Monday, 31 May 2021

میں اسے زندگی سے ڈسواتا

 میں اسے زندگی سے ڈسواتا

کاش ہوتا اجل کا اک بیٹا

تن کو بھُونا زمیں کے شعلوں پر

میں نے دوزخ سے اپنا رزق لیا

یہ زمیں گندگی کا ڈھیر بھی ہے

تُو فقط باغ میں پھرے بہکا

سن اے ہمدم خاص

 سن

اے ہمدمِ خاص

اے محرمِ راز

اے بے وارثوں کے وارث

شفا ہو، جزا ہو

کرم ہو، بھرم ہو

اٹھ کے کیا ہم تری گلی سے گئے

 اٹھ کے کیا ہم تِری گلی سے گئے

جان سے، دل سے، زندگی سے گئے

ہم نے اخلاص کی حدیں چھُو لیں

دوست پھر بھی نہ دُشمنی سے گئے

اک کلی کے بدن کو چھُو کر ہم

عمر بھر کے لیے ہنسی سے گئے

ایک جھونکے کی طرح دل میں اترتے کیوں ہو

 ایک جھونکے کی طرح دل میں اترتے کیوں ہو

گر بچھڑنا تھا تو یادوں میں چمکتے کیوں ہو

ہو سکے تو مجھے خوشبو سے معطر کر دو

پھول بن کے میرے بالوں میں اٹکتے کیوں ہو

تم جو کہتے ہو کوئی بات کبھی غزلوں میں

اپنے الفاظ میں کہنے سے جھجکتے کیوں ہو

کس قدر وزن ہے خطاؤں میں

 کس قدر وزن ہے خطاؤں میں

ذکر رہتا ہے پارساؤں میں

واپسی پر اُتر گیا چہرہ

جا کے بیٹھا تھا ہمنواؤں میں

راز کی بات ہے دُعا نہ کرو

یاد رکھنا ہمیں دُعاؤں میں

اب وہ پہلا سا سلسلہ بھی نہیں

 اب وہ پہلا سا سلسلہ بھی نہیں

آنکھ میں کوئی رتجگا بھی نہیں

ہجر کی اک کسک تو ہے، لیکن

میں محبت کی شاعرہ بھی نہیں

یہ عبادت نہیں، محبت ہے

آپ انسان ہیں، خدا بھی نہیں

آئینہ در آئینہ قد آوری کا کرب ہے

 آئینہ در آئینہ قد آوری کا کرب ہے

گمشدہ دانشوری ہے خود سری کا کرب ہے

میرا دُکھ یہ ہے کہ میں نا معتبر لشکر میں ہوں

سر بہ نیزہ میں نہیں ہوں اک جری کا کرب ہے

بھوک کو نسبت نہیں گیہوں کی پیداوار سے

میرا دسترخوان خالی طشتری کا کرب ہے

دیکھ لو ضد پہ اڑا ہے اب تک

 دیکھ لو ضد پہ اَڑا ہے اب تک

دل تِرے ساتھ کھڑا ہے اب تک

کوئی ہے؟ کھینچ نکالے اس کو

درد سینے میں گَڑا ہے اب تک

خواب میں بھی نہ دکھائی دے تو

ہائے، کیا قحط پڑا ہے اب تک

جب جب قریب میرے وہ آتا چلا گیا

جب جب قریب میرے وہ آتا چلا گیا

رسماً نظر میں اپنی جھُکاتا چلا گیا

تعبیر اس کی کیا ہے یہ سوچا تلک نہیں 

بس خواب ان کو اپنا بتاتا چلا گیا

جذبے کو میرے دیکھ تو ہمت کی داد دے 

سورج کو میں بھی آنکھ دِکھاتا چلا گیا

یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی

 یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی

پھر بھی دریا سے تعلق نہیں رکھا کوئی

میرے مکتب کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے

اب کہ ہاتھوں میں کتابیں ہیں نہ بستہ کوئی

جانے کس اور گیا قافلہ امیدوں کا

دل کے صحرا میں نہیں آس کا خیمہ کوئی

چاندنی رات میں اس نے مجھے تنہا رکھا

 چاندنی رات میں اس نے مجھے تنہا رکھا

‎چاند سے باتیں ہوئیں مجھ کو ترستا رکھا

‎اپنے غم خانے کو یادوں سے سجایا ہم نے

‎نیند سے پھر نہ کبھی خواب کا رشتہ رکھا

‎وہ جو کہتا تھا کبھی ساتھ نہ چھوڑے گا مِرا

‎اس نے سورج کی طرح مجھ کو بھی جلتا رکھا

اجڑے ہوئے جہان سے آگے کی بات کر

 اجڑے ہوئے جہان سے آگے کی بات کر

اب تو مِرے گمان سے آگے کی بات کر

کرتا نہیں ہے تجھ پہ کسی طرح دل یقیں

ہمدم مِرے دھیان سے آگے کی بات کر

تُو جانتا ہے تجھ سے محبت ہے بے حساب

تُو بھی انا سے آن سے آگے کی بات کر

رات میں آفتاب کیا مانگوں

 رات میں آفتاب کیا مانگوں 

کوئی تعبیر خواب کیا مانگوں 

آپ کے پاس کیا ہے دینے کو 

آپ سے میں جناب کیا مانگوں 

مار ڈالوں انا کو میں کیسے 

زخمِ دل کا حساب کیا مانگوں

میں اپنے آپ سے برہم تھا وہ خفا مجھ سے

 میں اپنے آپ سے برہم تھا وہ خفا مجھ سے

سکوں سے کیسے گزرتا یہ راستہ مجھ سے

غزل سنا کے کبھی نظم گنگنا کے مِری

وہ کہہ رہا تھا مِرے دل کا ماجرا مجھ سے

گزر کے وقت نے گونگا بنا دیا تھا جنہیں

وہ لفظ مانگ رہے ہیں نئی صدا مجھ سے

تمہارا جانا تمہارے جانے پہ گزری آہٹ سے بات کرنا

 تمہارا جانا، تمہارے جانے پہ گزری آہٹ سے بات کرنا 

ہمیں تو عادت سی ہو گئی ہے کہ سرسراہٹ سے بات کرنا 

کبھی بھی ہم پر کھُلا نہیں ہے کہ اصل میں اس نے کیا کہا ہے 

گئی ہواؤں کی طرح کانوں میں سنسناہٹ سے بات کرنا

اگر ہو پت جھڑ تو میرے یہ زرد ہاتھ ہاتھوں میں تھام لینا

جو ساونوں کی جھڑی لگی ہو تو گنگناہٹ سے بات کرنا

اب ایسے ویسوں کا ہوتا نہیں ادب مجھ سے

 اب ایسے ویسوں کا ہوتا نہیں ادب مجھ سے

سو اس لیے ہی ہوئے دور لوگ سب مجھ سے

جو خواب دن کے اجالوں میں، میں نے دیکھے تھے

حساب ان کے بھی اب مانگتی ہے شب مجھ سے

وہ میرے پیار کی مقدار جاننے کے لیے

خفا ہوا ہے کئی بار بے سبب مجھ سے

اسے خبر ہی نہیں کہ بھنور کی زد میں ہے

 اسے خبر ہی نہیں کہ بھنور کی زد میں ہے

یہ بادبان تو اپنی ہی شد و مد میں ہے

مِرا مزاج ذرا مختلف ہے لوگوں سے

یہ اوج میں بھی مجھے رکھتا اپنی حد میں ہے

بھلے معیار تِرا باقیوں سے بہتر ہے

مگر تُو ویسا نہیں جیسا تُو سند میں ہے

اک تری یاد ہٹانے سے نکل آتا ہے

 اک تِری یاد ہٹانے سے نکل آتا ہے

ہجر کا سانپ خزانے سے نکل آتا ہے

دل کی ویران حویلی کا سہارا دن بھر

شب کو ہر درد ٹھکانے سے نکل آتا ہے

چشمِ نمناک سُلگتی ہے، سُلگ جانے دو

کچھ دُھواں آگ بُجھانے سے نکل آتا ہے

پھر مرا اشک بہانے کو جی چاہا

 پھر مِرا اشک بہانے کو جی چاہا

پھر مِرا سوگ منانے کو جی چاہا

کب سے سویا ہے مِرا غم ہنسی اوڑے

پھر مِرا اس کو جگانے کو جی چاہا

میں نکل آئی تھی ماضی سے تو کب کی

پھر کیوں لوٹ کے جانے کو جی چاہا

رہی آس دل میں پلتی کہ وصال یار ہو گا

 رہی آس دل میں پلتی کہ وصالِ یار ہو گا

یہ خبر نہ تھی مجھے کہ یونہی انتظار ہو گا

تھا ازل سے مجھ کو تم پہ ترے پیار پہ بھروسہ

میری سانسیں جب تلک ہیں یونہی اعتبار ہو گا

یہ جو خون بیچتا ہے کہ سکوں خریدنا ہے

کبھی اس غریب کا بھی کوئی روزگار ہو گا

بیتے موسم تو کئی بدلے بھی حالات کہیں

 بیتے موسم تو کئی، بدلے بھی حالات کہیں

میرے اندر جو ہے ٹھہری ہوئی برسات کہیں

ہو غرض پیار کریں وقت ملے یاد کریں

لوگ جیبوں میں چھپا رکھتے ہیں جذبات کہیں

حشر کے روز ملاقات کا وعدہ ہے ترا

اس قدر بھیڑ میں ہوتی ہے ملاقات کہیں

بھول جانے کی بھی تدبیر بتا سکتا ہوں

 بھول جانے کی بھی تدبیر بتا سکتا ہوں

میں اگر چاہوں تمہیں یار بھلا سکتا ہوں

خواہشِ وصل کو میں آگ لگا سکتا ہوں

یوں تِرے ہجر کو آنکھیں بھی دکھا سکتا ہوں

کیا شکایات کروں تجھ سے تِرے بارے میں

تیری دہلیز سے سر اپنا اٹھا سکتا ہوں

شہر دل کو مرے ویران کیا ہے تو نے

  شہرِ دل کو مِرے ویران کیا ہے تُو نے

جان کہہ کر مجھے بے جان کیا ہے تو نے

جیسے تاریخ کی بوسیدہ عمارت ہو کوئی

میری آنکھوں کو یوں سنسان کیا ہے تو نے

اب یہاں نت نئے طوفان اٹھیں گے ہر دم

دل کی دریاؤں میں طغیان کیا ہے تو نے

یقیناً کچھ بڑے عشاق کے رتبے گھٹے ہوں گے

 یقیناً کچھ بڑے عشاق کے رتبے گھٹے ہوں گے

ہماری دھول سے جب دشت کے ٹیلے اٹے ہوں گے

ابھی دریاؤں سے اپنی زمینیں مت طلب کرنا

ابھی سیلاب کے ریلے کہاں پیچھے ہٹے ہوں گے

غریبوں کے مکانوں میں کوئی خامی تو رہتی ہے

در و دیوار پختہ ہوں بھی تو پردے پھٹے ہوں گے

لکھوں غزل کوئی وحشت زدہ اداسی کی

 لکھوں غزل کوئی وحشت زدہ اُداسی کی

لگاؤں اس پہ میں کوئی گرہ اداسی کی

وہ ایک بات جسے کہہ کے پرسکون ہے تُو

وہ ایک بات بنی ہے وجہ اداسی کی

کہیں بھی اور اسے چین جو نہیں آتا

بنائے رکھتی ہوں دل میں جگہ اداسی کی

میں جانتا ہوں کمال تو ہے

 میں جانتا ہوں کمال تُو ہے

مثال کیا دوں، مثال تُو ہے

میں کیا اجازت طلب کروں گا

اگر خوشی سے نہال تو ہے

مِری محبت ہوس نہیں ہے

تبھی تو مجھ پر حلال تو ہے

ایک گھروندا ایسا ہو

 ایک گھروندا 


ایک گھروندا ایسا ہو

جس کی بنیادوں کو ہم نے

سچ کی سیج پہ رکھا ہو

اور اس کی دیواریں ساری

پریم کہانی کہتی ہوں

بدل جاتے ہیں دل حالات جب کروٹ بدلتے ہیں

 بدل جاتے ہیں دل حالات جب کروٹ بدلتے ہیں

محبت کے تصور بھی نئے سانچوں میں ڈھلتے ہیں

تبسم جب کسی کا روح میں تحلیل ہوتا ہے

تو دل کی بانسری سے نِت نئے نغمے نکلتے ہیں

محبت جن کے دل کی دھڑکنوں کو تیز رکھتی ہے

وہ اکثر وقت کی رفتار سے آگے بھی چلتے ہیں

Sunday, 30 May 2021

