عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدﷺ سے کیا سلسلہ مل گیا
💞خدا جانتا ہے خدا مل گیا💞
پتہ کُوئے احمدﷺ کا کیا مل گیا
مجھے گوہرِ مدعا مل گیا💞
انہی کے ہے قبضے میں دنیا و دیں
نبیﷺ مل گئے تو خدا مل گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدﷺ سے کیا سلسلہ مل گیا
💞خدا جانتا ہے خدا مل گیا💞
پتہ کُوئے احمدﷺ کا کیا مل گیا
مجھے گوہرِ مدعا مل گیا💞
انہی کے ہے قبضے میں دنیا و دیں
نبیﷺ مل گئے تو خدا مل گیا
ہندسوں کے بدلنے سے تقدیر نہ بدلے گی
چہرہ جو نہ بدلا تو تصویر نہ بدلے گی
جب ہونی اٹل ہو تو پھر ہو کے ہی رہتی ہے
جو لوح پہ لکھی ہے تحریر نہ بدلے گی
بدلو گے خیالوں کو تو خواب بھی بدلیں گے
جب خواب نہ بدلے تو تعبیر نہ بدلے گی
کاش محفل میں آج تُو بھی ہو
اور کچھ میری گُفتگُو بھی ہو
ڈھونڈنے میں کچھ اور لطف آئے
دل میں گر ذوق جُستجُو بھی ہو
کچھ تمہارا نشاں نہیں ملتا
اور دنیا میں چار سُو بھی ہو
چند یادوں کے درمیاں ہو گا
تیرا قصہ وہاں بیاں ہو گا
تیرے احساس کا جو جادو ہے
میری غزلوں سے وہ عیاں ہو گا
جس نے روشن کریں میری راتیں
وہ مرا چاند اب کہاں ہو گا
محور
بڑے سلیقے سے رفتہ رفتہ
میں اس کے ہاتھوں کو تھام لوں گا
پھر اس کے ہاتھوں کا لمس پا کر
مجھے لگے گا کہ آج شاید
مری دعائیں جو نامکمل تھیں آج تک وہ
بس ایسے لمحے کی منتظر تھیں
درد کی برسات کے رت جگے اچھے لگے
جو گلے مِل کر کیے شکوے گِلے اچھے لگے
پھُوٹ کر پیروں کے روتے آبلے اچھے لگے
رنج و غم میں قہقہوں کے تذکرے اچھے لگے
ساتھ گُزرے تھے وہ جتنے مرحلے اچھے لگے
تم تھے جن پر ہمسفر وہ راستے اچھے لگے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ محمدﷺ کا جو مدینہ ہے
یہ تو اَنمول اک نگینہ ہے
اور باتیں فضول باتیں ہیں
آپﷺ کی بات ہی خزینہ ہے
أپﷺ جڑ سے اکھاڑنے آئے
دل میں جو بھی عناد و کینہ ہے
فریب دے گا نظر کو شباب لگتا ہے
یہ ٹوٹ جائے گا، جامِ شراب لگتا ہے
تمام لفظوں میں نقش و نگار اس کے ہیں
وہ پھول چہرہ مجھے تو کتاب لگتا ہے
مِرے بدن میں سمندر ہیں پیاس کے یارو
ہر ایک شکل میں پانی سراب لگتا ہے
کون سُنتا ہے غم کے ماروں کی
شرط کیسی کرائے داروں کی
وہ سمجھتا نہیں اشاروں کی
تم کو سُوجھی ہے استعاروں کی
مُنحصر سب ہے تیرے آنے پر
اپنی مرضی کہاں بہاروں کی
آنکھ نم ہے نہ دل فگار اپنا
اٹھ گیا خود سے اعتبار اپنا
ذکر ہوتا ہے بار بار اپنا
ٹوٹتا ہی نہیں خمار اپنا
دیکھنا چاہتے ہو یار اپنا
توڑئیے پہلے یہ حصار اپنا
راز دل کیا زبان سے نکلا
گھر کا بھیدی مکان سے نکلا
کیا ملا حال دل بیاں کر کے
کیا نتیجہ بیان سے نکلا
ہو گیا ہم کنار منزل شوق
دل جو وہم و گمان سے نکلا
اڑیں گی تا کجا چھینٹیں لہو کی تیغِ قاتل سے
کہاں تک اب زمیں رنگین ہو گی خونِ بسمل سے
کہاں تک بجلیاں گرتی رہیں گی آشیانوں پر
کہاں تک حشر اٹھے گا نوحۂ شورِ عنادل سے
کہاں تک نا خدا ہمت کرے گا موجِ طوفاں سے
کہاں تک غرق ہوں گی کشتیاں ٹکرا کے ساحل سے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ذکر خیر الوریٰ ہے اور میں ہوں
خوشبوؤں کی فضا ہے اور میں ہوں
کیسی تسکین مل رہی ہے مجھے
آگے نُورِ خدا ہے اور میں ہوں
آپﷺ کے شہر میں پہنچنے کا
شوق بے انتہا ہے اور میں ہوں
دل کے کعبے میں تِرا بُت تھا اسے پھوڑ دیا
عشق تھا کارِ جنُوں، ہم نے جنُوں چھوڑ دیا
اس سے آگے کبھی پڑھنے کی تمنّا نہیں کی
جس جگہ تُو نے فسانے کا ورق موڑ دیا
جس پہ تھا مان کبھی خُود سے زیادہ ہم کو
کیا قیامت ہے اسی شخص نے دل توڑ دیا
خاکساروں کے فن کرارے ہیں
خاک اوڑھے ہوئے شرارے ہیں
آدمی یہ بھی وہ بھی سارے ہیں
نت نئے رنگ روپ دھارے ہیں
کیوں نہ خودبیں ہوں ماہ پارے ہیں
پیار کرتے نہیں جو پیارے ہیں
کسے خیال کہ عشرت کے باب کتنے ہیں
یہ پیاس کتنی ہے، اس پر سراب کتنے ہیں
سفینہ گھاٹ لگا دیکھ ہم یہ بھول گئے
کہ وہ سفینے جو ہیں غرق آب کتنے ہیں
تو یہ نہ پوچھ مرے گاؤں میں ہیں گھر کتنے
یہ پوچھ کون سے گھر میں عذاب کتنے ہیں
بے جرم و خطا موردِ الزام ہوئے ہیں
ہم قتل ہوئے بھی تو سرِ عام ہوئے ہیں
اے گردشِ ایام! ذرا دیکھ تو آ کے
گِرنے کو مِرے گھر کے در و بام ہوئے ہیں
اک دور تھا اس اس دور میں تھا نام ہمارا
اس دور میں کیا آئے کہ بدنام ہوئے ہیں
ہے کُفر کی آغوش میں ایمان ہمارا
دُنیا نے بہت کر دیا نُقصان ہمارا
کس طرح سُلجھ پائے گا بحران ہمارا
کُل تیس سپاروں کا ہے قُرآن ہمارا
صیّاد انہیں قید کے آداب سِکھا دے
بازار نہ ہو جائے یہ زِندان ہمارا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل یہ چاہے کہ ہر اک آن مدینے میں رہے
"مجھ خطار کار سا انسان مدینے میں رہے"
رشک ہے شمس و قمر کے لیے ان کی ہستی
جو محمدﷺ کے محبان مدینے میں رہے
مرتے دم چہرۂ اقدس کی زیارت ہو نصیب
دل میں لے کر یہی ارمان مدینے میں رہے
کیا ملا ان کو آزمانے سے
زخم بڑھتے گئے دکھانے سے
اس حقیقت یا افسانے سے
بات بڑھتی گئی بڑھانے سے
اک نیا ولولہ ملا مجھ کو
ہر قدم پر فریب کھانے سے
بے اثر اپنی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
کب کسی شاخِ بُریدہ پہ ثمر لگتا ہے
کتنا دُکھ ہے مجھے اس دور کی ناقدری کا
چلتی پھرتی ہوئی اک لاش ہُنر لگتا ہے
سوچتا ہوں کسی آسیب کا سایہ ہی نہ ہو
دل مِرا کس لیے اُجڑا ہُوا گھر لگتا ہے
آرزو باقی نہیں کوئی خُوشی باقی نہیں
بُجھ گئی ہے شمعِ دل اب روشنی باقی نہیں
اے امیدو! سو بھی جاؤ، شامِ غم ڈھلنے لگی
اب نشاطِ زندگی میں دل کشی باقی نہیں
پہروں احساسِ غریبی پر تھا جھنجھلایا کبھی
لاشۂ احساس میں اب تشنگی باقی نہیں
گزر گیا جو گزرنا تھا دور بے خبری
وہ بے نیاز ہی ہو کر ملا، ملا تو سہی
خطا معاف نہ یہ طنز ہے نہ بے ادبی
وہی تو عرض کیا ہے کہ جو حقیقت ہے
اس آگہی سے تو بہتر ہے دورِ بے خبری
شعور آیا تو ذہنوں پہ چھا گئی پستی
دل کو تو بہلاتا ہے💗
رنج خوشی سے اچھا ہے
پیار سے جس نے بخشا ہے
اس کا غم اب میرا ہے
روپ کی دولت سستی ہے
پیار کا سونا مہنگا ہے
جھوٹ کہہ کر سکون پا نہ سکے
ہم کسی سے نظر ملا نہ سکے
اپنے حق میں زمیں تھی برفیلی
ہم نقوشِ قدم بنا نہ سکے👣
ایسے ہیرے تھے کانچ سے بد تر
جو اندھیرے میں جگمگا نہ سکے
وہ زخم دل ملے ہیں مجھے اپنے یار سے
مجبور ہو گیا ہوں میں ان کے شمار سے
ق
بیزار ہو گیا ہوں میں قول و قرار سے
نفرت سی ہو گئی محبت سے پیار سے
ہر روز بڑھ رہا ہے ضرورت کا یہ پہاڑ
دیوانہ ہو نہ جاؤں غمِ روزگار سے
نگاہِ شوق کے زیرِ اثر ہونا ہی پڑتا ہے
وہ چاہیں یا نہ چاہیں جلوہ گَر ہونا ہی پڑتا ہے
بہ ہر عالم محبت کو سپر ہونا ہی پڑتا ہے
جدھر اٹھتی ہیں وہ نظریں اُدھر ہونا ہی پڑتا ہے
جواب ان کی عتاب آلودہ نظروں کا کہاں ممکن
نظامِ دہرکو زیر و زبر ہونا ہی پڑتا ہے
غموں کے گرداب میں گِھرا ہوں، مجھے بچا لے
مِرے خدایا! میں تھک چکا ہوں، مجھے بچا لے
کبھی تھا جس کو میں دل سے پیارا، بہت ہی پیارا
اب اس کے دل کا ہی مسئلہ ہوں، مجھے بچا لے
میں مانتا ہوں کہ میں بُرا ہوں، مگر اے مولا
