گھنگرو پہ بات کر نہ تُو پائل پہ بات کر
مجھ سے طوائفوں کے مسائل پہ بات کر
فٹ پاتھ پر پڑا ہوا دیوانِ میر دیکھ
ردی میں بکنے والے رسائل پہ بات کر
گورے مصنفین کی کالی کتب کو پڑھ
کالے مصنفوں کے خصائل پہ بات کر
گھنگرو پہ بات کر نہ تُو پائل پہ بات کر
مجھ سے طوائفوں کے مسائل پہ بات کر
فٹ پاتھ پر پڑا ہوا دیوانِ میر دیکھ
ردی میں بکنے والے رسائل پہ بات کر
گورے مصنفین کی کالی کتب کو پڑھ
کالے مصنفوں کے خصائل پہ بات کر
گھر ہمارا بھی اگر ہوتا تو گھر میں رہتے
عمر بھر یوں نہ کسی راہگزر میں رہتے
اپنی صورت سے شناسا ہی کہاں ہو پائے
آئینے ہوتے تو ہم اپنی نظر میں رہتے
رات سڑکوں پہ ٹہل کر ہی گزاری ہم نے
اجنبی شہر تھا کس شخص کے گھر میں رہتے
ہوتے ہیں نبھانے کے تو دو چار تعلق
ہم یوں ہی بناتے رہے بے کار تعلق
ہے مشورہ میرا کہ پلٹ جائیں یہیں سے
یہ آپ کے بس کا نہیں سرکار تعلق
پہنچے گی محبت جوں ہی انجام کو اپنے
رہ جائیں گے پھر ہم میں یہ اشعار تعلق
اچھے لوگوں سے کنارا نہیں اچھا ہوتا
اچھا ہوتا نہیں یارا، نہیں اچھا ہوتا
یار جینا ہے تو پھر شان سے جینا سیکھو
زیست میں صرف گزارا نہیں اچھا ہوتا
یہ حقیقت ہے محبت کے خسارے کے سوا
اور کوئی بھی خسارا نہیں اچھا ہوتا
سورج مِری ہتھیلی پہ یادوں کا دھر گئے
مجھ کو تڑپتا چھوڑ کے جانے کدھر گئے
جو خواب میرے ان میں مِرے وہ بھی دیکھتے
آنکھوں کی تم تو صرف بناوٹ پہ مر گئے
مایوسیوں کی راہ پہ یوں مجھ کو چھوڑ کر
خود جانے کس کے ساتھ کہاں اور کدھر گئے
گماں نہ کر
کہ تُو مجھے مصرعوں میں ڈھال سکتا ہے
مجھ میں پھیلے ہوئے صحرا کی ریت سمیٹ سکتا ہے
یا مر ی آنکھ کے دریا کو لفظ کے کوزے میں قید کر سکتا ہے
تُو چاہے عمر بھر مرے رنگ چن چن کر من پسند تصاویر بناتا رہے
اور اپنے ادھ کچرا خیالات کی داد پاتا رہے
میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں
میں حادثہ ہوں، اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں
قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا
جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں
میں نیم مردہ، اسیر انساں کا قہقہہ ہوں
میں سرخ اینٹوں کے خونی پنجروں میں رہ چکا ہوں
خط
بابا آپ سے ایک گلہ ہے
خط تو آپ کے اچهے ہیں سب
آپ کے ہاتھوں کی خوشبو ہے
پر، میں ان کو پڑهتی ہوں جب
ہو جاتا ہے دل کیوں بوجهل
آنکھیں کیوں دهندلا جاتی ہیں
جواب دیتے ہوئے اک سوال کا دکھ ہے
مرے نصیب میں یارو! کمال کا دکھ ہے
جھجھک جھجھک کے مرے گر رہے ہیں جو آنسو
سنو! یہ اب کا نہیں پچھلے سال کا دکھ ہے
امیرِ شہر کے ڈیرے پہ ناچنے والی
غریب لڑکی کے حسن و جمال کا دکھ ہے
کوئے جاناں میں نہیں کوئی گزر کی صورت
دل اڑا پھرتا ہے ٹوٹے ہوئے پر کی صورت
ہم تو منزل کے طلبگار تھے, لیکن منزل
آگے بڑھتی ہی گئی راہگزر کی صورت
وہ رہیں سامنے میرے تو تسلی, ورنہ
دل بھی کمبخت بھٹکتا ہے نظر کی صورت
انتظار کی حد تک انتظار کرنا تھا
اعتبار کی حد تک اعتبار کرنا تھا
حالِ دل تو کہنا تھا مُختصر مگر قاصد
اِختصار کی حد تک اِختصار کرنا تھا
خواب ہو کہ بیداری آہ و نالہ و زاری
اِختیار کی حد تک اِختیار کرنا تھا
کس موڑ پر ملے ہو؟
وہ خواب کا زمانہ
وہ رُوپ کا خزانہ
سب کچھ لٹا چکے ہم
یہ جسم و جاں جاناں
کس موڑ پر ملے ہو؟
مژگاں نے روکا آنکھوں میں دم انتظار سے
الجھے ہیں خار دامن بادِ بہار سے
مطلب خزاں سے ہے نہ غرض ہے بہار سے
ہم دل اٹھا چکے چمنِ روزگار سے
یہ گل کھلا نہ لالہ رُخوں کے فراق میں
ہم داغ لے چلے چمنِ روزگار سے
اس کے لہجے کی توانائی سے اندازہ ہوا
وہ مِرا کتنا ہے؟ گہرائی سے اندازہ ہوا
کیا ہوا کرتا ہے اپنوں کی جدائی کا عذاب
ایک دو روز کی تنہائی سے اندازہ ہوا
مفلسی کیسے سِسکتی ہے سہاگن بن کر
ایک لَے توڑتی شہنائی سے اندازہ ہوا
بن رہا ہے خود سے رشتہ آج کل
خاک پر بستر ہے اپنا آج کل
جس کو سمجھا تھا بھلا بیٹھا ہوں میں
آ رہا ہے یاد کتنا آج کل
دل کو پھر وہ ہی جنوں مطلوب ہے
پھر اسی کی ہے تمنا آج کل
کام آئی عشق کی دیوانگی کل رات کو
حسن نے بخشی متاعِ دوستی کل رات کو
قامتِ دلکش لباسِ سرخ میں تھی مہماں
میرے گھر اک سرخ مخمل کی پری کل رات کو
تمتمائے گال، بھیگے ہونٹ، چشم نیم وا
تھی مجسم جیسے میری شاعری کل رات کو
جو دشت زاد ہے، لیکن جفا شناس نہیں
تو ایسے شخص کو جی بھر کے جینا راس نہیں
اسے چھُوا تو نہیں ہے، مگر خدا کی قسم
وہ جسم خاک نہیں ہے، اگر کپاس نہیں
نہ میرے ہاتھ سے گرتا گلاس یوں ہرگز
وہ شخص پھر سے اکیلا ہے گر اداس نہیں
لوگ بک جاتے ہیں بے دام تمہیں کیا معلوم
یہ برائی ہے یہاں عام، تمہیں کیا معلوم
بڑھ کے اب کوئی کسی کی نہیں کرتا پُرسش
کام سے رکھتے ہیں سب کام، تمہیں کیا معلوم
دو گھڑی بام پہ آنے سے تمہارے کل شب
شہر میں اٹھا ہے کہرام، تمہیں کیا معلوم
سبز پتوں کی ہزیمت میں اڑے سوکھتے ہیں
نشہ اترا ہے تو حیرت میں گڑے سوکھتے ہیں
کشتئ نوح سے اترے تو بہت بانکے تھے
یہ جو چپ چاپ ترے در پہ کھڑے سوکھتے ہیں
کوزہ گر جب سے جہاں زاد کا دیوانہ ہوا
ہم سے کتنے ہی تغاری میں پڑے سوکھتے ہیں
بے رخی اس کی بڑھی، چہرۂ گل زرد ہوا
کرب سینے میں اٹھا، لہجۂ دل سرد ہوا
یوں لگا دنیا میں کچھ بھی نہیں، کچھ بھی تو نہیں
یوں تو کہنے کو جدا مجھ سے بس اک فرد ہوا
کچھ محبت کا بھرم رکھتا زمانے کے لیے
کس قدر اجنبی مجھ سے مرا ہم درد ہوا
یاد ماضی کے چراغوں کو بجھایا نہ کرو
تم بھی تنہا نہ رہو مجھ کو بھی تنہا نہ کرو
✨نفس بادِ صبا ہاتھ نہ آئے گا کبھی
گل کی اڑتی ہوئی خوشبو کا احاطہ نہ کرو
ہم نے دیکھا ہے دم آخر شب خواب کوئی
تم سے کہنا ہے کہ تعبیر کا چرچا نہ کرو
فلمی گیت
آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں
پیار کی بھولی ہوئی یادوں سے ٹکراتا ہوں میں
کیا تمہیں وہ چاندنی راتیں بھی یاد آتی نہیں
تم تو کہتے تھے ستاروں کی قسم کھاتا ہوں
آؤ، ان ٹوٹی ہوئی یادوں کو آ کر جوڑ دو
اب تمہاری یاد آتی ہے تو کھو جاتا ہوں میں
فلمی گیت
اک ستم اور میری جاں، ابھی جاں باقی ہے
دل میں اب تک تیری الفت کا نشاں باقی ہے
اک ستم اور میری جاں، ابھی جاں باقی ہے
جرمِ توہینِ محبت کی سزا دے مجھ کو
کچھ تو محرومئ الفت کا صلہ دے مجھ کو
جسم سے روح کا رشتہ نہیں ٹوٹا ہے ابھی
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
فلمی گیت
جو حال پوچھا تو ہم حالِ دل سنا نہ سکے
زباں پہ آئے فسانے تو لب ہلا نہ سکے
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
فلمی گیت
چاند تُو جب بھی مسکراتا ہے
دل میرا ڈوب ڈوب جاتا ہے
چاند تو جب بھی مسکراتا ہے
میری یادوں میں وہ بھی رو رو کر
رات غم کی گزارتے ہوں گے
پیار کی وادیوں میں گم ہو کر
اب تو عطائے دید ہو اے عکسِ کبریا
دل ہے تمہارے عشق میں کعبہ بنا ہوا
اے شیخ ہم سے بغض ہی رکھیو گا حشر تک
تیرے خدا کو ہم نے بھی سجدہ نہیں کیا
مسجد کے سامنے بھی سجایا ہے مےکدہ
واعظ ہماری خلد کے اندر نہیں رہا
میں نوائے کن فیکون ہوں میں صدائے نغمۂ ساز ہوں
میں نمود بزمِ اعجاز ہوں میں عدم کا پردۂ راز ہوں
میں امانتوں کا امین ہوں، میں متاعِ علم و یقین ہوں
میں محبتوں کی زمین ہوں، میں حقیقتوں کا مجاز ہوں