کبھی تو وقت کے سائے بھی مہرباں ہوں گے

 کبھی تو 


کبھی تو وقت کے سائے بھی مہرباں ہوں گے

کبھی تو کھوئی ہوئی اک خوشی ملے گی ہمیں

کبھی تو درد کی شدت دل میں کم ہو گی

کبھی تو اک نئی زندگی ملے گی ہمیں

کبھی تو پھول کھلیں گے اُداس راہوں میں

تو آسمان کا تنہا ستارہ تھوڑی ہے

 تُو آسمان کا تنہا ستارہ تھوڑی ہے

بس ایک تجھ پہ ہمارا گزارہ تھوڑی ہے

تمہارے حسن سے آگے بھی منزلیں ہیں بہت

یہ بحر شوق ہے اس کا کنارہ تھوڑی ہے

کسی سے بڑھ کے تمہیں ہم بھی چاہ سکتے ہیں

محبتوں پہ کسی کا اجارہ تھوڑی ہے

قبر کا کوئی در نہ دروازہ

 قبر کا کوئی در نہ دروازہ

کیا سنے گا وہ میرا آوازہ

کھنڈ گئی تن پہ موت کی زردی

زندگانی ہے عارضی غازہ

مر کے بیمار نے کیا آرام

طے ہوا کشمکش کا خمیازہ

اے خدا پاؤں ڈال دوزخ میں

 اے خدا پاؤں ڈال دوزخ میں

آگ دنیا کی ہم یہ کیا پھانکیں

کھلیں آنکھیں ہزار سال کے بعد

آؤ مل کر حنوط ہو جائیں

روتے روتے کبھی تو وہم اٹھا

پھر سمندر میں ہم نہ مل جائیں

تیرے لیے اک شعر کہنا تھا

 تیرے لیے ایک نامکمل نظم


تیرے لیے اک شعر کہنا تھا

لفظوں کے گودام خالی پڑ گئے

جذبے

سمندری تہہ میں چھپ گئے

خیال

تنہائی کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہوں

 تنہائی کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہوں

آنکھوں کی قندیل جلائے پھرتی ہوں

کون ہے جو دُکھ درد کسی کا بانٹ سکے

اپنے دل کے ساتھ لگائے پھرتی ہوں

عشق میں تیرے ہرجائی اک مدت سے

دیوانوں سا حال بنائے پھرتی ہوں

پھر یوں ہوا کہ اس کو بچانا پڑا مجھے

 پھر یوں ہوا کہ اس کو بچانا پڑا مجھے

وہ مر رہا تھا لوٹ کے جانا پڑا مجھے

مجھ کو یقیں تھا اس کی محبت پہ اس لیے

نالاں بھی وہ ہوا تو منانا پڑا مجھے

افسردگی نے بدلے خد و خال یوں میاں

خود تک بھی آتے آتے زمانا پڑا مجھے

توڑ دی میں نے آخری توبہ

 توڑ دی میں نے آخری توبہ

ہائے توبہ مِری، مِری توبہ

خوبصورت گناہ کرتے ہوئے

مجھ کو اچھی نہیں لگی توبہ

اب مِرے سامنے نہ آیا کر

میں نے کی ہے نئی نئی توبہ

وابستگی ذات سے آگے کی بات کر

 وابستگیِ ذات سے آگے کی بات کر

اس عرصۂ حیات سے آگے کی بات کر

اب ساتواں جہاں بھی تِرے ساتھ چاہیے

اے دوست شش جہات سے آگے کی بات کر

جذباتِ کیف و مستی، سرورِ بدن وصال

اور سب جمالیات سے آگے کی بات کر

روشنیوں کی دوڑ میں پائے فرار کس کو تھا

شمس و قمر بے کراں ہفت فلک نبرد گاہ

روشنیوں کی دوڑ میں پائے فرار کس کو تھا

سایۂ ابلق شجر گھات میں چشم نیم وا

پاؤں جہاں تھے جم گئے ہوشِ فرار کس کو تھا

آج سے پہلے ہم سبھی سمجھے تھے اس کو برگِ گُل

تجربۂ جلالت روئے نگار کس کو تھا

مے گل رنگ ہے اور جام ہے کیا عرض کروں

 مے گُلرنگ ہے اور جام ہے کیا عرض کروں

کتنی رنگیں یہ مِری شام ہے کیا عرض کروں

کل تہِ دام مجھے دیکھ کے خوش ہوتا تھا

آج صیّاد تہِ دام ہے کیا عرض کروں

بجلیاں میرے نشیمن کو جلا دیتی ہیں

میری محنت کا یہ انعام ہے کیا عرض کروں

وگرنہ فکر تمنا کہاں نہیں کھلتی

 وگرنہ فکرِ تمنا کہاں نہیں کھُلتی

تمہارے سامنے میری زباں نہیں کھلتی

کہانیاں ہیں فقط حرفِ بد گمانی کی

کہانی دل کی درِِ دُشمناں نہیں کھلتی

عجیب مرحلۂ عشق آن ٹھہرا ہے

جبینِ صبر سرِ آستاں نہیں کھلتی

وہ تجدید وفا کی کیا گھڑی تھی

 وہ تجدیدِ وفا کی کیا گھڑی تھی

مِری توبہ مِرے آگے کھڑی تھی

قدم اُٹھتے نہیں تھے تیرے گھر کو

عجب مشکل سی مجھ پہ آ پڑی تھی

انگوٹھی میں خلا دُکھ درد کا تھا

نگینہ بن کے اس میں میں جَڑی تھی

شاعری روح میں تحلیل نہیں ہو پاتی

 شاعری روح میں تحلیل نہیں ہو پاتی

ہم سے جذبات کی تشکیل نہیں ہو پاتی

ہم ملازم ہیں مگر تھوڑی انا رکھتے ہیں

ہم سے ہر حکم کی تعمیل نہیں ہو پاتی

آسماں چھین لیا کرتا ہے سارا پانی

آنکھ بھرتی ہے مگر جھیل نہیں ہو پاتی

دل دھڑک سینے میں آہستہ نہ کہ زور کے ساتھ

 دل دھڑک سینے میں آہستہ نہ کہ زور کے ساتھ

جاگ جائیں نہ مِرے خواب کہیں شور کے ساتھ

اس کی تصویر کو سینے سے لگا کے ہم نے

وصل کی رات گزاری ہے عجب طور کے ساتھ

ہم نے بھی رسمِ وفا پوری نبھائی کب ہے

کیا عجب ہے وہ نظر آئے کسی اور کے ساتھ

سینے میں اس کے تیر و تبر چھوڑ جاؤں گا

 سینے میں اس کے تیر و تبر چھوڑ جاؤں گا

میدانِ کار زار میں سر چھوڑ جاؤں گا

جب رن پڑا بنامِ وقارِ حدودِ دِیں

دشمن کو کر کے زیر و زبر چھوڑ جاؤں گا

شمشیر بھی قلم بھی ہے اب ہاتھ میں مِرے

تاریخ کی جبیں پہ ہُنر چھوڑ جاؤں گا

ظلمت ہجر میں انوار کا ہونا مشکل

 ظلمتِ ہجر میں انوار کا ہونا مشکل

دشت کی ریت پہ گلزار کا ہونا مشکل

عشق کی راہ میں اب رکھ تو دیا دل ہم نے

لیکن اس وصف کے اقرار کا ہونا مشکل

خار ٹیلے ہوں کہ طوفاں ہوں سفر میں اپنے

اب تو اس نہج پہ غمخوار کا ہونا مشکل

خواب کی راج دھانیاں آئیں

 خواب کی راج دھانیاں آئیں

مِرے حصے نشانیاں آئیں

کر لی بیعت میں ہجر کے ہاتھوں

یاد جب مہربانیاں آئیں

ماند پڑنے لگا حسیں چہرہ

رو برو جب جوانیاں آئیں

خط کر چکے ہیں اب کے جو ارسال دیکھنا

 خط کر چکے ہیں اب کے جو ارسال دیکھنا

اس میں ہے درج دل کا کچھ احوال دیکھنا

ہر چہرے میں نہ میری شباہت تلاش کر

اب دوسروں کے چھوڑ خد و خال دیکھنا

چاہے خدا اگر تو ہو جائے نصیب پھر

تعبیرِ خواب کے نئے اجمال دیکھنا

میں دل سے مان تمہاری ہرایک بات ہی لوں گا

 میں دل سے مان تمہاری ہرایک بات ہی لوں گا

گِلہ تو دور لبوں کو ہی اب میں سی لوں گا

یہ تم سے کس نے کہا ہے مجھے تمہارے بغیر

ذرا سی دیر بھی جینا پڑا تو جی لوں گا

میرا وجود سہارے بھی کیوں تلاشتا ہے

میں خود سے کہہ کے سزا اس گناہ کی لوں گا

میں دیکھوں تو مجھ پہ محبت کھلتی ہے

 میں دیکھوں تو مجھ پہ محبت کھلتی ہے

وہ دیکھے تو اور حقیقت کھلتی ہے

وہ دل جس پر ہجر میں ہجرت کھلتی ہے

صرف اسی پر رمزِ شہادت کھلتی ہے

جیتے جی آزار سمجھتے ہیں جن کو

وہ نہ رہیں تو قدر و قیمت کھلتی ہے

یہ وحشت کا عجب عالم بپا ہے

 یہ وحشت کا عجب عالم بپا ہے

مِرے سینے میں کوئی دُکھ گَڑا ہے

اگر وہ جا چکا ہے دُور مجھ سے

تو میرے سامنے پھر کیوں کھڑا ہے

یہی پوچھا ہے اس نے، کون ہو تم

مجھے پتھر سا کوئی آ لگا ہے

تلافی اب بھی ممکن ہے مداوا ہو بھی سکتا ہے

 اگر وہ شخص چاہے تو


تلافی اب بھی ممکن ہے

مداوا ہو بھی سکتا ہے

یہ موسم جو یہاں پر آن ٹھہرا ہے

اسے اذنِ وِداع دے کر

نئی رُت آبھی سکتی ہے

ہر اشک نیا ہجر مناتے ہوئے گزرا

 ہر اشک نیا ہجر مناتے ہوئے گُزرا

ہر لحظہ یہی قصہ سناتے ہوئے گزرا

اثباتِ گُل راز کے ہیں اور بھی آگے

گُلشن سے جو گزرا یہ بتاتے ہوئے گزرا

اجداد شجرکاری میں رکھتے تھے مہارت

میرا بھی سفر پیڑ اُگاتے ہوئے گزرا

تم جو ہر وقت مجھ میں حاضر ہو

 تم جو ہر وقت مجھ میں حاضر ہو

معجزہ ہو کوئی یا ساحر ہو؟

تم مِرے دل میں رہتے ہو پھر بھی

تم مِری دسترس سے باہر ہو

کاش خوابوں سے تم نکل آؤ

اور مجسم مِرے بظاہر ہو

عجب شکست کا احساس دل پہ چھایا تھا

 عجب شکست کا احساس دل پہ چھایا تھا

کسی نے مجھ کو نشانہ نہیں بنایا تھا

اسی نگاہ نے آنکھوں کو کر دیا پتھر

اسی نگاہ میں سب کچھ نظر بھی آیا تھا

یہاں تو ریت ہے پتھر ہیں اور کچھ بھی نہیں

وہ کیا دکھانے مجھے اتنی دور لایا تھا

وہ طاق وہ چھت وہ محرابیں وہ گھر وہ عمارت مانگے ہے

 وہ طاق وہ چھت وہ محرابیں وہ گھر وہ عمارت مانگے ہے

انگنائی میں بیلے جوہی کی خوشبو کی طراوت مانگے ہے

وہ ٹھنڈی ہوا، وہ پگڈنڈی، سبزے کی لہک، وہ ہریالی

اور شام کی ہلکی خنکی میں جگنو کی حرارت مانگے ہے

اس شہر میں کیا کیا جگمگ ہے لیکن یہ دل سادہ میرا

کلیوں کی کہانی مانگے ہے پھولوں کی حکایت مانگے ہے

خود ہی تسلیم بھی کرتا ہوں خطائیں اپنی

 خود ہی تسلیم بھی کرتا ہوں خطائیں اپنی

اور تجویز بھی کرتا ہوں سزائیں اپنی

کوئی دیکھے تو اداکاریاں کرنا اس کا

بند آئینے میں کرتی ہے ادائیں اپنی

میں سخنور ہوں سو خاموش نہیں رہ سکتا

میں نے آنکھوں میں بسائی ہیں صدائیں اپنی

عشق کا روگ کیوں لگا ہے مجھے

 عشق کا روگ کیوں لگا ہے مجھے

سوچ میں ہوں کہ کیا ہوا ہےمجھے

پھر کوئی کام آ پڑا ہے اسے

مدتوں بعد وہ ملا ہے مجھے

جانتا ہی نہیں تھا جیسے کبھی 

