے وطن
حسیں رُتوں کی تِرے نام یہ بہار کروں
مِرے وطن میں تجھی پر یہ جاں نثار کروں
٭
ترے علم کو خمیدہ کبھی نہ ہونے دوں
اسے بلندی پہ رکھنا مری عبادت ہے
لٹا دوں جان میں تجھ پر، نہ آنچ آنے دوں
وطن کی آن پہ مرنا بھی اک شہادت ہے
ہمارے دل پہ آخری وہ تیر آج چل گیا
ہمارے ساتھ چلتے چلتے راستہ بدل گیا
چمک رہا تھا جو ہمارے دل کے آسمان پر
وہ ماہتابِ دلنشین ایک پل میں ڈھل گیا
ہر ایک شے ہے تر بتر ہر ایک شے غریق ہے
ہماری پتلیوں سے ایک دریا کیا ابل گیا
پاگل پاگل رستہ ہو گا
جس رستہ وہ چلتا ہو گا
جب گلشن میں ہنستا ہو گا
غنچہ غنچہ کھلتا ہو گا
خوشبو خوشبو ہوت ہو گا
جب کلیوں سے ملتا ہو گا
ہماری جیت سے ہوتی تمہاری ہار میاں
سو بڑھ کے روک لیا خود ہی اپنا وار میاں
ہمارے جیسی کوئی ایک مثال ہو تو کہو
کہ ہم کو خود سے زیادہ ہے تم سے پیار میاں
بس ایک دیکھے پہ ہجراں کی آگ میں جھونکا
تمہارے وصل سے ہوتا جو ہمکنار میاں
دشت مجنوں سے جوں پہلے تھا، ہوا میرے بعد
کوئی دیوانہ اسے پھر نہ ملا میرے بعد
سر زمیں دشت کی آباد تمہی سے ہو گی
قیس نے مجھ سے گلے مل کے کہا، میرے بعد
آخرش توڑ دئیے جام و سبو ساقی نے
نہ کو ئی رندِ بلا نوش ملا میرے بعد
جو تمہیں انجمن آرائی نظر آتی ہے
ہم کو تو اس میں بھی تنہائی نظر آتی ہے
اس لیے دل کے ہرے زخم ہوئے ہیں شاید
چشمِ احساس کو پُروائی نظر آتی ہے
آپ کے شعر میں الفاظ تو جیسے ہوں مگر
آپ کے شعر میں گہرائی نظر آتی ہے
ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
تِری نظر میں تِرے دل میں گھر کیا جائے
اب اس خیال ہی کو درگزر کیا جائے
علاوہ عشق کے ہے ہی نہیں زمانے میں
کوئی بھی کام، جسے عمر بھر کیا جائے
نگاہِ غیر سے بھی دیکھنا کبھی خود کو
یہ کام سخت بہت ہے، مگر کیا جائے
رہتے تھے کسی دل میں مگر یاد نہیں ہے
اب جائیں کہاں؟ اپنا ہی گھر یاد نہیں ہے
کچھ لوگ جو جیتے ہیں تو اورں کے لیے بھی
کچھ لوگوں کو جینے کا ہنر یاد نہیں ہے
کس وقت اُٹھی اور ہوئی پار جگر کے
اس شوخ کی ترچھی سی نظر یاد نہیں ہے
ندی میں پیار کی یکساں چڑھاؤ ہے اب تک
وہی ہے شوق وہی دل میں چاؤ ہے اب تک
تمہاری ذات سے مجھ کو لگاؤ ہے اب تک
تمہاری سمت ہی دل کا جھکاؤ ہے اب تک
جو ایک روز تِری بے رخی نے بخشا تھا
ہمارے دل میں سلامت وہ گھاؤ ہے اب تک
زندہ بھی خاک ہم رہے گم صم سے بے نیاز
ممکن نہ تھا کہ جی سکیں ہم تم سے بے نیاز
صد حیف ہم سے بھی نہ ہوئے آج تک بیاں
جذبات آپ کے وہ ترنم سے بے نیاز
اے کاش خود ہی دیکھ لو بین السّطور اب
سر بستہ رازِ عشق تکلم سے بے نیاز
پھولوں کی طرح لوگ نکھر کیوں نہیں جاتے
خوشبو کے بہانے ہی بکھر کیوں نہیں جاتے
دریا نے دھرم، پیاس کے ماروں سے نہ پوجھا
دریا جو کرے، آپ وہ کر کیوں نہیں جاتے
بس اپنے ہی حق مانگتے ہو، کیا یہ غضب ہے
لوگوں کے ادا کر کے، گزر کیوں نہیں جاتے
یہ سبز باغ دکھا نہ اِدھر اُدھر کے مجھے
رٹے ہوئے ہیں پہاڑے اگر مگر کے مجھے
وہ چاہتا ہے شکایت نہ ہو مِرے لب پر
بھری بہار کی رُت میں اداس کر کے مجھے
میں اس لیے رہِ غم میں سنبھل نہیں پائی
فریب دیتا ہے ہر بار وہ نظر کے مجھے
ہے اک خیال جو چلتا ہے سات سات مِرے
رنگے ہوئے ہیں کسی کے لہو میں ہات مرے
نکل نہ جاؤں بدل کر میں بھیس خوابوں کا
محاصرے میں لگی ہے سیاہ رات مرے
ہے مجھ میں ایک ہی خوبی کہ جس پہ ناز کروں
کسی سے ره نہیں پاتے تعلقات مرے
کئی دنوں سے مجھے بھی نفی کیا ہوا ہے
تِرے خیال نے اتنا دکھی کیا ہوا ہے
وہ ایک پل تو تجھے یاد بھی نہیں ہو گا
وہ ایک پل جسے ہم نے صدی کیا ہوا ہے
تِری طرح مِرے اندر بھی دھول اڑ رہی ہے
مِرا لباس ذرا استری کیا ہوا ہے
سوکھے ہوئے کچھ پھول بھی گلدان میں رکھنا