میں حباب بحر وجود ہوں، میں ہوائے نام و نمود ہوں
میں ملائکہ کا مسجود ہوں، میں جبین عجزِ و نیاز ہوں
یہ چاند مجھ کو ہی تک رہا ہے
تمہیں ہمیشہ یہ شک رہا ہے
دراز میں چوڑیاں پڑی ہیں
کلائی میں وہ کھنک رہا ہے
میں زیرِ لب مسکرا رہی ہوں
وہ مجھ میں اب تک چہک رہا ہے
ترے خیال کے اب سلسلے نہیں ہوتے
ہماری آنکھوں سے اب رتجگے نہیں ہوتے
کسی کی خامشی تاعمر ساتھ رہتی ہے
کسی کے بند کبھی قہقہے نہیں ہوتے
بدن کی غار میں سناٹا چیختا ہے بہت
کوئی بھی جوش کوئی ولولے نہیں ہوتے
ذکر جب بھی تیرا عنوان میں آ جاتا ہے
اک نیا جوش دل و جان میں آ جاتا ہے
ایک قطره بھی میسر نہیں ہوتا ہے کبھی
اور مے خانہ کبھی دان میں آ جاتا ہے
شام ہوتے ہی بلا ناغہ یہ بیزارگی من
رقص کرتا ہوا شمشان میں آ جاتا ہے
ہم زمیں زاد
ہمارے پیروں کے چھالے پھوٹیں
تو ان کے نم سے
غبار رستوں کا بیٹھتا ہے
ہمارے خوابوں کا خون پی کر یہ سبز رنگی رُتیں جواں ہیں
ہمارے سر کاٹ کر اساسِ فلک میں جب تک دھرے نہ جائیں
بِنا مطلب کی دنیا میں کوئی کب دل سے ملتا ہے
جو ہر مشکل کا ساتھی ہو بڑی مشکل سے ملتا ہے
ہزاروں وسوسے لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں
امیرِ شہر جب جا کر کسی قاتل سے ملتا ہے
کریں بے شک نہ باتیں آپ لیکن بیٹھا رہنے دیں
سکونِ دل ہمیں بس آپ کی محفل سے ملتا ہے
عجیب قصہ دلگیر سے جڑی ہوئی ہوں
میں ایک خواب کی تعبیر سے جڑی ہوئی ہوں
مرا بهی خاص تعلق ہے اس کہانی سے
میں سیدہ ہوں مگر ہیر سے جڑی ہوئی ہوں
مری نگاہ میں اب روشنی بهری ہوئی ہے
میں اک چراغ کی تنویر سے جڑی ہوئی ہوں
دکان دیکھ کے پہلے تو وہ اچهل پڑے گا
پهر ایک شے نہ خریدے گا اور چل پڑے گا
میں ایک اسم بتاتا ہوں تم کو تشنہ لبو
جہاں بهی چاہو گے چشمہ وہیں ابل پڑے گا
جہان ساز! میں لے جا رہا ہوں اپنا جہاں
بنا نہیں ہے، مگر میرا کام چل پڑے گا
ساتویں دن ہی اذیت سے معافی رکھے
میری ہفتے میں کسی روز تو چھٹی رکھے
انگلیوں پر جو گنے ہجر میں کاٹے ہوئے پل
سبھی کے مشورے چھوڑے وہ ریاضی رکھے
اُس سے اِس واسطے کہتا ہوں کہ مر جاؤں گا
کبھی شاید مرے ہونٹوں پہ وہ انگلی رکھے
خاک پر خون کی تحریر سے پہچانے گئے
ترے وحشی تری زنجیر سے پہچانے گئے
اپنی تصویر سے ممکن ہی نہ تھی اپنی شناخت
ہم کسی اور کی تصویر سے پہچانے گئے
جن میں روشن تھا تری دید کا سودا وہ سر
لاکھ اندھیرے میں بھی شمشیر سے پہچانے گئے
گریہ بے تاثیر و فریادِ دلِ مضطرب خراب
کارِ عشق و عاشقی ناقص تمام اکثر خراب
اک ہمارا نام جو پہنچے نہ تیری بزم میں
اک ہماری خاک ہے جو پھرتی ہے در در خراب
میرے دل میں ایک دم آتے نہیں مثلِ مراد
ہو گئے اغیار کی آنکھوں میں تم رہ کر خراب
گھروں کے یہ دکھ لے جاتے ہیں ہم بیچاروں کو
دیمک لکڑی کھا جاتی ہے، نم دیواروں کو
جہاں گرانی دیکھ کے مفلس خالی لوٹ آئیں
بھاڑ میں جائیں، آگ لگے ایسے بازاروں کو
دیکھیں اس کے بعد فلک کیسے اتراتا ہے؟
کوئی زمیں پر لا کے رکھ دے چاند ستاروں کو
پرانا گھر نئے نقشے میں اچھا بن گیا ہے
مگر، اک باپ بچوں کا تماشہ بن گیا ہے
بہت اچھا ہُوا ہم اک قبیلے کے نکل آئے
چلو اب ہاتھ تھامو، اب تو رشتہ بن گیا ہے
خدایا! اب ذرا تیری توجہ اس طرف بھی
ہمارا ہاتھ پھیلے پھیلے کاسہ بن گیا ہے
اب کیا پتا چلے ترا دل کس کے پاس ہے
ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اداس ہے
پہلی دفعہ پہن کے میں نکلا ہوں عشق، اور
حیران ہو رہا ہوں یہ کیسا لباس ہے؟
دریا بھی اپنی سطح پہ کوشش کرے مگر
ہونٹوں ہی سے بجھے گی جو ہونٹوں کی پیاس ہے
ہمیں گرا کر کوئی مجازاً کھڑا رہے گا
ہماری چپ سے کسی کا رتبہ بنا رہے گا
بطور آرائشِ مکاں بس یہی بچا ہے
کسی کی آنکھیں کسی کا چہرہ پڑا رہے گا
گئے دنوں میں اداسیاں لا علاج ہی تھیں
ہمارے ہوتے بھی اک یہی مسئلہ رہے گا
میں عورتوں کے اس قبیلے سے ہوں
جب وہ چلتی ہیں
تو ان کا سر ایک سینٹی میٹر بھی نہیں جھکا ہوتا
تم اگر کبھی ان کی گردن کی پیمائش کرو تو
کوئی زاویہ 90 ڈگری سے نیچے نہیں ملے گا
جو دنیا کو سیدھا آنکھوں میں دیکھتی ہیں
سورج کی تمازت سے زمیں جلنے لگی ہے
لیکن سرِ کہسار🏔 وہی برف جمی ہے
دیکھے کوئی جھڑتے ہوئے پتوں کا نظارہ
جیسے کسی دیوار پہ تصویر بنی ہے
پت جھڑ ہے تو پھر گرنے سے اب کون بچے گا
آندھی کبھی دیوار اٹھانے سے رکی ہے
بت کی مانند نہ اپنے کو بنائے رکھنا
جس جگہ رہنا وہاں دھوم مچائے رکھنا
خود کو دریا میں نہ قطروں سا ملائے رکھنا
منفرد ہونے کا احساس دلائے رکھنا
کام فرزانۂ دنیا کا نہیں اے ناصح
پرچمِ عشق زمانے میں اٹھائے رکھنا
کوئی سوغاتِ وفا دے کے چلا جاؤں گا
تجھ کو جینے کی ادا دے کے چلا جاؤں گا
میرے دامن میں اگر کچھ نہ رہے گا باقی
اگلی نسلوں کو دعا دے کے چلا جاؤں گا
تیری راہوں میں مرے بعد نہ جانے کیا ہو
میں تو نقشِ کفِ پا دے کے چلا جاؤں گا
پابند ہر جفا پہ تمہاری وفا کے ہیں
رحم اے بتو کہ ہم بھی تو بندے خدا کے ہیں
گلچیں بہار گل میں نہ کر منع سیر باغ
کیا ہم غبار دامن باد صبا کے ہیں
جس کو یقیں بقا کا ہو واعظ تری سنے
ہم لوگ مست بادۂ جامِ فنا کے ہیں
مسی مالیدہ لب پر پان کا لاکھا جمایا ہے
تماشا ہے دھویں کو آگ کے نیچے دبایا ہے
لبوں پر آہ رہتی ہے، کلیجہ منہ کو آیا ہے
غضب میں آ گیا ہوں جب سے میں نے دل لگایا ہے
کوئی بت دَیر سے آ کر مرے دل میں سمایا ہے
غضب ہے کعبہ میں کافر نے اپنا گھر بسایا ہے
چاندنی رات ٹھہر جائے تو پھر نیند کہاں
چاند آنکھوں میں اتر آئے تو پھر نیند کہاں
قید شہزادی ہے جس میں وہی شیشے کا محل
میرے اشکوں میں نظر آئے تو پھر نیند کہاں
رات آئے تو وہی پریوں کے قصے لائے
نیند کا وقت گزر جائے تو پھر نیند کہاں
بخیہ گر چاکِ جگر روز سیۓ جاتے ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں وہ ٹانکے جو دئیے جاتے ہیں
آنکھ کی راہ نکلنے کو مچل پڑتے ہیں
خون کے گھونٹ جو ہر روز پئے جاتے ہیں
ہم نے سب چھوڑ دیا سازِ تمنا، لیکن
داغِ حسرت ہے کہ دنیا سے لئے جاتے ہیں
جب میں اور تو نڈھال ہو جاتے ہیں
سانسیں پھولتی ہیں
اور ہم پہلے ڈھیلے اور پھر سرد پڑ جاتے ہیں
اور ہمارے چہرے اپنی اصلی حالت پر آ جاتے ہیں
تو بے اختیار سوچتا ہوں
ہمارا کیا ہو گا اگر ساتھ چھوٹ گیا؟
او معصوم چڑيا تُو آنگن میں آ جا
نہ پر کھول اپنے
کہ شِکرے ہیں گھاتیں لگائے ہوئے
وہ دن ہو کہ شب ہو
یہ اڑنا غضب ہو
کہ صیّاد نے جال کتنے ہی اب تو
برنگِ زمیں ہیں بچھائے ہوئے
یہ کمرہ سانس لیتا تھا
میں اس میں زندہ رہتا تھا
کبھی وہ دن بھی تھے کہ
اس کمرے میں
ہلکی بارشوں کی پھوار کی صورت
تیرے میسج کے آنے پر
تیری یاد خار گلاب ہے
وہی منزلیں وہی راستے
وہی رتجگے وہی فاصلے
نہ تو نیند ہے، نہ ہی خواب ہے
جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل
تیری یاد خار گلاب ہے
قیس معزول ہوا، میری بحالی ہوئی ہے
مسندِ عشق مرے واسطے خالی ہوئی ہے
مزرعۂ چشم کو رکھتا ہوں ہمیشہ سیراب
میں نے دریا سے کوئی نہر نکالی ہوئی ہے
لے کے جا مجھ کو کسی اور ہی سیارے پر
یہ جو دنیا ہے بہت میں نے کھنگالی ہوئی ہے
جاں بھی پر سوز ہو، انجام تمنا کیا ہے
کوئی بتلائے کہ جینے کا بہانا کیا ہے؟