راہ سے یوں اُٹھا دیا ہے مجھے

محبتوں کی حدوں میں کھڑا رہا برسوں

 محبتوں کی حدوں میں کھڑا رہا برسوں

میں منتظر بھی تمہارا بڑا رہا برسوں

گمان سارے ہی سچے تھے تیرے بارے میں

مِرا یقین ہی ضد پر اڑا رہا برسوں

تُو صرف مجھ کو بس اک شخص ہی دلا نہ سکا

اے عشق! میں تِرے در پر پڑا رہا برسوں

عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں

 عورت ہوں مگر صورتِ کہسار کھڑی ہوں

اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں

وہ مجھ سے ستاروں کا پتہ پوچھ رہا ہے

پتھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جڑی ہوں

الفاظ، نہ آواز، نہ ہمراز، نہ دمساز

یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں

وحشت نہیں اب صرف بتانے کی مری جان

 وحشت نہیں اب صرف بتانے کی مِری جان

حالت تو ہے اب تم کو دکھانے کی مری جان

اک لمحہ بھی اب جاگا نہیں جائے گا مجھ سے

اور نیند تو مجھ کو نہیں آنے کی مری جان

جس طرح گزاری ہے وہ بس ہم کو خبر ہے

بس ایک کہانی ہے سنانے کی مری جان

تم نے سیکھا ہے اگر صرف حکومت کرنا

 تم نے سیکھا ہے اگر صرف حکومت کرنا

یاد رکھنا ہمیں آتا ہے بغاوت کرنا

دونوں میدانوں میں اپنا نہیں ثانی کوئی

ہم سے تم سوچ کے نفرت یا محبت کرنا

خود سکھائے تھے جسے ہم نے آداب اُلفت

اب یہ لازم ہے کھلے اس پہ عداوت کرنا

نہیں یہ بھی نہیں اچھا اگرچہ

 نہیں یہ بھی نہیں اچھا اگرچہ

اسے سمجھی نہیں دنیا اگرچہ

مگر ہم سہتے سہتے سہہ گئے ہیں

جدائی تھی بڑا صدمہ اگرچہ

مگر پھر بھی بہت بکھرا پڑا ہوں

کیا خود کو بہت یکجا اگرچہ

دل و نگاہ کی حیرت میں رہ گئے ہیں ہم

 دل و نگاہ کی حیرت میں رہ گئے ہیں ہم

خمارِ خواب کی لذت میں رہ گئے ہیں ہم

چرا کے لے گئی دنیائے پُر فریب اس کو

اور اپنی سادہ طبیعت میں رہ گئے ہیں ہم

ہمیں تو کھینچ رہا تھا سفر تِری جانب

بس اس جہاں کی روایت میں رہ گئے ہیں ہم

دل کی آبدوز میں تمہیں کتنی دیر رکھا جائے

دل کی آبدوز میں


دل کی آبدوز میں

تمہیں کتنی دیر رکھا جائے

سمندر سے مشورے کر لو

تمہیں بھُلایا بھی نہیں جا سکتا

تمہارے گھر کی بالکونی دکھاتی ہے

انجم پہ جو گزر گئی اس کا بھلا حساب کیا

 انجم پہ جو گزر گئی اس کا بھلا حساب کیا

پوچھے کوئی سوال کیا لائیں گے ہم جواب کیا

خون دل و جگر سے ہے حسن خیال حسن فن

اس کے بغیر شعر کیا مجموعہ کیا کتاب کیا

تیرا ہی نام لے لیا وقت اشاعت کلام

اس کے علاوہ اور ہم ڈھونڈتے انتساب کیا

کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا

 کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا

قدم جو گھر سے نکالا تو راستہ نکلا

تمام عمر بھٹکتا رہا میں تیرے لئے

ترا وجود ہی ہستی کا مدعا نکلا

تمہاری آنکھوں میں صدیوں کی پیاس ڈوب گئی

ہماری روح سے احساس کربلا نکلا

Saturday, 29 May 2021

ہمیں پنجرے میں پر بھیجے گئے ہیں

 ہمیں پنجرے میں پر بھیجے گئے ہیں

یہ تحفے سوچ کر بھیجے گئے

تمہارے ہجر سے اچھی وبا ہے

کم از کم لوگ گھر بھیجے گئے ہیں

یہ کس وحشت سے شاخیں کانپتی ہیں

پرندے کس نگر بھیجے گئے ہیں

کچھ بھی کر پائے نہ ہم ہجر کی حیرانی میں

 کچھ بھی کر پائے نہ ہم ہجر کی حیرانی میں

گھر بھی ویران کیا دل کی پریشانی میں

رنگ ہی رنگ ہیں بکھرے ہوئے دامن میں مِرے

رچ گیا ہے مِری آنکھوں کا لہو پانی میں

جسم اپنا بھی مہکتا ہوا گلزار لگا

پھر تِرے غم کی ہوا آئی ہے جولانی میں

وجود وجد میں آئے تو عشق لازم ہے

 وجود وجد میں آئے تو عشق لازم ہے

خودی کو خاص بلائے تو عشق لازم ہے

خرد سے خوف نہ کھاؤ خزاں نہ آئے گی

شعور شور مچائے تو عشق لازم ہے

دیارِ دل میں صدائیں سنائی جو دی ہیں

سماعتیں بھی سنائے تو عشق لازم ہے

کچھ ہاتھ میں ہمارے آنا تو ہے نہیں

 کچھ ہاتھ میں ہمارے آنا تو ہے نہیں

اب یہ محبتوں کا زمانہ تو ہے نہیں

بہتر ہے خود تلاش نئی منزلیں کریں

رستہ کسی نے ہم کو بتانا تو ہے نہیں

سامان اپنا باندھ کے بیٹھیں نہ اس طرح

میں جانتا ہوں آپ نے جانا تو ہے نہیں

دل میں پلتے ارمانوں کا کیا ہو گا

 دل میں پلتے ارمانوں کا کیا ہو گا

تیرے پاگل دیوانوں کا کیا ہو گا

گاؤں چھوڑ کے جانے والے سوچنا تھا

تیرے اپنے بے گانوں کا کیا ہو گا

تجھ ہی سے تو رونق ہے میخانے کی

تیرے پیچھے پیمانوں کا کیا ہو گا

نظر سے گر کے نظر وہ اتارتی کیسے

 نظر سے گر کے نظر وہ اتارتی کیسے

فریب کھائے ہوؤں پر سلامتی کیسے

وہ چاہتی تھی مگر ساتھ میں نے خود چھوڑا

زمانہ ساز تھی موقع وہ ٹالتی کیسے

جسے بگاڑ دیا غیر کی محبت نے

اسے ہماری محبت سدھارتی کیسے

ظلمت کے سوا پیش نظر کچھ بھی نہیں ہے

 ظلمت کے سوا پیشِ نظر کچھ بھی نہیں ہے

ہاتھوں میں دیا زادِ سفر کچھ بھی نہیں ہے

آندھی کا کوئی خوف و خطر کچھ بھی نہیں ہے

بستی میں مِرے نام کا گھر کچھ بھی نہیں ہے

رستے کی نہ منزل کی خبر جان سکا میں

کس سمت چلا جاؤں خبر کچھ بھی نہیں ہے

کسی کے لمس کسی کے حوالے کرنے ہیں

 کسی کے لمس کسی کے حوالے کرنے ہیں

گئے دنوں کے ابھی تک ازالے کرنے ہیں

قریب رہ کے مقدر سنوارنے والے

تِری جدائی نے کمرے میں جالے کرنے ہیں

جو ہیں پسند انہیں اک جگہ ہی کرنا ہے

تمام چہرے کسی اک میں ڈھالے کرنے ہیں

گفتگو کرتے ہوئے رات بتا لی جائے

 گفتگو کرتے ہوئے رات بِتا لی جائے

بات سے ایک نئی بات نکالی جائے

گھر میں دیوار اُٹھانے سے کہیں بہتر ہے

دل سے نفرت کی ہی دیوار گِرا لی جائے

خواب تو خیر حقیقت نہیں ہونے والے

کیوں نہ کچھ دیر کو پھر آنکھ لگا لی جائے

اداسیوں سے مقدر چھڑا نہیں سکتی

 اُداسیوں سے مقدر چھُڑا نہیں سکتی

میں چاہ کر بھی تِرے پاس آ نہیں سکتی

تمام عمر انہی سے رہوں گی محوِ سخن

تمہارے بھیجے ہوئے خط جلا نہیں سکتی

خیالِ یار میں اسیر ہوں زمانے سے

رہائی پا تو لوں اس کو بھلا نہیں سکتی

یہ اشکوں کے گوہر لٹانے بہت ہیں

 یہ اشکوں کے گوہر لُٹانے بہت ہیں

ابھی داغ دل کے چھُپانے بہت ہیں

ابھی ہجر میرا مکمل نہیں ہے

ابھی دِیپ مجھ کو جلانے بہت ہیں

یہ زلفیں سمیٹو یہ پلکیں جھکاؤ

یہاں راستے میں دِوانے بہت ہیں

گھائل ہوئی ہوں عشق میں اقرار کیا کروں

 گھائل ہوئی ہوں عشق میں اقرار کیا کروں

برباد چمن کو ارے گلزار کیا کروں

اک درد سا چھپا ہے مِرے قلب و روح میں

لب کو خبر نہیں تو میں اظہار کیا کروں

ہوتا ہے شب و روز ہی دل میں ملال سا

بدلے نہیں نصیب دلِ زار کیا کروں

یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں

 یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں

پاس رہتے ہوئے جُدا بھی ہیں

جشنِ آزادگی بپا کیجے

کاسہ بردار رہنما بھی ہیں

ہے سفینہ اسیرِ موجِ بلا

یوں تو کہنے کو ناخدا بھی ہیں

یہیں پہ ختم نہیں ہوتی ہے کہانی مری

 یہیں پہ ختم نہیں ہوتی ہے کہانی مِری

اب اس کے بعد مسلسل ہے بے زبانی مری

وہ تھوڑی دیر مِرا صبر آزمائے گا

بڑھا رہا ہے ابھی پیاس یار جانی مری

عجیب بات تو یہ ہے تو مجھ کو یاد رہا

کہ بھول جانے کی عادت تو ہے پرانی مری

کر جاتے ہیں بے تاب یہ کم ذات ستمگر

 کر جاتے ہیں  بے تاب یہ کم ذات ستمگر

اک دل کی تڑپ دُوجی یہ برسات ستمگر

کر لیتی میں تسخیر محبت کے جہاں کو 

بن جاتے ہیں افسوس خیالات ستمگر

حالات نے رکھا جو کسوٹی پہ مِرا دل

میں کیا کہوں ہر رات ہوئی رات ستمگر

قلم کی جستجو ہے پھر لکھے کوئی فسانہ اب

 قلم کی جستجو ہے پھر لکھے کوئی فسانہ اب

بیاں ہو گا کہاں تک ان دکھوں مارا ترانہ اب

گداگر کی طرح بھٹکی پھرے بازار میں غربت

دُہائی بھُوک کی دیتا غریبوں کا گھرانہ اب

گھٹا برسے مکاں کی چھت تلے ٹپ ٹپ گِرے پانی

فقیروں کے لیے تو کب رہا موسم سہانا اب

روشنی لے کے تیرگی ڈھونڈی

روشنی لے کے تیرگی ڈھونڈی

تجھ کو پا کر تِری کمی ڈھونڈی

ان حسینوں سے پھیر کر آنکھیں

تُو نے کیوں مجھ سی سرپھری ڈھونڈی

خواب جنت کے دیکھنے والے

تُو نے کیوں لڑکی دوزخی ڈھونڈی

رسوا ہوا میں اور میری مات ہو گئی

 رُسوا ہوا میں اور میری مات ہو گئی

برباد ہائے جب سے میری ذات ہو گئی

کرنے گئے تھے ان سے ہر اک بات کا گِلا

پر راستے میں دن ہی ڈھلا رات ہو گئی

ہم دُشمنوں کو ڈُھونڈنے نکلے تھے ایک دن

''اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی''