ہے حسن کا انجام یہی، دھیان میں رکھنا
پھر شوق سے مجرم مجھے گرداننا، لیکن
انصاف کی مسند کھلے میدان میں رکھنا
ایسا نہ ہو پڑ جائے کہیں میری ضرورت
لازم نہ سہی پر اسے امکان میں رکھنا
دھرم میں لپٹی وطن پرستی کیا کیا سوانگ رچائے گی
مسلی کلیاں، جھلسے گلشن، زرد خزاں دکھلائے گی
یورپ جس وحشت سے اب بھی سہما سہما رہتا ہے
خطرہ ہے وہ وحشت میرے ملک میں آگ لگائے گی
جرمن گیس کدوں سے اب تک خون کی بدبو آتی ہے
اندھی وطن پرستی ہم کو اس رستے لے جائے گی
کشمیری کلام سے اردو ترجمہ
جاگو
کچھ ایسے ہیں جو سوئے ہوئے ہیں
لیکن اصل میں جاگ رہے ہیں
کچھ لوگ ایسے ہیں جو جاگ رہے ہیں
لیکن اصل میں سوئے ہوئے ہیں
اور پیغام آیا ہے
لوگ اب دعاؤں میں آنکھیں نہ بھیجیں
یہاں پہلے ہی
کھارا پانی بہت ہے
بہت دور سے چاہتیں بھیجنے والے
اپنے گھروں میں سلامت رہیں
تجھے ہم ایسے بہ صد احترام دیکھتے ہیں
کہ جیسے شاہ کی جانب غلام دیکھتے ہیں
تمام رات چراغوں نے ہچکیاں جھیلیں
ہوا کا جبر بہت بے لگام دیکھتے ہیں
طویل دن کا تبسم بھی رائیگاں ٹھہرا
سحر گزیدہ نگاہوں سے شام دیکھتے ہیں
عارضی بوسوں کی ٹوکری
میں
دریا کنارے بیٹھے
ٹوکری لے کر
ایک ایک کر کے سرخ، گلابی اور سفید بوسے
پانی میں بہا رہا ہوں
یہ جون کی چوبیسویں تاریخ ہے
گردشیں سدا رہیں عشق کے امور میں
زندگی بسر ہوئی صبر کے شعور میں
سوچ کے پروں پہ تھیں وصل کی اطاعتیں
آنکھ پھر جھکی رہی آپ کے حضور میں
عشق تھا رچا ہوا دھڑکنوں کے راگ میں
نبض جگمگا اٹھی عاشقی کے نور میں
کسی کسی کو جو زر وقت پر نہیں ملتا
کسی کسی کو وہی عمر بھر نہیں ملتا
کسی کسی کو سفر در سفر ہوا درپیش
کسی کسی کو تو اذنِ سفر نہیں ملتا
کسی کسی کو ملا سایۂ ہما، لیکن
کسی کسی کو تو ظلِ شجر نہیں ملتا
بیٹھا ہے دل میں چھپ کے تمہارے عدو کہیں
برباد ہو نہ جائے مِری جستجو کہیں
اس پر اثر نہیں ہے کسی بات کا ابھی
بے کار ہو نہ جائے مِری گفتگو کہیں
پینے کا شوق ہے تو رہے یہ خیال بھی
ٹکرا کے ٹوٹ جائے نہ جام و سبو کہیں
رنگ پیراہن، تو خُوشبو زُلف لہرانا تِرا
فصلِ گُل بھی ہے اچانک بام پر آنا ترا
ساقیا اس چشم کی کچھ تو بتا جس کے بِنا
گُل ہوا بے رنگ، خالی ہے یہ پیمانہ ترا
چشم نم ہے، پھول مہکے اور شمعیں جل اٹھیں
یاد آیا دفعتاً کیوں رُوٹھ کر جانا ترا
اگر میں ذات کے زندان میں پڑا رہتا
یقین مانو، کہ نقصان میں پڑا رہتا
خدا نخواستہ ہم لوگ مل بھی جاتے اگر
میں تجھ سے ملنے کے امکان میں پڑا رہتا
مِرے وجود کی خوشبو سے لوگ جلتے تھے
وگرنہ، میں کسی گلدان میں پڑا رہتا
بات تو دور، نگاہوں سے اشارہ بھی نہیں
اس نے روکا بھی نہیں، اور پکارا بھی نہیں
بے نیاز اتنا تھا دنیا سے بھی اور خود سے بھی
اپنی بکھری ہوئی زلفوں کو سنوارا بھی نہیں
نہ ہی اخبار پڑھوں، اور نہ ٹی وی دیکھوں
کیا کروں میں، یہ طبیعت کو گوارا بھی نہیں
ترستی ہوں سننے کو تیرا لہجہ نہیں ملتا
زمانے میں کوئی مجھ کو تیرے جیسا نہیں ملتا
تیرے تک پہنچنے کی سب یہ تدبیریں ہیں لاحاصل
کبھی ہمت نہیں رہتی، کبھی رستہ نہیں ملتا
بڑی بے چین رہتی ہے نگاہیں اس زمانے کی
مگر دیدار کی خاطر، تیرا چہرہ نہیں ملتا
کوشش تو بارہا تھی مِری پر نہ بن سکا
خوابوں کا اک مکاں تو بنا گھر نہ بن سکا
بنتا رہا، بگڑتا رہا، عمر بھر یہ دل
لیکن تمام عمر یہ پتھر نہ بن سکا
مسند کے آگے اتنا جھکایا ہے اپنا سر
بچوں کا میرے دھڑ تو بنا سر نہ بن سکا
تاریک ہیں حالات ذرا دیکھ کے چلنا
ہر آن ہیں خطرات ذرا دیکھ کے چلنا
یہ راہِ محبت ہے میاں کیسی مسرت
ہر گام ہیں صدمات ذرا دیکھ کے چلنا
اک شہر خطرناک ہے پھر چاروں طرف سے
پڑتے ہیں مضافات ذرا دیکھ کے چلنا