میری آنکھوں میں نمی بھی ہو تو واللہ کیا ہے
کوئی بھی جس کو نہ دیکھے وہ تماشا کیا ہے
وہ نہ چاہیں تو مزہ چاہ میں پھر خاک ملے
ہم اگر چاہیں بھی بالفرض تو ہوتا کیا ہے
یہ آگ یونہی دلوں میں بھڑک نہیں جاتی
فصیلِ ذہن سے تصویرِ شک نہیں جاتی
حنائی ہاتھ کی پوروں کا لمس وہ شے ہے
کہ اس گلاب کی برسوں مہک نہیں جاتی
ہوائے وقت اڑا لے گئی سبھی منظر
نظر سے تیری وہ پہلی جھلک نہیں جاتی
کسی کو پھر اسے پانے کی ضد ہے
ہمارے درمیاں آنے کی ضد ہے
مری چاہت ہے اس کو روک لینا
مگر وہ ہے کہ بس جانے کی ضد ہے
دیارِ شام سے آگے نکل کر
محبت کے عزا خانے کی ضد ہے
ہم شاہ جہاں کے ہتھ کٹے مزدور تک گئے
فاقہ اور فکر ایک ساتھ تندور تک گئے
موسیٰ کے سوا کوئی بھی زندہ نہیں بچا
جو لوگ خدا دیکھنے کوہِ طور تک گئے
اندھیرے میں اندھیرا ہی میرا ساتھی تھا
ہم روشنی کے دھوکے میں بڑی دور تک گئے
یوں ہے کہ
کبھی قہقہہ ٹوٹا سانس کی ہلتی ٹہنی سے
کبھی آنکھیں چُورا چُورا ہو کر بہہ نکلیں
کبھی لفظ ہنسی کی گردباد میں اڑتے رہے
کبھی سِسکاری نے آنچ بھری تو پگھل گئے
میں چھلک گیا تو لفظ بھی سارے چھلک گئے
کہاں کب فرق پڑتا ہے کسی کے آنے جانے سے
کئی کردار ہوتے ہیں کہانی میں، فسانے میں
بہت سے رنگ بادل اور پرندے لوٹ جاتے ہیں
کئی موسم بہت تاخیر کر دیتے ہیں آنے میں
بہت سے دوستوں کا روٹھ جانا راز رہتا ہے
انہیں ناراض جانا ہوتا ہے اگلے زمانے میں
رات کے اندھیرے میں
سردیوں کی بارش ہے
کھڑکیوں کے شیشوں پر
شور سا مچا ہے اور
اک عجیب حالت ہے
اشکِ غم نہیں، پھر بھی
آنکھ نم نہیں، پھر بھی
آؤ پھر ذکر فراق یار میں کھو جائیں ہم
تم ذرا سا گنگناؤ اور بس سو جائیں ہم
چاند نکلے آسماں پہ چاندنی بدمست ہو
بن پیۓ ہی مست خمرِ یار سے ہو جائیں ہم
چاندنی میں کھوئے رستے جس طرح الجھے سوال
در، مکاں اور کھڑکیوں کے خواب نہ بو جائیں ہم
پیرہن سے جو چھلکتا ہے سراپا میرا
پوچھوں آئینے سے یہ روپ ہے کیسا میرا
کاش باطن سے مرا رنگ ابھرتا نہ کوئی
میری تصویر نے رکھا نہیں پردا میرا
منتظر ایک فراموش ہوئے لمحے کی ہوں
زندگی بھر پہ محیط ایک وہ لمحہ میرا
کوئی سنتا ہی نہیں، کس کو سنانے لگ جائیں
درد اگر اٹھے تو کیا شور مچانے لگ جائیں
بھید ایسا کہ گِرہ جس کی طلب کرتی ہے عمر
رمز ایسا کہ سمجھنے میں زمانے لگ جائیں
آ گیا وہ تو دل و جان بچھے ہیں ہر سُو
اور نہیں آئے تو کیا خاک اڑانے لگ جائیں
دشتِ طلب میں کب سے اکیلا کھڑا ہوں میں
جس کا نہیں جواب کوئی وہ صدا ہوں میں
کس کی تلاش ہے؟ مجھے اپنے وجود میں
وہ کون کھو گیا ہے جسے ڈھونڈھتا ہوں میں
یہ میں نے کب کہا تھا کہ؛ ٹھہرو مرے لیے
دیکھا تو ہوتا مُڑ کے کہاں رہ گیا ہوں میں
پیڑ پھُولا نہیں سماتا ہے
چاند ٹہنی پہ آ کے بیٹھا ہے
کس بلندی پہ آ بسے ہیں ہم
ابر پاؤں کو اٹھ کے چھُوتا ہے
پیڑ انساں سے پیار کرتے ہیں
میں نے جنگل میں رہ کے دیکھا ہے
مقابلے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں
یہ ولولے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں
قریب آؤ تو شاید سمجھ میں آ جائے
کہ فاصلے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں
ہے میرے ساتھ مرے دشمنوں سے ربط انہیں
یہ سلسلے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں
اٹھا شعلہ سا قلبِ ناتواں سے
ہوا آئی کبھی جو شہرِ جاں سے
ہماری سمت بھی چشمِ عنایت
تری خاطر بنے ہیں نیم جاں سے
اداسی کس لیے پھیلی ہوئی ہے
اٹھا ہے کون آخر درمیاں سے
دوسرا فیصلہ نہیں ہوتا
عشق میں مشورہ نہیں ہوتا
خود ہی سو راستے نکلتے ہیں
جب کوئی راستہ نہیں ہوتا
جب تلک روبرو نہ ہو کوئی
آئینہ آئینہ نہیں ہوتا
الجھے تو سب نشیب و فرازِ حیات میں
ہم تھے کہ ان کی زلفوں کے خم دیکھتے رہے
جب گھر جلا تھا میرا وہ منظر عجیب تھا
دیکھا نہیں جو تم نے وہ ہم دیکھتے رہے
وہ صاحب قلم نہ وہ اب صاحبان سیف
کیا ہو گئے ہیں سیف و قلم دیکھتے رہے
بہ وصفِ شوق بھی دل کا کہا نہیں کرتے
فروغِ قامت و رخ کی ثنا نہیں کرتے
شکستِ عہدِ ستم پر یقین رکھتے ہیں
ہم انتہائے ستم کا گلا نہیں کرتے
کچھ اس طرح سے لٹی ہے متاعِ دیدہ و دل
کہ اب کسی سے بھی ذکرِ وفا نہیں کرتے
وجہِ تسکینِ جنوں وصلِ نگاراں بھی نہیں
عشق آساں ہے مگر اس قدر آساں بھی نہیں
ہر تجلی کے لیے ظرفِ نظر ہے درکار
جلوہ ارزاں ہے مگر اس قدر ارزاں بھی نہیں
جانے کیا سوچ کے ہر راہ میں رک جاتا ہوں
اس سے ملنے کا کسی موڑ پہ امکاں بھی نہیں
لبِ دریا جو پیاسے مر گئے ہیں
جنوں کا نام روشن کر گئے ہیں
💢حسینیؑ قافلہ جب یاد آیا
کٹورے آنسوؤں سے بھر گئے ہیں
جنہیں سورج نے بھی دیکھا نہ ہو گا
وہ ننگے پاؤں ننگے سر گئے ہیں
گھاٹے میں جانے والی دُکاں سے الگ ہوا
میں ایک روز تیرے جہاں سے الگ ہوا
بس یاد رہ گیا تھا مجھے عشق، عشق، عشق
پھر یہ بھی لفظ میری زباں سے الگ ہوا
مت پوچھ کون کون ہے اس کا ہدف یہاں
یہ دیکھ تیر🠄 کیسے کماں سے الگ ہوا
بارشوں میں خستہ جاں گرنے لگے
گرنے والے تھے مکاں گرنے لگے
ٹوٹتے رہتے ہیں تارے رات بھر
آسماں کے رازداں گرنے لگے
اک ذرا سا کیا ہوا نے چھو لیا
چھلنی چھلنی سائباں گرنے لگے
دیکھنا کیا ہے کہ اس منظر میں یکجا کیا ہوا
سارا عالم خواب ہے، لیکن مرا دیکھا ہوا
درد و غم لکھے تو مجھ پر کُھل گئی راہِ سخن
اشک کو کھنچا تو اک جادو بھرا مصرعہ ہوا
سوچتے ہی سوچتے آنکھوں میں آنسو آ گئے
دیکھتے ہی دیکھتے وہ آئینہ دھندلا ہوا
بکل میں چھپ کے الم پھانکنا
کروں بھی تو کیا
اک خموشی سے دنیا
سے منہ پھیر کر
پھر سے بکل میں چھپ کر
الم پھانکتی ہوں
مری پرورش میں
وہ مہربان ہے، لیکن وہ میں نے چاہی نہیں
مرے وجود میں خواہش کی اب فضا ہی نہیں
یہ میرے شعر ہیں، کاغذ پہ کوئی قصہ نہیں
یہ روشنی ہے مری جان، یہ سیاہی نہیں
میں چاند ہاتھ میں لے کر تلاش کرتا ہوں
کوئی ستارہ گلی میں مجھے ملا ہی نہیں
کب محبت سے دیکھتے ہیں مجھے
سب ضرورت سے دیکھتے ہیں مجھے
💥نیند کے ساتھ میرا جھگڑا ہے
خواب حسرت سے دیکھتے ہیں مجھے
میری باتوں میں کیسی خوشبو ہے
پھول حیرت سے دیکھتے ہیں مجھے
اٹھا کے لاشے کو بے ربط ناچنا ہے مجھے
یہاں پہ کون ہے میرا یہ دیکھنا ہے مجھے
سمجھ سکا نہ یہاں کوئی بھی مرے دل کو
سو خود کو توڑ کے آسان جوڑنا ہے مجھے
نگل نہ جائے کہیں مجھ کو میری خاموشی
سو اپنے کان میں خود آج چیخنا ہے مجھے
یادیں
آج کل
یادوں کو
سیر پر لے جاتا ہوں
کسی کو گود میں اٹھائے
اور کسی کو کاندھے پر
دل منتظر میرے مہرباں
ذرا بات سن
میرے خوش گماں
کروں کیسے تجھ پہ عیاں
بھلا غم زندگی کی حقیقتیں
ہے کسے طلب کسے آرزو
رات سے زیادہ وفادار نہیں ہے کوئی
زیست کے روز و شب
دنیا کے ہنگاموں میں مگن
دن کی اک ایک گھڑی
اوروں کی خدمت خاطر
لمحہ لمحہ اوروں کو جب دان کیا
ایسا منظر کبھی تو پاؤں میں
وہ سنبھل جائیں لڑکھڑاؤں میں
ڈوبنا ہی اگر مقدر ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاؤں میں
کیا کہا، تم کو بھول کر دیکھوں
اس سے بہتر ہے مر نہ جاؤں میں
بنامِ عشق عبادت میں کچھ مزا بھی تو ہو
سرِِ نیاز ہے خم، سامنے خدا بھی تو ہو
مجھے قبول مگر، آپ کی عدالت میں
خلافِ عدل سہی، کوئی فیصلہ بھی تو ہو