مجھے معلوم ہے کہ میری نظمیں

 گھاس کے پھول


مجھے معلوم ہے کہ میری نظمیں

ادب کی دنیا میں انقلاب

برپا نہیں کر سکتیں

گمراہوں کو ہدایت نہیں دے سکتیں

تاریخ کا رُخ نہیں موڑ سکتیں

اس کے چہرے کو دیکھتا ہوں میں

 اس کے چہرے کو دیکھتا ہوں میں

اور اک آہ کھینچتا ہوں میں

اپنے ماضی کی خستہ گلیوں میں

اس کی یادوں سے کھیلتا ہوں میں

کتنے پیڑوں نے میرا پوچھا ہے

دھوپ سے روز پوچھتا ہوں میں

زندگی کی دعا نہ دے مجھ کو

 زندگی کی دُعا نہ دے مجھ کو

کوئی پھر سے رُلا نہ دے مجھ کو

مُسکرا کر دغا نہ دے مجھ کو

پیار کی یہ سزا نہ دے مجھ کو

کر نہ بیٹھوں کہیں تجھے سجدہ

عشق کافر بنا نہ دے مجھ کو

تمہارے بعد کہاں کچھ نظر میں رکھتے ہیں

 تمہارے بعد کہاں کچھ نظر میں رکھتے ہیں

بجھے چراغ فقط اپنے گھر میں رکھتے ہیں

سکوتِ کنجِ قفس سے ہیں مضمحل، ورنہ

غضب کے حوصلے ہم بال و پر میں رکھتے ہیں

رواں دواں ہیں سہولت سے منزلوں کی طرف

تمہاری یاد جو رختِ سفر میں رکھتے ہیں

آؤ جاناں تارے توڑ کے کھاتے ہیں

 بھوک


آؤ جاناں تارے توڑ کے کھاتے ہیں

مدت سے بے کار پڑے ہیں

گو کہ چاند پکے پھل جیسا گرنے کو تیار کھڑا ہے

پر کتنے شاعر، کتنے مجنوں

چاند پہ لکھ لکھ اپنا رزق کماتے ہیں

یا اسے مل کے آ رہا ہوتا ہوں

 یا اُسے مل کے آ رہا ہوتا ہوں

یا اسے ملنے جا رہا ہوتا ہوں

شور بھی کرتا ہوں میں اُس کی خاطر

جب بھی اُس کو سُنا رہا ہوتا ہوں

دوسری سمت وہ لُڑھک جاتا ہے

اک طرف سے اُٹھا رہا ہوتا ہوں

اسے لگا کہ محبت ہے وحشیانہ کھیل

 اسے لگا کہ محبت ہے وحشیانہ کھیل

تو پیار پیار میں کھیلا وہ شاطرانہ کھیل

بجا رہا تھا شبِ وصل ہجر کی دُھن وہ

اسی پہ موڑ دیا اس کا عاقلانہ کھیل

زمانہ بات سمجھتا نہیں کبھی میری

وہ میری بات کو سمجھا ہے ماہرانہ کھیل

عشق ہماری ذات سنوارا کرتا ہے

 عشق ہماری ذات سنوارا کرتا ہے

کرب، اذیت، ہجر اتارا کرتا ہے

دل کو اس لیے میں الجھائے رکھتا ہوں

فرصت میں یہ ذکر تمہارا کرتا ہے

اس دریا پر صرف خموشی رہتی ہے

اس دریا سے شور کنارہ کرتا ہے

رنگ نکھرتے پھول بکھرتے جائیں گے

 رنگ نکھرتے، پھول بکھرتے جائیں گے

جانے والے اک دن لوٹ کے آئیں گے

جھوٹی سچی باتیں ان کی مت سننا

پیار کے دشمن لوگ تمہیں بہکائیں گے

تیرے بعد جدائیاں کیسے کاٹی ہیں؟

اک اک لمحہ، اک اک پل دہرائیں گے

ہنستے یاروں کی دلآزاری نہیں ہو سکتی

 ہنستے یاروں کی دلآزاری نہیں ہو سکتی

دل! ابھی تیری عزاداری نہیں ہو سکتی

طیش میں بات کوئی ذہن میں بیٹھے گی کہاں

سخت موسم میں شجر کاری نہیں ہو سکتی

آنکھ باقی ہے مگر ذوقِ نظر خرچ ہوا

جیب خالی سے خریداری نہیں ہو سکتی

ترا نصیب بنوں تیری چاہتوں میں رہوں

 تِرا نصیب بنوں تیری چاہتوں میں رہوں

تمام عمر محبت کی وحشتوں میں رہوں

خمارِ حسرتِ دیدار میں رہوں ہر دم

سوادِ عشق یونہی تیری شدتوں میں رہوں

یہ زندگی کی حرارت تِرے سبب سے ہے

میں لمحہ لمحہ جنوں کی تمازتوں میں رہوں

پانی کے سیال آئینے میں آدمی رقص کر سکتا ہے

تیری مخروطی ہیروں سے جھلمل بھری انگلیوں نے

ذرا تار چھیڑے تو دکھ کیسے رِس رِس کے

تاروں سے بہنے لگا، اک ترے ساتھ رہنے سے

مجھ پر کھُلا کس طرح صبح ابھرنے سے پہلے

کہیں خود کو دھوتی ہے، دُھل کے تری سمت

کیسے لپکتی ہے،۔ جب فصل پکتی ہے

دہکتی آگ میں پگھل کے

 بہار کا قرض


دہکتی آگ میں پگھل کے

قطرہ قطرہ

گر رہی ہیں چوڑیاں

یہ جشن آتشیں ہے کیا بہار کا

کہ جس کی دردناک چیخ سے لرز رہا ہے آسماں

ہر اک سو اب اجالا ہو گیا ہے

 ہر اک سو اب اجالا ہو گیا ہے

نبیﷺ کا بول بالا ہو گیا ہے

سجا کر ان کے سیرت کے نگینے

جو ادنیٰ تھا وہ اعلیٰ ہو گیا ہے

مِرے شہرِ نبی کی شان دیکھو

جہاں بھر سے نرالا ہو گیا ہے

یوں الجھتے ہوئے ہوا کے ساتھ

 یوں الجھتے ہوئے ہوا کے ساتھ

جُڑ گیا ہوں میں اب خدا کے ساتھ

سادھ لی چُپ تِری محبت میں

جنگ لڑتے ہوئے انا کے ساتھ

آج مدت کے بعد رویا ہوں

یاد کرکے تجھے دعا کے ساتھ

کسی بھی غیر پر فدا نہیں ہوا

 کسی بھی غیر پر فدا نہیں ہوا

بچھڑ گیا ہوں پر جدا نہیں ہوا

وہ جا چکا ہے چھوڑ کر مجھے مگر

یوں لگتا ہے کہ وہ گیا نہیں ہوا

چراغِ انتظار تابناک ہے

کسی سے میرا غم چھپا نہیں ہوا

نیند دبے پاؤں چلی آتی ہے

 واردات


نیند دبے پاؤں چلی آتی ہے

جسم سونے سے انکاری

سپنے اشتہاری

دل میں ڈر کے سندیسے بھاگتے پھرتے ہیں

خوف چھلاوہ بن کر دستک دیتا ہے

بڑی مشکل سے خود کو پتھروں کے بیچ ڈھالا ہے

 مجسمہ 


بڑی مشکل سے خود کو

پتھروں کے بیچ ڈھالا ہے

بڑی دشواریوں کے بعد

اس دل کو سنبھالا ہے

مگر صدیوں کے بعد اس نے

یہ مسافت نہیں آسان کہاں جاتا ہے

 یہ مسافت نہیں آسان، کہاں جاتا ہے؟

اور پھر بے سر و سامان کہاں جاتا ہے

لوگ اس راہ سے عجلت میں گزر جاتے ہیں

بے چراغی کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے

آج کل خواب کے بارے میں ہے تشویش مجھے

آنکھ کھُلتے ہی یہ مہمان کہاں جاتا ہے

محبت سے جہاں تسخیر کرنا چاہتے ہیں

 محبت سے جہاں تسخیر کرنا چاہتے ہیں

ہم اپنے خواب کو تعبیر کرنا چاہتے ہیں

ابھی تک اس دلِ وحشی کو سودا ہے جنوں کا

سو اس وحشت کو اب زنجیر کرنا چاہتے ہیں

نہیں ہے آبلہ پائیِ خواہش تھک چکے ہیں

سفر میں اب کہ ہم تاخیر کرنا چاہتے ہیں

دل مضطر کی دوا کیجئے گا

 دلِ مضطر کی دوا کیجئے گا

نہ ہو ممکن تو دعا کیجئے گا

بامِ اُلفت سے تو گُل ہی برسیں

تلخئ جاں نہ سوا کیجئے گا

بار جاں کو تو ذرا کم کیجئے

قرض احساں کا ادا کیجئے گا

حق مہر کتنا ہو گا بتایا نہیں گیا

 حق مہر کتنا ہو گا، بتایا نہیں گیا

شہزادیوں کو بام پر لایا نہیں گیا

کمزور سی حدیث سُنا دی گئی کوئی

انصاف کا ترازو اُٹھایا نہیں گیا

میں اپنے ساتھ ساتھ ہوں، وہ اپنے ساتھ ساتھ

ہمزاد ہم کو بنایا نہیں گیا

جنہیں اٹھانا تھا ان کو گرایا جا رہا ہے

 جنہیں اُٹھانا تھا اُن کو گرایا جا رہا ہے

جنہیں گرانا تھا اُن کو بچایا جا رہا ہے

سبھی کو دعویٰ ہے لیکن خبر کسی کو نہیں

کہ اس نظام کو کیسے چلایا جا رہا ہے

عجیب لوگ ہیں، جس کو ہنر جو آتا نہیں

یہاں وہ کام اُسی سے کرایا جا رہا ہے

Friday, 28 May 2021

ضبط کی قید سخت نے ہم کو رہا نہیں کیا

 ضبط کی قید سخت نے ہم کو رہا نہیں کیا

درد پہ درد اٹھا مگر شور بپا نہیں کیا

دنیا نے کیا نہیں کیا ہم نے گلہ نہیں کیا

سب سے برائی لی مگر تم کو خفا نہیں کیا

جو بھی مطالبہ ہوا عذر ذرا نہیں کیا

اب تو نہیں کہو گے تم وعدہ وفا نہیں کیا