میں پارساؤں میں گِھر چکا ہوں، مجھے بچا لے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رکھیے ذوق سفر مدینے کا
کھل ہی جائے گا در مدینے کا
اس کو سرکار خود بلائیں گے
ہو ارادہ اگر مدینے کا
بخت جاگا ہے، حاجیو تم کو
ہو مبارک سفر مدینے گا
شمع دل کی جلا لیجیے
روشنی میں نہا لیجیے
اشک میرے شرارے بنے
آپ دامن بچا لیجیے
ہے ضرورت مجھے پیار کی
آپ اپنا بنا لیجیے
پُرانے پیڑ کو موسم نئی قبائیں دے
گُلوں میں دفن کرے ریشمی ردائیں دے
شبِ وصال بھی منزل ہے میرے ذوقِ سفر
مجھے وصال سے آگے کی انتہائیں دے
میں ایک دانۂ پامال تھا، مگر اے خاک
اب اُگ رہا ہوں مِرے تن کو بھی قبائیں دے
دُنیا کی خاطر نادانی کرتے ہیں
پاگل ہیں جو خُون کو پانی کرتے ہیں
منظر منظر کرب و بلا کا موسم ہے
ہم بھی غزل میں نوحہ خوانی کرتے ہیں
نیند اُڑا کر لے جاتی ہے خوابوں کو
جاگ کے آنکھوں کی نگرانی کرتے ہیں
ان پرندوں کے گھر نہیں رہتے
جو کسی شاخ پر نہیں رہتے
یہ جو ڈر ہیں یہ بولنے تک ہیں
بول اُٹھیں تو ڈر نہیں رہتے
بات یہ ہے کہ بات والوں کی
"بات رہتی ہے سر نہیں رہتے”
رہائی بھی کر لیں گے اب اپنے بس میں
نہیں کچھ تردد بھی قید قفس میں
یقیں ہے وہ دن اب قریب آ رہا ہے
زمانہ جب ہو گا مِری دسترس میں
اسی میں ہے انسانیت کی بھلائی
نبھائیں خوشی سے محبت کی رسمیں
وہ سنگ دل مِرا رہبر ہے کیا کیا جائے
اور اس کے ہاتھ میں خنجر ہے کیا کیا جائے
مِرے بزرگوں کے سر پر ہُما کا سایہ تھا
یہ آج غیروں کے سر پر ہے کیا کیا جائے
یہ ہولی اس نے جو کھیلی ہے آتش و خُوں کی
سفیر امن بھی ششدر ہے کیا کیا جائے
تمہارے شہر سے گزروں تو میری جان ادا
مجھے فراز کا وہ شعر یاد آتا ہے
کہ جس میں اس نے کہا تھا کہ؛ کُوچ کر جائیں
مگر اس کُوچ کے معانی سمجھ نہ پائی تم
اور ایسے کُوچ کیا تم نے زندگی سے مِری
کہ مجھ میں تاب نہیں ہے تمہیں بھُلانے کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مخزن علم بے کراں تمﷺ ہو
کنت و کنزن کے رازداں تم ہو
صاحبِ روحِ کُن فکاں تم ہو
وجہِ تخلیقِ دو جہاں تم ہو
ایک روشن چراغ ہو جیسے
سارے عالم میں ضو فشاں تم ہو
کسی کی خامیوں کا تذکرہ نہیں کرتے
یوں اپنے آپ کو چھوٹا کیا نہیں کرتے
سفر میں کتنے ہی لوگوں سے ہم یوں ملتے ہیں
سبھی سے ہی تو مگر دل ملا نہیں کرتے
ہمیں بھی درد تو ہوتا ہے بے رخی سے تِری
یہ اور بات ہے کہ ہم گِلہ نہیں کرتے
تجھ کو تیرا عدُو نہ مارے گا
دوست ہی تیرا سر اُتارے گا
آج رُوٹھی ہوئی ہے کچھ تقدیر
تُو یہ بازی ضروری ہارے گا
ہو گا تیرا وقار بھی مجرُوح
اپنا دامن اگر پسارے گا
ہم جہاں تھے ہم وہیں پہ رہ گئے
آپ کا کیا، آپ آئے کہہ گئے
شاید ان کی آمدوں کی راہ ہو
دیکھتے ہی دیکھتے ہم رہ گئے
عمر گزری ہے تمہاری یاد میں
اس سفر میں کیا سے کیا ہم سہہ گئے
دامن زیست غم سے بھر ڈالا
بے وفا تجھ سے پیار کر ڈالا
اتنا احساس بن چکا ہوں میں
❤اپنا احساس قتل کر ڈالا
ہم نے ماضی سے رابطہ کر کے
اپنے زخموں کو آج بھر ڈالا
مِلے ہیں لوگ زمانے میں بے اصول مجھے
کِیا ہے صورت حالات نے ملول مجھے
جہاں سے صاحبِ کردار کوئی گزرا ہے
بہت عزیز ہے اس راستے کی دھول مجھے
جو حق کی راہ میں خود کو مٹانا جانتا ہو
پسند آتے ہیں اس شخص کے اصول مجھے
تعلق ٹُوٹنے کا غم اُٹھانا بھی ضروری تھا💢
ضروری تم بھی تھے لیکن زمانہ بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کی بے چینی مِری زنجیر تھی لیکن
کھڑی تھی ریل گاڑی اور جانا بھی ضروری تھا
💗محبت کا بدل کچھ بھی اگر ہے تو محبت ہے
گئے تھے جس طرح ویسے ہی آنا بھی ضروری تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جانب دل کبھی اے دیدۂ بینا دیکھا
آتشِ غم نظر آئی، میرا سینہ دیکھا
عرش پر جانے کی راہیں ملیں زینہ دیکھا
اس نے سب دیکھ لیا جس نے مدینہ دیکھا
موت نے بھی کفِ افسوس ملے بالیں پر
تیرے بیمار کے رخ پر جو پسینہ دیکھا
بوسیدہ عمارات کو مسمار کیا ہے
ہم لوگوں نے ہر راہ کو ہموار کیا ہے
یوں مرکزی کردار میں ہم ڈوبے ہیں جیسے
خود ہم نے ڈرامے کا یہ کردار کیا ہے
دیوار کی ہر خشت پہ لکھے ہیں مطالب
یوں شہر کو آئینۂ اظہار کیا ہے
تنہا تنہا اپنی ذات
کس کو سنائیں دل کی بات
پلکوں پلکوں دِیپ جلے
کتنی روشن ہے یہ رات
برسوں بِیتے اب وہ کہاں
پھر بھی جیسے کل کی بات
گو خوشی بھی ہم کو راس آئی بہت
لیکن اس نے آگ برسائی بہت
کیا کِیا تُو نے سکونِ زندگی؟
بُھولنے والے کی یاد آئی بہت
شکریہ تیرا ہجومِ حادثات
بڑھ چلی تھی میری تنہائی بہت
اگر جنوں کا مقابل شعُور نکلے گا
تو سادگی کا بھی اک رُخ غرُور نکلے گا
کھنڈر دیارِِ وفا کے کرید کر دیکھو
ہمارے نام کا پتھر ضرُور نکلے گا
وہ بچہ جس کی شرارت سے ماں پریشاں ہے
جوان ہو کے بہت با شعُور نکلے گا
غموں کے قصے نہ افسانۂ طرب لکھنا
قلم اٹھاؤ تو جینے کا کچھ سمجھ لکھنا
ہر ایک ہاتھ میں تھا کاسۂ طلب لکھنا
جو لکھ سکو تو کرشماتِ روز و شب لکھنا
ہجومِ خواب میں کھوئی ہوئی تھیں سب آنکھیں
محاذ شب میں تنہا تھا تم یہ سب لکھنا
زندگی تجھ سے رابطہ نہ ہُوا
پھر بھی مجھ کو کبھی گِلہ نہ ہوا
یہ تو ہر دور کی کہانی ہے
ساتھ سچ کے کوئی کھڑا نہ ہوا
کیا شکایت کروں زمانے سے
میرا سایہ ہی جب مِرا نہ ہوا
فاصلہ کم ہے سفر زیادہ ہے
آدمی سوچ کے پچھتاتا ہے
اپنے اندر کہ جو گھبراتا ہے
اس کو باہر کا بھی اندازہ ہے
اب کبھی بات نہ کیجو اس کی
آج سے بند وہ دروازہ ہے
دل سے نکلے تو زباں تک پہنچے
غم کے احوال یہاں تک پہنچے
ہاتھ اُٹھتے ہیں فلک کی جانب
اب دُعا دیکھو کہاں تک پہنچے
ہم جو آتے تو وہیں تک آتے
تم جو پہنچے تو یہاں تک پہنچے
سر ایذا رسانی چل رہی ہے
طبیعت میں گرانی چل رہی ہے
اسی دل کے ہزاروں وسوسوں میں
وہی دھڑکن پرانی چل رہی ہے
چلا جاتا ہے ہر اک چل چلاؤ
جو شے ہے آنی جانی چل رہی ہے
محتسب تُو یہ باتیں سادہ کار کیا جانے
تشنگی سے ڈھلتے ہیں اپنے آپ پیمانے
سارے انقلاب اس کے میری زندگی تک تھے
ایک بھی نہ لی کروٹ میرے بعد دنیا نے
مدتوں رہے ہیں ہم ساتھ گردشِ دوراں
یہ تو غیر ممکن ہے تُو ہمیں نہ پہچانے
آماجگاہ فتنہ و شر ہے وطن ابھی
بدلا نہیں ہے آہ نظامِ کہن ابھی
طے کر رہا ہوں میں حق و نا حق کا مرحلہ
دہرا رہا ہوں قصۂ دار و رسن ابھی
اے رہروانِ شوق ذرا دیکھ بھال کے
رہبر کی شکل میں ہیں بہت راہزن ابھی
رو بھٹکنے لگے جب خیالات کی
منزلیں ہیں وہیں پر کمالات کی
کس لیے آئے پوچھا ہمیں کس لیے
کیا خبر ہو گئی ان کو حالات کی
ہم تو چپ رہ گئے کچھ کہا بھی نہیں
مسکرا کر اگر اس نے کچھ بات کی
نگری نگری پھرتا ہے آوارہ کون؟
میں اِکتارا ہوں تو ہے بنجارہ کون؟
میرے خوں میں آخر کیسی لذت ہے
اندر اندر لیتا ہے چٹخارہ کون؟
ساحل ساحل پوچھوں اپنے پانی سے
میں ہوں دریا تو ہے میرا دھارا کون؟
پہروں پہروں بے زاری ہے
ڈھیروں ڈھیروں لاچاری ہے
لین دین کرتے سوداگر
چہرہ چہرہ بازاری ہے
تن تو تھک کر بیٹھا رہ میں
من کی دوڑ ابھی جاری ہے
ہمسفر ہو کے مجھے شاد تو کر سکتے ہیں
خشک پتے بھی یہ امداد تو کر سکتے ہیں
سوچ کر یہ ہی چمن زار میں آ جاتا ہوں