سلگ کے مرنے کا بھی یہ عمل ہنر ہی سہی
کمالِ فن میں مِری خاکِ کیمیا بھی تو ہو
سمندر پار آ بیٹھے مگر کیا
نئے ملکوں میں بن جاتے ہیں گھر کیا
نئے ملکوں میں لگتا ہے نیا سب
زمیں کیا، آسماں کیا اور شجر کیا
ادھر کے لوگ کیا کیا سوچتے ہیں
ادھر بستے ہیں خوابوں کے نگر کیا
ہوا میں تیر چلاتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں
کہ ہم تو خواب دکھاتے ہیں خواب دیکھتے ہیں
چلو، کہ اب تو کوئی کام بھی نہیں کرنا
چلو چراغ بجھاتے ہیں خواب دیکھتے ہیں
اک ایسا شہر، جہاں ہر طرف محبت ہو
وہ شہر روز بناتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں
ایک طوفان ہے، ٹالا نہیں جا سکتا
یاد کو دل سے نکالا نہیں جا سکتا
اب تری دید کی خواہِش ہے ان آنکھوں کو
اب ان آنکھوں سے اجالا نہیں جا سکتا
میرے کردار کے باعث ہے مری عزت
میری پگڑی کو اچھالا نہیں جا سکتا
مرے شانوں پہ ان کی زلف لہرائی تو کیا ہو گا
محبت کو خنک سائے میں نیند آئی تو کیا ہو گا
پریشاں ہو کے دل💓 ترکِ تعلق پر ہے آمادہ
محبت میں یہ صورت بھی نہ راس آئی تو کیا ہو گا
سر محفل وہ مجھ سے بے سبب آنکھیں چراتے ہیں
کوئی ایسے میں تہمت ان کے سر آئی تو کیا ہو گا
ظلم چکھا یا بے حسی چکھی
کیا کبھی تم نے بے بسی چکھی
موت ملتی رہی پیالہ بھر
ایک ہی گھونٹ زندگی چکھی
چاند جب شاخ پہ اتر آیا
تب درختوں نے چاندنی چکھی
بڑے سکوں سے خسارے شمار کرتی ہوں
میں رات جاگ کے تارے، شمار کرتی ہوں
💢کروں شمار تو تعداد گھٹنے لگتی ہے
میں جب بھی اپنے سہارے شمار کرتی ہوں
مرا تو کچھ بھی نہیں، جو ہے سب تمہارا ہے
میں اپنے سارے، تمہارے شمار کرتی ہوں
طنابِ کرب نہ خارِ ملال کھینچتا ہے
وہ اب چھوئے بھی تو لگتا ہے کھال کھینچتا ہے
کسی کے درد کے دریا میں ڈوبنے والو
مچھیرا وہ ہے جو پانی سے جال کھینچتا ہے
تمہارا ہجر کسی شرٹ کے بٹن کی طرح
کبھی کبھی مرے سینے کے بال کھینچتا ہے
چلے گی نہ اے دل کوئی گھات ہرگز
نہیں ان سے ہو گی ملاقات ہرگز
بہت کوشش ضبط کی ہم نے لیکن
ٹھہرتے نہیں دل میں جذبات ہرگز
تُو بقراطِ دوراں ہے ناصح مگر ہم
سُنیں گے نہ تیرے مقالات ہرگز
مجھے خبر نہیں کتنے خسارے رکھے گئے
مرے نصیب میں سب غم تمہارے رکھے گئے
ہمارے ساتھ محبت میں اتنا ظلم ہوا
ہماری آنکھ میں جلتے انگارے رکھے گئے
میں کہہ چکی تھی مجھے تیرنا نہیں آتا
بہت ہی دور تبھی تو کنارے رکھے گئے
اپنی تنہائی کے اسباب سمجھ آنے لگے
جب مجھے ٹھیک سے احباب سمجھ آنے لگے
میں نے اک بار یونہی ہاتھ چھڑایا تجھ سے
خود پہ کھلتے ہوئے ابواب سمجھ آنے لگے
فائدہ یہ ہوا اشجار کی صحبت کا ہمیں
باروَر ہونے کے آداب سمجھ آنے لگے
دیکھ کے شیشہ جب نوکیلی ہو جاتی ہے
آنکھ یہ دونوں کی رنگیلی ہو جاتی ہے
ہم اشکوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں اور
تصویروں کی رنگت پیلی ہو جاتی ہے
اکثر سارے موسم مجھ کو بھا جاتے ہیں
اکثر سوچ کے حالت گیلی ہو جاتی ہے
نظم
تجھے پتا ہی نہیں ہے مرے غزال بدن
کہ تیری چھت سے ذرا ہٹ کے ایک کونے میں
وہ ماہتاب تجھے دیکھنے کو آتا ہے
ستارے تیری تمازت سے جلتے بجھتے ہیں
اور آفتاب ترے در پہ سر جھکاتا ہے
اس اطلسی قبا کے ہی تسمے کا درد ہے
وہ حسنِ بے بہا تھا، مرا رنگ 'زرد' ہے
گاچی پڑی اداس ہے تختی کے آس پاس
پوچھے، سکھائے کون کہ ماحول سرد ہے
دریا میں بار بار، ڈبوتا ہوں اپنا منہ
تجھ روشنی کے لوبھ میں چہرے پہ گرد ہے
ارادہ روز کرتا ہوں، مگر کچھ کر نہیں سکتا
میں پیشہ ور فریبی ہوں، محبت کر نہیں سکتا
میں تم سے صاف کہتا ہوں، مجھے تم سے نہیں الفت
فقط لفظی محبت ہے، میں تم پہ مر نہیں سکتا
محبت کی مسافت نے بہت زخمی کیا مجھ کو
ابھی یہ زخم بھرنے ہیں، میں آہیں بھر نہیں سکتا
بڑی خانہ خرابی ہو گئی ہے
محبت اضطرابی ہو گئی ہے
میں اب مشہور ہوتا جا رہا ہوں
تمہاری ہمرکابی ہو گئی ہے
مجھے کشمیر آنا ہی پڑے گا
کہ تُو جنت کی چابی ہو گئی ہے
🕮 فیس بک👥
عہدِ نارسائی میں
کون کس کو پہچانے
کون دشمنِ جاں ہو
کون آشنا ٹھہرے
اس کتاب چہرے پر
دلوں میں وحشتیں آباد کر کے
صدائیں دے رہی ہوں یاد کر کے
مجھے مارا ہے میرے دوستوں نے
❤نئی طرزِ ستم ایجاد کر کے
قفس میں ایک پنچھی رو رہا تھا
وطن کے رنگ و بُو سب یاد کر کے
کبھی نہ لوٹ کے آنے کی بات کرتے ہُوئے
رکا ہوا تھا وہ جانے کی بات کرتے ہوئے
گِرا زمیں پہ وہ ایسا، کہ پھر اٹھا نہ گیا
کسی کا بوجھ اٹھانے کی بات کرتے ہوئے
کسی کے دل💔 کی تمنا کا خون کر بیٹھا
کسی کی جان بچانے کی بات کرتے ہوئے
کوئی کسی کا یار اب نہیں رہا
وفا کا پاسدار اب نہیں رہا
یہ گفتگو تو ہو رہی ہے عادتاً
وہ عشق وہ خمار اب نہیں رہا
تری نظر کا تیر اے ستم شعار
جگر کے آر پار اب نہیں رہا
پرانی چیز ہیں کچھ دیکھ بھال رکھیے گا
ہر ایک رُت میں تعلق بحال رکھیے گا
کسی بھی چیز کی قیمت طلب میں ہوتی ہے
بغیر مانگے ملا ہوں، سنبھال رکھیے گا
ہم اپنا حصہ نہیں چھوڑتے کسی صورت
ہمارے آنے سے پہلے نکال رکھیے گا
غم کی ملی جو عشق میں جاگیر دیکھ کر
خوابوں کو نوچ ڈالو گے تعبیر دیکھ کر
مجھ سے کہا طبیب نے تم لاعلاج ہو
آنکھوں میں ہجر یار کی تاثیر دیکھ کر
حالت بگڑ گئی ہے دلِ بے قرار کی
کُنجِ قفس میں وحشتِ نخچیر دیکھ کر
تری چال دھن تری سانس سر مرے دل کو آ کے سنبھال بھی
جو یہ جل ترنگ ذرا بجا تو یہ ڈال دے گا دھمال بھی
نہ اچھال جھیل میں کنکری کہ یہ خوفناک سا کھیل ہے
اسی کھیل میں نہ اتر پڑے تری آنکھ پر یہ وبال بھی
کئی لوگ مورچہ بند خوف کی ریت میں ہیں کرم کرم
ترے ہاتھ میں یہ جو سنگ ہے کسی سمت اس کو اچھال بھی
شبِ وصال مزا دے رہی ہے تو تیری
لبوں سے گھولتی ہے قند گفتگو تیری
تری زباں کو بگاڑا رقیبِ بد خُو نے
کہ بات بات میں گالی تو تھی نہ خُو تیری
لگا رہا ہے حنا کون تیرے ہاتھوں میں
رُلا رہی ہے مجھے خون آرزو تیری
اسی نے بوئے شکوک دل میں اسی چنبیلی کا نام دکھ ہے
تمہارے پہلو سے لگ کے بیٹھی ہوئی سہیلی کا نام دکھ ہے
وہی نا جس کی مکین لڑکی نے تیری بستی میں عشق بویا
مجھے بھی درشن کراؤ اس کے کہ جس حویلی کا نام دکھ ہے
تم ان لکیروں میں اک خوشی بھی تلاش کر لو تو معجزہ ہے
کہ میں تو بچپن سے جانتا ہوں، مری ہتھیلی کا نام دکھ ہے
بڑی محبت سے بات کرتا بڑے سلیقے سے بولتا ہے
وہ شخص جب بھی کسی جگہ پر مرے حوالے سے بولتا ہے
یہ خوش گمانی فقط مجھے ہے یا اس گلی سے گزرنے والی
ہوا کواڑوں سے کھیلتی ہے دیا🪔 دریچے سے بولتا ہے
میں ایک گڑیا کو تم سمجھ کر وہ ساری باتیں کروں گا اس سے
وہ ساری باتیں جو ایک بچہ کسی کھلونے سے بولتا ہے
گھر بلاتا ہے کبھی شوقِ سفر کھینچتا ہے
دوڑ پڑتا ہوں مجھے جو بھی جدھر کھینچتا ہے
اس طرح کھینچتی ہیں مجھ کو کسی کی آنکھیں
جیسے طوفان میں کشتی کو بھنور کھینچتا ہے
کیسے ممکن ہے بھلا چاند نہ دیکھے کوئی
حسن کامل ہو تو پھر خود ہی نظر کھینچتا ہے
حصول یہ ہے کہ شہرت نکال لایا ہوں
تمہارے ہجر سے چاہت نکال لایا ہوں
اگر ہے عشق تو پھر دیکھنا ضروری نہیں
میں ترے لہجے سے صورت نکال لایا ہوں
بتوں کو پوجنے والو! یہ بات مانتے ہو
میں پتھروں سے محبت نکال لایا ہوں
آنکھوں سے نہ اشکوں کی روانی سے محبت
اس کو ہے فقط میری جوانی سے محبت