وصل کے فسانے سے ہجر کے زمانے تک

 سراب


وصل کے فسانے سے

ہجر کے زمانے تک

فاصلہ ہے صدیوں کا

فاصلہ کچھ ایسا ہے

عمر کی مسافت بھی

جس کو طے نہ کر پائے

جب محبت میں مبتلا نہیں تھا

 جب محبت میں مبتلا نہیں تھا

تب کوئی بھی مِرا خدا نہیں تھا

زخم اس وقت بھی تھا دل پہ مِرے

پھول جب شاخ پر کھِلا نہیں تھا

جب میں ہر بات اس کی مانتا تھا

دل کسی کو بھی مانتا نہیں تھا

ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں

 ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں

تمہیں سوچا شرمائے بہت ہیں

جسے پھولوں کے تحفے ہم نے بهیجے

اسی نے سنگ برسائے بہت ہیں

جو سچ پوچھو تو اب کے یوں ہوا ہے

تیرے غم سے بھی اکتائے بہت ہیں

ہاتھ میں کتاب ہے گمشدہ نصاب ہے

 ہاتھ میں کتاب ہے

گُم شدہ نصاب ہے

کانٹوں کے حصار میں

سہما سا گلاب ہے

قید خانے سے فرار

روشنی کا خواب ہے

اپنی بے چہرگی بھی دیکھا کر

 اپنی بے چہرگی بھی دیکھا کر

روز اک آئینہ نہ توڑا کر

تُو جدھر جائے دن نکل آئے

روشنی کا مزاج پیدا کر

یہ صدی بھی کہیں نہ کھو جائے

اپنی مرضی کا کوئی لمحہ کر

لمحۂ کن میرے گمان میں ہے

 لمحۂ کن میرے گمان میں ہے

نقش ابھرا ہوا چٹان میں ہے

کھول کر بادباں سر ساحل

ناخدا بھی تو امتحان میں ہے

کہہ رہی ہے ہوا کی سرگوشی

وہ شکاری ابھی مچان میں ہے

میں مستی میں چل جو چال آیا کمال آیا

 میں مستی میں چل جو چال آیا کمال آیا

کہ ٹال ہستی کا جال آیا، کمال آیا

مثال میرے عروج کی دیتا تھا زمانہ

عروج کو جب زوال آیا، کمال آیا

تھے سر نِگوں جو ہیں آج آنکھیں دکھا رہے وہ

جو بھوکوں کے ہاتھ مال آیا، کمال آیا

مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں

 مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں

حسین لوگ ہیں، بس عاشقی کے قابل ہیں

جو اپنی مرضی کا سوچیں تم ان کو دفنا دو

کہ ایسی لڑکیاں کب رخصتی کے قابل ہیں

دکھی نہیں ہیں کہ ہم کیوں ہوئے نظر انداز

ہمیں پتہ ہے کہ ہم بے رخی کے قابل ہیں

بچھڑ گئے تو دوبارہ رستے نہیں ملیں گے

 بچھڑ گئے تو دوبارہ رستے نہیں ملیں گے

یہ خواب مہنگے ہیں یار سستے نہیں ملیں گے

وہ جِن پہ شعروں کی شکل میں زندگی لکھی تھیں

وہ کاپیاں، وہ پرانے دستے نہیں ملیں گے

تمہارے ہونٹوں سے ہے کشیدہ غمِ محبت

ہمارے ہونٹ اب کبھی بھی ہنستے نہیں ملیں گے

نیند میں وہ سراب اچھا تھا

 نیند میں وہ سراب اچھا تھا

تجھ سے تو تیرا خواب اچھا تھا

ہاتھ ماتھے پہ رکھ کے کرتے تھے

جھُک کے جو، وہ آداب اچھا تھا

ایسا ملنا بھی کیسا ملنا ہے

ہجر کا وہ عذاب اچھا تھا

وبا کے دنوں میں محبت بھی کیا ہے

 وبا کے دنوں میں محبت بھی کیا ہے


فقط دور سے ہی یہ نظریں ملانا

زباں میں اشاروں کی الفت جتانا

غزل دور سے ہی کوئی گنگنانا

خدارا ذرا بھی قریں تم نہ آنا

طبیبوں سے میں نے یہی کل سنا ہے

ہجر کی تلخیاں سہوں گی نہیں

 ہجر کی تلخیاں سہوں گی نہیں

تب تم آؤ گے، جب میں ہوں گی نہیں

دل کی باتیں جو روک رکھی ہیں

یہ بھی طے ہے کبھی کہوں گی نہیں

بھیگی آنکھوں میں اشک ہوں گے بس

مسکراتی ہوئی ملوں گی نہیں

گھروں میں قید ہیں سب اور گلی کوچوں میں دہشت ہے

 گھروں میں قید ہیں سب اور گلی کوچوں میں دہشت ہے

کسی سے مل نہیں سکتے خدایا! کیسی آفت ہے

کوئی بھوکا ہے پیاسا ہے جدا کوئی ہے اپنوں سے

پریشاں ہیں سبھی ہر سُو یہاں برپا قیامت ہے

ابھی ہر سمت پہرا موت کا ہے سب رہو گھر میں

تقاضا ہے یہی اس بات کی سب کو ضرورت ہے

خموشی ثبت ہے لب پر صدا مقید ہے

 خموشی ثبت ہے لب پر صدا مقیّد ہے

ستم تو یہ ہے کہ اب کے دعا مقید ہے

علاج کیسے کروں شہرِ ناتواں تیرا

طبیب پست ہوئے اور دوا مقید ہے

دریدہ جسم ترستے ہیں سکھ کی چادر کو

امیرِ شہر! بتا، کیوں ردا مقید ہے؟

تمہارے دکھنے سے آنکھیں روشن ہوں جب ہماری

 تمہارے دکھنے سے آنکھیں روشن ہوں جب ہماری

پھر اپنے دل پر بھی اپنی چلتی ہے کب ہماری

ہلا کے ہاتھوں کو الوداع اس نے جب کہا تھا

بتائیں کیسے کہ کیسی حالت تھی تب ہماری

ہوئی جو الجھن تو سر بہ سجدہ ہوئے ہمیشہ

ہمیں یقیں تھا کہ بات سنتا ہے رب ہماری

کوئی نوحہ سنائی دے رہا ہے

 کوئی نوحہ سنائی دے رہا ہے

غم یوں دل میں دہائی دے رہا ہے

فرقتوں کی طویل شاموں میں

درد ہنستا دکھائی دے رہا ہے

وہ نہ لوٹے گا کیسے مانے دل

نامہ بر کیوں ہوائی دے رہا ہے

یہ آنکھیں اب بھلا کیسے تمہیں سوچیں

 یہ آنکھیں اب بھلا کیسے تمہیں سوچیں

تمہارے نقش پھیلے ہیں ہوا میں چار سُو دیکھو

تمہارے خواب کا موسم

بدن کی سرحدِ ادراک سے آگے کا قصہ ہے

کبھی دریا کے پانی پر تمہارا عکس بنتا ہے

کبھی کوئی دھنک ان آسمانوں پر تمہارا نام لکھتی ہے

رشتہ کمزور ہو تو توڑ دیا جاتا ہے

 رشتہ کمزور ہو تو توڑ دیا جاتا ہے

پھر کہانی کو نیا موڑ دیا جاتا ہے

ہم کو اک خواب کی مہلت بھی کہاں ملتی ہے

نیند سے پہلے ہی جھنجھوڑ دیا جاتا ہے

رات وحشت کو ذرا اور بڑھا دیتی ہے

سر کو دیوار سے پھر پھوڑ دیا جاتا ہے

وہ چاہتا تو ہے مجھے مسمار دیکھنا

 وہ چاہتا تو ہے مجھے مسمار دیکھنا

ممکن نہیں مگر پسِ دیوار دیکھنا

اب اس کے انتظار میں رک ہی گئی گھڑی

وہ آئے گا تو وقت کی رفتار دیکھنا

کانٹوں کا احتساب تو کرنے ہو چل پڑے

کچھ پھولوں کا بھی دوستو کردار دیکھنا

راہ خیال و خواب کے گرد و غبار میں

 راہِ خیال و خواب کے گرد و غبار میں

دل کتنا شاد ہے تِرے غم کے حصار میں

آؤ کہ مان لیں کبھی اک دوسرے کی بات

رکھا ہے کیا اناؤں کی اس جیت ہار میں

اب کے تو بارشوں کے گلے لگ کے زار زار

موسم بھی رو رہا ہے تِرے انتظار میں

کوئی بارش جو مرے خواب کی تکمیل کرے

 کوئی بارش جو مِرے خواب کی تکمیل کرے

دشت دریائی خد و خال میں تبدیل کرے

اہلِ غیبت میں مہذب نہیں سمجھا جاتا

مجھ سا خاموش جو آواز کی تذلیل کرے

کون مشکل میں کرے مالِ غنیمت واپس

کون سالار کے ہر حکم کی تعمیل کرے

ہوا کے بگڑے ہوئے تیور سندیسہ لائے ہیں

 تمہارے ساتھ


ہوا کے بگڑے ہوئے تیور

سندیسہ لائے ہیں

بارش میں بھیگی

مٹی کی سوندھی سوندھی مہک میں بسے

دھاڑیں مار کے روتے خوابوں کا

سہگل انگار ہو چکے ہوئے ہیں

 سہگل انگار ہو چکے ہوئے ہیں

ہم تو بے کار ہو چکے ہوئے ہیں

ختم ہونے کو ہے کہانی اب

سارے کردار ہو چکے ہوئے ہیں

تیرے دھوکے میں اب نہ آئیں گے

ہم سمجھدار ہو چکے ہوئے ہیں

احساس کی خوشبو سے مہکتی ہوئی باتیں

 خیال


احساس کی خوشبو سے مہکتی ہوئی باتیں

"الہام کی رِم جھم سا برستا ہوا لہجہ"