ہمارے جامۂ ہستی کو اک دن چاک ہونا تھا
ہوئے تھے خاک سے پیدا ہمیں پھر خاک ہونا تھا
تِرے غمزے تیری شرمیلی آنکھوں سے یہ کہتے ہیں
تمہیں جلاد ہونا تھا، تمہیں سفاک ہونا تھا
ازل سے مرغِ دل کو خطرۂ صیاد کیا ہوتا
کہ اس کو تو اسیر حلقۂ فتراک ہونا تھا
ساعتِ آسودگی دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
مفلسی کو میرے گھر ٹھہرے ہوئے عرصہ ہوا
لمحۂ راحت رسا دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
ماں تِرے شانے پہ سر رکھے ہوئے عرصہ ہوا
ہجر کی تاریکیوں کا سلسلہ ہے دور تک
چاندنی کو چاند سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہوا
سن کہا مان نہ مانے گا تو پچھتائے گا
پیار نادان کو مت دے کہ یہ مر جائے گا
روش عام سے ہُشیار کہ پچھتائے گا
وقت کو چھوڑ یہ پانی ہے گزر جائے گا
سچ کوئی فن تو نہیں ہے جو سکھایا جائے
جھوٹ سے کام لے سچ بولنا آ جائے گا
ہو نہ سکی سحر میری کئی راتوں کے بعد
نا آشنا ہی رہے ہم کئی ملاقاتوں کے بعد
حال دل ہو بیان کیسے؟ اس کی محفل میں
ہو جاتی ہے زبان گُنگ ابتدائی مناجاتوں کے بعد
خون ناحق کے دھبے جو لگے تھے ہاتوں پر میرے
دُھل نہ سکے ہیں اب تک کئی برساتوں کے بعد
صدر نے اپنی صدارت کو بچا رکھا ہے
پایۂ تخت کو دانتوں سے دبا رکھا ہے
وہ کتابوں کو مصالحے کی طرح چاٹتے ہیں
جیسے اِدراک میں ادرک کا مزا رکھا ہے
یہ مِری قوم ہے کمزور و مقدس گائے
جس نے مہنگائی کی چُھریوں پہ گَلا رکھا ہے
لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو
مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں
مئی اور جون کی گرمی میں جو دلبر کو لکھا تھا
اسی خط کا جواب آیا ہے آخر کار سردی میں
تماشا میرے آگے
میں شہر کراچی سے کہاں بہرِ سفر جاؤں
جی چاہتا ہے اب میں اسی شہر میں مر جاؤں
اس شہرِ نگاراں کو جو چھوڑوں تو کِدھر جاؤں
صحرا مِرے پیچھے ہے تو دریا مِرے آگے
اس شہر میں کچھ حسن کا معیار نہیں ہے
بیوٹی کی ضرورت سرِ بازار نہیں ہے
کنویں کے باسیو بس آسمان تک دیکھ سکتے ہو
سائنس کی روشنی میں لامکاں تک دیکھ سکتے ہو
بتائیں کیا کہاں سے تم کہاں تک دیکھ سکتے ہو؟
جہاں بھی ہو وہیں سے دو جہاں تک دیکھ سکتے ہو
عیاں تک دیکھ سکتے ہو، نہاں تک دیکھ سکتے ہو
چراثیموں کے انجن کا دھواں تک دیکھ سکتے ہو
گیت
وہ کون ہے جو دکھائی نہ دے
دل کے کسی اجنبی راستے پر
چلا جا رہا ہے
وہ ہی قدموں کی آہٹ ملی
جس طرف بھی میں جانے لگی
کیسی صورت ہے یہ اظہار کی
لطافت اور آئے گی اگر ایسا بھی کر لیں ہم
اٹھو تاریک راتوں سے کوئی سورج نکالیں ہم
نگاہوں سے اسے دیکھیں نگاہوں سے اسے چاہیں
نگاہوں میں اسے رکھ کے نگاہوں میں چھپا لیں ہم
ستاروں کی گزر گاہیں، بڑی پُر نور ہوتی ہیں
ستاروں کے پڑاؤ میں نیا مسکن بنا لیں ہم
کوئی سمجھے نہ کبھی بے سر و ساماں مجھ کو
خوش نصیبی سے ملا ہے درِ جاناں مجھ کو
حاصل زیست ہے یہ فضل یہ احساں مجھ کو
کر دیا ان کی غلامی نے مسلماں مجھ کو
میں تو ان کا ہوں غلامی میں رہوں گا ہر دم
کاش فرما دیں مِرا سرورِ دوراں مجھ کو
محبتوں کا یہی مسئلہ نہیں جاتا
ہم اس سے کیسے کہیں کیا کہا نہیں جاتا
وہ درد ہے تو مِرے دل سے کیوں نہیں اٹھتا
یہ درد وہ ہے، جو مجھ سے سہا نہیں جاتا
یہ کس جہان کا نقشہ دیا گیا ہے مجھے
کہ اس کی سمت کوئی راستہ نہیں جاتا
بھوک کی شدت سے بیٹھا رو رہا ہے
کرب سر پر موسموں کا ڈھو رہا ہے
پاس بوڑھے لیمپ کے، فٹ پاتھ پر
دن تھکن سے چُور ہو کر، سو رہا ہے
وہ کشا کش، گو مگو اس کے سبب
خواب کی تعبیر اپنی کھو رہا ہے
اپنوں کا ستایا ہوا اپنوں کا ڈسا ہوں
جی جان لٹا آیا مگر پھر بھی برا ہوں
اس جسم کو جھونکا ہے مشقت کی اگن میں