پہلے تو بہت خود کو مصیبت سے بچایا
پھر ہو ہی گئی دشمنِ جانی سے محبت
وہ ترکِ محبت پہ بھلا کیسے ہو راضی
ہو جس کو محبت کی نشانی سے محبت
حسن سے آنکھ لڑی ہو جیسے
زندگی چونک پڑی ہو جیسے
ہائے یہ لمحہ تری یاد کے ساتھ
کوئی رحمت کی گھڑی ہو جیسے
راہ روکے ہوئے اک مدت سے
کوئی دوشیزہ کھڑی ہو جیسے
نیند ذرا سی جب بھی آنے لگتی ہے
یاد تمہاری شور مچانے لگتی ہے
ساتھ ملاتے ہیں آواز پرندے بھی
ہوا مجھے جب گیت سنانے لگتی ہے
دیکھ کے کھڑکی سے بارش کو پاگل لڑکی
آج بھی دو کپ چائے بنانے لگتی ہے
دیکھ سکتی ہے دوربین بھی کیا
سانس لیتی ہے یہ زمین بھی کیا
یہ جو مذہب ہے، پیار کا مذہب
اس سے اچھا ہے کوئی دِین بھی کیا
جیسے نکلے ہو تم مرے دل سے
چھوڑ جاتے ہیں یوں مکین بھی کیا
ایک نازک دل کے اندر حشر برپا کر دیا
ہائے، ہم نے کیوں یہ اظہارِ تمنّا کر دیا
اب نہیں ہے خشک آنکھوں میں سوا وحشت کے کچھ
انتہائے غم نے کیا دریا کو صحرا کر دیا
ان کے در کو چھوڑ کر در در بھٹکتے ہم رہے
وحشتِ دل نے عجب انجام اُلٹا کر دیا
ندی کے شور میں دکھ سنتی کوہساروں کا
تڑپنا دیکھتی پتھر پہ آبشاروں کا
کبھی خزاں کی مسرت کا تجزیہ کرتے
کبھی نظر میں بھی آتا الم بہاروں کا
بھٹک رہی ہیں حوادث میں کشتیاں لیکن
کوئی بھی ذکر نہیں کرتا اب کناروں کا
کیسے ساتھ نبھاؤں گا میں ایسے میں
میری تو منزِل ہے تیرے رستے میں
پہلے تو کی میں نے بات محبت سے
پھر سمجھایا اس کو اسی کے لہجے میں
اب ہم دونوں آزادی سے رہتے ہیں
قدرت نے ہم کو باندھا ہے رِشتے میں
گلشن میں انتشار کا قائل نہیں ہوں میں
ایسی کسی بہار کا قائل نہیں ہوں میں
ترجیح دوں گا موت کو میں پیاس کے سبب
ساقی مگر ادھار کا قائل نہیں ہوں میں
اٹھ جائے حشر میرے لہو میں تو بات ہے
معمول کے فشار کا قائل نہیں ہوں میں
چلو ہم ایسا کرتے ہیں
پھر سے ساتھ چلتے ہیں
اگر ایسا نہیں ممکن تو ماضی کے دریچوں میں
ذرا سا جھانک لیتے ہیں
ماں کی گود میں بیٹھے بچے کی طرح سے ہم
ذرا انجان بنتے ہیں
جو نگاہِ ناز کا بسمل نہیں
دل نہیں وہ دل نہیں وہ دل نہیں
بوتلیں خالی گئیں زیرِ عبا
آج میخانے میں مے فاضل نہیں
میری دشواری ہے دشواری مری
میری مشکل آپ کی مشکل نہیں
اے موج صبا! سوز مجسم اسے کہنا
ممکن ہے وہ پوچھے مرا عالم اسے کہنا
چاہا مرے حالات نے پیہم اسے کہنا
لیکن نہ ہوئی پیار کی لو کم اسے کہنا
اک ہم ہی نہیں شاکیٔ عالم اسے کہنا
اب اہل طرب کو بھی ہے یہ غم اسے کہنا
عمرِ رفتہ میں تیرے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں
دن بِتانے تھے مگر خود کو بِتا آیا ہوں
کل دے آؤں گا جا کر اسے اپنی بینائی بھی
آنکھ دیوار پہ فی الحال بنا آیا ہوں
اپنے آنسو بھی کیے نظر کسی پانی کے
پیاس دریا کی بحر طور بجھا آیا ہوں
بہار دل میں رہے، زندگی بہاراں ہے
کہ پیار دل میں رہے، زندگی بہاراں ہے
جگر کے پار اتر جائے تیر ہی کیسا
کٹار دل میں رہے، زندگی بہاراں ہے
چھپائے سے جو چھپےعشق نہیں مُشک نہیں
بخار دل میں رہے، زندگی ہے بہاراں ہے
نئے بیان سے بھی انحراف کرنا ہے
ابھی گواہ نے کچھ انکشاف کرنا ہے
خلافِ عقل سہی، فیصلہ عدالت نے
ہر ایک بار جنوں کے خلاف کرنا ہے
جلا ہے تیز ہوا سے گریز کرتے ہوئے
دِیے نے کھل کے ابھی اختلاف کرنا ہے
ہم تو معصوم سمجھ ہیں لوگو
اتنے پر پیچ مت بنو لوگو
اس کی عادت تھی پیار کی بولی
اور ہم دل بھی دے چکے لوگو
اس کی پھیلی ہوئی بانہوں کی قسم
سارے شکوے ہی دھل گئے لوگو
دل میں ہے طلب اور دعا اور طرح کی
ہے خاک نشینی کی سزا اور طرح کی
جب راکھ سے اٹھے گا کبھی عشق کا شعلہ
پھر پائے گی یہ خاک شفا اور طرح کی
جاتے ہوئے موسم کی تو پہچان یہی ہے
دستک میں مجھے دے گا صدا اور طرح کی
بجھے چراغ سرِ طاق دھر کے روئے گا
وہ گزرا وقت کبھی یاد کر کے روئے گا
یہ جس مقام پہ بچھڑے ہیں آ کے ہم دونوں
اسی مقام سے تنہا گزر کے روئے گا
مری ستائشی آنکھیں کہاں ملیں گی تجھے
تُو آئینے میں بہت بن سنور کے روئے گا
کبھی بھی دست محبت پہ پھول آئے نہیں
جو دکھ ہیں میرے تمہیں ٹھیک سے بتائے نہیں
یہ دشت واسی سرابوں میں آب لے آئے
پرائی جھیلوں سے پانی مگر چرائے نہیں
سماجی فاصلے شاید ہمیں جدا کر دیں
کہ ہاتھ ہم نے ملائے تو ہیں، دبائے نہیں
تنہائی سے صحرا سے نہ دریا کے بھنور سے
وحشت مجھے ہوتی ہے مرے اپنے ہی گھر سے
چُننا ہے مجھے دل بھی ابھی قریہ بہ قریہ
آنکھیں بھی اٹھانی ہیں تری راہگزر سے
اک نظر کرم کے لیے کون عمر گزارے
اک بوسۂ لب کے لیے کب تک کوئی ترسے
تیری تخلیق، ترا رنگ حوالہ تھا مرا
کون کہتا ہے کہ انداز نرالا تھا مرا
میں جہاں پر تھا وہیں تُو تھا مرے آئینہ گر
تیری تصویروں سے بھرپور رسالہ تھا مرا
چاہتا تھا میں دعا مانگتا، پر کیا کرتا
میرے ہاتھوں میں تو لبریز پیالہ تھا مرا
تعصب کی فضا میں طعنۂ کردار کیا دیتا
منافق دوستوں کے ہاتھ میں تلوار کیا دیتا
امیر شہر تو خود زرد رو تھا ایک مدت سے
جھروکے سے وہ اہل شہر کو دیدار کیا دیتا
ہمارے دن کو جو دیتا نہیں اک دھوپ کا ٹکڑا
ہماری رات کو وہ چاند کا معیار کیا دیتا
وقتِ رخصت چلتے چلتے کہہ گئے
اب جو ارماں رہ گئے، سو رہ گئے
جلد باز! ارماں ترے دیدار کے
خون ہو کر آنسوؤں میں بہہ گئے
عمر بھر سوچا کیے، سمجھے نہ ہم
آنکھوں آنکھوں میں وہ کیا کیا کہہ گئے
کوئی مجنونِ میر بیٹھا ہے
سمجھو میرا وہ پیر بیٹھا ہے
وہ اگر مڑ کے دیکھ لے مجھ کو
پھر نشانے پہ تیر🠅 بیٹھا ہے
تیری شیریں نے خودکشی کر لی
تُو لبِ جوئے شِیر بیٹھا ہے
نگاہِ لطف کبھی گر وہ مستِ ناز کرے
نیاز مند کو عالم سے بے نیاز کرے
وہ سرنوشت جبیں پر بجا ہے ناز کرے
جو آستاں پہ تِرے سجدۂ نیاز کرے
نہ تیرے چاہنے والوں میں ہو یہ جنگ و جدل
اشارہ گر نہ تِری چشم فتنہ ساز کرے
ایک، دو، تین نہیں، سارے قبائل کر لے
کوئی منطق ہے ترے پاس جو قائل کر لے
جرم ثابت ہے، معافی تو نہیں ہو سکتی
پیش کرنے ہیں اگر تُو نے دلائل، کر لے
پہلی صف کا میں سپاہی ہوں، سو مرنے سے رہا
اب تُو آیا ہے تو یوں کر، مجھے گھائل کر لے
تم مومن و مشرک کے سوالات نہ کرنا
محفل ہے فقیروں کی غلط بات نہ کرنا
ہر حکم بجا یار کا سر آنکھوں پہ لینا
وہ پانچ بجے کا کہے، پھر سات نہ کرنا
مشکل ہو بھلے، وقت گزر جائے گا اک دن
اپنوں کے بھروسے سے کبھی ہاتھ نہ کرنا
اداس خوابوں کی میتوں کے یتیم لاشوں پہ رو رہے ہیں
یہ اہلِ گریہ بہت دنوں سے ہماری سانسوں پہ رو رہے ہیں
تمہارے ہنسنے کا غم نہیں ہے، مگر یہ توہینِ عشق و الفت
ہم اپنے لہجے کی بے بسی پر، ہم اپنے لفظوں پہ رو رہے ہیں
برے دنوں میں بروں کی صحبت نے زندگی کا مزہ دیا ہے
اب اچھے لوگوں کی صحبتوں پر، ہم اچھے وقتوں پہ رو رہے ہیں
محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا
بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا
گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحنِ دل میں ہم کو
گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا
اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہرِ آرزو کی
پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا
عجیب تر ہے مرا تماشا، میں آپ اپنا تماش بیں ہوں
خود اپنے اوپر عیاں بھی شاید کہیں کہیں ہوں کہیں نہیں ہوں