جلتے ہوئے ہونٹوں پہ سسکتی سی دعائیں

ماتھے پہ سلگتا ہوا یہ لمس کا پہرا

زلفوں میں عجب کالی گھٹاؤں کا اندھیرا

آنکھوں میں ہے جاگی ہوئی راتوں کا بسیرا

حق ہے تجھے جسے بھی تو چاہے غلط سمجھ

 حق ہے تجھے جسے بھی تُو چاہے غلط سمجھ

کم تر مگر کسی کو مِرے یار مت سمجھ

چلتا ہے کاروبارِِ وفا اعتبار پر

جو کہہ دیا گیا ہے اسے دستخط سمجھ

پسپا ہوئے محاذ سے ہم جان بُوجھ کر

یہ بُزدلی نہیں ہے اسے مصلحت سمجھ

دھند کی اوڑھنی کو سرکاتی

 الاؤ


دُھند کی اوڑھنی کو سرکاتی 

دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی ہوئی

گاہے رُکتی ہے، گاہے چلتی ہے 

رات اپنے کسی سفر پر ہے 

سُوکھی، گیلی سُلگتی سانسوں سے 

ناگہاں ایک شعلہ اُٹھتا ہے 

بدن سے روح تک سرشار ہوں میں

 بدن سے روح تک سرشار ہوں میں

محبت کے لیے تیار ہوں میں

تُو آئے گا تو دروازہ بنوں گا

ابھی، دیوار ہی دیوار ہوں میں

مِری حالت، عجب حالت ہے میری

ابھی خوش ہوں، ابھی بیزار ہوں میں

اے حسن کارساز پریشاں نہ کر مجھے

 اے حسنِ کارساز پریشاں نہ کر مجھے

عرضِ نیازِ عشق ہوں ارزاں نہ کر مجھے

رہنے دے زرد شاخ کی صورت مِرا وجود

بزمِ جہاں میں زخمِ بہاراں نہ کر مجھے

کُھل کر نہ جل سکوں گا کبھی گرد باد میں

بامِ ہوا پہ دوست فروزاں نہ کر مجھے

وہ مجھے جانتا ہے

 وہ مجھے جانتا ہے


مظاہر فطرت میں چھپا بیٹھا ہے

اجرامِ فلکی کے جلو میں

دلوں کے اندر

معلوم، نامعلوم وُسعتوں میں

سمندر کی تہہ میں رہتا ہے

وہ کم آمیز مجھ سے ہم سخن ہونے لگا ہے

 وہ کم آمیز مجھ سے ہم سخن ہونے لگا ہے

بہ یک لحظہ یہ دشتِ دل چمن ہونے لگا ہے

سہولت سے وہ پڑھتا جا رہا ہے ذہن میرا

بدن سوچوں کا پھر بے پیرہن ہونے لگا ہے

مِری تنہائی اور وحشت میں پھر سےٹھن گئی ہے

یوں لگتا ہے کوئی گھمساں کا رن ہونے لگا ہے

بھول بھی جائیں تجھے زخم پرانا بھی تو ہو

 بھُول بھی جائیں تجھے زخم پرانا بھی تو ہو 

جی بھی لیں جینے کو جینے کا بہانہ بھی تو ہو 

ہم نے سیکھا ہی نہیں ترکِ مروت کا سبق 

بات بڑھتی ہے، مگر بات بڑھانا بھی تو ہو 

اب کے مقتل کو کسی میلے کی زینت کر دو 

پھر تماشہ جو سجے ساتھ زمانہ بھی تو ہو 

جذبوں کی ہر ایک کلی اندھی نکلی

 جذبوں کی ہر ایک کلی اندھی نکلی

اور محبت اس سے بھی پگلی نکلی

میں بھی توڑ نہ پائی جھوٹی رسمیں

میں بھی بس اک معمولی لڑکی نکلی

تم مجھ سے نفرت کیسے کر پاؤ گے

میں تو اپنے جھوٹ میں بھی سچی نکلی

Thursday, 27 May 2021

یہ جو ہر سو دھواں پھیلا ہوا ہے

 یہ جو ہر سُو دھواں پھیلا ہوا ہے

زمیں پر آسماں پھیلا ہوا ہے

یہ فٹ پاتھوں سے ٹُوٹے جھونپڑوں تک

ہمارا خانداں پھیلا ہوا ہے

کنویں میں کس طرح معلوم ہوتا

کہاں تک خاکداں پھیلا ہوا ہے

میں نے سچ بولنا بچوں سے

 میں نے سچ بولنا

بچوں سے

اور جھوٹ

تاریخ کی کتابوں سے سیکھا

اور نظم لکھنے بیٹھ گیا

مگر

عجب عجیب غمِ احتمال رکھتے ہوئے

 عجب عجیب غمِ احتمال رکھتے ہوئے

کسی کا خواب، کسی کا خیال رکھتے ہوئے

انا بھی کوہِ گراں کی طرح ہے پھر درپیش

تِرے حضور، طلب کا سوال رکھتے ہوئے

کوئی خزینۂ راحت نہ اپنے کام آیا

درازِ دل میں ذرا سا ملال رکھتے ہوئے

کرہ ارض پر عدم توازن بکھرا پڑا ہے

 سرد سمے کی دھوپ


کُرۂ ارض پر

عدم توازن بکھرا پڑا ہے

حدودِ جہاں کی معیت میں

آنکھیں برف ہو رہی ہیں

مقدس صحیفوں کی خوشبو

دھواں اڑاتی ہوئی دھیمی دھیمی بارش ہے

 دھواں اڑاتی ہوئی دھیمی دھیمی بارش ہے

ہوا کی اندھی سواری پہ اندھی بارش ہے

ہمارے گاؤں کے رستوں کی کچی مٹی پر

پھسل رہے ہیں قدم، کتنی گندی بارش ہے

ذرا سی کھول کے کھڑکی نظر تو دوڑائو

دکھائی دیتی نہیں، اچھی خاصی بارش ہے

شراب گوندھ کے آنکھوں میں کون لاتا ہے

 شراب گوندھ کے آنکھوں میں کون لاتا ہے

کہاں ہے حور جسے تھامنا بھی آتا ہے

وہ ہارتی ہے محبت کھنکتے ساحل پر

تو سیپائی سمندر بھی ہار جاتا ہے

غزل بہانہ ہے یہ رف عمل بہانہ ہے

قلم ابھی بھی تِرا جسم گنگناتا ہے

تیرے آثار مٹانے میں بہت دیر لگی

 تیرے آثار مٹانے میں بہت دیر لگی

خود کو اس پار بلانے میں بہت دیر لگی

تُو میری ذات کا کھویا ہوا حصہ ہے کوئی

تُجھ کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی

زندگی جس کی ہر اک تال پہ کرتی ہے دھمال

دل کے وہ تار بجانے میں بہت دیر لگی

خیال خام ہو جائے گا اک دن

 خیال خام ہو جائے گا اک دن

کوئی ناکام ہو جائے گا اک دن

یہ شہرت کا مسافر شہر بھر میں

بہت بدنام ہو جائے گا اک دن

ہر اک دانے پر گِرتا ہے یہ طائر

اسیرِِ دام ہو جائے گا اک دن

میرا قرار موج کم آمادہ لے اڑی

 میرا قرار موجِ کم آمادہ لے اُڑی

آدھا کنارے پھینک گئی، آدھا لے اڑی

ہر گھر کہانیوں کا پرستان بن گیا

اک عام سی پری کوئی شہزادہ لے اڑی

جب میں نے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا

ضدی ہوائے دشت مرا جادہ لے اڑی

جانب شہر بیابان کہاں جاتا ہے

 جانبِ شہرِ بیابان کہاں جاتا ہے؟

اے مِرے یار پریشان کہاں جاتا یے

حالتِ وجد میں معلوم نہیں ہے سائیں

آپ بتلائیں مِرا دھیان کہاں جاتا ہے

جانے کس سمت سے یادوں کی ہوا آتی ہے

اور پھر درد کا طوفان کہاں جاتا ہے

محبت میں ٹھنی اکثر یہاں تک

 محبت میں ٹھنی اکثر یہاں تک

کہ پہنچے معرکے تیر و کماں تک

چلے ناوک کھنچی ظالم کماں تک

کہاں تک امتحاں آخر کہاں تک

چلے جاتے ہیں آواز جرس پر

پہنچ جائیں گے بچھڑے کارواں تک

قاصد نہ آوے ہے کوئی نامہ نہ آوے ہے

 قاصد نہ آوے ہے کوئی نامہ نہ آوے ہے

مدت ہوئی ہے کوئی دلاسا نہ آوے ہے

اس کی طرف سے تو کوئی لیت و لعل نہیں

لیکن ہمیں یہ عشق وغیرہ نہ آوے ہے

محوِ سفر تو ایک زمانے سے ہوں مگر

قابو میں اُس کے شہر کا رستا نہ آوے ہے

ہرے ہیں زخم کچھ اس طرح بھی مرے سر کے

 ہرے ہیں زخم کچھ اس طرح بھی مِرے سر کے 

تمام عمر اُٹھائے ہیں ناز پتھر کے 

لہولہان ہوا ہے مِرا بدن یوں بھی 

پکڑ نہ پایا کبھی ہاتھ میں ستم گر کے 

بس ایک حرفِ مقرر کے جرم میں ہم نے 

زباں پہ وار ہزاروں سہے ہیں خنجر کے 

اسے مجھ سے محبت ہے

 اسے مجھ سے محبت ہے


مگر کتنی میں جب بھی سوچتی ہوں تو

مِری پلکوں کے پردے پر

ستارے جھِلملاتے ہیں

محبت کیا کوئی ایسا خسارہ ہے کہ جو پورا نہیں ہوتا

اگر ایسا نہیں ہے تو مِری آنکھوں کی وحشت کا یہ عالم کیوں نہیں جاتا

یہ راز شاید آپ کے ادراک میں نہیں

 یہ راز شاید آپ کے ادراک میں نہیں

انسان گفتگو میں ہے، پوشاک میں نہیں

کیا رنگ روپ ہیں کہ جو اِس خاک میں نہیں

اب گردشیں مگر وہ تِرے چاک میں نہیں

کیونکر کوئی سنبھال کے رکھتا ہمیں بھلا

شامل جو ہم کسی کی بھی اِملاک میں نہیں

اب ضروری تھا ترا خواب میں آتے رہنا

 اب ضروری تھا تِرا خواب میں آتے رہنا

گاہے گاہے کسی آہٹ سے جگاتے رہنا

گفتگو رات سے اک لو کی طرح ہے میری

تم مجھے دیکھنا اور رنگ بتاتے رہنا

وقفے وقفے سے اسے دیکھ بھی لینا رک کر

سامنے آئے تو نظریں بھی چُراتے رہنا

بچھڑ گیا ہے تو اب ملال کیا کرنا

 ملال 


بچھڑ گیا ہے تو اب ملال کیا کرنا

کہ گئے ہوئے کو آواز دے کر کیا کرنا

ستم ظریفی ہے یہ اس کی تو سہ لے اسے

پرانے زخموں کو کرید کرید کر کیا کرنا

شباب ہے وقت کے ساتھ ساتھ ڈھل ہی جاتا ہے

ہنس رہے ہو ہنسا رہے ہو تم

 ہنس رہے ہو، ہنسا رہے ہو تم

خواب کس کو دکھا رہے ہو تم

کبھی آواز اور کبھی سایا

سلسلہ وار آ رہے ہو تم

خود کو بھی آج میں نے دیکھ لیا

اس قدر جگمگا رہے ہو تم

جسے گماں تھا جسے یقیں تھا وہ میں نہیں تھا

 جسے گماں تھا، جسے یقیں تھا وہ میں نہیں تھا

ابھی ابھی جو یہیں کہیں تھا وہ میں نہیں تھا

میں تیرے پیکر میں کر رہا تھا تلاش اپنی

جو تیرے دل کے بہت قریں تھا وہ میں نہیں تھا

تِرا کرم تھا کہ نعمتِ غم مجھے عطا کی

جسے گِلہ تھا دلِ حزیں تھا وہ میں نہیں تھا

تیسری آنکھ کا نوحہ

 تیسری آنکھ کا نوحہ


پہلے درجے کی آنکھ

حسنِ انتظام کے کارخانے میں

چیزوں کی شکست و ریخت دیکھتے ہوئے

پتھرا جاتی ہے

روتی نہیں

وہاں مجھ کو پہلے تو جانا نہیں چاہیے تھا

 وہاں مجھ کو پہلے تو جانا نہیں چاہیے تھا

چلا ہی گیا تھا تو آنا نہیں چاہیے تھا

اسے پیار کرنا مناسب نہیں تھا کسی طور

کیا تھا تو اس کو بتانا نہیں چاہیے تھا

یہ اچھا ہوا ہے کسی نے بدل ڈالا اس کو

مجھے بھی وہ پہلا پرانا نہیں چاہیے تھا

اب گلہ نہیں کرنا

 اب گِلہ نہیں کرنا


اب کے ہم نے سوچا ہے

جس نے بھی رُلایا ہو

لاکھ دل دُکھایا ہو

مُسکرا کے ملنا ہے

اب کسی اُمید کا

آدھی بات پوری بات کہنے کی کب مجھے اجازت ہے

 آدھی بات


پوری بات کہنے کی کب مجھے اجازت ہے

پوری بات سننے کی آپ کو کیا ضرورت ہے

آپ علم کے داعی

آپ سوچ کے رہبر

آپ ہی محبت کے قاعدے بناتے ہیں

کسی بھی در کی سوالی نہیں رہی ہو گی

 کسی بھی در کی سوالی نہیں رہی ہو گی

جھکی جو عشق کے در پر جبیں رہی ہو گی

وگرنہ ترکِ وفا سہل اس قدر تھا کہاں

کمی مجھی میں یقیناً کہیں رہی ہو گی

جو گورِ عقل میں کی دفن آرزو تم نے

تمہارے دل میں کبھی جا گزیں رہی ہو گی

سن حوا کی بیٹی کوئی دن ایسا بھی آیا کیا

 سُن حوا کی بیٹی 


کوئی دن ایسا بھی آیا کیا؟

تم جی پائی ہو اپنے لیے

تم مر پائی ہو اپنے لیے

کبھی کھل کر ہنسنا سیکھا ہو

کسی خواب کو چھُو کر دیکھا ہو

سفر ہے دھوپ کا اور ساتھ سائے رکھتی ہوں

 سفر ہے دھوپ کا اور ساتھ سائے رکھتی ہوں

کسی کی یاد کو دل میں چھُپائے رکھتی ہوں

مِرا خیال تو کوئی بدل نہیں سکتا

جو رائے رکھتی ہوں بس ایک رائے رکھتی ہوں

ہوا ہو کتنی ہی سرکش فضا ہو یخ بستہ