بُوئے محرم یوں تجھے یاد تو کر سکتے ہیں
گو شکستہ ہے شبستان تمنا کو مگر
ٹُوٹے خوابوں سے بھی آباد تو کر سکتے ہیں
جنتا کی زبان سے
زمانہ جب سے بدلا ملک بھر میں قحط سالی ہے
غمِ بے روزگاری،. ماتمِ آشفتہ حالی ہے
رئیسوں کے گھروں میں فاقہ مستی کی وبا پھیلی
ملازم دم بخود ہیں، تاجروں کی جیب خالی ہے
جہاں بھی نہر کھدوائی گئی، پانی نہیں برسا
دیہاتوں میں کسانوں نے صفِ ماتم بچھا لی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
امت کے رہنما تم مولا مدینے والے
طوفاں میں ناخدا تم مولا مدینے والے
ہر لب کی ہو دعا تم مولا مدینے والے
ہر غم میں آسرا تم مولا مدینے والے
نازاں ہے تم پہ امت، تم ہو سراپا رحمت
مومن کا آئینہ تم مولا مدینے والے
تیرے نگر سے کوئی تعلق رہا نہیں
بچھڑا ہے اس طرح کہ وہ مجھ سے جُدا نہیں
دیتا ہے دل دلاسے کہ رُسوا نہیں ہوا
اب تک تو تیرے بارے کسی نے سُنا نہیں
اس بے تعلقی کا سبب کیا بیاں کروں
وہ بھی وہی ہے، میں بھی کوئی دُوسرا نہیں
وہی حادثوں کے قصے وہی موت کی کہانی
ابھی دسترس سے باہر ہے شعورِ زندگانی
جو مٹا کے اپنی ہستی بنا غمگسار صحرا
اسے راس کیسے آتی تِرے در کی پاسبانی
وہی شخص لا ابالی ہُوا مُنکرِ حقیقت
جسے چلمنوں کی سازش سے ملی تھی بد گُمانی
روک پائے نہ مکیں گھر سے گُزرتا پانی
آنکھ سے بہنے لگا سر سے گزرتا پانی
میرے تعمیر کیے ریت کے ان محلوں پر
مُسکرایا ہے برابر سے گزرتا پانی
حُسن شفاف ہے ایسا کہ نظر آتا ہے
پیکر ماہِ منور سے گزرتا پانی
بھری محفل میں رسوا کیوں کریں ہم
تِری آنکھوں کو دریا کیوں کریں ہم
ضروری اور بھی ہیں مسئلے تو
محبت ہی کا چرچا کیوں کریں ہم
گلے سلجھائیں گے دونوں ہی مل کر
بھلا سب کو اکٹھا کیوں کریں ہم
قیدی الفاظ
دیکھ اے مِرے ہمزاد
دیکھ اپنے بھیتر میں
تیرے ایک زنداں میں
کتنے ہی یہ قیدی ہیں
بے شمار لفظوں کے
ذات میں جو گونگے تھے
غم دے کے غمگسار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
تڑپا کے بے قرار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
کرنا تھا داغ بن کے کسی دل میں روشنی
شمع سر مزار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
ہونا تھا آپ اپنے چمن میں شگوفہ کار
شرمندۂ بہار ہوئے بھی تو کیا ہوئے
عارفانہ کلام حمد و نعت منقبت
سلام اس پر لقب ہے رحمۃ اللعالمیںﷺ جس کا
سلام اس پر خدا خود جس کے حسن پاک پر شیدا
سلام اس پر کہ جس پر بارشِ بارانِ رحمت تھی
سلام اس پر کہ جس کی پشت پر مہرِ نبوت تھی
سلام اس پر خدا نے عرش پر جس کو بلایا تھا
سلام اس پر نہ جس کی قامتِ رعنا کا سایہ تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تیری تعریف کیسے کروں میں بیاں میری طاقت ہے کیا، میں تو کچھ بھی نہیں
مہر و ذرّے میں نسبت تو ہوتی ہے کچھ، مجھ کو نسبت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
میرے وہم و گمان سے بھی باہر ہے تُو میں تو قطرہ نہیں اور بے کنار سمندر ہے تُو
تیرا سودا ہوا مجھ کو یہ ہستی کہاں دل کی وسعت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
تُو سمایا جو مجھ میں ترا کام ہے، میری ہستی ہے کچھ تو تیرا نام ہے
تیری رحمت نے رتبہ یہ بخشا مجھے میری جرأت ہے کیا میں تو کچھ بھی نہیں
پیار موسم نہیں ہے
جو گزر جائے تو
لوٹ آئے گا
یہ تو ایسی ہوا ہے
جو کسی خاص لمحے میں
کسی کو مسحور کرتی ہے
عقل جُزوی چھوڑ کر اے یار فکر کُل کرو
مشعلِ دل کو چتا فانی چراغاں گُل کرو
دل لگاؤ ایک سے دونوں جہاں جس کا ظہور
بوالہوس ہو کر نہ ہرگز عادت بُلبل کرو
زلف و عارض ہے منور دیکھ وجہ اللہ کا
تم نکو سیر چمن اور خواہشِ سُنبل کرو
ایسی تاریکی ہے کہ نام بُجھے جاتے ہیں
شام ہی سے یہ در و بام بجھے جاتے ہیں
روشنی داغ جگر میں نہیں اب باقی کوئی
ہم نے جو پائے تھے انعام بجھے جاتے ہی
نہ کرن کوئی اُمیدوں کی، نہ دن باقی ہے
دل نے پھیلائے تھے جو دام بجھے جاتے ہیں
وہ ہے پاس ہی گر تو آ جائے نا
چھب اپنی نظر کو دکھا جائے نا
رہائی بھی پا کر کہاں جائے گا
پرندے سے اب تو اڑا جائے نا
یہ ڈر مجھ کو سونے بھی دیتا نہیں
کوئی خواب سوتے میں آ جائے نا
صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے
کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے
اداسی کے آنگن میں تیری طلب کی
عجب خوشنما اک کلی کھل رہی ہے
نیا رنگ تھا اس کا کل وقت رخصت
کہ جیسے کسی بات پر برہمی ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ساری امت ہے پریشان رسول عربیﷺ
کون اس کا ہے نگہبان رسول عربیﷺ
آپ کے دین کے رکھوالوں کا یہ عالم ہے
بیچ بیٹھے ہیں وہ قرآن رسول عربیﷺ
آخرت بیچتے ہیں دولتِ دنیا کے عوض
چند پیسوں کا ایمان رسول عربیﷺ
کیا تجھ پر بھی بے چینی سی طاری ہے
مجھ پر تو یہ ہجر بہت ہی بھاری ہے
بھاگو، بھاگو، دُنیا کے پیچھے بھاگو
مجھ کو مجھ میں رہنے کی بیماری ہے
بے ادبی کی بات ادب سے کرتے ہیں
کم ظرفوں میں کس حد تک مکاری ہے
اشک کا جیسے ستارہ ہونا
میرا رونے سے، تمہارا ہونا
اُس کی آنکھوں سے سمجھ آتا ہے
کسی دریا کا کنارہ ہونا
اب تو لگتا ہے کہ ممکن ہی نہیں
شہر میں دل کا گزارا ہونا
رشتے ناتوں کی اُونچی دُکاں اور ہم
خواہش سُود و فکر زیاں اور ہم
زندگی کا تعارف بہت مختصر
خواہشیں، اُلجھنیں، تلخیاں اور ہم
کیسا سپنا ہے، کیا اس کی تعبیر ہے
جلتی آنکھیں، چِتا کا دُھواں اور ہم
جب حقیقت ان لبوں پر آئے گی
ہر طرف اک کھلبلی مچ جائے گی
پھول سے بچوں کو غربت کی چبھن
زہر کھانے پر ابھی اکسائے گی
روشنی سے تیرگی میں آئیے
زندگی کیا ہے، سمجھ آ جائے گی
زندگی غمگین ہوتی جا رہی ہے
آرزو رنگین ہوتی جا رہی ہے
چاند تارے آسمانوں میں ٹنگے ہیں
رات کی تزئین ہوتی جا رہی ہے
ظُلم پھر پروان چڑھتا جا رہا ہے
ضبط کی توہین ہوتی جا رہی ہے
میرے اندر شور بہت ہے
شاید کوئی اور بہت ہے
سناٹوں میں گونج ہے کیسی
اس چپ میں بھی شور بہت ہے
آس امید کو باندھیں کیسے
ٹوٹی دل کی ڈور بہت ہے
ہم نے یہ قرض بھی اتار لیا
زندگی! جا تجھے گزار لیا
جب غمِ زندگی نے دی مہلت
ہم نے اک شخص کو پکار لیا
آہٹیں دھڑکنوں کی صورت تھیں
دل نے کیا لطفِ انتظار لیا
لاکھ خوشیوں کا اقتباس ملا
پھر بھی دل غم کے آس پاس ملا
دوستوں میں خوشی تلاش نہ کر
جو بھی مجھ کو ملا اداس ملا
سچ کی گردن پہ جھوٹ ہے اب تک
حق سے ہر اک ہی نا شناس ملا
کیوں ہیں مجھ سے گریز پا آنکھیں
عشق سچا ہے تو ملا آنکھیں
میں فقط تجھ سے پیار کرتا ہوں
آ! مِری راہ میں بچھا آنکھیں
پیار تا کہ نظر تجھے آئے
مال و زر سے ہٹا آنکھیں
نیک اعمال کے درجوں کو بڑھا کر دیکھو
ایک گِرتے ہوئے بچّے کو اٹھا کر دیکھو
وحشتیں آ کے بچھا لیتی ہیں اپنا بستر
گھر پہ کچھ دن کے لیے تالا لگا کر دیکھو
آپ کے فکر کی پرواز کہاں تک پہونچی
میر کے مصرعے پہ اِک مصرع لگا کر دیکھو
غفلت میں سویا اب تلک پھر ہووے گا ہُشیار کب
یاری لگایا خلق سُوں، پاوے گا اپنا یار کب
جھُوٹی محبت باندھ کر غافل رہا اپنے سُوں حیف
بُلبل ہوسن پڑا دام میں، دیکھے گا پھر گُلزار کب