تُو کل جہانوں کا ربِ یکتا، میں ایک مٹی کا ادنیٰ پُتلا
تُو بندہ پرور میں فتنہ پرور تُو مالکِ کُل میں نکتہ چیں ہوں
اے عمرِ رفتہ! میں ایک مدت سے اپنے گاؤں نہیں گیا، پر
میں خالی بستر پہ باس بن کر وہیں پڑا ہوں وہیں مکیں ہوں
بے دلوں کی آبرو رہ جائے گی
دل نہ ہو گا آرزو رہ جائے گی
طاقتِ دیدار کتنی ہی سہی
پھر بھی تیرے روبرو رہ جائے گی
ڈھونڈنے والا ہی خود کھو جائے گا
جستجو ہی جستجو رہ جائے گی
کسی کے فیضِ قُرب سے حیات اب سنور گئی
نفس نفس مہک اٹھا، نظر نظر نکھر گئی
نگاہِ ناز جب اٹھی، عجیب کام کر گئی
جو رنگِ رخ اڑا دیا تو دل میں رنگ بھر گئی
مری سمجھ میں آ گیا ہر ایک رازِ زندگی
جو دل پہ چوٹ پڑ گئی تو دور تک نظر گئی
رزق جو مولا نے لکھا تھا ہمارا مِل گیا
لہر سے لہریں ملیں، موجوں سے دھارا مل گیا
آپ کی آنکھوں سے الفت کا اشارہ کیا ملا
"ڈُوبنے والے کو تنکے کا سہارا مل گیا"
لوگ، شمس و ماہ و انجم جھولیاں بھر کر گئے
ہم اسی میں گم کہ اک ٹوٹا ستارا مل گیا
دیا ہے درس مجھے دل نے پھر نیا عاطر
رکھوں گا رستہ زمانے سے میں جدا عاطر
مجھے یقیں ہے وہ چیریں گے آسمانوں کو
گرے ہیں اشک غریبوں کے جا بجا عاطر
کبھی حقیر سمجھتا نہیں غریبوں کو
انہی کی شکل میں دیکھا کل خدا عاطر
عدالت
میں اپنی عدالت میں مجرم کھڑی ہوں
مجھے میرے جذبوں، مری خواہشوں نے
گرفتار کر کے
سرِ عام ذلت سے دوچار کر کے
یہ دعویٰ کیا ہے، انہیں قید رکھا
بے وفا کو سادگی میں باوفا لکھتی رہی
دھوپ جیسے آدمی کو میں گھٹا لکھتی رہی
وہ مجھے اوراق پر حرفِ غلط لکھتا رہا
میں بیاضِ دل پہ حرفِ دل ربا لکھتی رہی
اس کے کہنے پر اجالوں کو بھی لکھا تیرگی
اس کے کہنے پر اندھیروں کو ضیا لکھتی رہی
گلیڈی ایٹرز
اے خدا
یہ ہے مِرے دیس کی بستی
کہ کوئی روم کے اس عہد کا منظر
کہ اکھاڑے میں جہاں چار طرف
خول چہروں پہ چڑھائے ہوئے
تُو نے میری کمی نہ پائی ہو
آنکھ تیری نہ جھلملائی ہو
میرے ہونٹوں پہ بھی ہنسی ٹھہرے
غم کی بھی تو کبھی وداعی ہو
سلسلے نہ رکیں محبت کے
یہ خوشی نہ کبھی پرائی ہو
دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا
ہاتھ دشمن سے جا ملایا تھا
آستینوں میں سانپ پالے تھے
دودھ خود ہی انہیں پلایا تھا
زخم کاری بہت لگا دل پر
تیر اپنوں نے اک چلایا تھا
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
تمہارے ہنسنے سے
خوشوں سے لٹکی بے موسمی کلیاں
مدھم سرگوشیاں کرنے لگیں
تمہارے لجانے سے
ہواؤں کے رتھ پہ سوار پریاں
وحشت غم میں اچانک ترے آنے کا خیال
جیسے نادار کو گم گشتہ خزانے کا خیال
اس محبت میں ہدف کوئی بھی بن سکتا ہے
اس میں رکھا نہیں جاتا ہے نشانے کاخیال
وہ کبوتر تو اسی دن سے مرے جال میں ہے
جب اسے پہلے پہل آیا تھا دانے کا خیال
انہیں ڈھونڈو
جدائی کی گلی میں
لوٹ آنے کا سندیسہ چھوڑ کر
رخصت ہوئے تھے جو
چراغوں نے جنہیں
اس آخری ساعت میں دیکھا تھا
آج اچانک پھر یہ کیسی خوشبو پھیلی یادوں کی
دل کو عادت چھوٹ چکی تھی مدت سے فریادوں کی
دیوانوں کا بھیس بنا لیں یا صورت شہزادوں کی
دور سے پہچانی جاتی ہے شکل ترے بربادوں کی
شرط شیریں کیا پوری ہو تیشہ و جرأت کچھ بھی نہیں
عشق و ہوس کے موڑ پہ یوں تو بھیڑ ہے اک فرہادوں کی
دیدہ پرنم ہے کہ خود اشک سراپا ہوتا
قطرہ روتا ہے کہ اے کاش میں دریا ہوتا
جان دیتے بھی اگر عشق میں تو کیا ہوتا
تم پہ مرنے کے لیے پھر ہمیں جینا ہوتا
قدرتی امر تھا خیر ان پہ جو صدقے ہوا دل
کاش ان کی طرف سے بھی تقاضا ہوتا
تمہارا ہجر منایا تو میں اکیلا تھا
جنوں نے حشر اٹھایا تو میں اکیلا تھا
یہ میری اپنی دعائیں، جنہوں نے رد ہو کر
گلے سے مجھ کو لگایا تو میں اکیلا تھا
دیارِ خواب تھا، تم تھے، تمام دنیا تھی
کسی نے آ کے جگایا تو میں اکیلا تھا
سورج رستہ بھول گیا تھا
میں نے اس کی انگلی تھامی اس کو اپنے گھر لے آیا
جانے کتنے دن سے یونہی بھوکا پیاسا گھوم رہا تھا
کھانا کھا کر اور سستا کر بولا مجھ سے؛ آؤ دشت نوردی کر لیں
ہم دونوں خاموشی اوڑھے میرے گھر سے باہر نکلے
دروازے پہ چاند کھڑا تھا
طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا
کہ ایک سودا رہا جنس دل لٹانے کا
فریب خواب مرے راستے کو روک نہیں
کہ وقت شام ہے یہ غم کدے کو جانے کا
ترے وجود سے پہچان مجھ کو اپنی تھی
ترا یقین تھا مجھ کو یقیں زمانے کا
اب مصر میں کہاں کوئی بازار معتبر
یوسف ہی معتبر، نہ خریدار معتبر
ایسے میں سوچتا ہوں کسے معتبر کہوں
ملتا نہیں ہے جب کوئی کردار معتبر
رہزن چھپے ہوئے ہیں پسِ سنگِ میل راہ
مطلق نہیں ہے سایۂ اشجار معتبر
بہت وہ ہنستا ہے شخص لیکن مرا ہوا ہے
کسی محبت کی بھینٹ شاید چڑھا ہوا ہے
وہ اک شجر جو محبتوں سے ہرا ہوا ہے
خزاں کے لشکر سے مدتوں وہ لڑا ہوا ہے
کبھی جو پلٹو وفا کے رستوں پہ دیکھ لینا
کوئی جوانی میں لاٹھیوں پر کھڑا ہوا ہے
نہ جانے کیوں وہی جینا حرام کرتے ہیں
کہ جن کا دل سے بہت احترام کرتے ہیں
تمہارا ذکر کسی بات میں اگر آئے
ہم ہاتھ جوڑ کے قصہ تمام کرتے ہیں
ہمیں ہے اس لیے اردو زبان سے الفت
ہم اس زبان میں رب سے کلام کرتے ہیں
کوئی تو چاہیے ہم کو سہارا تیرے بعد
اداس اداس رہا شہر سارا تیرے بعد
جو آسماں پہ ہمارے لیے چمکتا تھا
وہ مجھ سے روٹھ گیا ہے ستارا تیرے بعد
لگا کے زخموں پہ مرہم تمہاری یادوں کا
کچھ ایسے دل کو مری جاں سنوارا تیرے بعد
ہجر میں خون رلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو، کہاں ہوتے ہو
جب بھی ملتا ہے کوئی شخص بہاروں جیسا
مجھ کو تم کیسے بھلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو
مجھ سے بچھڑے ہو تو محبوبِ نظر ہو کس کے
آج کل کس کو مناتے ہو، کہاں ہوتے ہو
میں نے کمرے میں جو تصویر لگائی ہوئی ہے
وہ تری یاد کی پنسل سے بنائی ہوئی ہے
برف میں دفن جہاں کی تھی محبت تم نے
میں نے مدت سے وہاں آگ جلائی ہوئی ہے
تم اسے بس مری آنکھوں کا حوالہ دینا
میں نے دریا کو ہر اک بات بتائی ہوئی ہے
روپ سروپ
اب کی بار جو مجھ سے ملنے آؤ
تو مِرے واسطے
ابریشم کی اک احمری ساڑھی
موتیے سے گتھی پھول مالا اور
چاند جھروکوں سے چند گہنے لانا
یاد آ جاؤں تو چلے آنا
تم اناؤں کی بات مت سننا
سانس در سانس ہے تیری خوشبو
ان ہواؤں کی بات مت سننا
ہم نے دل پہ لکھا ہے نام تیرا
ریگزاروں کی بات مت سننا
میری رات، میرا چراغ، میری کتاب دے
مرا صحرا باندھ لے پاؤں سے مجھے آب دے
مرے نکتہ داں! ترا فہم اپنی مثال ہے
میں ہوں ایک سادہ سوال کوئی جواب دے
مری چشمِ نم کسی رت جگے میں الجھ گئی
مری نیند اوڑھ لے رات بھر مجھے خواب دے
یہ کیسی تقسیم ہو رہی ہے؟
کسی کا لاشہ کفن کے بِن ہے
کسی کی میت پہ اتنی دیگیں
کسی کے کمرے کی چھت نہیں ہے
کسی کی بلڈنگ ہزاروں فٹ میں
یہ کیسی تقسیم ہو رہی ہے؟
جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا
تاریک شب کے سینے میں خنجر اتر گیا
جب سب پہ بند تھے مری آنکھوں کے راستے
پھر کیسے کوئی جسم کے اندر اتر گیا
ساحل پہ ڈر گیا تھا میں لہروں کو دیکھ کر
جب غوطہ زن ہوا تو سمندر اتر گیا
آ کے بیٹھا ہوں کہاں شام سے کچھ یاد نہیں
گھر سے نکلا تھا میں کس کام سے کچھ یاد نہیں