میں اپنے دل کا الاؤ جلائے رکھتی ہوں

اب ان کے پاس بھی باقی بچا کیا

 اب ان کے پاس بھی باقی بچا کیا؟

میں مانگوں قاتلوں سے خوں بہا کیا

تمہیں پچھتاوے کا ہے روگ کافی

تمہیں دے کر کروں میں بد دعا کیا

مجھے یوں کرکے موجوں کے حوالے

سکوں سے سو سکے گا ناخدا کیا

چمن سا دشت تا حد نظر کتنا حسیں ہے

 چمن سا دشت تا حدِ نظر کتنا حسیں ہے

تُو میرا ہم قدم ہے تو سفر کتنا حسیں ہے

مِری جانب لپکتی منزلوں سے پوچھ لینا

کسی کے ساتھ چلنے کا ہُنر کتنا حسیں ہے

وہ میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے میرا ہو کر

دعائے نیم شب کا یہ اثر کتنا حسیں ہے

دوش کس کا ہے بے وفائی میں

 دوش کس کا ہے بے وفائی میں

کچھ بھی کہنا نہیں صفائی میں

زندگی، زندگی پہ بوجھ بنی

جی رہی ہوں اگر جدائی میں

اس پہ کوئی اثر بھی کیسے ہو

دل بھی شامل نہیں دہائی میں

یہ کس کے قدموں کی چاپ آئی کون آیا

 زرد چمیلی 


یہ کس کے قدموں کی چاپ آئی کون آیا

یہ بام و در اب جو خستہ جاں ہیں

یہ چونک اٹھے

اور یاس و حسرت سے شکل ہم سب کی تک رہے ہیں

دراڑ اپنے جگر کی لے کر کرب کی شدت

میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے

 میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے

اپنا ہونا بھی گوارہ نہیں ہوتا مجھ سے

میں جو یہ معجزۂ عشق لیے پھرتا ہوں

ایک جگنو بھی ستارہ نہیں ہوتا مجھ سے

گھیر رکھا ہے مجھے چاروں طرف سے اس نے

اس تعلق سے کنارہ نہیں ہوتا مجھ سے

بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے

 بچپن کے دُکھ کتنے اچھے ہوتے تھے

تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے

وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں

تتلی کے پر نوچ کے ناچا کرتے تھے

پاؤں مار کے خود بارش کے پانی میں

اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھے

محبت میں سکوں محرومیوں کے بعد آتا ہے

 محبت میں سکوں محرومیوں کے بعد آتا ہے

کہ جب ہر آسرا مٹ جائے تب دل چین پاتا ہے

خود اپنا ہی لہو آواز کو رنگیں بناتا ہے

کچل جاتا ہے جب دل تب کہیں نغمہ سُناتا ہے

یہ کیا جبر مشیّت ہے، یہ کیا جبرِ صداقت ہے

کہ جس کو ہم بھلانا چاہتے ہیں، یاد آتا ہے

دعائے نیم شبی

دعائے نیم شبی


خداوندِ عالم

میں آدم کے بیٹے کی بھولی نماز اور نسیان موسم میں دھندلی پڑی

اک دُعا مانگتی ہوں

شفا میں ڈھلے سجدۂ بندگی کی نمو کر عطا

لاشریک لہ کا جنوں میری چاہت

میں تاریک راتوں میں ذوقِ ضیائے دروں مانگتی ہوں

یہ چیخیں یہ آہ و بکا کس لیے ہے

 یہ چیخیں یہ آہ و بکا کس لیے ہے

مِرے شہر کی یہ فضا کس لیے ہے

بتا زندہ در گور ہے آدمی کیوں

بتا آسماں پر خدا کس لیے ہے

ہیں مسئلے ہوئے شاخ در شاخ گل کیوں

چمن در چمن سانحہ کس لیے ہے

آنچ تو دیے کی تھی سردیوں کی شاموں میں

 آنچ تو دِیے کی تھی سردیوں کی شاموں میں

ورنہ دھوپ کب اُتری سردیوں کی شاموں میں

ہاتھ سے کبوتر تو پھر اُڑا دیا میں نے

رہ گئی ہے تنہائی سردیوں کی شاموں میں

ہجر اور ہجرت کو اوڑھ کر بھی دیکھا ہے

سانس تک نہ چلتی تھی سردیوں کی شاموں میں

Wednesday, 26 May 2021

نئے دکھوں نئی خوشیوں کی رہگزار میں ہوں

 نئے دکھوں، نئی خوشیوں کی رہگزار میں ہوں

ابھی قیام کہاں ہو کہ خارزار میں ہوں

وہ مجھ کو جلتا ہوا چھوڑ دے کہ گُل کر دے

میں اِک چراغ ہوں، جھونکے کے اختیار میں ہوں

میں اُن کے ساتھ بڑی بے دلی سے اُڑتی ہوں

کہ اک پرندہ ہوں اور دوسری قطار میں ہوں

اس دشت آرزو میں بکھرنے تو دے مجھے

 اس دشتِ آرزو میں بکھرنے تو دے مجھے

اعلان وحشتوں کا وہ کرنے تو دے مجھے

یہ میرا مسئلہ ہے کہ کیسے کروں قیام

پہلے وہ اپنے دل میں اُترنے تو دے مجھے

دیکھے تو ایک بار کبھی وہ بھی پیار سے

تکمیل اپنی ذات کی کرنے تو دے مجھے

کسی نے پوچھا جو عمر رواں کے بارے میں

 کسی نے پوچھا جو عمر رواں کے بارے میں

تو کیا بتائیں گے سود و زیاں کے بارے میں

حریم دیدہ وری! خاک اڑ رہی ہے مری

میں جانتی تھی غبار مکاں کے بارے میں

نہ جانے کیسی گزرتی ہے جانے والوں پر

کوئی بتاتا نہیں رفتگاں کے بارے میں

میں ان کو کبھی حد سے گزرنے نہیں دوں گا

 میں ان کو کبھی حد سے گزرنے نہیں دوں گا

اس ترکِ تعلق کو میں چلنے نہیں دوں گا

تم لاکھ اچھالا کرو الفاظ کے شعلے

فردوسِ محبت کو میں جلنے نہیں دوں گا

کرنا ہی پڑے چاہے صبا سے مجھے سازش

میں آپ کے گیسو کو سنورنے نہیں دوں گا

اٹھائے گا کب تو حجابات ساقی

 اٹھائے گا کب تُو حجابات ساقی

گرفتار مشکل میں ہے ذات ساقی

یہ محصور کس دائرے میں ہوئی ہوں

نہ دن ہی مِرا، نہ مِری رات ساقی

اگر مل گئے ہو تو رک جاؤ دو پل

نہ جانے ہو پھر کب ملاقات ساقی

نہ آسماں پر کوئی ستارہ نہ کوئی مہتاب جاگتا ہے

 نہ آسماں پر کوئی ستارہ، نہ کوئی مہتاب جاگتا ہے

تمام بستی ہے غرقِ دریا، طلسمِ سیلاب جاگتا ہے

عجیب ہے بے گھری کا لمحہ نہ کوئی چادر نہ کوئی تکیہ

عجیب گھر ہے کہ جس میں آ کر شعورِ اسباب جاگتا ہے

ملالِ تنہائی سے لپٹ کر، ہجومِ خلقت کو یاد کر کے

تمام شب ایک شخص مجھ میں بغیرِ احباب جاگتا ہے

شام بانہوں میں لیے رات کی رانی آئی

 شام بانہوں میں لیے رات کی رانی آئی

اے محبت! تجھے دینے کو سلامی آئی

تشنگی اتنی کہ دریا ہے مِری آنکھوں میں

ناشناسا تِرے ہونے کی گواہی آئی

جس سے منسوب ہوا میرے خیالوں کا سفر

ڈھونڈنے اس کو مِرے ساتھ ہوا بھی آئی

تیرے رخ کی ضیا میں یہ آنکھیں

 عالم مثال


تیرے رخ کی ضیا میں یہ آنکھیں 

کھو تو سکتی ہیں 

سو نہیں سکتیں 


عظمیٰ نقوی

وصال یار کی سبھی ادائیں خوشنما سہی

 حوصلہ 


وصالِ یار کی سبھی ادائیں خوشنما سہی

رِدائے لُطف کی سبھی صدائیں خوشنما سہی

مگر مجھے عزیز ہے ثباتِ غم کی سلوٹیں

جو رات بھر جگاتی ہیں وہ روگِ جاں کی لذتیں

انہیں سے میں نے سیکھا ہے

عجیب رت ہے یہ ہجر و وصال سے آگے

 عجیب رُت ہے یہ ہجر و وصال سے آگے

کمال ہونے لگا ہے کمال سے آگے

وہ ایک لمحہ جو تتلی سا اپنے بیچ میں ہے

اسے میں لے کے چلی ماہ و سال سے آگے

کوئی جواز ہو ہمدم اب اس رفاقت کا

تلاش کر مجھے میرے جمال سے آگے

کہتے ہیں کہ محبت کا کوئی موسم نہیں ہوتا

 محبت


کہتے ہیں کہ محبت کا کوئی موسم نہیں ہوتا

لیکن میرے لیے تو

ہر موسم محبت کا موسم ہے

جب چاہا یادوں کے دیپ جلا کر روشنی کر لی

کہ محبت کا موسم تو دل کے اندر ہوتا ہے

اشکوں کو تیرے در پہ بہا کر چلے گئے

 اشکوں کو تیرے در پہ بہا کر چلے گئے

سپنے ہزار دل میں دبا کر چلے گئے

یکطرفہ ہو کے رہ گئی چاہت وفا میری

آنکھوں میں اشک اپنے چھپا کر چلے گئے

ٹوٹا ہے بے رخی سے تِری آج میرا دل

چپکے سے زخم دل کا بڑھا کر چلے گئے

سوندھی مٹی کی یہ صراحی قطرہ قطرہ گونج رہی ہے

 سوندھی مٹی کی یہ صراحی

قطرہ قطرہ گونج رہی ہے

بھیگی بھیگی شبنم کی رم جھم کرتی جھنکاروں سے

جب بھی کوئی پیاس بجھانے

اوک میں پانی بھرتا ہے

جانے کیسے چوری چوری

بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو

 بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تُو

یوں اُڑا دوں گی میں، موج دریا بڑھی

بولی میرے لیے ایک تنکا ہے تُو

یوں بہا دوں گی میں، آتش تند کی

اک لپٹ نے کہا میں جلا ڈالوں گی

اور زمیں نے کہا میں نگل جاؤں گی

ایک قصہ جو عام عشق کا ہے

 ایک قصہ جو عام عشق کا ہے

اس کا سارا کلام عشق کا ہے

چاہتا ہے کرے مسیحائی

کیونکہ وہ تو غلام عشق کا ہے

اس کے جذبوں کی تازگی دیکھو

سب کو اس کا سلام عشق کا ہے

یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا

 یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا

خوشی بھی ہے کہ اپنے آپ سے دھوکا نہیں کرتا

اگر میں نے تُجھے دُنیا پہ قرباں کر دیا تو کیا

یہاں انسان جینے کے لیے کیا کیا نہیں کرتا

جو ان سونے کی دہلیزوں پہ جا کر ختم ہوتی ہیں

میں ان گلیوں سے اب تیرا پتہ پوچھا نہیں کرتا

نظم کون لکھتا ہے

 سوغات


نظم کون لکھتا ہے

وہ جو ملال میں مبتلا ہے

یا وہ جو جشن منانا بھول گیا

ہمارے پاس تمہاری دی ہوئی سوغات ہے

برسوں پرانی

یہ دستور دنیا سمجھ میں نہ آئے

 یہ دستورِ دنیا سمجھ میں نہ آئے

کہ جو زخم کھائے وہی مسکرائے

برا وقت یا رب کسی پہ نہ آئے

کہ اپنے بھی ہوتے ہیں اس میں پرائے

حضوری بھی دھوکا ہے، دوری بھی دھوکا

بہت دور نکلے جو نزدیک آئے

ایک بے نام سی وحشت کو سجاتے وہاں جاتا تھا

 ملحدوں کا کمرہ


ایک بے نام سی وحشت کو سجاتے وہاں جاتا تھا

دوست گمنام طریقت کو اُٹھاتے وہاں جاتا تھا

ایک سے دو بجے روز تمحیصِ وجود ہستی

خام حیرت کے ستائے وہاں جاتا تھا

دوست کے پاس کتابیں تھیں

چہرے پہ خوشی رکھنا سینے میں الم رکھنا

 چہرے پہ خوشی رکھنا، سینے میں الم رکھنا

حالات ہوں جیسے بھی، آنکھیں نہیں نم رکھنا

یہ دنیا عجب سی ہے، سمجھے گی نہیں تجھ کو

باتوں میں نہ ہو بے شک، لہجے میں تو دم رکھنا

ہو کوئی سِتم ہم پر کرتے نہیں ہم شِکوہ

ہم کو تو عقیدت میں، سر اپنا ہے خم رکھنا

نزدیک سی شے سایۂ حائل سے بہت دور

 نزدیک سی شے سایۂ حائل سے بہت دور

منزل ہے شناسائی منزل سے بہت دور

دشوار سہی دور نہیں نکتہ رسی سے

لیکن ہے غلط رسمیٔ راحل سے بہت دور

یہ عین خودی عشق کے آثار میں ہے غم

پہلو سے ہے کم دور مقابل سے بہت دور

اک حق نما کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

 نذر جون ایلیا


اک حق نما کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

''میں تو خدا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو''