ہر لمحہ مر مر کے جیا جی کے مرا ہوں
ہر روز قلم سر کو کیا ہاتھ سے اپنے
ہر رات کو جذبات کی سولی پہ چڑھا ہوں
تِرے آگے ہے اسی سوچ کا فانوس ابھی
میری مونس ہے تُو حالات سے مایوس ابھی
دیکھ ہر غوغائے سگ پر ہے توجہ بے کار
ابنِ آدم نے انہیں آپ یہ نسبت بخشی
اپنے بچوں کو مِری جان بتا دے اتنا
ان کے اپنوں نے انہیں آپ یہ جرأت بخشی
جہاں درگزر ہے مزاج میں وہاں دشمنی کی تلاش ہے
جہاں دوستی کا گزر نہیں، وہاں دوستی کی تلاش ہے
ہے جہاں میں بھیڑ یہ کس قدر سبھی دشمنی میں ہیں سر بسر
جسے آدمی کہوں فخر سے،۔ اسی آدمی کی تلاش ہے
مِرے دل میں ہے وہ نظر میں ہے جسے جانتا بھی نہیں ہوں میں
کئی دن ہوئے مجھے کیا ہوا،۔ اسی اجنبی کی تلاش ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کام بگڑا تھا مِرا جو بھی بنایا تُو نے
میرے مولیٰ مجھے ہر آن سنبھالا تو نے
جان پتھر میں پلی اس کو کھلایا تو نے
وہیل مچھلی کو سمندر میں ہے پالا تو نے
آسماں اور یہ زمیں سب ہے بنایا تو نے
ایک میزان سے پھر سب کو چلایا تو نے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ان کو مطلب ہی نہیں رہتا کسی زردار سے
جن کو امیدیں ہیں وابستہ مِرے سرکارؐ سے
چاند سورج کہکشاں تارے دِیے جگنو تمام
کرتے ہیں کسبِ ضیا سرکار کی سرکارؐ سے
رب عطا کرتا ہے اس میں شک نہیں کوئی مگر
نعمتیں ہوتی ہیں حاصل احمدِ مختارﷺ سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گرچہ عدو سے پتھر کھائے سرکارِ دو عالمؐ نے
ہاتھ دعا کو پھر بھی اٹھائے سرکارِ دو عالم نے
چرواہے سردار بنائے سرکارِ دو عالمﷺ نے
کچھ ایسے اسلوب سکھائے سرکارِ دو عالم نے
دل سے خار نکالے سارے نفرت اور عداوت کے
الفت کے پھر پھول اگائے سرکارِ دو عالمﷺ نے
شبنمی چشم
جب سے دیکھی ہے وہ شبنمی سی چشم
اُس میں ڈُوبا تو مجھ راز کُھلا
آنکھ پر کُھل گئے نہاں منظر
خاک اُڑائی ہے قیس نے جتنی
اور فرہاد نے تنِ تنہا
جس طرح کوہِ بے ستوں کاٹا
نہیں جاتا میں مسجد میں
مجھے کیا لینا مندر سے
مجھے درکار جو بھی ہو
مجھے ملتا ہے اندر سے
کہ دل کے آئینے میں جب سے
اس دیوی کا سایہ ہے
مزاج پرسی سلام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
یہ زندگی صبح و شام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
یہ چاہتیں ہیں، یہ نفرتیں ہیں، یہ وحشتیں ہیں
اور ان میں یکساں دکھ ہے، تمام دکھ ہے
کہیں پہ بھی ہو، کسی سے بھی ہو، قلیل ہی ہو
محبتوں کا انعام دکھ ہے، تمام دکھ ہے
بے موت انہیں ہم بھی یوں ماریں تو مزا ہے
اترے ہیں جو دل میں، وہ اتاریں تو مزا ہے
دل اب بھی تڑپتا ہے کہ یادیں تو ہیں باقی
یادوں کو بھی اب دل سے اتاریں تو مزا ہے
جو لوگ بضد ہیں ہمیں ٹھکرائیں گے فوراً
سر دے کے وہی صدقہ اتاریں تو مزا ہے
اس بات سے حیرانی بھی حیران ہوئی ہے
وحشت مِری پہچان کا سامان ہوئی ہے
اِک قبر میسّر ہے قیامت کی گھڑی تک
سو نیند کی مشکل مجھے آسان ہوئی ہے
اک روز جہنم بھی شعاعوں کی تپش میں
سورج کی تمازت سے پریشان ہوئی ہے
ذرا بھی خوف نہیں ہے اسے خسارے کا
وہ آدمی ہے کسی اور ہی ستارے کا
نہ جانے میز پہ کب سے اداس بیٹھی ہوں
جواب نہ میں جو آیا ہے استخارے کا
ہیں اس مزاج کی سب تلخیاں قبول مجھے
کوئی ملا تو سہی مجھ کو اپنے وارے کا
ہمیں تک دھنا دھن تک کا نشہ ہے
پاکستانی قوم کا نظریہ تک دھنا دھن تک ہے
یہ قوم ڈگڈگی پر ناچتی ہے
اس کو کوئی بھی جمع کر سکتا ہے
کیسے نظریات؟
کون سا ماضی؟
لوگ نفرت کو جو نفرت سے مٹانے لگ جائیں
کوئی باقی نہ رہے، سبھی ٹھکانے لگ جائیں
آپ کے ظلم سے تنگ آ کے کسی دن مظلوم
اپنے ہاتھوں نہ کہیں جان گنوانے لگ جائیں
جو بتانی ہے ہمیں تم کو ذرا سی اک بات