یہ خواب و خور فرزند و زن اور مال و زر زنداں ہوا
تو چھُوٹ کر اس قید سُوں حاصل کرے دیدار کب
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محفوظ ہے گھر عشق محمدﷺ کی ردا سے
گھر آیا ہے طوفانِ بلا میری بلا سے
یہ کہہ کے کرن پھوٹی سرِ حشر ادا سے
ان رِندوں کے آنے دو یہ کوثر کے ہیں پیاسے
اے کاش کے سرکارؐ کے قدموں سے لپٹ جائے
وہ درد جو بھیجا ہے مِرے دل نے صبا سے
بے گنہ جب بھی سر دار نظر آتے ہیں
اک نئے دور کے آثار نظر آتے ہیں
سرفرازی کے سب آثار نظر آتے ہیں
اہلِ حق دار پہ سردار نظر آتے ہیں
درد مندانِ چمن! آنکھ نہ لگنے پائے
ہم کو شب خون کے آثار نظر آتے ہیں
نظر ملا کے نظر سے گِرا دیا تم نے
مجھے بتاؤ خدا را! یہ کیا کیا تم نے؟
مُجھی پہ وار کیا اور مُجھی کو بھُول گئے
مِری وفا کا یہ اچھا صِلہ دیا تم نے
نہ اپنے طرزِ سِتم پر نگاہ کی تم نے
ہماری بات کو اتنا بڑھا دیا تم نے
سقراط
یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا
کہ ہر سقراط کو ہاتھوں سے اپنے
زہر پینا پڑے گا
کہ سچائی کا حاصل اس جہاں میں
سوائے موت کے کچھ بھی نہیں ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے مکمل
اعجاز رحمت
یہ جہان رنگ و بو
ایک طوفان بلا
اور میرا دل غریب
ایک ننھا سا دیا
رنگ و بو کے سیل کی
تاب لا سکتا نہ تھا
فصیل ذات پر اترا رہا ہوں
زمانے سے بچھڑتا جا رہا ہوں
میں پتھر کے نئے پیکر بنا کر
بہ شکل موم ڈھلتا جا رہا ہوں
وہ اک چہرہ وہ پلکیں اور تبسم
غزل کو اس کی لے پہ گا رہا ہوں
شہر در شہر دیدہ ور بھٹکے
زعم باطل میں تاجور بھٹکے
خود سری میں جو معتبر بھٹکے
ہم سفر ان کے بے خبر بھٹکے
فن کی پگڈنڈیوں پہ چلتے ہوئے
کبھی بھٹکے تو بے ہنر بھٹکے
حسرت و ارماں دلِ ناشاد کیا
آرزو اے خانماں برباد! کیا
کشتۂ بے داد مجبورِ وفا
بھُولنے والے ہماری یاد کیا
گوشِ گُل تک بھی رسا ہوتی نہیں
بُلبلِ ناشاد کی فریاد کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دربارِ تجلّی میں
اللہ تیرا نام، غفور و رحیم تُو
مالک کل عالمین کا، رب کریم تُو
ہر ایک بیل بُوٹے پہ لکھا ہے تیرا نام
رقصاں ہے تیری ذات سے یہ زندگی کا جام
تیرے ہی رنگ و نُور سے ہے رونقِ حیات
تیری ہی دُھن پہ رقص میں ہے ساری کائنات
تُو نہیں تو گھنا اندھیرا ہوں
میں تِرے قُرب میں چمکتا ہوں
سانس لیتا ہوں ایک عادت میں
زندگی تو گُزار بیٹھا ہوں
میری منزل یہاں نہیں اے دوست
میں یہاں سانس لینے ٹھہرا ہوں
بہت دور تک ساتھ اس کا رہا
بہت دیر تک وقت ٹھہرا رہا
میں تکتا رہا دیر تک آسماں
مِری آنکھ میں ایک تارا رہا
کسی کو نہ کر پائے ہم مطمئن
عجب زندگی کا جھمیلا رہا
آدمی آدمی کو کھاتا ہے
بھیڑیا قہقہے لگاتا ہے
گل چراغوں میں ٹمٹماتے ہیں
وقت خوشبو کے رنگ اٹھاتا ہے
رات مجھ کو بھی کھا نہ جائے کہیں
کوئی کمرے میں پھڑپھڑاتا ہے
جس کے نیزے پہ ہے یہ سر میرا
اس کے آنکھوں میں دیکھ ڈر میرا
پیاس پانی کو لگ رہی ہو گی
آگ کا جسم دیکھ کر میرا
ہم غریبوں کا یہ اثاثہ ہے
ایک دستار اور یہ سر میرا
تم کو اپنا بنائے بیٹھے ہیں
اپنی ہستی مٹائے بیٹھے ہیں
ہم کہیں اور جا نہیں سکتے
خواب سارے جلائے بیٹھے ہیں
تم سے ملنا بھی حادثہ ٹھہرا
داغ دل کے سجائے بیٹھے ہیں
دشمنِ جاں ہے جانِ محفل بھی
وہ مسیحا نفس بھی، قاتل بھی
آ تو پہنچے تھے ہم بھی ساحل پر
راس آیا ہمیں نہ ساحل بھی
شامِ غم! انتظار میں تیرے
ہوش کیسا تھا، کھو گیا دل بھی
رنج و غم راحت و زندگی دیکھ کر
بات کرتے ہیں ہم آدمی دیکھ کر
ان کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے
انجمن میں ہماری کمی دیکھ کر
آپ دامن سے اپنے ہوا دے گئے
غم کی چنگاری دل میں دبی دیکھ کر
شکن شکن سے نشان ملال ملتا ہے
جو دل کا ہے وہی چہرے کا حال ملتا ہے
اسی کا حُسن مکمل ہے اور محیط بھی ہے
ہر ایک شے میں اسی کا جمال ملتا ہے
خُدا کا شکر کہ دامن ملا نہ دام ہمیں
کسی کسی کو تو دستِ سوال ملتا ہے
چند یادیں ہیں بام و در کے سوا
ذہن میں کچھ نہیں کھنڈر کے سوا
سر بہت تھے جہان فانی میں
در نہ تھا کوئی تیرے در کے سوا
سب سقیفہ میں نذر کر آئے
اپنی تاریخ کو نظر کے سوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اللہ رے دو جہاں میں یہ رتبہ رسولﷺ کا
خود رب کائنات ہے شیدا رسولﷺ کا
یوسف بھی ان کے روئے منور کے ہیں نثار
دیکھا جمال تُو نے زلیخا! رسولﷺ کا
طوفاں کی کیا مجال کہ کشتی ڈبو سکے
کشتی چلی ہے لے کے سہارا رسولﷺ کا
بدن کا بیسواں حصہ یہ سر ہے
مِرا افسانہ کتنا مختصر ہے
جہانِ اہلِ حق زیر و زبر ہے
اسی میں امتحانِ خیر و شر ہے
وہی معتوب ہیں اس داستاں میں
جنہیں عنوانِ ہستی کی خبر ہے
وہ اضطراب شبِ انتظار ہوتا ہے
کہ ماہتاب کلیجہ کے پار ہوتا ہے
فسُردہ آپ نہ ہوں دیکھ کر مِرا داماں
یہ بد نصیب یوں ہی تار تار ہوتا ہے
نہیں کچھ اور محبت کی چوٹ ہے ہمدم
یہ درد دل میں کہیں بار بار ہوتا ہے
سیپ کو موتی سمندر سے ملا
بے طلب ہم کو تِرے در سے ملا
وہ خزانہ آپ کے صدقے سے ملا
جو بہاروں کو گُلِ تر سے ملا
سر جُھکا جس پر مہ و خُورشید کا
آستاں ایسا مقدر سے ملا
تم قتل کرو ہو
اس کی باتوں کے ترکش میں
زہر میں بجھے ہوئے
لفظوں کے تیر تھے
جن سے میرا لہجہ
لہولہون ہو گیا
لیکن ساتھ ہی اس نے
اٹک گیا ہے یہ دل خارزار میں اپنا
کوئی علاج نہیں شہر یار میں اپنا
اب اس کے شہر میں جائیں تو کس لیے جائیں
ہوا وہ غیر تو کیا اس دیار میں اپنا
ملی نہ جان گنوا کر بھی منزلِ مقصود
لُٹا خزانۂ دل رہگزار میں اپنا
وہ نظروں سے میری نظر کاٹتا ہے
💕محبت کا پہلا اثر کاٹتا ہے💕
مجھے گھر میں بھی چین پڑتا نہیں تھا
سفر میں ہوں اب تو سفر کاٹتا ہے
یہ ماں کی دُعائیں حفاظت کریں گی
یہ تعویذ سب کی نظر کاٹتا ہے
قبول کی نہ زمانے کی پیروی میں نے
نکالی ایک نئی راہِ زندگی میں نے
بڑھا کے حُسنِ صداقت سے دوستی میں نے
خرید لی ہے زمانے سے دُشمنی میں نے
کمالِ جوشِ جنوں جب گُزر گیا حد سے
اُڑائی چاک گریباں کی خُود ہنسی میں نے
دل کو پتھر بنا کے دیکھتے ہیں
اس سے نظریں چرا کے دیکھتے ہیں
دل کو تسکین کی ضرورت ہے
درد کو گنگنا کے دیکھتے ہیں
جاگتا ہے کہ سو رہا ہے وہ
اس کے خوابوں میں جا کے دیکھتے ہیں
وحشت
دلِ برباد میں
اک وحشت کھڑی ہے
گرد ناکامیِ زیست کی سوغات لیے
مِرے دل کی اُداسی
یونہی بے سبب تو نہیں؟
تم نے سمجھا ہوتا شکستہ دل کی اُجڑی ہوئی داستان کو
کتنی مُشکل سے اس کو ڈُھونڈا ہے
بے سبب دل کہاں یہ ٹُوٹا ہے
اچھی صُورت کا کیا کریں چرچا
اچھی خُوشبو سے پھُول بکتا ہے
اس کے وعدے کی کیا میں بات کروں
کچا دھاگہ بھی اس سے پکا ہے
کبھی یہ دار کبھی کربلا سا لگتا ہے
مِرا وجود کوئی سانحہ سا لگتا ہے
ہر ایک سانس پہ زخموں کا اک ہجوم لیے
مِرے لہو میں کوئی دوڑتا سا لگتا ہے
اتر رہا ہے مِرے دل میں چیختا سورج
یہ واقعہ تو کوئی بد دُعا سا لگتا ہے
عالموں کو بن باس دینے والے
سورج سے سائے کی توقع بادل سے سنہری دھوپ کی
کانٹوں سے مہکتے پھول کی خوشبو صحرا سے ہریالی کی
کیسے بھولے آپ ہیں صاحب کیسی توقع رکھتے ہیں