میری صورت کا کوئی شخص تو تھا دنیا میں
کون زندہ تھا مرے نام سے؟ کچھ یاد نہیں
یہ ہُوا ہے کہ سماعت کو بچا لایا ہوں
جشن کے شور یا کہرام سے کچھ یاد نہیں
سائے
اداس شہر کی گلیوں میں رقص کرتے ہیں
بلائیں لیتے ہیں آوارہ گرد خوابوں کی
دعائیں دیتے ہیں بچھڑے ہوؤں کو ملنے کی
سنوارتے ہیں خمِ گیسوئے تمنا کو
پکارتے ہیں کسی اجنبی مسیحا کو
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
دل کے سوا کوئی نہ تھا سرمایہ اشک کا
حیراں ہوں کام آنکھوں کا جاری ہے کس طرح
عنصر ہے خیر و شر کا ہر اک شے میں یوں نہاں
ہر شمعِ بزم نوری و ناری ہے جس طرح
مجھے بتایا گیا تھا یہاں محبت ہے
میں آ گیا ہوں دکھاؤ کہاں محبت ہے
یہاں کے لوگ بہت دشمنی نبھاتے ہیں
اسی سے ہوتا ہے ثابت، یہاں محبت ہے
کسی کے ناف پیالے سے منہ ہٹا لینا
سوال ہی نہیں اٹھتا میاں محبت ہے
میری تقویم میں کیا حرف کا پھل ہے مرے دوست
میں پڑھوں اور تُو کہے کہ غزل ہے مرے دوست
حرف کندہ ہے محبت کا سرِ لوحِ ازل
یہ کدورت تو رویوں کا خلل ہے مرے دوست
محض نسبت ہی نہیں، دوہری نسبت ہے مجھے
آنکھ وہ جھیل ہے اور جھیل بھی ڈل ہے مرے دوست
تم سے یہ کب کہا ہے کہ اکثر ملا کرو
مجھ سے مرے جنوں کے برابر ملا کرو
میں تم سے جب ملوں تو مکمل ملا کروں
تم مجھ سے جب ملو، تو سراسر ملا کرو
نامہ برائے نصف ملاقات بھول جاؤ
تکمیلِ کارِ خیر کو آ کر ملا کرو
وسوسے جب بھی مِرے دل کو ڈرانے لگ جائیں
میری آنکھیں مجھے پھر خواب دکھانے لگ جائیں
اک تِرے درد کی دولت ہی بہت ہے مجھ کو
میں نے کب چاہا مِرے ہاتھ خزانے لگ جائیں
قصۂ درد سنا تم نے با اندازِ دِگر
ورنہ پتھر جو سنیں اشک بہانے لگ جائیں
کاش مل جائے ہم مزاج کوئی
میرے غم کا بھی ہو علاج کوئی
جاگ کر رات جب گزارنی ہو
ڈھونڈ لیتا ہوں کام کاج کوئی
اندر آنے کا در تو بند ہوا
کیسے دل پر کرے گا راج کوئی
فاصلوں کو درمیاں پر لکھ دیا
کیا ملیں جب آسماں پر لکھ دیا
ساتھ کیسا ساتھ، سب کچھ خواب یا
خواب اک چشمِ گماں پر لکھ دیا
آپ ہی کے ہو گئے، سو ہو گئے
آپ ہی کو لوحِ جاں پر لکھ دیا
جو حشر زمیں پر ہے بپا، دیکھ رہا ہے
اس صبر کے ماتم کو خدا دیکھ رہا ہے
منصف کو اگر ظلم دکھائی نہیں دیتا
قہار تو مفلس کی رِدا دیکھ رہا ہے
ہاتھوں میں وہ تھامے ہوئے فرمانِ عدالت
ناکردہ گناہوں کی سزا دیکھ رہا ہے
زرد پتے
میں جو کچھ کہ رہی ہوں
وہ صرف احساس نہیں
کچھ اور ہے
یہ زرد سا پتہ
جو پتھریلی زمین پر پڑا ہے
سوز و گداز و جذب و اثر کون لے گیا
ہم سے متاعِ درد جگر کون لے گیا
کیا ہو گیا ہے گردشِ دوراں تُو ہی بتا
حسن و جمال شام و سحر کون لے گیا
شوریدگیٔ عشق کی لذت کہاں گئی؟
سودا تھا جس میں تیرا وہ سر کون لے گیا
ہزار خواب لیے جی رہی ہیں سب آنکھیں
ترے بنا ہیں مگر میری بے سبب آنکھیں
چمکتے چاند ☪ ستارو! گواہ تم رہنا
لگی رہی ہیں فلک سے تمام شب آنکھیں
تمہارے سامنے رہتی ہیں نیم وا ہمدم
حیا شناس بہت ہیں یہ با ادب آنکھیں
وہ مسکرا کے محبت سے جب بھی ملتے ہیں
مِری نظر میں ہزاروں گلاب کھلتے ہیں
تِری نگاہِ جراحت اثر، سلامت باد
کبھی کبھی یہ مِرے دل کو زخم ملتے ہیں
نفس نفس میں مچلتی ہے موجِ نکہت و نور
کچھ اس طرح تِرے ارماں کے پھول کھلتے ہیں
زندگی
ریت، گرم ریت
میری مٹھی میں
ذرہ ذرہ پھسلتی ہے، بہت دیر کے بعد
اور ستم ہے کہ ہر اک ذرہ
دھیرے دھیرے سے میری آنکھ میں جا گرتا ہے
حق کا رستہ نشاں سے ملنا ہے
یعنی تیر و سناں سے ملنا ہے
میں حیاتی دراز کیوں مانگوں
والئ دو جہاںﷺ سے ملنا ہے
دنیا چاہو، یا آخرت چاہو
سارا کچھ ہی یہاں سے ملنا ہے
خواب پرندہ
رات کے پچھلے پہر
کسی انجانے دیس سے اڑتے اڑتے
آنکھوں کے سُونے جنگل میں گیت سنانے آ بیٹھا ہے
جب تڑکے کی تالی بجے گی
خواب پرندہ اڑ جائے گا
سنو پتھر نہیں ہونا
ہوا کی جو بھی مرضی ہو
مقدر جو بھی کچھ چاہے
زمیں پر چار سُو
رنج و الم کی بارشیں برسیں
تمہارے لب پہ بکھرے سارے نغمے
لفظ کا تیر جب کمان میں ہو
زندگی گویا امتحان میں ہو
کس طرح سے دھیان دوں خود پر
جب کوئی دوسرا دھیان میں ہو
جاننے کے لیے ضروری ہے
کچھ رقابت بھی درمیان میں ہو
پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
تیر سا کچھ دل سے گزر کر گیا
خاک کا سا ڈھیر سر رہ ہوں میں
قافلۂ عمر سفر کر گیا
خلد بریں اس کی ہے واں بود و باش
یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا
مجھے مرد اچھے لگتے ہیں
مجھے مرد اچھے لگتے ہیں
جنگجو، بہادر
اور میدانِ جنگ میں پیٹھ نہ دکھانے والے
وحشی گھوڑوں
اور اپنی رانوں کی بے قابو طاقت کو
لعنت
لعنت سبھی منحنی دیوتاؤں پہ
نقلی خداؤں پہ
لعنت ہے ماتھا رگڑنے کے کارِ مسلسل پہ
بس اک نشاں ڈالنا جس کا مقصود ہے
اور لعنت ہے باسی دماغوں کی بوسیدگی پہ
وینٹی لیٹر پر کینڈل لائٹ ڈنر
وقت تمہاری آنکھوں میں
خوف کا نقطہ بن کر ٹھہر جائے گا
مگر میری سانسوں کی ململ پر
زندگی نیا پھول نہیں کاڑھ سکے گی
ہمارے ہاتھ آخری بوسے کے منتظر رہیں گے
مجھے نیند آنے لگی ہے
زندگی
اپنی منقار کو
میرے ہونٹوں پہ رکھ
میری سانسوں کے برتن سے
ٹپ ٹپ کوئی چیز
بہتی چلی جا رہی ہے
صورتِ دلبراں
موہن کہتا ہے
بالکونی میں بال بکھرائے مت ہنسا کرو
تمہاری ہنسی کی کھنک کے باعث
زمین کی گردش رُک جاتی ہے
مجسمہ سازوں کی آنکھیں
بول پڑتے ہیں ہم جو آگے سے
پیار بڑھتا ہے اس رویے سے
میں وہی ہوں یقیں کرو میرا
میں جو لگتا نہیں ہوں چہرے سے
ہم کو نیچے اتار لیں گے لوگ
عشق لٹکا رہے گا پنکھے سے
ذکر دشمن ہے ناگوار کِسے
تم سناتے ہو بار بار کسے؟
مانگ لوں عمر خضر سے لیکن
تیرے وعدے کا اعتبار کسے؟
ہائے بے چپن کر دیا دمِ خواب
تُو نے اے آہ شعلہ بار! کسے؟
تنہائی
سفید دیوار پہ ٹنگے سیاہ کوٹ کی طرح اولڈ فیشن
جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی
میلی دیواروں کی طرح
روز اس دیوار پہ ایک دن طلوع ہوتا ہے
ایک رات غروب ہوتی ہے
ہو سکے تو لوٹ آؤ
وحشت کے اس پار بھی ایک دنیا ہے
جہاں غم کے بادل گرجتے برستے ہیں
ستارے اپنی روشنی دیتے ہیں
وہاں ایک مزار نما گھر ہے، میرا گھر
جہاں اداسی میری زوجیت میں رہتی ہے
کھڈیوں پر بنے لوگ
لوگ مرتے ہیں
تھری پیس سوٹ میں
تنگ ہوتی وردی میں
ٹخنے تقسیم کرتی شلواروں
گُھٹی تمنا
عکس نیلے نہیں
عکس نیلے نہیں
عکس رنگین ہیں
جرم آنکھوں کے کب اتنے سنگین ہیں
پردۂ عکس سے ایک نیلا تموّج جو بہنے لگے
کون سے راز کہنے لگے؟
کہ اب کتابوں میں شاعری کے نئے معانی پڑھا کریں گے
مجھے خوشی ہے ہمارے بچے عمیر نجمی پڑھا کریں گے
ابھی محبت کو پڑھنے والے اسے محبت ہی پڑھ رہے ہیں
کئی زمانوں کے بعد اس کو بھی لوگ غلطی پڑھا کریں گے
یہ لکھنے والوں کا المیہ ہے کہ لوگ سارے ہی پڑھنے والے
لباس مہنگا خرید لیں گے، 🕮 کتاب سستی پڑھا کریں گے
ہم وقت کے مچان پر بیٹھے ہیں
شاید بس ڈرتے ہیں
کہیں وہ ہمیں دھکا نہ دے دے
ہم نے مچان کے کونے کو اپنے ہاتھوں سے
تھاما ہوا ہے
وقت ہنستا ہے اپنا منہ چھپا کر
زمینی جہنم
بلوط کے درخت کے سائے تلے بیٹھے
چند بچوں کی معصوم خواہشیں سنیں میں نے
ان میں سے ایک کہہ رہا تھا
مرا دل چاہتا ہے
کسی دوسرے سیارے پہ جا کر
عشق میں تجربات مت کرنا
اب کسی سے بھی ہاتھ مت کرنا