راز بھی کم ہوں جو وہ بات بتانے لگ جائیں
رفتہ رفتہ سب مناظر کھو گئے، اچھا ہوا
شور کرتے تھے پرندے سو گئے اچھا ہوا
کوئی آہٹ کوئی دستک کچھ نہیں کچھ بھی نہیں
بھولی بسری اک کہانی ہو گئے، اچھا ہوا
ایک مدت سے ہمارے آئینے پہ گرد تھی
آنسوؤں کے سیل اس کو دھو گئے اچھا ہوا
سفر نے تو مجھے شل کر دیا ہے
معمّا تھا مگر حل کر دیا ہے
وہ آیا نکہتوں کے جُھرمٹوں میں
بہاروں کو مکمل کر دیا ہے
مجھے محفوظ کرنا ذات کو تھا
تِری آنکھوں کا کاجل کر دیا ہے
کھو گئے جانے کہاں پیار لٹانے والے
یاد آتے ہیں بہت لوگ پرانے والے
اتنی مہنگائی میں بچتا ہی نہیں کچھ صاحب
نوکری ایک ہے، اور چار ہیں کھانے والے
کچھ بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتا ہے یہاں
تھے قطاروں میں کھڑے صبح سے پانے والے
راگ تھم جائیں گے، شہنائی چلی جائے گی
بے سُری گیت میں پھر چھائی چلی جائے گی
میں تِرے ہجر میں یعقوبؑ کی آنکھوں کی طرح
اتنا روؤں گا کہ بینائی چلی جائے گی
میں چلا جاؤں گا لیکن اے مِرے پیرِ مغاں
تیرے مے خانے سے رعنائی چلی جائے گی
ہم عشق میں دلدار کے حیران ہیں واللہ
ہر آن جدائی سے پریشان ہیں واللہ
چھیڑو نہ مجھے یارو کوئی سوختہ دل کو
ہم اپنی میاں! جان سے بے جان ہیں واللہ
جب اپنی خبر مجھ کو نہیں ہے کہ میں کیا ہوں
حیوان سے بد تر ہمیں انسان ہیں واللہ
مدت کے بعد اس نے لکھا میرے نام خط
میری شکایتوں سے بھرا ہے تمام خط
گھبرا نہ اس قدر دل بے تاب صبر کر
آتا ہے کوئی روز میں اب صبح و شام خط
لکھا ہوا ہے خاص تمہارے ہی ہاتھ کا
پہچانتا ہے خوب تمہارا غلام خط
پیچھے نہ کہیں میرے، کہ تنگ آ کے مَرا تھا
کہتے ہیں مِرا باپ بھی کچھ کھا کے مَرا تھا
تلوار کوئی سر سے بہت دور تھی اس کے
وہ مرنے کے ہی خوف سے گھبرا کے مرا تھا
سب پیار سے رہنا،۔ نہ کہ دیوار اٹھانا
بوڑھا سبھی بچوں کو یہ سمجھا کے مرا تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ کیسا فرشِ عزا ہے کہ ہر صدا چُپ ہے
عزیز چپ ہیں عزا چپ ہے تعزیہ چپ ہے
سرہانے باپ کے روتا ہے روک کر آہیں
جناب سیدہ نرجس کا مہ لقا چپ ہے
نہ آہ نکلی نہ ٹوٹی طنابِ خیمۂ صبر
سکوت ایسا ہے جیسے کہ کبریا چپ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمد مصطفیٰﷺ آئے بہاروں پر بہار آئی
زمیں کو چومنے جنت کی خوشبو بار بار آئی
جناب آمنہؑ کا چاند جب چمکا زمانے میں
قمر کی چاندنی قدموں پہ ہونے نثار آئی
حلیمہ دو جہاں قربان ہوں تیرے مقدر پر
تِرے کچے سے گھر میں رحمتِ پروردگار آئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پناہ مانگو
حرم کے سجدہ گزارو
اپنی خفیف پیشانیاں زمینِ حرم پہ رکھ دو
تڑپ کے روتے ہوئے دلوں کو
حجاز کے ہر قدم پہ رکھ دو
دعا کرو، گڑگڑاؤ، بِلکو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
طائرِ جان کا اک روز یہ منظر دیکھوں
تیریؐ فرقت میں تڑپتا دلِ مضطر دیکھوں
تِرےﷺ اعجاز کا یہ ادنیٰ کرشمہ مولا
تِرےؐ ہاتھوں میں چہکتے ہوئے کنکر دیکھوں
تِرےؐ نکھرے ہوئے چہرے سے سجی قوسِ قزح
ہر طرح سے میں تجھے رنگ کا پیکر دیکھوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
انگلی پہ جنؐ کی گھوم رہے ہیں یہ شش جہات
وہﷺ بوریہ نشیں ہیں، شہنشاہِ کائناتﷺ
دن انؐ کے رخ کا عکس تو ہے عکسِ زُلف رات
اور سارے عطر انؐ کے پسینے کی ہیں زکات
بر حالِ زار من، بفگن بہرِ پنجتن
اک چشم التفات بس اک چشمِ التفات
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا محمدﷺ محمدﷺ میں کہتا رہا نور کے موتیوں کی لڑی بن گئی
آیتوں سے ملاتا رہا آیتیں پھر جو دیکھا تو نعتِ نبیﷺ بن گئی