کیچڑ میں جب آپ چلیں گے پاؤں تو گندے ہوں گے ہی
جھوٹوں کی صحبت میں رہ کر سچ کیسے کہہ پائیں گے
مرے ہوئے انساں کے لحم سے کیوں رغبت رکھتے ہیں آپ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمد مصطفیٰﷺ کی دو جہاں میں حکمرانی ہے
مدینہ جس کو کہتے ہیں وہ ان کی راجدھانی ہے
معطر ذکر سرورﷺ سے ہماری زندگانی ہے
جدھر نظریں اٹھاتا ہوں ادھر ہی شادمانی ہے
قیامت کی گھڑی ہم کو بھلا کیسے ڈرائے گی
رسول اللہﷺ کی حاصل ہمیں جب نگہبانی ہے
تُو مِرے غم سے آشنا کب تھا
غمزدہ ہوں، تجھے پتہ کب تھا
٭چِتر تیرا کوئی بنا کب تھا
اک دِیا تھا مگر جلا کب تھا
آ تو جاتی تِرے قریب، مگر
کوئی آنے کا راستہ کب تھا
ایک مختصر نظم
ہمارے سروں پر پگھلنے والی
برف جیسی سفید دھوپ
ہم سے عمر رفتہ کے
ہر سیہ پل کا حساب مانگتی ہے
جن پلوں سے ہمارا سامنا
خیالوں کی ہری گھاس پر
ظلم کا یا احسان کا مارا
انساں ہے انسان کا مارا
بند ہے مے خانہ زاہد پر
جائے کہاں ایمان کا مارا
سادہ لوحی فطرت میری
ہوں تیرے پیمان کا مارا
مسجدوں مندروں کا خدا
احمد آباد میں کھو گیا
کتنے چہرے بدلنا پڑے
کس قدر تُو نے گھپلا کیا
وقت کی تیز رفتار تھی
لمحہ لمحہ سسکتا رہا
فتویٰ
میں نے اپنے ہی آستانے پر
بے خودی میں، کیے ہیں سجدے بھی
دل تو پہلے ہی وار بیٹھا تھا
جان بھی اب نثار کر لوں گا
زاہدِ کم نظر کا کہنا
مجھ کو، الزام کُفر کا دے دے
کل ہی کی بات نہیں ہوتی (نظم سے اقتباس)
دہلیز پر جو خواب ٹوٹا ہے
وہ کل کا تو نہیں تھا
وہ تو نہ جانے کتنے سالوں سے
نانیوں اور دادیوں نے الھڑ آنکھوں میں جگا رکھا تھا
یہ جو دیوار پر لگی تصویر اچانک دھڑام سے نیچے گر گئی ہے
یہ کل ہی تو نہیں ٹانگی گئی تھی
جب تری ذات کو پھیلا ہوا دریا سمجھوں
خود کو بھیگی ہوئی راتوں میں اکیلا سمجھوں
نام لکھوں میں تِرا دُور خلاؤں میں کہیں
اور ہر لفظ کو پھر چاند سے پیارا سمجھوں
یاد کی جھیل میں جب عکس نظر آئے تِرا
آنکھ سے اشک بھی ٹپکے تو ستارا سمجھوں
بہ نام سجدہ رسائی کا اک بہانہ مِلا
مِلا مِلا مجھے وہ سنگِ آستانہ مِلا
حرم بھی پست ہے میرے مقام سے اب تو
بلند اس سے بھی اک اور آستانہ ملا
ہنوز مستئ روزِ الست ہے باقی
مجھے مزاج ازل ہی سے عاشقانہ ملا
دور مجھ تک نہیں آتا کبھی پیمانے کا
کچھ عجب رنگ ہے ساقی تِرے میخانے کا
روشنی برق فلک لے کے دکھانے کو چلی
رنگ دیکھا نہ گیا میرے سِیہ خانے کا
یاد آئیں کسی کافر کی گلابی آنکھیں
رنگ دیکھا جو چھلکتے ہوئے پیمانے کا
گلشن جو برق کا ہے سہارا لیے ہوئے
ہر پھول ہے ہنسی کا تقاضا لیے ہوئے
یہ دل ہے ایک درد کی دنیا لیے ہوئے
ذرہ ہو جیسے وسعتِ صحرا لیے ہوئے
ساقی اسے نہ بھول کہ محفل میں کل تِری
آیا تھا کوئی ساغر و مینا لیے ہوئے
چپ چاپ زندہ رہنے کی راہیں ٹٹولیے
بے وجہ نفسیات کی گِرہیں نہ کھولیے
دستک سی ہو رہی ہے سرِ منزلِ خیال
شاید کہ آ گئے ہیں وہ، دروازہ کھولیے
باتیں بڑی ہیں وقت بہت کم ہے دوستو
کچھ مجھ کو کہنے دیجیے کچھ آپ بولیے
دیش بھگتی بے اثر آدھے اِدھر آدھے اُدھر
ہیں دھرم کے نام پر آدھے ادھر آدھے ادھر
دل پگھلتے ہی نہیں مظلوم کی فریاد پر
سب ہیں پتھر کے جگر آدھے ادھر آدھے ادھر
کاٹ دیجے گا کتابِ زندگی سے میرا نام
جوڑ دینا پھر سفر آدھے ادھر آدھے ادھر
نصیب میں ہے جدائی تو رونا دھونا کیا
ہے ساری چیز پرائی تو رونا دھونا کیا
یہاں تو اپنے ہی اپنوں کو مار دیتے ہیں
ہوا نے شمع بجھائی تو رونا دھونا کیا
اسی نے ہاتھ بڑھایا تھا دوستی کے لئے
اسی نے بات بڑھائی تو رونا دھونا کیا
اس مقتلِ ہستی سے گُزر جائیں گے ہم بھی
دُنیا یہی دُنیا ہے تو مر جائیں گے ہم بھی
ہم سے بھی اُلجھتے ہیں بہر گام یہ سائے
شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ڈر جائیں گے ہم بھی
جیسے بھی ہیں انسان ہیں، اے بادِ مخالف
تنکے تو نہیں ہیں کہ بکھر جائیں گے ہم بھی
میرے بہتے اشکوں میں ذائقہ نہیں ہو گا
جب تلک تلاطم میں معجزہ نہیں ہو گا
سب پرند شاخوں سے جاں بچا کے اڑتے ہیں
وہ جو مر گیا شاید وہ اڑا نہیں ہو گا
آسمان والے خود پھر تمہیں گرا دیں گے
گر تمہارے شانوں پر حوصلہ نہیں ہو گا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کب ملا انساں کو ذوق آگہی تیرے بغیر
کس نے دی انسانیت کو زندگی تیرے بغیر
غیر ممکن ہے خدا کی آگہی تیرے بغیر
غیر ممکن بات ہے اے نبیؐ تیرے بغیر
تُوﷺ نے بخشا زندگی کا بانکپن
نامکمل رہ گئی تھی زندگی تیرے بغیر
جب سے آباد کیا قیس نے ویرانے کو
چھیڑنے آتی ہے لیلیٰ تِرے دیوانے کو
پوچھ صیاد نہ کچھ روح کے گھبرانے کو
قفس تن سے یہ کہتی ہے نکل جانے کو
دیکھ مستانہ گھٹاؤں کو ذرا اے ساقی
دوش پر آج صبا لاتی ہے مے خانے کو
رُسوا ہوئے جو اہلِ خبر سوچنا پڑا
کیا چیز ہے یہ ذوقِ نظر سوچنا پڑا
یہ وقت ہی کی بات ہے اے یارِِ خُوش خرام
اب ہم ہیں اور برق و شرر سوچنا پڑا
میری وفا پہ تم نے کچھ الزام یوں رکھا
کچھ دیر تک بہ طرزِ دِگر سوچنا پڑا
نگر میں ان کے جینا چاہتا ہوں
میں ساحل پر سفینہ چاہتا ہوں
ابھی طیبہ کا منظر دیکھنا ہے
ابھی کچھ اور جینا چاہتا ہوں
لب پر ذکرِ احمدﷺ ہو ہمیشہ
نگاہوں میں مدینہ چاہتا ہوں
جسارت محبت کی کر کے تو دیکھو
کبھی معجزے اس جگر کے تو دیکھو
سمندر سے بر تر ہیں خشکی کے گرداب
ذرا ساحلوں پر اتر کے تو دیکھو
ازل سے ہی منظر کے رنگوں میں گم ہو
کبھی رنگ حُسنِ نطر کے تو دیکھو
تیری یاد
خُدا جانے کیوں
تیری یاد بہت بیمار تھی گزشتہ رات
ساری رات اُس کے ماتھے پر
ٹھنڈے پانی کی پٹی رکھ کر
پاوٴں دبا کر، ہاتھ سہلا کر
سینے کی گرمائش پہنچا کر
محفل سے ان کی درد لیا، کیا بُرا کیا
دل کا سکوں خوشی سے دیا، کیا برا کیا
جوشِ جنوں میں مر کے جیا، کیا برا کیا
دامن کو تار تار کیا،۔ کیا برا کیا
ساقی! تیرے فراق میں جینا حرام ہے
مجبور ہو کے زہر پیا، کیا برا کیا
یاد تیری کسی خوشی کی طرح
مجھ سے ملتی ہے اجنبی کی طرح
ہے اندھیرا مِرا اکیلا پن
تم چلے آؤ روشنی کی طرح
یہ ازل سے ابد کی دوری بھی
سلسلہ ہے تِری گلی کی طرح
کوئی خلقت نہ رہے، کوئی تماشا نہ رہے
ایک دیوار گرے، اور یہ پردہ نہ رہے
ہم بھکاری ہیں جنہیں تیری محبت نہ ملی
وہ تو پتھر ہیں، جنہیں تیری تمنا نہ رہے
کوئی زنجیر ہلائے، کوئی پتھر پھینکے
ورنہ ممکن ہے یہاں شہر میں ہم سا نہ رہے
زیست میں رنگ بھر گئی آخر
وہ نظر کام کر گئی آخر
جذب وحشت کی کارسازی سے
دل کی قسمت سنور گئی آخر
چیر کر پردۂ مہ و انجم
آپ ہی پر نظر گئی آخر
تاریخ میں یہ حادثہ پہلے ہوا نہ تھا
دھوکا کسی نے ایسے کسی کو دیا نہ تھا
الزامِ انہدام تمہیں کس لیے نہ دوں
کوئی وہاں تمہارے سوا دوسرا نہ تھا
کل ہم بھی حکمراں تھے اسی سرزمین پر
نا حق کسی پہ ظلم کسی کا ہوا نہ تھا
زعفرانی کلام
دُم
جناب دُم کی عجب نفسیات ہوتی ہے
کہ اس کی جنبش ادنیٰ میں بات ہوتی ہے
وفا کے جذبے کا اظہار دُم ہلانا ہے
جو دُم کھڑی ہے وہ نفرت کا تازیانہ ہے
جو لمبی دُم ہے وہ عالی صفات ہوتی ہے
جو مختصر ہے بڑی واہیات ہوتی ہے
زعفرانی کلام
میرے مالک مجھے ہوا کیا ہے؟
کیا مرض ہے بتا، دوا کیا ہے؟