تم تھے تو زندگی تھی ، مشاغل تھے، شوق تھا

اب میں 'قضا' کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

تھا ہی تھا جو تھا ہے کا نشاں دور تک نہیں

یعنی میں تھا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

حیرت ہے دل کی تختی پر

 حیرت ہے

دل کی تختی پر

آنکھوں کے صحرا میں

ٹپ ٹپ گرتے خوابوں پر

کائنات میں بدلنے والے

لمحہ لمحہ مناظر پر نیلے سمندر میں بارش کی رم جھم پر

لطیف ایسی کچھ اس دل کی شیشہ کاری تھی

 لطیف ایسی کچھ اس دل کی شیشہ کاری تھی

کہ ایک رات بھی ہم اہل دل پہ بھاری تھی

ہزار معرکے سر کر کے لوگ ہار گئے

حسین ابن علیؑ! فتح تو تمہاری تھی

اسی کے سائے میں سستائے اس کے بیری بھی

اس آدمی میں درختوں سی بُردباری تھی

دکھ اپنا چھپانے میں ذرا وقت لگے گا

 دکھ اپنا چھپانے میں ذرا وقت لگے گا 

اب اس کو بھلانے میں ذرا وقت لگے گا 

تو نے جو پکارا تو پلٹ آؤں گی واپس 

ہاں لوٹ کے آنے میں ذرا وقت لگے گا 

لکھا تھا بڑے چاؤ سے جس نام کو دل پر 

وہ نام مٹانے میں ذرا وقت لگے گا 

عید ملنے کا اک بہانہ ہوا

 عید ملنے کا اک بہانہ ہوا 

کاٹ کر جیب وہ روانہ ہوا 

لیڈری میں بھلا ہوا ان کا 

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا 

ایک مینڈھے پہ ہی نہیں موقوف 

تجھ پہ قربان اک زمانہ ہوا 

Tuesday, 25 May 2021

جب چاہا اقرار کیا جب چاہا انکار کیا

 جب چاہا اقرار کیا،۔ جب چاہا انکار کیا

دیکھو ہم نے خود ہی سے کیسا انوکھا پیار کیا

ایسا انوکھا ایسا تیکھا جس کو کوئی سہہ نہ سکے

ہم سمجھے پتی پتی کو ہم نے ہی سرشار کیا

روپ انوکھے میرے ہیں اور روپ یہ تُو نے دیکھے ہیں

میں نے چاہا کر بھی دکھایا یا جنگل کو گلزار کیا

تو کسی راستے کا مسافر رہے تیری ایک ایک ٹھوکر اٹھا لاؤں گی

 تُو کسی راستے کا مسافر رہے تیری ایک ایک ٹھوکر اٹھا لاؤں گی

اپنی بے چین پلکوں سے چن چن کے میں تیرے رستے کے پتھر اٹھا لاؤں گی

میں ورق پیار کا موڑ سکتی نہیں، زندگی! میں تجھے چھوڑ سکتی نہیں

تُو اگر میرے گھر تک نہیں آئے گا میں تیرے پاس ہی گھر اٹھا لاؤں گی

آنسوؤں کا یہ موسم چلا جائے گا، میرے لب پر تبسم بھی آ جائے گا

مجھ کو دل کی زمیں سے تم آواز دو آسماں اپنے سر پہ اٹھا لاؤں گی

سہہ لیا آستیں میں لگتی ہوئی گھات کا دکھ

 سہہ لیا آستیں میں لگتی ہوئی گھات کا دُکھ

کیسے سہہ لیں مگر اس طرح ملی مات کا دکھ

جو بھی صحراؤں میں رہتے ہیں وہی جانتے ہیں

کس طرح توڑ کے رکھ دیتا ہے برسات کا دکھ

بوجھ اک دائمی فرقت کا لیے سینے پر

جھٹپٹے نے بھی سہا ساتھ میں دن رات کا دکھ

کوئی پنچھی اڑان میں بھی نہیں

 کوئی پنچھی اُڑان میں بھی نہیں

تیر اس کی کمان میں بھی نہیں

ضبط کرنے کی خُو نہیں اس میں

حوصلہ اس کے مان میں بھی نہیں

دھوپ اتنی ہے غم کے صحرا میں

سایہ اس سائبان میں بھی نہیں

دشت کو اس کی رہ بھٹکانا ٹھیک نہیں

 دشت کو اس کی رہ بھٹکانا ٹھیک نہیں

وحشت کا یوں آنا جانا ٹھیک نہیں

وہ جو تیری یاد میں دھڑکے اور جئے

ایسے دل سے واپس آنا ٹھیک نہیں

بارِ نشاط سے اس دل کو مر جانے دو

رو رو کر یوں جی بہلانا ٹھیک نہیں

مدام لے کے مجھے حلقہ وار ناچتی ہے

 مدام لے کے مجھے حلقہ وار ناچتی ہے

جدھر چلوں نگہِ طرحدار ناچتی ہے

ملا ہے وعدۂ فردا بجائے نقد وصال

ہماری روح کو دیکھو اُدھار ناچتی ہے

یہ کس نظر نے طلسمِ خزاں کو کاٹ دیا

پلک جھپکتے میں ہر سُو بہار ناچتی ہے

خدائے ہر دو جہاں نے جب آدمی کو پہلے پہل سزا دی

 پچھتاوا


خدائے ہر دو جہاں نے جب آدمی کو پہلے پہل سزا دی

بہشت سے جب اسے نکالا

تو اس کو بخشا گیا یہ ساتھی

یہ ایسا ساتھی ہے جو ہمیشہ ہی آدمی کے قریں رہا ہے

تمام ادوار چھان ڈالو

تیری ڈگر کو میں اپنی نظر میں رکھتی ہوں

 تیری ڈگر کو، میں اپنی نظر میں رکھتی ہوں

ہزار پھول تیری راہ گزر میں رکھتی ہوں

میں تیری یاد کو آنچل میں باندھ لائی ہوں

تِرے خیال کو زادِ سفر میں رکھتی ہوں

تُو ایک پل بھی جدا مجھ سے ہو نہیں سکتا

میں تیری یاد کو شام و سحر میں رکھتی ہوں

نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے

 خوف 


نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے

خواب دیکھا تو پھر

آس لگ جائے گی

آس ٹوٹی تو آنکھوں میں

چُبھتی ہوئی کرچیاں

مائیں مر کر بھی جاگتی ہیں

 افق کے پار جانے والے آنسو


سفید آنچل کے ایک کونے میں

میرے آنسو سنبھال کر اس طرح وہ بولی

نہ ایسے رونا

اے میرے بچے

یہ زندگی، نام ہے دُکھوں کا

صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ سخن چیختا ہے

 صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ سخن چیختا ہے

میں ہوں کشمیر، مِرا سارا بدن چیختا ہے

چیختا ہوں کہ مِری چیخ سنی جائے کہیں

میں اگر چیخ نہ پاؤں تو کفن چیختا ہے

ایسی جنت کہ رواں جس میں ہیں خوں کی نہریں

باغباں چیختے ہیں، سارا چمن چیختا ہے

اپنی وحشت کے نئے زخم چھپاؤں کیسے

اپنی وحشت کے نئے زخم چھپاؤں کیسے

میں تِری یاد کی دیوار گراؤں کیسے

شہر دل میں ہے وہی آج بھی چپ کا عالم

در و دیوار صداؤں سے سجاؤں کیسے

گنبدِ فکر میں آوازیں ہی آوازیں ہیں

میں ہر آواز کی تصویر بناؤں کیسے

اشک ہیں اور نالہ ہے مرے ساتھ

 اشک ہیں اور نالہ ہے مِرے ساتھ

جانے کیا ہونے والا ہے مرے ساتھ

میں محمدﷺ کا نام لے لوں گا

بس یہی اک حوالہ ہے مرے ساتھ

پیاس دریا طلب کرے، لیکن

ایک خالی پیالہ ہے مرے ساتھ

آ شکستہ قصر کی تعمیر کر

 آ، شکستہ قصر کی تعمیر کر

مجھ سے ملنے میں نہ اب تاخیر کر

ان اندھیروں میں بہت دن رہ چکے

اب تو ہم کو شاملِ تنویر کر

تیری پوریں ہیں مصور کی طرح

عکسِ قلب و ذہن کو تصویر کر

وہی اک تصور جاناں کہیں وہی اک جزیرہ خیال کا

 شاعر


وہی اک تصور جاناں کہیں

وہی اک جزیرہ خیال کا

وہی پانیوں پہ ہر ایک سمت ہے برف سی

وہی بے بسی ہے نہاں کہیں

کوئی جسم ہو جو عیاں کرے

تو نے جب بھی آنکھ ملائی

 تُو نے جب بھی آنکھ ملائی

دیدہ و دل پر آفت آئی

یہ سناٹا یہ تنہائی

لیکن تیری یاد تو آئی

دیر و حرم میں جا بیٹھے ہیں

دُنیا جن کو راس نہ آئی

خلقت بہت تهی صاحب اسرار کون تها

 خلقت بہت تهی صاحب اسرار کون تها

آنکھیں بہت تھیں دیدۂ بیدار کون تھا

اس قافلے کا قافلہ سالار کون تھا

سردار کون یعنی سرِ دار کون تها

تم کو ہے کد کہ صاحب دستار کون تها

ہم کو یہ ضد کہ یار طرحدار کون تها

غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا

 غیروں کا تو کہنا کیا محرم سے نہیں کہتا

میں عالمِ غم اپنا عالم سے نہیں کہتا

پڑھ لیتی ہیں کیفیت کچھ تڑپی ہوئی نظریں

دکھ اپنے میں ہر چشم پر نم سے نہیں کہتا

رہگیر ہوں میں ایسا ہر غم سے گزرتا ہے

دعوت پہ جو رندانِ خرم سے نہیں کہتا

احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا

 احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا

جانے کے لیے یار جگہ دی ہے چلا جا

اے قیس نما شخص یہاں کچھ نہیں تیرا

تجھ نام کی صحرا میں منادی ہے چلا جا

دنیا تو چلو غیر تھی شکوہ نہیں اس سے

تُو نے بھی تو اوقات دکھا دی ہے چلا جا

اس جہاں پہ حال دل آشکار کرنا ہے

 اس جہاں پہ حال دل آشکار کرنا ہے 

آج ایک حاسد کو رازدار کرنا ہے 

کرنے ہیں گلے اس سے رنجشیں بھی رکھنی ہیں 

پیار بھی ستم گر کو بے شمار کرنا ہے 

موسم یقیں میں جو بد گمان رہتا ہے 

اس سے پیار کا رشتہ استوار کرنا ہے

تری حدود میں ہیں تیرے اختیار میں ہیں

 تری حدود میں ہیں تیرے اختیار میں ہیں

نگاہِ دہر سے پنہاں نگاہِ یار میں ہیں

ہمارے جسم پرانے ہوئے ہیں غربت سے

ہمارے نقش بھی بکھرے ہوئے غبار میں ہیں

کہاں کی عید کہاں آرزوئے جشنِ طرب

ہم اہلِ درد محرم کے انتظار میں ہیں

یہ کیا کہ جب قیام کیا تو سفر کھلا

 یہ کیا کہ جب قیام کیا تو سفر کُھلا

یہ کیا کہ بے گھری کُھلی مجھ پر نہ گھر کُھلا

دیکھا نہیں ہے دیکھنے والا جو پہلو تھا

منظر کی خیر ہے، تِرا زعمِ نظر کھلا

ہو رازِ ہست و نیست کہ رازِ کُن فکاں

کتنا کھلا ہو گا کسی پر، یہ اگر کھلا

ہم خاک بسر گرد سفر ڈھونڈ رہے ہیں

 ہم خاک بسر گردِ سفر ڈھونڈ رہے ہیں

اور لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر ڈھونڈ رہے ہیں

دیوانوں کے مانند مِرے شہر کے سب لوگ

دستار کے قابل کوئی سر ڈھونڈ رہے ہیں

اب شام ہے تو شہر میں گاؤں کے پرندے

رہنے کے لیے کوئی شجر ڈھونڈ رہے ہیں

عجب رنگ کی مے پرستی رہی

 عجب رنگ کی مے پرستی رہی

کہ بے مے پیے مے کی مستی رہی

بکھرتے رہے گیسوئے عنبریں

صبا ان سے مل مل کے بستی رہی

رہا دور میں ساغر نرگسی

مِری مے ان آنکھوں کی مستی رہی

خیر سے آپ جو جذبات میں آئے ہوئے ہیں

 خیر سے آپ جو جذبات میں آئے ہوئے ہیں

ہم بھی ایسے ہی تھے، اوقات میں آئے ہوئے ہیں

خرچ کیجے مگر، اصراف مناسب تو نہیں

مان لیتے ہیں کہ خیرات میں آئے ہوئے ہیں

آ کسی روز اسے تھوڑی نصیحت کر جا

وسوسے کچھ دلِ کم ذات میں آئے ہوئے ہیں

اشک بن کر وہ سر چشم حزیں رہتا ہے

 اشک بن کر وہ سر چشم حزیں رہتا ہے

جو تہہ دل سے نکلتا ہے یہیں رہتا ہے

بسترِ خاک پہ سوتے ہیں زمیں زاد تِرے

اور اک خواب سرِ عرشِ بریں رہتا ہے

اب ہوا کہتی ہے اس در پہ یہ دستک دے کر

اے مکاں! بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے

بس ذرا اندر کے شک سے دور ہے

 بس ذرا اندر کے شک سے دُور ہے

عرش کب دل کی سڑک سے دور ہے

ساتھ رہ کر بھی ہیں اتنے دور ہم

یہ زمیں جتنی فلک سے دور ہے

وہ گرانی ہے کہ اب امید بھی

کوششِ نان و نمک سے دور ہے

میں خطاکار ہونے والا تھا

 میں خطاکار ہونے والا تھا

مجھ سے انکار ہونے والا تھا

کن کی آواز آ گئی اس کو

جسم بے کار ہونے والا

خود کو آواز دے کے روک لیا

ورنہ دیوار ہونے والا تھا

دل دیوانہ کہ بھولے ہی سے گھر رہتا ہے

 دل دیوانہ کہ بھولے ہی سے گھر رہتا ہے

ذکر کیوں اس کا مگر شام و سحر رہتا ہے

سینچتے رہیے اسے خون جگر سے اکثر

بے ثمر ورنہ تمنا کا شجر رہتا ہے

بستر شب پہ تڑپتے ہی گزر جائے مگر

دستِ امید میں دامان سحر رہتا ہے

اس کی خواہش اسی طرح سے ہے

 اس کی خواہش اسی طرح سے ہے

مجھے یہ لت اسی طرح سے ہے

ہاتھ آتا نہیں تھا جو کسی طور

اب میسر کئی طرح سے ہے

اس کی یلغار سے بچیں کیسے

حُسن وہ لشکری طرح سے ہے

اب خود سے بھی بچنے کی میں تدبیر کروں گا

 اب خود سے بھی بچنے کی میں تدبیر کروں گا

ڈر یہ ہے کہ اس بار بھی تاخیر کروں گا

لکھوں گا تِرے جانے سے شاداب ہوا میں

اور تیرا پلٹ آنا بھی تحریر کروں گا

آسان نہیں اپنی طرف لوٹ کے آنا

دنیا! میں بہر طور یہ تدبیر کروں گا

وقت در وقت یہی اندیشہ ہے

 اندیشہ


وقت در وقت یہی اندیشہ ہے

زندگی میں کب کہاں آخری سویرا ہے

فعل حال، ماضی اور مستقبل

انہی سبھی نے زندگی کو گھیرا ہے

شمع جس کے سر پر آگ دہکتی ہے

خدا مری نظم کیوں پڑھے گا

 خدا مِری نظم کیوں پڑھے گا


میں اپنی تخلیق کا شجر ہوں

شجر، جو مجھ سے قدیم تر ہے

عظیم تر ہے

یہ وہ نہیں ہے

بہار کی سبز رو ہوائیں

دوستوں کی جفا کے مارے لوگ

دوستوں کی جفا کے مارے لوگ

بولتے کیا انا کے مارے لوگ

آپ تو بے وفائی کا ہیں شکار

اور ہم ہیں وفا کے مارے لوگ

بچ نہیں پاتے ماں کے نا فرمان

باپ کی بد دُعا کے مارے لوگ

اک ویران گلی کے موڑ پہ کالا مندر پیلا گھر

 اک ویران گلی کے موڑ پہ کالا مندر، پیلا گھر

باہر اندر سناٹا ہے، اندر باہر پیلا گھر

خواب نگر سے چلتے چلتے میں کس در پر آ پہنچی

رنگ برنگے دروازے ہیں نیچے اوپر، پیلا گھر

سرد ہوا کی رہداری میں سوکھے پتے اڑتی دُھول

گیٹ کے اندر ویرانی ہے اور بھی اندر پیلا گھر

ضرور سب کو بھلا سوگوار کرنا ہے

 ضرور سب کو بھلا سوگوار کرنا ہے

کہ داستاں کا یہیں اختصار کرنا ہے

تو میرا دوست بھی ہے میرا اک سفینہ بھی

یہ راستہ ہمیں ایک ساتھ پار کرنا ہے

یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے جا کے ساحل پر

کسے اتارنا، کس کو سوار کرنا ہے

کاغذی تھیں جلا کے رکھ دی ہیں

 کاغذی تھیں جلا کے رکھ دی ہیں

ساری چڑیاں اُڑا کے رکھ دی ہیں

تجھ کو اب دل سے دیکھنا ہے مجھے

اپنی آنکھیں بجھا کے رکھ دی ہیں

اب وہ مقصودِ آرزو نہ رہا

خواہشیں سب دبا کے رکھ دی ہیں

فائدہ کیا حسرت بے رنگ کی تکمیل سے

 فائدہ کیا حسرتِ بے رنگ کی تکمیل سے

اس لیے نکلے نہیں ہم شوق کی تحویل سے

وہ سرِ محفل بڑھاتے جا رہے ہیں گفتگو

میں مگر کترا رہا ہوں بات کی تفصیل سے

وحشت و واماندگی بھی اب نہیں ہے جسم میں

اور میں آزاد ہوں ہر خواب کی تاویل سے