کون ہے جو طلبگارِ جنت نہیں یہ بھی تسلیم جنت ہے باغِ حسین
حسنِ جنت کو جب بھی سمیٹا گیا مصطفیٰؐ کے نگر کی گلی بن گئی
جب کیا تذکرہ حسن سرکارﷺ کا والضحیٰ پڑھ لیا والقمر کہہ دیا
آیتوں کی تلاوت بھی ہوتی رہی نعت بھی بن گئی بات بھی بن گئی
آرزو سلگتی ہے ہو کے مَس ہواؤں سے
آگ سی برستی ہے ساونی گھٹاؤں سے
بے بسیٔ آدم کا غم تو خیر سب کو ہے
کون بھیک مانگے گا رحم کے خداؤں سے
نا مُراد جینا تھا،۔ نا مُراد جیتے ہیں
کیا گِلہ کرے کوئی اپنے آشناؤں سے
دو قطعات
شہر میں آخری دن تھا میرا، گھر آنا تھا
ہائے اس پگلی نے بھی آج نظر آنا تھا
اتنی آسانی سے ہی جانے دیا تم نے اسے
بات کرنی تھی، بغاوت پہ اتر آنا تھا
تیمور بلال
مشکلو! تیر جفاؤں کے چلاؤ آؤ
اسمِ عباسؑ کی سینے پہ سپر رکھتے ہیں
گھیر لیتی ہے کبھی گردشِ دوراں جو ہمیں
در عباسؑ پہ خاموشی سے سر رکھتے ہیں
ہر گلی لے کے نکلتے ہیں علم غازی کا
صفِ دشمن کو یونہی زیر و زبر رکھتے ہیں
غمِ حیات کی پہنائیوں سے خوفزدہ
میں عمر بھر رہا ناکامیوں سے خوفزدہ
جہاں بھی دیکھو تعصّب کی چل رہی ہے ہوا
ہمارا شہر ہے بلوائیوں سے خوفزدہ
کبھی کسی کا بُرا ہی نہیں کیا پھر بھی
زمانہ ہے مِری خوش حالیوں سے خوفزدہ
اٹھا نہ شورشِ وہم و قیاس آنکھوں سے
جو سچ ہے سُن مِری زخمی اداس آنکھوں سے
وہ ایک موتی جو دل میں چُھپا کے رکھا تھا
پھسل گیا وہ مِری بد حواس آنکھوں سے
نہ اب وہ حُسنِ نظر، نے کشش نظارے میں
اُتر گیا جو حیا کا لباس آنکھوں سے
صف ماتم بچھی ہے
سخن کا آخری در بند ہونے کی خبر نے
کھڑکیوں کے پار بیٹھے غمگساروں کو
یہ کیسی چپ لگا دی ہے
یہ کس کی ناگہانی موت پر سرگوشیوں کی آگ روشن ہے
کسی کے کنج لب سے کوئی تارا میرے دل پر آن پڑتا ہے
یوں نہ جاؤ کہ بہت رات ابھی باقی ہے
میرے حصے کی ملاقات ابھی باقی ہے
رات مہکے گی تو خواہش بھی بہک جائے گی
جو نہ ہو پائی ہے وہ بات ابھی باقی ہے
خیر سے مل گئیں راتیں وہ مرادوں والی
آپ کے حسن کی خیرات ابھی باقی ہے
وقت
یہ وقت کیا ہے
کیوں مسلسل گُزر رہا ہے
دلوں کے جذبے کُچل رہا ہے
ہمارے خوابو ں کا سب تسلسل
کسی اذیت میں ڈھل رہا ہے
سنگ اس کا ہے اور سر میرا
آخری موڑ پر ہے ڈر میرا
اے ہواؤ! چلو، گواہی دو
تم نے دیکھا ہے جلتا گھر میرا
دو گھڑی اور مجھ کو سن لیجے
اب تو قصہ ہے مختصر میرا
جُوڑے میں کھلا پھول
گنتی کرو
میرے ہاتھ میں
نیند کی کتنی گولیاں ہیں
مُٹھی بھر نیند کی گولیوں سے
سال بھر کے خواب خریدے جا سکتے ہیں
خیال عشق میں دنیا کا ہے نہ دیں کا مجھے
تِرے جمال نے چھوڑا نہیں کہیں کا مجھے
تو کیوں نہ پہلے میں یاروں سے معزرت کر لوں
غزل میں لفظ کھپانا ہے آستیں کا مجھے
نہیں ہے میرے دکھوں کا مِرے سوا کوئی
خیال اس لیے رکھنا ہے مجھ حزیں کا مجھے
یہ اضطراب کا عالم کہاں سے آتا ہے
خوشی ہے جاتی کہاں، غم کہاں سے آتا ہے
سوال کرتی ہیں رو رو کہ مجھ سے یہ آنکھیں
کہ دل میں گریہ پیہم کہاں سے آتا ہے
گر اپنے خوں سے شگوفے کھلاتی ہیں شاخیں
تو زرد پتوں کا موسم کہاں سے آتا ہے
وقت کی دھوپ
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے
خلا کے اندر ہی سب کچھ ہے
سناٹوں کی اپنی ہی آوازیں ہوتی ہیں
اور ان آوازوں کا سننا مشکل ہوتا ہے
آنے والے لمحے خوف دلاتے ہیں
نرم و نازک حسین
ایک ننھا شجر
اپنے اندر چھپائے ہوئے
برگ و بر
لمحہ لمحہ
جواں ہو رہا ہے
خوشی کا ہے تو یہاں غم کا بھی اصول بنے
گرے جو اشک تو کاغذ پہ کوئی پھول بنے
مجھے پتہ ہے اسے دُکھ نہیں جدائی کا
اسے کہو کہ نہ باہر سے یوں ملول بنے
منانا یار کو آسان ہو بھی سکتا ہے
منانے والا اگر اس گلی کی دھول بنے
یوں ہی کبھی مچل گئے یوں ہی کبھی بہل گئے
ہم کو کہاں قرار تھا؟ تم سے ملے، سنبھل گئے