بھیڑ گھر ہے کیوں حسینوں کی
تُو ہی بتلا دے ماجرا کیا ہے؟
اک نظر دیکھ لوں میں لیلیٰ کو
باپ اس کا مگر کھڑا کیا ہے
دماغ فکر جو روشن خیال ہو جائے
غمِ حبیب نشاطِ کمال ہو جائے
تاثرات محبت عیاں ہوں چہرے سے
میں چپ رہو بھی تو اظہارِ حال ہو جائے
میں اپنی چشمِ تمنا سے دیکھ لوں تجھ کو
تِرے حضور یہ میری مجال ہو جائے
وہ تو ساحل پر بھی ساحل آشنا ہوتا نہیں
جس سفینے کا خُدا خود ناخُدا ہوتا نہیں
حشر کے فتنے اُٹھا دیتا مِرا ذوقِ جبیں
شُکر ہے ان کا کہیں بھی نقشِ پا ہوتا نہیں
قافلے گُم ہو گئے ہیں سینکڑوں اس راہ میں
طے کسی سے زندگی کا راستہ ہوتا نہیں
ہماری زندگی اشکوں میں ڈھل کے
فسانہ بن گئی ہے رخ بدل کے
تقاضے جانتا ہوں آج کل کے
فسردہ شعر کہتا ہوں غزل کے
جہاں مجبوریاں حائل ہوئی ہیں
امیدیں رہ گئی ہیں ہاتھ مل کے
تِرے درد کی کہانی مِرا راز زندگانی
تِرے حسن کا فسانہ ہے مِرا غم نہانی
مِرا راز ہے اگر تُو تو میں ہوں تیری نشانی
نہ تِری حیات فانی، نہ مِری حیات فانی
کروں دید کی طلب کیوں سنوں کیوں میں لن ترانی
ہے ابھی مِری نظر میں وہ ادائے من رآنی
ایسا فریب طرز گزر مجھ کو دے گئے
دیوار و در تو لے گئے گھر مجھ کو دے گئے
معراجِ نقدِ فکر و نظر مجھ کو دے گئے
یہ کم نہیں مزاجِ ہنر مجھ کو دے گئے
اجڑی حویلیوں کی نشانی سمجھ کے وہ
اک کرب میں نہاتا کھنڈر مجھ کو دے گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اللہ رے جلووں کا اثر کیسا لگے گا
اے کعبۂ دیں! تیرا نگر کیسا لگے گا
بتلا تو سہی راہ گزر کیسا لگے گا
طیبہ کے مسافر کا سفر کیسا لگے گا
دیکھیں تو سہی ریت کی دیوار اٹھا کر
آشفتہ مزاجوں کا ہنر کیسا لگے گا
خواب میرے تو ہو چکے تاراج
دل سے اٹھتا ہے پھر دھواں کیوں آج
میں غمِ زندگی میں کھویا تھا
خیر گزری کہ مل گئے تم آج
گردشِ وقت! خوش ہی ہیں ہم لوگ
پوچھتی کیا ہے زخمِ دل کا مزاج
نغمہ زن ہے نظر بے آواز
کیوں مِرے دل اثر بے آواز
میرے دل سے انہیں اپنے دل کی
مِل رہی ہے خبر بے آواز
لاکھ کِرنوں کی زباں رکھتا ہے
ایک نُورِ سحر بے آواز
بکھرتے بکھرتے سمٹتا رہا
مِرے گھر کا نقشہ بدلتا رہا
ذرا وقت بیتے یہی سوچ کر
کتابوں کے پنے پلٹتا رہا
گھروں میں تو چولہے جلے ہی نہیں
دُھواں کیوں مکانوں سے اٹھتا رہا
بار غم سے جو نیند آئی ہے
رُوحِ کونین تھر تھرائی ہے
ضبط غم اور آنکھ میں آنسو
کیا کہوں کیسے نیند آئی ہے
آہ، دورِ فراق میں جینا
زندگی بن کے موت آئی ہے
حقیقت جان لینا چاہتا ہوں
تجھے پہچان لینا چاہتا ہوں
مجھے ادراک اپنا ہو گیا ہے
تجھے اب مان لینا چاہتا ہوں
مصائب، دھوپ، سایہ، تری یادیں
یہ چادر تان لینا چاہتا ہوں
ابر لے جاؤ، صبا لے جاؤ
سارا منظر ہی اٹھا لے جاؤ
چاہتے ہو تو سمندر کی طرف
جاؤ لے جاؤ، گھٹا لے جاؤ
ریت کیا ریت کی دیوار ہی کیا
تم تو دریا یو، بہا لے جاؤ
پاؤں نہ دُور دُور بھی اپنی خبر کو میں
پھر ڈُھونڈتا ہوں آپ کی پہلی نظر کو میں
اِک اِک نگاہ میں سینکڑوں تیروں کے وار ہیں
رکھوں کہاں سنبھال کے قلب و جگر کو میں
ایسا تلاشِ یار میں گُم ہو گیا ہوں میں
آؤں گا اب نظر کسی اہلِ نظر کو میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درودِ پاک کی برکت سے فیض یاب ہوا
خیال خفتہ شرر تھا جو آفتاب ہوا
ہمیشہ رہتی تھیں بے چین دھڑکنیں دل کی
نبی کے ذکر سے سیراب ہو کے آب ہوا
در رسولﷺ پہ جا کر گواہی دیتا ہے
جو اشک کنج ندامت سے بازیاب ہوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نگاہ کرم تاجدار دو عالمﷺ
پریشاں ہیں ہم تاجدار دو عالمﷺ
عطا ہی عطا سید المرسلیںﷺ ہیں
کرم ہی کرم تاجدار دو عالمﷺ
مِری سمت جو تیز نظریں اٹھائے
یہ ہے کس میں دم تاجدار دو عالمﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے ہم سفرو ٹھہرو یہ شہر مدینہ ہے
اس شہر میں مرنا ہے اس شہر میں جینا ہے
سانسوں میں ہے ذکرِ حق آنکھوں میں مدینہ ہے
دل میں شہِ بطحٰیؐ کی الفت کا خزینہ ہے
امداد کا طالب ہوں، آ جائیے دم بھر کو
گردش میں مقدر ہے طوفاں میں سفینہ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تُو رب کائنات ہے خلّاق دو جہاں
یکتا ہے اور یگانہ ہے ثانی تِرا کہاں
شاہد ہر ایک سانس ہے تیرے وجود کی
شہ رگ سے تُو قریب ہے بے وہم بے گماں
میری بساط کیاہے جو تیری ثنا کروں
عاجز اگر قلم ہے تو مجبور ہے زباں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بڑی عجیب فضا بزم لا مکاں کی تھی
کہ فصل ساجد و مسجود دو کماں کی تھی
چراغِ عرش بریں فرش پر ہوا ضو بار
ملی زمیں کو وہ رفعت جو آسماں کی تھی
سماتے رنگِ جہاں کیا کہ چشمِ دل میں مری
شبیہِ روضۂ سرکارﷺ دو جہاں کی تھی
تنہائی بھی رقصاں ہے کہیں خالی مکاں میں
لے جاؤں شبِ ہجر! تجھے آج کہاں میں؟
چلنا ہے اگر عشق کی راہوں میں تو سُن لو
یہ خاک اُڑاتا ہے بہت قریۂ جاں میں
دونوں کے تیقّن میں فقط فرق ہے اتنا
تُو میرا یقیں، تیرے لیے ایک گُماں میں
ہوش کا دامن چھُوٹ رہا ہے
سانس کا رشتہ ٹُوٹ رہا ہے
آج غموں کی شاخوں پر بھی
درد شگوفہ پھُوٹ رہا ہے
بیوہ ماں کا پیارا بچہ
سڑک کا پتھر کُوٹ رہا ہے
خدا سے بھی کب کوئی فرقت کٹی ہے
شب ہجر شب سے بھی پہلے بنی ہے
میں اک خواب ہوں تیرا دیکھا ہوا ہوں
تُو اک نیند ہے مجھ میں سوئی پڑی ہے
ہوس تو نہیں ہے مگر یہ تھی سچ ہے
مجھے تجھ بدن کی تمنا رہی ہے
ہر کسی در پہ کہاں سجدہ روا رکھتے ہیں
ہم مؤحد ہیں، فقط ایک خدا رکھتے ہیں
وہ کڑی دھوپ میں رحمت کی گھٹا رکھتے ہیں
سر پہ ماں باپ کی جو لوگ دعا رکھتے ہیں
داغ دامن پر نہیں نقشِ وفا رکھتے ہیں
ہم محبانِ وطن اُجلی قبا رکھتے ہیں
ویرانہ دل کو ذہن کو صحرا کہا گیا
گزرا جدھر سے مجھ کو تماشا کہا گیا
آنکھوں سے آنسوؤں کے سفر کو کبھی کبھی
برسوں کی تلخیوں کا نتیجہ کہا گیا
دیدہ وری کا اپنی یہ ادنیٰ کمال ہے
تصویر غم کو پھول سا چہرہ کہا گیا
چاند رہتا تھا یہاں اب کیا رہا
شہر دل تنہا نہ تھا، تنہا رہا
زینہ زینہ خواب لہراتے رہے
صبح تک آنکھوں میں اک چہرہ رہا
رفتہ رفتہ بجھ گئیں سب مشعلیں
اس کی یادوں کا دیا جلتا رہا
آپ کے دل میں گرچہ شک ہے جناب
یہ محبت فَقط کسک ہے جناب
اب دیا ہے بھلا کِسے جھانسا
آج چِہرے پہ پھر چمک ہے جناب
شام سے دل کو کوئی دھڑکا ہے
دھڑکنوں میں عجب دھمک ہے جناب
قوت تو ہے نمو کی مگر قحطِ آب ہے
میں وہ زمیں ہوں جس سے گریزاں سحاب ہے
تعمیر کر رہا ہوں نشیمن خلوص کا
یہ جانتے ہوئے بھی کہ موسم خراب ہے
تحلیل ہے فضاؤں میں یوں بے حسی کا زہر
انساں کو کُھل کے سانس بھی لینا عذاب ہے
سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے
جیتے جی ہم اپنا ماتم کر چکے
دیکھیے ملتے ہیں کس دن یار سے
عید بھی کر لیں، محرّم کر چکے
دھیان ان آنکھوں کا جانے کا نہیں
یہ ہرن پالے ہوئے رَم کر چکے
تمہارا شہر تو شہر شفا لگے ہے مجھے
تمام زخموں کو اب فائدہ لگے ہے مجھے
وفا کی راہ پہ چلنے سے پڑ گئے چھالے
یہ رہ گزر تو خطِ اُستواء لگے ہے مجھے
تمہارے حسن سے روشن ہے کائنات مِری
تمہارے حسن کا یہ معجزہ لگے ہے مجھے