خضر ہو تم نہ میں سکندر ہوں
تم وہی میرے ساتھ مت کرنا
میں تصور بھی کر نہیں سکتا
اب بچھڑنے کی بات مت کرنا
سفر ہو دھوپ کا اور وہ بھی پا پیادہ ہو
کہیں ٹھہرنے کا پھر کس طرح ارادہ ہو
میں اس خیال سے خط کو نہ چھو سکا اب تک
لفافہ کھول کے دیکھوں، ورق نہ سادہ ہو
بس آج وقت پہ سونے کی چاہ ہے مجھ کو
دعا کرو کہ تھکن خوف سے زیادہ ہو
دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھا
کہ وہ چمن نہ رہا جس میں آشیانہ تھا
بہائے اشک جو اس نے یہ اک بہانہ تھا
کہ خوں بہا کو مرے خاک میں ملانا تھا
بلا سے جان گئی انتظار میں میری
مجھے تو آپ کا اک وعدہ آزمانا تھا
دیر و حرم میں بحث رہی دل کہاں رہے
آخر کو طے ہوا کہ بے خانماں رہے
دل کا محیطِ حسن میں کیونکر نشاں رہے
جب ہر جگہ خدا ہو تو بندہ کہاں رہے
جب دل میں امتیاز بہار و خزاں نہیں
صحرا ہو یا چمن ہو کہیں آشیاں رہے
کیسے ایمان نہیں لائیں گے
ہم ترے سر کی قسم کھائیں گے
پھول پھینکیں گے بس آنے پہ مرے
اپنے بازو نہیں پھیلائیں گے؟
اتنے برسوں کی جدائی ہے کہ اب
اس کو دیکھیں گے تو مر جائیں گے
توڑ کر شیشۂ دل💔 کو مِرے برباد نہ کر
اس طرح مجھ پہ ستم اے ستم ایجاد نہ کر
یہ نگہ لطف کی ہے اس سے نہ کر قتل مجھے
چشمِ جاں بخش کو یوں خنجرِ 🗡 جلاد نہ کر
روئے روشن کی کبھی دید مجھے بھی دے دے
رہ کے پوشیدہ مجھے مضطر و ناشاد نہ کر
رشتہ ختم مت کرنا
لوگو
معتبر راوی
جھوٹی کہانی سنا کے
تمہاری عقل و شعور سے کھیلے گا
آج تک
جو کبھی کہہ سکا نہ کہنے دے
آج لفظوں سے خون بہنے دے
اب کوئی اور بات کر مجھ سے
یہ فراق و وصال رہنے دے
ایک ہی جیسے رات دن کب تک
کوئی تازہ عذاب سہنے دے
نصیحت
میرے بیٹے! میری تم کو نصیحت ہے
جو دل چاہے وه بن جانا
مگر اچھا نہیں بننا
کبھی اچھوں کی صحبت میں نہیں پڑنا
کبھی اچھوں کی باتوں میں نہیں آنا
یہ آخر ماجرا کیا ہے
میں گِرہیں کھولتا ہوں
راستے ہموار کرتا ہوں
اور اپنی اس ریاضت میں
میں اپنی کوششوں سے مطمئن بھی ہوں
مِری یہ انگلیاں ہر ایک گِرہ سے شناسا ہیں
لفظ پیچھا کرتے ہیں
جیسے ناگ کی آنکھ کے شیشے میں
مارنے والے کا عکس رہ جاتا ہے
جیسے طوائف کے بدن پہ
گزری رات کا نقش رہ جاتا ہے
ساگر کی تہہ میں
لاوے کا منجمد رقص رہ جاتا ہے
مراجعت
وہیں کہیں
جہاں پہ آج ہم نہیں
بہت بہت بہت ہی دور، آج سے
جو ہو چکا ہے ہو رہا ہے آج بھی
یہ وقت جس کا سر ہے اور نہ پیر ہے
(جو ہے بھی تو ہمیں کوئی خبر نہیں)
جج صاحب کا وقفہ برائے نیند
فرض کرو
تم اس مرد کا چابک ہو
جو بھیڑوں کو
خشک سالی کی طرف ہانکتا رہا
فرض کرو
تم اس عورت کے چہرے کا نیل ہو
جس کا نام سمندر تھا
سب فطری عناصر کی تھکن کھینچ رہی ہے
ہر دل کو یہاں تیری لگن کھینچ رہی ہے
ہیں دل پہ عیاں تیرے سبھی ارضی خصائص
اور روح تِری رمزِ گگن کھینچ رہی ہے
ہر لہجے پہ حاوی ہے تِرا طرزِ تکلم
ہر دیپ کو یاں تیری کرن کھینچ رہی ہے
دنیا تو رکھ چکی تھی کہیں مجھ کو کھیل کر
لایا ہوں اس مقام پہ خود کو دھکیل کر
دل کو ابھی تو گردشِ دوراں سے مت ڈرا
سہما ہوا ہے ہجر کے صدمات جھیل کر
غم کا رگیدنا بھی بجا ہے، پہ اس جگہ
پہنچا ہوں پتھروں کو میں رستے کے بیل کر
یہ بھوک ہے
یہ تشنگی نہیں ہے یا خدا
یہ بھوک ہے
یہ چار سُو جو کھیل ہے
یہ آگ ہے
جو بستیوں میں دردِ دل کے واسطے
میں مانتی نہیں ایسی کسی غلامی کو
جہیز لانا پڑے رشتے کی سلامی کو
وہ بھی اوروں کی طرح احترام کرتا ہے
خدایا! آگ لگے ایسی نیک نامی کو
پتہ چلے گا تجھے عشق کیا بلا ہے میاں
تُو پڑھ کے دیکھ کبھی رومی اور جامی کو
کون ہمارا درد بٹائے، کون ہمارا تھامے ہات
ان کے نگر میں جگمگ جگمگ اپنے دیس میں رات ہی رات
نیلے نیلے امبر پر وہ چاند وہ کرنوں کی برسات
ہم دونوں کھوئے کھوئے سے سے ہائے وہ مست منوہر گھات
تو گلشن گلشن اٹھلائے میں صحرا صحرا بھٹکوں
دل کا یہ سودا ہے ورنہ تیرا اور میرا کیا سات
گزر کے دیکھ لیا ہے حد ملال سے بھی
کہ جی رہے ہیں بچھڑ کر ترے خیال سے بھی
زمانے تو نے یہ کیسا مجھے تراش دیا
مرا وجود تو باہر تھا ہر مثال سے بھی
میں بے نیاز ہوں خود عکس شیشۂ دل سے
کہ ٹوٹ جاتا ہے اکثر یہ دیکھ بھال سے بھی
خاموش ہوں
کسی شیلف پہ دھری
بے نام لکھاری کی کتاب کی طرح
خزاں کی رُت میں کسی بوڑھے بے ثمر پیڑ کی طرح
بے سود ہوں
کسی آرٹ گیلری کے اک کونے میں پڑی
صرف اوروں کے بتا دینے سے کب آتا ہے
پاؤں زخمی ہوں تو پھر چلنے کا ڈھب آتا ہے
روشنی بند نگاہی پہ کہاں کھلتی ہے؟
دیکھنا، دیکھتے رہنے کے سبب آتا ہے
ایسی بے فیض مسافت ہے کہ ان رستوں میں
کوئی منزل تو کجا موڑ بھی کب آتا ہے
خیال اسی کی طرف بار بار جاتا ہے
مرے سفر کی تھکن کون اتار جاتا ہے
یہ اس کا اپنا طریقہ ہے دان کرنے کا
وہ جس سے شرط لگاتا ہے ہار جاتا ہے
یہ کھیل میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا
میں جیت جاتا ہوں بازی وہ مار جاتا ہے
تم زری نود کا وہ پھول ہو
جس کی خوشبو
فضا میں بہت دیر تک اور بہت دور تک پھیلتی ہے
تمہیں دیکھنے تتلیاں، مدو مکھیاں
لامکان سفر طے کر کے تم تک پہنچتی ہیں
وہ تم سے باتیں کرتی ہیں
جاتی رُت سے پیار کرو گے
کر لو بات، ادھار کرو گے
تب مل کر احسان کیا تھا
اب مل کر ایثار کرو گے
جتنے خواب، اتنی تعبیریں
کتنے داغ شمار کرو گے؟
کیسے سوتے کہ ہمیں یار نے سونے نہ دیا
زلفِ خمدار کی مہکار نے سونے نہ دیا
وہ بھی دھڑکن کی صداؤں سے ہی الجھے رہے
ہم کو بھی سانسوں کی رفتار نے سونے نہ دیا
کرتے اظہار تو شاید یہ نہ نوبت آتی
رات بھر کوششِ اظہار نے سونے نہ دیا
چننے والے
خوشبودار ہوتے ہیں وہ ہاتھ
جو پھول چنتے ہیں
گجرے، ہار اور گلدستے بناتے ہیں
پیارے دکھتے ہیں پرندے
جب وہ دانے چنتے ہیں
اپنے بچوں کے لیے
کوئی بھی رستہ بہت سوچ کر چنوں گا میں
اور اب کی بار اکیلا سفر کروں گا میں
اسے لکھوں گا کہ وہ رابطہ کرے مجھ سے
اور اختتام پہ نمبر نہیں لکھوں گا میں
میں اور ہجر کے صدمے نہیں اٹھا سکتا
وہ اب جہاں بھی ملا ہاتھ جوڑ لوں گا میں
تم کبھی سیکھ نہیں پاؤ گی
میں نے
اپنے حصے کا بادل چرانا
تم نے
چھتری بنانا سیکھ لیا ہے
رستہ بنانا گندم اگانے جیسا ہے
انتظارِ یار کا فائدہ اٹھاؤں گا
راستے میں بیٹھ کر راستہ دکھاؤں گا
یادِ رفتگاں لیے، مبتلائے کشمکش
خط چھپا لیے گئے، غم کہاں چھپاؤں گا
اک شعورِ یاوری، لا شعور میں ملا
ایک پھول کے لیے گلستاں سجاؤں گا
ہمارے دل میں تو ساری دنیا کا یارا غم ہے
تمہارا غم کیا، تمہارا غم تو تمہارا غم ہے
خوشی کے موقعے پہ میری غزلیں کبھی نہ پڑھنا
کہ میرے شعروں میں یار سارے کا سارا غم ہے
نہ چاندنی سے نہ روشنی سے ہے مجھ کو مطلب
تمہاری فرقت میں چاند غم ہے ستارا غم ہے
نظامِ دل میں کہیں بے دِلی رکی ہوئی ہے
ہنسی سجائی گئی ہے خوشی رکی ہوئی ہے
ابھی بھی اس سے تعلق تو ہے مگر ایسا
ہوا چلی بھی کبھی تو لگی رکی ہوئی ہے
مٹے ہوئے ہیں خدوخال جھیل کے پھر بھی
کہیں کہیں پہ تو اب تک نمی رکی ہوئی ہے
اداسی کا سفر
میں قدم قدم پر اداس ہوتا ہوں
اب میں ہر موڑ پر
الوداع کا سائن بورڈ لگا کر
آگے بڑھ جایا کروں گا
تنہا سڑک کو
اذنِ جنگ
غصے میں شراب
تم نے پی ہے
اور مری رگیں
تمہاری ناراضی سے کٹی پڑی ہیں
خواہشوں کا لہو