دل کی کبھی سنی نہیں اور کبھی تو بے سبب
آنکھ ذرا سی نم ہوئی، اس کی طرف نکل گئے
یوں ہی رہیں گے رات دن یوں ہی زمین و آسماں
تم جو کبھی بدل گئے، ہم جو کبھی بدل گئے
جو تِرے پہلو میں گزری زندگی اچھی لگی
غم تِرا اچھا لگا،۔ تیری خوشی اچھی لگی
یاس کے موسم میں اس کی دل لگی اچھی لگی
آنکھ نم ہو کر بھی ہونٹوں پر ہنسی اچھی لگی
دُکھ بھی اس کی راہ میں ہیں سُکھ بھی اس کی راہ میں
موت سے ہر آدمی کو زندگی اچھی لگی
مسافر شب
سکوت شب کی ہے جلوہ فروشی
ہے موجودات پر چھائی خموشی
فضائے شام کو نیند آ رہی ہے
مناظر پر سیاہی چھا رہی ہے
ہے بدلا رنگ دن کے شور و شر کا
ہوا تاریکیوں کا دور دورہ
ذائقے پیدا طبیعت میں لچک کرتے ہیں
آ، تجھے واقفِ قند اور نمک کرتے ہیں
آؤ، چلتے ہیں جہاں سازشِ احباب نہ ہو
دشمنی کا یہ سفر دوستی تک کرتے ہیں
وہ جو انسان کے ہی بس میں ہے اس پر انساں
جانے کس منہ سے شکایاتِ فلک کرتے ہیں
ربط و نسبت کے تقاضوں کو نبھانے آئے
ہم تِرے در پہ جبیں اپنی جھکانے آئے
خواب آنکھوں کے، نگاہوں کی چمک، دل کا سکوں
کھو چکے تھے جو کبھی، آج وہ پانے آئے
خوابِ غفلت میں کٹی عمرِ گزشتہ ساری
اب مگر ہوش میں آنے کے زمانے آئے
پاگل ہے سو اس کو ساری بات بتانا پڑتی ہے
منظر پر کچھ لکھنا ہو تو آنکھ ہٹانا پڑتی ہے
تعبیروں کے ڈر سے ہم کو خواب بچانے پڑتے ہیں
خوابوں کی تعبیر کی خاطر نیند گنوانا پڑتی ہے
زخموں کی تشہیر نہ ہو سو ڈرتے ڈرتے شعر کہے
ہائے، جن کو داد کی خاطر بھیڑ لگانا پڑتی ہے
ہر ہُنر کار سے پہلے مِرا نام آتا ہے
میں نیا شخص نہیں ہوں، مجھے کام آتا ہے
جس طرح بھی ہو، خد و خال مکمل کر لو
کوئی دَم اور کہ وہ آئینہ فام آتا ہے
پھر بھی صحرا کے غزالوں میں ہے شہرت میری
حُسنِ رَم آتا ہے مجھ کو نہ خرام آتا ہے
ریپ
تم میری تصویریں لیک نہیں کر سکتے
میری نظمیں تمہارے تخیل سے بڑھ کر برہنہ ہیں
میں جانتی ہوں
"I think therefore I am"
لیکن تم کسی خیال کا ریپ نہیں کر سکتے
تخلیہ! دشت پھر آباد کیا جاتا ہے
شاہزادی تجھے آزاد کیا جاتا ہے
جنگ لڑتے ہیں اصولوں سے قبیلے لیکن
عشق کے نام پہ ٭اپرادھ کیا جاتا ہے
پھول بھرتے ہیں جو مُرجھائی ہوئی باہوں میں
ان غلاموں کو بھی آزاد کیا جاتا ہے
سبھی کو چُپ کرا دیتا تھا ایسا بولتا تھا
یہ دریا سُوکھنے سے پہلے کتنا بولتا تھا
تمہارے شہر کے لوگوں نے کڑوا کر دیا ہے
میں جب گاؤں میں رہتا تھا تو میٹھا بولتا تھا
وہ اب بھی لوگوں کو دریا دکھا کر کہتی ہو گی
وہ ایسے شور کرتا تھا،۔ وہ اتنا بولتا تھا
ٹھہر ٹھہر کے خدارا کلام کیجیۓ ناں
اداس شب کا بھی کچھ احترام کیجیۓ ناں
سنا ہے آپ کی آنکھیں ہیں بادشاہ آنکھیں
نظر اٹھائیے؛ ہم کو غلام کیجیۓ ناں
یہ چند اہلِ محبت کا پیر و مرشد ہے
یہ آ گیا ہے تو اٹھ کر سلام کیجیۓ ناں
میں اپنی ذات کا کافر ہوں، کیوں اپنے آگے جھک جاؤں
بے مول کی قیمت کیا دو گے جو آپ کے ہاتھوں بِک جاؤں
تم عشق کا دعویٰ کرتے ہو، کیا آنکھ بصیرت والی ہے؟
تِرے جذبے سچے تب مانوں جب اندر تک میں دِکھ جاؤں
جو ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا، اب دل کی راکھ بہانی ہے
پر یادیں مجھ سے کہتی ہیں میں پل دو پل کو رُک جاؤں
کسی درگاہ پہ منت نہیں مانی جائے
اب کہاں اور محبت یہ پرانی جائے
ایک افسانہ کبھی ایسا تو لکھے کوئی
آگے کردار چلیں، پیچھے کہانی جائے
کوئی دھونی، کوئی منتر کوئی تعویذ ہی ہو
دلِ بیمار سے یادوں کی نشانی جائے
زندگی چاک ہوئی کیا ہو رفو کی صورت
مل گئی خاک میں اب ذوقِ نمو کی صورت
حوصلے کیا ہوئے چڑھتے ہوئے دریاؤں کے
ریگزاروں میں کہاں کھو گئی جو کی صورت
خواہش سیم بدن سے ہوا وحشت کا نزول