لرزش سے اپنی کام لیا ہے کبھی کبھی
دامن کسی کا تھام لیا ہے کبھی کبھی
دل سے مٹا کے حسرت و ارماں کے سب نشاں
دل سے بھی انتقام لیا ہے کبھی کبھی
ساغر نے میکدے میں کیا ہے مِرا طواف
ساقی کا بھی سلام لیا ہے کبھی کبھی
بے ضمیری کا پتہ دیتا رہا
ظرف تھا خالی صدا دیتا رہا
دیکھنے کی ہم نے زحمت ہی نہ کی
ہاتھ میں وہ آئینہ دیتا رہا
چشم نم رنج و محن کے ساتھ ساتھ
وقت ہم کو تجربہ دیتا رہا
غم کی گر چاشنی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی
رُوٹھ جانا تو خیر آساں ہے
پر منانا ہنسی نہیں ہوتی
دل لگا کر سمجھ میں آیا ہے
یہ کوئی دل لگی نہیں ہوتی
سفر طویل ہے بارِ حیات کم کر لو
جو ہو سکے تو مجھے بھی شریکِ غم کر لو
کسی کا ذکر تو آئے تمہارے نام کے ساتھ
ورق حیات کا سادہ ہے، کچھ رقم کر لو
اگر یہ شوق کہ دنیا تمہیں سلامی دے
تو پہلے اپنے لیے خود کو محترم کر لو
طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے
ہاں تری زُلفِ گِرہ گیر سے جی ڈرتا ہے
دل تو قائل ہے تِرے لُطف و کرم کا لیکن
اپنی پھُوٹی ہوئی تقدیر سے جی ڈرتا ہے
آپ کی چُپ سے اُلجھتی ہے طبیعت اکثر
آپ کی شوخیٔ تقریر سے جی ڈرتا ہے
شب سیاہ کا آنچل سرک چکا ہے بہت
اندھیری رات میں جگنو چمک چکا ہے بہت
رئیس شہر! مِرا اور امتحان نہ لے
کہ میرے صبر کا ساغر چھلک چکا ہے بہت
نہ کام آئے گی اب شمع دل کی تابانی
تعلقات کا شعلہ بھڑک چکا ہے بہت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حمد لکھنے کی آرزو جاگی
دل میں رحمت کی جستجو جاگی
میرے ہانٹوں پہ حمد ہے تیری
میرے سینے میں یہ نمو جاگی
میرے دل میں وہی اجالا دے
جس سے پھولوں میں بوئے خُو جاگی
رسوائی
سمجھ میں نہیں آتا مجھ کو یہاں
کسے دوست سمجھوں
کسے دشمناں
عجب شہر ہے
شہرِ آشفتگاں
کبھی پھول جھڑتے ہیں لب سے یہاں
موسم گل ہے گھٹا ہے جام ہے
انتظار ساقیٔ گلفام ہے
ایک ساقی ایک مے اک جام ہے
پھر یہ کیسا فرق خاص و عام ہے
غم تو ہے اس واسطے مجھ کو عزیز
یہ تِرا بخشا ہوا انعام ہے
نگاہ زرد میں رنگ خمار کیا کہنا
خزاں کے دور میں فصل بہار کیا کہنا
سمجھ سکا نہ کوئی جز مِرے سر محفل
فقیر اشارے کو اے چشمِ یار! کیا کہنا
ملا ہے لطفِ غمِ انتظار جو ہم کو
تِرے کرم کا اے غفلت شعار کیا کہنا
دھوپ کی یورش نہ کیوں ہو بام و در کے سامنے
کاٹ ڈالا اس نے برگد تھا جو تھا گھر کے سامنے
آبلہ پائی سے ان کی پوچھیے حالِ سفر
ریت ہے تپتی ہوئی جن کی نظر کے سامنے
ہمسفر کو ہمسفر سے آس جو تھی، اٹھ گئی
کارواں لُوٹا گیا جب راہبر کے سامنے
چاندنی رات میں تاروں کی کہانی لکھی
جلوۂ جاناں کی ہر ایک نشانی لکھی
ہو کے حاصل نہ ہوئی ایسی سیانی لکھی
تم کو اک حاجتِ ناکام زبانی لکھی
میں نے ہر وقت نیا درد سہیجا دل میں
اس نے افسوس مِری بات پرانی لکھی
اس آتش خموش کو شعلہ بنا نہ دے
چنگاریوں کے ڈھیر کو کوئی ہوا نہ دے
مشکل سے کچھ ہوا ہے میسر مجھے سکوں
ماضی کا کوئی درد مجھے پھر جگا نہ دے
گھر پھونکنے سے پہلے مِرا تو یہ سوچ لے
شعلہ کہیں یہ تیرے بھی گھر کو جلا نہ دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مصطفیٰؐ میرے رہبر کروڑوں سلام
مجتبیٰﷺ یارِ داور، کروڑوں سلام
والئ دو جہاں تیری رحمت کی خیر
شاہِ روضۂ اطہر، کروڑوں سلام
آسمانِ رسالت کا تُوﷺ آفتاب
ہیں نبیؑ سارے اختر، کروڑوں سلام
پڑی جب کسی کی نگاہِ محبت
ملی اہلِ الفت کو راہِ محبت
ستم ہے قیامت ہے آہِ محبت
مِری سمت ہو گی نگاہِ محبت
ہزاروں حسیں جمع آ کر ہوئے ہیں
یہ محشر ہے یا جلوہ گاہِ محبت
فصیل ذات میں در تو تِری عنایت ہے
پر اس میں آمد وحشت مِری اضافت ہے
جب آئینے در و دیوار پر نکل آئیں
تو شہر ذات میں رہنا بھی اک قیامت ہے
ذرا سی دیر تو موسم یہ آرزو کا رہے
ابھی بھی قلب و جگر میں ذرا حرارت ہے
سفر میں کیوں نہ سفینوں کے بادبان کُھلے
مجھے بتانا اگر تم پہ داستاں کھلے؟؟
تلاش ماہ و کواکب سے کیا ملے گا تجھے
تُو خاک اوڑھ کہ تجھ پر یہ خاکدان کھلے
یہ کس مقام پہ ٹُوٹا ہے ان کہی کا فسُوں
ہمارے زخم ہواؤں کے درمیان کھلے
ہوتا ہے دکھ فراق کی حالت نہ پوچھیے
اب جو گزر گئی وہ قیامت نہ پوچھیے
آتا ہے حرف چشمِ تمنا شناس پر
خود مجھ کو دیکھیے، مِری حالت نہ پوچھیے
یہ پوچھیے کہ سجدہ کیا کس کے واسطے
مجھ سے مِرا طریقِ عبادت نہ پوچھیے
دل اتنا مطمئن ہے صیاد و باغباں سے
جیسے قفس کی دنیا بہتر ہو آشیاں سے
دل خون ہو رہا ہے انجامِ گلستاں سے
پھولوں کو تک رہا ہوں رہ رہ کے آشیاں سے
جو ان کو ڈھونڈ لائیں مہتاب و کہشاں سے
ایسی رسا نگاہیں لائے کوئی کہاں سے
تنہائی کی آغوش میں تھا صُبح سے پہلے
ملتی رہی اُلفت کی سزا صبح سے پہلے
شاید مِرے لفظوں پہ ترس آئے اسے اب
روتے ہوئے مانگی ہے دُعا صبح سے پہلے
سایہ بھی مِرا کھو گیا تاریکئ شب میں
ظُلمت کا اثر ایسا رہا صبح سے پہلے
سورج کے ڈوبنے سے سمندر اداس ہے
وہ جو نہیں تو شام کا منظر اداس ہے
زخمی ہیں پاؤں پاؤں تو رستہ لہو لہو
ٹھوکر لگا کے راہ کا پتھر اداس ہے
چادر سی اک لہو کی تنی ہے نگاہ میں
ڈوبا ہوا لہو میں ہر اک در اداس ہے
لفظ بے معنی
لفظ کے اندھے کنویں میں معنی کا تارا بھی آتا نہیں ہے نظر
لفظ گوتم کا عرفاں نہیں
کفارۂ ابن مریم نہیں
اور غار حرا بھی نہیں
زندہ رہنے کی خاطر
لفظ کے گرد معنی کا ہالہ بناتے ہیں لوگ
چوم لے اب تو دست دعا روشنی
اے خدا! روشنی، اے خدا! روشنی
میرے منظر کو سورج کوئی بخش دے
میری آنکھوں کہ ورنہ بُجھا روشنی
زہرِ ظلمت سے بے نور میرا بدن
تُو مجھے قطرہ قطرہ پِلا روشنی
بات سن لے گا خدا امین کہنا
پڑھ کے تم اپنی دعا آمین کہنا
اپنی ساری منتیں تم بدبدانا
پھاڑ کر اپنا گلا آمین کہنا
چپ تھے کیوں تم جب تمہیں مانگا خدا سے
اتنا بھی مشکل نہ تھا آمین کہنا
درد آخر درد ہے آہ و فغاں ہو گا ضرور
آگ لگتی ہے جہاں پر بھی دھواں ہو گا ضرور
میں زمانے سے زمانہ مجھ سے برہم ہے مگر
ایک دن اپنا زمین و آسماں ہو گا ضرور
عزم محکم شرط ہے رخت سفر میں راہرو
نزد منزل ایک دن یہ کارواں ہو گا ضرور
میری نظر میں فروزاں اک مہِ کامل رہا
رات بزمِ ذکر میں اے دوست! میں شامل رہا
دست بوسی میں بھی کر لوں گا رسول اللہؐ کی
گر کرم حضرت کا میرے حال میں شامل رہا
آنکھ میری کھل گئی، لیکن بہت افسوس ہے
ہائے وہ مُدت کہ جس میں کاہل و غافل رہا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
قُدرت کا رُوپ نازش تخلیق کار تُو
تُو وہ بشر کہ رحمت پروردگار تُو
تیرے بغیر کل کا تصور بھی لا یقیں
یعنی کہ ہر شعور میں ہے عکس بار تُو
وہ ہے اگر چراغ تو، تُو اس کی روشنی
تخلیق کار وہ ہے تو تزئین کار تُو
دل کی دیوار پہ مٹی کا دِیا جلتا ہے
شام کے ساتھ کوئی راہ تیری تکتا ہے
منتشر سے ہیں خیالات خدا خیر کرے
وہم کہتا ہے کہ؛ پیمانِ وفا ٹوٹا ہے
کوئی تصویر بنائے سے نہیں بن سکتی
خود بخود آئینے میں عکس کوئی اترا ہے
نام آوروں کے شہر میں گُمنام گُھومنا
اپنا تو اک شعار ہے ناکام گھومنا
ہاتھوں میں خالی جام لیے میکدے کے پاس
معمول بن گیا ہے سرِ شام گھومنا
دامن میں سنگ ہائے ملامت جمع کیے