نشۂ جسم نے کیا کر دی لہو کی صورت
ریڈیو کو کہو
قسم اٹھا کر کہے
دھرتی اگر ماں ہوتی ہے تو کس کی
یہ پاکستانیوں کی کیا ہوئی
اور ہندوستانیوں کی کیا لگی
وہ ریڈیو نہیں سنتے
مِرا کلام فقط روزنامچہ نہیں تھا
اسے کلام سے کچھ بھی تو واسطہ نہیں تھا
یہ کیسی رسمِ محبت تمہارے شہر میں تھی
کہ جس میں دل کا کوئی بھی معاملہ نہیں تھا
تمہارا دل تو سرائے تھا دل نہیں تھا اے دوست
مسافر آئے کہ جائے مناقشہ نہیں تھا
دل میں کوئی چراغ فروزاں نہ کر سکے
ہم زندگی میں کیف کا ساماں نہ کر سکے
امکانِ فہمِ سوزِ دروں بھی نہیں رہا
احساسِ دردِ دل لبِ خنداں نہ کر سکے
دامن بچا بچا کے چلے خار زار سے
خونِ وفا سے پھر بھی گریزاں نہ کر سکے
پانے کا ذکر کیا کہ گنوانا بہت ہُوا
دل اس کی بے رخی کا نشانہ بہت ہوا
خوابوں کی گٹھری لاد کے کب تک جئیں گے ہم
پلکوں پہ ان کا بار اٹھانا بہت ہوا
ہوتا ہے درد، جب کبھی آ جائے اس کا ذکر
گو زخمِ دل ہمارا پرانا بہت ہوا
بے قیمت
زندگی تو ان کی ہے
بس تمہیں جن آنکھوں کو دستیاب رہنا ہے
زندگی تو ان کی ہے
جن کی دسترس میں ہو
جن سے بات کرتی ہو
اپنے جب عکس کو دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ایک دن ذات کا نشہ بھی اتر جائے گا
آنکھیں برسات میں جب تیری گواہی دیں گی
ریت پر نام لکھا ہے وہ اُبھر جائے گا
چاند کے پاس رکھی ہیں مِری آنکھیں گِروی
اس طرح قرض جو واجب ہےاُتر جائے گا
نمو کی خاک سے اٹھے گا پھر لہو میرا
عقب سے وار کرے چاہے جنگجو میرا
لکیر کھینچ کے مجھ پہ وہ پھر مجھے دیکھے
نگار و نقش میں چہرہ ہے ہو بہو میرا
رقیب تشنہ تو جی بھر کے خاک چاٹے گا
چٹخ کے ٹوٹ گیا ہاتھ میں سبُو میرا
آئینے سے نہ ڈرو اپنا سراپا دیکھو
وقت بھی ایک مصور ہے تماشا دیکھو
کر لو باور کوئی لایا ہے عجائب گھر سے
جب کسی جسم پہ ہنستا ہوا چہرہ دیکھو
چاہیۓ پانی تو لفظوں کو نچوڑو ورنہ
خشک ہو جائے گا افکار کا پودا دیکھو
ممکن نہیں اب کوئی کرشمہ دلِ سادہ
اب تُو بھی نہ کر اس کی تمنا دل سادہ
اس در کی تمنا میں تڑپنا تِری عادت
راس آیا نہیں تجھ کو سنبھلنا دل سادہ
رکھا نہ گیا تجھ سے بھرم اپنی انا کا
دیکھا نہ گیا تیرا بکھرنا دل سادہ
زمیں سے تا بہ فلک اضطراب کتنے تھے
نظر ملی نہ تھی جب تک حجاب کتنے تھے
امیدیں توڑ کے کتنا سکون ملتا ہے
توقعات کے غم میں عذاب کتنے تھے
میں زندگی کے تسلسل کی فکر میں گم تھا
فضا کی گود میں رقصاں حباب کتنے تھے
چلے بھی آؤ تمہارے بغیر تھک گئے ہیں
کہ باغِ ہجر کی ہم کر کے سیر تھک گئے ہیں
کہاں کہاں مِری نظروں نے تجھ کو ڈھونڈا نہیں
کہیں تو مل، مِری آنکھوں کے پیر، گئے ہیں
وہ دن کا بُھولا ہوا شام کو نہیں لوٹا
بتاؤ کس کو کہیں شب بخیر، تھک گئے ہیں
One-One-Two-Two
جب گریویٹی کی فرِکشن بامِ تھران کے پہاڑوں کو
جھنجھوڑتی ہے
شور مچاتی زندگیاں
کہرام مچاتی سڑکوں پر فراٹے سے سرپٹ بھاگتی ہیں
حادثہ آنکھیں کھولتا ہے
جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
ستم گر کی ستائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
مجھے تنہائی پڑھنی ہے مگر خاموش لہجے میں
یہی محفل کی خواہش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں
مِرے افکار پہ بولے بڑی تہذیب سے زاہد
مقدر آزمائش ہے، کسی سے کچھ نہیں بولیں
محبت آشنا لمحہ
چھپائے اک عجب سا
کرب لہجے میں
مجھی سے پوچھتے ہیں یہ
اگر ہر خواب کی قسمت میں
مر جانا ہی لکھا ہے
بزدلی اپنے قبیلے کی وراثت ہی نہیں
جھوٹ بولو ں یہ میرے گھر کی روایت ہی نہیں
بے ضمیری کے مصلے پہ رہوں سجدہ گزار
آئی حصے میں مِرے ایسی ذلالت ہی نہیں
ایک سُوکھی ہوئی ٹہنی ہے دعا بے گریہ
سجدہ بے معنی اگر روح عبادت ہی نہیں