شانوں پہ ڈالے پوششِ الزام گھومنا
قید ہوئے جو لوگ اپنی من مانی میں
دیکھ رہے ہیں دُشواری آسانی میں
علم صحیفہ کیا دے پڑھنے والوں کو
وقت تو گُزرا صرف ورق گردانی میں
آگ میں جھونکیں گے وہ اپنی محنت کو
رائی کی کھیتی جو کرتے ہیں پانی میں
انداز کرم اس کا ہے شہ کار وفا بھی
سمجھو تو ہر اک آن وہ لگتا ہے خفا بھی
ہر چند کہ دیوانہ ہے دل راہِ طلب میں
سوچو تو کبھی بات وہ کہتا ہے بجا بھی
دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی اب ان کو
گزرا ہے کبھی جن کے سروں پر سے ہُما بھی
اب تیری محبت میں جو بیمار ہے بیمار
جیتا ہے نہ مرتا ہے نہ اِس پار نہ اُس پار
وعدہ کے لیے لب بھی ہلانا تمہیں دُشوار
بُت کی طرح خاموش، نہ اقرار نہ انکار
نکلے جو مریضوں کی عیادت کو وہ گھر سے
کچھ سوچ کے ہر اچھا بھلا بن گیا بیمار
آشنا کہنے سے کوئی آشنا ہوتا نہیں
پُوجیے جتنا مگر پتھر خدا ہوتا نہیں
فتنہ اندازی سے مت پھینکو تبسّم کو ادھر
برق سے روشن کسی گھر کا دِیا ہوتا نہیں
کانچ بنتا ہے چھٹا سے اپنی ہیرے کا جواب
آدمی جرأت نہ ہو تو کام کا ہوتا نہیں
ہمیشہ کی طرح بانہیں مِری پتوار کرنے کا
کِیا ہے فیصلہ ناؤ نے دریا پار کرنے کا
وہی ہے مشغلہ صدیوں پرانا آج بھی اپنا
زمیں پر بوجھ ہونے آسماں کو بار کرنے کا
سفر کا مرحلہ تو بعد میں محل نظر ہو گا
ابھی تو مُدعا ہے راستہ پُر خار کرنے کا
دنیا یہ سہی عدو بہت ہے
میرے لیے ایک تو بہت ہے
آبادیٔ ہم زباں ہے لیکن
محتاجیٔ گفتگو بہت ہے
اک حاصل جستجو میں شاید
لا حاصل جستجو بہت ہے
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
شام کا وقت ہے دریچے میں
جھانکتا ہے غروبِ مہر کا عکس
ناامیدی کی رات لمبی ہے
محمد امین
آئینے
یہ آئینے ہیں
اپنے ظرف کی مانند ہی تو عکس دیتے ہیں
محدب آئینے اک راکشس کا روپ دینے میں
معقر آئینے بونا بنا دیتے ہیں مجھ کو
سادہ آئینے بے چارے خود حیران ہیں
بھلا وہ کیا بتا سکتے ہیں کیا ہوں
تمہارے طنز کا ہر ایک تیر زندہ ہے
کہ کھا کے زخم دل بے ضمیر زندہ ہے
مجھے خریدنے والا یہ کہہ کے لوٹ گیا
عجیب شخص ہے اب تک ضمیر زندہ ہے
سنائی دیتی ہے زنجیر کی صدا اکثر
ہماری ذات میں شاید اسیر زندہ ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کی آپؐ نے ہی خاک کی پہچان مکمل
ورنہ کہاں انسان تھا انسان مکمل
وہ چہرہ کوئی خواب کا چہرہ تو نہیں تھا
جس رُوپ کو پا کر ہُوا قرآن مکمل
وہ نام جو محتاجِ تعارف نہ کبھی تھا
وہ جس کے حوالے سے ہو ایمان مکمل
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زباں ساتھ دے تو کہوں میرے آقاؐ
ہو درمان سوز دروں میرے آقاؐ
سفر ہے مدینے کا اور سوچتی ہوں
کہ کیا زاد راہ ساتھ لوں میرے آقاؐ
تڑپ لے کے دل.میں اور آنکھوں میں آنسو
میں چلتی رہوں سر نگوں میرے آقاؐ
بدلی بدلی تری نظر کیوں ہے
تُو خفا مجھ سے اس قدر کیوں ہے
گفتگو میں اگر مگر کیوں ہے؟
بات کہنے میں تجھ کو ڈر کیوں ہے
دل کے زخموں کو چاک کرنے میں
یہ پس و پیش چارہ گر کیوں ہے
براڈ کاسٹر
آپ اگر ارشاد کریں
پم آپ کے چھوٹے قد کو
شاہی مسجد کا مینار بنا دیں
آپ کے دشمن، جن کی ہیبت
آپ کی نس نس پر طاری ہے
جن کی ایک جھلک، اک سایہ
بے حسی اک عذاب ہوتا ہے
خدمتِ خلق ثواب ہوتا ہے
عشق کی جنگ میں بھلا یارو
کب کوئی فتح یاب ہوتا ہے؟
ہو بے شک پر شکستہ، چڑیوں سے
پھر بھی بر تر عقاب ہوتا ہے
ابن قابیل کی دعا
اے ارض و سما کے خالق
بے عیب و دانا رحیم و مالک
نہ جانے کتنی ہے مخلوق تیری
حساب کیسے تو رکھتا ہوگا
کہیں پہ انساں کہیں پہ شیطاں
فرشتے جن اور طیور و حیواں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل کیا متاع زیست کو جالی پہ رکھ دیا
اپنا نصیب ہی درِ عالیﷺ پہ رکھ دیا
سر کو جُھکا کے سر درِ عالی پہ رکھ دیا
ہر فیصلہ مدینے کے والی پہ رکھ دیا
دستِ دُعا سے قبل ہی بابِ اثر کُھلا
جو مُدعا تھا، چشمِ سوالی پہ رکھ دیا
میری آنکھوں میں کیوں نمی سی ہے
کیا زمانے میں کچھ کمی سی ہے
شہرِ دل میں تو بس اندھیرے ہیں
لاکھ دُنیا میں روشنی سی ہے
ہم نفس سب کہاں گئے لوگو
اب یہ دُنیا تو اجنبی سی ہے
چُپی
تمہارے ہونٹوں پر
چُپیاں کِھل آئی ہیں
جنگلی پھُولوں کی طرح
اور میں تمہارے ہونٹوں کو نہیں
نہ جنگلی پھُولوں کو دیکھنا چاہتا ہوں
میں چاہتا ہوں
محبت کی نشانی کو کُچل کر
وہ خوش ہیں اک کہانی کو کچل کر
یہ دہشت کی جو آندھی چل رہی ہے
رُکے گی زندگانی کو کچل کر
کریں گے شُدھ گنگا کو لہو سے
سبھی آنکھوں کے پانی کو کُچل کر
جبینِ تشنہ لبی پر اگر نہ بل آتا
تو جانے دستِ ہوس کتنے جام چھلکاتا
سکوتِ آخرِ شب اور کربِ تنہائی
تِرے خیال سے اے کاش دل بہل جاتا
یہ سچ ہے کچھ نہ مِلا تیری یاد سے اے دوست
تجھے بھلاتا تو اپنی وفا پہ حرف آتا
فتنہ پردازی عدو کا نام ہے
نام رہبر کا یونہی بدنام ہے
رنج و غم میں بھی ہمیں بخشا سکوں
زندگی بر دوشِ مے کا جام ہے
پینے والوں کو سلیقہ ہی نہیں
مے کدہ تو مفت میں بدنام ہے
وحشت کو ثنا چھپائے رکھنا
دستار و قبا سجائے رکھنا
دیوانے ہی تیرے جانتے ہیں
صحراؤں کو بھی بسائے رکھنا
آنکھوں کے ستارے، رُوپ کا چاند
یہ سارے دِیے جلائے رکھنا
طبیب ہو کے بھی دل کی دوا نہیں کرتے
ہم اپنے زخموں سے کوئی دغا نہیں کرتے
پرندے اُڑنے لگے ہیں غرور کے تیرے
ہوا میں کاغذی پر سے اُڑا نہیں کرتے
نکیل ڈالنی ہے نفس کے ارادوں پر
بِنا لگام کے گھوڑے تھما نہیں کرتے
نہ جانے دل کو یہ کیسا ہراس رہتا ہے
کوئی تو ہے جو مِرے آس پاس رہتا ہے
سمجھ میں آ نہ سکے، ذہن پر محیط رہے
وہ کون ہے؟ جو قرینِ قیاس رہتا ہے
یہ کیسے درد کی لذت ہے شاملِ احساس
عجیب کیف سے دل روشناس رہتا ہے
ایک تو پتھر اُچھالا جا رہا ہے
اس پہ شیشہ بھی سنبھالا جا رہا ہے
گھر اندھیروں کا کھنگالا جا رہا ہے
رات میں سُورج نکالا جا رہا ہے
پھُول تو مجبوریوں میں کِھل رہے ہیں
باغ میں کانٹوں کو پالا جا رہا ہے
وہ زندگی جو شب انتظار گزری تھی
تِرے کرم سے بہت خوشگوار گزری تھی
غضب کہ آج وہی دل ہے غم کش دنیا
نگاہ ناز بھی کل جس پہ بار گزری تھی
سکوں نصیب وہی اب ہیں جن کی عمر کبھی
حریف گردش لیل و نہار گزری تھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ماورائے سرحد ادراک ہے تیراﷺ خیال
یہ ہمیں تسلیم پھر بھی ہم ہیں مشتاقِ جمال
کیا بیاں کر پائے گی وہ حیرتوں کے درمیاں
وسعتِ دشتِ تمنا اور اک چشمِ غزال
بے یقینی حد سے بڑھتی جا رہی ہے کیا کہیں
یاں گُلِ اُمید پر مُردہ ہے،۔ سبزہ پائمال
جو دُکھی کو دُکھی سمجھتے ہیں
ہم انہیں آدمی سمجھتے ہیں
حق کو تسلیم کر کے ساتھ نہ دے
ہم اسے بُز دلی سمجھتے ہیں
پیار اخلاص کو محبت کو
لوگ سوداگری سمجھتے ہیں
بساطِ عالمِ ہستی میں نام پیدا کر
تو اس مقال میں عالی مقام پیدا کر
پلا سکے جو شرابِ اخوتِ اسلام
شراب خانے میں ساقی وہ جام پیدا کر
جلا کے شمع حقیقت تمام عالم میں
مذاقِ عشق ہر اک خاص و عام پیدا کر
شبدوں کا گل مہر
کال نے
لکھ دیا مجھے
شبدوں کے مانند
میرے یُگ کے چہرے پر
چاہتا ہوں فقط
شبدوں کا سلگتا گل مہر